القرآن:
بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لئے) کوئی بھی مثال دے، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو، اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے۔ البتہ جو لوگ کافر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے اللہ کا کیا مطلب ہے ؟ (اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:26]
تفسیر:
بعض کافروں نے قرآن کریم پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اس میں کچھ مثالیں مکھی، مچھر، مکڑی وغیرہ کی دی گئی ہیں، اگر یہ واقعی خدا کا کلام ہوتا تو اس میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر نہ ہوتا، ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بڑا بےتکا اعتراض تھا کیونکہ مثال ہمیشہ مضمون کی مناسبت سے دی جاتی ہے اگر کسی حقیر و ذلیل کی مثال دینی ہو تو ایسی ہی کسی چیز سے دی جائے گی جو حقیر و ذلیل ہو، یہ کسی کلام کا عیب تو کیا ہوتا بلکہ یہ اس کی فصاحت وبلاغت کی دلیل ہے مگر یہ بات انہی کی سمجھ میں آتی ہے جو طالبِ حق ہوں اور حق پر ایمان لاچکے ہوں لیکن جنہوں نے کفر کی قسم کھا رکھی ہے انہیں تو ہر بات پر ہر حالت میں اعتراض کرنا ہے اس لئے ایسی بےتکی باتیں کہتے ہیں۔
قرآن کریم کی یہی آیتیں جو طالبِ حق کو ہدایت بخشتی ہیں ایسے لوگوں کے لئے مزید گمراہی کا سبب بن جاتی ہیں جنہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ کر یہ طے کرلیا ہے کہ حق بات ماننی نہیں ہے کیونکہ وہ ہر نئی آیت کا انکار کرتے ہیں اور ہر آیت کا انکار ایک مستقل گمراہی ہے۔
(2) شیطان بھی وحی(تیز خفیہ اشارہ)کرتا ہے:
کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار (کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیم سے بحث کرنے لگا؟ جب ابراہیم نے کہا کہ: میرا پروردگار وہ ہے جو زندگی بھی دیتا ہے اور موت بھی، تو وہ کہنے لگا کہ: میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا: اچھا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم ذرا اسے مغرب سے تو نکال کر لاؤ، اس پر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا۔ اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
[سورۃ البقرۃ:258]
یہ بابل کا بادشاہ نمرود تھا جو خدائی کا بھی دعوے دار تھا، اس نے جو دلیل دی کہ میں زندگی اور موت دیتا ہوں اس کا مطلب یہ تھا کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے جس کو چاہوں موت کے گھاٹ اتاردوں اور جس کو چاہوں موت کا مستحق ہونے کے باوجود معاف کرکے آزاد کردوں، اور اس طرح اسے زندگی دے دوں، ظاہر ہے کہ اس کا جواب قطعی طور پر غیر متعلق تھا، اس لئے کہ گفتگو زندگی اور موت کے اسباب سے نہیں ان کی تخلیق سے ہورہی تھی ؛ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ یا تو موت اور حیات کی تخلیق کا مطلب ہی نہیں سمجھتا یا کٹ حجتی پر اترآیا ہے، اس لئے انہوں نے ایک ایسی بات فرمائی جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا، مگر لاجواب ہو کر حق کو قبول کرنے کے بجائے اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قید کیا، پھر آگ میں ڈالنے کا حکم دیا، جس کا ذکر قرآن کریم نے سورة انبیاء (٦٨ تا ٧١) سورة عنکبوت (٢٤) اور سورة صافات (٩٧) میں فرمایا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:80، آل عمران:24]
مؤمنوں کو کفار کی باتیں تعلیم کرنے کا مقصد:القرآن:
اے ایمان والو! نہ تم ہوجانا ان کی طرح جنہوں نے کفر کیا...
(4) جن لوگوں نے شرک اپنایا ہوا ہے وہ(محض رائے پر مبنی) یہ(دلیل دیتے)کہیں گے کہ : اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے، نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی بھی چیز کو حرام قرار دیتے. ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی اسی طرح (رسولوں کو) جھٹلایا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا۔ تم ان سے کہو کہ : کیا تمہارے پاس کوئی(انبیاء سے الله کا نازل کردہ) علم ہے جو ہمارے سامنے نکال کر پیش کرسکو؟ تم تو جس چیز کے پیچھے چل رہے ہو وہ "گمان" کے سوا کچھ نہیں، اور تمہارا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہمی اندازے لگاتے رہو۔
(5) اور جب یہ (کافر) لوگ کوئی بےحیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی طریقے پر عمل کرتے پایا ہے، اور اللہ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے۔ تم (ان سے) کہو کہ : اللہ بےحیائی کا حکم نہیں دیا کرتا۔ کیا تم وہ باتیں اللہ کے نام لگاتے ہو جن کا تمہیں ذرا علم نہیں؟
فرمائشی مطالبات ودلائل مانگنا، ہٹ دھرمی اور انکار کیلئے بہانہ ہے:
اور اگر ان لوگوں کا منہ موڑے رہنا تمہیں بہت بھاری معلوم ہورہا ہے تو اگر تم زمین کے اندر (جانے کے لیے) کوئی سرنگ یا آسمان میں (چڑھنے کے لیے) کوئی سیڑھی ڈھونڈ سکتے ہو تو ان کے پاس (خود ان کا فرمائشی) معجزہ لے آؤ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ لہذا تم نادانوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔
[سورۃ الانعام:35]
اور جب ہماری آیتیں پوری وضاحت کے ساتھ ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ کہنے کے سوا ان کی کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ : اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو (زندہ کر کے) لے آؤ۔
[سورۃ الجاثیۃ:25]
کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں؟
نبی کریم ﷺ جب تہجد کی نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو اس دعا سے نماز شروع کرتے:
(١) دلیل عقلی محض، (٢) دلیل عقلی مع اعتراف الخصم ، (٣) دلیل نقلی ، (٤) دلیل وحی
یہاں دعوىٰ میں ’’حصر‘‘ ہے جیسا کہ مفھوم میں ظاہر کردیا گیا ہے، اور نتیجہ بھی اس پر صراحت سے دلالت کرتا ہے، تو دعوىٰ کا مقصد یہ نہیں کہ الله کو (بھی) معبود مانو بلکہ مقصد یہ ہے کہ صرف الله ’’ہی‘‘ کو معبود مانو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ. کیونکہ نزول قرآن سے پہلے مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ سب الله کو اپنا معبود مانتے تھے لیکن وہ اس کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کرتے تھے [دیکھئے قرآن: سورۃ یونس:31، المومنون:84-89، العنکبوت:61-63، الزخرف:9]، اس لئے شرک سے منع فرمایا اور صرف الله ہی کی عبادت کرنے کا حکم دیا.
[سورۃ الاحقاف:4]
یعنی ایسی تعلیم جو اللہ کا پیغام پہنچانے والے کسی پیغمبر سے مستند طریقہ پر ثابت ہو۔
4) دلیلِ وحی:
چناچہ ارشاد ہے :
قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَمَّا جَآءَنِيَ ٱلْبَيِّنَـٰتُ مِن رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
فائدہ جلیلہ :
لیکن قرآن مجید کی زیادہ آیات وہ ہیں جو اجمالی aggregate ہیں اور یہ اجمال وضاحت، تشریح اور تاویل چاہتا ہے۔ چنانچہ مفسرین ان آیات کو ظنی الدلالۃ کہتے ہیں۔
مثلا: اللہ تعالی نے فرمایا : { حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھَاتُکُمْ }یعنی ’’ تمہاری مائیں تم پر حرام کی گئیں ‘‘ (سورۃ النساء:23) قرآن کی آیت ہے، جس کے ثابت ہونے میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں، اور اس کا معنی بھی بالکل واضح ہے، ایسے احکام کو ’’قطعی الثبوت ، قطعی الدلالۃ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا
ترجمہ:
اس آیت میں ’’ہاتھ‘‘ کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے یعنی أَيْدِيَ وہ جمع کے صیغے میں استعمال ہوا ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جمع اگر مطلق (Freely,Unrestricted) استعمال ہو تو اس سے “کُل”whole مراد ہوتا ہے۔ اب یہاں لسانیات Linguistics کے اس اصول کے مطابق پورا ہاتھ مراد ہو سکتا ہے، لیکن لسانی قاعدہ تو عام انسانوں کا بنایا ہوا قاعدہ ہے، جبکہ قرآن مجید کے لئے یہ طے شدہ ہے کہ اس کی تشریح کا پہلا ذریعہ رسول اللہ ﷺ ہیں، چنانچہ لسانی قاعدے سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ رسول اللہ ﷺ کا عمل یا ارشادِ گرامی اس حوالے سے کوئی رہنمائی فراہم کرتا ہے یا نہیں؟ جب دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ رسول اللہ ﷺ طے فرما چکے ہیں کہ ہاتھ ’’کلائی اور پنجے کے جوڑ‘‘ سے کاٹا جائے گا۔ اگر اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی رہنمائی موجود نہ ہوتی تو پھر لسانی قاعدے کے مطابق ہاتھ ’’بغل والے جوڑ‘‘ سے ہی کٹتا۔
(3) ظنی الثبوت، قطعی الدلالة:
اور نہی(ممانعت) میں کراہت تحریمی(یعنی حرام کے قریب مکروہ وناجائز ہونا اور اس ک مرتکب مستحقِ عتاب ہو) ثابت ہوتی ہے۔
[قواعد الفقہ ومراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی]
(4) ظنی الثبوت، ظنی الدلالة:
اس درجہ کے ثبوت اور دلیل سے امر(حکم) میں استحباب (یعنی جس کو اختیار کیا جائے تو ثواب ملے اور اگر نہ کیا جائے تو کوئی گناہ نہیں) ثابت ہوتا ہے۔
اور نہی(ممانعت) میں کراہتِ تنزیہی (یعنی جو حلال کے قریب ہو، اور کرنے والا مستحقِ عتاب نہ ہو، البتہ چھوڑنے پر ثواب ملے گا) ثابت ہوتی ہے.
تقریبا تمام ہی علماء کے نزدیک اس حدیث کا منشاء یہ ہے کہ مسجد کے پڑوس میں رہنے والے کی نماز گھر میں نماز کامل نہیں ہوگی۔
کثرت کو بطورِ دلیل پیش کرنا کیسا ہے؟
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں، اگر آپ ان کا کہا مان لوگے، تو وہ آپ کو(اے نبی!) الله کی راہ سے بہکادیں گے، (کیونکہ) بےشک وہ پیچھے چلتے ہیں "اپنےخیال" پر ہی اور وہ سب بس "اٹکل" ہی چلاتے ہیں.
[سورۃ الانعام:116]
(کیونکہ) اکثر لوگ ہیں...جاھل[الانعام:111]
ناسمجھ [المائدۃ:103]
نافرمان [الاعراف:102]
بےعلم [الاعراف:187]
بےایمان [ھود:17]
ناشکرے [یوسف:38]
مشرک [یوسف:106]
انکاری [الاسراء:89]
جھگڑالو [کھف:54]
ناحق پسند [المومنون:70]
جھوٹے [الشعراء:223]
اکثریت ’’علماء‘‘ کی معتبر ہے، غیرعلماء کی نہیں:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ رسول اللهؐ سے مروی ہیں کہ:
«لَا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا» وَقَالَ: «يَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ، فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ».
ترجمہ:
نہیں جمع (متفق) کرے گا اللہ اس (میری) امت کو کسی گمراہی پر کبھی، (پھر) فرمایا : الله کا ہاتھ (سایہ مدد) جماعت(اتفاق) پر ہے، تو تم اتباع (پیروی) کرو سوادِ اعظم (سب سے بڑی جماعت) کی، بس جو اس سے علیحدہ ہوا وہ علیحدہ کیا جاۓ گا آگ (جہنم) میں (داخل کرنے کو).
یہ حدیث دلیل ہے اس پر کہ تلاش کرنا چاہئے وہ عمل جو جمہور کے قول کے مطابق ہو۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجه:2/64]
صحیح بخاری کے شارح امام ابن البطالؒ(المتوفى: 449هـ)نے لکھا ہے:
كل ما كان عليه السواد الأعظم من أهل الإسلام من أمر دينهم فهو الحق الواجب والفرض الثابت۔
ترجمہ:
ہر بات جس پر سواد اعظم ہو، اہلِ اسلام میں سے، ان کے دینی احکام میں سے، تو وہ واجب حق اور ثابت فرض ہے۔
یہاں لفظ ’’اعظم‘‘ کے معنیٰ سب سے بڑی اور ’’سواد‘‘ یعنی کثیر تعداد والی جماعت ہے، یہاں عظمت سے مراد عظمتِ عددی، عظمتِ علمی(یعنی علماء کی اکثریت) اور عظمتِ زمانی وافرادی بھی شامل ہے یعنی نبوی زمانہ کے لوگ (یعنی صحابہ کرام کی اکثریت) سب سے پہلے شامل ہیں، جو نصِ حدیث سے بھی ثابت ہے کہ:
بیشک بنی اسرائیل اکہتر (71) فرقوں میں بٹ گئے، اور نصاریٰ (عیسائی) بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے، سب گمراہی پر ہیں سواۓ سواد اعظم کے۔ پوچھا گیا: اے الله کے رسول ﷺ ! اور سواد اعظم کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوں۔۔۔
[المعجم الكبير ، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ... رقم الحديث: 7551، وقال الأرنؤؤط: إسناده حسن.]
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:24/195]
(2) علامہ مُظْهِري(المتوفى:727هـ) حدیث کی تشریح کرتے لکھتے ہیں:
يعني: فانظروا في العالم فما عليه الأكثر من علماء المسلمين من الاعتقاد والقول والفعل، فاتبعوهم فيه، فإنه هو الحق، وما عداه باطل.
[المفاتيح في شرح المصابيح السنة:1/282، حدیث#137]
یعنی:
پس عالم میں نظر کرو، تو جس اعتقاد، قول اور فعل پر مسلمانوں میں سے اکثر علماء ہوں، تو تم اتباع کرو ان کی اس میں، یہی حق ہے، اور جو اس کے خلاف ہے وہ جھوٹ۔
(3) امام الصَّرْصَريؒ (المتوفى:716هـ) لکھتے ہیں:
فإنما المراد به طاعة الأئمة والأمراء۔
یعنی اس سے مراد اماموں اور حکمرانوں کی اطاعت ہے۔
[التعيين في شرح الأربعين:1/254]
(4) علامہ کرمانیؒ(المتوفى:854هـ)تشریح کرتے لکھتے ہیں:
وهو ما عليه أكثر علماء المسلمين، وقيل: جميع المسلمين الذين هم في طاعة الإمام.
[شرح مصابيح السنة لابن المَلَك:1/179، حدیث#137]
ترجمہ:
اور(سوادِ اعظم)وہ ہے جس پر اکثر مسلمانوں کے علماء ہیں۔ اور(یہ بھی)فرمایا: سارے مسلمان جو کسی امام(خلیفہ) کی اطاعت میں ہیں۔
دوسری جگہ وضاحت فرماتے لکھتے ہیں:
وما عليه الجمهور من الصحابة والتابعين والسلف.
[شرح مصابيح السنة لابن المَلَك:6/399]
ترجمہ:
اور جس(طریقہ) پر جمہور صحابہ، تابعین اور گذرے ہوئے نیک لوگ ہوں۔
سوادِ اعظم کی وسعت:
امام ابن الملقنؒ (المتوفى: 804هـ) وضاحت فرماتے لکھتے ہیں:
وهم أتباع المذاهب الأربعة وهم: أبو حنيفة ومالك والشافعي وأصحاب الحديث.
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح:32/339]
اور وہ چاروں(ائمہ کے)راستوں کی اتباع کرنے والے ہیں اور وہ(ائمہ)ہیں: ابوحنیفہؒ، اور مالکؒ، اور شافعیؒ اور حدیث والے(حنبلی)۔
قطعی الثبوت کی دلالت:
"وإنما الأدلة المعتبرة هنا المستقرأة من جملة أدلة ظنية تضافرت على معنى واحد حتى أفادت فيه القطع فإن للإجتماع من القوة ماليس للإفتراق ولأجله أفاد التواتر القطع وهذا نوع منه فإذا حصل من استقراء أدلة المسألة مجموع يفيد العلم فهو الدليل المطلوب وهوشبيه بالتواتر المعنوي"۔
(الموافقات:۱/۳۶)
ترجمہ: جن دلائل کا یہاں اعتبار ہے وہ اس طرح کے ہیں کہ کچھ ادلہ ظنیہ کے استقراء سے ایک معنی واحد پر آجمع ہوئے ہیں؛ یہاں تک کہ ان میں قطعیت آگئی ہے، دلائل کے ایک موضوع پر مل جانے سے ان میں وہ قوت آجاتی ہے جوان کے علیحدہ علیحدہ ہونے میں نہ تھی اور اسی لیے تواتر بھی قطعیت کا فائدہ بخشتا ہے اور یہ بھی اسی کی ایک قسم ہے، جب کسی مسئلہ کے دلائل کا استقراء کرتے ہوئے ایسا مجموع حاصل ہوجائے جویقین کافائدہ دے تووہ دلیل اس باب میں مطلوب ہے اور یہ تواتر معنوی کی ہی طرح ہے۔
"لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ يَعْنِي عِيسَى وَإِنَّهُ نَازِلٌ"۔
(ابوداؤد، كِتَاب الْمَلَاحِمِ،بَاب خُرُوجِ الدَّجَّالِ،حدیث نمبر:۳۷۶۶، شاملہ، موقع الإسلام)
"وأجمعت الأمة على ما تضمنه الحديث المتواتر من: أن عيسى في السماء حي، وأنه ينزل في آخر الزمان"۔
(البحرالمحیط:۲/۴۷۳)
"لأنه أخبر النبيﷺ أنه خاتم النبيين لانبي بعده و أخبر عن الله تعالى أنه خاتم النبيين وأنه أرسل كافة للناس وأجمعت الأمة على حمل هذا الكلام على ظاهره وأن مفهومه المراد منه دون تأويل ولاتخصيص فلاشك في كفر هؤلاء الطوائف كلها قطعا إجماعا وسمعا"۔
(الشفاء:۳۶۲)
ترجمہ: امت نے اس لفظ خاتم النبیین اور آنحضرتﷺ کے احوال وقرائن سے یہی سمجھایا ہے کہ آپ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول، اس مسئلہ ختمِ نبوت میں نہ کسی تاویل کی گنجائش ہے اور نہ کسی قسم کی تخصیص ہے۔
الأدلة الشرعية منها ما هو قطعي، ومنها ما هو ظني:فالدليل القطعي: ما كان قطعي السند والثبوت، وقطعي الدلالة أيضًا.وحكم هذا النوع من الأدلة وجوب اعتقاد موجبه علمًا وعملاً، وأنه لا يسوغ فيه الاختلاف.
(معالم اصول الفقه عند اهل السنة و الجماعة:۱/۸۱)
أما ما كان نص كتاب بين، أو سنة مجتمع عليها، فالعذر فيها مقطوع، ولا يسع الشك في واحد منها، ومن امتنع من قبوله اسُتتيب.
( الرسالة للامام الشافعى:ص۴۶)
وَقَدْ دَخَلَ فِيمَا ذَكَرْنَاهُ مِنْ الْإِيمَانِ بِاَللَّهِ : الْإِيمَانُ بِمَا أَخْبَرَ اللَّهُ بِهِ فِي كِتَابِهِ وَتَوَاتَرَ عَنْ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَجْمَعَ عَلَيْهِ سَلَفُ الْأُمَّةِ.
(العقیدة الواسطیة للامام ابن تيمية)
إجماع الصحابة حجة بلا خلاف
(إرشاد الفحول إلي تحقيق الحق من علم الأصول.: محمد بن علي بن محمد الشوكاني ۱/۲۱۷)
الثالث ما يكفر به على الأصح وهو المشهور المنصوص عليه الذي لم يبلغ رتبة الضرورة.
(الاشباه و النظائر۱/۴۸۸)
اصولِ فقہ میں دلیل اس مأخذ کو کہا جاتا ہے جس سے احکامِ شرعیہ ثابت ہوسکیں، ان میں چار متفق علیہ ہیں: (1) کتاب اللہ، (2) سنتِ رسول ﷺ، (3) اجماع اور (4) قیاس۔ ان کے علاوہ کچھ ضمنی مأخذ ہیں جن کی بابت فقہاءِ کرام میں اختلاف ہے۔
علامہ قرافیؒ (المتوفى: 684 هـ) نے دلیل کی دو قسمیں کی ہیں:
ایک وہ جو احکام کے مشروع وثابت ہونے کو بتائیں اور ان ادلہ (دلائل) کو یوں شمار کرایا ہے: کتاب، سنت، اجماع، قیاس، برأتِ اصلی، اجماعِ اہلِ مدینہ، اجماعِ اہلِ کوفہ، استحسان، استصحاب، عصمت، اخذ بالاخف (یعنی کمتر کو قبول کرنا)، فعلِ صحابی، فعلِ شیخین(یعنی حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ)، خلفاءِ اربعہ کا فعل، خلفاءِ اربعہ کا اجماع، اجماعِ سکوتی، اجماعِ مرکب، قیاس ایسی دو چیزوں میں جن کے درمیان فرق کا کوئی قائل نہیں، قرافیؒ کا کہنا ہے کہ مختلف اقوال پ کم وبیش بیس ادلہ شرعیہ (یعنی شرعی دلائل) ہیں۔
ترجمہ:
[فتح الباری شرح صحيح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، قَوْلُهُ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ،ج۱۲، ص۳۰۶]
نقل(Proof) اور عقل(Logic) میں تعارض(conflict)ہو تو ترجیح(Priority) کسے ہوگی؟
دلیلِ عقلی ونقلی میں تعارض کی چار صورتیں عقلاً متحمل ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کیے جاتے ہیں؟
[سورۃ الاعراف:191]
بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے۔ اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا ہوجا وہ ہوگیا۔
[سورۃ آل عمران:59]
یعنی اس حساب سے تو آدمؑ کو خدا کا بیٹا ثابت کرنے پر زیادہ زور دینا چاہیئے۔ حالانکہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔
(اے پیغمبر ! ان کافروں سے) کہو کہ : وہ کون ہے جو آسمانوں اور زمین کی پرورش کرتا ہے؟ کہو کہ : وہ اللہ ہے ! کہو کہ : کیا پھر بھی تم نے اس کو چھوڑ کر ایسے کارساز بنا لیے ہیں جنہیں خود اپنے آپ کو بھی نہ کوئی فائدہ پہنچانے کی قدرت حاصل ہے نہ نقصان پہنچانے کی؟ کہو کہ : کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتا ہے؟ یا کیا اندھیریاں اور روشنی ایک جیسی ہوسکتی ہیں؟ یا ان لوگوں نے اللہ کے ایسے شریک مانے ہوئے ہیں جنہوں نے کوئی چیز اسی طرح پیدا کی ہو جیسے اللہ پیدا کرتا ہے، اور اس وجہ سے ان کو دونوں کی تخلیق ایک جیسی معلوم ہورہی ہو؟ (اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے تو اس سے) کہہ دو کہ : صرف اللہ ہر چیز کا خالق ہے، اور وہ تنہا ہی ایسا ہے کہ اس کا اقتدار سب پر حاوی ہے۔
[سورۃ الرعد:16]
﴿وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُون﴾․ (الانبیاء:33)
تیسری صورت یہ ہے کہ دلیلِ نقلی ’قطعی‘ ہو اور دلیلِ عقلی ’ظنی‘ ہو۔ اس کا حکم ظاہر ہے کہ … اس صورت میں دلیلِ نقلی کو ترجیح دی جائے گی اور دلیلِ عقلی کو ’’ظنی(Indefinite)‘‘ ماننا درحقیقت اس بات کا اقرار ہے کہ اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یقین کے درجے میں نہیں ہے ۔
(اسلام اور عقلیات، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، تسہیل مصطفیٰ خان بجنوری، ص:105,97)
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول، 45/1، مصر]
عقل پرستوں کے موقف پر علامہ ابن تیمیہ (المتوفى: 728هـ) کا تجزیہ:
علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله کا کہنا ہے کہ جو لوگ عقلی اور نقلی دلائل میں تعارض کی صورتیں پیدا کرکے تاویل(Interpretation) کی اہمیتوں پر زور دیتے ہیں، ان میں پہلا نقص تو یہ ہے کہ یہ خود آپس میں کسی موقف(Statement) پر متفق نہیں۔
ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جن کا موقف ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے جنت، جہنم ، آخرت، ملائکہ کے متعلق جن امور اور کیفیات کا اظہار کیا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، روزِ محشر میں نہ ان جسموں کا بعینہ اعادہ ہوگا نہ جنت کا عیش وسرور اور جہنم کے مصائب وتکلیف جسمانی اور مادی نوعیتوں کی حامل ہوں گی، انبیاء نے یہ خلافِ حقیقت چیزیں اس مصلحت کے تحت بیان کی ہیں کہ اس کے بغیر علم سے کوری عوام کے ذہن میں ان حقائق کا اتارنا ناممکن تھا۔ ابن سینا نے ”رسالة أضحویہ“ میں یہی مسلک اختیار کیا ہے۔ (سرسید کا موقف بھی یہی ہے، چناں چہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”انبیاء تمام کافہ أنام (تمام لوگوں) کی تربیت کرتے ہیں، جن کا بڑا حصہ قریب کل کے، محض ناتربیت یافتہ جاہل وحشی ، جنگلی ، بدوی، بے عقل وبدوماغ ہوتا ہے۔ اس لیے انبیاء کو یہ مشکل پیش آئی ہے کہ ان حقائق ومعارف کو… ایسے الفاظ میں بیان کریں کہ تربیت یافتہ دماغ اور کوڑی مغز دونوں برابر فائدہ اٹھائیں … وعدہ، وعید، دوزخ وبہشت کے جن الفاظ سے بیان ہوئے ہیں ان سے بعینہ وہی اشیاء مقصود نہیں۔“
اس گروہ کو وہمی گروہ کے نام سے موسوم کرنا چاہیے، ان میں پھر دو گروہ ہیں، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ انبیاء جنت، جہنم، آخرت کی حقیقت سے واقف تھے، مگر عوام کی ذہنی سطح کے پیشِ نظر بیان کرنے سے قاصر تھے، دوسرا گروہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بڑ ہانکتا ہے کہ خود انبیاء بھی ان حقائق سے ناواقف تھے، ان کا علم بھی فقط ظواہر تک محدود تھا، علم وادراک کا یہ شرف صرف حکماء اور فلاسفہ کو حاصل ہے، جو ظواہر پر قناعت کرنے کے بجائے اس کے پوشیدہ معانی اور حقائق کی جلوہ طرازیوں سے بھی بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسرے گروہ کا موقف ہے کہ انبیاء نے سرے سے ایسے ظواہر کی تلقین ہی نہیں کی جس سے جنت وجہنم، ملائکہ وغیرہ کی جسمانیت اور مادی ہونے پر استدلال کیا جاسکے، چناں چہ قرآن کریم میں جہاں جہاں جنت وجہنم ، ملائکہ کے متعلق الفاظ ومعانی جسمانیت اور مادیت کے سانچے میں ڈھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں تو یہ فوراً تاویل کے درپے ہو جاتے ہیں، جو درحقیقت تحریف ہوتی ہے۔ اس لیے یہ گروہ درحقیقت محرفین کا گروہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ عقل پرست کتاب الله کی مخالفت پر تو متفق ہیں، لیکن خود کسی رائے پر اتفاق نہیں کرسکتے۔
[بیان موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 4,3/1، مصر، مجموعہ الفتاوی لابن تیمیة:84,83/4، بیروت]
اگر دینی حقائق، الہیات، ما بعد الطبعیات کی صحت واستواری کا تعلق عقل وادراک کی طرفہ طرازیوں سے ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ عقل سے کیا مراد ہے ؟ کیا عقل سے ”غزیرہ“ وہ مَلَکہ اور صلاحیت واستعداد مراد ہے جو تفاوت درجات کے ساتھ تمام انسانوں میں موجود ہے ؟ یا وہ علوم وفنون مراد ہیں جو عقل کی روشنی میں پروان چڑھتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس سے وہ ”غزیرہ“ ملکہ اور صلاحیت مراد نہیں ہو سکتی، کیوں کہ وہ تو عقل اور نقل دونوں کے لیے بمنزلہ شرط کے ہے ، اس کا اپنا کوئی مستقل مؤقف یا مسلک ہے ہی نہیں۔ اس لیے وہ کسی عقیدے اور نظریے کا حامی ہے نہ مخالف۔
رہی دوسری صورت کہ اس سے مراد وہ علوم وفنون ہیں جن کو عقل ودانش کی کارفرمائیوں نے جنم دیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کا براہِ راست دین سے کیا تعلق؟ دینی حقائق (توحید، رسالت ونبوت اور معاد، جنت وجہنم وغیرہ) کا ثبوت عقل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نبی اوررسول کی خبر(نقل) کی بنا پر تسلیم کیا گیا ہے، اس صورت حال میں علومِ عقلی کو دین کی بنیاد ٹھہرانا اصولاً غلط ہے، نہ ان سے دینی حقائق کی صحت واستواری پر کوئی روشنی پڑتی ہے اور نہ ان پر ان کا وجود وثبوت مبنی ہے۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:47/1، مصر]
نقلیات پر عقلیات کو ترجیح دینے کا موقف اس بنا پر بھی مسترد کرنے کے لائق ہے کہ جہاں نقلیات کا دائرہ یقین اور قطعیت لیے ہوئے ہے وہاں عقلیات سراسر نقص کا شکار ہیں، عقل ایک ہی موقف پر دو متضاد نتائج فراہم کرسکتی ہے ، چناں چہ عقل پرستوں کی متضاد آرا کی وجہ سے حق و باطل کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے، مثلاً قرآن کریم میں رُوئـیَـتِ باری تعالیٰ کی خوش خبری سنائی گئی ہے اور اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ آخرت میں اہل ایمان الله تعالیٰ کے دیدار سے لطف اندوز ہوں گے اور وہ محبوبِ حقیقی اپنے جلوے دکھا کر مشتاقانِِ دیدار کے قلب وذہن کی بے قراریوں کو سامان تسکین فراہم کرے گا۔ لیکن عقل نے سوال اٹھایا کہ ”رُوئـیَـت“ کے معنی ”مرئی“ (یعنی جسے دیکھا جارہا ہے) کو نظر وبصر کا ہدف ٹھہرانے کے ہیں؟ یا اس کا تحقق اس کے بغیر بھی ممکن ہے؟ عقل پرستوں کا ایک گروہ ضرورتِ عقلی کی بنا پر کہتا ہے کہ یہ قطعی ناممکن ہے، کیوں کہ عقل کسی ایسی رُوئـیَـت کا تصور ہی نہیں کر سکتی جس میں ”مرئی“ (یعنی جسے دیکھا جارہا ہے) کے وجود کا احاطہ نہ ہو پائے (مطلب یہ کہ رُوئـیَـتِ باری تعالیٰ کو تسلیم کر لینے سے لازم آئے گا کہ الله تعالیٰ کا وجود محدود ہو، جو آنکھوں کا ہدف بن سکے) دوسرا گروہ عقل کی بنیاد پر اس کی تردید کرتا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ ”رُوئـیَـت“ کا مفہوم ”مرئی“ کا احاطہ کیے بغیر بھی پورا ہو سکتا ہے۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 81/1، مصر]
اسی طرح الله تعالیٰ کی صفتِ علم کے بارے میں ایک گروہ کہتا ہے کہ علمِ الہیٰ جزئیات کو شامل نہیں، دوسرا گروہ کہتا ہے علمِ الہی جزئیاتِ زمانی کو بھی شامل ہے، تیسرا گروہ کہتا ہے علمِ الہی جزئیاتِ زمانی کو شامل تو ہے لیکن جزئیاتِ زمانی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ کلی کی حیثیت سے۔
[المسامرۃ، ص:68]
عقلیات کی دنیا میں ریاضی ہی ایک ایسا فن ہے جس کے قطعی ہونے پر عقل پرستوں کو ناز ہے، لیکن اسے بھی حرفِ آخر نہیں قرار دیتے۔ معروف ریاضی دان بطلیموس(Ptolemy) کی مشہور کتاب ”المجسطی(Almagest)“ جو ریاضی کے نتائج پر مبنی ہے اس کے کئی مقدمات بحث طلب ہیں کئی ایسے ہیں جو صراحتاً غلط اندازوں پر مبنی ہیں۔
ریاضی کے بعد طبعیات(Physics) کا درجہ ہے، جس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ جسم کی حقیقت کیا ہے؟ اس بنیادی سوال پر بھی اہلِ عقل کا اتفاق نہ ہو سکا کوئی اسے مادہ اور صورت سے تربیت پذیر مانتا ہے، کوئی کہتا ہے یہ اجزاء لاتتجزی سے بنا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورتِ عقلی کی بنیاد پر ان دونوں صورتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ پھر یہ اجزاء لاتتجزی یا جواہر فردہ کیا ہیں؟ اس پر بھی کوئی فیصلہ کن رائے نہیں۔ ابوالحسن البصری جیسا دقیقہ رس، علامہ جوینی جیسا معقولی، ابوعبدالله الخطیب جیسا فاضل… سب عقل کی پر پیچ وادیوں میں حیران وپریشان ہیں، کسی مسئلے پر روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:89,88/1]
اب بتائیے جو عقل ہر موقف پر متضاد رائے فراہم کر سکتی ہو اسے قطعیت کے درجے پر فائز کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ قطعی مؤقف تو اسے کہتے ہیں جس کے برعکس دوسرا موقف قائم نہ ہو سکے، یہاں تو اختلاف آرا کا ایک طوفان برپا ہے ، ایک ہی شے عقلی لحاظ سے حق بھی ہے باطل بھی، ہدایت بھی ہے گم راہی بھی۔
اس کے برخلاف قرآن وحدیث میں ہر بنیادی اور اصولی مسئلہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اس کے دلائل و براہین میں کوئی تضاد کا پہلو نہیں، اسی بات کو قرآن کریم نے اپنے وحی ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ ﴿أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا﴾․ ( النساء:82)
ترجمہ:” کیا غور نہیں کرتے قرآن میں او راگر یہ ہوتا کسی اور کا سوا الله کے تو ضرور پاتے اس میں بہت تفاوت۔“
بلکہ وحی کی غرض وغایت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ان تمام اختلافات کو یکسر مٹا دے جو انسانی فہم کی نارسائیوں نے پیدا کر رکھے ہیں۔﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُول﴾․ [سورۃ النساء:59]
ترجمہ:” اے ایمان والو! حکم مانو الله کااور حکم مانو رسول کا اور حاکموں کا، جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف الله کے اور رسول کے۔“
نقلیات میں جن چیزوں کو خلافِ عقل سمجھا جاتا ہے، وہ دو حال سے خالی نہیں: یا تو اس کی بنیاد موضوع احادیث ہیں یا پھر ان میں کہیں دلالت واستنباط میں خلل ہے، تیسری کوئی صورت نہیں۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول،83/1، مصر]
خلاصہ یہ کہ انبیاء کبھی ایسی چیزوں کی اطلاع نہیں دیتے جو عقلاً محال ہوں یا عقل ان کی نفی کرتی ہو، بلکہ ان کی اطلاع ایسی چیزوں کے بارے میں ہوتی ہے جن کے حقائق جاننے سے عقل قاصر اور عاجز ہوتی ہے۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:83/1، مصر]
کون ہے جو علامہ رازی رحمہ الله (المتوفى: 313هـ) کی شخصیت سے واقف نہ ہو؟ جو عقلیات میں امامت کے درجے پر فائز ہیں، انہوں نے اپنے اشعار میں فلسفہ اور عقل کی نارسائیوں کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے عبرت حاصل ہوتی ہے، تمام اشعار کا خلاصہ اس ایک شعر سے حاصل ہو سکتا ہے #
ولم نستفد من بحثنا من طول عمرنا
سوی أن جمعنا فیہ قیل وقالوا
ترجمہ: ”ہم نے تمام عمر بحث ومباحثے کے باوجود اپنے دامن میں اس کے علاوہ کچھ نہیں سمیٹا کہ فلاں کا یہ قول ہے اور فلاں کا یہ قول ہے۔“
حتی کہ علامہ غزالی رحمہ الله (المتوفى: 505هـ) بھی اس گروہ سے دست بردار ہو کر ریاضِ سنت کی شمیم آرائیوں سے قلب ونظر مہکانے لگے ۔ ان کی روح بھی اس عالم میں پرواز ہوئی کہ سینے پر صحیح بخاری تھی اور آنکھیں ابواب وروایات سے فیض یاب ہو رہی تھیں۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:90/1]
تھوڑی دیر کے لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ نقلیات کو جانچنے کے لیے عقل ہی درست اور واحد معیار ہے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ تم کس عقل کو حکم اور معیار بناتے ہو؟
اگر تم فلاسفہ کی عقل کو حکم بناتے ہو تو وہ خود کسی موقف پر متفق نہیں، ان میں تو ہر آنے والا گزرنے والے کے قول کی تردید کرتا ہے ۔
اگر ادباء کی عقل کو فیصل قرارا دیتے ہو تو ان کا یہ کام نہیں، ان کا تعلق تو بس نوادرات وحکایات سے ہے۔
اگر اہلِ طب، اہلِ ہندسہ، ریاضی دانوں کی عقل کو فیصل قرار دیتے ہو تو ان کو حدیث (نقلیات) سے کیا سروکار؟
اگر محدثین وفقہاء کی عقل کو معیار بناتے ہو تو وہ تمہیں سرے سے پسند ہی نہیں، بلکہ محدثین کو تو تم سادہ لوح اور کند ذہن تصور کرتے ہو۔
اگر ملحدین کی عقل پسند ہے تو ان کے نزدیک خدا پر ایمان لانا جہالت اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اگر اہل سنت والجماعت کی عقل پسند ہے تو شیعہ ومعتزلہ اسے پسند نہیں کرتے……۔
اب بتائیے کس کی عقل کو کس بنیاد پر فیصل اور حَکَم قرار دو گے؟
[السنة ومکانتھا فی التشریع الاسلامی، ص:33]
موضوع کی نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر اسے قدرے تفصیل سے لکھا ہے، کیوں کہ عقل پرست معتزلہ، جدید وقدیم منکرینِ حدیث، سر سید اور ان کے جدّت پسند پیروکاروں کا یہ اتفاقی اور بنیادی موقف ہے کہ عقل کو بہر صورت نقل پر ترجیح ہوگی، اس کی آڑ میں کسی نے نبوت ورسالت، جنت وجہنم، ملائکہ اور معجزات کا مذاق اڑایا تو کسی نے حدیثِ رسول کو بازیچہ اطفال بنا کر اپنی بے عقلی کے جوہر دکھائے۔ اس لیے طوالت کا خوف کیے بغیر اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور کوشش کی ہے کہ اس بحث کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
شبہ: گذشتہ تحریر پڑھ کر کسی کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ عقل کی شہادت سرے سے ماننے کے لائق ہی نہیں، کیوں کہ یہ ہر موقف پر دو متضاد رائے فراہم کر سکتی ہے۔
جواب : ہر گز نہیں، ہم عقل کی اہمیت سے نہ صرف یہ کہ واقف ہیں، بلکہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہیں۔ عقل پرستوں سے ہمارا اختلاف عقل کے دائرہ کار کے متعلق ہے، اس اختلاف کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عقل کی دو قسمیں ہیں: 1.عقل سلیم۔ 2.عقل سقیم۔
1...عقلِ سلیم وہ ہے جو علومِ نبوت اور وحی پر صدقِ دل سے ایمان لائے اور اس میں مناسب رنگ بھرے (جیسا کہ متکلمین کا طریقہ ہے)۔
2...عقلِ سقیم وہ ہے جو وحی پر حَکَم بن کر الحاد وزندقہ کو فروغ دے۔
لہٰذا جب ہم عقلیات کی شہادت اور اس کے دلائل کو مشکوک ٹھہرا کر اِبطال کرتے ہیں تو اس کا تعلق عقلِ سقیم سے ہے، نہ کہ عقلِ سلیم سے۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:98/1، مصر]
عقل کا دائرہ کار اور اس کے استعمال کا صحیح مصرف:
علم کے تین ذرائع ہیں: ۱۔ حواسِ خمسہ، ۲۔ عقل، ۳۔ وحی۔
ہر ایک کا اپنا محدود دائرہ کار ہے۔ جن چیزوں کا علم حواسِ خمسہ ( آنکھ، کان، ناک، زبان، لمس یعنی چُھونے) سے ہوتا ہے، اسے نری عقل سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک دیوار ہے، اسے ”دیکھ“ کر اس کا رنگ معلوم کیا جاسکتا ہے، لیکن آنکھیں بند کرکے نری عقل سے اس کا رنگ معلوم کرنا ناممکن ہے، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل سے حاصل ہوتا ہے، انہیں حواس کے ذریعے معلوم نہیں کیا جاسکتا، مثلاً آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ پتہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے، اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔
غرض جہاں تک حواسِ خمسہ کام دیتے ہیں وہاں عقل کوئی راہ نمائی نہیں کرتی اور جہاں حواسِ خمسہ جواب دے رہیں، وہاں سے عقل کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حد پر جاکر رک جاتا ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے۔ مثلاً اسی دیوار کے بارے میں یہ معلوم کرنا اس کو کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ ناراض ہو گا۔ اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ الله تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے، یہی وہ دائرہ ہے جس سے عقل کو متجاوز ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس اقلیم میں صرف وحی، کتاب اور الله کے برگزیدہ انبیاء اور رسولوں کی ہی حکم رانی ہے اور انہیں کا سِکہ چلتا ہے۔
عقلیات کا کام تو یہ ہے کہ یہ نقلیات کے تابع بن کر اس میں مناسب رنگ بھرے، اس کی نوک پلک سنوار کر اسے منظم نظامِ فکر کی حیثیت سے پیش کرے، جیسا کہ متکلمینِ اسلام نے اس فریضہ کو انجام دے کر نہ صرف فہم وادراک کے نئے سانچے مہیا کیے، بلکہ عقل پرستوں کے بڑھتے ہوئے الحاد وزندقہ کے سیلاب کو بھی مضبوطی سے روکا۔ (جزاھم الله عنا وعن جمیع المسلمین․)
عقل بمقابلہ نقل
اللہ عزوجل نے فرمایا:
کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو ! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں۔
[سورۃ البقرۃ:44]
تشریح:
پڑھے لکھے بیوقوف
یہاں استفہام (سوال) اظہارِ حیرت وتعجب کے لیے ہے یعنی تمہارا حال قابلِ تعجب ہے کہ تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو مگر خود نیکی نہیں کرتے ہو۔ یہ خطاب علمائے یہود سے ہے کہ وہ لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ تورات میں نبی کریم ﷺ کی صداقت کی نشانیاں موجود تھیں مگر انہوں نے آپ کو نہ مانا۔
حوالہ:
بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب مشرکینِ مکہ یا یہودیوں کے مسلمان رشتہ داروں میں سے کوئی شخص پوشیدہ طور پر علمائے یہود سے حضور ﷺ کے بارے میں پوچھتا تو اسے کہتے کہ وہ پیغبر سچا ہے اسے مان لو لیکن خود اسے نہیں مانتے تھے کیونکہ انہیں اپنی نذروں اور نیازوں کے بند ہوجانے کا ڈر تھا۔
حوالہ:
نزلت فی علماء الیھود وذلک ان الرجل منھم کان یقول لقریبہ وحلیفہ من المومنین اذا سالہ عن امر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اثبت علی دینہ فان امرہ حق وقولہ صدق
وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۔یعنی۔ اور تم تورات کے عالم ہو۔ اور اسے پڑھتے رہتے ہو۔ اس میں حضرت خاتم النبیین ﷺ کی صفات و علامات مذکور ہیں۔ نیز اس میں نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم ہے۔
اَفَلَاتَعْقِلُوْن۔ تعجب ہے کہ مندرجہ بالا امور کے باوجود تم عقل سے کام نہیں لیتے۔
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1852(4415) - تفاسیر کا بیان : سورت بنی اسرائیل کی تفسیر]
حدثنا محمد بن کثير عن سفيان عن هشام عن عروة عن زينب بنت أم سلمة عن أم سلمة عن النبي صلی الله عليه وسلم قال إنما أنا بشر وإنکم تختصمون إلي ولعل بعضکم أن يکون ألحن بحجته من بعض وأقضي له علی نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ فإنما أقطع له قطعة من النار
زینب حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تو صرف انسان ہوں تم میرے پاس مقدمہ لے کر آتے ہو، بہت ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ عمدہ طریقے سے بیان کرنے والا ہو اور میں اس کے حق میں فیصلہ کردو اسکی بات سن کر اس لئے جس کے موافق اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کروں تو وہ نہ لے کہ میں نے اس کے لئے آگ کا ایک ٹکڑا الگ کردیا۔
اگر دلیل صرف فرمانِ خدا و رسولؐ ہی ہے تو کس آیت یا حدیث میں کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف، مقبول و مردود کہا گیا ہے ؟؟؟
جب کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف الله یا نبی نے نہیں کہا تو کسی غیرمعصوم امتی کی تقلید میں ایسا کہنے والے خود اصلی مقلد ہوئے۔ اور اگر وہ کسی امام نے کہا ہے تو کیا امام کا قول دلیل ہوتا ہے؟؟؟
صحیح غریب احادیث سے استدلال کا تحقیقی جائزہ»
کون سی صحیح حدیث ایمانیات اور عقائد اور حلال و حرام کے احکامات میں دلیل نہیں بن سکتی؟
احادیث کی کئی قسمیں ہیں اس لیے ان کے احکام بھی مختلف ہیں
حدیث متواتر :
ایسی روایات جس کو کافی تعداد میں صحابہ نے نقل کیا ہو اور ان سے اسی طرح مسلسل کافی لوگ لوگ نقل کرتے جائیں ایسی روایات بلا شک و شبہ آیت قرانی کی طرح قابل استدلال ہیں ان سے حلال و حرام اور ایمانیات اور عقائد سمیت جملہ احکام و امور ثابت ہوں گے
باقی روایات کو خبر واحد کہا جاتا ہے جن کی تین اقسام ہیں
غریب خبر واحد:
وہ روایت جو صرف ایک صحابی سے منقول ہو اور ایک لاکھ صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تصدیق نہ کی ہو۔
عزیز خبر واحد:
وہ روایت جس کی سند کے آغاز میں دو راوی ہوں، بعد میں چاہے جتنے بھی زیادہ ہو جائیں۔
مشہور خبر واحد:
وہ روایت جس کے آغاز میں کم از کم تین راوی ہوں، اور ہر دور میں تین راوی موجود رہیں۔
خبرواحد سے استدلال کے قواعد:
مشہور خبر واحد روایات سے استدلال بغیر کسی شک و شبہ کے جائز ہے اور اس سے احکامِ شریعہ اور عقائد و ایمانیات میں دلائل فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
عزیز خبر واحد روایات سے احکامات میں قابلِ استدلال ہیں اور ان روایات سے سنت ، مستحب امور ، مکروہات اور ناپسندیدہ امور ثابت ہونگے ۔ البتہ عقائد اور ایمانیات میں ان سے استدلال ظنی ہوگا۔
غریب خبر واحد رویات سے استدلال کرنا تعلیماتِ قرآن کی رو سے منع ہے ۔ کیونکہ قرآن کریم نے ثبوت دعوی کے لیے دو گواہوں کی شہادت کا ذکر کیا ہے جسے نصابِ شہادت کہا جاتا ہے۔ عام امور میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہے۔ جبکہ زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔
قرآنی نصابِ شہادت:
اگر زنا کے ثبوت کے لیے نصابِ شہادت پورا نہ ہو، تو تین افراد کی گواہی پر حدِ قذف لگائی جائے گی اور گواہی دینے والے ہمیشہ کے لیے گواہی کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ البتہ عام معاملات میں دعوی کے ثبوت کے لیے بھی دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، اور ایک فرد کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی اور دعوی ثابت نہیں ہوگا
دینی معاملات اور شرعی مسائل کی حیثیت ان دنیاوی امور سے کمتر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اگر کوئی روایت صرف ایک صحابی سے نقل ہو اور تقریبا سوا لاکھ صحابہ میں سے کسی بھی دوسرے صحابی سے اس کے ثبوت میں کوئی شہادت نہ ملے تو اس روایت سے استدلال کرنا درست نہیں۔
اگر صرف ایک ہی راوی والی روایات سے استدلال شروع کردیا جائے تو کافی مضحکہ خیز قسم کی روایات بھی دکھائی دیتی ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا ،بلکہ بے کافی ساری روایات قرانی احکامات اور اصول اسلام سے یکسر متعارض ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابتدائی دور میں کافروں کی ایک کافی بڑی تعداد منافقین کی شکل میں مسلمانوں کی صفوں میں بطور دشمن موجود رہی اور انہوں نے اپنے مشن اور زندگی کے نصب العین کے طور پر حتی الامکان مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کی آخر دم تک بھرپور کوششین جاری رکھیں اور اسی سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ کی جانب من گھڑت باتیں منسوب کرنا ان کے لیے کوئی معیوب کام نہیں تھا
زمانہ نبوت میں کی شاید صحابہ کو اتنی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ کسی بھی غلطی پر فورا بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی جاتی تھی اس لیے انہیں تحقیق کی چندان ضرورت ہی نہ تھی
مزید برآن صحابہ کرام بھی اسی معاشرے میں اپنے حواس خمسہ –بلکہ ان کی چھٹی حس ہماری والی سے زیادہ حساس تھی -سمیت موجود تھے ان کے لیے اپنی بصارت اور بصیرت سے واقعات اور حالات سے مخلص مسلمانوں کی پہچان آسان تھی ان کو بہت سی باتوں کا ادراک ہوسکتا تھا جن سے بعد کی امت محروم ہے
اس لیے اس دور میں اگر چہ کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہوں گے جن میں کسی ایک صحابی کی بات پر کچھ لوگوں نے عمل شروع کردیا ہو مگر اس سے غریب خبر واحد روایات کی حجیت پر استدلال کرنا پھر بھی اسلامی اصول ” تبدیلی حالات سے شرعی احکام کی تبدیلی” کی خلاف ورزی ہی ہوگا
روایات کے قبول کا قرآنی اصول:
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک اصول بیان کیا ہے:
“یا ایہا الذین آمنوا اذا جاکم فاسق بنبا فتبینوا ان تصیبوا قوما بجهالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین”۔
[سورۃ الحجرات:6]
اس ایت میں لفظ فاسق ہے جس کا ایک معنیٰ تو وہ ہے جو لغت میں بیان کیا جاتا ہے یعنی گنہگار یا غلط کام کرنے والا لیکن یہاں یہ لغوی معنی یہاں مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں مخاطب ایک صحابی ہیں جنہوں نے ایک مخصوص واقعے میں کوئی فسق یا گناہ کا کام ہی نہیں کیاتھا بلکہ انہوں نے اپنے فہم کے مطابق استدلال کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک وہ بات پہنچائی مگر ان کے پاس کسی قسم کی شہادت نہ تھی اس بلا شہادت بات کے نقل کرنے کو اللہ تبارک و تعالی نے فسق کے لفظ سے بیان کیا گویا فسق کا دوسرا معنی جو کہ اللہ تعالی کی کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ” کوئی ایسی بات کرنا جس کی شہادت موجود نہ ہو” اس کو بھی فسق کہا جائے گا اور ایسا کرنے والے کو فاسق کہا جائے گا لیکن اس صورت میں اس کا معنی گنہگار اور خطا کار ہرگز نہیں ہوگا۔
چونکہ خالق کائنات کا کلام زیادہ مستند ہے و اور یہی فائنل اتھارٹی ہوگااور یہاں فاسق کا لفظ ایسے ادمی کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو کہ پکے ، سچے اور مخلص مسلمان تھے اور وہ قطعا فاسق کی لغوی عام تعریف کے مطابق نہیں تھے اس لیے یہاں موقع محل کی مناسبت اور کلام کے سیاق اور سباق کی مناسبت سے ایت کا ترجمہ یہ ہوگا” اے ایمان والو جب تمہارے پاس کوئی بلا شہادت خبر بیان کرنے والا کوئی بات بتائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو تاکہ تم ناواقفی کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہ کر بیٹھو جس کے بعد تم کو ندامت اٹھانی پڑے”۔
[سورۃ الحجرات:6]
اس ایت کی رو سے غریب خبر واحد سے استدلال تو جائز ہی نہیں بنتا کیونکہ اللہ تعالی کا قران میں حکم ہے کہ بلا شہادت بات کی خوب تحقیق کر لیا کرو اور یہاں دوسری گواہی اور شہادت موجود ہی نہیں اور بغیر ثبوت کے کسی روایت کو قابل استدلال قرار دینا اس قرانی ایت کا یک گونہ انکار ہے اور قران کریم کی اس ایت کے مقابل ایک فرد واحد کی بلا شہادت و ثبوت روایت کو ترجیح اور فوقیت دینا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہو سکتی
اس بات سے انکار نہیں بعض اوقات خبر واحد کسی عظیم صحابی کی روایت بھی ہو سکتی ہے جو سو فیصد سچ بھی ہو لیکن پھر بھی اس کو تحقیق کرنے کے قرانی حکم کے سامنے خود کو سرنگوں کرنا پڑے گا جیسا کہ اگر تین انتہائی عادل، شریف اور نیک ادمی کسی مرد اور عورت کی بدکاری کی گواہی دیں تو قرانی اصول کے مطابق ان تینوں پر حد قذف لگے گی اگرچہ وہ اپنی جگہ سچے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے:
فَاِذۡ لَمۡ يَاۡتُوۡا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓئِكَ عِنۡدَ اللّٰهِ هُمُ الۡـكٰذِبُوۡنَ ۞
ترجمہ:
...اگر وہ پوری گواہی پیش نہ کر سکے تو وہ اللہ کے ہاں جھوٹے ہیں۔
[سورۃ النور:13]
اسی طرح ایک عالم اور فقیہ صحابی کی غریب خبر واحد بھی قابل استدلال نہیں ہوگی کیونکہ وہ معیار شہادت پر پوری نہیں اتر رہی
غریب(خبرواحد) روایات کا نقصان»
محدثین کرام نے احادیث کو جمع کرتے وقت اس کی سند کا تو خیال کیا ، الفاظ متن کی باریکیوں کو بھی مد نظر رکھا ، لیکن ان محدثین کرام نے اپنی کتب میں غریب روایات کو بھی شامل کردیا ہے جس کی وجہ سے ایسی روایات بھی کتب حدیث میں موجود ہیں جو بظاہر قران سے متعارض ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان سے انتہائی کمتر درجہ کی ہیں جس پر محدثین کرام کو بعض اوقات ایسی تاویلات اور تطبیقات کرنےپڑیں جن عقل سلیم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں
اگر ایسی غریب روایات کو جمع کیا جائے جن کی تاویلات اور تطبیقات میں محدثین کو انتہائی رکیک قسم کی کوششیں کرنی پڑی ہیں تو ایک کافی بڑا ذخیرہ جمع ہو سکتا ہے حالانکہ ایسی کوششیں ہی فضول ہیں کیونکہ جو روایت اسلامی اصول و ضوابط سے ثابت ہی نہیں اس کو تسلیم کرنا ، تاویل کرنا اور بعض اوقات ایسی روایات کی وجہ سے آیات قرانی کی تشریح اور تخصیص کردینا ہی درست نہیں ہے۔
اور ایسی ہی روایات معاندین اور مخالفین اسلام کا اسلام کے خلاف ایک مضبوط اوزار اور ہتھیار ہیں جس کے ذریعے وہ اسلام کی طرف امادہ ہونے والوں کو برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ اسلامی قانون کے تحت وہ ثابت ہی نہیں اگرچہ سند میں بڑے مشہور نام بھی ہوں وہ حضرت علی سے بڑے نہیں ہوسکتے جن کا دعوی قاضی شریح نے اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ ان کے دعویٰ کے ثبوت میں دو گواہ موجود نہیں تھے اور حضرت علی نے اسے تسلیم کرلیا تھا۔
خوبیوں اور خامیوں کا بیان
عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ قَالَ: كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِأُنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ فِي الْغَضَبِ فَيَنْطَلِقُ نَاسٌ مِّمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ حُذَيْفَةَ فَيَأْتُونَ سَلْمَانَ فَيَذْكُرُونَ لَهُ قَوْلَ حُذَيْفَةَ فَيَقُولُ سَلْمَانُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ فَيَرْجِعُونَ إِلَى حُذَيْفَةَ فَيَقُولُونَ لَهُ: قَدْ ذَكَرْنَا قَوْلَكَ لِسَلْمَانَ فَمَا صَدَّقَكَ وَلَا كَذَّبَكَ فَأَتَى حُذَيْفَةُ سَلْمَانَ وَهُوَ فِي مَبْقَلَةٍ فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ! مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَدِّقَنِي بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ سَلْمَانُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كَانَ يَغْضَبُ فَيَقُولُ فِي الْغَضَبِ لِنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ وَيَرْضَى فَيَقُولُ فِي الرِّضَا لِنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ أَمَا تَنْتَهِي حَتَّى ثورت رِجَالًا حُبَّ رِجَالٍ وَرِجَالًا بُغْضَ رِجَالٍ وَحَتَّى تُوقِعَ اخْتِلَافًا وَفُرْقَةً؟ وَلَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خَطَبَ فَقَالَ: أَيُّمَا رَجُلٍ مِّنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فِي غَضَبِي فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَّلَدِ آدَمَ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ صَلَاةً يَّوْمَ الْقِيَامَةِ . وَاللهِ لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ
ترجمہ:
عمرو بن ابی قرہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ حذیفہ ؓ مدائن میں تھے، انہوں نے کچھ باتوں کا تذکرہ کیا جو رسول اللہ ﷺ نے غصے کی حالت میں اپنے صحابہ سے کہی تھیں۔حذیفہ ؓ سے جن لوگوں نے یہ باتیں سنیں وہ سلمانؓ کے پاس آئے اور ان سے حذیفہ ؓ کی باتوں کا ذکر کیا سلمانؓ نے کہا: حذیفہ اپنی کہی ہوئی باتوں کے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔ وہ حذیفہؓ کے پاس واپس آئے اور ان سے کہا: ہم نے آپ کی بات سلمانؓ کے سامنے رکھی تو نہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی نہ تکذیب کی۔ حذیفہ ؓ سلمان ؓ کے پاس آئے، سلمان ؓ سبزیوں کے کھیت میں تھے۔ حذیفہ ؓ نے کہا: سلمان! جو بات میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی، اس بارے میں میری تصدیق کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟ سلمان ؓ نے کہا کہ: رسول اللہ ﷺ غصے میں ہوا کرتے تھے تو غصے میں اپنے صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے اور خوش ہوتے تو خوشی میں صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے تم باز نہیں آؤ گے حتی کہ لوگوں کے دلوں میں بعض کی محبت اور بعض کی نفرت اور ان میں اختلاف و افتراق ڈال دو گے۔ اور تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو فرمایا: میری امت میں سے میں نے جس شخص کو گالی دی ہے یا غصے میں لعنت کی ہے، تو میں بھی آدم کی اولاد ہوں جس طرح دوسرے لوگ غصے ہوتے ہیں میں بھی غصے ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ اے اللہ! قیامت کے دن اس کو ان کے لئے رحمت کا باعث بنا۔ واللہ! یا تو تم باز آجاؤ وگرنہ میں عمرؓ کو (شکایت)لکھتا ہوں۔
[الصحيحة:1758 (3458)، سنن أبي داؤد،كِتَاب السُّنَّةِ، بَاب فِي النَّهْيِ عَنْ سَبِّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، رقم (4040)]
ماشاء اللہ ۔۔ نہا
ReplyDeleteیت عمدہ اور مفید علمی تحریر ھے۔ جزاک اللہ خیرا
محترم ! اس تحریر کے مصنف کا نام بھی ذکر فرما دیجئے۔
ReplyDeleteاس کا حوالہ دینا مقصود ھے۔
جزاک اللہ خیرا
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
Deleteجزاکم اللہ خیرا کثیرا
اگر آپ مراجعات کا بھی ذکر کردیں تو اور بہتر ہوجائے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ReplyDeleteمحترم بھائیو! یہ میری تلاش، تالیف وترتیب کردہ پوسٹ ہے۔ جس میں متعدد مصنفین، حوالہ جات اور مراجعات پیش کئے گئے ہیں۔
سلامتی ہو آپ سب پر اور رحمتیں اللہ کی اور برکتیں اسکی۔