Sunday, 7 June 2015

وصیت اور تقسیمِ میراث کی اہمیت وفضیلت

ورثاء کی حق تلفی کا انجام»
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(1)میراث اس کے حقدار تک پہنچادو۔
[صحیح بخاری:6732]
(2)جو شخص بھاگے گا وارث کو میراث دلانے سے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کی میراث نہ دے گا۔
[سنن ابن ماجہ:2703]
جو محروم کرے گا وارث کو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصہ سے، تو محروم کرے گا اللہ اسے اس کے جنت کے حصہ سے۔
[سنن سعید بن منصور:285]

القرآن:
اور قریب بھی نہ جاؤ یتیم کے مال کے۔۔۔
[الانعام:152 الاسراء:34]
وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں
[النساء:10]


اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کسی بھی مسلمان کا کوئی مال اس کی خوشدلی کے بغیر(دوسرے کیلئے)حلال نہیں۔
[بیھقی:11877]

القرآن:
اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقہ سے مت کھاؤ۔
[سورۃ البقرہ:188، النساء:29]



خلاصۂ تقسیمِ میراث:
مرحوم کے موجودہ ترکے میں سے سب سے پہلے تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، میت کے ذمے قرض ہوں تو ان کی ادائیگی کے بعد، مرحوم نے کوئی وصیت کی ہو تو کل مال کے تہائی حصہ میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد

کل ترکہ میں سے 50۔12فیصد بیوہ کو،  29۔7 فیصد ہر ایک بیٹی کو، اور 58۔14 فیصد ہر ایک  بیٹے کو ملے گا۔

2،3: جب تمام ورثا کی رضامندی یا خاموشی تھی تو تقسیم میراث سے پہلے تک ترکے سے حاصل شدہ منافع پر کسی پر کسی قسم کا کوئی معاوضہ یا تاوان لازم نہیں ہوگا۔ 

4: جو کچھ دو بھائیوں نے دکان میں محنت کی وہ سب ان کی طرف سے ایک کارخیر ہوگا، جس پر آخرت میں ان کو اجر ملے گا، دنیا میں اس محنت پر کسی مادی مطالبے کا حق کسی کو نہیں ہوگا۔

5:  مشترکہ مال کی جو مقدار زکوۃ سائل نے مرحوم کے ترکے پر نکالی، اور اس کا علم تمام ورثا کو تھا،  تو وہ زکوۃ سب کی طرف سے اداشدہ شمار ہوگی۔
 تقسیمِ میراث اور اصلاحِ رسوم
       زمانہ جاہلیت میں لوگ جس طرح کفر وشرک میں مبتلا تھے، طرح طرح کی ظالمانہ رسمیں رائج تھیں، غلاموں پر بے جاتشدد کرنا، لڑکیوں کو زندہ در گورکرنا،یتیموں اور بیواؤں کامال ہڑپ کرجانا،اورعورتوں کو ان کے جائزحقوق سے بھی محروم کرناعام تھا،اسی طرح اس وقت آج کے تہذیب یافتہ دور کی طرح یہ بھی رائج تھا کہ مرنے والے کا مال صرف اور صرف وہ مرد لیتے تھے جو جنگ کے قابل ہوں،باقی ورثا ،یتیم بچے اور عورتیں،روتے اور چلاتے رہ جاتیں،ان کے طاقتورچچااوربھائی ان کی آنکھوں کے سامنے تمام مال ومتاع پرقبضہ جما لیا کرتے تھے۔
          حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں کفر و شرک کافور ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی ،اسی طرح یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکام نازل ہوئے،دنیائے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کے پاکیزہ معاشرت میں زندگی گزارنے لگی۔

 اسبابِ میراث
          زمانہٴ جاہلیت میں جن اسباب کی وجہ سے آدمی کو میراث ملتی تھی ،ان میں ایک سبب ”نسب“ تھا،دوسرا ”معاہدہ“ (یعنی ایک دوسرے سے خو شی وغم میں تعاون کرنا ،ایک مرے گا تو دوسرا اس کا وارث بنے گا،اس بات کا معاہدہ کیا جاتاتھا )تیسراسبب ”متبنّیٰ “(یعنی منہ بولا بیٹا) وارث بنتا تھا،اس کے علاوہ ابتدائے اسلام میں ان اسباب کے ساتھ ساتھ موٴاخات وہجرت کی وجہ سے بھی میراث میں حصہ تھا،جو حقیقت میں معاہدہ کی ایک صورت تھی ۔

 وصیت کا حکم
          اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم وعلیم ہے؛چونکہ اللہ تعالی اپنی مخلوق کے حالات سے پوری طرح واقف و باخبر ہے؛اس لیے اپنی حکمت وعلم کے پیش نظر زمانہٴ جاہلیت کی رسموں کی اصلاح کے سلسلے میں تدریجاًاحکام نازل فرمائے ،اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ حکم نازل فرمایا کہ ہر شخص موت سے پہلے اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے اپنی رائے سے مناسب وصیت کرے؛ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
          ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ انْ تَرَکَ خَیْرًا الوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرة:۱۸۰)
ترجمہ:تم پر یہ فرض کیا جاتا ہے کہ: جب کسی کو موت نزدیک معلوم ہونے لگے، بشرطیکہ کچھ مال بھی ترکہ میں چھوڑا ہوتو والدین اور اقارب کے لیے معقول طور پر کچھ کچھ بتلا جائے ۔
          حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمةاللہ علیہ بیان القرآن(۱:۱۱۵) میں اس آیت کی تفسیر میں رقمطرازہیں:
”شروع اسلام میں جب تک میراث کے حصے شرع سے مقررنہ ہوئے تھے، یہ حکم تھا کہ ترکہ کے ایک ثلث تک مردہ اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کو جتنا مناسب سمجھے بتلا جاوے ،اتناتو ان لوگوں کاحق تھا، باقی جو کچھ رہتاوہ سب اولاد کا حق ہوتا تھا،اس آیت میں یہ حکم (یعنی وصیت)․․․․
ا س حکم کے تین جزؤ تھے، ایک بجز اولاد کے دوسرے ورثہ کے حصص وحقوق ترکہ میں معین نہ ہونا،دوم ایسے اقارب کے لیے وصیت کا واجب ہونا ، تیسرے ثلث مال سے زیادہ وصیت کی اجازت نہ ہونا،پس پہلا جزؤ تو آیتِ میراث سے منسوخ ہے، دوسراجزؤحدیث سے جو کہ موٴید بالاجماع ہے منسوخ ہے ،اور وجوب کے ساتھ جواز بھی منسوخ ہو گیا،یعنی وارث شرعی کے لیے وصیت مالیہ باطل ہے، تیسرا جزوٴاب بھی باقی ہے ،ثلث سے زائد میں بدوں رضاورثہ بالغین کے وصیت باطل ہے“۔
           وصیت کے بارے میں حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
          ”مَا حقُّ امرِءٍ مسلمٍ لَہ شَيْءٌ یُوْصِیْ فِیْہِ یَبِیْتُ لَیْلَتَیْنِ الاَّ وَ وَصِیَّتُہ مَکْتُوْبَةٌ عِنْدَہ “ (صحیح بخاری،کتاب الوصایا، رقم الحدیث:۲۵۸۷)
ترجمہ:کسی بھی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو جس کی وصیت کرنا ہو تو اس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں کہ دو راتیں گذرجائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔
           حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
          ”مَنْ مَاتَ عَلٰی وَصِیَّتِہ مَاتَ عَلٰی سَبِیْلٍ وَسُنَّةٍ وَمَاتَ عَلٰی نُقیً وَشَہَادَةٍ وَمَاتَ مَغْفُوْرًا لَہ “(سنن ابن ماجہ،الحث علی الوصیة،رقم الحدیث:۲۷۰۱)
ترجمہ:جس شخص کو وصیت پر موت آئی (یعنی وصیت کر کے مرا) وہ صحیح راستہ اور سنت پر مرا،اور تقوی اور شہادت پر مرا،اور بخشا ہوا ہونے کی حالت میں مرا۔
حضرت ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْخَيْرِ سَبْعِينَ سَنَةً ، فَإِذَا أَوْصَى حَافَ فِي وَصِيَّتِهِ فَيُخْتَمُ لَهُ بِشَرِّ عَمَلِهِ فَيَدْخُلُ النَّارَ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّرِّ سَبْعِينَ سَنَةً فَيَعْدِلُ فِي وَصِيَّتِهِ فَيُخْتَمُ لَهُ بِخَيْرِ عَمَلِهِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ.
[سنن ابن ماجه » كِتَاب الْوَصَايَا » بَاب الْحَيْفِ فِي الْوَصِيَّةِ ... رقم الحديث: 2696]
آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں،

          وصیت کے حوالے سے بتدریج احکام نازل ہوئے ان پر عمل ہوتا گیا تو پھر میراث کے حوالے سے تدریجاًاحکام نازل ہونا شروع ہوئے،اس سلسلے میں سب سے پہلا حکم یہ نازل ہو ا کہ میرا ث جیسے مردوں کاحق ہے ،اسی طرح عورتوں کا بھی حق ہے؛چنانچہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی نازل ہوا:
          ﴿لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَفْرُوْضاً﴾(النساء:۷)
ترجمہ:
مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس(مال)میں جو ما ں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑجائے ،خواہ وہ چیز کم ہو یا زیادہ ،حصہ بھی ا یسا جو قطعی طور پر مقررہے۔
           اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر کچھ یوں ہے ،تفسیر قرطبی میں ہے کہ: حضرت اوس بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے پس ماندگان میں اہلیہ ام کُجّہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں،حضرت اوس بن ثابت کے چچازاد بھائی سوید اور عرفجہ جو ان کے وصی بھی تھے، انھوں نے سارامال خود لے لیا اور ام کجہ اور حضرت اوس رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کو جائیداد میں حصے سے محروم کر دیا،مظلومو ں کا ماوی اور ملجا حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کون تھا؟!،چنانچہ ام کجہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور سارا ماجرا عرض کیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مکان لوٹ جاؤ ،جب تک اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ نہ آئے تم صبر کرو، اس پراللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔
          اللہ تبارک وتعالی نے اجمالی طور سے اس آیت میں زمانہٴ جاہلیت کے اس عمل کی نفی فرمائی اور میراث میں عورتوں کا حصہ ہونے کا حکم بھی ارشاد فرمایاکہ میراث صرف مردوں کا حق نہیں؛بلکہ اس میں عورتوں کا بھی حق ہے، اس آیت کے نازل ہونے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سُوید اور عرفجہ کو حکم دیا کہ اللہ تعالی نے میراث میں عورتوں کا بھی حصہ مقرر فرمایاہے ؛ لہٰذا تم اوس بن ثابت کے مال کو بحفاظت رکھنا ،اس میں سے کچھ خرچ نہ کرنا۔
          تفسیر مظہری میں ہے کہ اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا اورعورتوں کا حصہ ابھی تفصیلی طور سے بیان نہیں کیا گیا تھا،دوسرا واقعہ پیش آیا، تین ھجری احد کی لڑائی میں جلیل القدر صحابی سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ،ان کی شہادت پر حسب دستور بھائیوں نے تمام مال و جائیداد پر قبضہ کر لیا اور ان کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو میراث سے محروم کر دیا،حضرت سعد کی اہلیہ نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں آکر واقعہ بیان کیا کہ سب مال ان کے چچا نے لیا ہے، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو بھی یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ صبر کرو عنقریب اللہ تعالی اس بارے میں کوئی فیصلہ فرمادیں گے۔



وصیت تحریر کر کے سوئیں:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلہ دیا کہ تم نے ارشاد فرمایا: جس کسی مسلمان کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی چیز ہو (یعنی کسی کا لینا دینا یا اس کے ذمے مالی حقوق ہوں) تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وصیت لکھ کر محفوظ کیے بغیر 2 راتیں بھی بسر کرے“
[صحيح مسلم: 1627, صحيح بخاري: 2738]

ہمیشہ وصیت تحریر کر کے محفوظ رکھنا اور بوقت ضرورت اس میں ترمیم کرنا رسول اللہ علیم کا خصوصی حکم ہے۔ وصیت لکھنا ایک ایسا محرک (Motive) ہے جو انسان کو ہر وقت موت اور آخرت کی یاد دلاتا رہتا ہے ، نیز وصیت لکھنے والے کو حقوق اللہ اور حقوق العباد یاد رہتے ہیں۔ درج ذیل چیزوں کی وصیت لکھنا واجب ہے:
1 کتنی نمازیں یاروزے اس کے ذمے ہیں؟
2. حج فرض ہو چکا ہے یا نہیں؟
3. گذشتہ کتنے سالوں کی زکواۃ یا صدقۃ الفطر اداء کرنا ہے؟
4 بیوی کا مہر اداء کر چکا ہے یا نہیں؟
5. اس پر کس کس کا اور کتنا قرض ہے ؟
6. کمپنی یا حکومت کے کتنے واجبات ہیں؟
7 قسطوں پر خریداری کی صورت میں کتنی قسطیں باقی ہیں؟
8. کوئی کرایہ اس کے ذمے میں تو نہیں؟
9. BC یا کمیٹی کی کتنی قسطیں اداء کرنی ہیں؟
10. کسی کی چیز یا حق ناجائز غصب کیا ہو تو واپس لوٹانے کی وصیت۔
11. کس کس کی امانتیں اس کے پاس ہیں ؟ وغیرہ
لہذا وصیت لکھنے کا معمول بنائیں اور اپنی وصیت پر 2 دیانتدار انسانوں کو گواہ بھی بنائیں ، موت کا کچھ بھروسہ نہیں، وصیت یہ سوچ کر لکھیں کہ اگر آج ہی میری وفات ہو گئی تو میرے اہل و عیال مجھ پر عائد شدہ مالی ذمہ داریاں وصیت دیکھ کر ترکہ (legacy) میں سے اداء کر سکیں تاکہ مالی ذمہ داریوں کا بوجھ روزِ محشر مجھے نہ اُٹھانا پڑے۔ اگر اہل و عیال مالدار ہوں تو کل ترکے کے تہائی حصے سے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنی وصیت مستحب ہے۔


اولاد کیلئے وصیت:
القرآن:
اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ: اے میرے بیٹو! الله نے یہ دین﴿حنیف-توحید﴾ تمہارے لیے منتخب فرما لیا ہے، لہذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میں آئے کہ تم مسلم ہو۔
[سورۃ البقرة:132]
۔۔۔لہٰذا نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھو(کہ)وہی تمہارا مولا(رکھوالا) ہے، دیکھو وہ کتنا اچھا رکھوالا اور کتنا اچھا مددگار ہے۔
[الحج:78]

وصیتِ رسول اللہ ﷺ:
نبی ﷺ نے (سب کو) اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی۔
[صحیح بخاری:2740]

اے بیٹے(انس)! قرآن(سمجھ کر) پڑھنے سے غافل نہ رہنا، کیونکہ قرآن(میں غور وفکر کرنا) دل کو زندہ کرتا ہے، بےحیائی اور برائی اور (اعلانیہ)نافرمانی سے روکتا ہے، (الله چاہے تو) قرآن کے ساتھ پہاڑ بھی چل پڑتے۔
اے بیٹے! موت کو کثرت سے یاد کیا کر،(حرام طریقہ سے)دنیا حاصل کرنے کا شوق نہ رہے گا اور آخرت(کی تیاری)میں دل لگ جاۓ گا۔ بےشک آخرت دائمی(بہتر)ٹھکانہ ہے اور دنیا دھوکہ کا گھر ہے اس کیلئے جو اس کےساتھ دھوکہ میں پڑجاۓ۔
[جامع الاحادیث:35981]



**************
 میراث کے تفصیلی احکام
          تفسیرقرطبی ،مظہری اور روح المعانی میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد اللہ تعالی نے عورتوں اورلڑکیوں کا حصہ بیان کرنے کے لیے اس آیت کو نازل فرمایا ﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ أوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ․․․․﴾(النساء:۱۱)
ترجمہ:اللہ تعالی تمہیں تمہاری اولاد کے بارے حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا۔
          اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے والدین کو صاف صراحتاًحکم دیا ہے کہ جس طرح میراث میں بیٹوں کاحق ہے اسی طرح بیٹیوں کابھی حق ہے ،اس آیت کے نازل ہو نے پر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد کے بھائی سے کہلوایا کہ اپنے بھائی کے مال میں سے دوثلث لڑکیوں کو اور آٹھواں حصہ ان کی بیوہ کو دو ،اور باقی مال تمہا را ہے ،اسلام کے قاعدئہ میراث کے مطابق سب سے پہلے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی میراث تقسیم ہوئی۔

زندگی میں مال وجائیداد کی تقسیم
          بعض حضرات اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد اولاد و اقربا میں تقسیم کر دیتے ہیں ،عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹوں کو حصہ دیاجاتا ہے اوربیٹیوں اور بیوی کو محروم کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض بیٹیوں کو حج کروانے کا لالچ دے کر حصہ سے محروم رکھتے ہیں ، ان لوگوں کو حالت صحت میں اگرچہ مال میں تصرف کامکمل اختیار ہے؛لیکن یاد رہے ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات اور اس روح ومقتضیٰ کے خلاف ہے ؛چنانچہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنوسلمہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے ،مجھ پر بے ہوشی طاری تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا ،وضو فرمایااور کچھ چھینٹیں مجھ پر مارا، مجھے کچھ افاقہ ہوا ،میں نے پوچھاکہ میں اپنی اولاد کے درمیان اپنا مال کیسے تقسیم کروں ؟اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ”یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِی أوْلَادِکُمْ․․․․․الخ“(صحیح بخاری ،کتاب الجمعہ ،رقم:۴۵۷۷،صحیح مسلم،کتاب الفرائض، باب: میراث الکلالة، رقم:۴۲۳۱، سنن ترمذی ، کتاب الفرائض،باب:میراث البنین مع البنات ،رقم:۲۰۹۶)
          اس آیت میں والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی مال میں سے حصہ دو۔ مشکوٰة شریف کی ایک صحیح حدیث میں واردہوا ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعتِ خد اوندی میں مشغول رہتے ہیں؛ لیکن موت کے وقت وارثوں کو ضر رپہنچاتے ہیں یعنی کسی شرعی عذر اور وجہ کے بغیر کسی حیلے سے یا تو حق داروں کا حصہ کم کر دیتے ہیں،یا مکمل حصے سے محروم کر دیتے ہیں ،ایسے شخص کواللہ تعالی سیدھے جہنم میں پہنچا دیتا ہے ۔
          قارئین کرام !غورفرمائیں !میراث کے بارے میں اللہ کے ایک حکم کے سلسلے میں حیلے بہانوں سے کام لینے والوں کی تمام عمر کی عبادتیں ،نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰة، تبلیغ اور دیگر اعما ل ضائع ہونے کاقوی اندیشہ ہوتاہے؛بلکہ ایسے شخص کے بارے میں جہنم کی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے،سنن سعید بن منصور کی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ان الفاظ میں مروی ہے :”مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثاً فَرَضَہ اللّٰہُ قَطَعَ اللّٰہُ مِیْرَاثَہ مِنَ الْجَنَّةِ“(رقم:۲۵۸) یعنی جو شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ میراث کو ختم کردیتا ہے، اللہ تعالی جنت سے اس کی میراث ختم کردیتے ہیں۔

عورتوں کے حصوں کے بیان کرنے میں قرآن کا اسلوب
          معززقارئین ! آپ اللہ تعالی کے اس ارشادمیں غور فرمائیں ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ“ یعنی لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابرحصہ ملے گا،اللہ تبارک وتعالی نے:” لِلْأنْثَیَیْنِ مِثْلُ حَظِّ الذَّکَرْ“ نہیں فرمایا کہ دو لڑکیوں کو ایک لڑکے جتنا حصہ ملے گا،علامہ آلوسی  نے روح المعانی میں لکھاہے کہ اللہ تعالی نے للذکر مثل حظ الانثیین فرمایا ،اس کی وجہ یہ ہے اہل عرب صرف لڑکوں کو حصہ دیا کرتے تھے،لڑکیوں کو نہیں دیتے تھے،ان کی اس عادت سیئہ پر رد اور لڑکیوں کے معاملے میں اہتمام کے لیے فرمایا کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابرحصہ ملے گا،گویا یہ فرمایا کہ صرف لڑکوں کو حصہ دیتے ہو ،ہم نے ان کاحصہ دگنا کر دیا ہے لڑکیوں کے مقابلے میں؛لیکن لڑکیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا،ان کو میراث سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
          امام قرطبی رحمة اللہ علیہ” احکام ا لقرآن“ میں اس آیت کے بارے فرماتے ہیں : ہٰذِہِ الآیَةُ رُکْنٌ مِنْ أرْکَانِ الدِّیْنِ وَعُمْدَةٌ مِنْ عُمْدِ الدِّیْنِ وَاُمٌّ مِنْ اُمَّہَاتِ الْآیَاتِ، فَانَّ الْفَرَائِضَ عَظِیْمَةُ الْقَدْرِ، حَتّٰی أنَّہَا ثُلُثُ الْعِلْمِ“یہ آیت (یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ)ارکان دین میں سے ہے اور دین کے اہم ستونوں میں سے ہے اور امہات آیات میں سے ہے؛ اس لیے کہ فرائض(میراث)کا بہت عظیم مرتبہ ہے ،یہاں تک کہ یہ ثلث علم ہے۔
          اس آیت کریمہ میں میراث کے احکام بیان فرمانے کے بعد، اس کے اخیر میں اللہ تعالی نے یہ ارشاد فرمایا ﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ﴾ یہ میراث کے احکام اللہ تعالی کے بیان کردہ حدود ہیں، ان حدود پر عمل کرنے والوں کے لیے بطور انعام وجزا کے فرمایا :﴿مَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾
          ترجمہ:جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالی اسے ایسی جنت میں داخل فرمائیں گے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ،اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔
          میراث کے سلسلے میں اللہ کے بیان کردہ احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے آگ اور ذلّت کاعذاب ہوگا ،ارشاد ربانی ہے :﴿وَمَنْ یَعْضِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہ عَذَابٌ مُہِیْنٌ﴾
          ترجمہ:جواللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتاہے، اللہ اس کو آگ میں داخل کردیں گے؛ جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لیے ذلت آمیز عذاب ہو گا۔

 جاہلانہ طرزِ عمل
          بیٹوں کو حصہ دے کر بیٹیوں کومحروم کرنا،یا بھائی اور چچا وغیرہ کا خود لے کر عورتو ں کو محروم کرنا،یہ زمانہٴ جاہلیت کے کفار کاطرزعمل ہے ، حضرت مولاناسید اصغر حسین صاحب رحمة اللہ علیہ محدِّث دارالعلوم دیو بندنے ”مفید الوارثین “ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالی کے واضح اور صریح حکم کو پسِ پشت ڈا ل کر ایک کافرانہ رسم پر عمل کرنا کوئی معمولی خطانہیں ہے ،نہایت سرکشی اور اعلی درجے کاجرم ہے؛بلکہ کفر تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے ۔
          یاد رہے کہ میراث کا علم شریعت میں نہ صرف مطلوب ہے ؛بلکہ اس کی بہت زیادہ اہمیت بھی ہے ،حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نصف علم قرار دیا ہے ،دارقطنی میں حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تَعَلَّمُوْا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوْہُ النَّاسَ، فَاِنَّہ نِصْفُ الْعِلْمِ، وَہُوَ اَوَّلُ شَيْءٍ یُنْسٰی وَہُوَ اَوَّلُ شَيْءٍ یُنْتَزَعُ مِنْ أُمَّتِیْ “(کتاب الفرائض رقم:۱)
          ترجمہ:اے لوگو!فرائض(میراث)کے مسائل سیکھو، اور اِسے لوگوں کو سکھاؤ بے شک وہ نصف علم ہے اور وہ سب سے پہلے بھلا یا جائے گااور وہ سب سے پہلے میری امت سے اٹھایا جائے گا۔
          بہت سارے دین دار کہلانے والے لوگ جو نماز ،روزہ اور دیگر اسلامی احکام کے پابند تو ہوتے ہیں،ان کو ادھر اُدھر بہت ساری باتیں، قصے، کہانیاں تو یاد رہتی ہیں؛ لیکن میراث کا کوئی ایک مسئلہ بھی ان کو معلوم نہیں ،یہ انتہائی درجہ غفلت کی بات ہے ،اللہ تعالی ہم سب کو اس غفلت سے محفوظ رکھے ۔

 ورثاء کے لیے مال چھوڑنا
           اپنی اولاد اور ورثاء کے لیے مال چھوڑنابھی ثواب کاکام ہے ،امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل کیاہے کہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتحِمکہ والے سال ایسا بیما ر ہو ا کہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا ابھی موت آنے والی ہے ،حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے ،تو میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس بہت سامال ہے ،میری صرف ایک ہی بیٹی کو میراث کاحصہ پہنچتا ہے ،تو کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ،میں نے عرض کیا : آدھے مال کی وصیت کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نہیں ،میں نے عرض کیا:تہائی ما ل کی وصیت کردوں ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تہا ئی کی وصیت کر سکتے ہو اور تہائی بھی بہت ہے ،پھر فرمایا :”انْ تَدَعْ وَرَثَتَکَ أغْنِیَاءً، خَیْراً مِنْ أنْ تَدَعَہُمْ عَالةً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ فِیْ أیْدِیْہِمْ“ تم اپنے ورثاء کومال داری کی حالت میں چھوڑ جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں تنگدستی کی حالت میں چھوڑدو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں(صحیح بخاری،کتاب الجمعہ، رقم:۲۷۴۲)۔
          آخر میں ایک دفعہ مکرّر یہ گزارش ہے کہ یتیموں،عورتوں،اور بیٹیوں کو میراث اور جائیداد میں حصے سے محروم کرنابہت بڑا جرم ہے اور گناہ ہے ،قانون خداوندی سے بغاوت کے مترادف ہے ،اس بارے میں کسی قسم کے حیلوں اور بہانوں کا سہارا نہ لیا جائے؛بلکہ جوشرعی حصہ داروں کا حق بنتا ہے، وہ ان کے سپرد کر دیا جائے ،ہاں! اگر اپنے حصہ پر قبضہ کرنے کے بعدوہ اپنی رضا ورغبت سے کچھ ،یا سارا کسی کو دینا چاہے تو اس کے لیے لینا جائز ہو گا۔
          اللہ تعالی سے دعا ہے کہ: ہمیں پورے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور میراث کے حوالے سے پائی جانے والی غفلتو ں کے ازالے کی ہمت عطا فرمائے ،امت مسلمہ کی تمام پریشانیوں اور مشکلات کو آسانیوں اور عافیت میں بدل دے۔ آمین






اسلام میں وصیت کا قانون



وصیت کیا ہے
وصیت میت کے اس حکم کو کہتے ہیں جس پر موت کے بعد عمل کیاجاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص انتقال کے وقت یہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائداد میں سے اتنا مال یا اتنی زمین فلاں شخص یا فلاں دینی ادارہ یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ کو دے دی جائے تو یہ وصیت کہلاتی ہے۔ وصیت کو دو گواہوں کی موجودگی میں تحریر کرنا چاہیے تاکہ بعد میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ میں وصیت کا قانون بنایا گیا ہے؛ تاکہ قانون میراث کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں حصہ نہیں پہنچ رہا ہے اور وہ مدد کے مستحق ہیں، مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت زدہ ہے یا کوئی بھائی یا بہن یا کوئی دوسرا عزیز سہارے کا محتاج ہے تو وصیت کے ذریعہ اس شخص کی مدد کی جائے۔ وصیت کرنا اور نہ کرنا دونوں اگرچہ جائز ہیں لیکن بعض اوقات میں وصیت کرنا افضل وبہتر ہے۔ ایک تہائی جائیداد میں وصیت کا نافذ کرنا وارثوں پر واجب ہے، یعنی مثلاً اگر کسی شخص کے کفن دفن کے اخراجات، دیگر واجبی حقوق اور قرض کی ادائیگی کے بعد ۹ لاکھ روپے کی جائیداد بچتی ہے تو ۳ لاکھ تک وصیت نافذ کرنا وارثین کے لیے ضروری ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کرنے اور نہ کرنے میں وارثین کو اختیار ہے۔کسی وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کے لیے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت سے محروم رکھے گا (کچھ عرصہ کے لیے)۔ (ابن ماجہ وبیہقی) انتقال کے بعد ترکہ (جائداد یا رقم) کی تقسیم صرف اور صرف وراثت کے قانون کے اعتبار سے ہوگی۔ 
ابتداء اسلام میں جب تک میراث کے حصے مقرر نہیں ہوئے تھے، ہر شخص پر لازم تھا کہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کرے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کا حق مارا جائے۔ لیکن جب بعد میں تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود اصول وضوابط بنادئے جن کا ذکر سورةا لنساء میں ہے تو پھر وصیت کا وجوب ختم ہوگیا، البتہ دو بنیادی شرائط کے ساتھ اس کا استحباب باقی رہا۔ ۱) جو شخص وراثت میں متعین حصہ پارہا ہے اس کے لیے وصیت نہیں کی جاسکتی ہے، مثلاً ماں، باپ، بیوی، شوہر اور اولاد۔ جیساکہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہٴ کرام کے مجمع کے سامنے ارشاد فرمایا: ” اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کا حصہ مقرر کردیا ہے، لہٰذا اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔“ (ترمذی۔ باب ما جاء لا وصیة لوارث) حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے کہ میراث نے ان لوگوں کی وصیت کو منسوخ کردیا جن کا میراث میں حصہ مقرر ہے، دوسرے رشتہ دار جن کا میراث میں حصہ نہیں ہے، اُن کے لیے حکم وصیت اب بھی باقی ہے۔) وصیت کا نفاذ زیادہ سے زیادہ ترکہ کے ایک تہائی حصہ پر نافذ ہوسکتا ہے الا یہ کہ تمام ورثاء پوری وصیت کے نفاذ پر راضی ہوں۔
 امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جن رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، اب ان کے لیے بھی وصیت کرنا فرض ولازم نہیں ہے،کیونکہ فرضیت وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ (تفسیر جصاص، تفسیر قرطبی) یعنی بشرطِ ضرورت وصیت کرنا مستحب ہے۔ 
وصیت کی مشروعیت قرآن کریم سے
(۱) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑکر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آجائے، وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔ یہ متقی لوگوں کے ذمہ ایک لازمی حق ہے۔۔۔ پھر جو شخص اس وصیت کو سننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا، تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جو اس میں تبدیلی کریں گے۔ یقین رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔۔۔ ہاں اگر کسی شخص کو یہ اندیشہ ہوکہ کوئی وصیت کرنے والا بے جا طرف داری یا گناہ کا ارتکاب کررہا ہے اور وہ متعلقہ آدمیوں کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (سورة البقرہ ۱۸۰ ۔ ۱۸۲) وصیت کا لازم اورفرض ہونا ، یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جب کہ وراثت کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وصیت کا حکم بتدریج نازل فرمایا۔ غرضے کہ مذکورہ بالا آیت میں وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے؛ البتہ استحباب باقی ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ نے سورة النساء میں جہاں وارثوں کے متعین حصے ذکر فرمائے ہیں، متعدد مرتبہ اس قانون کو ذکر فرمایا: ”یہ ساری تقسیم اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہے، یا اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد“۔ سورة النساء میں متعدد مرتبہ وصیت کے ذکر سے وصیت کی مشروعیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ 
(۳) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”اے ایمان والو! جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کے لیے گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں) یا اگر تم زمین میں سفر کررہے ہو، اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں (یعنی غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہوجائیں۔“ (سورة المائدہ ۱۰۶) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضر کے ساتھ سفر میں بھی وصیت کی جاسکتی ہے اوروصیت کرتے وقت دو امانت دار شخص کو گواہ بھی بنالیا کرو؛ تاکہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔
وصیت کی مشروعیت حدیث نبوی سے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی چیز ہو، درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کئے بغیر گزاردے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الوصیہ) (صحیح مسلم ۔ کتاب الوصایا ۔ باب الوصایا) قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء نے کہا ہے کہ اس سے مرادایسا شخص ہے جس کے ذمہ قرضہ ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو یا اس کے ذمہ کوئی واجب ہو جسے وہ خود ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے وصیت میں یہ تفصیل لکھ کر رکھنا ضروری ہے، عام آدمی کے لیے وصیت لکھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔ 
وصیت کی مشروعیت اجماع امت سے
قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا وصیت کے جواز پر اجماع ہے ، جیسا کہ علامہ ابن قدامہ نے اپنی مشہور کتاب (المغنی ج ۸ ۔ ص ۳۹۰) میں وصیت کے جواز پر اجماع امت کا ذکر کیا ہے۔
وصیت کی حکمتیں
وصیت کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے انتقال کے بعد وراثت قرابت کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے نہ کہ ضرورت کے پیش نظر، یعنی جو میت سے جتنا زیادہ قریب ہوگا اس کو زیادہ حصہ ملے گا خواہ دوسرے رشتہ دار زیادہ غریب ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن شریعت اسلامیہ نے انسان کو یہ ترغیب دی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کو مدد کا زیادہ مستحق سمجھتا ہے اور اس کو میراث میں حصہ نہیں مل رہا ہے تو اس کے لیے اپنے ایک تہائی مال تک وصیت کرجائے۔ مثلاً کسی شخص کے کسی بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے اور پوتا پوتی حیات ہیں تو انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی جائداد میں سے ایک تہائی مال تک اپنے یتیم پوتے اور پوتی کو وصیت کرجائے۔اللہ تعالیٰ نے سورةا لنساء میں اس کی ترغیب بھی دی ہے۔
وصیت کی اقسام: واجب وصیت
(۱) اگر کسی شخص کا قرضہ ہے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
( ۲) اگر زندگی میں حج فرض کی ادائیگی نہیں کرسکا تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
( ۳) اگر زکوٰة فرض تھی، ادا نہیں کی تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
( ۴) اگر روزے نہیں رکھ سکا اس کے بدلہ میں صدقہ ادا کرنے کی وصیت کرنا واجب ہے۔
( ۵) اگر کوئی قریبی رشتہ وصیت کے قانون کے مطابق میراث میں حصہ نہیں حاصل کرپارہا ہے، مثلاً یتیم پوتا اور پوتی اور انھیں شدید ضرورت بھی ہے تو وصیت کرنا واجب تو نہیں ہے لیکن اسے اپنے پوتے کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔بعض علماء نے ایسی صورت میں وصیت کرنے کو واجب بھی کہا ہے۔ 
مستحب وصیت
شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ایک تہائی کی کسی بھی ضرورت مند شخص یا مسجد یا مدرسہ یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ کو وصیت کرجائے؛ تاکہ وہ اس کے لیے صدقہٴ جاریہ بن جائے اور اس کو مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب ملتا رہے۔
مکروہ وصیت
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے، میں اس وقت مکہ مکرمہ میں تھا (حجةا لوداع یا فتح مکہ کے موقعہ پر)۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اُس سرزمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کرچکا ہو۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابن عفراء (سعد) پر رحم فرمائے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال ودولت کی وصیت (اللہ کے راستے میں) کردوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا پھر آدھے کی کردوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تہائی مال کی کردوں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تہائی مال کی کرسکتے ہو، اور یہ بھی بہت ہے۔ اگر تم اپنے رشہ داروں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑ دو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اس میں کوئی شبہ نہ رکھو کہ جب بھی تم کوئی چیز جائز طریقہ پر خرچ کرو گے تو وہ صدقہ ہوگا۔ وہ لقمہ بھی جو تم اٹھاکر اپنی بیوی کے منہ میں دو گے (وہ بھی صدقہ ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں)، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفا دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ (بخاری ۔ کتاب الوصایا) (ترمذی ۔ باب ما جاء فی الوصیہ بالثلث) غرضے کہ اگر اولاد ودیگر وارثین مال وجائداد کے زیادہ مستحق ہیں تو پھر دوسرے حضرات اور اداروں کے لیے وصیت کرنا مکروہ ہے۔ 
وضاحت: حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی شفا کی دعا کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تقریباً پچاس سال تک حیات رہے اور انہوں نے عظیم الشان کارنامے انجام دئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص  نے ہی ۱۷ ہجری میں کوفہ شہر بسایا تھا جو بعد میں علم وعمل کا گہوارہ بنا۔آپ ہی کی قیادت میں ایران جیسی سوپر پاور کو فتح کیا گیا۔ آپ نے ہی دریا دجلہ میں اپنے گھوڑے ڈال دیے تھے، علامہ اقبال  نے کیا خوب کہا ہے: دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحرِ ظلمات میں دوڑادئے گھوڑے ہم نے۔
ناجائز وصیت
ایک تہائی سے زیادہ جائداد کی وصیت کرنا۔ وارث کے لیے وصیت کرنا۔ اس نوعیت کی وصیت نافذ نہیں ہوگی۔اولاد یا کسی دوسرے وارث کو اپنی جائداد سے محروم کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص یا دینی ادارہ کو وصیت کرنا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کئی لوگ (ایسے بھی ہیں جو) ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں زندگی گزارتے ہیں، پھر جب موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر جہنم واجب ہوجاتی ہے۔ پھر حضرت ابوہریرہ  نے یہ آیت (سورة النساء ۱۲)پڑھی: ”جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمہ جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت اور قرض کے اقرار کرنے سے ) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے۔ “(ترمذی باب جاء فی الوصیة بالثلث)
وصیت سے متعلق چند مسائل
(۱) کوئی بھی شخص اپنی صحت مند زندگی میں کسی بھی اولاد کی تعلیم، اس کے مکان کی تعمیر وغیرہ پر کم یا زیادہ رقم خرچ کرسکتا ہے، اسی طرح عام صحت مند زندگی میں اولاد کے درمیان جائداد کی تقسیم کچھ کم یا زیادہ کے ساتھ کرسکتا ہے، تاہم اس کو چاہیے کہ حتی الامکان اولاد کے مصارف اور جائداد کو دینے میں برابری کرے۔ عام صحت مند زندگی میں وصیت یا وراثت کا قانون نافذ نہیں ہوتا۔ عام صحت مند زندگی میں اولاد ودیگر رشتہ داروں کو دی جانے والی رقم یا جائداد ہبہ کہلاتی ہے۔ غرضیکہ عام صحت مند زندگی میں باپ اپنی اولاد میں سے اگر کسی کو مالی اعتبار سے کمزور محسوس کررہا ہے یا اپنے یتیم پوتا یا پوتی کو اپنی طرف سے مخصوص رقم یا جائداد کا کچھ حصہ دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے۔ 
(۲) ام الموٴمنین حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت سوائے اپنے سفید خچر، اپنے ہتھیار اور اپنی زمین کے جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا، نہ کوئی درہم چھوڑا تھا نہ دینار، نہ غلام نہ باندی اور نہ کوئی اور چیز۔ (بخاری کتاب الوصایا) غرضے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا، اسی وجہ سے ترکہ کے تعلق سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی وصیت موجود نہیں ہے۔
(۳) قرض کو وصیت پر مقدم کیا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض وصیت سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، (یعنی انسان کے ترکہ میں سے تجہیز وتکفین کے بعد سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی جائے گی، پھر وصیت نافذ ہوگی)؛ جب کہ تم لوگ قرآن کریم میں وصیت کو پہلے اور قرض کو بعد میں پڑھتے ہو۔ (ترمذی باب ما جاء یبدا بالدین قبل الوصیة) مذکورہ بالا ودیگر احادیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرض کی ادائیگی وصیت پر مقدم ہے۔ 
(۴) شرعاً وارث کو وصیت نہیں کی جاسکتی ہے، لیکن اگر کسی شخص نے وارثین میں سے کسی وارث کو وصیت کردی اور تمام ورثاء میت کے انتقال کے بعد اس کی وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تو وہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کردی اور تمام ورثاء میت کے انتقال کے بعد اس کی وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تو وہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔ 
(۵) تحریر کردہ وصیت نامہ میں تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے، یعنی اگر کسی شخص نے کوئی وصیت تحریر کرکے اپنے پاس رکھ لی، پھر اپنی زندگی میں ہی اس میں تبدیلی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ 
ایک اہم نقطہ
جس طرح ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کا مال صحیح طریقہ سے اولاد اور دیگر وارثین تک پہنچ جائے اور اولاد اس کے مال کو صحیح طریقہ سے استعمال کرے اور اس میں مزید اضافہ بھی ہوتا رہے۔ اسی طرح ہمیں اس بات کی بھی فکر وکوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری اولاد کیسے اللہ کے احکام ونبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے گی؟ تاکہ وہ مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیش والی زندگی میں کامیاب ہوسکیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کے لیے ان کی وصیت کا ذکر فرمایا ہے: اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ: ”اے میرے بیٹو! اللہ نے یہ دین تمہارے لیے منتخب فرمالیا ہے، لہٰذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میںآ ئے کہ تم مسلم ہو۔ کیا اُس وقت تم خود موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ اُن سب نے کہا تھا کہ ہم اُسی ایک خدا کی عبادت کریں گے، جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔ (سورةالبقرة ۱۳۲ و ۱۳۳)
دوسرا اہم نقطہ
جیسا کہ ہم اپنی زندگی کے تجربات سے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنی زندگی کے آخری وقت میں بہت اہم اور ضروری بات ہی کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا آخری کلام تھا: (نماز، نماز اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو )۔ (ابو داود، مسند احمد) ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے یہ وصیت فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد) اس سے ہم نماز کی اہمیت وتاکید کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محسن انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلمنے آخری وصیت نماز کی پابندی کے متعلق کی،لہٰذا ہمیں پوری زندگی نماز کا اہتمام کرنا چاہیے۔

$ $ $






وصیت کے احکام سے متعلق کتاب پڑھیے۔
http://www.scsguide.com/publications/wasiyat_k_ahkam/




تقسیم میراث — آداب واحکام

             ترکہ : میت کا چھوڑا ہوا وہ مال ہے جس سے کسی انسان کا حق وابستہ نہ ہو۔ مثلاً میت کا وہ مال جو میت کے دین میں رہن رکھا ہوا ہو ترکہ میں شمار نہ ہوگا؛ کیوں کہ اس سے دائن یعنی قرض خواہ کا حق متعلق ہے۔ یا مثلاً وہ مبیع (خریدی گئی چیز) جس کی قیمت اب تک ادا نہ کی گئی ہو اور خریدنے والا مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے مرگیا تو یہ مبیع ترکہ میں شمار نہ ہوگی؛ اس لیے کہ اس سے بیچنے والے کا حق متعلق ہے، یہ مبیع بائع ہی کی ملک ہوگی۔ ( مجمع الانہر:۲/۷۵۶)

            قال فی الشامی: الترکۃُ فی الاصطلاحِ مَاتَرَکَہُ المیتُ من الأموالِ صافیاً عن تعلّقِ حقِّ الغیرِ بعینٍ من الأموالِ۔(۵/۴۱۸)

            میراث: وہ مال وجائداد وغیرہ جو مرنے والے کی طرف سے حق داروں کو ملے ۔ یعنی ترکہ اور میراث دونوں کے ایک ہی معنی ہیں ۔

            میت کی ملکیت میں جو چیز بھی تھی، خواہ بڑی ہو یا چھوٹی، جیسے روپے پیسے ، زمین جائداد، گھرمکان، کپڑے اور گھریلو سامان، فیکٹری اور آلات ومشین ،وغیرہ ، سب ترکہ ہیں ،ہر چیز میں ہر وارث کا حق ہے، کسی وارث کا کوئی خواص چیز بغیر تقسیم کے خود رکھ لینا جائز نہیں ۔سورۂ نساء آیت: ۷، میں اللہ تعالی نے میراث کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ‘‘۔ یعنی میت کا چھوڑا ہوا مال کم ہو یا زیادہ سب میراث ہیں ، سب وارثین کو ملیں گے۔

            آدمی کے مرنے کے بعداس کے ترکہ اور میراث کے ساتھ چار حقوق متعلق ہوتے ہیں :

            (۱) تجہیز وتکفین: مرنے کے بعد میت کے ترکہ اور میراث میں سے اس کی تجہیز وتکفین کی جائے گی، اس میں نہ اسراف اور فضول خرچی ہوگی اور نہ کمی و کوتاہی۔ یعنی مرد اور عورت کو کفن کے کپڑوں کی تعداد میں کفن سنت کی رعایت کی جائے گی، مرد کے لیے تین کپڑے اور عورت کے لیے پانچ؛ اس میں کمی بیشی نہ کی جائے اور کفن کے کپڑے کی قیمت میں بھی اسراف اور کمی نہ ہویعنی نہ بہت بیش قیمتی ہو اور نہ بہت گھٹیا؛ بلکہ وہ اپنی زندگی میں جس معیار کا کپڑا پہنتا تھاقیمت کے اعتبار سے اس معیار کا کپڑا کفن میں دیا جائے۔

            اور تجہیز کے تحت میت کے مرنے سے قبر تک کی تمام ضروریات داخل ہیں ۔

             (۲) ادائے قرض : تجہیز و تکفین میں خرچ کے بعد جو مال بچا ہے اگر میت کے ذمے لوگوں کا قرض ہے تو اس کو ادا کیا جائے اگرچہ ادائے قرض میں سارا مال ختم ہو جائے اس کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔

            اس کے بعد اگر اس پر اللہ کا دین اور حق ہے تو اس کو ادا کیا جائے گا، مثلاً اس پر زکاۃ کی ادائیگی فرض تھی اور اس نے ادا نہیں کیا اور وفات ہو گئی، یا قسم وغیرہ کا کفارہ اس پر واجب تھا اور ادا نہیں کیا تو اگر اس نے اس کو ادا کرنے کی وصیت کی ہے تو لوگوں کا قرض ادا کرنے کے بعد جو مال بچا ہے اس کی ایک تہائی میں سے اس کوادا کیا جائے گا۔ بہر حال یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بندے کے دین کو پہلے ادا کیا جائے اس کے بعد جو مال بچا ہے اس کے ثلث (تہائی) میں سے اللہ کے دین کو ادا کیا جائے اگر اس نے اس کو ادا کرنے کی وصیت کی ہے، اور اگر اس نے وصیت نہیں کی ہے تو واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر ورثاء نے بطور تبرع اور احسان، میت کی طرف سے ادا کردیا تو میت کی طرف سے واجب ساقط نہ ہوگا۔(درمختار مع الشامی نعمانی: ۵/۴۸۴)

            (۳) نفاذِ وصیت: اگر تجہیز وتکفین اور ادائے دین کے بعد کچھ مال بچ جائے اور مرنے والے نے کوئی وصیت کی ہے جیسے مسجد کے لیے، یا مدرسے کے لیے، یا کسی آدمی کو دینے کے لیے وصیت کی ہے تومابقی مال کے ثلث (تہائی) سے اس کی وصیت نافذ کی جائے گی اور جس کے لیے اس نے وصیت کی ہے اس کو دیدیا جائے گا ، اس مصرف میں خرچ کردیا جائے گا۔

             (۴) حقِ وارثین : نفاذ وصیت کے بعد جو مال بچ جائے اس کو میت کے ان وارثین کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا جن کا وارث ہونا قرآن ، یاحدیث،یا اجماع سے ثابت ہے۔ (سراجی)

            تنبیہ : واضح رہے کہ میت کے قرض کو ادا کرنا اور اس کی وصیت پر عمل کرنا اور وصیت کو نافذ کرنا فرض اور واجب ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بہت تاکید کے ساتھ اس کو بیان کیا ہے۔ سورۂ نساء آیت:۱۱، ۱۲، میں میراث کے احکام اور حصے کو بیان کرکے دومرتبہ فرمایا : مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍتُوْصُوْنَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ۔ یعنی میراث کی تقسیم ہوگی وصیت کے بقدر مال نکالنے کے بعد جس کی وصیت تم کرجاؤ اور دین ادا کرنے کے بعد۔

            اور ایک بار فرمایا: مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصَی بِہَا أَوْدَیْنٍ۔ تقسیم میراث ہوگی وصیت کے بقدر مال نکالنے کے بعد جس کی وصیت کی جا چکی ہے، یا اگر دین ہے تو اس کو ادا کرنے کے بعد ہی میراث تقسیم ہوگی۔

            اگر دین ا ور وصیت نہ ہو تو تجہیزو تکفین کے بعد بچا ہوا کل مال وارثوں میں تقسیم ہو جائے گا۔

مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوگا
            مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوگا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہ ہوگا :خواہ ان میں آپس میں کوئی بھی نسبی رشتہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لایرثُ المسلمُ الکافرَ ولا الکافرُ المسلمَ۔ (بخاری حدیث: ۶۷۶۴، مسلم حدیث:۱- ۱۶۱۴)

            یعنی مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہ ہوگا۔

             مرتد کی میراث کا حکم : یہ حکم اس صورت سے متعلق ہے جب کہ پیدائش کے بعد ہی سے کوئی شخص مسلمان یا کافر ہو؛ لیکن اگر کوئی شخص پہلے مسلمان تھا پھر- العیاذ باللہ- اسلام سے پھر گیا اور مرتد ہوگیا (جیسے قادیانی ہو گیا) ، اگر ایسا شخص مرجائے، یا مقتول ہوجائے تو اس کا وہ مال جو زمانۂ اسلام میں کسب کیا تھا، کمایا تھا،وہ اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گااور جو ارتداد کے بعد کمایا ہے وہ بیت المال میں جمع کر دیا جائے گا۔

            لیکن اگر عورت مرتد ہوگئی تو اس کا کل مال خواہ زمانۂ اسلام میں حاصل ہوا ہو یا زمانۂ ارتداد میں ، اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گا؛ لیکن خود مرتد مرد یامرتد عورت اس کو نہ کسی مسلمان سے میراث ملے گی نہ کسی مرتد سے۔ (معارف القرآن: ۲/۳۳۲)

قاتل مقتول کی میراث سے محروم ہوگا
             اگر کوئی شخص ایسے آدمی کو قتل کردے جس کے مال میں اس کو میراث پہنچتی ہو(جیسے بیٹے نے باپ کو قتل کردیا، یا بھائی نے بھائی کو قتل کردیا (العیاذ باللہ) تو یہ قاتل اس شخص کے میراث سے محروم ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: القاتلُ لایرثُ۔ یعنی قاتل وارث نہ ہوگا۔ (ترمذی حدیث: ۲۱۰۲، ابن ماجہ حدیث: ۲۷۳۵) (اللباب فی شرح الکتاب، کتاب الفرائض: ۴/۱۸۸)

میراثِ حمل
            اگر کسی شخص نے اپنی کچھ اولاد چھوڑی اور بیوی کے پیٹ میں بھی بچہ ہے تو یہ بچہ بھی وارثوں کی فہرست میں آئے گا؛ لیکن چوں کہ یہ پتہ چلانا دشوار ہے کہ پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی، یا ایک سے زیادہ بچے ہیں ؛اس لیے بچہ پیدا ہونے تک تقسیم میراث ملتوی رکھنا مناسب ہوگااور اگر تقسیم کرنا ضروری ہو تو سردست ایک لڑکا یا ایک لڑکی فرض کرکے دونوں کے اعتبار سے دو صورتیں فرض کی جائیں ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں ورثاء کو کم ملتا ہو وہ ان میں تقسیم کردیا جائے اور باقی اس حمل کے لیے رکھا جائے۔ (معارف القرآن: ۲/۳۳۳)

معتدہ کی میراث
            جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی اور طلاق رجعی ہے ، پھر طلاق سے رجوع اور عدت ختم ہونے سے پہلے وفات پا گیا تو یہ عورت میراث میں حصہ پائے گی ؛اس لیے کہ ابھی نکاح باقی ہے۔

            اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات میں بیوی کو طلاق دی اگرچہ طلاق بائن یا مغلظہ ہی ہو اور عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مر گیا تب بھی وہ عورت اس کی وارث ہوگی۔

            اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات سے پہلے صحت کے زمانے میں اپنی بیوی کوبائن یا مغلظہ طلاق دیدی اور اس کے چند دن بعد عورت کی عدت میں وہ فوت ہوگیا تو اس صورت میں عورت کومیراث میں سے حصہ نہیں ملے گا؛ البتہ طلاق رجعی دی ہے تو وہ وارث ہوگی۔

            مسئلہ: اگر کسی عورت نے شوہر کے مرض وفات میں خود سے خلع کرلیا تو وارث نہیں ہوگی، اگرچہ اس کا شوہر اس کی عدت کے دوران مرجائے۔ (معارف القرآن: ۲/۳۳۳)

پیدائش کے وقت جو بچہ مر گیا اس کی میراث
            جو بچہ زندہ پیدا ہوا، اور اس میں آثار حیات میں سے کچھ بھی پایا گیااور اس کے بعد فوراً مر گیا تو یہ بچہ خود دوسرے کا وارث ہوگا اور دوسرا بھی اس کا وارث ہوگا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          إِذَا اسْتَہَلَّ الصَّبِیُّ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَوَرِثَ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ -وَرِثَ وَوُرِّثَ-۔ (ابن ماجہ حدیث: ۲۷۵۰، سنن دارمی حدیث: ۳۱۶۸،۳۱۶۹)

            یعنی جب بچہ ولادت کے وقت آواز نکالے یعنی اس میں آثارِ حیات پائے جائیں تو اس پر جنازے کی نماز پڑھی جائے گی اور اس کے وارث ہوں گے اور ایک روایت میں ہے : وہ وارث ہوگا اور دوسرے اس کے وارث ہوں گے۔

میت پر قرض سے متعلق چند ضروری باتیں
            اگرمیت پرکسی کا قرض ہو اور وہ اس کو ادا نہ کیا ہو تو اس قرض کی ادائیگی کی وصیت کرنا مرنے والے پر موت سے پہلے واجب ہے، خواہ وہ قرض اللہ کا ہو یا بندے کا۔ 

          فی المواہب: تجبُ علی مدیونٍ بما علیہ للّہِ تعالی أو للعبادِ۔ (شامی نعمانی: ۵/۳۱۵)

            کیوں کہ دین اور قرض بندے کا حق ہے، جس کو ادا کرنا ضروری ہے۔ حدیث میں ہے کہ سعد بن اطول کے بھائی کا انتقال ہوا، ان کے بھائی نے تین سو دراہم میراث میں چھوڑے، انہوں نے ان دراہم کو اپنے بھائی کے اہل وعیال کے لیے رکھنا چاہا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا بھائی اپنے دَین میں مقید ومحبوس ہے(یعنی اس کی وجہ سے اس کی مغفرت نہیں ہورہی ہے) ، پس اس کا دَین پہلے ادا کرو: إنَّ أخاکَ مُحْتَبَسٌ بدینِہ، فَاقْضِ عنہ۔(ابن ماجہ، باب أداء الدین عن المیت، حدیث نمبر: ۲۴۳۳)

            اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: مَنْ فَارَقَ الروحُ الجسدَ، وہُوَ بَرِئٌمِنْ ثَلاَثٍ دَخَلَ الجنۃَ، مِنَ الکبرِ، والغلولِ، والدینِ۔ (سنن دارمی حدیث: ۲۶۳۴)

            ترجمہ: جس آدمی کی روح جسم سے اس حال میں جدا ہوئی کہ وہ تین چیزوں سے بری ہے وہ جنت میں جائے گا : (۱) تکبر (۲) خیانت (۳) اور قرض۔

            اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر کسی آدمی کو اللہ کے راستے (جہاد) میں قتل کیا جائے ، پھر زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جائے،پھر زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جائے، اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا؛ یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیاجائے۔ (سنن کبری للبیہقی حدیث: ۱۰۹۶۳)

            اور ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نفسُ المؤمنِ معلقۃٌ بدَینہ، حتی یُقْضَی عنہ۔( سنن صغیر للبیہقی حدیث: ۲۳۲۵)

            اور ایک روایت میں ہے: نفسُ المؤمنِ معلقۃٌ ماکانَ علیہ دَینٌ۔ (موارد الظمآن إلی زوائد ابن حبان حدیث: ۱۱۵۸، دارمی حدیث: ۲۶۳۳)

            یعنی مؤمن کا نفس اس کے قرض کے ساتھ معلق (گرفتار) رہتا ہے (اس کی مغفرت نہیں ہوتی) یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیا جائے۔

بیوی کا مہر
            یہ دیکھنا چاہیے کہ مرنے والے نے بیوی کا مہر ادا کیا ہے یا نہیں ؟ اگر بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو تو دوسرے قرضوں کی طرح اولاً کل مال سے قرض مہر ادا ہوگا، اس کے بعد ترکہ تقسیم ہوگا، اور مہر لینے کے بعد عورت اپنی میراث کا حصہ بھی میراث میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے وصول کرے گی اور اگر میت کا مال اتنا ہے کہ مہر ادا کرنے کے بعد کچھ نہیں بچتا تو بھی دوسرے دیون کی طرح پورا مال قرض مہر میں عورت کو دیدیا جائے اور کسی وارث کو کچھ حصہ نہ ملے گا۔ (معارف القرآن: ۲/۳۲۶)

ایک رسم بد پر تنبیہ
              بعض علاقے میں شوہر جب مر جاتا ہے تو اس کو کفنانے کے بعد جنازہ اٹھانے سے پہلے اس کی بیوی کو لوگ پکڑکر لاتے ہیں اور اس سے اپنا مہر معاف کرنے کو کہتے ہیں اور وہ خواہی نہ خواہی معافی کے الفاظ بول دیتی ہے اس طرح مہرمعاف نہیں ہوتا، میت کو سنانا فضول ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ میت یعنی اس کے شوہر کے ترکہ میں سے اس کے مہر کو ادا کیا جائے؛ تاکہ اس کا کچھ سہارا ہوجائے؛ البتہ اگر شوہر مفلس او قلاش ہوکر مرا ہے اور اس نے مال وجائدادکچھ نہیں چھوڑا ہے تو خود بیوی کو چاہیے کہ اپنا مہرمعاف کردے؛ تاکہ اس کا شوہر اس کے دین میں محبوس اور گرفتار نہ رہے۔

وصیت سے متعلق آداب واحکام
            وصیت کی تعریف: الوصیۃُ تصرّفٌ فی ثلثِ المالِ فی آخرِ العمرِ زیادۃً فی العملِ، فکانتْ مشروعۃً۔ (بدائع الصنائع، بیان جواز الوصیۃ: ۷/۳۳۰)

            وصیت آخری عمر یعنی مرض الوفات میں تہائی مال میں تصرف کرنا ہے، عمل میں زیادتی کے لیے، پس یہ مشروع ہے۔

            وصیت اصطلاح شریعت میں کہتے ہیں اس مال کو جس کے متعلق میت نے وفات سے پہلے کسی شخص کو، یا کسی مصرف میں دینے کا اظہار کیا ہو۔ (معارف القرآن:۱/۴۴۰)

ابتداءِ اسلام میں وصیت کرنا فرض تھا
            ابتداء اسلام میں جب تک تقسیم میراث کا حکم نازل نہیں ہوا تھا موت سے پہلے والدین اور رشتے داروں کے لیے ترکہ اور مال کی وصیت کرنا فرض اور واجب تھا:  اللہ تعالی کا فرمان ہے:           ’’کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًا الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ، حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ‘‘۔ (البقرۃ:۱۸۰)

             ترجمہ: فرض کردیا گیا تم پر وصیت کرنا جب تم میں سے کسی کو موت حاضر ہو بشرطیکہ چھوڑے کچھ مال، والدین کے لیے اور رشتے داروں کے لیے انصاف کے ساتھ، یہ حکم لازم ہے پرہیز گاروں پر۔

            پھر جب سورۂ نساء کی آیت میراث(نمبر:۱۱):  یُوْصِیْکُمُ اللَّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ ، الخ :  نازل ہوئی اور تقسیم میراث کا تفصیلی حکم نازل ہوا تو وصیت کے وجوب کا حکم منسوخ اور ختم ہو گیا؛ البتہ استحباب باقی رہا۔  (تفسیر نسفی: ۱/۱۵۷، تفسیر خازن: ۱/۱۰۹، تفسیر ابن کثیر: ۱/۴۹۲،۴۹۴)

            اور فوائد عثمانی میں ہے: وصیت اس وقت فرض تھی جس وقت تک آیت میراث نہیں اتری تھی، جب سورۂ نساء میں احکام میراث نازل ہوئے اور سب کا حصہ اللہ تعالی نے خود معین فرمادیا، اب ترکۂ میت میں وصیت فرض نہ رہی، اس کی حاجت ہی جاتی رہی؛ البتہ مستحب ہے۔

جواز وصیت کی شرطیں
            وصیت کے جائز ہونے کی من جملہ شرطوں میں سے یہ شرطیں بھی ہیں : وصیت کرنے والا عاقل وبالغ ہو ؛ نابالغ یا پاگل کی وصیت درست نہیں ہے۔ وہ مقروض ومدیون نہ ہوکہ ادائگی قرض میں پورا مال ختم ہو جائے۔ اگر وصیت کسی آدمی کے لیے کی ہے تو وصیت کرنے کے وقت وہ آدمی زندہ ہو۔ جس آدمی کے لیے وصیت کی ہے وہ اس کا وارث نہ ہو۔ وصیت تہائی مال یا اس سے کم کی ہو، تہائی سے زائد کی نہ ہو۔ وصیت کسی معصیت اور گناہ کی نہ ہو۔ (درمختار مع الشامی:۵/۳۱۶)

وصیت کے اقسام
            وصیت کی چار قسمیں ہیں : (۱) واجب (۲)مباح (۳)مکروہ (۴) مستحب۔

             واجب :  فرائض وواجبات میں جو کوتاہی ہوئی ہے، جس کی قضا اس کے ذمے باقی ہے، اس کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرنا واجب ہے؛لہٰذا جو نماز، روزہ کی قضا ہو گئی ہے اس کے فدیہ کی وصیت کرے، اگر قسم وغیرہ کا کفارہ ادا کرنے سے رہ گیا ہے تو موت سے پہلے اس کے ادا کرنے کی بھی وصیت کرے، یا حج فرض تھا ادا نہیں کیا تو حج بدل کرانے کی وصیت کرے اور ان تمام صورتوں میں وصیت کرنا واجب ہے۔

            قال فی البدائع: الوصیۃُ بما علیہ مِنَ الفرائضِ والواجباتِ کالحجِّ والزکاۃِ والکفاراتِ واجبۃٌ۔ (بدائع الصنائع، بیان جواز الوصیۃ: ۷/۳۳۰)

            یعنی آدمی پر جو فرائض وواجبات باقی ہیں ان کی وصیت کرنا اس پر واجب ہے۔

            اور عالم گیری میں ہے: وإن کان علیہ حقٌ مستحقٌّ للّہِ تعالی کالزکاۃِ أو الصیامِ أو الحجِّ أو الصلاۃِ التی فَرَطَ فیہا، فَہِیَ واجبۃٌ۔ (۵/۹۰، وکذا فی البحر: ۸/۴۶۰، کتاب الوصایا)

            یعنی اگر کسی آدمی پر اللہ کا کوئی واجب حق رہ گیا ہے جیسے زکاۃ، روزہ، حج، اور نماز جس میں اس نے کوتاہی کی ہے تو (فدیہ کی)وصیت کرنا اس پر واجب ہے۔

            اور اگر کسی کا قرض اس پر ہے اور ادا نہیں کیا ہے تو اس قرض کی ادائگی کی وصیت کرنا مرنے والے پر موت سے پہلے واجب ہے: فی المواہب: تجبُ علی مدیونٍ بما علیہ للّہِ تعالی أو للعبادِ۔ (شامی نعمانی: ۵/۳۱۵)

            یعنی مدیون ومقروض پر خواہ دین اللہ کا ہو یا بندوں کا وصیت کرنا واجب ہے۔

            اسی طرح اگر اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہوئی ہے تو اس کی ادائیگی کی وصیت کرنا واجب ہے۔  (تفسیر قرطبی:۲/۲۵۹)

مباح وجائزوصیت
            مال دار کے لیے وصیت کرنا جائز ومباح ہے۔

مکروہ وصیت
            ایسا آدمی جو فسق وفجور میں مبتلا ہو اس کے لیے وصیت کرنا مکروہ ہے، جب کہ غالب گمان یہ ہو کہ وہ آدمی اس مال کو فسق وفجور میں خرچ کرے گا۔ (درمختار: ۵/۳۱۵)

مستحب وصیت
            وہ رشتے دار اور خویش واقارب جو وارث نہیں ہیں ان کے لیے وصیت کرنا مستحب ہے۔ عالم دین اور صلاح وتقوی والے شخص کے لیے وصیت کرنا مستحب ہے۔  (شامی نعمانی: ۵/۳۱۵)

قضا نماز وغیرہ کا فدیہ اور کفارہ
            اگر کوئی آدمی مرجائے اور اس پر قضا نمازیں ہوں اور وہ وصیت کرے کہ اس کی نماز کا کفارہ ادا کیا جائے تو ہر نماز کے بدلے ایک کلو ۶۳۳/ گرام گیہوں ، یا اس کی قیمت دے گا، اور ہر روزہ کے بدلے بھی ایک کلو  ۶۳۳/ گرام گیہوں ، یا اس کی قیمت دے گا۔

            یعنی ہر فرض نماز اور ہر روزہ کا کفارہ اور فدیہ:  ایک کلو ۶۳۳/ گرام گیہوں ،یا اس کی قیمت ہے۔

             واضح رہے کہ یہ فدیہ اور کفارہ اس کے ثلث مال ہی سے ادا کیا جائے گا، فدیہ میں ایک تہائی سے زیادہ مال نہیں دیا جائے گا۔

            إذا ماتَ الرجلُ وعلیہ صلواتٌ فائتۃٌ، وأوصی بأن یُعْطِیْ کفارۃَ صلاتِہ یُعْطِیْ لِکُلِّ صَلاَۃٍ نصفَ صاعٍ مِن برٍّ، ولِصومٍ نصفَ صاعٍ، وإنَّما یُعطیَ من ثلثِ مالِہِ۔ (البحرالرائق، سجود السہو فی الصلاۃ: ۲/۹۸)

بغیر وصیت ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں
            اگر مرنے والے پر زکاۃ ، کفارات وغیرہ کا دین ہو اور اس نے ان کو ادا کرنے کی وصیت نہیں کی ہے تو ورثاء پر ان کا ادا کرنا ضروری اور لازم نہیں ہے؛ البتہ اگر وہ اپنی طرف سے تبرع اور احسان کردے تو اور بات ہے۔ ودینُ الزکاۃِ والکفاراتِ ونحوِہا فلایلزَمُ الورثۃَ أدائُہا إلاَّ إذا أوصیَ بِہَا، أو تَبَرَّعُوا مِنْ عندِہِم۔ (مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر، کتاب الفرائض: ۲/۷۴۷)

وصیت پر عمل واجب ہے، اس میں کوتاہی جائز نہیں
            وصیت پر عمل واجب ہے، اس میں کوتاہی جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ قرآن وسنت کا حکم ہے؛ اسی لیے قرآن میں اللہ تعالی نے وصیت کو دین پر مقدم کیا ہے ، اس کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے، اگرچہ دین کو پہلے ادا کیا جائے گااور وصیت پر عمل اس کے بعد ہوگا۔ (روح المعانی، معارف القرآن: ۲/۳۲۹)

تہائی مال کی وصیت پر وارد ہونے والی چند حدیثیں
          (۱) عن أبی ہریرۃؓ قال رسولُ اللہِ صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم:إنَّ اللَّہَ تَصَدَّقَ علیکم عندَ وفاتِکُم بثلثِ أموالِکُم زیادۃً فی أعمالِکُم۔ (ابن ماجہ، باب الوصیۃ ، حدیث: ۲۷۰۹)

          (۲) عن أبی الدَّردارءؓ عن النبیّ صلَّی اللَّہ علیہ وسلَّم:إنَّ اللَّہ تَصَدَّقَ علیکم بثلثِ أموالِکم عندَ وفاتِکم۔ (مسند أحمد، حدیث: ۲۷۴۸۲)

          (۳) عن معاذ بن جبلؓ عن النبیّ صلَّی اللَّہ علیہ وسلَّم: إنَّ اللَّہ عزَّ وجَلَّ قد تَصَدَّقَ علیکم بثلثِ أموالِکم عندَ وفاتِکم زیادۃً فی حسناتِکم؛ لِیجعلَہا لکم زیادۃً فی أعمالِکم۔ (سنن دارقطنی ، کتاب الوصایا، حدیث: ۴۲۸۹)

            مذکورہ حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمہاری وفات کے وقت تمہارے ثلثِ اموال (کی وصیت) کے ذریعہ تم پر احسان اور فضل کیا  ہے، تمہارے اعمال اور نیکیوں میں زیادتی کے لیے؛ تاکہ تمہارے اعمال میں اضافہ ہو۔ یعنی تمہارے لیے تہائی مال کی وصیت جائز ہے، تم کو اس کی اجازت ہے۔

ایک ثلث سے زائد کی وصیت جائز نہیں
            ایک ثلث سے زائد کی وصیت کرناجائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ کو ایک ثلث(تہائی) سے زیادہ کی وصیت کرنے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت سعد ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میر ے پاس بہت مال ہے اور وارثین میں میری صرف ایک بیٹی ہے، تو کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کردوں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ! میں نے کہا: آدھا مال کی وصیت کردوں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ! میں نے کہا : ایک تہائی مال کی وصیت کردوں ؟ آپ نے فرمایا: ہا ں ، اور ایک تہائی کثیر ہے، بلا شبہ تم اپنے ورثاء کومال دار چھوڑکر دنیا سے جاؤ، بہتر ہے اس سے کہ ان کو فقیر اور محتاج چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں سے سوال کرتے پھریں اور لوگوں کا دست نگر بنیں۔ (بخاری حدیث:۲۷۴۲، مسلم حدیث: ۵ -۱۶۲۸ ،وسنن اربعہ)(العنایۃ شرح الہدایۃ: ۱۰/۱۴۵)

ثلث سے زائد کی وصیت نافذ کیوں نہیں ہوتی
            بیمار کی وصیت شریعت میں صرف ایک تہائی مال میں جاری ہونے کی وجہ اور حکمت یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی زندگی میں اپنے مال کے تصرف میں خود مختار ہوتا ہے؛ لیکن جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کے مال کے ساتھ ورثاء کا حق وابستہ کردیا گیا ہے اور چوں کہ صاحبِ مال ابھی زندہ ہے تو اس کو اپنے مال کے اندر سے بالکل محروم بھی نہیں کیا گیا؛ بلکہ یوں سمجھا گیا کہ اکثر مال یعنی دو تہائی سے اس کا حقِ اختیار نکل گیا، اس میں اس کا قول لغو ہے اور اقل مال یعنی ایک تہائی میں اس کا قول معتبر ہے اور اس کا تصرف صحیح ہے۔ حدیث میں اسی بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: أیُّ الصدقۃِ أَعْظَمُ أجراً؟ کس صدقے کااجر وثواب سب سے بڑا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم صدقہ وخیرات کرو، اس حال میں کہ تم صحت مند اور تندرست ہو، مال سے تم کو محبت ہو، تم فقر اور غریبی سے ڈر رہے ہو (اس وقت کا صدقہ کرنا سب سے افضل ہے)، اور تم لوگ صدقہ وخیرات کرنے میں دیر اور تاخیر مت کرو ،یہاں تک کہ جب تمہارا آخری وقت آجائے اور روح حلقوم تک پہنچ جائے تو تم کہو:  لِفلانٍ کذا، ولفلانٍ کذا، وقَد کانَ لفلانٍ :  اتنا مال فلاں کے لیے ہے، اور اتنا مال فلاں کے لیے ہے؛ حالاں کہ اب مال فلاں (وارثین) کا ہو چکا ہے۔  (بخاری حدیث: ۱۴۱۹، مسلم حدیث: ۹۲-۱۰۳۲)

            وقد کان لفلان: اب مال فلاں کا ہو چکا ہے:  علامہ عینیؒ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں :  لأنَّ المالَ حینئذٍ خَرَجَ عنکَ وتَعَلَّقَ بِغِیْرِکَ۔ (عمدۃ القاری، باب أیّ الصدقۃ أفضل: ۸/۲۸۰)

            یعنی مال اس وقت تمہاری ملکیت سے نکل چکا ہے اور تمہارے غیر(وارثین) سے اس کا حق متعلق ہو چکا ہے؛ اس لیے تم کل مال میں اب تصرف نہیں کرسکتے۔

            اور ملاعلی قاریؒ اس کی تشریح میں رقمطراز ہیں :  أی وَقَدْ صارَ المالُ الذی تتصرّفُ فیہ فی ہذہ الحالۃِثلثاہ حقاً للوارثِ، وأنتَ تتصدّقُ بجمیعہ، فکیفَ یقبلُ منک۔ وقال الطیبی: قیل:إشارۃٌ إلی المنعِ عن الوصیۃِ لتعلّقِ حقّ الوارثِ، أی وقدکان لفلانٍ الوارث۔ (مرقاۃ، تحت رقم حدیث:۱۸۶۷: ۴/۱۳۲۲)

            یعنی مرض الموت میں جس مال میں تم تصرف کر رہے ہو اس کا دو ثلث وارث کا حق ہے اور تم تمام مال کو صدقہ کر رہے ہو تو کیسے تم سے قبول ہوگا اور علامہ طیبیؒ نے فرمایا: اس حدیث میں کل مال کی وصیت کرنے سے منع کی طرف اشارہ ہے؛ اس لیے کہ مال وارثوں کا ہو چکا ہے۔

اگر ورثاء اجازت دیدیں تو جائز ہے
             اگر ثلث سے زائد کی وصیت کرے تو ثلث سے زائد میں وصیت نافذ نہیں ہوگی؛ البتہ اگر ورثاء اس زائد کی اجازت دیدیں اور تمام ورثاء بالغ ہوں تو پھر ثلث سے زائد میں وصیت نافذ ہوجائے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ ورثاء نے اجازت وصیت کرنے والے کی موت کے بعد دی ہواور اگر بعض ورثاء نے اجازت دی ہے اور بعض نے نہیں دی ہے تو جنہوں نے اجازت دی ہے ان کے حصے کے بقدر میں وصیت نافذ ہوگی، مثلاً زید نے وصیت کی کہ میرے مال میں سے نصف مال میرے مرنے کے بعد خالد کو دیدیا جائے، تویہ ثلث سے زائد کی وصیت ہے، اور زید کے ورثاء صرف دو لڑکے ہیں اور ان میں سے ایک نے ثلث سے زائد کی وصیت کی اجازت دیدی، تو مال اس طرح تقسیم ہوگا ۔ جس نے اجازت نہیں دی ہے اس کو ایک ثلث ملے گا، اجازت دینے والے وارث کو ربع ملے گا۔ جس کے لیے وصیت کی گئی ہے یعنی خالد اس کو ایک ثلث اصلی وصیت کا اور ایک سدس( چھٹا حصہ) وصیت کی اجازت دینے والے کی طرف سے ملے گا۔  (شامی، نعمانی: ۵/۴۱۷)

وصیت کرنے میں وارثین کو ضرر پہنچانا مقصود نہ ہو
            وصیت کے ذریعہ وارثوں کو نقصان پہنچاناجائز نہیں ہے، گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے:  مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصَی بِہَا أَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ۔ (سورۂ نساء:۱۲)

            یعنی میراث ملے گی وصیت کے بقدر مال نکالنے کے بعدجس کی وصیت کی گئی ہے، یا اگر دین ہو تو اس کے بھی نکالنے کے بعد بشرطیکہ وصیت کرنے والا کسی وارث کو ضرر نہ پہنچائے۔

            غَیْرَ مُضَارٍّ کی تفسیر کرتے ہوئے مجاہدؒ نے فرمایا: اَلْمُوْصِیْ لاَ یُضَارُّ فی المیراثِ أَہْلَہُ۔ (تفسیر مجاہد)

            یعنی وصیت کرنے والا میراث میں اپنے وارثین کو ضرر اور نقصان نہ پہنچائے ۔

            اور ابن جبیرؒ نے فرمایا: غیرَ مُضَارٍّ أی من غیرِ ضَرَرٍ لِوَرَثَتِہِ، فَلاَیُقِرُّ لحقٍ لَیْسَ عَلَیْہِ، وَلاَیُوْصِیْ أَکْثَرَ مِنْ ثُلُثٍ۔(روح المعانی:۲/۴۴۱)

            یعنی وصیت میں اپنے ورثاء کو ضرر نہ پہنچائے، پس کسی ایسے حق کا کسی کے لیے اقرار نہ کرلے جو اس پر واجب نہ ہو  اور ثلث سے زیادہ کی وصیت نہ کرے۔

            اور تفسیر راغب اصفہانی میں ہے:  والإضرارُ أن یقرَّ بمالٍ لأجنبیٍّ رداً للمیرثِ، أویبیعُ مالَہ أو شیئاً منہ محابیاً فیہ، أویَہِبُ، أویُوصِیْ لوارثٍ قصداً للإضرارِبغیرِہ۔  (تفسیر الراغب الأصفہانی: ۳/۱۱۳۷)

            یعنی وصیت میں ضرر اور نقصان یہ ہے کہ کسی غیر کے لیے کچھ مال کا اقرار کرلے میراث کو رد اور ختم کرنے کے لیے، یا مرض الموت میں اپنا مال بیچ دے ، یا کسی کو ہبہ کردے؛ تاکہ وہ اس کے لیے مخصوص ہو جائے، یا کسی وارث کے لیے وصیت کردے، دوسرے وارثوں کو ضرر پہنچانے کے ارادے سے ۔

            اور تفسیر بغوی میں ہے: غیرَ مضَارٍّ: أی غیرَ مُدْخِلٍ الضررَ علی الورثۃِ بمجاوزۃِ الثلثِ فی الوصیۃِ۔ (۱/۵۸۲) یعنی ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کرنا وارثوں کو نقصان پہنچانا ہے۔

            حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الإضرارُ فی الوصیۃِ من الکبائرِ۔  وصیت میں ضرر پہنچانا گناہ کبیرہ ہے۔ (دار قطنی حدیث: ۴۲۹۳، سنن کبری للبیہقی حدیث: ۱۱۰۲۶)

            اور ہدایہ کی شرح عنایہ میں ہے:تہائی سے زیادہ کی وصیت اور وارث کے لیے وصیت کبائر میں سے ہے۔  (۵/۴۱۷)

             حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ الرجلَ لیعملُ والمرأۃَ بطاعۃِ اللَّہِ سِتِّیْنَ سنۃً ، ثُمَّ یَحْضُرُ ہُمَا الموتُ فَیُضَارَّانِ فی الوصیۃِ فتجبُ لہما النارُ۔  (ترمذی حدیث:۲۱۱۷، ابوداؤد : ۲۸۶۷، مسند أحمد: ۷۷۴۲)

            یعنی مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت میں زندگی گزارتے ہیں ، پھر جب موت کی علامت ظاہر ہوتی ہے (مرض الموت میں مبتلا ہوتا ہے ) تو وصیت میں نقصان پہنچاتا ہے، پس ان کے لیے دوزخ واجب ہوجاتی ہے۔

            ملا علی قاریؒ مشکاۃ کی مشہور شرح مرقاۃ میں تحریر فرماتے ہیں :  وصیت میں ضرر یہ ہے کہ کسی اجنبی یعنی غیر کے لیے ثلث سے زیادہ کی وصیت کردے۔ یا تمام مال وارثین میں سے کسی ایک کو ہبہ کردے؛ تاکہ دوسرے وارثین اس کے مال میں سے کسی بھی چیز کا وارث نہ ہو، پس یہ ناجائز ہے، مکروہ تحریمی ہے اور اللہ کے حکم اور فیصلے سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔( مرقاۃ، باب الوصایا، تحت رقم حدیث: ۳۰۷۵)

            اور ایک حدیث میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:  مَنْ فَرَّ مِنْ مِیْرَاثِ وَارِثِہِ قَطَعَ اللَّہُ میراثَہ من الجنۃِ یومَ القیامۃِ۔( ابن ماجہ حدیث: ۲۷۰۳)

            جو آدمی اپنے وارث کی میراث سے بھاگے گا (اس کومحروم کرے گا) اللہ تعالی قیامت کے دن اس کواس کی میراث جنت سے محروم کر دے گا۔

            اور ایک روایت میں ہے:  مَنْ قَطَعَ میراثاًفَرَضَہُ اللَّہُ قَطَعَ اللَّہُ میراثَہ مِن الجنۃِ۔ (سنن سعید بن منصور حدیث: ۲۸۵)

            جو شخص اس میراث کو کاٹے گا جو اللہ نے متعین اور فرض کیا ہے اللہ تعالی اس کی میراث کو جنت سے کاٹ دے گا۔

وارث کے لیے وصیت جائز نہیں
            حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الداع کے خطبے میں فرمایا: إنَّ اللَّہَ قَدْ أَعْطَی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ، فَلاَوصیۃَ لِوارثٍ‘‘۔ (أبو داؤد حدیث: ۲۸۷۰، ترمذی حدیث: ۲۱۲۰، ابن ماجہ حدیث: ۲۷۱۳)

            اللہ تعالی نے ہر حق والے کو اس کا حق دیدیا ہے؛لہٰذا وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے۔

            لیکن اگر کسی آدمی نے کسی وارث مثلاً چھوٹے بیٹے کے لیے کچھ مال کی وصیت کردی اورباقی ورثاء نے اس کی موت کے بعد اس کی اجازت دیدی تو پھر یہ جائز ہے اور وصیت نافذ ہوگی اور اس پر عمل کیا جائے گا؛ اس لیے کہ ایک حدیث میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: لاتجوزُ وصیۃٌ لوارثٍ إلاَّ أن یشائَ الورثۃُ۔ (سنن دارقطنی حدیث: ۴۱۵۵، فتح الباری:۵/۳۷۳)

            یعنی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ؛ مگر یہ کہ ورثاء چاہیں اور اس کی اجازت دیدیں۔

            اور مرقاۃ میں ہے:  فإنْ أَوْصَی، وَأَجَازَ باقی الورثۃِ صَحَّتْ۔ ( مرقاۃ، تحت حدیث رقم: ۳۰۷۳)

            یعنی اگر کوئی وارث کے لیے وصیت کرے اور باقی ورثاء اس کی اجازت دیدیں تو وصیت صحیح ہے۔

            غرض جمہور علماء اسی کے قائل ہیں کہ کسی وارث کے لیے وصیت کسی حال میں جائز نہیں ؛مگر جب کہ مورث کے مرنے کے بعد باقی ورثاء اس کی اجازت دیدیں ، پس اگر باقی ورثاء نے مورث (وصیت کرنے والے) کی موت کے بعد اس کی اجازت دیدی تو جمہور علماء اس کے جواز کے قائل ہیں۔ ان ہی میں سے امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ، اور احمد بن حنبلؒ ہیں۔ (التمہید لما فی الموطأ من المعانی والأسانید: ۱۴/۳۰۶، تحت حدیث رقم: ۳۸)

غیر وارث رشتے دار کے لیے وصیت کرنا مستحب
            وہ رشتے دار اور خویش واقارب جو وارث نہیں ہیں جیسے خالہ، پھوپھی، نواسہ، نواسی، بیٹے کی موجودگی میں پوتا پوتی جن کا باپ مرگیا ہے، وغیرہ، ان کے لیے وصیت کرنا مستحب ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مساکین پر صدقہ کرنے سے صدقہ کا ثواب ملے گا اور ذورحم محرم رشتے دارپر صدقہ کرنے سے دو ثواب ملیں گے: صدقہ کا ثواب اور صلہ رحمی کا ثواب۔ (شرح البخاری لابن بطال، باب الصدقۃ عند الموت: ۸/۱۵۵)

            عن سلمان بن ربیعۃ الضبیّ ؓقال : سمعتُ رسولَ اللَّہِ صلّی اللَّہ علیہ وسلَّم: الصدقۃُ علی المساکینِ صدقۃٌ، وہِیَ علی ذِیْ الرحمِ ثنتانِ۔ (مکارم الأخلاق للخراطی، باب ماجاء فی الصدقۃ علی ذی الرحم من الفضل: ۱/۱۰۵)

میراث سے محروم یتیم پوتے پوتیوں کو دادا فراموش نہ کرے
            اسلام کا یہ حکم ہے کہ اگر بیٹا مرجائے تودوسرے بیٹوں کی موجودگی میں پوتے، پوتیاں محرو م ہو جائیں گے، ان کو دادا کی میراث سے کچھ نہیں ملے گا ، اسلام اور شریعت کے اس حکم پر غیر اور بعض مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں ؛ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت نے دادا کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے مال میں سے جتنا چاہے ان کو دے سکتا ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے، اسی طرح زندگی کے آخری لمحات یعنی مرض الموت میں بھی ثلث مال میں وصیت کرکے جتنا چاہے اپنے پوتے اور پوتیوں کو دے سکتا ہے، اس پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دی کہ ’’ذی رحم رشتے دار کو صدقہ کرنے اور مال دینے سے ڈبل اجر ملے گا، صدقے کا، اور صلہ رحمی کا‘‘؛ لیکن خود دادا ہی معاشرے اور سماج کے اس پروپگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے کہ پوتا محروم ہوگیا، اور شریعت نے اس کو ہبہ وعطیہ کے ذریعے ان بے چارے پوتے پوتیوں کو مال دینے کاجو اختیار کلی دے رکھا ہے ، اس کو وہ استعمال نہیں کرتا ہے؛ اس لیے اس طرح کی صورت حال میں جو آدمی مبتلا ہوجائے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث پر عمل کرکے اپنے یتیم پوتے اور پوتیوں کو ضرور کچھ دیدے؛ تاکہ وہ دردر کی ٹھوکریں کھاتے نہ پھریں اور دوسروں کا دست نگر نہ بنیں اور غیر کو شریعت کے حکم کو نشانہ بنانے کا موقع بھی نہ ملے۔

            اور بدائع الصنائع میں ہے:

          الوصیۃُ بالثلثِ لأقاربِہ الذینَ لایرثونَ أفضلُ مِنْ الوصیۃِ بہ للأجانبِ۔ (ا/۳۳۱)

            یعنی غیر وارثین اعزہ واقارب کے لیے تہائی مال کی وصیت کرنا افضل ہے۔

            اور تفسیر ابن کثیر میں ہے:

          اَلأقاربُ الّذینَ لا میراثَ لَہُمْ یستحبُّ لہ أن یُوصی لہم من الثلثِ۔ (۱/۴۹۴)

            یعنی وہ رشتے دار جن کے لیے کوئی میراث نہیں ہے ، مرنے  والے کے لیے مستحب ہے کہ ان کے لیے تہائی مال میں سے وصیت کردے۔

وراثت سے محروم رشتہ داروں کی دلداری ضروری

            اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم میں ہدایت فرمائی ہے:  وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَأُولُوا الْقُرْبَی وَالیَتَمَی وَالْمَسَاکِیْنُ فَارْزُقُوْہُمْ مِنْہُ وَقُوْلُوا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفاً۔ (سورۂ نساء:۸)

            اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ وارثوں میں ترکہ تقسیم کے وقت ان رشتے داروں کو بھی کچھ دے دو جن کا میراث میں حق نہیں ہے اور یتیموں اور مسکینوں کو بھی اس میں سے کچھ دیدو۔

مال کم ہو تو وصیت نہ کرے
            اگر مال کم ہو اور ورثاء غریب ومحتاج اور فقیر ہوں تو افضل یہ ہے کہ بالکل وصیت نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا:تم اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑواس سے بہتر ہے کہ تم ان کو فقیر ومحتاجگی کی حالت میں چھوڑواور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔ (بدائع: ۷/۳۳۱، بخاری حدیث: ۲۷۴۲)

          والأفضلُ لِمَنْ لَہُ مالٌ قلیلٌ أَنْ لاَ یُوْصِی إِذَا کَانَتْ لَہ وَرَثَۃٌ۔ (عالم گیری: ۶/۹۰، بحر: ۸/۴۶۱)

            جس کا مال کم ہو اور اس کے وارثین ہوں اس کے لیے افضل یہ ہے کہ وصیت نہ کرے۔

            اگر ورثاء نابالغ ہوں خواہ مال دار ہی کیوں نہ ہوں تو اس وقت کل مال کو ورثاء کے لیے چھوڑنا افضل ہے اور وصیت نہ کرنا بہتر ہے۔(درمختار مع الشامی، نعمانی: ۵/۴۱۸)

مال کثیر ہو تو وصیت کرنا مستحب
            اگر مال کثیر ہوں اور ورثاء مال دار ہوں توثلث، یا اس سے کم مال کی وصیت کرنا افضل ومستحب ہے۔( بدائع: ۷/۳۳۱، درمختار مع الشامی، نعمانی: ۵/۴۱۸)

جس کا کوئی وارث نہ ہو کل مال کی وصیت کردے
            جس کا کوئی وارث نہ ہو اور اس پر دین نہ ہو تو اس کے لیے اولی اور بہتر یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اپنے ہاتھ سے صدقہ خیرات کرے اور موت سے قبل کل مال کی وصیت کردے۔ قال فی الحاوی القدسی: مَنْ لاَوَارِثَ لَہُ، وَلاَعَلَیْہِ دَیْنٌ، فالأولَی أن یوصِی بجمیعِ مالِہ بعدَ التَّصَدَّقِ بِیَدِہِ۔ (شامی نعمانی: ۵/۴۱۸)

            اور اس کے کل مال کی وصیت نافذ ہوجائے گی۔  وَلَوْ أَوْصَی بِجَمِیْعِ مَالِہ ، وَلَیْسَ لَہُ وَارِثٌ نَفَذَتِ الوصیۃُ۔ (عالم گیری: ۶/۹۰)

تقسیم میراث میں یتیم کا پورا خیال رکھے
            جب کوئی شخص وفات پا جاتا ہے تواس کے مال کے ہر ہر حصہ اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے ساتھ ہر وارث کا حق متعلق ہو جاتا ہے، اس کے نابالغ بچے یتیم ہوتے ہیں ، ان بچوں کے ساتھ عموماً ہر گھر میں ظلم وزیادتی کا برتاؤ ہوتا ہے، اور ہر وہ شخص جو ان بچوں کے باپ کی وفات کے بعد مال پر قابض ہوتا ہے، خواہ ان بچوں کا چچا ہو، یابڑا بھائی ہو، یا والدہ، یا اور کوئی ولی یا وصی ہو، اول تو سالہا سال  مال کو تقسیم کرتے ہی نہیں ، ان بچوں کی روٹی کپڑے پر تھوڑا بہت خرچ کرتے رہتے ہیں ، پھر بدعات، رسومات اور فضولیات میں اسی مال مشترک سے خرچ کیے چلے جاتے ہیں ، اپنی ذات پر بھی خرچ کرتے ہیں اور سرکاری کاغذات میں نام بدلوا کر اپنے بچوں کا نام لکھواتے ہیں ، یہ وہ باتیں ہیں جن سے بعض گھرہی خالی رہتا ہوگا۔ (معارف القرآن: ۲/۳۱۶)

             رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک قوم قیامت کے دن اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے منہ آگ سے بھڑک رہے ہوں گے، صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ کون لوگ ہوں گے، آپ نے فرمایا: کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا؟: إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا، إِنَّمَا یَأْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا، وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۔  جو لوگ یتیموں کے مال ناحق کھاتے ہیں وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھر رہے ہیں ، اور عنقریب آگ (جہنم) میں داخل ہوں گے۔ (تفسیر ابن کثیر:۱/۵۹۶)

ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس سے میت کے لیے صدقہ وخیرات نہ کرے
            ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس میں سے مہمانوں کی خاطر تواضع اور صدقہ وخیرات کچھ جائز نہیں ، اس طرح کے صدقہ وخیرات کرنے سے مردے کو کوئی ثواب نہیں پہنچتا؛ بلکہ ثواب سمجھ کر دینا اور بھی زیادہ سخت گناہ ہے؛ اس لیے کہ مورث کے مرنے کے بعد اب یہ سب مال تمام وارثوں کا حق ہے اور ان میں یتیم بھی ہوتے ہیں ، اس مشترک مال میں سے دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کا مال چُراکر میت کے حق میں صدقہ کر دیا جائے۔ پہلے مال تقسیم کر دیا جائے، اس کے بعد اگر وہ وارث اپنے مال میں سے اپنی مرضی سے میت کے حق میں صدقہ وخیرات کریں تو ان کو اختیار ہے ۔

            تقسیم سے پہلے بھی وارثوں سے اجازت لے کر مشترک ترکہ میں سے صدقہ خیرات نہ کریں ؛ اس لیے کہ جو ان میں یتیم ہیں ان کی اجازت تو معتبر ہی نہیں اور جو بالغین ہیں وہ بھی ضروری نہیں کہ خوش دلی سے اجازت دیدیں ، ہوسکتا ہے وہ لحاظ کی وجہ سے اجازت دینے پر مجبور ہوں اور لوگوں کے طعنوں کے خوف سے کہ اپنا مردہ کے حق میں دو پیسے تک خرچ نہ کیے، اس عار سے بچنے کے لیے با دل ناخواستہ ہامی بھر لے۔۔۔۔۔ حالاں کہ شریعت میں صرف وہ مال حلال ہے جب کہ دینے والا طیب خاطر سے دے رہا ہو۔

             پہلے مال بانٹ لیں جس میں مرنے والے کی اولاد، بیوی، والدین، بہنیں ، جس جس کو شرعاً حصہ پہنچتا ہے اس کو دیدیں ، اس کے بعد اپنی خوشی سے جو شخص چاہے مرنے والے کی طرف سے خیرات کریں ، یا مل کر کریں تو صرف بالغین کریں ، نابالغ کی اجازت کا بھی اعتبار نہیں ، اور جو وارث غیر حاضر ہو اس کے حصے میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف درست نہیں۔  (معارف القرآن: ۲/۳۱۶،  ۳۱۷)

استحقاق میراث کا ضابطہ
          ,, لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ‘‘۔  الخ۔ (سورۂ نساء: ۷)

            مردوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے۔

            اس آیت میں وراثت کے دو بنیادی اصول بتلائے گئے ہیں : ایک رشتۂ ولادت جو اولاد اور ماں باپ کے درمیان ہے، جس کو لفظ  والدان  سے بیان کیا گیا، دوسرے عام رشتے داری جو لفظ اقربون  کا مفہوم ہے۔پھر اس لفظ نے یہ بھی بتلادیا کہ مطلق رشتہ داری وراثت کے لیے کافی نہیں ؛ بلکہ رشتہ میں اقرب (زیادہ قریب ) ہونا شرط ہے۔ نیز اسی لفظ اقربون  سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ مالِ وراثت کی تقسیم ضرورت کے معیار سے نہیں ؛بلکہ قرابت کے معیار سے ہے؛ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ رشتے داروں میں جو زیادہ غریب اور حاجت مند ہو اس کو زیادہ وراثت کا مستحق سمجھا جائے؛ بلکہ جو میت کے ساتھ رشتہ میں قریب تر ہوگا وہ بہ نسبت بعید کے زیادہ مستحق ہوگا، اگرچہ ضرورت وحاجت بعید کو زیادہ ہو،  اگر اقربیت کے ضابطہ کو چھوڑ کر بعض رشتے داروں کے محتاج، یا نابالغ ہونے کو معیار بنا لیا جائے تو نہ اس کا ضابطہ بن سکتا ہے اور نہ ایک طے شدہ مستحکم قانون کی شکل اختیار کر سکتا ہے؛ کیوں کہ اقربیت کے علاوہ دوسرا معیار لا محالہ وقتی اجتہادی ہوگا؛ کیوں کہ فقروحاجت کوئی دائمی چیز نہیں ؛ اس لیے کہ حالات بھی بدلتے رہتے ہیں ، درجات بھی، ایسی صورت میں استحقاق کے بہت سے دعویدار نکل آیا کریں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو ان کافیصلہ مشکل ہوگا۔

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
            اگر اس قرآنی اصول کو سمجھ لیا جائے تو یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ جو بلاوجہ آج کل نزاعی مسئلہ بنا دیا گیا ہے، وہ خود بخود ایک قطعی فیصلہ کے ساتھ حل ہو جاتا ہے کہ اگرچہ یتیم پوتا بہ نسبت بیٹے کے ضرورت مند زیادہ ہو ؛ لیکن ’’اقربون‘‘کے قانون کی رُو  سے وہ مستحق وراثت نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ وہ بیٹے کی موجودگی میں اقرب  یعنی زیادہ قریب نہیں ہے؛ البتہ اس کی ضرورت رفع کرنے کے لیے دوسرے انتظامات اور صورتیں ہیں جو ماقبل میں بیان ہو چکی ہیں۔  (معارف القرآن: ۲/۳۱۰،۳۱۱)

مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم کرنے کی تاکید
            قرآن کریم میں اللہ تعالی نے میراث کے حصوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:  وَصِیَّۃً مِّنَ اللَّہِ۔ (یہ حکم ہے اللہ کا) یعنی جو کچھ حصے مقرر کیے گئے اور دین اور وصیت کے بارے میں جو تاکید کی گئی اس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے، اللہ پاک کی طرف سے ایک عظیم وصیت اور مہتم بالشان حکم ہے، اس کی خلاف ورزی نہ کرنا، پھر مزید تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:  وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘‘۔ یعنی اللہ تعالی سب جانتا ہے اور اس نے اپنے علم سے ہر ایک کا حال جانتے ہوئے حصے مقرر فرمائے، جواحکام مذکور پر عمل کرے گااللہ کے علم سے وہ نیکی باہر نہ ہوگی اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کی یہ بد کرداری بھی اللہ کے علم میں آئے گی جس کی پاداش میں اس سے مواخذہ کیا جائے گا۔ (معارف القرآن: ۲/۳۳۱)

            میراث کے احکام کو بیان فرمانے کے بعد ان احکام کو ماننے اور اور ان پر عمل کرنے کی فضیلت اور نافرمانی کرنے کی بری عاقبت کو اللہ تعالی نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:  تِلْکَ حُدُوْدُ اللَّہِ، وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُوْلَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا، وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُوْلَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا، وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۔  (سورۂ نساء: ۱۳،۱۴)

            یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ کی، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور اس کے حکم پر چلے گااللہ تعالی اس کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گااور اس کی حدوں سے نکلے گااور تجاوز کرے گااس کو ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

            صاحب تفسیر روح المعانی فرماتے ہیں :  وفی ختمِ آیاتِ المواریثِ بہذہ الآیۃِ إشارۃٌ إلی عظمِ أمرِ المیراثِ، ولزومِ الاحتیاطِ والتحریِّ، عدمِ الظلمِ فیہ۔  (۲/۴۴۳)

            یعنی میراث کی آیتوں کو اس مذکورہ آیت کے ذریعہ ختم کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ میراث کا معاملہ عظیم الشان ہے، اس میں احتیاط لازم اور ضروری ہے اور تقسیم میراث میں ظلم نہ ہو۔

—————————————–
—————————————–




میراث کے معاملہ میں کوتاہیاں  اور ذمہ داریاں
 

فطرتِ انسانی:
انسان کی فطرت اگرزندہ ہواور اس میں غوروفکرکی صلاحیت موجود ہو تو اسے جگانے اورحر کت میں لانے کے لئے ایک جملہ اور ایک بول بھی کافی ہو جاتاہے ،لیکن اگرانسان کی فطرت مردہ ہو چکی ہو، بصارت وبصیرت پر کفر وعصیا ن کے پردے پڑے ہوئے ہو ں تو پھر انسان کو بیدار کرنے اور حرکت میں لانے کے لئے تحریر کے سینکڑوںدفاتر،اور ہزاروں بیانات اور کائنات میں موجود لاتعداد مظاہرِ قدرت بھی ناکافی پڑ جاتے ہیں۔
   آفاق وانفس میںخالق کائنات نے بے شمار دلائل وحدانیت اور آیات وبراھین برائے ہدایت ودیعت فرمائے ہیں ،اگر انسان صرف اپنی خلقت میںغو ر و فکرکرے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب اس کی ذات کا کوئی وجود نہ تھا،وہ بالکل معدوم تھا، اللہ جلّ شانہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے وجود بخشا،رحم مادر سے لے کرمامتا کی آغوش تک اور وہاں سے لے کر قبر کی گود تک،تمام مراحل میں اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا مکمل انتظام فرمایا،انسان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ،کسی طرح کا کوئی کمال نہیں،یہ تو محض اس رحیم وکریم آقا کی مہربانی اورانعام و احسان ہے۔
 اسبابِ زندگی:
 انسان کی ضرورتیںعام طور سے دارالاسباب میںمال و زر سے مربوط ہیں۔مال ودولت انسانی تقاضوںکو پوراکرنے کا ایک بہترین ذریعہ اور سبب ہے ،اس لئے فطری طور پر انسان کی طبیعت میںمال کی محبت پائی جاتی ہے ،اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اس لئے اس نے انسان کونہ صرف حلال طریقے سے کمانے کی اجازت دی ہے ،بلکہ اس کی باقاعدہ ترغیب ارشاد فرمائی ہے،مال کمانے کے حلال ذرائع بتلائے ہیں،اس کے احکام کی وضاحت کی ہے ،حرام ذرائع کی نشاندہی کی ہے ،پھر حلال وحرام کی تمام تفصیلات سے آگاہ کرنے کے بعد حلال اموال سے متعلق حقوق واجبہ و نافلہ بتلائے،مال سے متعلق حقوق اللہ اور حقوق الناس دونوںکو واضح کیااور ان حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ۔
 تہذیب جدیداور جاہلی تہذیب میں مماثلت:
آج کا انسان جوتہذیب یافتہ اور روشن خیال ہونے کا دعویدارہے، مادی ترقی میں زمینوں کو تہہ وبالا کرنے کے بعد آسمانوںکی تسخیر کے خواب دیکھ رہا ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنی زیادہ تسخیر کائنات ہوتی جارہی ہے، انسان اتناہی زمانۂ جاہلیت کے قریب سے قریب ترہوتا جارہا ہے۔جاہلیت کی تہذیب وتمد ن کو روشن خیالی اور ترقی کا جامہ پہنا کر اپنایا جارہا ہے ، حضرت مولانا ذکی کیفی مرحوم نے کیا خوب فرمایا:
’’زمانہ جاہلیت میںلوگ جس طرح کفر وشرک میں مبتلا تھے،طرح طرح کی ظالمانہ رسمیں رائج تھیں ،غلاموںپر بے جاتشدد کرنا،لڑکیوں کو زندہ در گورکرنا،یتیموں اور بیوائوں کامال ہڑپ کرجانا،اورعورتوںکو ان کے جائزحقوق سے بھی محروم کرناعام تھا،اسی طرح اس وقت آج کے تہذیب یافتہ دور کی طرح یہ بھی رائج تھاکہ مرنے والے کا مال صرف اور صرف وہ مرد لیتے تھے جو جنگ کے قابل ہوں،باقی ورثاء، یتیم بچے ،عورتیں،روتے اور چلاتے رہ جاتے،ان کے قوی طاقتورچچااوربھائی ان کی آنکھوں کے سامنے تمام مال ومتاع پرقبضہ جما لیا کرتے تھے‘‘۔
 بعثت نبوی ﷺ کے نتائج:
حضور اکرم اکی بعثت سے جہاںکفر و شرک کافور ہوا اور دیگر تمام باطل رسموںکی اصلاح ہوئی ،اسی طرح یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔دنیائے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کی پاکیزہ معاشرت میں زندگی گزارنے لگی۔
 اسبابِ میراث:
 زمانۂ جاہلیت میں جن اسباب کی وجہ سے آدمی کو میراث ملتی تھی ،ان میں ایک سبب ’’نسب‘‘ تھا،دوسرا ’’معاہدہ‘‘ (یعنی ایک دوسرے سے خو شی وغم میں تعاون کریںگے ،ایک مرے گا تو دوسرا اس کا وارث بنے گا،اس بات کا معاہدہ کیا جاتاتھا )تیسراسبب ’’متبنٰی‘‘(یعنی منہ بولا بیٹا)وارث بنتا تھا،اس کے علاوہ ابتدائے اسلام میںان اسباب کے ساتھ ساتھ مواخات وہجرت کی وجہ سے بھی میراث میں حصہ تھا،جو حقیقت میں معاہدہ کی ایک صورت تھی ۔
 وصیت کاحکم:
 اللہ رب العزّت حکیم وعلیم ذات ہے ،چونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے حالات سے پوری طرح واقف و باخبر ہے،اس لئے اپنی حکمت وعلم کے پیش نظر زمانۂ جاہلیت کی رسموں کی اصلاح کے سلسلے میں تدریجاًاحکامات نازل فرمائے ،اس سلسلے میںسب سے پہلے یہ حکم نازل فرمایا کہ: ہر شخص موت سے پہلے اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے اپنی رائے سے مناسب وصیت کرے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’کتب علیکم إذاحضر أحدکم الموت إن ترک خیران الوصیۃ للوالدین والأقربین بالمعروف۔۔۔۔۔۔۔الخ‘‘۔                      (البقرۃ:۱۸۰) 
ترجمہ:۔’’تم پر یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ جب تم میںسے کسی کی موت کاوقت آئے تو وہ مال کے بارے میںبھلائی سے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت چھوڑجائے ،جن کوخداکا خوف ہے، ان کے ذمّہ یہ ضروری ہے۔
 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ بیان القرآن(۱:۱۱۵)اس آیت کی تفسیرمیں رقمطراز ہیں:
’’شروع اسلام میںجب تک میراث کے حصے شرع سے مقررنہ ہوئے تھے، یہ حکم تھاکہ ترکہ کے ایک ثلث تک مردہ اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کو جتنا مناسب سمجھے، بتلا جاوے ۔اتناتو ان لوگوں کاحق تھا، باقی جو کچھ رہتاوہ سب اولاد کا حق ہوتا تھا۔اس آیت میںیہ حکم (یعنی وصیت)۔۔۔۔۔ا س حکم کے تین جزو تھے: ایک جزو: اولاد کے اوردوسرے ورثاء کے حصص وحقوق ترکہ میںمعین نہ ہونا۔دوم: ایسے اقارب کے لئے وصیت کا واجب ہونا۔ تیسرے: ثلث مال سے زیادہ وصیت کی اجازت نہ ہونا،پس پہلا جزو تو آیتِ میراث سے منسوخ ہے۔ دوسراجزحدیث سے جو کہ مؤید بالاجماع ہے، منسوخ ہے ۔اور وجوب کے ساتھ جواز بھی منسوخ ہو گیا،یعنی وارث شرعی کے لئے وصیتِ مالیہ باطل ہے۔تیسراجزواب بھی باقی ہے، ثلث سے زائد میںبالغ ورثاء کی رضاء کے بغیر وصیت باطل ہے۔‘‘
 حضور اقدس  انے ارشاد فرمایا:
’’ماحق امرئٍ مسلم لہ شیٔ یوصی فیہ یبیت لیلتین إ لا ووصیتہ مکتوبۃعندہ‘‘۔                            (صحیح البخاری ،کتاب الوصایا،  رقم الحدیث:۲۵۸۷)
ترجمہ:۔’’کسی بھی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو جس کی وصیت کرنا ہو تو اس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں کہ دو راتیں گذرجائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو‘‘۔۔ 
 حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’من مات علٰی وصیتہ مات علی سبیل و سنّۃ ومات علی تُقی و شھادۃ و مات مغفوراً لہ‘‘۔                    (سنن ابن ماجہ،کتا ب الوصایا ،رقم الحدیث:۲۷۰۱)
ترجمہ:۔’’جس شخص کو وصیت پر موت آئی (یعنی وصیت کر کے مرا)و ہ صحیح راستہ اور سنت پر مرا،اور تقوی اور شہادت پر مرا،اور بخشا ہوا ہونے کی حالت میں مرا‘‘۔
وصیت کے حوالے سے بتدریج احکامات نازل ہوئے، ان پر عمل ہوتا گیا تو پھر میراث کے حوالے سے تدریجاًاحکامات نازل ہونا شروع ہوئے،اس سلسلے میں سب سے پہلا حکم یہ نازل ہو ا کہ میراث جیسے مردوں کاحق ہے ،اسی طرح عورتوں کا بھی حق ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی نازل ہوا:
 ’’ للرجا ل نصیب مما ترک الوالدان والأقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان والأقربون مما قل منہ أو کثر نصیباً مفروضاً‘‘۔ (النساء:۷)
ترجمہ:۔’’مردوں کے لئے بھی حصہ ہے اس(مال)میں جو ما ںباپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ،خواہ وہ چیز کم ہو یا زیادہ ،حصہ بھی ا یسا جو قطعی طور پر مقررہے‘‘۔
  اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر کچھ یوں ہے ،تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت اوس بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کا انتقال ہواتو پسماندگان میں اہلیہ ام کُجّہؓ اور تین بیٹیاںچھوڑیں،حضرت اوس بن ثابتؓ کے چچازاد بھائی سوید اور عرفجہ جو ان کے وصی بھی تھے ،انہوں نے سارامال خود لے لیا اور ام کجہؓ اور حضرت اوس رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کو جائیداد میں حصے سے محروم کر دیا،مظلومو ں کا ماوی اور ملجا حضور اقدس اکے علاوہ کون تھا؟!چنانچہ ام کجہؓ حضوراکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور سارا ماجرا عرض کیا تو حضورانے فرمایا: اپنے مکان لوٹ جائو ،جب تک اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ نہ آئے تم صبر کرو ،اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اجمالی طور سے اس آیت میں زمانۂ جاہلیت کے اس عمل کی نفی فرمائی اور میراث میں عورتوں کا حصہ ہونے کا حکم بھی ارشاد فرمایاکہ میراث صرف مردوں کا حق نہیں،بلکہ اس میں عورتوں کا بھی حق ہے، اس آیت کے نازل ہونے پر حضور انے سُوید اور عرفجہ کو حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں عورتوں کا بھی حصہ مقرر فرمایاہے ، لہٰذا تم اوس بن ثابتؓ کے مال کو بحفاظت رکھنا ،اس میں سے کچھ خرچ نہ کرنا۔
 تفسیر مظہری میںہے کہ اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا اورعورتوںکا حصہ ابھی تفصیلی طور سے بیان نہیں کیا گیا تھاکہ دوسرا واقعہ پیش آیا، تین ہجری اُحد کی لڑائی میں جلیل القدر صحابی سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ،ان کی شہادت پر حسب دستور بھائیوں نے تمام مال و جائیداد پر قبضہ کر لیا اور ان کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو میراث سے محروم کر دیا،حضرت سعدؓ کی اہلیہ نے حضور  اکی بارگاہ اقدس میں آکر واقعہ بیان کیا کہ سب مال اُن کے چچا نے لیا ہے ،حضور انے ان کو بھی یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ صبر کرو، عنقریب اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ فرمادیں گے ۔
 میراث کے تفصیلی احکامات :
 تفسیرقرطبی ،مظہری اور روح المعانی میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے عورتوں اورلڑکیوں کا حصہ بیان کرنے کے لئے اس آیت کو نازل فرمایا:
 ’’یوصیکم اﷲ فی أولادکم للذَّکر مثل حظ الأنثیین۔۔۔۔۔الخ۔(النساء:۱۱)
ترجمہ:۔’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں جتنا حصہ ملے گا‘‘۔ 
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے والدین کو صاف صراحتاًحکم دیا ہے کہ جس طرح میراث میں بیٹوں کاحق ہے، اسی طرح بیٹیوں کابھی حق ہے ،اس آیت کے نازل ہو نے پر حضور اکرم  انے حضرت سعدؓ کے بھائی سے کہلوایا کہ اپنے بھائی کے مال میں سے دوثلث لڑکیوں کو اور آٹھواں حصہ ان کی بیوہ کو دو ،اور باقی مال تمہا را ہے ،اسلام کے قاعدۂ میراث کے مطابق سب سے پہلے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی میراث تقسیم ہوئی۔
زمانۂ حیات میں مال وجائیداد کی تقسیم:
  بعض حضرات اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد، اولاد و اقرباء میں تقسیم کر دیتے ہیں ،عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹو ں کو حصہ دیاجاتا ہے اوربیٹیوں اور بیوی کو محروم کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض بیٹیوں کو حج کروانے کا لالچ دے کر حصہ سے محروم رکھتے ہیں ،ان لوگوں کو حالتِ صحت میں اگرچہ مال میں تصرف کامکمل اختیار ہے،لیکن یاد رہے ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات اور اس کی روح و مقتضیٰ کے خلاف ہے ،چنانچہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: حضور اکرم  ااور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنوسلمہ میں میری عیادت کے لئے تشریف لائے ،مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، آپ انے پانی منگوایا ،وضو فرمایااور کچھ ھھینٹیںمجھ پر ماریں، مجھے کچھ افاقہ ہوا ،میں نے پوچھا:میں اپنامال کیسے تقسیم کروں؟ترمذی شریف کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ’’کیف اُقسم مالی بین ولدی ؟‘‘یعنی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنا مال کیسے تقسیم کروں ؟اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: ’’یوصیکم اﷲ فی أولادکم۔۔۔۔۔الخ‘‘۔
               (صحیح بخاری ،کتاب الجمعہ ،باب:من انتظر حتی تدفن،رقمـ:۴۵۷۷،صحیح مسلم،کتاب الفرائض،باب:میراث الکلالۃ،رقم:۴۲۳۱)
اس آیت میں والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ لڑکوںکی طرح لڑکیوںکو بھی مال میںسے حصہ دو۔
   مشکوٰۃ شریف کی ایک صحیح حدیث میں واردہوا ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعتِ خداوندی میں مشغو ل رہتے ہیں ،لیکن موت کے وقت وارثوں کو ضر رپہنچاتے ہیں، یعنی کسی شرعی عذر اور وجہ کے بغیر کسی حیلے سے یا تو حقداروں کا حصہ کم کر دیتے ہیں،یا مکمل حصے سے محروم کر دیتے ہیں، ایسے شخص کواللہ تعالیٰ سیدھے جہنم میں پہنچا دیتا ہے ۔
قارئین کرام !غورفرمائیں !میراث کے بارے میں اللہ کے ایک حکم کے سلسلے میںحیلے بہانوں سے کام لینے والوں کی تمام عمر کی عبادتیں ،نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰۃ، تبلیغ اور دیگر اعما ل ضائع ہونے کاقوی اندیشہ ہوتاہے ،بلکہ ایسے شخص کے بارے میںجہنم کی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے۔سنن سعید بن منصور کی روایت میںحضور اکا ارشاد گرامی ان الفاظ میں مروی ہے :
’’من قطع میراثاًفرضہ اﷲ قطع اﷲ میراثَہ من الجنۃ‘‘۔ (رقم:۲۵۸)
ترجمہ:۔’’ جو شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ وارث کو محروم کر ے، اللہ تعالیٰ اس کو جنت سے محروم کردیتے ہیں‘‘۔
عورتوں کا حصہ بیان کرنے میں قرآن کااسلوب:  
  معززقارئین ! آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشادمیں غور فرمائیں: ’’للذکر مثل حظ الأنثیین‘‘۔یعنی’’ لڑکے کو دو لڑکیوںجتناحصہ ملے گا‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے:’’ للأنثیین مثل حظ الذکر‘‘ نہیں فرمایا کہ دو لڑکیوں کو ایک لڑکے جتنا حصہ ملے گا،علامہ آلوسی ؒ نے روح المعانی میںلکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’للذکر مثل حظ الأنثیین‘‘ فرمایا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب صرف لڑکوں کو حصہ دیا کرتے تھے ،لڑکیوں کو نہیں دیتے تھے،ان کی اس عادت سیئہ پر رد اور لڑکیوں کے معاملے میںاہتمام کے لئے فرمایا کہ لڑکے کو دو لڑکیوں جتناحصہ ملے گا،گویا یہ فرمایا کہ صرف لڑکوں کو حصہ دیتے ہو ،ہم نے ان کاحصہ دوگنا کر دیا ہے لڑکیوں کے مقابلے میں،لیکن لڑکیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا،ان کو بالکلیہ میراث سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ’’ احکام ا لقرآن‘‘ میں اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’ہذہٖ الآیۃ رکن من أرکان الدین وعمدۃ من عمد الدین وأمّ من أمّہات الآیات ، فإن الفرائض عظیمۃالقدر ،حتی أنھا ثلث العلم ‘‘۔
ترجمہ:۔’’یہ آیت (یوصیکم اللّٰہ فی أولادکم)ارکان دین میں سے ہے اور دین کے اہم ستونوں میں سے ہے اور امہات آیات میں سے ہے، اس لئے کہ فرائض(میراث)کا بہت عظیم مرتبہ ہے ،یہاںتک کہ یہ ثلث علم ہے‘‘۔
 اس آیت کریمہ میں میراث کے احکام بیان فرمانے کے بعد، اس کے اخیر میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ’’تلک حدود اﷲ ‘‘یعنی یہ میراث کے احکام اللہ تعالی کی بیان کردہ حدود ہیں، ان حدود پر عمل کرنے والوں کے لئے بطورِ انعام وجزا کے فرمایا :
’’من یطع اﷲ ورسولہ ید خلہ جنّٰت تجری من تحتھا الأنھٰر خالدین فیھا وذالک الفوز العظیم ‘‘۔                                         (النساء:۱۳)
ترجمہ:۔’’جو اللہ اور اس کے رسول( ا) کی اس(میراث ) کے حوالے سے اطاعت کرے گا، اللہ تعالیٰ اُسے ایسی جنت میں داخل فرمائیںگے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیںگے ،اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔۔ 
 میراث کے سلسلے میں اللہ کے بیان کردہ احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کے لئے آگ اور ذلّت کاعذاب ہوگا ،ارشاد ربانی ہے :
’’ومن یعص اﷲ ورسولہ ویتعدّ حدود ہٗ یدخلہ ناراًخالداًفیھا ولہ عذاب مھین ‘‘۔                                                          (النساء:۱۴)
ترجمہ:۔’’جو اس میراث کے حوالے سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتاہے، اللہ اس کو آگ میں داخل کردیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لئے ذلت آمیز عذاب ہو گا‘‘۔
جاہلانہ طرز عمل :
 بیٹوں کو حصہ دے کر بیٹیوں کومحروم کرنا،یا بھائی اور چچا وغیرہ کا خود لے کر عورتو ں کو محروم کرنا،یہ زمانۂ جاہلیت کے کفار کاطرزعمل ہے ۔ حضرت مولاناسید اصغر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ محدث دارالعلوم دیو بندنے ’’مفید الوارثین ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
 ’’اللہ تعالیٰ کے واضح اور صریح حکم کو پس پشت ڈا ل کر ایک کافرانہ رسم پر عمل کرنا کوئی معمولی خطانہیںہے ،نہایت سرکشی اور اعلیٰ درجے کاجرم ہے ،بلکہ کفر تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے ‘‘۔
علم میراث وفرائض کی اہمیت وفضیلت:
 قارئین کرام !آج ہم نے جہاں شریعت کے دیگر علوم سے غفلت برتی ہوئی ہے، وہاں پر علم میراث سے عوام تو عوام ،خواص بھی ناواقف ہیں۔یاد رہے کہ میراث کا علم شریعت میں نہ صرف مطلوب ہے ،بلکہ اس کی بہت زیادہ اہمیت بھی ہے ،حضور اقدس  انے اُسے نصف علم قرار دیا ہے۔ دارقطنی میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور  انے فرمایا:
’’تعلمواالفرائض وعلمو ہ الناس ،فإنہ نصف العلم ،وہو أول شیٔ ینسی وہو أول شیٔ ینتزع من أمتی ‘‘۔                           (کتاب الفرائض رقم:۱)
ترجمہ:۔’’اے لوگو!فرائض(میراث)کے مسائل سیکھو ،بے شک وہ نصف علم ہے اوروہ(میراث کا علم)سب سے پہلے بھلا یا جائے گااور وہ سب سے پہلے میری امت سے اٹھایا جائے گا۔
   بہت سارے دیندار کہلانے والے لوگ جو نماز ،روزہ اور دیگر اسلامی احکام کے پابند تو ہوتے ہیں،ان کو ادھر اُدھر بہت ساری باتیں، قصے، کہانیاں تو یاد رہتی ہیں ،لیکن میراث کا کوئی ایک مسئلہ بھی ان کو معلوم نہیں ،یہ انتہائی درجہ غفلت کی بات ہے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس غفلت سے محفوظ رکھے ۔
ورثاء کے لئے مال چھوڑنا:
 یہ بات یاد رکھیںکہ اپنی اولاد اور ورثاء کے لئے مال چھوڑنابھی ثواب کاکام ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل کیاہے کہ:’’ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں فتح مکہ والے سال ایسا بیما ر ہو ا کہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا ابھی موت آنے والی ہے ۔ رسول اللہ امیری عیادت کے لئے تشریف لائے ،تو میںنے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سامال ہے ،میری صرف ایک ہی بیٹی کو میراث کاحصہ پہنچتا ہے ،تو کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں ؟آپ انے فرمایا: نہیں ،میں نے عرض کیا : آدھے مال کی وصیت کردوںـ؟آپ انے فرمایا :نہیں ۔میںنے عرض کیا:تہائی ما ل کی وصیت کردوں ؟آپ  انے فرمایا :تہا ئی کی وصیت کر سکتے ہو اور تہائی بھی بہت ہے ،پھر فرمایا :
’’إن تدع ورثتک أغنیائً ،خیراً من أن تدعہم عا  لۃ یتکفّفون الناس فی أیدیھم ‘‘۔(صحیح بخاری،کتاب الجمعہ ،رقم:۲۷۴۲)
ترجمہ:’’ تم اپنے ورثاء کومالداری کی حالت میں چھوڑجائو، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیںتنگدستی کی حالت میں چھوڑدو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں‘‘۔
آخر میں ایک دفعہ مکرّر یہ گزارش ہے کہ یتیموں،عورتوں،اور بیٹیوں کو میراث اور جائیداد میں حصے سے محروم کرنابہت بڑا جرم ہے اور گناہ ہے ،قانونِ خداوندی سے بغاوت کے مترادف ہے ،اس بارے میں کسی قسم کے حیلوں اور بہانوں کا سہارا نہ لیا جائے ،بلکہوراثت ایک اہم شرعی حکم

انتقال کے بعد پانچ کام

جس وقت کسی انسان (مرد یا عورت) کا انتقال ہوجاتا ہے اس کے بعد درج ذیل کام اسی ترتیب سے کیے جانے چاہئیں: پہلا کام :اُس کے متعلقین کو اطلاع دینا۔ دوسرا کام: میت کو غسل دینا۔ تیسراکام: اُس کو کفن پہنانا۔ چوتھاکام: اُس کی تدفین۔میت کی تدفین میں بلاوجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ پانچواںکام:اِن ابتدائی کاموں سے فارغ ہونے کے بعد سب سے پہلا کام میت کے ترکے کی تقسیم ہے۔جس کے لیے ورثاء کو بلاتاخیر فکرمند ہونا اور کوشش کرنی چاہیے۔

میت کے مال سے چار کام

اول:سب سے پہلے میت کے دفن تک ہونے والے ضروری اخراجات اُس کے ترکہ سے نکالے جائیں، مثلاً: کفن، قبر کی کھدائی کی اجرت، اگر ضرورت پڑے تو قبر کے لیے جگہ خریدنا۔ یہ اخراجات ترکے سے نکالے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر شرعی امور مثلاً: امام کے لئے مصلیٰ خریدنا وغیرہ کے اخراجات ترکے سے نہیں نکالے جائیں گے۔ تجہیزوتکفین کے اخراجات میں نہ تو فضول خرچی کی جائے اور نہ بخل سے کام لیاجائے گا۔ دوم:اس کے بعد باقی مال سے میت کے ذمے واجب الادا قرضہ جات ادا کیے جائیں گے۔ سوم: بیوی کا مہرشوہرکے ذمے قرض ہے، اگر ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تھا تو ترکے کی تقسیم سے پہلے اسے ادا کیا جائے گا۔ چہارم:اس کے بعد باقی مال سے جائز وصیت ایک تہائی (1/3)تک ادا کی جائے گی۔ یہ چار کام کر نے کے بعد جو باقی بچ جائے وہ قابلِ تقسیم ترکہ ہے۔ اب شرعی ضابطہ کے مطابق جس وارث کا،چاہے وہ مرد ہو یا عورت،جتنا حصہ بنتا ہو، اُسے دے دیا جائے اور جو وارث شرعی ضابطہ کے مطابق محروم ہوتا ہے اس کو محروم کر دیا جائے۔

تقسیمِ ترکہ سے پہلے کے کام:

ورثاء کو چاہیے کہ وہ ترکے کی تقسیم سے پہلے درج ذیل کام کرلیں: ۱…سب سے پہلے میت کی چھوڑی ہوئی ہر چھوٹی بڑی ،با قیمت یا بے قیمت چیز کی فہرست مرتب کرلیں۔اِس سلسلے میں دوسرے لوگ ورثاء کے ساتھ تعاون کریں اور جس کسی کے پاس میت کی کوئی بھی چیز موجود ہو ،وہ شرعی ورثاء کے نہ صرف علم میں لائے بلکہ وہ چیز ورثاء کو واپس بھی لوٹا دے اور اس کا ذکر فہرست میں آجائے۔ خود کسی شرعی وارث کے قبضے میں کوئی ایسی چیز ہو ،جس کی اصل مالک میت ہو، اُس کو بھی تمام ورثاء کے سامنے لاکر لکھوا لیا جائے، تاکہ میت کی زندگی میں اُس کی ملکیت میں پائی جانے والی کوئی بھی چیز اس فہرست سے باہر نہ رہ سکے۔ ۲…اِس کے بعد اِس فہرست میں ذکر کردہ تمام چیزوں کی اُس وقت کے حساب سے مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت لگوائی جائے اور شرعی ورثاء کے شریعت کے مقررکردہ حصوں کے مطابق ورثاء کے درمیان انہیں تقسیم کرلیا جائے۔ نوٹ:اس تقسیم کے فوری حکم کے باوجود بعض جگہ تقسیم کرنے سے قبل خود شریعت بھی انتظار کرنے کا حکم دیتی ہے، مثلاً :میت کی بیوہ اگر حاملہ ہو تو اس کی زچگی کے وقت کا انتظار کیا جائے گا، اِس لیے کہ بیوہ کے پیٹ کا بچہ یا بچی شرعی ورثاء میں شامل ہیں اور بچہ اور بچی کے شرعی حصے مختلف ہیں، لہٰذا اس حمل سے پیدا ہونے والے بچہ یا بچی کا انتظار ضروری ہے، تاکہ صحیح صحیح حساب ہوسکے۔ اگر اُس وقت ترکہ میں پائی جانے والی مالیت نہیں لگوائی گئی تو جس وقت بھی حساب ہوگا، اُس وقت کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق مالیت لگوائی جائے گی۔ شرعی تقسیم سے پہلے ترکے کی کسی چیز سے کسی ایک شرعی وارث کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔اگر ترکے کی تقسیم میں تاخیر ہورہی ہو،جیساکہ اوپر مذکورہ صورت میں یہ عین ممکن ہے،تو ایسی صورت میں جس وارث کے پاس ترکے کی جو چیز ہے،وہ اُس سے نفع اٹھانے سے کیسے بچ سکتاہے؟شریعت نے اِس کا بھی حل بتلایا ہے اوروہ یہ ہے کہ مثلاً:اگر وہ کوئی جائیداد ہے اور کسی شرعی وارث کے قبضے میں ہے تو وہ مارکیٹ کے حساب سے اُس کا کرایہ مقرر کردے اور وہ کرایہ ترکے میں شامل ہوکر شرعی ورثاء کے شرعی حصوں کے مطابق سے تقسیم ہو۔اسی طرح اگر میت کے ترکے کی چیزیں، کوئی ایک شریک وارث اپنے پاس رکھنا چاہے تو وہ دوسروں کے شرعی حصے خود خرید لے اور اپنے پاس سے اُن شریکوں کے کے حصوں کے مطابق رقم دے کر انہیں فارغ کردے۔

دورحاضرکاالمیہ:

میراث کی شرعی تقسیم میں کتنی کوتاہی ہوتی ہے ؟ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ میراث کے مسائل ہر عالم اور مفتی کو یاد بھی نہیں ہوتے اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے یہ مسائل پڑھے نہیں ہوتے ، بلکہ وجہ یہ ہے کہ اُن سے کوئی میراث کے مسائل پوچھنے والا ہی نہیں آتا ،حالانکہ ہر روز ہزاروں مسلمان فوت ہو رہے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ علماومفتیانِ کرام کے پاس میراث کے مسائل پوچھنے والوں کی لائنیں لگی ہوں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہر روز اتنی طلاقیں نہیں ہوتیں جتنے انسان فوت ہو رہے ہیں، لیکن طلاق کے مسائل پوچھنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ یوں توحرام مال کھانے کے بے شمار ذرائع ہیں اور اللہ تعالی کے بے شمار ایسے بندے ہیں، جو اِ ن ذرائع سے بچتے ہیں؛ مگر شرعی تقسیمِ میراث ایک ایسا فریضہ ہے جس میں کوتاہی کے مرتکب بڑے بڑے دین دار لوگ بھی ہیں۔ کئی لوگ سود، چوری، جھوٹ اور فریب سے تو بچتے ہیں، لیکن میراث کے باب میں دوسروں کے حقوق کھا کر آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں بھرتے ہیں،اور اس قدر سنگین گناہِ کبیرہ کرکے بھی اُن کا ضمیر اُنہیں ذرا بھی ملامت نہیں کرتا،گویا اسے کوئی جرم سمجھتے ہی نہیں،خاص طور پر گھر کی خواتین کی میراث کو تو شیرِمادر(ماں کا دودھ)سمجھ کر ہضم کرلیا جاتا ہے۔

اسلاف کی احتیاط:

میراث کے مسئلے میں اسلاف بہت احتیاط کرتے تھے۔ایک بزرگ اپنے ایک دوست کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہاں گئے تو اُن کو نزع کی حالت میں پایا، چنانچہ تھوڑی دیر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہاں چراغ جل رہا تھا ،آپ نے فوراً اُسے گل کردیا اور اپنے پاس سے پیسے دے کر تیل منگوایا اور اس سے چراغ روشن کیا، اور فرمایا کہ وہ تیل مرحوم کی ملک اُسی وقت تک تھا جب تک کہ وہ زندہ تھے، اور انتقال ہوتے ہی اب تمام وارث اُس کے مالک ہوگئے، جس میں بعض ورثاء یتیم ہیں ، بعض غائب ہیں، اس لیے اِس کا استعمال جائز نہیں۔ میراث کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر ذیل میں میراث سے متعلق ضروری باتیں اور بنیادی تفصیلات ذکرکی جاتی ہیں،جن کا جاننا اوراِن کے مطابق عمل کرناہر مسلمان مرد وعورت کے لیے ضروری ہے۔جہاں تک میراث کی ورثا ء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کا تعلق ہے تو اِس کے لیے یہ رسالہ کافی نہیں۔جس کسی کو میراث تقسیم کرانی ہو،اسے چاہیے کہ وہ اپنے شہر کے کسی بڑے دارالافتاء جاکر مفتیانِ کرام سے میراث کی تقسیم کرائے۔

وراثت یاترکہ کیاہے؟

۱… وَرَاثت:یہ عربی اور اردو زبان کا لفظ ہے، جو واؤ کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ بولا جاتا ہے۔ وراثت کے لغوی معنیٰ وَرَثَہ، مِیْرَاثْ اور تَرْکَہْ کے ہیں۔ اصطلاح میں وراثت اُس مال، جائیداد ، سونا، چاندی، زیورات و دیگر اشیا ء بشمولِ قابلِ وصولی قرضہ جات (Receivable loans)وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو مَر جانے والا/والی اپنی مکمل ملکیت میں چھوڑ کر مرے ، چاہے وہ مال ذاتی کمائی سے حاصل ہُوا ہو یا کہیں سے جائز طور پر ہدیۃً (تحفتاً) یا وراثتاً مِلا ہو۔ وراثت، ورثہ، میراث، ترکہ یہ سب ہم معنی الفاظ ہیں،لہٰذا کبھی ایک کی جگہ دوسرا لفظ بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔عربی میں اس کے لیے ایک اور لفظ’’ اَلْارِثْ‘‘ بھی بولاہے۔جبکہ اسے انگریزی میںInheritance اورHeritageکہتے ہیں۔

میراث کی اہمیت:

میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآنِ مقدس میں اِس کی تفصیلات کو کئی آیات میں بیان کیا ہے۔ دیگر کئی احکام بھی قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں،مگر اللہ رب العزت نے ان کی جزئیات کو بیان نہیں کیا،مثلاً:نماز،جو کلمے کے بعد سب سے بڑا رکن ہے،اُس کی فرضیت کوتو اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں جگہ بیان فرمایا ہے،مگر اس کی رکعتوں اور طریقۂ کا ر کو بیان نہیں فرمایا؛ لیکن میراث کی اہمیت کے پیش نظر اس کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور ورثا ء کے حصوں کو بھی بیان فرمایا۔

وراثت کے ذریعے جو ملکیت ورثا ء کی طرف منتقل ہوتی ہے، وہ جبری ملکیت ہے، نہ تو اِس میں وراثت کا قبول کرنا شرط ہے اور نہ وارث کا اِس پر راضی ہونا شرط ہے، بلکہ اگر وہ اپنی زبان سے صراحتاً یوں بھی کہہ دے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا/لیتی تب بھی شرعاً وہ اپنے حصے کا مالک بن جاتا/جاتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنے حصے کو قبضے میں لینے کے بعد شرعی قاعدے کے مطابق کسی دوسرے کو ہدیہ کر دے یا بیچ ڈالے یا تقسیم کر دے۔(عزیزالفتاویٰ صفحہ 78،معارف القرآن،مفتی محمد شفیعؒ، جلد2ص312)

میراث اور احادیثِ طیبہ:

میراث کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضور اقدس ﷺ نے علمِ میراث سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل بتائے اور میراث میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے وعیدیں سنائی ہیں۔ذیل میں میراث کی اہمیت و فضیلت اور اِس میں کوتاہی کرنے والوں کے بارے میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں۔

۱…۔حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا تم علم فرائض(علم میراث)سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ، کیونکہ میں وفات پانے والا ہوں اور بلاشبہ عنقریب علم اٹھایا جائے گا اور بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے، یہاں تک کہ دو آدمی حصۂ میراث کے بارے میں باہم جھگڑا کریں گے اور انہیں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا، جو اُن کے درمیان اس کا فیصلہ کرے۔(مستدرک حاکم، جز4صفحہ369) ۲…ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:تم فرائض(میراث)سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ،کہ وہ نصفِ علم ہے ،بلاشبہ وہ بھلا دیا جائے گا اور میری امت سے یہی علم سب سے پہلے اُٹھالیا جائے گا۔(ابن ماجہ صفحہ 195) ۳…جمع الفوائد میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ عالم جو فرائض (میراث )نہ جانتا ہو، ایسا ہے جیسا کہ بے سر کے ٹوپی (یعنی اس کا علم بے زینت و بے کار ہے۔) ۴…حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدس ﷺ نے فرمایا :جس نے کسی وارث کے حصۂ میراث کو روکا تو اللہ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کے حصے کو روکیں گے۔(مشکاۃ المصابیح صفحہ 266) ۵…ایک صحیح حدیث کا مضمون ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعتِ خداوندی میں مشغول رہتے ہیں، لیکن موت کے وقت میراث میں وارثوں کو ضرر پہنچاتے ہیں(یعنی بلاوجۂ شرعی کسی حیلے سے محروم کر دیتے ہیں یا حصہ کم کر دیتے ہیں)توایسے شخصوں کو اللہ تعالیٰ سیدھا دوزخ میں پہنچا دیتا ہے۔(مشکاۃ المصابیح صفحہ 265)

تقسیم میراث کے اہم اصول:

ترکہ میت کے اُس چھوڑے ہوئے مال کو کہتے ہیں جو مرتے وقت مکمل طور پر میت کے قبضے اور ملکیت میں ہو، کسی دوسرے کی ملکیت یا دوسرے کی ملکیت کا کوئی حصہ اس میں شامل نہ ہو۔ چنانچہ: ۱… ایسی تمام چیزیں جو قبضے میں تو ہوں مگر ملکیت میں نہ ہوں (چاہے وہ مالک کی طرح اُن کو کیوں نہ استعمال کررہا ہو) ۲…یا کاعذی طور پر یا زبانی طور پر ملکیت میں ہوں، لیکن قبضے میں نہ ہوں وہ میت کے ترکے میں داخل و شامل نہ ہوں گی۔ ۳… اگر میت نے اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی کوئی چیز کسی کو تحفتاً (ہدیۃً) دینے کا زبانی یا تحریری طور پر اقرار کررکھا ہو ،لیکن اپنی زندگی میں اُس شخص کو اس چیز کا قبضہ نہ دیا ہو تو وہ چیز مرنے کے بعداُس شخص کی ملکیت شمار نہیں ہوگی،بلکہ میت ہی کی ملکیت میں شمار اور شامل رہے گی اور میت کے شرعی ورثا میں شریعت کے مقررکردہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ ۴… اگر کسی نے کوئی جائیداد وغیرہ اپنی ملکیت میں رکھتے ہوئے سرکاری ٹیکس سے بچنے کی غرض سے صرف کاغذات میں کسی کے نام کرا رکھی ہو تو وہ جائیداد مرنے کے بعداُس شخص کی ملکیت میں شمار نہیں ہوگی جس کا نام کاغذات میں لکھوارکھاہے،بلکہ میت ہی کے ترکے میں شامل ہوگی اور تمام شرعی ورثا میں شریعت کے مقررکردہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ ۵…عورت کو والدین کی طرف سے یا میکے والوں کی طرف سے ملنے والے زیورات و سامان تو اُسی کی ملکیت ہوتے ہیں، البتہ شوہر اور سسرال والوں کی طرف سے ملنے والے زیورات و دیگر سامان کے متعلق ہر گھر میں پہلے دن سے یہ وضاحت ہوجانی چاہیے کہ یہ تمام چیزیں عورت کی ملکیت میں دی جاچکی ہیں یا عورت کو صرف برتنے (استعمال کرنے) کے لیے دی گئی ہیں۔ اگر زندگی میں اس کی اصل مالک عورت تھی تو وہ تمام چیزیں جو اس وقت موجود ہوں ،اُس کے مرنے کے بعد اُس کے ترکے میں شامل ہوں گی۔ ۶… اگر کسی چیز کا میت نے مرنے سے پہلے کسی سے سودا تو کرلیا تھا ،لیکن نہ اُس کی قیمت ادا کی تھی اورنہ ہی اس خریدی ہوئی چیز کا قبضہ حاصل کیا تھا، بلکہ سودے کے باوجود وہ چیز بیچنے والے کے پاس ہی موجود تھی توقیمت نہ ادا کرنے اور قبضہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ چیزاصل مالک(جس سے میت نے زبانی سودا طے کیاتھا)ہی کی ملکیت شمار ہوگی اور میت کے ترکہ میں داخل نہ ہوگی۔ ۷…اگر خریدی ہوئی چیز کا میت نے قبضہ تو کرلیا تھامگر قیمت ادا نہیں کی تھی تو ایسی چیز میت کے ترکے میں داخل اور ورثا کے درمیان اُن کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ نوٹ:اور فروخت کرنے والا اِس بنیاد پر کہ میت نے اُس چیز کی قیمت ادا نہیں کی تھی اُس چیز کواپنی ملکیت میں واپس نہیں لے سکتا، البتہ وہ میت کے قرض خواہوں کی فہرست میں آئے گا اور ورثے کی تقسیم سے پہلے میت کے ترکے میں سے دوسرے قرض خواہوں کے قرضوں کی طرح اُس کو بھی اُس چیز کی قیمت اداکردی جائے گی۔ ۸… میت نے اپنی زندگی میں کوئی چیز کسی کے پاس گروی(Mortgage) رکھوا ئی ،مثلاً:مرنے والے نے کوئی قرض لیا تھا اوراُس کے بدلے اپنی کوئی چیز گروی رکھوادی تھی کہ اگر میں وقتِ مقررہ پر تمہار اقرض ادا نہ کرسکوں تو میری یہ چیز بیچ کر اپنی رقم وصول کرلینا،مگر قرض ادا کرنے سے پہلے اُس کا انتقال ہوگیا او روہ چیز قرض خواہ کے قبضے میں ہے اور اُس قرض کی ادائیگی کے لیے میت نے کوئی مال بھی نہیں چھوڑا تو ایسی گروی رکھوائی ہوئی چیز میت کی ملکیت میں ہونے کے باوجود ترکہ میں شامل نہیں ہوگی۔بلکہ قرض خواہ اُس گروی رکھی ہوئی چیز کوبیچ کر سب سے پہلے اپنا قرض وصول کرلے، اگر اُس کے بعد بھی کچھ رقم بچ جائے تو میت کے ورثا کے حوالے کردے تاکہ میت کے وہ ترکے کے طور پر شرعی قوانین کے مطابق شرکا میں تقسیم کردی جائے۔ ۹…میت کی زندگی میں کسی کی ملکیت کی چیز اُس کے اپنے قبضے میں تھی اور وہ مالک کی اجازت سے آزادانہ طور پر اُس کا استعمال بھی کرتا رہتا تھا تواُس کے مرنے کے بعد وہ چیزاصل مالک کو واپس کرنی پڑے گی۔ اِس آزادانہ استعمال کے باوجودوہ چیز مرنے والے کی ملکیت نہیں ،لہٰذا ورثے میں تقسیم نہیں کی جائے گی۔ ۱۰… میت نے اپنی زندگی میں عام برتنے کے لیے کوئی چیز مثلاً برتن، بستر، کتابیں وغیرہ عاریتاً(Borrowing) حاصل کررکھی ہوںتو یہ تمام چیزیں اُس کے قبضے میں ہونے کے باوجود اس کی ملکیت میں شمار نہیں ہوںگی اور اِن تمام چیزوں کواِن کے اصلی مالکان کو واپس کرنا پڑے گا۔ ۱۱… اگر مرنے والے نے اپنی زندگی میں کسی خاص مقصد کے لیے کچھ چیزوں یا رقم کو جمع کررکھا ہو تو ایسی تمام چیزیں ترکہ میں شامل ہوں گی اور شرعی اصولوں کے مطابق ورثاء میں تقسیم ہوں گی۔ ۱۲… اگر کسی شخص نے اپنے بیٹی یا بیٹے کے لیے شادی یا علاج کی غرض سے کچھ چیزیں جمع کررکھی ہوں اور بیٹے یا بیٹی کو قبضہ نہ کرا دیا ہو تو وہ مخصوص چیزیں اُس خاص بیٹے یا بیٹی کی ملکیت شمار نہیں ہوںگی ،بلکہ اُن تمام چیزوں کو ترکہ کے اندر شامل کرکے تمام ورثاء کے درمیان اُن کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ ۱۳…جب کوئی مؤمن بندہ یا بندی انتقال کر جائے تو اُسی لمحے اس کی چھوڑی ہوئی نقد رقوم کے ساتھ ساتھ تمام کی تمام چھوٹی بڑی اشیاء شرعی نقطۂ نگاہ سے فوراً اس کے شرعی ورثاء کی طرف منتقل ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا اُن میں سے کسی بھی چیزکو، چاہے وہ مادی اعتبار سے کوئی حیثیت رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو، کوئی بھی وارث تقسیم سے پہلے نہ اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتا ہے، نہ اُسے صدقہ و خیرات میں دے سکتا ہے، مثلاً مرتے وقت میت کی جیب میں اگر الائچی کا ایک دانہ بھی پڑا ہوا ہو تو کوئی بھی وارث تنہا ذاتی طور پر نہ اُسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو دے سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی وارث میت کا پہنا ہوا لباس، کلائی کی گھڑی، انگلی کی انگوٹھی، آنکھوں کا چشمہ یا کوئی بھی استعمال کی چیز اپنی مرضی سے دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر نہ اپنے استعمال میں لاسکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو دے سکتا ہے، جب تک کہ تمام ورثاء بغیر جبر و اکراہ کے اپنے اپنے حصّوں کے مطابق خرچ کرنے یا استعمال کرلینے کی اجازت نہ دے دیں۔ ۱۴… عموماً میت کو غسل دینے کے لیے غسّال (The one who bathes the dead) بلائے جاتے ہیں ، عمومی طور پر اُن کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ میت کی قمیص یا بنیان وغیرہ کوقینچی منگوا کر کاٹ کر جسم سے علیحدہ کرتے ہیں اور اس کی اجازت بھی نہیں لیتے، جبکہ اس کی اجازت دینا کسی ایک وارث کا اختیار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ کاٹے جانے والا یہ لباس ترکہ میں شامل ہوچکا اور یہ غسل دینے والا ایک سے زائد ورثاء کا حق اس مال کو تلف کرکے ضائع کررہا ہے، یہ ورثاء کا حق مارنے کے برابر ہے۔ لہٰذا اس کی اہمیت کے پیش نظر غسل دینے والوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے اور انہیں تاکید کرنی چاہیے کہ وہ کاٹے بغیر آسانی سے جسم کے اس اوپر کے لباس کو اتار کر جیسے کہ نیچے کے دھڑ کے لباس کو اتارتے ہیں، اس لباس کو ذمے داروں کے حوالے کردیں۔ ۱۵…مرنے والا اپنی زندگی میں اگر کاروبار کررہا تھا اور اس کاروبار میں اپنے بڑے ایک یا ایک سے زائد بچوں کو بھی شامل کررکھا تھا تو ہمارے معاشرے میں عموماً اس جاری کاروبار کے وہ بچے مالک بن بیٹھے ہیں اور اس پر قبضہ جما لیتے ہیں اور دیگر شرکاء کو اُن کے حق کے موافق حصے نہیں دیتے، چاہے وہ شرکاء دوسرے بھائی ہوں یا بہنیں ہوں۔یاد رکھیے کہ یہ ایک زبردست کوتاہی اورشدید قسم کا گناہِ کبیرہ ہے۔اِس کا بُرا انجام دنیا ہی میں پیش آجاتا ہے، جبکہ آخرت کا انجام بھی اپنی جگہ باقی رہتا ہے۔ وہ کاروبار جو والد صاحب کے ذاتی سرمائے سے شروع ہوا اور جاری ہے، اُس میں تمام شرعی ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے مطابق والد صاحب کے انتقال کے بعد حصے دار رہیں گے، چاہے اُنہوں نے اس جاری کاروبار میں اپنی محنت کا حصہ ڈالا ہو یا نہ ڈالا ہو۔ چاہے وہ مذکر ہوں یا مؤنث۔ نوٹ:قبضہ کرلینے والوں کی اپنی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہم نے بھی اس کاروبار میں اپنی جان، اپنا وقت لگایا ہے۔ اُن کی خدمت میں مؤدبانہ عرض یہ ہے کہ جس وقت والد مرحوم نے آپ کو کاروبار میں شریک کیا تھا، اُسی دن یہ وضاحت کرالینی چاہیے تھی کہ آپ کس حیثیت سے اس کاروبار میں شریک ہورہے ہیں؟ آیا آپ کاروبار میں مالی اعتبار سے شریک ہیں یا وارث ہونے کی حیثیت سے اُن کے مددگار ہیں ،جس کے عوض آپ کو ذاتی اخراجات کے لیے علیحدہ سے ماہانہ خرچ دیا جاتا ہے؟ یا آپ بحیثیت ملازم اس کاروبار میں شریک ہیں اور اس کی تنخواہ پارہے ہیں؟شریعت کا یہ ضابطہ ہے کہ کسی بھی کاروبار میں کوئی شخص،چاہے وہ سگا بیٹا ہی کیوں نہ ہو، اس وقت تک شریک نہیں کہلائے گا جب تک کہ وہ اپنا ذاتی سرمایہ بھی اس کاروبار میں نہ شامل کرلے۔ ۱۶… والد صاحب نے اگر کسی بچے کو علیحدہ سے کوئی کاروبار کرا دیا ہو اور اُس میں والد صاحب کا ذاتی سرمایہ کچھ بھی نہ لگا ہو اور وہ بچہ اپنی ذاتی محنت سے ذاتی سرمائے سے اُس کاروبار کو فروغ دے رہا ہوتو والد صاحب کے انتقال کے بعد دوسرے ورثاء اُس کاروبارمیں شریک نہیں ہوں گے۔ ۱۷… اِسی طرح اُس کاروبار سے اگر ذاتی طور پر اِس بچے نے کوئی جائیداد بنائی ہو تو وہ جائیداد بھی والد صاحب کے ترکے میں شامل نہیں ہوگی۔ ۱۸… اگر والد صاحب نے اپنے ذاتی سرمائے میں سے اپنی زندگی میں کسی بچے کو مستقل مالک بناتے ہوئے کچھ سرمایہ یا کوئی چیز کسی بچے کے قبضے میں دے دی ہو تو وہ سرمایہ یا وہ چیز اُسی بچے کی ملکیت شمار ہو گی، جس میں دوسرے ورثا،چاہے والدہ اور بہن بھائی ہی کیوں نہ ہوں شریک نہیں ہوں گے۔ ۱۹…میراث سے متعلق احکام وفات کے بعد کے ہیں۔ زندگی میں اگر کوئی شخص بحالتِ صحت اولاد میں مال و جائیداد تقسیم کرنا چاہے تو اِس کی بہتر صورت یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹی کو مساوی طور پر حصہ دیا جائے؛ اور اگر اولاد میں سے کسی کو اس کے تقویٰ یا دین داری یا حاجت مندی یا والدین کی خدمت گزاری کی وجہ سے نسبتاً زیادہ حصہ دیا جائے توبھی اِس میں کوئی حرج نہیں۔اسی طرح اگر اولاد بے دین، فاسق و فاجر ہو اور مال دینے کی صورت میں اُس کی اصلاح کی امید نہ ہو تو انہیں صرف اتنا مال،جس سے وہ زندہ رہ سکیں، دینے کے بعد بقیہ مال امورِ خیر میں خرچ کرنا افضل ہے۔(الدرالمختار) الغرض زندگی میں بحالت صحت تو اختیار ہے، لیکن مرنے کے بعد کسی وارث کو محروم نہیں کیا جاسکتااورنہ ہی کسی کو زیادہ دیا جاسکتا ہے۔ ۲۰… مرنے کے بعد وارث کا استحقاق خود ثابت ہو جاتا ہے، اس لیے اگر کسی مرنے والے نے عاق نامہ (Deed letter) بھی تحریر کر دیا کہ میں اپنے فلاں وارث سے(بیٹا ہو یا بیٹی یا کوئی اور وارث)فلاں وجہ سے ناراض ہوں،لہٰذا وہ میرے مال اور ترکہ سے محروم رہے گا،میں اُس کو عاق کرتا ہوں… تب بھی وہ شرعا ًمحروم نہیں ہو گا اور اس کا مقرر ہ حصہ اُس کو ملے گا ،کیونکہ میراث کی تقسیم نفع پہنچانے یا خدمت گزاری کی بنیاد پر نہیں۔لہٰذاکسی بھی وارث کو محروم کرنا حرام ہے۔ ایسی تحریر کا شرعا ًکوئی اعتبار نہیں۔ البتہ نافرمان بیٹے یا کسی دوسرے فاسق و فاجر وارث کو محروم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ شخص اپنی صحت وتندرستی کے زمانے میں کل مال و متاع دوسرے ورثا ء میں شرعی طور پر تقسیم کر کے اپنی ملکیت سے خارج کر دے تو اِس کی موت کے بعدجب کچھ ترکہ ہی باقی نہیں رہے گا تو نہ میراث جاری ہو گی اورنہ کسی کو حصہ ملے گا۔(امداد الفتاوی ٰجلد 4صفحہ 364،تنویر الحواشی فی توضیح السراجی صفحہ180)

خواتین کا میراث میں حصہ اور معاشرتی المیہ:

ہمارے معاشرے میں اکثر گھروں میں،جن میں اچھے خاصے پڑھے لکھے گھرانے بھی شامل ہیں،یہ سمجھا جاتا ہے کہ بیٹیاں پرائی امانت ہیں، اُن پر جو کچھ خرچ کیا جارہا ہے اُس کا حق صرف اُتنی دیر تک ہے، جب تک وہ ہمارے گھر میں رہیں۔چنانچہ اُن کو اپنی حیثیت کے مطابق اچھا کھلایا جاتا ہے، پہنایا جاتا ہے،اُن کی اچھی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جاتا ہے، ذاتی اخراجات کے لیے کچھ خرچ بھی دے دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ شادی کے قابل ہوجائیں تو پوری دھوم دھام کے ساتھ اپنی شان کے مطابق اُن کی شادی کے تمام اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں اور جہیز بھی اچھے سے اچھا دیا جاتا ہے۔ والدین سمیت گھر کے ہر فرد کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ ہم نے اپنی بہن بیٹی پر اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ کرلیا، اﷲتعالیٰ اُسے اپنے گھر میں سُکھی رکھے۔ اگر کوئی وقتی صورت بطور ایمرجنسی پیش آئی تو ہم معاونت میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔ بس اس سے زیادہ بچی کا حق نہیںسمجھاجاتا، لہٰذا باپ کی وراثت میں ان کاکوئی حق نہیں ہے۔ یہ ایک غیرشرعی سوچ ہے۔ شریعت اس کے برخلاف ہے۔قرآن مجید میں اِس حوالے سے بڑے سخت اور تاکیدی احکام ہیں۔چند آیات ملاحظہ کیجیے!

{یُوْصِیْکُمُ اﷲُ فِیْٓ اَوْلااَا دِکُمْ……کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا}(سورۂ نساء، آیت۱۱)

ترجمہ: ’’ اﷲ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد (کی میراث) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے حصے کے برابر ہے۔ سو اگر بیٹیاں (ہی) دو سے زائد ہوں تو ان کے لیے مرنے والے کے چھوڑے ہوئے مال میں سے دو تہائی حصے ہیں اور اگر ایک ہی بیٹی ہو تو اس کے لیے آ دھا حصہ ہے۔ اور اگر(میت) کے والدین ہی ہوں تو ان تین سے ہر ایک کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے بشرطیکہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اُس کی ماں کا حصہ ایک تہائی ہے۔ اگر مرنے والے کے بھائی بہن (بھی) ہوں تو اس کی وصیت پورا کرنے یا قرض کی ادائیگی کے بعد اُس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے۔ تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے، ان میںسے نفع پہنچانے میں تم سے قریب تر کون ہے تم نہیں جانتے۔ یہ سب (حصے) اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں بے شک اﷲ تعالیٰ ہی علم والے، حکمت والے ہیں۔‘‘

یہ آیت صاف بتارہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی،چاہے وہ بہنیں ہوں یابیٹیاں یامائیں،وراثت کی اپنے شرعی حصوں کے مطابق حق دار ہیں اور یہ حصے اپنی مرضی اور صوابدید پر منحصر نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ حصے ہیں،جن پر عمل کرنا واجب ہے اور عمل نہ کرنا سخت گناہ کبیرہ ہے۔ ایک اور مقام پر ارشادِباری تعالیٰ ہے:

{وَ اِنْ کَانَ رَجُلٌ……اَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍ}(سورۂ نساء، آیت۱۲)

ترجمہ:’’اور اگر ایسا مرد یا عورت جس کے اصول وفروع نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال میں سے اور اگر یہ (بہن بھائی) ایک سے زائد ہوں تو وصیت پوری کرنے یا قرض کی ادائیگی کے بعد کسی کو نقصان پہنچائے بغیر ایک تہائی حصہ میں شریک ہوں گے۔ ‘‘ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اﷲُ……مِثْلُ حَظِّ الْاُنثَیَیْنِ}(سورۂ نساء، آیت۱۷۶)

ترجمہ:’’لوگ آپ( ﷺ) سے فتویٰ مانگتے ہیں آپ ﷺ فرما دیجیے کہ اﷲتعالیٰ تمہیں کلالہ ( جس کے نہ اولاد ہو اورنہ والدین زندہ ہوں) کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر ایسے آدمی کا انتقال ہو جائے کہ اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن(زندہ) ہو تو اس بہن کے لیے اُس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہوگا۔اور اگر (ایسی) بہن کا انتقال ہو جائے جس کی اولاد نہ ہو تو ( یہ شخص) اس(چھوڑے ہوئے تمام مال) کا وارث ہوگا۔ پس اگر (ایسے شخص) کی دو بہنیں ہوں تو ان دونوں کو چھوڑے ہوئے مال کا دو تہائی ملے گا اور اگر ( ایسے شخص) کے ورثا ء بہت سے بھائی اور بہنیں ہوں تو ایک مرد کو دو عورتوں کے حصوں کے برابر ملے  گا۔‘‘

ملاحظہ فرمایاآپ نے۔اللہ تعالیٰ کے خواتین کی میراث کے حوالے سے کس قدر تاکیدی احکام ہیں؟اور ہم،جی جی ہم،بظاہر پڑھے لکھے اور دین دار سمجھے جانے والے،اِس باب میں کس قدر غافل ہیں۔یہ بات گرہ سے باندھ لیجیے کہ سب کچھ برداشت کرنے کے باوجود، تمام بیٹیوں کا والد کے انتقال کے وقت اُس کے چھوڑے ہوئے ترکہ میںحصہ ہوگا۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہآج حالت یہ ہو چکی ہے کہ لوگ رواج پر تو عمل کرتے ہیں مگر قرآن مجید کے ڈیڑھ صفحے پر عمل متروک ہو چکا ہے۔ رواج یہ ہے کہ عورتوں کو جہیز میں کچھ سامان دے دیتے ہیں اور میراث میں جو اُن کا حق بنتا ہے خود ہضم کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی بہن بیٹی کو جہیز میں پوری دنیا کی دولت بھی دے دے، اس کے بعد اُس بیٹی کا میراث میں ایک روپیہ بھی حق بنتا ہو تو وہ ایک روپیہ اُس بہن بیٹی کا حق ہے یہ اس کو دینا پڑے گا۔ اگر اِس دنیا میں نہ دیا تو کل آخرت میں اپنی نیکیوں کو صورت میں دینا پڑے گا۔ نوٹ:بعض جگہوں پر چونکہ بچے اپنی والدہ کو اور بھائی اپنی بہنوں کو حصہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں تو وہ بوجۂ مجبوری خاموشی اختیار کرلیتی ہیں یا زبانی طور پر ِاس کا اظہار کرتی ہیں کہ ہم نے اپنا حصہ چھوڑ دیا؛ یا معاف کردیا۔ شریعت کی نگاہ میں اِس کا کوئی اعتبار نہیں۔ معاف کرانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ماں اور بہنوں کو اُن کا حصہ دے دیا جائے، پھر وہ اپنی مرضی سے بغیرکسی جبرواکراہ کے اپنے حصے کو بقیہ ورثاء میں تقسیم کردیں یا ایک وارث کو دے دیں یا صدقہ و خیرات کردیں یاوہ اپنے حصے پر قبضے کے بعد کسی بھائی بہن یا والدہ کو ہدیہ کردیں۔یہ سب اُن کی صوابدیدپر ہے اور اِس سلسلے میں اُن کے ساتھ پہلے سے کسی قسم کی کمٹمنٹ کرنانا جائز اورایسی معافی شریعت کی نگاہ میں معتبر نہیں۔شریعت اس مال کو حلال نہیں کہتی جو کسی دوسرے سے اس کے نفس کی خوشی کے بغیر حاصل کیا گیا ہو۔جیسا کہ حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لا یحل مال امرء مسلم الا بطیب نفس منہ۔

(مشکاۃ المصابیح صفحہ 255، حدیث:2946)

ترجمہ:’’کسی مسلمان کا مال اس کے نفس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں۔‘‘

کسی دوسرے کا حق کھانا گناہ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہ ہے کہ جب تک معاف نہ کرایا جائے معاف نہیں ہوگا۔ممکن ہے اللہ رب العزت مہربانی فرما کر حقوق اللہ کو معاف فرما دیں مگر حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق اُس وقت تک معاف نہیں ہوں گے جب تک اس شخص سے معاف نہ کرا دیے جائیں جس کے حقوق تلف کیے ہیں۔

فقہی مسائل

مسئلہ:کسی مرد یا عورت نے کسی لڑکے یا لڑکی کو منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنا لیا تو وہ لڑکا یا لڑکی اس مرد یا عورت کاوارث نہیں ہوگا۔ مسئلہ:اگر میت کے وارثوں میں بعض نابالغ بچے ہوں اور وہ اپنے حصے میں سے کچھ صدقہ، خیرات یا ہدیہ کرنے کی اجازت دیں تو اُن کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں۔ صرف بالغ وارثین اپنے اپنے حصے سے، تقسیم جائیداد کے بعد، خیرات وغیرہ کر سکتے ہیں، اس سے پہلے وہ بھی نہیں کرسکتے۔ مسئلہ:اگر کوئی وارث دوسرے وارثوں کی رضامندی سے اِس شرط پر اپنا حقِ وراثت چھوڑ دے کہ اُس کو کوئی خاص چیز وراثت میں سے دے دی جائے تو یہ شرعا ًجائز ہے۔ مثلاً: ایک مکان یا ایک کار لے لی اور باقی ترکے میں سے اپنا حصہ چھوڑ دیا۔ یاشوہر نے اپنی مرنے والی بیوی کا حق مہر نہ دیا تھا تو اُس نے اِس کے بدلے اپنا حصۂ وراثت جو بیوی کے ترکہ سے اس کو ملتا تھا چھوڑ دیا۔ مسئلہ:میت کے وظیفے یا پنشن کے بقایا جات جو اس کی موت کے بعد وصول ہوں، اُن کی بھی دوسرے ترکے کی طرح تقسیم ہوگی، لیکن اگر موت کے بعد پنشن جاری رہی جس کو فیملی پنشن کہتے ہیں تو سرکاری کاغذات میں جس کے نام پنشن درج ہو گی، صرف وہی اُس کو وصول کرنے کا حق دار ہوگا۔ مسئلہ:کمپنی کی طرف سے ملنے والے فنڈز اور رقوم کا حکم بھی یہی ہے کہ اِن فنڈز اور رقوم میں سے، جن کاکمپنی کے قوانین وضوابط کے مطابق مرحوم اپنی زندگی میں مالک یا ایسا مستحق ہوگیا تھا کہ قانوناً وہ اپنی زندگی میں ان کا مطالبہ کرسکتا تھا تو وہ مرحوم کے ترکے میں شامل ہوکر تمام ورثا ء کے درمیان اپنے اپنے حصۂ میراث کے مطابق تقسیم ہوں گی۔ البتہ وہ فنڈز وغیرہ کی رقم جن کا مرحوم اپنی زندگی میں اِس طرح حق دار نہیں بنا تھا، بلکہ وہ ادارے نے ورثا ء میں سے کسی کو نامزد کرکے بطورِ عطیہ دی ہو تو وہ رقم صرف اسی شخص کو ملے گی، اور اگر ادارے نے کسی کو نامزد کیے بغیر دی ہو تو پھر وہ مرحوم کے تمام ورثاء کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگی۔ مسئلہ:اگر کسی لڑکی اور لڑکے کاآپس میںنکاح ہو گیا لیکن ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ لڑکا (یعنی شوہر)فوت ہو گیا تو وہ لڑکی اس لڑکے کے مال سے بطورِ بیوی وراثت کی حق دار ہو گی۔ مسئلہ:جس شخص کے ذمے نماز یا روزے یا زکو ٰۃیا حج واجب ہو اور اُ س پر موت کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں تو واجب ہے کہ وہ اپنے وارثوں کو وصیت کر جائے کہ میری طرف سے نماز، روزہ وغیرہ کا فدیہ ادا کر دیں اور زکوٰۃ و حج ادا کر دیں ؛لیکن یہ وصیت جائیداد کے ایک تہائی سے زیادہ مال میں، وارثوں کی رضا مندی کے بغیر عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ ایک نماز یا ایک روزہ کا فدیہ احتیاطا ًدو کلو گرام گندم یا اس کی قیمت ہے۔ جو روزے مرض الموت میں قضا ہوئے ہوں، اُن کی قضا اور فدیہ واجب نہیں۔جو شخص نماز روزے حج وغیرہ کے ادا کرنے کی وصیت کر گیا ہو، اگر اس نے مال بھی چھوڑا ہے تو اس کی وصیت (ترکے کے ایک تہائی تک)پورا کرنا اس کے وارثوں پر واجب ہے اور اگر مال نہیں چھوڑا تو وارثوں کی مرضی پر موقوف ہے،چاہیں تو فدیہ دیں ،یہ اُن کی طرف سے میت پر احسان ہوگا اور چاہیں تو نہ دیں۔ مسئلہ:والدین کے ترکے میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا خود تنِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے۔بھائیوں پر لازم ہے کہ بہنوں کو ان کا حق اس دنیا میں دے دیں ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، حدیثِ مبارک میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں:حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا)تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔ مسئلہ:تقسیمِ جائیداد سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعا ًمعتبر نہیں ہے،البتہ ترکہ تقسیم ہوجائے ، ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد اپنا حصہ خوشی سے جس کو دینا چاہے دے سکے گا۔ لیکن اگر بھائیوں کے یا خاندانی یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے بہنوں سے اُن کا حصہ معاف کرالیا جائے تو بھائیوں کے لیے وہ حلال نہیں ہوگا(جیساکہ پیچھے تفصیل سے گزرچکا ہے۔) مسئلہ:وہ زیور جو بیوی کی ملکیت تھا، اور بیوی نے شوہر کو ہدیہ کر دیاتو شوہر ہی اُس کا مالک ہو گا۔ مسئلہ:جو زمین بیوی کواُس کے والد صاحب کی طرف سے ملی ہو وہ اُس کی ذاتی ملکیت ہے ، جواُس کے انتقال کے بعداس کے ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی، وہ شوہر کی ملکیت نہیں ، اس لیے شوہر کی میراث اُس زمین میں جاری نہیں ہوگی۔ مسئلہ:تقسیمِ میراث کے لیے کورٹ یا سفر وغیرہ کا جو خرچ کیا گیا ہوتواِن اخراجات میں ہونے والے خرچ کو تمام ورثاء کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کیاجائے گا۔ مسئلہ:مرنے والے کے قریب ترین رشتہ دار ہی میراث کے حق دار ہوں گے، قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں نسبتاً دور کے رشتہ دار میراث سے محروم ہو جائیں گے۔ مسئلہ:مسئلہ:اگر مطلقہ عورت کی عدت پوری ہو جائے ، پھراِس کے بعد طلاق دینے والے شوہر کا انتقال ہو جائے تو مطلقہ عورت وارث نہیں ہوگی۔ مسئلہ:اگر شوہر نے طلاق رجعی دی ہے اور عدت نہیں گزری ہے تو اسی حالت میں شوہر کا انتقال ہونے پر مطلقہ عورت وارث ہوگی۔ مسئلہ:وارث کی تین قسمیں ہیں :(۱)ذوی الفروض (۲)عصبات (۳)ذوی الارحام۔ 1…ذوی الفروض وہ لوگ ہیں جن کا حصہ شریعت میں مقرر ہے۔اور وہ کل بارہ افراد ہیں : جن میں سے مردوں کی تعداد چار ہے اور عورتوں کی آٹھ۔چار مرد یہ ہیں : ۔ شوہر۔ باپ۔ دادا۔ اخیافی بھائی (ماںشریک بھائی)۔جبکہ آٹھ عورتیں یہ ہیں : بیٹی۔ پوتی۔ سگی بہن۔ علاتی بہن (باپ شریک بہن)۔ ماں۔ دادی / نانی۔ بیوی ایک ہو یا زیادہ۔ اخیافی بہن (ماں شریک بہن)۔ 2…عصبات:یہ میت کے وہ رشتے دارہیں، جن کا حصہ قرآن میں مقرر نہ ہو۔ اور وہ اکیلے ہونے کی صورت میں کل مال اور دوسرے وارث کے موجود ہونے کی صورت میں بچا ہوا مال لے لیں۔مثلاً:بیٹا ، پوتا ، دادا ، بھائی ، بھتیجا ، چچا ، چچازاد بھائی وغیرہ۔ 3…ذوی الارحام :یہ میت کے وہ رشتے دار ہیں جن کا شریعت میں حصہ مقرر نہ ہو ، اور وہ عصبات میں سے بھی نہ ہوں۔ذوی الارحام زیادہ تر ننھیالی رشتے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسے : خالہ ، پھوپھی ، بھانجا ، ماموں وغیرہ۔جب پہلے والے دونوں وارث یعنی اصحاب الفروض اور عصبات نہ ہوں تب ذوی الارحام میراث پاتے ہیں۔ مسئلہ:شرعی وارثوں کو اُن کے مقررہ حصوں سے بالکل محروم کردینا یا ان کے حصے پہلے سے کچھ کم کرنا ’’حجب‘‘کہلاتا ہے۔اگر وارث کا حصہ پہلے سے کم کردے تو اس کو’’ حجبِ نقصان‘‘ کہتے ہیں۔مثلاً: شوہر:اولاد کی وجہ سے اِس کاحصہ کم ہوجاتاہے۔ بیوی:اولاد کی وجہ سے اِس کاحصہ کم ہوجاتاہے۔ ماں :اولاد ، بھائی ، بہن کی وجہ سے اِس کاحصہ کم ہوجاتاہے۔ پوتی:بیٹی کی وجہ سے اِس کاحصہ کم ہوجاتاہے۔ علاتی بہن:سگی بہن کی وجہ سے اِس کاحصہ کم ہوجاتاہے۔ مسئلہ:کسی وارث کو دوسرا وارث بالکل محروم کردے تو اس کو ’’حجبِ حرمان ‘‘کہتے ہیں۔مثلاً:ماں : ماں کی وجہ سے تمام جدات یعنی دادیاں اور نانیاں محروم ہو جاتی ہیں۔ باپ : باپ کی وجہ سے میت کے دادا ، دادیاں ، اور عینی (حقیقی)، علاتی (باپ شریک) اور اخیافی (ماں شریک) تینوں طرح کے بھائی بہن میراث سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اصلِ مذکر فرعِ مطلق : میت کی اصل مذکر یعنی باپ دادا کی وجہ سے ، اسی طرح میت کی فرعِ مطلق یعنی بیٹا ، پوتا ، بیٹی ، پوتی وغیرہ کی وجہ سے اخیافی بھائی بہن وراثت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بنات : میت کی لڑکیاں جب دو یا اس سے زیادہ ہوں تو پوتیوں کو میراث سے محروم کردیتی ہیں۔ سگی بہن : میت کی سگی بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہو ںتو علاتی بہن محروم ہوگی۔ بٹیا : میٹ کا بیٹا پوتے کو بالکل میراث سے محروم کردے گا۔ مسئلہ:چھ وارث میراث سے کبھی محروم نہیں ہوتے ، اور وہ مندرجہ ذل ہیں : بیٹا،باپ،شوہر،بیٹی،ماںاوربیوی۔(ان کو مختصر الفاظ میں’’ابوین‘‘(ماں باپ)’’زوجین‘‘ (میاں بیوی) اور ’’ولدین ‘‘(بیٹا بیٹی)کہا جاسکتا ہے۔ مسئلہ: اگر موت کے وقت بیوی حاملہ ہو تو وضع حمل کے بعد وراثت کا حساب اور تقسیم ہوگی اس لیے کہ پیدا ہونے والا بچہ / بچی بھی وارث ہیں۔ مسئلہ: شوہر بھی بیوی کے ورثے کا حقدار ہے اور اسے شرعی ضابطے کے مطابق حصہ ملے گا۔ مسئلہ: شوہر کے ورثے کی بیوی بھی حقدار ہے اور اسے شرعی ضابطے کے مطابق حصہ ملے گا۔ مسئلہ:جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہو وہ شوہر کے مال میراث میں حقدار ہوتی ہے۔ مسئلہ: جو عورت طلاق بائن کی عدت میں ہو وہ شوہر کی میراث میں حقدار نہیں ہوتی۔ مسئلہ: کسی شرعی وارث کو وراثت سے محروم کر نا ناجائز اورباطل ہے۔ محروم کردیئے جانے کے باوجود وہ شرعی وارث رہتا ہے۔ مسئلہ: اگر کوئی زندگی میں مال کی تقسیم کرنا چاہے تو بیٹے اور بیٹی دونوں میں برابر برابر تقسیم کرنا ضروری ہے، البتہ معذور اولاد کو دوسروں سے زیادہ دیا جا سکتاہے۔ مسئلہ: اپنی زندگی میں اگر کسی کو کوئی مال یا جائیداد دی ہو تو اس کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ صرف زبانی یا تحریری طور پر لکھ کر رکھنے سے وہ مال یا جائیداد مالک کی ملکیت میں ہی رہے گی اور مرنے کے بعد تمام شرعی ورثا میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ مسئلہ: بیٹیوں کی شادی میں اخراجات کے بعد بھی بیٹیاں اپنے حصوںکے مطابق وراثت میں حصے دار رہیں گی۔ مسئلہ: اگر موت کے فوری بعد وارثت کا حساب نہ کیا گیا تو حساب کے وقت کی قیمت کے حساب سے تقسیم ہوگی چاہے ان چیزوں کی قیمت میں کتنا ہی اضافہ یا کمی کیوںنہ ہو گئی ہو۔ مسئلہ: شرعی ورثا کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ مسئلہ: اگر میت کی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا گیا تو دوسرے قرضوں کی طرح کل مال سے مہر ادا کیا جائے گا۔ اس کے بعد میراث کی تقسیم ہوگی۔ مہر لینے کی وجہ سے عورت کا میراث کا حصہ ساقط یاکم نہیں ہوگا۔

وما توفیقی إلاباللّٰہ


میراث میں عورتوں اور یتیم پوتوں کا حصہ (موجودہ اشکالات کے تناظر میں )

                عنوان دواجزاء پرمشتمل ہے: پہلا جز عورتوں کی میراث پر ہونے والے اعتراضات اور ا ن کے جواب، دوسرا جز یتیم پوتوں کو دادا کا ترکہ نہ ملنے پر ہونے والے اعتراضات اور ان سب کے جواب!

                آئیے! پہلے عورتوں کی میراث اور اُن پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں ، فرانس کا ایک مستشرق ہے، جس کا نام (Gaston wiet) گیسٹن ویٹ ہے، اس نے لکھا ہے کہ ’’اسلام میں عورتوں کو ذلیل و حقیر رکھا گیا ہے؛ یہاں تک کہ میراث میں بھی اس کا حصہ مرد سے آدھا ہے۔‘‘ (مفتریات ص۳۸، مؤلفہ: محمد عبداللہ السمان بحوالہ: تکبیر مسلسل مارچ ۲۰۱۷÷)

                جواب: (۱) اس اعتراض کا تجزیہ کیجیے کہ کیا یہ الزام درست ہے؟ کیا ساری عورتوں کو اسلام نے مردوں کے مقابلے میں آدھا دیا ہے، یا چند عورتوں کو؟

                ظاہر ہے کہ ساری عورتوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے، جیساکہ کتاب وسنت کے ’’ابواب الفرائض‘‘ میں تفصیل موجود ہے اور چند عورتوں کو لے کر اعتراض ہے تو اتنا بڑا پروپیگنڈہ کیوں ؟ پورے اسلام کو بدنام کیوں کیا جارہا ہے؟ اگر غور کیجیے تو معاملہ اس کے بالکل برعکس نظر آئے گا، وہ یہ کہ ’’اسلام نے مردوں سے دوگنا عورتوں کو دیا‘‘ ہے، میراث کی سب سے مشہور کتاب اٹھائیے، اس میں ’’اصحاب فرائض‘‘ کو دیکھیے یعنی ان لوگوں کو جن کا ترکہ قرآن وسنت میں مذکور ہے، وہ کل بارہ افراد ہیں ؛ جن میں آٹھ عورتیں ہیں اور مرد صرف چار ہیں ، عورتوں میں (۱) بیوی، (۲) بیٹی، (۳) پوتی، (۴) حقیقی بہن، (۵) علاتی بہن، (۶) اخیافی بہن، (۷) ماں ، (۸) دادی ہے اور مردوں میں (۱) باپ، (۲) دادا، (۳) اخیافی بھائی، (۴) شوہر ہے۔

                گویا اسلام نے عورتوں کی زیادہ تعداد کو ترکہ دیا ہے، یعنی حصہ پانے والی عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔

                یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کو اگر دوگنا دیاگیا ہے تو یہ اس وجہ سے معقول ہے کہ ان کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں آدھی ہے تو دوگنا ملنا ہی چاہیے، تبھی تو دونوں صنفوں میں برابری ہوگی! اب یہ کہنا کہ عورتوں کو اسلام نے ذلیل رکھا ہے بالکل غلط ہوگا؛ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام نے عدل کیا ہے عورتوں کو عزت دی ہے، دوسرے مذاہب میں عورتوں کو ترکہ سے بالکل محروم رکھاگیا ہے۔

غیراسلامی قوانین ومذاہب میں میراث

                اگرکوئی اسلام پر اعتراض کرتا ہے تو اُسے اسلام سے اچھا کوئی آسمانی یا انسانی قانون یا مذہب کے طو رپر مانا ہوا قانون پیش کرنا چاہیے، جس میں اسلامی قانون کی طرح پورے بسط و تفصیل کے ساتھ میراث کا قانون موجود ہو، مذاہب عالم کو اسلام سے حقیقت میں کوئی تقابل نہیں ؛ اس لیے کہ وہ یاتو انسانوں کے بنائے ہوے ہیں ، یا ان میں اتنی تبدیلی ہوئی ہے کہ ان کا آسمانی ہونا مشکل ہے اور الٰہی قانون کہنا کسی طرح درست نہیں ؛ لیکن ان کے ماننے والے دنیا میں ہیں تو کیا کوئی میراث کے اسلامی قانون کی طرح کوئی تفصیلی قانون دکھا سکتا ہے؟ جو اسلام سے بہتر ہو! ہرگز نہیں ، سوبار ہرگزنہیں !

                عورتوں کے میراث کے پہلو کو لیجیے! تو معلوم ہوگا کہ روے زمین کے تقریباً سارے قوانین ومذاہب میں عورتوں کو میراث سے محروم رکھا گیا ہے، مثال کے طور پر ذیل میں چند مذاہب کا جائزہ لیتے ہیں :

                (الف) ’’یونانی قانون‘‘ میں ترکہ صرف لڑکوں کو دیاگیا تھا، اس کی دلیل یہ تھی کہ خاندانی مسائل وحالات کی نگرانی لڑکا ہی کرتا ہے، گھریلو حقوق وفرائض وہی ادا کرتا ہے؛ اس لیے اسی کو ترکہ ملے گا۔ لڑکیوں کے اندر یہ صلاحیت نہیں اور ان کی یہ ذمہ داری نہیں ہے؛ اس لیے لڑکیوں کو ترکہ نہیں ملے گا۔ (احکام المیراث ص۵۷ مؤلفہ ڈاکٹر محمد محمد براج بحوالہ تکبیر مسلسل مارچ ۲۰۱۷÷)

                (ب) ’’بابلی قانون‘‘ میں بھی لڑکیوں کو اس صورت میں ترکہ نہیں دیا جاتا تھا جب کہ میت کا لڑکا یا بھائی موجود ہوتا تھا، اگر دونوں موجود نہ ہوتے تو لڑکیوں کو ترکہ ملتا تھا۔ (الاعجاز لنظام المیراث، مؤلفہ احمد یوسف سلیمان)

                (ج) ’’یہودی مذہب‘‘ میں میت کی لڑکی کو اسی وقت ترکہ ملتا تھا جب کہ میت کا کوئی لڑکا موجود نہ ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی شرط تھی کہ لڑکی کو اسی وقت ترکہ ملے گا جب کہ وہ اپنے قبیلے اور خاندان میں بیاہی جائے، اگر خاندان سے باہر شادی ہوتی تھی تو اس کو ترکہ نہیں ملتا تھا، یہودی مذہب میں بیوی کو بھی ترکہ نہیں دیا جاتا تھا اور بیوی کی کمائی اوراس کے ترکے کا مستحق اس کا شوہر ہوتا تھا۔ (تورات: کتاب گنتی باب ۲۱، ۲۷، باب ۳۶)

                (د) ’’عیسائی مذہب‘‘ میں عورتوں کو ناپاک مخلوق مانا جاتا تھا، ان کے یہاں الگ سے کوئی قانونِ میراث نہیں ملتا؛ مگر عیسیٰ علیہ السلام چوں کہ بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء ہیں اور تورات کے بدلے ہوئے احکام کو درست کرنے کے لیے تشریف لائے تھے؛ اس لیے مستقل احکامات انجیل میں نہیں ملتے، بالفرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیسائیوں کے یہاں بھی اصولی طور پر توارت کا حکم ہی مسلّم ہے۔ یعنی ان کے یہاں بھی لڑکوں اور چچائوں کی موجودگی میں لڑکیوں کو نہ دیا جانا مسلّم تھا۔

                (نوٹ) یہاں ایک سوال ہوگا کہ اگر یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کے آسمانی اور الٰہی ہونے کا دعویٰ کریں تو کیا یہ مانا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو لڑکوں اور چچائوں کی موجودگی میں مرحوم فرمایا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چوں کہ تورات وانجیل میں تحریفیں ہوتی رہی ہیں ؛ اس لیے یہ حکم بھی انھیں تحریفات میں سے ہوسکتا ہے؛ اور یہ کہ اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کہ میراث کے احکامات قرآن مجید میں بڑے اہم اور سخت ہیں ، میراث پر عمل نہ کرنے والا فاسق اور زبان سے انکار کرنے والا اور میراث کے قرآنی احکامات کو نہ ماننے والا کافر ہے؛ اس لیے اس کے لیے ہمیشہ ہمیش جہنم میں رکھے جانے کی وعید آئی ہے۔ (نسائ:۱۴) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تورات وغیرہ میں یہ حکم قرآن کی طرح ہوگا؛ مگر لوگوں نے اس میں تحریف کی ہوگی۔

                (ھ) ’’ہندو مذہب‘‘ میں بھی میراث میں عورتوں کا کوئی حق نہ تھا، منوسمرتی (۹؍۱۰۲) میں لکھا ہے کہ ’’ماں باپ کی ساری دولت بڑا بیٹا لے، چھوٹا اور منجھلا بھائی بڑے بھائی سے اوقات گزاری کریں ، جس طرح والدین سے پرورش پاتے تھے۔‘‘ (مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ ص۱۶۱)

                یجروید،اتھر وید وغیرہ کا خلاصہ یہ تھا:

                ۱-            عورت اور شودر دونوں نِردھن (مال سے محروم) ہیں ۔

                ۲-           لڑکی باپ کی جائیداد کی وارث نہیں ہے۔

                ۳-          اگر کسی بیوہ کو اپنے شوہر کی طرف سے کوئی جائیداد ملی ہوئی ہے تو وہ اُسے بیچ نہیں سکتی۔

                ۴-          لڑکا نہ ہوتب بھی لڑکی وارث نہیں ہوسکتی؛ البتہ متبنّیٰ یعنی لے پالک وارث ہوگا۔ (مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ ص۱۲۸)

                ہندوستان کے قانون میں ۲۰۰۵÷ میں ہندو عورت کو یہ حق دیاگیا کہ باپ کی مشترکہ جائیداد میں لڑکی کا حصہ بھی لڑکے کے برابر ہوگا۔ (تکبیر مسلسل مارچ ۲۰۱۷÷)

                (و) ’’عرب‘‘ میں زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو ترکہ نہ دینے کا رواج تھا، اسی پر سارے عرب عمل کرتے تھے، ان کے یہاں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ تھی، وہ کہتے تھے:

                کَیْفَ نُعْطِي الْمَالَ؟ مَنْ لا یَرْکَبُ فَرَسًا وَلَا یَحْمِلُ سَیْفًا وَلَا یُقَاتِلُ عَدُوًّا (المواریث ص۲۱)

                ترجمہ: ہم (اس صنف کو) مال کیسے دیں ؟ جو نہ گھوڑے پر سوار ہوتی ہے، نہ تلوار اٹھاتی ہے اورنہ دشمن سے جان توڑ مقابلہ کرتی ہے!

                زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے یہاں عورتوں اور بچوں کو کوئی مال نہ دیا جاتا تھا، نہ ترکہ اورنہ مال غنیمت وغیرہ؛ بلکہ عورتیں مردوں کی دست نگر اور محتاج ہوتی تھیں ، ان کا کھانا، خرچہ، کپڑا اور رہائش مرد برداشت کرتے تھے؛ اس لیے ترکہ بھی نہ دیتے تھے۔ اسلام نے عورتوں کو انصاف دیا، جہاں اُن کو زندہ درگور ہونے سے بچایا، وہیں گھر کی ملکہ بناکرترکہ اورمیراث میں ان کا حصہ مقرر کیا، اُن کو کسی کا محتاج نہ چھوڑا۔

                اوپر متعدد مشہور مذاہب میں وراثت کے قانون کا جائزہ لیاگیا، ان کو دوبارہ پڑھیں ، اندازہ ہوجائے گا کہ عورتوں کو ترکہ اور میراث سے محروم رکھنے میں سب کے سب متفق ہیں ، سب ہم آواز ہیں نہ تویونانی اور بابلی قوانین میں عورتوں کو ترکہ دیاگیاہے، نہ یہودیت وعیسائیت میں اور نہ ہی ہندومذہب اور عربی مذہب میں اس کمزور صنف کی اَشْک شوئی کی گئی ہے۔

                یہاں سوال ہوتا ہے کہ جب دیگر مذاہب میں عورتوں کو بالکل دیا ہی نہیں گیا ہے تو ان پر اعتراض کیوں نہیں ہوتا، اسلام اُن سے بہرحال بہتر ہے کہ دیا توہے چاہے آدھا ہی سہی! اس کے جواب سے پہلے ہمارے یہاں کی مثل سنیے: ’’غریب کی بیوی سب کی بھوجائی‘‘ (بھابی) یعنی غریب کی بیوی سے سب مذاق کرتے ہیں ، آج اسلام غریب ہے؛ اس لیے مذاق بنا ہوا ہے۔

                صرف اور صرف اسلامی قانون میں عورتوں کو عدل کے پیمانے سے تول تول کر ترکہ دیاگیا ہے، اسلام میں عدل ہے، جس کی مثال کسی دوسرے قانون میں کہیں بھی موجود نہیں ۔

                جواب (۲): اسلام پر اعتراض تھا کہ عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں آدھا ترکہ دیاگیا ہے، اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ پورے قانون میں ذوی الفروض کا اگر جائزہ لیا جائے تو صرف تین جگہ ایسا ملے گا اور وہ اس وقت جب کہ مذکرومؤنث دونوں ایک ہی درجے میں ہوں ۔

                ۱- جب بھائی بہن کے ساتھ وارث ہوں ، اس کی چار شکلیں بنیں گی:

                (الف) جب میت کے بیٹے بیٹی وارث ہوں

                (ب) جب میت کے پوتے پوتی وارث ہوں

                (ج)        جب میت کے حقیقی بھائی بہن وارث ہوں

                (د)          جب میت کے علاتی بھائی بہن وارث ہوں

                ۲-           جب میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث ہوں تو اولاد ہونے کی صورت میں شوہر کو ربع (چوتھائی) اور بیوی کو ثمن (آٹھواں ) ملتا ہے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو نصف (آدھا) اور بیوی کو رُبع (چوتھائی) ملتا ہے، ان میں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ شوہر کو بیوی کا دوگنا دیاگیا ہے۔

                ۳-          جب ماں اور باپ وارث ہوں اور دوسرا کوئی نہ ہوتو ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دوتہائی ترکہ عصبہ ہونے کی وجہ سے ملتا ہے۔

                مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں مذکر کو دوگنا دیاگیا ہے، وہ بھی باریک حکمتوں کے پیش نظر حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ (۲/۳۷۴) میں لکھتے ہیں :

                أنَّ الذکَرَ یُفَضَّلُ علی الأنثٰی إذا کانا في منزلۃ واحدۃ أبدًا؛ لاختصاص الذکور بحمایۃ البیضۃ والذب عن الذمار؛ ولأنَّ الرجالَ علیہم إنفاقاتٌ کثیرۃٌ فہم أحق بما یکون شبہ المجان بخلاف النساء فإنَّہُنَّ کَلٌّ علی أزواجہن أو آبائہِنَّ أو أبنائِہِنَّ۔ وہو قولہ تعالیٰ: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ (نسائ:۳۴)

                ترجمہ: مرد کو عورت پر (ترکہ میں ) صرف اسی صورت میں ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے جب کہ دونوں ایک درجے میں ہوں ، (گویا اوپرکی ساری شکلیں اس میں آگئیں ) وطن کی حمایت اور اپنوں کے دفاع میں مرد کے خاص ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ مردوں پر بہت سے اخراجات لازم ہیں ؛ اس لیے مفت کی طرح ملنے والے مال  کے زیادہ حق دار ہیں ، برخلاف عورتوں کے؛ اس لیے کہ وہ (بلانکاح) اپنے باپ دادا، بیٹے پوتے اور (نکاح کے بعد) اپنے شوہروں پر بوجھ ہوتی ہیں اور یہ (باتیں ) اللہ تعالیٰ کے قول (میں ) ہیں : مرد عورتوں پر نگراں ہیں ، اس فوقیت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنا مال (ان کی کفالت میں ) خرچ کرتے ہیں ۔

                حضرت شاہ صاحبؒ نے یہاں ’’ایک‘‘ بات تو یہ بیان فرمائی کہ مردوں کو عورتوں سے دوگنا صرف اس صورت میں ملتا ہے جب کہ دونوں ایک ہی درجے کے ہوں ، یہ بات اوپر کی تینوں صورتوں میں خوب واضح ہے کہ ماں باپ، میاں بیوی اور بھائی بہن سب ایک درجہ میں ہیں ۔

                ’’دوسری‘‘ بات یہ فرمائی کہ ترکہ میں مردوں کو دووجہ سے زیادہ ملتا ہے ایک تو اس وجہ سے کہ مرد مردانگی کے کام کرتا ہے، اپنے اہل وعیال کی حفاظت میں شیردل ہوکر بیٹھا رہتا ہے، عزت، آبرو اور جان ومال کی حفاظت کے لیے لڑنے کی نوبت آتی ہے تو لڑتا بھی ہے، اس میں شاہ صاحب نے دیگر مذاہب اور عرب کے قیاسی استدلال کو ملحوظ رکھا اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ عورت پر مرد خرچ کرتا ہے، گویا ’’آمدنی بقدر خرچ‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مردوں کو دوگنا دیاگیا کہ وہ بیوی بچے، ماں باپ اور خود اپنے اوپر خرچ کرتا ہے، اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کی بیاہ شادی پر خرچ کرتا ہے، بیوی کا مہر دیتا ہے، کھانا، کپڑا اور رہائش کا انتظام کرتا ہے، آنے والے مہمانوں کی ضیافت کرتا ہے، صدقہ خیرات کرتا ہے، گھر کے لوگوں کے دوا علاج پر خرچ کرتا ہے، کبھی کوئی جرمانہ کسی پر عائد ہوا تو اس کی ادائیگی کرتا ہے۔ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں :

                والحکمۃُ أنَّ الرجال تلحقہم مُؤَنٌ کثیرۃٌ بالقیام بالعِیَالِ وَالضِّیفان والأرقّاء والقاصدین ومؤاسات السائلین وتَحَمُّلِ الغرامات وغیر ذلک۔ (شرح صحیح مسلم)

                ترجمہ: (مردوں کو میراث زیادہ دینے کی) حکمت یہ ہے کہ مردوں پر بہت سی مالی ذہ داریاں آپڑتی ہیں ، اہل وعیال، مہمان، غلام، آنے جانے والے کی ذمہ داری، مانگنے والوں کی دل جوئی اور تاوان کا بوجھ وغیرہ۔

                رہی عورت تو اس کا اسلام میں کوئی خرچہ نہیں ، شادی سے پہلے اور شادی نہ ہوتو پوری زندگی وہ باپ کے پاس رہتی اور باپ اس کی کفالت کرتا ہے، باپ پر کفالت واجب ہے اور شادی کے بعد شوہرپر شریعت نے نفقہ واجب کیا ہے اور اگر باپ نہیں ہے تو بیٹے پھر بھائی پھر چچا پر نفقہ واجب ہے؛ بلکہ محتاج ہونے کی صورت میں محرم رشتے دار پر بقدر میراث نفقہ واجب رہتا ہے اور وارث کو اس پر مجبور کیا جائے گا۔

                والنفقۃ لکل ذي رحم محرم؛ إذا کان صغیرًا فقیرًا أو کانت امرأۃ بالغۃ فقیرۃ أو کان ذکرًا بالغًا فقیرًا زَمِنًا أو أعمٰی۔ (ہدایہ۲/۱۹۲ مکتبہ بُشری کراچی) ویجب علی مقدار المیراث ویجبر علیہ۔ (ایضًا)۔

                ترجمہ: ہرمحرم رشتے دار کا خرچہ اس وقت واجب ہے جب کہ وہ نابالغ اور محتاج ہو یا عورت محتاج بالغ ہو یا بالغ محتاج اپاہج یا اندھا ہو اور نفقہ (بالفرض) وراثت پانے کی مقدار کے مطابق واجب ہوتا ہے اور اس (کی ادائیگی) پر رشتے دار کو مجبور کیا جائے گا۔

غور کرنے کا مقام

                یہاں سوچنا چاہیے کہ عورت کو اسلام نے ایک طرف تو ترکہ میں حصہ دیا ہے، دوسری طرف مردوں پر اس کا خرچہ واجب ہے تو دونوں طرف سے تو اسی کوملا اور کسی کا خرچہ اس کے ذمہ واجب نہیں ہے تو اس کا تو سب بچا ہی رہ جائے گا، میراث کے ساتھ زندگی بھر کا خرچہ مل جاتا ہے؛ اس لیے وہ بڑے مزے میں رہتی ہیں اور مسلمان عورتوں کا پرس کبھی خالی نہیں رہتا۔

ایک تجربہ

                عورتوں کا پیسہ بچا رہتا ہے اور مرد کا خرچہ ہوتا رہتا ہے، اس کا ایک تجربہ ناچیز کو حیدرآباد دکن میں ہوا، بیس سال پہلے جب میں وہاں ’’دارالعلوم‘‘ میں مدرس تھا، تنخواہ ساڑھے تین ہزار تھی، اپنی عادت کے مطابق تنخواہ ملتے ہی اہلیہ کو دوسو روپے دے دیتا تھا؛ تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرلے اور بقیہ سے دوسری ساری ضرورتیں پوری ہوتی تھیں ، اتفاق سے ایک دن ایک مہمان آگئے مہینے کا آخری عشرہ چل رہا تھا، ضیافت کا انتظام نہیں تھا، قرض لیتے ہوے شرم آرہی تھی، اہلیہ نے میری پریشانی کو محسوس کیا، اس نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں میرے پاس پیسے ہیں ، میں نے کہا: تمہارے پاس کہاں سے؟ اس نے کہا کہ آپ جو ہر مہینے دیتے ہیں وہ میرے پاس موجود ہے، پورا گھر تو آپ کی جیب سے چلتا ہے، میرا پیسہ کہاں خرچ ہوگا؟ اس پر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ قرض کے طور پر دے دو؛ تاکہ ضیافت ہوجائے اورتنخواہ ملنے کے بعد یاد سے لے لینا۔ اب اطمینان ہوا اور مہمان کی ضیافت قدرے اچھے انداز میں ہوگئی۔

                اس واقعہ میں غور کیجیے کہ گھر کے ذمہ دار مرد کے پاس تین ہزار روپے ہیں وہ خرچ ہوگئے اور عورت کے پاس صرف دو سو روپے ہیں وہ جمع ہیں اور کئی مہینوں کے جمع ہیں ، تو اگر اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں آدھا دیا تو وہ بھی بہت ہے۔

شیخ صابونی کی ایک مؤثر مثال

                جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے استاذ تفسیر وفرائض شیخ محمد علی صابونیؒ نے فرائض کے موضوع پر ایک لاجواب کتاب لکھی ہے، اس کا نام ہے، ’’المواریث في  ضوء الکتاب والسنۃ‘‘ اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے کہ فرض کرو کہ ایک آدمی کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے، ترکہ تین ہزار ریال ہے، لڑکے کو دو ہزار اور لڑکی کو ایک ہزار ملے، اتفاق سے لڑکے کی شادی ہوئی اس کی بیوی کا مہر دو ہزار ہے تو اس نے پورے دے دیے اور اس کا ہاتھ خالی ہوگیا ابھی اس کے ذمے بیوی کا نان ونفقہ لباس اور رہائش کا انتظام باقی ہے، ادھر لڑکی کی شادی ہوئی اس کو اپنے شوہر سے مہر مثلاً دوہزار ملے، اس طرح اس کے پاس تین ہزار ریال جمع ہوگئے، اس کا خرچہ نہ پہلے تھا اور نہ بعد میں ہے؛ بلکہ کھانا، خرچہ، لباس وپوشاک اور رہائش کا انتظام سب کچھ اس کے شوہر کے ذمے ہے۔

                اب اندازہ کیجیے کہ اسلام میں ترکہ کی تقسیم عقل وانصاف کے مطابق ہے یا عقل وانصاف کے خلاف؟

                اعتراض کرنے والے جہاں عورتوں پر ظلم کی باتیں کرتے ہیں ، وہیں اپنے ظلم کو اگر دیکھیں تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی، انھوں نے عورتوں کو بکائو مال بنارکھا ہے، دکانوں ، ہوٹلوں اور قحبہ خانوں میں ان کی عزتیں نیلام ہورہی ہیں ، اُن کو اخراجات کا انتظام کرنے کا مکلف بنایا جارہا ہے، حد یہ ہے کہ ان کے معاشرے میں بیوی اپنا کماکر خود کھاتی ہے شوہر اپنا کماکر کھاتاہے، دونوں اپنی رہائش وآسائش کا انتظام خود کرتے ہیں ؛ اس لیے ان کو اسلام پر اعتراض ہوتا ہے، وہ ایک آنکھ سے اسلامی احکام کو دیکھ کر اعتراض کرتے ہیں ، اگر دونوں آنکھیں کھول کر اسلام کے سارے قوانین کا مطالعہ کریں تو ان کے دل کی آنکھیں بھی کھل جائیں !

                اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے عورت ہونے کی بنیاد پر بعض صورتوں میں فرق نہیں کیاہے؛ بلکہ مالی ذمہ داریوں کا خیال کیا ہے، جس کی مالی ذمہ داری زیادہ ہے اس کو زیادہ دیا ہے، اس کی تعبیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’الخراج بالضمان‘‘ سے فرمائی ہے۔ (ترمذی ۱۲۸۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو نقصان برداشت کرتا ہے فائدہ بھی اسی کو ملتا ہے۔ اس کی دوسری تعبیر ’’الغُنْمُ بالغرم‘‘ بھی ہے، (الاشباہ والنظائر)۔

                جواب (۳) یہ الزام  ہے کہ اسلام نے عورتوں کو مردوں سے آدھا دیاہے، درست نہیں ؛ اس لیے کہ بہت سی صورتیں ایسی ہیں جن میں عورتوں کو مردوں سے زیادہ دیاگیا ہے:

                ۱- اگر کسی عورت کا انتقال ہوجائے اور اس کے ورثاء میں شوہر، ماں باپ اور دو بیٹیاں ہوں اور ترکہ سو روپے ہوں تو شوہر کو بیس، ماں اور باپ میں سے ہر ایک کو تیرہ روپے تینتیس پیسے اور دونوں بیٹیوں کو مشترکہ طورپر ترپن روپے تینتیس پیسے ملیں گے؛ لیکن اگر دو بیٹی کی جگہ دو بیٹے ہوں تو بیٹے کو مشترکہ طورپر صرف اکتالیس روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے اور باپ اور ماں میں سے ہر ایک کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے اور شوہر کو پچیس روپے ملیں گے۔ تو دیکھیے کہ اس صورت میں بیٹی کی جگہ اگر بیٹا ہوتو بیٹی کا حصہ زیادہ اور بیٹے کا حصہ کم ہے۔ تو یہ کہنا  درست نہیں کہ اسلام نے بیٹے کو زیادہ دیا ہے اور بیٹی کو کم۔

                ۲- مذکورہ بالا مثال میں اگر بیٹی ایک ہو اور ترکہ سوروپے ہوں تو بیٹی کو چھیالیس روپے پندرہ پیسے ملیں گے اور ایک بیٹا ہوتو اسے اکتالیس روپے چھیاسٹ پیسے ملیں گے۔ یہاں بھی لڑکے کو کم اور لڑکی کو زیادہ مل رہا ہے۔ اس صورت میں شوہر کو پچیس روپے اور ماں اور باپ میں سے ہر ایک کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے۔

                ۳- اگر ورثاء میں شوہر، ماں اور دو حقیقی بہنیں ہوں اور ترکہ سو روپے ہو تو شوہر کو سینتیس روپے پچاس پیسے ملیں گے، ماں کو بارہ روپے اٹھائیس پیسے اور دونوں بہنوں کو پچاس روپے ملیں گے۔

                اگر دو حقیقی بہنوں کی جگہ دو حقیقی بھائی ہوں تو حقیقی بھائی کو صرف تینتیس روپے تینتیس پیسے ملیں گے اورشوہر کو پچاس روپے اورماں کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے۔

                ۴- اگر کسی کا انتقال ہوجائے اور وہ شوہر، ماں اورحقیقی بہن چھوڑے اور ترکہ سو روپے ہوں تو شوہر کو بیالیس روپے پچاسی پیسے، ماں کو چودہ روپے اٹھائیس پیسے اور بہن کو بیالیس روپے پچاسی پیسے ملیں گے اور اگر اس صورت میں بہن کی جگہ ایک حقیقی بھائی ہوتو بھائی کو تینتیس روپے تینتیس پیسے ملیں گے اندازہ لگائیں کہ بہن کو بھائی کے مقابلے میں کتنا زیادہ مل رہا ہے۔ یہی اسلام کی نوازش ہے؛ اس لیے یہ اعتراض بے جا ہے کہ اسلام میں عورتوں پر ظلم ہوا ہے۔

                ۵- بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے کافی بڑھ جاتا ہے، مثال کے طورپر ایک آدمی نے اپنی بیوی، ماں ، دوحقیقی بھائی اور دو اخیافی بہن چھوڑی اور ترکہ سو روپے ہیں تو بیوی کو پچیس روپے، ماں کو سولہ روپے اور حقیقی بھائی کو پچیس روپے اور اخیافی بہن کو تینتیس روپے تینتیس پیسے ملیں گے؛ لیکن اگر کسی عورت کا انتقال ہو اور وہ شوہر کے ساتھ دو حقیقی بھائی اور دو علاتی بہنوں کو چھوڑے تو ترکہ شوہر کو پچاس روپے اور دونوں حقیقی بھائیوں کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے اور دونوں علاتی بہنوں کو تینتیس روپے تینتیس پیسے ملیں گے۔ یہاں دیکھیے کہ دونوں صورتوں میں عورت کو مرد سے زیادہ ترکہ مل رہا ہے، تو کس منہ سے کہا جائے کہ اسلام نے عورت کو کم دیا ہے؟

                ۶- اگر کسی نے اپنے شوہر، ماں ، اخیافی بہن اور دو حقیقی بھائی کو چھوڑا اور ترکہ سو روپے ہیں تو شوہر کو پچاس، ماں کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے، تنہا اخیافی بہن کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے اور دونوں حقیقی بھائیوں کو مشترکہ طور پر سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے تو یہاں دیکھیے کہ عورت کو اس کے برابر والے مرد کے مقابلے میں دوگنا مل رہا ہے۔ یہاں تو معاملہ بالکل الٹا ہوگیا کہ مرد کو عورت کے مقابلے میں آدھا ملا، تو کیا اعتراض کرنے والے اندھے ہیں ؟ یا اللہ نے انھیں اندھا کردیا ہے کہ نظر نہیں آرہا ہے۔؎

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگیِ داماں بھی تھا

عورت وارث ہوتی ہے مرد نہیں

                بعض صورتیں ایسی بھی ہیں کہ ان میں عورت وارث ہوتی ہے اور اگر اس کی جگہ اسی کا ہم رتبہ مرد ہو تو وہ وارث نہیں ہوتا، مثال کے طور پر ایک عورت کا انتقال ہوا، اس نے اپنے شوہر، باپ، ماں ، بیٹی کے ساتھ پوتی کو چھوڑا تو پوتی وارث ہوگی اس کو چھٹا حصہ ملے گا؛ لیکن اگر اس کی جگہ پوتا ہوتو وہ عصبۂ قریب باپ کی وجہ سے محروم ہوجائے گا۔

جن صورتوں میں عورتوں کو مردوں کے برابر حصہ ملتا ہے

                ۱- اگر کسی نے اپنے ورثاء میں ماں ، باپ اور دو لڑکے چھوڑے تو ماں اور باپ دونوں کو الگ الگ چھٹا حصہ ملے گا اور بیٹا عصبہ ہوگا۔

                مسئلہ چھ سے بنے گا باپ کو ایک، ماں کو ایک اور لڑکے کو چار ملیں گے۔

                اس صورت میں اگر لڑکے کی جگہ میں دو لڑکی ہوتو اس کو دوتہائی ملے گا، یعنی چھ میں سے چار ملیں گے، گویا اس صورت میں اگر لڑکا ہوتو یا لڑکی ہوتو دونوں کو چھ میں سے چار ملیں گے، دونوں برابر ہوں گے۔

                ۲-ماں شریک بھائی اور بہن دونوں کو برابر حصہ ملتا ہے، یہاں مرد عورت برابر کے مستحق ہیں ۔ اس کی صراحت قرآن کریم میں ہے۔

                ۳- اگر کوئی آدمی صرف بیٹا چھوڑے تو سارا ترکہ بیٹا کو ملے گا، تو اگر وہ صرف بیٹی کو چھوڑے تو بھی سارا ترکہ بیٹی کو ملے گا، مطلب یہ کہ تنہا ہونے کی صورت میں بیٹا ہو یا بیٹی دونوں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں ۔

                ۴- اگر کوئی عورت شوہر اور حقیقی بھائی کو چھوڑے تو دونوں کے درمیان ترکہ آدھا آدھا تقسیم ہوگا شوہر ذوالفرض ہونے کی حیثیت سے آدھا لے گا اور بھائی عصبہ ہونے کی وجہ سے بچا ہوا آدھا لے گا۔

                اگر اس صورت میں بھائی کے بجائے ایک بہن ہوتو وہ بھی ذوالفرض ہونے کی حیثیت سے شوہر کے ساتھ آدھا ترکہ لے گی۔ گویا اس صورت میں عورت ہوتو بھی یا مرد ہوتو بھی دونوں کو برابر ملے گا۔

                ۵- مرنے والااگر کوئی ماں باپ کے ساتھ ایک لڑکا چھوڑے تو ماں اورباپ دونوں کو برابر یعنی سدس ملے گا۔

                جواب (۴): یہ الزام کہ اسلام نے عورتوں کو مردوں سے کم دیا ہے؛ اس لیے بھی درست نہیں کہ قرآنِ پاک میں حصے کل چھ ہیں : ثلثان، (دوتہائی) نصف (آدھا) ثلث (تہائی) ربع (چوتھائی) سدس (چھٹا) ثمن (آٹھواں )۔

                (الف) ان سب میں سب سے بڑا حصہ ثلثان (دوتہائی) ہے، اس کو لینے والیاں صرف عورتیں ہیں ، یعنی متعدد بیٹی، پوتی، حقیقی بہن اور علاتی بہن، کسی مرد کو یہ بڑا والا حصہ نہیں ملتا۔ اس سے بھی خوب واضح ہوگیا کہ اسلام نے عورتوں کو زیادہ دیا ہے۔

                (ب) اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ان حصوں کو لینے والے ورثاء کل تیئس (۲۳) ہیں ، ان میں سترہ عورتیں اور چھ مرد ہیں ، اس سے بھی اندازہ لگائیے کہ اسلام نے عورتوں کو زیادہ دیے ہیں ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ثلثان کو لینے والیاں تو اوپر ذکر کی گئیں ، نصف بھی وہی چار لیتی ہیں اور ساتھ ہی شوہر کو بھی ملتا ہے۔ ثلث ماں ، ماں شریک بھائی، ماں شریک بہن کو ملتا ہے۔ کل بارہ ہوگئے، ربع میاں بیوی کو ملتا ہے، سدس آٹھ لوگوں کو ملتا ہے یعنی ماں ، دادی، پوتی، علاتی بہن ، اخیافی بہن، اخیافی بھائی اور باپ دادا۔ اور آٹھواں صرف بیوی کو ملتا ہے کل تیئس افراد ہوئے۔ دیکھیے مرد صرف چھ جگہ نظر آئیں گے۔ تو اسے عورت پر ظلم کس طرح کہا جاسکتا ہے؟ یہ تو عورتوں پراسلام کے نوازشات ہیں ۔

اسلام کو چھوڑ کر رواج کو اپنانا

                جب متحدہ ہندوستان پر اسلامی حکومت تھی تو وراثت کی تقسیم کے لیے اسلامی قانون رائج تھا اور مغلیہ حکومت تک اس پر عمل ہوتا چلا آرہا تھا؛ مگر جب انگریزوں کا غلبہ ہوگیا اور وہ پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے تو انھوں نے مسلمانوں سے ایک سوال کیا کہ آپ لوگ قرآن وسنت کے مطابق ترکہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں یا رواج کے مطابق؟ دونوں میں فرق یہ تھا کہ اسلامی قانون میں عورتوں کو ترکہ ملتا ہے جب کہ رواج نہ دینے کا ہے تو کیا آپ لوگ لڑکیوں کو دینا چاہتے ہیں یا نہیں ؟

                تو اس کا جواب ہندوستان کے کئی اضلاع سے یہ آیا کہ ہم لوگ رواج مطابق ترکہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں ، عورتوں کو دینا نہیں چاہتے، (مفید الوارثین ص۳۲) یہ کتنا افسوس ناک جواب تھا، اس کو وہی آدمی سمجھ سکتا ہے جس کے دل میں اللہ کے قانون کی عظمت ہے، جو قرآن وسنت پر ایمان ویقین رکھتا ہے، جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے محبت اور عشق ہے۔

                یہ مشرکانہ جواب ان زمینداروں کا تھا جو دنیا کی محبت میں قرآن مجید کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے اور آخرت پر کامل یقین نہیں رکھتے تھے، ان کو معلوم نہیں تھا کہ زبان سے ترکہ کا انکار کرنا گناہ کبیرہ ہے اور عملاً نہ دینا فسق ہے اور قرآن کے حکم کو حکم نہ سمجھنا کفر ہے جس کی سزا دائمی جہنم ہے۔ ان کا جواب ان عرب جاہلوں کے جواب کی طرح تھا جو لڑکیوں کو زندہ دفن کرتے، یتیموں کا مال کھاتے اور میت کا بڑا لڑکا، یا بھائی یا چچا وغیرہ مال پر قبضہ کرلیتا تھا۔ مالوں پر قبضہ باقی رکھنے کے لیے یتیم لڑکیوں کا نکاح نہیں کرتے تھے۔

میراث غصب کرنے کے لیے بہنوں کی تقسیم کا حیلہ

                ہندوستان کے مختلف علاقوں میں عورتوں کو ترکہ سے محروم رکھنے کے لیے بھائی آپس میں بہنوں کی تقسیم کرلیتے ہیں ، ہمارے بہار میں بھی یہ حیلہ چل رہا ہے، مثال کے طورپر دو بھائیوں کی چار بہنیں ہیں تو دونوں بھائی دو دو بہن کو اپنے حصے میں تقسیم کرکے لے لیتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ سب جب بھی میکے آئیں گی تو ان کی ضیافت متعلق بھائی کرے گا، واپسی کے وقت کپڑے اور دیگر ہدیے تحفے وہی دے گا اور ترکہ میں بہنوں کو حصہ نہیں دے گا، متعلقہ بہن ترکہ مانگ نہیں سکتی، اگر اس نے کبھی بھی ترکہ مانگا تو سارے لوگ اُسے اُلاہنا دیں گے اور بھائی قطع رحمی کی دھمکی دے گا کہ اگر تعلق باقی رکھنا ہے، آنے جانے کا سلسلہ قائم رکھنا ہے تو ترکہ نہیں ملے گا، اگر لے گی تو تیرے لیے میکے کا دروازہ بند ہوجائے گا۔

                یہاں غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ رشتہ داریاں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی نعمت ہیں ، انھیں کوئی کاٹ نہیں سکتا؛ انسان کے کاٹنے سے اللہ کا جوڑا ہوا رشتہ نہیں کٹتا ہے، اگر کوئی قطع تعلق کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہوگا اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ عمل سزا کا سزاوار ہے۔

                اس لیے بھائیوں کو ہدیہ تحفہ کی لالچ اور قطع تعلق کی دھمکی دے کر بہنوں کی میراث غصب کرنا جائز نہیں ، یہ گناہِ کبیرہ ہے، اللہ کی تقسیم کو زمین پر قائم کرنا ہم لوگوں کا فریضہ ہے میراث کو خود اللہ تعالیٰ نے تقسیم فرمایا ہے؛ اس لیے ہمیں کسی طرح اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے! ایسا کرنا عرب کے جاہلوں جیسا عمل ہے جو اپنے قریبی رشتہ دار کی عورتوں کو اپنے پاس میراث کے طور پر رکھ لیتے تھے، قرآن پاک میں صاف فرمایاگیا:

                یَـٰٓأَیُّہَا الَّذِینَ ئَامَنُواْ لَا یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَآئَ کَرْہاً (نسائ:۱۹)

                ترجمہ: اے مؤمنو! تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم عورتوں کو مجبور کرکے وارث بن جائو۔

                عرب اپنے قریبی رشتہ دار کی وفات کے بعد عورتوں کو اپنے قابو میں کرلیتے تھے اور ان کے ساتھ چار طرح کا سلوک کرتے تھے۔

                ۱- یاتو ان سے بلامہر نکاح کرلیتے تھے، اگر نکاح کا رشتہ جائز ہوتا تھا، یا ان کو مہر نہیں دیتے تھے۔

                ۲- یا کسی سے ان کا نکاح کرادیتے اور مہر پر خود قبضہ جمالیتے تھے۔

                ۳- یا ان کو نکاح سے روکے رہتے تھے اور جب وہ اپنا سارا ترکہ اس کو دے دیتیں تو نکاح کی اجازت دیتے تھے۔

                ۴- یا ان کو موت تک اپنے پاس ہی رکھے رہتے اور مرنے کے بعد اُن کے مالوں پر قبضہ کرلیتے تھے۔ (جلالین)

                اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر ظلم ہونے کی وجہ سے خصوصی طور پر آیتیں نازل فرمائیں ؛ تاکہ ان کو اُن کا حق مل جائے اور مرد اپنا ترکہ اپنے حق سے زیادہ محض لاٹھی کے زور سے لے لیتے تھے؛ اس لیے ان کے لیے بھی قانون بنادیا؛ تاکہ زیادہ نہ لیں ؛ لیکن نزولِ آیت کا اصل مقصد عورتوں کو حق دلانا تھا۔

عورت کو انصاف دینے کے لیے آیت میراث کا نزول

                حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیاتھا، وہ شہید ہوگئے تھے ان کی بیوی، دو لڑکیاں زندہ تھیں ، بھائی نے ترکہ پر قبضہ کرلیا، اب بیوی بہت پریشان ہوئیں ،دونوں بچیوں کے گزر بسر اور شادی بیاہ کا مسئلہ سامنے تھا؛ چنانچہ ان  کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں اور پورا قصہ سنایا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ارجعي فَلَعَلَّ اللّٰہَ سَیَقضِي فیہ‘‘ ابھی واپس جائو اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں فیصلہ فرمائیں ؛ چنانچہ کچھ دنوں بعد وہ پھر دوبارہ واپس آئیں اور رونے لگیں ، ان کی آہ آسمانوں کو پار کرکے عرش تک پہنچ گئی اور آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم بچیوں کے چچا کو بلایا اور حکم فرمایا کہ مرحوم کی دونوں بچیوں کو دوتہائی اور بیوہ کو آٹھواں حصہ دے دو اور جو بچے وہ تیرا ہے۔ یہ میراث کی پہلی آیت ہے جو ایک مظلوم عورت کی دادرسی اور فریاد رسی کے لیے نازل ہوئی۔ (تفسیرکبیر نسائ:۱۱)

عورتوں کی میراث سے عرب میں ہلچل

                جب آیت میراث نازل ہوئی اور عورتوں کو ترکے کا مستحق قرار دیاگیا تو عرب میں اس کا چرچا ہونے لگا انھیں ایسا لگ رہا تھاکہ شاید یہ حکم غلط ہے، رسول اللہ … سے بھول ہوگئی ہے، لوگوں نے ایک دوسرے سے کہنا شروع کیا کہ ابھی اس حکم کو عام نہ کرو ہوسکتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں کہ یا رسول اللہ! ہم لڑکی کو باپ کے ترکے میں سے آدھا کس طرح دیں گے؛ جب کہ وہ گھوڑے پر سوارنہیں ہوتی ہے، نہ دشمن سے لڑتی ہے اور کیا ہم میراث میں بچوں کو بھی حصہ دیں ؟ جب کہ وہ ہمیں کچھ کام نہیں آتے؛ چنانچہ ان لوگوں نے اپنی تسلّی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا؛ مگر چوں کہ یہ حکم قطعی اور لازمی تھا؛ ا س لیے ان کی ایک نہ سنی گئی۔ (طبری ۷؍۲۳)

میراث کا حکم جبری ہے

                میراث کی تقسیم اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی ہے؛ اس لیے فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ حکم جبری اور ضروری ہے، کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا، علامہ شامی لکھتے ہیں :

                الإرثُ جَبْريٌّ لا یَسْقُطُ بالإسقاط۔ (کتاب الدعویٰ ۷/۵۰۵، ایچ، ایم سعید)

                ترجمہ: میراث (کا حکم) جبری ہے کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا۔

                اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی تاکید فرمائی ہے اور اس کے لیے ’’وصیت‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے جس کے معنی ہیں ’’بڑا تاکیدی حکم‘‘ پھر آگے ارشاد فرمایاکہ تم اپنے باپ دادا اور بیٹے پوتے کے بارے میں نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ فائدہ پہنچائے گا (نسائ:۱۱) مقصد یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی تقسیم کو بلاکسی غور وفکر کے مان لو، اسی میں خیرپوشیدہ ہے۔ پھر آگے فرمایاکہ ترکہ کی تعیین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، یقینا اللہ تعالیٰ (بندوں کے احوال ) خوب جانتے ہیں اور باریک گہری سوجھ بوجھ والے وہی ہیں ۔ (نسائ:۱۱) اس لیے اُن پر ایمان لاکرحکم کو فوراً مان لو، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ آگے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو اللہ اور اس کے پیغمبر کی بات مانے گا تواُسے ایسے باغوں میں داخل فرمائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ (نسائ:۱۳) اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے تصویر کے دوسرے رخ کو بھی واضح فرمادیا کہ جو اللہ اور اس کے پیغمبر کی بات نہیں مانے گا اور اللہ کے حدود (کھینچی ہوئی لکیروں ) سے آگے بڑھے گا اُسے اللہ تعالیٰ آگ میں ڈالیں گے وہ اس میں سدا رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے (نسائ:۱۴)

                مذکورہ بالا آیتوں کو بار بار پڑھیے اور اندازہ کیجیے کہ میراث کا حکم کتنا سخت ہے کہ اس کی مخالفت دائرئہ اسلام سے نکال دیتی ہے اورہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیتی ہے۔

                حدیث میں وعید: حدیث شریف میں ہے، حضرت انسؓ سے روایت ہے:

                مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثَ وَارِثِہٖ قَطَعَ اللّٰہُ مِیْراثَہٗ مِنَ الجنَّۃِ یوم القیامۃِ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۱/۲۶۶ باب الوصایا)

                ترجمہ: جو آدمی اپنے (ساتھ والے) وارث کی میراث کو کاٹ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کو کاٹ دیں گے یعنی جہنم میں بھیج دیں گے۔

یتیم پوتوں کی میراث

                اب عنوان کے دوسرے جز پر گفتگو شروع کرتے ہیں ، یعنی ’’یتیم پوتوں کی میراث‘‘ یتیم کا لفظ آتے ہی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اسی کے ساتھ محتاج ونادار ہونے کا خیال بھی آتا ہے۔ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونا تو ایک فطری بات ہے؛ مگر محتاج ہونا یتیم کا ضروری نہیں ؛ اس لیے کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یتیم کے پاس اس کے باپ کا چھوڑا ہوا بہت کچھ ہوتا ہے، یا کسی دوسرے رشتہ دار کی طرف سے اُسے کافی کچھ ملا ہوا ہوتا ہے یا ذاتی ملکیت بھی ہوتی ہے، اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم رہنا ضروری ہے کہ یتیمی بالغ ہونے سے پہلے ہوتی ہے، بالغ ہونے کے بعد آدمی یتیم نہیں کہلاتا، یہ شرعی اصطلاح ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  لا یُتْمَ بَعْدَ حُلْمٍ۔ (مجمع الزوائد ۱۷۵۳) یعنی بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہے؛ لیکن ہم اپنے عرف میں جوان بلکہ بوڑھے کو بھی باپ کے مرنے کے بعد یتیم کہہ دیتے ہیں ، یہ شرعاً معتبر تعبیر نہیں ہے۔

                اس تمہید کے بعدیہ سمجھنا چاہیے کہ (الف) اسلام کا نظام میراث مستقل اصول وضابطے پر مبنی ہے، قرآن وسنت میں سارے حصوں کی صراحت موجود ہے۔

                (ب) یہ انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی ہوسکے، یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا قانون ہے، اس میں ذرابرابر کم وکاست کرنا انسان کے بس میں نہیں ؛ چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہوں ! اس لیے حضرت سعد بن الربیعؓ کی بیوی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے انتظار کا حکم فرمایا اگر آپ کے بس میں ترکہ کی تعیین ہوتی توآپ خود متعین فرماکر تقسیم فرمادیتے۔

                (ج) پھر یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان جب تک زندہ رہتا ہے، وہ اپنے مال ودولت کا مالک رہتا ہے، اپنی زندگی میں وہ کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اپنے مال سے لین دین کے سارے معاملات کرسکتا ہے اور مرنے کے بعد کے لیے وہ ایک تہائی وصیت کرسکتا ہے اوراگر اس نے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کی ہے اور اس کے سارے ورثاء عاقل وبالغ ہیں تو تہائی سے زیادہ میں بھی وصیت جاری کرسکتے ہیں ۔

                (د) ترکہ کی تقسیم کا مدارس شریعت نے قرابت (نزدیکی رشتے) پر رکھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:

                ألحقوا الفرائِضَ بأہْلِہَا فما بَقِيَ فَہُوَ لِأَوْلٰی رَجُلٍ ذکرٍ۔ (بخاری۲/۹۹۷، مشکوٰۃ۲۰۴۲)

                ترجمہ: (میراث کے) حصے، حصّے والوں کو دے دو پھر جو بچے تو وہ بہت قریب آدمی یعنی مرد کے لیے ہے۔

                محتاجی پر ترکہ کا مدار نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو مال داروں کے وارث فقراء ومساکین ہوتے، میت کے مال دار بیٹے، پوتے، باپ، دادا، بیوی اور بھائی بہن نہ ہوتے۔

                (ھ) اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ترکہ قریب ترین کو ملتا ہے اور دور والے محروم رہتے ہیں ، اس کی صراحت ’’الاقربون‘‘ کی تعبیر کے ساتھ سورہ نساء (۷، ۳۳) میں تین جگہ آئی ہے۔ اسی کو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس طرح تعبیر فرمایا ہے:

                الأصلُ فیہ أن الأقرب یَحْجُبُ الأبْعَدَ حِرمانًا۔ (حجۃ اللہ البالغہ ۲/۳۷۵  مکتبہ حجاز دیوبند)

                ترجمہ: ترکہ میں بنیاد یہ ہے کہ نزدیک والا دور والے کو بالکل محروم کردیتا ہے۔

                یہی شریعت کا تقاضا ہے اور عقل کا بھی؛ اگر ایسا نہ ہو اور قریب اور دور سب کو ترکہ ملے تو ہر آدمی آدم کی اولاد ہے، ساری دنیا اس میں شامل ہوگی اور دنیا کے سب سے بڑے مال دار آدمی کا ترکہ بھی ہر انسان کو نہیں پہنچ سکتا اور ایسا کرنا عملاً محال بھی ہے۔

                ہرانسان اپنی زندگی میں جو کچھ کماتا ہے اُسے اپنے قریب اہل وعیال، باپ دادا وغیرہ پر خرچ کرتا ہے اورمرنے کے وقت اس کے دل کا داعیہ ہوتا ہے کہ اس کا ترکہ اُس کے قریب سے قریب وارث کو ملے۔

                جب مذکورہ بالا پانچوں باتیں تسلیم ہیں تو یہ بھی سمجھیے کہ انھیں اصول کی بنیاد پر باپ کے ہوتے ہوئے دادا کو نہیں ملتا ہے اور دادی وارث نہیں ہوتی ہے؛ حالاں کہ دادا دادی کمزور ضعیف اور محتاج بھی ہوتے ہیں ، ماں کے ہوتے ہوئے میت کی نانی کو نہیں ملتا اور نانا کو بھی نہیں ملتا؛ حالاں کہ نانا نانی بھی ضعیف اورمحتاج ہوتے ہیں اور بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے پوتیوں کو نہیں ملتا، چاہے اُن کے والد زندہ ہوں یا مرچکے ہوں بیٹی موجود ہوتو نواسوں نواسیوں کو ترکہ نہیں ملتا۔

                بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کسی آدمی کے کئی بیٹے ہوں ، ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے اور ان کی یتیم اولاد موجود ہوتو دادا کے ترکہ میں ان کا حق ہونا چاہیے؛ مگر یہ درست نہیں ہے، یہ موقف قرآن مجید کے خلاف ہے اور عقل ودانش کے بھی خلاف ہے کہ میت کے بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کو دے دیا جائے (جواہر الفقہ ۷/۵۳۷، زکریا بک ڈپو دیوبند)۔

                 ضروری نہیں کہ پوتا چچائوں کے مقابلے میں محتاج ونادار ہوں ، دوسرے یہ کہ غربت کو اگر میراث کا معیار بنایا جائے تو میراث کا خدائی قانون پامال ہوکر رہ جائے گا۔

اجماع صحابہ

                قرآن پاک اور حدیث شریف سے استدلال اوپر ذکر کیاگیا، یہاں اجماع صحابہ پیش کیا جارہاہے؛ چنانچہ علامہ ابن حزم ظاہری رقم طراز ہیں :

                وَلَا یَرِثُ بَنُو الابنِ مع الابنِ الذَّکَرِ شیئًا أباہم کانَ أو عَمُّہُمْ۔ وہٰذا نَصُّ کلامِ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم (في قولہٖ فلأولیٰ رجلٍ ذکرٍ) وإجماعٌ مُتَیَقنٌ۔ (المحلی ۹/۲۷۱)

                ترجمہ: بیٹے کی موجودگی میں پوتے کسی چیز کے وارث نہیں ہوتے، ان کے باپ (زندہ) ہوں یا چچا زندہ ہوں ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی صراحت ہے اور قابلِ اطمینان اجماع ہے۔

                حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ صحابہ کے درمیان علم فرائض میں بڑا اونچا مقام رکھتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  وأعْلَمُہَا بالفرائض زیدٌ۔

                ترجمہ: علم میراث میں زید ان میں سب سے بڑے عالم ہیں ۔

                ان کا ارشاد ہے:

                ولد الأبناء بِمَنْزِلَۃِ الْوَلَدِ إذ لَم یَکُنْ دُوْنَہُمْ وَلَدٌ، ذَکَرٌ ذَکرُہم کذکرِہم وأناثہم کأناثہم یرثون کما یرثون ویحجبون کما یَحْجُبُونَ ولا یرث ولد الابن مع الابن۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب۷، عینی ۲۳/۲۳۸)

                ترجمہ: پوتے پوتیاں لڑکے لڑکی کے درجے میں ہیں ، جب کہ اُن سے قریب کا کوئی لڑکا نہ ہو، ان کے لڑکے (پوتے) لڑکوں کی طرح اور ان کی لڑکیاں (پوتیاں ) لڑکیوں کی طرح ہیں وہ وراثت پائیں گے جس طرح وہ (بیٹے بیٹی) وراثت پاتے ہیں اور حاجب بنیں گے جیسے وہ حاجب بنتے ہیں اور پوتا پوتی، بیٹے کے ساتھ وارث نہیں ہوتے۔

                ’’یُوصیکم اللّٰہُ في أولادکم‘‘ (نسائ:۱۱) میں اولاد سے مراد بلاواسطہ صلبی لڑکے لڑکیاں ہیں اور اگر بیٹے نہ ہوں تو بیٹے کے بیٹے بیٹیاں اولاد کے قائم مقام ہوں گے اور یہ بھی نہ ہوں تو پوتے کے لڑکے اور لڑکیاں اولاد کے قائم مقام ہوں گے اور ذوی الفروض کو دینے کے بعد مذکر کو دو مؤنث کے برابر والے قاعدے (نسائ:۱۱) سے ترکہ تقسیم ہوگا۔

ناانصافی

                اگر یتیم پوتوں کو دیا جائے اور جو بیٹے زندہ ہیں اُن کے بیٹوں کو نہ دیا جائے تو یہ بھی نا انصافی کی بات ہوگی کہ دادا کے ترکہ میں سے کچھ پوتوں کو ملا اور کچھ کو محروم رکھا گیا اور جن کے والد کو ملا ہے وہ اُن تک پہنچ جائے، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے اور اگر پہنچے گا بھی تو اپنے والد کا ترکہ ہوگا، دادا کا ترکہ نہیں کہلائے گا۔

                اشکال (۱) اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ روایت میں ’’لایَرِثُ ولد الابن مَعَ الابنِ‘‘ ہے، یہاں ابن سے مراد زندہ لڑکاہے، زندہ لڑکے کا بیٹا ترکہ نہیں پائے گا اور جس کا والد مرگیا ہے اس کا لڑکا ترکہ پائے گا۔

                جواب: تواس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس عبارت کا یہی مطلب ہوتا تو عبارت یوں ہوتی  ’’لا یرثُ الابن مع أبیہ‘‘ کہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ وارث نہیں ہوگا۔

                اشکال کرنے والے نے شریعت کے خلاف اپنے من سے یہ مطلب بنایا ہے۔

                صحیح بات یہ ہے کہ بیٹا کی موجودگی میں ہر طرح کا پوتا اور ہر طرح کی پوتیاں محروم ہوتی ہیں ، پوتے کے محروم ہونے والی عبارت کو زندہ بیٹوں کے بیٹے کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

                اشکال (۲): یتیم پوتے ’’اَبْعَد‘‘ (دور) نہیں ہیں ؛ اس لیے کہ جب باپ تھا تو یہ ’’ابعد‘‘ تھا باپ اقرب تھا، باپ کے مرنے کے بعد یہ پوتا اپنے باپ کی جگہ میں ہوکر قریب ہوگیا؛ اس لیے اقرب ہونے کی وجہ سے ترکہ ملنا چاہیے!

                جواب: پوتا اپنے باپ کے واسطے سے ہی دادا کا پوتا ہوتا ہے اور یہ اَبعد ہی ہے، باپ کے زندہ ہوتے ہوئے بھی اور مرنے کے بعد بھی، دونوں صورتوں میں وہ پوتا ہی رہے گا، بیٹا نہیں بن سکتا اور نہ وراثت لینے کے لیے بیٹے کی جگہ آسکتا ہے۔

                اس طرح اگر ’’ابعد‘‘ کو اقرب بنایا جائے تو بڑی خرابی لازم آئے گی، اقرب کے مرنے کے بعد ہر ابعد اقرب ہوجائے گا اور باپ کے مرنے کے بعد چچا اور پھوپی اور ماں کے مرنے کے بعد ماموں اور خالہ، باپ اور ماں کا ترکہ پالیں گی؛ حالاں کہ اس کا کوئی قائل نہیں ، اس طرح تو اللہ کا بنایا ہوا نظام میراث درہم برہم ہوجائے گا، اللہ کے قانون کو ہم نہیں بدل سکتے۔

یتیم پوتوں کی مشکل کا حل

                یتیم پوتوں کے ترکہ کے سلسلے میں جو احکام اوپر بیان ہوے وہ قرآن وسنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہیں ، اُن میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ، حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی چاروں مسالک متفق ہیں ؛ اس لیے ان کو بدلنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

                اب سوال یہ ہے کہ اگر پوتا محتاج ہوتو اس کا سہارا کون بنے گا؟ کیا اسلام میں اس کی بے چارگی دور کرنے کی کوئی شکل ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ درج ذیل شکلوں میں اس کی آشک شوئی کا سامان موجود ہے۔

                ۱- سب سے پہلا ذمہ دار اس کا دادا ہے، محض دادا کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا ہے، مسئلہ کا پہلا حل اسی کے ہاتھ میں ہے، اس کی دو شکلیں ہیں :

                (الف) اگر وہ چاہے تو ہبہ کردے، عطیہ کے طور پر جتناچاہے دے دے؛ لیکن وہ اتنا ہی دے جس سے دوسری اولاد کا نقصان نہ ہو، (جواہر الفقہ ۷/۵۳۸) اور دے کر رجسٹرڈ کردے؛ تاکہ بعد میں دوسرے ورثاء پریشان نہ کریں ۔

                (ب) اس کا دوسرا حل یہ ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ایک تہائی یا اس سے کم کی وصیت کردے اور اس کو رجسٹرڈ کردے؛ تاکہ مرنے کے بعد پوتوں کو بھی مل جائے۔

مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ کا مثالی اقدام

                حضرت الاستاذ مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ نے اپنے بڑے صاحب زادے مفتی رشید احمدؒ کے انتقال کے بعد اُن کے دونوں بیٹے مسیح  اللہ اور سمیع اللہ کے لیے اپنے دو بیٹوں کے برابر وصیت کی، بیٹوں کو جمع کرکے فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو ان کے لیے ایک تہائی ترکہ کی وصیت کرسکتا ہوں ؛ مگر اس طرح تم سب کا حصہ کم پڑجائے گا؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ میرے مرنے کے بعد ان دونوں کو اپنا دوبھائی تصور کرکے تقسیم کرلینا۔ اس پر سب نے ہامی بھری۔ جب تک زندہ رہے اپنے بیٹوں کی طرح ان کی پرورش فرمائی اور وفات کے بعد اُن کو وصیت کیا ہوا ترکہ ملا، ہردادا کو ایسا ہی کرنا چاہیے؛ تاکہ یتیم کی پرورش ہو اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کی زبان بند ہوجائے۔

                ۲- جب تک یتیم، نابالغ اور کمانے سے عاجز ہے تب تک اس کا نفقہ (خرچہ) چچا پر واجب ہے۔ (عالم گیری ۱/۵۸۵ کتاب النفقات)

                علامہ شامیؒ نفقۂ اقارب کی ترتیب پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

                ’’جب باپ کے پاس مال نہ ہو اور دادا، یا ماں ، یا ماموں یا چچا خوش حال ہوجائے تو وہ اس پر کیے ہوئے اخراجات کے لیے رجوع کریں ، اسی طرح اگر قریبی رشتہ دار موجود نہ ہوں تو دور کے رشتہ دار کو نفقہ دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ اگر ماں خوش حال ہوتو ماں پر نفقہ ہوگا اور وہ بعد میں اس کے باپ سے وصول کرے گی، اسی طرح اگر باپ نہ ہوتو مذکورہ رشتہ داروں کو نفقہ پرمجبور کیا جائے گا۔ (ردالمحتار ۵/۲۳۵ باب النفقہ)

                ۳- یتیم پوتے کا والد اگر ترکہ چھوڑ کر مرا ہوتو پوتوں کے لیے وہی کافی ہوگا۔ اس کو پریشانی نہیں ہوگی۔ اس صورت میں اگر چچا اور اس کے لڑکے غریب ہوں تو کیا ان یتیموں کا مال چچا اور چچازادوں کو دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں !

                ۴- انسانوں کے گزارے کے لیے ترکہ ہی ضروری نہیں ہے؛ اس لیے کہ بہت سے لوگ بچوں کو یتیم اورمحتاج چھوڑ کر مرجاتے ہیں ، آخر ان کی پرورش کا کوئی نہ کوئی انتظام ہوہی جاتا ہے، اسی طرح اس محتاج یتیم کا بھی انتظام ہوجائے گا۔ (جواہر الفقہ ۷/۵۳۸)

                ۵- یتیموں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، سرکاری خزانہ سے اس کی کفالت ہوگی، اور اگر حکومت اسلامی ہے تو بیت المال سے یتیموں کو اخراجات دیے جائیں گے۔

                ۶- اگریتیم کا کوئی نہیں ہے تو عام مسلمانوں پر اس کا انتظام کرنا لازم ہوگا؛ اس لیے ضروری ہے کہ ’’یتیم خانہ‘‘ ہر علاقے میں ہو جو ان کی کفالت کرے!

٭           ٭           ٭

مراجع

(۱)          قرآن کریم، سورئہ نساء

(۲)         صحیح بخاری، مکتبہ اصح المطابع میرٹھ

(۳)         حجۃ اللہ البالغہ، مکتبہ حجاز دیوبند

(۴)         مفید الوارثین، دارالاشاعت دیوبند ۱۳۴۹ھ

(۵)         جواہر الفقہ، جلد۷، زکریا بک ڈپو دیوبند

(۶)          اسلام پر بے جا اعتراضات، مکتبہ نعیمیہ دیوبند

(۷)         ماہ نامہ تکبیرمسلسل مارچ ۲۰۱۷م

(۸)         ہدایہ ثانی مکتبہ بشریٰ کراچی



No comments:

Post a Comment