یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
.....بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض (مقررہ) اوقات میں۔
[سورۃ النساء:103]
حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ.....نمازوں کی حفاظت کرو۔
[سورة البقرة:238]
مفسر قرآن علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلَی صَلَوَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ.....اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ [سورة المعارج:34] مفسر قرآن ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔
فَوَیلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ.....سو ان نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز میں کاہلی کرتے ہیں۔
[سورة الماعون:4-5] مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔
قرآن کریم (سورة النساء آیت ۱۰۲) میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ متعدد احادیث میں نمازِ خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے؛ لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اس کی قضا کرنی ہوگی، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہٴ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
"اکثر اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ تکبیرات (تشریق) کا آغاز عرفہ (9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز کے فوراً بعد ہوتا ہے، اور اختتام ایام تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز کے بعد ہوتا ہے۔ یہی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ مکحول نے بھی اسی کو اپنایا ہے۔
"نبی ﷺ عرفہ(9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز سے لے کر ایام تشریق(یعنی 11-12-13 ذی الحجہ) کے آخری دن کی عصر کی نماز تک تکبیرات (تکبیرات تشریق) پڑھا کرتے تھے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ (یعنی 9 ذی الحجہ) کے دن صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: "اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو"، پھر یہ تکبیریں پڑھتے:
«الله أكبر اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ , لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ والله أَكْبَرُ , اللَّهُ أَكْبَرُ ولله الحمد»
آپ ﷺ عرفہ کی صبح سے لے کر تشریق کے آخری دن (یعنی 13 ذی الحجہ) کی عصر کی نماز تک یہ تکبیریں پڑھتے رہے۔
[سنن الدارقطني:1737، شرح السنة للبغوي:1924، تفسیر الدر المنثور للسیوطی:1/556-سورۃ البقرۃ:198، تفسیر البغوی:1/234-سورۃ البقرۃ:203]
دنیا دار الامتحان ہے، جس طرح ایمان سے محروم انسان کو ابتلا وآزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے، اسی طرح صاحبِ ایمان کے لیے بھی ابتلا و آزمائش مقدر ہوتی ہے، اسلام کا تصور یہ ہے کہ بیماری اور شفا اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، فرماں بردار اور نافرماں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، حضرات انبیائے کرام بھی بیمار ہوئے ہیں، سیدالمرسلین اور امام الانبیاء بھی متعدد مرتبہ بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں، وفات کے موقع پر تقریباً چودہ دن بیمار رہے، بیماری مومن کے لیے امتحان وآزمائش ہے، دنیا میں آزمائشیں بخشش اور مغفرت کے لیے آتی ہیں، حقیقت میں بیماری ایک نعمت ہے، گناہوں کے لیے کفارہ اور رفع درجات کا سبب ہے، بیمار کو اللہ اور بندوں سے معافی تلافی اور حقوقی کی ادائیگی کے لیے ایک موقع دیا جاتا ہے۔
اہل ایمان دنیا میں ہمیشہ مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آخرت کی دائمی راحت پالیتے ہیں:
القرآن:
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال اور جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155-156]
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يزال البلاء بالمؤمن أو المؤمنة في نفسه وماله وولده حتى يلقى الله تعالى وما عليه من خطيئة .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن مرد یا مؤمن عورت کی جان، اس کے مال اور اس کی اولاد کو ہمیشہ مصیبت و بلاء پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ (جب) وہ (مرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے تو اس پر (یعنی اس کے نامہ اعمال میں) کوئی گناہ نہیں ہوتا (کیونکہ مصیبت و بلاء کی وجہ سے اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں)۔
(۳)علاماتِ قریبہ، جن کو علاماتِ بعیدہ
کہاجاتا ہےاُن کا ظہورہوچکا ہے،
مثلاً حضور اکرمﷺکا تشریف لانا اور چاند کا شق ہونا ،نبوت کے سلسلہ کا ختم
ہوجانا وغیرہ یہ علاماتِ بعیدہ کہلاتی ہیں،اس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے:اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ
الْقَمَر(قمر:۱) قیامت
قریب آگئی اور چاند شق ہوگیا،یعنی حضور اکرمﷺکے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے،گزشتہ کتابوں میں چاند
کےشق ہونے کو علاماتِ قیامت میں شمار کیاگیا ہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا مجھے
اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا اس موقعہ پر حضور اکرمﷺنے دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا، یعنی جتنا فاصلہ انگشتِ
شہادت اور درمیانی انگلی میں ہے اتنا ہی فاصلہ مجھ میں اور قیامت میں ہے۔
دوسری قسم علاماتِ متوسطہ جن کو علامات صغری
بھی کہاجاتا ہے،ان میں سے بہت سی علامتیں ظاہر ہوچکی ہیں اور باقی ظاہر ہوتی جارہی
ہیں، ان علامتوں کا تفصیلی ذکر قربِ قیامت کی چھوٹی نشانیوں کے ذیل میں آئے
گا،تیسری قسم علامات قریبہ جس کو علاماتِ کبری بھی کہا جاتا ہے اس کا ذکر قیامت کی
بڑی نشانیوں کے تحت آئے گا۔
(ترجمہ: وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اور جو کچھ انہیں حکم دیا جائے وہی کرتے ہیں)۔
یہ عبادت "مجبوری" پر مبنی ہے۔
- *انسان کی عبادت*: انسان کو *آزاد مرضی* دی گئی تاکہ وہ اپنے اختیار سے اللہ کی بندگی کا انتخاب کرے۔ یہ عبادت "امتحان" کی بنیاد پر ہے، جس کا مقصد ایمان و عمل کی آزمائش ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
(ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے)۔
*عقلی دلیل*:
جبری عبادت (جیسے فرشتے) اور اختیاری عبادت (جیسے انسان) میں بہت فرق ہے۔ اختیاری عبادت میں *اخلاص، جدوجہد اور خدمت* شامل ہوتی ہے، جو انسان کو روحانی ترقی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اجر بھی فرشتوں سے زیادہ ہے۔
---
### *2. انسان کی منفرد حیثیت: خلافتِ الٰہی کا منصب:*
اللہ تعالیٰ نے انسان کو **خلیفۃ اللہ فی الارض* (زمین پر اپنا نائب) بنایا، جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے:
فرشتوں نے اعتراض کیا: **"اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ"** (کیا آپ ایسے کو خلیفہ بنائیں گے جو فساد کرے گا اور خونریزی کرے گا؟)۔
اللہ نے جواب دیا: *"اِنِّيْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ"* (بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے)۔
*عقلی دلیل*:
- فرشتے صرف عبادت کر سکتے ہیں، لیکن انسان کو *تخلیقی صلاحیتیں* دی گئی ہیں تاکہ وہ زمین کو آباد کرے، علم حاصل کرے اور عدل قائم کرے۔
- انسان کا امتحان ہی اسے فرشتوں سے ممتاز کرتا ہے، کیونکہ وہ *شہوات اور شیطان کے وسوسوں* کے باوجود عبادت پر قائم رہتا ہے۔
---
### *3. معرفتِ الٰہی کا کمال: اللہ کے اسماء و صفات کا ظہور*
انسان کو *اشرف المخلوقات* بنایا گیا، کیونکہ وہ اللہ کے اسماء و صفات (جیسے رحیم، غفور، حکیم) کو پہچاننے اور ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فرشتے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے، جیسا کہ سورۃ البقرہ (آیت 31-33) میں حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر فضیلت دینے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
*عقلی دلیل*:
اگر صرف عبادت کا ہدف ہوتا تو فرشتے کافی تھے، لیکن انسان کی تخلیق کا مقصد *اللہ کی صفات کا مکمل ظہور* تھا، جو صرف آزاد مرضی، آزمائش اور اختیار کے ذریعے ممکن ہے۔
---
### *4. نتیجہ: عبادت کا جامع تصور*
- *عبادت:* محض نماز/روزہ نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارنا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
(ترجمہ: کہہ دو میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے)۔
- فرشتے صرف *عبادتِ خاصہ* (نماز وغیرہ) کر سکتے ہیں، جبکہ انسان *عبادتِ عامہ* (تعلیم، معاشرتی خدمت واصلاح، عدل قائم کرنا) کے ذریعے بھی اللہ کو راضی کرتا ہے۔
### *خلاصہ*:
فرشتوں کی عبادت "فطری" ہے، جبکہ انسان کی عبادت "اختیاری اور آزمائشی" ہے، جو اسے *اعلیٰ درجے کی روحانی بلندی* پر پہنچاتی ہے۔ انسان کو خلافت، علم اور آزاد مرضی جیسے اعزازات دیے گئے، جو فرشتوں کے پاس نہیں۔ لہٰذا، انسان کی تخلیق کا مقصد محض عبادت نہیں، بلکہ *امتحان کے ذریعے کمالِ عبادت تک پہنچنا* ہے، جو فرشتوں کے لیے ممکن نہ تھا۔