شکوہ-شکایت کا سبب»
(1)غم وپریشانی یا (2)رنج ودکھ پہنچنے کی وجہ سے شکوہ-شکایت ہوتی ہے۔
شکوہ-شکایت کرنے کا مقصد»
غم اور رنج کا مداوا-علاج کرنا۔
جائز شکوہ-شکایت»جو مخلوق سے نہیں، خالق سے کی جائے۔
القرآن:
قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یعقوب نے کہا : میں اپنے رنج و غم کا شکوہ (فریاد) (تم سے نہیں) صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔
[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 86]
تفسیر(امام)ابن کثیر:
(اللہ کے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کے) بچوں نے باپ کا یہ حال دیکھ کر انہیں سمجھانا شروع کیا کہ ابا جی آپ تو اسی کی یاد میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ اگر آپ کا یہی حال کچھ دنوں اور رہا تو کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ حضرت یعقوب نے انہیں جواب دیا کہ میں تم سے تو کچھ نہیں کہہ رہا میں تو اپنے رب کے پاس اپنا دکھ رو رہا ہوں ۔ اور اس کی ذات سے بہت امید رکھتا ہوں وہ بھلائیوں والا ہے ۔ مجھے یوسف کا خواب یاد ہے ، جس کی تعبیر ظاہر ہو کر رہے گی۔
تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:
(اپنے بیٹے)یوسف کے غم میں روتے روتے یعقوب کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں (یعنی) آنکھوں کی سیاہی زائل ہوکر سفیدی میں تبدیل ہوگئی تھی، وہ دل ہی دل میں گھٹ رہے تھے (یعنی) مغموم بے چین تھے، اپنی بے چینی کا اظہار نہیں کرتے تھے، بیٹوں نے کہا: واللہ! آپ تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہو گے یہاں تک کہ اپنے طولِ مرض کی وجہ سے لب جان ہوجائیں گے، یا ہلاک ہی ہوجائیں گے۔ (یعقوب) نے ان سے کہا: میں تو اپنی پریشانی اور دکھ کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں نہ کہ کسی اور سے (بث) اس شدید غم کو کہتے ہیں کہ جس پر صبر نہ کیا جا سکے، یہاں تک کہ لوگوں کو بھی اس کا علم ہوجائے۔ ایک وہی ذات ایسی ہے کہ اسی سے فریاد فائدہ دے سکتی ہے اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم واقف نہیں ہو اس بات سے کہ یوسف (علیہ السلام) کا خواب سچا ہے اور وہ زندہ ہے۔
نوٹ:
صبرِ جمیل کے منافی اگر کوئی شکایت ہے تو وہ خالق کی آزمائش ومصیبت کی شکایت مخلوق سے کرنا ہے۔ لہٰذا مخلوق کی شکایت خالق سے کرنا یہ صبرِ جمیل کے منافی نہیں بلکہ عین دعاء والتجا ہے۔
مخلوق کی شکایت مخلوق سے کرنا: یہ دو قسم کی ہے:
(1)ظلم کی حق شکایت کرنا۔
(2)بلاوجہ ناحق شکایت کرنا۔
بیماری میں جزع فزع کی ممانعت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: " قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنَ , فَلَمْ يَشْكُنِي إِلَى عُوَّادِهِ أَطْلَقْتُهُ مِنْ إِسَارِي ثُمَّ أَبْدَلْتُهُ لَحْمًا خَيْرًا مِنْ لَحْمِهِ , وَدَمًا خَيْرًا مِنْ دَمِهِ، ثُمَّ يَسْتَأنِفُ الْعَمَلَ.
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ: میں جب اپنے مومن بندے کو (بیماری میں) مبتلا کرتا ہوں اور وہ عیادت کرنے والوں سے میری شکایت نہ کرے، تو میں اسے اپنی قید سے آزاد کردیتا ہوں، پھر اس کے گوشت کے بدلہ میں اچھا گوشت اور خون کے بدلہ اچھا خون لگا دیتا ہوں، پھر وہ ازسرنو عمل شروع کردیتا ہے۔
[حاکم:1290، بیھقی:6548، الصحيحة:272]
بعض حکماء کی مناجات:
اے میرے خدا ! اگر مجھے یہ خبر پہنچے کہ تو میری دعا قبول نہیں کرتا، یا میری شکایت نہیں سنتا، تو بھی میں تجھے پکارنے کو اس وقت تک ترک نہیں کروں گا جب تک میرا لعاب میری زبان کو تر(گِیلا) کرتا رہے گا۔ غریب امیر کے سوا کہاں جائے؟ عاجز غالب کے سوا کہاں جاتا ہے؟ تُو امیروں میں سب سے امیر اور عزیزوں میں سب سے زیادہ عزیز ہے، اے رب۔
[شعب الإيمان:1070]
جائز شکوہ-شکایت»جو مخلوق سے نہیں، خالق سے کی جائے.
القرآن:
قَدۡ سَمِعَ اللّٰهُ قَوۡلَ الَّتِىۡ تُجَادِلُكَ فِىۡ زَوۡجِهَا وَ تَشۡتَكِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ ۖ وَاللّٰهُ يَسۡمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ ۢ بَصِيۡرٌ ۞
ترجمہ:
(اے پیغمبر) اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کر رہی ہے، اور اللہ سے شکایت(فریاد) کرتی جاتی ہے۔ اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ سننے دیکھنے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 58 المجادلة، آیت نمبر 1]
مخلوق کی جائز اور ناجائز شکایت:
ایک "صحیح" یا "جائز" شکایت وہ ہے جو کسی جائز حق یا مسئلے پر مبنی ہو، اور اسے احترام اور تعمیری انداز میں پیش کیا جائے۔ دوسری طرف، ایک "غلط" یا "غیر منصفانہ" شکایت وہ ہے جو غلط فہمی، غلط معلومات، یا خاندانی انتقام پر مبنی ہو، اور اسے جارحانہ یا تصادم کے انداز میں پیش کیا جائے۔
یہاں کچھ اہم اختلافات ہیں:
جائز شکایت:
- جو حقائق اور شواہد پر مبنی ہو۔
- جو کسی مسئلہ میں مخصوص اور واضح ہو۔
- جو احترام اور پرسکون انداز میں پیش کی گئی ہو۔
- حل یا حل کے تلاش کرنے کیلئے ہو۔
- تبادلہ خیال اور سمجھوتہ کے لیے کھلی ہوئی ہو۔
بلاجواز شکایت:
- مفروضوں یا غلط معلومات پر مبنی ہو۔
- مسئلہ کے بارے میں مبہم یا غیر واضح ہو۔
- جارحانہ یا تصادم کے انداز میں پیش کی گئی ہو۔
- دوسروں پر الزام لگانے یا حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
- تبادلہ خیال یا سمجھوتہ بند ہو۔
یاد رکھیں، یہاں تک کہ اگر کوئی شکایت جائز ہے، اس کے پیش کرنے کا طریقہ اس کے موصول ہونے اور حل کرنے کے طریقے کو متاثر کر سکتا ہے۔
جسم کے ہر حصہ کا اللہ سے زبان کے فساد کی شکایت کرنا»
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ اِطَّلَعَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رضی اللہ عنہ وَهُوَ يمد لِسَانَهُ فَقَالَ: ما تصنع يا خَلِيْفَةَ رَسُوْلِ الله ؟ فَقَالَ: هَذَا أَوْرَدَنِيَ الْمَوَارِدَ، إِن رَسُول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : لَيْس شَيْء مِّنَ الْجَسَدِ إِلَا يَشْكُوْ إلى الله اللِّسَان عَلَى حِدَّتِه۔
ترجمہ:
حضرت عمر بن خطابؓ حضرت ابو بکرؓ کے پاس آئے۔ وہ اپنی زبان کھینچ رہے تھے۔ عمر ؓ نے پوچھا: اے خلیفۂ رسول آپ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں لاپھینکا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ سے زبان کی تیزی کی شکایت نہ کرتی ہو۔﴿قیامت کے دن﴾۔
[الصحيحة:535(385)، مؤطا، كِتَاب الْجَامِعِ بَاب مَا جَاءَ فِيمَا يُخَافُ مِنْ اللِّسَانِ، (1567)، مسند ابویعلیٰ:5، تفسیر الدر المنثور:2/682،﴿مسند البزار:84﴾]
تخریج اور مسائل:
خاموشی کی فضیلت» بےفائدہ باتوں سے اور فضول بحث کو چھوڑ دینے کے بارے میں۔
[کتاب الصمت-لابن ابي الدنيا:92، شعب الإيمان للبيهقي:4947 (4741)]
بداخلاقی»فضول کلام
[الجامع الصحيح السنن والمسانيد: ج9/ ص260]
القرآن:
لوگوں کی بہت سی خفیہ سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہوتی، الا یہ کہ کوئی شخص صدقے کا یا کسی نیکی کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے۔ اور جو شخص اللہ کی خوشنودی حاصل کے کرنے کے لیے ایسا کرے گا، ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے۔
[سورۃ النساء، آیت نمبر 114]
اصلاحِ اخلاق» دل کی سختی کی شکایت کرنا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُلًا شَكَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَسْوَةَ قَلْبِهِ فَقَالَ لَهُ: إِنْ أَرَدْتَّ تَلْيِيْنَ قَلْبِكَ فَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيمِ.
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ اس کا دل بہت سخت ہے۔ آپ نے اس سے کہا: اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے تو مسکین کو کھانا کھلاؤ، اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو۔
[الصحيحة: 854(281) مسند أحمد: (7260)]
تخریج اور مسائل:
یتیموں پر رحم کرنا۔
[الجامع الصحيح السنن والمسانيد: ج10/ ص244]
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَجَاءَهُ رَجُلَانِ: أَحَدُهُمَا يَشْكُو الْعَيْلَةَ وَالْآخَرُ يَشْكُو قَطْعَ السَّبِيلِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّا قَطْعُ السَّبِيلِ فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكَ إِلَّا قَلِيلٌ حَتَّى تَخْرُجَ الْعِيرُ إِلَى مَكَّةَ بِغَيْرِ خَفِيرٍ وَأَمَّا الْعَيْلَةُ فَإِنَّ السَّاعَةَ لَا تَقُومُ حَتَّى يَطُوفَ أَحَدُكُمْ بِصَدَقَتِهِ لَا يَجِدُ مَنْ يَّقْبَلُهَا مِنْهُ ثُمَّ لَيَقِفَنَّ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيِ اللهِ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ حِجَابٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ ثُمَّ لَيَقُولَنَّ لَهُ: أَلَمْ أُوتِكَ مَالًا؟ فَلَيَقُولَنَّ: بَلَى ثُمَّ لَيَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ شِمَالِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ فَلْيَتَّقِيَنَّ أَحَدُكُمْ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ.
ترجمہ:
حضرت عدی بن حاتم ؓ سے مروی ہے،کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پا س موجود تھا۔ آپ کے پاس دو آدمی آئے، ایک تنگدستی کا شکوہ کر رہا تھا اور دوسرا ڈاکہ زنی کی شکایت کر رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ڈاکہ زنی کا معاملہ اس طرح ہے کہ تھوڑی مدت گزرے گی اور کیفیت یہ ہوگی کہ مکہ کی طرف کوئی قافلہ بغیر کسی محافظ کے سفر کرے گا اور تنگدستی کی صورتحال یہ ہوگی کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کوئی شخص اپنا صدقہ(زکاة وغیرہ) اٹھائے گھوم رہا ہوگا اور اسے کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو اس صدقے کو قبول کرلے۔ پھر آدمی اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوگا نہ کوئی ترجمان ہوگا جو اس کے لئے ترجمانی کرے۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا میں نے تمہیں مال نہیں دیا تھا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میں نے تمہاری طرف رسول نہیں بھیجا تھا؟ وہ کہے گا کیوں نہیں وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو آگ نظر آئے گی، پھر اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو بھی آگ نظر آئے گی، اس لئے اسے چاہیئے کہ وہ آگ سے بچے اگرچہ ایک کھجور کے ٹکڑے کے ذریعے ہی کیوں نہ بچے۔ اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کے ذریعے ہی(بچے)۔
[الصحيحة:3495 (1812)، صحيح البخاري رقم (1324)، كِتَاب الزَّكَاةِ، بَاب الصَّدَقَةِ قَبْلَ الرَّدِّ .]
سوتے وقت تسبیح، تکبیر، اور تحمید کہنے کے بیان میں»
خدمت ومشقت کا علاج»
عَنْ أَبِي الْوَرْدِ بْنِ ثُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ لِابْنِ أَعْبُدَ: أَلَا أُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ أَحَبَّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، وَكَانَتْ عِنْدِي فَجَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ بِيَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا، وَقَمَّتِ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، وَأَوْقَدَتِ الْقِدْرَ حَتَّى دَكِنَتْ ثِيَابُهَا وَأَصَابَهَا مِنْ ذَلِكَ ضُرٌّ، فَسَمِعْنَا أَنَّ رَقِيقًا أُتِيَ بِهِمْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا يَكْفِيكِ، فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُدَّاثًا فَاسْتَحْيَتْ فَرَجَعَتْ، فَغَدَا عَلَيْنَا وَنَحْنُ فِي لِفَاعِنَا، فَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِهَا فَأَدْخَلَتْ رَأْسَهَا فِي اللِّفَاعِ حَيَاءً مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ: مَا كَانَ حَاجَتُكِ أَمْسِ إِلَى آلِ مُحَمَّدٍ ؟، فَسَكَتَتْ مَرَّتَيْنِ، فَقُلْتُ: أَنَا وَاللَّهِ أُحَدِّثُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذِهِ جَرَّتْ عِنْدِي بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ فِي يَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا، وَكَسَحَتِ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، وَأَوْقَدَتِ الْقِدْرَ حَتَّى دَكِنَتْ ثِيَابُهَا، وَبَلَغَنَا أَنَّهُ قَدْ أَتَاكَ رَقِيقٌ أَوْ خَدَمٌ، فَقُلْتُ لَهَا: سَلِيهِ خَادِمًا؟
، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ الْحَكَمِ وَأَتَمَّ.
ترجمہ:
ابو الورد بن ثمامہ کہتے ہیں کہ علی ؓ نے ابن اعبد سے کہا: کیا میں تم سے اپنے اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ ؓ سے متعلق واقعہ نہ بیان کروں، فاطمہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں اور میری زوجیت میں تھیں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان پڑگئے، مشکیں بھرتے بھرتے ان کے سینے میں نشان پڑگئے، گھر کی صفائی کرتے کرتے ان کے کپڑے گرد آلود ہوگئے، کھانا پکاتے پکاتے کپڑے کالے ہوگئے، اس سے انہیں نقصان پہنچا (صحت متاثر ہوئی) پھر ہم نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس غلام اور لونڈیاں لائی گئی ہیں، تو میں نے فاطمہ سے کہا: اگر تم اپنے والد کے پاس جاتیں اور ان سے خادم مانگتیں تو تمہاری ضرورت پوری ہوجاتی، تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، لیکن وہاں لوگوں کو آپ کے پاس بیٹھے باتیں کرتے ہوئے پایا تو شرم سے بات نہ کہہ سکیں اور لوٹ آئیں، دوسرے دن صبح آپ خود ہمارے پاس تشریف لے آئے (اس وقت) ہم اپنے لحافوں میں تھے، آپ فاطمہ کے سر کے پاس بیٹھ گئے، فاطمہ نے والد سے شرم کھا کر اپنا سر لحاف میں چھپالیا، آپ نے پوچھا: کل تم محمد کے اہل و عیال کے پاس کس ضرورت سے آئی تھیں؟ فاطمہ دو بار سن کر چپ رہیں تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کو بتاتا ہوں: انہوں نے میرے یہاں رہ کر اتنا چکی پیسی کہ ان کے ہاتھ میں گھٹا پڑگیا، مشک ڈھو ڈھو کر لاتی رہیں یہاں تک کہ سینے پر اس کے نشان پڑگئے، انہوں نے گھر کے جھاڑو دیئے یہاں تک کہ ان کے کپڑے گرد آلود ہوگئے، ہانڈیاں پکائیں، یہاں تک کہ کپڑے کالے ہوگئے، اور مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے پاس غلام اور لونڈیاں آئیں ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جا کر اپنے لیے ایک خادمہ مانگ لیں۔
پھر راوی نے حکم والی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی اور پوری ذکر کی۔
[سنن ابوداؤد:5063]
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ: شَكَتْ فَاطِمَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَلْقَى فِي يَدِهَا مِنَ الرَّحَى، فَأُتِيَ بِسَبْيٍ فَأَتَتْهُ تَسْأَلُهُ، فَلَمْ تَرَهُ فَأَخْبَرَتْ بِذَلِكَ عَائِشَةَ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، فَأَتَانَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْنَا لِنَقُومَ، فَقَالَ: عَلَى مَكَانِكُمَا، فَجَاءَ فَقَعَدَ بَيْنَنَا، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِي، فَقَالَ: أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى خَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا، فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ.
ترجمہ:
حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ فاطمہ ؓ نبی اکرم ﷺ کے پاس چکی پیسنے سے اپنے ہاتھ میں پہنچنے والی تکلیف کی شکایت لے کر گئیں، اسی دوران رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی لائے گئے تو وہ آپ کے پاس لونڈی مانگنے آئیں، لیکن آپ نہ ملے تو ام المؤمنین عائشہ ؓ کو بتا کر چلی آئیں، جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو عائشہ ؓ نے آپ کو بتایا (کہ فاطمہ آئی تھیں ایک خادمہ مانگ رہی تھیں) یہ سن کر آپ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم سونے کے لیے اپنی خواب گاہ میں لیٹ چکے تھے، ہم اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا: اپنی اپنی جگہ پر رہو (اٹھنا ضروری نہیں) چناچہ آپ آ کر ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی، آپ نے فرمایا: کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں جو تم نے مانگی ہے، جب تم سونے چلو تو 33 بار سبحان اللہ کہو، 33 بار الحمدللہ کہو، اور 34 بار اللہ اکبر کہو، یہ تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے۔
[سنن ابوداؤد:5062، صحیح مسلم:2727(2915)، سنن الترمذی:3408، سنن الدارمی:2727(2569)]
فَتِلْكَ مِائَةٌ بِاللِّسَانِ، وَأَلْفٌ فِي الْمِيزَانِ، وَذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: {مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا} [الأنعام: ١٦٠]
ترجمہ:
پس یہ زبان میں 100 ہیں، اور ترازو میں 1000، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ہو گا} (سورۃ الانعام: 160)
[المعجم الاوسط للطبرانی:7064]
قَالَ عَلِيٌّ: «وَاللَّهِ مَا تَرَكْتُهَا بَعْدُ» ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: كَانَ فِي نَفْسِهِ عَلَيْهِ شَيْءٌ وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ قَالَ عَلِيٌّ: «وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ»
ترجمہ:
حضرت علی نے فرمایا: اللہ کی قسم، میں نے اسے کبھی تک نہیں چھوڑا، پھر ایک آدمی جس کے ذہن میں کوئی بات تھی نے کہا: کیا جنگِ صفین کی رات میں بھی نہیں؟ حضرت علی نے فرمایا: صفین کی رات بھی نہیں۔
[المستدرک للحاکم:4724]
تخریج اور مسائل:
(1)کتاب:-جہاد اور سیرت رسول اللہ ﷺ»
باب:-اس بات کی دلیل کہ غنیمت کا پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ کی ضرورتوں (جیسے ضیافت مہمان، سامان جہاد کی تیاری وغیرہ) اور محتاجوں کے لیے تھا۔
[صحیح البخاری:3113]
(2)باب:-ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
[صحیح البخاری:3705]
(3)کتاب:-خرچ کرنے کا بیان» باب:-عورت کا اپنے شوہر کے گھر میں کام کرنے کا بیان۔
[صحیح البخاری:5361]
باب:-خاوند کے جو حقوق بیوی پر لازم نہیں ان کی رعایت کرنا بھی مستحب ہے۔
[السنن الكبرىٰ-للبيهقي:(14724)]
شواھد:
عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ أَنَّ أُمَّ الْحَكَمِ أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَدَّثَتْهُ عَنْ إِحْدَاهُمَا أَنَّهَا قَالَتْ أَصَابَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَبْيًا: فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِّنَ السَّبْيِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ وَلَكِنْ سَأَدُلُّكُنَّ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُنَّ مِنْ ذَلِكَ تُكَبِّرْنَ اللهَ عَلَى إِثْرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ .
ترجمہ:
فضل بن حسن ضمری سے مروی ہے کہ ام حکم یا ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب میں سے کسی ایک نے انہیں بیان کیا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس میں کچھ قیدی آئے، میں، میری بہن اور فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ نے آکر رسول اللہ ﷺ سے اپنی تکلیف کی شکایت کی اور آپ سے درخواست کی کہ ہمیں بھی کچھ قیدی دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بدر کے یتیم تم سے سبقت لے گئے، لیکن میں تمہیں ایسے عمل کی طرف راہنمائی کروں گا جو تمہارے لئے اس سے بھی بہتر ہے۔ تم ہر نماز کے بعد تینتیس (۳۳)مرتبہ اللہ اکبر،تینتیس(۳۳)مرتبہ سبحان اللہ،تینتیس (۳۳)مرتبہ الحمدللہ اور ایک مرتبہ یہ کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، کہا کرو۔
[الصحيحة:1882 (1838)، سنن أبي داؤد:]
باب: شوہر کے حقوق کی رعایت رکھنا اس کے لیے کیا ضروری ہے، اگرچہ شرعی قانون کے مطابق ایسا کرنا لازم نہیں۔
[السنن الكبرىٰ-للبيهقي:3024،عن ابي.هريرة]
[المعجم الكبير-للطبراني:264، كعب بن عجرة]
عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم اسْتَعْذَرَ أَبَا بَكْرٍ مِّنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَظُنُّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ يَّنَالَهَا بِالذَّي نَالَهَا فَرَفَع أَبُوْ بَكْر يَدَهُ فَلَطَمَها وَصَكَّ فِي صَدْرِهَا فَوَجَدَ مِنْ ذَلِكَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَقَالَ : «يَا أَبَا بَكْرٍ! مَا أَنَا بِمُسْتَعْذِرِك مِنْهاَ بَعْدَ هَذاَ أَبَداً » .
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ابو بکرؓ سے عائشہ ؓ کی شکایت کی، نبی ﷺ کو گمان تک نہ تھا کہ ابو بکرؓ اس حد تک چلے جائیں گے، ابو بکرؓ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور عائشہ ؓ کو تھپڑ رسید کر دیا، اور سینے پر بھی مارا۔ نبی ﷺ کو اس بات سے غصہ آگیا اور فرمانے لگے: ابو بکر! آج کے بعد میں کبھی بھی تم سے اس کی شکایت نہیں کروں گا۔
[الصحيحة:2900 (1872)، صحيح إبن حبان:4185 (5484)]
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَسْتَعْدِي عَلَى وَالِدِهِ قَالَ: إِنَّهُ أَخَذَ مَالِيْ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ وَمَالُكَ مِنْ كَسْبِ أَبِيكَ؟.
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اپنے والد کی شکایت کر رہا تھاکہ اس نے میرا مال لے لیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ تم اور تمہارا مال تمہارے والد کی کمائی ہے۔
[الصحيحة:1548 (1918)، المعجم الكبير للطبراني:13345]
خوبیوں اور خامیوں کا بیان
عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ يَعْلَى قَالَ: مَا أَظُنُّ أَنَّ أَحَدًا مِّنَ النَّاسِ رَأَى مِنْ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلَّا دُونَ مَا رَأَيْتُ فَذَكَرَ أَمْرَ الصَّبِيِّ وَالنَّخْلَتَيْنِ وَأَمْرَ الْبَعِيرِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: مَا لِبَعِيرِكَ يَشْكُوكَ؟ زَعَمَ أَنَّكَ سَانِيهِ حَتَّى إِذَا كَبُرَ تُرِيدُ أَنْ تَنْحَرَهُ [لَا تَنْحَرُوْه وَاجْعَلُوْهُ فِي الْإِبِل يَكُون مَعَهَا ]
ترجمہ:
منہال بن عمرو، حضرت یعلی ؓ سے بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ: میں کسی شخص کے بارے میں گمان نہیں کرتا کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی ایسی چیزیں دیکھی ہوں،جو میں نے دیکھی ہیں۔ پھر انہوں نے بچے، دو کھجوروں اور اونٹ کا واقعہ ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: تمہارے اونٹ کو کیا ہوا کہ تمہاری شکایت کررہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ پانی نکالنے کے لئے تم اسے رہٹ یا کنویں پر چلاتے رہے اور اب یہ بوڑھا ہوگیا ہے تو تم نحر کرنا چاہتے ہو [اسے نحر مت کرو، اسے اونٹوں میں چھوڑدو ان کے ساتھ رہے]۔
[الصحيحة:485 (3570)، مسند أحمد:17567(16911)]
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خَلْفَهُ ذَاتَ يَوْمٍ فَأَسَرَّ إِلَيَّ حَدِيثًا لَا أُحَدِّثُ بِهِ أَحَدًا مِّنَ النَّاسِ وَكَانَ أَحَبُّ مَا اسْتَتَرَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِحَاجَتِهِ هَدَفًا أَوْ حَائِشَ نَخْلٍ فَدَخَلَ حَائِطًا لِّرَجُلٍ مِّنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ (فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم ) حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَمَسَحَ سِراته إلى سَنامه ذِفْرَاهُ فَسَكَنَ فَقَالَ: مَنْ رَّبُّ هَذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هَذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًى مِّنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: لِي يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ: أَفَلَا تَتَّقِي اللهَ فِي هَذِهِ الْبَهِيمَةِ الَّتِي مَلَّكَكَ اللهُ إِيَّاهَا؟ فَإِنَّهُ شَكَا إِلَيَّ أَنَّكَ تُجِيعُهُ وَتُدْئِبُهُ
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن جعفرؓ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیا، آپ ﷺ نے راز داری میں مجھ سے کوئی بات کیھ جو میں لوگوں سے بیان نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ کواپنی ضرورت کے لئے سب سے پسندیدہ جگہ کوئی ٹیلہ یا کھجوروں کا جھنڈ ہوا کرتا تھا۔آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں سامنے ایک اونٹ کھڑا ہے(جب اس نے نبی ﷺ کو دیکھا تو وہ بلبلا یا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، نبی ﷺ اس کے پاس آئے اور اس کے کان کی کی پشت سے لے کر کوہان تک ہاتھ پھیرا تو وہ پر سکون ہوگیا)۔ آپ ﷺ نے پوچھا اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نوجوان آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول میرا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم ان جانوروں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے جن کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے؟ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس پر بوجھ لاد کر تھکاتے ہو۔
[الصحيحة:20 (2052) ، سنن أبي داؤد:2549 (2186) .]
عَنْ جَابِرٍ قَال: شَكَا نَاسٌ إِلَى النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْمَشْىَ فَدَعَا بِهِمْ فَقَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالنَّسَلاَنِ فَنَسَلْنَا فَوَجَدْنَاهُ أَخَفَّ عَلَيْنَا».
ترجمہ:
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے نبی ﷺ سے پیدل چلنے میں تھکاوٹ کی شکایت کی۔ آپ نے انہیں بلایا اور فرمایا: تیز چلا کرو۔ ہم نے تیز چلنا شروع کردیا تو وہ ہم نے آسان پایا۔
[الصحيحة:465 (2101)، مستدرك الحاكم:1619+2491، صحيح ابن خزيمة:2537، المعجم الاوسط للطبرانی:8105]
تخریج اور مسائل:
باب:-جب کمزوری ہو تو کیسے چلنا؟
[السنن الکبریٰ للبیھقی:10346]
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ أَخَوَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَكَانَ أَحَدُهُمَا يَأْتِي النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وَفِي رِوَايَةٍ: يَحْضُرُ حَدِيْثَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَمَجْلِسَهُ) وَالْآخَرُ يَحْتَرِفُ فَشَكَا الْمُحْتَرِفُ أَخَاهُ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم (فَقاَلَ: يَارَسُوْلَ اللهِ ! (إِنَّ هَذا) أَخِي لَا يُعِيْنُنِي بِشَيْءٍ)، فَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِهِ.
ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے دور میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک نبی ﷺ کے پاس آتا،( اور ایک روایت میں ہے: نبی ﷺ کی حدیث سننے کے لیے آپ کی مجلس میں حاضر ہوتا) دوسرا بھائی محنت مزدوری یا کاروبار کرتا، محنت مزدوری یا کاروبار کرنے والے نے نبی ﷺ سے اپنے بھائی کی شکایت کی( اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! (یہ) میرا بھائی کسی کام میں میری مدد نہیں کرتا) آپ ﷺ نے فرمایا: ممکن ہے تمہیں اس کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہو۔
[الصحيحة:2769 (2485)، حاکم:320]
تخریج اور مسائل:
زھد (دنیا سے بے رغبتی) کی کتاب» باب:-اللہ پر توکل کا بیان۔
[سنن الترمذي:2499]
علم سیکھنے کی فضیلت کا بیان۔
[الجامع الصحيح السنن والمسانيد: ج6/ ص317]
عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَلْقَى مِنَ الْحَجَّاجِ فَقَالَ: قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : مَا مِنْ عَامٍ إِلَّا وَالَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ حَتَّى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ
ترجمہ:
حضرت زبیر بن عدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالکؓ کے پاس آئے اور حجاج کی تکالیف کی شکایت کی، تو کہنے لگے: آپ ﷺ نے فرمایا: جو سال بھی ہوگا، اس کے بعد آنے والا اس سے بد تر ہوگا حتی کہ تم اپنے رب سے ملاقات کر لو۔
[الصحيحة:1218 (2705) ، سنن الترمذي:2352 (2132)]
تخریج اور مسائل:
(1)اس بات کا ذکر کہ جو لوگ فن حدیث پر عبور نہیں رکھتے وہ وہم میں مبتلا ہیں کہ زمانہ کا انجام عام طور پر اس کی ابتداء سے بدتر ہوگا۔
[صحیح ابن حبان:5952]
(2)قیامت کی علامات کا بیان
[سنن الترمذي:2352]
(3)مصیبتوں پر صبر کا بیان اور جس چیز کی طرف روح لذت اور خواہش کے لحاظ سے مائل ہوتی ہے۔
[شعب الإيمان للبيهقي:9733 (4741)]
القرآن:
اور اگر تم لوگ (کسی کے ظلم کا) بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی زیادتی تمہارے ساتھ کی گئی تھی۔ اور اگر صبر ہی کرلو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہت بہتر ہے۔ اور (اے پیغمبر) تم صبر سے کام لو، اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ اور ان (کافروں) پر صدمہ نہ کرو، اور جو مکاریاں یہ لوگ کر رہے ہیں ان کی وجہ سے تنگ دل نہ ہو۔
[سورۃ النحل:آیت نمبر 126-127]
قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں فتنوں اور آفات کی کثرت ہے۔
[الجامع الصحيح السنن والمسانيد: ج2/ ص207]
فضیلتِ ذکر اور دَم کا بیان
عن محمد بن المنكدر قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِي صلی اللہ علیہ وسلم فَشَكا إِلَيْهِ أَهَاويل يرَاهَا فِي المَنَام، فَقَال: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشكَ فَقُلْ:أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِه وَعِقَابِه، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِين وَأَنْ يَحْضُرُون.
ترجمہ:
محمد بن منکدر سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور نیند میں برے( ڈراؤنے) خواب دیکھنے کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے بستر پر جاؤ تو کہو: میں اللہ کے تمام مکمل کلمات کے ساتھ اس کے غصے، اس کی سزا، اس کے بندوں کے شر اور شیاطین کےوسوسوں اور ان کی آمد سے(اللہ کی) پناہ میں آتا ہوں۔
[الصحيحة:264 (2742)، عمل اليوم والليلة لابن السني رقم (740)]
زیب و زینت اختیار کرنے کا بیان
عَنْ ثَوْباَن، قَالَ : جَاءَتْ بِنَت هُبَيْرَةَ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَفِي يَدِهَا الْفَتَخُ مِنْ ذَهَبٍ خَوَاتِيمُ ضَخَام فَجَعَلَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَضْرِبُ يَدَهَا فَأَتَتْ فَاطِمَةَ تَشْكُو إِلَيْهَا . قَالَ ثَوْبَان : فَدَخَلَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلَى فَاطِمَة وَأَنَا مَعَهُ وَقَدْ أَخَذَتْ مِنْ عُنْقِهَا سِلْسِلَة مِنْ ذَهَب، فَقَالَتْ: هَذاَ أهدى لِي أَبُو حَسَنٍ، وَفِي يَدِهَا سِلْسِلَةٌ فَقَالَ النًّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : يَا فَاطِمَةُ أَيَسُرُّكِ أَنْ يَقُولَ النَّاسُ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ فِي يَدِها سِلْسِلَةٌ مِنْ نَارٍ؟ فَخَــــرَجَ وَلَمْ يَقْعُدْ فَعَمَدَتْ فَاطِمَة إِلَى السِّلْسِلَةِ فَبَاعَتْهَا فَاشْتَرَتْ بِهَا نَسْمَة فَأَعْتَقَتْها فَبَلَغَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي نَجَّى فَاطِمَةَ مِنْ النَّارِ
ترجمہ:
حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ بنت ہبیرہ نبی ﷺ کے پاس آئی اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں، نبی ﷺ اس کے ہاتھ پر ضرب لگانے لگے، وہ فاطمہ ؓ کے پاس شکایت کرنے آئی۔ ثوبان ؓ کہتے ہیں: نبی ﷺ فاطمہ ؓ کے پاس آئے، میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ فاطمہ ؓ نے گلے سے سونے کی زنجیر اتاری اور، کہنے لگی: یہ مجھے ابو حسن نے تحفے میں دی ہے۔ اور فاطمہ ؓ نے وہ زنجیر اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: فاطمہ! کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ لوگ کہیں فاطمہ بنت محمد (ﷺ) کے ہاتھ میں آگ کی ایک زنجیر ہے؟ آپ باہر نکل گئے، بیٹھے نہیں۔ فاطمہ ؓ نے زنجیر بیچ کر ایک غلام خریدا اور اسے آزاد کر دیا، نبی ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: الحمدللہ! جس نے فاطمہ کو آگ سے نجات دی
[الصحيحة:411 (3083)، مسند أحمد رقم (21364)]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : اِشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا وَقَالَتْ: أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا فَجَعَلَ لَهَا نَفَسَيْنِ: نَفَسًا فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسًا فِي الصَّيْفِ، فَأَمَّا نَفَسُهَا فِي الشِّتَاءِ فَزَمْهَرِيرٌ، وَأَمَّا نَفَسُهَا فِي الصَّيْفِ فَسَمُومٌ.
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی اور کہنے لگی: میرے بعض حصے نے دوسرے کو کھا لیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس سردی میں اور دوسرا گرمی میں، اس کا سردی کا سانس سردی کی شدت اور گرمی کا سانس گرمی شدت ہے۔
[الصحيحة:1457 (3092)، سنن الترمذي كِتَاب صِفَةِ جَهَنَّمَ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ لِلنَّارِ نَفَسَيْنِ...رقم (2517)]
خوبیوں اور خامیوں کا بیان
عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ قَالَ: كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِأُنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ فِي الْغَضَبِ فَيَنْطَلِقُ نَاسٌ مِّمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ حُذَيْفَةَ فَيَأْتُونَ سَلْمَانَ فَيَذْكُرُونَ لَهُ قَوْلَ حُذَيْفَةَ فَيَقُولُ سَلْمَانُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ فَيَرْجِعُونَ إِلَى حُذَيْفَةَ فَيَقُولُونَ لَهُ: قَدْ ذَكَرْنَا قَوْلَكَ لِسَلْمَانَ فَمَا صَدَّقَكَ وَلَا كَذَّبَكَ فَأَتَى حُذَيْفَةُ سَلْمَانَ وَهُوَ فِي مَبْقَلَةٍ فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ! مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَدِّقَنِي بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ سَلْمَانُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كَانَ يَغْضَبُ فَيَقُولُ فِي الْغَضَبِ لِنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ وَيَرْضَى فَيَقُولُ فِي الرِّضَا لِنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ أَمَا تَنْتَهِي حَتَّى ثورت رِجَالًا حُبَّ رِجَالٍ وَرِجَالًا بُغْضَ رِجَالٍ وَحَتَّى تُوقِعَ اخْتِلَافًا وَفُرْقَةً؟ وَلَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خَطَبَ فَقَالَ: أَيُّمَا رَجُلٍ مِّنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فِي غَضَبِي فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَّلَدِ آدَمَ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ صَلَاةً يَّوْمَ الْقِيَامَةِ . وَاللهِ لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ
ترجمہ:
عمرو بن ابی قرہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ حذیفہ ؓ مدائن میں تھے، انہوں نے کچھ باتوں کا تذکرہ کیا جو رسول اللہ ﷺ نے غصے کی حالت میں اپنے صحابہ سے کہی تھیں۔حذیفہ ؓ سے جن لوگوں نے یہ باتیں سنیں وہ سلمانؓ کے پاس آئے اور ان سے حذیفہ ؓ کی باتوں کا ذکر کیا سلمانؓ نے کہا: حذیفہ اپنی کہی ہوئی باتوں کے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔ وہ حذیفہؓ کے پاس واپس آئے اور ان سے کہا: ہم نے آپ کی بات سلمانؓ کے سامنے رکھی تو نہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی نہ تکذیب کی۔ حذیفہ ؓ سلمان ؓ کے پاس آئے، سلمان ؓ سبزیوں کے کھیت میں تھے۔ حذیفہ ؓ نے کہا: سلمان! جو بات میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی، اس بارے میں میری تصدیق کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟ سلمان ؓ نے کہا کہ: رسول اللہ ﷺ غصے میں ہوا کرتے تھے تو غصے میں اپنے صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے اور خوش ہوتے تو خوشی میں صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے تم باز نہیں آؤ گے حتی کہ لوگوں کے دلوں میں بعض کی محبت اور بعض کی نفرت اور ان میں اختلاف و افتراق ڈال دو گے۔ اور تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو فرمایا: میری امت میں سے میں نے جس شخص کو گالی دی ہے یا غصے میں لعنت کی ہے، تو میں بھی آدم کی اولاد ہوں جس طرح دوسرے لوگ غصے ہوتے ہیں میں بھی غصے ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ اے اللہ! قیامت کے دن اس کو ان کے لئے رحمت کا باعث بنا۔ واللہ! یا تو تم باز آجاؤ وگرنہ میں عمرؓ کو (شکایت)لکھتا ہوں۔
[الصحيحة:1758 (3458)، سنن أبي داؤد،كِتَاب السُّنَّةِ، بَاب فِي النَّهْيِ عَنْ سَبِّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، رقم (4040)]
خوبیوں اور خامیوں کا بیان
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: اشْتَكَى النَّاس عَلِيًّا – رضوان الله عليه- فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِينَا خَطِيبًا فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَيُّهَا النَّاسُ! لَا تَشْكُوا عَلِيًّا فَوَاللهِ! إِنَّهُ لَأَحْسَنَ فِي ذَاتِ اللهِ أَوْ فِي سَبِيلِ اللهِ مِنْ أَنْ يُّشْكَى۔
ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: لوگوں نے علی ؓ کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر فرمانے لگے: لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، واللہ! یہ اللہ کے بارے میں یا اللہ کے راستے میں اس بات سے بہتر ہے کہ اس کی شکایت کی جائے۔
[الصحيحة:2479 (3460)، مسند أحمد: (11390)]
خوبیوں اور خامیوں کا بیان
عَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَجُلًا إِلَى حَيٍّ مِّنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ في شيء –لاَ يَدْرِي مَهْدِي مَاهُوَ؟- قَالَ: فَسَبُّوهُ وَضَرَبُوهُ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: لَوْ أَنَّكَ أَتَيْتَ أَهْلَ عُمَانَ مَا سَبُّوكَ وَلَا ضَرَبُوكَ۔
ترجمہ:
حضرت ابو برزہ ؓ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرب کے کسی قبیلے کی طرف (راوی) مہدی کو اس قبیلے کا علم نہیں اپنا ایک قاصد بھیجا، انہوں نے اسے گالی گلوچ کیا اور مارا پیٹا، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس شکایت لے کر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اہل عمان کی طرف آتے تو وہ نہ تمہیں گالی دیتے اور نہ ہی مارتے۔
[الصحيحة:2730 (3556)، صحيح مسلم،كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ، بَاب فَضْلِ أَهْلِ عُمَانَ، رقم (4616)]
No comments:
Post a Comment