حضرت عمر بن خطابؓ (اور حضرت عمران بن حصینؓ) سے روایت ہے کہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مجھے اپنی امت پر (تم پر میرے بعد) سب سے زیادہ خوف ہر اس (جھگڑالو) منافق کا ہے جو چرب زبانی کا بڑا ماہر ہوگا۔
[مسند احمد:143+310، مسند البزار:305 (مسند البزار:3514، صحیح ابن حبان:3783) سلسلة الأحاديث الصحيحة:1013، صحيح الترغيب والترهيب:132+2330، صحيح الجامع الصغير:239+1554+1556]
لیکن دل اور عمل سے جاہل(مخالف)ہوگا۔
[الأحادیث المختارۃ:236]
باتیں حق(نیکی)کی کرے گا اور عمل برائی کے۔
[شعب الایمان:1640]
جو ایمان کی پناہ لے گا اور عمل اسکے خلاف کرےگا۔
[مسند الفاروق:955]
ایمان والوں سے جھگڑے گا قرآنی تعلیم کے ذریعہ.
[مجمع الزوائد:887]
جس وقت دنیا سے توحید کا شیرازہ بکھر چکا تھا تو الله رب العزت نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کو دستور، منشور، قانون… ضابطہٴ قرآن کی شکل میں عطا کیا، پھر پیغمبر علیہ السلام نے قرآن کی ابدی تعلیمات سے ایک ایسی جماعت تیار کی جس کا دل ودماغ، سوچ ونظر، گفتار وکردار پیغمبر علیہ السلام کے تابع ہو گیا، جس طرف کا انہوں نے رخ کیا کام یابی نے ان کے قدم چومے، کفر کے ایوانوں میں زلزلہ برپا انہوں نے کیا، ہر باطل قوت سے ٹکرا کر اس کو پاش پاش کیا، آخر ان کی کام یابی کا راز کیا تھا ”صفھم بالقتال وصفھم فی الصلوٰةسوآء لھم بالیل دوی کدوی النحل“.( مشکوٰة) وہ راتوں کو اٹھ کر روتے اور قرآن کی تلاوت سے اپنے دل ودماغ کو منور ومعبر ومطہر کیا کرتے اوران کی سجدہ گاہیں آنسوؤں سے تر رہا کرتی تھیں … اسی لیے جب ایران کے سپہ سالار رستم نے ان سے ایران پر حملے کی وجہ پوچھی تو حضرت ربعی بن عامر نے کیا خوب جواب دیا ”الله ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد الی عبادة الله، ومن ضیق الدنیا الی سَعتھا، ومن جور الادیان الی عدل الاسلام“․ (البدایہ والنہایة)… ہمارے آنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو مخلوق کی عبادت سے خالق کی بندگی میں لائیں، دنیا کی تنگیوں سے اس ذات کی وسعت میں لائیں او رباطل ادیان کے ظلم سے اسلام کے عدل میں لائیں… یہ تھی ایک مسلمان کی سوچ، جب میں نے تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائی تو مسلمانوں کے زوال کا سب سے پہلا سبب عیش پرستی نظر آیا، خلافت عباسیہ میں معتصم بالله نے حکومت کی شان وشوکت بڑھانے کے لیے تر کی غلاموں سے خدمت لی اوران کی حوصلہ افزائی کی، جس سے حکومت تو چمکی، مگر خلفائے اسلام کا وقار کم ہوتا چلا گیا، عیش پرستی نے عورتوں کو محلوں کا جمالستان بنا دیا ایمانی قوت کمزور ہوئی، تلوار ہاتھ سے گری۔
مسلمانوں کے زوال کا پہلا سبب عیش پرستی بنا۔ داعیانہ صفات کو بھولنا ،زوال کا سبب۔ مجاہدانہ کردار کو چھوڑنا ، زوال کا سبب ۔ خدا پرستی کی بہ جائے قبرپرستی، زوال کا سبب۔ اتحاد کے بجائے قومیت وعصبیت کا رنگ، زوال کا سبب۔ آلات وسائل کا غلط استعمال ،زوال کا سبب۔ صنعت وتجارت میں سودی پھیلاؤ ،زوال کا سبب۔ نئی نسل کا اسلامی تعلیم کے بجائے مغربی تعلیم کا رجحان زوال کا سبب۔ سستی و غیر حاضری بھی زوال کا سبب مختصر یہ کہ جب سے مسلمان قرآنی تعلیمات کو بھولے، مال معیشت49 ملکوں پر مسلم حکومت، ایک ارب سے زائد آبادی کے باوجود زوال کے بادل چھائے، ذلت مقدر بنتی چلی گئی، بادشاہی غلامی میں بدلی، مجاہدانہ سوچ غلامانہ رنگ دکھلانے لگی، دشمن کو دوست سمجھنے لگے، جب کہ قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہمیں یہ نصیحت کی : ﴿ لاتتخذوا بطانة من دونکم لایألونکم خبالا﴾. یہود ونصاری منافقوں کو دوست مت بنانا۔ جب یہود نے دیکھا کہ یہ قوم ہمارے اشاروں پر آگئی تو یہود نے مواصلاتی آلات کا جال پھینکا جس نے رنگ یہ دکھایا کہ وہ مسلم ، نوجوان جو انسانوں کواسلامی تہذیب وتمدن کا سبق سکھلا تا تھا وہ غیروں کی تہذیب وتمدن پہ ناز کرنے لگا اور قرآن پر عمل پیرا ہونا تو درکنار ، قرآن کے مقدس اصولوں کا مذاق اڑانے لگا، وہ جوان جو مسلمانوں کی عزتوں کا محافظ تھا اسی کے ہاتھوں بہن، بہو، بیٹی کی عزت کا جنازہ اٹھنے لگا اور نبی علیہ السلام کی پیار ی سنت کو چہرے پہ سجانے کے بجائے گندی نالی میں پھینک کر مسکرانے لگا ۔ اس لیے شاعر مشرق نے کیا خوب کہا ؎ شور ہے دنیا سے ہو گئے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلماں موجود تہذیب میں تم نصاری تو تمدن میں ہنود ہیں یہ وہ مسلماں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود دوستو! اس پرفتن دو رمیں جو کردار ہم ادا کرسکتے ہیں وہ یہ کہ اسلامی گفتارو کردار کا عملی جامہ پہن کر میدان میں آئیں او رنئی پیداوار کے ذہن سے مغربیت کا گردوغبار ہٹا کر قرآن وسنت کی فضا قائم کریں تو پھر یہ بات بعید نہیں کہ اگر آج بھی مسلمان ﴿واعتصموا بحبل الله﴾ کا بھولا ہوا سبق دُھرالیں تو ﴿جاء الحق وزھق الباطل﴾ کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے…، ﴿ان تنصروا الله ینصرکم ویثبت اقدامکم﴾ یہ لڑکھڑاتے، ڈگمگاتے قدم مضبوط جمے ہوئے نظر آئیں گے، ﴿ لیبدلنھم من بعد خوفھم امنا﴾ یہ خوف وہراس امن میں بدل جائے گا، مگر بات کیا ہے ؎ وطن تو آزاد ہو چکا دماغ ودل ہیں غلام اب بھی مئے غفلت لیے ہوئے ہیں یہاں خاص وعام اب بھی غلط ہے ساقی تیرا یہ نعرہ کہ بدل چکا ہے نظام محفل وہ شکستہ سی بوتلیں وہی کہنہ ہے جام اب بھی میرے خانہ وطن کا رنگ ہی کچھ عجب ہے کسی پہ جام شراب جائز کسی پہ پانی حرام اب بھی |
امت محمدیہ کے مردوں اور عورتوں کے دس اوصاف
|
|
امت کا بگاڑ ۔۔۔ اسباب ، حل ،علاج |
|
No comments:
Post a Comment