Sunday, 3 June 2012

DEEN yani Tariqa_Zindagi


دین لغت میں (زندگی جینے کے) اس طریقہ اور قوانین کو کہتے ہیں جس کی پیروی کی جاۓ، چاہے وہ درست ہو یا غلط. جیسے قرآن میں ہے:

لكم دينكم ولي دين. [الكافرون:٦] يعنى (الله تعالیٰ کے حکم سے نبی صلی الله علیہ وسلم کافروں کے برے طریقہ_زندگی سے بیزاری کا یہ اعلان کرتے ہیں کہ) تمہارے لئے تمہارا (برا) طریقہ اور ہمارے لئے ہمارا (اچھا) طریقہ.

دین نام ہے اسلام اور ایمان دونوں کے مشتمالات کے ساتھ ساتھ احکام_شرعیہ پر عمل کرنے کا. [فقه اکبر: ص # ٢٨، ایمان، اسلام اور ان کے لوازمات]

ایمان، اسلام اور منافقت کسے کہتے ہیں؟

شرعی اصطلاح میں: الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کی خبر دی ہے ان کا اسی طرح دل میں یقین رکھنا اور تصدیق کرنا "ایمان" کہلاتا ہے؛

اور اس یقین و تصدیق کا زبان سے اقرار کرنا اور اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنا "اسلام" کہلاتا ہے؛

لہذا ایمان وہ بنیاد ہے جس پر دین_اسلام کی عمارت قائم ہے، اس (دل کے یقین و تصدیق) کے بغیر صرف زبان سے اقرار کرنا "منافقت" ہے. چناچہ ایمان کے بغیر (الله تعالیٰ کے یھاں) نہ اسلام معتبر ہے نہ عمل_صالح کا کوئی اعتبار ہے.

حدثنا حسين بن محمد حدثنا مسلم يعني ابن خالد عن العلا بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال كرم الرجل دينه ومروته عقله وحسبه خلقه
[(صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب بیان أن الدين النصيحة، رقم الحديث: ٨٥(٥٦]

حضرت تمیم داری (رضی الله عنہ) سے روایت ہے کہ رسول الله (صلے الله علیہ وسلم) نے فرمایا
دین نصیحت (خیر-خواھی) کا نام ہے، ہم نے عرض کیا کہ کس کی. (تو) فرمایا: الله کی، اور اس کی کتاب کی، اور اس کے رسول کی، اور ائمہ_مسلمین (مسلمین کے اماموں) کی، اور سب مسلمانوں کی.




رسول الله صلی الله علیہ وسلم جس "دین الحق" اور زندگی کے جس طریقہ کی طرف دنیا کو دعوت دینے کے لئے مبعوث ہوتے تھے، اس کا کامل ترین نمونہ خود آپ کی ذات مقدس تھی، اس لئے آپ کا طریقہ_زندگی ہی وہ "دین الحق" اور وہ "صراط المستقیم" ہے جس پر چل کر بندہ الله تعالیٰ کی رضا و رحمت کا مستحق نلکہ اس کا محبوب بھی بن جاتا ہے. آپ کے اس طریقہ زدگی اور اسوہ_حسنہ کا اگر تجزیہ کیا جاۓ تو اس میں مندرجہ ذیل تین شعبے دریافت ہوتے ہیں:
١) ایمان: یعنی الله تعالیٰ کی ذات وصفات، وحی و رسالت، ملائکہ، قیامت، حشر و نشر. اور جنت و دوزخ جیسی غیبی حقیقتوں کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جو خبریں دیں ہیں اور جو کچھ بتلایا ہے، ان سب کو حق ماننا اور دل سے اس کی تصدیق کرنا. یہ دین_حق کا سب سے اہم شعبہ ہے اور پورے دین کی اساس و بنیاد ہے اور یہی شعبہ ہمارے "علم عقائد" کا موضوع ہے.
٢) اعمال_صالحہ: یھاں اس سے ہماری مراد دین کا وہ تمام تر عملی حصہ ہے جو جوارح یعنی ظاہری اعضاء سے تعلق رکھتا ہے، جس میں اسلامی عبادات، دعوت و جہاد اور معاملات و آداب_معاشرت وغیرہ داخل ہیں. یہ شعبہ گویا دین کا پورا قالب ہے، اور یہی اسلام کا عملی نظام ہے، اور ہمارے "علم فقہ" کا خاص تعلق اسی شعبے سے ہے.
٣) تزکیہ_نفس اور روحانی و قلبی صفات و کیفیات: جن لوگوں کی کتاب و سنّت پر کچھ نظر ہے وہ اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جس طرح ایمان و اعتقادات، عبادات و آداب_معاشرت و معاملات کے ابواب میں اونچی تعلیم و ہدایت اور عملی نمونہ سے امت کی رہنمائی فرمائی ہے اسی طرح آپ نے الله تعالیٰ کی محبت و خشیت، یقین و توکل، احسان و اخلاق کے مطلق بھی اہم ہدایات دی ہیں، اور ان کا نہایت اعلیٰ اور مثالی نمونہ امت کے لئے چھوڑا ہے، الغرض ایمان و اعمال_صالحہ کی طرح یہ بھی دین کا ایک مستقل و اہم شعبہ ہے، اور یہی "تصوف و سلوک" کا خاص موضوع ہے.
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات تو ان تینوں شعبوں میں یکساں طورپر جامع تھی. لیکن بعد کے قرنوں (زمانوں) میں زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے اکثر وارثین و نائبین اگرچہ ذاتی طور پر کم و بیش ان تینوں شعبوں کے حامل و جامع ہوتے تھے لیکن اپنی اپنی صلاحیت و استعداد اور ذوق یا ماحول کے مطابق انہوں نے کسی ایک شعبہ کی خدمت سے اپنا خاص تعلق رکھا اور بیشک بعد کے ان قرنوں میں دین کا پھیلاؤ جس درجہ بڑھ گیا تھا، اور جو حالات پیدا ہوگئے تھے ان میں ایسا کرنا ناگزیر بھی تھا، اس صورت اور اس تقسیم_عمل نے خواص امت میں ائمہ عقائد، فقہاء، اور صوفیاء کے الگ الگ طبقے پیدا کیے.
پس جس طرح ائمہ عقائد (متکلمین) اور فقہاء نے خصوصیت کے ساتھ دین کے پہلے دو (٢) شعبوں کی حفاظت کی اور تنقیح و تفصیل کی. اسی طرح حضرات_صوفیاء نے دین کے تیسرے اہم شعبے کی خدمت و حفاظت اور اس باب میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی نمائندگی و نیابت کی. اس لئے امت پر ان کا بھی بہت بڑا احسان ہے اور دین کے اس تکمیلی شعبہ میں امت ان کی خدمات کی ممنوں و محتاج ہے.
بس سلوک و تصوف کی اصل غرض و غایت اور صوفیاء_کرام کی مساعی کا اصل نصب العین دراصل دین کا یہی تیسرا شعبہ ہے. یعنی الله تعالیٰ کی محبت و خشیت اور اخلاص و احسان اور زہد و توکل جیسی روحانی و قلبی صفات وکیفیات کی تحصیل اور اخلاق کا تزکیہ، لیکن چونکہ یہ چیزیں صرف کتابی مطالعہ سے حاصل نہیں ہوتیں، بلکہ ان کا صحیح ادرک بھی نہیں ہوتا اور اس دولت کے کسی وارث و حامل کی صحبت و خدمت میں رہ کر مشاده_آثار ہی کی راہ سے ان کی کچھ معرفت ہوتی ہے اور ان کے حصول کے متعلق بھی ام سنّت الله چونکہ یہی ہے کہ اس کے حاملین کی صحبت و رفاقت اور تربیت ہی اس کا عام ذریعہ ہے اس لئے ایسے لوگ اس شعبہ سے اکثر محروم اور اس کی معرفت سے بھی قاصر رہتے ہیں، جن کو کسی ایسے بندے کی صحبت و رفاقت کی توفیق نہ ملی جو اس دولت کا حامل ہے.
وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ [قرآن: ٣١/١٥]
اور راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف

یہ چوٹی سی کتاب جو دراصل چند مقالات کا مجموعہ ہے، دین کے اس تکمیلی شعبہ "تزکیہ_نفس" جو واقعی نوعیت و افادیت ہے اور جو دین میں اس کا حقیقی مقام ہے، الله کے بتوفیق بندے اس سے وقف ہوکر اس خیر_کثیر اور دولت_عظمیٰ کو حاصل کریں جو اس راستے سے حاصل کی جاسکتی ہے اور لاکھوں بندگان_خدا نے حاصل کی ہے، اور اس کے بارے میں آج کل کے اکثر ذہنوں میں جو شکوک و شبہات اور الجھنیں حقیقت ناشناسی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، وہ صاف ہوں.
http://islamicbookslibrary.wordpress.com/2011/05/18/tasawwuf-kya-hai-by-shaykh-muhammad-manzoor-nomani-r-a




















No comments:

Post a Comment