یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
اسلام پاک وصاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے جو اہم تدیبرکرتاہے، وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچاکر پاکیزہ زندگی کاقیام ہے ۔چنانچہ اسی سلسلے میں اسلام نے حفاظتِ نظر پر زور دیا ہے؛ چونکہ بدنظری تمام فواحش کی بنیاد ہے، اس لیے قران وحدیث سب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں۔
آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں(یعنی جس عضو کی طرف بالکل دیکھنا ناجائز ہے اس کو بالکل نہ دیکھیں اور جس کو ویسے تو دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے دیکھنا جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز جگہ میں شہوت پوری نہ کریں جس میں اغلام بازی اور زنا سب داخل ہیں) یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے (اس کے خلاف زنا یا زنا کے سبب بدنظری وغیرہ میں گندگی ہے) بے شک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں (پس اس کے خلاف کرنے والے سزا کے حقدار ہوں گے).
Tell believing men to lower their gaze, from what is unlawful for them to look at (min [of min absārihim, ‘their gaze’] is extra) and to guard their private parts, from doing with them what is unlawful [for them to do]. That is purer, in other words, better, for them. Truly God is Aware of what they do, with their gazes and private parts, and He will requite them for it.
ترجمہ : اور کہہ دو مومن عورتوں سے بھی کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریںاور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں (سوا اپنے خاوند کے)اور اپنی آرائش(یعنی زیور کے مقامات)کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو (جیسے چادر اور اوپر کا کپڑا وغیرہ)اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور (کنگن، دوپٹہ، بالیاں، انگوٹھیوں، پیر کے خلخال وغیرہ کے بناؤ سنگھار سے صرف) اپنے خاوند اور (بغیر بناؤ سنگھار کے)باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب الله کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ.
[سورۃ النور:31]
حقیقت یہ ہے کہ ”بدنظری“ ہی ”بدکاری“ کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو”حفاظتِ فرج“ کے حکم پر مقدم رکھا گیا ہے۔شریعتِ اسلامیہ نے ”بدنظری” سے منع کیا او ر اس کافائدہ یہ بتایا کہ اس سے شہوت کی جگہوں کی حفاظت ہوگی نیز یہ چیز تزکیہٴ قلوب میں بھی معاون ہوگی ۔ ”غضِ بصر“ کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیاہے ۔نگاہ نیچی رکھنا فطرت اور حکمتِ الٰہی کے تقاضے کے مطابق ہے؛اس لیے کہ عورتوں کی محبت اوردل میں ان کی طرف خواہش فطرت کا تقاضاہے ۔
ارشاد ربانی ہے:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاءِ۔۔۔۔۔[سورۃ آل عمران:14]
”لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں۔۔۔۔“۔
آنکھوں کی آزادی اوربے باکی خواہشات میں انتشار پیدا کرتی ہے ۔
مشت زنی حرام ہے۔
القرآن:
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ سوائے اپنی (1)بیویوں اور ان (2)کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگ قابل ملامت نہیں ہیں۔
تفسیر(امام)ابن کثیر:-
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے متبعین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اپنے ہاتھ سے اپنا خاص پانی نکال ڈالنا حرام ہے کیونکہ یہ بھی ان دونوں حلال صورتوں کے علاوہ ہے اور مشت زنی کرنے والا شخص بھی حد سے آگے گزرجانے والا ہے ۔ امام حسن بن عرفہ نے اپنے مشہور جز میں (حضرت انس کی روایت سے) ایک حدیث وارد کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں:
سَبْعَةٌ لَا يَنْظُرُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ مَعَ الْعَالَمِينَ، يُدْخِلُهُمُ النَّارَ أَوَّلَ الدَّاخِلِينَ إِلَّا أَنْ يَتُوبُوا، إِلَّا أَنْ يَتُوبُوا، إِلَّا أَنْ يَتُوبُوا، فَمَنْ تَابَ تَابَ اللهُ عَلَيْهِ النَّاكِحُ يَدَهُ، وَالْفَاعِلُ وَالْمَفْعُولُ بِهِ، وَالْمُدْمِنُ بِالْخَمْرِ، وَالضَّارِبُ أَبَوَيْهِ حَتَّى يَسْتَغِيثَا، وَالْمُؤْذِي جِيرَانَهُ حَتَّى يَلْعَنُوهُ، وَالنَّاكِحُ حَلِيلَةَ جَارِهِ
ترجمہ:
سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالموں کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے پہلے جہنم میں جانے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل کرے گا یہ اور بات ہے کہ وہ توبہ کرلیں توبہ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ مہربانی سے رجوع فرماتا ہے: ایک تو *ہاتھ سے نکاح کرنے والا یعنی مشت زنی کرنے والا*، اور اغلام بازی کرنے اور کرانے والا، اور نشے باز شراب کا عادی اور اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنے والا یہاں تک کہ وہ چیخ پکار کرنے لگیں اور اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت بھیجنے لگے اور اپنی پڑوسن سے بدکاری کرنے والا۔
[شعب الإيمان للبيهقي:5087، جامع الاحادیث للسيوطي:13019، کنزالعمال:44040]
[تفسیر ابن کثیر-العلمیہ:1/446]
ایک روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
ملعون من نكح يده
ترجمہ:
جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرے وہ ملعون ہے۔
[تفسير المظهري» سورة المعارج، آية 32]
حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ۔ بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو ۔ امانت میں خیانت نہ کرو ۔ وعدہ خلافی نہ کرو ۔ نظر نیچی رکھو ۔ ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو ۔ *اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو.*
[معجم الأوسط-الطبرانى: 4925، قال المنذرى (1300) : إسناد لا بأس به وله شواهد كثيرة. وقال الهيثمى (1293) : إسناده حسن.]
یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے معمن بندوں کو ہے کہ جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کر دیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو ۔ حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کرلو ۔ اگر بالفرض نظر پڑجائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو ۔ صحیح مسلم میں ہے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ نے نبی ﷺ سے اچانک نگاہ پڑ جانے کی بابت پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی نگاہ فورا ہٹا لو۔
[صحيح مسلم:2159، سنن الترمذي:2776، سنن أبي داود:2148]
يَعْنِي انْظُرْ إِلَى الْأَرْضِ۔
یعنی زمین کی طرف نظر کر۔
نیچی نگاہ کرنا یا ادھر ادھر دیکھنے لگ جانا اللہ کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا آیت کا مقصود ہے۔
حضرت بریدہ بن حصیب اسلمیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: اے علی! ؓ نظر پر نظر نہ جماؤ ، اچانک جو پڑگئی وہ تو معاف ہے قصدا معاف نہیں۔
[سنن أبي داود:2149، سنن الترمذي:2777]
یہی فرمان حضرت علیؓ سے بھی مروی ہے۔
[مسند الدارمي - ت حسين أسد:2751، مسند البزار:701، صحيح الجامع الصغير:7953]
حضور ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا: راستوں پر بیٹھنے سے بچو " ۔ لوگوں نے کہا حضور ﷺ کام کاج کے لئے وہ تو ضروری ہے ۔ " آپ ﷺ نے فرمایا اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو " ۔ انہوں نے کہا وہ کیا ؟ فرمایا "نیچی نگاہ رکھنا " کسی کو ایذاء نہ دینا ، سلام کا جواب دینا ، اچھی باتوں کی تعلیم کرنا، بری باتوں سے روکنا "۔
[صحيح البخاري:6229، صحيح مسلم:2121]
آپ ﷺ نے فرمایا:
چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ۔ بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو ۔ امانت میں خیانت نہ کرو ۔ وعدہ خلافی نہ کرو ۔ نظر نیچی رکھو ۔ ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو ۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔
[صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع:1146، الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان:271]
صحیح بخاری میں ہے:
جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے فرمان کے ماتحت رکھے ۔ میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔
[صحيح البخاري:6474، سنن الترمذي:2408]
عبیدہؒ کا قول ہے کہ جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو ، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے ، اس لئے شرمگاہ کو بچانے کے لئے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا ۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ۔ پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے۔ اور اللہ نے شرمگاہ کی حفاظت کا بھی حکم فرمایا جیسا کہ (پہلے) نظر کی حفاظت کا فرمایا، حفاظت نظر سبب ہے حفظت شرمگاہ کا، پس الله نے فرمایا:
"آپ مومنین سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں"
[سورۃ النور:40]
کیونکہ (روزہ و نکاح وغیرہ سے) شرمگاہ کی حفاظت رکاوٹ بنتی ہے زنا سے. جیسے الله نے (دوسری جگہ) فرمایا :
"اور (وہی کامیابی پاچکے) جو اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں"۔
[سورۃ المومنون:٥]
اور کبھی ہوجاتی ہے حفاظت نظر کی بھی اس سے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں:
"اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے۔" ۔
[سنن ابن ماجه:1920، سنن أبي داود:4017، سنن الترمذي:2769]
محرمات کو نہ دیکھنے سے دل پاک ہوتا ہے اور دین صاف ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی نگاہ حرام چیزوں پر نہیں ڈالتے ۔ اللہ ان کی آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے ۔ اور ان کے دل بھی نورانی کر دیتا ہے ۔ آپﷺ فرماتے ہیں:
جس کی پہلی نظر کسی عورت کے حسن وجمال پر پڑجائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں پاتا ہے۔
[مسند أحمد:22278، جامع المسانيد والسنن-ابن كثير:11045]
اس حدیث کی سندیں تو ضعیف ہیں مگر یہ رغبت دلانے کے بارے میں ہے اور ایسی (احادیث)میں برداشت (و نرمی) کی جاتی ہے۔
طبرانیؒ میں حضرت ابوامامہؓ سے کی مروی حدیث میں آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ:
یا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کروگے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا۔
[المعجم الكبير للطبراني:7840]
فرمایا:
نظر ابلیسی تیروں میں سے ایک تیر ہے۔
[حاكم:7875]
جو شخص اللہ کے خوف سے اپنی نگاہ روک رکھے ، اللہ اس کے دل کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں:
ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ(کم علمی یا کم ایمانی سے) لا محالہ پالے گا ، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ۔ زبان کا زنا بولنا ہے ۔ کانوں کا زنا سننا ہے ۔ ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے ۔ پیروں کا زنا چلنا ہے ۔ دل خواہش تمنا اور آرزو کرنا ہے ۔ پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے۔
[صحيح البخاري:6612]
اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے ۔ اکثر ائمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے ۔
اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے ۔
حضرت ابوھریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رودے ۔ گو اس میں سے آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو۔
[الجهاد - ابن أبي عاصم:148، حديث أبي بكر الأنباري_:76، تنبيه الغافلين:252-778-785، المخلصيات:2819]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تین افراد کی آنکھیں روز قیامت آگ کو نہیں دیکھیں گی: وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے رو پڑی، وہ آنکھ جس نے اللہ کے راستے میں پہرہ دیا اور وہ آنکھ جس نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور سے چشم پوشی کی۔“
[معجم أبي يعلى الموصلي:215، المعجم الكبير للطبراني:1003]
یہ حدیث (۱)سیدنا معاویہ بن حیدہ، (۲)سیدنا عبداللہ بن عباس، (۳)سیدنا ابوریحانہ، (۴)سیدنا ابوہریرہ اور (۵)سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
وہ (اللہ) جانتا ہےآنکھوں کی خیانت کو اور جس چیز کو سینہ میں چھپاتے ہیں اس کو بھی جانتے ہیں۔‘‘
He, namely, God, knows the treachery of the eyes, when it steals a glance at what is prohibited [for it to look at], and what the breasts hide — [what] the hearts [hide].
اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے دو گناہوں کا ذکر فرمایا ہے ،آنکھوں کے گناہ اور دل کے گناہ کو۔ نیز فرماتے ہیں کہ دل کا گناہ آنکھوں کے گناہ سے زیادہ سخت ہے یعنی گناہ صرف نگاہ ہی سے نہیں بلکہ دل سے بھی ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ دل سے سوچا کرتے ہیں اور عورتوں اور مردوں کا تصورکرتے ہیں اور خیال سے مزے لیتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ ہم متقی ہیں، خوب سمجھ لو کہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔
جو کرتا ہے تو چھپ کے اہلِ جہاں سے،
کوئی دیکھتا ہے تجھے آسمان سے.
تفسير الدر المنثور في التفسير بالمأثور/ السيوطي (م911هـ):
۱:۔ سعید بن منصور وابن ابی شیبہ رحمہ اللہ علیہ وابن المنذر وابن ابی حاتم رحمہ اللہ علیہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ’’يَعلَمُ خائِنَةَ الأَعيُنِ وَما تُخفِى الصُّدورُ‘‘ (وہ جانتا ہے آنکھوں کی چوری کو اور ان باتوں کو جو دلوں میں پوشیدہ ہیں ) سے مراد ہے کہ ایک آدمی لوگوں میں موجود ہوتا ہے ان کے پاس سے ایک عورت گزرتی ہے وہ آدمی دوسرے لوگوں کو دیکھتا ہے کہ وہ اپنی نظر کو اس عورت سے بند کررہا ہے ۔ اور جب ان کو غافل پاتا ہے تو آنکھ کے گوشتے سے اس کی طرف دیکھ لیتا ہے اور جب وہ لوگ اسے دیکھتے ہیں تو یہ اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے دل کو جان چکے ہیں کہ وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی شرم گاہ کو دیکھے ۔
[سنن سعيد بن منصور:1880، المصنف - ابن أبي شيبة:17228(18115)، تفسير ابن أبي حاتم:18428]
۲:۔ ابونعیم فی الحلیہ، ابن ابی حاتم، طبرانی رحمہ اللہ علیہ فی الاوسط اور بیہقی رحمہ اللہ علیہ نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت )’’يَعلَمُ خائِنَةَ الأَعيُنِ وَما تُخفِى الصُّدورُ‘‘ یعنی تو نے اس عورت کی طرف دیکھا تاکہ تو خیانت کا ارادہ کرے یا نہیں (آیت )’’ وما تخفی الصدور‘‘ یعنی جب اس پر قابو پائے کیا تو اس کے ساتھ زنا کرے گا یا نہیں کیا میں تم کو خبر نہ دوں (آیت ) ’’ واللہ یقضی بالحق ‘‘ (اور اللہ تعالیٰ ٹھیک ٹھاک فیصلہ کردے گا ) وہ قادر ہے اس بات پر کہ وہ بدلہ دے بھلائی کا بھلائی کے ساتھ اور برائی کا برائی کے ساتھ ۔
[تفسير ابن أبي حاتم:18429]
۳:۔ عبد بن حمید رحمہ اللہ علیہ وابو الشیخ رحمہ اللہ علیہ نے فی العظمہ میں قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت )’’ یعلم خآئنۃ الاعین ‘‘ یعنی وہ جانتا ہے آنکھوں کے اشارہ اور ان کی آنکھوں کے بند کرنے کا جب وہ ایسے کاموں میں یہکرے جن کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے۔
[تفسير عبد الرزاق:2669، تفسير الطبري:21/ 370]
٤:۔ عبد بن حمید رحمہ اللہ علیہ وابن المنذر رحمہ اللہ علیہ نے مجاہد رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (آیت )’’يَعلَمُ خائِنَةَ الأَعيُنِ ‘‘ یعنی آنکھ سے آنکھ سے دیکھنا اس چیز کو طرف جس سے منع کیا گیا۔
[تفسير إسحاق البستي:689]
۵:۔ عبد بن حمید رحمہ اللہ علیہ نے ابو الجوزی رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (آیت)’’ یعلم خآئنۃ الاعین ‘‘ سے مراد ہے کہ ایک آدمی کسی گھر میں لوگوں کے پاس جاتا ہے اور گھر میں ایک عورت ہوتی ہے تو وہ اپنے سر کو اٹھاتا ہے اور اس عورت کی طرف دیکھتا ہے پھر اپنے سر کو نیچے کرلیتا ہے۔
٦:۔ ابوداؤد والنسائی وابن مردویہ رحمہ اللہ علیہ نے سعد ؓ سے روایت کیا کہ جب فتح مکہ کا دن تھا تو رسول اللہ ﷺ نے سب لوگوں کو امن دیا سوائے چار مردوں اور دو عورتوں کے اور فرمایا ان کو قتل کرو اگرچہ تم ان کو اس حال میں پاؤ کہ وہ کعبہ کے پروں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہوں ان میں سے عبد اللہ بن سعد بن ابی سرج تھے انہوں نے عثمان بن عفان ؓ کے پاس اپنے آپ کو چھپالیا جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی بیعت کے لئے بلایا تو وہ ان کو لے آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! عبداللہ کو بیعت کرلیجئے آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اس کی طرف تین مرتبہ دیکھا اور ہر مرتبہ اس کی بیعت سے انکار فرمایا پھر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کیا تم میں کوئی بھی ہدایت یافتہ نہیں تھا جو اس کی طرف کھڑا ہوجاتا جب وہ مجھ کو دیکھتا کہ میں نے اس کی بیعت لینے سے انکار کردیا ہے تو وہ اس کو قتل کردیتا ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ہم نے نہیں جانا کہ آپ کے دل میں کیا ہے، کیوں نہیں آپ ہماری طرف اپنی آنکھ سے اشارہ فرمادیتے۔ آپ نے فرمایا: کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کی آنکھ خیانت کرنے والی ہو۔
[المصنف - ابن أبي شيبة:39685(36913)، مسند البزار:1151، سنن النسائي:4067]
علاج: اس آیت اور دعا کو بطور علاج ورد رکھنا موثر و مجرب ہے.
۷:۔خطیب فی تاریخہ (رقم الحديث: 552) وحاکمؒ ترمذیؒ نے ام معبد ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
اے اللہ ! پاک کردے میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریاکاری سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے بلاشبہ آپ جانتے ہیں آنکھوں کی خیانت کو اور جو کچھ سینے چھپاتے ہیں۔
[اعتلال القلوب - الخرائطي:287، مساوئ الأخلاق للخرائطي:478، جزء من حديث النعالي:64، معرفة الصحابة لأبي نعيم:8040، صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:35، المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي:21]
[جامع الاحادیث:5109، ذكره الحكيم (نوادر الأصول:2/227) ، وأخرجه الخطيب (تاريخ بغداد:3/174) ، والديلمى (مسند الفردوس بمأثور الخطاب:1953) . وأخرجه أيضًا: الرافعى (التدوين في أخبار قزوين:2/301) . قال المناوى (فيض القدير:2/143) : قال الحافظ العراقى: سنده ضعيف.]
حضرت جریرؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے کسی نامحرم پر اچانک نظر پڑجانے کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ نیچی کرلے نگاہ اپنی۔ اور ایک روایات میں (خود یوں فرمایا) ہے کہ : میں اپنی نگاہیں پھیرلیا کروں. [صحيح مسلم» كِتَابُ الْآدَابِ» بَابُ نَظَرِ الْفَجْأَةِ» حديث نمبر 2159] [مسند احمد(19160)، أخرجه ابن أبي شيبة 4/324- ومن طريقه مسلم (2159) - والطحاوي في "شرح معاني الآثار" 3/15، وفي "شرح مشكل الآثار" (1871) ، والخطيب في "الموضح" 2/321 من طريق إسماعيل، بهذا الإسناد. وأخرجه وكيع في "الزهد" (481) - ومن طريقه هناد في "الزهد" (1417) - والدارمي (2643) ، ومسلم (2159) ، وأبو داود (2148) ، والنسائي في "الكبرى" (9233) ، وأبو عوانة كما في "إتحاف المهرة" 4/67، والطحاوي في "شرح المعاني" 3/15، وفي "شرح مشكل الآثار" (1868) و (1869) و (1870) ، وابن حبان (5571) ، والطبراني في "الكبير" (2404) و (2405) و (2406) و (2408) ، والخطابي في "معالم السنن" 3/222، والحاكم 2/396، والبيهقي في "السنن" 7/89- 90، وفي "الصغير" (2361) ، وفي "الآداب" (748) ، وفي "الشعب" (5420) من طرق عن يونس بن عبيد، به. وجاء لفظه عند الخطابي من رواية أبي نعيم "اطْرِقْ بَصَرَك"! بالقاف، وعند ابن معين في "تاريخه" 1/287: أن أطرفَ بصري- بالفاء- وكلاهما بمعنى، وقد شرح الخطابي على الإطراق فقال: الإطراق أن يقبل ببصره إلى صدره، والصرف أن يقبله إلى الشق الآخر أو الناحية الأخرى. اهـ. وعدها ابن معين من أخطاء أبي نعيم فقال: إنما هو أن أصرف بصري. وأخرجه الطيالسي (672) - ومن طريقه الخطيب في "الموضح" 2/321-322- عن حماد، عن يونس بن عبيد، عن سعيد الأصلع، عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير، عن جرير، به. قال أبو حاتم- فيما نقله عنه ابنه في "العلل" 2/344-345-: هذا خطأ، إنما هو يونس بن عبيد، عن عمرو بن سعيد، عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير، عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وأخرجه الطبراني في "الكبير" (2407) عن المقَدام بن داود، عن أسد بن موسى، عن حماد بن سلمة، عن يونس بن عبيد، عن عمرو بن سعيد، عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير، عن أبيه، أن جريراً سأل ... بزيادة: عن أبيه. قلنا: والمقدام بن داود ضعيف. وأخرجه الطبراني (2403) ، وتمام في "فوائده" (739) من طريق أشعث ابن سوار، عن علي بن مدرك، عن أبي زرعة، به. قال الدارقطني في "العلل" 4/الورقة 108 بعد أن أورد طرق الحديث: والصحيح حديث الثوري ومن تابعه عن يونس بن عبيد، عن عمرو بن سعيد، عن أبي زرعة، عن جرير. وسيأتي برقم (19197) . وفي الباب عن علي، سلف برقم (1369) . وعن أبي أمامة، سيرد 5/264. قال السندي: قوله: الفجاءة، بضم فاء، وفتح جيم، ممدود، أو بفتح فاء، وسكون جيم، مقصور. أن أصرف، أي: لا إثم في النظر المذكور، إذ لا اختيار فيه، وإنما الإثم في استدامته، فينبغني تركها، فلا تتوهم أن هذا لا يصلح جواباً للسؤال، فافهم.]
حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے حضرت علی رض اللہ عنہ سے فرمایا اے علی نظر کو نظر کے پیچھے نہ لگانا، اس لئے کہ پہلی نظر تو جائز ہے مگر دوسری نگاہ جائز نہیں۔
[مسند احمد(22974)، وأخرجه أبو داود (2149) ، والترمذي (2777) ، والطحاوي في "شرح معاني الآثار" 3/15، وفي "شرح مشكل الآثار" (1866) و (1867) ، والحاكم 2/194، والبيهقي في "السنن" 7/90، وفي "الشعب" (5421) و (5422) ، والمزي في ترجمة أبي ربيعة الإيادي من "تهذيب الكمال" 33/306 من طرق عن شريك النخعي، بهذا الإسناد. ووقع عندهم جميعاً خلا الطحاوي في الموضع الثاني من "شرح المشكل" أن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال ذلك لعلي بن أبي طالب، وأسند الطحاوي في "شرح معاني الآثار" وفي الموضع الأول من "شرح المشكل" هذا الحديث عن بريدة - عن علي. وسيأتي الحديث عن هاشم بن القاسم برقم (22991) ، وعن أحمد بن عبد الملك برقم (23021) ، كلاهما عن شريك بن عبد الله النخعي، لكن قرن الأخير بأبي ربيعة الإيادي أبا إسحاق السبيعي.
ورواه حماد بن سلمة كما سلف برقم (1369) عن محمد بن إسحاق، عن محمد بن إبراهيم، عن سلمة بن أبي الطفيل، عن علي، قال: قال لي رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فذكره. وانظر تعليقنا عليه هناك.
وفي الباب عن جرير بن عبد الله، سلف في مسنده برقم (19160) ، قال: سألت النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن الفُجاءة، فأمرني أن أَصرِفَ بصري. وهو في "صحيح مسلم ".]
راستے میں مجلس جماکر بیٹھنے سے اسی وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ وہ عام گزر گاہ ہے ،ہرطرح کے آدمی گزرتے ہیں، نظر بے باک ہوتی ہے ،ایسا نہ ہو کہ کسی پر نظر پڑے اور وہ برائی کا باعث بن جائے ۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تم راستوں میں بیٹھنے سے پرہیز کرو لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارے لئے تو ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کے لئے راستوں کے سوا کوئی چارہ کار نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تمہارا بیٹھنا ہی ضروری ہے تو راستے کو اس کا حق دے دیا کرو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ راستے کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نگاہیں نیچی رکھنا تکلیف دہ باتوں سے رکنا سلام کا جواب دینا اچھی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔
[مسند احمد(11309)، وأخرجه البيهقي في "الشعب" (9087) من طريق أحمد، بهذا الإسناد.
وأخرجه البخاري (6229) ، وأبو يعلى (1247) ، وابن حبان (595) ، والبيهقي في "السنن" 10/94، وفي "الشعب" (9085) و (9086) ، وفي "الآداب" (225) ، والبغوي في "شرح السنة" (3338) من طريقين عن زهير، به. وأخرجه البخاري في "صحيحه" (2465) ، وفي "الأدب المفرد" (1150) ، ومسلم (2121) -وهو مكرر ج4/1704-، وأبو داود (4815) ، والطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (169) ، والبيهقي في "السنن" 7/89، وفي "الشعب" (5423) من طرق عن زيد بن أسلم، به. وسيأتي بالأرقام (11436) و (11586) . وفي الباب عن أبي طلحة الأنصاري، سيرد 4/30. وعن البراء بن عازب، سيرد 4/282. وعن أبي شريح الخزاعي، سيرد 6/385. وعن عمر بن الخطاب عند البزار (2018) (زوائد) ، والطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (165) . وعن أبي هريرة عند أبي داود (4816) ، وصححه ابن حبان (596) ، والحاكم 4/264، ووافقه الذهبي. قال السندي: قوله: ما لنا من مجالسنا بد: لم يريدوا رد النهي وإنكاره، وإنما أرادوا عرض حاجتهم، وأنها هل تصلح للتخفيف أم لا.]
حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لئے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ۔ بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو ۔ امانت میں خیانت نہ کرو ۔ وعدہ خلافی نہ کرو ۔ نظر نیچی رکھو ۔ ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو ۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو. [أخرجه الطبرانى فى الأوسط (5/154، رقم 4925) . قال المنذرى (1300) : إسناد لا بأس به وله شواهد كثيرة. وقال الهيثمى (1293) : إسناده حسن.] أخرجه الطبرانى (8/262، رقم 8018) ، والخطيب (7/392) . وأخرجه أيضا: ابن عدى (6/21، ترجمة 1568 فضال بن جبير) . وابن حبان فى الضعفاء (2 204، ترجمة 861 فضال بن جبير) ، الطبرانى فى الأوسط (3/77، رقم 2539) قال الهيثمى (10/301) : رواه الطبرانى فى الكبير، والأوسط، وفيه فضال بن الزبير، ويقال ابن جبير وهو ضعيف. وأخرجه السمعانى فى أدب الإملاء والاستملاء من طريق البغوى (139) . [الأربعون التيمية ابن تيمية » رقم الحديث: 34]
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت کرتے ہیں کہرسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے دو جبڑوں کے درمیان جو (زبان) ہے اور اپنے دو جانگھوں کے درمیان جو (شرمگاہ) ہے (ان دونوں کی حفاظت) کی ضمانت دے تو میں اس کے لئے جنت کا ضمانت دیتا ہوں. [أخرجه البخارى (5/2376، رقم 6109) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (4/235، رقم 4913) . وأخرجه أيضًا: فى السنن الكبرى (8/166، رقم 16448) .]
حضرت معاویہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اپنی شرمگاہ کا کتنا حصہ چھپائیں اور اور کتنا چھوڑ سکتے ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا اپنی بیوی اور باندی کے علاوہ ہر ایک سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بعض لوگوں کے رشتہ دار ان کے ساتھ رہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جہاں تک ممکن ہو کہ وہ تمہاری شرمگاہ نہ دیکھیں، تم انہیں مت دکھاؤ، میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات ہم میں سے کوئی شخص تنہا بھی تو ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔
[أخرجه عبد الرزاق (1/287، رقم 1106) ، وأحمد (5/3، رقم 20046) ، وأبو داود (4/40، رقم 4017) ، والترمذى (5/97، رقم 2769) وقال: حديث حسن. وابن ماجه (1/618، رقم 1920) ، والحاكم (4/199، رقم 7358) وقال: صحيح الإسناد. ووافقه الذهبى. والبيهقى (1/199، رقم 910) . وأخرجه أيضًا: الطبرانى (19/413، رقم 992) . ومن غريب الحديث: "احفظ عورتك": استرها كلها.]
********************* حفاظت نظر اور حلاوت ایمان: (7)کبیرہ گناہ نمبر 242+243:-
اجنبی عورت کو شہوت سے دیکھنا۔۔۔۔اور اسے چھونا۔
[الزواجر عن اقتراف الكبائر-ابن حجر الهيتمي: جلد2 / صفحہ 4]
حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس مسلمان کی پہلی نظر کسی عورت کے محاسن پر پڑے اور وہ اپنی نگاہیں جھکا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی عبادت میں وہ لذت پیدا کر دیں گے جس کی حلاوت وہ خود محسوس کرے گا۔ [مسند احمد(22278)، وأخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" (5431) من طريق سعيد بن سليمان، عن ابن المبارك، بهذا الإسناد. وأخرجه الطبراني في "المعجم الكبير" (7842) من طريق سعيد بن أبي مريم، عن يحيى بن أيوب، به. وفي الباب عن ابن مسعود عند الطبراني في "الكبير" (10362) عن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فيما يرويه عن ربه: "النظرة سهم من سهام إبليس مسموم، من تركها مخافتي، أبدلته إيماناً يجد له حلاوته في قلبه". وفيه عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي، وهو ضعيف. وعن حذيفة عند الحاكم 4/313-314، والقضاعي في "مسند الشهاب" (292) . وصححه الحاكم، وتعقبه الذهبي بقوله: إسحاق -وهو ابن عبد الواحد القرشي الموصلي- واهٍ، وعبد الرحمن هو الواسطي، ضعَّفوه. وعن ابن عمر عند القضاعي (293) ، وإسناده ضعيف أيضاً.]
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہآپﷺ فرماتے ہیں کہیا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کروگے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے یا (پھر اس حکم کی نافرمانی میں) اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مروی ہے کہ نگاہ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اس سے اللہ کے خوف کی وجہ سے بچے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسا نور ایمانی عطا فرماتے ہیں جس کی مٹھاس اور لذت دل میں محسوس کرتا ہے۔ [المعجم الكبير للطبراني:10362 . قال الهيثمى (8/63) : فيه عبد الله بن إسحاق الواسطى وهو ضعيف. [عن حذيفة: أخرجه الحاكم (المستدرك على الصحيحين للحاكم:7875) وقال: صحيح الإسناد. وأخرجه أيضًا: القضاعى (1/195، رقم 292) .]
*********************
(10)کبیرہ گناہ نمبر 244+245+246:-
خوبصورت لڑکے کو شہوت سے دیکھنا، اسے چھونا، اور اس کے ساتھ تنہا رہنا۔
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہؓ کی بات سے زیادہ بہتر بات نہیں سنی، جو وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کے لئے ایک حصہ زنا کا لکھ دیا ہے جو اس سے یقینا ہو کر رہے گا، چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے اور زبان کا زنا بات کرنا ہے اور نفس خواہش اور تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔
[مسند احمد(8356)، والبخارى (6/2438، رقم 6238) ، ومسلم (4/2046، رقم 2657) ، وأبو داود (2/246، رقم 2152) . ]
بدنظری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے حسرت وافسوس اور رنج وغم کی کیفیت ہوجاتی ہے ۔کئی دفعہ نظر کا تیر دیکھنے والے کو خود ہی لگ کر اس کے دل ودماغ کو زخمی کردیتا ہے ۔
(ابن قیم الجوزیہ،الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی،دارالمعرفت،۱۴۱۸ھ،جلد۱،صفحہ۱۵۳-۱۵۴)
ترجمہ: تمام حادثات کی ابتدا نظر سے ہوتی ہے، اور بڑی آگ چھوٹی چنگاریوں سے ہوتی ہے، کتنی ہی نظریں ہیں جو نظر والے کے دل میں چبھ جاتی ہیں، جیساکہ کمان اور تانت کے درمیان تیر ہوتا ہے، اس کی آنکھ ایسی چیز سے خوش ہورہی ہے جو اس کی روح کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسی خوشی جو ضرر کو لائے، اس کے لیے خوش آمدید نہیں ہے۔ اے نظر کا تیر چلانے میں کوشش کرنے والے! اپنے چلائے ہوئے تیر سے توہی قتل ہوگا! اے نظر باز! تو جس نظر سے شفا کا متلاشی ہے، اپنے قاصد کو روک! کہیں یہ تجھ ہی کو ہلاک نہ کردے۔
یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ نگاہ کا غلط استعمال انسان کے لیے نقصان دہ ہے ۔اسی لیے شریعت نے عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے ”غضِ بصر“کاحکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں دونوں کو ”غضِ بصر“کاحکم دیا گیا؛مگر جمہور فقہا ء نے اس حکم میں مرد وعورت کے درمیان فرق کیاہے ۔پہلے مردوں کے لیے غض بصر کے حکم میں اہل علم کا موقف ذکر کرکے پھر عورتوں کے لیے اس حکم کاتفصیلی جائزہ پیش کیا جاتاہے ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کی راہ (جہاد) میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے روئے گو آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو۔
[جامع الاحادیث(15674)، أخرجه الديلمى (3/256، رقم 4759) . أخرجه البزار (1659- زوائده) ، وأبونعيم في «الحلية» (3/ 163) ، وأبوالقاسم الأصبهاني في «الترغيب والترهيب» (497) ، وابن عساكر في «الأربعين في الحث على الجهاد» (36) من طريق عمر بن صهبان به. ولفظ البزار: ثلاثة أعين لا تدخل النار ... وضعفه الألباني في «الضعيفة» (1562) (5144) .]
عورت پر یہ لعنت اس وقت ہے جبکہ اس کی طرف سے بے پردگی اور بدنظری کے اسباب ہوں۔ [المراسيل لأبي داود:473 ، السنن الكبرى للبيهقي:13566، شعب الإيمان للبيهقي:7399، جامع الأحاديث:2534 حديث ابن عمر: جامع الأحاديث:18412، أخرجه الديلمى (3/465، رقم 5441) .]
حضرت مغیرہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن عبادؓنے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو دیکھ لو تو تلوار سے اس کی گردن اڑادوں نبی کریم ﷺ تک یہ بات پہنچی تو فرمایا کہ تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟ بخدا! میں ان سب سے زیادہ غیور ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیور ہے اسی بناء پر اس نے ظاہری اور باطنی فواحش کو حرام قرار دیا اور اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی شخص نہیں ہوسکتا اللہ سے زیادہ عذر کو پسند کرنے والا کوئی شخص نہیں ہوسکتا، اسی وجہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ [مسند أحمد بن حنبل» مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ...» أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ ... رقم الحديث: 17801] [مسند احمد(18168)، أخرجه البخارى (6/2698، رقم 6980) ،مسلم (2/1136، رقم 1499) . وأخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (5/450، رقم 27884) ، عبد بن حميد (ص 151، رقم 392) ، أبو عوانة (3/215، رقم 4721) .]
[مسند احمد(17347+17396)، وأخرجه ابن أبي شيبة 4/409، والدارمي (2642) ، والبخاري (5232) ، ومسلم (2172) ، والترمذي (1171) وقال: حسن صحيح. والنسائي في "الكبرى" (9216) ، والطبراني في "الكبير" 17/ (762) ، والبيهقي في "السنن" 7/90، وفي "الشعب" (5437) ، والبغوي في "شرح السنة" (2252) من طرق عن الليث بن سعد، بهذا الإسناد. وأخرجه مسلم (2172) ، والطبراني 17/ (763) و (765) من طرق عن يزيد بن أبي حبيب، به.] تنبیہ :
موت اس لئے ارشاد فرمایا کہ دیور ہمیشہ گھر میں رہتا ہے، اگر خدانخواستہ آنکھ لڑگئی تو اس سے جو نتائج بد پیداہوں گے وہ کسی صاحبِ عقل سے پوشیدہ نہیں۔ حمو تو موت ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح موت انسانی کی ظاہری اور دنیوی زندگی کو ہلاک کر دیتی ہے اس طرح حمو کا تنہائی میں غیر محرم عورت کے پاس جانا اس کی دینی اور اخلاقی زندگی کو ہلاکت وتباہی کے راستہ پر ڈال دیتا ہے کیونکہ عام طور پر لوگ غیر محرم عورتوں کے ساتھ حمو کے خلط ملط کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے ان کے عورتوں کے پاس آتے جاتے رہنے اور ان کے ساتھ بے محابا نشست وبرخواست رکھنے کی وجہ سے ان کا کسی برائی میں مبتلا ہو جانا زیادہ مشکل نہیں رہتا اس کی وجہ سے فتنے سر ابھارتے ہیں اور نفس برائیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ جملہ الحمو الموت ( یعنی حمو تو موت ہے لفظ موت کا ذکر دراصل اس محاورہ کی بنیاد پر جو اہل عرب کے ہاں عام طور پر کسی خطرناک چیز سے خوف دلانے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اہل عرب کہہ دیا کرتے ہیں کہ شیر مرگ ہے یا بادشاہ آگ ہے۔ چنانچہ ان جملوں کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ شیر کے قریب جانا موت کی آغوش میں چلا جانا ہے یا بادشاہ کی قربت آگ کی قربت کی مانند ہے لہذا ان سے بچنا چاہئے۔
آج کل بے پردگی کا یہ نتیجہ نکلا،
جسکو سمجھتے تھے کہ بیٹا ہے، بھتیجا نکلا.
********************* ازواج النبی ﷺ کو بھی ((نظروں کے پردہ)) کا حکم:
(نبی کے زوجہ اور مومنوں کی ماں) حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں اور میمونہ ؓ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں کہ ابن ام مکتوم (نابینا صحابی) داخل ہوئے اور یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو۔ میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ یہ پہچانتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم بھی اسے نہیں دیکھ سکتیں؟". یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [جامع الترمذي» كِتَاب الْأَدَبِ ... رقم الحديث: 2721] [مسند احمد(26537)، وأخرجه أبو داود (4112) ، والترمذي (2778) ، والطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (289) ، وأبو يعلى (6922) ، وابن حبان (5575) ، والطبراني في "الكبير" 23/ (678) ، والبيهقي في "السنن" 7/91-92، والخطيب في "تاريخه" 3/17 من طرق عن عبد الله بن المبارك، به. قال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح! وأخرجه النسائي في "الكبرى" (9241) ، والطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (288) من طريق ابن وهب، عن يونس بن يزيد، به. وأخرجه يعقوب بن سفيان في "المعرفة والتاريخ" 1/416، والنسائي في "الكبرى" (9242) ، والخطيب في "تاريخه" 3/18، والبيهقي في "السنن" 7/91، وفي "الآداب" (747) من طريق سعيد بن أبي مريم، عن نافع بن يزيد، عن عُقيل، عن الزهري، به. وأخرجه ابن سعد 8/175-176- ومن طريقه الخطيب في "تاريخه" 3/17- عن محمد بن عمر الواقدي، عن معمر ومحمد بن عبد الله، عن الزُّهري، به. والواقدي متروك. وقد أنكر أحمد على الواقدي هذا الحديث، فيما ذكر العقيلي في "الضعفاء" 4/107، والخطيب في "تاريخه" 3/16، ونقلا عنه قوله: والحديث حديث يونس لم يروه غيره. قلنا: بل إنَّ عُقيلاً تابع يونس عن الزُّهري في هذا الحديث، كما سلف، وانظر ما ذكره العقيلي والخظيب على رواية الواقدي هذه. وقد اختلف قول الحافظ في هذا الحديث، فقال في "الفتح" 1/550: هوحديث مختلف في صحته، وقال في موضع آخر 9/337: إسناده قوي، وأكثر ما علل به انفراد الزُّهري بالرواية عن نبهان وليس بعلة قادحة، فإن من يعرفه الزُّهري ويصفه بأنه مكاتب أم سلمة، ولم يجرحه أحد، لا ترد روا يته! قلنا: والحديث معارض بأحاديث صحاح منها حديث عائشة السالف برقم (24541) ، وحديث فاطمة بنت قيس الآتي برقم (27327) . وقد بينا وجه المعارضة فيما علقناه في "صحيح" ابن حبان و"شرح مشكل الآثار".] تنبیہ :
غور فرمائیں کہ آج کل کی اسلام کی دعویدار کم علم و کم ایمان عورتوں کا یہ بہانہ کہ ’’پردہ تو بس دل کا ہوتا ہے‘‘ یا ’’بس نیت صاف ہونی چاہیے‘‘ وغیرہ کہہ کر اپنی نظروں کا تو دور اپنے چہروں کے پردہ کو بھی چھوڑنا، تلبیس ابلیس اور دین نبوی ﷺ سے گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی شخص جھانکے تیرے گھر میں تیری اجازت کے بغیر پھر اس کو کنکری سے مارے اور اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تیرے اوپر کچھ گناہ نہ ہو گا۔“
حضرت شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں عبد القیس کا وفد آیا ، اُن میں ایک بے ریش خوبصورت لڑکا بھی تھا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اُسے اپنے پیچھے کی جانب بٹھایا۔
[ذم الهوى-ابن الجوزي (م597ھ) : صفحہ 106]
[تلبيس إبليس-ابن الجوزي (م597ھ) : صفحہ 244-245]
[مجموع الفتاوى-ابن تيمية: 15 / 377]
*********************
(20)اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا:
مَا أتى عَلَى عالم من سبع ضار أخوف عَلَيْهِ من غلام أمرد
ترجمہ:
میں کسی عالم پر کسی درندے سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا امرد سے ڈرتا ہوں۔
[تلبيس إبليس-ابن الجوزي (م597ھ) : صفحہ 244]
[إحكام النظر في أحكام النظر بحاسة البصر-ابن القطان الفاسي(م628ھ): حدیث نمبر 182]
حضرت نجیب بن سری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں : کوئی شخص کسی گھر میں أمرَد (بے رِیش) کے ساتھ رات بسر نہ کرے۔
لَا يَبِيتُ الرَّجُلُ فِي بَيْتٍ مَعَ الْمُرْدِ ۔
[شعب الایمان:5015]
حضرت ابوسہل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عنقریب اِس اُمّت میں ایسے لوگ ہوں گے جن کو (بدفعلی کی وجہ سے) لُوطی کہا جائے گا ۔ اور وہ تین قسموں کے ہوں گے : ایک قسم وہ ہوگی جو صرف (أمرد کو) دیکھیں گے ، دوسری قسم وہ ہوگی جوہاتھ ملائیں گےاور تیسری قسم وہ ہوگی جو (العیاذ باللہ) اِس کام کو کریں گے۔
حضرت عبد اللہ بن مُبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک دفعہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ حمّام میں داخل ہوئے تو ساتھ میں ایک خوبصورت لڑکا بھی داخل ہوا ، حضرت سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اسے نکالو،کیونکہ میں ہر عورت کے ساتھ ایک شیطان دیکھتا ہوں اور ہر لڑکے کے ساتھ دس سے بھی زیادہ شیاطین نظر آتے ہیں ۔
حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اَسلاف کا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ بادشاہوں کے بیٹوں کے ساتھ بیٹھنے سے منع فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اُن کے ساتھ بیٹھنا فتنہ ہے اور وہ عورتوں ہی کے درجہ میں ہیں (یعنی عورتوں ہی کی طرح اُن سے بچنا چاہیئے) ۔
حضرت عبد العزیز بن السائب رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ میں ستر کنواری لڑکیوں (کے فتنے) سے بھی زیادہ کسی عابد کے بارے میں بے رِیش لڑکے (کے فتنہ) کا خوف رکھتا ہوں ۔
حضرت فتح الموصلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تیس ایسے شیوخ کی صحبت میں رہا ہوں جو اَبدال میں شمار کیے جاتے تھے ، اُن سب ہی نے مجھے رخصت کرتے ہوئے یہ وصیت فرمائی کہ نوخیز (بےرِیش) لڑکوں کے ساتھ رہنے سے پرہیز کرو ۔
قال في الدر مع الرد کتاب، کتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس: ۹/۵۳۲، ط: زکریا دیوبند: فحل النظر مقید بعدم الشہوة وإلا فحرام وہذا في زمانہم وأما في زماننا فمنع عن الشابة قہستاني وغیرہ إھ وفي الرد: قولہ: ”وإلا فحرام“ أي: إن کان عن شہوة فحرام إھ وقال في الرد: ۹/۵۲۴-۵۲۵: قال في الہندیة: والغلام إذا بلغ مبلغ الرجال ولم یکن صبیحا فحکمہ حکم الرجال وإن کان صبیحا فحکمہ حکم النساء وہو عورة من قرنہ إلی قدمہ لا یحل النظر إلیہ عن شہوة․․․ إھ وقال القہستاني في ہذا الفصل: وشرط لحل النظر إلیہا وإلیہ الأمن بطریق الیقین من شہوة․․․ ولذا قال السلف: اللوطیون أصناف: صنف ینظرون وصنف یصافحون وصنف یعملون وفیہ إشارة إلی أنہ لو علم منہ الشہوة أو ظن أو شک حرم النظر کما في المحیط وغیرہ إھ ․․․ ولا یخفی أن الأحوط عدم النظر مطلقاً إھ وفي الدر مع الرد: ۹/۵۲۸: ․․․ إلا من أجنبیة فلا یحل مس وجہہا وکفہا وإن أمن الشہوة لأنہ أغلظ ولذا تثبت بہ حرمة المصاہرة وہذا في الشابة․․․ إھ ۔
حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن احمد مؤذن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں طواف ِکعبہ میں مشغول تھا کہ ایک شخص پر نظر پڑی جو غلافِ کعبہ سے لپٹ کرایک ہی دعا کا تکرا رکر رہا تھا: ”یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ! مجھے دنیا سے مسلمان ہی رخصت کرنا” میں نے اس سے پوچھا: تم اس کے علاوہ کوئی اور دعا کیوں نہیں مانگتے؟ اس نے کہا: ”کاش! آپ کو میرے واقعہ کا علم ہوتا۔” میں نے دریافت کیا: ”تمہارا کیا واقعہ ہے؟ تو اس نے بتایا:”میرے دو بھائی تھے، بڑے بھائی نے چالیس سال تک مسجد میں بلامعاوضہ اذان دی، جب اس کی موت کاوقت آیا تو اس نے قرآنِ پاک مانگا۔ ہم نے اسے دیا تاکہ اس سے برکتیں حاصل کرے مگر قرآن شریف ہاتھ میں لے کر کہنے لگا: تم سب گواہ ہوجاؤکہ میں قرآن کے تمام اعتقادات واحکامات سے بے زاری اور نصرانی (عیسائی) مذہب اختیار کرتا ہوں پھر وہ مر گیا۔ اس کے بعد دوسرے بھائی نے تیس برس تک مسجد میں فِیْ سَبِیْلِ اللہ اذان دی مگر اس نے بھی آخری وقت نصرانی ہونے کا اعتراف کیا اور مر گیا۔ لہٰذا میں اپنے خاتمہ کے بارے میں بے حد فکر مند ہوں اور ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگتا رہتا ہوں تو حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن احمد مؤذن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے استفسار فرمایا: ”تمہارے دونوں بھائی ایسا کون سا گناہ کرتے تھے؟اس نے بتایا: ”وہ غیر عورتوں میں دلچسپی لیتے تھے اور امردوں(بے ریش لڑکوں) کو (شہوت سے ) دیکھا کرتے تھے ۔
اے اپنی نظر کو شہوتوں میں مستغرق رکھنے وا لے ! اے محرمات کے چاہنے والے ! اے فنا ہونے والی لذتوں سے دھوکا کھانے والے ! تو نے ان قوموں سے نصیحت حاصل کیوں نہ کی جن کو ان کے گھروں سے نکالا گیااور انہوں نے غفلت کی رسی کو پکڑے رکھا ۔ پس ان کا یہ عذر قبو ل نہیں کیا جا ئے گا کہ ہمیں تو کسی نے ڈرایا نہ تھا ۔
حضرتِ سیِّدُنا ابویزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ ”آپ رحمۃ اللہ علیہ جب وضو فرماتے تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے اعضاء پر ایک کپکپی سی طاری ہو جاتی یہاں تک کہ جب نماز کےلیے کھڑے ہوکر تکبیر کہتے تو کپکپی ختم ہوتی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق عرض کی گئی توارشاد فرمایا: ”میں اس با ت سے خوف کھاتا ہوں کہ کہیں مجھے بدبختی نہ گھیرلے اور میں یہود ونصاریٰ کے گرجوں میں نہ جا پڑوں۔ ” نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ مَکْرِاللہِ یعنی ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے اس کی پناہ مانگتے ہیں ۔
حضرتِ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ حج کے ارادے سے مکۂ مکرمہ روانہ ہوئے، اور پوری رات کجاوے میں روتے رہے، حضرتِ شیبان راعی رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کی : ”اے سفیان ! آپ کے رونے کی وجہ کیا ہے؟ اگر معصیت کی وجہ سے ہے توآپ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نافرمان نہیں۔” حضرتِ سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سن کر فرمایا: ”اے شیبان! گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے، وہ تو کبھی میرے دل میں نہیں کھٹکے، میرا رونا معصیت کے سبب نہیں بلکہ میں تو برے خاتمے کے خوف سے رو رہا ہوں کیونکہ میں نے ایک بہت ہی نیک بزرگ کو دیکھا، جس سے ہم نے علم حاصل کیا، اس نے لوگوں کوچالیس سال تک علم سکھایا، بیتُ اللہ شریف کی کئی سال مجاورت کرتا اوربرکتیں لوٹتا رہا، اس شخص کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی،مگروہ کافرہوکرمرااور اس کا چہرہ قبلہ سے پِھرکر مشرق کی طرف ہوگیا ۔لہٰذا مجھے برے خاتمے کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں۔” حضرتِ سیِّدُنا شیبان نے عرض کی: ”اگر ایسا نافرمانی اور گناہوں پر اصرار کی نحوست کی وجہ سے ہے تو آپ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہ کیجئے گا ۔
حضرتِ حمزہ بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”میں حضرتِ ابوبکر شا شی علیہ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے وقت ان کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا : ” اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟” توانہوں نے جواباً ارشاد فرمایا: ”اس کشتی کی طرح جو غرق ہونے سے پہلے چکرا رہی ہوتی ہے۔ میں نہیں جا نتا کہ کیا میری نجات ہو گی؟ کیاملائکہ یہ خوشخبری لے کر آئیں گے: ”اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا ترجمۂ کنزالایمان:کہ نہ ڈرواور نہ غم کر و۔”(پ۲۴،حم السجدۃ:۳0) یا کشتی غرق ہو جائے گی اور فرشتے یہ کہتے ہوئے آئيں گے: ”لَا بُشْرٰی یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیۡنَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ حِجْرًا مَّحْجُوۡرًا ﴿۲۲﴾ ترجمۂ کنزالایمان :وہ دن مجرموں کی کوئی خوشی کا نہ ہو گا اور کہیں گے الٰہی! ہم میں اُن میں کوئی آڑ کر دے رُکی ہو ئی۔” (پ۱۹،الفرقان:۲۲) یعنی دور ہو جا، توہم سے صلح کے قا بل نہیں ۔
اے نافرمان اپنے دل کی تاریکی پر رو تاکہ وہ روشن ہو جائے کیونکہ جب بادل ٹیلے پر برستے ہیں تووہ چمک جاتا ہے، ہلاکت ہے تیرے لئے! تو کہتا ہے: میں توبہ کرنے والا اور حق کو پورا کرنے والا ہوں۔ کھڑا ہو اور جلدی کر، نیکیوں کو ضائع نہ کر، پھر موقع نہ ملے گا۔ جب بندہ اپنی توبہ میں سچا ہوتا ہے تو اللہ عزَّوَجَلَّ! کِرَاماً کَاتِبِیْن (یعنی بندے کے اعمال لکھنے والے فرشتوں) کوان کے لکھے ہوئے اعمال بھلا دیتا ہے اور زمین کو حکم فرماتا ہے کہ میرے بندے پر وسیع ہوجا ۔
ترجمہ : وہ تو اپنے گروہ کواسی لئے بلاتاہے کہ دوزخیوں میں ہوں ۔ (پ22،فاطر:6)
ابن آدم پر تعجب ہے کہ (جب شیطان نے اس کے باپ کو سجدہ کرنے سے انکار کیااس وقت) وہ اپنے باپ کی پشت میں تھا،تو وہ کیسے اس جہنم میں داخل ہوجائے گاجس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اے ابنِ آدم! ہم نے ابلیس کو دھتکارا اس لیے کہ اس نے تیرے باپ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، تجھ پر تعجب ہے کہ تو نے اس سے صلح کیسے کرلی اور ہمیں چھوڑ دیا ۔
اَمْرَد (بے ریش لڑکے) کا قُرب ، اُس کی دوستی اُس کے ساتھ مذاق مسخری، آپس میں کُشتی ، کھینچا تانی اور لپٹا لِپٹی جہنَّم میں جھونک سکتی ہے۔ اَمرَد سے دُور رہنے ہی میں عافیَّت ہے اگرچِہ اُس بے چار ے کا کوئی قُصُور نہیں، اَمرَد ہونے کے سبب اُس کی دل آزاری بھی مت کیجئے ۔ مگر اُس سے اپنے آپ کو بچانا بے حد ضَروری ہے ۔ ہرگز اَمرَد کو اسکوٹر پر اپنے پیچھے مت بٹھایئے ، خود بھی اُس کے پیچھے مت بیٹھئے کہ آگ آگے ہو یا پیچھے اُس کی تَپَش ہر صورت میں پہنچے گی۔شہوَت نہ ہو جب بھی اَمرَد سے گلے ملنا مَحَلِّ فِتنہ (یعنی فِتنے کی جگہ) ہے، اورشَہوت ہونے کی صورت میں گلے ملنا بلکہ ہاتھ مِلانا بلکہ فُقہائے کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : اَمرَد کی طرف شَہوت کے ساتھ دیکھنا بھی حرام ہے ۔
[تفسیراتِ احمدیہ صفحہ ۵۵۹]
اقوالِ سلف:
(1) ابو القاسم قشیری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
جو شخص دیندار ہونا چاہے اس کے لئے عورتوں اور لڑکوں کے ساتھ ملا جلا رہنا نہایت نقصان دہ ہے اور اس کے حق میں یہ ڈاکو ہے کہ اس کو اس کے مطلب تک ہرگز پہنچنے نہ دے گا۔
(2) ایک بزرگ فرماتے ہیں:
جس کو اللہ تعالیٰ اپنے دربار سے نکالنا چاہتے ہیں اس کو لڑکوں کی محبت دے دیتے ہیں۔
(3)دوسرے بزرگ فرماتے ہیں :
بدنظری سے سب سے پہلے عبادت کی حلاوت اور لذت فنا ہوتی ہے اور اس کے بعد رفتہ رفتہ بد نظری عبادات (نوافل فرائض وواجبات )کے چھوٹنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
(4)حضرت سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ عورت کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے اور اَمرد کے ساتھ دو شیطان ہوتے ہیں۔
(5) امام غزالی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ نے فرمایا کہ کسی عابد پر شیر کا رُخ کرنا اتنا خوفناک نہیں سمجھتا جتنا غلام اَمرد کا خوف کرتا ہوں۔
(6) ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ہر بدنظری سے ایک تیر شیطان کا لگتا ہے، اب اگر دوسری مرتبہ اُس خیال سے دیکھے گا کہ دوسری بار اچھی طرح دیکھ کر دل کو خوب تسلی دے دیں تاکہ خلش ختم ہوجاوے تو یہ حماقت ہے، خلش ختم ہونے کے بجائے اور اضافہ ہوگا کیوں کہ ایک تیر کے بعد دوسرا تیر کھانا زخم کو گہرا کرتا ہے زخم کو بھرتا نہیں۔ خوب سمجھ لیجیے۔ خلاصہ یہ ہے کہ؎
گر گریزی بر اُمید راحتے
زاں طرف ہم پیشت آید آفتے
ہیچ کنجے بے درو بے دام نیست
جز بخلوت گاہِ حق آرام نیست
ترجمہ:
ﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر جہاں بھی راحت کی اُمید پر جاؤ گے وہاں آفت ہی آفت پاؤ گے، کوئی گوشہ بے پریشانی و فتنہ نہیں سوائے اِس کے کہ آرام صرف خلوت میں حق تعالیٰ شانہٗ کی یاد میں ہے؎
خدا کی یاد میں بیٹھے جو سب بے غرض ہو کر
تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تختِ سلیماں تھا
پھرتا ہوں دل میں یار کو مہماں کیے ہوئے
روئے زمیں کو کوچۂ جاناں کیے ہوئے۔
افغان وزیر خارجہ مولانا امیر خان متقی سے اینکر پوچھتی ہیں:
آدھے گھنٹے کے پورے انٹرویو کے دوران ایک بار آنکھ اٹھا کر آپ نے میری طرف نہیں دیکھا، آخر اسکی وجہ کیا ہے؟
وہ جواب دیتا ہے:
اس میں کیا نئی بات ہے بیبی! شریعت نے مجھے تمہیں پردہ کرنے کا ٹھیکہ نہیں دے رکھا، لیکن مجھے نظر نیچے رکھنے کا حکم ضرور دے رکھا ہے۔ تمہارے سر پر دوپٹہ میرے فرائض میں شامل نہیں ہے، لیکن اپنی نگاہ سنبھالنا میرے فرائض میں شامل ہے، یہ تمہاری توہین کا مسئلہ نہیں، بلکہ میرے شریعت کا پابند ہونے کا مسئلہ ہے.
No comments:
Post a Comment