نیند کا غلبہ اور مفت تہجد کا ثواب:
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ اسے نبی ﷺ تک پہنچاتے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا: جو آدمی بستر پر لیٹتے وقت نیت رکھتا ہو کہ رات کو ( نماز تہجد کے لیے ) اٹھے گا لیکن اسے گہری نیند آ گئی اور وہ صبح تک سویا رہا تو اس کے لیے اس نماز کا ثواب لکھا جائے گا جس کی اس نے نیت کی اور اس کی نیند اس کے رب عزوجل کی طرف سے اس پر نوازش ہو گی۔
[نسائی:1786، ابن ماجہ:1344، حاکم:1170]
القرآن»
اور جو ارادہ کرے آخرت کا اور اس کیلئے ویسی کوشش بھی کرے۔۔۔تو ایسے لوگوں کی کوشش کی پوری قدر دانی کی جائے گی۔
[سورۃ الاسراء:19]
شرعی امور میں آسانی اور سہولت کا تصور، قرآنی احکام کی روشنی میں |
شرعی احکام میں حکمت اور مصلحت یہ ہےکہ ان میں عام افراد کی قوت و استعداد اور انفرادی و اجتماعی حالات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ شرعی احکام عام حالات میں مسلمانوں کی اکثریت کیلئے قابل عمل ہیں،جب حالات نارمل نہ رہیں تو ان میں مزید آسانی اور سہولت پیدا ہوجاتی ہے ۔احکام کی بجاآوری میں ہر فرد اپنی استطاعت اور بساط کے مطابق ہی مکلف قرار دیا گیا ہے، کسی بھی فرد پر اس کی قوت و طاقت سے زیادہ بوجھ اور ذمہ داری نہیں ڈالی گئی۔ جب کوئی کا م انسان کی قدرت اور ہمت میں نہیں رہتا تو وہ اس کا مکلف بھی نہیں ٹھہرتا ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ضروریات،طبائع اور مشکلات کو خوب جانتا ہے اس نے احکام میں اپنے بندوں کیلئے آسانی،سہولت،تخفیف ، عدم حرج،قلت تکلیف، گنجائش اور تدریج کو نمایاں رکھا تاکہ اس کے بندے مشکلات ، تنگیوں اور تکالیف سے محفوظ رہیں۔قرآنی احکام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بہت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں کو ایسے احکام کا پابند نہیں ٹھہرایاجو ان کیلئے باعث مشقت اور ناقابل تحمل ہوں، بلکہ وہ اپنے بندوں سے انہیں افعال کا مطالبہ کرتا ہے جو ان کی طاقت اور قوت میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے احکام شریعت کو ہر فردکیلئےنرم اور آسان بنایاہے ۔کم طاقت اورتھوڑی قوت رکھنے والے بیمار، مسافر ، مجبور اور معذور افراد کیلئے رخصت وتخفیف رکھی ہے اور اسی طرح کم عمر اورمجنون کو مکلف ہی نہیں ٹھہرایا تاکہ ان پر بوجھ نہ پڑے۔ قرآن مجید کو یہ اعزاز اور مقام حاصل ہے کہ یہ آسان کتاب ہے، اسکے احکام آسانی و سہولت پر مبنی ہیں،ان میں تنگی اور دشواری کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا۔[1]
ترجمہ:پس اے محمد(ﷺ)اس کلام کو ہم نےآسان کر کےتمہاری زبان میں اسی لیےنازل کیاہےکہ تم پرہیزگاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو ۔‘‘
سورۃالدخان میں اللہ تعالیٰ اسی بات یوں بیان کیا ہے :
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۔[2]
ترجمہ:اے نبی ، ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔
سورۃ الاعلیٰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:وَ نُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرٰى۔[3]
ترجمہ:اور ہم آپ کو اس آسان (شریعت پر عمل پیرا ہونے) کے لئے (بھی) سہولت فراہم فرمائیں گے۔
قرآنی احکام میں لوگوں کے لئے انتہائی نرمی اور آسانی کو ملحوظ رکھا گیا ہے سورۃ القمر میں ہے :
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۔[4]
ترجمہ:ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے ، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا ؟
شرعی امور میں آسانی اور سہولت اسلام کا روشن امتیاز ہے:
آسانی اور سہولت انسانوں کی مرغوبات ہیں ، انسان کسی بھی کام میں اپنے لئے آسان راستہ کی تلاش میں ہوتا ہے ،اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تھوڑی محنت سے بڑا فائدہ حاصل ہو ۔اللہ تعالیٰ نے احکام شریعت میں بھی انسانی فطرت اور خواہش کے مطابق آسانی اور سہولت کو نمایاں رکھا ہے تاکہ اس کے بندے مشقت اور تنگی سے بچ سکیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۔[5]
ترجمہ:اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ،سختی کرنا نہیں چاہتا۔
امام طبری اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ بِتَرْخِيصِهِ لَكُمْ فِي حَالِ مَرَضِكُمْ وَسَفَرِكُمْ فِي الْإِفْطَارِ، وَقَضَاءِ عِدَّةِ أَيَّامٍ أُخَرَ مِنَ الْأَيَّامِ الَّتِي أَفْطَرْتُمُوهَا بَعْدُ إِقَامَتِكُمْ وَبَعْدَ بُرْئِكُمْ مِنْ مَرَضِكُمُ التَّخْفِيفَ عَلَيْكُمْ، وَالتَّسْهِيلَ عَلَيْكُمْ لِعِلْمِهِ بِمَشَقَّةِ ذَلِكَ عَلَيْكُمْ فِي هَذِهِ الْأَحْوَالِ.{وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ} [البقرة: 185] يَقُولُ: وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الشِّدَّةَ، وَالْمَشَقَّةَ عَلَيْكُمْ، فَيُكَلِّفُكُمْ صَوْمَ الشَّهْرِ فِي هَذِهِ الْأَحْوَالِ، مَعَ عِلْمِهِ شِدَّةَ ذَلِكَ عَلَيْكُمْ وَثِقَلَ حَمْلِهِ عَلَيْكُمْ لَوْ حَمَّلَكُمْ صَوْمَهُ۔[6]
ترجمہ: اللہ تعالیٰ مومنوں کیلئےسفروبیماری کی حالت میں روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہےسفر مکمل ہونے تک ان دنوں کی قضائی دی جائے جن میں روزہ چھوڑا ہے۔ بیماری کی صورت میں صحت یاب ہونے تک رخصت ہے۔اس نے یہ آسانی انسانوں کے احوال میں مشقت کی بناء پر کی ہے ۔{وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ}کہ وہ تم پر تنگی نہیں چاہتا ۔اس نے ان احوال میں تمہیں پورے مہینے کے روزوں کا مکلف بنایا ہےکہ اس ذمہ داری میں مشقت اور شدت کو بھی وہ خوب جانتا ہے ۔‘‘
وہ تما م امور جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کئے ہیں ان میں حد درجہ آسانی اور سہولت ہونے کے باوجود جب بھی ان کی ادائیگی میں کوئی دشواری یا رکاوٹ آجائے گی وہ مزید تخفیف اور نرمی کا جواز پیدا کردے گی۔سید محمد رشید رضا لکھتے ہیں:
فالله لا یرید اِعنات الناس باحکامه،وانما یرید الیسر به موخیرهم و منفعتهم، وهٰذااصل فی الدین یرجع الیه غیرهو منهاخذوا قاعدة: المشقة تجلب التیسیر۔[7]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ اپنے احکام سے لوگوں کو تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ ان کی بھلائی اور منفعت کے پیش نظر آسانی کا ارادہ رکھتا ہے یہ دین کا ایک بنیادی اصول ہے اور باقی احکام بھی اسی کی طرف لوٹتے ہیں فقہاء نے قاعدہ فقہیہ المشقۃ تجلب التیسیر اسی آیت سےاخذ کیا ہے۔
الشیخ عبدالرحمان بن ناصر السعدی فرماتےہیں :
أي: يريد الله تعالى أن ييسر عليكم الطرق الموصلة إلى رضوانه أعظم تيسير، ويسهلها أشد تسهيل، ولهذا كان جميع ما أمر الله به عباده في غاية السهولة في أصله.وإذا حصلت بعض العوارض الموجبة لثقله، سهَّله تسهيلا آخر، إما بإسقاطه، أو تخفيفه بأنواع التخفيفات۔[8]
ترجمہ:یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تم پر اپنی رضا کے راستے حد درجہ آسان کر دے ۔ ا س لیے وہ تمام امور جواللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں پر فرض قرار دئے ہیں اصل میں حد درجہ آسان بنائے ہیں۔جب کوئی عارضہ پیش آجائے جو ان کی ادائیگی کو مشکل اور بوجھل بنا دے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک او رطرح سے آسان کر دیاہے یا تو سرے سے اس فرض ہی کو ساقط کر دیا یا اس میں مختلف قسم کی تخفیفات سے نواز دیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے جو اپنے بندو ں کیلئے امورِ الٰہیہ میں آسانیاں اور سہولتیں رکھی ہیں وہ تمام شرعیات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ان کی تفاصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے، اختصار کے ساتھ ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تمام مشکلات اور تنگیاں جو انسانی طاقت اور استطاعت میں نہ رہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا، وہ اتنے ہی مکلف ہیں جتنی وہ قوت اور قدرت رکھتے ہیں۔
شرعی امور میں تخفیف و نرمی رحمت الٰہی ہے:
بنیادی طور پرانسان کی تخلیق کم زور ہے وہ مشکلات اور تنگیوں سے چھٹکارہ چاہتا ہے ۔ نرمی اور تخفیف کو اپنے لئے پسند کرتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اوامر و نواہی میں انسانوں کے لئے تنگی اور مشقت کی بجائے آسانی اور تخفیف کو پسند فرمایا ہے۔ ارشادربانی ہےکہ:
يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا۔[9]
ترجمہ:اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔
امام الشوکانیاس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ: یُرِیدُ اللَّهُ أَنْ یُخَفِّفَ عَنْکُمْ بِمَا مَرَّ مِنَ التَّرْخِیصِ لَکُمْ، أَوْ بِکُلِّ مَا فِیهِ تَخْفِیفٌ عَلَیْکُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسانُ ضَعِیفاً عَاجِزًا غَیْرَ قَادِرٍ عَلَی مَلْکِ نَفْسِهِ وَدَفْعِهَاعَنْ شَهَوَاتِهَاوَفَاءًبِحَقِّ التَّکْلِیفِ فَهُوَمُحْتَاجٌ مِنْ هَذِہِالْحَیْثِیَّةِ إِلَی التَّخْفِیفِ، فَلِهَذَاأَرَادَاللَّه سُبْحَانَهُ التَّخْفِیفَ عَنْهُ"[10]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا فرمان ] یُرِیدُ اللَّهُ أَنْ یُخَفِّفَ عَنْکُمْ [ میں تمہارےلیےرخصت گزر چکی ہے یا اس چیز کا بیان ہے جس میں تمہارےلیےتخفیف ہے ۔ انسان کو اس قدر کمزور پیدا کیا گیاہے کہ وہ اپنے نفس پر کنٹرول کرنے اور اپنی شہوات پر قابو رکھنے میں عاجز اور بے بس ہے،چہ جائیکہ وہ مشقت کے ساتھ احکامات کو پورا کرے، چنانچہ اس حیثیت میں وہ تخفیف کا زیادہ محتاج ہے اسی لیے اللہ نے اس سے تخفیف و آسانی کا ارادہ کیا ہے۔
سید طنطاوی فرماتے ہیں:
یرید الله بماشرعه لکم من أحکام،وبماکلفکم بهم نتکالیف هی فی قدرتکم واستطاعتکم أن یخفف عنکم فی شرائع هوأوامرهونواهیه، لکی تزدادواله فی الطاعة والاستجابة والشکر.وَخُلِقَ الْإِنْسانُ ضَعِیفاً أی لا یصبر علی مشاق الطاعات، فکان من رحمة الله به أن خفف عنه فی التکالیف.وهذا الیسر والتخفیف فی التکالیف من أبرز ممیزات الشریعة الإسلامیة، وقد بین القرآن۔[11]
ترجمہ: قدرت او راستطاعت کے وہ تمام امور خواہ و ہ اوامر ہوں یا نواہی جس کا تمہیں مکلف بنایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے احکام شریعت میں تمہارے ساتھ تخفیف فرمائی ہےتاکہ تم اطاعت و استجابت اور شکر میں بڑھ جاؤ۔ اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اطاعت کی مشقت پر قائم رہنے والا نہیں ہے ۔ چنانچہ مشقت میں تخفیف کر دینا یہ رحمت الہٰی سے ہے ۔ اور مشقت میں آسانی اور تخفیف شریعت کے روشن امتیازات میں سے ہے جس کی قرآن مجید نے وضاحت کی ہے ۔
انسان نہ صرف عبادات میں بلکہ ہر معاملہ میں خواہ وہ سماجی ہو ں یا معاشی اتناہی مکلف ٹھہرے گاجتنی اس میں بساط ہوگی اور جوچیز اس کی ہمت اور قدرت میں نہ ہو تو اس میں نرمی اور تخفیف پیدا ہو جائے گی ۔
شرعی امور میں قلت تکلیف اسلام کی عظیم خوبی ہے:
قلت تکلیف سےمراد یہ ہے کہ احکام الہٰی میں تکلیف کم سے کم دی گئی ہے سہولت اورآسانی زیادہ سے زیادہ رکھی گئی ہے کیونکہ تکلیف کی کثرت سے بہت ساری تنگیاں اور دشواریاں پیدا ہو جاتی ہیں،جن کی وجہ سے انسان حدود و قوانین سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتےہیں ۔شیخ ابن العربی "قلت تکلیف"کے بارے میں لکھتے ہیں :
هذا أصل عظيم وركن من أركان شريعة المسلمين شرفنا الله سبحانه على الأمم فلم يحملنا إمراً ولا كلفنا فى مشقة أمراً ۔[12]
ترجمہ:یہ ایک بڑااصول اور مسلمانوں کے ارکان شریعہ میں سے ایک رکن ہے جسکی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسری امتوں پر شرف و عزت دی ہے کہ اس نےہم سے کوئی سخت معاملہ نہیں اٹھوایا اور نہ ہی مشقت والے کام کا ہمیں مکلف بنایا ہے۔
مولانا عبدالرحمان کیلانی ؒفرماتےہیں کہ :’’اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون سزا و جزا کا کلیہ بیان فرما دیا۔ یعنی جو کام کسی انسان کی استطاعت سے بڑھ کر ہیں ان پر انسان سے باز پرس نہیں ہوگی، باز پرس تو صرف اسی بات پر ہوگی جو انسان کے اختیار اور استطاعت میں ہو اور جہاں انسان مجبور ہوجائے وہاں گرفت نہ ہوگی۔ مگر اس اختیار، استطاعت اور مقدرت کا فیصلہ انسان کو نہایت نیک نیتی سے کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے ‘‘[13]۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا۔[14]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ ہر نفس کو اس کی وسعت کے مطابق تکلیف دیتے ہیں ۔
امام بغوی اس کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها، ظَاهِرُ الْآيَةِ قَضَاءُ الْحَاجَةِ ، وَفِيهَا إِضْمَارُ السُّؤَالِ كَأَنَّهُ قَالَ: وَقَالُوا لَا تُكَلِّفُنَا إِلَّا وُسْعَنَا، فأجاب: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها، أَيْ: طَاقَتَهَا، وَالْوُسْعُ: اسْمٌ لِمَا يَسَعُ الْإِنْسَانَ، وَلَا يُضَيِّقُ عَلَيْهِ۔[15]
ترجمہ:اس آیت کا ظاہر تنگی کو ختم کرتا ہے اور اس میں ایک مخفی سوال کاجواب ہے جیسے کہ انہوں نے کہا کیا تم نے ہمیں اپنی طاقت کے مطابق مکلف بنایا ہے ۔ تو اس نے جواب دیا لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها یعنی کہ ان کی طاقت کے مطابق ہے اور وسع تو انسان کی طاقت ہی کا نام ہے اور اس پر تنگی بھی نہیں ہے ۔
امام قرطبی فرماتےہیں :
ويُكَلِّفُ" يَتَعَدَّى إِلَى مَفْعُولَيْنِ أَحَدُهُمَا مَحْذُوفٌ، تَقْدِيرُهُ عِبَادَةً أَوْ شَيْئًا. فَاللَّهُ سُبْحَانَهُ بِلُطْفِهِ وَإِنْعَامِهِ عَلَيْنَا وَإِنْ كَانَ قَدْ كَلَّفَنَا بِمَا يَشُقُّ وَيَثْقُلُ كَثُبُوتِ الْوَاحِدِ لِلْعَشْرَةِ، وَهِجْرَةِ الْإِنْسَانِ وَخُرُوجِهِ مِنْ وَطَنِهِ وَمُفَارَقَةِ أَهْلِهِ وَوَطَنِهِ وَعَادَتِهِ، لَكِنَّهُ لَمْ يكلفنا بالمشقات المثقلة ولا بالأمور المولمة، كَمَا كَلَّفَ مَنْ قَبْلَنَا بِقَتْلِ أَنْفُسِهِمْ وَقَرْضِ مَوْضِعِ الْبَوْلِ مِنْ ثِيَابِهِمْ وَجُلُودِهِمْ، بَلْ سَهَّلَ وَرَفَقَ وَوَضَعَ عَنَّا الْإِصْرَ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي وَضَعَهَا عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَنَا۔[16]
ترجمہ:اور’تکلیف ‘یہ دومفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے ان میں سے ایک محذوف ہے اور وہ عبارۃ یا شيأہے پس اللہ تعالیٰ نے ہم پر لطف وانعام فرمایا ۔ اگر وہ چاہتا تو ہمیں ایسے امورکامکلف بنادیتاجومشقت امیز اور اذیت رساں ہوتے ہیں ۔جیسا کہ دس کے مقابلہ میں ایک کا ثابت قدم رہنا ، انسان کاہجرت کرنا اور اپنے وطن سےنکلنا اور اپنے گھر والوں ، اپنے وطن اور اپنے کاروبار سےکلیۃً علیحدگی اختیار کرنا لیکن اس نے ہمیں ایسے کاموں کاجو سخت مشقت آمیز ہوں اور ایسے امور جواذیت اورتکلیف پہنچانےوالے ہوں ان کامکلف اور پابند نہیں بنایا جیسا کہ ہم سے پہلے لوگوں کو بنایا ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سہولت عطا فرمائی اور نرمی فرمائی اور ہم سے اس بوجھ اورطوق کودور فرمایا جوہم سےپہلے لوگوں پر ڈالا ہوا تھا۔
شیخ الثعلبیؒ فرماتے ہیں:
لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها. أي طاقتها، وكان حديث النفس مما لم يطيقوا.قال ابن عباس في رواية أخرى: المؤمنون خاصّة وسّع الله عليهم أمر دينهم.ولم يكلّفهم إلّا ما هم له مستطيعون، فقال: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ ، وقال: ما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ، وقال: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ....سئل سفيان بن عيينة عن قوله تعالى: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها.فقال: إلّا يسرها لا عسرها، ولم يكلّفها طاقتها ولو كلّفها طاقتها لبلغ المجهود منها۔[17]
ترجمہ:لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَهامیں وسعھا سےمراد طاقت ہے اور یہ نفس کی وہ باتیں ہیں جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے ابن عباسؓ نے دوسر ی روایت میں کہا اس میں خاص کر مومنوں کو امور دینیہ میں وسعت دی گئی ہے اور وہ استطاعت والی چیزوں کے ہی مکلف ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا]يُرِيدُ الله بِكُمُ الْيُسْرَ[ (اللہ تم سے آسانی چاہتے ہیں ) اور ایک جگہ فرمایا ] ما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں ڈالی اور فرمایا ] فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ (کہ اپنی استطاعت کے مطابق اللہ سےڈرو۔) .......سفیان بن عیینہ سے اللہ تعالیٰ کےاس فرمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اس میں صرف آسانی ہے تنگی نہیں اور االلہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی طاقت کا مکلف نہیں بنایا اور اگر اس کی طاقت کا مکلف بنا دیتا تو سخت محنت کرنا پڑتی ۔
امام المراغی لکھتے ہیں:
إن الله تعالى لا يكلف نفسا إلا ما يسعها فعله، بأن تأتيه بلا عسر ولا حرج، فهو لا يكلف من يبيع أو يشترى الأقوات ونحوها أن يزنها أو يكيلها بحيث لا تزيد حبة ولا مثقالا، بل يكلفه أن يضبط الوزن والكيل له أو عليه سواء بحيث يعتقد أنه لم يظلم بزيادة ولا نقص يعتد بهما عرفا۔[18]
ترجمہ: اللہ نے ہر نفس کو اسی فعل کامکلف بنایا ہے جس کو وہ کر سکتا ہے اور اس کی بجاآوری میں اسے کوئی تنگی و حرج نہیں ہے چنانچہ اس نے کسی بائع اور مشتری کو اشیاء قوت کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ ان کا وزن اور ماپ اس اعتبار سے کریں کہ کوئی دانہ اور بوجھ بڑھ نہ جائے بلکہ اس نے وزن ،ماپ اور اس پر برابری کے انضباط کا مکلف بنایا ہے ۔ جب وہ عقد کریں تو کمی و بیشی سے کوئی ظلم نہ ہو جس کا عرف عام میں اعتبار کیا جاتا ہے ۔
یعنی طاقت اور بساط کے موافق احکام کی بجا آوری کی کوشش کی جائے اسی کا ہی انسان مکلف ہے ۔ جواشیاء انسانی طاقت میں نہ ہوں اللہ تعالیٰ ان پر درگزر فرمادیتا ہے ۔سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’یعنی اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ ایسا ہرگز نہ ہوگا کہ بندہ ایک کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اللہ اس سے باز پرس کرے کہ تو نے فلاں کام کیوں نہ کیا۔ یا ایک چیز سے بچنا فی الحقیقت اس کی مقدرت سے باہر ہو اور اللہ اس سے مواخذہ کرے کہ تو نے اس سے پرہیز کیوں نہ کیا۔ لیکن یہ اور ہے کہ اپنی مقدرت کا فیصلہ کرنے والا انسان خود نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت کس چیز کی قدرت رکھتا تھا اور کس چیز کی نہ رکھتا تھا۔‘‘ [19]
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایسا بوجھ نہیں ڈالاجو ا ن کی بشری وسعت سے باہر ہواور اس پر عمل کرنا نفس انسانی کے لیے شاق ہو ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اسی چیز کا مکلف ٹھہراتا ہے جس کو انسان پوری توانائی صرف کیے بغیر آسانی اور سہولت سے کر سکتا ہے ۔اس آیت سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے چھوٹے موٹے معاملات میں انسانوں کو بھی ایک دوسرے سے درگزر سے کا م لینا چاہئے معمولی چیزوں اور معاملات پر ایک دوسری کی گرفت نہیں کرنی چاہئے اس سے نفرت اور فساد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
شرعی امور میں بارِ گراں کا خاتمہ :
اللہ تعالیٰ نے شرعی امور میں ان تمام بے جا پابندیوں اور ناروا بندشوں کا خا تمہ کردیا ہے جو عملی زندگی اور معاشرتی ترقی میں رکاوٹ اور دشواری پیدا کرتی تھیں ۔امام ابن کثیر لکھتے ہیں:
أی ما کلفکم مالا تطیقون،وما الزمک بشیء فشق علیکم الا جعل لکم خرجاَ و مخرجاَ۔[20]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسے کا م کا مکلف نہیں بنایا جو تمہاری طاقت میں نہ ہواور نہ ہی ایسی چیز کو تم پر نافذ کیا ہے جو تمہارےلئے نا قابل تحمل ہواور اس نے تمہیں اس سے چھٹکارے کا راستہ نہ دیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی خاص فضل و احسان ہے کہ اس نے شریعت اسلامیہ میں ہر قسم کی معصیت اور جرم سے چھٹکارہ اور نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے بندوں پر اپنی رحمت کا دروازہ ہمہ وقت کھلا رکھا ہوا ہے، کائنات میں کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس سے توبہ کی جائے تو اس کی معافی نہ ہو۔مفتی محمدشفیع لکھتے ہیں:’’دین میں تنگی نہ ہونے کا مطلب بعض حضرات نے یہ بیان فرمایا کہ اس دین میں ایسا کوئی گناہ نہیں ہے جو توبہ سے معاف نہ ہو سکے اور عذاب آخرت سے خلاصی کی کوئی صورت نہ نکلے۔ بخلاف پچھلی امتوں کے کہ ان میں بعض گناہ ایسے بھی تھے جو توبہ کرنے سے بھی معاف نہ ہوتے تھے۔حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ سخت و شدید احکام ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد کئے گئے تھے جن کو قرآن میں صر اور اغلال سے تعبیر کیا گیا ہے اس امت پر ایسا کوئی حکم فرض نہیں کیا گیا۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ تنگی ہے جس کو انسان برداشت نہ کر سکے اس دین کے احکام میں کوئی حکم ایسا نہیں جو فی نفسہ ناقابل برداشت ہو ۔ باقی رہی تھوڑی بہت محنت و مشقت تو وہ دنیا کے ہر کام میں ہوتی ہے۔‘‘[21]
سید مودودی لکھتے ہیں:’’یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دیا گیا ہے جو پچھلی امتوں کے فقیہوں اور فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں ۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں ۔ ایک سادہ اور سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو ۔ ‘‘ [22]
شیخ عبد الکریم یونس لکھتے ہیں: إن هذا الدين سمح سهل، لا ينتفع به إلا إذا أخذ سمحا سهلا، تتقبله النفوس،و تنشرح له الصدور.. شأنه فى هذا شأن الطعام، لا يفيد منه الجسم، إلا إذا طابت لهالنفس، واشتهته، واستساغت طعمه، واستطابت مضغه وبلعه..وفى الحديث أيضا: «لا تبغّض إلى نفسك عبادة الله» وذلك بالقسوة عليها، وبحملها على ما هو شاق، وبين يديها القريب الميسور!"[23]
ترجمہ:بے شک یہ دین آسانی اور سہولت پر مبنی ہے ۔اس کو آسانی سے پکڑنے والے ہی اس سے نفع اٹھاتے ہیں دل جسے قبول کرتے ہیں اور سینے جس سے شاداں رہتے ہیں ۔ اس کا معاملہ کھانے کے معاملہ کی طرح ہے ۔ جسم اس سے اسی وقت فائدہ اٹھاتاہے جب دل کو اچھا لگتا ہے اور اس کی چاہت ہوتی ہے ۔ اور اس کا کھانا خوشگوار ہوتا ہے اور اس چبانا اور نگلنا نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے :اللہ کی عبادت میں اپنے نفس کو (خوش رکھو) ناراض نہ رکھو۔ اس کی وجہ سےدل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور وہ مشقت والی چیزوں کو اٹھاتا ہے ، حالانکہ اس کے پاس آسان چیز موجود ہوتی ہے ۔
شرعی امور میں بے جا پابندیوں اور ناروا بندشوں کے خاتمہ کی اللہ تعالیٰ نے کئی ایک آیات میں صراحت فرمائی ہے کہ اس دین میں حرج اور تنگی پیدا کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۔[24]
ترجمہ:اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔
شیخ ابو الحسن الماوردی فرماتے ہیں کہ اس دین میں تنگی کا خاتمہ پانچ انعامات کے ذریعے کیا گیا ہے:
أحدها: أنه الخلاص من المعاصي بالتوبة. الثاني: المخرج من الأيمان بالكفارة. الثالث: أنه تقديم الأهلة وتأخيرها في الصوم والفطر والأضحى , قاله ابن عباس. الرابع: أنه رخص السفر من القصر والفطر. الخامس: أنه عام لأنه ليس في دين الإٍسلام ما لا سبيل إلى الخلاص من المأثم فيه۔"[25]
ترجمہ:1: یہ توبہ کے ذریعے معاصی سے چھٹکارا ہے۔ 2: کفارہ کے ذریعے قسم سے چھٹکارہ ہے۔3:بےشک یہ روزہ، صدقہ اور قربانی کےاوقات میں تقدیم و تاخیر کا تذکرہ ہے ۔ یہ ابن عباسؓ کی رائے ہے ۔ 4:بے شک اس نے سفر میں نماز قصر کرنے کی اور روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے ۔5: دین اسلام میں کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس میں گناہ سے خلاصی کی طرف کوئی راستہ نہ ہو ۔ بے شک یہ عام ہے ۔
شیخ ابو المظفرمنصور بن محمد فرماتے ہیں:
وَقَوله:(وَمَاجعل عَلَیْکُم فِی الدّین من حرج) (فَإِن قَالَ قَائِل:فِی الدّین حرج کثیربِلَا إِشْکَال فَمَامعنی قَوْله: (وَمَاجعل علَیْکُم فِی الدّین من حرج)قُلْنَا:فِیهِ أَقُول: أَحدهَا: أَن الْحَرج هُوَالضّیق، وَمعنی الْآیَةهَاهُنَا: أَنه لَا ضیق فِی الدّین بِحَیْثُ لَاخلاص عَنهُ،فَمَعْنَاه: أَنالمذنبوَإِنوَقعفِی ضیق من مَعْصِیَته،فقد جعل الله لَهُ خلاصابِالتَّوْبَةِ،وَکَذَلِکَ إِذا حنث فِی یَمِینه جعل الله لَهُ الْخَلَاص بِالْکَفَّارَةِ،وَالْقَوْل الثَّانِی:أَن معنی الْآیَة أَن اللهتَعَالَی لم یُکَلف نفسافَوق وسعهَا،وَقدذکرنَا هَذَامنقبل،وَالْقَوْل الثَّالِث:أَن المُرَادمن الْآیَة أَنهإِذاکَانَ مَرِیضا فَلم یقدر علی الصَّلَاة قَائِما صلی قَاعِدا،فَإِن لم یقدر علی الصَّلَاة قَاعِدا صلی بِالْإِیمَاء ِ، وَیفْطر إِذا شقّ عَلَیْهِ الصَّوْم بسفر أَو مرض أَو هرم،وَکَذَلِکَ سَائِروُجُوه الرُّخص۔[26]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا فرمان (وَمَاجعل عَلَیْکُم فِی الدّین من حرج) اس میں کوئی کہنے والا یہ کہے کہ دین میں بغیر کسی اشکال کے بہت زیادہ حرج ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا کوئی معنی و مطلب نہیں رہتا۔ ہم کہتے ہیں اس میں کئی اقوال ہیں ۔1:حرج سے مراد تنگی ہے آیت میں یہاں اس سےمراد یہ ہے کہ دین میں خلاصی ہونے کے اعتبار سے کوئی تنگی نہیں ہے اس کا مطلب ہے جب گناہ کرنے والا اپنی معصیت میں واقع ہو جاتا ہے تو اللہ نے اس کیلئےتوبہ بطور خلاصی بنائی ہے اور اسی سے ہے جب وہ قسم توڑتا ہے تو اللہ نے اس کیلئےقسم کا کفارہ بطور خلاصی بنایا ہے۔ 2:بے شک اللہ نے ہر نفس کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں بنایا اور اسی چیز کو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے ۔3:بےشک آیت سے یہ بھی مراد ہے کہ جب وہ مریض ہو اور نماز کھڑے ہو کر ادا نہیں کر سکتا ہے بیٹھ کر ادا کر لے ۔ اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تو اشارہ سے پڑھ لے ۔ اور جب روزہ سفر یا بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے اس پر مشکل ہو جائے تو وہ روزہ چھوڑ دے اور رخصت کی تمام وجوہ اسی طرح ہیں ۔
دین اسلام میں لاچار، بے بس اور مجبور افراد کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے جہاں کہیں ان کیلئےکوئی عذر پیش آیا اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل کا خاتمہ کرکے ان کیلئےآسانی ،سہولت اور تخفیف فرمادی تاکہ وہ احکام کی بجاآوری میں خود کو مشکلات اور تنگیوں میں مبتلا نہ کریں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ مَا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔[27]
ترجمہ:ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکتِ جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوصِ دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں ۔ ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
معذور اور مجبور افراد کے لئے تنگی اور حرج کاخاتمہ کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ نےفرمایا:
لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَآىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِيْقِكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا١ؕ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۔[28]
ترجمہ:کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا ،یا لنگڑا،یا مریض(کسی کے گھر سے کھالے)اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے ،یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے ،یا اپنی بہنوں کے گھروں سے،یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے،یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے،یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے،یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے،یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں،یا اپنے دوستوں کے گھروں سے ۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ ۔ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی با برکت اور پاکیزہ ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے۔
ابو السعود العمادی اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ:(لَّیْسَ عَلَی الأعمی حَرَجٌ وَلاَ عَلَی الأعرج حَرَجٌ وَلاَ عَلَی المریض حَرَجٌ) أی فی التخلفِ عنِ الغزوِ لِما بِهمْمنالعذر والعاهة فإن التکلف یدورُ علی الاستطاعةِ وفی نفی الحرجِ عن کلِّ من الطوائفِ المعدودةِ مزیدُ اعتناء ٍ بأمرِهموتوسیعٌ لدائرةِ الرُّخصةِ۔[29]
ترجمہ:اللہ کے اس فرمان(لَّیْسَ عَلَی الأعمی حَرَجٌ وَلاَ عَلَی الأعرج حَرَجٌ وَلاَ عَلَی المریض حَرَجٌ)حرج سےمراد غزوہ میں عذر اورپریشانی سے پیچھے رہنا ہے ۔ بلاشبہ مکلف بننا استطاعت پر ہی منحصر ہے اور بے شمار چکر لگانے والوں سے نفی حرج ان کے معاملہ پر مزید توجہ دینا وسعت کے دائرہ کار کو وسیع کرنا ہے۔
شریعت اسلامیہ کےتمام احکام میں تنگی اورحرج کی نفی کر دی گئی ہے ،جہاں بھی کوئی تنگی اور حرج بندوں کی استطاعت اور قوت میں نہ ہو گا ان کو مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ کوئی بھی فرد اگر اپنی ذات پر یا کسی دوسرے فرد پر قوت و برداشت سےزیادہ بوجھ ڈالے گا تو وہ شریعت کےروح کی خلاف ورزی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں گنہگار ٹھہرےگا۔اسلام کے کسی بھی حکم کا افراد معاشرہ پر نفاذ اور اطلاق کرتے ہوئے اسلام کی دی ہوئی آسانی ،رخصت، قلت تکلیف اور عدم حرج کے اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہئے کیونکہ ان اصولوں وقوانین اورقواعد و ضوابط کو نظر انداز کردینے کی بناء پر افراد معاشرہ کا انتہائی مشکلات میں مبتلا ہونے کااندیشہ ہوتا ہے۔
شرعی امور میں آسانی اور سہولت کی بقاء کے قرآنی اسالیب:
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی فطرت کو خوب جانتا ہے کہ رخصتیں اور تخفیفات اس کے بندوں کی انتہائی مرغوبات میں سے ہیں اس لئے اس نےمختلف حالات اور اوقات میں شرعی احکام کی بجا آوری کیلئے کئی اختیارات دئے ہیں تاکہ وہ حکم ِ الٰہی پر اس صورت میں عمل پیرا ہوں کہ ان کیلئے آسانی اور سہولت کا دروازہ بھی کھلا رہے اور ان کو مشقت اور حرج کا سامنا بھی نہ ہومثلاََ طہارت وپاکیزگی کے حصول میں کئی ایک سہولتیں عطاء فرمادی ہیں [30]، رمضان المبارک میں کئی ایک رخصتیں دی ہیں[31]، ایام ِحج میں آسانی اور سہولت کو نمایاں رکھا ہے[32]،قتل خطاء کی دیت میں تیسیر فرمائی[33]،ظہار(شوہر اپنی بیوی کو محرمات کیساتھ تشبیہ دے کر اپنے اوپر حرام کر لے اور پھر اپنے قول کوواپس لیناچاہے) کا شریعت نےجوکفارہ بیان کیا اس میں تین چیزیں بیان فرمائی اس میں مقصودیسرکوبرقرار رکھنا تھا[34]،یمین(قسم کے بعد اس کو توڑنا چاہے یاتوڑدے ) کا کفارہ بیان کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے آسانی کا معاملہ فرمایا ہے۔[35]
غایت درجہ کی مجبوری کو اضطرار کہا جاتا ہے ۔اضطراری حالات سےمراد وہ کیفیت ہے جس میں انسان دین، جان ،مال، عقل اورنسل کومحفوظ رکھنے کیلئے کسی چیز کی پناہ لینے پرمجبور ہوجائے۔عام حکم اضطراری اورمجبوری کے حالات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اللہ کی طرف سے اس کےبندوں کیلئے انتہائی وسعت اور گنجائش ہے کہ وہ حالات کی تنگی میں مزیدآزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں۔[36]
تدریج ( ابتدائی حالات میں احکام نرم اور لچکدار تھے تاکہ آسانی سے ان کی تفہیم وتعمیل ہو سکے جیسے ہی حالات، احوال منشاء ربانی سے ہم آہنگ ہو گئے تو زندگی کے مختلف شعبوں اور متنوع پہلوؤں میں اللہ تعالیٰ نے احکام کی مستقل طور پر صراحت فرمادی)کا عمل بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی رحمت اور نرمی کو واضح کرتا ہے۔شراب اور دیگرقبیح اشیاء کی ممانعت کے حکم کو ہی دیکھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ممانعت یک بارگی نہیں فرمائی بلکہ اس نے تدریج کو اختیار کیا [37]وہ چاہتا تو فوراً اپنے بندوں کو شرب خمر اور دوسری قبیحات سے منع کر دیتا لیکن اس نےہرگز ایسا نہیں کیا تاکہ اس کے بندوں کی طبع پر بوجھل نہ ہو۔تنسیخ(کسی ایک حکم کو منسوخ کرکے اس کی جگہ پر دوسری چیز کا حکم دینا)کا عمل بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ رحیمانہ شفقت اور والہانہ محبت کا اظہار ہے۔[38]
شرعی امور میں ان تمام اقدامات کی موجودگی دین اسلام کے قوانین میں آسانی اور سہولت کے پہلوکی خوب تفسیر و تفصیل ہے اور اسی طرح دین اسلام کے احکام میں حرج ،تنگی اور مشقت کے خاتمہ کی تشریح و توضیح ہے ۔
حاصل بحث:
شرعی امور میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی آسانیوں اور سہولتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے، یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر خاص کرم و مہربانی ہے ۔ بعض افراد تھوڑے سے تقویٰ کے حصول کی خاطر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی رخصتوں کو قبول کرنے کی بجائے خود کو بےجا پابندیوں اور ناروا بندشوں میں جکڑ لیتے ہیں، جو شریعت اسلامیہ کی وسعتوں اور سہولتوں کےمنافی ہے۔ جس طرح شرعی امور میں عزیمت اور مشقت اللہ کی منشاء ہے، اسی طرح رخصت اور سہولت بھی اللہ کی پسندیدہ ہیں اس لئے ان کا انکار معصیت الہٰی کے مترادف ہے۔ اللہ کے قانون میں ہر فرد اپنی قوت و بساط کے مطابق ہی مکلف ہے، کسی پر استطاعت و قدرت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ ایک مسلم کی کامیابی و کامرانی اسی میں ہی ہے کہ وہ ہر معاملہ میں اعتدال اور توازن سےکام لے۔ جہاں وہ عزیمتوں پر عمل پیرا ہو وہاں رخصتوں کا بھی انکار نہ کرے۔
حوالہ جات
↑ مریم 19: 97
↑ الدخان 44: 58
↑ الاعلیٰ87: 8
↑
القمر54:17 اس آیت کو اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں تین مرتبہ دہرایا ہے تاکہ قرآنی احکام میں یسر کی خوب توضیح ہوجائے۔
↑ البقره 2 : 185
↑ طبری،محمد بن جریر بن یزید،جامع البیان عن تأویل آی القرآن،دار ہجر للطباعۃ والنشر والتوزیع والإعلان الطبعۃ: الاولیٰ، 1422ھ ، ج3،ص218
↑ ابن علی رضا، محمد رشید ،تفسیر المنار، الہیئۃالمصریۃالعامۃ للکتاب،1999ء ،ج2،ص132
↑ السعدی،عبدالرحمان بن ناصر، تفسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان المعروف تفسیر السعدی ، موسسۃ الرسالۃ، 2000ء،ج1،ص86
↑ النساء 4: 28
↑ الشوکانی،محمد بن علی بن محمد،فتح القدیر،دار ابن کثیر، دار الکلم الطیب ۔ دمشق، بیروت،1414ھ ،ج1؍ص 522
↑ طنطاوی،محمد سید،التفسیر الوسیط للقرآن الکریم،دار نہضۃ مصر للطباعۃ والنشر والتوزیع، الفجالۃ،القاہرۃ، 1997ء، ج3،ص123
↑ ابن العربی،محمدبن عبداللہ،قاضی،احكام القرآن لابن العربی،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،1424ھ ،ص 264
↑ گیلانی ، عبدالرحمان ،تیسیر القرآن ، مکتبہ السلام ،لاہور ، ج1،ص242
↑ البقره 2: 286اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس اصول کو کئی ایک مواقع پر دہرایا تاکہ اس اصول کو ہر معاملہ انسانی میں پیش نظر رکھا جائےتفصیل کے لئے دیکھیں البقرہ،:233،الطلاق: 7الانعام:152، الاعراف:42، المومنون:62
↑ البغوی،ابو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء،معالم التنزیل فی تفسیر القرآن،دار إحیاء التراث العربی،بیروت، 1420 ھ ،ج1،ص402
↑ قرطبی،ابوعبد اللہ محمدبن أحمد،امام،الجامع لاحکام القرآن،دار الکتب المصریۃ،القاہرۃ 1964ء،ج3،ص430
↑ الثعلبی،احمد بن محمد بن إبراہیم، ابو إسحاق،الکشف والبیان عن تفسیر القرآن، دار إحیاء التراث العربی، بیروت – لبنان،2002ء، ج2،ص306
↑ المراغی،احمد بن مصطفی،تفسیر المراغی،شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی وأولادہ بمصر،1946ء،ج8،ص70
↑ مودودی، ابو الاعلیٰ ،سید،تفہیم القرآن، مکتبہ تعمیر انسانیت ، لاہور ، 1992ء، ج1،ص244
↑ ابن کثیر،اسماعیل بن عمر ،ابو الفداء،تفسیر القرآن العظیم،دار طیبہ للنشر والتوزیع،1999ء،ج10،ص 99
↑ محمد شفیع،مفتی، معارف القرآن،ادارہ المعارف، کراچی،1981 ء ،ج6،ص 289۔290
↑ تفہیم القرآن ،ج3،ص254
↑ الخطیب ،عبد الکریم یونس،التفسیر القرآنی للقرآن،دار الفکر العربی، القاہرۃ،ج9،ص1106-1107
↑ الحج 22: 78اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس اصول کا دیگر جگہوں پر تذکر فرمایا ہے ۔المائدہ5:6اورالاحزاب33:37 اور 50 میں بھی اسی کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔
↑ الماوردی،علی بن محمد بن محمد،ابوالحسن،تفسیر الماوردی النکت والعیون،دارالکتب العلمیۃ، بیروت،ج4،ص42
↑ المروزی،منصوربن محمدبن عبدالجبار،ابوالمظفر،تفسیرالقرآن،دارالوطن،الریاض - السعودیۃ،1418ھ،ج3،ص458
↑
التوبہ 9: 91
↑ النور24: 61
↑ العمادی،محمد بن محمد ،ابو السعود،تفسیر ابی السعود إرشاد العقل السلیم إلی مزایا الکتاب الکریم،دار إحیاء التراث العربی۔ بیروت،ج8،ص109
↑ تفصیل کے لئے دیکھیں المائدہ6:5
↑ تفصیل کے لئے دیکھیں البقرہ158:2
↑ تفصیل کے لئے دیکھیں اٰل عمران97:3اورالمائدہ95:5
↑ تفصیل کے لئے دیکھیں النساء92:4
↑ تفصیل کے لئے دیکھیں المجادلۃ3:58
↑ تفصیل کے لئے دیکھیں المائدہ89:5
↑ تفصیل کے لئے دیکھیں البقرۃ173:2،المائدہ3:5، الانعام145:16، النحل115:16 اور النحل 106:16
↑ تفصیل کے لئے دیکھیں النحل67:16، البقرۃ219:2، النساء43:4اورالمائدۃ90:5
↑ تفصیل کے لئے دیکھیں المجادلۃ13-12:58، الانفال66-65:8اور دیگر منسوخ احکامِ قرآنی
اسلام میں نکاح کا آسان طریقہ
|
|
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجاً وَذُرِّیَّة﴾․(سورہ رعد:38)
ترجمہ:” اور ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے یقینا بہت سے رسول بھیجے او رانہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا۔“
نکاح کے فضائل او راہمیت سے متعلق بے شمار حدیثیں ہیں ،لیکن میں تفصیل میں نہ جاتے ہوئے چند احادیث پر اکتفا کرتے ہوئے ساتھ ہی سماج اور معاشرہ میں رائج اور غیر ضروری رسم ورواج پر روشنی ڈالوں گا، جس نے نکاح جیسی اہم اور پاکیزہ ضرورت کو مشکل بنا دیا ہے۔
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے متعلق جو معتدل فکر او رمتوازن نظریہ پیش کیا ہے وہ نہایت ہی جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے، بلکہ نکاح انسان کی بہت ساری فطری ضروریات میں سے ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ چنا ں چہ اسلام نے نکاح کو انسان کی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے او راحساس بندگی اور شعور زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ مذکورہ بالاآیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام بھی صاحب اہل وعیال رہے ہیں او ران کی سنتوں میں نکاح کرنا بھی شامل ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے فرمایا:”النکاح من سنتی“ نکاح میری سنت ہے او رایک دوسری جگہ نکاح کو آدھا ایمان کہا: عن انس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”إذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین، فلیتق الله فی النصف الباقی․“ (رواہ البیھقی)
حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملہ میں الله سے ڈرتا رہے۔“
نکاح سے متعلق معاشرہ میں رائج رسم ورواج
چند رسم ورواج کا تعلق لڑکے والوں کی طرف سے ہے توبعض لڑکی والوں کی طرف سے ، دونوں ہی افراط وتفریط میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ میں کبھی شادی سے اعراض ہوتا ہے، تکمیل تعلیم کا بہانہ ہوتا ہے ، عورتوں کا غیر ضروری تعلیم میں مشغول ہو نا ہوتا ہے اورتنگ دستی کا بہانہ تو کبھی ذمہ داریوں سے فرار۔ یہ ساری کے ساری غیر ضروری وجوہات ہیں، جو حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل منافی ہیں۔
بعض رسم ورواج لڑکی والوں کی طرف سے ہیں
وقت اور زمانہ کے لحاظ سے مختلف ملکوں میں مختلف رواج ہیں۔ کہیں مہر کی زیادتی اور زیور کا مطالبہ ہوتا ہے ، جس سے بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جس کی تمام تر ذمہ داری لڑکی کے اولیا پر عائد ہوتی ہے۔
٭… یہ چیز لا تعدادلڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔
٭ …لوگ انجام سے بے خوف ہوکر اپنی لڑکی کا رشتہ اس شخص سے کر دیتے ہیں جو حق مہر زیادہ سے زیادہ ادا کرے۔
٭ …حق مہر او رزیور کی زیادتی سے شادی میں تاخیر ہوتی ہے۔
٭…اگر میاں بیوی میں اختلاف ہو جائے تو شوہر بیوی کو طعنہ دیتا ہے کہ میں نے تمہیں اتنا حق مہر اور زیور زیادہ دیا ہے۔
٭ …اگر میاں بیوی میں آسانی سے گزار ہ نہ ہو سکے تو آسانی سے علیحدگی نہیں ہوتی، کیوں کہ شوہر زیور او رمہر کی اتنی کافی مقدار کے لیے متفکر رہتا ہے اور بیوی کو بہت زیادہ تنگ کرتا ہے، حتی کہ نوبت خاندانی لڑائیوں تک پہنچ جاتی ہے۔
لہٰذا حق مہر میں آسانی کی فضا قائم کرنے سے ہی معاشرہ میں امن وسکون پیدا ہو گا اور بے شمار لوگوں کی شادیاں بآسانی انجام پائیں گی۔
بعض رسم ورواج لڑکے والوں کی طرف سے ہیں
جہیز کا ظالمانہ مطالبہ۔
لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ ہندوؤں کی رسم ہے،وہ اپنی لڑکیوں کو وراثت سے محرم کرنے کے لیے شادی پر کچھ نہ کچھ دیتے تھے، تاکہ لڑکی اس سامان کے عوض وراثت سے اپنا حصہ مانگنا ترک کر دے۔
٭… جہیز کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی تاخیر کا سبب بنتی ہے اور بہت ساری لڑکیاں شادی کی نعمت سے محروم رہ جاتی ہیں۔
٭… لڑکی کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے بے جا اور غیر ضروری جہیز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وراثت میں حصہ دیگر وارثین کی طرح لڑکیوں کا بھی حق ہے، الله کا ارشاد ہے:﴿یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ فَإِن کُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَیْْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَإِن کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَہَا النِّصْف﴾․( سورہ النساء:11)
” الله تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے او راگر صرف لڑکیاں ہی ہوں انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اسے صرف آدھا ملے گا۔“
٭…حد تو یہ ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے ایک لسٹ بھیجی جاتی ہے جو گھڑی، سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی، سوٹ کیس، بیڈ ، مکان اور ملبوسات وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔
٭… اخلاقی حالت اتنی پست ہو چکی ہے کہ لڑکیوں کو طعنہ دیا جاتا ہے ،کہ وہی چیز استعمال کرنا جو اپنے گھر سے لائی ہو۔
٭… جس کے گھر میں دو چار بچیاں ہو جائیں تو ان کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے اور جیتے جی مردہ معلوم ہوتے ہیں۔
٭…مرد عورت کا غلام ومحکوم ہو جاتا ہے او رعورت حاکم ہو جاتی ہے۔ ( راقم الحروف کے والد محترم جناب مولانا علی حسن صاحب اپنی تقریر میں ایک مرتبہ فرمارہے تھے کہ آج کل ہمارے معاشرہ میں ہر آدمی کا ایک اسٹنڈرڈ بن گیا اور اپنی سطح کے مطابق، بلکہ بڑھ کر اگر گھڑی مانگنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو گھڑی کے انداز میں او رگاڑی موٹر سائیکل والے اپنے اپنے انداز میں مانگتے ہیں، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عورت حاکم بن جاتی ہے اور مرد محکوم ہو جاتا ہے ،کیوں کہ عورت نے جہیز سے مرد کو خرید لیا ہے، لہٰذا مرد بیوی کے اشارہ پر ناچتا ہے)
٭…اخباروں کی سرخیاں اس طرح کی خبروں سے بھری پڑی ہیں کہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے باپ نے پھانسی لگالی تو بیٹی نے خود کشی کر لی یا کہیں بہو کو جلا دیا گیا۔
٭…والدین سے مجبوراً جہیز لینا یقیناً باطل طریقہ سے مال کھانے کے ضمن میں آتا ہے ، الله پاک کا ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾․(سورہ نساء:29)
اے ایمان والو! ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۔“ ایک حدیث میں حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” ایک مسلمان کا خون، اس کا مال، اس کی عزت وآبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔“ اس آیت کریمہ او رحدیث مبارکہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جہیز کا لینا اور اس کا استعمال کرنا ناجائز ہے۔
٭…عام طور پر بہت بڑی بارات ایک جلوس کی شکل میں لے جاتے ہیں، جس میں ناچ گانے کا اہتمام کرتے ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والوں کو ایک اچھی خاصی تعداد کے لیے کھانا تیار کرنا پڑتا ہے، جو ان کے لیے ایک بے جا بوجھ ہے۔ اور لڑکے والوں کو باراتیوں کو منتقل کرنے کے لیے کئی کئی بسوں اور کاروں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جس میں کافی پیسوں کا بے جا اسراف ہوتا ہے۔ یہ وہی نکاح ہے جس کو شریعت نے دو خاندانوں کے مابین محبت، مؤدت او ررحمت کا ذریعہ بنایا ہے، جو باہمی نفرت وعداوت اور دشمنی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ظلم سے جہیز حاصل کرنے والوں کو خود ہی اپنی بیٹیوں کے معاملہ میں بہت زیادہ پریشان کن او رتکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑے: ﴿وَتِلْکَ الأیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْْنَ النَّاس﴾ (سورہ آل عمران:140) یہ تو زمانہ کے نشیب وفراز ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ آج ہماری کل تمہاری باری ہے !!!!
بعض لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ لڑکی والے خود سے جہیز دے رہے ہیں۔ پھر بھی یہی حکم ہے کہ اس موقع سے آپ ان کو منع کر دیں، کیوں کہ یہ فتنہ کو فروغ دینا ہے او راگر دینا ہی ہے تو سال دوسال کے بعد دیں، پھر دیکھیے ملتا ہے کہ نہیں؟ اس لیے اس فتنہ سے بچنے کے لیے ہمیں ہر مشتبہ چیز سے بچنا ہو گا۔ والله ولی التوفیق․
مذکورہ بالا دو طرفہ ظالمانہ رسم ورواج سے بچنے کے لیے چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو دیکھتے اور صحابہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے او راس کے مطابق شادیاں کرتے، جس سے ہمارا معاشرہ مثالی شوہر او رمثالی بیوی سے مزّین ہوتا۔ یہ ساری پریشانیاں او رمصیبتیں اس لیے ہیں کہ ہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے اور ایک نئی قسم کی شریعت گھڑ لی ہے۔
شوہر کے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عن عائشة قالت قال رسول صلی الله علیہ وسلم:”خیرکم خیرکم لأھلہ، وأنا خیرکم لأھلی، واذا مات صاحبکم فدعوہ․“ (رواہ الترمذی)
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے اچھا ہو اورمیں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب میں اچھا ہوں، جب تمہارا کوئی ساتھی فوت ہو جائے تو اس کی بری باتیں کرنا چھوڑ دو۔“
”عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: خیرکم خیر کم للنساء․“ (رواہ الحاکم) حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو۔“
”عن عائشة قالت: ماضرب رسول الله صلی الله علیہ وسلم خادما ولا إمراة قط․“ (رواہ ابوداؤد) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم یا عورت کو نہیں مارا۔
گھر کے کام کاج میں شوہر کو بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔
عورت کے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات
حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے مال اور اس کی عزت کی محافظ ہو۔ شیریں گفتار ہو، خوش مزاج ہو، قناعت پسند ہو اور شوہر کا دل لبھانے والی ہو۔ شوہر کی اطاعت گزار اور شکر گزار ہو اور اپنے بچوں سے پیار کرنے والی ہو۔
”عن ابی ھریرة قال: قیل یا رسول الله: أی النساء خیر؟ قال التی تسرہ إذا نظر، وتطیعہ إذا امر، ولا تخالفہ فی نفسھا ومالھا بما یکرہ․“ (رواہ النسائی)
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول الله بہترین عورت کون سی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” وہ عورت کہ جب اس کی طرف اس کا شوہر دیکھے تو اسے خوش کر دے، جب کسی بات کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرے، نیز عورت کی جان او رمال کے معاملے میں شوہر جس چیز کو ناپسند کرتا ہو اس میں اس کی مخالفت نہ کرے۔“
حضرت ابوہریرہ سے مزید روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جو عورت پانچ وقت کی نمازیں ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے ، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرماں برداری کرے، اسے ( قیامت کے روز) کہا جائے گا جنت کے (آٹھوں) دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے۔“
ہمارے لیے نبی صلی الله علیہ وسلم کی شادیاں، آپ صلى الله عليه وسلم کی پیاری بیٹیوں کا نکاح اور صحابہ کرام کا نکاح نمونہ ہے۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اپنی چار صاحب زادیوں کی شادی کی، ان میں سے ام کلثوم اور حضرت رقیہ کو کسی قسم کا جہیز دینا ثابت نہیں ہے، البتہ حضرت زینب کو حضرت خدیجہ نے اپناایک ہار دیا تھا، جو جنگ بدو میں حضرت زینب نے اپنے شوہر ابو العاص بن ربیع کو چھڑوانے کے لیے بطور فدیہ بھجوایا تھا، جسے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد واپس بجھوایا۔ حضرت فاطمہ کو حضرت علی نے مہر میں ایک ڈھال دی تھی، جسے فروخت کرکے رسول صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو گھر کا ضروری سامان پانی کا مشک، تکیہ اور چادر بنوا کردی تھی۔
صحابہ کرام کے نکاح کے واقعات
صحابہ کرام کے ایسے بہت سارے واقعات ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے چندہ کرکے ان کی شادیاں کرائیں، حتی کہ مہر او رولیمہ بھی چندہ سے ہوا۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کے خادموں میں سے ربیعہ بن کعب بھی تھے۔ ایک مرتبہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا یا ربیعہ! تم نے شادی کی یا نہیں؟ حضرت ربیعہ نے کہا نہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اسی طرح دوسری مرتبہ سوال کیا، چناں چہ تیسری بار حضرت ربیعہ نے کہا کہ یا رسول الله ! میں بہت غریب ہوں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں مجھ سے کون شادی کرے گا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ فلاں انصار کے قبیلہ میں جاؤ او رکہنا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے میری شادی کروانے کے لیے بھیجا ہے، لہٰذا انہوں نے ایسا ہی کیا اور قبیلہ والوں نے ان کی شادی کرا دی۔ پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے انصار کے سردار حضرت بریدہ بن حصیب کو سونے کی تھوڑی مقدار جمع کرنے کو کہا، جس سے مہر ادا کیا گیا اور پھر حضرت بریدہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بکری کے لیے کہا اور حضرت عائشہ نے جَو دیا، پھر روٹی اور گوشت سے ولیمہ کیا گیا۔ (الامام احمد فی المسند:4:58)
حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سہل بن سعد ساعدی کا نکاح ایک عورت سے کرایا، حضرت سہل بن سعد ساعدی اتنے غریب تھے کہ ان کے پاس مہر میں دینے کے لیے ایک لوہے کی انگوٹھی تک نہ تھی تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ چلو اس کو قرآن سکھا دینا۔ (بخاری:5087، مسلم:1425)
حضرت بلال نے جب اپنی شادی کی تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک سونے کا ٹکڑا لے کر آئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ اس کو بیچ دو اور صحابہ سے کہا کہ اپنے بھائی کی ولیمہ میں مدد کرو۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ سے زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص نادار غریب ہو تو عورت کے والدین حسب استطاعت اپنے داماد کا تعاون کرنے کے لیے گھر کا بنیادی اور ضروری سامان دے سکتے ہیں۔ والله ولی التوفیق․
|
عصرحاضر میں اسلامی قانون کی معنویت
اسلامی قانون ایک انتہائی حساس موضوع ہے جس پر ہردور کے بہترین دماغ خرچ ہوئے ہیں اور امت کے ذہین ترین لوگوں نے اس پرکام کیاہے، دیگر علوم وفنون کی طرح اس کی فنی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے، لیکن اصل چیز جس نے ہر دور میں اس کو زندہ علم کے طور پر باقی رکھا ہے اور جس میں دنیا کا کوئی علم وفن اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا وہ ہے حالات زمانہ پر اس کی تطبیق کا مسئلہ، یہ محض ایک فن نہیں ہے جو تحقیق وریسرچ کی چہار دیواری میں محدود ہے بلکہ دنیا کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے، احوال زمانہ پر اس کی نظر ہے، سوسائٹی کا نظم وضبط اس کے ذمہ ہے، نظام اخلاق کی باگ ڈور اس کے پاس ہے، احوال وظروف کی تشکیل میں اس کا بڑا حصہ ہے، اگر معاشرہ پر اسلامی قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا، اسلامی قانون اخلاق اور انسان کی پرائیویٹ لائف سے بھی بحث کرتا ہے اور سیاسی اور سماجی نظام سے بھی، اسلامی قانون انسانی دنیا کے لئے خدا کا شاندار عطیہ ہے، انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون اس کی ہمسری نہیں کرسکتا، جب تک دنیاپر اسلامی قانون کی حکمرانی قائم رہی دنیا میں امن وسکون اور خوشحالی وفارغ البالی بھی پورے طور پر باقی رہی، لیکن جب سے دنیا اس قانون کے سایہ سے محروم ہوئی ہے بدامنی، بدچلنی، غربت وبھوک مری عام ہوئی، محبت ورواداری نے دم توڑ دیا، انسانی قدریں پامال ہوئیں، سارا فلسفہٴ اخلاق کتابوں کے اوراق تک محدود ہوکر رہ گیا، عام زندگی سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا، قانون کو بازیچہ اطفال بنادیاگیا، دنیا کے کہترین دماغوں نے بھی اس پر دماغی زورآزمائی شروع کردی، جو قانون کے تعلق سے خود مخلص نہیں تھے ان کو عوامی انتخابات کے ذریعہ قانون سازی کا اختیار دے دیاگیا اس طرح قانون کو اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنالیا گیا، دنیا نے اسلامی قانون سے محرومی کیا گوارا کی، زندگی کی ساری نعمتوں سے محروم ہوگئی، آج دنیا کو پھر اسی قانون کی ضرورت ہے، آج دنیا جس امن وسکون کی متلاشی ہے وہ صرف اور صرف قانون اسلامی کی نگرانی ہی میں حاصل کی جاسکتی ہے دنیا کے تمام تر قوانین اس کے سامنے بونے اور ادھورے ہیں سب نے اسلامی قانون سے خوشہ چینی کی ہے اور سینکڑوں برسوں سے ہزاروں دماغ اس کی ترتیب وتہذیب میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دور طفولیت سے بھی نہیں نکل سکے ہیں۔
آج دنیا کے سنجیدہ لوگ دوبارہ اسلامی قانون کے تعلق سے غور کرنا چاہتے ہیں، مگر کچھ ہمارے اپنوں کی نادانی اور کچھ غیروں کی عیاری کہ یہ بات صرف نظریہ وتفکیر کی حد تک رہ جاتی ہے کوئی عملی صورت نہیں بن پاتی، ان حالات میں ہمارے ذہین اورمخلص لوگوں کو اس موضوع پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے، ادھر چند دہائیوں سے اسلامی علوم پر کام کرنے والوں میں یہ رجحان بڑھا ہے اوراس سلسلے کی بعض کاوشیں بھی سامنے آئی ہیں، اس ضمن میں حقیر راقم الحروف کی بھی ایک کوشش دوسال قبل کتابی صورت میں سامنے آئی ہے، اس میں اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لئے بہت کچ مواد مل سکتا ہے۔
ایک مکمل نظام حیات
اسلام ایک آفاقی مذہب اور مکمل نظام حیات کا نام ہے جس نے ہر دور میں انسانیت کی رہبری کی ہے ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک روئے زمین کی سب سے مضبوط اور رقبہ کے لحاظ سے سب سے وسیع قیادت کی زمام کار اس کے ہاتھ میں رہی ہے اور اس پورے عرصے میں سینکڑوں انقلابات اور حالات کی گردشوں کے باوجود کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی کسی حلقے میں یہ احساس نہیں پایاگیا کہ اس قانونی نظام میں کسی قسم کی تنگی یا تشنگی پائی جاتی ہے اسلام کے قانونی نظام نے ہردور میں انسانیت کے ہر طبقے کے مسائل کو حل کیا اور ملک وقوم کی ترقی واستحکام میں بنیادی رول ادا کیا۔
جب تک مسلمان شعوری طور پر اس نظام سے وابستہ رہے ان کی ترقی وتوسیع کا سلسلہ جاری رہا، وہ جہاں گئے ارض وفلک نے ان کا استقبال کیا لوگوں نے اپنی پلکیں بچھائیں اور دنیا نے ان کا خیرمقدم کیا اس لئے کہ وہ ایسا نظام حیات جاری کرنے گئے تھے جو امن وخوشحالی، ترقی واستحکام اور داخلی وخارجی سکون کا دائمی ضامن ہے۔
زوال کا سبب
لیکن جب مسلمانوں کا رشتہ شعوری یا غیرشعوری طورپر اس نظام سے کمزور ہوا تو وہ بھی اندرونی طور پر کمزور ہونے لگے اور ان کی قومی واجتماعی زندگی پر زوال کی پرچھائیاں پڑنے لگیں اس لئے کہ اجتماعی زندگی کیلئے اجتماعی نظام کی ضرورت ہے اور کسی بھی اجتماع کے ٹوٹنے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس نظام کو توڑ دیا جائے یا مشتبہ کردیا جائے جس سے وہ اجتماع جڑا ہوا ہے، کسی بھی قوم کا زوال اسی نقطہ سے شروع ہوتا ہے خواہ اس کا ادراک قوم کے بڑے طبقے کو ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا، مسلمانوں نے جو خدائی قانون اور اسلامی نظام روئے زمین پر نافذ کیا تھا اس میں مسلمان فاتح کی حیثیت سے تھے، اس نظام کی ترجیحات میں سب سے بڑا حصہ مسلمانوں کا تھا۔ دوسری اقوام اور اقلیتوں کو بھی تمام انسانی حقوق دئیے گئے تھے مگر فرق یہ تھا کہ اس میں مسلمانوں کی حیثیت دینے والوں کی اور دوسری اقوام کی لینے والوں کی تھی، لیکن جب اسلامی نظام کی جگہ دوسرا نظام آیا اور اجتماعیت دین سے کٹ کر غیردینی نظام سے جڑگئی تو اس نئے نظام میں تمام ترجیحات دوسروں کے لئے ہوگئیں اوراس کی اگلی صفوں میں ایسے لوگ براجمان ہوگئے جن کو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی اس لئے اب مسلمانوں کو پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارئہ کار نہ تھا۔
اگر اس موقعہ پر بھی مسلمانوں کی قومی غیرت اور دینی حس جاگ اٹھتی تو وہ اپنی غلطیوں کی تلافی کرسکتے تھے اور اس نئے مصنوعی نظام سے پیچھا چھڑاسکتے تھے مگر افسوس کہ مسلمانوں کے حکمراں طبقے کی غالب اکثریت ایسی مجرمانہ غفلت کی شکار رہی اور جھوٹی مصلحتوں اور عارضی لذتوں کے وہ ایسے دلدادہ رہے کہ ان کی ساری حس ہی مردہ ہوکر رہ گئی، بقول شاعر
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اور جب کوئی قوم اس درجہ بے حسی کا شکار ہوجاتی ہے تو زندگی کی ساری رعنائیاں اس سے رخصت ہوجاتی ہیں اور اس میں اور مردہ جسم میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ ... قرآن حکیم نے اس قومی زوال اور اجتماعی بے حسی کو موت کا نام دیا ہے:
اموات غیر احیاء و ما یشعرون ایان یبعثون (النمل:۲۱)
ترجمہ: ”یہ زندوں کی آبادی نہیں بلکہ مردوں کی بستی ہے، جو اٹھنے اور اٹھائے جانے سے بے خبر پڑے ہیں“
آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے عمومی زوال کا بڑا سبب یہ ہے کہ اپنے چشمہ حیات سے ان کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے انھوں نے اس قانونی نظام کو سردخانے میں ڈال دیا ہے، جو نہ صرف ان کی زندگی و تشخص کو ضمانت فراہم کرتا ہے بلکہ ساری انسانیت کی حیات وارتقا کا راز بھی اس میں پوشیدہ ہے، مسلمانوں کی مثال اس کائنات ارضی میں دل کی ہے دل سے صالح خون جاری ہوگا تو سارے عالم کا نظام درست رہے گا اور دل کا نظام کمزور ہوگا تو سارے عالم پر اس کا اثر پڑے گا۔ لیکن مسلمان اپنا یہ مقام بھول گئے ان کو اپنی حقیقت کا عرفان نہ رہا انھیں یاد نہ رہا کہ وہ کس خدائی منصب اور خدائی نظام کو لے کر اس انسانی دنیا میں آئے ہیں؟ انسانیت کتنی پیاسی ہے؟ قوموں کو ان کی کتنی ضرورت ہے؟ انھوں نے اپنے اوپر غفلت وخود فراموشی کی چادر تان لی اور اقوام عالم کو وادیٴ ظلمات میں جنگل کی بھیڑ کی طرح بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا، بلکہ وہ بھی دنیا کی دوسری قوموں کی طرح مادہ پرستی، دنیا طلبی، بدمستی وعیش کوشی کے میدان میں کود پڑے اور ابلیسی نظام یہی چاہتا تھا کہ دوسروں کو جگانے والی قوم خود سوجائے، بارخلافت اٹھانے والی جماعت خود تھک کر بیٹھ جائے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سوتا خشک ہوکر رہ جائے۔
بقول ڈاکٹر اقبال۔
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
کاش کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی کہ مسلمان پھر اپنے گھر کی طرف پلٹیں، اپنا کھویا ہوا خزانہ واپس لیں، انھیں ایسی آنکھ نصیب ہو کہ وہ ہیرے موتی اور کنکر پتھر میں فرق کرسکیں اور وہ پوری بصیرت کے ساتھ جان سکیں کہ انسانوں کا بنایا ہوا مصنوعی نظام کبھی خالق کائنات کے عطا کردہ قانونی نظام کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا پھر یہ کیسی نادانی ہے؟ کہ خالق کا آستانہ چھوڑ کر دنیا مخلوق کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔
اولٰئک یدعون الی النار واللّٰہ یدعو الی الجنة (البقرة:۲۲۱)
ترجمہ: ”دنیا والے آگ کی طرف بلارہے ہیں اور اللہ تمہیں جنت کی طرف پکاررہا ہے“
مگر اکثر لوگ رحمن کی پکار کے بجائے شیطان کے بلاوے پر کان دھررہے ہیں۔ (قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز، ج:۱، ص:۵۵-۵۷)
اسلامی قانون کا مزاج
اس ضمن میں ہمیں اسلامی قانون کے مزاج کو اپنے پیش نظر رکھنا بہت مفید ہوگا اس طرح اسلامی قانون کی افادیت اور اہمیت کو ہم اور اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں:
اسلامی قانون میں تمام اقوام عالم اور دنیا کے ہر خطے کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت رکھی گئی ہے، اسی مقصد کے پیش نظر اسلامی قانون کی تشکیل کے وقت چند بنیادی امور کا لحاظ کیا گیا جن سے اسلامی قانون کے ذوق ومزاج پر روشنی پڑتی ہے مثلاً:
* پورا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیا جائے جو عام لوگوں کیلئے ناقابل برداشت ہو۔
* عید اور تہوار منانے کی خواہش ہر قوم کے اندر موجود ہے اس جذبہ کی قدردانی کرتے ہوئے سال میں دودن قومی عید کیلئے مقرر کئے گئے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب وزینت کرنے کی اجازت دی گئی۔
* عبادات میں طبعی رغبت ومیلان کو اہمیت دی گئی اور ان تمام محرکات وعوامل کی اجازت دی گئی جو اس میں معاون ومددگار ثابت ہوں بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو۔
* جو چیزیں طبع سلیم پر گراں گذرتی ہیں ان کو ممنوع قراردیا گیا۔
* تعلیم وتعلّم اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو دائمی شکل دی گئی تاکہ انسانی طبائع کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی رہے۔
* بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کئے گئے تاکہ انسان اپنی سہولت کے مطابق جس کو چاہے اختیار کرے۔
* بعض احکام میں رسول اللہ عليه وسلم سے دو مختلف قسم کے عمل منقول ہیں اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔
* بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا۔
* احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقا کو ملحوظ رکھا گیا، یعنی ایک ہی وقت میں تمام احکام نافذ نہیں کردئیے گئے اور نہ ساری پابندیاں عائد کردی گئیں۔
* تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی خاص رعایت رکھی گئی۔
* نیکی کے زیادہ تر اعمال کی مکمل تفصیل بیان کردی گئی اور اس کو انسانوں کی فہم پر نہیں چھوڑا گیا ورنہ بڑی دشواری پیش آتی۔
* بعض احکام کے نفاذ میں حالات ومصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص وافراد کی۔
قرآن وحدیث میں متعدد صراحتیں اور ا شارات ایسے موجود ہیں جن سے مندرجہ بالا اصولوں پر روشنی پڑتی ہے، مثلاً:
فبما رحمة من اللّٰہ لنت لہم ولو کنت فظاً غلیظ القلب لانفضوا من حولک (آل عمران: ۱۷)
ترجمہ: ”اللہ ہی کی رحمت سے آپ ان کے لئے اتنے نرم دل ہیں، اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے چلے جاتے۔“
لا یکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا (بقرة: ۲۸۶)
ترجمہ: ”اللہ کسی شخص کو اس کی قدرت وطاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا“
یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر (بقرة: ۱۸۵)
ترجمہ: ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے دشواری اور تنگی نہیں چاہتا۔“
وما جعل علیکم فی الدین من حرج (الحج:۷۸)
ترجمہ: ”اللہ نے دین کے معاملے میں تمہارے لئے کوئی تنگی نہیں رکھی“
ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطہرکم (المائدة:۶)
ترجمہ: ”اللہ نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی دشواری میں مبتلا کرے بلکہ اس کا مقصد تم کو پاک وصاف کرنا ہے۔“
رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے حضرت موسیٰ اشعری رضى الله تعالى عنه اور حضرت معاذ بن جبل رضى الله تعالى عنه کو دینی معاملات کا انتظام سپرد کرتے وقت فرمایا:
یسرا ولا تعسرا ولا تنفرا تطاوعا ولا تختلفا (متفق علیہ: مشکوٰة ۳۲۳ باب ما علیٰ الولاة من التیسیر)
ترجمہ: آسانی پیداکرو، مشکل میں نہ ڈالو، رغبت دلاؤ، نفرت نہ دلاؤ، جذبہٴ اتحاد واتفاق کو فروغ دو۔
ایک اور موقعہ پر ارشاد فرمایا:
بعثت بالحنفیة السمحة (رواہ احمد: مشکوٰة شریف: ۳۳۴ الجہاد)
ترجمہ: میں آسان دین حنیف دے کر بھیجا گیا ہوں۔
مجمع الزوائد: 2/263-5/282-4/305
المحدث : ابن حجر العسقلاني | المصدر : كشف الستر
الصفحة
أو الرقم: 37 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
الراوي : أبو أمامة الباهلي | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الصحيحة
الصفحة
أو الرقم: 2924 | خلاصة حكم المحدث : جاء مفرقا عن جمع من الصحابة
المحدث : ابن باز | المصدر : مجموع فتاوى ابن باز
الصفحة
أو الرقم: 228/2 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : أحمد شاكر | المصدر : عمدة التفسير
الصفحة
أو الرقم: 1/223 | خلاصة حكم المحدث : [أشار
في المقدمة إلى صحته]
المحدث : الشوكاني | المصدر : السيل الجرار
الصفحة
أو الرقم: 1/149 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
يني
الحنبلي | المصدر : كشف اللثام
الصفحة
أو الرقم: 4/367 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
الراوي : عائشة أم المؤمنين | المحدث : محمد جار الله الصعدي | المصدر : النوافح العطرة
الصفحة
أو الرقم: 63 | خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
الراوي : [عائشة] | المحدث : الزرقاني | المصدر : مختصر المقاصد
الصفحة
أو الرقم: 193 | خلاصة حكم المحدث : حسن
لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام (ابن ماجہ: ۳۴۰ مستدرک حاکم ج۲ ص ۵۷،۵۸)
ترجمہ: اسلام میں نہ کسی کو تکلیف پہنچانا ہے اور نہ خود تکلیف اٹھانا ہے۔
مسواک کے بارے میں رسول اللہ … نے ارشاد فرمایا:
لولا ان اشق علی امتی لامرتہم بالسواک عند کل صلوٰة (المشکوٰة: ۴۵ باب سنن الوضوء)
ترجمہ: اگر مجھے اسے بات کااندیشہ نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں پڑجائے گی تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا وجوبی حکم دیتا۔
کعبہ میں ترمیم نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا:
لولا حدثان قومک بالکفر لہدمت الکعبة ثم لجعلت لہا بابین (الحدیث) (مسند احمد ص ۱۸۹۶ حدیث نمبر ۲۵۹۵۲)
ترجمہ: اگر میری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی تو میں کعبہ کو توڑ کر اساس ابراہیمی پر اس کے دروازے بنادیتا (اور حطیم کو اس میں شامل کرتا)
آپ کا عام دستور تھا کہ جب آپ کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلى الله عليه وسلم اس میں آسان تر کو اختیار فرماتے بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہوتا۔
وما خیر رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم الا اختار أَیْسرہما مالم یکن اثماً . (متفق علیہ: مشکوٰة:۵۹۱، مسند احمد بروایت حضرت عائشہ ص ۱۸۳۷ حدیث نمبر ۲۵۰۵۶)
ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه نے حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے پوچھا کہ دین میں تنگی نہ ہونے کا کیا مطلب ہے جب کہ ہم کو بدکاری، چوری اور دوسری بہت سی سفلی خواہشات کی چیزوں سے روک دیاگیا ہے، حضرت ابن عباس نے جواب دیا تنگی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ سخت قسم کے احکام کا جو بوجھ بنی اسرائیل پر تھا وہ اس امت پر نہیں ہے۔ (کشاف ص ۲۹۲، تفسیر کبیر ج۶ ص ۱۲۸)
ان آیات واحادیث سے اسلامی قانون کا مزاج سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے اور عام انسانی مفادات کیلئے اس میں کتنی گنجائش ہے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں اسلامی قانون میں جو جامعیت، ابدیت، معنویت، زندگی، نفاست وحس اور ہر دور کے حالات پر اس کی تطبیقی صلاحیت پائی جاتی ہے وہ دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہے اسی لئے ہر زمان ومکان میں اسی کو قیادت کا حق بنتا ہے۔
اسلامی قانون کے اس امتیاز کو درج ذیل عنوانات کے تحت سمجھا جاسکتا ہے۔
قانونی حیثیت
سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسانی قانون کی توثیق وتصدیق انسانی جماعت یا انسانی عدالت کرتی ہے اس کے بغیر وہ قانون بن ہی نہیں سکتا، جبکہ اسلامی قانون کی تصدیق خود رب کائنات کرتا ہے، دنیاکی عدالت اس کو مانے یا نہ مانے اس کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تقدیس کا پہلو
انسانی قانون اپنے لئے کوئی تقدیس کا پہلو نہیں رکھتا، یہ لوگوں کے جسموں پر حکومت کرتا ہے دلوں پر نہیں، جبکہ اسلامی قانون اپنے ماننے والوں کے نزدیک ایک مقدس ومحترم قانون ہے، یہ انسانوں کے لئے خدا کا عطیہ ہے، اس طرح یہ جسموں کے ساتھ دلوں پر بھی حکومت کرتا ہے اور سوسائٹی کے ظاہر وباطن دونوں سے بحث کرتا ہے۔
مثبت ومنفی فرق
انسانی قانون کی تعمیر عموماً منفی بنیادوں پر ہوئی ہے، یہ اکثر رد عمل کے نتیجہ میں وجود پذیر ہوتا ہے، اسی لئے افراد کی تعمیر، اخلاقیات، تزکیہٴ نفس اور تطہیر وتربیت کے ابواب میں یہ کوئی رہنمائی نہیں کرتا، جبکہ اسلامی قانون زیادہ تر مثبت اصولوں پر چلتا ہے، اور اعمال سے زیادہ اسباب ومحرکات پر نگاہ رکھتا ہے اور اسی کی روشنی میں یہ قانون سازی کرتا ہے۔
قانونی معنویت
انسانی قانون کی بنیاد محض خاندانی رسوم وروایات اور علاقائی عرف وعادات پر ہے اس لئے اس میں تعصبات وتنگ نظری کی تمام آلودگیاں موجود ہیں اس میں علمی اور فلسفیانہ بنیادوں کی آمیزش نہیں ہے، جبکہ اسلامی قانون کی بنیاد روز اوّل ہی سے انسانی فطرت اور ہدایت الٰہی پر ہے، یہ ابتداہی سے عالمگیر اور فلسفیانہ بنیادوں پر تعمیرہوا ہے، انسانی قانون ہزاروں سال کے ارتقاء کے بعد جس منزل پر پہنچے گا اسلامی قانون کا پہلا قدم ہی وہاں سے اٹھا ہے۔
قانونی وحدت
قانون میں وحدت ویکسانیت بھی ایک ضروری چیز ہے انسانی قانون میں اصل کے لحاظ سے وحدت ویکسانیت موجود نہیں ہے اس لئے کہ اس کے سرمایے میں خاندانی روایات اور قومی عرف وعادات کا بڑا حصہ ہے جو ہر علاقہ اور خاندان کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں... جبکہ اسلامی قانون شروع سے وحدت کے اصول پر قائم ہے اس لئے کہ اس کی بنیاد رسم وروایات کے بجائے ہدایت الٰہی پر ہے، حضرت آدم عليه السلام سے لے کر حضور صلى الله عليه وسلم تک تمام انبیاء کے قوانین ایک ہی وحدت کے ساتھ وابستہ ہیں، خود قرآن اس کی شہادت دیتا ہے۔
شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ أن أقیموا الدین ولا تفرقوا فیہ (شوریٰ:۱۳)
ترجمہ: تمہارے لئے بھی اسی دین کو مشروع کیا ہے جس کی تعلیم نوح کو دی تھی اور اے پیغمبر! یہ بھی جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور یہی دین ہے جس کی تعلیم ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دی تھی کہ اس دین کو قائم کریں اور اس میں اختلاف نہ کریں۔
سرچشمہٴ قانون
اسی طرح انسانی قانون چند انسانی ذہنوں کی پیداوار ہے جبکہ اسلامی قانون خود خالق کائنات کا دیا ہوا عطیہ ہے اور آج اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ انسان کبھی خود اپنے لئے قانون مرتب نہیں کرسکتا، اس لئے کہ انسان محدود علم واحساس رکھتا ہے وہ کروڑوں انسانوں کی نفسیات کا قدر مشترک معلوم نہیں کرسکتا اور تمام لوگوں کے احساسات وطبائع کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون سازی ہرگز نہیں کرسکتا، قانون خواہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ بنایا جائے مگر اس میں طبعی میلانات اور ذاتی رجحانات کا اثر ناگزیر طور پر آئے گا... اس لئے قانون سازی کا حق صرف خالق کائنات کو ہے۔
قانون جماعت سے یا جماعت قانون سے؟
انسانی قانون اور اسلامی قانون کے درمیان ایک اصولی فرق یہ بھی ہے کہ انسانی قانون میں قانون جماعت سے موٴخر ہوتا ہے، سوسائٹی پہلے ہوتی ہے اوراس کی تنظیم کیلئے قانون بنایا جاتا ہے، قانون جماعت کو پیدا نہیں کرتا....
جبکہ اسلام میں قانون جماعت سے مقدم ہے جماعت کے وجود اور اس کے حالات پر قانون کا انحصار نہیں ہوتا بلکہ قانون پہلے بنتا ہے اس کے مطابق جماعت کی تعمیرہوتی ہے، اگر حالات سازگار نہیں ہیں تو ان کی اصلاح کی جاتی ہے اور ان کو نفاذ قانون کے لائق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر حالات کی بنا پر قانون نہیں بدلا جاسکتا۔
نفاذ کی قوت
انسانی قانون قوت نفاذ کے لحاظ سے بھی کمزور واقع ہوا ہے اسے اپنے افراد پر مکمل قابو نہیں ہوتا اور نہ تنہا قانون جرائم کے انسداد کے لئے کافی ہوتا ہے اس کو اپنے کسی بھی قانون کے عملی نفاذ کے لئے مضبوط مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے اسی لئے اس قانون میں مجرمین کے بچ نکلنے کے بہت سے امکانات موجود ہوتے ہیں۔
اس کے برخلاف اسلامی قانون کا آغاز ہی فکر آخرت اور حلال و حرام کے احساس سے ہوتا ہے وہ انسانی ضمیر کی تربیت کرتا ہے اور اس کے ظاہر وباطن کو قانون کیلئے تیار کرتا ہے، وہ اپنے ہر شہری کے دل ودماغ میں یہ احساس راسخ کرتا ہے کہ
کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ. (متفق علیہ ریاض الصالحین للنواوی ج۱ ص ۱۴۵)
ترجمہ: ”تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی متعلقہ ذمہ داری کے بارے میں باز پرس ہوگی۔“
انما انا بشر وانہ یاتینی الخصم فلعل بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعض فاحسب انہ صدق فاقضی لہ بذٰلک فمن قضیت لہ بحق فانما ہی قطعة من النار فلیأخذہا او لیترکہا (متفق علیہ مشکوٰة باب الاقضیہ والشہادات: ۳۲۷)
ترجمہ: ”میں ایک انسان ہوں، میرے پاس مقدمات آتے ہیں، ممکن ہے کہ کوئی فریق اپنے مدمقابل سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کے ظاہری دلائل کی بنا پر اس کو سچ گمان کروں اور اس کے حق میں فیصلہ کردوں اس لئے اگر میں کسی بھائی کیلئے دوسرے مسلمان بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں تو محض فیصلہ کی بنا پر وہ درست نہیں ہوجائے گا وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہوگا جو چاہے لے اور جو چاہے چھوڑ دے۔“
انسانی قانون نہ صرف یہ کہ نگرانی اورحق پرستی کی اس عظیم قوت سے محروم ہے بلکہ اس کا تصور بھی اس کے دامن خیال میں نہیں ہے۔
اسلامی قانون میں انسانی نفسیات کی رعایت
اسلامی قانون فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اس میں انسانی طبائع اورنفسیات کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے قرآن کی آیت ذیل میں اسی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:
فاقم وجہک للدین حنیفاً فطرة اللّٰہ التی فطر الناس علیہا لاتبدیل لخلق اللّٰہ ذٰلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لایعلمون (الروم:۳۰)
ترجمہ: ”پس پوری یکسوئی کے ساتھ اس دین کی طرف متوجہ ہوجاؤ جو اللہ کی اس فطرت کے عین مطابق ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں“
انسانی قانون میں کبھی بھی تمام انسانی طبائع اور تقاضوں کی رعایت ممکن نہیں ہے اس کی بیشمار مثالیں موجود ہیں (تفصیل کے لئے مطالعہ کریں حقیر راقم الحروف کی کتاب ”قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز،ج۱،ص۲۵۱-۲۵۴)
اسلامی قانون میں انسانی مصالح کی رعایت
اسلامی قانون کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں انسانی مصالح کو قانونی اساس کا درجہ حاصل ہے انسانی مصالح سے مراد پانچ امور ہیں... جان ... دین... نسل... عقل... اور مال، ان پانچوں چیزوں کی حفاظت سے متعلق تمام چیزیں مصالح انسانی میں داخل ہیں، دین ودنیا کے معاملات کا مدار انہی پر ہے اورانہی کے ذریعہ فرد اور جماعت کے جملہ مسائل کی نگرانی ہوتی ہے، تفصیل کیلئے مذکورہ بالا کتاب کا مطالعہ کیاجائے۔
آج دنیا کو پھر اسی قانون کی ضرورت ہے
مذکورہ بالا وجوہات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انسانی دنیا کی رہنمائی آج بھی اسلامی قانون ہی کے ذریعہ ممکن ہے، اسلام ایک مکمل دین اور مکمل قانون ہے یہ ساری انسانیت کیلئے ایک فطری قانون ہے...
صدیوں سے انسان قانون سازی کے میدان میں کوشش کررہا ہے اگرچے کہ اس میں الٰہی قوانین سے بڑی حد تک استفادہ کیاگیاہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا مکمل قانون وضع نہ کیا جاسکا جس کو ناقابل ترمیم قرار دیا جائے اور انسانی جذبات وافعال کا مکمل آئینہ دار اس کو کہا جاسکے... یہ صرف قانون اسلامی ہے جو اپنے کو کامل ومکمل بھی کہتا ہے اور ناقابل تنسیخ بھی قرار دیتا ہے۔
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (مائدة:۳)
ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور بحیثیت دین اسلام کو پسند کیا“
ونزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شیء وہدیً ورحمة وبشریٰ للمسلمین (الاعراف:۵۲)
ترجمہ: ”اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا واضح بیان اور مسلمانوں کے لئے ہدایت ورحمت وبشارت موجود ہے۔“
قرآن ایسے اصول وکلیات سے بحث کرتا ہے جن پر ہرزمانہ اور ہر خطہ میں پیش آنے والی جزئیات کو منطبق کیا جاسکتا ہے اور ہر دور کے حالات وواقعات میں قرآنی نظائر وامثال سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے، قرآن کا یہ دعویٰ واقعات وتجربات کی روشنی میں بالکل درست ہے۔
ولقد ضربنا للناس فی ہذا القرآن من کل مثل (زمر:۲۷)
ترجمہ: ”اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کیلئے ہر طرح کی مثالیں بیان کردی ہیں“
اوراس کا اعتراف اپنے الفاظ میں قانون کے مغربی ماہرین نے بھی کیاہے کہ شریعت اسلامی میں زندگی کے تمام مسائل ومشکلات کے حل کی پوری صلاحیت موجود ہے، متعدد سیمیناروں میں ان ماہرین نے باقاعدہ یہ قرار داد منظور کی کہ شریعت اسلامی بھی قانون سازی کے عام مصادر میں سے ایک مصدر ہے، اس میں ارتقاء کی پوری صلاحیت موجود ہے اور یہ قرار داد قانون مقارن کی بین الاقوامی کانفرنس ۱۹۳۱/ منعقدہ لاہای) میں منظور ہوئی، پھر اس کی تجدید اسی شہر میں ہونے والی دوسری کانفرنس (۱۹۳۷/) میں ہوئی، نیز اسی طرح کی ایک قرار داد وکلاء کی بین الاقوامی کانفرنس (منعقدہ لاہای ۱۹۴۸/) میں بھی منظور ہوئی۔
حقوق مقارنہ کی بین الاقوامی اکیڈمی کے شعبہٴ شرقیہ نے ۱۹۵۱/ میں پیرس یونیورسٹی کے کلیة الحقوق میں ”ہفتہٴ فقہ اسلامی“ کے نام سے ایک کانفرنس منعقد کی، اس میں حقوق کے تمام کالجوں کے عرب وغیر عرب اساتذہ، ازہر کی کلیات کے اساتذہ اور فرانس اور دیگر ممالک میں وکالت اور استشراق سے وابستہ متعدد ماہرین کو دعوت دی گئی، اس میں مصر سے ازہر اور حقوق کی کلیات کے چار ارکان نے اور سوریا کے کلیة الحقوق سے دو ارکان نے نمائندگی کی ... مناقشات کے دوران ان کے بعض ارکان جو سابق میں پیرس میں وکالت کے نقیب رہ چکے تھے اٹھ کر کھڑے ہوئے اور کہا کہ:
”میں حیران ہوں کہ کیسے تطبیق دوں اس کہانی کے درمیان جو اب تک سنی جاتی تھی اور آج کے اس انکشاف کے درمیان، ایک زمانہ تک یہ باور کرایاگیا کہ اسلامی فقہ ایک جامد اور غیرترقی پذیر قانون ہے اس میں قانون سازی کی اساس بننے اور عصر جدیدکی ترقی یافتہ تغیر پذیر دنیا کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے جبکہ آج کے محاضرات ومناقشات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی قانون کے تعلق سے یہ مفروضہ بالکل بے بنیاد ہے اور دلائل و براہین اس کے خلاف ہیں۔
چنانچہ ہفتہ فقہ اسلامی کے اختتام پر اس کانفرنس نے درج ذیل تجاویز منظور کیں:
* حقوق کے بارے میں قانون سازی کے نقطئہ نظر سے فقہ اسلامی کے سرچشموں کی بڑی اہمیت ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
* حقوق کے اس عظیم مجموعے میں مذاہب فقہیہ کا اختلاف دراصل معانی ومفاہیم اور اصول وکلیات کا بڑا سرمایہ ہے جو مقام حیرت ومسرت ہے اور جن کی وجہ سے فقہ اسلامی زندگی کے تمام تر جدید تقاضوں اور قانونی ضروریات کی تکمیل کرسکتی ہے۔ (قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز ج۱ ص ۲۷۲-۲۷۴)
ان سیمیناروں نے عرب کے ماہرین قانون کو موجودہ قوانین پر نظر ثانی کی دعوت دی اور ان کے ذہنوں کو اس جانت متوجہ کیا کہ شریعت اسلامیہ ایک ترقی پذیر اور ہر زمانہ اور ہر خطہ کے مسائل وجزئیات کی تطبیق دینے والی ابدی شریعت ہے اور جو لوگ دنیاکو شریعت اسلامی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں اوراحکام اسلامی کے علاوہ کسی قانون کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ان کا دعویٰ درست ہے۔
ان سیمیناروں اور کانفرنس کے بڑے خوشگوار اثرات قانونی دنیا پر پڑے اور پوری دنیا قانونی رہنمائی کے لئے شریعت اسلامی کی طرف متوجہ ہوگئی مثلاً منحرف مصر نے اپنا جدید قانون تمدن تیار کیا تو اسلامی قانون کو ایک بڑے مآخذ کی حیثیت سے سامنے رکھا اور اس سے خاصا استفادہ کیا، مصر نے اسلامی فقہ کو عام سرکاری مآخذ میں سے ایک مآخذ تسلیم کیاہے (تفصیل کے لئے دیکھئے ڈاکٹر احمد فراج حسین کی کتاب ”تاریخ الفقہ الاسلامی ص ۱۸)
اس کے بعد متحدہ عرب جمہوریات نے جب اپنا دستور مرتب کیا تو اس میں شریعت اسلامیہ کو تشریعی اساس قرار دیا۔
اسی طرح مصر کی حکومت نے جب دوبارہ اپنے دستور کی ترتیب کا کام انجام دیا تو اس نے ہر قانون میں اسلامی احکام کے التزام کی ہدایت دی اور اس کو دستور کا لازمی جزو قرار دیا۔
اگر یونیورسٹیوں میں تحقیق وریسرچ کے شعبہ میں اسلامی قانون کو مطالعہ کا خاص موضوع بنایا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ دنیا کے تمام قوانین اس کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے۔
چنانچہ عربی یونیورسٹیوں کے اتحاد نے متعلقہ تمام کالجوں کے ذمہ داروں کو اس کیلئے دعوت دی تاکہ مذکورہ احساسات کو عملی شکل دی جاسکے ... اس سلسلے میں مورخہ ۲۴،۳۰/اپریل ۱۹۷۳ء کو بیروت یونیورسٹی میں پہلی کانفرنس ہوئی اور اس کانفرنس نے یہ اپیل کی کہ بلاد عرب کی تمام کلیات الحقوق میں شریعت اسلامیہ کو قانون کے سرکاری مآخذ کی حیثیت سے تحقیق و دراست کا موضوع بنایا جائے۔
دوسری کانفرنس مارچ ۱۹۷۴ء میں بغداد یونیورسٹی میں ہوئی اس میں اس کے مختلف پہلوؤں پر مناقشہ کیاگیا اور کافی بحث وتمحیص کے بعد بعض سفارشات منظور ہئیں ان میں اہم ترین حصہ وہ ہے جو ملک کے دستوری حقوق کی روشنی میں شریعت اسلامیہ کو قانون سازی کا مرکزی مآخذ بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔ (تفصیل کیلئے ملاحظہ کریں ڈاکٹر فراج حسین کی کتاب تاریخ الفقہ الاسلامی ص ۱۹-۲۰)
اس طرح کی کوششیں چھوٹی بڑی سطح پر بار بار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی قانون کے تعلق سے غلط فہمیاں دور ہوں اور دنیا پھر اسلامی قانون سے استفادہ کے قابل ہوسکے۔
مذہبِ اسلام مکمل دستورِ زندگی اور کامل نظامِ حیات کا ضامن ہے، قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہبری کا سامان مہیا کرتا ہے، اس کے بنیادی اصول وضوابط اٹل ضرور ہیں؛ مگر تغیر پذیر دنیا میں ہر انقلاب سے نمٹنے کی صلاحیت بھرپور رکھتا ہے، یہی تو اس کا امتیاز ہے کہ زمان ومکان سے ماوراء ہوکر بھی ممکن حد تک سہولت پر مبنی قانون کی لافانی قوت سے ہر موڑ پر دست گیری کرتا رہتا ہے، اس دین کا خاص لقب ہی اَلْحَنِیْفِیَّةُ السَّمْحَةْ (یعنی سیدھا اور آسان مذہب) ہے جو معتدل مزاج بناکر زندگی کے ہر گوشہ کو سیراب رکھتا ہے۔ ظاہرِ اسلام سے وابستہ ہوکر زندگی کا ایک خاص رخ متعین ہوتا ہے جو ”من چاہی“ کے بجائے ”رب چاہی“ پر مرکوز ہوتا ہے، قانونِ الٰہی ہر موڑ پر اپنی بالادستی باقی رکھتا ہے، جس پر عمل پیرا ہونا عموماً نفس انسانی پر شاق گزرتا ہے، اور ایسا بوجھ جو بشری وسعت سے باہر ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ڈالا ہی نہیں، قرآنِ کریم نے صاف لفظوں میں اعلان کردیا:
لاَیُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا (بقرہ:۲۸۶)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی سکت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔
”وسع“ کی تفسیر امام رازی (محمد فخرالدین بن علامہ ضیاء الدین متوفی ۶۰۴ھ) اور علامہ زمخشری (جار اللہ محمود بن عمر متوفی ۵۳۸ھ) وغیرہ نے بڑی وضاحت سے کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ: ”وسع“ کا مطلب ہے جسے انسان وسعت وسہولت کے ساتھ کرسکے، جسے کرنے میں اسے تنگی اور گھٹن پیش نہ آئے، اللہ تعالیٰ انسان کو اسی چیز کا مکلف بناتا ہے جسے انسان پوری توانائی صرف کیے بغیر آسانی سے کرسکتا ہے۔ (تفسیر رازی:۴/۱۵۱، مطبوعہ: دارالفکر بیروت، تفسیر کشاف ۱/۴۰۸ مطبوعہ: مطبع مصطفی البانی، مصر ۱۹۷۲/)
اسی طرح متعدد آیات ہیں جن میں ”حرج و تنگی“ کو اس امت سے اٹھالینے کا مژدہ سنایاگیا ہے، مثال کے طور پر قرآن وضو کی تعلیم کے بعد کہتا ہے:
مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن (مائدہ:۶)
ترجمہ: اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی کرے؛ لیکن چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور پورا کرے اپنے احسان تم پر؛ تاکہ تم احسان مانو۔
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:
وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِي الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ (حج:۷۸)
ترجمہ: تمہارے اوپر دین میں تنگی کو مسلط نہیں کیا۔
اس قسم کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی بنیادی خوبی سہولت و آسانی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے ماننے والوں کو سمجھایا: انَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ․ (بخاری:۱/۳۵ ”کتاب الوضو“ باب صب الماء علی البول فی المسجد)
(تم آسانی پیدا کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو، دشواری میں ڈالنے والے بناکر نہیں بھیجے گئے) آپ کا طریقہٴ کار بھی کچھ اسی طرح تھا روایت ہے:
مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بَیْنَ الأَمْرَیْنِ الاّ اخْتَارَ أیْسَرَہُمَا مَالَمْ یَکُنْ اثْمًا، فَانْ کَانَ اثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ (ابوداؤد:۲/۶۶۰، کتاب الأدب، باب في العفو والتجاوز)
(جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں کے مابین اختیار دیاگیا تو آپ نے سہولت والے امر کو اختیار کیا، اِلاّ یہ کہ وہ گناہ کا کام ہو (بایں طور کہ گناہ کا ذریعہ بن رہا ہو) تو ایسے موقع پر بہت دور بھاگنے والے تھے)
ذخیرئہ حدیث میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ آپ علیہ الصلاة والسلام نے محض اس وجہ سے خفگی کا اظہار فرمایا کہ سہولت سے اعراض کرکے پُرمشقت عمل کو اختیار کیاگیا، حضرت مُعاذ بن جبل اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابہ میں ہونے کے باوجود جب ایک موقع پر سہولت کو چھوڑ کر ایسے عمل کو اختیار کرتے ہیں جس میں بظاہر عند اللہ محبوبیت بھی ہوتی ہے؛ مگر عام لوگوں کے لیے شاق ہوتا ہے، تو فوراً دربارِ رسالت سے ڈانٹ پڑتی ہے۔
حدیث کی متداول کتابوں میں مذکور ہے: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عشاء کی نماز میں ایک مرتبہ لمبی سورت شروع کردی، ایک صاحب جو دن بھر کام کرکے چور ہوگئے تھے، محض اس خیال سے کہ نماز لمبی ہوجائے گی، اپنی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل گئے، لوگوں نے چہ می گوئی کی ، تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی جس پر ڈانٹ کے الفاظ تھے:
یَا مُعَاذُ! أَفَتَّانٌ أَنْتَ، (بخاری: ۱/۹۸، کتاب الصلاة، باب: من شکا امامہ ایٴا طوّل) (اے معاذ! کیا فتنے میں مبتلا کرنے والے ہو)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا قصہ فجر کا ہے، راوی کا بیان ملاحظہ فرمائیں:
مَا رَأیْتُہ غَضِبَ فِيْ مَوْعِظَةٍ کَانَ أَشَدَّ غَضَباً مِنْہُ یَوْمَئِذٍ․ (بخاری: ۱/۹۸، کتاب الصلاة، باب: من شکا امامہ اذا طوّل) (میں نے نصیحت کرنے میں اس موقع سے زیادہ حالتِ غضب میں کبھی نہیں دیکھا)
ایک دوسری روایت میں سہولت سے اعراض کرنے کے عواقب کو بیان کرتے ہوئے تنبیہ فرمائی: انَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَ الدِّیْنَ أَحَدٌ الاّ غَلَبَہ (بخاری: ۱/۱۰، کتاب الایمان، باب: الدین یسر) (دین کی بنیادی خوبی تو آسانی میں ہے، جو بھی دین میں شدت اختیار کرتا ہے تو مغلوب ہوجاتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ نتیجتاً چھوڑ دیتا ہے)
اور ارشاد ہے: عَلَیْکُمْ مِنَ الأعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ فانَّ اللّٰہَ لاَ یَمُلُّ حَتّٰی تَمُلُّوْا (بخاری:۱/۱۱، کتاب الایمان، باب: احب الدین الی اللہ عز وجل أدومہ) (تم ایسے اعمال اختیار کرو جو تمہارے بس میں ہوں؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک ثواب دینا بند نہیں کرتا؛ جب تک کہ تم بھاری سمجھ کر چھوڑ نہ دو)
انھیں آیات و احادیث کو بنیاد بناکر فقہاء نے ”اَلْمَشَقَّةُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ“ (مشقت آسانی پیدا کرتی ہے) جیسے مختلف اصول بھی متعین کیے ہیں، جن کو ان آیات واحادیث کے بھرپور ترجمان بھی کہہ سکتے ہیں۔
نیز اسی زریں قانونِ یسر وسہولت پر کاربند رہتے ہوئے الٰہی قانون پر عمل کرکے اللہ کے ماننے والوں نے دنیا کے اسلام مخالف طاقتوں کو چنے چبوائے، اور ہر میدانِ عمل میں سرخروئی، ہر کارزار میں فتح مندی، اور زندگی سے وابستہ سماجی، اقتصادی ومعاشی ہر شعبے میں اپنے وپرائے کی دل پذیری سمیٹ کر دنیا پر راج کیا، معاشرت کی بکھری اور منتشر زلفوں کو سنوار کر دنیا کو ایک محکم نظام عطا کیا جس پر آج بھی بڑی حد تک عمل ہورہا ہے۔
تقریباً دو صدی قبل سے مسلمانوں کا سیاسی زوال شروع ہوا، دیکھتے دیکھتے زمامِ اقتدار غیروں کے ہاتھ چلا گیا، اقتصادی ومعاشی دنیا پر یہودی ایجنٹوں کا کنٹرول ہوا، رفتہ رفتہ مسلمانوں کامزاج اسلامی شریعت سے ہٹ کر یورپ کے نظام پر مرکوز ہوکر رہ گیا، اب ماحول کی تبدیلی، سوسائٹی کے بگاڑ، افکار وخیالات کے عدمِ توازن اور غیرقوموں کی مداخلت یا بے جا رواداری سے بہت سے اسلامی احکام پر عمل کرنا بظاہر ناممکن یا تنگی ودشواری کا باعث بن گیا، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مخالف حالات، شدید تر ضرورت اور حرج وتنگی کی وجہ سے شرعی احکام میں کچھ تغیر ہوتا ہے یا نہیں، گنجائش کا پہلو نکلتا ہے یا نہیں، اگر گنجائش کا پہلو ہے تو وہ کون سے احکام ہیں جو یسر و تخفیف کو قبول کرتے ہیں، اور کون سے احکام ہیں جو تخفیف کو قبول نہیں کرتے، ظاہر ہے نہ تو لوگوں کو آزاد چھوڑا جاسکتا ہے کہ من مانی کرکے اپنی خواہشاتِ نفس اور محض سہولت پسندی کا نام ضرورت وحاجت رکھ لیں اور نہ ہی غیر معمولی تنگی ودشواری میں ہی مبتلا کرکے اسلام بیزاری میں مبتلا کریں؛ اس لیے ضرورت ہے کہ اصولی طور پر لوگوں کے احوال اور درپیش حالات کے لیے ”ضرورت وحاجت“ کا سانچہ تیار کیا جائے؛ تاکہ بروقت ناپ تول کر شریعت کے مزاج ومذاق سے ہم آہنگ خطوط متعین کیے جاسکیں۔ مندرجہ ذیل سطور میں کوشش کی جائے گی کہ ”ضرورت وحاجت“ سے متعلق ضروری مباحث اختصار کے ساتھ آجائیں۔
”ضرورت وحاجت“ فقہ اسلامی کا وسیع باب ہے، عبادات سے لے کر معاملات تک میں ان کی تاثیر نمایاں ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس کے لغوی واصطلاحی معنی پر غور کرلیا جائے۔
”ضرورت“ لغت میں
”ضرورت“ ضرر سے نکلا ہے، یہ لفظ ”نقصان“ کے ہم معنی نفع کی ضد ہے۔ اس مادہ سے نکلنے والے تقریباً تمام ہی الفاظ میں نقصان کا معنی ملحوظ ہے۔ ”ضریرالبصر“ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے، جس کی بینائی ناقص یعنی کمزور ہو، قرآنِ پاک میں ”ضراء“ کا لفظ اسی مادہ سے ”سراء“ کے بالمقابل استعمال ہوا ہے، ”ضراء“ جانی ومالی نقصان مراد ہے، ابوالدُقَیس کے حوالہ سے علامہ زبیدی حنفی (محب الدین ابی فیض محمد مرتضیٰ) نے تاج العروس میں اور ابن منظور (محمد بن مکرد بن علی انصاری الرویفعی ۷۱۱ھ) نے لسان العرب میں یہ معنی بیان کیا ہے:
مَا کَانَ مِنْ سُوْءِ حَالٍ أَوْ فَقْرٍ أَوْ شِدَّةٍ فِيْ بَدَنٍ فَہُوَ ضَرٌ (تاج العروس: ۳/۳۴۸، لسان العرب: ۹/۳۲، مادہ: ضرر)
(ہرقسم کی بدحالی، وفقر، یا جسمانی مشقت ضرر ہے)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لغت کے لحاظ سے ضرورت کسی بھی ”قابلِ لحاظ نقصان“ کو کہا جاتا ہے، خواہ جسم سے متعلق ہو یا دوسرے انسانی احوال سے۔ صاحب لغة الفقہاء نے شدید حاجت اور لاعلاج مشقت کا نام ضرورت رکھا ہے۔ اَلضَّرُوْرَةُ: اَلْحَاجَةُ الشَّدِیْدَةُ وَالْمَشَقَّةُ الشَّدِیْدَةُ الَّتِيْ لاَ مَدْفَعَ لَہَا․ (لغة الفقہاء: ۲۸۳)(ضرورت نام ہے حاجتِ شدیدہ کا اور ایسی مشقت کا جس کے دفعیہ کے لیے کوئی چیز موجود نہ ہو)
ویسے لغت میں ”ضرورت“ اضطرار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ابن منظور (محمد بن مکرد ابن علی انصاری الرویفعی متوفی ۷۱۱ھ) لیث کے حوالہ سے لکھتے ہیں: اَلضَّرُوْرَةُ اسْمٌ لِمَصْدَرٍ: الاِضْطِرَارُ تَقُوْلُ حملتنی الضرورة علی کذا وکذا (لسان العرب: ۹/۳۳)
(ضرورت، اضطرار کا اسم ہے تم کہتے ہو ضرورت نے مجھے اس پر مجبور کیا)
اسی طرح ضرورت کا معنی لغت میں مطلقاً حاجت کے بھی کیاگیا ہے، علامہ فیروز آبادی (مجدالدین محمد بن یعقوب) لکھتے ہیں: اَلضَّرُوْرَةُ: اَلْحَاجَةُ (القاموس المحیط: ۲/۷۵ مطبوعہ دارالفکر بیروت)
اسی لیے امام راغب (ابوالقاسم حسین بن محمد اصبہانی متوفی: ۵۰۲ھ) نے ضرورت کی مختلف قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: لفظ ضروری کا اطلاق تین طرح ہے: ایک تو جبر وبے اختیاری صورت پر جیسے کہ درخت کو جب تیز وتند ہوا حرکت دے، دوسرے وہ صورت ہے کہ بغیر اس کے اس شئے کا وجود ناممکن ہو، جیسے بدن کی حفاظت کے لیے ضروری خوراک، تیسرے ایسے موقع پر کہا جاتا ہے؛ جب کہ کسی چیز کا اس کے خلاف ہونا ممکن نہ ہو، مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ایک جسم بہ یک وقت دو جگہوں پر یقینا نہیں ہوسکتا۔ (المفردات في غریب القرآن، ص۲۹۶)
جمیل محمد لکھتے ہیں: لغت کی رو سے لفظ ضرورت کے استعمال کے لیے حالت کا کسی خاص معین حد کو پہنچنا ضروری نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل لغت ضرورت کی حاجت سے اور اضطرار کی احتیاج سے، اور اسی طرح حاجت کی ضرورت سے تفسیر کرتے ہیں (نظریة الضرورة، جمیل محمد: ۲۲ بحوالہ: ضرورت وحاجت سے مراد ۲۰۸ مطبوعہ فقہ اکیڈمی)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کا استعمال لغت کے لحاظ سے تین معنی پر ہوتا ہے: (۱) ناقابل لحاظ نقصان (۲) اضطرار (۳) مطلق حاجت۔
ضرورت کی تعریف اصحاب بصیرت علماء کی نظر میں
ضرورت کی بنیادی طور پر دو تعریفیں ہیں، ایک کے حامل علامہ حموی (احمد بن محمد مکی ابوالعباس الحسینی ۱۰۹۸ھ) ابن ہمام (کمال الدین بن محمد بن عبد الاحد متوفی ۶۸۱ھ) علامہ سیوطی (جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر متوفی ۹۱۱ھ) اور ماضی قریب کے شیخ مصطفی زرقاء (متوفی ۱۴۲۰ھ-۱۹۹۹/) ہیں، ان حضرات کی تعریف کا لُبِّ لُباب یہ ہے کہ مصالحِ خمسہ (تحفظ نفس، تحفظ دین، تحفظ مال، تحفظ نسل، تحفظ عقل) میں صرف تحفظ نفس کی بقا جن امور پر موقوف ہو وہی ضرورت ہے۔ علامہ سیوطی (جلال الدین بن عبدالرحمن بن ابی بکر متوفی ۹۱۱ھ) لکھتے ہیں:
فَالضَّرُوْرَةُ بُلُوْغُہ حَدًّا انْ لَمْ یَتَنَاوَلِ الْمَمْنُوْعُ ہَلَکَ أَوْ قَارَبَ (الأشباہ والنظائر للسیوطی، ۱۱۴، مطبوعہ: موٴسسة الکتب الثقافیہ بیروت ۱۴۱۶ھ)
(ضرورت آدمی کا اس حد تک پہنچ جانا ہے کہ اگر ممنوعہ چیز نہ کھائے تو ہلاک ہوجائے یا ہلاکت کے قریب ہوجائے)
ان بزرگوں کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”ضرورت“ اسی اضطرار کے معنی میں ہے جس کو قرآنِ کریم میں فَمَنِ اضّطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ امام ابوبکر جصاص (متوفی ۳۷۰ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: مَعْنَی الضَّرُوْرَةِ ہٰہُنَا ہُوَ خَوْفُ الضَّرَرِ عَلٰی نَفْسِہ أَوْ بَعْضِ أعْضَائِہ بِتَرْکِہ الْأَکْلَ (احکام القرآن للجصاص:۱/۱۸۱، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت ۱۴۳۲ھ)
(یہاں پر ضرورت کا مفہوم یہ ہے کہ ترکِ اکل کی وجہ سے نفس یا کسی عضو کے ہلاک ہونے کا خوف ہو۔ اس کے برخلاف کچھ دوسرے بزرگوں نے جن میں سرِفہرست مالکی فقیہ اور اصولی امام علامہ شاطبی (ابو اسحاق ابراہیم متوفی ۷۹۰ھ) ہیں، انھوں نے تھوڑا توسع اختیار کیا اور ضرورت کا تعلق صرف ہلاکتِ نفس سے ہی نہیں؛ بلکہ حیاتِ انسانی کے پانچ مصالح میں سے کسی پر بھی شدید زد پڑنے والی ہر صورت سے کیا، اور ”ضرورت“ کو ایک اصل کلی قرار دیا جس کی مختلف جزئیات ہیں۔ علامہ شاطبی (ابواسحاق ابراہیم متوفی ۷۹۰ھ) لکھتے ہیں:
ضروری احکام سے مراد وہ احکام ہیں جو دین ودنیا کے مصالح کی بقا کے لیے ناگزیر ہوں، اس طور پر کہ اگر وہ مفقود ہوجائیں تو دنیا کی مصلحتیں صحیح طریقہ پر قائم نہ رہ سکیں؛ بلکہ فساد وبگاڑ اور زندگی سے محرومی کا باعث بن جائیں یا ان کے فقدان سے نجات اور آخرت کی نعمت سے محرومی اور کھلا ہوا نقصان و خسران اٹھانے کا باعث ہو۔(الموافقات: ۲/۴، کتاب المقاصد، النوع الاول، المسئلة الاولیٰ، مطبوعہ: بیروت)
ان کی ہی پیروی کرتے ہوئے شیخ عبدالوہاب خلاّف نے علم اصول الفقہ میں اور شیخ ابوزہرہ نے اصول الفقہ میں ضرورت کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کیاہے، فقہاء واصولیین کے استعمال سے بھی اسی نظریہ کی تائید ہوتی ہے، صاحب ہدایہ مختلف جگہوں پر ضرورت کو بنیاد بناکر مسائل کو مدلل کرتے ہیں، اکثر مواقع پر تحفظِ نفس کے علاوہ دیگر مصالح کا تحفظ واضح طور پر نظر آتا ہے، یہی حال کچھ دیگر مصنّفین کا بھی ہے، نمونہ کے لیے چند عبارتیں پیش کی جارہی ہیں:
(۱) جس جانور میں دم مسفوح (بہتا ہوا خون) نہ ہو، اگر پانی میں گرکر مرجائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا، امام شافعی رحمہ اللہ کا اختلاف ہے ان کی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
لِأنَّ التَّحْرِیْمَ لاَ بِطَرِیْقِ الْکَرَامَةِ آیَةٌ لِلنِّجَاسَةِ بِخِلاَفِ دُوْدِ النَّحْلِ وَسُوْسِ الثِّمَارِ لِأنَّ فِیْہِ ضَرُوْرَةٌ (ہدایہ:۱/۳۷)۔
(اس لیے کہ ایسی تحریم جو بطریقِ کرامت نہ ہو اس کے نجس ہونے کی دلیل ہوتی ہے برخلاف شہد کی مکھی اور پھلوں کے کیڑے کہ اس میں ضرورت ہے)
(۲) قلیل وکثیر کی مقدار متعین کرتے ہوئے مصنف موصوف رقم طراز ہیں:
جَعَلَ الْقَلِیْلَ عَفْوًا لِلضَّرُوْرَةِ وَلاَ ضَرُوْرَةَ فِي الْکَثِیْرِ وَہُوَ مَا یَسْتَکْثِرْہُ النَّاظِرُ الَیْہِ فِي الْمَرْوِيِ عَنْ أبِيْ حَنِیْفَةَ وَعَلَیْہِ الْاعْتِمَادُ (ہدایہ:۱/۴۲، باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء وما لا یجوز بہ) (کنواں میں قلیل مقدارلید قابلِ عفو ہے کہ اس میں ضرورت ہے، کثیر مقدار میں ضرورت نہیں ہے، کثیر مقدار وہ ہے جس کو دیکھنے والے کثیر محسوس کریں، امام ابوحنیفہ سے یہی مروی ہے اور اسی پر اعتماد ہے)
(۳) کتبِ دینیہ کو جنبی کے لیے اپنی آستین سے چھونے میں حرج نہیں ہے؛ جبکہ قرآنِ کریم کو آستین سے مس کرنا مکروہ ہے۔ دلیل بیان کرتے ہوئے صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں: لاِٴنَّ فِیْہِ ضَرُوْرَةً (ہدایہ: ۱/۶۵ باب الحیض والاستحاضہ) (فرماتے ہیں کہ اس میں ضرورت ہے)۔
(۴) بیع وشراء کے ایک مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے ہدایہ میں ذکر کیاگیا ہے:
وَلاَ تَجُوْزُ بَیْعُ بَیْضَتِہ عِنْدَ أبِيْ حَنِیْفَةَ وَعِنْدَہُمَا یَجُوْزُ لِمَکَانِ الضَّرُوْرَةِ (ہدایہ: ۳/۵۴ باب البیع الفاسد)
(امام ابوحنیفہ کے نزدیک ریشمی کیڑے کے انڈوں کا فروخت کرنا ناجائز ہے؛ لیکن حضراتِ صاحبین کے نزدیک ضرورت کی وجہ سے جائز ہے)
(۵) صاحبِ دُرِ مختار (محمد علاء الدین حصکفی متوفی ۱۰۸۸ھ) موزے پر مسح کی مدت پوری ہوگئی؛ لیکن وضو باقی ہے، اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَمُضِيُّ الْمُدَّةِ وَانْ لَمْ یَمْسَحْ انْ لَمْ یَخْشَ بِغَلَبَةِ الظَّنِّ ذَہَابَ رِجْلِہ مِنْ بَرَدٍ لِلضَّرُوْرَةِ فَیَصِیْرُ کَالْجَبِیْرَةِ فَیَسْتَوْعِبُہ بِالْمَسْحِ (درمختار مع رد المحتار ۱/۲۰۲، باب المسح علی الخفین، مطلب نواقض المسح، مطبوعہ: مکتبہ رشیدیہ پاکستان ۱۴۱۲ھ)
(اگر موزے پر مسح کی مدت پوری ہوگئی؛ لیکن وضو باقی ہے تو موزے اتارکر پیروں کا دھونا فرض ہے؛ لیکن سردی کی وجہ سے ظن غالب ہے کہ پاؤں شل ہوجائے گا تو مدت پوری ہونے کے بعد بھی مسح جاری رکھے، جس طرح زخمی غضو کے جبیرہ پر مسح کرتا ہے، یہ رخصت ضرورت کی وجہ سے ہے۔
(۶) علامہ رافعی (فقیہ اکبر عبدالقادر رافعی فاروقی مفتی دیار مصریہ متوفی ۱۳۲۳ھ) اپنی مایہ ناز تعلیق میں تحریر فرماتے ہیں:
فِيْ مَوَاقِعِ الضَّرُوْرَةِ أَيْ: بِأَنْ طَالَتْ عِدَّتُہَا تَعَالَجَتْ فَرْجَہَا بِدَوَاءٍ حَتّٰی رَأَتْ صُفْرَةً مثلاً فَہِيَ حَیْضٌ وَانْ لَمْ یَکُنْ فِيْ أَیَّامِ حَیْضِہَا․ (تقریرات رافعی:۱/۳۸ ملحق بردالمحتار)
(مواقع ضرورت میں یہ ہے کہ کسی کی عدت طویل ہوگئی اس نے اپنی شرم گاہ میں کوئی دوا داخل کیا، یہاں تک کہ پیلا مادہ نظر آیا تو یہ حیض ہوگا؛ اگرچہ کہ ایام حیض کے ماسواء میں ہو)
یہ چند مثالیں ہیں جن سے یہ بات بخوبی معلوم ہوسکتی ہے کہ ضرورت کا اطلاق، شریعت غرا میں صرف اسی وقت نہیں ہوتا ہے؛ جبکہ ہلاکتِ نفس کا تیقن یا غلبہ ظن ہو؛ بلکہ اس کے مفہوم میں توسع ہے جو مقاصدِ پنج گانہ (تحفظ نفس، تحفظ مال، تحفظ عقل، تحفظ دین، تحفظ نسل) میں سے ہر ایک سے اس کا تعلق قائم ہے۔ نیز اضطرار کی کیفیت ہی میں منحصر نہیں؛ بلکہ شدید ضرر اور غیرمعمولی مشقت بھی لاحق ہو تو ضرورت کا تحقق ہوجاتاہے۔
بہرحال یہ دو نقطہ ہائے نظر ہوئے، راقم یہ سمجھتا ہے کہ دونوں تعریف میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے۔ علامہ حموی (احمد بن محمد مکی ۱۰۹۸ھ) اور ان کی اتباع کرنے والوں کے پیش نظر وہ ضرورت ہے جو دلائلِ قطعیہ سے ثابت احکام جیسے کلمہٴ کفر کا زبان سے تکلم کرلینا، مردار کا گوشت وغیرہ کھالینا میں بھی موثر ہو؛ جبکہ علامہ ابو اسحاق شاطبی (متوفی ۷۹۰ھ) ہر اس ضرورت کی تعریف کررہے ہیں جو احکام میں مطلقاً موثر ہوتی ہے؛ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ کچھ بزرگوں نے ضرورت شدیدہ بمعنی اضطرار کی تعریف پر زور دیا ہے، تو دوسرے بزرگوں نے مطلق ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے۔
شریعت میں اضطرار کا استعمال بھی ضرورت کے عام معنی میں ہوا ہے
اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ ”ضرورت“ ایک مفہومِ کلی کا نام ہے جو کھانے پینے سے ہی متعلق نہیں؛ بلکہ اپنے مفہوم و استعمال کے لحاظ سے عموم رکھتی ہے، اس میں اضطرار کا معنی بھی پایا جاتا ہے؛ لیکن حقیقت میں وہ بھی ”ضرورت“ کی ایک نوع ہی ہے۔ ذرا ہم آیات واحادیث پر سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ”اضطرار“ قرآن کے سیاق وسباق میں کھانے پینے کے ضمن میں ضرور آیا ہے؛ بلکہ اس کا استعمال خاص طور پر اس موقع پر ہوا ہے؛ جب کہ جان آخری مرحلہ میں پہنچ چکی ہو؛ لیکن احادیث میں ”مضطر“ بھی وسیع مفہوم میں ہی استعمال ہوا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(۱) نَہَیٰ رَسُولُ اللّٰہِ صَلی اللّٰہُ علیہ وسلم عَنْ بَیْعِ الْمُضْطَرِّ (ابوداؤد: ۲/۴۸۰، کتاب البیوع، باب بیع المضطر) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مضطر کی بیع سے منع فرمایا)
ظاہر ہے خریدوفروخت کے باب میں مذکور ”مضطر“ کی حالتِ زار ہونا ضروری نہیں ہے کہ بغیر اس قسم کی بیع وشراء جان خطرے میں پڑجائے، یا قریب بہ ہلاکت ہوجائے؛ بلکہ مجبور شخص جو شدید ضرورت کی بنا پر، یا کسی خاص مصلحت کے حصول کے لیے بیچنے پر مجبور ہوا ہے، وہی مراد ہے۔ علامہ خطابی (ابوسلیمان احمد بن محمد متوفی ۳۸۸ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَالثَّانِيْ أَنْ یَضْطَرَّ الٰی الْبَیْعِ لِدَیْنٍ رَکِبَہ أَوْ مُوٴُنَةٍ تُرْہِقُہ فَیَبِیْعُ مَا فِيْ یَدِہ فِالْوَکْسِ بِالصَّرُوْرَةِ․ (حاشیہ ابوداؤد: ۲/۴۷۹، کتاب البیوع، باب بیع المضطر) (دوسری صورت یہ ہے کہ قرض کا بار آگیا، یا کوئی اور تاوان دینا پڑگیا، جس کی وجہ سے بیچنے پر مجبور ہوجائے تو اپنے مال کو کم قیمت میں ضرورت کی وجہ سے بیچ دے)
(۲) مسند احمد کی روایت ہے: اذا اضَّطَرَرْتُمْ اِلَیْہَا فَاغْسِلُوْہَا بِالْمَاءِ (مسنداحمد:۲/۱۸۲)
(جب تم ان برتنوں کے استعمال پر مجبور ہوتو ان کو پانی سے دھولیا کرو)
ظاہر ہے کہ برتن کے نہ رہنے سے جان نہیں چلی جاتی؛ اس لیے کہ انسان بھون کر کھاسکتا ہے۔ ہاں شدید مجبوری ہوتی ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
(۳) موطا مالک کی روایت ہے: اذَا اضَّطَرَّ الٰی لُبْسٍ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الثِّیَابِ الَّتِيْ لَابُدَّ لَہ مِنْہَا صُنْعُ ذٰلِکَ وَاقْتَدیٰ․ (موطا مالک: ۱۴۰، کتاب الحج، باب ما جاء فیمن أحصر بغیر عدد)
(حاجی جب کسی کپڑے کے پہننے پر مجبور ہوجائے جو کہ اس کے لیے ضروری بھی ہوتو پہن لے اور فدیہ دے دے)
معلوم ہوا کہ احادیث میں ”مضطر“ بھی وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ امام ابوبکر جصاص (احمد الرازی متوفی ۳۷۰ھ) نے تو قرآن کریم کی آیت: ”الَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ الَیْہ“ کی تفسیر کرتے ہوئے آیت سے بھی عموم ہی کو مستفاد مانا ہے: آیت میں مذکور ”ضرورت“ دیگر محرمات کو بھی شامل ہے اور بعض آیات میں مردار وغیرہ کے سیاق میں اس کا تذکرہ اس آیت کے عموم سے مانع نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصاص: ۱/۱۸۲ مطبوعہ دارالفکر ۱۴۳۲ھ)
اسی طرح مفسر موصوف آیت اضطرار کے تحت ضرورت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وَقَدِ انْطَویٰ تَحْتَہ مَعْنَیَانِ اس کے تحت دو شکلیں آتی ہیں: ایک شکل بھوک کی وجہ سے اضطرار اور مردار کھانے کی اور دوسری شکل اکراہ کی وَکِلَا الْمَعْنَیَیْنِ مُرَادٌ بِالْآیَةِ عِنْدَنَا لِاحْتِمَالِہِمَا اور دونوں ہی معنی مراد ہیں اس لیے کہ آیت دونوں کی محتمل ہے (احکام القرآن: ۱/۱۸۱، مطبوعہ دارالفکر، بیروت ۱۴۳۲ھ)
جب اضطرار بھوک و پیاس کے ساتھ خاص نہیں ہے، تو ضرورت کو بھوک وپیاس کے ساتھ کیوں کر خاص کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے زیادہ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ”ضرورت“ ایک مفہومِ کلی ہے جو مختلف نوع کو شامل ہے۔
(باقی آئندہ)
$ $ $