Monday, 5 September 2016

نماز میں قدم سے قدم ملانے کا مسئلہ

غیر مقلدوں کی مسجد یں جن کو نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو گا تو وہاں اسے یہ بھی تماشا دیکھنے میں آیا ہو گا کہ یہ لوگ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو خوب پاں پھیلا کر اور بغل والے مصلی کے پاں کی کانی انگلی سے اپنے پاں کی کانی انگلی ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے لئے بار بار وہ اپنے پاں کو حرکت بھی دیتے ہیں، اور اگر اتفاق سے ان کے بغل میں کوئی حنفی کھڑا ہو گیا تو ان کا یہ عمل ایسا مستمر ہوتا ہے کہ وہ حنفی بیچارہ سوچنے لگتا ہے کہ وہ کہاں آپھنسا، اس کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔



غیرمقلدین حضرات بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ نماز میں کھڑے ہونے کا یہی مسنون طریقہ ہے ، حالانکہ رسول اللہﷺکی کسی ایک حدیث سے ثابت نہیں کہ جماعت میں کھڑے ہونے والے مصلیٰ پاں کی کافی انگلی ملا کر اور دونوں پاں چیر کر کھڑے ہوں نہ خود آپﷺ کا یہ عمل تھا اور نہ دوسروں کو آپﷺنے اس کا حکم دیا ، غیر مقلدین حضرات اس بارے میں صحیح حدیث تو کیا ضعیف حدیث بھی پیش نہیں کر سکتے۔
نماز میں کھڑے ہونے کا یہ نہایت مکروہ طریقہ ہے، مگر اس مکروہ طریقہ قیام پر ہمارے برادران غیر مقلدین کو اتنا اصرار ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں یقینا آنحضورﷺکا کوئی واضح ارشاد اور حکم بخاری و مسلم کی کسی حدیث میں موجود ہے، حالانکہ بخاری و مسلم تو کیا کسی بھی حدیث کی کتاب میں نماز میں کھڑے ہونے کی اس کیفیت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت سے تو ان کا عمل اس کے خلاف منقول ہے، مصنف عبدالرزاق میں حضرت نافع سے مروی ہے۔
ان ابن عمر کان لایفرسخ بینھما ۔
یعنی حضرت عبداللہ بن عمر دونوں پاں کو پھیلا کر اور چیز کر نہیں کھڑے ہوتے تھے۔ (ج ۲۷ ص ۲۴۶)
مگر اہلحدیث کہلوانے والے لوگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل کے برخلاف جماعت میں کھڑے ہو کر پاں کی کانی سے کانی انگلی ملانے اور دونوں پاں پھیلانے ہی کو مسنون سمجھتے ہیں۔ فیا للعحب
آیئے ہم اس مسئلہ کو امام بخاری رحمة اللہ علیہ اور شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ کی تحقیق کی روشنی میں دیکھتے ہیں، امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا علم حدیث میں جو مقام ہے وہ ہر طرح کے شبہ سے بالاتر ہے، رہے حافظ ابن حجر تو ان کے بارے میں مشہور غیر مقلد عالم مولانا عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں:
والحافظ ابن حجر ھذا ھو امام الحفاظ فی زمانہ.... فلم یکن فی عصرہ حافظ سواہ
یعنی حافظ ابن حجر اپنے زمانہ میں حفاظ حدیث کے امام تھے۔ ان کے زمانہ میں ان کے سوا کوئی دوسرا حافظ حدیث نہیں تھا۔
غرض حافظ ابن حجر شافعی رحمة اللہ علیہ باعتراف علماءغیر مقلدین اپنے زمانہ کے سب سے بڑے حافظ حدیث ، سب سے بڑے محدث اور اول نمبر کے اہلحدیث تھے، اس لئے ان کی کسی تحقیق کو غیر مقلدین حضرات کو قبول کرنے میں قطعاً تردو نہ ہونا چاہیئے۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک باب یہ قائم کیا ہے۔
باب الصاق المنکب والقدم بالقدم فی الصف
یعنی یہ باب اس مسئلہ کو بتلانے کے لئے ہے کہ نماز کی صف میں کاندھے سے کاندھا اور قدم سے قدم ملانا چاہیئے۔
اول تو میں ناظرین سے یہ گذارش کروں گا کہ وہ حضرت امام بخاری کے اس کلام میں غور فرمائیں کہ انہوں نے صف میں کھڑے ہونے کے لئے نہ اس کا ذکر کیا ہے نہ پاں چیز کر اور خوب پھیلا کر کھڑے ہوں اور نہ یہ فرمایا ہے کہ پاں کی کانی انگلی کو دوسرے کے پاں کی کانی انگلی سے ملا کر کھڑے ہوں، امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے فرمان کا حاصل صرف یہ ہے کہ صف میں کاندھے سے کاندھا ملا کر اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونا چاہیئے۔
اب ذرا اس پر بھی آپ غور کر لیں کہ نماز میں پاں پھیلا کر اور پاں کی کانی انگلی کو دوسرے کے پاں کی کانی انگلی سے ملا کر کھڑے ہونے کی شکل میں کیا کاندھے سے کاندھا مل سکتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اس شکل میں کبھی کاندھے سے کاندھا مل ہی نہیں سکتا، ہم اپنی ان سطور کو پڑھنے والوں سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ تجربہ کر کے میری بات کی تصدیق کر لیں۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ تو کاندھے کے علاوہ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونے کو مسنون قرار دے رہے ہیں اور ہمارے برادران غیرمقلدین پاں کی چھوٹی انگلی (یا انگلیوں کو ملا کر کھڑے ہوتے ہیں پورا قدم ملا کھڑے ہونے کا منظر ان کی مساجد میں نظر نہیں آتا، یاد رہے کہ قدم کہتے ہیں پاں کے پورے نچلے حصہ کو۔)
اس باب کے تحت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے۔
ریت الرجل یلصق منایلزق کعبہ یکعب صاحبہ
یعنی میں نے دیکھا کہ.... ہم میں کا آدمی اپنے ٹحنہ کو اپنے بغل والے ساتھی کے ٹخنہ سے ملا کرکھڑا ہوتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا مشاہدہ یہ تھا کہ جب لوگ نماز میں صف باندھ کر کھڑے ہوتے تھے تو نمازی بغل والے نمازی کے ٹخنہسے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوتا تھا، ٹخنہ کہتے ہیں اس ہڈی کو جوایڑی کے اوپر اور پنڈلی کے نیچے ابھری ہوتی ہے۔
اب آپ جایئے غیر مقلدین حضرات کی مساجد میں اور دیکھئے کہ کیا وہ جماعت میں اسی طرح کھڑے ہوتے ہیں، یعنی کیا ایک مصلی کا ٹخنہ دوسرے مصلیسے ملا ہوتا ہے ، یا وہ پاں پھیلا کر اور چھوٹی انگلی ملا کر کھڑے ہوتے ہیں ، میرا چیلنج ہے کہ آپ کو ایک مصلی بھی اس طرح کھڑا نظر نہیں آئے گا جو بغل والے مصلی کے ساتھ ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کو نقل کرنے کے بعد امام بخاری نے اس باب کے تحت جو حدیث ذکر کی ہے وہ یہ ہے۔
عن انس عن النبی قال: اقیموا صفوفکم فانی اراکم من وراءظھری ، وکان احدنا یلزق منکمبہ بمنکب صاحبہ وقدمہ بقدمہ
یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا، لوگو اپنی صفوں کو سیدھارکھواس لئے کہ میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں (کہ تم اپنی صفوں کو سیدھی رکھتے ہو یا نہیں، حضرت انس فرماتے ہیں کہ ہم میں کا نمازی اپنے کا ندھے کواپنے سا تھی کے کا ند ھے اور اپنے قدم کو اس کے قدم سے ملا کر کھڑا ہوتا تھا)۔
اس حدیث میں ایک بات تو یہ غور کرنے کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے پاں کی انگلی سے انگلی ملا کر کھڑے ہونے کی بات تو درکنار کاندھا ملا نے اور قدم ملانے کا بھی حکم نہیں دیا ہے، آپ کا صاف صاف تو حکم یہ ہے کہ اپنی صفوں کو سیدھی رکھو کاندھا سے کاندھا ملا کر یاقدم سے قدم ملا کر کھڑا ہونا یہ صحابہ کرام کا عمل تھا، اور غیر مقلدین کے یہاں نہ صحابہ کرام کا عمل حجت ہے نہ ان کا قول حجت ہے، اس لئے صحابہ کرام کے عمل سے ان حضرات کا استدلال کرنا خودان کے عقیدہ خلاف ہے۔
اور ہمارا کہنا یہ کہ اللہ کے رسولﷺ کا مقصد صرف اتنا تھا کہ نماز میں صف بالکل سیدھی ہو، صحابہ کرام اسی کا لحاظ رکھتے تھے، جس کی تعبیر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یہ ہے کہ نمازی اپنے ٹخنوں سےٹخنہ ملا کر کھڑا ہوتاا ور اس کی تعبیر حضرت انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یہ ہے کہ نمازی اپنے ساتھی کے کاندھا سے کاندھا اور قدم ملا کر کھڑا ہوتا ، حضرت انس اورحضرت نعمان دونوں کے فرمان کا حاصل یہ ہے کہ ہم لوگ نماز میں اپنی صفوں کو بالکل سیدھی رکھتے تھے جو آنحضورﷺ کی تعلیم و ارشاد کا مقصود تھا۔
ناظرین دیکھ رہے ہیں کہ کاندھا سے کاندھا ملانے یا قدم سے قدم ملانے یا ٹخنہ سے ٹخنہ ملانے کا حکم آنحضور اکرمﷺنہیں فرما رہے ہیں، آپ کا ارشاد تو صرف اتنا ہے کہ نماز میں صف کو سیدھی رکھو، اور چونکہ نماز میں صفوں کا سیدھی رکھنا اور مل کر کھڑا ہونا اور دوآدمیوں کے درمیان خلل کا نہ ہونا یہ نماز کا حسن اور شریعت کا مطلوب ہے اس وجہ سے آپﷺ صحابہ کرام کو ان امور کی بڑی تاکید فرماتے تھے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ابوداد میں ہے کہ رسول اﷲ کا ارشاد تھا۔
اقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوالخلل ولا تذروا فرجات للشیطان ومن وصل صفا وصلہ اﷲ ومن قطع صفا قطعہ اﷲ
صفوں کو سیدھا رکھو، کاندھا کو کاندھے کے مقابلہ میں رکھو، صفوں کے درمیان خلل کو بند کرو اور شیطان کے لئے جگہ مت چھوڑو ، جو صف کو جوڑ کر کھڑا ہوتا ہے اللہ اس کو جوڑے رکھتا ہے اور جو صف کو کاٹ کر کھڑا ہوتا ہے اللہ اس سے اپنا ناطہ توڑ لیتا ہے۔
حضرت نعمان بن بشیر کی ایک روایت ہے جس کو ابوداد نے ذکر کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اس کو صحیح بتلایا ہے، اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
اقبل رسول اﷲ  بوجہہ فقال اقیموا صفوفکم ثلاثا واﷲ لتقیمن صفوفکم اولیخالفن اﷲ بین قلوبکم
یعنی آنحضورﷺ نے اپنا چہرہ ہماری طرف کرتے ہوئے فرمایا، اپنی صفوں کو سیدھی رکھو، یہ تین بار فرمایا، اور پھر فرمایا خدا کی قسم تم اپنی صفوں کو ضرور ضرور سیدھی رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے درمیان اختلاف پیدا کر دے گا۔
غرض اللہ کے رسول ﷺ کا نمازیوں کو جو حکم تھا وہ یہ کہ ان کی صفیں بالکل سیدھی ہوں اور دوآدمیوں کے بیچ جگہ چھوٹی ہوئی نہ ہو اور ایک نمازی کا کاندھا دوسرے کے کاندھے کے بالمقابل ہو۔
اللہ کے رسولﷺ کے انہیں ارشادات پر عمل پیرا ہونے کی کیفیت کو بطور مبالغہ صحابہ کرام میں سے کسی نے یہ کہا کہ ہم لوگ اپنی صفوں کو اس طرح سیدھی رکھتی تھے کہ ہمارا کاندھا سے کاندھا ملا ہوا کرتا تھا، کسی نے یہ کہا کہ ہم کھڑے ہوتے تو ہمارا ٹخنہ سے ٹخنہ ملا ہوتا اور کسی نے یہ کہا کہ ہم قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوتے اور مقصود سب کا یہی تھا کہ نماز میں ہماری صفیں سیدھی ہوا کرتی تھیں۔
اب جو میں نے یہ عرض کیا کہ صحابہ کرام کے یہ ارشادات اقامت صف اور تسویہ صف کی کیفیت کا بطور مبالغہ اظہار اور بیان ہے نہ کہ یہی شریعت کا حکم ہے، اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ حدیث میں ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر کھڑے ہونے کا بھی ذکر ہے، اور ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہونا یہ ممکن نہیں ہے، اسی طرح الزاق المنکب یعنی کاندھا سے کاندھا ملاکر کھڑے ہونے کا بھی امکان نہیں ہے، الزاق کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی چیز کا کسی چیز سے چپکانا اور سٹانا ، کیا بلاتکلف کے یہ ممکن ہے کہ نماز میں قدم سے قدم بھی ملا ہو اور کاندھا سے کاندھا بھی چپکا ہو اس سے معلوم ہوا کہ یہ محض صف کے سیدھی رکھنے کی تاکید تھی نہ کہ الزاق کے حقیقی معنی پر عمل کرنے کا حکم تھا، مگر براہو ان لوگوں کی سمجھ کا جو الفاظ کے ظواہر کو دیکھتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے حقیقت اوجھل رہتی ہے اور شریعت کا مقصود گم ہوتا ہے۔
میں یہ جو کہہ رہا ہوں کہ شریعت کا مقصود نماز میں صرف صفوں کو سیدھی رکھنے کی تاکید ہے اور آنحضورﷺکے ارشادات کی تعبیر صحابہ کرام نے اپنے اپنے انداز میں بطور مبالغہ کی تھی یہی بات حافظ ابن حجر جو اپنے زمانہ کے علم حدیث کے سب سے بڑے تاجدار تھے وہ بھی فرما رہے ہیں۔ امام بخاری کے اس ارشاد الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم کی شرح میں وہ فرماتے ہیں
المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ (فتح الباری ج ۲ ص ۱۱۲)
یعنی اس سے مراد امام بخاری کی یہ ہے کہ آدمی کو صف سیدھی رکھنے اور بیچ کی جگہ نہ چھوڑنے میں اہتمام اور مبالغہ سے کام لینا چاہئے
غرض اللہ کے رسول اور شریعت کا منشا تو بس اتنا ہے کہ نمازیوں کو اپنی صف بالکل سیدھی رکھنی چاہئے، دو آدمی کے درمیان فاصلہ نہ ہونا چاہئے اور اس میں جتنا اہتمام ہو سکے اسے کرنا چاہئے۔
غیرمقلدین حضرات نے شریعت کے منشاءو مقصود کو تو سمجھا نہیں اور صحابہ کرام نے صفوں کو سیدھی رکھنے کی جس کیفیت کو مبالغہ بیان کرنے کے لئے جوپرایہ بیان اختیار کیا تھا اسی کو اصل منشاءشریعت اور مراد رسولﷺسمجھ لیا اور پھر لگے نماز میں اپنے دونوں پاں پھیلانے اور پاں کی کانی انگلی سے اپنی کانی انگلی ملانے جس کا نہ اللہ نے حکم دیا نہ اللہ کے رسول نے اور جو نہ صحابہ کرام کا طریقہ و عمل تھا، اور اس عقل و فہم پر غرہ اتنا ہے کہ ہم جو نماز پڑھتے ہیں وہی اصل اہل سنت والی نماز ہے ور جو لوگ نماز میں پاں پھیلا کر اور کانی انگلی سے کانی انگلی ملا کر نیں کھڑے ہوتے ہیں ان کی نماز خلاف سنت اور خلاف شریعت ہے ، مولانا صادق سیالکوٹی صاحب مشہور غیر مقلد عالم صلوة الرسول لکھتے ہیں۔
پیر ٹخنے ایڑیاں پنڈلیاں اور مونڈھے خوب جوڑ کر کھڑے ہو ا کرو“ ص ۲۲۷
پیر ٹخنے ایڑیاں پنڈلیاں اور مونڈھے خوب جوڑ کر اور بقول مولانا صادق صاحب کے چپکا کر اگر کھڑا ہونا ممکن ہے تو غیر مقلدین حضرات ذرا اس کیفیت پر عمل کر کے دکھلا دیں ہم ابھی عمل کرنے کے لئے تیار ہیں، غیر عملی باتوں کو زبردستی عملی قرار دینا معلوم نہیں یہ کس شریعت کا حکم ہے۔
نماز میں صف سیدھی رکھنے کے بارے میں بعض ارشادات رسول یہاں مزید ذکر کر رہا ہوں، ان ارشادات رسول میں وہ باتیں کہاں ہیں جن کا ذکر مولانا صادق سیالکوٹی نے اپنی کتاب میں کیا ہے ۔ آپ خود بھی غور کر لیں۔
عن انس قال قال رسول اﷲ  رسووا صفوفکم وقاربوا بینھا وحاذوا بالاعناق (ابوداد)
یعنی آنحضورﷺکا ارشا د تھا کہ تم اپنی صفوں کو جوڑے رکھو اور ان کو قریب قریب بنااور گردنوں کو ایک دوسرے کے مقابل رکھو۔
عن النعمان بن بشیر عن النبی قال عباد اﷲ تسوون صفوفکم اولیخالفن اﷲبین قلوبکم۔(مسلم)
آنحضورﷺ نے فرمایا، اے اللہ کے بندو اپنی صفوں کو سیدھی رکھو ورنہ اللہ تمہارے مابین اختلاف پیداکر دے گا۔
عن انس عن النبی قال سووا صفوفکم فان تسویة الصفوف من اقامة الصلوة (بخاری)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ آنحضور کا ارشا د ہے کہ لوگو صفوں کو سیدھی رکھوا اس لئے کہ صفوں کا سیدھی رکھنا نماز کو ٹھیک طرح سے پڑھنے کا ایک حصہ ہے۔
ان تمام ارشادات رسول میں آپ غور فرمائیں کہ وہ باتیں کہاں ہیں جن کا ذکرمولانا محمد صادق صاحب سیالکوٹی نے اپنی کتاب صلوة الرسول میں کیا ہے، یعنی ٹخنہ سے ٹخنہ ملانا، ایڑیاں سے ایڑیاں ملانا، مونڈھے خوب جوڑ کر کھڑا ہونا۔
چونکہ غیر مقلدین یعنی جن کو اہلحدیث ہونے کا زعم ہے ان کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں، ان سے اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ان ارشادات رسول کے بالکل خلاف آپ حضرات جو نماز میں پاں پھیلا کر اور انگلی سے انگلی ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اس کا ذکر کتاب و سنت میں کہاں ہے۔ تو کیا ان کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟
آپ حضرات کا تو عقیدہ ہے قول صحابی حجت نیستیعنی صحابی کا قول حجت نہیں ہے۔ وافعال الصحابة لاتنھض الاحتجاج بھاصحابہ کے عمل سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔ وفھم اصحابی لیس بحجةاور فہم صحابی حجت نہیں ہے۔ تو آخر احادیث رسولﷺ کو چھوڑ کر نماز میں کھڑے ہونے کی کیفیت اگر آپ نے کسی صحابی سے اخذ بھی کی ہے تو یہ آپ کے عقیدہ کے خلاف ہے، آپ کے عقیدہ میں نہ صحابی کا قول حجت نہ فعل حجت نہ ان کی فہم حجت تو آخر ان کے کسی عمل سے آپ کا احتجاج جائز کیسے ہو گا؟ آپ کا عمل تو صرف کتاب و سنت کی روشنی میں ہونا چاہئے۔ اور میں حتمی انداز میں عرض کر رہا ہوں کہ نماز میں کھڑے ہونے کی وہ کیفیت جس پر غیرمقلدین کا عمل ہے اس کا ذکر نہ کتاب اللہ میں ہے نہ سنت رسول اللہ میں۔







No comments:

Post a Comment