Friday, 28 August 2015

حدیث: بےشک بعض علوم جہالت ہیں۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ النَّحْوِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَابِتٍ , قَالَ : حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا ، وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا ، وَإِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا ، وَإِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا " , فقال صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ : صَدَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَمَّا قَوْلُهُ : إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا ، فَالرَّجُلُ يَكُونُ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَهُوَ أَلْحَنُ بِالْحُجَجِ مِنْ صَاحِبِ الْحَقِّ ، فَيَسْحَرُ الْقَوْمَ بِبَيَانِهِ فَيَذْهَبُ بِالْحَقِّ ، وَأَمَّا قَوْلُهُ : إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا ، فَيَتَكَلَّفُ الْعَالِمُ إِلَى عِلْمِهِ مَا لَا يَعْلَمُ فَيُجَهِّلُهُ ذَلِكَ ، وَأَمَّا قَوْلُهُ : إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا ، فَهِيَ هَذِهِ الْمَوَاعِظُ وَالْأَمْثَالُ الَّتِي يَتَّعِظُ بِهَا النَّاسُ ، وَأَمَّا قَوْلُهُ : إِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا ، فَعَرْضُكَ كَلَامَكَ وَحَدِيثَكَ عَلَى مَنْ لَيْسَ مِنْ شَأْنِهِ وَلَا يُرِيدُهُ .
ترجمہ:
سیدنا صخر بن عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے انہوں نے دادا سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے بلاشبہ بعض بیان جادو ہوتے ہیں اور بعض علوم جہالت ہیں۔ بیشک بعض شعر حکمت ہوتے ہیں اور بعض اقوال محض بوجھ۔ اس پر صعصعہ بن صوحان نے کہا: سچ فرمایا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ بعض اوقات آدمی کے ذمے کوئی حق ہوتا ہے (کہ وہ حقدار کو ادا کرے) مگر وہ حقدار کے مقابلے میں چرب زبان ہوتا ہے تو لوگوں کو اپنے بیان سے مسحور کر لیتا ہے اور حق مار لیتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بعض علم جہالت ہوتے ہیں۔ یوں ہے کہ بعض اوقات کوئی صاحب علم ان امور میں جن کی اسے کوئی خبر نہیں ہوتی تکلف سے بات کرتا ہے تو جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بعض شعر حکمت ہوتے ہیں۔ تو اس سے مراد وہ اشعار ہیں جن میں وعظ و نصیحت اور عمدہ مثالیں ذکر ہوتی ہیں جن سے لوگ نصیحت پاتے ہیں۔ اور آپ کا یہ کہنا کئی اقوال محض بوجھ ہوتے ہیں۔ یوں ہے کہ آپ اپنی بات ایسے شخص کے سامنے پیش کرنے لگیں جو اس کے ذوق و مزاج کے مطابق نہ ہو اور نہ وہ اس کا خواہاں ہو۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الْأَدَبِ » باب مَا جَاءَ فِي الشِّعْرِ ۔۔۔ رقم الحديث: 4361(5012)]

خلاصة حكم المحدث :
المحدث : أبو داود | المصدر : سنن أبي داود
الصفحة أو الرقم: 5012 | خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
الصفحة أو الرقم: 4/371 | خلاصة حكم المحدث : [حسن كما قال في المقدمة]
تخريج الحديث


م
 طرف الحديث
الصحابي
اسم الكتاب
أفق
العزو
المصنف
سنة الوفاة
1
عامر بن الحصيب
سنن أبي داود
4361
5012
أبو داود السجستاني
275
2
عامر بن الحصيب
المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي
492
613
البيهقي
458
3
عامر بن الحصيب
تاريخ دمشق لابن عساكر
23564
24 : 82
ابن عساكر الدمشقي
571
4
عامر بن الحصيب
تاريخ دمشق لابن عساكر
23565
24 : 83
ابن عساكر الدمشقي
571
5
عامر بن الحصيب
طبقات الشافعية الكبرى
124
---
السبكي
771
6
عامر بن الحصيب
الصمت وآداب اللسان
149
151
ابن أبي الدنيا
281
7
عامر بن الحصيب
ذم الغيبة والنميمة لابن أبي الدنيا
11
11
ابن أبي الدنيا
281
8
عامر بن الحصيب
التمهيد لابن عبد البر
808
5 : 180
ابن عبد البر القرطبي
463
9
عامر بن الحصيب
أحكام القرآن للجصاص
17
17
الجصاص الحنفي
370



تشریح :
علماء کرام نے اس حدیث کے دو مطلب بیان فرمائے ہیں:
(1) کوئی شخص ایسے علم میں مشغول ہو جو بذاتِ خود فائدہ مند نہ ہو اور نہ ہی اس کی ضرورت ہو، جیسے علمِ جفر، رمل، علمِ نجوم وغیرہ{یا منطق وفلسفہ کی طویل بحثیں سیکھیں یا جدید تعلیم کے وساوس اور فضولیات میں لگ گیا(توضیحات شرح مشکاۃ:7/46)}۔ اور ضرورت والے علم قرآن وحدیث وغیرہ کو چھوڑدے تو یہ غیر ضروری علم میں جاہل ہی ہے۔
(2) علم تو حاصل کرے مگر اس کے مطابق عمل نہ کرے تو یہ بھی جاہل ہے۔
[مرقاۃ:9 / 131-133، اشعۃ اللمعات:4/67، مظاہرِ حق:4/447]

امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص علم حاصل کرنا چاہے تو اس سے پہلے وہ یہ بات طے کرے کہ آیا اس تحصیلِ علم سے اس کا مقصد کیا ہے، اگر صرف فخر ونمائش اور بڑائی لوگوں پر جتلانا ہے تو یہ شخص علم کے ساتھ جاہل اور اپنی جان کا دشمن ہے اور اگر حصول علم سے مقصود اللہ کی رضا اور جہالت کا دور کرنا اور دوسرے کا سکھانا ہو تو اب اس شخص کو چاہیے کہ علم حاصل کرے۔
[احیاء العلوم]

خلاصہ یہ کہ بعض علم جہل کا سبب ہوتے ہیں جس علم سے وہ راہِ حق کو نہ حاصل کرسکتا ہو۔


جہالت نام ہے۔۔۔
(1)دین کی باتوں میں مذاق کرنے کا۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:67]
(2)ضد و ہٹ دھرمی(بے دینی) کا۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:199]
(3)سب کو ہدایت پر لانے کیلئے ہلکاں ہونا
[حوالہ سورۃ الانعام:35]
(4)ایمان نہ لانے کیلئے کافروں کا من پسند معجزات کا مطالبہ کرنا۔
[حوالہ سورۃ الانعام:111]
(5)بناوٹی خدا کی چاہت وعبادت۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:138]
(6)نیکی ونصیحت کی بات کو قبول نہ کرنے اور ستانے والے ہٹ دھرمی
[حوالہ سورۃ الاعراف:199، ھود:46 الفرقان:63]
(7)نافرمانی کے کام
[حوالہ یوسف:33+ 89]
(8)ہم جنس پرستی
[حوالہ سورۃ النمل:55]
(9)بیہودہ بات کرنا اور بچنے والوں سے الجھنا۔
[حوالہ سورۃ القصص:55]
(10) غیراللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دینا۔
[حوالہ سورۃ الزمر:64]
(11)کٹ حجتی کرنا۔
[حوالہ سورۃ الاحقاف:23,ھود:46 الفرقان:63]
===========================
علم اور فن میں فرق جانیں:
انسان پیٹ سے عالم بن کرپیدا نہیں ہوتا : واللہ أخرجکم من بطون أمھاتکم لاتعلمون شیئا ”اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا تم کچھ نہیں جانتے تھے۔“ لیکن اللہ نے علم کو اخذ کرنے کے لیے جن ذرائع کی ضرورت تھی وہ اس کے اندر ودیعت فرمادئیے۔ وجعل لکم السمع والا بصار والا فئدة لعلکم تشکرون (النحل:78)۔” اور اس نے تمہارے لیے کان، آنکھ اور دل عطاکیے تاکہ تم شکرکرتے رہو۔ “یہ تینوں اعضاء علم حاصل کرنے کے ذریعے ہیں، ان کا شکر یہی ہے کہ ان کا صحیح استعمال کیا جائے۔ ورنہ کل قیامت کے دن لوگ اپنی اس جہالت کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ : وقالوا لو کنا نسمع ا ونعقل ما کنا فی أصحاب السعیر۔(ملک:۰۱)۔ ”اور وہ کہیں گے کہ کاش ہم سنتے ہوتے اور سمجھتے ہوتے تو جہنمیوں میں سے نہ ہوتے۔“

 * جہالت ایک مذموم صفت ہے :

اللہ تعالی نے جہالت کو جہنمیوں کی صفت بتائی اور جاہلوں کو جانوروں سے تشبیہ دی بلکہ فرمایا کہ ان سے بھی زیاہ گمراہ اور غافل ہیں؛اللہ نے فرمایا : ولقد ذرانا لجھنم کثیراً من الجن والا نس لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم ا عین لا یبصرون بھا ولھم آذان   لا یسمعون بھا،ا ولئک کالا نعام بل ھم ا ضل ا ولئک ھم الغافلون۔ (الاعراف: 179)۔

 ”اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں ، جن کے دل ہیں ان سے سمجھتے نہیں ، ان کی آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں جن سے سنتے نہیں ، یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ، یہی لوگ غافل ہیں۔ “

کبھی فرمایا کہ شرالدواب عنداللہ ” وہ اللہ کے نزدیک بدترین جانورہیں“، کبھی فرمایا : اموات غیرا حیاءیعنی وہ مردے ہیں زندہ نہیں ۔ کبھی فرمایا کہ ان کے دلوں پر پردے ہیں ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور ان کے آنکھوں پر حجاب پڑے ہوئے ہیں۔ وہ اندھے ، بہرے اور بے سمجھ ہیں۔ اور کبھی جہالت کو تاریکی ، ضلالت وگمراہی اور موت سے تعبیر فرمایاہے، یہ ساری صفات جہالت کی مذمت اور قباحت بیان کررہی ہیں۔

 ۰ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جہالت ایک لعنت ہے: الدنیا ملعونة وملعون ما فیھا الا ذکر اللہ   وما والاہ ، او عالماً ا ومتعلماً (ترمذی، صحیح الجامع:1609)۔” دنیا ملعون اور مذموم ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی مذموم ہے سوائے اللہ کے ذکر اور جو عمل اس جیسا ہے یا ایک علم والا یا علم سیکھنے والا۔ “

 ۰ ابن قیم  رحمه الله  فرماتے ہیں : جہالت دوقسم کی ہے : ایک علم کی جہالت دوسری عمل کی جہالت ، یہ دونوں قسم کی جہالت دلوں میں تاریکی اور وحشت پیدا کرتی ہے۔

۰ جہالت دلوں کی ایک خطرناک بیماری ہے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اس بیماری کی دوا اور اس کا علاج علماءسے سوال کرنا ہے۔ ایک حدیث میں آپ ا کا ارشادہے: انما شفاءالعِیّ السوال۔ ”یقینا جہالت کی شفا سوال ہے۔“(ابوداود)۔

 * حقیقی علم:

۰ امام احمد فرماتے ہیں : لوگوں کو کھانے اور پانی سے زیادہ علم کی ضرورت ہے اس لیے کہ ایک انسان دن میں ایک دو بار کھانے اور پانی کامحتاج ہوتا ہے جبکہ وہ اپنی سانسوں کی گنتی کے برابرعلم کا محتاج ہے۔

۰ لہذا علم انسان کی ایک اہم ترین ضرورت بھی ہے اور ایک عظیم فریضہ بھی ہے،ایسا فرض کہ کسی بھی انسان سے ساقط ہونے والا نہیں ہے طلب العلم فریضہ علی کل مسلم۔ (ابن ماجہ )۔” علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ “

* وہ علم جس کا حاصل کرنا ہرانسان پر فرض ہے؛اس کا تعلق ٭رب کی ذات اور توحید سے ہے ٭نبی کی سیرت اور آپ کی سنت سے ہے ٭دین کی اہم عبادات ، ضروری معاملات اور اخلاق سے ہے۔ یہ تین اصول ہیںجوحقیقی علم پر مشتمل ہیں جن کا سیکھنا ہر انسان پرفرض ہے۔

 اس علم کو نہ جاننے والے ہی جاہل ہیں چاہے وہ دنیوی علوم کے ماہر ہی کیوں نہ ہوں ، اللہ نے ایسے ہی لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : یعلمون ظاھراً من الحیاة الدنیا وھم عن الآخرة ھم غافلون۔(روم:7)۔ ” وہ تو صرف دنیوی زندگی کے ظاہر کو ہی جانتے ہیں اور آخرت سے تو بالکل بے خبر ہیں۔“

 اور وہ لوگ بھی جاہل ہیں جن کے پاس علم تو ہے لیکن وہ توحید وسنت کےخلاف ہے اور شرک وبدعت اورخرافات سے متعلق ہے۔ اللہ نے ایسے لوگوں کی بھی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : فَلَمَّا جَاءتھم رُسُلُھُم بِالبَیِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَھُم  مِّنَ العِلمِ وَحَاقَ بِھِم مَّا کَانُوا بِہ یَستَھزءونَ.(غافر: 83)۔”پس جب ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے علم پر اترانے لگے ، بالآخر جس چیز کو مذاق میں اڑا رہے تھے وہی ان پر الٹ پڑی۔ “

 ۰ اسی لیے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ . سلوا اللہ علما نافعا،وتعوذوا با للہ من علم  لا ینفع. ”اللہ تعالی سے نفع بخش علم کا سوال کرو ، بے فائدہ علم سے اللہ کی پناہ مانگو۔ “(ابن ماجہ ).

بے فائدہ علم سے پناہ مانگنے کی دعا سکھائی: اللھمَّ اِنِّی اعوذ بِکَ مِن عِلمٍ لَایَنفَع۔” اے اللہ ! میں تجھ سے غیر نفع بخش علم سے تیری پناہ چاہتاہوں۔“ ( مسلم ). 

 اور نفع بخش علم کی بھی دعاسکھائی :اللھمَّ انفَعنیِ بِمَا عَلَّمتَنیِ وَعَلِّمنیِ مَایَنفَعُنیِ وَزِد نیِ عِلمًا.”اے اللہ! تو مجھے میرے علم سے نفع دے اور تو مجھے نفع بخش علم عطاکر اور زیادہ علم سے نواز۔“ (ترمذی ).

 * یہ نفع بخش علم( جورب کی معرفت ، نبی کی معرفت ،اور دین کی معرفت پر مشتمل ہے)، اس کے بارے میں قیامت کی سب سے پہلی منزل قبرکے اندر پوچھا جائے گا۔ انسان چاہے وہ مسلم ہو یا کافر ہر ایک سے قبر میں اس علم کے بارے میں سوال ہو گا، مومن جب ان سوالات کے جوابات دے گا تو فرشتے اس سے پوچھیں گے کہ:  و ما یدریک ؟ فیقول: قراتُ کتاب اللہ فآمنتبہ وصدّقتُ. ” اس علم کا پتہ تمہیں کیسے ہوا؟وہ جواب میں کہے گا میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان  لا یااور اس کی تصدیق کی۔“(ابوداو د، کتاب السنة باب:23 حدیث:4753).

 اور کافر ، منافق،فاسق اور فاجر اپنی بے علمی اور جہالت کا اعتراف کر ے گا اور کہے گا: لا ادری،کنتُ ا قول ما یقول الناس .”مجھے معلوم نہیں جو لوگ کہتے تھے وہی میں بھی کہتا تھا“، فرشتے اسے یہ کہہ کر ماریں گے : لادریتَ ولاتلیتَ. ”تونے نہ تو جاننے کی کوشش کی اور نہ (قرآن ) پڑھا.“( بخاری ،ح:1338).

 جہالت کے بعض نقصانات

۱- اعمال برباد ہوتے ہیں :

 اللہ کے پاس دین کے قبول ہونے کے لیے رب کی معرفت اور نبی کی معرفت بے حد ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں: توحید اور سنت یہ دونوں دواہم شروط ہیں جن کے بغیر دین کا کوئی بھی عمل مقبول نہیں ہے ۔

* توحید کی ضد شر ک اور کفر ہے، یہ بہت بڑی جہالت اور اعمال کی بردبای کا سبب ہے ، اللہ تعالی نے مشرکوں کو جاہل کہا اور فرمایاکہ ان کے نیک اعمال برباد ہیں اور وہ نقصان اور گھاٹے کا کام کررہے ہیں۔ قل افغیر اللہ تا مرونی ا عبد ا یھا الجاھلون ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن ا شرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین ۔ ”آپ کہہ دیجیے اے جاہلو! کیا تم مجھے اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کا حکم دیتے ہو، یقینا آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے (تمام نبیوں ) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو بلاشبہ آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا اور بالیقین آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاو  گے۔“

 قومِ نوح کے بعض جاہل اور مشرکوں نے اپنے متبعین سے کہا تھا کہ : وَقَالوا لَا تَذَرُنَّ آلِھَتکم وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعوقَ وَنَسرًا.[سورة نوح:23]. اور انہوں نے کہا : تم ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا ، اور نہ ہی ود، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر کو چھوڑنا۔

 یہ حالت اس وقت پیش آئی جب توحید کاعلم ختم ہوچکا تھا اورلوگ اللہ کو چھوڑ کر اپنے نیک لوگوں کے بت بنا کر ان کی عبادت کرنے لگ گئے تھے۔

ابن عباس رضى الله عنه اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

”یہ قوم نوح کے نیک لوگ تھے جب یہ مرگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈا ل دی کہ ان کے بیٹھنے کی جگہوں پر ان کے ناموں کی مورتیاں بنا کر رکھ دو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن انہوں نے ان کی عبادت یا پوجا نہیں کی حَتَّی اِذَا ھَلَکَ اولَئِکَ وَتَنَسَّخَ العِلمُ عُبِدَت البتہ جب یہ نسل ختم ہوگئی اورتوحیدکاعلم مٹ گیا تو ان کی عبادت شروع ہوگئی۔ (بخاری)۔یعنی جب جہالت عام ہوگئی تو لوگ شرک میں مبتلا ہوگئے۔

 * سنت کی ضد بدعات وخرافات ہیں: یہ بھی بہت بڑی جہالت اور اعمال کی بربادی کا سبب ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا : یاایھا الذین آمنوا ا طیعوا اللہ وا طیعوا الرسول ولا تبطلوا ا عمالکم۔ (محمد: 33)۔

 ”اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد مت کرو۔ رسول اللہ ا نے فرمایا : من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو رد۔ ”جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو مردود ہے۔“( بخاری ،مسلم )۔

 ۰ وہ تین شخص جو نبی کریم ا کی عبادت کا حال سن کر مزید عبادت میں محنت کرنے کا عزم کیا ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھتا رہوں گا کبھی روزہ نہیں چھوڑوں گا، دوسرے نے کہا کہ میں نکاح نہیں کروں گا، یعنی دنیا سے اپنا تعلق ہی کاٹ لوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں کبھی رات میں نہیں سووںگا،ہمیشہ تہجدپڑھتا رہوں گا۔ان تینوں نے نیک کام کا ہی عزم کیا تھا، کسی گناہ کا نہیں ،لیکن سنتِ رسول کے خلاف تھا، اسی لیے رسول اللہ انے ان کے عزائم کو سن کر فرمایا : میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور روزہ ترک بھی کرتاہوں ، میں رات میں سوتا بھی ہوں اورجاگ کر تہجد بھی پڑھتا ہوں ، میں نکاح بھی کرتا ہوں۔ یعنی یہی میری سنت اور میرا طریقہ ہے: فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔ جو میرے اس طریقے سے ہٹ گیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ ( بخاری،مسلم )۔

 ۰ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد ایک بار ابوموسی اشعری ص نماز فجر سے پہلے مسجد نبوی میں پہنچے دیکھا کہ لوگ نماز کا انتظار کرتے ہوئے مختلف گروپ میں بیٹھے ہیں، ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں، ہرگروپ میں ایک شخص ہے جو ان سے کہتا ہے کہ سو بار سبحان اللہ پڑھو، تو وہ کنکریوں پر گنتے ہوئے سوبار سبحان اللہ پڑھتے ہیں ، پھر وہ کہتا ہے کہ سو بار لاالہ الا اللہ پڑھو، تو وہ کنکریوں پر گنتے ہوئے سوبار لاالہ الا اللہ پڑھتے ہیں، پھر وہ کہتا ہے کہ سو بار اللہ اکبر پڑھو تو وہ کنکریوں پر گنتے ہوئے سوبار اللہ اکبرپڑھتے ہیں، ابوموسی اشعری ص نے عبداللہ بن مسعودص سے بیان کیا وہ مسجد پہنچ کر ایک گروپ کے پاس کھڑے ہوئے فرمایا کہ یہ تم کیا کررہے ہو ، انہوں نے کہا : یہ کنکریاں ہیں جن پر ہم تسبیح تہلیل اور تکبیر پڑھ رہے ہیں ، ابن مسعودرضى الله عنه نے فرمایا فَعُدُّوا سیِّئاتِکُم فا نا ضامن لکم ا ن لا یضیع من حسناتکم شیء ویحکم یا ا مَّة محمد، ما ا سرع ھلکتم! ھو لاءصحابة نبیکم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم متوافرون، وھذہ ثیابھم لم تبل وآنیتھم لم تکسر، والذی نفسی بید ہ انکم لعلی ملَّةٍ ا ھدی من ملَّة محمَّدٍ ا ومفتتحو باب ضلالةٍ؟ ۔”تم اپنے گناہوں کو شمار کرو میں تمہیں ضمانت دیتاہوں کہ تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی، افسوس ہے تم پر اے امت محمد! تم کتنا جلد برباد ہوگئے !یہ تمہارے نبی کے صحابہ ابھی بکثرت موجود ہیں ، ان کے یہ کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور ان کے برتن ابھی ٹوٹے تک نہیں۔قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کیا تمہارا طریقہ زیادہ علم وہدایت والا ہے یا محمدا کا طریقہ ؟! یا یہ کہ تم گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟!ان لوگوں نے کہا یا ابا عبد الرحمن، ما اردنا الا الخیر. اے ابوعبدالرحمن! ہم نیک کا م ہی تو کررہے ہیں۔ ابن مسعود رضى الله عنه نے فرمایا : وَکَم مِن مُرِیدٍ لِلخَیرِ لَن یُّصِیبَہ ”کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو نیک عمل توکرتے ہیں لیکن وہ ہرگز نیکی تک نہیں پہنچ سکتے۔“ (دارمی)۔کیونکہ وہ جہا لت اورسنت سے دوری کا نتیجہ ہے۔

 ۲۔ جہالت ؛انسان کو شہوات اور شبہات میں مبتلا کرتی ہے جو ہر قسم کے فتنے اور گناہوں کی جڑ ہیں ، شبہات سے عقیدہ میں خرابی پیدا ہوتی جبکہ شہوات سے اعمال اور اخلاق میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا علم کم ہوتا جائے گا اور جہالت عام ہوتی جائے گی، اسی لیے قیامت کے قریب شہوات اور شبہات کے فتنے عروج پر ہوں گے۔ رسول اللہا نے فرمایا : انَّ بَینَ یَدَی السَّاعَةِ ایامًا یُر فَعُ فِیھَا العِلم وََیَنزِلُ فیھَا الجَھلُ وَیَکثُرُفِیھَا الھَرج ،وفی روایة: ویََظھَرُ الزِّنَا۔ (بخاری ومسلم). ”یقینا قیامت سے پہلے ایک ایسا زمانہ بھی ہوگاجس میں علم اٹھا لیا جائے گا ، جہالت پھیل جائے گی،قتل وخون ریزی بہت زیادہ ہو گی اور زنا کاری عام ہوگی۔ “

 شبہات اور شہوات سے بچنا؛ یہ دراصل عبادالرحمن کی صفات میں سے ہے، اللہ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : والذین لایدعون مع اللہ الھا آخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق    ولا یزنون.(فرقان:68)۔”اور وہ اللہ کے ساتھ کسی د وسرے معبود کو نہیں پکارتے،اورکسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ نے حرام کردیا ہے بجز حق کے قتل نہیں کرتے ، اور وہ زنا کے مرتکب نہیں ہوتے ۔ “ اس آیت میں ان کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شبہات سے بچ کرعقیدہ اور توحیدکی حفاظت کرتے ہیں اور دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ناجائز شہوات سے دور رہ کر قتل وخون ریزی، زنا اور بدکاری جیسی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

۳۔ جاہل خود بھی نقصان میں رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں:

۰ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من الناس ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم ترعالماً اتخذ الناس رءوساً جھالاً فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا وا ضلوا۔(مسلم )۔

” اللہ تعالی علم کو لوگوں کے دلوں سے چھین نہیں لے گا بلکہ علماءکے ختم ہونے سے علم ختم ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے، ان سے فتوے پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔                 

 ۰ جاہل اور عالم میں فرق کرنے کے لیے اس حدیث پر غور فرمائیں کہ رسول اللہ انے فرمایا کہ گزشتہ زمانے میں ایک شخص 99 آدمی کو قتل کرکے لوگوں سے پوچھا کہ مجھے روئے زمین کا سب زیادہ علم والا شخص بتاؤ، لوگوں نے اُسے ایک جاہل عابد کی رہنمائی کی، قاتل نے اُس سے پوچھا: میں 99آدمی کو قتل کرچکا ہوں کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں، قاتل (غصہ میں آگیا اور) اُسے بھی قتل کردیا، پھر اس نے لوگوں سے پوچھا : مجھے روئے زمین کا سب زیادہ علم والا شخص بتاؤ، چنانچہ اُسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا ، وہ اس کے پاس گیا اور اُس سے پوچھا :میں سو آدمی کو قتل کرچکا ہوں، کیا میری تو بہ قبول ہوسکتی ہے ؟عالم نے کہا کہ تمہارے اور توبہ کے درمیان کون رکاوٹ بن سکتاہے ؟! پھر اُس نے قاتل سے فرمایا کہ تم فلاں بستی چلے جاؤ جہاں ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں،لہذا تم ان کے ساتھ رہ کر اللہ کی عبادت کرتے رہو اور اپنی بستی کی طرف واپس نہ لوٹو کیونکہ وہ برے لوگوں کی بستی ہے۔ (بخاری، مسلم)۔

 ۴۔ جو عمل جہالت پر مبنی ہو گا وہ ضلالت اور گمراہی ہے اور جو عمل صحیح علم پر مبنی ہو گا وہ ہدایت ہے :

 اللہ نے قرآن کریم میں نصرانیوں کی مذمت اس لیے بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے علم کے بغیر اپنے لیے جو عمل اچھا لگتا اسے اپنا تے تھے ، اللہ نے ہمیں ایسے لوگوں کے طریقہ سے ہر نماز میں پناہ مانگنے اور صحیح علم وعمل پر  ثابت قدم رہنے کی دعا سکھائی۔ بلکہ اس دعا کو نماز کا ایک رکن قرار دیا۔ تاکہ لوگ صحیح علم کی اہمیت اور جہالت کی خطرناکی کو اچھی طرح جان لیں: اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم   غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین۔ ”ہمیں درست راہ سمجھا دے اور اس پر جمادے (یعنی) ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا انعام ہوا ، نہ کہ ا ن لوگوں کی راہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان لوگوں کی راہ جو گمراہ ہوگئے۔ “

 ۵۔ جہالت فرقہ پرستی ، امت میں انتشار اور تفرقہ بازی کا سبب ہے :

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”یہودی 71 فرقوں میں بٹ گئے نصاری 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی؛ سب کے سب جہنمی ہیں سوائے ایک کے ، صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ وہ کونسا فرقہ ہے؟ آپ انے فرمایا : جو میرے اور صحابہ کے طریقے پرقائم رہے ، اور یہی ’جماعت‘یعنی متحد ومتفق ہیں۔“ (ترمذی ، ابوداود،صحیح ابن ماجہ)۔

 عبداللہ بن مسعود  رضي الله عنه نے صحابہ کے بارے میں فرمایا :

”جو شخص کسی کی پیروی کرنا چاہے تو اُسے چاہیے کہ وہ محمدا کے صحابہ کی پیروی کرے کیونکہ وہ اس امت کے بڑے نیک دل اور فرمانبردار لوگ ہیں ، سب سے زیادہ گہرے علم والے ہیں ، ان کے پاس کوئی تکلف نہیں ہے (یعنی ا ن کے اقوال اوراعمال علم وبصیرت پر مبنی ہوتے ہیں)، وہ سب سے زیادہ درست علم وہدایت پر ہیں ، وہ سب سے بہترین حالت والے ہیں ، وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے بنی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے چن لیا ہے ، لہذا تم ان کے مقام اورمرتبہ کو جان لو ، ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اس لیے کہ وہ درست علم وہدایت پر تھے۔ “(جامع بیان العلم لابن عبدالبر)۔
===================================
علمِ ضروری کی جھلکیاں:
وَأَنِ احكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم وَاحذَرهُم أَن يَفتِنوكَ عَن بَعضِ ما أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوا فَاعلَم أَنَّما يُريدُ اللَّهُ أَن يُصيبَهُم بِبَعضِ ذُنوبِهِم ۗ وَإِنَّ كَثيرًا مِنَ النّاسِ لَفٰسِقونَ {5:49}
اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) خدا نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو خدا نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بہکانہ دیں اگر یہ نہ مانیں تو جان لو کہ خدا چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب ان پر مصیبت نازل کرے اور اکثر لوگ تو نافرمان ہیں
And judge thou between them by that which Allah hath sent down, and follow thou not their desires, and beware thou of them lest they tempt thee away from any part of that which Allah hath sent down unto thee. Then if they turn away, then know thou that Allah only intendeth to afflict them for some of their sins. And verily many of the mankind are transgressors.
یعنی آپ ان لوگوں کے اعراض و انحراف سے زیادہ ملول نہ ہوں۔ دنیا میں فرمانبردار بندے ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں { وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ } (یوسف رکوع ۱۱)
پوری سزا تو قیامت میں ملے گی لیکن کچھ تھوڑی سی سزا دے کر یہاں بھی مجرم کو یا دوسرے دیکھنے والوں کو ایک گونہ تنبیہ کر دی جاتی ہے۔
یعنی آپس کے اختلافات میں خواہ دنیا کیسی ہی دست و گریباں رہے آپ کو یہ ہی حکم ہے کہ ما انزل للہ کے موافق حکم دیتے رہیں اور کسی کے کہنے سننے کی کوئی پروا نہ کریں۔

فَإِن لَم يَستَجيبوا لَكَ فَاعلَم أَنَّما يَتَّبِعونَ أَهواءَهُم ۚ وَمَن أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوىٰهُ بِغَيرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الظّٰلِمينَ {28:50}
پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
Then if they answer thee not, know thou that they only follow their own desires; and who is farther astray than he who followeth his desire without guidance from Allah? Verily Allah guideth not a wrong- doing people.
یعنی جب یہ لوگ نہ ہدایت کو قبول کرتے ہیں اور نہ اس کے مقابلہ میں کوئی چیز پیش کر سکتے ہیں تو یہ ہی اس کی دلیل ہے کہ ان کو راہ ہدایت پر چلنا مقصود ہی نہیں۔ محض اپنی خواہشات کی پیروی ہے، جس چیز کو دل چاہا مان لیا، جس کو اپنی مرضی اورخواہش کے خلاف پایا رد کر دیا ۔ بتلائیے ایسے ہوا پرست ظالموں کو کیا ہدایت ہو سکتی ہے۔ اللہ کی عادت اسی قوم کو ہدایت کرنے کی ہے جو ہدایت پانے کا ارادہ کرے اور محض ہوا و ہوس کو حق کا معیار نہ بنا لے۔

فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَلِلمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ مُتَقَلَّبَكُم وَمَثوىٰكُم {47:19}
پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے
So know thou that there is no god save Allah, and ask forgiveness for thy fault and for believing men and believing women. And Allah knoweth well your moving about and your place of rest.
یعنی جتنے پردوں میں پھرو گے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچو گے جو تمہار اصلی گھر ہے۔
ہر ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدود ءجواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ { حَسَنَاتُ الْابْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ } کے یہ ہی معنی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم دن میں سو بار استغفار فرماتے تھے (تنبیہ) { فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَااِلٰہَ اِلَّا للہُ } الخ کا خطاب ہر ایک مخاطب کو ہے۔ اور اگر خاص نبی کریم مخاطب ہوں تو مطلب یہ ہے کہ اس علم پر برابر جمے رہیئے۔ اور استغفار کرتے رہے۔ اور { فَاعْلَمْ } کی تفریع ماقبل پر اس طرح ہے کہ قیامت آنے کے بعد کسی کو ایمان و توبہ وغیرہ نافع نہیں تو آدمی کو چاہئے کہ اس کے آنے سے قبل صحیح معرفت حاصل کرے۔ اور ایمان و استغفار کے طریق پر مستقیم رہے۔

فَإِن زَلَلتُم مِن بَعدِ ما جاءَتكُمُ البَيِّنٰتُ فَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ {2:209}
پھر اگر تم احکام روشن پہنچ جانے کے بعد لڑکھڑاجاؤ تو جان جاؤ کہ خدا غالب (اور) حکمت والا ہے
Wherefore if ye slip after that which hath come unto you of the evidence then - know that Allah is Mighty, Wise.
یعنی شریعت محمدی کے صاف صاف احکام معلوم ہونے کے بعد بھی اگر کوئی اس پر قائم نہ ہو بلکہ دوسری طرف بھی نظر رکھے تو خوب سمجھ لو کہ اللہ سب پر غالب ہے جس کو چاہے سزا دے کوئی اس کے عذاب کو روک نہیں سکتا بڑا حکمت والا ہے جو کرتا ہے حق اور مصلحت کے موافق کرتا ہے خواہ عذاب دے یا کچھ ڈھیل دے یعنی نہ جلد باز ہے نہ بھولنے والا نہ خلاف انصاف اور غیر مناسب امر کرنے والا۔

إِلَّا الَّذينَ تابوا مِن قَبلِ أَن تَقدِروا عَلَيهِم ۖ فَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ {5:34}
ہاں جن لوگوں نے اس سے پیشتر کہ تمہارے قابو میں آ جائیں توبہ کر لی تو جان رکھو کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے
Save those who repent ere ye have them in your power; for know that Allah is Forgiving, Merciful.
یعنی مذکورہ بالا سزائیں جو حدود اور حق اللہ کے طور پر تھیں وہ گرفتاری سے قبل توبہ کر لینے سے معاف ہو جاتی ہیں۔ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔ مثلًا اگر کسی کا مال لیا تھا تو ضمان دینا ہو گا، قتل کیا تھا تو قصاص لیا جائے گا۔ ہاں ان چیزوں کے معاف کرنے کا حق صاحب مال اور ولی مقتول کو حاصل ہے (تنبیہ) اس حد کےسوا باقی حدود مثلًا حد زنا، حد شرب خمر، حد سرقہ، حد قذف توبہ سے مطلقًا ساقط نہیں ہوتیں۔

وَأَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَاحذَروا ۚ فَإِن تَوَلَّيتُم فَاعلَموا أَنَّما عَلىٰ رَسولِنَا البَلٰغُ المُبينُ {5:92}
اور خدا کی فرمانبرداری اور رسولِ (خدا) کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے
Obey Allah and obey the apostle, and beware; but if ye turn away, then know that upon Our apostle resteth only the plain preaching.
اگر کسی چیز کے منافع و مضار کا احاطہ نہ کر سکو تب بھی خدا اور رسول کے احکام امتثال کرو اور قانون کی خلاف ورزی سے بچتے رہو ۔ اگر نہ بچو گے تو ہمارےپیغمبر تم کو قانون و احکام الہٰی کھول کر پہنچا چکے۔ نتیجہ خلاف ورزی کا خود سوچ لو کیا ہو گا؟

وَإِن تَوَلَّوا فَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ مَولىٰكُم ۚ نِعمَ المَولىٰ وَنِعمَ النَّصيرُ {8:40}
اور اگر روگردانی کریں تو جان رکھو کہ خدا تمہارا حمایتی ہے۔ (اور) وہ خوب حمایتی اور خوب مددگار ہے
And if they turn away, then know that Allah is your Patron: excellent Patron! and excellent helper!
یعنی مسلمانوں کو چاہئے کہ خدا کی مدد اور حمایت پر بھروسہ کر کے جہاد کریں۔ کفار کی کثرت اور سازوسامان سے مرعوب نہ ہوں۔ جیسے جنگ بدر میں دیکھ چکے کہ خدا نے مسلمانوں کی کیا خوب امداد و حمایت کی۔

وَأَذٰنٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ إِلَى النّاسِ يَومَ الحَجِّ الأَكبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَريءٌ مِنَ المُشرِكينَ ۙ وَرَسولُهُ ۚ فَإِن تُبتُم فَهُوَ خَيرٌ لَكُم ۖ وَإِن تَوَلَّيتُم فَاعلَموا أَنَّكُم غَيرُ مُعجِزِى اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذينَ كَفَروا بِعَذابٍ أَليمٍ {9:3}
اور حج اکبر کے دن خدا اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ خدا مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی (ان سے دستبردار ہے)۔ پس اگر تم توبہ کرلو تو تمھارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر نہ مانو (اور خدا سے مقابلہ کرو) تو جان رکھو کہ تم خدا کو ہرا نہیں سکو گے اور (اے پیغمبر) کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا دو
And a proclamation is this from Allah and His apostle unto the mankind on the day of the greater pilgrimage that Allah is quit of the associators, and so is His apostle. Wherefore if ye repent, it shall be better for you,but if ye turn away, then know that ye cannot escape Allah. And announce thou unto those who disbelieve a torment afflictive.
حج کو حج اکبر اس لئے کہا کہ عمرہ حج اصغر ہے اور { یَوْمِ الْحَجِّ الْاَکْبَرْ } سے دسویں تاریخ عیدالاضحٰی کا دن یا نویں تاریخ عرفہ کا دن مراد ہے۔
یہ اعلان غالبًا ان قبائل کے حق میں تھا ۔ جنہوں نے میعادی معاہدہ کیا پھر خود ہی عہد شکنی کی (مثلاً بنی بکر یا قریش وغیرہ ہم) یعنی ایسے لوگوں سےکوئی معاہدہ اب باقی نہیں رہا۔ اگر یہ سب لوگ شرک و کفر سے توبہ کر لیں تو ان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ نہیں تو خدا کاجو کچھ ارادہ ہے (تطہیر جزیرۃ العرب کا) وہ پورا ہو کر رہے گا۔ کوئی طاقت اور تدبیر اسے مغلوب نہیں کر سکتی اور کافروں کو کفر و بد عہدی کی سزا مل کر رہے گی (تنبیہ) ان قبائل کی عہد شکنی اگرچہ فتح مکہ ۸ ہجری سے پہلے ہو چکی تھی بلکہ اسی کے جواب میں مکہ فتح کیا گیا۔ تاہم ۹ ہجری کے حج کے موقع پر اس کا بھی اعلان عام کرایا گیا تاکہ واضح ہو جائے کہ اس قسم کے جتنے لوگ ہیں ان سے کسی قسم کا معاہدہ باقی نہیں رہا۔

فَإِلَّم يَستَجيبوا لَكُم فَاعلَموا أَنَّما أُنزِلَ بِعِلمِ اللَّهِ وَأَن لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ فَهَل أَنتُم مُسلِمونَ {11:14}
اگر وہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ وہ خدا کے علم سے اُترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو تمہیں بھی اسلام لے آنا چاہئیے
Then if they respond you not, know that it hath been sent down only with the Knowledge of Allah, and that there is no god but he; are ye Muslims then?
یعنی فرمائشی معجزے طلب کرتے ہیں ، جن کا دیا جانا مصلحت نہیں۔ اور جو سب سے بڑا معجزہ (قرآن) ان کے سامنے ہے ، اسے مانتے نہیں ، کہتے ہیں یہ تو (معاذ اللہ) تمہاری بنائی ہوئی گھڑنت ہے۔ اس کا جواب دیا کہ تم بھی آخر عرب ہو ، فصاحت و بلاغت کا دعویٰ رکھتے ہو ، سب مل کر ایسی ہی دس سورتیں گھڑ کر پیش کر دو اور اس کام میں مدد دینے کے لئے تمام مخلوق کو بلکہ اپنے ان معبودوں کو بھی بلا لاؤ جنہیں خدائی کا شریک سمجھتے ہو۔ اگر نہ کر سکو اور کبھی نہ کر سکو گے تو سمجھ لو کہ ایسا کلام خالق ہی کا ہو سکتا ہے۔ جس کا مثل لانے سے تمام مخلوق عاجز رہ جائے۔ تو یقینًا یہ وہ کلام ہے جو خدا نے اپنے علم کامل سےپیغمبر پر اتارا ہے بیشک جس کے کلام کا مثل نہیں ہو سکتا اس کی ذات و صفات میں کون شریک ہو سکتا ہے۔ ایسا بے مثال کلام اسی بے مثال خدا کا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ کیا ایسے واضح دلائل کے بعد بھی مسلمان ہونے اور خدا کا حکم بردار بننے میں کسی چیز کا انتظار ہے (تنبیہ) اعجاز قرآن کی کچھ تفصیل سورہ "یونس" میں گذر چکی۔ ابتداء میں پورے قرآن سے تحدی کی گئ تھی۔ پھر دس سورتوں سے ہوئی ۔ پھر ایک سورت سے جیسا کہ بقرہ اور یونس میں گذرا ۔ گویا ان کا عجز بتدریج نمایاں کیا گیا۔



اعلَموا أَنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ وَأَنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ {5:98}
جان رکھو کہ خدا سخت غداب دینے والا ہے اور یہ کہ خدا بخشنے والا مہربان بھی ہے
Know that Allah is severe in chastising and that Allah is Forgiving, Merciful.
یعنی جو احکام حالت احرام یا احترام کعبہ وغیرہ کے متعلق دیے گئے اگر ان کی عمدًا خلاف ورزی کرو گے تو سمجھ لو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے۔ اور بھول چوک سے کچھ تقصیر ہو جائے پھر کفارہ وغیرہ سے اس کی تلافی کر لو تو بیشک وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔

اعلَموا أَنَّ اللَّهَ يُحىِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ قَد بَيَّنّا لَكُمُ الءايٰتِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ {57:17}
جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ہم نے اپنی نشانیاں تم سے کھول کھول کر بیان کردی ہیں تاکہ تم سمجھو
Know that Allah quickeneth earth after the death thereof. Surely We have propounded unto you the signs, that haply ye may reflect.
یعنی عرب لوگ جاہل اور گمراہ تھے جیسے مردہ زمین۔ اب اللہ نے ان کو ایمان اور علم کی روح سے زندہ کیا۔ اور ان میں سب کمال پیدا کر دیئے۔ غرض کسی مردہ سے مردہ انسان کو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ سچی توبہ کرلے تو اللہ پھر اس کے قالب میں روح حیات پھونک دے گا۔

اعلَموا أَنَّمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا لَعِبٌ وَلَهوٌ وَزينَةٌ وَتَفاخُرٌ بَينَكُم وَتَكاثُرٌ فِى الأَموٰلِ وَالأَولٰدِ ۖ كَمَثَلِ غَيثٍ أَعجَبَ الكُفّارَ نَباتُهُ ثُمَّ يَهيجُ فَتَرىٰهُ مُصفَرًّا ثُمَّ يَكونُ حُطٰمًا ۖ وَفِى الءاخِرَةِ عَذابٌ شَديدٌ وَمَغفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنٌ ۚ وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتٰعُ الغُرورِ {57:20}
جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال واولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (وخواہش) ہے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اُگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ (پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کے لئے) عذاب شدید اور (مومنوں کے لئے) خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے
Know that the life of the world is but a play and a pastime, and an adornment and a self-glorification among you and vying in respect of riches and children; as the likeness of vegetation after rains whereof the growth pleaseth the husbandmen, then it withereth and thou seest it becoming yellow, then it becometh chaff. And in the Hereafter there is both a grievous torment and forgiveness from Allah and His pleasure, and the life of the world is but a vain bauble.
آدمی کو اول عمر میں کھیل چاہئے، پھر تماشا، پھر بناؤ سنگار (اور فیشن) پھر ساکھ بڑھانا اور نام و نمود حاصل کرنا پھر موت کے دن قریب آئیں تو مال و الاد کی فکر کہ پیچھے میرا گھر بار بنا رہے اور اولاد آسودگی سے بسر کرے۔ مگر یہ سب ٹھاٹھ سامان فانی اور زائل ہیں ۔ جیسے کھیت کی رونق و بہار چند روزہ ہوتی ہے پھر زرد پڑ جاتی ہے اور آدمی اور جانور اسکو روند کرچورا کر دیتے ہیں۔ اس شادابی اور خوبصوری کا نام و نشان نہیں رہتا۔ یہ ہی حال دنیا کی زندگانی اور اسکے سازوسامان کو سمجھو کہ وہ فی الحقیقت ایک دغا کی پونجی اور دھوکے کی ٹٹی ہے۔ آدمی اسکی عارضی بہار سے فریب کھا کر اپنا انجام تباہ کر لیتا ہے۔ حالانکہ موت کے بعد یہ چیزیں کام آنے والی نہیں۔ وہاں کچھ اور ہی کام آئے گا۔ یعنی ایمان اور عمل صالح۔ جو شخص دنیا سے یہ چیز کما کر لے گیا، سمجھو بیڑا پار ہے۔ آخرت میں اسکے لئے مالک کی خوشنودی و رضامندی اور جو دولت ایمان سے تہی دست رہا اور کفر و عصیان کا بوجھ لے کر پہنچا اسکے لئے سخت عذاب۔ اور جس نے ایمان کے باوجود اعمال میں کوتاہی کی اسکے لئے جلد یا بدیر دھکے مکے کھا کرمعافی ہے۔ دنیا کا خلاصہ وہ تھا آخرت کا یہ ہوا۔

الشَّهرُ الحَرامُ بِالشَّهرِ الحَرامِ وَالحُرُمٰتُ قِصاصٌ ۚ فَمَنِ اعتَدىٰ عَلَيكُم فَاعتَدوا عَلَيهِ بِمِثلِ مَا اعتَدىٰ عَلَيكُم ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ مَعَ المُتَّقينَ {2:194}
ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔ پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ڈرنے والوں کے ساتھ ہے
A sacred month is for a sacred month; these sacrednesses are in retaliation. Whosoever then offereth violence unto you, Offer violence unto him the like of his violence unto you, and fear Allah, and know that Allah is with the God-fearing.
حرمت کا مہینہ یعنی ذیقعدہ کہ جس میں عمرہ کی قضا کرنے جا رہے ہو بدلا ہے اس حرمت کے مہینہ یعنی ذیقعدہ کا کہ سال گذشتہ میں اسی مہینہ کے اندر کفار مکہ نے تم کو عمرہ سے روک دیا تھا اور مکہ میں جانے نہ دیا تھا یعنی اب شوق سے ان سے تم بدلہ لو کیونکہ ادب اور حرمت رکھنے میں تو برابری ہے یعنی اگر کوئی کافر ماہ حرام کی حرمت کرے اور اس مہینہ میں تم سے نہ لڑے تو تم بھی ایسا ہی کرو مکہ والے جو سال گذشتہ میں تم پر ظلم کر چکے اور نہ ماہ حرام کی حرمت کی نہ حرم مکہ کی نہ تمہارے احرام کا لحاظ کیا اور تم نے اس پر بھی صبر کیا اگر اس دفعہ بھی سب حرمتوں سے قطع نظر کر کے آمادہ جنگ ہوں تو تم بھی کسی کی حرمت کا خیال مت کرو بلکہ اگلی پچھلی سب کسر مٹا لو مگر جو کرو خدا سے ڈر کر کرو اس کی خلافِ اجازت ہر گز نہ ہو اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کا بیشک ناصر و مددگار ہے۔

وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِن أُحصِرتُم فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ ۖ وَلا تَحلِقوا رُءوسَكُم حَتّىٰ يَبلُغَ الهَدىُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كانَ مِنكُم مَريضًا أَو بِهِ أَذًى مِن رَأسِهِ فَفِديَةٌ مِن صِيامٍ أَو صَدَقَةٍ أَو نُسُكٍ ۚ فَإِذا أَمِنتُم فَمَن تَمَتَّعَ بِالعُمرَةِ إِلَى الحَجِّ فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ ۚ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلٰثَةِ أَيّامٍ فِى الحَجِّ وَسَبعَةٍ إِذا رَجَعتُم ۗ تِلكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ ۗ ذٰلِكَ لِمَن لَم يَكُن أَهلُهُ حاضِرِى المَسجِدِ الحَرامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ {2:196}
اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
And fulfil the pilgrimage and 'Umra for Allah. And if ye be besieged, offer whatsoever offering be easy, and shave not Your heads, until the offering reacheth its destination. Then whosoever of you sick or hath hurt in his head, for him is a ransom by fasting or alms or a rite. Then when ye are secure, whosoever combinoth 'Umra with the pilgrimage, for him is whatsoever offering be easy. And whosoever cannot afford then for him is a fast of three days during the pilgrimage and of seven when ye return these are ten days complete. That is for him whose family dwell not near the Sacred Mosque. And fear Allah, and know that verily Allah is severe in chastising.
یعنی اگر حالت احرام میں کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں درد یا زخم ہو تو اس کو بضرورت حالت احرام میں حجامت کرنا سر کا جائز ہے مگر بدلا دینا پڑے گا تین روزے یا چھ محتاجوں کو کھانا کھلانا یا ایک دنبہ یا بکرے کی قربانی کرنا۔ یہ دم جنایت ہے کہ حالت احرام میں بضرورت مرض لاچار ہو کر امور مخالف احرام کرنے پڑے۔
یعنی جس نے قِران یا تمتع کیا اور اس کو قربانی میسر نہ ہوئی تو اس کو چاہیئے کہ تین روزے رکھے حج کے دنوں میں جو کہ یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ پر ختم ہوتے ہیں اورسات روزے جب رکھے کہ حج سے بالکل فارغ ہو جائے دونوں کا مجموعہ دس روزے ہو گیا۔
حج کے ضمن میں جہاد کا ذکر جو مناسب تھا اس کو بیان فرما کر اب احکام حج و عمرہ بتلائے جاتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ جب کسی نے حج یا عمرہ شروع کیا یعنی اس کا احرام باندھا تو اس کا پورا کرنا لازم ہو گیا بیچ میں چھوڑ دے اور احرام سے نکل جائے یہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر کوئی دشمن یا مرض کی وجہ سے بیچ میں ہی رک گیا اور حج و عمرہ نہیں کر سکتا تو اس کے ذمہ پر ہے قربانی جو اس کو میسر آئے جس کا ادنیٰ مرتبہ ایک بکری ہے اس قربانی کو کسی کے ہاتھ مکہ کو بھیجے اور یہ مقرر کر دے کہ فلاں روز اس کو حرم مکہ میں پہنچ کر ذبح کر دینا اور جب اطمینان ہو جائے کہ اب اپنے ٹھکانے یعنی حرم میں پہنچ کر اس کی قربانی ہو چکی ہو گی اس وقت سر کی حجامت کرا دے اس سے پہلے ہر گز نہ کرائے اس کو دم احصار کہتے ہیں کہ حج یا عمرہ سے رکنے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔
یعنی جو محرم کہ دشمنی کی طرف سے اور مرض سے مطمئن ہو خواہ اس کو کسی قسم کا اندیشہ پیش ہی نہ آیا یا دشمن کا خوف یا بیماری کا کھٹکا پیش تو آیا مگر جلد زائل ہو گیا یا احرام حج و عمرہ میں اس سے خلل نہ آنے پایا تو اس کو دیکھنا چاہیئے کہ اس نے حج اور عمرہ دونوں ادا کئے یعنی قِران یا تمتع کیا اِفراد نہیں کیا تو اس پر قربانی ایک بکرا یا ساتواں حصہ اونٹ یا گائے کا لازم ہے اس کو دم قِران اور دم تمتع کہتے ہیں امام ابو حنیفہؒ اس کو دم شکر کہتے ہیں اور اس کو ا س میں سے کھانے کی اجازت دیتے ہیں اور امام شافعیؒ اس کو دم جبر کہتے ہیں اور قربانی کرنے والے کو اس میں سے کھانے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔
یعنی قِران و تمتع اسی کے لئے ہے جو مسجد حرام یعنی حرم مکہ کے اندر یا اس کے قریب نہ رہتا ہو بلکہ حِل یعنی خارج از میقات کا رہنے والا ہو اور جو حرم مکہ کے رہنے والے ہیں وہ صرف اِفراد کریں۔

وَاذكُرُوا اللَّهَ فى أَيّامٍ مَعدودٰتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فى يَومَينِ فَلا إِثمَ عَلَيهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلا إِثمَ عَلَيهِ ۚ لِمَنِ اتَّقىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّكُم إِلَيهِ تُحشَرونَ {2:203}
اور (قیام منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن میں) خدا کو یاد کرو۔ اگر کوئی جلدی کرے (اور) دو ہی دن میں (چل دے) تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ اور جو بعد تک ٹھہرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ یہ باتیں اس شخص کے لئے ہیں جو (خدا سے) ڈرے اور تم لوگ خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اس کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔
And remember Allah on the days numbered. Then whosoever hastenoth in two days on him is no sin, and whosoever delayeth, On him is no sin: this for him: who feareth. So fear Allah, and know that verily unto Him shall ye be gathered.
یعنی گناہ تو یہ ہے کہ ممنوعات شرعیہ سے پرہیز نہ کرے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے اور زمانہ حج میں پرہیزگاری کرے تو پھر اس بات میں کچھ گناہ نہیں کہ منیٰ میں دو دن قیام کیا کہ تین دن کہ اللہ نے دونوں باتیں جائز رکھیں مگر افضل یہی ہے کہ تین روز قیام کرے۔
ایام معدودات سے مراد ذی الحجہ کی گیارہویں بارہویں تیرہویں تاریخیں ہیں جن میں حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں قیام کا حکم ہے ان دنوں میں رمی جمار یعنی کنکریوں کے مارنے کے وقت اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہنے کا حکم ہے اور دیگر اوقات میں بھی ان دنوں میں چاہیئے کہ تکبیر اور ذکر الہٰی کثرت سے کرے۔
یعنی حج کی خصوصیت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سےہر کام میں اور ہر وقت ڈرتے رہو کہ تم سب کو قبروں سے اٹھ کر اس کے پاس جمع ہونا ہے حساب دینے کو حج کا ذکر تو تمام ہو چکا مگر حج کے ذیل میں جو لوگوں کی دو قسموں کا ذکر آ گیا تھا { فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ } اور { مِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ } یعنی کافر اور مومن کا تو اب اس کی مناسبت سے تیسری قسم یعنی منافق کا بھی حال بیان کیا جاتا ہے۔

نِساؤُكُم حَرثٌ لَكُم فَأتوا حَرثَكُم أَنّىٰ شِئتُم ۖ وَقَدِّموا لِأَنفُسِكُم ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّكُم مُلٰقوهُ ۗ وَبَشِّرِ المُؤمِنينَ {2:223}
تمہاری عورتیں تمہارای کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔ اور اپنے لئے (نیک عمل) آگے بھیجو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر) ایمان والوں کو بشارت سنا دو
Your women are tilth Unto you, so go in unto your tilth as ye list, and provide beforehand for your souls. And fear Allah, and know that ye are going to meet Him; and give thou glad tidings Unto the believers.
یہود عورت کی پشت کی طرف ہو کر وطی کرنے کو ممنوع کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس سے بچہ احول پیدا ہوتا ہے آپ سے پوچھا گیا تو اس پر یہ آیت اتری یعنی تمہاری عورتیں تمہارے لئے بمنزلہ کھیتی کے ہیں جس میں نطفہ بجائے تخم اور اولاد بمنزلہ پیداوار کے ہے یعنی اس سے مقصود اصلی صرف نسل کا باقی رہنا اور اولاد کا پیدا ہونا ہے سو تم کو اختیار ہے آگے سے یا کروٹ سے یا پشت سے پڑ کر یا بیٹھ کر جس طرح چاہو مجامعت کرو مگر یہ ضرور ہے کہ تخم ریزی اُسی خاص موقع میں ہو جہاں پیداواری کی امید ہو ۔ یعنی مجامعت خاص فرج ہی میں ہو لواطت ہرگز ہرگز نہ ہو یہود کا خیال غلط ہے کہ اس سے بچہ احول پیدا ہوتا ہے۔
یعنی اعمال صالحہ اپنے لئے کرتے رہو یا یہ کہ وطی سے اولاد صالح مطلوب ہونی چاہیئے محض حظ نفس مقصود نہ ہو۔

وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمسِكوهُنَّ بِمَعروفٍ أَو سَرِّحوهُنَّ بِمَعروفٍ ۚ وَلا تُمسِكوهُنَّ ضِرارًا لِتَعتَدوا ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ۚ وَلا تَتَّخِذوا ءايٰتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم وَما أَنزَلَ عَلَيكُم مِنَ الكِتٰبِ وَالحِكمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {2:231}
اور جب تم عورتوں کو (دو دفعہ) طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کردو اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور خدا کے احکام کو ہنسی (اور کھیل) نہ بناؤ اور خدا نے تم کو جو نعمتیں بخشی ہیں اور تم پر جو کتاب اور دانائی کی باتیں نازل کی ہیں جن سے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے ان کو یاد کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھوکہ خدا ہر چیز سے واقف ہے
And when ye have divorced your women, and they have attained their period, then either retain them reputably or let them off kindly; and retain them not to their hurt that ye may trespass; and whosoever doth this assuredly wrongeth his soul. And hold not Allah's commandments in mockery and remember Allah's favour upon you, and that he hath sent down unto you the Book and the wisdom wherewith He exhorted you; and fear Allah, and know that verily Allah is of everything the Knower
نکاح طلاق ایلاء خلع رجعت حلالہ وغیرہ میں بڑی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ان میں حیلے کرنے اور بیہودہ اغراض کو دخل دینا مثلًا کوئی رجعت کرے اور اس سے مقصود عورت کو تنگ کرنا ہے تو گویا اللہ کے احکام کے ساتھ ٹھٹھے بازی ٹھہری نعوذ باللہ من ذٰلک اللہ کو سب کچھ روشن ہے ایسے حیلوں سے بجز مضرت اور کیا حاصل ہو سکتا ہے۔
یعنی عدت کے ختم ہونے تک خاوند کو اختیار ہے کہ اس عورت کو موافقت اور اتحاد کے ساتھ پھر ملا لے یا خوبی اور رضامندی کے ساتھ بالکل چھوڑ دے یہ ہر گز جائز نہیں کہ قید میں رکھ کر اس کو ستانے کے قصد سے رجعت کرے جیسا کہ بعض اشخاص کیا کرتے تھے۔ {فائدہ} آیت سابقہ یعنی { اَلطَّلَاقُ مَرَّ تٰنِ } الخ میں یہ بتلایا تھا کہ دو طلاق تک زوج کو اختیار ہے کہ عورت کو عمدگی سے پھر ملا لے یا بالکل چھوڑ دے اب اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ یہ اختیار صرف عدت تک ہے عدت کے بعد زوج کو اختیار مذکورہ حاصل نہ ہوگا اس لئے کوئی تکرار کا شبہ نہ کرے۔
یعنی عدت ختم ہونے کو آئی۔

وَالوٰلِدٰتُ يُرضِعنَ أَولٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ ۖ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ ۚ وَعَلَى المَولودِ لَهُ رِزقُهُنَّ وَكِسوَتُهُنَّ بِالمَعروفِ ۚ لا تُكَلَّفُ نَفسٌ إِلّا وُسعَها ۚ لا تُضارَّ وٰلِدَةٌ بِوَلَدِها وَلا مَولودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الوارِثِ مِثلُ ذٰلِكَ ۗ فَإِن أَرادا فِصالًا عَن تَراضٍ مِنهُما وَتَشاوُرٍ فَلا جُناحَ عَلَيهِما ۗ وَإِن أَرَدتُم أَن تَستَرضِعوا أَولٰدَكُم فَلا جُناحَ عَلَيكُم إِذا سَلَّمتُم ما ءاتَيتُم بِالمَعروفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ {2:233}
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے۔ اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے
And mothers shall suckle their children two whole years: this is for him who intendeth that he shall complete the suckling; and on him to whom the child is born, is their provision and clothing reputably; not a soul is tasked except according to its capacity. Neither shall a mother be hurt because of her child, nor shall he to whom the child is born because of his Child; and on the heir shall devolve the like thereof. Then if the twain desire weaning by agreement between them and mutual counsel, on the twain is no blame. And if ye desire to give your children out for suckling, On you is no blame when ye hand over that which ye had agreed to give her reputably. And fear Allah, and know that of that which ye work Allah is the Beholder.
یعنی باپ کو بچہ کی ماں کو کھانا کپڑا ہر حال میں دینا پڑے گا۔ اول صورت میں تو اس لئے کہ وہ اس کے نکاح میں ہے دوسری صورت میں عدت میں ہے اور تیسری صورت میں دودھ پلانے کی اجرت دینی ہو گی اور بچہ کے ماں باپ بچہ کی وجہ سے ایک دوسرے کو تکلیف نہ دیں مثلًا ماں بلاوجہ دودھ پلانے سے انکار کرے یا باپ بلا سبب ماں سے بچہ جدا کر کے کسی اور سے دودھ پلوائے یا کھانے کپڑے میں تنگی کرے۔
یعنی ماں کو حکم ہے کہ اپنے بچہ کو دو برس تک دودھ پلائے اور یہ مدت اس کے لئے ہے جو ماں باپ بچہ کے دودھ پینے کی مدت کو پورا کرنا چاہیں ورنہ اس میں کمی بھی جائز ہے جیسا آیت کے اخیر میں آتا ہے اور اس حکم میں وہ مائیں بھی داخل ہیں جن کا نکاح باقی ہے اور وہ بھی جن کو طلاق مل چکی ہو یا ان کی عدت بھی گذر چکی ہو ہاں اتنا فرق ہو گا کہ کھانا کپڑا منکوحہ اور معتدہ کو دینا زوج کو ہر حال میں لازم ہے دودھ پلائے یا نہ پلائے اور عدت ختم ہو چکے گی تو پھر صرف دودھ پلانے کی وجہ سے دینا ہو گا اور اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ دودھ کی مدت کو جس ماں سے پورا کرانا چاہیں یا جس صورت میں باپ سے دودھ پلانے کی اجرت ماں کو دلوانا چاہیں تو اس کی انتہا دو برس کامل ہیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ علی العموم دودھ پلانے کی مدت دو برس سے زیادہ نہیں۔
یعنی اے مردو اگر تم کسی ضروروت و مصلحت سے ماں کے سوا کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانا چاہو تو اس میں بھی گناہ نہیں مگر اس کی وجہ سے ماں کا کچھ حق نہ کاٹ رکھے بلکہ دستور کے مطابق جو ماں کو دینا ٹھہرایا تھا وہ دیدے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ دودھ پلانے والی کا حق نہ کاٹے۔
یعنی اگر باپ مر جاوے تو بچہ کے وارثوں پر بھی یہی لازم ہے کہ دودھ پلانے کی مدت میں اس کی ماں کے کھانے کپڑے کا خرچ اٹھائیں اور تکلیف نہ پہنچائیں اور وارث سے مراد وہ وارث ہے جو محرم بھی ہو۔
یعنی اگر ماں باپ کسی مصلحت کی وجہ سے دو سال کے اندر ہی بچہ کی مصلحت کا لحاظ کر کے باہمی مشورہ اور رضامندی سےدودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں گناہ نہیں مثلًا ماں کا دودھ اچھا نہ ہو۔

وَلا جُناحَ عَلَيكُم فيما عَرَّضتُم بِهِ مِن خِطبَةِ النِّساءِ أَو أَكنَنتُم فى أَنفُسِكُم ۚ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُم سَتَذكُرونَهُنَّ وَلٰكِن لا تُواعِدوهُنَّ سِرًّا إِلّا أَن تَقولوا قَولًا مَعروفًا ۚ وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتٰبُ أَجَلَهُ ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما فى أَنفُسِكُم فَاحذَروهُ ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَفورٌ حَليمٌ {2:235}
اور اگر تم کنائے کی باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں مخفی رکھو تو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ خدا کو معلوم ہے کہ تم ان سے (نکاح کا) ذکر کرو گے۔ مگر (ایام عدت میں) اس کے سوا کہ دستور کے مطابق کوئی بات کہہ دو پوشیدہ طور پر ان سے قول واقرار نہ کرنا۔ اور جب تک عدت پوری نہ ہولے نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔ اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے تو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا بخشنے والا اور حلم والا ہے
And no blame is on you in that ye speak indirectly of your troth unto the said women or conceal it in, your souls! Allah knoweth that ye will anon make mention of these women: but make no promises unto them in secret, except ye speak a reputable saying. And even resolve not on wedding-knot until the prescribed term hath attained its end; and know that Allah knoweth that which is in your souls, wherefore beware of Him, and know that Allah is Forgiving, Forbearing
یعنی حق تعالیٰ تمہارے جی کی باتیں جانتا ہے سو ناجائز ارادہ سے بچتے رہو اور ناجائز ارادہ ہو گیا تو اس سے توبہ کرو اللہ بخشنے والا ہے اور گنہگار پر عذاب نہ ہوا تو اس سے مطمئن نہ ہو جائے کیونکہ وہ حلیم ہے عقوبت میں جلدی نہیں فرماتا۔
خلاصہ آیت کا یہ ہوا کہ عورت خاوند کے نکاح سے جدا ہوئی تو جب تک عدت میں ہے تو کسی دوسرے کو جائز نہیں کہ اس سے نکاح کر لے یا صاف وعدہ کرا لے یا صاف پیام بھیجے لیکن اگر دل میں نیت رکھے کہ بعد عدت اس سے نکاح کروں گا یا اشارۃً اپنے مطلب کو اسے سنا دے تاکہ کوئی دوسرا اس سے پہلے پیام نہ دے بیٹھے مثلًا عورت کو سنا دے کہ تجھ کو ہر کوئی عزیز رکھے گا یا کہے کہ میرا ارادہ کہیں نکاح کرنے کا ہے تو کچھ گناہ نہیں مگر صاف پیام ہر گز نہ دے۔

وَقٰتِلوا فى سَبيلِ اللَّهِ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ {2:244}
اور (مسلمانو) خدا کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ خدا (سب کچھ) جانتا ہے
And fight in the way of Allah and know that verily Allah is Hearing, Knowing.

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ ۖ وَلا تَيَمَّمُوا الخَبيثَ مِنهُ تُنفِقونَ وَلَستُم بِـٔاخِذيهِ إِلّا أَن تُغمِضوا فيهِ ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ حَميدٌ {2:267}
مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہوں اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سےنکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو۔ اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو۔ اور جان رکھو کہ خدا بےپروا (اور) قابل ستائش ہے
O O Ye who believe expend out of the good things which! ye have earned and out of that which We have brought forth for you from the earth, and seek not the vile thereof to expend, where as ye yourselves would not accept such except ye connived thereat. And know that Allah Self-Sufficient, Praiseworthy.
یعنی عنداللہ صدقہ کے مقبول ہونے کی یہ بھی شرط ہے کہ مال حلال کمائی کا ہو۔ حرام کا مال اور شبہ کا مال نہ ہو اور اچھی سے اچھی چیز اللہ کی راہ میں دے بری چیز خیرات میں نہ لگائے کہ اگر کوئی ایسی ویسی چیز دے تو جی نہ چاہے لینے کو مگر شرما شرمائی ۔ پر خوشی سے ہرگز نہ لے اور جان لو کہ اللہ بےپرواہ ہے تمہارا محتاج نہیں اور خوبیوں والا ہے اگر بہتر سے بہتر چیز دل کے شوق اور محبت سے دے تو پسند فرماتا ہے۔

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا استَجيبوا لِلَّهِ وَلِلرَّسولِ إِذا دَعاكُم لِما يُحييكُم ۖ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ يَحولُ بَينَ المَرءِ وَقَلبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيهِ تُحشَرونَ {8:24}
مومنو! خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لیے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشتا ہے۔ اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حامل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤ گے
O Ye who believe! answer Allah and the apostle when he calleth you to that which quickeneth you, and know that verily Allah interposeth between a man and his heart, and that verily unto Him ye all shall be gathered.
یعنی حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو۔ شاید تھوڑی دیر بعد دل ایسا نہ رہے اپنے دل پر آدمی کا قبضہ نہیں بلکہ دل خدا کے ہاتھ میں ہے جدھر چاہے پھیر دے۔ بیشک وہ اپنی رحمت سے کسی کا دل ابتداءً نہیں روکتا نہ اس پر مہر کرتا ہے۔ ہاں جب بندہ امتثال احکام میں سستی اور کاہلی کرتا رہے تو اس کی جزاء میں روک دیتا ہے۔ یاحق پرستی چھوڑ کر ضد و عناد کو شیوہ بنالے تو مہر کر دیتا ہے۔ کذا فی الموضح۔ بعض نے { یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہ } کو بیان قرب کے لئے لیا ہے۔ یعنی حق تعالیٰ بندہ سے اس قدر قریب ہے کہ اس کا دل بھی اتنا قریب نہیں۔ { نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ } (ق رکوع۲) تو خدا کی حکم برداری سچے دل سے کرو۔ خدا تم سے بڑھ کر تمہارے دلوں کے احوال و سرائر پر مطلع ہے۔ خیانت اس کے آگے نہیں چل سکے گی۔ اسی کے پاس سب کو جمع ہونا ہے وہاں سارے مکنونات و سرائر کھول کر رکھ دئے جائیں گے۔
یعنی خدا اور رسول تم کو جس کام کی طرف دعوت دیتے ہیں (مثلاً جہاد وغیرہ) اس میں از سرتاپا تمہاری بھلائی ہے ان کا دعوتی پیغام تمہارے لئے دنیا میں عزت و اطمینان کی زندگی اور آخرت میں حیات ابدی کا پیغام ہے۔ پس مومنین کی شان یہ ہے کہ خدا اور رسول کی پکار پر فورًا لبیک کہیں۔ جس وقت اور جدھر وہ بلائیں سب اشغال چھوڑ کر ادھر ہی پہنچیں۔

وَاتَّقوا فِتنَةً لا تُصيبَنَّ الَّذينَ ظَلَموا مِنكُم خاصَّةً ۖ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ {8:25}
اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
And fear the trial that shall not afflict those alone who among you do Wrong; and know that verily Allah severe in chastising.
یعنی فرض کیجئے ایک قوم کے اکثر افراد نے ظلم و عصیان کا وتیرہ اختیار کر لیا، کچھ لوگ جو اس سے علیحدہ رہے انہوں نے مداہنت برتی نہ نصیحت کی نہ اظہار نفرت کیا تو یہ فتنہ ہے جس کی لپیٹ میں وہ ظالم اور یہ خاموش مداہن سب آجائیں گے۔ جب عذاب آئے گا تو حسب مراتب سب اس میں شامل ہوں گے کوئی نہ بچے گا۔ اس تفسیر کے موافق آیت سے مقصود یہ ہو گا کہ خدا و رسول کی حکم برداری کے لئے خود تیار رہو اور نافرمانوں کو نصیحت و فہمائش کرو۔ نہ مانیں تو بیزاری کا اظہار کرو۔ باقی حضرت شاہ صاحبؒ نے آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مسلمانوں کو ایسے فساد (گناہ) سے بالخصوص بچنا چاہئے جس کا خراب اثر گناہ کرنے والے کی ذات سے متعدی ہو کر دوسروں تک پہنچتا ہے۔ پہلے فرمایا تھا کہ خدا اور رسول کا حکم ماننے میں ادنیٰ تاخیر اور کاہلی نہ کرے۔ کہیں دیر کرنے کی وجہ سے دل نہ ہٹ جائے۔ اب تنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر نیک لوگ کاہلی کریں گے تو عام لوگ بالکل چھوڑ دیں گے۔ تو رسم بد پھیلے گی۔ اس کا وبال سب پر پڑے گا۔ جیسے جنگ میں دلیر سستی کریں تو نامرد بھاگ ہی جائیں۔ پھر شکست پڑے تو دلیر بھی نہ تھام سکیں۔

وَاعلَموا أَنَّما أَموٰلُكُم وَأَولٰدُكُم فِتنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجرٌ عَظيمٌ {8:28}
اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور یہ کہ خدا کے پاس (نیکیوں کا) بڑا ثواب ہے
And know that your riches and your children are but a temptation, and that verily Allah: with Him is a mighty hire.
آدمی اکثر مال و اولاد کی خاطر خد اکی اور بندوں کی چوری کرتا ہے۔ اس لئے متنبہ فرمایا کہ امانتداری کی جو قیمت خدا کے یہاں ہے، وہ یہاں کے مال و اولاد وغیرہ سب چیزوں سے بڑھ کر ہے۔

وَاعلَموا أَنَّما غَنِمتُم مِن شَيءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسولِ وَلِذِى القُربىٰ وَاليَتٰمىٰ وَالمَسٰكينِ وَابنِ السَّبيلِ إِن كُنتُم ءامَنتُم بِاللَّهِ وَما أَنزَلنا عَلىٰ عَبدِنا يَومَ الفُرقانِ يَومَ التَقَى الجَمعانِ ۗ وَاللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {8:41}
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ اپنے بندے (محمد) پر نازل فرمائی۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
And know that whatsoever ye obtain of spoils then verily unto Allah belongeth a fifth thereof and unto the apostle and unto his kindreds and the orphans and the needy and the wayfarer if ye indeed have believed in Allah and that which We sent down on our bondmans on the day of distinction, the day whereon the two hosts met. And Allah is over everything Potent.
آغاز سورت میں فرمایا تھا { قُلِ الْاَنْفَالُ وَالرَّسُوْلِ } یہاں اس کی قدرے تفصیل بیان فرمائی ہے کہ جو مال غنیمت کافروں سےلڑ کر ہاتھ آئے اس میں کا پانچواں حصہ خدا کی نیاز ہے، جسے خدا کی نیابت کے طور پر پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام وصول کر کے پانچ جگہ خرچ کر سکتے ہیں۔ اپنی ذات پر، اپنے ان قرابت داروں (بنی ہاشم و بنی المطلب) پر جنہوں نے قدیم سے خدا کے کام میں آپ کی نصرت و امداد کی اور اسلام کی خاطر یا محض قرابت کی وجہ سے آپ کا ساتھ دیا اور مد زکوٰۃ وغیرہ سے لینا ان کے لئے حرام ہوا، یتیموں پر، حاجت مندوں پر، مسافروں پر پھر غنیمت میں جو چار حصے باقی رہے وہ لشکر پر تقسیم کئے جائیں۔ سوار کو دو حصے اور پیدل کو ایک حضور کی وفات کے بعد خمس کے پانچ مصارف میں سے "حنفیہ" کے نزدیک صرف تین اخیر کے باقی رہ گئے۔ کیونکہ حضور کی رحلت کے بعد حضور کی ذات کا خرچ نہیں رہا اور نہ اہل قرابت کا وہ حصہ رہا جو ان کو حضور کی نصرت قدیمہ کی بناء پر ملتا تھا۔ البتہ مساکین اور حاجت مندوں کا جو حصہ ہے اس میں حضور کے قرابت دار مساکین اور اہل حاجت کو مقدم رکھا جانا چاہئے۔ بعض علماء کے نزدیک حضور کے بعد امیر المومنین کو اپنے مصارف کے لئے خمس الخمس ملنا چاہئے۔ واللہ اعلم۔ بعض روایات میں ہے کہ جب غنیمت میں سےخمس (اللہ کے نام کا پانچواں حصہ) نکالا جاتا تھا تو نبی کریم اس میں کا کچھ حصہ بیت اللہ (کعبہ) کے لئے نکالتے تھے۔ بعض فقہا نے لکھا ہےکہ جہاں سے کعبہ بعید ہے، وہاں مساجد کے لئے نکالنا چاہئے۔
جیسے اس دن تم کو مظفر و منصور کیا، وہ قادر ہے کہ آئندہ بھی تم کو غلبہ اور فتوحات عنایت فرمائے۔
"فیصلہ کے دن" سے مراد "یوم بدر" ہے جس میں حق و باطل کی کشمکش کا کھلا ہوا فیصلہ ہو گیا۔ اس دن حق تعالیٰ نے اپنے کامل ترین بندے پر فتح و نصرت اتاری۔ فرشتوں کی امدادی کمک بھیجی۔ اور سکون و اطمینان کی کیفیت نازل فرمائی۔ تو جو لوگ خدا پر اور اس کی تائید غیبی پر ایمان رکھتے ہیں ان کو غنیمت میں سے خدا کے نام کا پانچواں حصہ نکالنا بھاری نہیں ہو سکتا۔

فَسيحوا فِى الأَرضِ أَربَعَةَ أَشهُرٍ وَاعلَموا أَنَّكُم غَيرُ مُعجِزِى اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخزِى الكٰفِرينَ {9:2}
تو (مشرکو تم) زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہ کرسکو گے۔ اور یہ بھی کہ خدا کافروں کو رسوا کرنے والا ہے
Go about, then, in the land for four months. And know that verily ye cannot escape Allah, and that verily Allah is the humiliator of the infidels.
۶ ہجری میں بمقام "حدیبیہ" جب نبی کریم اور قریش کے درمیان معاہدہ صلح ہو چکا تو بنی خزاعہ مسلمانوں کے اور بنی بکر قریش کے حلیف بنے۔ بنی بکر نے معاہدہ کی پروا نہ کر کے خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے اسلحہ وغیرہ سے ظالم حملہ آوروں کی مدد کی۔ اس طرح قریش اور ان کے حلیف دونوں معاہدہ حدیبیہ پر قائم نہ رہے جس کے جواب میں ۸ ہجری میں نبی کریم نے اچانک حملہ کر کے مکہ معظمہ بڑی آسانی سےفتح کر لیا۔ قبائل کے سوا دوسرے قبائل عرب سے مسلمانوں کا میعادی یا غیر میعادی معاہدہ تھا۔ جن میں سے بعض اپنے معاہدہ پر قائم رہے۔ بہت سے قبائل وہ تھے جن سےکسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ اس سورۃ کی مختلف آیات مختلف قبائل کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔ شروع کی آیات میں غالبًا ان مشرکین کا ذکر ہے جن سے معاہدہ تھا مگر میعادی نہ تھا۔ ان کو اطلاع کر دی گئ کہ ہم آئندہ معاہدہ رکھنا نہیں چاہتے ۔ چار ماہ کی مہلت تم کو دی جاتی ہے کہ اس مدت کے اندر اسلامی برادری میں شامل ہو جاؤ یا وطن چھوڑ کر مرکز ایمان و توحید کو اپنے وجود سے خالی کر دو اور یا جنگی مقابلہ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ لیکن یہ خوب سمجھ لینا کہ تم خدا کی مشیت کو روک نہیں سکتے۔ اگر اسلام نہ لائے تو وہ تم کو دنیا و آخرت میں رسوا کرنے والا ہے ۔ تم اپنی تدبیروں اور حیلہ بازیوں سے اسے عاجز نہ کر سکو گے ۔ باقی جن قبائل سے کوئی معاہدہ ہی نہ تھا ممکن ہے انہیں بھی چار ماہ کی مہلت دی گئ ہو یہ اور اس کے بعد کی آیتوں کا اعلان عام ۹ ہجری میں حج کے موقع پر تمام قبائل عرب کے سامنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا۔

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ مِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم ۚ وَقٰتِلُوا المُشرِكينَ كافَّةً كَما يُقٰتِلونَكُم كافَّةً ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ مَعَ المُتَّقينَ {9:36}
خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ کتاب خدا میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں۔ ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا راستہ ہے۔ تو ان (مہینوں) میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے
Verily the number of months with Allah is twelve months ordained in the writ of Allah on the day whereon He created the heavens and the earth; of these four sacred: that is the right religion. Wherefore wrong not yourselves in respect thereof. And fight the associators, all of them even as they fight all of you; and knew that Allah is with the God-fearing
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ اس آیت سے نکلتا ہے کہ کافروں سے لڑنا ہمیشہ روا ہے۔ چنانچہ "غزوہ تبوک" جس کا آگے ذکر آتا ہے ماہ رجب میں ہوا اور آپس میں ظلم کرنا ہمیشہ گناہ ہے۔ ان مہینوں میں زیادہ۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہی ہے لیکن بہتر ہے کہ اگر کوئی کافر ان مہینوں کا ادب کرے تو ہم بھی اس سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔
میرے نزدیک اوپر سے سلسلہ مضمون کا یوں ہے کہ گذشتہ رکوع میں مشرکین کے بعد اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سے جہاد کرنے کا حکم دیا۔ پھر رکوع حاضر کے شروع میں بتلایا کہ ان کے عقائد اور طور و طریق بھی مشرکین سے ملتے جلتے ہیں۔ ان کا عزیر و مسیح کو خدا کا بیٹا کہنا ایسا ہی ہے جیسے مشرکین "ملائکۃ اللہ" کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ، بلکہ نصاریٰ میں "ابنیت مسیح" کا عقیدہ مشرکین کی تقلید سے آیا ہے ۔ وہ بتوں کو خدائی کا درجہ دیتے ہیں ، انہوں نے مسیح و روح القدس کو خدا ٹھہرا لیا۔ باوجود دعوئے کتاب کے احبار و رہبان کے احکام کو شریعت الہٰیہ کا بدل تجویز کر لیا۔ یعنی احبار و رہبان رشوتیں لے کر اور حرام مال کھا کر جس چیز کو حلال یا حرام کر دیتے ، احکام سماوی کی جگہ ان ہی کو قبول کر لیا جاتا۔ ان کا یہ طریقہ ٹھیک مشرکین کے طریقہ سے مشابہ ہے۔ ان کے سرکردہ بھی جس چیز کو چاہتے حلال و حرام ٹھہرا کر خدا کی طرف نسبت کر دیتے تھے جس کا ذکر "انعام" میں مفصل گذر چکا ، اور یہاں بھی اس کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے ۔ عرب میں قدیم سے معمول چلا آتا تھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے "اشہر حرم" خاص ادب و احترام کے مہینے ہیں ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، محرم ، رجب۔ ان میں خونریزی اور جدال و قتال قطعًا بند کر دیا جاتا تھا۔ حج و عمرہ اور تجارتی کاروبار کے لئے امن و امان کے ساتھ آزادی سے سفر کر سکتے تھے ۔ کوئی شخص ان ایام میں اپنے باپ کے قاتل سے بھی تعرض نہ کرتا تھا۔ بلکہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اصل ملت ابراہیمی میں یہ چار ماہ "اشہر حرم" قرار دئے گئے تھے۔ اسلام سے ایک مدت پہلے جب عرب کی وحشت و جہالت حد سے بڑھ گئ اور باہمی جدال و قتال میں بعض بعض قبائل کی درندگی اور انتقام کا جذبہ کسی آسمانی یا زمینی قانون کا پابند نہ رہا ، تو "نسی" کی رسم نکالی۔ یعنی جب کسی زور آور قبیلہ کا ارادہ ماہ محرم میں جنگ کرنے کا ہوا تو ایک سردار نے اعلان کر دیا کہ امسال ہم نے محرم کو اشہر حرم سے نکال کر اس کی جگہ صفر کو حرام کر دیا۔ پھر اگلے سال کہہ دیا کہ اس مرتبہ حسب دستور قدیم محرم حرام اور صفر حلال رہے گا۔اس طرح سال میں چار مہینوں کی گنتی تو پوری کر لیتے تھے لیکن ان کے تعین میں حسب خواہش ردوبدل کرتے رہتے تھے۔ ابن کثیرؒ کی تحقیق کے موافق "نسی" (مہینہ آگے پیچھے کرنے) کی رسم صرف محرم و صفر میں ہوتی تھی۔ اور اس کی وہ ہی صورت تھی جو اوپر مزکور ہوئی۔ امام مغازی محمد بن اسحاق نے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے یہ رسم جاری کی "قلمس" کنانی تھا ۔ پھر اس کی اولاد در اولاد یوں ہی ہوتا چلا آیا۔ آخر میں اسی کی نسل سے "ابوثمامہ جنادہ بن عوف کنانی کا معمول تھا کہ ہر سال موسم حج میں اعلان کیا کرتا کہ امسال محرم اشہر حرم میں داخل رہے گا یا صفر۔ اسی طرح محرم و صفر میں سے ہر مہینہ کبھی حلال اور کبھی حرام کیا جاتا تھا۔ اور عام طور پر لوگ اسی کو قبول کر لیتے تھے ۔ گویا عہد جاہلیت میں کافروں کے کفر و گمراہی کو بڑھانے والی ایک چیز یہ بھی تھی کی خدا کے حلال یا حرام کئے ہوئے مہینہ کو بدل ڈالنے کا حق کنانہ کے ایک سردار کو سونپ دیا گیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح یہود و نصاریٰ کا حال تھا کہ انہوں نے تحلیل و تحریم کی باگ طامع اور غرض پرست احبار و رہبان کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ دونوں جماعتوں کی مشابہت ظاہر کرنے کے لئے "نسی" کی رسم کا یہاں ذکر کیا گیا اور { اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَاللہِ } الخ اس کی رد کی تمہید ہے۔ یعنی آج سے نہیں ۔ جب سے آسمان و زمین پیدا کئے خدا کے نزدیک بہت سے احکام شرعیہ جاری کرنے کے لئے سال کے بارہ مہینے رکھے گئے ہیں جن میں سے چار اشہر حرم (ادب کے مہینے) ہیں۔ جن میں گناہ و ظلم سے بچنے کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔ یہ ہی سیدھا دین (ابراہیمؑ کا) ہے۔

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قٰتِلُوا الَّذينَ يَلونَكُم مِنَ الكُفّارِ وَليَجِدوا فيكُم غِلظَةً ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ مَعَ المُتَّقينَ {9:123}
اے اہلِ ایمان! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو اور چاہیئے کہ وہ تم میں سختی (یعنی محنت وقوت جنگ) معلوم کریں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے
O Ye who believe! fight the infidels who are near unto you, and surely let them find in you sternness, and know that Allah is with the God-fearing,
یعنی خدا سے ڈرنے والے کو کسی کافر قوم سے ڈرنے اور دبنے کی کوئی وجہ نہیں جب تک اور جس قدر مسلمان خدا سے ڈرتے رہے اسی وقت تک اور اسی قدر ان کو کفار پر غلبہ حاصل ہوتا رہا۔ حق تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنا ڈر پیدا کر دے۔
مومن کی شان یہ ہے کہ اپنے بھائی کے حق میں نرم اور دشمنان خدا و رسول کے معاملہ میں سخت و شدید ہو ۔ تاکہ اس کی نرمی اور ڈھیلا پن دیکھ کر دشمن جری نہ ہو جائے۔ { اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ } (مائدہ رکوع۸) { وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ } (الفتح۔رکوع۴) { جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ } (توبہ۔رکوع۱۰) وفی الحدیث انہ صلی اللہ علیہ وسلم قال { انا الضَّحُوْکُ القَتَّال }
جہاد فرض کفایہ ہے جو ترتیب طبعی کے موافق اول ان کفار سے ہونا چاہئے جو مسلمانوں سے قریب تر ہوں بعدہٗ ان کے قریب رہنے والوں سے اسی طرح درجہ بدرجہ حلقہ جہاد کو وسیع کرنا چاہئے۔ نبی کریم اور خلفائے راشدین کے جہاد اسی ترتیب سے ہوئے "دفاعی جہاد" میں بھی فقہاء نے یہ ہی ترتیب رکھی ہے کہ جس اسلامی ملک پر کفار حملہ آور ہوں وہاں کے مسلمانوں پر دفاع واجب ہے اگر وہ کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے متصل رہنے والوں پر ۔ وہ کافی نہ ہوں تو پھر جو ان سے متصل ہیں۔ اسی طرح اگر ضرورت پڑے تو درجہ بدرجہ مشرق سے مغرب تک جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔

وَاعلَموا أَنَّ فيكُم رَسولَ اللَّهِ ۚ لَو يُطيعُكُم فى كَثيرٍ مِنَ الأَمرِ لَعَنِتُّم وَلٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولٰئِكَ هُمُ الرّٰشِدونَ {49:7}
اور جان رکھو کہ تم میں خدا کے پیغمبر ہیں۔ اگر بہت سی باتوں میں وہ تمہارا کہا مان لیا کریں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن خدا نے تم کو ایمان عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا۔ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں
And know that verily among you is the apostle of Allah. Were he to obey you in many affairs, ye would surely be in trouble but Allah hath endeared belief to you and hath made it fair-seeming in your hearts, and hath rendered detestable Unto you infidelity and wickedness and disobedience. These! they are the men of rectitude.
یعنی اگر رسول اللہ تمہاری کسی خبر یا رائے پر عمل نہ کریں تو برا نہ مانو۔ حق لوگوں کی خواہشوں یا رایوں کا تابع نہیں ہو سکتا۔ ایسا ہو تو زمین و آسمان کا سارا کارخانہ ہی درہم برہم ہو جائے۔ کما قال تعالٰی { وَلَوِاتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَاءَھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ } (المؤمنون رکوع۴) الغرض خبروں کی تحقیق کیا کرو اور حق کو اپنی خواہش اور رائے کے تابع نہ بناؤ بلکہ اپنی خواہشات کو حق کے تابع رکھو۔ اس طرح تمام جھگڑوں کی جڑ کٹ جائے گی۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی تمہارا مشورہ قبول نہ ہو تو برا نہ مانو، رسول عمل کرتا ہے اللہ کے حکم پر، اسی میں تمہارا بھلا ہے، اگر تمہاری بات مانا کرے تو ہر کوئی اپنے بھلے کی کہے، پھر کس کس کی بات پر چلے"۔






No comments:

Post a Comment