حافظ ابن کثیر شافعیؒ(م774ھ) نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے بارے میں فرمایا ہے:
وہ امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ کوفی ہیں ، عراق کے فقیہ ، ائمہ اسلام میں سے ایک ہیں ، عظیم سرداروں میں سے ایک ہیں ، ارکانِ علماء میں سے ہیں ، صاحبِ مذاہبِ متبوعہ کے چار اماموں میں سے ایک ہیں ، طویل حیات پائی ، اس لیے انہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا اور حضرت انس بن مالکؓ کو دیکها اور حضرات نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے(مزید) سات صحابہ سے بھی روایت کی ہے. ۔۔۔ امام صاحب کی وفات 150 ہجری میں ہوئی۔
[البدایہ والنہایہ(امام)ابن کثیر: ج13 ص 415 دار هجر]
(1) ... اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے.
[سوره محمّد:38]
(2) ۔۔۔ اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں سے) نہیں ملے...
[سورۃ الجمعہ:3]
[صحیح البخاری:4897، صحیح مسلم:2546، الجامع معمر بن راشد:19923، شرح السنة للبغوی:3999]
ائمہ ومحدثین کے نزدیک اس سے مراد امام ابوحنیفہؒ ہیں:
1) امامِ حرم ابنِ حجر مکیؒ شافعی-الخیرات الحسان:1/24، دار الکتب العلمیہ، بیروت
2) امام جلال الدین سیوطیؒ شافعی-تبییض الصحیفہ:1/31، دار الکتب العلمیہ، بیروت
3) نواب صدیق حسن بھوپالی غیرمقلد - اتحاف النبلاء:1/224
[سورۃ التوبۃ:100]
(4) امام يافعي محدث شافعيؒ (المتوفی:767ھہ) لکھتے ہیں :
رأي أنسا.
[مرآة الجنان وعبرة اليقظان في معرفة ما يعتبر من حوادث الزمان : 4/310]
ترجمہ :
(5) مفسر قرآن، حافظ الحدیث امام ابن کثیر الشافعیؒ (المتوفی: 774ھہ) لکھتے ہیں :
لانه أدرك عصر الصحابة و رأي أنس بن مالك.
[البداية والنهاية ، لابن كثير : ص # 527]
ترجمہ :
(6) شارح صحیح بخاری، حافظ الحدیث امام ابن حجر العسقلانی الشافعیؒ (المتوفی: 852 ھہ) فرماتے ہیں :
رأي أنسا.
یعنی انہوں نے دیکھا حضرت انس (بن مالک رضی الله عنہ) کو.
[تھذیب التھذیب : 6/55]
(7) شارح صحیح بخاری، حافظ الحدیث علامہ بدر الدین عینی حنفیؒ (المتوفی: 855ھہ) لکھتے ہیں :
ابن أبي أوفى أسمه عبدالله ... وهو أحد من رأه أبوحنيفة من الصحابة۔
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري : 2/505]
ترجمہ :
(8) امام ابن العماد حنبلیؒ (المتوفی: 1089ھہ) لکھتے ہیں :
رأي أنسا وغيرة
یعنی آپ نے دیکھا حضرت انس کو اور ان کے علاوہ (صحابہ) کو بھی.
[شذرات الذهب في أخبار من ذهب :1/372]
کہ امام ابوحنیفہؒ کی ملاقات بہتر (٧٢) صحابہِ کرام سے ہوئی ہے.
[معجم المصنفین : ٢/٢٣]
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ج # ١٢/ ص # ٢٤١ - ٢٤٢؛ دوسرا باب : کتابت احادیث و جمع روایات، فصل سوم: تابعین کا عمل]
|
ترجمہ:
|
ترجمہ :
|
|
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ حضرت انسؓ سے رسول الله ﷺ کا یہ ارشاد سننا نقل فرماتے ہیں کہ الله مظلوموں کی مدد کرنے کو پسند کرتا ہے.
|
7) (أبو حنيفة) قَالَ : وُلِدْتُ سَنَةَ ثَمَانِينَ ، وَقَدِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكُوفَةَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ ، وَرَأَيْتُهُ ، وَسَمِعْتُ مِنْهُ ، وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ " .
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْأَدَبِ ... رقم الحديث: 472]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میری پیدائش 80 ہجری میں ہوئی اور حضرت عبدالله بن انیس رضی الله عنہ جو صحابی رسول ہیں 94 ہجری میں کوفہ تشریف لاۓ طے میں نے اس کی زیارت بھی کی اور ان سے حدیث کی سماعت (سننا) بھی کی ہے ، اور اس وقت میری عمر 14 سال تھی ، انہوں سنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے کہ : کسی چیز کی محبت تمہیں اندھا بھرا کر سکتی ہے.
م | طرف الحديث | الصحابي | اسم الكتاب | أفق | العزو | المصنف | سنة الوفاة |
1 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | سنن أبي داود | 4467 | 5130 | أبو داود السجستاني | 275 |
2 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | مسند أحمد بن حنبل | 21152 | 21185 | أحمد بن حنبل | 241 |
3 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | مسند ابن أبي شيبة | 49 | 49 | ابن ابي شيبة | 235 |
4 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | البحر الزخار بمسند البزار 10-13 | 47 | 4125 | أبو بكر البزار | 292 |
5 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | مسند الشاميين للطبراني | 1435 | 1454 | سليمان بن أحمد الطبراني | 360 |
6 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن أشقر | مسند الشاميين للطبراني | 1449 | 1468 | سليمان بن أحمد الطبراني | 360 |
7 | حبك الشيء يعمي ويصم | عبد الله بن أنيس | مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي | 472 | 31 | أبو حنيفة | 150 |
8 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | مسند الشهاب | 207 | 219 | الشهاب القضاعي | 454 |
9 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | المعجم الأوسط للطبراني | 4492 | 4359 | سليمان بن أحمد الطبراني | 360 |
10 | حبك الشيء يعمي ويصم | عثمان بن عفان | إسلام زيد بن حارثة وغيره من أحاديث الشيوخ | 26 | 1 : 180 | تمام بن محمد الرازي | 414 |
11 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | أمالي ابن بشران | 529 | 1 : 228 | أبو القاسم بن بشران | 430 |
12 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | ثلاثة مجالس من أمالي أبي عبد الله الروذباري | 13 | --- | أحمد بن عطا الروذباري | 369 |
13 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | أمالي ابن بشران ( مجالس أخرى ) | 511 | 1 : 228 | عبد الملك بن بشران | 431 |
14 | حبك الشيء يعمي ويصم | نفير بن مالك | أمثال الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني | 101 | 115 | أبو الشيخ الأصبهاني | 369 |
15 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | شعب الإيمان للبيهقي | 392 | 411 | البيهقي | 458 |
16 | حبك الشيء يعمي ويصم | موضع إرسال | المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان | 844 | 2 : 189 | يعقوب بن سفيان | 277 |
17 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | الكني والأسماء للدولابي | 716 | 546 | أبو بشر الدولابي | 310 |
18 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | تاريخ دمشق لابن عساكر | 9020 | --- | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
19 | حبك الشيء يعمي ويصم | عبد الله بن أنيس | تاريخ دمشق لابن عساكر | 12001 | --- | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
20 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | تاريخ دمشق لابن عساكر | 13795 | --- | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
21 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | تاريخ دمشق لابن عساكر | 14497 | 16 : 186 | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
22 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | تاريخ دمشق لابن عساكر | 14498 | 16 : 186 | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
23 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | تاريخ دمشق لابن عساكر | 14499 | 16 : 187 | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
24 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | تاريخ دمشق لابن عساكر | 14503 | --- | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
25 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | تاريخ دمشق لابن عساكر | 66582 | --- | ابن عساكر الدمشقي | 571 |
26 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | تهذيب الكمال للمزي | 235 | --- | يوسف المزي | 742 |
27 | حبك الشيء يعمي ويصم | نضلة بن عبيد | اعتلال القلوب للخرائطي | 350 | 369 | محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي | 327 |
28 | حبك الشيء يعمي ويصم | نضلة بن عبيد | اعتلال القلوب للخرائطي | 782 | 820 | محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي | 327 |
29 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | ذم الهوى لابن الجوزي | 14 | 36 | أبو الفرج ابن الجوزي | 597 |
30 | حبك الشيء يعمي ويصم | عويمر بن مالك | الآداب للبيهقي | 164 | 229 | البيهقي | 458 |
8) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " لَا تُظْهِرَنَّ شَمَاتَةً لِأَخِيكَ فَيُعَافِيَهُ اللَّهُ وَيَبْتَلِيَكَ ".
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْأَدَبِ ... رقم الحديث: 473]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ : اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار کبھی نہ کرنا ، ہو سکتا ہے الله تعالیٰ اسے عافیت دیدے اور تمہیں اس (مصیبت) میں مبتلا کردے.
|
[معرفة علوم الحدیث للحاکم، ص:66]
اسلام میں بڑا حصہ (نصیب) فارس والوں کا ہے، اگر دین ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو فارس-والے اسے لے آئیں گے. (ثریا یعنی آسمان کے ستاروں کا مجموعہ)۔
[الصحاح للجوهري:١/٤٨٩]
[سنن ابن ماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم]
دوسری روایت میں حضرت ابنِ عمرؓ سے حدیث میں ہے ... بس تم سوادِ اعظم کا اتباع کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہے گا۔
[مستدرک حاکم: کتاب العلم، ١/١١٥]
ﻗﺎﻟﺖ اﻷﻗﺪﻣﻮن: اﻟﻤﺤﺪث ﺑﻼ ﻓﻘﮫ ﻛﻌﻄﺎر ﻏﯿﺮ طﺒﯿﺐ ﻓﺎﻷدوﯾﺔ ﺣﺎﺻﻠﺔ ﻓﻲ دﻛﺎﻧﮫ وﻻ ﯾﺪري ﻟﻤﺎذا ﺗﺼﻠﺢ, واﻟﻔﻘﯿﮫ ﺑﻼ ﺣﺪﯾﺚ ﻛﻄﺒﯿﺐ ﻟﯿﺲ ﺑﻌﻄﺎر ﯾﻌﺮف ﻣﺎ ﺗﺼﻠﺢ ﻟﮫ اﻷدوﯾﺔ إﻻ أﻧﮭﺎ ﻟﯿﺴﺖ ﻋﻨﺪه.
[أثر الحديث الشريف في إختلاف الأئمة الفقهاء: 108 بحواله الحاوي للفتاوى: 2/398]
یعنی محدث بغیر فقہ کے ایسا "دوا فروش" ہے جو طبیب نہیں، اس کی دکان میں دوائیں ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ کس مرض کا علاج ہے اور بغیر حدیث کے فقیہ کی مثال جس کو یہ تو علم ہے کہ فلاں مرض کی دوا فلاں ہے لیکن اس کے پاس دوائیں نہیں تو وہ علاج (مریض کو مطمئن) کیسے کرے؟
[الثقات لابن حبان:8/467]
(مقدمہ کتاب التعلیم ص134)
(مناقب ابی حنیفہ ص101)
"وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً"۔
(کتاب الانتقاء:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹)
ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔
"وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة"۔
(تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲)
"علمِ عقائد اور علمِ کلام میں لوگ ابوحنیفہؒ کے عیال اور خوشہ چیں ہیں"۔ (تاریخ بغدادی:۱۳/۱۶۱)
حدیث بیان کرنے کی شرط اور امام ابوحنیفہؒ کا اسے بیان کرنے میں کمال احتیاط وتقویٰ:
یعنی ابویوسفؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ نے فرمایا: نہیں ہے جائز کسی شخص کیلئے کہ وہ بیان کرے کسی حدیث میں سے، بشرطیکہ جس وقت سے اس نے جو سنا وہ اسے یاد بھی ہو۔
امام ابوحنیفہؒ اور تحقیق:
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الطَّبَرِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ نُعَيْمَ بْنَ حَمَّادٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: إِذَا جَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَى الرَّأْسِ وَالْعَيْنِ وَإِذَا جَاءَ عَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْتَارُ مِنْ قَوْلِهِمْ وَإِذَا جَاءَ عَنِ التَّابِعِينَ زَاحَمْنَاهُمْ۔
ترجمہ:
ہمیں خبر دی ابو عبداللہ الحافظ نے، انہوں نے کہا: میں نے سنا محمد بن احمد بن بلویہ کو کہتے کہ: میں نے ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ کو کہتے سنا کہ: میں نے ابو بکر الطبری کو کہتے سنا کہ: میں نے نعیم بن حماد کو کہتے سنا کہ: میں نے نعیم بن حمادؒ کو کہتے سنا کہ: میں نے ابن المبارکؒ کہتے ہیں: میں نے ابوحنیفہؒ کو کہتے سنا کہ: اگر (کوئی قول) آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تو وہ سر اور آنکھ پر ہو، اور اگر وہ آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرف سے آئے تو ہم انتخاب کرتے ہیں ان کے اقوال میں سے (کسی کے قول کو)، اور اگر (کوئی قول) ہو(میری طرح صحابہ کے پیروکار) تابعین کی طرف سے، تو ہم (اپنی رائے پیش کرکے)ان سے مزاحمت کریں گے۔
[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت الأعظمي: حدیث نمبر 40]
[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت عوامة: حدیث نمبر 1146]
سند صحیح
[إرشاد النقاد إلى تيسير الاجتهاد-الصنعاني: ص142، التفسير المظهري:2/ 153 سورۃ النساء:59]
حَدثنَا يحيى قَالَ حَدثنَا عبيد بن أبي قُرَّة قَالَ سَمِعت يحيى بن ضريس يَقُول شهِدت سُفْيَان وَأَتَاهُ رجل فَقَالَ مَا تنقم على أبي حنيفَة قَالَ وَمَاله قَالَ سمعته يَقُول آخذ بِكِتَاب الله فَمَا لم أجد فبسنة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَإِن لم أجد فِي كتاب الله وَلَا سنة آخذ بقول أَصْحَابه آخذ بقول من شِئْت مِنْهُم وأدع قَول من شِئْت ولاأخرج من قَوْلهم إِلَى قَول غَيرهم فَإِذا مَا انْتهى الْأَمر أَو جَاءَ الْأَمر إِلَى إِبْرَاهِيم وَالشعْبِيّ وَابْن سِيرِين وَالْحسن وَعَطَاء وَسَعِيد بن الْمسيب وَعدد رجَالًا فقوم اجتهدوا فأجتهد كَمَا اجتهدوا قَالَ فَسكت سُفْيَان طَويلا ثمَّ قَالَ كَلِمَات بِرَأْيهِ مَا بَقِي أحد فِي الْمجْلس إِلَّا كتب نسْمع التَّشْدِيد من الحَدِيث فنخافه ونسمع اللين فنرجوه لَا نحاسب الْأَحْيَاء وَلَا نقضي على الْأَمْوَات نسلم مَا سمعنَا وَنكل مَا لم نعلم إِلَى عالمه ونتهم رَأينَا لرأيهم
ترجمہ:
یحییٰ بن ضریسؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے سفیان ثوریؒ کو دیکھا اور ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: تم ابوحنیفہ سے تنقید کیوں نہیں کرتے؟ اس نے کہا: کیونکہ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں (مسئلہ) لیتا ہوں اللہ کی کتاب سے، پھر اگر مجھے نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے، پھر اگر میں نہیں پاتا اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے تو میں اس (رسول) کے ساتھیوں کا قول لوں گا، میں ان میں سے جس کو پسند کرتا ہوں اس کی بات لیتا ہوں اور ان میں سے جس کو پسند کرتا ہوں اس کی بات چھوڑ دیتا ہوں اور ان کے اقوال سے ہٹ کر دوسروں کے قول پر نہیں جاتا۔ لیکن اگر بات (میرے جیسے تابعین) ابراہیم، شعبی، ابن سیرین، حسن، عطاء، اور سعید بن المسیب وغیرہ پر آئے تو ان لوگوں نے بھی اجتہاد کیا تو میں بھی اجتہاد کرتا ہوں جیسے وہ اجتہاد کرتے ہیں۔
راوی(یحییٰ بن ضریس) کہتے ہیں: پھر سفیانؒ کافی دیر تک خاموش رہے، پھر انہوں نے اپنی رائے کے مطابق کچھ کلمات ارشاد فرمائے: مجلس میں موجود ہر شخص نے انہیں نوٹ کرلیا، (انہوں نے کہا) ہمیں احادیث میں شدت والی احادیث بھی سننے کو ملتی ہیں تو ہم اس کی امید رکھتے ہیں، ہم زندہ لوگوں کا محاسبہ نہیں کرتے ہیں، اور نہ ہی ہم مردوں کے خلاف دیتے ہیں، ہم نے جو (روایات) سنی ہیں اسے تسلیم کرتے ہیں، اور جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہم ان کا علم اس شخص کے سپرد کرتے ہیں جو ان سے واقفیت رکھتا ہے، اور ہم اپنی رائے کا الزام ان کی رائے پر عائد کرتے ہیں۔
[تاريخ ابن معين(م233ھ) - رواية الدوري:3163(4/ 63)]
[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي :245(1378)]
[ذم الكلام وأهله-لهروي:890]
امام حسن بن صالحؒ(م199ھ)فرماتے ہیں:
كَانَ ابو حنيفَة شَدِيد الفحص عَن النَّاسِخ من الحَدِيث والمنسوخ فَيعْمل بِالْحَدِيثِ إِذا ثَبت عِنْده عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَعَن أَصْحَابه وَكَانَ عَارِفًا بِحَدِيث أهل الْكُوفَة وَفقه أهل الْكُوفَة شَدِيد الِاتِّبَاع لما كَانَ عَلَيْهِ النَّاس بِبَلَدِهِ وَقَالَ كَانَ يَقُول إِن لكتاب الله نَاسِخا ومنسوخا وَإِن للْحَدِيث نَاسِخا ومنسوخا وَكَانَ حَافِظًا لفعل رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْأَخير الَّذِي قبض عَلَيْهِ مِمَّا وصل إِلَى أهل بَلَده۔
ترجمہ:
ابو حنیفہؒ ناسخ منسوخ احادیث کی بہت چھان بین کرتے تھے۔ جب کوئی حدیث مرفوع یا اثر صحابی آپ کے نزدیک ثابت ہو جاتا تو اس پر عمل کرتے۔ آپ اہل کوفہ کی احادیث سے خوب آگاہ تھے اور ان پر بڑی سختی سے عامل رہتے تھے۔
[أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص25، المسودة في أصول الفقه-ابن تيمية: ص338]
أَنى آخذ بِكِتَاب الله إِذا وجدته فَلَمَّا لم اجده فِيهِ اخذت بِسنة رَسُول الله والْآثَار الصِّحَاح عَنهُ الَّتِي فَشَتْ فِي أَيدي الثِّقَات عَن الثِّقَات فَإِذا لم اجد فِي كتاب الله وَلَا سنة رَسُول الله أخذت بقول أَصْحَابه من شِئْت وأدع قَول من شِئْت ثمَّ لَا أخرج عَن قَوْلهم إِلَى قَول غَيرهم فَإِذا انْتهى الْأَمر إِلَى ابراهيم وَالشعْبِيّ وَالْحسن وَابْن سِيرِين وَسَعِيد بن الْمسيب وَعدد رجَالًا قد اجتهدوا فلي أَن أجتهد كَمَا اجتهدوا۔
ترجمہ:
میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر جو بات نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر اگر مجھے وہ بات نہ تو کتاب اللہ میں ملے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں تو میں صحابہ کرامؓ کے اقوال کی طرف رجوع کرتا ہوں، اور ان میں سے جس کے قول کو چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جس کے قول کو چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں، لیکن صحابہؓ کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا، اور پھر جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسن بصریؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، سعید بن مسیبؒ وغیرہ تک پہنچتا ہے تو یہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے خود اجتہادات کیے، تو جس طرح انہوں نے اجتہادات کیے‘ میں بھی اجتہاد کرتا ہوں۔
[أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص24، المسودة في أصول الفقه-ابن تيمية: ص337، الحديث والمحدثون: ص285]
كَانَ أَبُو حنيفَة يركب فِي الْعلم أحد من سِنَان الرمْح كَانَ وَالله شَدِيد الْأَخْذ للْعلم ذابا عَن الْمَحَارِم مُتبعا لأهل بَلَده لَا يسْتَحل أَن يَأْخُذ إِلَّا بِمَا يَصح عِنْده من الْآثَار عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم شَدِيد الْمعرفَة بناسخ الحَدِيث ومنسوخه وَكَانَ يطْلب أَحَادِيث الثِّقَات وَالْآخر من فعل النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَمَا أدْرك عَلَيْهِ عَامَّة الْعلمَاء من أهل الْكُوفَة فِي اتِّبَاع الْحق أَخذ بِهِ وَجعله دينه۔
ترجمہ:
ابوحنیفہ علم کے حصول کے حوالے سے بہت سخت تھے اور وہ اس چیز کی شدت سے مخالت کرتے تھے کہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا جائے، جب کوئی مستند روایت ان تک پہنچ جاتی جسے قابلِ اعتماد راویوں نے نقل کیا ہوتا، تو وہ ان کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور وہ نبی اکرم ﷺ کے آخری عمل کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور وہ اس چیز کے مطابق فتویٰ دیتے تھے جس پر انہوں نے کوفہ کے علماء کو پایا تھا، تو کچھ لوگوں نے اس حوالے سے ان پر تنقید کی ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے ہم سب کی اور ان سب کی۔
[أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة: ص151، الطبقات السنية في تراجم الحنفية: ص47، الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء-ابن عبد البر: ص142، أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص75]
[امام اعظم ابو حنیفہ رحمه الله اورمتعرضین] صفحہ نمبر 64 تا 67
************************************
امام حارثی ؒ وہ شخص ہیں جنہوں نے علم حدیث میں بلند پایہ مقام رکھنے کی وجہ سے محدثین سے "الاستاذ " کا ممتاز لقب حاصل کیا
امام خلیلی ؒ المتوفی 446نے" کتاب الارشاد میں ان کے تذکرہ میں لکھتے ہیں
یعرف بالاستاذ لہ معرفۃ بھذالشاں (لسان المیزان ج3ص 405٭ )
یہ الاستاذ کے لقب سے مشہور ہیں ان کو اس فن حدیث کی معرفت حاصل ہے
حافث ذہبی ؒالمتوفی 748ھ ان کے متعلق ارقام فرماتے ہیں
عرف بالاستاذ اکثر عنہ ابو عبداللہ بن مندۃ (لسان المیزان ج3ص 405) یہ الاستاذ سے مشہور ہیں امام ابوعبداللہ بن مندہ نے ان سے بکثرت احادیث روایت کی ہے
امام ابن مندہ المتوفی 395 ھ مشہور اور بلند مرتبت محدث ہیں انہوں نے امام حارثی سے بکثرت روایت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی توثیق بھی کی ہے
چنانچہ حافظ ذہبی " تاریخ کبیر میں امام حارثی کے ترجمہ لکھتے ہیں
وکان ابن مندۃ حسن الرئی فیہ (تاریخ التراجم ص21)
امام ابن مندہ ؒ ان کے حق میں اچھے رائے رکھتے تھے
نیز لکھتے ہیں
وکان ابن مندۃ یحسن القول فیہ )سیر علام النبلاء ت 340)
امام ابن مندہ ان کی اچھائی بنیان کرتے تھے
حافظ ذہیبی کا ان کے بارے خود اپنا بیان یہ ہے کہ
وکان محدثا ضوالا راسا فی الفقہ ( العبر
نیز ذہیبی ؒ ان کو درج ذیل القاب سے یاد فرماتے ہے
الاستاذ الشیخ ن الاما الفقہ ، المحدث ، عالم ماوراء النھر ( سیراعلام النبلا ت 340 ، تذکرۃ الحفاظ ج3ص 49
علامہ ابوسعد سمعانی امتوفی 566ھ فرماتے ہیں
وکان شیخا مکثرا من الحدیث ( کتاب النساب ج3ص 16)
امام حارثی ؒ شیخ اور کثیر الحدیث تھے
انس بیان میں امام سمعانی ؒ نے امام حارثی کو کثیر الحدیث قرار دینے کے ساتھ ساتھ شیخ بھی قرار دیا جو بتصریح مولانا ارشادلحق اثری الفاظ توثیق میں سے ہے
نیز سمعانی ؒ فرماتے ہیں
رجل الی خراسان والعراق والحجاز وادرک الشیوخ ( کتاب الانساب ج3س 16)
امام حارثی نے طلب حدیث میں خراسان ، عارق ، اور حجاز ( مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ) کی طرف سفر کیا اور وہاں کے شیوخ حدیث سے ملاقات کی ،
حافظ ابن حجر عسقلانی ان کو حافث الحدیث قرار دیتے ہیں چنانچہ ان کے تعارف میں ارقام فرماتے ہیں
ابو محمد الحارثی ۔ ھو عبداللہ بن یعقوب الحافظ الحنفی وھو الاستاذ وھو البخاری ( لسان المیزان ج7ص 124 باب الکنی)
اس طرح حافظ موصوف نے ان مولفہ " مسند ابی حنیفہ کے تعارف میں بھی ان کا حافظ الحدیث ہونا تسلیم کیا ہے چنانچہ وی رقمطراز ہیں
وقد اعتنی الحافظ ابو محمد الحارثی وکان بعد الظلاچمائۃ بحدیث ابی حنیفہ فجمعہ فی مجلد ورتبہ علی شیوک ابی حنیفۃ ( تعجیل المنفعۃ ص19)
حافظ ابو محمد حارثی جو 300ھ کے بعد ہوئے ہیں انہوں نے امام ابوحنیفہ ؒ کی احادیث پر خصوصی توجہ دی اور ان کو ایک جلد میں جمع کیا اور اس مسند کو انہوں نے امام ابوحنیفہ کے شیوخ پر ترتیب دیا ہے
حافظ ابو الموئد خوارزمی المتوفی 665ھ نے ان کی جمع کردہ " مسند ابی حنفہ کی تعریف میں لکھا ہے
من طالع مسدہ الذی جمعہ للامام ابی حنیفہ علم تبحرہ فی علم الحدیث واحاطتہ بمعرفۃ الطرق والمنوں ( جامع المسانید ج2ص 525)
جو شخص بھی امام حارثی کی جمع کردہ " مسند امام ابی حنیفہ " کا مطالعہ کرے گا وہ علم حدیث میں ان کے تبحر اور طرق و متون حدیث پر ان کے احاطہ علیمہ کو جان لے گا۔
امام اعظم ابو حنیفہ سے پہلے ابراہیم نخعی نے اس طرف توجہ دی تھی، لیکن ان کی یہ کوشش صرف زبانی روایات پر مشتمل تھی ،فن کی حیثیت سے نہ تھی اور نہ استنباط و استدلال کے قواعد مقرر تھے ،نہ احکام کی تفریع کے اصول و ضوابط متعین تھے ،اس لیے حضرت ابراہیم نخعی کی یہ سعی قانون کے درجہ تک نہیں پہنچی تھی ،لیکن امام اعظم کی طبیعت مجتہدانہ اور ذہن غیر معمولی فطین اور حافظہ نہایت ہی قوی تھا اور اپنے زمانے کے حالات اور تجارت کی وسعت اور ملکی تعلقات میں معاملات کی ضرورتوں سے باخبر تھے ،ہر روز سینکڑوں فتاوی آتے تھے، جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ تدوین فقہ کی کس قدر ضرورت ہے ،اس لیے امام اعظم کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسائل کے جزئیات کو اصولوں کے ساتھ ترتیب دے کر قانون کا ایک مجموعہ تیار کیا جائے، جو آنے والی تمام انسانیت کے لیے ایک دستور ثابت ہو اور جس میں تمام چیزوں کی رعایت ہو چناں چہ امام اعظم کی مجتہدانہ طبیعت نے اس فن کی تدوین و ترتیب کی طرف توجہ کی اور اس کے لیے ایک خاص فقہ اکیڈمی قائم کی، جسے دنیا کی سب سے پہلے فقہ اکیڈمی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
فقہ اکیڈمی کا قیام:
فقہ حنفی کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ تنہا ایک مجتہد کی رائے اور ان کی کوششوں کا ثمرہ نہیں، بلکہ یہ ممتاز فقہاء ومجتہدین کی پوری ایک جماعت کی سالہا سال کی کوششوں کا نتیجہ ہے ،علامہ موفق فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے فقہ حنفی کی تدوین کے لیے نظام شورائی رکھا اور وہ شرکائے مجلس کو چھوڑ کر تنہا اپنی رائے مسلط نہیں کرتے تھے۔ (مناقب ابی حنیفہ ج2ص133)
فقہ اکیڈمی کے چالیس فقہاء:
لیکن ان فقہاء کے سنین وفات اور امام صاحب سے وابستگی کو دیکھتے ہوئے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سارے حضرات شروع سے آخر تک اس کام میں شریک نہیں رہے ؛بلکہ مختلف ارکان نے مختلف ادوار میں تدوین کے اس کام میں ہاتھ بٹایا،ان میں بعض وہ تھے جنہوں نے آخری زمانے میں اس کام میں شرکت کی ،عام طور سے شرکائے مجلس کے نام ایک جگہ نہیں ملتے،مفتی عزیز الرحمن بجنوری اور ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے ان ناموں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے ،جس میں امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر،حسن بن زیاد،مالک بن معقول،داؤد طائی،مندلبن علی،نضربن عبدالکریم،عمرو بن میمون،حبان بن علی ،ابو عصمہ ،زہیر بن معاویہ ،قاسم بن معن ،حماد بن ابی حنیفہ،ہیاج بن بطام،شریک بن عبداللہ ،عافیہ بن یزید، عبداللہ بن مبارک ،نوح بن دارج ،ہشیم بن بشیر سلمی،ابو سعید یحییٰ بن زکریا،فضیل بن عیاض،اسد بن عمر ،علی بن مسہر،یوسف بن خالد التیمی ،عبد اللہ بن ادریس ،فضل بن موسی ،حفص بن غیاث ،وکیع بن الجراح ،یحییٰ بن سعید القطان ،شعیب بن اسحاق،ابو حفص بن عبد الرحمن ،ابو مطیع بلخی ،خالد بن سلیمان،عبدالحمید،ابو عاصم النبیل،مکی بن ابراہیم،حماد بن دلیل ،ہشام بن یوسف ،یحییٰ بن ابی زائدہ وغیر ہ شامل ہیں ،(بحوالہ طہارت و نماز کے مسائل)
امام اعظم نے فقہ اسلامی کے مختلف ابواب و مباحث کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور فقہ اکیڈمی کے قیام کے لیے نہایت کام یابی سے ان علوم کے ماہرین کو جمع کیا اور سالہاسال ان کی سر پرستی فرماتے رہے ،مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمید اللہ ”امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی“کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :فقہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہے اور قانون کے ماخذوں میں قانون کے علاوہ لغت ،صرف و نحو،تاریخ وغیرہ ہی نہیں، حیوانات ،نباتات،بلکہ کیمیا کی بھی ضرورت پڑتی ہے ،قبلہ معلوم کرنا جغرافیہ طبعی پر موقوف ہے ،نماز اور افطار اور سحری کے اوقات علم ہیئت وغیرہ کے دقیق مسائل پر مبنی ہے ،رمضان کے لیے روٴیت ہلال کو اہمیت ہے اور باد ل وغیرہ کے باعث ایک جگہ چاند نظر نہ آئے تو کتنے فاصلے سے رویت اطراف پر موٴثر ہوگی وغیرہ وغیرہ مسائل کی طرف اشارہ سے اندازہ ہوگا کہ نماز روزہ جیسے خالص عباداتی مسائل میں بھی علوم طبعیہ سے کس طرح قدم قدم پر مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے ،کاروبار ،تجارت ،معاہدات، آب پاشی، صرافہ ،بنک کاری وغیرہ کے سلسلے میں قانون سازی میں کتنے علوم کے ماہروں کی ضرورت ہوگی !!امام اعظم ابو حنیفہ ہر علم کے ماہروں کو ہم بزم کرنے اور اسلامی قانون کو ان سب کے تعاون سے مرتب و مدون کرنے کی کوشش میں عمر بھر لگے رہے اور بہت حد تک کام یاب ہوئے (امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی)
امام ابو حنیفہ کی اس فقہ اکیڈمی میں جو ممتاز فقہاء قرآن سنت کی روشنی میں مسائل جدیدہ کو حل کرتے تھے ان کا علمی پایہ نہایت بلندتھا، بلکہ یہ سب اپنے اپنے فن میں ماہر تھے ،ان میں حدیث کے حافظ بھی تھے ،قیاس کے ماہرین بھی ،عربی زبان پر مکمل دسترس رکھنے والے بھی تھے ،مولانا عبدالحی فرنگی محلی امام صاحب کے تلامذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کے درس میں شریک ہو کر فیض پانے والے تلامذہ اپنے زمانے کے مجتہدین میں سے تھے ،ابو یوسف اخبار اور زبان کے ماہر تھے ،امام محمد کو فقہ ،اعراب اور بیان میں فوقیت حاصل تھی ،امام زفرقیاس میں ممتاز تھے ،حسن بن زیاد سوال اور مسائل اور مسائل کی تفریع میں بلند درجہ رکھتے تھے،عبداللہ بن مبارک اپنی اصابت رائے سے مشہور تھے ،زاہد مفسر وکیع بن الجراح اور ذکی و فطین حفص بن غیاث لوگو ں کے درمیان فیصلہ میں مہارت رکھتے تھے ،یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کا مقام احادیث کو جمع کرنے اور فروع کو محفوظ کرنے کے اعتبار سے بلند تھا۔(بحوالہ ترجمان السنة ج 1ص212)یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت وکیع بن الجراح کے سامنے کسی شخص نے کہا کہ امام اعظم نے اس مسئلہ میں غلطی کی ہے ،یہ سن کر حضرت وکیع نے کہا ابو حنیفہ کیسے غلطی کر سکتے ہیں ،جب کہ ان کے ساتھ ابو یوسف اور زفر جیسے قیاس کے ماہر،یحییٰ بن ابی زائدہ،حفص بن غیاث، حبان اور مندل جیسے حفاظ حدیث اور قاسم بن معن جیسے لغت کے جاننے والے، داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسے زاہد و متقی شامل ہوں ؟!اگر وہ غلطی کرتے تو کیا یہ لوگ ان کی اصلاح نہیں کریں گے؟ (معجم المصنفین ص52)
مسائل میں بحث وتحقیق:
مشہور محدث امام ا عمش مجلس کے حالات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس مجلس کے سامنے کوئی مسئلہ آتا ہے تو حاضرین اس مسئلہ کو اس قدر گردش دیتے ہیں اور الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ بالآخر اس کا حل روشن ہو جاتا ہے ۔(مناقب امام ابو حنیفہ 3-2)
اسد بن عمر بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب کی مجلس میں پہلے ایک مسئلہ کے مختلف جوابات دیے جاتے، پھر جس کا جواب سب سے زیادہ محقق ہوتا آپ اس کی توثیق کرتے اور ہمت افزائی کرتے اور وہ جواب دیوان میں لکھ لیا جاتا۔(نصب الرایہ مقدمہ ج1 ص23)
سیرت ائمہ اربعہ میں ہے کہ تدوین فقہ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی بات کا مسئلہ پیش کیا جاتا، اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق ہوتے تو اسی وقت قلم بند کر لیا جاتا اور نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں، کبھی کبھی عرصہ دراز تک مباحثہ چلتا رہتا ۔امام اعظم ابو حنیفہ بہت غور و تحمل کے ساتھ سب کی تقریریں سنتے اور آخر میں ایسا فیصلہ فرماتے کہ سب کو تسلیم کرناپڑتا ۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ امام اعظم کے فیصلہ کے بعد بھی لوگ اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے ۔اس وقت تمام مختلف فیہ اقوال قلم بند کر لیے جاتے اور اس بات کا خاص التزام کیا جاتا کہ جب تک تمام حضرات شریک نہ ہوتے کسی مسئلہ کو طے نہ کیا جاتا ۔تمام شرکائے مجلس حاضر ہو جاتے اور اتفاق کر لیتے تب وہ مسئلہ تحریر کیا جاتا اس طرح تیس سال کے عرصہ میں یہ عظیم الشان کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔
امام اعظم ابو حنیفہ کی مجلس اجتہاد میں بعض اہم عصری موضوعات زیر تحقیق لائے گئے ،امام اعظم ابو حنیفہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب الفرائض اور کتاب الشروط وضع کیے ،قانون بین الممالک جو تاریخ کا حصہ سمجھا جاتا تھا اس کو تاریخ سے الگ کر کے مستقل فقہی چیز قرار دیا گیا اور کتاب السیر مرتب ہوئی، جس میں صلح اور جنگ کے قوانین مدون ہوئے ،اس طرح ایک ضخیم مجموعہ قوانین تیار ہوا ،جو متعدد کتب کی شکل میں اس دور میں موجود رہا،بعد میں اسے امام محمد نے مزید منقح کر کے مدون کیا اور یہی مجموعہ فقہ حنفی کی اساسی کتب ہیں۔ (تدوین فقہ اور امام ابو حنیفہ کی خدمات)
فقہ اکیڈمی میں اجتہاد کا طریقہ کار:
ان اقوال سے ثابت ہوا کہ امام صاحب کی فقہ اکیڈمی میں جدید مسائل کا حل پہلے قرآن وسنت میں تلاش کیا جاتاہے؛کیوں کہ یہ دونوں اصل الاصول ہیں اور دین کا سرچشمہ ہیں، جس سے کسی عقل مند کو انکار نہیں،پھر صحابہ کے اقوال یا قضایا سے استدلال کیا جاتا، صحابہ جس بات پر متفق ہوں امام صاحب اس پر عمل کرتے ہیں اور اگر صحابہ میں اختلاف پایا جائے تو علت مشترکہ کی بنیاد پر ایک صورت کو دوسری صورت پر قیاس کرتے۔
حل شدہ مسائل کی تعداد:
حنفی فقہ اکیڈمی کا قیام120ھ میں ہوا اور150ھ تک قائم رہی، ان تیس سالوں کی جہد مسلسل کے بعد ایک ایسا مجموعہ تیار کیا گیا جس کی تعداد کے بارے میں تذکرہ نگاروں کے مختلف اقوال ملتے ہیں،چناں چہ علامہ خوارزمینے ان کی تعداد تراسی(83)ہزار لکھی ہے، جن میں اڑتیس کا تعلق عبادات سے ہے اور باقی کا معاملات سے،جب کہ بعض حضرات نے چھ لاکھ اور بعض نے بارہ لاکھ سے بھی زیادہ ذکر کیا ہے، مشہور محقق مولانا مناظر احسن گیلانی کا خیال ہے کہ اس تعداد میں ان مسائل کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو امام اعظم کے مقرر کردہ اصول و کلیات کی روشنی میں مستنبط کیے گئے تھے (قاموس الفقہ ج1ص360)اگر تراسی ہزار کو ہی مان لیا جائے تو یہ تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔
بہر حال فقہ حنفی دنیا کی وہ عظیم فقہ ہے جس کی ترتیب وتدوین میں پوری ایک جماعت کا حصہ ہے اور وہ صیقل شدہ ہے ،یعنی حکومت اور کار قضاء اس کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کا حل اس نے پیش کیا ہے اور لوگوں کو جو مختلف طرح کے معاملات پیش آتے ہیں ان میں راہ نمائی کی ہے، تیرہ صدیوں سے وہ تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن ہو چکی ہے، اس لیے بلاخوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی مذہب اور مسلک تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن ہوا ہے اور مضبوط شورائی نظام کے ذریعہ اس کی ترتیب عمل میں آئیہے تو وہ صرف فقہ حنفی ہے ،وہ اب تک زندہ اور پایندہ ہے،دوسری خاص بات یہ بھی ہے کہ امام ابو یوسف،امام محمد اور امام زفراگرچہ خود اپنی جگہ مجتہد مطلق تھے، لیکن ان کے اقوال امام اعظم ابو حنیفہ کے اقوال کے ساتھ ہی کتابوں میں ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا یہ سب مل ملا کر فقہ حنفی ہو گئے ہیں۔جس کی وجہ سے فقہ حنفی کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔
(اتحاد اہل سنت کے زیر اہتمام حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے حوالہ سے ایک سیمینار سے خطاب)
اتحادِ اہل سنت پاکستان شکریہ کی مستحق ہے کہ وقتاً فوقتاً حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کی یاد میں ایسی محافل کا انعقاد کرتی رہتی ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے اس عظیم محسن کو ایک بار پھر یاد کر لیتے ہیں جو ماضی میں تو ہمارا محسن تھا ہی، ہمارا مستقبل بھی اسی کے انتظار میں ہے۔ گزشتہ بارہ سو سال سے تو اس نے علم و حکمت کی دنیا میں حکمرانی کی ہے، لیکن مستقبل کا فکری تناظر اور علمی تناظر بھی اسی کی طرف دیکھ رہا ہے کہ آنے والے دور کے تقاضے اور آنے والے دور کی ضروریات اسی راستے سے پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں جس راستے سے امام ابو حنیفہؒ نے اس کام کا آغاز کیا تھا۔ ان کا کام جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ان کے خدام ہر دور میں علم کی، دین کی اور فقہ کی خدمت کرتے آرہے ہیں، آج بھی کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز قیامت تک کرتے رہیں گے۔ مجھے آج گفتگو کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ فقہ حنفی کی امتیازی خصوصیات پر میں نے کچھ باتیں آپ سے کہنی ہیں۔ لمبی گفتگو کا موقع نہیں ہے اس لیے مختصرًا کچھ عرض کروں گا۔
فقہ حنفی کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عالم اسلام کی پہلی باقاعدہ فقہ ہے۔ امام صاحبؒ سے پہلے بھی تفقہ کے مختلف دائرے رہے ہیں لیکن اس تفقہ کی بنیاد پر کسی باقاعدہ فقہ کی تشکیل سب سے پہلے امام صاحبؒ نے کی۔ فقہ حنفی کی اولین امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عالم اسلام کی پہلی باضابطہ مدون فقہ ہے۔ اس کا اعتراف مؤرخین و محدثین نے کسی تأمل کے بغیر کیا ہے۔ ہمارے علمی ماضی کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کے امتیازات کا اور ایک دوسرے کی خصوصیات کا اعتراف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ امام جلال الدین سیوطیؒ شافعی مسلک کے بزرگ ہیں اور بڑے پکے شافعی ہیں لیکن امام اعظم ابو حنیفہؒ کی عظمت کے اعتراف میں انہوں نے کتاب لکھی ہے جس میں اعتراف کیا ہے کہ
اس عمل کو ہم فقہ بھی کہتے ہیں، تفقہ بھی کہتے ہیں اور تدوینِ فقہ بھی کہتے ہیں لیکن آج کی اصطلاح میں اسے قانون سازی کہا جاتا ہے۔ قانون سازی کسے کہتے ہیں؟ جسے ابتدائی دور میں ’’فقۂ فرضی‘‘ کہا جاتا تھا اور جس سے بہت سے اہل علم نے بعض تحفظات کے باعث گریز کیا۔ ایسے اہل علم صحابہ کرامؓ میں بھی تھے اور تابعین میں بھی جن کو فقۂ فرضی سے تحفظات تھے اور وہ کہا کرتے تھے کہ جب تک کوئی مسئلہ پیش نہ آئے اس کے بارے میں تردد اور تحقیق مت کرو۔ جب کوئی معاملہ پیش آجائے تو پھر اس کے بارے میں جستجو کرو۔ لیکن تحفظات کا دائرہ الگ ہوتا ہے اور ضروریات کا دائرہ الگ ہوتا ہے۔ تحفظات کی دنیا یہ ہوتی ہے کہ اس کام سے بھی بچنا چاہیے، اس کام سے گریز کرنا چاہیے، فلاں معاملے میں بھی نہیں پڑنا چاہیے وغیرہ۔ لیکن جب ضروریات پیش آتی ہیں تو ان کا دائرہ اس سے مختلف ہوتا ہے کہ فلاں ضرورت بھی پوری کرنی ہے اور فلاں ضرورت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھنا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ تحفظات اور ضروریات کے درمیان ہر زمانے میں کشمکش رہی ہے۔ یہ کشمکش تابعین کے زمانے سے شروع ہوئی ہے، آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گی۔ تحفظات اور ضروریات دونوں لازمی ہیں۔ میں تحفظات اور ضروریات کو گاڑی کے دو پہیوں سے تعبیر کیا کرتا ہوں کہ تحفظات کا دائرہ بھی چھوڑا نہیں جا سکتا اور ضروریات کے دائرے سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان دونوں کے درمیان توازن قائم کرنے کا نام علم الفقہ ہے۔ جس طرح گاڑی کے پہیوں کی وہیل بیلسنگ کی جاتی ہے، معائنہ کر کے ان کے درمیان توازن قائم رکھا جاتا ہے کہ اگر ان کے درمیان یہ بیلنس نہ ہو تو گاڑی کسی ایک طرف کو لڑھکنے لگتی ہے۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ امام ابو حنیفہؒ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فقہ فرضی کی طرف، یا قانون سازی کی طرف ، یا اس وقت تک پیش نہ آنے والے مسائل کے پیشگی حل کی طرف ایک ادارے کی شکل میں پیش رفت کی اور دنیا کو بتایا کہ یہ امت کی ضرورت ہے اور ضروریات کو زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا۔ امام صاحبؒ نے ایسی پیش رفت کی کہ آج تک عالم اسلام کے فقہ و قانون کی بنیاد اسی پیش رفت پر ہے۔ آج بھی قانون سازی کے لیے جب ضرورت پیش آتی ہے تو ابتداء وہیں سے ہوتی ہے کہ اس معاملے میں زیرو پوائنٹ امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے۔ یہ فقہ حنفی کا امتیاز ہے کہ قانون سازی کا آغاز فقہ حنفی نے کیا اور دستور سازی کا آغاز بھی فقہ حنفی نے کیا۔ قانون سازی یہ کہ امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں پینتیس سے چالیس کے قریب علماء بیٹھتے تھے جو اپنے اپنے فن کے ماہرین تھے۔ وہ مسائل پر بحث کرتے تھے جس میں اختلاف بھی ہوتا تھا، اتفاق بھی ہوتا تھا اور نتیجے میں ایک قانون تشکیل پاتا تھا۔ لیکن دستور سازی کا آغاز کہاں سے ہوا؟ پہلا باقاعدہ تحریری دستور ہارون الرشید کے کہنے پر امام ابو یوسفؒ نے تحریر کیا۔ حکومتِ وقت نے ، امیر المؤمنین ہارون الرشید نے قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس امام ابو یوسفؒ سے درخواست کی کہ آپ تحریری طور پر مجھے کوئی ایسا ضابطہ مرتب کر دیں جس کے مطابق میں نظام چلاؤں۔ امام ابو یوسفؒ نے اس پر ایک کتاب لکھی جسے ہم ’’کتاب الخراج‘‘ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔ یہ ’الخراج‘ ملک کا نظام چلانے کا دستور تھا۔ اس میں زیادہ تر معاشیات کے مسائل ہیں لیکن یہ اجتماعی طور پر ایک دستوری ڈھانچہ تھا جو سب سے پہلے خلیفہ ہارون الرشید کے کہنے پر امام ابو یوسفؒ نے لکھا اور یہ دستور نافذ رہا۔ چنانچہ پہلا امتیاز یہ ہے کہ عالم اسلام میں قانون سازی کا آغاز بھی فقہ حنفی نے کیا اور دستور سازی کا بھی آغاز فقہ حنفی نے کیا۔ پہلا مدوّن قانون امام صاحبؒ اور ان کے شاگردوں نے پیش کیا جبکہ پہلا مدون معاشی دستور امام صاحب کے شاگرد امام ابو یوسفؒ نے پیش کیا۔
فقہ حنفی کی سب سے بڑی اور سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ شورائی فقہ ہے۔ مسئلہ مجلس میں پیش ہوتا تھا اور اس پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا جس کے بعد ایک نتیجے پر پہنچتے تھے۔ اگر نتیجے تک پہنچتے تھے تو متفقہ فیصلہ لکھا جاتا تھا اور اگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تھے تو اختلافی اراء لکھی جاتی تھیں کہ فلاں کی رائے یہ ہے اور فلاں کی رائے یہ ہے۔ پھر امام محمدؒ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اس مجلس کے اور اس شورائی نظام کے نتائج کو مرتب کیا۔ امام صاحبؒ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شخصی رائے پر فقہ کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ اپنی مجلس کی اجتماعی رائے پر فقہ مرتب کی۔ مشاورت ، بحث و مباحثہ ، مجلس میں بات پیش ہونا، اس کا تجزیہ کرنا، اس کے اتفاق یا اختلاف کے مراحل سے گزرنا یہ فقہ حنفی کا مزاج ہے اور اس کا خمیر اسی پر ہے۔ میں اس پر ایک واقعاتی تناظر پیش کرنا چاہوں گا کہ حنفی فقہ میں اور دوسری فقہوں میں امتیاز کیا ہے۔
حضرت امام مالکؒ ہمارے سروں کے تاج ہیں، امام اہل سنت ہیں، امام دار الھجرہ ہیں، امام مدینہ ہیں اور امت کے اساطین میں سے ہیں۔ امام مالکؒ امام ابوحنیفہؒ کے معاصر ہیں۔ امام صاحبؒ مقدم ہیں اور وہ متاخر ہیں لیکن معاصر ہیں۔ فقہ حنفی بھی اسی دور میں وجود میں آئی اور کوئی دس بیس سال کے فرق سے فقہ مالکی بھی اسی دور میں وجود میں آئی۔ فقہ کی ترتیب میں امام صاحبؒ کو تقدم حاصل ہے جبکہ دوسرا نمبر امام مالکؒ کا ہے۔ امام مالکؒ بھی مجلس میں بیٹھتے تھے اور یہ سینکڑوں علماء کی مجلس ہوتی تھی۔ لیکن امام ابو حنیفہؒ کی اور امام مالکؒ کی مجلسوں میں فرق کیا تھا؟ امام مالکؒ کی اپنی ہیبت تھی، اپنا جلال تھا، کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور کوئی مجلس میں چوں بھی نہیں کر سکتا تھا، ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ امام مالکؒ تشریف لاتے تھے تو مجلس میں سناٹا طاری ہو جاتا تھا اور جب کوئی شخص روایت پڑھتا تھا تو اگر امام صاحب کو کوئی تبصرہ کرنا ہوتا تھا وہ کرتے تھے اور اگر تبصرہ نہیں کرنا ہوتا تھا خاموش رہتے تھے، کسی کو سوال کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ امام صاحبؒ کی مرضی ہوتی تو وہ وضاحت فرماتے ورنہ اگلی روایت پر چلے جاتے۔ قاضی عیاضؒ نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ ایک موقع پر ایک شاگرد کو شوق آگیا، شاگرد بھی معمولی نہیں تھے، ہشام ابن عمارؒ تھے۔ یہ امام شام تھے، امام دمشق تھے اور اپنے وقت کے بڑے محدث تھے۔ ان کو یہ شوق آیا کہ آج خود پڑھنے کی بجائے استاد سے روایت سننی چاہیے۔ حضرت امام مالکؒ تشریف لائے اور بیٹھے، مجلس جمی، حسب معمول کہا کہ پڑھو بھئی۔ اس دن ہشام کی باری تھی انہوں نے کہاکہ استاد جی آج آپ پڑھیں۔ امام مالکؒ نے غصے سے کہا
اس واقعہ سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کی مجلسوں کے مناظر دکھانا چاہتا تھا کہ ان دونوں کے مزاج میں کیا فرق تھا۔ ایک منظر تو میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ دوسرا منظر مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی مجلس تھی، مسائل پیش ہو رہے تھے اور ان پر بحث ہو رہی تھی۔ جاحظ مشہور نحوی ہیں وہ بھی آکر مجلس میں بیٹھ گئے کہ دیکھتا ہوں یہاں کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ تو کھلی بحثیں کر رہے ہیں ایک دوسرے کا لحاظ ہی نہیں کر رہے۔ اتنے میں کوئی مسئلہ پیش ہوا جس کے متعلق امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ اس بارے میں میری رائے یہ ہے۔ اس پر ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہا
امام صاحبؒ کی مجلس میں تو یہاں تک ہوتا تھا کہ کسی مسئلہ پر اگر آخر وقت تک اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اختلافی نوٹ لکھوائے جاتے تھے۔ اگر کسی مسئلے پر بحث و مباحثہ کے بعد باہمی اتفاق نہیں ہوا تو امام زفرؒ ، امام حسنؒ ، امام محمدؒ نے اس مسئلے کے تحت اپنی رائے الگ لکھوائی کہ مجلس کا فیصلہ الگ لکھیں اور میری رائے الگ لکھیں۔ پھر یہ باقاعدہ لکھا جاتا کہ فلاں مسئلے میں مجلس کی رائے یہ تھی جبکہ امام زفرؒ کی رائے یہ تھی۔ فلاں مسئلے میں مجلس کی رائے یہ تھی جبکہ امام حسنؒ کی رائے یہ تھی۔ چنانچہ میں فقہ حنفی کا دوسرا امتیاز یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ شخصی نہیں ہے بلکہ شورائی فقہ ہے۔
فقہ حنفی کا تیسرا بڑا امتیاز روایت و درایت میں توازن یعنی وحی اور عقل سے اپنے اپنے موقع پر صحیح استفادہ ہے۔ ہماری بنیاد وحی پر ہے لیکن عقل سے انکار بھی نہیں ہے بلکہ ایک معاون کے طور پر عقل کا صحیح استعمال خود دین کا تقاضہ ہے جس کا اہتمام احناف کے ہاں سب سے بہتر پایا جاتا ہے۔ اس دور میں اصحابِ ظاہر کی بنیاد محض روایت پر تھی جبکہ معتزلہ نے عقل و درایت کو ہی معیار قرار دے دیا تھا۔ اس دور میں جبکہ روایت اور درایت کے جھگڑے کا آغاز ہو رہا تھا اور یہ جھگڑا ایک طوفان بن گیا تھا۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ابو حنیفہؒ نے سب سے بڑا کارنامہ یہ کیا کہ روایت اور درایت کے اس طوفانی جھگڑے میں ان دونوں کے درمیان اعتدال و توازن کا موقف قائم کیا۔ امام صاحبؒ نے اعتدال کے ساتھ روایت اور درایت کا رشتہ جوڑ کر دنیا کو یہ بتایا کہ روایت تو ہماری بنیاد ہے ہی لیکن درایت بھی ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ بات وہی صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے جس کی اس دور کی تاریخ پر نظر ہے کہ روایت اور درایت کے جھگڑے نے کیا طوفان بپا کر دیا تھا۔ اسباب کی دنیا میں اگر امام ابو حنیفہؒ روایت اور درایت کے درمیان توازن اور اعتدال کا جھنڈا لے کر نہ کھڑے ہوتے تو خدا جانے یہ طوفان کہاں سے کہاں نکل جاتا۔ امام صاحبؒ نے یہ بتایا کہ روایت کا دائرہ یہ ہے اور درایت کا دائرہ یہ ہے۔ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ روایت کو درایت کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے اور درایت بغیر روایت کے گمراہی ہے۔ اس کا خلاصہ عرض کرنا چاہوں گا کہ روایت کو سمجھنے کے لیے درایت ضروری ہے جبکہ نری درایت جو روایت کے بغیر ہو یہ گمراہی ہے۔ یہی امام صاحبؒ کی فکر کا خلاصہ ہے کہ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ عقل اور وحی کے درمیان رشتہ کیا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ امام صاحبؒ کی فقہ کو عروج اس لیے حاصل ہوا کہ یہ اقتدار میں تھی۔ یعنی اقتدار فقہ حنفی کی ترقی و عروج کا باعث ہے۔ عباسی دور میں بھی فقہ حنفی حکمران رہی ہے، عثمانی دور میں بھی رہی ہے، ہمارے ہاں مغلوں میں بھی یہی فقہ رائج رہی ہے۔ لیکن میں تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ فقہ حنفی کو عروج اقتدار کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ بلکہ فقہ حنفی کو اقتدار اس کی خصوصیات کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ فقہ حنفی کو اقتدار اس لیے ملا کہ اس کے علاوہ نظامِ حکومت کے لیے کوئی فقہ عملی اور معاشرتی نہیں ہے۔ نظری بحثیں اور چیز ہیں، علمی مباحث کا دائرہ مختلف ہوتا ہے، لیکن سوسائٹی کے لیے ایک پریکٹیکل سسٹم دینا یہ ابوحنیفہؒ کا کمال ہے۔ معاشرے کی ضروریات کو سمجھنا، نفسیات کو سمجھنا اور سماج کی ضروریات کو سامنے رکھ کر دینی روایات کے ساتھ تعلق قائم رکھتے ہوئے اس کا حل پیش کرنا یہ فقۂ حنفی کا کمال ہے۔ میں کوئی مزید بات کہے بغیر اس پر اپنی بات سمیٹنا چاہوں گا کہ سماج، روایت اور درایت، ان میں امتزاج قائم کرنے کی جو صلاحیت فقۂ حنفی میں ہے اور کسی فقہ میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہمیں محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
No comments:
Post a Comment