Sunday 7 June 2015

وصیت اور تقسیمِ میراث کی اہمیت وفضیلت

         زمانہ جاہلیت میں لوگ جس طرح کفر وشرک میں مبتلا تھے،طرح طرح کی ظالمانہ رسمیں رائج تھیں، غلاموں پر بے جاتشدد کرنا، لڑکیوں کو زندہ در گورکرنا،یتیموں اور بیواؤں کامال ہڑپ کرجانا،اورعورتوں کو ان کے جائزحقوق سے بھی محروم کرناعام تھا،اسی طرح اس وقت آج کے تہذیب یافتہ دور کی طرح یہ بھی رائج تھا کہ مرنے والے کا مال صرف اور صرف وہ مرد لیتے تھے جو جنگ کے قابل ہوں،باقی ورثا ،یتیم بچے اور عورتیں،روتے اور چلاتے رہ جاتیں،ان کے طاقتورچچااوربھائی ان کی آنکھوں کے سامنے تمام مال ومتاع پرقبضہ جما لیا کرتے تھے۔
          حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں کفر و شرک کافور ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی ،اسی طرح یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکام نازل ہوئے،دنیائے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کے پاکیزہ معاشرت میں زندگی گزارنے لگی۔

 اسبابِ میراث
          زمانہٴ جاہلیت میں جن اسباب کی وجہ سے آدمی کو میراث ملتی تھی ،ان میں ایک سبب ”نسب“ تھا،دوسرا ”معاہدہ“ (یعنی ایک دوسرے سے خو شی وغم میں تعاون کرنا ،ایک مرے گا تو دوسرا اس کا وارث بنے گا،اس بات کا معاہدہ کیا جاتاتھا )تیسراسبب ”متبنّیٰ “(یعنی منہ بولا بیٹا) وارث بنتا تھا،اس کے علاوہ ابتدائے اسلام میں ان اسباب کے ساتھ ساتھ موٴاخات وہجرت کی وجہ سے بھی میراث میں حصہ تھا،جو حقیقت میں معاہدہ کی ایک صورت تھی ۔

 وصیت کاحکم
          اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم وعلیم ہے؛چونکہ اللہ تعالی اپنی مخلوق کے حالات سے پوری طرح واقف و باخبر ہے؛اس لیے اپنی حکمت وعلم کے پیش نظر زمانہٴ جاہلیت کی رسموں کی اصلاح کے سلسلے میں تدریجاًاحکام نازل فرمائے ،اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ حکم نازل فرمایا کہ ہر شخص موت سے پہلے اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے اپنی رائے سے مناسب وصیت کرے؛ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
          ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ انْ تَرَکَ خَیْرًا الوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرة:۱۸۰)
ترجمہ:تم پر یہ فرض کیا جاتا ہے کہ: جب کسی کو موت نزدیک معلوم ہونے لگے، بشرطیکہ کچھ مال بھی ترکہ میں چھوڑا ہوتو والدین اور اقارب کے لیے معقول طور پر کچھ کچھ بتلا جائے ۔
          حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمةاللہ علیہ بیان القرآن(۱:۱۱۵) میں اس آیت کی تفسیر میں رقمطرازہیں:
”شروع اسلام میں جب تک میراث کے حصے شرع سے مقررنہ ہوئے تھے، یہ حکم تھا کہ ترکہ کے ایک ثلث تک مردہ اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کو جتنا مناسب سمجھے بتلا جاوے ،اتناتو ان لوگوں کاحق تھا، باقی جو کچھ رہتاوہ سب اولاد کا حق ہوتا تھا،اس آیت میں یہ حکم (یعنی وصیت)․․․․
ا س حکم کے تین جزؤ تھے، ایک بجز اولاد کے دوسرے ورثہ کے حصص وحقوق ترکہ میں معین نہ ہونا،دوم ایسے اقارب کے لیے وصیت کا واجب ہونا ، تیسرے ثلث مال سے زیادہ وصیت کی اجازت نہ ہونا،پس پہلا جزؤ تو آیتِ میراث سے منسوخ ہے، دوسراجزؤحدیث سے جو کہ موٴید بالاجماع ہے منسوخ ہے ،اور وجوب کے ساتھ جواز بھی منسوخ ہو گیا،یعنی وارث شرعی کے لیے وصیت مالیہ باطل ہے، تیسرا جزوٴاب بھی باقی ہے ،ثلث سے زائد میں بدوں رضاورثہ بالغین کے وصیت باطل ہے“۔
           وصیت کے بارے میں حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
          ”مَا حقُّ امرِءٍ مسلمٍ لَہ شَيْءٌ یُوْصِیْ فِیْہِ یَبِیْتُ لَیْلَتَیْنِ الاَّ وَ وَصِیَّتُہ مَکْتُوْبَةٌ عِنْدَہ “ (صحیح بخاری،کتاب الوصایا، رقم الحدیث:۲۵۸۷)
ترجمہ:کسی بھی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو جس کی وصیت کرنا ہو تو اس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں کہ دو راتیں گذرجائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔
           حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
          ”مَنْ مَاتَ عَلٰی وَصِیَّتِہ مَاتَ عَلٰی سَبِیْلٍ وَسُنَّةٍ وَمَاتَ عَلٰی نُقیً وَشَہَادَةٍ وَمَاتَ مَغْفُوْرًا لَہ “(سنن ابن ماجہ،الحث علی الوصیة،رقم الحدیث:۲۷۰۱)
ترجمہ:جس شخص کو وصیت پر موت آئی (یعنی وصیت کر کے مرا) وہ صحیح راستہ اور سنت پر مرا،اور تقوی اور شہادت پر مرا،اور بخشا ہوا ہونے کی حالت میں مرا۔
حضرت ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْخَيْرِ سَبْعِينَ سَنَةً ، فَإِذَا أَوْصَى حَافَ فِي وَصِيَّتِهِ فَيُخْتَمُ لَهُ بِشَرِّ عَمَلِهِ فَيَدْخُلُ النَّارَ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّرِّ سَبْعِينَ سَنَةً فَيَعْدِلُ فِي وَصِيَّتِهِ فَيُخْتَمُ لَهُ بِخَيْرِ عَمَلِهِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ.
[سنن ابن ماجه » كِتَاب الْوَصَايَا » بَاب الْحَيْفِ فِي الْوَصِيَّةِ ... رقم الحديث: 2696]
آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں،

          وصیت کے حوالے سے بتدریج احکام نازل ہوئے ان پر عمل ہوتا گیا تو پھر میراث کے حوالے سے تدریجاًاحکام نازل ہونا شروع ہوئے،اس سلسلے میں سب سے پہلا حکم یہ نازل ہو ا کہ میرا ث جیسے مردوں کاحق ہے ،اسی طرح عورتوں کا بھی حق ہے؛چنانچہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی نازل ہوا:
          ﴿لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَفْرُوْضاً﴾(النساء:۷)
ترجمہ:مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس(مال)میں جو ما ں باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑجائے ،خواہ وہ چیز کم ہو یا زیادہ ،حصہ بھی ا یسا جو قطعی طور پر مقررہے۔
           اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر کچھ یوں ہے ،تفسیر قرطبی میں ہے کہ: حضرت اوس بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے پس ماندگان میں اہلیہ ام کُجّہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں،حضرت اوس بن ثابت کے چچازاد بھائی سوید اور عرفجہ جو ان کے وصی بھی تھے، انھوں نے سارامال خود لے لیا اور ام کجہ اور حضرت اوس رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کو جائیداد میں حصے سے محروم کر دیا،مظلومو ں کا ماوی اور ملجا حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کون تھا؟!،چنانچہ ام کجہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور سارا ماجرا عرض کیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مکان لوٹ جاؤ ،جب تک اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ نہ آئے تم صبر کرو، اس پراللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔
          اللہ تبارک وتعالی نے اجمالی طور سے اس آیت میں زمانہٴ جاہلیت کے اس عمل کی نفی فرمائی اور میراث میں عورتوں کا حصہ ہونے کا حکم بھی ارشاد فرمایاکہ میراث صرف مردوں کا حق نہیں؛بلکہ اس میں عورتوں کا بھی حق ہے، اس آیت کے نازل ہونے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سُوید اور عرفجہ کو حکم دیا کہ اللہ تعالی نے میراث میں عورتوں کا بھی حصہ مقرر فرمایاہے ؛ لہٰذا تم اوس بن ثابت کے مال کو بحفاظت رکھنا ،اس میں سے کچھ خرچ نہ کرنا۔
          تفسیر مظہری میں ہے کہ اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا اورعورتوں کا حصہ ابھی تفصیلی طور سے بیان نہیں کیا گیا تھا،دوسرا واقعہ پیش آیا، تین ھجری احد کی لڑائی میں جلیل القدر صحابی سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ،ان کی شہادت پر حسب دستور بھائیوں نے تمام مال و جائیداد پر قبضہ کر لیا اور ان کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو میراث سے محروم کر دیا،حضرت سعد کی اہلیہ نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں آکر واقعہ بیان کیا کہ سب مال ان کے چچا نے لیا ہے، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو بھی یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ صبر کرو عنقریب اللہ تعالی اس بارے میں کوئی فیصلہ فرمادیں گے۔


وصیت تحریر کرکے سوئیں



**************
 میراث کے تفصیلی احکام
          تفسیرقرطبی ،مظہری اور روح المعانی میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد اللہ تعالی نے عورتوں اورلڑکیوں کا حصہ بیان کرنے کے لیے اس آیت کو نازل فرمایا ﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ أوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ․․․․﴾(النساء:۱۱)
ترجمہ:اللہ تعالی تمہیں تمہاری اولاد کے بارے حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا۔
          اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے والدین کو صاف صراحتاًحکم دیا ہے کہ جس طرح میراث میں بیٹوں کاحق ہے اسی طرح بیٹیوں کابھی حق ہے ،اس آیت کے نازل ہو نے پر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد کے بھائی سے کہلوایا کہ اپنے بھائی کے مال میں سے دوثلث لڑکیوں کو اور آٹھواں حصہ ان کی بیوہ کو دو ،اور باقی مال تمہا را ہے ،اسلام کے قاعدئہ میراث کے مطابق سب سے پہلے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی میراث تقسیم ہوئی۔

زندگی میں مال وجائیداد کی تقسیم
          بعض حضرات اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد اولاد و اقربا میں تقسیم کر دیتے ہیں ،عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹوں کو حصہ دیاجاتا ہے اوربیٹیوں اور بیوی کو محروم کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض بیٹیوں کو حج کروانے کا لالچ دے کر حصہ سے محروم رکھتے ہیں ، ان لوگوں کو حالت صحت میں اگرچہ مال میں تصرف کامکمل اختیار ہے؛لیکن یاد رہے ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات اور اس روح ومقتضیٰ کے خلاف ہے ؛چنانچہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنوسلمہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے ،مجھ پر بے ہوشی طاری تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا ،وضو فرمایااور کچھ چھینٹیں مجھ پر مارا، مجھے کچھ افاقہ ہوا ،میں نے پوچھاکہ میں اپنی اولاد کے درمیان اپنا مال کیسے تقسیم کروں ؟اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ”یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِی أوْلَادِکُمْ․․․․․الخ“(صحیح بخاری ،کتاب الجمعہ ،رقم:۴۵۷۷،صحیح مسلم،کتاب الفرائض، باب: میراث الکلالة، رقم:۴۲۳۱، سنن ترمذی ، کتاب الفرائض،باب:میراث البنین مع البنات ،رقم:۲۰۹۶)
          اس آیت میں والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو بھی مال میں سے حصہ دو۔ مشکوٰة شریف کی ایک صحیح حدیث میں واردہوا ہے کہ بعض لوگ تمام عمر اطاعتِ خد اوندی میں مشغول رہتے ہیں؛ لیکن موت کے وقت وارثوں کو ضر رپہنچاتے ہیں یعنی کسی شرعی عذر اور وجہ کے بغیر کسی حیلے سے یا تو حق داروں کا حصہ کم کر دیتے ہیں،یا مکمل حصے سے محروم کر دیتے ہیں ،ایسے شخص کواللہ تعالی سیدھے جہنم میں پہنچا دیتا ہے ۔
          قارئین کرام !غورفرمائیں !میراث کے بارے میں اللہ کے ایک حکم کے سلسلے میں حیلے بہانوں سے کام لینے والوں کی تمام عمر کی عبادتیں ،نماز ،روزہ ،حج ،زکوٰة، تبلیغ اور دیگر اعما ل ضائع ہونے کاقوی اندیشہ ہوتاہے؛بلکہ ایسے شخص کے بارے میں جہنم کی سخت وعید بھی وارد ہوئی ہے،سنن سعید بن منصور کی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ان الفاظ میں مروی ہے :”مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثاً فَرَضَہ اللّٰہُ قَطَعَ اللّٰہُ مِیْرَاثَہ مِنَ الْجَنَّةِ“(رقم:۲۵۸) یعنی جو شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ میراث کو ختم کردیتا ہے، اللہ تعالی جنت سے اس کی میراث ختم کردیتے ہیں۔

عورتوں کے حصوں کے بیان کرنے میں قرآن کا اسلوب
          معززقارئین ! آپ اللہ تعالی کے اس ارشادمیں غور فرمائیں ”لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ“ یعنی لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابرحصہ ملے گا،اللہ تبارک وتعالی نے:” لِلْأنْثَیَیْنِ مِثْلُ حَظِّ الذَّکَرْ“ نہیں فرمایا کہ دو لڑکیوں کو ایک لڑکے جتنا حصہ ملے گا،علامہ آلوسی  نے روح المعانی میں لکھاہے کہ اللہ تعالی نے للذکر مثل حظ الانثیین فرمایا ،اس کی وجہ یہ ہے اہل عرب صرف لڑکوں کو حصہ دیا کرتے تھے،لڑکیوں کو نہیں دیتے تھے،ان کی اس عادت سیئہ پر رد اور لڑکیوں کے معاملے میں اہتمام کے لیے فرمایا کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابرحصہ ملے گا،گویا یہ فرمایا کہ صرف لڑکوں کو حصہ دیتے ہو ،ہم نے ان کاحصہ دگنا کر دیا ہے لڑکیوں کے مقابلے میں؛لیکن لڑکیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا،ان کو میراث سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
          امام قرطبی رحمة اللہ علیہ” احکام ا لقرآن“ میں اس آیت کے بارے فرماتے ہیں : ہٰذِہِ الآیَةُ رُکْنٌ مِنْ أرْکَانِ الدِّیْنِ وَعُمْدَةٌ مِنْ عُمْدِ الدِّیْنِ وَاُمٌّ مِنْ اُمَّہَاتِ الْآیَاتِ، فَانَّ الْفَرَائِضَ عَظِیْمَةُ الْقَدْرِ، حَتّٰی أنَّہَا ثُلُثُ الْعِلْمِ“یہ آیت (یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ)ارکان دین میں سے ہے اور دین کے اہم ستونوں میں سے ہے اور امہات آیات میں سے ہے؛ اس لیے کہ فرائض(میراث)کا بہت عظیم مرتبہ ہے ،یہاں تک کہ یہ ثلث علم ہے۔
          اس آیت کریمہ میں میراث کے احکام بیان فرمانے کے بعد، اس کے اخیر میں اللہ تعالی نے یہ ارشاد فرمایا ﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ﴾ یہ میراث کے احکام اللہ تعالی کے بیان کردہ حدود ہیں، ان حدود پر عمل کرنے والوں کے لیے بطور انعام وجزا کے فرمایا :﴿مَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾
          ترجمہ:جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالی اسے ایسی جنت میں داخل فرمائیں گے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ،اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔
          میراث کے سلسلے میں اللہ کے بیان کردہ احکامات پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے آگ اور ذلّت کاعذاب ہوگا ،ارشاد ربانی ہے :﴿وَمَنْ یَعْضِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہ عَذَابٌ مُہِیْنٌ﴾
          ترجمہ:جواللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتاہے، اللہ اس کو آگ میں داخل کردیں گے؛ جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لیے ذلت آمیز عذاب ہو گا۔

 جاہلانہ طرزِ عمل
          بیٹوں کو حصہ دے کر بیٹیوں کومحروم کرنا،یا بھائی اور چچا وغیرہ کا خود لے کر عورتو ں کو محروم کرنا،یہ زمانہٴ جاہلیت کے کفار کاطرزعمل ہے ، حضرت مولاناسید اصغر حسین صاحب رحمة اللہ علیہ محدِّث دارالعلوم دیو بندنے ”مفید الوارثین “ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالی کے واضح اور صریح حکم کو پسِ پشت ڈا ل کر ایک کافرانہ رسم پر عمل کرنا کوئی معمولی خطانہیں ہے ،نہایت سرکشی اور اعلی درجے کاجرم ہے؛بلکہ کفر تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے ۔
          یاد رہے کہ میراث کا علم شریعت میں نہ صرف مطلوب ہے ؛بلکہ اس کی بہت زیادہ اہمیت بھی ہے ،حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نصف علم قرار دیا ہے ،دارقطنی میں حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تَعَلَّمُوْا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوْہُ النَّاسَ، فَاِنَّہ نِصْفُ الْعِلْمِ، وَہُوَ اَوَّلُ شَيْءٍ یُنْسٰی وَہُوَ اَوَّلُ شَيْءٍ یُنْتَزَعُ مِنْ أُمَّتِیْ “(کتاب الفرائض رقم:۱)
          ترجمہ:اے لوگو!فرائض(میراث)کے مسائل سیکھو، اور اِسے لوگوں کو سکھاؤ بے شک وہ نصف علم ہے اور وہ سب سے پہلے بھلا یا جائے گااور وہ سب سے پہلے میری امت سے اٹھایا جائے گا۔
          بہت سارے دین دار کہلانے والے لوگ جو نماز ،روزہ اور دیگر اسلامی احکام کے پابند تو ہوتے ہیں،ان کو ادھر اُدھر بہت ساری باتیں، قصے، کہانیاں تو یاد رہتی ہیں؛ لیکن میراث کا کوئی ایک مسئلہ بھی ان کو معلوم نہیں ،یہ انتہائی درجہ غفلت کی بات ہے ،اللہ تعالی ہم سب کو اس غفلت سے محفوظ رکھے ۔

 ورثاء کے لیے مال چھوڑنا
           اپنی اولاد اور ورثاء کے لیے مال چھوڑنابھی ثواب کاکام ہے ،امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل کیاہے کہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتحِمکہ والے سال ایسا بیما ر ہو ا کہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ گویا ابھی موت آنے والی ہے ،حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے ،تو میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس بہت سامال ہے ،میری صرف ایک ہی بیٹی کو میراث کاحصہ پہنچتا ہے ،تو کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ،میں نے عرض کیا : آدھے مال کی وصیت کردوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نہیں ،میں نے عرض کیا:تہائی ما ل کی وصیت کردوں ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تہا ئی کی وصیت کر سکتے ہو اور تہائی بھی بہت ہے ،پھر فرمایا :”انْ تَدَعْ وَرَثَتَکَ أغْنِیَاءً، خَیْراً مِنْ أنْ تَدَعَہُمْ عَالةً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ فِیْ أیْدِیْہِمْ“ تم اپنے ورثاء کومال داری کی حالت میں چھوڑ جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں تنگدستی کی حالت میں چھوڑدو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں(صحیح بخاری،کتاب الجمعہ، رقم:۲۷۴۲)۔
          آخر میں ایک دفعہ مکرّر یہ گزارش ہے کہ یتیموں،عورتوں،اور بیٹیوں کو میراث اور جائیداد میں حصے سے محروم کرنابہت بڑا جرم ہے اور گناہ ہے ،قانون خداوندی سے بغاوت کے مترادف ہے ،اس بارے میں کسی قسم کے حیلوں اور بہانوں کا سہارا نہ لیا جائے؛بلکہ جوشرعی حصہ داروں کا حق بنتا ہے، وہ ان کے سپرد کر دیا جائے ،ہاں! اگر اپنے حصہ پر قبضہ کرنے کے بعدوہ اپنی رضا ورغبت سے کچھ ،یا سارا کسی کو دینا چاہے تو اس کے لیے لینا جائز ہو گا۔
          اللہ تعالی سے دعا ہے کہ: ہمیں پورے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور میراث کے حوالے سے پائی جانے والی غفلتو ں کے ازالے کی ہمت عطا فرمائے ،امت مسلمہ کی تمام پریشانیوں اور مشکلات کو آسانیوں اور عافیت میں بدل دے ۔آمین






اسلام میں وصیت کا قانون



وصیت کیا ہے
وصیت میت کے اس حکم کو کہتے ہیں جس پر موت کے بعد عمل کیاجاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص انتقال کے وقت یہ کہے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائداد میں سے اتنا مال یا اتنی زمین فلاں شخص یا فلاں دینی ادارہ یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ کو دے دی جائے تو یہ وصیت کہلاتی ہے۔ وصیت کو دو گواہوں کی موجودگی میں تحریر کرنا چاہیے تاکہ بعد میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ میں وصیت کا قانون بنایا گیا ہے؛ تاکہ قانون میراث کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں حصہ نہیں پہنچ رہا ہے اور وہ مدد کے مستحق ہیں، مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت زدہ ہے یا کوئی بھائی یا بہن یا کوئی دوسرا عزیز سہارے کا محتاج ہے تو وصیت کے ذریعہ اس شخص کی مدد کی جائے۔ وصیت کرنا اور نہ کرنا دونوں اگرچہ جائز ہیں لیکن بعض اوقات میں وصیت کرنا افضل وبہتر ہے۔ ایک تہائی جائیداد میں وصیت کا نافذ کرنا وارثوں پر واجب ہے، یعنی مثلاً اگر کسی شخص کے کفن دفن کے اخراجات، دیگر واجبی حقوق اور قرض کی ادائیگی کے بعد ۹ لاکھ روپے کی جائیداد بچتی ہے تو ۳ لاکھ تک وصیت نافذ کرنا وارثین کے لیے ضروری ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کرنے اور نہ کرنے میں وارثین کو اختیار ہے۔کسی وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کے لیے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت سے محروم رکھے گا (کچھ عرصہ کے لیے)۔ (ابن ماجہ وبیہقی) انتقال کے بعد ترکہ (جائداد یا رقم) کی تقسیم صرف اور صرف وراثت کے قانون کے اعتبار سے ہوگی۔ 
ابتداء اسلام میں جب تک میراث کے حصے مقرر نہیں ہوئے تھے، ہر شخص پر لازم تھا کہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کرے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کا حق مارا جائے۔ لیکن جب بعد میں تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود اصول وضوابط بنادئے جن کا ذکر سورةا لنساء میں ہے تو پھر وصیت کا وجوب ختم ہوگیا، البتہ دو بنیادی شرائط کے ساتھ اس کا استحباب باقی رہا۔ ۱) جو شخص وراثت میں متعین حصہ پارہا ہے اس کے لیے وصیت نہیں کی جاسکتی ہے، مثلاً ماں، باپ، بیوی، شوہر اور اولاد۔ جیساکہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہٴ کرام کے مجمع کے سامنے ارشاد فرمایا: ” اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کا حصہ مقرر کردیا ہے، لہٰذا اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔“ (ترمذی۔ باب ما جاء لا وصیة لوارث) حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے کہ میراث نے ان لوگوں کی وصیت کو منسوخ کردیا جن کا میراث میں حصہ مقرر ہے، دوسرے رشتہ دار جن کا میراث میں حصہ نہیں ہے، اُن کے لیے حکم وصیت اب بھی باقی ہے۔) وصیت کا نفاذ زیادہ سے زیادہ ترکہ کے ایک تہائی حصہ پر نافذ ہوسکتا ہے الا یہ کہ تمام ورثاء پوری وصیت کے نفاذ پر راضی ہوں۔
 امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جن رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، اب ان کے لیے بھی وصیت کرنا فرض ولازم نہیں ہے،کیونکہ فرضیت وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ (تفسیر جصاص، تفسیر قرطبی) یعنی بشرطِ ضرورت وصیت کرنا مستحب ہے۔ 
وصیت کی مشروعیت قرآن کریم سے
(۱) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑکر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آجائے، وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔ یہ متقی لوگوں کے ذمہ ایک لازمی حق ہے۔۔۔ پھر جو شخص اس وصیت کو سننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا، تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جو اس میں تبدیلی کریں گے۔ یقین رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔۔۔ ہاں اگر کسی شخص کو یہ اندیشہ ہوکہ کوئی وصیت کرنے والا بے جا طرف داری یا گناہ کا ارتکاب کررہا ہے اور وہ متعلقہ آدمیوں کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (سورة البقرہ ۱۸۰ ۔ ۱۸۲) وصیت کا لازم اورفرض ہونا ، یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جب کہ وراثت کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وصیت کا حکم بتدریج نازل فرمایا۔ غرضے کہ مذکورہ بالا آیت میں وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے؛ البتہ استحباب باقی ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ نے سورة النساء میں جہاں وارثوں کے متعین حصے ذکر فرمائے ہیں، متعدد مرتبہ اس قانون کو ذکر فرمایا: ”یہ ساری تقسیم اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہے، یا اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد“۔ سورة النساء میں متعدد مرتبہ وصیت کے ذکر سے وصیت کی مشروعیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ 
(۳) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”اے ایمان والو! جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کے لیے گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں) یا اگر تم زمین میں سفر کررہے ہو، اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں (یعنی غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہوجائیں۔“ (سورة المائدہ ۱۰۶) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ حضر کے ساتھ سفر میں بھی وصیت کی جاسکتی ہے اوروصیت کرتے وقت دو امانت دار شخص کو گواہ بھی بنالیا کرو؛ تاکہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔
وصیت کی مشروعیت حدیث نبوی سے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی چیز ہو، درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کئے بغیر گزاردے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الوصیہ) (صحیح مسلم ۔ کتاب الوصایا ۔ باب الوصایا) قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء نے کہا ہے کہ اس سے مرادایسا شخص ہے جس کے ذمہ قرضہ ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو یا اس کے ذمہ کوئی واجب ہو جسے وہ خود ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے وصیت میں یہ تفصیل لکھ کر رکھنا ضروری ہے، عام آدمی کے لیے وصیت لکھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔ 
وصیت کی مشروعیت اجماع امت سے
قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا وصیت کے جواز پر اجماع ہے ، جیسا کہ علامہ ابن قدامہ نے اپنی مشہور کتاب (المغنی ج ۸ ۔ ص ۳۹۰) میں وصیت کے جواز پر اجماع امت کا ذکر کیا ہے۔
وصیت کی حکمتیں
وصیت کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے انتقال کے بعد وراثت قرابت کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے نہ کہ ضرورت کے پیش نظر، یعنی جو میت سے جتنا زیادہ قریب ہوگا اس کو زیادہ حصہ ملے گا خواہ دوسرے رشتہ دار زیادہ غریب ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن شریعت اسلامیہ نے انسان کو یہ ترغیب دی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کو مدد کا زیادہ مستحق سمجھتا ہے اور اس کو میراث میں حصہ نہیں مل رہا ہے تو اس کے لیے اپنے ایک تہائی مال تک وصیت کرجائے۔ مثلاً کسی شخص کے کسی بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے اور پوتا پوتی حیات ہیں تو انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی جائداد میں سے ایک تہائی مال تک اپنے یتیم پوتے اور پوتی کو وصیت کرجائے۔اللہ تعالیٰ نے سورةا لنساء میں اس کی ترغیب بھی دی ہے۔
وصیت کی اقسام: واجب وصیت
(۱) اگر کسی شخص کا قرضہ ہے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
( ۲) اگر زندگی میں حج فرض کی ادائیگی نہیں کرسکا تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
( ۳) اگر زکوٰة فرض تھی، ادا نہیں کی تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
( ۴) اگر روزے نہیں رکھ سکا اس کے بدلہ میں صدقہ ادا کرنے کی وصیت کرنا واجب ہے۔
( ۵) اگر کوئی قریبی رشتہ وصیت کے قانون کے مطابق میراث میں حصہ نہیں حاصل کرپارہا ہے، مثلاً یتیم پوتا اور پوتی اور انھیں شدید ضرورت بھی ہے تو وصیت کرنا واجب تو نہیں ہے لیکن اسے اپنے پوتے کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔بعض علماء نے ایسی صورت میں وصیت کرنے کو واجب بھی کہا ہے۔ 
مستحب وصیت
شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ایک تہائی کی کسی بھی ضرورت مند شخص یا مسجد یا مدرسہ یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ کو وصیت کرجائے؛ تاکہ وہ اس کے لیے صدقہٴ جاریہ بن جائے اور اس کو مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب ملتا رہے۔
مکروہ وصیت
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے، میں اس وقت مکہ مکرمہ میں تھا (حجةا لوداع یا فتح مکہ کے موقعہ پر)۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اُس سرزمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کرچکا ہو۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابن عفراء (سعد) پر رحم فرمائے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال ودولت کی وصیت (اللہ کے راستے میں) کردوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا پھر آدھے کی کردوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تہائی مال کی کردوں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تہائی مال کی کرسکتے ہو، اور یہ بھی بہت ہے۔ اگر تم اپنے رشہ داروں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑ دو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اس میں کوئی شبہ نہ رکھو کہ جب بھی تم کوئی چیز جائز طریقہ پر خرچ کرو گے تو وہ صدقہ ہوگا۔ وہ لقمہ بھی جو تم اٹھاکر اپنی بیوی کے منہ میں دو گے (وہ بھی صدقہ ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں)، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفا دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ (بخاری ۔ کتاب الوصایا) (ترمذی ۔ باب ما جاء فی الوصیہ بالثلث) غرضے کہ اگر اولاد ودیگر وارثین مال وجائداد کے زیادہ مستحق ہیں تو پھر دوسرے حضرات اور اداروں کے لیے وصیت کرنا مکروہ ہے۔ 
وضاحت: حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی شفا کی دعا کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تقریباً پچاس سال تک حیات رہے اور انہوں نے عظیم الشان کارنامے انجام دئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص  نے ہی ۱۷ ہجری میں کوفہ شہر بسایا تھا جو بعد میں علم وعمل کا گہوارہ بنا۔آپ ہی کی قیادت میں ایران جیسی سوپر پاور کو فتح کیا گیا۔ آپ نے ہی دریا دجلہ میں اپنے گھوڑے ڈال دیے تھے، علامہ اقبال  نے کیا خوب کہا ہے: دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحرِ ظلمات میں دوڑادئے گھوڑے ہم نے۔
ناجائز وصیت
ایک تہائی سے زیادہ جائداد کی وصیت کرنا۔ وارث کے لیے وصیت کرنا۔ اس نوعیت کی وصیت نافذ نہیں ہوگی۔اولاد یا کسی دوسرے وارث کو اپنی جائداد سے محروم کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص یا دینی ادارہ کو وصیت کرنا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کئی لوگ (ایسے بھی ہیں جو) ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں زندگی گزارتے ہیں، پھر جب موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر جہنم واجب ہوجاتی ہے۔ پھر حضرت ابوہریرہ  نے یہ آیت (سورة النساء ۱۲)پڑھی: ”جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمہ جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت اور قرض کے اقرار کرنے سے ) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے۔ “(ترمذی باب جاء فی الوصیة بالثلث)
وصیت سے متعلق چند مسائل
(۱) کوئی بھی شخص اپنی صحت مند زندگی میں کسی بھی اولاد کی تعلیم، اس کے مکان کی تعمیر وغیرہ پر کم یا زیادہ رقم خرچ کرسکتا ہے، اسی طرح عام صحت مند زندگی میں اولاد کے درمیان جائداد کی تقسیم کچھ کم یا زیادہ کے ساتھ کرسکتا ہے، تاہم اس کو چاہیے کہ حتی الامکان اولاد کے مصارف اور جائداد کو دینے میں برابری کرے۔ عام صحت مند زندگی میں وصیت یا وراثت کا قانون نافذ نہیں ہوتا۔ عام صحت مند زندگی میں اولاد ودیگر رشتہ داروں کو دی جانے والی رقم یا جائداد ہبہ کہلاتی ہے۔ غرضیکہ عام صحت مند زندگی میں باپ اپنی اولاد میں سے اگر کسی کو مالی اعتبار سے کمزور محسوس کررہا ہے یا اپنے یتیم پوتا یا پوتی کو اپنی طرف سے مخصوص رقم یا جائداد کا کچھ حصہ دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے۔ 
(۲) ام الموٴمنین حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت سوائے اپنے سفید خچر، اپنے ہتھیار اور اپنی زمین کے جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا، نہ کوئی درہم چھوڑا تھا نہ دینار، نہ غلام نہ باندی اور نہ کوئی اور چیز۔ (بخاری کتاب الوصایا) غرضے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا، اسی وجہ سے ترکہ کے تعلق سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی وصیت موجود نہیں ہے۔
(۳) قرض کو وصیت پر مقدم کیا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض وصیت سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، (یعنی انسان کے ترکہ میں سے تجہیز وتکفین کے بعد سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی جائے گی، پھر وصیت نافذ ہوگی)؛ جب کہ تم لوگ قرآن کریم میں وصیت کو پہلے اور قرض کو بعد میں پڑھتے ہو۔ (ترمذی باب ما جاء یبدا بالدین قبل الوصیة) مذکورہ بالا ودیگر احادیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرض کی ادائیگی وصیت پر مقدم ہے۔ 
(۴) شرعاً وارث کو وصیت نہیں کی جاسکتی ہے، لیکن اگر کسی شخص نے وارثین میں سے کسی وارث کو وصیت کردی اور تمام ورثاء میت کے انتقال کے بعد اس کی وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تو وہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کردی اور تمام ورثاء میت کے انتقال کے بعد اس کی وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں تو وہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔ 
(۵) تحریر کردہ وصیت نامہ میں تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے، یعنی اگر کسی شخص نے کوئی وصیت تحریر کرکے اپنے پاس رکھ لی، پھر اپنی زندگی میں ہی اس میں تبدیلی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ 
ایک اہم نقطہ
جس طرح ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کا مال صحیح طریقہ سے اولاد اور دیگر وارثین تک پہنچ جائے اور اولاد اس کے مال کو صحیح طریقہ سے استعمال کرے اور اس میں مزید اضافہ بھی ہوتا رہے۔ اسی طرح ہمیں اس بات کی بھی فکر وکوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری اولاد کیسے اللہ کے احکام ونبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے گی؟ تاکہ وہ مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیش والی زندگی میں کامیاب ہوسکیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کے لیے ان کی وصیت کا ذکر فرمایا ہے: اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ: ”اے میرے بیٹو! اللہ نے یہ دین تمہارے لیے منتخب فرمالیا ہے، لہٰذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میںآ ئے کہ تم مسلم ہو۔ کیا اُس وقت تم خود موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ اُن سب نے کہا تھا کہ ہم اُسی ایک خدا کی عبادت کریں گے، جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔ (سورةالبقرة ۱۳۲ و ۱۳۳)
دوسرا اہم نقطہ
جیسا کہ ہم اپنی زندگی کے تجربات سے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنی زندگی کے آخری وقت میں بہت اہم اور ضروری بات ہی کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا آخری کلام تھا: (نماز، نماز اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو )۔ (ابو داود، مسند احمد) ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے یہ وصیت فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد) اس سے ہم نماز کی اہمیت وتاکید کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محسن انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلمنے آخری وصیت نماز کی پابندی کے متعلق کی،لہٰذا ہمیں پوری زندگی نماز کا اہتمام کرنا چاہیے۔

$ $ $


وصیت کے احکام سے متعلق کتاب پڑھیے۔
http://www.scsguide.com/publications/wasiyat_k_ahkam/

No comments:

Post a Comment