حق کے معاملے میں اکثریت کا اعتبار نہیں:
وَإِن تُطِع
أَكثَرَ مَن فِى الأَرضِ يُضِلّوكَ عَن سَبيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا
الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ {6:116} |
اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ
ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں خدا کا رستہ بھلا دیں گے یہ محض خیال
کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں. |
And if thou obeyedest most of those on the
earth, they would lead thee astray from the way of Allah; they follow not but
their fancy, and they only conjecture. |
مشاہدہ اور تاریخ بتلاتے ہیں کہ دنیا میں
ہمیشہ فہیم، محقق اور بااصول آدمی تھوڑے رہے ہیں۔ اکثریت ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو
محض خیالی، بےاصول اور اٹکل پچو باتوں کی پیروی کرنے والے ہوں۔ اگر تم اسی اکثریت
کا کہنا ماننے لگو اور بےاصول باتوں پر چلنا شروع کر دو تو خدا کی بتلائی ہوئی
سیدھی راہ سے یقینًا بہک جاؤ گے۔ یہ آپ پر رکھ کر دوسروں کو
سنایا۔ |
وَاصبِر نَفسَكَ مَعَ الَّذينَ يَدعونَ
رَبَّهُم بِالغَدوٰةِ وَالعَشِىِّ يُريدونَ وَجهَهُ ۖ وَلا تَعدُ عَيناكَ عَنهُم
تُريدُ زينَةَ الحَيوٰةِ الدُّنيا ۖ وَلا تُطِع مَن
أَغفَلنا قَلبَهُ عَن ذِكرِنا وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ وَكانَ أَمرُهُ فُرُطًا
{18:28} |
اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو
پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو۔ اور تمہاری نگاہیں
ان میں (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ۔
اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی
کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا |
And endure thy self in the company of
those who call upon their Lord in the morning and evening seeking His and let
not thine eyes countenance rove from them seeking the adornment of the life of
this world, and obey thou not him whose heart We have made to neglect Our
remembrance, and who followeth his lust, and whose affair is exceeding the
bound.
بعض صحابہ کی مدح اور فضیلت: |
یعنی اس کے دیدار اور خوشنودی حاصل کرنے کے شوق میں نہایت اخلاص کے ساتھ دائمًا عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔ مثلاً ذکر کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں ، نمازوں پر مداومت رکھتے ہیں۔ حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں خالق و مخلوق دونوں کے حقوق پہچانتے ہیں ، گو دنیوی حیثیت سے معزز اور مالدار نہیں ۔ جیسے صحابہ میں اس وقت عمار ، صہیب ، بلال ، ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم تھے۔ ایسے مومنین مخلصین کو اپنی صحبت و مجالست سےمستفید کرتے رہئے۔ اور کسی کے کہنے سننے پر ان کو اپنی مجلس سے علیحدہ نہ کیجئے۔سرداران کفار کی مذمت: |
|
یعنی ان غریب شکستہ حال مخلصین کو چھوڑ کر
موٹے موٹے متکبر دنیاداروں کی طرف اس غرض سے نظر نہ اٹھائیے کہ ان کے مسلمان ہو
جانے سے دین اسلام کو بڑی رونق ہو گی۔ اسلام کی اصلی عزت و رونق مادی خوشحالی اور
چاندی سونے کے سکوں سے نہیں ۔ مضبوط ایمان و تقویٰ اور اعلیٰ درجہ کی خوش اخلاقی سے
ہے۔ دنیا کی ٹیپ ٹاپ محض فانی اور سایہ کی طرح ڈھلنے والی ہے ، حقیقی دولت تقویٰ
اور تعلق مع اللہ کی ہے جسے نہ شکست ہے نہ زوال ، چنانچہ اصحاب کہف کے واقعہ میں
خدا کو یاد کرنے والوں اور دنیا کے طالبوں کا انجام معلوم ہو چکا۔ |
یعنی جن کے دل دنیا کے نشہ میں مست ہو کر
خدا کی یاد سے غافل اور ہر وقت نفس کی خوشی اور خواہش کی پیروی میں مشغول رہتے ہیں
، خدا کی اطاعت میں ہیٹے اور ہواپرستی میں آگے رہنا ان کا شیوہ ، ایسے بدمست غافلوں
کی بات پر آپ کان نہ دھریں خواہ وہ بظاہر کیسے ہی دولتمند اور جاہ و ثروت والے ہوں۔
روایات میں ہے کہ بعض صنادید قریش نے آپ سےکہا کہ ان رذیلوں کو اپنے پاس سے اٹھا
دیجئے تاکہ سردار آپ کے پاس بیٹھ سکیں رذیل کہا غریب مسلمانوں کو اور سردار دولتمند
کافروں کو۔ ممکن ہے آپ کے قلب مبارک میں خیال گزرا ہو کہ ان غرباء کو تھوڑی دیر
علیحدہ کر دینے میں کیا مضائقہ ہے ۔ وہ تو پکےمسلمان ہیں مصلحت پر نظر کر کے رنجیدہ
نہ ہوں گے اور یہ دولت مند اس صورت میں اسلام قبول کر لیں گے۔ اس پر یہ آیت اتری کہ
آپ ہر گز ان متکبرین کا کہنا نہ مانئے کیونکہ یہ بیہودہ فرمائش ہی ظاہر کرتی ہے کہ
ان میں حقیقی ایمان کا رنگ قبول کرنے کی استعداد نہیں ۔ پھر محض موہوم فائدہ کی
خاطر مخلصین کا احترام کیوں نظر انداز کیا جائے نیز امیروں اور غریبوں کے ساتھ اس
طرح کا معاملہ کرنے سے احتمال ہے کہ عام لوگوں کےقلوب میں پیغمبر کی طرف سے معاذ
اللہ نفرت اور بد گمانی پیدا ہو جائے جس کا ضرر اس ضرر سے کہیں زیاد ہو گا جو ان
چند متکربین کے اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں تصور کیا جا سکتا
ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی: |
فَلا تُطِعِ
الكٰفِرينَ وَجٰهِدهُم بِهِ جِهادًا كَبيرًا {25:52} |
تو تم کافروں کا کہا نہ مانو اور ان سے اس
قرآن کے حکم کے مطابق بڑے شدومد سے لڑو |
Se obey not thou the infidels, but strive
against them therewith with a great striving. |
یعنی نبی کا آنا تعجب کی چیز نہیں اللہ چاہے
تو اب بھی نبیوں کی کثرت کر دے کہ ہر بستی میں علیحدہ نبی ہو۔ مگر اس کو منظور ہی
یہ ہوا کہ اب آخر میں سارے جہان کے لئے اکیلے محمد رسول اللہ ﷺ کو نبی بنا کر
بھیجے۔ سو آپ کافروں کے احمقانہ طعن و تشنیع اور سفیہانہ نکتہ چینیوں کی طرف التفات
نہ فرمائیں۔ اپنا کام پوری قوت اور جوش سے انجام دیتے رہیں اور قرآن ہاتھ میں لے کر
منکرین کا مقابلہ زور شور کے ساتھ کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرنے والا
ہے۔ |
يٰأَيُّهَا النَّبِىُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلا تُطِعِ
الكٰفِرينَ وَالمُنٰفِقينَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليمًا حَكيمًا {33:1} |
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور
منافقوں کا کہا نہ ماننا۔ بےشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے |
O Prophet! fear Allah and obey not the
infidels and the hypocrites; verily Allah is ever Knowing, Wise.
اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کارساز ہے: |
وَلا تُطِعِ
الكٰفِرينَ وَالمُنٰفِقينَ وَدَع أَذىٰهُم وَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفىٰ
بِاللَّهِ وَكيلًا {33:48} |
اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا اور
نہ ان کے تکلیف دینے پر نظر کرنا اور خدا پر بھروسہ رکھنا۔ اور خدا ہی کارساز کافی
ہے |
And obey thou not the infidels and the
hypocrites, and heed not their annoyances, and trust in Allah; and Allah
sufficeth as a Trustee. |
یعنی جب اللہ نے آپ کو ایسے کمالات اور ایسی
برگزیدہ جماعت عنایت فرمائی تو آپ حسب معمول فریضہ دعوت و اصلاح کو پوری مستعدی سے
ادا کرتے رہیے اور اللہ جو حکم دے اس کے کہنے یا کرنے میں کسی کافر و منافق کی یاوہ
گوئی کی پروا نہ کیجئے۔ |
یعنی اگر یہ بدبخت زبان اور عمل سے آپ کو
ستائیں تو ان کا خیال چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ رکھئے۔ وہ اپنی قدرت و رحمت سے سب کام
بنا دے گا۔ منکروں کو راہ پر لے آنا یا سزا دینا سب اسی کے ہاتھ میں ہے، آپ کو اس
فکر اور الجھن میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔ ان کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ آپ طعن و تشنیع
وغیرہ سے گھبرا کر اپنا کام چھوڑ بیٹھیں۔ اگر بفرض محال آپ ایسا کریں تو گویا ان کا
مطلب پورا کر دیں گے اور ان کا کہا مان لیں گے۔ العیاذ
باللہ۔ |
فَلا تُطِعِ
المُكَذِّبينَ {68:8} |
تو تم جھٹلانے والوں کا کہا نہ
ماننا |
Wherefore obey not thou the beliers.
|
وَلا تُطِع
كُلَّ حَلّافٍ مَهينٍ {68:10} |
اور کسی ایسے شخص کے کہے میں نہ آجانا جو
بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے |
And obey not: thou any swearer ignominous.
|
یعنی جس کے دل میں خدا کے نام کی عظمت نہیں،
جھوٹی قسم کھا لینا ایک معمولی بات سمجھتا ہے اور چونکہ لوگ اس کی باتوں پر اعتبار
نہیں کرتے۔ اس لئے یقین دلانے کے لئے بار بار قسمیں کھا کر بے قدر اور ذلیل ہوتا
ہے۔ |
فَاصبِر لِحُكمِ رَبِّكَ وَلا تُطِع مِنهُم ءاثِمًا أَو كَفورًا {76:24} |
تو اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق صبر کئے
رہو اور ان لوگوں میں سے کسی بد عمل اور ناشکرے کا کہا نہ مانو |
Wherefore persevere thou with the
commandment of thy Lord, and obey not thou of them, any sinner or ingrate.
کفّار پر صبر کیجئے: |
تاکہ آپ ﷺ کا دل مضبوط رہے اور لوگ بھی
آہستہ آہستہ اپنے نیک و بد کو سمجھ لیں۔ اور معلوم کر لیں کہ جنت کن اعمال کی بدولت
ملتی ہے۔ اگر اس طرح سمجھانے پر بھی نہ مانیں اور اپنی ضد و عناد ہی پر قائم رہیں
تو آپ اپنے پروردگار کے حکم پر برابر جمے رہئے۔ اور آخری فیصلہ کا انتظار
کیجئے۔قریش کے سرداروں کی بات نہ مانئے: |
عتبہ اور ولید وغیرہ کفار قریش آپ ﷺ کو
دنیوی لالچ دے کر اور چکنی چپڑی باتیں بنا کر چاہتے تھے کہ فرض تبلیغ و دعوت سے باز
رکھیں۔ اللہ نے متنبہ فرمادیا۔ کہ آپ ان میں سے کسی کی بات نہ مانیں۔ کیونکہ کسی
گنہگار فاسق یا ناشکر کافر کا کہا ماننے سے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ ایسے
شریروں اور بدبختوں کی بات پر کان دھرنا نہیں چاہیئے۔
================================
اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو راضی کرنا :
عن عمران بن الحصين قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا طاعة لمخلوق في معصية الله ّ﴿المعجم الاوسط للطبرانی :4322)
الصفحة أو الرقم: 3/26 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
الصفحة أو الرقم: 1/58 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
الصفحة أو الرقم: 3/282 | خلاصة حكم المحدث : [له] شواهد في الصحيحين
الصفحة أو الرقم: 3/465 | خلاصة حكم المحدث : [حسن كما قال في المقدمة]
|
No comments:
Post a Comment