Sunday, 30 October 2016

گانے باجے اور آلاتِ موسیقی کی حرمت

گانے سننا حرام اور برا فعل ہے، اور یہ دلوں کے مرض اور ان کی سختی اور اللہ کے ذکر اور نماز سے دور کرنے والے اسباب میں سے ایک سبب ہے، اور اکثر اہل علم نے اللہ تعالی کے اس فرمان: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ  (سورۃ لقمان:6)  ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻟﻐﻮ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻛﻮ ﻣﻮﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔} کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد گانے باجے ہیں۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود - رضي الله عنه - اس بات پر قسم کھاتے تھے کہ لغو باتوں سے مراد گانا ہے۔ اور اگر گانے کے ساتھـ آلات لہو و لعب ہوں، جیسے: رباب، سارنگی، دو تارہ اور ڈھول تو اس کی حرمت اور زیادہ سخت ہوجائے گی۔ اور بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ گانا آلاتِ لہو و لعب (موسیقی) کے ساتھـ ہو تو وہ بالاتفاقِ علماء حرام ہے؛ لہذا اس سے بچنا چاہیے. 




Friday, 28 October 2016

اللہ سے، اللہ کا تعارف



اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ الحَىُّ القَيّومُ ۚ لا تَأخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَومٌ ۚ لَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۗ مَن ذَا الَّذى يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ ۚ يَعلَمُ ما بَينَ أَيديهِم وَما خَلفَهُم ۖ وَلا يُحيطونَ بِشَيءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ ۚ وَسِعَ كُرسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ ۖ وَلا يَـٔودُهُ حِفظُهُما ۚ وَهُوَ العَلِىُّ العَظيمُ {2:255}
ترجمہ:
اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہں زندہ ہے سب کا تھامنے والا [۴۱۶] نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے جانتا ہے جو کچھ خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ انکے پیچھے ہے اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا [۴۱۷] 

Sunday, 23 October 2016

لفظِ صوفی کی لغوی واصطلاحی تحقیق

صوفی کون اور تصوف کیا ہے؟
اپنے نفس و باطن کا (بری صفات سے) تصفیہ(یعنی تذکیہ واصلاح) کرنے والے مومنوں کو، جو  اچھی صفات وخصوصیات کے حامل ہوں، صوفی کہا جانے لگا۔
حوالہ
جَعْفَر الْخُلْدِيِّ يَقُول سَمِعت الْجُنَيْد وَسُئِلَ عَن التصوف يَقُول: الْعُلُوّ إِلَى كل خلق شرِيف والعدول عَن كل خلق دنيء.
ترجمہ:
جعفر خلدی کہتے ہیں کہ میں نے سنا جنیدؒ کو کہ پوچھا گیا ان سے تصوف کا تو فرمایا: سارے شریف اخلاق تک بلند ہونا اور سارے ادنیٰ اخلاق سے باز آنا۔
[طبقات الصوفية للسلمي (المتوفى: 412هـ) : ص 328]


 

Friday, 7 October 2016

سیدنا حسینؓ کی سیرت، فضائل اور چہل حدیث


فضائل ومناقب:

عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا، فَنَالَتْ مِنِّي، فَقُلْتُ لَهَا: دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ المَغْرِبَ، وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ المَغْرِبَ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى العِشَاءَ، ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُهُ، فَسَمِعَ صَوْتِي، فَقَالَ: «مَنْ هَذَا، حُذَيْفَةُ»؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلِأُمِّكَ»؟ قَالَ: «إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ ‌سَيِّدَةُ ‌نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ وَأَنَّ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ سَيِّدَا ‌شَبَابِ ‌أَهْلِ ‌الجَنَّةِ»
ترجمہ:
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئیے میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چناچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا: کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے فرمایا: بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو، کیا بات ہے؟ (پھر) آپ نے فرمایا: یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین ؓ اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں۔
[سنن الترمذي:3781، السنن الكبرى-النسائي:8240، مسند أحمد:23329+23330]