یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Saturday, 28 June 2025
اہل بیت اور آلِ محمد ﷺ کون؟ ان کا مقام اور حقوق
Wednesday, 25 June 2025
کلماتِ کفر، ایمان اور منافقت

Friday, 20 June 2025
کیسے دین (قرآن وحدیث) محفوظ ہے؟
علمِ الٰہی کے محافظ کون؟
القرآن:
بےشک ہم نے ہی یہ ذکر (نصیحت) نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کی یقیناً حفاظت کرنے والے ہیں۔
[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 9]
قرآنی تفسیر:
اللہ نے (1)کتاب اور (2)حکمت(طریقہ) نازل کی ہے۔
[حوالہ«سورۃ البقرۃ:236، النساء:113]
رسول ﷺ کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دینے کیلئے بھیجا گیا۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:129+151، آل عمران:164، الجمعۃ:2]
پچھلے انبیاء کو بھی کتاب اور حکمت عطا کی گئی تھی۔
[حوالہ»سورۃ الانعام:89، الجاثیۃ:16، آل عمران:48، النساء:54، المائدۃ:110]
تشریح:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگرچہ قرآن کریم سے پہلے بھی آسمانی کتابیں بھیجی گئی تھیں، لیکن چونکہ وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لیے آئی تھیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی، بلکہ ان کی حفاظت کا کام انہی لوگوں کو سونپ دیا گیا تھا جو ان کے مخاطب تھے، ﴿جیسا کہ سورة مائدہ:44 میں فرمایا گیا ہے﴾ لیکن قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے، چنانچہ اس میں قیامت تک کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اس طرح فرمائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سینوں میں اسے اس طرح محفوظ کردیا ہے کہ اگر بالفرض کوئی دشمن قرآن کریم کے سارے نسخے (معاذ اللہ) ختم کردے تب بھی چھوٹے چھوٹے بچے اسے دوبارہ کسی معمولی تبدیلی کے بغیر لکھوا سکتے ہیں جو بذات خود قرآن کریم کا زندہ معجزہ ہے۔
تفسیر قرآن کے محافظ کون؟
القرآن:
یقین رکھو کہ اس کو یاد کرانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پھر جب ہم اسے (جبرائیل کے واسطے سے) پڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔(7) پھر اس کی وضاحت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ (8)
[سورۃ القيامة:17-19]
تفسیر:
(7) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی توجہ الفاظ کو یاد رکھنے کے بجائے ان آیات کی عملی پیروی کرنے پر مرکوز رکھیں، اور یہ بھی کہ جس طرح حضرت جبرئیل ؑ پڑھ رہے ہیں، آئندہ آپ بھی اسی طرح پڑھا کریں۔
(8) یعنی آیاتِ کریمہ کی تشریح بھی ہم آپ کے قلب مبارک میں محفوظ کردیں گے۔
القرآن:
ہم آپ کو پڑھائیں گے، آپ بھول نہیں پائیں گے۔
[سورۃ الاعلیٰ:6]
(1)حافظِ قرآن کے فضائل»
حضرت علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، وَحَفِظَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ .
ترجمہ:
جس نے قرآن پڑھا اور اسے یاد کیا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔
[سنن ابن ماجہ:216، مسند احمد:1278، الشريعة للآجري:816، المعجم الأوسط-للطبراني:5130، الترغيب-لابن شاهين:189، شعب الایمان-للبيهقي:2436]
تشریح:
"جس نے قرآن پڑھا" یعنی زبانی یاد ہو یا نظر سے (مصحف دیکھ کر)، "اور اسے حفظ کیا" یعنی اس پر عمل کرنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ یا "حفظ" سے مراد زبانی تلاوت کرنا ہے۔ "اور" (واو) ترتیب کی طرف اشارہ نہیں کرتی، لہذا ممکن ہے کہ معنی یہ ہو کہ جس نے قرآن کو حفظ کیا اور پھر اس کی تلاوت پر مداومت کی اور اسے ترک نہیں کیا۔ یا ممکن ہے کہ معنی یہ ہو کہ جس نے اس کی تلاوت پر مداومت کی یہاں تک کہ اسے حفظ کر لیا۔ دونوں صورتوں میں اس کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ بغیر عمل کے شخص کو جاہل شمار کیا جاتا ہے۔ ترمذی کی روایت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ زبانی تلاوت معتبر ہے اور اس کی تصدیق کرتی ہے۔
"اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا" یعنی ابتدائی طور پر، ورنہ ہر مومن آخر کار جنت میں داخل ہوگا۔ "اور اس کی شفاعت قبول کرے گا" (شفّعہ میں فاء مشدد ہے) یعنی اس کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔ "وہ جہنم کا مستحق ہو چکا تھا" یعنی گناہوں کی وجہ سے، کفر کی وجہ سے نہیں۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجة:289]
(دوسری سند کی روایت)
حضرت علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ ﴿تَعَلَّمَ﴾ قَرَأَ الْقُرْآنَ فاستظهره، ﴿وَحَفِظَهُ﴾ فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَشَفَّعَهُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ۔
ترجمہ:
*"جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کرلیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال مانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام مانا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (حافظِ قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی"۔
[مسند احمد:1268، سنن الترمذي:2905، شعب الایمان-للبيهقي:1795-1796]
تشریح:
'استظهره' کا مطلب ہے 'اسے حفظ کر لیا'۔
آپ کہہ سکتے ہیں: 'قَرَأْتُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِي' (میں نے قرآن اپنے دل کی پشت/یاد سے پڑھا)، یعنی میں نے اسے اپنے حفظ سے پڑھا۔"
[جامع الاصول-ابن الاثیر:6289، قوت المغتذي على جامع الترمذي، السيوطي: 2/727]
نوٹ:
حقوقِ قرآنِ الٰہی: (1)سیکھنا (2)یاد رکھنا (3)احکام ماننا۔
قرآن کے محفوظ ہونے کے دلائل: عقلی، نقلی اور تاریخی شواہد:
1. اللہ کا وعدۂ حفاظت (نقلی دلیل)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے:
> ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾
"بے شک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔" (الحجر: 9)
2. تواتر کی بنیاد پر نقل (تاریخی وعقلی دلیل)
قرآن کریم "متواتر" طریقے سے نقل ہوا ہے، یعنی ہر دور میں اتنے زیادہ لوگوں نے اسے یاد کیا اور پڑھا کہ اس کے متن پر شک کرنا ناممکن ہے۔
- حفظ قرآن کی روایت: نبی ﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک لاکھوں حفاظ نے قرآن کو زبانی یاد کیا ہے۔
- کتابی شکل میں جمع: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کو ایک مصحف میں جمع کیا گیا، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے معیاری نسخوں میں تقسیم کیا۔
- مخطوطات کی تصدیق: قدیم ترین قرآن کے نسخے (جیسے صنعاء مخطوطہ، برمنگھم قرآن وغیرہ) آج کے قرآن سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔
---
3. مخالفین کی ناکامی (عقلی دلیل)
- قرآن نے اپنے مخالفین کو چیلنج دیا کہ وہ اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھائیں، لیکن وہ ناکام رہے:
> ﴿قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ﴾ (الإسراء: 88)
- اگر قرآن میں تبدیلی ہو سکتی تو مخالفین اسے بدلنے یا جعل کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔
---
4. اہل کتاب کی گواہی (تاریخی دلیل)
- یہود ونصاریٰ نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مسلمانوں نے قرآن میں تحریف کی ہے۔
- مستشرقین (مغربی محققین) بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن وہی ہے جو نبی ﷺ پر نازل ہوا تھا۔
---
5. علماء امت کا اجماع (نقلی وعقلی دلیل)
> "جو شخص یہ کہے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے، وہ یا تو جاہل ہے یا زندیق (منکر)۔" (مقدمہ فی اصول التفسیر)
---
6. جدید سائنسی تحقیقات (سائنسی وعقلی دلیل)
- جدید "قرآنک مخطوطات" (جیسے Topkapi، Samarkand، صنعاء مخطوطات) کی ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ یہ نسخے موجودہ قرآن سے 100% میل کھاتے ہیں۔
- کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے قرآن کے متن کا تجزیہ بھی اس کی عدم تحریف کو ثابت کرتا ہے۔
1. الوہی وعدہ: (اللہ کی حفاظت)
2. تواتر: (زبانی وکتابی نقل)
3. تاریخی شواہد: (قدیم مخطوطات)
4. عقلی واستدلالی ثبوت: (مخالفین کی ناکامی، اجماع امت)
اس لیے یہ کہنا کہ قرآن بدل گیا ہے، نہ صرف اسلامی عقیدے کے خلاف ہے بلکہ تاریخی وعقلی طور پر بھی غلط ہے۔ قرآن آج بھی اسی طرح محفوظ ہے جیسا کہ 1400 سال پہلے نازل ہوا تھا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کی صحیح تفہیم اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
مزید مطالعہ کے لیے:
- تفاسیر (سورۃ الحجر: 9)
- "اتقان فی علوم القرآن" للسیوطی
- "مقدمہ فی اصول التفسیر" لابن تیمیہ
- "The History of the Quranic Text" by Dr. Muhammad Mustafa Al-Azami
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ: اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا.
ترجمہ:
(قیامت کے دن) قرآن والے سے کہا جائے گا: (قرآن) پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہوگی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی۔
[سنن ابوداؤد:1464]
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
[سنن الترمذي:2914، صحیح ابن حبان:766]
تخریج:
{مصنف ابن ابی شیبہ:30055-30057، مسند احمد:6799، الترغیب لابن شاھین:205، مستدرک حاکم:2030، سنن بیھقی:2425، شرح السنۃ للبغوی:1178]
Friday, 13 June 2025
پانچ اوقاتِ نماز کا ثبوت اور فضائل
نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
کائنات کے خالق ومالک اللہ پاک نے حکم فرمایا:
.....اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا
[سورة المعارج:34]
مفسر قرآن ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔
مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔
اور حکم دو تم اپنے گھروالوں کو نماز کا اور قائم رہو اس پر، ہم تم سے نہیں مانگتے رزق،(بلکہ)ہم تمہیں رزق دیتے ہیں،اور(بہتر)انجام تو پرہیز گاروں کا ہے۔
[سورۃ طٰہٰ:132]
تفسیر:
اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں آقا اپنے غلاموں کو معاشی مشغلے میں لگا کر ان کی آمدنی سے رزق حاصل کرتے ہیں، الله تعالیٰ تمہاری اس طرح کی بندگی سے بےنیاز ہے، اس کے بجائے وہ خود تمہیں رزق دینے کا وعدہ کرچکا ہے۔
اور
دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے تم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کی کہ تم اپنا رزق خود پیدا کرو۔ تم زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرتے ہو، وہ یہ کہ اسباب کو اختیار کرلیتے ہو، مثلاً زمین میں بیج بو دیتے ہو، لیکن اس بیج سے دانہ اگانے کا کام ہم نے تم پر نہیں رکھا۔ بلکہ ہم خود اس سے وہ پیداوار پیدا کرتے ہیں جو تمہیں رزق مہیا کرتی ہے۔

Tuesday, 10 June 2025
تکبیراتِ تشریق اور ایامِ تشریق
"اکثر اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ تکبیرات (تشریق) کا آغاز عرفہ (9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز کے فوراً بعد ہوتا ہے، اور اختتام ایام تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز کے بعد ہوتا ہے۔ یہی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ مکحول نے بھی اسی کو اپنایا ہے۔
[شرح السنة للبغوي:1924(7/146)]
کیونکہ
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يكبر يوم عرفة صَلَاةَ الْغَدَاةِ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ آخِرَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ
ترجمہ:
"نبی ﷺ عرفہ(9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز سے لے کر ایام تشریق(یعنی 11-12-13 ذی الحجہ) کے آخری دن کی عصر کی نماز تک تکبیرات (تکبیرات تشریق) پڑھا کرتے تھے۔"
[بیھقی:6278]
Monday, 9 June 2025
بیماری اور عیادت کے فضائل، احکام وآداب
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال اور جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
Thursday, 5 June 2025
علاماتِ قیامت: قبر وحشر، جنّت وجہنّم
Wednesday, 4 June 2025
عوامی شبہات ومغالطوں کی اصلاح
(1) اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہی ہے تو کیا عبادت کیلئے فرشتے کافی نہیں تھے؟
جواب:
اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
*"وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ"* (الذاریات: 56)
(ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے)۔
سوال یہ ہے کہ اگر مقصد صرف عبادت تھا تو پہلے سے موجود فرشتے کیوں کافی نہیں تھے؟ اس کا جواب عقلی و نقلی دلائل سے درج ذیل ہے:
---
### *1. عبادت کی نوعیت میں فرق: آزاد مرضی کا امتحان:*
- **فرشتوں کی عبادت**: وہ فطری طور پر مکمل مطیع ہیں، ان میں آزاد مرضی نہیں۔ قرآن میں ہے:
*"لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ"* (التحریم: 6)
(ترجمہ: وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اور جو کچھ انہیں حکم دیا جائے وہی کرتے ہیں)۔
یہ عبادت "مجبوری" پر مبنی ہے۔
- *انسان کی عبادت*: انسان کو *آزاد مرضی* دی گئی تاکہ وہ اپنے اختیار سے اللہ کی بندگی کا انتخاب کرے۔ یہ عبادت "امتحان" کی بنیاد پر ہے، جس کا مقصد ایمان و عمل کی آزمائش ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
*"اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا"* (الملک: 2)
(ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے)۔
*عقلی دلیل*:
جبری عبادت (جیسے فرشتے) اور اختیاری عبادت (جیسے انسان) میں بہت فرق ہے۔ اختیاری عبادت میں *اخلاص، جدوجہد اور خدمت* شامل ہوتی ہے، جو انسان کو روحانی ترقی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اجر بھی فرشتوں سے زیادہ ہے۔
---
### *2. انسان کی منفرد حیثیت: خلافتِ الٰہی کا منصب:*
اللہ تعالیٰ نے انسان کو **خلیفۃ اللہ فی الارض* (زمین پر اپنا نائب) بنایا، جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے:
*"وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً"* (البقرہ: 30)
فرشتوں نے اعتراض کیا: **"اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ"** (کیا آپ ایسے کو خلیفہ بنائیں گے جو فساد کرے گا اور خونریزی کرے گا؟)۔
اللہ نے جواب دیا: *"اِنِّيْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ"* (بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے)۔
*عقلی دلیل*:
- فرشتے صرف عبادت کر سکتے ہیں، لیکن انسان کو *تخلیقی صلاحیتیں* دی گئی ہیں تاکہ وہ زمین کو آباد کرے، علم حاصل کرے اور عدل قائم کرے۔
- انسان کا امتحان ہی اسے فرشتوں سے ممتاز کرتا ہے، کیونکہ وہ *شہوات اور شیطان کے وسوسوں* کے باوجود عبادت پر قائم رہتا ہے۔
---
### *3. معرفتِ الٰہی کا کمال: اللہ کے اسماء و صفات کا ظہور*
انسان کو *اشرف المخلوقات* بنایا گیا، کیونکہ وہ اللہ کے اسماء و صفات (جیسے رحیم، غفور، حکیم) کو پہچاننے اور ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فرشتے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے، جیسا کہ سورۃ البقرہ (آیت 31-33) میں حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر فضیلت دینے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
*عقلی دلیل*:
اگر صرف عبادت کا ہدف ہوتا تو فرشتے کافی تھے، لیکن انسان کی تخلیق کا مقصد *اللہ کی صفات کا مکمل ظہور* تھا، جو صرف آزاد مرضی، آزمائش اور اختیار کے ذریعے ممکن ہے۔
---
### *4. نتیجہ: عبادت کا جامع تصور*
- *عبادت:* محض نماز/روزہ نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارنا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
*"قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ"* (الأنعام: 162)
(ترجمہ: کہہ دو میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے)۔
- فرشتے صرف *عبادتِ خاصہ* (نماز وغیرہ) کر سکتے ہیں، جبکہ انسان *عبادتِ عامہ* (تعلیم، معاشرتی خدمت واصلاح، عدل قائم کرنا) کے ذریعے بھی اللہ کو راضی کرتا ہے۔
### *خلاصہ*:
فرشتوں کی عبادت "فطری" ہے، جبکہ انسان کی عبادت "اختیاری اور آزمائشی" ہے، جو اسے *اعلیٰ درجے کی روحانی بلندی* پر پہنچاتی ہے۔ انسان کو خلافت، علم اور آزاد مرضی جیسے اعزازات دیے گئے، جو فرشتوں کے پاس نہیں۔ لہٰذا، انسان کی تخلیق کا مقصد محض عبادت نہیں، بلکہ *امتحان کے ذریعے کمالِ عبادت تک پہنچنا* ہے، جو فرشتوں کے لیے ممکن نہ تھا۔