دلیل اور اقسامِ دلیل

دَلِیل کے اصل معنیٰ رہبر کے ہیں اور اس کی جمع کو دلائل کہتے ہیں۔
[قاموس الفقہ:3/435]

دلیل اس بیان کو کہتے ہیں جس سے دعوىٰ(claim) ثابت کیا جاۓ.
یعنی
دعویٰ(claim) ایک چیز ہے اور جس دوسری چیز سے ثابت(prove) یا واضح(clear) کی جاۓ اسے دلیل(guide) کہتے ہیں۔
یعنی
جو بات کسی چیز کی طرف ہمیں راہ دکھاۓ، راہنمائی کرے اسے دلیل کہتے ہیں۔

مثلاً:

الله عز وجل نے قرآن مجید میں فرمایا:
پھر جب ہم نے ان(حضرت سلیمان) کے لیے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا دلیل(راہنما) نہ ہوا مگر گِھن کے کیڑے سے، جو ان کے ڈنڈے کو کھاتا رہا، جب ڈنڈا گِر پڑا تب جنوں کو واضح ہوا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے۔
[سورۃ سبإ:14]

حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، ووكيع ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تدخلون الجنة حتى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتى تحابوا اولا، ادلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم، افشوا السلام بينكم ".
ترجمہ:
‏‏‏‏حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بہشت میں نہ جاوَ گے۔ جب تک ایمان نہ لاوَ گے اور ایماندار نہ بنو گے۔ جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو گے اور میں تم کو وہ چیز نہ بتلا دوں جب تم اس کو کرو تو تم آپس میں محبت کرنے لگو، سلام کو آپس میں رائج کرو۔
[صحيح مسلم: حدیث نمبر 194، جامع الترمذي:2688، سنن أبي داود 5193، سنن ابن ماجه:3692+68]




=============================
اِسْتِدْلال....یعنی دلیل، ثبوت، بحث...پیش/حاصل کرنا۔
argument, reason, ratiocination




استدلال کی مثال:
امام وکیع حضرت ضحاک سے روایت کرتے ہیں کہ:
علمُوا نساءكم  وَأَوْلَادكُمْ وخدمكم أَسمَاء الْأَنْبِيَاء الْمُسلمين فِي الْكتاب ليؤمنوا بهم فَإِن الله أَمر بذلك
ترجمہ:
سکھاؤ اپنی عورتوں، اولاد اور خادموں کو کتاب(قرآن)میں(موجود) مسلمانوں کے انبیاء کے نام تاکہ وہ ایمان لاسکیں ان پر کیونکہ بےشک اللہ نے حکم دیا ہے اس کا جیساکہ فرمایا:
(مسلمانو) کہہ دو کہ: ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس کلام پر بھی جو ہم پر اتارا گیا اور اس پر بھی جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد پر اتارا گیا، اور اس پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا۔۔۔﴿سورۃ البقرة:136﴾
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:ج1 ص337-338]

کیونکہ بغیر علم، ایمان کس چیز پر لا سکے گا؟



ہدایت اور گمراہی:
قرآن مجید کی واضح ادھوری آیتوں سے گمراہی کی دلیل نکالنا ممکن ہے۔
جیسے:
لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ...مت قریب جاؤ نماز کے
اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ...عمل کرو جو چاہو تم
فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ...تو عبادت کرو جس کی چاہو تم

قرآنی گواہی:
۔۔۔اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو ھدایت دیتا ہے اور اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، اور نہیں وہ(الله)گمراہ کرتا اس کے ذریعے سے مگر نافرمانوں ہی کو۔
[سورۃ البقرۃ:26]



گمراہی کی دلیل پکڑنے کا طریقہ:
قرآن مجید کا جو معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر الله کے رسول کے صحابہ سے اماموں نے بیان نہیں کیا، بعد کے کسی شخص نے کیا، تو وہ جدید معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر غلط اور گمراہی کی ہے۔
دلیلِ قرآن:
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت(قرآن) واضح ہونے کے بعد بھی رسول(سنت) کی مخالفت کرے، اور مومنوں(یعنی صحابہ کی جماعت-اجماع) کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
[سورۃ النساء:115]
قرآن کے مطابق رسول اور سارے مؤمنین(جو اس وقت صحابہ تھے)کے راستہ کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے۔
اور
صحابہ میں خاص خلفاء کی مخالفت کی بڑی برائی ہے۔









دلیل کی بنیادی دو قسمیں ہیں:
(1) دلیلِ ھدایت  (2) دلیلِ گمراہی

القرآن:
بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لئے) کوئی بھی مثال دے، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو، اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے۔ البتہ جو لوگ کافر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے اللہ کا کیا مطلب ہے ؟ (اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:26]
تفسیر:
بعض کافروں نے قرآن کریم پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اس میں کچھ مثالیں مکھی، مچھر، مکڑی وغیرہ کی دی گئی ہیں، اگر یہ واقعی خدا کا کلام ہوتا تو اس میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر نہ ہوتا، ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بڑا بےتکا اعتراض تھا کیونکہ مثال ہمیشہ مضمون کی مناسبت سے دی جاتی ہے اگر کسی حقیر و ذلیل کی مثال دینی ہو تو ایسی ہی کسی چیز سے دی جائے گی جو حقیر و ذلیل ہو، یہ کسی کلام کا عیب تو کیا ہوتا بلکہ یہ اس کی فصاحت وبلاغت کی دلیل ہے مگر یہ بات انہی کی سمجھ میں آتی ہے جو طالبِ حق ہوں اور حق پر ایمان لاچکے ہوں لیکن جنہوں نے کفر کی قسم کھا رکھی ہے انہیں تو ہر بات پر ہر حالت میں اعتراض کرنا ہے اس لئے ایسی بےتکی باتیں کہتے ہیں۔

قرآن کریم کی یہی آیتیں جو طالبِ حق کو ہدایت بخشتی ہیں ایسے لوگوں کے لئے مزید گمراہی کا سبب بن جاتی ہیں جنہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ کر یہ طے کرلیا ہے کہ حق بات ماننی نہیں ہے کیونکہ وہ ہر نئی آیت کا انکار کرتے ہیں اور ہر آیت کا انکار ایک مستقل گمراہی ہے۔





دلیلِ ھدایت کی قرآنی شاھدیاں:
(1) کیا نہیں تم نے دیکھا اپنے پروردگار کی قدرت کو کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسکو بے حرکت کھڑا رکھتا پھر سورج کو دلیل(راہنما)بنا دیتا۔
[سورۃ الفرقان:45]

(2) اے ایمان والو! کیا میں دلیل بتاؤں(راہنمائی کروں) تمہاری اس تجارت کی جو تمہیں نجات دے عذابِ دردناک سے؟
[سورۃ الجمعۃ:10]

(3) اور ہم نے پہلے ہی سے اس(موسیٰ) پر(دائیوں)کے دودھ حرام کر دیے تھے، تو موسیٰ کی بہن نے کہا کہ میں تمہیں اسے گھر والوں کی "رہنمائی" کروں سے تمہارے لیے اس بچے کو پالیں اور اس کی خیر خواہی(سے پرورش)کریں؟
[سورۃ القصص:12]سورۃ طٰهٰ:40





دلیلِ گمراہی کی قرآنی شاھدیاں:
القرآن:
تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا،(اور)کہا کہ اے آدم! کیا میں تمہیں دلیل دوں(راہ دکھاؤں ایک ایسے)درخت کی(جو)ہمیشہ کی زندگی کا(فائدہ دے)اور(ایسی)بادشاہت(دے)کہ کبھی پرانی نہ ہو؟
[سورۃ طٰهٰ:120]


(2) شیطان بھی وحی(تیز خفیہ اشارہ)کرتا ہے:
اور جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس میں سے مت کھاؤ، اور ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ (مسلمانو) شیاطین اپنے دوستوں کو وحی کرتے(ورغلاتے) رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں۔ اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم یقینا مشرک ہوجاؤ گے۔
[سورۃ الانعام:121]

جیسے:
اللہ نے فرمایا:
کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار (کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیم سے بحث کرنے لگا؟ جب ابراہیم نے کہا کہ: میرا پروردگار وہ ہے جو زندگی بھی دیتا ہے اور موت بھی، تو وہ کہنے لگا کہ: میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا: اچھا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم ذرا اسے مغرب سے تو نکال کر لاؤ، اس پر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا۔ اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
[سورۃ البقرۃ:258]
یہ بابل کا بادشاہ نمرود تھا جو خدائی کا بھی دعوے دار تھا، اس نے جو دلیل دی کہ میں زندگی اور موت دیتا ہوں اس کا مطلب یہ تھا کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے جس کو چاہوں موت کے گھاٹ اتاردوں اور جس کو چاہوں موت کا مستحق ہونے کے باوجود معاف کرکے آزاد کردوں، اور اس طرح اسے زندگی دے دوں، ظاہر ہے کہ اس کا جواب قطعی طور پر غیر متعلق تھا، اس لئے کہ گفتگو زندگی اور موت کے اسباب سے نہیں ان کی تخلیق سے ہورہی تھی ؛ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ یا تو موت اور حیات کی تخلیق کا مطلب ہی نہیں سمجھتا یا کٹ حجتی پر اترآیا ہے، اس لئے انہوں نے ایک ایسی بات فرمائی جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا، مگر لاجواب ہو کر حق کو قبول کرنے کے بجائے اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قید کیا، پھر آگ میں ڈالنے کا حکم دیا، جس کا ذکر قرآن کریم نے سورة انبیاء (٦٨ تا ٧١) سورة عنکبوت (٢٤) اور سورة صافات (٩٧) میں فرمایا ہے۔




(3) اور انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں گنتی کے چند دنوں کے علاوہ آگ ہرگز نہیں چھوئے گی۔
[سورۃ البقرۃ:80، آل عمران:24]

اور یہ (یعنی یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ : جنت میں سوائے یہودیوں یا عیسائیوں کے کوئی بھی ہرگز داخل نہیں ہوگا۔  یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں۔ آپ ان سے کہے کہ اگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے کر آؤ۔
[سورۃ البقرۃ:111]

یہود و نصاری (دعویٰ کرتے) کہتے ہیں کہ : ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (ان سے) کہو کہ پھر اللہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں سزا کیوں دیتا ہے؟
[سورۃ المائدۃ:18]



مؤمنوں کو کفار کی باتیں تعلیم کرنے کا مقصد:
القرآن:
اے ایمان والو! نہ تم ہوجانا ان کی طرح جنہوں نے کفر کیا...
[سورۃ آل عمران:156]



(4) جن لوگوں نے شرک اپنایا ہوا ہے وہ(محض رائے پر مبنی) یہ(دلیل دیتے)کہیں گے کہ : اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے، نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی بھی چیز کو حرام قرار دیتے. ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی اسی طرح (رسولوں کو) جھٹلایا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا۔ تم ان سے کہو کہ : کیا تمہارے پاس کوئی(انبیاء سے الله کا نازل کردہ) علم ہے جو ہمارے سامنے نکال کر پیش کرسکو؟ تم تو جس چیز کے پیچھے چل رہے ہو وہ "گمان" کے سوا کچھ نہیں، اور تمہارا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہمی اندازے لگاتے رہو۔
[سورۃ الانعام:148]
یعنی
ان منکروں کی یہ گمراہ کُن دلیل کہ اگر اللہ کو شرک ناگوار ہے تو وہ ہمیں شرک پر قدرت ہی کیوں دیتا ہے؟ کا جواب بار بار دیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اپنی قدرت کے ذریعے زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو پھر امتحان ہی کیا ہوا؟ دنیا تو اسی امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ کون شخص اپنی سمجھ اور اپنے اختیار سے وہ صحیح راستہ اختیار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت میں بھی رکھ دیا ہے اور جس کی طرف رہنمائی کے لئے اتنے سارے پیغمبر بھیجے ہیں۔
جوابِ شکویٰ: یعنی ان سے پہلے لوگوں نے بھی حق کی تکذیب کی اور اسی طرح کی بےسرو پا دلیلیں پیش کیں۔ یہاں تک کہ ہمارے عذاب نے انہیں آگھیرا۔ قُلْ ھَلْ عِندَکُمْ مِّنْ عِلْمٍ ۔ یعنی (پہلی دلیل تو بالکل واہی اور لغو ہے، لہٰذا اے نبی!) آپ ان سے فرمائیں اگر تمہارے پاس گزشتہ انبیاء (علیہم السلام) سے کوئی نقلی(کتاب میں منقول) دلیل ہو وہ پیش کرو۔ دلیل تماہرے پاس کیا ہوگی تم تو ہر بات ظِن(خیال وگمان) اور تخمین(اٹکل واندازے) سے کہتے اور دین کے معاملے میں بھی محض اپنے بگڑے ہوئے خیال ہی کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔




(5) اور جب یہ (کافر) لوگ کوئی بےحیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی طریقے پر عمل کرتے پایا ہے، اور اللہ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے۔ تم (ان سے) کہو کہ : اللہ بےحیائی کا حکم نہیں دیا کرتا۔ کیا تم وہ باتیں اللہ کے نام لگاتے ہو جن کا تمہیں ذرا علم نہیں؟
[سورۃ الاعراف:28]
یعنی
اس سے اسی رسم کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ عریاں ہو کر طواف کرتے تھے چونکہ یہ رسم برسوں سے چلی آتی تھی اس لئے ان کی دلیل یہ تھی کہ ہمارے باپ دادا ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہوگا۔ لیکن جب وہ عقل وہدایت سے محروم ہیں تو ان کے طریقوں کی اتباع اور ان کی باتوں سے دلیل پکڑنا صحیح نہیں۔

M
M



فرمائشی مطالبات ودلائل مانگنا، ہٹ دھرمی اور انکار کیلئے بہانہ ہے:

القرآن:
اور اگر ان لوگوں کا منہ موڑے رہنا تمہیں بہت بھاری معلوم ہورہا ہے تو اگر تم زمین کے اندر (جانے کے لیے) کوئی سرنگ یا آسمان میں (چڑھنے کے لیے) کوئی سیڑھی ڈھونڈ سکتے ہو تو ان کے پاس (خود ان کا فرمائشی) معجزہ لے آؤ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ لہذا تم نادانوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔
[سورۃ الانعام:35]


اور کہتے ہیں کہ : ہم تم پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تم زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے ایک چشمہ نہ نکال دو۔
یا پھر تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہوجائے، اور تم اس کے بیچ بیچ میں زمین کو پھاڑ کر نہریں جاری کردو۔
یا جیسے تم دعوے کرتے ہو، آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے ہم پر گرا دو ، یا پھر اللہ کو اور فرشتوں کو ہمارے آمنے سامنے لے آؤ۔
یا پھر تمہارے لیے ایک سونے کا گھر پیدا ہوجائے، یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ، اور ہم تمہارے چڑھنے کو بھی اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک تم ہم پر ایسی کتاب نازل نہ کردو جسے ہم پڑھ سکیں۔ (اے پیغمبر) کہہ دو کہ : سبحان اللہ ! میں تو ایک بشر ہوں جسے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
[سورۃ الاسراء:90-93]


اور جب ہماری آیتیں پوری وضاحت کے ساتھ ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ کہنے کے سوا ان کی کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ : اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو (زندہ کر کے) لے آؤ۔
[سورۃ الجاثیۃ:25]



جس طرح دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے، سونگھنے سے ہر بات معلوم نہیں ہوتی یا غلطی ہونا ممکن ہے، اسی طرح عقل کی بھی ایک حد ہے جس کے بعد اسے ہدایت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ہر انسان کی عقل بھی برابر نہیں، بعض پڑھے لکھے بےعقل ہوتے ہیں:

کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں؟
[دلیل سورۃ البقرۃ:44]


اگر ہر بات جاننے یا صحیح فیصلہ تک پہنچنے کی صلاحیت محض عقل میں ہوتی

تو انبیاءِ کرام اور الہامی کتابیں بھیجنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔


اور نہیں بنایا تو(اللہ) نے اس(کائنات کی ہر چیز کو)بےمقصد...
[سورۃ آل عمران:191، ص:27]
تاکہ تمہیں آزمائے کہ عمل کے اعتبار سے تم میں کون زیادہ اچھا ہے۔
[سورۃ ھود:7]


تو خلاصہ یہ ہی ہوا کہ:
القرآن:
۔۔۔ جسے الله (ضد، شرارت، گناہ کے سبب) گمراہ کرے تو نہیں ہے کوئی ہدایت دینے والا اسے
[سورۃ الاعراف:186+178]النساء88+143الرعد33یونس108]


ہدایت کی اہمیت کا اندازہ لگائیں کہ الله نے ہر مسلمان پر ہر روز، ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ  میں صرف ایک ہدایت ہی کے مانگنے کو لازم کیوں کیا ہے؟
کیوں کہ اسی میں ساری بھلائیاں مضمر و منحصر ہیں۔





نماز کے ساتھ مزید دو نبوی دعائوں کو بھی گڑگڑاکر مانگتے رہنے کی عادت کو اختیار کریں:
اللَّهُمَّ، أَرِنَا الْحَقَّ حَقّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَوَفِّقْنَا لِاجْتِنَابِهِ، وَلَا تَجْعَلْه مُلْتَبِسًا عَلَيْنَا فَنَضِلَّ، وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.
ترجمہ:
میرے الله! ہمیں حق کو حق دکھا اور حق بات کے پیچھے چلنے کو ہمارا رزق(یعنی مرنے سے پہلے کامل عادت)بنادے اور باطل کو باطل دکھا اور باطل سے اجتناب(دوری اور احتیاط) کو بھی ہمارا رزق(یعنی مرنے سے پہلے کامل عادت) بنادے، ایسا نہ ہو کہ حق و باطل ہم پر خلط ملط ہوجاۓ اور ہم بہک (گمراہ) جائیں۔ اے الله! ہمیں متقی (پرہیزگار) لوگوں کا امام بنا.
[تفسیرابن کثیر: سورۃ البقرۃ:213]



نبی کریم ﷺ جب تہجد کی نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو اس دعا سے نماز شروع کرتے:

«اللهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ»

ترجمہ:
میرے اللہ! جبرئیل ومیکائیل واسرافیل کے رب! زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے! چھپی اور ظاہر باتوں کے جاننے والے! آپ ہی فیصلہ کرنے والے ہیں اپنے بندوں کے درمیان جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے، ھدایت کر ہمیں اپنے اذن سے جس میں اختلاف ہوگیا ہے حق کے بابت، ںےشک آپ ہی جسے چاہتے ہیں ھدایت دیتے ہیں سیدھی راہ کی۔
[مسلم:770، ابوداؤد:767، نسائی:1625، ترمذی:3420، ابن ماجہ:1357]





*****************************

دلیل کی دو قسمیں»(1)عقلی (2)علمی:
ثبوتِ علم کی دو بنیادیں» (1)کتاب (2)روایت:
القرآن:
تم ان سے کہو کہ : کیا تم نے ان چیزوں پر کبھی غور کیا ہے جن کو تم اللہ کے سوا "پکارتے" ہو؟ مجھے دکھاؤ تو سہی کہ انہوں نے زمین کی کونسی چیز پیدا کی ہے ؟ یا آسمانوں (کی تخلیق) میں ان کا کوئی حصہ ہے ؟ میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو، یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو۔ اگر تم واقعی سچے ہو۔
[سورۃ الأحقاف:4]
تفسیر:
مشرکین کے پاس اپنے شرک والے عقیدوں کو ثابت کرنے کے لئے نہ کوئی عقلی دلیل ہے جو یہ ثابت کرسکے کہ جن معبودوں کو یہ پوجتے ہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خدائی میں کوئی حصہ لیا ہے، اور نہ کوئی نقلی دلیل ہے۔
نقلی دلیل دو قسم کی ہوسکتی ہے:
(1)اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب نازل ہوئی ہو جس میں ان معبودوں کو اللہ تعالیٰ کی خدائی میں شریک قرار دیا گیا ہو۔
(2)کسی پیغمبر نے کوئی بات کہی ہو، جس پر کوئی علمی سند (یعنی پہنچانے والے محافظوں یا انکی کتابوں کا سہارا) ہو۔
لہٰذا مشرکین سے کہا جارہا ہے کہ اگر سچے ہو تو ایسی کوئی کتاب یا علمی روایت ہے تو لاکر دکھاؤ۔



*****************************

اقسامِ دلیلِ ھدایت:
قرآن مجید میں دعوى توحید ثابت کرنے کے لئے ھدایت کے چار قسم کے دلائل بیان کے گئے ہیں :
(١) دلیل عقلی محض، (٢) دلیل عقلی مع اعتراف الخصم ، (٣) دلیل نقلی ، (٤) دلیل وحی

(1) دلیلِ عقلی:
دلیلِ عقلی اس دلیل کو کہتے ہیں جس میں ایسے امور مذکور ہوں جن کا تعلق عقل سے ہے. دلیلِ عقلی  کے ذریعہ ہر صاحبِ عقل دعوىٰ کو سمجھ سکتا ہے. اگر مخاطب کافر و مشرک ہو تو بھی عقلِ سلیم اسے یہ بات منوانے پر مجبور کرے گی کہ جو اُمور(باتیں) دلیل میں موجود ہیں وہ الله تعالیٰ کے سوا کسی اور کے قبضہ قدرت میں نہیں ہیں، نہ کسی نبی یا ولی کے نہ کسی فرشتہ کے، اس لئے الله کے سوا کوئی دوسرا عبادت(سجدہ، پکار ودعا اور نذر و منت وغیرہ) کے لائق نہیں، اسی طرح مخاطب دہریہ ہو تو عقلِ سلیم اسے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ کردے گی کہ دلیل میں مذکورہ اُمور(باتوں) کا نظام خود بخود نہیں چل رہا بلکہ ایک قادر و قیوم ہستی اس سارے نظام کو چلا رہی ہے اور یہ کام بےشعور مادہ کا نہیں ہے. جیسے مثال دی گئی ہے دلیلِ عقلی کے ساتھ کہ:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ 0 الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا وَّ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ 0
ترجمہ:
اے لوگو بندگی کرو اپنے رب کی جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ. جس نے بنایا واسطے تمہارے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور اتارا آسمان سے پانی پھر نکالے اس سے میوے تمہارے کھانے کے واسطے سو نہ ٹھہراؤ کسی کو اللہ کے مقابل اور تم تو جانتے ہو.
[سورۃ البقرۃ:21-22]

اس میں ((یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ)) دعوىٰ توحید ہے یعنی اپنے رب کی عبادت کرو اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو، پھر ((الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ - سے - رِزۡقًا لَّکُمۡ)) تک دلیل عقلی ہے کہ تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کرنے والا الله ہی ہے اور کوئی نہیں. اسی طرح تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت اسی نے بنایا اور آسمان سے مینہ(بارش) برساکر زمین سے تمہاری روزی کا سامان بھی اسی نے پیدا کیا. تمہارے معبودانِ باطلہ(جھوٹے خداؤں) میں کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا. اس کے بعد ((فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا)) دلیل کا نتیجہ ہے، یعنی جب تم جانتے ہو کہ سارے کام کرنے والا الله ہے تو پھر کسی مخلوق کو عبادت میں اس کا شریک نہ بناؤ.

تنبیہ :
یہاں دعوىٰ میں ’’حصر‘‘ ہے جیسا کہ  مفھوم میں ظاہر کردیا گیا ہے، اور نتیجہ بھی اس پر صراحت سے دلالت کرتا ہے، تو دعوىٰ کا مقصد یہ نہیں کہ الله کو (بھی) معبود مانو بلکہ مقصد یہ ہے کہ صرف الله ’’ہی‘‘ کو معبود مانو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ. کیونکہ نزول قرآن سے پہلے مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ سب الله کو اپنا معبود مانتے تھے لیکن وہ اس کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کرتے تھے [دیکھئے قرآن: سورۃ یونس:31، 
المومنون:84-89، العنکبوت:61-63، الزخرف:9]، اس لئے شرک سے منع فرمایا اور صرف الله ہی کی عبادت کرنے کا حکم دیا.



(2) دلیلِ عقلی مع اعتراف الخصم :
یہ وہ دلیلِ عقلی ہے جس کو منکرین سے استفہام (سمجھانے کی غرض سے پوجھنے) کے طور پر بیان کیا جاۓ اور ساتھ ہی ان کی تسلیمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوۓ جواب بیان کیا جاۓ، مَثَلاً : ایک جگہ ارشاد ہے:

قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿سورۃ یونس : ٣١)
ترجمہ:
آپ ان (مشرکوں) سے کہیئے کہ (بتاؤ) وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے روزی پہنچاتا ہے؟ (بلکہ بتاؤ) کہ وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے؟ اور وہ کون ہے جو جاندار چیز کو بےجان سے اور بےجان چیز سے جاندار چیز کو باہر نکالتا ہے؟ اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ تو وہ (جواب میں یہی) کہیں گے (ان تمام کاموں کا کرنے والا) الله ہی ہے۔ تو کہدے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے(شرک سے بچتے)؟

ابتدا میں چند ایسے امور ذکر فرماۓ جن کے بارے میں مشرکین کا یہ عقیدہ تھا کہ ان امور کا فاعل اور کارساز صرف الله ہی ہے، اس لئے آخر میں فرمایا ((فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ)) جو ان کے اقرار پر دلالت کرتا ہے.



3) دلیلِ نقلی : جب دعوى کے اثبات(ثابت کرنے) کے لئے کوئی دلیل پیش کی جاۓ تو وہ نقلی دلیل کہلاۓ گی.
القرآن:
تم ان سے کہو کہ : کیا تم نے ان چیزوں پر کبھی غور کیا ہے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو؟ مجھے (بطور عقلی دلیل) دکھاؤ تو سہی کہ انہوں نے زمین کی کونسی چیز پیدا کی ہے؟ یا آسمانوں (کی تخلیق) میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ (یا بطورِ نقلی دلیل) میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو، یا پھر کوئی (پہلوں سے نقل شدہ) روایت جس کی بنیاد علم پر ہو۔ اگر تم واقعی سچے ہو۔
[سورۃ الاحقاف:4]
یعنی ایسی تعلیم جو اللہ کا پیغام پہنچانے والے کسی پیغمبر سے مستند طریقہ پر ثابت ہو۔

دلیل نقلی کی سات (٧) قسمیں ہیں:
(١) گزشتہ آسمانی کتابوں سے ، مَثَلاً : وَآتَيْنَآ مُوسَى ٱلْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِي وَكِيلاً {سورۃ الاسراء : ٢}
ترجمہ:
 "اور ہم ہی نے موسیٰ کو کتاب دی اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت (کا ذریعہ) بنایا تھا، اس میں یہ حکم تھا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ".
یہ تورات سے دلیلِ عقلی ہے.

(٢) انبیاء سابقین سے اجمالاً ، مَثَلاً : وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلاَّ نُوحِيۤ إِلَيْهِ أَنَّهُ لاۤ إِلَـٰهَ إِلاَّ أَنَاْ فَٱعْبُدُونِ {الانبیاء : ٢٥}
ترجمہ:
"اور آپ سے پہلے ہم نے کسی پیغمبر کونہیں بھیجا مگر اس کی طرف ہم نے یہی وحی کی تھی کہ میرے سوا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں، اس لئے صرف میری ہی عبادت کرو".

(٣) انبیاء سابقین سے تفصیلاً نام بنام ، مَثَلاً : وَٱذْكُرْ فِي ٱلْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقاً نَّبِيّاً 0 إِذْ قَالَ لأَبِيهِ يٰأَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لاَ يَسْمَعُ وَلاَ يُبْصِرُ وَلاَ يُغْنِي عَنكَ شَيْئاً {مریم : ٤١-٤٢}
ترجمہ:
"اور ذکر کیجئے کتاب میں ابراہیم کا، وہ بہت سچے نبی تھے. سچائی کی حد یہ تھی کہ انہوں نے اپنے باپ سے بھی صاف کہدیا کہ اے میرے باپ تو ان (باطل معبودوں) کی کیوں عبادت کرتا ہے جو نہ سنتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ تجھے کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں.
(٤) کتبِ سابقہ کے عالموں سے جو نبی ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے ، مَثَلاً : ٱلَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ أُوْلَـٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ {البقرہ : ١٢١}
یعنی "انھیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کے پڑھنے کا حق ادا کرتے ہیں اور وہ اس دعوے کو مانتے ہیں...،
یہ دلیل نقلی ان مولویوں اور پیروں سے لی گئی ہے جو تورات کا علم رکھتے تھے.

(٥)  جنات سے ، مَثَلاً : قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ ٱسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ ٱلْجِنِّ فَقَالُوۤاْ إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَباً 0  يَهْدِيۤ إِلَى ٱلرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَن نُّشرِكَ بِرَبِّنَآ أَحَداً{الجن:١-٢}
ترجمہ:
"فرمادیجئے کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک عجیب ہی قرآن سنا ہے جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم تو اس پر ایمان لے آۓ ہیں اور اب ہم اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے".
یہ جنات کی ایک طائفہ (گروہ) سے نقل پیش کی گئی ہے، انہوں قرآن مجید سن کر اپنی قوم کو جاکر صاف اعلان کردیا کہ الله کے سوا کوئی حاجت روا نہیں، اس لئے صرف الله ہی کو غائبانہ حاجات میں پکارا کرو.

(٦) ملائکہ سے اور ، مَثَلاً : شَهِدَ ٱللَّهُ أَنَّهُ لاَ إِلَـٰهَ إِلاَّ هُوَ وَٱلْمَلاَئِكَةُ وَأُوْلُواْ ٱلْعِلْمِ قَآئِمَاً بِٱلْقِسْطِ {آل عمران : ١٨}
ترجمہ:
"گواہی دی الله نے اس کی کہ بجز اس ذات کے کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور فرشتوں نے بھی اور اہلِ علم نے بھی، وہ نظام کو اعتدال کے ساتھ قائم رکھنے والا ہے".

(٧) پرندوں سے، مَثَلاً : جب ہدہد غائب رہنے کے بعد حضرت سلیمان علیہ  السلام کے پاس آیا تو قومِ سبا کے مشرکانہ افعال بیان کرنے کے بعد یوں گویا ہوا:
أَلاَّ يَسْجُدُواْ للَّهِ ٱلَّذِي يُخْرِجُ ٱلْخَبْءَ فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ 0 ٱللَّهُ لاَ إِلَـٰهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِيمِ {النمل:٢٥-٢٦}
ترجمہ:
"(وہ مشرکین
 ہدایت سے اتنے دور ہیں کہ) اس الله کو سجدہ نہیں کرتے جو (ایسا قادر ہے کہ) آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو باہر لاتا ہے اور (ایسا عالم ہے کہ) جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب کچھ جانتا ہے، (پس) الله ہی ایسا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ عرش عظیم کا مالک ہے.



4) دلیلِ وحی:
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دعوى کے ساتھ نبی ﷺ کو یہ اعلان کرنے کا حکم بھی ہوتا ہے کہ میں جو کچھ کہ رہا ہوں اپنی طرف سے اور اپنی راۓ سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ مجھے الله تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی یہ حکم ملا ہے کہ میں یہ دعوىٰ اور مضمون تم تک پہنچاؤں.
چناچہ ارشاد ہے :

قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَمَّا جَآءَنِيَ ٱلْبَيِّنَـٰتُ مِن رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
ترجمہ:
فرمادیجئے کہ مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو، جبکہ میرے پاس اپنے رب کی طرف سے کھلی باتیں آچکی ہیں (اور یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہ رہا ہوں بلکہ) مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے کو الله کے سپرد کردوں.
[سورۃ مومن/الغافر:٦٦]




فائدہ جلیلہ :
قرآن مجید میں دعوىٰ توحید کو تینوں قسم کے دلائل سے ثابت کیا گیا ہے تاکہ مادہِ انکار کا بلکلیہ استیصال ہوجاۓ اور منکرین کے لئے انکار کی گنجائش باقی نہ رہے. دلیلِ عقلی اس لئے ذکر کی جاتی ہے تاکہ ثابت ہوجاۓ کہ دعوىٰ توحید عقلِ سلیم کے عین مطابق ہے اور دلیلِ نقلی اس لئے پیش کی جاتی ہے تاکہ یہ معلوم ہوجاۓ کہ دعوىٰ توحید میں رسول اللہ ﷺ منفرد نہیں ہیں بلکہ آپ سے پہلے تمام انبیاء علیھم السلام بھی مسئلۃ توحید میں بیان فرماتے رہے اور دلیلِ وحی اس لئے پیش کی جاتی ہے تاکہ منکرینِ دعوىٰ کے اس اعتراض کا جواب ہوجاۓ کہ  مسئلۃ توحید کے علاوہ اور مسائل و احکام تھوڑے ہیں یہ کیا ضروری ہے کہ اسے ہی بیان کیا جاۓ. اس لئے اسے چھوڑو کوئی اور دوسرے مسئلے بیان کرو. اس پر دلیلِ وحی سے جواب دیا گیا کہ میں تو الله کی طرف سے اس کام (یعنی دعوىٰ توحید پیش کرے) پر ماموں ہوں اس لئے اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا.








شرعی دلائل کے درجات:
گفتگو کی صلاحیت اور ہوش و حواس رکھنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ “لفظ” ایک نہیں کئی معانی رکھتا ہے، مثلا “بت” مورتی کو بھی کہتے ہیں اور محبوب کو بھی کہتے ہیں۔ کسی عام کلام میں یہ کلام کا سیاق و سباق طے کرتا ہے کہ اس کے مقصودی معانی کیا ہو سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید کی بعض آیات ایسی ہیں جو بالکل ہی واضح مفہوم رکھتی ہیں اور ان کے لئے کسی تشریح یا تاویل کی ضرورت نہیں چنانچہ مفسرین ایسی آیات کو قطعی الدلالۃ کہتے ہیں۔
لیکن قرآن مجید کی زیادہ آیات وہ ہیں جو اجمالی aggregate ہیں اور یہ اجمال وضاحت، تشریح اور تاویل چاہتا ہے۔ چنانچہ مفسرین ان آیات کو ظنی الدلالۃ کہتے ہیں۔



درجہ کے لحاظ سے دلائل کی چار قسمیں ہیں:
(1)      قطعی الثبوت، قطعی الدلالة:  
یعنی وہ دلیل جو ثبوت(نقل) کے لحاظ سے بھی قطعی(یقینی طور پر ثابت) ہو، اور دلالت(Indication) کے لحاظ سے بھی قطعی(یقینی)ہو۔ جیسے قرآنِ مجید کی آیات اور خبرِمتواتر(یعنی جن کے روایت کرنے والے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک ہر زمانہ میں مختلف طبقات اور مختلف شہروں کے گواہ اس کثرت سے رہے ہوں کہ ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق کرلینا محال سمجھا جائے) اور جس کی دلالت Indication اپنے مدلول meaning (یعنی ظاہری معنی پر جو اس کی گہرائی میں جائے بغیر ابتدا بلاغور وتفکر سمجھا جائے) ’’واضح‘‘ بھی ہو، کوئی دوسرا احتمال(امکان) اور الجھن نہ ہو.


مثلا: اللہ تعالی نے فرمایا : { حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھَاتُکُمْ }یعنی ’’ تمہاری مائیں تم پر حرام کی گئیں ‘‘ (سورۃ النساء:23) قرآن کی آیت ہے، جس کے ثابت ہونے میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں، اور اس کا معنی بھی بالکل واضح ہے، ایسے احکام کو ’’قطعی الثبوت ، قطعی الدلالۃ‘‘ کہا جاتا ہے ۔

اس درجہ کے ثبوت اور دلالت والی دلیل سے کسی حکم میں فرضیت ثابت ہوتی ہے اور کسی منع کردہ بات میں حرمت ثابت ہوتی ہے، اور اس(فرضیت یا حرمت) کا منکر کافر ہوجاتا ہے۔




(2) قطعی الثبوت ظنی الدلالة:
یعنی وہ دلیل جو ’’ثبوت‘‘ کے لحاظ سے قطعی(یقینی طور پر ثابت)تو ہو لیکن ’’دلالت‘‘ کے لحاظ سے وہ ظنی(غیریقینی) ہو۔ جیسے آیاتِ کریمہ میں متعدد معانی کا احتمال(امکان) ہو۔ جس کا ثبوت یک گونہ کم تر دلائل سے ہوا۔

جیسے قرآن مجید نے کہا :{ وَامْسَحُوْا بِرُء ُوْسِکُمْ } یعنی اور مسح کرلیا کرو اپنے سر کا (سورۃ المائدۃ:6) عربی زبان کے قاعدہ کے مطابق کبھی ’’ب‘‘ زائد ہوتی ہے، اور کبھی بعض کے معنی میں، یہاں اگر ’’ب‘‘  زائد ہو تو معنی یہ ہوگا کہ ’’پورے سر کا مسح کرو‘‘ اور اگر بعض کے معنی میں ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ ’’سر کے کچھ حصہ کا مسح کرو‘‘ ایسے احکام کو ’’قطعی الثبوت، ظنی الدلالۃ ‘‘ کہتے ہیں۔

ايسے ثبوت اور دلیل سے كسی امر(حکم) میں کبھی وجوب(لزوم) اور کبھی سنّیت(یعنی جس پر آپ ﷺ نے عادت وہمیشگی اختیار فرمائی ہو اور اس کا بلاعذر چھوڑنا باعث گناہ ہے) ثابت ہوتی ہے۔ اور کسی بات کی نہی(ممانعت)میں کراہتِ تحریمی(حرام کے قریب مکروہ وناجائز ہونا اور اس کا مرتکب عتاب کا مستحق ہو)ثابت ہوتی ہے۔
[قواعد الفقہ ومراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی]


اب سوال یہ آجاتا ہے کہ جو اجمالی synoptic آیات تشریح یا تاویل چاہتی ہیں ان کی تاویل کا حق کسے ہے؟ تو امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ ﷺ قرآن مجید کے سب سے پہلے شارح ہیں
[دلائل: سورۃ النحل:64، النساء:105]
اور کسی بھی آیت کی تشریح کے لئے سب سے پہلے ذخیرۂ حدیث(خبرِ نبوی) سے رجوع Refer کیا جائے گا۔ اگر کسی آیت کی کلی تشریح یا کسی ضمنی سوال کا جواب حدیث(خبرِ نبوی) سے نہ مل سکے تو پھر اس تشریح کا حق انہیں حاصل ہوگا جو قرآنِ مجید کے ”ماہر“ ہوں یعنی اہل الذکر[حوالہ« سورۃ الانبیاء:7]۔ اب عین ممکن ہے کہ تین مفسرین الگ الگ معانی اخذ کر رہے ہوں، چنانچہ ایسی صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ اہل علم کی اکثریت کس معنیٰ کو ترجیح دے رہی ہے۔ اب ایک مثال سے سمجھ لیجئے کہ قرآنِ مجید کی اجمالی آیات تفسیر کیوں اور کیسے چاہتی ہیں؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا
 ترجمہ:
چور مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دو۔
[سورۃ المائدۃ، آیت 38]


اس آیت میں ’’ہاتھ‘‘ کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے یعنی أَيْدِيَ وہ جمع کے صیغے میں استعمال ہوا ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جمع اگر مطلق (Freely,Unrestricted) استعمال ہو تو اس سے “کُل”whole مراد ہوتا ہے۔ اب یہاں لسانیات Linguistics کے اس اصول کے مطابق پورا ہاتھ مراد ہو سکتا ہے، لیکن لسانی قاعدہ تو عام انسانوں کا بنایا ہوا قاعدہ ہے، جبکہ قرآن مجید کے لئے یہ طے شدہ ہے کہ اس کی تشریح کا پہلا ذریعہ رسول اللہ ﷺ ہیں، چنانچہ لسانی قاعدے سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ رسول اللہ ﷺ کا عمل یا ارشادِ گرامی اس حوالے سے کوئی رہنمائی فراہم کرتا ہے یا نہیں؟ جب دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ رسول اللہ ﷺ طے فرما چکے ہیں کہ ہاتھ ’’کلائی اور پنجے کے جوڑ‘‘ سے کاٹا جائے گا۔ اگر اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی رہنمائی موجود نہ ہوتی تو پھر لسانی قاعدے کے مطابق ہاتھ ’’بغل والے جوڑ‘‘ سے ہی کٹتا۔





اخبارِ آحاد میں تیسری چوتھی قسم پائی جاتی ہے۔

(3) ظنی الثبوت، قطعی  الدلالة:
یعنی وہ دلیل جو ’’ثبوت‘‘ کے لحاظ سے ظنی(قطعی طور پر ثابت نہ) ہو لیکن ’’دلالت‘‘ کے لحاظ سے قطعی(یقینی) ہو۔ جیسے خبرِ واحد(یعنی جس خبر یا حدیث کے نقل کرنے والے قرونِ ثلاثہ یعنی تین بہترین زمانوں: دورِ صحابہؓ، دورِ تابعینؒ اور دورِ تبع تابعینؒ میں اتنے نہ رہے ہوں کہ ان کی روایت درجۂ تواتر یا درجۂ شہرت تک پہنچ سکے)، اور جس کی دلالت اپنے مدلول(یعنی ظاہری معنی پر جو اس کی گہرائی میں جائے بغیر ابتدا بلاغور وتفکر سمجھی جائے) قطعی اور واضح ہو۔

جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «لَا صَلَاةَ بَعْدَ الفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ» یعنی نہیں ہے (جائز)نمازِ فجر کے بعد(کوئی نماز) سوائے دو سجدوں کے۔ [ترمذی:419]

اس درجہ کے ثبوت اور دلیل سے بھی امر(حکم) میں کبھی وجوب(لزوم) اور کبھی سنّیت(یعنی جس پر آپ ﷺ نے مواظبت فرمائی ہو اور اس کا بلاعذر چھوڑنا باعث گناہ ہے) ثابت ہوتی ہے۔
اور نہی(ممانعت) میں کراہت تحریمی(یعنی حرام کے قریب مکروہ وناجائز ہونا اور اس ک مرتکب مستحقِ عتاب ہو) ثابت ہوتی ہے۔
[قواعد الفقہ ومراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی]



(4) ظنی الثبوت، ظنی الدلالة:
یعنی وہ دلیل جو ’’ثبوت‘‘ کے لحاظ سے بھی ظنی(قطعی طور پر ثابت نہ) ہو اور اسی طرح ’’دلالت‘‘ کے لحاظ سے بھی ظنی(غیرقطعی) ہو۔ جیسے خبرِ واحد جو متعدد معانی کا احتمال(امکان) رکھتی ہو۔

اس درجہ کے ثبوت اور دلیل سے امر(حکم) میں استحباب (یعنی جس کو اختیار کیا جائے تو ثواب ملے اور اگر نہ کیا جائے تو کوئی گناہ نہیں) ثابت ہوتا ہے۔
اور نہی(ممانعت) میں کراہتِ تنزیہی (یعنی جو حلال کے قریب ہو، اور کرنے والا مستحقِ عتاب نہ ہو، البتہ چھوڑنے پر ثواب ملے گا) ثابت ہوتی ہے.
[المسائل والدلائل : ص ١٧-١٨، (ابن عابدين، رد المختار، ج : 1، ص : 70)]

جیسے :

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ» 
یعنی ’’اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی‘‘ 
[بخاری:756]
 ----   محدثین(حدیث کے ماہر علماء) کی اصطلاح(Term) کے مطابق یہ خبرِ واحد ہے۔(یعنی ایسی حدیث جس کے نقل کرنے والے قرونِ ثلاثہ یعنی دورِ صحابہؓ، دور تابعینؒ اور دورِ تبع تابعینؒ میں اتنے نہ رہے ہوں کہ ان کی روایت درجۂ تواتر یا درجۂ شہرت تک پہنچ سکے۔) یہ قرآن اور حدیثِ متواتر کی طرح یقینی نہیں ہوتی، نیز اس میں دو معنوں کا احتمال(امکان) ہے، ایک یہ کہ نماز بغیر سورۂ فاتحہ کے درست ہی نہیں ہوگی، دوسرے یہ کہ نماز ہو جائے گی، لیکن کامل درجہ کی نہیں ہوگی، جیسے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
«لَا صَلَاةَ لِجَارِ الْمَسْجِدِ إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ» 
 ’’مسجد کے قریب رہنے والوں کی نماز صرف مسجد میں ہی ہوتی ہے‘‘۔ 
[مصنف عبد الرزاق:1915]
تقریبا تمام ہی علماء کے نزدیک اس حدیث کا منشاء یہ ہے کہ مسجد کے پڑوس میں رہنے والے کی نماز گھر میں نماز کامل نہیں ہوگی۔







کثرت کو بطورِ دلیل پیش کرنا کیسا ہے؟

اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں، اگر آپ ان کا کہا مان لوگے، تو وہ آپ کو(اے نبی!) الله کی راہ سے بہکادیں گے، (کیونکہ) بےشک وہ پیچھے چلتے ہیں "اپنےخیال" پر ہی اور وہ سب بس "اٹکل" ہی چلاتے ہیں.
[سورۃ الانعام:116]
(کیونکہ) اکثر لوگ ہیں...جاھل[الانعام:111]
ناسمجھ [المائدۃ:103]
نافرمان [الاعراف:102]
بےعلم [الاعراف:187]
بےایمان [ھود:17]
ناشکرے [یوسف:38]
مشرک [یوسف:106]
انکاری [الاسراء:89]
جھگڑالو [کھف:54]
ناحق پسند [المومنون:70]
جھوٹے [الشعراء:223]


اکثریت ’’علماء‘‘ کی معتبر ہے، غیرعلماء کی نہیں:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ رسول اللهؐ سے مروی ہیں کہ:
«لَا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا» وَقَالَ: «يَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ، فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ».
ترجمہ:

نہیں جمع (متفق) کرے گا اللہ اس (میری) امت کو کسی گمراہی پر کبھی، (پھر) فرمایا : الله کا ہاتھ (سایہ مدد) جماعت(اتفاق) پر ہے، تو تم اتباع (پیروی) کرو سوادِ اعظم (سب سے بڑی جماعت) کی، بس جو اس سے علیحدہ ہوا وہ علیحدہ کیا جاۓ گا آگ (جہنم) میں (داخل کرنے کو).
[المستدرك(امام)حاكم:392+397، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة(امام)لالکائی:154، موافقة الخبر الخبر(امام) ابن حجر عسقلانی:1/109]
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے اس پر کہ تلاش کرنا چاہئے وہ عمل جو جمہور کے قول کے مطابق ہو۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجه:2/64]

صحیح بخاری کے شارح امام ابن البطالؒ(المتوفى: 449هـ)نے لکھا ہے:
كل ما كان عليه السواد الأعظم من أهل الإسلام من أمر دينهم فهو الحق الواجب والفرض الثابت۔
ترجمہ:
ہر بات جس پر سواد اعظم ہو، اہلِ اسلام میں سے، ان کے دینی احکام میں سے، تو وہ واجب حق اور ثابت فرض ہے۔


[شرح صحيح البخارى لابن بطال:10/33]

یہاں لفظ ’’اعظم‘‘ کے معنیٰ سب سے بڑی اور ’’سواد‘‘ یعنی کثیر تعداد والی جماعت ہے، یہاں عظمت سے مراد عظمتِ عددی، عظمتِ علمی(یعنی علماء کی اکثریت) اور عظمتِ زمانی وافرادی بھی شامل ہے یعنی نبوی زمانہ کے لوگ (یعنی صحابہ کرام کی اکثریت) سب سے پہلے شامل ہیں، جو نصِ حدیث سے بھی ثابت ہے کہ:
بیشک بنی اسرائیل اکہتر (71) فرقوں میں بٹ گئے، اور نصاریٰ (عیسائی) بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے، سب گمراہی پر ہیں سواۓ سواد اعظم کے۔ پوچھا گیا: اے الله کے رسول ﷺ ! اور سواد اعظم کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوں۔۔۔ 
[المعجم الكبير ، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ... رقم الحديث: 7551، وقال الأرنؤؤط: إسناده حسن.]

اسی طرح اللہ عزوجل نے بھی نبی کی اتباع میں چلنے والی جماعتِ صحابہ یعنی ’’مومنین کے راستہ‘‘ کے خلاف چلنے والوں کو تنبیہ فرمائی:
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے، اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
[سورۃ النساء:115]

جماعت سے مراد:
(1) صحیح بخاری کے شارح امام ابن البطالؒ(المتوفى:449هـ) اور علامہ عينى(المتوفى: 855هـ)نے لکھا ہے:
هى جماعة أئمة العلماء۔
ترجمہ:
وہ جماعت علماء کے اماموں کی ہے۔
[شرح صحيح البخارى لابن بطال:10/34]
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:24/195]

(2) علامہ مُظْهِري(المتوفى:727هـ) حدیث کی تشریح کرتے لکھتے ہیں:
يعني: فانظروا في العالم فما عليه الأكثر من علماء المسلمين من الاعتقاد والقول والفعل، فاتبعوهم فيه، فإنه هو الحق، وما عداه باطل.
[المفاتيح في شرح المصابيح السنة:1/282، حدیث#137]
یعنی:
پس عالم میں نظر کرو، تو جس اعتقاد، قول اور فعل پر مسلمانوں میں سے اکثر علماء ہوں، تو تم اتباع کرو ان کی اس میں، یہی حق ہے، اور جو اس کے خلاف ہے وہ جھوٹ۔

(3) امام الصَّرْصَريؒ (المتوفى:716هـ) لکھتے ہیں:
فإنما المراد به طاعة الأئمة والأمراء۔
یعنی اس سے مراد اماموں اور حکمرانوں کی اطاعت ہے۔
[التعيين في شرح الأربعين:1/254]

(4) علامہ کرمانیؒ(المتوفى:854هـ)تشریح کرتے لکھتے ہیں:
وهو ما عليه أكثر علماء المسلمين، وقيل: جميع المسلمين الذين هم في طاعة الإمام.
[شرح مصابيح السنة لابن المَلَك:1/179، حدیث#137]
ترجمہ:
اور(سوادِ اعظم)وہ ہے جس پر اکثر مسلمانوں کے علماء ہیں۔ اور(یہ بھی)فرمایا: سارے مسلمان جو کسی امام(خلیفہ) کی اطاعت میں ہیں۔

دوسری جگہ وضاحت فرماتے لکھتے ہیں:
وما عليه الجمهور من الصحابة والتابعين والسلف.
[شرح مصابيح السنة لابن المَلَك:6/399]
ترجمہ:
اور جس(طریقہ) پر جمہور صحابہ، تابعین اور گذرے ہوئے نیک لوگ ہوں۔ 


سوادِ اعظم کی وسعت:
امام ابن الملقنؒ (المتوفى: 804هـ) وضاحت فرماتے لکھتے ہیں:
وهم أتباع المذاهب الأربعة وهم: أبو حنيفة ومالك والشافعي وأصحاب الحديث.
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح:32/339]
اور وہ چاروں(ائمہ کے)راستوں کی اتباع کرنے والے ہیں اور وہ(ائمہ)ہیں: ابوحنیفہؒ، اور مالکؒ، اور شافعیؒ اور حدیث والے(حنبلی)۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ائمہ اربعہؒ (چار فقہ کے مشہور اماموں: امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ بن حنبل) کی اتباع(تقلید) کو سوادِ اعظم کی اتباع قرار دیا ہے:
ولما اندرست المذاهب الحقة إلا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم۔
ترجمہ:
جب صرف چار مذاہب (طریقوں) کے علاوہ دوسرے تمام (علماء کے)مذاہب مِٹ گئے تو ان مذاہبِ اربعہ کی اتباع کرنا سوادِ اعظم کی اتباع ہے اور ان مذاہب سے نکل جانا سوادِ اعظم سے نکل جانا ہے۔
[عقدالجید:۳۸]






قطعی الثبوت کی دلالت:

(1)جو اُمور شریعت میں قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہیں اگر ان کی اپنے مدعا پر دلالت بھی قطعی ہے تووہ امور قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہوں گے اور ان کا منکر یقینا کافر ہوگا؛ لیکن (2) قطعی الثبوت امور کی اپنے مدعا پر دلالت اگر ظنی ہو اور اس میں کسی اور معنی کی بھی گنجائش ہو تو اس صورت میں یہ دلیل قطعی بھی مفید ظن رہے گی، یہ معاملہ صرف حدیثِ متواتر تک محدود نہیں، قرآنِ کریم کے احکام میں بھی باعتبار معنی اگر کہیں اختلاف کی گنجائش ہو تو اس میں بھی صحیح بات کا منکر صرف گمراہ کہا جائے گا اسے کافر نہ کہہ سکیں گے؛ کیونکہ اس قطعی الثبوت بات کی دلالت میں ظنیت آگئی ہے، جس سے حکم بدل گیا ہے۔
دلالت میں قطعیت تواتر معنی سے بھی آجاتی ہے اور کبھی امت کا اجماع بھی اس کے معنی کو قطعی کردیتا ہے، علامہ شاطبیؒ نے اس موضوع پر ایک نہایت نفیس بحث کی ہے، لکھتے ہیں:

"وإنما الأدلة المعتبرة هنا المستقرأة من جملة أدلة ظنية تضافرت على معنى واحد حتى أفادت فيه القطع فإن للإجتماع من القوة ماليس للإفتراق ولأجله أفاد التواتر القطع وهذا نوع منه فإذا حصل من استقراء أدلة المسألة مجموع يفيد العلم فهو الدليل المطلوب وهوشبيه بالتواتر المعنوي"۔

   (الموافقات:۱/۳۶)

ترجمہ: جن دلائل کا یہاں اعتبار ہے وہ اس طرح کے ہیں کہ کچھ ادلہ ظنیہ کے استقراء سے ایک معنی واحد پر آجمع ہوئے ہیں؛ یہاں تک کہ ان میں قطعیت آگئی ہے، دلائل کے ایک موضوع پر مل جانے سے ان میں وہ قوت آجاتی ہے جوان کے علیحدہ علیحدہ ہونے میں نہ تھی اور اسی لیے تواتر بھی قطعیت کا فائدہ بخشتا ہے اور یہ بھی اسی کی ایک قسم ہے، جب کسی مسئلہ کے دلائل کا استقراء کرتے ہوئے ایسا مجموع حاصل ہوجائے جویقین کافائدہ دے تووہ دلیل اس باب میں مطلوب ہے اور یہ تواتر معنوی کی ہی طرح ہے۔

دلائل اپنے اپنے مقام پر گو اخبارِ آحاد ہوں؛ لیکن ان کا مجموعی مفاد ضرور یقین کا فائدہ بخشتا ہے، مثلاً:
(۱) آنحضرت   نے خبر دی کہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ بن مریمؑ دوبارہ تشریف لائیں گے، یہ بات اپنی جگہ واضح تھی، عیسیٰ بن مریم کے تشخص میں امت میں کبھی کوئی اختلاف پیدا نہ ہوا تھا؛ بلکہ حضور   نے یہ وضاحت بھی فرمادی تھی کہ وہی عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے جومجھ سے پہلے آئے تھے اور میرے اور اُن کے مابین کوئی نبی نہیں گزرا، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضور   نے فرمایا:

"لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ يَعْنِي عِيسَى وَإِنَّهُ نَازِلٌ"۔

(ابوداؤد، كِتَاب الْمَلَاحِمِ،بَاب خُرُوجِ الدَّجَّالِ،حدیث نمبر:۳۷۶۶، شاملہ، موقع الإسلام)

"وأجمعت الأمة على ما تضمنه الحديث المتواتر من: أن عيسى في السماء حي، وأنه ينزل في آخر الزمان"۔    

         (البحرالمحیط:۲/۴۷۳)

اس سے پتہ چلا کہ حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کے آنے کی خبر جس طرح تواترِ معنوی سے یقینی درجہ رکھتی ہے، اس کی دلالت بھی اپنے مدعا پر اسی طرح واضح اور قطعی ہے؛ جہاں تک حدیث لانبی بعدی کی دلالت کا تعلق ہے، قاضی عیاضؒ (۵۴۴ھ) کا بیان اس باب میں بہت واضح ہے:

"لأنه أخبر النبي   أنه خاتم النبيين لانبي بعده و أخبر عن الله تعالى أنه خاتم النبيين وأنه أرسل كافة للناس وأجمعت الأمة على حمل هذا الكلام على ظاهره وأن مفهومه المراد منه دون تأويل ولاتخصيص فلاشك في كفر هؤلاء الطوائف كلها قطعا إجماعا وسمعا"۔

(الشفاء:۳۶۲)

ترجمہ: امت نے اس لفظ خاتم النبیین اور آنحضرتﷺ   کے احوال وقرائن سے یہی سمجھایا ہے کہ آپ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول، اس مسئلہ ختمِ نبوت میں نہ کسی تاویل کی گنجائش ہے اور نہ کسی قسم کی تخصیص ہے۔

یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس طرح کا تواتر اور یقین  تو چند امور کو ہی  حاصل ہوگا، ان کے ماسوا جوامور ہیں وہ توسب ظنی ہوں گے؛ پھراُن کا اعتبار کیسے کیا جائے؛ جواباً عرض ہے کہ اصولِ دین توواقعی سب قطعی ہونے چاہئیں اور یہ صحیح ہے کہ اسلام کے سب اصول دلائلِ قطعیہ یقینہ سے ثابت ہیں؛ لیکن فروع میں اگرکہیں باعتبار ثبوت یاباعتبار دلالت ظنیت آجائے تواس سے کوئی نقصان نہیں ہے۔



دلائل ؛ قطعی اور یقینی اور غیر قطعی اور غیر یقینی دونوں طرح کے ہوتے ہیں، اصطلاحِ دین میں قرآن کی آیاتِ محکمات اور سنتِ متواترہ محکمہ اور اجماع کو قطعی دلیل کہتے ہیں، ان میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی، ان سے ثابت امور کو ماننا دین میں ضروری اور لازمی ہے، عقائد، فرائض اور محرمات کا ثبوت اسی درجہ کے دلائل سے ہوتا  ہے۔

الأدلة الشرعية منها ما هو قطعي، ومنها ما هو ظني:فالدليل القطعي: ما كان قطعي السند والثبوت، وقطعي الدلالة أيضًا.وحكم هذا النوع من الأدلة وجوب اعتقاد موجبه علمًا وعملاً، وأنه لا يسوغ فيه الاختلاف.

(معالم اصول الفقه عند اهل السنة و الجماعة:۱/۸۱)

أما ما كان نص كتاب بين، أو سنة مجتمع عليها، فالعذر فيها مقطوع، ولا يسع الشك في واحد منها، ومن امتنع من قبوله اسُتتيب.

( الرسالة للامام الشافعى:ص۴۶)

وَقَدْ دَخَلَ فِيمَا ذَكَرْنَاهُ مِنْ الْإِيمَانِ بِاَللَّهِ : الْإِيمَانُ بِمَا أَخْبَرَ اللَّهُ بِهِ فِي كِتَابِهِ وَتَوَاتَرَ عَنْ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَجْمَعَ عَلَيْهِ سَلَفُ الْأُمَّةِ.

(العقیدة الواسطیة للامام ابن تيمية)

إجماع الصحابة حجة بلا خلاف

(إرشاد الفحول إلي تحقيق الحق من علم الأصول.: محمد بن علي بن محمد الشوكاني ۱/۲۱۷)

اسی میں روایت کی ایک قسم ’’ مشہور ‘‘ جو فنی اعتبار سے تو خبرِ واحد ہوتی ہے، لیکن تواتر کے درجہ سے کم اور حقیقی خبرِ واحد سے بلند تر ہوتی ہے اس سے ثابت امور  بھی عقائدِ ضروریہ میں شامل ہوسکتے ہیں جن کا منکر کافر شمار ہوگا۔

الثالث ما يكفر به على الأصح وهو المشهور المنصوص عليه الذي لم يبلغ رتبة الضرورة.

(الاشباه و النظائر۱/۴۸۸)




اصولِ فقہ میں دلیل اس مأخذ کو کہا جاتا ہے جس سے احکامِ شرعیہ ثابت ہوسکیں، ان میں چار متفق علیہ ہیں: (1) کتاب اللہ، (2) سنتِ رسول ﷺ، (3) اجماع اور (4) قیاس۔ ان کے علاوہ کچھ ضمنی مأخذ ہیں جن کی بابت فقہاءِ کرام میں اختلاف ہے۔

علامہ قرافیؒ (المتوفى: 684 هـ) نے دلیل کی دو قسمیں کی ہیں:
وَاحِدٍ مِنْهَا يَتَوَقَّفُ عَلَى مُدْرَكٍ شَرْعِيٍّ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ الدَّلِيلَ نَصَبَهُ صَاحِبُ الشَّرْعِ لِاسْتِنْبَاطِ الْأَحْكَامِ وَهِيَ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَالْقِيَاسُ وَالْإِجْمَاعُ وَالْبَرَاءَةُ الْأَصْلِيَّةُ وَإِجْمَاعُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَإِجْمَاعُ أَهْلِ الْكُوفَةِ عَلَى رَأْيٍ وَالِاسْتِحْسَانُ وَالِاسْتِصْحَابُ وَالْعِصْمَةُ وَالْأَخْذُ بِالْأَخَفِّ وَفِعْلُ الصَّحَابِيِّ وَفِعْلُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَفِعْلُ الْخُلَفَاءِ الْأَرْبَعَةِ وَإِجْمَاعُهُمْ وَالْإِجْمَاعُ السُّكُوتِيُّ وَإِجْمَاعٌ لَا قَائِلَ بِالْفَرْقِ فِيهِ وَقِيَاسٌ لَا فَارِقَ وَنَحْوُ ذَلِكَ مِمَّا قُرِّرَ فِي أُصُولِ الْفِقْهِ وَأَمَّا الْأَدِلَّةُ الدَّالَّةُ عَلَى وُقُوعِ الْأَحْكَامِ أَيْ وُقُوعِ أَسْبَابِهَا وَحُصُولِ شُرُوطِهَا وَانْتِفَاءِ مَوَانِعِهَا فَهِيَ لَا تُحْصَرُ فِي عَدَدٍ
ترجمہ:
ایک وہ جو احکام کے مشروع وثابت ہونے کو بتائیں اور ان ادلہ (دلائل) کو یوں شمار کرایا ہے: کتاب، سنت، اجماع، قیاس، برأتِ اصلی، اجماعِ اہلِ مدینہ، اجماعِ اہلِ کوفہ، استحسان، استصحاب، عصمت، اخذ بالاخف (یعنی کمتر کو قبول کرنا)، فعلِ صحابی، فعلِ شیخین(یعنی حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ)، خلفاءِ اربعہ کا فعل، خلفاءِ اربعہ کا اجماع، اجماعِ سکوتی، اجماعِ مرکب، قیاس ایسی دو چیزوں میں جن کے درمیان فرق کا کوئی قائل نہیں، قرافیؒ کا کہنا ہے کہ مختلف اقوال پ کم وبیش بیس ادلہ شرعیہ (یعنی شرعی دلائل) ہیں۔
دوسری قسم ان ادلہ(دلائل) کی ہے جو احکام کے واقع ہونے کو بتائیں، جیسے زوالِ آفتاب سے نمازِ ظہر کا حکم متعلق ہے اور مختلف ذرائع سے زوال کے وقوع کا علم ہوسکتا ہے، اس قسم کی دلیلیں بےشمار ہیں۔
[کتاب الفروق: 1/140، الْفَرْقُ بَيْنَ قَاعِدَةِ أَدِلَّةِ مَشْرُوعِيَّةِ الْأَحْكَامِ وَبَيْنَ قَاعِدَةِ أَدِلَّةِ وُقُوعِ الْأَحْكَامِ]

امام مالک کیلئے مدینہ والوں کا عمل دلیلِ شرعی تھا۔
[تاریخ(امام)ابن خلدون:1/418، مقدمہ]
دلائل:
مدینہ والوں (علم وایمان میں) فضیلت:
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
يوشِكُ أن يَضربَ النَّاسُ أَكْبادَ الإبلِ يطلُبونَ العلمَ فلا يجدونَ أحدًا أعلمَ مِن عالِمِ المدينةِ.
ترجمہ:
عنقریب لوگ تلاشِ علم میں اونٹوں پر سوار ہو کر نکلیں گے،بس مدینہ کے عالم(امام مالک)سے زیادہ کسی کو علم میں نہیں پائیں گے۔
[سنن الترمذي: ابواب العلم، باب في عالم المدينة، حديث#2680]

إنَّ الإيمَانَ لِيأْرِزُ إلَى الْمَدِيْنَةِ ، كَمَا تأْرِزُ الحيةُ إلى جُحرِها.
ترجمہ:
ایمان(اسلام)سمٹ کر اس طرح مدینہ میں آۓ گا جس طرح سے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔
[صحیح البخاري:كتاب فضائل المدينة، باب الإيمان يأرز الى المدينة، حديث#1876]

لَا تَقُوْمِ السَّاعَةُ حَتّٰى تَنْفٍيَ الْمَدِيْنَةُ شِرَارَهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ.
قیامت قائم نہیں ہوگی تاآنکہ مدینہ بدکار لوگوں کو دور کردے جس طرح بھٹی فولاد(لوہے) کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
[صحیح مسلم: كتاب الحج، باب المدينة تنفي شرارها، حديث#1381]

امام بخاریؒ صحیح بخاری میں پورا باب نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ، وَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الحَرَمَانِ مَكَّةُ، وَالمَدِينَةُ، وَمَا كَانَ بِهَا مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُهَاجِرِينَ، وَالأَنْصَارِ، وَمُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمِنْبَرِ وَالقَبْرِ‘‘۔
ترجمہ:
’’باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم والوں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان، اور مدینہ میں جو نبی ﷺ اور مہاجرین انصار کے متبرک مقامات ہیں اور نبی ﷺ کے نمازگاہ اور منبر اور قبر کا بیان‘‘۔
[صحیح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج۹، ص۲۷۹]





امام مالکؒ نے اہلِ مدینہ کا اجماع بھی حجت قراردیا ہے۔ امام بخاریؒ کے کلام سے یہ نکلتا ہے کہ اہلِ مکہ اور اہلِ مدینہ دونوں کا اجماع بھی حجت ہے، امام بخاریؒ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہلِ مدینہ اور اہلِ مکہ کا اجماع حجت ہے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے وقت اس جانب کو ترجیح ہوگی جس پر اہل مکہ اور مدینہ اتفاق کریں‘‘۔
[فتح الباری شرح صحيح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، قَوْلُهُ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ،ج۱۲، ص۳۰۶]



===========================

نقل(Proof) اور عقل(Logic) میں تعارض(conflict)ہو تو ترجیح(Priority) کسے ہوگی؟
عقل پرستوں کا موقف یہ ہے کہ جب عقل(Logic) اور نقل(Proof) میں تعارض ہو جائے تو ترجیح بہر صورت عقلی نتائج ہی کو ہوگی کیوں کہ اگر اس طرح نہ کیا جائے تو پھر عقل(Logic) اور نقل(Proof) کے دو متضاد(Contradictory) موقف بیک وقت تسلیم کرنے پڑیں گے، یا دونوں موقف چھوڑنے پڑیں گے جو (اجتماعِ نقیضین یعنی مخالف باتوں کا اکٹھا ہونا ہے اور رفعِ نقیضین کی وجہ سے یہ) محال(Impossible) ہیں۔

اور نقل(Proof) کو عقل(Logic) پر ترجیح(Priority) دینا بھی محال(Impossible) ہے، کیوں کہ جب نقل(Proof) کا پورا کارخانہ عقل(Logic) پر قائم ہو تو پھر نقل(Proof) کو ترجیح(Priority) دینے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم فرع(Branch)کے ذریعے اصل(Origin) کو باطل(false) کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ صورت کسی طرح درست(Right) نہیں ، لہٰذا عقل اور نقل میں تعارض(conflict) ختم کرنے کی ایک ہی درست صورت ہے کہ عقل کو ترجیح(Priority) دی جائے اور نقل کی تاویل(Interpretation) کی جائے۔


تعارض کی چند صورتیں اور اس کا حکم:
دلیلِ عقلی ونقلی میں تعارض کی چار صورتیں عقلاً متحمل ہیں۔

(1) اول یہ کہ دلیلِ نقلی ’’قطعی(Definite)‘‘ ہو، جس میں کسی طرح گنجائش جانبِ مخالف(opposite side) کی نہ ہو، اور دلیلِ عقلی بھی اسی طرح ’’قطعی(Exact)‘‘ ہو۔

(2) دوم یہ کہ دلیلِ نقلی بھی ’’ظنی(Indefinite)‘‘ ہو اور دلیلِ عقلی بھی ’’ظنی(Guessed)‘‘ ہو ۔

(3) تیسرے یہ کہ دلیلِ نقلی ’’’قطعی(Definite)‘‘ ہو اور دلیلِ عقلی ’’ظنی(Indefinite)‘‘ ہو۔

(4) چوتھے یہ کہ دلیلِ عقلی ’’’قطعی(Definite)‘‘ ہو اور دلیلِ نقلی ’’ظنی(Indefinite)‘‘‘ ہو۔



اب ان چاروں صورتوں کے احکا م تفصیل سے پڑھیے۔

(1) پہلی صورت اور اس کا حکم:
ان میں سے صورتِ اول، یعنی یہ کہ دلیلِ شرعی قطعی، مخالف ہو دلیلِ عقلی قطعی کے، اس کا ذکر فضول ہے، کیوں کہ یہ صورت وقوع(occurrence) میں نہیں آئی اور یہ دعویٰ(claim) کیا جاتا ہے اور علی رؤس الاشہاد(گواہوں کے رو برو) کہا جاتا ہے کہ شریعتِ اسلامی کو یہ فخر حاصل ہے کہ کوئی بات اس کی، جو قطعی طور پر شریعت کے نزدیک مانی ہوئی ہو، دلیلِ عقلی قطعی کے خلاف نہیں اور قیامت تک کوئی بھی ایسی بات پیش نہیں کر سکتا اور یہی دلیل ہے اس شریعت کے حق ہونے کی ہے بخلاف دیگر مذاہب کے۔ مثلاً: موجودہ نصرانیت کہ اس میں حضرت عیسیؑ کو الله تعالیٰ کا بیٹا ہونا ثابت کیا جاتا ہے، جو مستلزم(لازم بناتی) ہے جزئیت(حصہ/ٹکڑا بنانے) کو اور جزئیت(حصہ بننا) مستلزم(لازم بناتا) ہے حُدوث(بعد میں وجود میں آنے) کو اور حادث(بعد میں وجود میں آنے والا) خدا نہیں ہو سکتا۔ یہ دلیلِ عقلی قطعی کے خلاف ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کیے جاتے ہیں؟
[سورۃ الاعراف:191]
بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے۔ اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا ہوجا وہ ہوگیا۔
[سورۃ آل عمران:59]
یعنی اس حساب سے تو آدمؑ کو خدا کا بیٹا ثابت کرنے پر زیادہ زور دینا چاہیئے۔ حالانکہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔

(اے پیغمبر ! ان کافروں سے) کہو کہ : وہ کون ہے جو آسمانوں اور زمین کی پرورش کرتا ہے؟ کہو کہ : وہ اللہ ہے ! کہو کہ : کیا پھر بھی تم نے اس کو چھوڑ کر ایسے کارساز بنا لیے ہیں جنہیں خود اپنے آپ کو بھی نہ کوئی فائدہ پہنچانے کی قدرت حاصل ہے نہ نقصان پہنچانے کی؟ کہو کہ : کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوسکتا ہے؟ یا کیا اندھیریاں اور روشنی ایک جیسی ہوسکتی ہیں؟ یا ان لوگوں نے اللہ کے ایسے شریک مانے ہوئے ہیں جنہوں نے کوئی چیز اسی طرح پیدا کی ہو جیسے اللہ پیدا کرتا ہے، اور اس وجہ سے ان کو دونوں کی تخلیق ایک جیسی معلوم ہورہی ہو؟ (اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے تو اس سے) کہہ دو کہ : صرف اللہ ہر چیز کا خالق ہے، اور وہ تنہا ہی ایسا ہے کہ اس کا اقتدار سب پر حاوی ہے۔
[سورۃ الرعد:16]

تنبیہ
بعض شرعی باتوں کو عوام میں خلافِ عقل کہا جاتا ہے، جیسے معراج شریف، عذابِ قبر، پل صراط، وغیرہ۔ حالاں کہ یہ محض بے عقلی ہے، یہ چیزیں خلافِ عقل نہیں بلکہ خلافِ عادت ہیں، جس کو مستبعد(difficult) کہا جاتا ہے، خلافِ عقل نہیں… چوں کہ شریعت حقہ اسلامی میں کہیں بھی دلیلِ نقلی قطعی اور دلیلِ عقلی قطعی میں تعارض نہیں ہوا، اس وجہ سے اس کا تو بیان ہی چھوڑ دیا گیا۔




(2) تعارض کی دوسری صورت اور اس کا حکم:
اور صورتِ دوم یعنی یہ کہ دلیلِ نقلی بھی ’’ظنی(Indefinite)‘‘ ہو اور دلیل عقلی بھی ’’ظنی(Indefinite)‘‘ ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس وقت میں دونوں اس بات میں برابر ہیں کہ جانبِ مخالف(opposite side) کا کسی درجہ کا احتمال(امکان) رکھتی ہیں، لیکن اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ عقلی دلیل کو ترجیح دیں اور دلیل نقلی کو تاویل(Interpretation) اور توجیہ(Justification) کرکے دوسرے بعید(far difficult) احتمال(Probability) پر محمول(Interpret) کریں، کیوں کہ یہ تحریف(reverting) کی ایک قسم ہے ، شریعت کا جو حکم ہمیں معلوم ہوا ہے وہ قرآن کے الفاظ یا حدیث کے الفاظ کے ذریعے معلوم ہوا ہے، اور اس صورت دوم میں وہ دلیل، اگرچہ دوسرے معنیٰ کو بھی محتمل(bearable) ہے مگر برابر درجے میں نہیں کیوں کہ ہر لفظ کے ایک معنی قریب ہوتے ہیں، ایک معنی بعید، حتی الامکان الفاظ کو ظاہری اور قریب معنی پر محمول(Interpret) کرنا چاہیے، ہاں! اگر کوئی وجہ معقول ہو اور الفاظ میں گنجائش ہو تو اور بات ہے، بغیر اس کے کسی عبارت کے معنی قریب کا چھوڑنا ہرگز درست نہیں اور اگر ایسا کیا جائے تو وہ فطری قاعدے(Natural rules) کے خلاف ہے ۔ اسی وجہ سے ہم نے اسے تحریف(reverting) کہا ہے ۔ کیوں کہ یہ قاعدہ فطری ایسا ہے کہ دنیا کے اکثر کاروبار اسی قاعدے(rule) پر چل رہے ہیں، مثلاً کوئی ریل کے اسٹیشن پر پہنچ کر نوکر سے کہے ٹکٹ لے لو اور وہ اس کی تعمیل اس طرح کرے کہ ایک پیسہ کا ٹکٹ ڈاک خانہ کا خریدے اور آقا صاحب کے ہاتھ میں دے دے تو یہ حکم کی تعمیل نہ ہوگی، اس میں اس سے زیادہ کیا غلطی ہے کہ اس نے ٹکٹ کے الفاظ کو ظاہری معنی سے پھیر دیا، کیوں کہ ٹکٹ کا لفظ بوقت اسٹیشن پر ہونے کے اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ ریل میں سفر کے لیے کار آمد ہو، گو ڈاک خانہ کے ٹکٹ پر بھی بولا جاتا ہے جب ایک معمولی انسان کے حکم میں معنی قریب کو بدلنا بلاوجہ درست نہیں تو شریعت کے الفاظ میں، جو احکم الحاکمین کے فرمودہ ہیں، یہ بدلنا کیسے درست ہو گا…؟ اس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ الفاظ کے معنی قریب چھوڑ کر معنی بعید میں استعمال کرنا درست نہیں، بنا بریں صورتِ مذکورہ میں، یعنی جب دلیلِ ’نقلی‘ ظنی اور دلیلِ ’عقلی‘ ظنی میں تعارض(ٹکراؤ) ہو تو دلیلِ ’نقلی‘ کو معنی قریب سے پھیرنا جائز نہ ہوگا، کیوں کہ یہ بے وجہ ہے اور دلیلِ ’عقلی‘ کا تعارض(conflict) اس کے لیے وجہ بننے کی قابلیت نہیں رکھتا، کیوں کہ وہ خود ظنی(Indefinite) ہے ، قطعی(Definite) طور پر وہ دلیل اس سے تعارض نہیں رکھتی، دلیلِ عقلی میں کیوں تاویل نہ کی جائے؟ یا اس کو غلط سمجھا جائے تو کون سا حرج ہوجائے گا؟ ہزاروں عقلی ظنی باتیں ایسی ہیں کہ مدتوں تک دنیا کے نزدیک مُسلم رہتی ہیں، بعد ازاں غلط ثابت ہوجاتی ہیں،  جیسے عقل کا پہلے یہ مسلمہ اصول تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے لیکن آج سائنس کے آلات اور زاویہ نظر نے اسے غلط ثابت کردیا کہ زمین دراصل سورج کے گرد گھومتی ہے، یعنی ہمارے حواس(senses)بھی علم کا قطعی نہیں بلکہ ظنی ذریعہ(resource) ہیں۔ اور خصوصاً آج کل کی سائنسی تحقیقات تو بہت ہی جلد بدلتی ہیں کہ پرانے سائنسدانوں کی سائنس کو بھی رد کرتی ہے۔ یعنی سائنس بھی ظنی(Indefinite) ہے، کوئی قطعی ذریعہ علم نہیں۔ علم کا قطعی ذریعہ صرف علمِ الٰہی ہے، جو وحی(خفیہ تیزترین پیغام)کے طریقے سے حضرت جبرائیلؑ کے واسطے آخری نبی محمد ﷺ کے دل مبارک پر نازل ہوا، اور وہ سینوں اور کتابوں میں نقل ہوتا مسلسل ہر زمانہ میں محفوظ چلا آرہا ہے۔

اسی صورتِ دوم کی مثال یہ ہے کہ قرآن شریف میں آیا ہے:
﴿وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُون﴾․ (الانبیاء:33)
(حق تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے پیدا کیا رات کو اور دن کو اور آفتاب کو اور چاند کو یہ دونوں آسمان میں چلتے ہیں۔)

یسبحون ’سباحت‘ سے مشتق(derived) ہے، سباحت ’تیرنے‘ کو کہتے ہیں یعنی ایسے حرکت کرتے ہیں جیسے کوئی پانی میں تیرتا ہے، ظاہر ہے کہ تیرنے میں تیرنے والے کا ’پورا‘ جسم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے، یعنی پانی کو چیر کر ادھر ادھر پہنچ جاتا ہے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ستارے اسی طرح آسمان میں چلتے ہیں، اس کو حرکتِ انیّیہ(Translatory Motion) کہتے ہیں، یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ میں پورے متحرک جسم کا منتقل ہو جانا اور بعض حکماء ان کے لیے صرف حرکتِ وضعیہ(Rotary Motion) کے قائل ہوئے ہیں، حرکتِ وضعیہ اس کو کہتے ہیں کہ گول چیز اپنے محور(Orbit/Axis)، یعنی کیلی پر حرکت کرے، اس میں یہ ہوتا ہے کہ متحرک جسم کے اجزا تو ادھر سے ادھر کو ہٹتے ہیں لیکن پورے متحرک جسم کی جگہ نہیں بدلتی، جیسے چکی گھومتی ہے۔ حکماء کی یہی تحقیق آیت کے مضمون سے متعارض(ٹکراتی) ہے، لیکن حکماء کی یہ تحقیق ظن(Indefinite/Guessed) کے درجے سے آگے نہ بڑھ سکی، کیوں کہ ان کے پاس اس پر کوئی دلیلِ قطعی نہیں ہے، تو اس صورت میں آیت کے الفاظ کے صریح معنوں کو حکماء کی اس ظنی تحقیق کی وجہ سے چھوڑنا اور کوئی دور کی تاویل(Interpretation) کرنا کہ مثلاً یہ کہ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آسمان میں تیر رہے ہیں اور حرکتِ انییہ (یعنی کل جسم متحرک کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجانا) ان کو حاصل ہے۔ ورنہ درحقیقت آسمان میں کیل کی طرح گڑے ہوئے ہیں ، ہاں اپنے محور پر چکی کی طرح گھوم رہے ہیں ، ایسا کہنا جائز نہیں کیوں کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں کسی نے آسماں پر جاکر دیکھا نہیں ۔ زمین میں بلکہ اپنے ہی جسم کے اندر جو چیزیں ہیں ان ہی کی تحقیق قطعی طور پر نہیں ہوتی۔
…… خلاصہ یہ کہ جب دلیلِ عقلی ’’ظنی‘‘ اور دلیلِ نقلی ’’ظنی‘‘ میں تعارض ہو تو دلیلِ نقلی کو چھوڑنا یا اس میں تاویلات کرنا اور دلیلِ عقلی ظنی کے مطابق بنانا درست نہیں۔




(3) تعارض کی تیسری صورت اور اس کا حکم
تیسری صورت یہ ہے کہ دلیلِ نقلی ’قطعی‘ ہو اور دلیلِ عقلی ’ظنی‘ ہو۔ اس کا حکم ظاہر ہے کہ … اس صورت میں دلیلِ نقلی کو ترجیح دی جائے گی اور دلیلِ عقلی کو ’’ظنی(Indefinite)‘‘ ماننا درحقیقت اس بات کا اقرار ہے کہ اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یقین کے درجے میں نہیں ہے ۔

اس کی مثال یہ ہے کہ کسی با اعتماد افسر نے کسی ملزم کے بارے میں خبر دی کہ یہ گیارہ بجے ڈاکے میں شریک تھا اور میں نے اسے خود دیکھا ہے۔ اور گواہ صرف اتنا بیان کر دیں کہ دس بجے کی گاڑی آنے سے پہلے ہم نے اسے دیکھا ہے کہ یہ شہر سے اسباب لیے ہوئے اسٹیشن کی طرف با ارادہ دہلی جارہا تھا، یہ اس کو مستلزم ہے کہ ملزم گیارہ بجے ڈاکہ میں شریک نہ تھا، لیکن یہ لازم آنا ظنی ہے، قطعی نہیں، اس واسطے کہ ہو سکتا ہے کہ شہر سے اس طرح نکلنا بھی اس کا صحیح ہو اور ڈاکے میں شریک ہونا بھی صحیح ہو۔ وہ اس طرح سے کہ ملزم دس بجے سے پہلے شہر سے نکلا ہو، لیکن اسٹیشن تک نہیں گیا اور اسباب کہیں رکھ کہ ڈاکے میں شریک ہو گیا، بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس نے یہ صورت اسباب باندھنے اور مسافر بننے کی اسی واسطے بنائی ہو کہ لوگ جاتے دیکھ لیں اور ڈاکہ زنی کا شبہ اس پر نہ ہو سکے۔

تو یہاں اس واقعہ کا اس ملزم کے ڈاکے میں شریک نہ ہونے کو مستلزم ہونا ’’ظنی(غیریقینی)‘‘ ہوا۔ یعنی یہ دلیلِ عقلی ظنی ہے اور افسر کا بچشم خود اس کو ڈاکے میں شریک دیکھنا دلیلِ نقلی ’’قطعی(یقینی)‘‘ ہے، جس میں کوئی احتمال(Probability) وشک وشبہ نہیں۔ ہر اہلِ عقل جانتا ہے کہ اس صورت میں دلیلِ نقلی کو، یعنی افسر مذکور کی خبر کو دلیلِ عقلی پر ترجیح ہو گی۔ کیوں کہ دلیلِ عقلی محتمل(bearable) ہے اور دلیل نقلی غیرمحتمل(unbearable) ۔ اس سے ثابت ہوا کہ پہلے تعارض(conflict) کی صورت تیسری میں یعنی جب دلیلِ نقلی ’قطعی‘ ہو اور دلیلِ عقلی ’ظنی‘ ہو تو دلیلِ نقلی ہی کو ترجیح(precedence) ہو گی، اس کے خلاف کرنا خلافِ عقل ہے۔



(4) تعارض کی چوتھی صورت اور اس کا حکم:
چوتھی صورت یہ ہے کہ دلیلِ شرعی ’ظنی‘ ہو اور دلیل عقلی ’قطعی‘ ہو۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہاں دلیلِ عقلی کو ترجیح دی جائے گی اور دلیلِ شرعی کے وہ معنی لیے جائیں گے جس کو وہ محتمل(bearable) ہے ، یہ حکم بالکل فطرتِ سلیمہ کے موافق ہے۔ اس صورت میں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ خلافِ ادب ہے کہ دلیلِ شرعی کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ چھوڑنا نہیں، بلکہ اس دلیل کے ظنی ماننے کا اظہار ہے ، کیوں کہ ظنی کہنے کے معنی یہی تھے کہ اس میں دوسرے معنی کی بھی گنجائش ہے، جب ایک کلام میں دو معنی لیے جاسکتے ہیں تو ایک معنی کسی معقول وجہ سے مراد لینا جس کی اجازت متکلم(Speaker) کی طرف سے بھی ہو، متکلم کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جیسا کہ ظاہر ہے۔

اس کی مثال عرف میں یہ ہے کہ ایک آقا نوکر کو حکم دے کہ بازار سے ایک تانبے کا لوٹا خرید لاؤ۔ اس کے ظاہر اور متبادر معنی یہ ہیں کہ قریب کے بازار سے خرید لاؤ، لیکن کلام اس دلالت میں قطعی نہیں ہے، کیوں کہ بازار قریب کے بازار کو بھی کہہ سکتے ہیں اور دور کے بازار کو بھی ، تو یہ دلیل قریبی بازار کے واسطے ظنی ہوئی، اس بازار میں لوٹے بکتے ہی نہیں تو اس وقت عقلاً کیا تجویز کریں گے؟ کیا اس نوکر کو یہ کرنا چاہیے کہ بازار کے لفظ کو بازار قریب ہی کے معنی پر محمول(Interpret) کرکے اور تلاش کرکے خاموش ہو کے بیٹھا رہے؟ اگر ایسا کرے تو وہ نوکر مطیع (Obedient) اور کار گزار سمجھا جائے گا یا نہیں؟ اور کیا اگر وہ دور کے بازار سے جاکر لوٹا خرید لائے تو نافرمان قرار دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ اگر ایسا کرے گا تو آقا سرزنش(rebuke) کرے گا کہ میں نے کب یہ کہا تھا کہ دور کے بازار تک مت جانا، جب میرا کلام دونوں بازاروں کو شامل تھا اور قریب کے بازار میں لوٹا نہیں ملا تو دوسرے بازار تک کیوں نہیں گیا؟ اس کی بنا اسی اصول پر ہے کہ دلیلِ نقلی ’ظنی‘ کو دلیلِ عقلی ’قطعی‘ پر کیوں ترجیح دی؟ اس وقت نوکر اگر یہ عذر کردے کہ آپ کے حکم کی خلاف ورزی کے خوف سے میں دور کے بازار میں نہیں گیا تو جواب یہی دیا جائے گا کہ میرا حکم تو اس بازار کے شمول(Include) کا احتمال(Probability) رکھتا تھا، خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ بلکہ یہ عین تعمیلِ حکم اور کار گزاری تھی۔

اس مثال سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اصول عقلِ سلیم کے بالکل موافق ہے کہ دلیلِ نقلی ’ظنی‘ کو جب دلیلِ عقلی ’قطعی‘ سے تعارض(ٹکراؤ) ہو تو دلیلِ عقلی پر عمل کرنا چاہیے اور اس پر عمل کرنے سے دلیلِ نقلی کو ترک کرنا لازم نہیں آتا، بلکہ اس کی ظنیت(Uncertainty) کو تسلیم کرنا ہے اور متکلم کے عین مراد کو سمجھنا اور تعمیل کرنا ہے۔

اس کی شرعی مثال یہ ہے کہ سائنس دانوں کے مشاہدے سے اور ریاضی کے قواعدِ یقینیہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ آفتاب زمین سے علیٰحدہ ہے اور اپنی حرکت میں کسی حالت میں زمین سے نہیں چھوتا، اور قرآن شریف میں ذوالقرنین کے قصے میں یہ الفاظ آئے ہیں: ﴿وجدھا تغرب فی عین حمئة﴾ یعنی ”ذوالقرنین ایک ایسی جگہ پر پہنچے کہ وہاں آفتاب کو پایا ایک کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے“ [سورۃ الکھف:86] ان الفاظ سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں آفتاب پانی اور کیچڑ میں غروب ہوتا تھا تو زمین سے اس کو مس ہوا؟ یہ دلیلِ عقلی مذکورہ کے خلاف ہے چوں کہ یہاں دلیلِ نقلی(یعنی قرآن) کی دلالت ظنی(غیریقینی) ہے، اس واسطے کہ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ وہاں آفتاب پانی اور کیچڑ میں چھپتا تھا، بلکہ یوں کہتی ہے کہ ذوالقرنین نے یوں ’’محسوس‘‘ کیا، اس کو بادی النظر میں ایسا ’’معلوم ہونا‘‘ کہتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہمارے محاورے میں بھی ایسے ہی لفظ بولتے ہیں۔ مثلاً: حاجی لوگ سمندر کی حالت بیان کرتے ہیں کہ اتنا لمبا چوڑا ہے کہ ہفتوں تک کہیں خشکی کا سامان نظر نہیں آتا۔ آفتاب پانی ہی میں سے نکلتا ہے اور پانی ہی میں چھپتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ واقع(Reality) میں ایسا ہی ہے کہ آفتاب پانی کے اندر سے نکلتا ہے اور پانی کے اندر چھپتا ہے، بلکہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ آنکھ سے ایسا نظر آتا ہے ، کیوں کہ جہاں تک نظر پہنچتی ہے، پانی ہی پانی ہوتا ہے تو جو چیز نئی نیچے سے اوپر کو آئے گی وہ پانی ہی میں سے اٹھتی نظر آوے گی ، چوں کہ آیت کی دلالت آفتاب کے زمین سے مس کرنے (چُھونے) پر بالکل ظنی(غیریقینی) ہے اور اس میں دوسرے معنوں کی بہت گنجائش ہے، دلیلِ عقلی اس کے خلاف بالکل قطعی ہے، لہٰذا دلیلِ عقلی کو بحال رکھا جائے گا اور دلیلِ نقلی کے وہ معنی لیے جائیں گے جس کو وہ محتمل(bearable) ہے، یعنی بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آفتاب پانی میں چھپتا ہے۔

مطلب یہ ہو گا کہ وہ ایسی جگہ تھی کہ آگے اس کے مغرب کی طرف پانی ہی پانی تھا، حتی کہ آفتاب پانی میں غروب ہوتا نظر آتا تھا۔
(اسلام اور عقلیات، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، تسہیل مصطفیٰ خان بجنوری، ص:105,97)

یہ وہ صورت ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ دلیلِ عقلی کو دلیلِ نقلی پر ترجیح ہوگی، متکلمین بھی صرف اسی صورت میں دلیلِ عقلی کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کا یہ دعویٰ کہ عقل نقل پر مقدم ہے صرف اسی صورت کے متعلق ہے۔

علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله (المتوفى: 728هـ) نے تو فرمایا کہ ایسے موقع پر عقل کو ترجیح صرف اس لیے دی جاتی ہے کہ یہ قطعیت(Accuracy) کے درجے پر فائز ہوتی ہے، محض عقل کی بنیاد پر اسے راجح قرار نہیں دیا جاتا۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول، 45/1، مصر]


علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله نے اسی موضوع پر تصنیف کردہ کتاب ”موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول“ میں تفصیل سے ان کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے جو عقل کو نقل پر ترجیح دینے کی صورت میں پیش آتی ہیں ، لہٰذا قدرے اختصار کے ساتھ اس کے چند مباحث ذکر کیے جاتے ہیں، تاکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ عقل پرستوں کا موقف خود عقل کے نزدیک بھی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

عقل پرستوں کے موقف پر علامہ ابن تیمیہ 
(المتوفى: 728هـ) کا تجزیہ:
علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله کا کہنا ہے کہ جو لوگ عقلی اور نقلی دلائل میں تعارض کی صورتیں پیدا کرکے تاویل(Interpretation) کی اہمیتوں پر زور دیتے ہیں، ان میں پہلا نقص تو یہ ہے کہ یہ خود آپس میں کسی موقف(Statement) پر متفق نہیں۔

ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جن کا موقف ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے جنت، جہنم ، آخرت، ملائکہ کے متعلق جن امور اور کیفیات کا اظہار کیا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، روزِ محشر میں نہ ان جسموں کا بعینہ اعادہ ہوگا نہ جنت کا عیش وسرور اور جہنم کے مصائب وتکلیف جسمانی اور مادی نوعیتوں کی حامل ہوں گی، انبیاء نے یہ خلافِ حقیقت چیزیں اس مصلحت کے تحت بیان کی ہیں کہ اس کے بغیر علم سے کوری عوام کے ذہن میں ان حقائق کا اتارنا ناممکن تھا۔ ابن سینا نے ”رسالة أضحویہ“ میں یہی مسلک اختیار کیا ہے۔ (سرسید کا موقف بھی یہی ہے، چناں چہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”انبیاء تمام کافہ أنام (تمام لوگوں) کی تربیت کرتے ہیں، جن کا بڑا حصہ قریب کل کے، محض ناتربیت یافتہ جاہل وحشی ، جنگلی ، بدوی، بے عقل وبدوماغ ہوتا ہے۔ اس لیے انبیاء کو یہ مشکل پیش آئی ہے کہ ان حقائق ومعارف کو… ایسے الفاظ میں بیان کریں کہ تربیت یافتہ دماغ اور کوڑی مغز دونوں برابر فائدہ اٹھائیں … وعدہ، وعید، دوزخ وبہشت کے جن الفاظ سے بیان ہوئے ہیں ان سے بعینہ وہی اشیاء مقصود نہیں۔“
[تفسیر القرآن: البقرہ، تحت آیة رقم:25]

اس گروہ کو وہمی گروہ کے نام سے موسوم کرنا چاہیے، ان میں پھر دو گروہ ہیں، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ انبیاء جنت، جہنم، آخرت کی حقیقت سے واقف تھے، مگر عوام کی ذہنی سطح کے پیشِ نظر بیان کرنے سے قاصر تھے، دوسرا گروہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بڑ ہانکتا ہے کہ خود انبیاء بھی ان حقائق سے ناواقف تھے، ان کا علم بھی فقط ظواہر تک محدود تھا، علم وادراک کا یہ شرف صرف حکماء اور فلاسفہ کو حاصل ہے، جو ظواہر پر قناعت کرنے کے بجائے اس کے پوشیدہ معانی اور حقائق کی جلوہ طرازیوں سے بھی بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

دوسرے گروہ کا موقف ہے کہ انبیاء نے سرے سے ایسے ظواہر کی تلقین ہی نہیں کی جس سے جنت وجہنم، ملائکہ وغیرہ کی جسمانیت اور مادی ہونے پر استدلال کیا جاسکے، چناں چہ قرآن کریم میں جہاں جہاں جنت وجہنم ، ملائکہ کے متعلق الفاظ ومعانی جسمانیت اور مادیت کے سانچے میں ڈھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں تو یہ فوراً تاویل کے درپے ہو جاتے ہیں، جو درحقیقت تحریف ہوتی ہے۔ اس لیے یہ گروہ درحقیقت محرفین کا گروہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ عقل پرست کتاب الله کی مخالفت پر تو متفق ہیں، لیکن خود کسی رائے پر اتفاق نہیں کرسکتے۔
[بیان موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 4,3/1، مصر، مجموعہ الفتاوی لابن تیمیة:84,83/4، بیروت]


اگر دینی حقائق، الہیات، ما بعد الطبعیات کی صحت واستواری کا تعلق عقل وادراک کی طرفہ طرازیوں سے ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ عقل سے کیا مراد ہے ؟ کیا عقل سے ”غزیرہ“ وہ مَلَکہ اور صلاحیت واستعداد مراد ہے جو تفاوت درجات کے ساتھ تمام انسانوں میں موجود ہے ؟ یا وہ علوم وفنون مراد ہیں جو عقل کی روشنی میں پروان چڑھتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس سے وہ ”غزیرہ“ ملکہ اور صلاحیت مراد نہیں ہو سکتی، کیوں کہ وہ تو عقل اور نقل دونوں کے لیے بمنزلہ شرط کے ہے ، اس کا اپنا کوئی مستقل مؤقف یا مسلک ہے ہی نہیں۔ اس لیے وہ کسی عقیدے اور نظریے کا حامی ہے نہ مخالف۔

رہی دوسری صورت کہ اس سے مراد وہ علوم وفنون ہیں جن کو عقل ودانش کی کارفرمائیوں نے جنم دیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کا براہِ راست دین سے کیا تعلق؟ دینی حقائق (توحید، رسالت ونبوت اور معاد، جنت وجہنم وغیرہ) کا ثبوت عقل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نبی اوررسول کی خبر(نقل) کی بنا پر تسلیم کیا گیا ہے، اس صورت حال میں علومِ عقلی کو دین کی بنیاد ٹھہرانا اصولاً غلط ہے، نہ ان سے دینی حقائق کی صحت واستواری پر کوئی روشنی پڑتی ہے اور نہ ان پر ان کا وجود وثبوت مبنی ہے۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:47/1، مصر]


نقلیات پر عقلیات کو ترجیح دینے کا موقف اس بنا پر بھی مسترد کرنے کے لائق ہے کہ جہاں نقلیات کا دائرہ یقین اور قطعیت لیے ہوئے ہے وہاں عقلیات سراسر نقص کا شکار ہیں، عقل ایک ہی موقف پر دو متضاد نتائج فراہم کرسکتی ہے ، چناں چہ عقل پرستوں کی متضاد آرا کی وجہ سے حق و باطل کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے، مثلاً قرآن کریم میں رُوئـیَـتِ باری تعالیٰ کی خوش خبری سنائی گئی ہے اور اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ آخرت میں اہل ایمان الله تعالیٰ کے دیدار سے لطف اندوز ہوں گے اور وہ محبوبِ حقیقی اپنے جلوے دکھا کر مشتاقانِِ دیدار کے قلب وذہن کی بے قراریوں کو سامان تسکین فراہم کرے گا۔ لیکن عقل نے سوال اٹھایا کہ ”رُوئـیَـت“ کے معنی ”مرئی“ (یعنی جسے دیکھا جارہا ہے) کو نظر وبصر کا ہدف ٹھہرانے کے ہیں؟ یا اس کا تحقق اس کے بغیر بھی ممکن ہے؟ عقل پرستوں کا ایک گروہ ضرورتِ عقلی کی بنا پر کہتا ہے کہ یہ قطعی ناممکن ہے، کیوں کہ عقل کسی ایسی رُوئـیَـت کا تصور ہی نہیں کر سکتی جس میں ”مرئی“ (یعنی جسے دیکھا جارہا ہے) کے وجود کا احاطہ نہ ہو پائے (مطلب یہ کہ رُوئـیَـتِ باری تعالیٰ کو تسلیم کر لینے سے لازم آئے گا کہ الله تعالیٰ کا وجود محدود ہو، جو آنکھوں کا ہدف بن سکے) دوسرا گروہ عقل کی بنیاد پر اس کی تردید کرتا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ ”رُوئـیَـت“ کا مفہوم ”مرئی“ کا احاطہ کیے بغیر بھی پورا ہو سکتا ہے۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول: 81/1، مصر]


اسی طرح الله تعالیٰ کی صفتِ علم کے بارے میں ایک گروہ کہتا ہے کہ علمِ الہیٰ جزئیات کو شامل نہیں، دوسرا گروہ کہتا ہے علمِ الہی جزئیاتِ زمانی کو بھی شامل ہے، تیسرا گروہ کہتا ہے علمِ الہی جزئیاتِ زمانی کو شامل تو ہے لیکن جزئیاتِ زمانی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ کلی کی حیثیت سے۔
[المسامرۃ، ص:68]


عقلیات کی دنیا میں ریاضی ہی ایک ایسا فن ہے جس کے قطعی ہونے پر عقل پرستوں کو ناز ہے، لیکن اسے بھی حرفِ آخر نہیں قرار دیتے۔ معروف ریاضی دان بطلیموس(Ptolemy) کی مشہور کتاب ”المجسطی(Almagest)“ جو ریاضی کے نتائج پر مبنی ہے اس کے کئی مقدمات بحث طلب ہیں کئی ایسے ہیں جو صراحتاً غلط اندازوں پر مبنی ہیں۔

ریاضی کے بعد طبعیات(Physics) کا درجہ ہے، جس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ جسم کی حقیقت کیا ہے؟ اس بنیادی سوال پر بھی اہلِ عقل کا اتفاق نہ ہو سکا کوئی اسے مادہ اور صورت سے تربیت پذیر مانتا ہے، کوئی کہتا ہے یہ اجزاء لاتتجزی سے بنا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورتِ عقلی کی بنیاد پر ان دونوں صورتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ پھر یہ اجزاء لاتتجزی یا جواہر فردہ کیا ہیں؟ اس پر بھی کوئی فیصلہ کن رائے نہیں۔ ابوالحسن البصری جیسا دقیقہ رس، علامہ جوینی جیسا معقولی، ابوعبدالله الخطیب جیسا فاضل… سب عقل کی پر پیچ وادیوں میں حیران وپریشان ہیں، کسی مسئلے پر روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔

[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:89,88/1]

اب بتائیے جو عقل ہر موقف پر متضاد رائے فراہم کر سکتی ہو اسے قطعیت کے درجے پر فائز کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ قطعی مؤقف تو اسے کہتے ہیں جس کے برعکس دوسرا موقف قائم نہ ہو سکے، یہاں تو اختلاف آرا کا ایک طوفان برپا ہے ، ایک ہی شے عقلی لحاظ سے حق بھی ہے باطل بھی، ہدایت بھی ہے گم راہی بھی۔

اس کے برخلاف قرآن وحدیث میں ہر بنیادی اور اصولی مسئلہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اس کے دلائل و براہین میں کوئی تضاد کا پہلو نہیں، اسی بات کو قرآن کریم نے اپنے وحی ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ ﴿أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا﴾․ ( النساء:82)
ترجمہ:” کیا غور نہیں کرتے قرآن میں او راگر یہ ہوتا کسی اور کا سوا الله کے تو ضرور پاتے اس میں بہت تفاوت۔“

بلکہ وحی کی غرض وغایت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ان تمام اختلافات کو یکسر مٹا دے جو انسانی فہم کی نارسائیوں نے پیدا کر رکھے ہیں۔﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُول﴾․ [سورۃ النساء:59]
ترجمہ:” اے ایمان والو! حکم مانو الله کااور حکم مانو رسول کا اور حاکموں کا، جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف الله کے اور رسول کے۔“

نقلیات میں جن چیزوں کو خلافِ عقل سمجھا جاتا ہے، وہ دو حال سے خالی نہیں: یا تو اس کی بنیاد موضوع احادیث ہیں یا پھر ان میں کہیں دلالت واستنباط میں خلل ہے، تیسری کوئی صورت نہیں۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول،83/1، مصر]


خلاصہ یہ کہ انبیاء کبھی ایسی چیزوں کی اطلاع نہیں دیتے جو عقلاً محال ہوں یا عقل ان کی نفی کرتی ہو، بلکہ ان کی اطلاع ایسی چیزوں کے بارے میں ہوتی ہے جن کے حقائق جاننے سے عقل قاصر اور عاجز ہوتی ہے۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:83/1، مصر]


کون ہے جو علامہ رازی رحمہ الله (المتوفى: 313هـ) کی شخصیت سے واقف نہ ہو؟ جو عقلیات میں امامت کے درجے پر فائز ہیں، انہوں نے اپنے اشعار میں فلسفہ اور عقل کی نارسائیوں کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے عبرت حاصل ہوتی ہے، تمام اشعار کا خلاصہ اس ایک شعر سے حاصل ہو سکتا ہے #
        ولم نستفد من بحثنا من طول عمرنا
        سوی أن جمعنا فیہ قیل وقالوا
ترجمہ: ”ہم نے تمام عمر بحث ومباحثے کے باوجود اپنے دامن میں اس کے علاوہ کچھ نہیں سمیٹا کہ فلاں کا یہ قول ہے اور فلاں کا یہ قول ہے۔“

حتی کہ علامہ غزالی رحمہ الله (المتوفى: 505هـ) بھی اس گروہ سے دست بردار ہو کر ریاضِ سنت کی شمیم آرائیوں سے قلب ونظر مہکانے لگے ۔ ان کی روح بھی اس عالم میں پرواز ہوئی کہ سینے پر صحیح بخاری تھی اور آنکھیں ابواب وروایات سے فیض یاب ہو رہی تھیں۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:90/1]


تھوڑی دیر کے لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ نقلیات کو جانچنے کے لیے عقل ہی درست اور واحد معیار ہے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ تم کس عقل کو حکم اور معیار بناتے ہو؟

اگر تم فلاسفہ کی عقل کو حکم بناتے ہو تو وہ خود کسی موقف پر متفق نہیں، ان میں تو ہر آنے والا گزرنے والے کے قول کی تردید کرتا ہے ۔

اگر ادباء کی عقل کو فیصل قرارا دیتے ہو تو ان کا یہ کام نہیں، ان کا تعلق تو بس نوادرات وحکایات سے ہے۔

اگر اہلِ طب، اہلِ ہندسہ، ریاضی دانوں کی عقل کو فیصل قرار دیتے ہو تو ان کو حدیث (نقلیات) سے کیا سروکار؟

اگر محدثین وفقہاء کی عقل کو معیار بناتے ہو تو وہ تمہیں سرے سے پسند ہی نہیں، بلکہ محدثین کو تو تم سادہ لوح اور کند ذہن تصور کرتے ہو۔

اگر ملحدین کی عقل پسند ہے تو ان کے نزدیک خدا پر ایمان لانا جہالت اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

اگر اہل سنت والجماعت کی عقل پسند ہے تو شیعہ ومعتزلہ اسے پسند نہیں کرتے……۔

اب بتائیے کس کی عقل کو کس بنیاد پر فیصل اور حَکَم قرار دو گے؟
[السنة ومکانتھا فی التشریع الاسلامی، ص:33]


موضوع کی نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر اسے قدرے تفصیل سے لکھا ہے، کیوں کہ عقل پرست معتزلہ، جدید وقدیم منکرینِ حدیث، سر سید اور ان کے جدّت پسند پیروکاروں کا یہ اتفاقی اور بنیادی موقف ہے کہ عقل کو بہر صورت نقل پر ترجیح ہوگی، اس کی آڑ میں کسی نے نبوت ورسالت، جنت وجہنم، ملائکہ اور معجزات کا مذاق اڑایا تو کسی نے حدیثِ رسول کو بازیچہ اطفال بنا کر اپنی بے عقلی کے جوہر دکھائے۔ اس لیے طوالت کا خوف کیے بغیر اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور کوشش کی ہے کہ اس بحث کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔ 

ایک شبہ اور اس کا جواب
شبہ: گذشتہ تحریر پڑھ کر کسی کو یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ عقل کی شہادت سرے سے ماننے کے لائق ہی نہیں، کیوں کہ یہ ہر موقف پر دو متضاد رائے فراہم کر سکتی ہے۔

جواب : ہر گز نہیں، ہم عقل کی اہمیت سے نہ صرف یہ کہ واقف ہیں، بلکہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہیں۔ عقل پرستوں سے ہمارا اختلاف عقل کے دائرہ کار کے متعلق ہے، اس اختلاف کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عقل کی دو قسمیں ہیں: 1.عقل سلیم۔  2.عقل سقیم۔

1...عقلِ سلیم وہ ہے جو علومِ نبوت اور وحی پر صدقِ دل سے ایمان لائے اور اس میں مناسب رنگ بھرے (جیسا کہ متکلمین کا طریقہ ہے)۔

2...عقلِ سقیم وہ ہے جو وحی پر حَکَم بن کر الحاد وزندقہ کو فروغ دے۔

لہٰذا جب ہم عقلیات کی شہادت اور اس کے دلائل کو مشکوک ٹھہرا کر اِبطال کرتے ہیں تو اس کا تعلق عقلِ سقیم سے ہے، نہ کہ عقلِ سلیم سے۔
[موافقة صریح المعقول لصحیح المنقول:98/1، مصر]


عقل کا دائرہ کار اور اس کے استعمال کا صحیح مصرف:
علم کے تین ذرائع ہیں: ۱۔ حواسِ خمسہ، ۲۔ عقل، ۳۔ وحی۔
ہر ایک کا اپنا محدود دائرہ کار ہے۔ جن چیزوں کا علم حواسِ خمسہ ( آنکھ، کان، ناک، زبان، لمس یعنی چُھونے) سے ہوتا ہے، اسے نری عقل سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک دیوار ہے، اسے ”دیکھ“ کر اس کا رنگ معلوم کیا جاسکتا ہے، لیکن آنکھیں بند کرکے نری عقل سے اس کا رنگ معلوم کرنا ناممکن ہے، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل سے حاصل ہوتا ہے، انہیں حواس کے ذریعے معلوم نہیں کیا جاسکتا، مثلاً آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ پتہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے، اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔


غرض جہاں تک حواسِ خمسہ کام دیتے ہیں وہاں عقل کوئی راہ نمائی نہیں کرتی اور جہاں حواسِ خمسہ جواب دے رہیں، وہاں سے عقل کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حد پر جاکر رک جاتا ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے۔ مثلاً اسی دیوار کے بارے میں یہ معلوم کرنا اس کو کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے الله تعالیٰ ناراض ہو گا۔ اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ الله تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے، یہی وہ دائرہ ہے جس سے عقل کو متجاوز ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس اقلیم میں صرف وحی، کتاب اور الله کے برگزیدہ انبیاء اور رسولوں کی ہی حکم رانی ہے اور انہیں کا سِکہ چلتا ہے۔

عقلیات کا کام تو یہ ہے کہ یہ نقلیات کے تابع بن کر اس میں مناسب رنگ بھرے، اس کی نوک پلک سنوار کر اسے منظم نظامِ فکر کی حیثیت سے پیش کرے، جیسا کہ متکلمینِ اسلام نے اس فریضہ کو انجام دے کر نہ صرف فہم وادراک کے نئے سانچے مہیا کیے، بلکہ عقل پرستوں کے بڑھتے ہوئے الحاد وزندقہ کے سیلاب کو بھی مضبوطی سے روکا۔ (جزاھم الله عنا وعن جمیع المسلمین․)



نافرمان عقل - بمقابلہ - حکمِ خالق ومالک:
جس طرح بیوقوفوں کا اعتراض کسی شے کے "معقول" ہونے کی دلیل ہے، اسی طرح کسی چیز پر اہل باطل(جھوٹے نافرمان لوگوں) کا اعتراض اس چیز کے "حق" ہونے کی دلیل ہے.
اللہ نے کہا : جب میں نے تجھے حکم دے دیا تھا تو تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ وہ بولا : میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اس کو مٹی سے پیدا کیا۔  اللہ نے کہا : اچھا تو یہاں سے نیچے اتر، کیونکہ تجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ یہاں تکبر کرے۔ اب نکل جا، یقینا تو ذلیلوں میں سے ہے۔

تشریح:
شیطان نے اپنے استکبار کی بنیاد پر ایسا کہا۔ یہاں اس کا جو قول نقل کیا گیا ہے اس کے ایک ایک لفظ سے تکبر جھلکتا ہے۔
شیطان کو حاکمانہ جواب:
قرآن میں زیادہ تر حاکمانہ ہی جواب دیئے گئے ہیں چنانچہ شیطان سے جب انکار سجدہ کی وجہ پوچھی گئی اور اس نے جواب دیا :
 اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ   ۚ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ۔ (میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اس کو مٹی سے پیدا کیا)
تو اس کی اس عقلی دلیل کا حاکمانہ ہی جواب دیا گیا :
فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ * وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (اچھا تو یہاں سے نکل جا، کیونکہ تو مردود ہوگیا ہے۔  اور تجھ پر قیامت کے دن تک پھٹکار پڑی رہے گی۔)
[سورۃ الحجر:34+35]
اسی طرح مقبولین کو بھی حاکمانہ جواب دیا ہے یعنی فرشتوں کو جب کہ انہوں نے آدم (علیہ السلام) کی خلافت پر سوال کیا تو فرمایا: إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ یعنی میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے [سورۃ البقرۃ:30] اور یہی تو قرآن کی خاص بات ہے جس سے اس کا کلامِ الٰہی اور شاہانہ کلام ہونا معلوم ہوتا ہے ورنہ اگر ہر سوال کا حکیمانہ جواب دیا جاتا تو شاہانہ کلام نہ معلوم ہوتا بلکہ فلسفی کا کلام معلوم ہوتا اس لیے حکیمانہ جوابات کم دیئے گئے ہیں اور اگر دیئے بھی ہیں تو حاکمانہ جواب کے ساتھ دیئے ہیں۔

مگر افسوس طلباء مصنفین(مملوک مخلوق) کی کتابیں پڑھنے کے بعد قرآن(کلامِ خالق) کو پڑھتے ہیں اور اس میں بھی وہی طرز ڈھونڈتے ہیں اس لیے ان کو قرآن کا پورا لطف نہیں آتا ورنہ عجیب پر لطف کلام ہے پس إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یعنی بےشک اللہ ہی ہے مالک آسمانوں اور زمین کا [سورۃ التوبۃ:116] میں اس شبہ کا حاکمانہ جواب دیا گیا ہے۔




عقل بمقابلہ نقل
اللہ عزوجل نے فرمایا:
کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو ! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں۔
[سورۃ البقرۃ:44]
تشریح:
پڑھے لکھے بیوقوف
یہاں استفہام (سوال)  اظہارِ حیرت وتعجب کے لیے ہے یعنی تمہارا حال قابلِ تعجب ہے کہ تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو مگر خود نیکی نہیں کرتے ہو۔ یہ خطاب علمائے یہود سے ہے کہ وہ لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ تورات میں نبی کریم  ﷺ کی صداقت کی نشانیاں موجود تھیں مگر انہوں نے آپ کو نہ مانا۔
حوالہ:
ان الیھود کانوا یامرون غیرھم باتباع التورۃ ثم انھم خالفوہ لانھم وجدوا فیھا ما یدل علی صدق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثم انھم ما امنوا بہ
(تفسیر کبیر: ص 490 ج 1)
بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب مشرکینِ  مکہ یا یہودیوں کے مسلمان رشتہ داروں میں سے کوئی شخص پوشیدہ طور پر علمائے یہود سے حضور ﷺ کے بارے میں پوچھتا تو اسے کہتے کہ وہ پیغبر سچا ہے اسے مان لو لیکن خود اسے نہیں مانتے تھے کیونکہ انہیں اپنی نذروں اور نیازوں کے بند ہوجانے کا ڈر تھا۔
حوالہ:
اذا جاء ھم احد فی الخفیۃ لاستعلام امر محمد  ﷺ ققالوا ھو صادق فیما یقول وامرہ حق فاتبعوہ وھم کانوا لا یتبعونہ لطمعہم فی الھدایا والصلاۃ التی کانت تصل الیھم من اتباعھم
(تفسیر کبیر: ص 494 ج 1)
نزلت فی علماء الیھود وذلک ان الرجل منھم کان یقول لقریبہ وحلیفہ من المومنین اذا سالہ عن امر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اثبت علی دینہ فان امرہ حق وقولہ صدق
(معالم التنزیل: ص 46 ج 1) 
وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۔یعنی۔ اور تم تورات کے عالم ہو۔ اور اسے پڑھتے رہتے ہو۔ اس میں حضرت خاتم النبیین ﷺ کی صفات و علامات مذکور ہیں۔ نیز اس میں نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم ہے۔
معناہ تقرءون التورۃ وتدرسونھا و تعلمون ما فیھا من الحث علی افعال البر والاعراض عن افعال الاثم
(تفسیر کبیر: ص 490 ج 1)


اَفَلَاتَعْقِلُوْن۔ تعجب ہے کہ مندرجہ بالا امور کے باوجود تم عقل سے کام نہیں لیتے۔


===================
دلیل کو حجت، سلطان اور برہان بھی کہتے ہیں:

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قرآن میں جہاں سلطان کا لفظ آیا ہے اس کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں.
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1852(4415- تفاسیر کا بیان :  سورت بنی اسرائیل کی تفسیر]



چرب زبانی بھی دلیل کہلائی گئی ہے:
حدثنا محمد بن کثير عن سفيان عن هشام عن عروة عن زينب بنت أم سلمة عن أم سلمة عن النبي صلی الله عليه وسلم قال إنما أنا بشر وإنکم تختصمون إلي ولعل بعضکم أن يکون ألحن بحجته من بعض وأقضي له علی نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ فإنما أقطع له قطعة من النار 

ترجمہ :
زینب حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ  میں تو صرف انسان ہوں تم میرے پاس مقدمہ لے کر آتے ہو، بہت ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ عمدہ طریقے سے بیان کرنے والا ہو اور میں اس کے حق میں فیصلہ کردو اسکی بات سن کر اس لئے جس کے موافق اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کروں تو وہ نہ لے کہ میں نے اس کے لئے آگ کا ایک ٹکڑا الگ کردیا۔
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1870  (6581- حیلوں کا بیان]



بھٹکانے والی دلیل:
أخبرنا عبد الملك بن سليمان أبو عبد الرحمن الأنطاكي عن عباد بن عباد الخواص الشامي أبي عتبة قال أما بعد اعقلوا والعقل نعمة فرب ذي عقل قد شغل قلبه بالتعمق عما هو عليه ضرر عن الانتفاع بما يحتاج إليه حتى صار عن ذلك ساهيا ومن فضل عقل المر ترك النظر فيما لا نظر فيه حتى لا يكون فضل عقله وبالا عليه في ترك منافسة من هو دونه في الأعمال الصالحة أو رجل شغل قلبه ببدعة قلد فيها دينه رجالا دون أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو اكتفى برأيه فيما لا يرى الهدى إلا فيها ولا يرى الضلالة إلا بتركها يزعم أنه أخذها من القرآن وهو يدعو إلى فراق القرآن أفما كان للقرآن حملة قبله وقبل أصحابه يعملون بمحكمه ويؤمنون بمتشابهه وكانوا منه على منار كوضح الطريق فكان القرآن إمام رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان رسول الله إماما لأصحابه وكان أصحابه أمة لمن بعدهم رجال معروفون منسوبون في البلدان متفقون في الرد على أصحاب الأهوا مع ما كان بينهم من الاختلاف وتسكع أصحاب الأهوا برأيهم في سبل مختلفة جارة عن القصد مفارقة للصراط المستقيم فتوهت بهم أدلاؤهم في مهامه مضلة فأمعنوا فيها متعسفين في تيههم كلما أحدث لهم الشيطان بدعة في ضلالتهم انتقلوا منها إلى غيرها لأنهم لم يطلبوا أثر السالفين ولم يقتدوا بالمهاجرين وقد ذكر عن عمر أنه قال لزياد هل تدري ما يهدم الإسلام زلة عالم وجدال منافق بالقرآن وأمة مضلون اتقوا الله وما حدث في قراكم وأهل مساجدكم من الغيبة والنميمة والمشي بين الناس بوجهين ولسانين وقد ذكر أن من كان ذا وجهين في الدنيا كان ذا وجهين في النار يلقاك صاحب الغيبة فيغتاب عندك من يرى أنك تحب غيبته ويخالفك إلى صاحبك فيأتيه عنك بمثله فإذا هو قد أصاب عند كل واحد منكما حاجته وخفي على كل واحد منكما ما أتي به عند صاحبه حضوره عند من حضره حضور الإخوان وغيبته على من غاب عنه غيبة الأعدا من حضر منهم كانت له الأثرة ومن غاب منهم لم تكن له حرمة يفتن من حضره بالتزكية ويغتاب من غاب عنه بالغيبة فيا لعباد الله أما في القوم من رشيد ولا مصلح يقمع هذا عن مكيدته ويرده عن عرض أخيه المسلم بل عرف هواهم فيما مشى به إليهم فاستمكن منهم وأمكنوه من حاجته فأكل بدينه مع أديانهم فالله الله ذبوا عن حرم أغيابكم وكفوا ألسنتكم عنهم إلا من خير وناصحوا الله في أمتكم إذ كنتم حملة الكتاب والسنة فإن الكتاب لا ينطق حتى ينطق به وإن السنة لا تعمل حتى يعمل بها فمتى يتعلم الجاهل إذا سكت العالم فلم ينكر ما ظهر ولم يأمر بما ترك وقد أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الكتاب لتبيننه للناس ولا تكتمونه اتقوا الله فإنكم في زمان رق فيه الورع وقل فيه الخشوع وحمل العلم مفسدوه فأحبوا أن يعرفوا بحمله وكرهوا أن يعرفوا بإضاعته فنطقوا فيه بالهوى لما أدخلوا فيه من الخطإ وحرفوا الكلم عما تركوا من الحق إلى ما عملوا به من باطل فذنوبهم ذنوب لا يستغفر منها وتقصيرهم تقصير لا يعترف به كيف يهتدي المستدل المسترشد إذا كان الدليل حائرا أحبوا الدنيا وكرهوا منزلة أهلها فشاركوهم في العيش وزايلوهم بالقول ودافعوا بالقول عن أنفسهم أن ينسبوا إلى عملهم فلم يتبروا مما انتفوا منه ولم يدخلوا فيما نسبوا إليه أنفسهم لأن العامل بالحق متكلم وإن سكت وقد ذكر أن الله تعالى يقول إني لست كل كلام الحكيم أتقبل ولكني أنظر إلى همه وهواه فإن كان همه وهواه لي جعلت صمته حمدا ووقارا لي وإن لم يتكلم وقال الله تعالى مثل الذين حملوا التوراة ثم لم يحملوها لم يعملوا بها كمثل الحمار يحمل أسفارا كتبا وقال خذوا ما آتيناكم بقوة قال العمل بما فيه ولا تكتفوا من السنة بانتحالها بالقول دون العمل بها فإن انتحال السنة دون العمل بها كذب بالقول مع إضاعة العمل ولا تعيبوا بالبدع تزينا بعيبها فإن فساد أهل البدع ليس بزاد في صلاحكم ولا تعيبوها بغيا على أهلها فإن البغي من فساد أنفسكم وليس ينبغي للطبيب أن يداوي المرضى بما يبرهم ويمرضه فإنه إذا مرض اشتغل بمرضه عن مداواتهم ولكن ينبغي أن يلتمس لنفسه الصحة ليقوى به على علاج المرضى فليكن أمركم فيما تنكرون على إخوانكم نظرا منكم لأنفسكم ونصيحة منكم لربكم وشفقة منكم على إخوانكم وأن تكونوا مع ذلك بعيوب أنفسكم أعنى منكم بعيوب غيركم وأن يستطعم بعضكم بعضا النصيحة وأن يحظى عندكم من بذلها لكم وقبلها منكم وقد قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه رحم الله من أهدى إلي عيوبي تحبون أن تقولوا فيحتمل لكم وإن قيل لكم مثل الذي قلتم غضبتم تجدون على الناس فيما تنكرون من أمورهم وتأتون مثل ذلك فلا تحبون أن يوجد عليكم اتهموا رأيكم ورأي أهل زمانكم وتثبتوا قبل أن تكلموا وتعلموا قبل أن تعملوا فإنه يأتي زمان يشتبه فيه الحق والباطل ويكون المعروف فيه منكرا والمنكر فيه معروفا فكم من متقرب إلى الله بما يباعده ومتحبب إليه بما يغضبه عليه قال الله تعالى أفمن زين له سو عمله فرآه حسنا الآية فعليكم بالوقوف عند الشبهات حتى يبرز لكم واضح الحق بالبينة فإن الداخل فيما لا يعلم بغير علم آثم ومن نظر لله نظر الله له عليكم بالقرآن فأتموا به وأموا به وعليكم بطلب أثر الماضين فيه ولو أن الأحبار والرهبان لم يتقوا زوال مراتبهم وفساد منزلتهم بإقامة الكتاب وتبيانه ما حرفوه ولا كتموه ولكنهم لما خالفوا الكتاب بأعمالهم التمسوا أن يخدعوا قومهم عما صنعوا مخافة أن تفسد منازلهم وأن يتبين للناس فسادهم فحرفوا الكتاب بالتفسير وما لم يستطيعوا تحريفه كتموه فسكتوا عن صنيع أنفسهم إبقا على منازلهم وسكتوا عما صنع قومهم مصانعة لهم وقد أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الكتاب لتبيننه للناس ولا تكتمونه بل مالوا عليه ورققوا لهم فيه

ترجمہ:

ابو عتبہ عباد بن عباد خواص شامی تحریر کرتے ہیں امابعد۔ یہ بات جان لو کہ عقل بڑی نعمت ہے کچھ عقل مند ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان چیزوں میں غور کرتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا ذہن غافل ہوجاتا ہے اور جس چیز کی انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے نفع حاصل نہیں کرسکتے یہاں تک کہ وہ اس چیز سے غافل ہوجاتے ہیں آدمی کی عقل کی فضیلت یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ اس کے بارے میں غور و فکر نہ کرے تاکہ اس کی عقل کی فضیلت اس کے لیے وبال کا باعث نہ بن جائے۔ کہ اس نے ان لوگوں پر گرفت نہیں کی جو اعمال میں ان سے کم تھے یا وہ شخص جس کا دل بدعت میں مبتلا ہوجائے اور وہ اپنے گلے میں اس دین کا ہار پہنا لے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا نہیں تھایا وہ اپنی رائے پراکتفا کرتے ہوئے یہی سمجھے کہ صرف وہی ہدایت ہے اور اس کے اپنے نظریے کو ترک کرنا ہی گمراہی ہے وہ یہ سمجھے کہ اس نے یہ نظریہ قرآن سے حاصل کیا ہے حالانکہ وہ قرآن سے الگ کرنے والا ہوگیا اس شخص سے اور اس کے ساتھیوں سے پہلے قرآن کے ماہر نہیں تھے۔ جو قرآن کے محکم پر عمل کرتے تھے اور اس کے متشابہ پر ایمان رکھتے تھے اور وہ لوگ اس واضح طریقے پر گامزن تھے قرآن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشوا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے پیشوا تھے اور ان کے ساتھی بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے پیشوا تھے جن سے ہر شخص واقف تھا اور وہ ہر شہر میں موجود تھے۔ یہ لوگ آپس میں فقہی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے لیکن بدمذہب لوگوں کی تردید کے بارے میں ان کے درمیان اتفاق پایا جاتا تھا ان بدمذہب لوگوں کو ان کی رائے نے مختلف راستوں پر ڈال دیا ہے جو میانہ روی سے دوور ہے اور صراط مستقیم سے الگ ہے ان کے پیشواؤں نے ان لوگوں کو گمراہی کے میدان میں تھکا دیا ہے یہ لوگ انہیں میدانوں میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں جب بھی ان کی گمراہی کے لیے شیطان کوئی نئی بدعت ایجاد کرتا ہے یہ ایک سے دوسری طرف منتقل ہوجاتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ سابقہ زمانے کے لوگوں کے نشانات کی تلاش نہیں کرتے اور ہجرت کرنے والے صحابہ کی پیروی نہیں کرتے۔ حضرت عمر کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے زیاد سے یہ کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ کون سی چیز اسلام کو منہدم کردیتی ہے عالم شخص کی پھسلن، منافق شخص کا قرآن کے بارے میں بحث کرنا اور گمراہ کرنے والے پیشوا، لہذا اللہ سے ڈرو، اس چیز کے بارے میں جو تمہارے علماء اور تمہارے مساجد والوں کے درمیان غیبت اور چغل خوری اور لوگوں کے ساتھ دوغلے چہرے اور دوغلی زبانوں کے ساتھ ملنا آچکا ہے یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ جو شخص دنیا میں دوغلے چہرے کا مالک ہوگا وہ جہنم میں دوغلے چہرے کا مالک ہوگا۔ غیبت کرنے والا شخص تم سے ملاقات کرتا ہے اور تمہارے سامنے اس شخص کی غیبت کرتا ہے جس کی غیبت کو تم پسند کرتے ہو پھر وہ تمہارے مخالف کے پاس آجاتا ہے اور اس کے سامنے تمہارے بارے میں وہی حرکت کرتا ہے جو تمہارے ساتھ کی تھی اس طرح وہ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس سے اپنا مقصد حاصل کرلیتا ہے اور دونوں میں سے ہر ایک سے وہ بات پوشیدہ رکھتا ہے جو اس نے دوسرے فریق کے سامنے پیش کی تھی وہ جس شخص کے پاس موجود ہوتا ہے اس کے پاس بھائیوں کی طرح موجود ہوتا ہے اور جس شخص کے پاس موجود نہیں ہوتا اس کے بارے میں دشمنوں کا سا رویہ رکھتا ہے، جس کے پاس اس کے زیر اثر ہوتا ہے اور جس شخص کے پاس موجود نہیں ہوتا اس کا اس کے نزدیک کوئی احترام نہیں ہوتا۔ وہ جس شخص کے پاس موجود ہوتا ہے اسے تزکیہ کے حوالے سے آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے اور جس شخص کے پاس موجود نہیں ہوتا اسے غیبت کے حوالے سے برا بنا دیتا ہے۔ اور اے اللہ کے بندو کیا تمہارے اندر کوئی بھی سمجھدار نہیں ہے اور کوئی بھی ایسا اصلاح پسند نہیں ہے جو ان لوگوں کے فریب کا قلع قمع کردے اور اپنے مسلمان بھائی کی عزت کو واپس لوٹا دے بلکہ ان لوگوں کی خواہش کو سمجھ کر وہ لوگ جس طرف لے کے جا رہے ہیں انہیں وہیں رہنے دے اور ان سے ان کی ضرورت پوری کرلے یوں وہ اپنے دین کے ہمراہ ان کے دین کو بھی محفوظ کرلے گا۔ 
اے اللہ کے بندو! کیا تمہارے درمیان کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو سمجھ دار ہو اور ان لوگوں کی اصلاح کرے اور ان کے فریب کو ختم کرے اور اسے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی خلاف ورزی کرنے سے باز رکھے بلکہ وہ یہ جان لے کہ ان کی خواہش کیا ہے اس چیز کے بارے میں جسے وہ ساتھ لے کر ان کی طرف گیا ہے پھر اس نے ان لوگوں سے اپنی ضرورت نکالی تو انہوں نے اس کی ضرورت پوری کردی یوں اس شخص نے ان لوگوں کے دین کے ہمراہ اپنے دین کو بھی خراب کرلیا ہے۔ اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو۔ اپنے غیر موجود لوگوں کے احترام کے حوالے سے بچو اور ان کے بارے میں اپنی زبان سے صرف اچھی بات استعمال کرو اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں اللہ کی خیرخواہی اختیار کرو اگر تم کتاب وسنت کے عالم ہو بے شک کتاب خود بات نہیں کرتی جب تک اس کی بات بیان نہ کی جائے اور سنت خود عمل نہیں کرتی جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے جب عالم خاموش رہے گا تو ناواقف شخص کیسے علم حاصل کرے گا اگر وہ ظاہر ہونے والی چیز کا انکار نہ کرے اور جس چیز کو ترک کیا گیا ہے اسکا حکم نہ دے تو پھر کیا ہوگا جبکہ اللہ نے ان لوگوں کو جنہیں کتاب دی گئی ان سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اسے واضح طور پر بیان کریں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں۔ اللہ سے ڈرو۔ کیونکہ تم ایک ایسے زمانے میں ہو جس میں پرہیزگاری کمزور ہوگئی ہے اور عاجزی کم ہوگئی ہے (اب)علم کے حاصل کرنے والے لوگ وہ ہیں جو اس میں فساد پیدا کرتے ہیں اور یہ بات پسند کرتے ہیں کہ عالم کے طور پر ان کی پہچان ہو اور وہ یہ بات ناپسند کرتے ہیں علم کے ضائع کرنے کے حوالے سے ان کی شناخت ہوجائے وہ علم کے بارے میں اپنی خواہش نفس کے مطابق وہ بات بیان کرتے ہیں جو اس میں انہوں نے غلط شامل کردی ہے اور وہ کلمات میں تحریف کے حق کو چھوڑ کر اس باطل کی طرف لے جاتے ہین جس پر وہ عمل کرتے ہیں ان کے گناہ ایسے ہیں کہ ان کی مغفرت نہیں کی جاسکتی اور ان کی غلطیاں ایسی ہیں جن کا اعتراف نہیں کیا جاسکتا۔ دلیل حاصل کرنے والا اور ہدایت حاصل کرنے والا کیسے ہدایت حاصل کرسکتا ہے جبکہ دلیل ہی بھٹکانے والی ہو۔ یہ لوگ دنیا کو پسند کرتے ہیں اور یہ بات ناپسند کرتے ہیں اہل دنیا کی تعظیم کریں۔ یہ لوگ زندگی میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں لیکن باتوں کے حوالے سے ان سے الگ رہتے ہیں اور اپنی طرف سے اس بات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے عمل کی طرف انہیں منسوب کیا جائے۔ لہذا جس چیز کی نفی کرنا چاہتے ہیں اس سے بری نہیں ہوتے اور جس چیز کی طرف منسوب یہ خود کو کرتے ہیں اس میں یہ داخل نہیں ہوتے اس لیے کہ حق کے اوپر عمل کرنے والا شخص بول رہا ہو یا خاموش ہو اس کی ایک ہی حثثیت ہوتی ہے یہ بات مذکور ہے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے میں ہر دانا شخص کی ہربات کو قبول نہیں کرتا بلکہ میں اس کی خواہش اور ارادے کی طرف دیکھتا ہوں اگر اس کی خواہش اور ارادہ میرے لیے ہو تو میں اس کی خاموشی کو بھی اپنے لیے حمد و ثناء سمجھتاہوں اگرچہ اس نے کوئی بات کہی ہو یا نہ۔ "وہ لوگ جنہیں تورات کا علم دیا گیا اور پھر انہوں نے اس کا علم حاصل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی طرح ہے جو کتابوں کا بنڈل لاد لیتا ہے۔ اور اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے ہم نے جو تمہیں دیا ہے اسے قوت سے حاصل کرلو۔ یعنی جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرو لہذا کسی بھی حدیث پر صرف زبانی طور پر عمل کیے بغیر اکتفا نہ کرو کیونکہ حدیث پر عمل کیے بغیر صرف زبانی طور پر اسے بیان کرنا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے اور علم کو ضائع کرنے کے مترادف ہے، اہل بدعت کی برائی اس لیے بیان نہ کرو کہ ان کی برائی بیان کرنے سے تمہیں شہرت ملے گی اس لیے کہ اہل بدعت کا فاسد ہونا تمہاری بہتری میں کوئی اضافہ نہیں کرے گا اور ان کی برائی بیان کرتے ہوئے زیادتی نہ کرو چونکہ یہ زیادتی تمہارے نفس کا فساد ہوگی۔ کسی طبیب کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ بیمار کا علاج کسی ایسی دوائی کے ذریعے کرے جو اسے ٹھیک نہ کرے بلکہ اور بیمار کردے کیونکہ جب وہ شخص بیمار ہوگا تو وہ اپنی بیماری میں مشغول ہونے کی وجہ سے دوسروں کو دوا دینے سے دینے سے باز آجائے گا، اسلۓ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ پہلے اپنی ذات کے لیے صحت کا خیال رکھے تاکہ اس کی بدولت بیمار لوگوں کے علاج کے قابل ہوسکے۔ اس لیے تمہارا معاملہ یہ ہونا چاہیے کہ تم اپنے بھائیوں کی جس بات کا انکار کرتے ہو اس میں تم اپنے آپ کا بھی جائزہ لو اور اپنی طرف سے اپنے رب کے لیے خیر خواہی اختیار کرو یہ تمہاری طرف سے تمہارے بھائیوں کے لیے شفقت ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے رکھو کہ دوسروں کے عیوب کے مقابلے میں تمہیں اپنے عیوب کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، ایک شخص دوسرے کے لیے خیرخواہی چاہتا ہے اور اس شخص کا تمہارے نزدیک حصہ ہونا چاہیے جو تمہارے لیے خیر خواہی کرتا ہے یا تمہاری طرف سے خیر خواہی کو قبول کرتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ارشاد فرماتے ہیں اللہ اس شخص پر رحم کرے جو میری خامیوں سے مجھے آگاہ کرتا ہے کہ کیا تم لوگ یہ بات پسند کرتے ہو کہ تم لوگ کوئی بات بیان کرو تو اسے برداشت کیا جائے اور تم نے جو بات بیان کی ہے اگر اسی جیسی تم سے کہی جائے تو تم ناراض ہوجاؤ تم ان لوگوں کو اس حال میں پاتے ہو جس کا تم انکار کرتے ہو اور خود وہی کام سر انجام دیتے ہو کیا تم لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اس بارے میں تم سے مواخذہ کیا جائے۔ تم اپنی رائے اور اپنے زمانے کے لوگوں کی رائے پر الزام لگاؤ اور بات کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرو اور عمل کرنے سے پہلے علم حاصل کرو کیونک عنقریب وہ زمانہ آجائے گا جس میں حق و باطل مشتبہ ہوجائیں گے اس زمانے میں نیکی گناہ بن جائے گی اور گناہ نیکی بن جائے گا اللہ کے قرب کے طلب گار کتنے ہی لوگ ہوں جو درحقیقت اللہ سے دور ہو رہے ہوں گے اور اللہ کی محبت کے کتنے ہی طلب گار ہیں جو اپنے بارے میں اللہ کی ناراضگی میں اضافہ کر رہے ہوں گے اللہ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جس کے لیے اس کے عمل کی برائی کو سجادیا گیا ہے وہ شخص اسے نیکی سمجھتا ہے۔ شبہات سے بچنا تم پر لازم ہے یہاں تک کہ شہادت کے ذریعے واضح حق تمہارے سامنے نمودار ہوجائے گا اس لیے کہ جو شخص علم کے بغیر اس چیز میں داخل ہوتا ہے جس کا اسے علم نہیں ہے وہ شخص گناہ گار ہوتا ہے اور جو شخص اللہ کے لیے کسی بات کا جائزہ لیتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کا جائز لیتا ہے 
تم پر قرآن پڑھنالازم ہے تم اسے اپنا پیشوا بناؤ اور اس سے ہدایت حاصل کرو اور گزرے ہوئے لوگوں کے آثار کی تلاش کرو اس لیے کہ اگر مذہی پیشوا اور رہنما اپنے مراتب کے زوال سے نہ ڈریں اور اپنے اعمال میں کتاب قائم کرنے کے ذریعے اپنی قدر و منزلت کے فساد سے نہ ڈریں اور انہوں نے جو تحریف کی ہے اسے واضح نہ کریں اور اسے نہ چھپائیں لیکن وہ لوگ جب وہ اپنے اعمال کے ذریعے کتاب کے خلاف عمل کرتے ہیں تو وہ ایسی چیز تلاش کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ قوم کو دھوکہ دے سکیں اس چیز کے بارے میں جو انہوں نے کیا ہے انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ اپنی حثییت خراب کر جائیں گے وہ لوگوں کے سامنے اس کے فساد کو بیان کرتے ہیں اور کتاب کے مفہوم میں تحریف کردیتے ہیں اور جہاں وہ تحریف نہیں کرسکتے وہاں اسے چھپا لیتے ہیں اور اپنی حثییت کو برقرار رکھنے کے لیے خود جو حرکت کی ہوتی ہے اس پر خاموش رہتے ہیں اور اس بات پر بھی خاموش رہتے ہیں جو لوگوں نے انہیں بچانے کے لۓ کیا ہوتا ہے تحقیق اللہ نے جن لوگوں کو کتاب دی ان سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے واضح طور پر اسے بتائیں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں بلکہ وہ لوگ تو خود اس کی طرف جھک گئے ہیں اور اس بارے میں انہوں نے لوگوں کے ساتھ نرمی کی ہے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 647(657 الزهراوي)(675 حسين اسد) - مقدمہ دارمی : ابوعتبہ عباد خواص شامی کا خط۔]
تخریج:
تاريخ ابن يونس المصري ٢/ ١٣٣، ١٣٤، 
المنتظم في تاريخ الملوك والأمم ١٦/ ٩٢، 
المتفق والمفترق ٣/ ١٥١٩، 








قرآن کا ایک نام برہان بھی ہے:
حدثنا إسماعيل حدثني ابن وهب عن عمرو عن بکير عن بسر بن سعيد عن جنادة بن أبي أمية قال دخلنا علی عبادة بن الصامت وهو مريض قلنا أصلحک الله حدث بحديث ينفعک الله به سمعته من النبي صلی الله عليه وسلم قال دعانا النبي صلی الله عليه وسلم فبايعناه فقال فيما أخذ علينا أن بايعنا علی السمع والطاعة في منشطنا ومکرهنا وعسرنا ويسرنا وأثرة علينا وأن لا ننازع الأمر أهله إلا أن تروا کفرا بواحا عندکم من الله فيه برهان

ترجمہ:

اسماعیل، ابن وہب، عمرو، بکیر، بسر بن سعید، جنادہ بن ابی امیہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم لوگ عبادہ بن صامت کے پاس گئے وہ بیمار تھے، ہم لوگوں نے کہا: اللہ آپ کو درست کردیں آپ کوئی حدیث بیان کریں جو آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہو تاکہ اللہ آپ کو اس کا نفع پہنچائے، انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم لوگوں کو بلایا اور ہم نے آپ کی بیعت کی آپ نے جن باتوں کی ہم سے بیعت لی وہ یہ تھیں، کہ ہم بیعت کرتے ہیں اس بات پر ہم اپنی خوشی اور اپنے غم میں اور تنگدستی اور خوشحالی، اور اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی صورت میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور حکومت کے لئے حاکموں سے جھگڑا نہیں کریں گے لیکن اعلانیہ کفر پر، جس پر اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1952 (6663)- فتنوں کا بیان : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تم عنقریب ایسی باتیں دیکھو گے جنہیں تم برا سمجھو گے۔]



یہاں دلیل سے مراد کیا ہے ؟؟؟
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا عاصم وهو ابن محمد بن زيد عن زيد بن محمد عن نافع قال جا عبد الله بن عمر إلی عبد الله بن مطيع حين کان من أمر الحرة ما کان زمن يزيد بن معاوية فقال اطرحوا لأبي عبد الرحمن وسادة فقال إني لم آتک لأجلس أتيتک لأحدثک حديثا سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقوله سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية

ترجمہ:

حضرت نافعؒ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ واقعہ حرہ کے وقت جو یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں ہوا عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے تو ابن مطیع نے کہا ابوعبدالرحمن کے لئے غالیچہ بچھاؤ تو حضرت ابن عمرؓ نے کہا میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کو ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی، آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اطاعتِ امیر(خلیفہ،حاکم) سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اسکی گردن میں کسی کی بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔
[صحیح مسلم: جلد سوم:حدیث نمبر 296 (11926- امارت اور خلافت کا بیان : فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں]



کسی صحابی کا قول یا عمل بھی ((دلیل)) ہوتا ہے:
أخبرنا سويد قال أنبأنا عبد الله عن عبيد الله بن عمر السعيدي قال حدثتني رقية بنت عمرو بن سعيد قالت کنت في حجر ابن عمر فکان ينقع له الزبيب فيشربه من الغد ثم يجفف الزبيب ويلقی عليه زبيب آخر ويجعل فيه ما فيشربه من الغد حتی إذا کان بعد الغد طرحه واحتجوا بحديث أبي مسعود عقبة بن عمرو

ترجمہ:

رقیة بنت عمرو بن سعید سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی گود میں تھی ان کے واسطے خشک انگور بھگوئے جاتے تھے پھر وہ اس کو دوسرے روز پیتے تھے پھر انگور خشک کر لیے جاتے تھے پھر وہ اس کو اگلے دن پیتے تھے پھر اس کو پھینک دیتے تھے اور ان لوگوں نے دلیل حضرت ابومسعود کی حدیث شریف (اگلی حدیث) سے حاصل کی ہے۔

[سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 2007 (25645)- کتاب الا شربة : جو لوگ شراب کا جواز ثابت کرتے ہیں ان کی دلیل حضرت عبدالملک بن نافع والی حضرت ابن عمر سے مروی حدیث بھی ہے]





أخبرنا علي بن حجر قال حدثنا عثمان بن حصن قال حدثنا زيد بن واقد عن خالد بن حسين قال سمعت أبا هريرة يقول علمت أن رسول الله صلی الله عليه وسلم کان يصوم في بعض الأيام التي کان يصومها فتحينت فطره بنبيذ صنعته في دبا فلما کان المسا جته أحملها إليه فقلت يا رسول الله إني قد علمت أنک تصوم في هذا اليوم فتحينت فطرک بهذا النبيذ فقال أدنه مني يا أبا هريرة فرفعته إليه فإذا هو ينش فقال خذ هذه فاضرب بها الحاط فإن هذا شراب من لا يؤمن بالله ولا باليوم الآخر ومما احتجوا به فعل عمر بن الخطاب رضي الله عنه

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ مجھ کو علم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس دن روزہ رکھتے ہیں (اور کس دن نہیں رکھتے)۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روزہ افطار کرنے کے واسطے نبیذ تیار رکھی جس کو میں نے تونبے میں (یعنی کدو کے تونبے میں) بنایا تھا۔ جس وقت شام ہوگئی تو میں اس کو لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھ کو علم تھا کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ دار ہیں تو میں آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افطاری کے وقت یہ نبیذ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے پاس لاؤ اے ابوہریرہ! چنانچہ میں اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لایا تو وہ جوش مار رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لے جاؤ اور اسے دیوار پر مار دو۔ اس کو تو وہ شخص پیے گا جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یقین نہ رکھتا ہو۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کی ایک دلیل حضرت عمر کا فعل بھی ہے۔ 
[سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 2009(25647- کتاب الا شربة ]




امام کے نظریہ میں صحابی کا عمل کسی ثابت شدہ عمل کے منسوخ ہونے کی دلیل بھی بنتا ہے:
حدثنا موسی بن إسمعيل حدثنا حماد أخبرنا هشام بن عروة أن أباه کان يقرأ في صلاة المغرب بنحو ما تقرون والعاديات ونحوها من السور قال أبو داود هذا يدل علی أن ذاک منسوخ قال أبو داود وهذا أصح
ترجمہ:
حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے والد (عروہ بن زبیر) مغرب کی نماز میں ویسی ہی سورتیں پڑھتے تھے۔ جیسی کہ تم پڑھتے ہو یعنی والعادیات اور اس جیسی دوسری سورتیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ (حضرت عروہ کا عمل) اس بات کی دلیل ہے کہ (مغرب میں طوال مفصل کی قرات) منسوخ ہے۔ اور ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہی صحیح ہے۔






حدثنا أبو موسی محمد بن المثنی حدثنا سعيد بن سفيان الجحدري حدثنا شعبة عن قتادة عن الحسن عن سمرة بن جندب قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من توضأ يوم الجمعة فبها ونعمت ومن اغتسل فالغسل أفضل قال وفي الباب عن أبي هريرة وعاشة وأنس قال أبو عيسی حديث سمرة حديث حسن وقد رواه بعض أصحاب قتادة عن قتادة عن الحسن عن سمرة بن جندب ورواه بعضهم عن قتادة عن الحسن عن النبي صلی الله عليه وسلم مرسل والعمل علی هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلی الله عليه وسلم ومن بعدهم اختاروا الغسل يوم الجمعة ورأوا أن يجز الوضو من الغسل يوم الجمعة قال الشافعي ومما يدل علی أن أمر النبي صلی الله عليه وسلم بالغسل يوم الجمعة أنه علی الاختيار لا علی الوجوب حديث عمر حيث قال لعثمان والوضو أيضا وقد علمت أن رسول الله صلی الله عليه وسلم أمر بالغسل يوم الجمعة فلو علما أن أمره علی الوجوب لا علی الاختيار لم يترک عمر عثمان حتی يرده ويقول له ارجع فاغتسل ولما خفي علی عثمان ذلک مع علمه ولکن دل في هذا الحديث أن الغسل يوم الجمعة فيه فضل من غير وجوب يجب علی المر في ذلک
ترجمہ:
حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن وضو کیا اس نے بہتر کیا اور جس نے غسل کیا وہ غسل زیادہ افضل ہے اس باب میں حضرت ابوہریره انس اور عائشہ سے بھی روایت ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں کہ سمر کی حدیث حسن ہے حضرت قتادہ کے بعض ساتھ اسے قتادہ سے وہ حسن سے اور وہ سمرہ سے روایت کرتے ہیں بعض حضرات نے قتادہ سے انہوں نے حسن سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرسلا روایت کیا ہے صحابہ کرام اور بعد کے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جمعہ کے دن غسل کیا جائے ان کے نزدیک جمعہ کے دن غسل کی جگہ وضو بھی کیا جا سکتا ہے امام شافعی کہتے ہیں کہ اس کی دلیل حضرت عمر کا حضرت عثمان کو یہ کہنا ہے کہ وضو بھی کافی ہے تمہیں معلوم ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا اور اگر یہ دونوں حضرات جانتے ہوتے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غسل کا حکم وجوب کے لئے ہے تو حضرت عمر حضرت عثمان سے چھپا ہو نہ ہوتا کیوں کہ وہ ہر حکم جانتے تھے لیکن اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا افضل ہے اور واجب نہیں ہے۔
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 483(26184) - جمعہ کا بیان : جمعہ کے دن وضو کرنا]






اگر دلیل صرف فرمانِ خدا و رسولؐ ہی ہے تو کس آیت یا حدیث میں کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف، مقبول و مردود کہا گیا ہے ؟؟؟

جب کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف الله یا نبی نے نہیں کہا تو کسی غیرمعصوم امتی کی تقلید میں ایسا کہنے والے خود اصلی مقلد ہوئے۔ اور اگر وہ کسی امام نے کہا ہے تو کیا امام کا قول دلیل ہوتا ہے؟؟؟



ہر حدیثِ رسولؐ کو بطور دلیل استدلال نہیں کیا جا سکتا:
أخبرنا قتيبة قال حدثنا الليث عن سعيد بن أبي سعيد عن أبي شريح أنه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلی مکة اذن لي أيها الأمير أحدثک قولا قام به رسول الله صلی الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح سمعته أذناي ووعاه قلبي وأبصرته عيناي حين تکلم به حمد الله وأثنی عليه ثم قال إن مکة حرمها الله ولم يحرمها الناس ولا يحل لامر يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفک بها دما ولا يعضد بها شجرا فإن ترخص أحد لقتال رسول الله صلی الله عليه وسلم فيها فقولوا له إن الله أذن لرسوله ولم يأذن لکم وإنما أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم کحرمتها بالأمس وليبلغ الشاهد الغاب

ترجمہ:

ابوشریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عمرو بن سعید سے مکہ مکرمہ کی جانب لشکر روانہ کرتے ہوئے فرمایا اے امیر مجھ کو ایک بات بیان کرنے کی اجازت دو۔ جو کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح کے دوسرے روز فرمائی تھی۔ اس کو میرے کانوں نے سنا اور دل نے محفوظ رکھا اور میری آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خداوند قدوس کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا مکہ مکرمہ ایسا شہر ہے کہ جس کو لوگوں نے نہیں بلکہ خداوند قدوس نے حرام قرار دیا ہے اس وجہ سے کسی مسلمان کے واسطے جو کہ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ اس میں کسی کا خون بہا دے یا یہاں کا درخت کاٹ ڈالے اور اگر کوئی اپنے فعل پر بطور دلیل کے میرے قتال سے دلیل پکڑے تو تم اس سے کہہ دو کہ خداوند قدوس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت عطا فرمائی تھی تم کو اجازت نہیں عطا فرمائی۔ پھر مجھ کو دن کا ایک حصہ اس کی اجازت تھی اور اس کے بعد اس کی حرمت اس طرح سے دوبارہ واپس آگئی جس طریقہ سے کہ کل تھی اور جو لوگ اس وقت موجود ہیں تو ان کو چاہیے کہ جو لوگ اس وقت موجود نہیں ہیں ان تک پہنچا دیں۔
[سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 788 (22814) - میقاتوں سے متعلق احادیث : مکہ میں جنگ کی ممانعت]






جب کوئی حدیث محدثین کے مخصوص طے کردہ علمی معیار پر پوری اترتی ہے تو اس کو شرعی معاملات میں دلیل بنایا جاتا ہے اور اسی حدیث کو قابلِ استدلال حدیث کہتے ہیں۔


چند مزید مثالیں :
 نبیؐ کو بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی خاص رخصت و اجازت ہونا۔
[حوالہ«سورہ الاحزاب:50]



(2)بطور معجزہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی نعش نبیؐ کو دکھلانے کا کشف ہونے اور ان کے سوا بقیہ غائب اجسامِ شہداءِ صحابہؓ کی "غائبانہ نمازِ جنازہ" نبیؐ و صحابہؓ کا نہ پڑھانا۔

[حوالہ« صحیح بخاری:3877-3881، سنن ترمذی:1039، سنن ابن ماجہ:1534-1528]


قبروں پر پھول کے ہار/سبز ٹہنیاں رکھنا۔
اسی طرح نبیؐ کو کشف سے بعض اہل قبور کا عذاب دکھایا جانا اور ان کے سوا پھر کسی پر نبیؐ و صحابہؓ کا عذاب یافتہ اہل قبور کی بجاۓ سب اہل قبور پر عذاب کی تخفیف کے لیے کھجور کے درخت کی ہری شاخوں کا نہ رکھنا رکھوانا وغیرہ وغیرہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ، فَقَالَ: «إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنَ البَوْلِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ» ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ: «لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا۔
ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کا دو قبروں سے گزر ہوا فرمایا انہیں عذاب ہو رہا ہے اور عذاب کی کوئی بڑی وجہ بھی نہیں، ان میں سے ایک چغل خور تھا اور دوسرا پیشاب سے احتیاط نہ کرتا تھا (حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں) آپﷺ نے ایک سبز شاخ لیکر اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر رکھ دیئے پھر فرمایا جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی امید ہے کہ عذاب میں تخفیف رہے گی۔
[بخاری:215، مسلم:292]



صحیح غریب احادیث سے استدلال کا تحقیقی جائزہ»
کون سی صحیح حدیث  ایمانیات اور عقائد  اور  حلال و حرام کے احکامات میں دلیل نہیں بن سکتی؟
احادیث کی کئی قسمیں ہیں اس لیے ان کے احکام بھی مختلف ہیں

حدیث متواتر :

ایسی روایات جس کو  کافی تعداد میں صحابہ نے نقل کیا ہو اور  ان سے اسی طرح مسلسل کافی لوگ لوگ نقل کرتے جائیں  ایسی روایات   بلا شک  و شبہ   آیت قرانی کی طرح  قابل استدلال ہیں  ان سے حلال و حرام اور ایمانیات اور عقائد  سمیت جملہ احکام و امور ثابت ہوں گے

باقی روایات   کو خبر واحد کہا جاتا ہے  جن کی تین اقسام ہیں

غریب خبر واحد:

وہ روایت جو صرف ایک صحابی سے منقول ہو اور ایک لاکھ صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تصدیق نہ کی ہو۔

عزیز خبر واحد:

وہ روایت جس کی سند کے آغاز میں دو راوی ہوں، بعد میں چاہے جتنے بھی زیادہ ہو جائیں۔

مشہور خبر واحد:
وہ روایت جس کے آغاز میں کم از کم تین راوی ہوں، اور ہر دور میں تین راوی موجود رہیں۔

خبرواحد سے استدلال کے قواعد:
مشہور خبر واحد  روایات سے استدلال بغیر کسی شک و شبہ کے جائز ہے اور اس سے احکامِ شریعہ اور عقائد و ایمانیات میں دلائل فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

عزیز خبر واحد روایات    سے احکامات میں قابلِ استدلال ہیں   اور  ان روایات سے سنت ، مستحب امور ، مکروہات اور ناپسندیدہ امور ثابت  ہونگے ۔ البتہ عقائد اور ایمانیات میں ان سے استدلال ظنی ہوگا۔

غریب خبر واحد  رویات سے استدلال کرنا تعلیماتِ قرآن کی رو سے  منع ہے ۔ کیونکہ قرآن  کریم نے ثبوت دعوی کے لیے  دو گواہوں کی  شہادت کا ذکر کیا ہے  جسے نصابِ شہادت کہا جاتا ہے۔ عام امور میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی  کافی ہے۔ جبکہ زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔

                                                            

قرآنی نصابِ شہادت:
اگر زنا کے ثبوت کے لیے نصابِ شہادت پورا نہ ہو، تو تین افراد کی گواہی پر حدِ قذف لگائی جائے گی اور  گواہی دینے والے  ہمیشہ کے لیے گواہی کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ البتہ  عام معاملات میں دعوی کے ثبوت کے لیے  بھی دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، اور ایک فرد کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی  اور دعوی  ثابت نہیں ہوگا

دینی معاملات اور شرعی مسائل کی حیثیت ان دنیاوی امور سے کمتر نہیں ہو سکتی۔  اس لیے اگر کوئی روایت صرف ایک صحابی  سے نقل ہو  اور تقریبا سوا  لاکھ صحابہ میں سے کسی   بھی دوسرے صحابی سے  اس  کے ثبوت میں کوئی شہادت نہ ملے تو  اس روایت سے استدلال کرنا درست نہیں۔

اگر صرف ایک ہی راوی والی روایات  سے استدلال شروع کردیا جائے   تو  کافی مضحکہ خیز   قسم کی روایات بھی دکھائی دیتی ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا  ،بلکہ بے کافی ساری   روایات قرانی احکامات اور  اصول اسلام سے یکسر   متعارض  ہیں۔

    اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے  کہ  ابتدائی   دور میں کافروں کی  ایک کافی  بڑی تعداد  منافقین  کی شکل میں  مسلمانوں  کی صفوں میں  بطور دشمن  موجود رہی  اور انہوں نے  اپنے  مشن اور زندگی کے نصب العین  کے  طور پر حتی الامکان  مسلمانوں   کو   اسلام سے دور کرنے کی  آخر دم تک بھرپور کوششین  جاری رکھیں   اور اسی سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ  کی جانب من گھڑت باتیں منسوب کرنا  ان کے لیے کوئی معیوب کام نہیں تھا

زمانہ نبوت میں  کی شاید صحابہ کو اتنی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ کسی بھی غلطی پر  فورا بذریعہ وحی  اس کی اصلاح کردی جاتی تھی  اس لیے  انہیں  تحقیق کی  چندان ضرورت ہی نہ تھی

مزید برآن صحابہ  کرام بھی اسی معاشرے میں اپنے حواس خمسہ –بلکہ ان کی چھٹی حس  ہماری والی سے زیادہ حساس تھی -سمیت موجود تھے   ان کے لیے   اپنی بصارت اور بصیرت  سے واقعات اور حالات   سے     مخلص مسلمانوں  کی پہچان آسان تھی ان کو بہت سی باتوں کا ادراک ہوسکتا تھا جن سے بعد کی امت محروم ہے

اس لیے اس دور میں اگر چہ   کچھ  ایسے واقعات  رونما ہوئے ہوں گے جن میں کسی ایک صحابی کی بات پر کچھ لوگوں نے عمل  شروع کردیا  ہو مگر اس سے غریب   خبر واحد روایات  کی حجیت پر  استدلال    کرنا پھر بھی       اسلامی اصول ” تبدیلی حالات سے شرعی احکام کی تبدیلی” کی خلاف ورزی   ہی ہوگا

روایات کے قبول کا قرآنی اصول:
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک اصول بیان کیا ہے:

 “یا ایہا الذین آمنوا اذا جاکم فاسق بنبا فتبینوا ان تصیبوا قوما بجهالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین”۔

[سورۃ الحجرات:6]

اس ایت میں  لفظ فاسق ہے جس کا ایک معنیٰ تو وہ ہے جو لغت میں بیان کیا جاتا ہے یعنی  گنہگار یا غلط کام کرنے والا لیکن یہاں یہ لغوی معنی یہاں مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں مخاطب ایک صحابی ہیں جنہوں نے ایک مخصوص واقعے میں کوئی فسق یا گناہ کا کام ہی نہیں  کیاتھا بلکہ انہوں نے اپنے فہم کے مطابق استدلال کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک وہ  بات پہنچائی مگر ان کے پاس کسی قسم کی شہادت نہ تھی اس بلا شہادت بات کے نقل  کرنے کو  اللہ تبارک و تعالی نے فسق کے لفظ سے بیان کیا گویا فسق کا دوسرا معنی جو کہ اللہ تعالی کی کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ” کوئی   ایسی بات کرنا جس کی شہادت موجود نہ ہو” اس  کو بھی فسق کہا جائے گا اور ایسا کرنے والے کو فاسق کہا جائے گا لیکن اس صورت میں اس کا معنی گنہگار اور خطا کار ہرگز نہیں ہوگا۔

چونکہ  خالق کائنات کا کلام  زیادہ مستند ہے و اور یہی فائنل اتھارٹی ہوگااور یہاں فاسق کا لفظ ایسے ادمی کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو کہ پکے ، سچے اور مخلص مسلمان تھے اور وہ قطعا فاسق کی لغوی عام تعریف کے مطابق نہیں تھے اس لیے یہاں موقع محل کی مناسبت  اور  کلام کے سیاق اور سباق کی مناسبت سے ایت کا ترجمہ یہ ہوگا” اے ایمان والو جب تمہارے پاس کوئی بلا شہادت خبر بیان کرنے والا کوئی بات بتائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو تاکہ تم ناواقفی کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہ کر بیٹھو جس کے بعد تم کو  ندامت اٹھانی پڑے”۔

[سورۃ الحجرات:6]

اس ایت کی رو سے غریب خبر واحد سے استدلال تو جائز ہی نہیں بنتا کیونکہ اللہ تعالی کا قران میں حکم ہے کہ بلا شہادت بات کی خوب تحقیق کر لیا کرو اور یہاں دوسری گواہی اور شہادت موجود ہی نہیں اور بغیر ثبوت کے کسی روایت کو قابل استدلال قرار دینا اس قرانی ایت کا یک  گونہ انکار ہے اور قران کریم کی اس ایت کے مقابل ایک فرد واحد کی بلا شہادت و ثبوت  روایت کو ترجیح اور فوقیت دینا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہو سکتی

اس بات سے انکار نہیں بعض اوقات خبر واحد کسی عظیم صحابی کی روایت بھی ہو سکتی ہے جو سو فیصد سچ بھی ہو لیکن پھر بھی اس کو  تحقیق کرنے کے قرانی حکم کے سامنے خود کو  سرنگوں کرنا پڑے گا جیسا کہ اگر تین انتہائی عادل، شریف اور  نیک ادمی کسی مرد اور عورت کی بدکاری کی گواہی دیں تو قرانی اصول کے مطابق ان تینوں پر حد قذف لگے گی اگرچہ وہ اپنی جگہ سچے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے:

فَاِذۡ لَمۡ يَاۡتُوۡا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓئِكَ عِنۡدَ اللّٰهِ هُمُ الۡـكٰذِبُوۡنَ‏ ۞
ترجمہ:
...اگر وہ پوری گواہی پیش نہ کر سکے تو وہ اللہ کے ہاں جھوٹے ہیں۔
[سورۃ النور:13]

اسی طرح ایک عالم اور فقیہ صحابی کی غریب خبر واحد بھی قابل استدلال نہیں ہوگی کیونکہ وہ معیار شہادت پر پوری نہیں اتر رہی

غریب(خبرواحد) روایات کا  نقصان»
محدثین کرام نے احادیث کو جمع کرتے وقت اس کی سند کا تو خیال کیا ، الفاظ متن کی باریکیوں کو بھی مد نظر رکھا ، لیکن  ان محدثین کرام نے اپنی کتب میں غریب روایات کو بھی شامل کردیا ہے جس کی وجہ سے ایسی روایات بھی کتب حدیث میں موجود ہیں  جو بظاہر قران سے متعارض ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان سے انتہائی کمتر درجہ کی ہیں جس پر محدثین کرام کو بعض اوقات ایسی تاویلات اور تطبیقات کرنےپڑیں جن عقل سلیم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں

اگر ایسی غریب روایات کو جمع کیا جائے جن کی تاویلات اور تطبیقات میں محدثین کو انتہائی رکیک قسم کی کوششیں کرنی پڑی ہیں  تو ایک کافی بڑا ذخیرہ جمع ہو  سکتا ہے حالانکہ ایسی کوششیں ہی فضول ہیں  کیونکہ جو  روایت  اسلامی  اصول و ضوابط سے ثابت ہی نہیں  اس کو تسلیم کرنا ، تاویل کرنا اور بعض اوقات  ایسی روایات کی وجہ سے آیات قرانی کی تشریح اور تخصیص کردینا ہی  درست نہیں   ہے۔

اور ایسی ہی روایات معاندین اور مخالفین اسلام کا اسلام کے خلاف ایک مضبوط اوزار اور ہتھیار ہیں جس کے ذریعے وہ اسلام کی طرف امادہ ہونے والوں کو برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ اسلامی  قانون کے تحت  وہ ثابت ہی نہیں  اگرچہ  سند میں بڑے مشہور نام بھی ہوں  وہ حضرت علی سے بڑے نہیں ہوسکتے جن کا دعوی قاضی شریح نے اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ ان کے دعویٰ کے ثبوت میں دو گواہ موجود نہیں تھے اور حضرت علی نے اسے تسلیم کرلیا تھا۔




خوبیوں اور خامیوں کا بیان

عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ قَالَ: كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌لِأُنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ فِي الْغَضَبِ فَيَنْطَلِقُ نَاسٌ مِّمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ حُذَيْفَةَ فَيَأْتُونَ سَلْمَانَ فَيَذْكُرُونَ لَهُ قَوْلَ حُذَيْفَةَ فَيَقُولُ سَلْمَانُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ فَيَرْجِعُونَ إِلَى حُذَيْفَةَ فَيَقُولُونَ لَهُ: قَدْ ذَكَرْنَا قَوْلَكَ لِسَلْمَانَ فَمَا صَدَّقَكَ وَلَا كَذَّبَكَ فَأَتَى حُذَيْفَةُ سَلْمَانَ وَهُوَ فِي مَبْقَلَةٍ فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ! مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَدِّقَنِي بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌فَقَالَ سَلْمَانُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌كَانَ يَغْضَبُ فَيَقُولُ فِي الْغَضَبِ لِنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ وَيَرْضَى فَيَقُولُ فِي الرِّضَا لِنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِهِ أَمَا تَنْتَهِي حَتَّى ثورت رِجَالًا حُبَّ رِجَالٍ وَرِجَالًا بُغْضَ رِجَالٍ وَحَتَّى تُوقِعَ اخْتِلَافًا وَفُرْقَةً؟ وَلَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌خَطَبَ فَقَالَ: أَيُّمَا رَجُلٍ مِّنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فِي غَضَبِي فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَّلَدِ آدَمَ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ صَلَاةً يَّوْمَ الْقِيَامَةِ . وَاللهِ لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ

ترجمہ:

عمرو بن ابی قرہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ حذیفہ ؓ مدائن میں تھے، انہوں نے کچھ باتوں کا تذکرہ کیا جو رسول اللہ ﷺ نے غصے کی حالت میں اپنے صحابہ سے کہی تھیں۔حذیفہ ؓ سے جن لوگوں نے یہ باتیں سنیں وہ سلمان‌ؓ کے پاس آئے اور ان سے حذیفہ ؓ کی باتوں کا ذکر کیا سلمان‌ؓ نے کہا: حذیفہ اپنی کہی ہوئی باتوں کے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔ وہ حذیفہ‌ؓ کے پاس واپس آئے اور ان سے کہا: ہم نے آپ کی بات سلمان‌ؓ کے سامنے رکھی تو نہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی نہ تکذیب کی۔ حذیفہ ؓ سلمان ؓ کے پاس آئے، سلمان ؓ سبزیوں کے کھیت میں تھے۔ حذیفہ ؓ نے کہا: سلمان! جو بات میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی، اس بارے میں میری تصدیق کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟ سلمان ؓ نے کہا کہ: رسول اللہ ﷺ غصے میں ہوا کرتے تھے تو غصے میں اپنے صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے اور خوش ہوتے تو خوشی میں صحابہ سے کوئی بات کہہ دیا کرتے تھے تم باز نہیں آؤ گے حتی کہ لوگوں کے دلوں میں بعض کی محبت اور بعض کی نفرت اور ان میں اختلاف و افتراق ڈال دو گے۔ اور تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو فرمایا: میری امت میں سے میں نے جس شخص کو گالی دی ہے یا غصے میں لعنت کی ہے، تو میں بھی آدم کی اولاد ہوں جس طرح دوسرے لوگ غصے ہوتے ہیں میں بھی غصے ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ اے اللہ! قیامت کے دن اس کو ان کے لئے رحمت کا باعث بنا۔ واللہ! یا تو تم باز آجاؤ وگرنہ میں عمر‌ؓ کو (شکایت)لکھتا ہوں۔

[الصحيحة:1758 (3458)، سنن أبي داؤد،كِتَاب السُّنَّةِ، بَاب فِي النَّهْيِ عَنْ سَبِّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، رقم (4040)]










4 comments:

  1. ماشاء اللہ ۔۔ نہا
    یت عمدہ اور مفید علمی تحریر ھے۔ جزاک اللہ خیرا

    ReplyDelete
  2. محترم ! اس تحریر کے مصنف کا نام بھی ذکر فرما دیجئے۔
    اس کا حوالہ دینا مقصود ھے۔
    جزاک اللہ خیرا

    ReplyDelete
    Replies
    1. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
      جزاکم اللہ خیرا کثیرا
      اگر آپ مراجعات کا بھی ذکر کردیں تو اور بہتر ہوجائے۔

      Delete
  3. وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
    محترم بھائیو! یہ میری تلاش، تالیف وترتیب کردہ پوسٹ ہے۔ جس میں متعدد مصنفین، حوالہ جات اور مراجعات پیش کئے گئے ہیں۔

    سلامتی ہو آپ سب پر اور رحمتیں اللہ کی اور برکتیں اسکی۔

    ReplyDelete