Sunday, 17 June 2012

بشارتِ مقامِ امام ابوحنیفہؒ قرآن، حدیث اور علماءِ سلف سے


حافظ ابن کثیر شافعیؒ(م774ھ) نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے بارے میں فرمایا ہے:

وہ امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ کوفی ہیں ، عراق کے فقیہ ، ائمہ اسلام میں سے ایک ہیں ، عظیم سرداروں میں سے ایک ہیں ، ارکانِ علماء میں سے ہیں ، صاحبِ مذاہبِ متبوعہ کے چار اماموں میں سے ایک ہیں ، طویل حیات پائی ، اس لیے انہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا اور حضرت انس بن مالکؓ کو دیکها اور حضرات نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے(مزید) سات صحابہ سے بھی روایت کی ہے. ۔۔۔ امام صاحب کی وفات 150 ہجری میں ہوئی۔
[البدایہ والنہایہ(امام)ابن کثیر: ج13 ص 415 دار هجر]
[ج10/ ص114 دار إحياء التراث]
[ج10/ ص107 دار الفكر]




























===========
امام ابوحنیفہؒ(م150ھ) کیلئے پیشگوئی:


شیخ جلال الدین سیوطیؒ الشافعی(م911ھ) وغیرہ نے [ابو حنیفہؒ کے فضائل-و مناقب پر اپنی کتاب"التبييض الصحيفه في مناقب الإمام أبي حنيفه"میں] تسلیم کیا ہے کہ اس پیشین گوئی کے بڑے مصداق حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ النعمان ہیں۔یہ کتاب اردو میں بنام "امام ابوحنیفہؒ کے حالات، کمالات اور ملفوظات" فری ڈاؤن لوڈ کریں یا آن لائن پڑھیں۔

القرآن:
(1) ... اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے.
[سوره محمّد:38]



(2) ۔۔۔ اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں سے) نہیں ملے...
[سورۃ الجمعہ:3]


تفسیرِ نبوی:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! وہ دوسرے لوگ کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت سلیمان فارسیؓ پرہاتھ رکھ کر فرمایا: اس کی قوم ۔۔۔ خدا کی قسم! اگر دین/ایمان(علم) ثُریا پر جا پہنچے تو بھی فارس کے لوگ یا ان میں ایک شخص وہاں سے اس کو اتار لائیں گے۔
[صحیح البخاری:4897، صحیح مسلم:2546، الجامع معمر بن راشد:19923، شرح السنة للبغوی:3999]


ائمہ ومحدثین کے نزدیک اس سے مراد امام ابوحنیفہؒ ہیں:

1) امامِ حرم ابنِ حجر مکیؒ شافعی-الخیرات الحسان:1/24، دار الکتب العلمیہ، بیروت
2) امام جلال الدین سیوطیؒ شافعی-تبییض الصحیفہ:1/31، دار الکتب العلمیہ، بیروت
3) نواب صدیق حسن بھوپالی غیرمقلد - اتحاف النبلاء:1/224






الحمد للہ، صحابہ رضوان اللہ عنہم نے اس بینظیر ایثار اور جوشِ ایمانی کا ثبوت دیا کہ ان کی جگہ دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم فارس والوں نے اسلام میں داخل ہو کر علمِ دین اور ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی زبردست دینی خدمات انجام دیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص کو ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بیشک حضور ﷺ کی پیشین گوئی کے موافق یہ ہی قوم تھی جو بوقتِ ضرورت عرب کی جگہ پر کر سکتی تھی۔ ہزارہا علماء و آئمہ سے قطع نظر کر کے تنہا امام اعظم ابو حنیفہؒ کا وجود ہی اس پیشین گوئی کے صدق پر کافی شہادت ہے۔ بلکہ اس بشارت عظمیٰ کا کامل اور اولین مصداق امام صاحب ہی ہیں۔

فضیلتِ تابعیت:

کوئی بڑے سے بڑا تبع تابعی بھی ادنیٰ تابعی کے برابر "قطعی"(قرآن وسنت کی صراحت) فضیلت نہیں رکھتا چہ جائیکہ تبع تابعی۔
حوالہ:

فضیلتِ صحابہ و تابعین

القرآن:
وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ۔
[سورۃ التوبۃ:100]

جن لوگوں نے سبقت کی یعنی سب سے پہلے ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ انکی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے انکے لئے باغات تیار کئے ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔









 سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي , أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي "



ایمان کی حالت میں نبیؐ کو دیکھنے والے کو "صحابی" کہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں صحابی کو دیکھنے والے کو "تابعی" کہتے ہیں.




طُوبیٰ (جنت کا درخت/خوشخبری)ہے اس کیلئے جس نے مجھے دیکھا اور طُوبیٰ ہے اس کیلئے جس نے مجھے دیکھنے والے(صحابی)کو دیکھا، ان کیلئے طُوبیٰ ہے اور وہ کیا ہے بہترین ٹھکانہ ہے۔
[الاحادیث المختارۃ:87، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1254]


تم ہمیشہ خیر پر رہوگے جب تک رہے گا تم میں وہ جس نے مجھے دیکھا اور میری صحبت اختیار کی، اور الله کی قسم! تم ہمیشہ خیر پر رہوگے جب تک رہے گا تم میں وہ جس نے مجھے دیکھنے والے کو دیکھا اور میری صحبت والے کی صحبت اختیار کی۔
[مصنف ابن ابي شيبة:32417، سلسلة الأحاديث الصحيحة:3283]








امام ابوحنیفہؒ(م150ھ) کی تابعیت پر ائمہ دین کی گواہیاں:

(1) محمد بن اسحاق (المعروف بابن ندیم المتوفی:380ھ) لکھتے ہیں

وكان تابعين لقي عدة من الصحابة وكان من الورعين الزاهدين.

ترجمہ :
وہ تابعین میں سے تھے اور متعدد صحابہ کرام سے ملاقات کی اور آپ تھے متقین (سچے، راسخ العقیدہ) زاہدین (دنیا اور دنیاداروں سے بےرغبت ہوکر الله ہی پر توکل کرنے والوں) میں سے تھے.
[الفهرست ، لابن نديم: ص # 342]






(2) امام ابن عبد البر المالکیؒ (المتوفی:463ھہ) لکھتے ہیں:

قال أبو عمر : ذكر محمد بن سعد كاتب الوقدى أن أبا حنيفة رأي أنس بن مالك و عبدالله بن الحارث بن جزء.

ترجمہ :
ابو عمر کہتے ہیں : محمد بن سعد کاتب الواقدی فرماتے ہیں کہ : امام ابو حنیفہ نے دیکھا ہے حضرت انس بن مالک اور حضرت عبدالله بن حارث بن جزء (رضی الله عنھما) کو.
[جامع بيان العلم وفضله : ص # 54]





(3) شمس الدین ذہبیؒ الشافعی (المتوفی:748 ھہ) اپنی كتاب [تذکرۃ الحفاظ: ١/١٦٨] میں پانچویں طبقہ کے حفاظِ حدیث میں امام صاحب کا ذکر "ابو حنيفة الإمام الأعظم"  کے عنوان سے کرتے ہیں:
"مولده سنة ثمانين رأي مالك بن أنس غير مرة لما قدم عليهم الكوفة"۔
ترجمہ:
حضرت امامؒ کی پیدائش سنہ ٨٠ھ میں ہوئی، آپؒ نے حضرت انس بن مالکؓ (٩٣ھ) کوجب وہ کوفہ گئے توکئی دفعہ دیکھا۔
[تذكرة الحفاظ : 1/126 ، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة : 3/191]
آگے لکھتے ہیں:
"وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وابي اسحاق وخلق كثير..... وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابوعاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير، وكان اماما ورعا عالماً عاملاً متعبدا کبیر الشان"۔
ترجمہ:
امام ابوحنیفہؒ نے عطاء، نافع، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، سلمہ بن کہیل، ابی جعفر، محمدبن علی، قتادہ، عمرو بن دینار، ابی اسحاق اور بہت سے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے اور ابوحنیفہؒ سے وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت، ابوعاصم، عبدالرزاق، عبیداللہ بن موسیٰ، ابونعیم، ابوعبدالرحمن المقری اور خلق کثیر نے روایت لی ہے اور ابوحنیفہؒ امام تھے اور زاہد پرہیزگار عالم، عامل، متقی اور بڑی شان والے تھے۔






قرآن و حدیث کی فقہ (سمجھ) میں امام صاحب کی عظمت:
حضرت ضرار بن صرد نے کہا، مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) والا امام ثوریؒ ہیں یا امام ابوحنیفہؒ ؟ تو انہوں نے کہا کہ: ابوحنیفہؒ (حدیث میں) افقه (سب سے زیادہ فقیہ) ہیں اور سفیانؒ (ثوری) تو سب سے زیادہ حافظ ہیں حدیث میں.

حضرت عبدللہ بن مبارکؒ نے فرمایا :
امام ابو حنیفہؒ لوگوں میں سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) رکھنے والے تھے.

حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں : ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے عیال (محتاج) ہیں۔“

محدثین کے ذکر میں اسی کتاب میں آگے امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں :
"ان ابا حنیفۃ کان اماما"۔
ترجمہ: بے شک ابوحنیفہؒ (حديث میں) امام تھے۔





















علماءِ حدیث، حدیث کے راویوں/محدثین کے حالات کی تحقیق میں ان سے مروی خبروں (حدیثوں) میں ان کے ثقہ (قابل اعتماد) ہونے یا ضعیف (اعتماد میں کمزور) ہونے یا کذاب و دجال (جھوٹا اور فریبی) ہونے کا حکم دینے میں ان دو اماموں (امام ذہبیؒ اور امام ابن حجرؒ عسقلانی) کی تحقیق کو حجت مانتے ہیں. اور یہ دونوں امام ابو حنیفہؒ کی علم میں امامت، عمل میں زہد و تقویٰ پر علماء سلف کے اقوال کو شھادتاً پیش کرتے ان کی تعدیل کے و ثقاہت ثابت کرتے ہیں.

یہ اور ان جیسے مزید ائمہ کے اقوال امام ابو حنیفہؒ کی علم، عمل اور تقویٰ میں الامام الحافظ الحجة شهاب الدين أبي فضل أحمد بن علي بن الحجر العسقلانيؒ الشافعی (المتوفی ٨٥٢ھ) کی اسماء الرجال پر لکھی مشہور کتاب [تہذیب التهذیب : ١٠ / ٤٤٩-٤٥١] میں بھی مذکور ہیں۔





(4) امام يافعي محدث شافعيؒ (المتوفی:767ھہ) لکھتے ہیں :
رأي أنسا.
[مرآة الجنان وعبرة اليقظان في معرفة ما يعتبر من حوادث الزمان : 4/310]
ترجمہ :
انہوں نے دیکھا حضرت انس (بن مالک رضی الله عنہ) کو.



(5) مفسر قرآن، حافظ الحدیث امام ابن کثیر الشافعیؒ (المتوفی: 774ھہ) لکھتے ہیں :
لانه أدرك عصر الصحابة و رأي أنس بن مالك.
[البداية والنهاية ، لابن كثير : ص # 527]
ترجمہ :
آپ نے صحابہ کا زمانہ پایا اور حضرت انس بن مالک (رضی الله عنہ) کو دیکھا.




(6) شارح صحیح بخاری، حافظ الحدیث امام ابن حجر العسقلانی الشافعیؒ (المتوفی: 852 ھہ) فرماتے ہیں :
رأي أنسا.
یعنی انہوں نے دیکھا حضرت انس (بن مالک رضی الله عنہ) کو.
[تھذیب التھذیب : 6/55]

نوٹ :
حافظ ابن حجرؒ کا امام ابو حنیفہؒ کو طبقہ سادسہ میں شمار کرنا، یہ آپ کا سہو(غلطی) ہے کیونکہ یہاں آپ نے خود ہی اپنے اس نظریہ کی تردید فرمادی. اگر امام ابو حنیفہؒ چھٹے طبقہ میں ہوتے تو حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کو کیسے دیکھ سکتے تھے، لہذا آج کسی کا حافظ ابن حجرؒ کے اس سہو(فراموشی) کو لے کر امام ابو حنیفہؒ کو شرفِ تابعیت سے محروم قرار دینا ، یہ امام صاحب سے تعصب کا نتیجہ ہی ہو سکتا ہے۔




(7) شارح صحیح بخاری، حافظ الحدیث علامہ بدر الدین عینی حنفیؒ (المتوفی: 855ھہ) لکھتے ہیں :
ابن أبي أوفى أسمه عبدالله ... وهو أحد من رأه أبوحنيفة من الصحابة۔
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري : 2/505]

ترجمہ :
(صحابی رسول حضرت) ابن ابی اوفیٰ بنام عبدالله  ... اور وہ ان صحابہ میں سے ایک ہیں جنہیں امام ابوحنیفہ نے دیکھا.

(8) امام ابن العماد حنبلیؒ (المتوفی: 1089ھہ) لکھتے ہیں :
رأي أنسا وغيرة
یعنی آپ نے دیکھا حضرت انس کو اور ان کے علاوہ (صحابہ) کو بھی.
[شذرات الذهب في أخبار من ذهب :1/372]





(9) حافظ المذيؒ نے بیان فرمایا ہے:
کہ امام ابوحنیفہؒ کی ملاقات بہتر (٧٢) صحابہِ کرام سے ہوئی ہے.
[معجم المصنفین : ٢/٢٣]


(10) اہلِ حدیث کے نزدیک بھی امام ابو حنیفہؒ کے امام اور تابعی ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے کتابتِ حدیث کے استدلال کو انہوں نے "تابعین کا عمل" کے فصل میں جلی حرف سے ذکر کیا ہے، دیکھئے :
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ج # ١٢/ ص # ٢٤١ - ٢٤٢؛ دوسرا باب : کتابت احادیث و جمع روایات، فصل سوم: تابعین کا عمل]

القرآن : تِلكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ {2:196} یہ پورے دس ہوئے۔



























امام ابو حنیفہؒ کی تابعیت اور وحدانیات:
وحدانی روایت یعنی وہ حدیث جس میں نبی ﷺ تک امام صاحب کے درمیان "ایک راوی" ہو، یہ مرتبہ ان کے بعد کسی اور محدث کو حاصل نہیں.


(1) (أبو حنيفة قال) وُلِدْتُ سَنَةَ ثَمَانِينَ ، وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي سَنَةَ سِتٍّ وَتِسْعِينَ ، وَأَنَا ابْنُ سِتَّ عَشْرَةَ سَنَةً ، فَلَمَّا دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، وَرَأَيْتُ حَلَقَةً ، فَقُلْتُ لِأَبِي : حَلَقَةُ مَنْ هَذِهِ ؟ فَقَالَ : حَلَقَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَرْثِ بْنِ جَزْءٍ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتَقَدَّمْتُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " مَنْ تَفَقَّهَ فِي دِينِ اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ مَهَمَّهُ وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ " .
ترجمہ:
(امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ) میری پیدائش سن 80 ہجری میں ہوئی ، میں نے 96 ہجری میں جبکہ میری عمر 16 سال تھی ، اپنے والد صاحب کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی ، جب میں مسجد حرام میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ایک بہت بڑا حلقہ دیکھا ، میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ یہ کس کا حلقہ ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء الزبیدیؓ کا حلقہ ہے ، چنانچہ میں آگے بڑھ کر ان کے حلقہ میں شریک ہوگیا ، میں نے انھیں یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص الله کے دین میں فقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کرنے کی راہ پر چل پڑتا ہے ، الله اس کے کاموں میں اس کی کفایت فرماتا ہے ، اور اسے ایسی جگہوں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ گیا ہو.
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من تفقه في دين الله كفاه الله مهمه ورزقه من حيث لا يحتسبعبد الله بن الحارثمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي303أبو حنيفة150
2من تفقه في دين الله كفاه الله ورزقه من حيث لا يحتسبعبد الله بن الحارثمسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم4---أبو حنيفة150
3من تفقه في دين الله رزقه الله من حيث لا يحتسب وكفاه همهعبد الله بن الحارثتاريخ بغداد للخطيب البغدادي8324 : 50الخطيب البغدادي463
4من تفقه في دين الله كفاه الله همه ورزقه من حيث لا يحتسبعبد الله بن الحارثجامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر172216ابن عبد البر القرطبي463








(2) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا وَلَوْ كَمِفْحَصِ قَطَاةٍ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ" .
ترجمہ:
(امام ابو حنیفہؒ) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ کو فرماتے ہوۓ سنا کہ میں نے رسول الله ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ : جو شخص تعمیر مسجد میں حصہ لے ، اگرچہ قطاة (بھڑ، تیتر) پرندے کے گھونسلے کے برابر ہی ہو ، الله تعالیٰ اس کے لئے جنّت میں گھر بنائیں گے۔
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من بنى لله مسجدا ولو كمفحص قطاة بنى الله له بيتا في الجنةعبد الله بن علقمةمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي9013أبو حنيفة150
2من بنى مسجدا ولو كمفحص قطاة بنى الله له بيتا في الجنةعبد الله بن علقمةالتدوين في أخبار قزوين للرافعي305---عبد الكريم الرافعي623






(3) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ عَجْرَدٍ ، تَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَكْثَرُ جُنْدِ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ الْجَرَادُ ، لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ ".
ترجمہ :
(امام ابو حنیفہؒ) فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضرت عائشہ بنت عجرد رضی الله عنہا سے یہ فرماتے کہ فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے : الله کا سب سے بڑا لشکر زمین میں " ٹڈی دل " ہے ، میں اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام قرار دیتا ہوں.
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1أكثر جند الله في الأرض الجراد لا آكله ولا أحرمهموضع إرسالمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي3949أبو حنيفة150
2أكثر جنود الله لا آكله ولا أنهى عنهموضع إرسالمصنف ابن أبي شيبة2398024949ابن ابي شيبة235
3أكثر جنود الله في الأرض الجراد لا آكله ولا أحرمهموضع إرسالجزء محمد بن عبد الله الأنصاري77محمد بن عبد الله الأنصاري215
4أكثر جنود الله في الأرض الجراد لا أحله ولا أنهى عنهموضع إرسالجزء محمد بن عبد الله الأنصاري8890محمد بن عبد الله الأنصاري215






(4) (أبو حنيفة) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا رُزِقْتُ وَلَدًا قَطُّ وَلَا وُلِدَ لِي ، قَالَ : " فَأَيْنَ أَنْتَ مِنْ كَثْرَةِ الِاسْتِغْفَارِ ، وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةِ تُرْزَقُ بِهَا ، قَالَ : فَكَانَ الرَّجُلُ يُكْثِرُ الصَّدَقَةَ وَيُكْثِرُ الِاسْتِغْفَارَ ، قَالَ جَابِرٌ : فَوُلِدَ لَهُ تِسْعَةُ ذُكُورٍ " .
ترجمہ :
امام ابو حنیفہؒ حضرت جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی نبی ﷺ کی خدمات میں آکر کہنے لگا کہ اے الله کے رسول! میرے یہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی، نبی ﷺ نے فرمایا : (تو) تم کثرت استغفار اور صدقہ (و خیرات کرنے) سے کہاں غفلت میں رہے ؟ اس کی برکت سے تمہیں اولاد نصیب ہوگی۔ اس آدمی نے کثرت سے صدقہ دینا اور استغفار کرنا شروع کردیا۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے اس کے ہاں نو (9) لڑکے پیدا ہوۓ۔
تخريج الحديث:
المحدث: ابن عراق الكناني المصدر: تنزيه الشريعة - الصفحة أو الرقم: 2/143
خلاصة حكم : يدل عليه الآيات [النوح : 10-12] والآثار ، وأما بهذا السياق فلم أجده ، وهو من الوحدانيات لابي حنيفة الإمام




(5) (أبو حنيفةعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الدَّالُّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ " .
ترجمہ :
امام ابو حنیفہؒ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہیں کہ فرمایا رسول الله ﷺ نے : نیکی کے کام پر راہنمائی کرنے والا بھی ایسے ہی ہے جیسے نیکی کرنے والا.
الراوي: عبدالله بن أنيس و أبو الدرداء و أبو برزة المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3674
خلاصة حكم المحدث: حسن

الراوي: عبدالله بن أنيس المحدث: السفاريني الحنبلي المصدر: شرح كتاب الشهاب - الصفحة أو الرقم: 305

خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكجامع الترمذي26132670محمد بن عيسى الترمذي256
2الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكالأحاديث المختارة1983---الضياء المقدسي643
3الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكمسند أبي يعلى الموصلي42344296أبو يعلى الموصلي307
4الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر1022981ابن حجر العسقلاني852
5الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة46316968البوصيري840
6الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي46322أبو حنيفة150
7الدال على الخير كفاعله الله يحب إعانة اللهفانأنس بن مالكالمقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء9261041الهيثمي807
8الدال على الخير كفاعله والله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالككشف الأستار18321949نور الدين الهيثمي807
9الدال على الخير كفاعله الدال على الشر كفاعلهأنس بن مالكمعجم أسامي شيوخ أبي بكر الإسماعيلي1231 : 465أبو بكر الإسماعيلي371
10الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكمشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي3031أحمد بن عبد الدائم المقدسي718
11الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكمشيخة ابن جماعة2062 : 481ابن جماعة739
12الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكمعجم الشيوخ لتاج الدين السبكي236---السبكي771
13الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكحديث أبي الفضل الزهري383411الحسن بن علي الجوهري381
14الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكالسداسيات والخماسيات15---الحسن بن مسعود الوزير543
15الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكجزء ابن فيل113---الحسن بن أحمد بن إبراهيم بن فيل البالسي309
16الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكقضاء الحوائج لابن أبي الدنيا2727ابن أبي الدنيا281
17الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكالترغيب في فضائل الأعمال لابن شاهين508508ابن شاهين385
18الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكجامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر4460ابن عبد البر القرطبي463
19الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكالبر والصلة لابن الجوزي340438أبو الفرج ابن الجوزي597
20الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالككتاب العلم46---أبو طاهر السلفي576
21الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكاصطناع المعروف7479ابن أبي الدنيا281






6) (أبو حنيفة) عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ إِغَاثَةَ اللَّهْفَانِ " .

ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ حضرت انسؓ سے رسول الله ﷺ کا یہ ارشاد سننا نقل فرماتے ہیں کہ الله مظلوموں کی مدد کرنے کو پسند کرتا ہے.
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي47029أبو حنيفة150
2إن الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكمعجم شيوخ الابرقوهى64---أحمد بن إسحاق بن محمد الأبرقوهي701
3الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكمكارم الأخلاق للطبراني9595سليمان بن أحمد الطبراني360


7) (أبو حنيفة) قَالَ : وُلِدْتُ سَنَةَ ثَمَانِينَ ، وَقَدِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكُوفَةَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ ، وَرَأَيْتُهُ ، وَسَمِعْتُ مِنْهُ ، وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ " .
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْأَدَبِ ... رقم الحديث: 472]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میری پیدائش 80 ہجری میں ہوئی اور حضرت عبدالله بن انیس رضی الله عنہ جو صحابی رسول ہیں 94 ہجری میں کوفہ تشریف لاۓ طے میں نے اس کی زیارت بھی کی اور ان سے حدیث کی سماعت (سننا) بھی کی ہے ، اور اس وقت میری عمر 14 سال تھی ، انہوں سنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے کہ : کسی چیز کی محبت تمہیں اندھا بھرا کر سکتی ہے.
تخريج الحديث
م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكسنن أبي داود44675130أبو داود السجستاني275
2حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكمسند أحمد بن حنبل2115221185أحمد بن حنبل241
3حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكمسند ابن أبي شيبة4949ابن ابي شيبة235
4حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكالبحر الزخار بمسند البزار 10-13474125أبو بكر البزار292
5حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكمسند الشاميين للطبراني14351454سليمان بن أحمد الطبراني360
6حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن أشقرمسند الشاميين للطبراني14491468سليمان بن أحمد الطبراني360
7حبك الشيء يعمي ويصمعبد الله بن أنيسمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي47231أبو حنيفة150
8حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكمسند الشهاب207219الشهاب القضاعي454
9حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكالمعجم الأوسط للطبراني44924359سليمان بن أحمد الطبراني360
10حبك الشيء يعمي ويصمعثمان بن عفانإسلام زيد بن حارثة وغيره من أحاديث الشيوخ261 : 180تمام بن محمد الرازي414
11حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكأمالي ابن بشران5291 : 228أبو القاسم بن بشران430
12حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكثلاثة مجالس من أمالي أبي عبد الله الروذباري13---أحمد بن عطا الروذباري369
13حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكأمالي ابن بشران ( مجالس أخرى )5111 : 228عبد الملك بن بشران431
14حبك الشيء يعمي ويصمنفير بن مالكأمثال الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني101115أبو الشيخ الأصبهاني369
15حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكشعب الإيمان للبيهقي392411البيهقي458
16حبك الشيء يعمي ويصمموضع إرسالالمعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان8442 : 189يعقوب بن سفيان277
17حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكالكني والأسماء للدولابي716546أبو بشر الدولابي310
18حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر9020---ابن عساكر الدمشقي571
19حبك الشيء يعمي ويصمعبد الله بن أنيستاريخ دمشق لابن عساكر12001---ابن عساكر الدمشقي571
20حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر13795---ابن عساكر الدمشقي571
21حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر1449716 : 186ابن عساكر الدمشقي571
22حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر1449816 : 186ابن عساكر الدمشقي571
23حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر1449916 : 187ابن عساكر الدمشقي571
24حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر14503---ابن عساكر الدمشقي571
25حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر66582---ابن عساكر الدمشقي571
26حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتهذيب الكمال للمزي235---يوسف المزي742
27حبك الشيء يعمي ويصمنضلة بن عبيداعتلال القلوب للخرائطي350369محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي327
28حبك الشيء يعمي ويصمنضلة بن عبيداعتلال القلوب للخرائطي782820محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي327
29حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكذم الهوى لابن الجوزي1436أبو الفرج ابن الجوزي597
30حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكالآداب للبيهقي164229البيهقي458



8) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " لَا تُظْهِرَنَّ شَمَاتَةً لِأَخِيكَ فَيُعَافِيَهُ اللَّهُ وَيَبْتَلِيَكَ ".
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْأَدَبِ ... رقم الحديث: 473]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ  وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ : اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار کبھی نہ کرنا ، ہو سکتا ہے الله تعالیٰ اسے عافیت دیدے اور تمہیں اس (مصیبت) میں مبتلا کردے.
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعجامع الترمذي24432506محمد بن عيسى الترمذي256
2لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند الشاميين للطبراني378384سليمان بن أحمد الطبراني360
3لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند الشاميين للطبراني33173379سليمان بن أحمد الطبراني360
4لا تظهرن شماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي47332أبو حنيفة150
5لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند الشهاب857917الشهاب القضاعي454
6لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند الشهاب858919الشهاب القضاعي454
7لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالمعجم الأوسط للطبراني38653739سليمان بن أحمد الطبراني360
8لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالمعجم الكبير للطبراني17623127سليمان بن أحمد الطبراني360
9لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمعجم ابن الأعرابي15851612ابن الأعرابي340
10لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمشيخة أبي عبد الله الإربلي14---محمد بن إبراهيم بن مسلم الإربلي633
11إذا أصيب أخوك بمصيبة فلا تظهر له الشماتة فيرحمه الله ويبتليك بأشد منهواثلة بن الأسقعحديث أبي الفضل الزهري569602الحسن بن علي الجوهري381
12لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالأربعون في شيوخ الصوفية للماليني931 : 182أحمد بن محمد الماليني412
13لا تظهر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعجزء القاسم بن موسى الأشيب54---القاسم بن موسى الأشيب209
14لا تظهر الشماتة بأخيك يرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالجزء السابع من الفوائد المنتقاة168---أبو الفتح بن أبي الفوارس412
15لا تظهر الشماتة بأخيك فيعافيه ربه ويبتليكواثلة بن الأسقعحديث أبي علي الشعراني82---الحسن بن علي الشعراني330
16لا تظهر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعأمالي ابن بشران ( مجالس أخرى )9861 : 417عبد الملك بن بشران431
17لا تظهرن الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعأمثال الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني175202أبو الشيخ الأصبهاني369
18لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعموضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب6531 : 517الخطيب البغدادي463
19لا تظهر الشماتة بأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعشعب الإيمان للبيهقي62716777البيهقي458
20لا تظهر الشماتة في لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعحلية الأولياء لأبي نعيم69766982أبو نعيم الأصبهاني430
21لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعتاريخ بغداد للخطيب البغدادي298910 : 135الخطيب البغدادي463
22لا تكثر الشماتة بأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالديباج للختلي611 : 105إسحاق بن إبراهيم الختلي283
23لا تظهر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعاعتلال القلوب للخرائطي777813محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي327

===========================

(2) دوسرے یہ کہ محدث سے فقیہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے گا جو ہماری بات (حدیث) سن کر اسے محفوظ (یاد) کرلے اور اسے پھر دوسرے اس شخص تک پہنچادے جس نے اسے براہ راست نہیں سنا کیونکہ بہت سے فقہ (یعنی علمِ حدیث) کے محافظ حقیقتاً فقیہ (یعنی علمِ حدیث کی گہری سمجھ رکھنے والے) نہیں ہوتے اور بہت سے فقیہ (علمِ حدیث کی فقہ رکھنے والے) تو ہیں لیکن جن کی طرف (یہ فقہ) منتقل کر رہے ہیں وہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں۔
[ابن ماجہ:230، ابوداؤد:3660]



حضرت امام ابوحنیفہؒ وہ جلیل القدر اورعظیم المرتبت ہستی ہیں،جن کی جلالت شان، امامت وفقاہت، اور فضل وکمال کو بڑے بڑے اساطین علم وفضل اور کبار فقہاء ومحدثین نے تسلیم کیا ہے۔ ہم تبرکا چند اکابر ائمہ کے اقول ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو اندازہ ہو سکے کہ اکابر علماء امت جس ہستی کے بارے میں يہ رائے رکھتے ہیں اس ہستی کے ساتھ لا مذہب غیر مقلدین کا کیا رويہ ہے۔





امام شافعی فرماتے ہیں، الله ان سے راضی ہو : امام مالک رحمہ الله سے پوچھا گیا : کیا آپ نے امام ابوحنیفہؒ کو دیکھا ہے؟ تو فرمایا : ہاں ، (اور ایک ستون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) میں نے انہیں ایسا شخص پایا کہ اگر وہ اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہتے تو اپنے علم کے زور پر وہ ایسا کر سکتے تھے ۔“

حضرت امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے خوشہ چین ہیں۔“
امام یحییٰ بن معین رحمہ الله نے فرمایا : قرأت میرے نزدیک حمزہ کی قرأت ہے، اور فقیہ (میرے نزدیک) امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے. [وفیات الاعیان لابن خلکان : ٥/٤٠٩]






حضرت عبد الله بن مبارک رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام مالک رحمہ الله کی خدمت میں حاضر تھا کہ ايک بزرگ آئے،جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو حضرت امام مالک رحمہ الله نے فرمایا جاتنے ہو يہ کون تھے؟ حاضرین نے عرض کیا کہ نہیں (اور میں انہیں پہچان چکا تھا) فرمانے لگے۔”يہ ابوحنیفہؒ ہیں عراق کے رہنے والے، اگر يہ کہہ دیں کہ یہ ستون سونے کا ہے تو ویسا ہی نکل آئے انہیں فقہ میں ایسی توفیق دی گئی ہے کہ اس فن میں انہیں ذرا مشقت نہیں ہوتی“۔
(حسین بن علی الصیمری: المحدث ۔ اخبار ابی حنیفة و اصحاب ص74)

امام عبداللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے:
"ولا تقولو رأیُ ابی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ولکن قولوا انہ تفسیر الحدیث“
(ذیل الجواہر المضیة، ج: 2،ص: 460 ؛ مناقب موفق ابن احمد مکی ج2 ص 51 )
یعنی لوگو یہ نہ کہا کرو کہ یہ ابوحنیفہ رحمة الله عليه کی رائے ہے بلکہ یوں کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر وبیان ہے۔

ایک دوسرے موقع پر انہی امام المحدثین عبداللہ بن مبارک رحمة الله عليه نے امام صاحب رحمة الله عليه کی اصابت رائے اوراس کی ضرورت واہمیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
”ان کان الاثر قد عرف واحتیج الی الرأی، فرأی مالک، وسفیان، وابی حنیفة، وابوحنیفة احسنہم وادقہم فطنة واغوصہم علی الفقہ، وہو افقہ الثلاثة“
[تاریخ بغداد للخطیب، ج:۱۳،ص:۳۴۳]
یعنی اگر حدیث معلوم ومعروف ہو اور (اس کی مراد کی تعیین میں) رائے کی ضرورت ہوتو امام مالک، امام سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہؒ کی رائے (ملحوظ رکھنی چاہیے) اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه ان تینوں میں فہم وادراک میں زیادہ بہتر اور فقہ کی تہہ تک زیادہ پہنچنے والے تھے۔

حضرت امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ الله اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے خوشہ چین ہیں۔“حضرت امام شافعی رحمہ الله يہ بھی فرماتے ہیں ”میں نے ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا





دین کی پہچان اور امام ابوحنیفہؒ

مکہ کے مفتی اور تابعی امام  حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کے ساتھ امام ابوحنیفہؒ کا واقعہ:
اور حکایت نقل کی ہے علامہ ابن بطالؒ نے ((شرح بخاری)) میں امام ابوحنیفہؒ سے : انہوں نے فرمایا : "میں نے ملاقات کی حضرت عطاء بن ابی رباحؒ سے مکہ میں ، پس میں نے سوال کیا ان سے کسی شیء کے بارے میں؟ تو انہوں نے فرمایا: تُم کہاں سے ہو؟ میں نے کہا: کوفہ والوں سے. فرمایا: تم اس شہر سے ہو...جنہوں نے تفرقہ(علیحدگی) اختیار کی اپنے دین سے اور ہوگئے شیعہ (الگ گروہ)؟﴿سورۃ الانعام:159﴾ میں نے کہا: جی ہاں. آپ نے فرمایا: تو تم کس قسم کے لوگوں میں سے ہو؟ میں نے کہا: ان لوگوں میں سے...(1)جو نہیں برا کہتے سلف یعنی گزرے ہوۓ نیک بزرگوں-صحابہ کو، (2)اور جو ایمان رکھتے ہیں تقدیر پر، (3)اور جو نہیں کافر کہتے کسی ایک کو بھی اس کے گناہ کے سبب. تو حضرت عطاء نے فرمایا: تو نے خوب پہچان لیا (دین کو) پس اب اسے لازم پکڑنا". (یعنی اسی پر قائم رہنا)
تخریج :
١) حلية الأولياء ، لابي نعيم : ٣/٣١٤
٢) مناقب الإمام أبي حنيفة ، لامام ألكردري : ٧٦
٣) العقد الثمين ، للفاسي : ٦/٩١.




حضرت ابوبکر مروزی رحمہ الله فرماتے ہیں ، میں نے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ الله کو يہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہمارے نزديک يہ بات ثابت نہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ الله نے قرآن کو مخلوق کہا ہے۔“ میں نے عرض کیا کہ الحمد لله، اے عبدالله (یہ امام احمد بن حنبل کی کنیت ہے) ان کا علم تو بڑا مقام ہے ، فرمانے لگے:”سبحان الله وہ تو علم، ورع، زہد، اور عالم آخرت کو اختیار کرنے میں اس مقام پر ہیں جہاں کسی کی رسائی نہیں
[مناقب الامام ابوحنیفہؒ ص27 ]



حارث بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ہم حضرت عطاءؒ کے پاس بیٹھے ہوتے تھے، جب امام ابوحنیفہؒ آتے توان کے لیے حضرت عطاءؒ جگہ بناتے اور اپنے قریب بٹھاتے، ابوالقاسمؒ نے ایک مرتبہ حضرت عطاءؒ سے عرض کیا کہ آپ کے نزدیک امام ابوحنیفہؒ بڑے ہیں یاسفیان ثوریؒ؟ توانھوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ میرے نزدیک ابنِ جریجؒ سے بھی زیادہ فقیہ ہیں، اُن سے زیادہ فقہ پر قادر شخص میری آنکھوں نے نہیں دیکھا۔
[تذکرہ النعمان:۱۷۱]

حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ الله فرماتے ہیں: ”میری آنکھ نے ابو حنیفہ رحمہ الله کی مثل نہیں ديکھا“
[مناقب الامام ابوحنیفہؒ ص19]
آپ يہ بھی فرماتے تھے:علماء تو يہ تھے ابن عباس رضی الله عنہ اپنے زمانے میں، امام شعبی رحمہ الله اپنے زمانے میں، ابو حنیفہ رحمہ الله اپنے زمانے میں، اور سفیان ثوری رحمہ الله اپنے زمانے میں۔
[اخبار ابی حنیفة واصحابہ ص76]


اقوالِ امام ابوحنیفہؒ احادیث کے مطابق ہوتے:

مشہور ثقہ محدث علی بن خشرم کا بیان ہے کہ ہم امام سفیان بن عیینہؒ کی مجلس میں تھے تو انھوں نے کہا: اے حدیث سے اشتغال رکھنے والو! حدیث میں تفقہ حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ تم پر اصحاب فقہ غالب ہوجائیں، امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے کوئی بات ایسی نہیں بیان کی ہے کہ ہم اس سے متعلق ایک، دو حدیثیں روایت نہ کرتے ہوں۔
[معرفة علوم الحدیث للحاکم، ص:66]
(تشریح: امام سفیان بن عیینہ نے اپنے اس ارشاد میں حاضرین مجلس کو دو باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے ایک یہ کہ وہ الفاظ حدیث کی تحصیل و تصحیح کے ساتھ حدیث کے معنی وفقہ کے حاصل کرنے کی بھی سعی کریں دوسرے امام صاحب کی اصابت رائے اور بصیرت فقہ کی تعریف میں فرمایاکہ ان کی رائے وفقہ حدیث کے مطابق ہے کیوں کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کی تائید وتوثیق کسی نہ کسی حدیث سے ہوجاتی ہے۔ )


























محدث بنانے والے:
حضرت سفیان بن عیینہؒ خود فرماتے ہیں:
‌أَوَّلُ ‌مَنْ ‌أَقْعَدَنِي ‌لِلْحَدِيثِ بِالْكُوفَةِ أَبُو حَنِيفَةَ
جس کے پاس میں حدیث (کی تعلیم) کیلئے سب سے پہلے بیٹھا، وہ ابو حنیفہؒ تھے۔
[الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر (م463ھ) : صفحہ 128]
اور فرماتے:
فَأَوَّلُ مَنْ ‌صَيَّرَنِي ‌مُحَدِّثًا ‌أَبُو ‌حَنِيفَةَ۔
سب سے پہلے جس نے مجھے محدث بنایا، وہ ابو حنیفہؒ ہے۔
[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي- (م446ھ) : ج1 / ص369 ، وفيات الأعيان-ابن خلكان (م681ھ) : ج2 / ص393]



























حافظ أبو نعيم أصفهانيؒ نے "مسند ابوحنیفہؒ" میں بسند متصل یحییٰ بن نصر صہب کی زبانی نقل کیا ہے کہ :
"دخلت على أبي حنيفة في بيت مملؤ كتابا، فقلت : ما هذه ؟ قال : هذه أحاديث كلها وما حدثت به إلا اليسير الذي ينتفع به".
ترجمہ
میں امام ابوحنیفہؒ کے ہاں ایسے مکان میں داخل ہوا جو کتابوں سے بھرا ہوا تھا. میں نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ سب کتابیں حدیث کی ہیں اور (کمالِ احتیاط کے سبب) میں نے ان میں سے تھوڑی سی حدیثیں بیان کی ہیں جن سے نفع اٹھایا جاۓ۔
[مناقب الامام الاعظم : ١/٩٥، المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي:671]




(3) امام ابوحنیفہؒ کو امامِ اعظم کہنے والے ائمہ کرام:

بغیر علم حدیث کے کوئی فقہ نہیں رکھتا، اور امام شافعی نے فرمایا کہ فقہ میں سب ابوحنیفہ کے عیال(ماتحت ومحتاج)ہیں۔ اسی لئے امام جرح والتعدیل امام ذہبی، حبر العلم امام سیوطی اور دیگر متعدد سلف ائمہ حدیث نے ابوحنیفہ کو امام اعظم لکھا ہے، امام بخاری کیلئے نہیں کہا گیا۔

حوالہ جات، کتب العقائد:
(1)ابوالحسن الاشعري{324ھ}
[الابانة عن اصول الدیانة» 1/ 90]

(2) الطِّيبي {743هـ}
[فتوح الغيب:11/ 487]

(3) ابن الوَزِير{840هـ}
[الرَّوضُ البَاسمْ : 2/ 325، العواصم والقواصم:2/ 84]

(4) الدَّوَّاني {918هـ}
[الحجج الباهرة في إفحام الطائفة الكافرة الفاجرة: ص309]

(5) ملا علي قاري{1014ھ}
[أدلة معتقد أبي حنيفة في ابوي الرسول: 1/ 62]

(6)السفاريني الحنبلي {1188ھ}
[لوامع الانوار البهية»2/ 459]



کتب علوم القرآن والتفسیر:
[احکام القرآن للشافعي»1/ 6، روح البیان:5/235، روح المعاني:2/404، تفسیر المنار:1/76، المعجزة الكبرىٰ القرآن:1/415، التغيير والمفسرون:1/251، التفسیر الواضح:1/485، تفسیر سورۃ الحجرات، عطية بن محمد سالم:7/9]



کتبِ حدیث وشروح الحدیث:
(1) امام ابو الوليد الباجي{474ھ}
[المنتقىٰ شرح المؤطا:4/91]

(2) امام الخوارزمي {665هـ}
[مسانيد الإمام الأعظم أبي حنيفة]

(3) امام ابن الرجب الحنبلي{795ھ}
[فتح الباری شرح البخاري:6/153، 5/216]

(4) ابن المُلَقِّن {804ھ}
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح:21/ 324]

(5) بدر الدين العيني {855ھ}
[نخب الأفكار ۔۔۔ في شرح معاني الآثار: 4/ 103]

(6) امام ابن الجزري{833ھ}
[مناقب الاسد الغالب: حدیث95]

(7) السُّيُوطي {911ھ}
[شرح سنن ابن ماجه: ص110+205]

(8) القَسْطَلَّاني {923ھ}
[إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري:10/ 108، حدیث6966]

(9) ملا علي القاري{1014ھ}
[شرح مسند أبي حنيفة:1/ 5، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:1/ 29، شرح نخبة الفكر: ص518]

(10) عبد الحق الدِّهْلوي {1052ھ}
[لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح:1/ 92]

(11) العَزِيزي {1070هـ}
[السراج المنير شرح الجامع الصغير:4/ 147]

(12) عثمان الكماخي{1171هـ}
[المهيأ في كشف أسرار الموطأ:1/ 40، حدیث#210,]

(13) عَبْد الحَيّ اللكنوي {1304هـ}
[التعليق الممجد على موطأ محمد:1/ 120]

(14) خليل السهارنفوري{1346هـ}
[بذل المجهود في حل سنن أبي داود:1/ 122]

(15) محمد الأمين الهرري{1348 هـ -؟}
[الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم:5/ 327]

(16) محمود خطاب السُّبْكي{1352هـ}
[المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود:4/ 327]

(17) أنور شاه الكشميري{1353هـ}
[فيض الباري على صحيح البخاري:2/ 204]

(18) الفاداني المكي{1411ھ}
[العجالة في الحديث المسلسلة: 1/38]



کتبِ فقہ واصولِ فقہ:
(1) امام عبد العزيز البخاري {730هـ}
[كشف الأسرار شرح أصول البزدوي: 1/ 10]
(جاری)



حضرت امام ابوحنیفہؒ امامِ اعظم کیوں؟

حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی سب بالاتفاق حضرت امام ابوحنیفہؒ کو امامِ اعظم کہتے ہیں. اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ امام صاحب کے بارے میں جن احادیث میں پیش گویاں ہیں، ان میں اعظم کا لفظ آیا ہے.

(١) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " أَعْظَمُ النَّاسِ نَصِيبًا فِي الإِسْلامِ أَهْلُ فَارِسَ ، لَوْ كَانَ الإِسْلامُ فِي الثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ " . ( الثريا : مجموعة من نجوم السماء)۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ
اسلام میں بڑا حصہ (نصیب) فارس والوں کا ہے، اگر دین ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو فارس-والے اسے لے آئیں گے. (ثریا یعنی آسمان کے ستاروں کا مجموعہ)۔

فائدہ:
ظاہر ہے کہ جن کا اسلام میں نصیب "اعظم"(بڑا) ہو، ان کا امام بھی اعظم ہے، صحابہ (رضی الله عنھم) کے بعد سب نے اپ کو اعظم مانا اور دنیا میں "سوادِ اعظم" آج تک آپکے مقلدین کا ہے."السواد الاعظم" عربی زبان میں "عظیم-ترین(سب سے بڑی)جماعت" کو کہتے ہیں.
[الصحاح للجوهري:١/٤٨٩]




چونکہ قرآن پاک میں اسلام کا دوسرا نام ((دین حنیف)) ہے جس کی تکمیل آنحضرت پر ، تمکین صحابہ کے ذریعہ ہوئی اور تدوین میں اولیت کا شرف امام صاحب کو نصیب ہوا، اسی لئے پوری امت بالاتفاق آپ کی "وصفی کنیت" ابوحنیفہؒ قرار پائی یعنی دین حنیف کے پہلے مدون







اختلاف کا حل حدیثِ سوادِ اعظم سے
حضرت انسؓ رسول الله ﷺ سے مروی ہیں کہ: میری امت کسی گمراہی پر"جمع" (متفق) نہیں ہوگی بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم (بڑی-جماعت) کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)۔
[سنن ابن ماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم]

دوسری روایت میں حضرت ابنِ عمرؓ سے حدیث میں ہے ... بس تم سوادِ اعظم کا اتباع کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہے گا۔
[مستدرک حاکم: کتاب العلم، ١/١١٥]

امام حاکمؒ نے حضرت ابنِ عمرؓ کی یہ روایت دو طرق (طریقوں) سے نقل کی ہے اور دونوں کے بارے میں صحتِ سند کا رجحان تو ظاہر کیا ہے، فیصلہ نہیں کیا. اور حافظ ذہبیؒ نے سکوت (چُپ)کیا ہے۔(یعنی جرح وکلام نہیں فرمایا).








===========
شیخ الاسلام والمسلمین حضرت یزید بن ہارون رحمہ الله فرماتے ہیں ”ابوحنیفہ رحمہ الله پرہیز گار، پاکیزہ صفات، زاہد، عالم، زبان کے سچے، اور اپنے اہل زمانہ میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔ میں نے ان کے معاصرین میں س
ے جتنے لوگوں کو پایا سب کو یہی کہتے سنا کہ اس نے ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا“ 
(اخبار ابی حنیفة واصحابہ: ص36)





حافظ حدیث ابوعمر ابن عبدالبر مالکی اندلسی (المتوفی ۴۶۳ھ) اپنی کتاب ”جامع بیان العلم“ میں فرماتے ہیں کہ امام حدیث اعمش (سلیمان بن مہران) کی مجلس میں ایک شخص آیا اور اعمش سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، آپ کوئی جواب نہ دے سکے ،دیکھا کہ امام ابوحنیفہؒ تشریف رکھتے ہیں، فرمایا کہ: کہئے نعمان! کیا ہے ،جواب؟ امام ابو حنیفہؒ نے فوراً جواب دے دیا ۔ امام اعمش نے پوچھا : ابوحنیفہ! تم نے کہاں سے یہ جواب دیا؟ ابو حنیفہؒ نے فرمایا : آپ ہی نے تو مجھے فلاں حدیث اپنی سند سے بیان کی تھی، اسی سے یہ مسئلہ اس طرح نکلتاہے الخ۔ امام اعمش یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمانے لگے:
ترجمہ: آپ طبیب ہیں اور ہم لوگ عطار ہیں.
[معجم الشيوخ لابن جميع الصيداوي: ص79، مؤسسة الرسالة , دار الإيمان - بيروت , طرابلس]
[شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اہل الحدیث: ص261]
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:1/ 28، دار الفكر، بيروت - لبنان]




امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ متقدمین نے فرمایا ہے:
ﻗﺎﻟﺖ اﻷﻗﺪﻣﻮن: اﻟﻤﺤﺪث ﺑﻼ ﻓﻘﮫ ﻛﻌﻄﺎر ﻏﯿﺮ طﺒﯿﺐ ﻓﺎﻷدوﯾﺔ ﺣﺎﺻﻠﺔ ﻓﻲ دﻛﺎﻧﮫ وﻻ ﯾﺪري ﻟﻤﺎذا ﺗﺼﻠﺢ, واﻟﻔﻘﯿﮫ ﺑﻼ ﺣﺪﯾﺚ ﻛﻄﺒﯿﺐ ﻟﯿﺲ ﺑﻌﻄﺎر ﯾﻌﺮف ﻣﺎ ﺗﺼﻠﺢ ﻟﮫ اﻷدوﯾﺔ إﻻ أﻧﮭﺎ ﻟﯿﺴﺖ ﻋﻨﺪه.
[أثر الحديث الشريف في إختلاف الأئمة الفقهاء: 108 بحواله الحاوي للفتاوى: 2/398]
یعنی محدث بغیر فقہ کے ایسا "دوا فروش" ہے جو طبیب نہیں، اس کی دکان میں دوائیں ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ کس مرض کا علاج ہے اور بغیر حدیث کے فقیہ کی مثال جس کو یہ تو علم ہے کہ فلاں مرض کی دوا فلاں ہے لیکن اس کے پاس دوائیں نہیں تو وہ علاج (مریض کو مطمئن) کیسے کرے؟
[اختلاف_ائمہ اور حدیث_ نبوی:١٣٦ بحوالہ الحاوي للفتاوى: 2/398]


یعنی ہمارا (محدث کا) کام عطار کا ہے، جڑی بوٹی لانا، پتیوں پودوں کو جمع کرنا، اور انھیں مرتبان میں رکھ کر دکان سجانا. ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم یہ بتائیں کہ بکھر میں کونسا جوشاندہ استعمال کیا جاۓ، ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم دوائیں اکٹھا کردیں اس کے بعد آپ ڈاکٹر و حکیم (فقہاء) سے نسخہ لائیں، ہم اس نسخہ کے مطابق آپ کو دوا دیں گے یعنی فقیہ جب کوئی مسئلہ بتاۓ گا تو اس مسئلے کے مستدلات آپ کے سامنے پیش کر سکتے ہیں، اجتہاد ہمارے بس کی بات نہیں، فقہاء و محدثین میں یہ فرق ہے. 






























فقيه الحديث امامِ اعظم ابوحنیفہؒ:
عبيدالله بن عمرو سے مروی ہے کہ [میں امام اعمشؒ کی مجلس میں ایک شخص آیا اور ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، آپ کوئی جواب نہ دے سکے، دیکھا کہ امام ابوحنیفہ تشریف رکھتے ہیں تو(جامع بيان العلم : صفحہ # ٣٢١)] ... امام اعمش نے کہا امام ابو حنیفہؒ کو : اے نعمان ! تمہارا کیا کہنا ہے اس پر اور اس پر ؟؟؟ آپ نے کہا : یہ اور یہ . انہوں نے پوچھا : کہاں سے تم یہ کہتے ہو ؟ کہا : آپ ہی نے تو مجھے فلاں حدیث اپنی سند سے بیان کی تھی، اسی سے یہ مسئلہ اس طرح نکلتاہے الخ۔ امام اعمش یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمانے لگے: " أنتم يا معشر الفقهاء الأطباء ونحن الصيادلة ". ترجمہ: آپ  اے گروہِ فقہاء! طبیب ہیں اور ہم لوگ عطار ہیں.
[الثقات لابن حبان:8/467]





امام الجرح والتعدیل حضرت یحییٰ بن سعید القطان رحمہ الله فرماتے ہیں:”والله، ابو حنیفہ رحمہ الله اس امت میں خدا اور اس کے رسول سے جو کچھ وارد ہوا ہے اس کے سب سے بڑے عالم ہیں“
(مقدمہ کتاب التعلیم ص134)



سید الحفاظ حضرت یحییٰ بن معین رحمہ الله سے ايک بار ان کے شاگرد احمد بن محمد بغدادی نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق ان کی رائے دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ”سراپا عدالت ہیں، ثقہ ہیں ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جس کی ابن مبارک رحمہ الله اور وکیع رحمہ الله توثیق کی ہے“
(مناقب ابی حنیفہ ص101)

علمِ حدیث کے ایسے بالغ نظر علماء کا امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سننا اور پھراِن کے اس قدر گرویدہ ہوجانا کہ انہی کے قول پر فتوےٰ دینا حضرت امام کی علمی منزلت کی ناقابلِ انکار تاریخی شہادت ہے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں:

"وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً"۔                         

  (کتاب الانتقاء:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹)

ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔





حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) بھی وکیع کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

"وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲)

وکیع جیسے حافظ الحدیث اور عظیم محدث کا آپ کی تقلید کرنا اور فقہ حنفی پر فتوےٰ دینا حضرت امام کے مقام حدیث کی ایک کھلی شہادت ہے؛ پھرچند نہیں آپ نے ان سے کثیراحادیث سنیں،





امام اہل بلخ حضرت خلف بن ایوب رحمہ الله فرماتے ہیں:”الله تعالی سے علم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو پہنچا، آپ بعد آپ کے صحابہ کو، صحابہ کے بعد تابعین کو، پھر تابعین سے امام ابو حنیفہ رحمہ الله اور ان کے اصحاب کو ملا، اس پر چاہے کوئی خوش ہو یا ناراض“
(تاریخ بغداد ۔ج13ص336)


محدث عبدالله بن داود الخریبی فرماتے ہیں:
”حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کی عیب گوئی دو آدمیوں میں سے ايک کے سوا کوئی نہیں کرتا، یا جاہل شخص جو آپ کے قول کا درجہ نہیں جانتا یا حاسد جو آپ کے علم سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے حسد کرتا ہے“
(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ ص79)
نیز فرماتے ہیں:
”مسلمانو ں پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز میں ابو حنیفہ رحمہ الله کے لئے دعا کیا کریں۔ کیونکہ انہوں نے حدیث وفقہ کو ان کے لئے محفوظ کیا ہے “
(تاریخ بغداد ۔ج13ص344)
حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله فرماتے ہیں:”اگر الله تعالی نے مجھے ابو حنیفہ رحمہ اور سفیان ثوری رحمہ الله سے نہ ملایا ہوتا تو میں بدعتی ہوتا“
( مناقب الامام ابی حنیفہ ص18)




بغضِ امام ابو حنیفہؒ میں جھوٹی احادیث گھڑنے کا ثبوت
مشہور شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اسماء الرجال کے موضوع پر اپنی کتاب "تهذيب التهذيب" میں نعیم بن حماد کے متعلق نقل کیا ہے:
كان يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات في ثلب أبي حنيفة كلها كذب.
ترجمہ:
وہ سنت کی تقویت کے لئے حدیثیں گھڑا کرتے تھے اور (امام) ابو حنیفہؒ کی تنقیض میں حکایتیں گھڑا کرتے تھے اور وہ سب جھوٹی ہوتی تھیں.
[الكامل في ضعفاء الرجال، لابن عدي: (8/ 251) رقم:1959، الناشر: الكتب العلمية - بيروت-لبنان]
تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية:22/ 115
الأحكام الوسطى، عبد الحق الإشبيلي:1/ 118، 
الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي:3543،
الترغيب والترهيب للمنذري ت عمارة:4/ 579
تهذيب الكمال في أسماء الرجال، للمزي:29/ 476،
المغني في الضعفاء، للذهبي:6658،
سير أعلام النبلاء، للذهبي:10/ 609، الناشر : مؤسسة الرسالة
الجوهر النقي، لابن التركماني:3/ 305،
إكمال تهذيب الكمال، علاء الدين مغلطاي:5021،
التكميل في الجرح والتعديل ومعرفة الثقات والضعفاء والمجاهيل، لابن کثیر:1/ 389،
مختصر الكامل في الضعفاء۔ للمقريزي:ص756،
شذرات الذهب في أخبار من ذهب، لابن العماد الحنبلي:3/ 134،دار ابن كثير، دمشق - بيروت
سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة، للألباني:7156







































یہ امام بخاریؒ کے شیوخ میں سے رہے ہیں لیکن پھر بھی نعیم بن حماد کو خود امام بخاریؒ نے (کتاب الضعفاء الصغیر صفحہ 29) میں ضعیف لکھا ہے۔

مشہور محدث علامہ ابن عدیؒ (277-365ھہ) کے استاد ابّان بن جعفر امام ابو حنیفہؒ کے خلاف روایت گھڑا کرتے تھے جو سب کے سب کذب (جھوٹ) ہیں، انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ 300 سے زیادہ روایت ، امام ابو حنیفہؒ کے خلاف گھڑ رکھی تھیں، گمان غالب یہی ہے کہ علامہ خطیب بغدادیؒ نے اپنی "تاریخ بغداد" میں نقل کیا ہے.
قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: مضيت إِلَيْهِ فَحَدثني بِهَذَا الحَدِيث ورأيته قَدْ وضع على أَبِي ‌حَنِيفَةَ أَكْثَر من ثَلَاثمِائَة حَدِيث لم يحدث بِهِ أَبُو ‌حنيفَة قطّ.
[الموضوعات لابن الجوزي:2/ 101، ذيل ميزان الاعتدال:10، النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر:1/ 502، لسان الميزان:1/ 21، اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة:1/ 19، تذكرة الموضوعات للفتني: ص48]




حضرت قاسم بن عبادؒ (جو امام بخاریؒ اور امام ابو داودؒ کے استاد اور حدیث کے بہت بڑے حافظ) نے امام علی بن جعد جوھریؒ سے روایت کی ہے کہ "امام ابو حنیفہؒ جب حدیث بیان کرتے ہیں موتی کی طرح آبدار ہوتی ہے".



علامہ ذہبی رحمہ الله ”تذکرة الحفاظ“ میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا تدکرہ ان القابات کے ساتھ کرتے ہیں:” ابو حنیفہ رحمہ الله امام اعظم اور عراق کے فقیہ ہیں........ وہ امام، پرہیز گار، عالم باعمل، انتہائی عبادت گزار اور بڑی شان والے تھے“(تدکرة الحفاظ ج1ص168)

حافظ عماد الدین بن کثیر رحمہ الله حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا تذکرہ ان الفاظ سے کرتے ہیں:”وہ امام ہیں، عراق کے فقیہ ہیں، ائمہ اسلام اور بڑی شخصیات میں سے ايک شخصیت ہیں ، ارکان علماءمیں سے ايک ہیں،ائمہ اربعہ جن کے مذاہب کی پیروی کی جاتی ہے ان میں سے ايک امام ہیں“(البدایة والنہایة ج10ص107)

خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

"علمِ عقائد اور علمِ کلام میں لوگ ابوحنیفہؒ کے عیال اور خوشہ چیں ہیں"۔   (تاریخ بغدادی:۱۳/۱۶۱)


مشھور محدث ابو مقاتل حفص بن سلمؒ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ و حدیث میں امامت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
وَكَانَ أَبُو ‌حَنِيفَةَ ‌إِمَامَ ‌الدُّنْيَا فِي زَمَانِهِ فِقْهًا وَعِلْمًا وَوَرَعًا قَالَ وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ مِحْنَةً يَعْرِفُ بِهِ أَهْلُ الْبِدَعِ مِنَ الْجَمَاعَةِ وَلَقَدْ ضُرِبَ بِالسِّيَاطِ عَلَى الدُّخُولِ فِي الدُّنْيَا لَهُمْ فَأَبَى .
[الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء: ص167، دار الكتب العلمية - بيروت؛ (ص ٣١٩، مکتبہ دار البشائر السلامیہ، بیروت ١٤١٧ع)]
ترجمہ :
امام ابو حنیفہؒ اپنے زمانہ میں (حدیث، فقہ و تقویٰ میں) دنیا کے امام تھے، ان کی ذات آزمائش تھی جس سے اہل السنّت والجماعت اور اہل البدعت میں فرق و امتیاز ہوتا تھا، انھیں کوڑوں سے مارا گیا تاکہ وہ دنیاداروں کے ساتھ دنیا میں داخل ہوجائیں (کوڑوں کی ضرب برداشت کرلی) مگر دخولِ دنیا قبول نہ کیا.


امام عبد العزیز بن ابی داودؒ فرماتے ہیں :
"ابو ‌حنيفَة ‌المحنة من أحب أَبَا حنيفَة فَهُوَ سني وَمن أبغضه فَهُوَ مُبْتَدع"
ترجمہ:
امام ابو حنیفہؒ آزمائش ہیں، جو ان سے محبت رکھتا ہے وہ سنی ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ بدعتی ہے.
 [أخبار أبي حنيفة و أصحابه لامام صميري : ص 86 الناشر: عالم الكتب - بيروت]




















حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق مذکورہ چند اکابر اعلام کے چیدہ چیدہ اقوال نقل کئے گئے ہیں ، ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں کے اقوال، کتب، تاریخ وتذکرہ میں موجود ہیں۔ جن سے حضرت امام صاحب کی فضلیت و منقبت، عظمت و بزرگی ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت امام صاحب کے بارے میں ان اقوال کے موجود ہوتے ہوئے غیر مقلدین کا ان پر طعن و تشنیع کرنا، ان کی عیب جوئی اور عیب گوئی کرنا اپنی عاقبت خراب کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔یحییٰ بن معین رحمہ الله سے پوچھا گیا کیا امام صاحب رحمہ الله ثقہ ہیں آپ نے دوبار فرمایا ثقہ ہیں ، ثقہ ہیںمورخ ابن خلکان رحمہ الله لکھتے ہیں کی آپ پر قلت عربیت کے سوا کوئی نقطہ چینی نہیں کی گئ (سبحان الله ) حافظ ابن ابی داؤد رحمہ الله فرماتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں ان کی شان سے ناواقف یا ان کے حاسدابن مبارک نے سفیان ثوری معین رحمہ الله سے پوچھا ابو حنیفہ معین رحمہ الله غیبت کرنے سے بہت دور رہتے ہیں دشمن ہی کیوں نہ ہو فرمایا ابو حنیفہ رحمہ الله اس سے بالاتر ہیں کہ اپنی نیکیوں پر دشمن کو مسلط کریں –یہ ایک حقیقت ہے کہ امام صاحب کے شاگردوں کی ان سے روایات کرنے والوں کی اور انہیں ثقہ و معتبر کہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے بہ نسبت نکتہ چینی کرنے والوں کےامام اعظم رحمہ الله کا علمی پایہ:شداد بن حکم رحمہ الله فرماتے ہے کہ " ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا "مکی بن ابراہیم رحمہ الله فرماتے ہیں " ابو حنیفہؒ اپنے زمانے کے سب سے بڑھے عالم تھےامام وکیع رحمہ الله فرماتے ہے " میں کسی عالم سے نہیں ملا جو ابو حنیفہؒ سے زیادہ فقیہ ہو اور ان سے بہتر نماز پڑھتا ہو "نذر بن شامل فرماتے " لوگ علم فقہ سے بے خبر پڑے تھے ابو حنیفہؒ نے انہیں بیدار کیا "محدث یحیٰ بن سعید القطان رحمہ الله فرماتے ہیں " ہم الله پاک کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتے واقعی ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر ہم نے فقہ میں کسی کی بات نہیں سنی اس لئے اکثر اقوال ہم نے ان کے اختیار کر لئے "امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں تمام لوگ فقہ میں ابو حنیفہ رحمہ الله کے محتاج ہیں "محدث یحییٰ بن معین رحمہ الله فرماتے ہیں " فقہ تو بس ابو حنیفہ رحمہ الله ہی کی ہے"جعفربن ربیع رحمہ الله فرماتے ہے " میں پانچ سال امام صاحب کی خدمت میں رہا میں نے ان جیسا خموش انسان نہیں دیکھا جب فقہ کا مسئلہ پوچھا جاتا تو کھل جاتے اور علم کا دریا لگتے تھے "عبد الله بن ابی داؤد رحمہ الله فرماتے ہیں " اہل اسلام پر فرض ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں کے بعد امام ابو حنیفہ رحمہ الله کیلئے دعا کریںشافعی المذہب محدث خطیب تبریزی رحمہ الله 743ھ ) نے مشکو'تہ شریف جمع کی پھر الاکمال کے نام سے رجل پر کتاب لکھی انہوں نے مشکو'تہ میں اگرچہ امام صاحب سے کوئی حدیث نقل نہیں کی مگر برکت کے لئے آپ کا تذکرہ کیا فرماتے ہیں " امام ابو حنیفہ رحمہ الله بڑھے عالم تھے صاحب عمل پریز گر تھے دنیا سے بے رغبت اور عبادت گزار تھے علوم شریعت میں امام تھے اگرچہ مشکو'تہ میں ہم نے ان سے کوئی روایت نہیں لی یھاں ذکر کرنے سے ہمی غرض ان سے برکت حاصل کرنا ہے " امام صاحب رحمہ الله علو مرتبت اور اونچے علم کی اور کیا نشانی ہو سکتی ہے 



حدیث بیان کرنے کی شرط اور امام ابوحنیفہؒ کا اسے بیان کرنے میں کمال احتیاط وتقویٰ:


 قَالَ أَبُو يُوسُفَ ، قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ " لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُحَدِّثَ مِنَ الْحَدِيثِ ، إِلا مَا يَحْفَظُهُ مِنْ وَقْتِ مَا سَمِعَهُ " .
یعنی ابویوسفؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ نے فرمایا: نہیں ہے جائز کسی شخص کیلئے کہ وہ بیان کرے کسی حدیث میں سے، بشرطیکہ جس وقت سے اس نے جو سنا وہ اسے یاد بھی ہو۔
[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه » لا ينبغي للرجل أن يحدث من الحديث ، إلا ما يحفظه ...، رقم الحديث: 84]
الجواهر المضية



ألإمام الأعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله كا عظيم اجتہادى أصول:
الإمام الأعظم أبو حنيفة النعمان رحمه الله تعالى فرماتے ہیں
آخذ بكتاب الله ، فما لم أجد فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن لم أجد في كتاب الله ولا سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت منهم، وأدع من شئت منهم ولا أخرج من قولهم إلى قول غيرهم وأما اذا انتهى الأمر الى إبراهيم والشعبي وإبن سيرين والحسن وعطا وسعيد ابن المُسيب وعد د رجالا فقوم اجتهدوا فأجتهدُ كما اجتهدوا ۔
میں سب سے پہلے کتاب الله سے۔ .. ( . مسئلہ وحکم . ) . لیتا ہوں ، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پهر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث کی طرف رجوع کرتا ہوں ، اور اگر كتاب الله وسنة اور احادیث رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بهی نہ ملے تو پهر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا ہوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ إبراہيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پهر میں بهی اجتهاد کرتا ہوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا ۔
(.تاريخ بغداد. (368./13.).
(الانتقاء للامام الحافظ ابن عبدالبر مع تعلیق الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة الله عليه، ص: ۲۶۴-۲۶۵)







امام ابوحنیفہؒ اور تحقیق:

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الطَّبَرِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ نُعَيْمَ بْنَ حَمَّادٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا ‌حَنِيفَةَ يَقُولُ: ‌إِذَا ‌جَاءَ ‌عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَى الرَّأْسِ وَالْعَيْنِ وَإِذَا جَاءَ عَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْتَارُ مِنْ قَوْلِهِمْ وَإِذَا جَاءَ عَنِ التَّابِعِينَ زَاحَمْنَاهُمْ۔

ترجمہ:

ہمیں خبر دی ابو عبداللہ الحافظ نے، انہوں نے کہا: میں نے سنا محمد بن احمد بن بلویہ کو کہتے کہ: میں نے ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ کو کہتے سنا کہ: میں نے ابو بکر الطبری کو کہتے سنا کہ: میں نے نعیم بن حماد کو کہتے سنا کہ: میں نے نعیم بن حمادؒ کو کہتے سنا کہ: میں نے ابن المبارکؒ کہتے ہیں: میں نے ابوحنیفہؒ کو کہتے سنا کہ: اگر (کوئی قول) آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تو وہ سر اور آنکھ پر ہو، اور اگر وہ آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرف سے آئے تو ہم انتخاب کرتے ہیں ان کے اقوال میں سے (کسی کے قول کو)، اور اگر (کوئی قول) ہو(میری طرح صحابہ کے پیروکار) تابعین کی طرف سے، تو ہم (اپنی رائے پیش کرکے)ان سے مزاحمت کریں گے۔

[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت الأعظمي: حدیث نمبر 40]

[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت عوامة: حدیث نمبر 1146]

سند صحیح

[إرشاد النقاد إلى تيسير الاجتهاد-الصنعاني: ص142، التفسير المظهري:2/ 153 سورۃ النساء:59]




حَدثنَا يحيى قَالَ حَدثنَا عبيد بن أبي قُرَّة قَالَ سَمِعت ‌يحيى ‌بن ‌ضريس يَقُول شهِدت سُفْيَان وَأَتَاهُ رجل فَقَالَ مَا تنقم على أبي ‌حنيفَة قَالَ وَمَاله قَالَ سمعته يَقُول آخذ بِكِتَاب الله فَمَا لم أجد فبسنة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَإِن لم أجد فِي كتاب الله وَلَا سنة آخذ بقول أَصْحَابه آخذ بقول من شِئْت مِنْهُم وأدع قَول من شِئْت ولاأخرج من قَوْلهم إِلَى قَول غَيرهم فَإِذا مَا انْتهى الْأَمر أَو جَاءَ الْأَمر إِلَى إِبْرَاهِيم وَالشعْبِيّ وَابْن سِيرِين وَالْحسن وَعَطَاء وَسَعِيد بن الْمسيب وَعدد رجَالًا فقوم اجتهدوا فأجتهد كَمَا اجتهدوا قَالَ فَسكت سُفْيَان طَويلا ثمَّ قَالَ كَلِمَات بِرَأْيهِ مَا بَقِي أحد فِي الْمجْلس إِلَّا كتب نسْمع التَّشْدِيد من الحَدِيث فنخافه ونسمع اللين فنرجوه لَا نحاسب الْأَحْيَاء وَلَا نقضي على الْأَمْوَات نسلم مَا سمعنَا وَنكل مَا لم نعلم إِلَى عالمه ونتهم رَأينَا لرأيهم

ترجمہ:

یحییٰ بن ضریسؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے سفیان ثوریؒ کو دیکھا اور ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: تم ابوحنیفہ سے تنقید کیوں نہیں کرتے؟ اس نے کہا: کیونکہ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں (مسئلہ) لیتا ہوں اللہ کی کتاب سے، پھر اگر مجھے نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے، پھر اگر میں نہیں پاتا اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے تو میں اس (رسول) کے ساتھیوں کا قول لوں گا، میں ان میں سے جس کو پسند کرتا ہوں اس کی بات لیتا ہوں اور ان میں سے جس کو پسند کرتا ہوں اس کی بات چھوڑ دیتا ہوں اور ان کے اقوال سے ہٹ کر دوسروں کے قول پر نہیں جاتا۔ لیکن اگر بات (میرے جیسے تابعین) ابراہیم، شعبی، ابن سیرین، حسن، عطاء، اور سعید بن المسیب وغیرہ پر آئے تو ان لوگوں نے بھی اجتہاد کیا تو میں بھی اجتہاد کرتا ہوں جیسے وہ اجتہاد کرتے ہیں۔

راوی(یحییٰ بن ضریس) کہتے ہیں: پھر سفیانؒ کافی دیر تک خاموش رہے، پھر انہوں نے اپنی رائے کے مطابق کچھ کلمات ارشاد فرمائے: مجلس میں موجود ہر شخص نے انہیں نوٹ کرلیا، (انہوں نے کہا) ہمیں احادیث میں شدت والی احادیث بھی سننے کو ملتی ہیں تو ہم اس کی امید رکھتے ہیں، ہم زندہ لوگوں کا محاسبہ نہیں کرتے ہیں، اور نہ ہی ہم مردوں کے خلاف دیتے ہیں، ہم نے جو (روایات) سنی ہیں اسے تسلیم کرتے ہیں، اور جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہم ان کا علم اس شخص کے سپرد کرتے ہیں جو ان سے واقفیت رکھتا ہے، اور ہم اپنی رائے کا الزام ان کی رائے پر عائد کرتے ہیں۔

[تاريخ ابن معين(م233ھ) - رواية الدوري:3163(4/ 63)]

[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي :245(1378)]

[ذم الكلام وأهله-لهروي:890]


امام حسن بن صالحؒ(م199ھ)فرماتے ہیں: 

كَانَ ابو حنيفَة ‌شَدِيد ‌الفحص عَن النَّاسِخ من الحَدِيث والمنسوخ فَيعْمل بِالْحَدِيثِ إِذا ثَبت عِنْده عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَعَن أَصْحَابه وَكَانَ عَارِفًا بِحَدِيث أهل الْكُوفَة وَفقه أهل الْكُوفَة شَدِيد الِاتِّبَاع لما كَانَ عَلَيْهِ النَّاس بِبَلَدِهِ وَقَالَ كَانَ يَقُول إِن لكتاب الله نَاسِخا ومنسوخا وَإِن للْحَدِيث نَاسِخا ومنسوخا وَكَانَ حَافِظًا لفعل رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْأَخير الَّذِي قبض عَلَيْهِ مِمَّا وصل إِلَى أهل بَلَده۔

ترجمہ:

ابو حنیفہؒ ناسخ منسوخ احادیث کی بہت چھان بین کرتے تھے۔ جب کوئی حدیث مرفوع یا اثر صحابی آپ کے نزدیک ثابت ہو جاتا تو اس پر عمل کرتے۔ آپ اہل کوفہ کی احادیث سے خوب آگاہ تھے اور ان پر بڑی سختی سے عامل رہتے تھے۔

[أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص25، المسودة في أصول الفقه-ابن تيمية: ص338]




امام ابوحنیفہؒ(م150ھ) فرماتے ہیں:

أَنى ‌آخذ ‌بِكِتَاب الله إِذا وجدته فَلَمَّا لم اجده فِيهِ اخذت بِسنة رَسُول الله والْآثَار الصِّحَاح عَنهُ الَّتِي فَشَتْ فِي أَيدي الثِّقَات عَن الثِّقَات فَإِذا لم اجد فِي كتاب الله وَلَا سنة رَسُول الله أخذت بقول أَصْحَابه من شِئْت وأدع قَول من شِئْت ثمَّ لَا أخرج عَن قَوْلهم إِلَى قَول غَيرهم فَإِذا انْتهى الْأَمر إِلَى ابراهيم وَالشعْبِيّ وَالْحسن وَابْن سِيرِين وَسَعِيد بن الْمسيب وَعدد رجَالًا قد اجتهدوا فلي أَن أجتهد كَمَا اجتهدوا۔

ترجمہ:

میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر جو بات نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر اگر مجھے وہ بات نہ تو کتاب اللہ میں ملے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت میں تو میں صحابہ کرامؓ کے اقوال کی طرف رجوع کرتا ہوں، اور ان میں سے جس کے قول کو چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جس کے قول کو چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں، لیکن صحابہؓ کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا، اور پھر جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسن بصریؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، سعید بن مسیبؒ وغیرہ تک پہنچتا ہے تو یہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے خود اجتہادات کیے، تو جس طرح انہوں نے اجتہادات کیے‘ میں بھی اجتہاد کرتا ہوں۔

[أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص24، المسودة في أصول الفقه-ابن تيمية: ص337، الحديث والمحدثون: ص285]




امام سفیان ثوریؒ(م161ھ)فرماتے ہیں:

كَانَ أَبُو حنيفَة ‌يركب ‌فِي ‌الْعلم أحد من سِنَان الرمْح كَانَ وَالله شَدِيد الْأَخْذ للْعلم ذابا عَن الْمَحَارِم مُتبعا لأهل بَلَده لَا يسْتَحل أَن يَأْخُذ إِلَّا بِمَا يَصح عِنْده من الْآثَار عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم شَدِيد الْمعرفَة بناسخ الحَدِيث ومنسوخه وَكَانَ يطْلب أَحَادِيث الثِّقَات وَالْآخر من فعل النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَمَا أدْرك عَلَيْهِ عَامَّة الْعلمَاء من أهل الْكُوفَة فِي اتِّبَاع الْحق أَخذ بِهِ وَجعله دينه۔

ترجمہ:

ابوحنیفہ علم کے حصول کے حوالے سے بہت سخت تھے اور وہ اس چیز کی شدت سے مخالت کرتے تھے کہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا جائے، جب کوئی مستند روایت ان تک پہنچ جاتی جسے قابلِ اعتماد راویوں نے نقل کیا ہوتا، تو وہ ان کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور وہ نبی اکرم ﷺ کے آخری عمل کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور وہ اس چیز کے مطابق فتویٰ دیتے تھے جس پر انہوں نے کوفہ کے علماء کو پایا تھا، تو کچھ لوگوں نے اس حوالے سے ان پر تنقید کی ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے ہم سب کی اور ان سب کی۔

[أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة: ص151، الطبقات السنية في تراجم الحنفية: ص47، الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء-ابن عبد البر: ص142، أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص75]


ان عبارات سے امام صاحب کی تحقیق کا اندازہ معلوم ہوگیا۔






حافظ ابن القیم رحمہ الله اپنی کتاب ‘‘إعلام الموقعين ’’ فرماتے هیں کہ
وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث عنده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبه كما قدّم حديث القهقهة مع ضعفه على القياس والرأي ، وقدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقياس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد "
امام أبي حنيفة رحمه الله کے اصحاب کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام أبي حنيفة رحمه الله کا مذہب یہ ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث بهی رائے و قیاس سےأولى وبہتر .( .ومقدم. ) .ہے ، اور اسی اصول پر امام أبي حنيفة رحمه الله کے مذهب کی بنیاد واساس رکهی گئی ، جیسا قهقهة والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، اور سفر میں نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، پس حديث ضعيف وآثارُ الصحابة کو رائے وقیاس پرمقدم کرنا یہ الإمام أبي حنيفة رحمه الله اور الإمام أحمد رحمه الله کا قول .(.وعمل وفیصلہ .). ہے ۔

.( إعلام الموقعين عن رب العالمين 77/.1 ) .





علامہ ابن حزم ظاہری بهی یہی فرماتے ہیں کہ
‘‘جميع أصحاب أبي حنيفة مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي’’
.(.(.إحكام الإحكام في أصول الأحكام 54/7 .).).



یہ ہے الإمام الأعظم أبي حنيفة رحمه الله اور آپ کے اصحاب وتلامذه کا سنہری وزریں اصول جس کے اوپر مذہب حنفی بنیاد ہے ، الإمام الأعظم رحمه الله کا یہ اصول اہل علم کے یہاں معروف ہے ، اب جس امام کا حدیث کے باب میں اتنا عظیم اصول ہو اوراس درجہ تعلق ہو حدیث کے ساتھ کہ ضعیف حدیث پربهی عمل کرنا ہے ، اس امام کواور اس کے اصحاب وپیروکاروں کو حدیث کا مخالف بتلایا جائے اورجاہل عوام کو گمراه کیا جائے،تو اس طرز کو ہم کیا کہیں جہالت وحماقت یاعداوت ومنافقت ؟؟




شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله كا فتوى
‘‘ومن ظنّ بأبي حنيفة أوغيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم ، وتكلّم إما بظنّ وإما بهوى ، فهذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضى بالنبيذ في السفر مع مخالفته للقياس ، وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما’’
اورجس نے بهی امام أبي حنيفة یا ان کے علاوه دیگر أئمة ُالمسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قياس یا ( رائے ) وغیره کی وجہ سے حديث صحيح کی مُخالفت کرتے ہیں تو اس نے ان ائمہ پر غلط. ( .وجهوٹ .) .بات بولی ، اور محض اپنے گمان وخیال سے یا خواہش وہوئی سے بات کی ، اور امام أبي حنيفة تو نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث پر باوجود ضعیف ہونے کے اور مُخالف قیاس ہونے کے عمل کرتے ہیں الخ
.(.(. مجموع الفتاوي لابن تيمية 304/20، 305.).).



شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله کا فتوی بالکل واضح ہے یعنی امام اعظم کے مُتعلق اگرکوئی یہ گمان وخیال بهی کرے کہ وه صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں اپنی رائے وقیاس سے تو ایسا شخص شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله کے نزدیک خیالات وخواہشات کا پیروکار ہے اور ائمہ مُسلمین پرجهوٹ وغلط بولنے والا ہے ۔کیا شيخ الإسلام إبن تيمية کے اس فتوی کا مصداق آج کل کا جدید فرقہ اہل حدیث نہیں ہے جو رات دن کا مشغلہ ہی یہی بنائے ہوئے ہیں ؟؟؟
میں نے حافظ ابن القیم رحمہ الله اور ان کے شیخ شيخ الإسلام إبن تيمية رحمہ الله کی تصریحات نقل کیں ، عجب نہیں کہ حافظ ابن القیم رحمہ الله شيخ الإسلام إبن تيمية رحمہ الله کا یہ اعلان فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جُہلاء کے لیئے باعث ہدایت بن جائے ۔اور یہ بهی یاد رہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جاہل نام نہاد شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ پهیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی‘‘ حدیث ’’کے بالکل مخالف ہے ، گذشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ امام اعظم اورآپ کے اصحاب بالاتفاق ضعیف حدیث پرعمل نہیں چهوڑتے چہ جائیکہ صحیح حدیث کو چهوڑ دیں ، اس سلسلہ میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں۔
دیگرمُحدثین کے یہاں اور خود فرقہ جدید اہل حدیث کے یہاں بهی ‘‘ مُرسَل حدیث’’ ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ، جب کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب ‘‘ مُرسَل حدیث ’’ کو بهی قبول کرتے ہیں ، اور قابل احتجاج سمجهتے ہیں بشرطیکہ ‘‘ مُرسِل’’ ثقہ وعادل ہو۔

یہاں سے آپ اندازه لگا لیں کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب ‘‘ حدیث ’’کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ، اور حدیث رسول کے ساتھ کس درجہ شدید و قوی تعلق رکهتے ہیں ، لیکن پهر بهی عوام کو بے راه کرنے کے لئے یہ جهوٹ و وسوسہ پهیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی حدیث کے بالکل مخالف ہے۔






امام المسلمین ابو حنیفہؒ

از:۔ حضرت امام عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ تعالیٰ عنہ 


لقد زان البلاد و من علیہا ٭ امام المسلمین ابو حنیفہؒ 

با حکام وآ ثار و فقہ ٭ کا یات الزبور علی صحیفہ 

فما فی المشرقین لہ نظیر ٭ ولا فی المغربین ولا بکوفہ 

یبیت مشمرا سہر اللیالی ٭ وصام نہارہ للہ خیفہ 

وصان لسانہ عن کل افک ٭ وما زانت جوارحہ عفیفہ 

یعف عن المحارم والملاہی ٭ ومرضاۃ الا لہ لہ وظیفہ 

رأیت العاتبین لہ سفاہا ٭ خلاف الحق مع حجج ضعیفہ 

و کیف یحل ان یوذی فقیہ ٭ لہ فی الارض آثار شریفہ 

وقد قال بن ادریس مقالا ٭ صحیح ا لنقل فی حکم لطیفہ 

بان الناس فی فقہ عیال ٭ علی فقہ الامام ابی حنیفہ 

فلعنۃ ربنا اعداد رمل ٭ علی من رد قول ابی حنیفہ 

ترجمہ:
٭ امام المسلمین ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہروں اور شہریوں کو زینت بخشی، 

٭ احکام قرآن، آثار حدیث اور فقہ سے ، جیسے صحیفہ میں زبور کی آیات نے۔ 

٭ کوفہ بلکہ مشرق و مغرب میں ان کی نظیر نہیں ملتی، یعنی روئے زمین میں ان جیسا کوئی نہیں۔ 

٭ آپ عبادت کے لئے مستعد ہو کر بیداری میں راتیں بسر کرتے اور خوف خدا کی وجہ سے دن کو روزہ رکھتے ،۔ 

٭ انہوں نے اپنی زبان ہر بہتان طرازی سے محفوظ رکھی، اور انکے اعضا ہر گناہ سے پاک رہے۔ 

٭ آپ لہو و لعب اور حرا م کاموں سے بچے رہے ، رضائے الہی کا حصول آ پ کا ووظیفہ تھا۔ 

٭ امام اعظم کے نکتہ چیں بے وقوف، مخالف حق اور کمزور دلائل والے ہیں ۔ 

٭ ایسے فقیہ کو کسی بھی وجہ سے تکلیف دینا کیونکر جائز ہے ، جسکے علمی فیوض تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ 

٭ حالانکہ صحیح روایت میں لطیف حکمتوں کے ضمن میں امام شافعی نے فرمایا : کہ 

٭ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی فقہ کے محتاج ہیں۔ 

٭ ریت کے ذروں کے برابر اس شخص پر اللہ تعالی ٰ کی لعنت ہو جو امام ابو حنیفہ کے قول کو مردود قرار دے۔ 

[التبييض الصحيفه في مناقب الإمام أبي حنيفه: شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ الله(شافعی-مقلد) (849-911ھ)









اب میں چند نام کتب کے ناظرین کے سامنے پیش کرتا ہوں جن میں امام صاحب رحمه الله کے مناقب موجود ہیں جن کے مؤلفین شافعی ، مالکی ، حنبلی ،حنفی ہیں

نمبر [01] عقود المرجان

نمبر [02] قلائد عقود اور الدرر والعقیان
یہ دونوں کتابیں امام صاحب رحمه الله کے مناقب میں حافظ ابو جعفر طحاوی نے تالیف کی ہیں


نمبر [03] البستان فی مناقب النعمان

علامہ محی الدین بن عبد القادر بن ابو الوفا قرشی نے تالیف کی


نمبر [04] شقالق النعمان
علامہ جار الله زمحشری کی


نمبر [05] کشف الآثار
علامہ عبد الله بن محمد حارثی کی

نمبر [06] الانتصار لامام ائمۃ الامصار
علامہ یوسف سبط ابن جوزی کی

نمبر [07] تبییض الصحیفہ
امام جلال الدین سیوطی نے تالیف کی ہے ، محرر سطور نے اس کا مطالعہ کیا ہے

نمبر [08] تحفۃ السلطان
علامہ ابن کاس نے تالیف کی

نمبر [09] عقود الجمان
علامہ محمد بن یوسف دمشقی نے تالیف کی

نمبر [10] ابانہ
احمد بن عبد الله شیر آبادی کی

نمبر [11] تنویر الصحیفہ
علامہ یوسف بن عبد الہادی کی تصنیف ہے

نمبر [12] خیرات حسان
حافط ابن حجر مکی شافعی نے امام صاحب رحمه الله کے مناقب میں تصنیف کی ہے

نمبر [13] قلائد العقیان
یہ بھی حافظ ابن حجر مکی شافعی نے امام صاحب رحمه الله کے مناقب میں تصنیف کی ہے

نمبر [14] الفوائد المہمہ
علامہ عمر بن عبدالوہاب عرضی شافعی کی

نمبر [15] مرآۃ الجنان
امام یافعی کی

نمبر [16] تذکرۃ الحفاظ
امام ذہبی کی ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے

نمبر [17] تہذیب التہذیب

نمبر [18] الکاشف
یہ دونوں بھی حافظ ذہبی شافعی کی ہیں

نمبر [19] تہذیب الکمال
حافظ ابو الحجاج مزی کی

نمبر [20] جامع الاصول
علامہ ابن اثیر جزری کی

نمبر [21] احیاء العلوم
امام غزالی کی ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے

نمبر [22] تہذیب الاسماء واللغات
امام نووی کی

نمبر [23] تاریخ ابن خلدون

نمبر [24] تاریخ ابن خلکان

نمبر [25] الاکمال فی اسماء الرجال
لصاحب المشکوۃ ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے

نمبر [26] میزان کبری
شیخ عبدالوہاب شعرانی کی ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے

نمبر [27] الیواقیت والجواہر
یہ بھی شیخ عبدالوہاب شعرانی کی ہے

نمبر [28] طبقاب شافعیہ
ابو اسحاق شیرازی کی

نمبر [29] اول کتاب مسند
ابو عبد الله بن خسرو بلخی نے امام صاحب رحمه الله کے مناقب بیان کئے ہیں، محرر سطور نے اس کا مطالعہ کیا ہے

نمبر [30] الایضاح
عثمان بن علی بن محمد شیرازی کی

نمبر [31] جامع الانوار
محمد بن عبد الرحمن غزنوی کی

نمبر [32] مرقات شرح مشکوۃ
علامہ ملا علی قاری کی ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے

نمبر [33] تنسیق النظام
فاضل سنبھلی کی ، اس کا بھی مطالعہ کیا ہے - مسند امام اعظم کا احناف کےواسطے میرے خیال میں اس سے اچھا کوئی حاشیہ نہیں ، بلکہ یہ مستقل شرح ہے

نمبر [34] النافع الکبیر

نمبر [35] مقدمہ تعلیق ممجد

نمبر [36] مقدمہ ہدایہ

نمبر [37] مقدمہ شرح وقایہ

نمبر [38] مقدمہ سعایہ

نمبر [39] اقامۃ الحجہ

نمبر [40] الرفع والتکمیل

نمبر [41] تذکرۃ الراشد
مولانا عبد الحئی لکھنوی کی ہیں - یہ آٹھوں کتابیں محرر سطور کے مطالعہ سے گزری ہیں

نمبر [42] آثار السنن

نمبر [43] اوشحۃ الجید
علامہ شوق نیموی کی ، ان دونوں کتابوں کا بھی مطالعہ کیا ہے - خصوصآ آثارالسنن بہت نایاب کتاب ہے ، خدا ان کو جزائے خیر دے ، آمین

نمبر [44] خلاصہ تہذیب الکمال
علامہ صفی الدین خزرجی کی یہ کتاب بھی مطالعہ سے گزری ہے

نمبر [45] عمدۃ القاری شرح بخاری

نمبر [46] بنایہ شرح ہدایہ
یہ دونوں کتابیں بھی حافظ وقت عینی کی ہیں اور دونوں محرر سطور کے مطالعہ میں رہ چکی ہیں

نمبر [47] شرح عین العلم
ابن حجر مکی شافعی کی

نمبر [48] حاشیہ محمد بن یوسف دمشقی علی المواہب

نمبر [49] عین العلم
محمد بن عثمان بلخی کی ، اس کا بھی محرر سطور نے مطالعہ کیا ہے

نمبر [50] انتصار الحق جواب معیار الحق
فاضل رام پور کی ، یہ بھی مطالعہ سے گزری ہے ، اچھی کتاب ہے

نمبر [51] شرح مسلم الثبوت
علامہ بحر العلوم لکھنوی کی

نمبر [52] غیث الغمام
فاضل لکھنوی کی ، اس کو بھی دیکھا ہے

نمبر [53] تمہید
حافظ ابن عبدالبر کی

نمبر [54] استذکار
حافظ ابن عبدالبر

نمبر [55] کتاب جامع العلم
حافظ ابن عبدالبر ، اس کا ایک مختصر ہے ، احقر نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے ، بہت ہی عجیب کتاب ہے

نمبر [56] مجمع البحار
علامہ محمد طاہر پٹنی حنفی کی اس کا بھی مطالعہ کیا ہے ، ان کی ایک کتاب قانون رجال میں ہے جو قلمی ہے چھپی نہیں ہے ، اس کے خطبہ میں خود مؤلف نےاپنے آپ کو حنفی لکھا ہے ، احقر نے اس کا مطالعہ کیا ہے اچھی کتاب ہے

نمبر [57] طبقات کبری
تاج الدین سبکی کی

نمبر [58] لواقح الانوار
علامہ شعرانی شافعی کی

نمبر [59] تذکرۃ الاولیاء
عطار رحمه الله کی

نمبر [60] فیوض الحرمین
شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله کی

نمبر [61] عقود الجواہر المنیفہ
علامہ سید محمد مرتضی زبیدی کی ، اس کا بھی مطالعہ کیا ہے یہ دو جلدوں میں وہ کتاب ہے جس میں ان روایات حدیثیہ کو جمع کیا ہے جن کو امام ابوحنیفہ رحمه الله روایت کرتے ہیں ، بہت عجیب کتاب ہے ، ہر شخص کو جو حنفہ مذہب رکھتا ہو اس کا مطالعہ کرنا چاہیئے تاکہ اس کو معلوم ہو کہ امام ابوحنیفہ رحمه الله کو کتنی حدیثیں پہنچی تھیں اور دشمن کتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں

نمبر [62] درمختار

نمبر [63] ردالمختار
دونوں کا مطالعہ کیا ہے

نمبر [64] مقدمہ فتح الباری
اس کا بھی مطالعہ کیا ہے

نمبر [65] تہذیب التہذیب

نمبر [66] تقریب التہذیب
یہ دونوں بھی حافظ ابن حجر عسقلانی کی ہیں ، احقر نے دونوں کا مطالعہ کیااور فائدہ حاصل کیا ہے

نمبر [67] روض الفائق
علامہ شعیب کی

نمبر [68] التاج المکلل

نمبر [69] حطہ فی اصول الصحاح ستہ

نمبر [70] اتحاف النبلاء

نمبر [71] کشف الالتباس
یہ چاروں کتابیں نواب صدیق حسن خاں قنوجی کی ہیں جو میرے مطالعہ سے گزری ہیں

نمبر [72] المقاثب المنفیہ

نمبر [73] کتاب الحنفاء
یہ دونوں مولوی عبد الاول جونپوری کی ہیں جو خاکسار نے دیکھی ہے

نمبر [74] کتاب المناقب
للموفق بن احمد مکی کی ، اس کا بھی مطالعہ کیا ہے

نمبر [75] مناقب کردری
اس کو بھی احقر نے دیکھا ہے ، یہ دونوں کتابیں دائرۃ المعارف سے چھپی ہیں جو حیدرآباد میں ہے

نمبر [76] الحیاض
علامہ شمس الدین سیوالسی کی

نمبر [77] المناقب
حافظ ذہبی مصنف کاشف کی ہے

نمبر [78] الطبقات السنیہ
علامہ تقی الدین ابن عبد القادر کی

نمبر [79] الصحیفہ فی مناقب ابو حنیفہؒ
حافظ ذہبی کی ہے ، یہ اناسی [79] نام ناظرین کے سامنے "مشتے نمونہ ازخروارے" پیش کئے ہیں جس میں بہت سی ایسی کتابیں ہیں جو خاص امام صاحب رحمه الله کے مناقب و محامد میں لکھی گئی ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے حاسدوں اور دشمنوں کے اور کوئی بھی امام صاحب رحمه الله کےفضائل کا انکار نہیں کرسکتا ، ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کتابیں ہیں جن میں امام صاحب رحمه الله کے مناقب موجود ہیں جس کی ظاہری آنکھیں کھلی ہیں وہ دیکھ سکتا ہے ، مذکورہ کتب میں سے بیالیس [42] کتابیں میں نے دیکھی ہیں اور ان کا مطالعہ کیا ہے - ناظرین یہاں تک ان اقوال کے متعلق ذکر تھا جن کا نام مؤلف رسالہ [الجرح علی ابی حنیفه] نے گنائے تھے -تقریبآ نصف نام میں ان میں سے ذکر کئے ہیں ، انہیں پر اوروں کو قیاس کرلیجئے ، گو مضمون بہت طویل ہوگیا مگر فائدہ سے خالی نہیں ہے - اب آگےمؤلف رسالہ [الجرح علی ابی حنیفه] گل افشانی فرماتے ہیں

کشف الغمة بسراج الامة - ترجمہ
[امام اعظم ابو حنیفہ رحمه الله اورمتعرضین] صفحہ نمبر 64 تا 67
============================= 



امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله ان مقدس ومحترم شخصيات ميں سے ہیں ، جن کے خلاف فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی طرف طعن وتشنیع وتنقید کا بازار گرم رہتا هے ، اس فرقہ جدید میں شامل تقریبا ہرچهوٹا بڑا امام عالی شان کی ذات میں توہین وتنقیص کا کچهہ نہ کچهہ اظہار کرتا رہتا ہے ، اور یہ صفت قبیحہ اس فرقہ جدید کے تمام ابناء میں سرایت کی ہوئ ہے ، الاماشاءالله من جملہ ان وساوس باطلہ کے ایک وسوسہ یہ امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کے خلاف پهیلایا جاتا هے کہ ان کو تو حدیث کا کچهہ بهی پتہ نہیں تها علم حدیث سے بالکل کورے تهے ( معاذالله ) ،اس باطل وسوسہ پرکچهہ بحث غالبا گذشتہ سطور میں گذرچکی ہے ،لیکن مزید اطمینان قلب کی خاطرمیں امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کی ان مسانید کا تذکره کروں گا ، جن کوکباراهل علم نے جمع کیا هے

تعريف المسانيد:
مسانيد جمع ہے مسند کی جوکہ ( سَنَدَ ) سے اسم مفعول ہے،

اهل لغت نے اس کی تعریف لغوی اس طرح پیش کی هے،

المسانيد أو المساند جمع : مسند ، وهو : اسم مفعول من الثلاثي : ( سَنَدَ ) ، قال ابن فارس ( ت 395 هـ ) : " السين والنون والدال أصل واحد يدل على انضمام الشيء إلى الشيء . وقد سُمِّي الدهر : مُسنَدًا ؛ لأن بعضه متضام " )

وقال الليث : " السند ما ارتفع عن الأرض " وقال الأزهري ( ت 370 هـ ) : " كل شيء أسندت إليه شيئًا فهو مُسنَد " وحكى أيضًا عن ابن بُزُرْج أن السَّنَد مثقل : ( ( سنود القوم في الجبل ) ) ، وقال الجوهري ( ت 393 هـ ) : " السَنَد : ما قابلك من الجبل وعلا عن السطح ، وفلان سَنَده أي : معتمد " وقال ابن منظور ( ت 711هـ ) : " ما يسند إليه يُسمى مسْنَدًا ومُسْنَدًا ، وجمعه : المَساند " (13) وزاد صاحب القاموس أنه يجمع أَيضًا بلفظ : ( مسانيد ) ، ويرى أبو عبد الله : محمد بن عبد الله الشافعي الزركشي ، ( ت 794 هـ ) ( أن الحذف أولى .

حاصل یہ کہ مسند کا معنی لغوی اعتبار سے یہ هے کہ جوکسی چیزکی طرف منسوب کیا جائے ، جوکسی چیزکی طرف ملایا جائے ، اس چیزکومضبوط کرنے کے لیئے٠

مسند کی اصطلاحى تعریف

اصطلاح میں مسند کا اطلاق حدیث پربهی ہوتا ہے اورحدیث کی کتاب پربهی ہوتا ہے، مسند اس حدیث مرفوع کو کہتے ہیں جس کی سند کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ یہ تو مسند حدیث کی تعریف ہے،

اور اسی طرح مسند کا اطلاق حدیث کی ان کتب پربهی ہوتا ہے، جن کو اس کے مؤلفین نے اسماء الصحابة کے مسانيد پرجمع کیا ہو یعنی مسند حدیث کی وه کتاب ہے جس میں ہرصحابی کے احادیث کو الگ الگ جمع کیا جائے،

پهر بعض محدثین نے اس بارے میں یہ ترتیب رکهی کہ پہلے سابقین فی الاسلام صحابہ کی احادیث ذکرکرتے ہیں جیسے عشره مبشره پهر اهل بدر وغیره ، اور بعض محدثین حروف المعجم کے اعتبار سے صحابہ کی احادیث ذکرکرتے ہیں وغيره . بغرض فائده یہ تومسند کی لغوی واصطلاحی تعریف کا مختصرتذکره تها ، اب میں ان کباراهل علم وعلماء امت کا تذکره کروں گا جنهوں نے امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کے ان مسانید کو جمع کیا .

یا درہے کہ امام محمد بن محمود الخوارزمی رحمه الله نے امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کی پندره (15) مسانید کو جامع مسانيد الإمام ابى حنيفة النعمان کے نام سے ایک مستقل کتاب میں جمع کیا هے ، اوران کے جمع کرنے کی وجہ یہ لکهی کہ میں نے شام میں بعض جہلاء سے سنا جوامام اعظم کی شان میں توہین وتنقیص کر رها تها اورامام اعظم پر رواية الحديث کی قلت کا الزام لگا رها تها ، اوراس بارے میں مسند الشافعي وموطا مالك وغیره سے استدلال کر رها تها اوریہ گمان کر رها تها کہ ابو حنیفہؒ کی تو کوئ مسند نہیں ہے ، لہذا مجهے دینی غیرت وحمیت لاحق ہوئ پس میں نے اراده کیا کہ میں امام اعظم رحمه الله کی ان پندره (15) مسانید کو جمع کروں جن کبار علماء الحديث نے جمع کیا هے .

ان کبار علماء الحديث کے اسماء درج ذیل ہیں جنهوں نے امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کے مسانید کوجمع کیا هے

1 = الإمام الحافظ ابو محمد : عبد الله بن محمد بن يعقوب الحارثي البخاري المعروف : بعبد الله

2 = الإمام الحافظ ابو القاسم : طلحة بن محمد بن جعفر الشاهد العدل

3 = الإمام الحافظ ابو الحسين : محمد بن المظفر بن موسى بن عيسى بن محمد

4 = الإمام الحافظ : ابو نعيم الأصفهاني

5 = الشيخ ابو بكر : محمد بن عبد الباقي بن محمد الأنصاري

6 = الإمام ابو احمد : عبد الله بن عدي الجرجاني

7 = الإمام الحافظ : عمر بن الحسن الأشناني

8 = الإمام ابو بكر : احمد بن محمد بن خالد الكلاعي

9 = الإمام ابو يوسف القاضي : يعقوب بن ابراهيم الأنصاري ، وما روي عنه يسمى : نسخة ابي يوسف

10 = الإمام : محمد بن الحسن الشيباني والمروي عنه يسمى : نسخة محمد

11 = ابن الإمام : حماد رواه عن ابي حنيفة

12 = الإمام : محمد ايضا ، وروى معظمه عن التابعين ، وما رواه عنه يسمى : الآثار

13 = الإمام الحافظ ابو القاسم : عبد الله بن محمد بن أبي العوام السعدي

14 = الإمام الحافظ ابو عبد الله : حسين بن محمد بن خسرو البلخي

15 = الإمام الماوردي ابو الحسن : علي بن محمد بن حبيب

یہ مسانید( ابواب الفقه ) کے مطابق جمع کیئے گئے ہیں ، پهر بعد میں بعض علماء امت نے ان مسانید کی اختصار اور شرح بهی لکهی ، مثلا
1 = الإمام شرف الدين : اسماعيل بن عيسى بن دولة الأوغاني المكي نے اس کا اختصار بنام اختيار اعتماد المسانيد في اختصار اسماء بعض رجال الأسانيد ) لكها ،

2 = الإمام ابو البقاء : احمد بن ابي الضياء ( محمد القرشي البدوي المكي ) نے اس کا اختصار بنام مختصر ( المستند مختصر المسند ) لكها ،

3 = الإمام محمد بن عباد الخلاطي نے اس کا اختصار بنام ( مقصد المسند ) لكها

4 = ابو عبد الله : محمد بن اسماعيل بن ابراهيم الحنفي ،نے اس کا اختصار لکها

5 = حافظ الدين : محمد بن محمد الكردري المعروف : بابن البزازي نے اس کے زوائد کو جمع کیا ،

6 = شيخ جلال الدين السيوطي نے اس کی شرح بنام ( التعليقة المنيفة على سند ابي حنيفة ) لکهی اس کے علاوه بهی بہت ساری کتب وشروحات امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کی مسانید پرلکهی گئ ہیں .

رحمهم الله جميعا وجزاهم الله تعالى خيرا في الدارين

یقینا اس ساری تفصیل کے بعد آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ چند جہلاء زمانہ کی طرف سے امام اعظم کے خلاف جو باطل وکاذب وسوسہ پهیلایا جاتا هے یہ وسوسہ صرف جہلاء وسفہاء کی مجلس میں کارگر ہوتا ہے اربابِ علم واصحاب فکرونظر کی نگاه میں اس کی کوئ حیثیت نہیں ہے۔
************************************
امام ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی البخاری المعروف بہ :الاستاذ" المتوفی 340ھ)
امام حارثی ؒ وہ شخص ہیں جنہوں نے علم حدیث میں بلند پایہ مقام رکھنے کی وجہ سے محدثین سے "الاستاذ " کا ممتاز لقب حاصل کیا 
امام خلیلی ؒ المتوفی 446نے" کتاب الارشاد میں ان کے تذکرہ میں لکھتے ہیں 
یعرف بالاستاذ لہ معرفۃ بھذالشاں (لسان المیزان ج3ص 405٭ )
یہ الاستاذ کے لقب سے مشہور ہیں ان کو اس فن حدیث کی معرفت حاصل ہے 
حافث ذہبی ؒالمتوفی 748ھ ان کے متعلق ارقام فرماتے ہیں 
عرف بالاستاذ اکثر عنہ ابو عبداللہ بن مندۃ (لسان المیزان ج3ص 405) یہ الاستاذ سے مشہور ہیں امام ابوعبداللہ بن مندہ نے ان سے بکثرت احادیث روایت کی ہے 
امام ابن مندہ المتوفی 395 ھ مشہور اور بلند مرتبت محدث ہیں انہوں نے امام حارثی سے بکثرت روایت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی توثیق بھی کی ہے 
چنانچہ حافظ ذہبی " تاریخ کبیر میں امام حارثی کے ترجمہ لکھتے ہیں 
وکان ابن مندۃ حسن الرئی فیہ (تاریخ التراجم ص21) 
امام ابن مندہ ؒ ان کے حق میں اچھے رائے رکھتے تھے 
نیز لکھتے ہیں 
وکان ابن مندۃ یحسن القول فیہ )سیر علام النبلاء ت 340) 
امام ابن مندہ ان کی اچھائی بنیان کرتے تھے 
حافظ ذہیبی کا ان کے بارے خود اپنا بیان یہ ہے کہ 
وکان محدثا ضوالا راسا فی الفقہ ( العبر 
نیز ذہیبی ؒ ان کو درج ذیل القاب سے یاد فرماتے ہے 
الاستاذ الشیخ ن الاما الفقہ ، المحدث ، عالم ماوراء النھر ( سیراعلام النبلا ت 340 ، تذکرۃ الحفاظ ج3ص 49
علامہ ابوسعد سمعانی امتوفی 566ھ فرماتے ہیں 
وکان شیخا مکثرا من الحدیث ( کتاب النساب ج3ص 16)
امام حارثی ؒ شیخ اور کثیر الحدیث تھے 
انس بیان میں امام سمعانی ؒ نے امام حارثی کو کثیر الحدیث قرار دینے کے ساتھ ساتھ شیخ بھی قرار دیا جو بتصریح مولانا ارشادلحق اثری الفاظ توثیق میں سے ہے
نیز سمعانی ؒ فرماتے ہیں 
رجل الی خراسان والعراق والحجاز وادرک الشیوخ ( کتاب الانساب ج3س 16)
امام حارثی نے طلب حدیث میں خراسان ، عارق ، اور حجاز ( مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ) کی طرف سفر کیا اور وہاں کے شیوخ حدیث سے ملاقات کی ،
حافظ ابن حجر عسقلانی ان کو حافث الحدیث قرار دیتے ہیں چنانچہ ان کے تعارف میں ارقام فرماتے ہیں 
ابو محمد الحارثی ۔ ھو عبداللہ بن یعقوب الحافظ الحنفی وھو الاستاذ وھو البخاری ( لسان المیزان ج7ص 124 باب الکنی)
اس طرح حافظ موصوف نے ان مولفہ " مسند ابی حنیفہ کے تعارف میں بھی ان کا حافظ الحدیث ہونا تسلیم کیا ہے چنانچہ وی رقمطراز ہیں 
وقد اعتنی الحافظ ابو محمد الحارثی وکان بعد الظلاچمائۃ بحدیث ابی حنیفہ فجمعہ فی مجلد ورتبہ علی شیوک ابی حنیفۃ ( تعجیل المنفعۃ ص19)
حافظ ابو محمد حارثی جو 300ھ کے بعد ہوئے ہیں انہوں نے امام ابوحنیفہ ؒ کی احادیث پر خصوصی توجہ دی اور ان کو ایک جلد میں جمع کیا اور اس مسند کو انہوں نے امام ابوحنیفہ کے شیوخ پر ترتیب دیا ہے 
حافظ ابو الموئد خوارزمی المتوفی 665ھ نے ان کی جمع کردہ " مسند ابی حنفہ کی تعریف میں لکھا ہے
من طالع مسدہ الذی جمعہ للامام ابی حنیفہ علم تبحرہ فی علم الحدیث واحاطتہ بمعرفۃ الطرق والمنوں ( جامع المسانید ج2ص 525)

جو شخص بھی امام حارثی کی جمع کردہ " مسند امام ابی حنیفہ " کا مطالعہ کرے گا وہ علم حدیث میں ان کے تبحر اور طرق و متون حدیث پر ان کے احاطہ علیمہ کو جان لے گا۔
=====================================
”فقہ حنفی“ کی شورائیت پر ایک نظر
    اس وقت پوری دنیا میں عملی اعتبار سے ائمہ اربعہ کی فقہ رائج ومتداول ہے، ان میں بھی عمومی قبولیت اور خصوصی امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہے ؛ بلکہ اگر کہا جائے کہ اولیت ومرجعیت اسی فقہ کا مقدر ہے، تو غلط نہ ہوگا، فقہ حنفی نے ترقی کی جس اوج کمال کو دریافت کیاہے اس کے اسباب وعلل کا پتہ لگانا دشوار نہیں؛ اس فقہ کی ترقی وکمال کا راز سربستہ بظاہر اس فقہ کی جامعیت، احوال زمانہ سے ہم آہنگی، اصول وقواعد کی پختگی اور احادیث وآثار کا انضمام ہے۔
فقہ حنفی کی خصوصیت:
          علامہ شبلی نعمانی نے ”سیرة النعمان“ میں فقہ حنفی کی خصوصیت پر مفصل کلام کیاہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: (۱) فقہ حنفی کے مسائل اسرار ومصالح پر مبنی ہوتے ہیں (۲) فقہ حنفی پر عمل بہ نسبت تمام فقہوں کے نہایت آسان ہے (۳) فقہ حنفی میں معاملات کے متعلق جو قاعدے ہیں نہایت وسیع اور متمدن ہیں (۴) فقہ حنفی نے ذمیوں کے حقوق (یعنی وہ لوگ جو مسلمان نہیں ہیں؛ لیکن مسلمانوں کی حکومت میں مطیعانہ رہتے ہیں) نہایت فیاضی اور آزادی سے دئیے ہیں۔ یہ وہ خصوصیت ہے جس کی نظیر کسی امام اور مجتہد کے یہاں نہیں ملتی (۵) فقہ حنفی نصوصِ شرعیہ کے موافق ہے، یعنی جو احکام نصوص سے ماخوذ ہیں اور جن میں ائمہ کا اختلاف ہے ان میں امام ابوحنیفہ جو پہلو اختیار کرتے ہیں وہ عموماً قوی اور مدلل ہوتا ہے۔ (ص:۱۹۴)


شورائی نظام:
          فقہ حنفی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ فقہ ایک شخص کی رائے پر مبنی نہیں ہے؛ بلکہ امام ابوحنیفہ نے جس جامع اور محیط طرز پر فقہ کی تدوین کا منصوبہ بنایا تھا، وہ انتہائی وسیع اور دشوار کام تھا، اس لیے آپنے اتنے بڑے اور اہم ارادے کی تکمیل کے لیے اپنے شاگردوں میں سے چالیس جبال العلم محدثین وفقہاء، طریقِ تخریج کے ماہر اور علم عربیت ولغت کے رمز شناس افراد کا انتخاب کیا اور ایک مجلس شوریٰ تشکیل دی، جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو امام صاحب تمام اراکین شوریٰ سے استفسار کرتے، اگر تمام کی رائے کسی ایک امر پر متفق ہوجاتی تو امام ابویوسف منقح انداز میں اصول کی کتابوں میں درج فرمادیتے، اور اگر رائے مختلف ہوتی تو آزادانہ طور پر بحث کا سلسلہ جاری رہتا، کبھی کبھی ایک ایک مسئلہ پرمہینوں بحث کا سلسلہ جاری رہتا، پھر جب روشن صبح کی طرح دلائل واضح ہوجاتے تو اس کو لکھ لیا جاتا؛ موفق بن احمد مکی ”مناقب ابی حنیفہ“ میں لکھتے ہیں:
          ”فکان یلقی مسئلة مسئلة وسمع ما عندہم ویقول ما عندہ ویناظرہم شہراً أو أکثر من ذلک حتی یستقر أحد الأقوال ثم یثبتہا أبو یوسف فی الأصول“
امام صاحب ایک ایک مسئلہ پیش کرتے اور ان کی رائے سنتے اور اپنا نظریہ بیان کرتے اور ایک ایک مہینہ ؛ بلکہ ضرورت پڑتی تواس سے بھی زیادہ عرصہ تک اس میں مناظرہ ومباحثہ کرتے رہتے، حتی کہ جب کسی ایک قول پر سب کے رائے جم جاتی تو امام ابویوسف اصول میں درج کردیتے۔ (مناقب موفق: ۲/۱۳۳)
          اس کے بعد بھی اگر کسی کا اختلاف رہ جاتا تو ان کے اختلاف کے ساتھ بقید تحریر لایا جاتا اور اس امر کا اہتمام والتزام ہوتا کہ جب تک ایک مسئلہ حل نہ کرلیا جائے التواء میں نہ ڈالا جائے؛ علامہ کردری کا بیان سنتے چلئے، فرماتے ہیں:
          ”اذا وقعت لہم مسئلةٌ یدیرونہا حتی یضیوٴنہا“
جب اس مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو اس کو آپس میں خوب گردش دیتے، یہاں تک کہ بالآخر اس کی تہ تک پہنچ کر اس کو روشن کرلیتے۔ (مناقب کردری:۲/۳)
          امام صاحب محض اپنی ذاتی رائے کی تدوین پسند نہ کرتے، جب تک خوب اس پر اچھی طرح غور نہ فرمالیتے اور مجلس شوریٰ کے ذریعہ بھی اس کے ہر پہلو نمایاں نہ ہوجاتے، یہی وجہ ہے کہ کبھی امام ابویوسف امام صاحب کی رائے بدون تنقیح وتحقیق لکھ دیتے تو امام صاحب ان کو متنبہ فرماتے:
          ”لا تکتب کل ما تسمع منی فانی قد أری الرأی الیوم وأترکہ غداً، وأری الرأی غداً وأترکہ فی غدہ“
ہر وہ چیز جو مجھ سے سنتے ہومت لکھ لیاکرو؛ کیوں کہ اگر میں آج کوئی رائے قائم کرتا ہوں تو کل اُسے چھوڑ دیتا ہوں اور کل کی رائے پرسوں ترک کردیتا ہوں“
(تقدمہ نصب الرایہ:۳۱۰)

فقہی مسائل میں شوریٰ کی شرعی حیثیت:
          اسلام میں شوریٰ کی افادیت واہمیت مسلم ہے، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے انصار کے نظامِ شوریٰ کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”وأمرہم شوریٰ بینہم“ اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کی تلقین فرمائی: ”وشاورہم فی الأمر“ احادیث میں بھی شوریٰ کی حکمتیں اور فضیلتیں مذکور ہیں، اسی لیے حضراتِ صحابہ شورائی نظام پر عمل پیرا تھے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد سب سے پہلا مسئلہ ”خلافت“ کا صحابہ نے شوریٰ ہی کے ذریعہ حل کیا تھا، حضرت ابوبکر اپنے زمانہٴ خلافت میں شوریٰ کے ذریعہ ہی مسائل حل کیا کرتے تھے، بیہقی نے ”السنن الکبری“ میں میمون بن مہران کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:
”حضرت ابوبکر کے پاس جب بھی کوئی مقدمہ آتا اور کتاب وسنت میں اس کا حل ملتا تو اسی کے ذریعہ فیصلہ فرماتے تھے، اوراگر قرآن وسنت میں مسئلہ کا حل نہ معلوم ہوتا تو صحابہ کے پاس آتے اور صحابہ سے پوچھتے کہ میرے پاس ایسا مقدمہ آیا ہے، کیا تم میں سے کسی نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کے مقدمہ کا کوئی فیصلہ سنا ہے؟ بعض صحابہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان کرتے تو حضرت ابوبکر اس پر عمل کرتے اور اللہ کی تعریف کرتے کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ ہیں جو اپنے نبی کے علم کے محافظ ہیں، لکن اگر حدیث سے بھی کوئی حل نہ ملتا، تو کبار صحابہ اور فقہاء صحابہ کو جمع کرتے ان سے مشورہ کرتے اور جب وہ لوگ کسی امر پر متفق ہوجاتے تو اسی کا فیصلہ فرمادیتے“
(السنن الکبری للبیہقی: ۱۰/۱۱۴-۱۱۵، المصباح:۱/۱۱۱)
          حضرت عمر نے بھی اپنے زمانہٴ خلافت میں فقہی مسائل کے حل کے لیے ایک شوریٰ تشکیل دی تھی اورجب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا تو مدینہ کے فقہاء صحابہ کو جمع کرکے تبادلہ خیال فرماتے اور اجتماعی طورپر کوئی فیصلہ فرماتے، علامہ ابن القیم نے بھی اپنی تصنیف اعلام الموقعین، ج:۱،ص:۶۵ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے اس شورائی منہج کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ فقہی مسائل کے حل کے سلسلہ میں حضراتِ صحابہ میں زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس کا اور تابعین میں عمر بن عبدالعزیز، مروان بن الحکم، اور فقہاء سبعہ مدینہ کا بھی شورائی منہج تھا۔ (المصباح:۱/۱۱۵)
مجلس شوریٰ کی جامعیت:
          حضرت حماد کے انتقال کے بعد کوفہ کی مسند جب امام صاحب کے سپرد کی گئی تو باوجودیکہ امام صاحب علمِ حدیث کے امام اور فقہ کے استاذ الاساتذہ تھے، اجتہاد میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے، اوراس باب میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے، پھر بھی اس وادی غیر ذی زرع اور لق ودق میدان میں تنہا طبع آزمائی کرنا مناسب خیال نہ کیا اور اپنے ممتاز تلامذہ کو بھی کارِ اجتہاد میں شریک کیا، اور اس طرح حضرت الامام نے حضراتِ شیخین کی سنت کو زندہ کیا، اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں مسائل کے حل کے لیے اجتماعی سعی کی جاتی ہے اور اجتماعی سعی انفرادی کوشش سے بہرحال افضل ہے، اگرچہ یہ طریقہ بھی معصوم عن الخطاء نہیں ہے؛ لیکن انفرادی کوشش کی بہ نسبت اس طریقہٴ اجتہاد میں غلطی کا امکان کم ہے،اس پر مستزاد یہ کہ اجتماعیت میں جو قوت ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اسی لیے جب امام المحدثین وکیع بن الجراح کے سامنے کہا گیا کہ: امام صاحب سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی ہے، تو انھوں نے کہا: امام ابوحنیفہغلطی کیسے کرسکتے ہیں، جبکہ ان کے پاس ابویوسف اور زفر جیسے قیاس کے ماہر، یحییٰ بن ابوزائدہ، حفص بن غیاث، حبّان اور مندل جیسے حفاظِ حدیث اور قاسم بن معین اور امام محمد جیسے لغتِ عربیت کے جاننے والے، دواؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسے زاہد ومتقی حضرات ہیں اگر ابوحنیفہ غلطی کریں گے تو کیا یہ لوگ ان کی اصلاح نہ کریں گے؟ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص:۱۵۲)
          وکیع کے اس بیان سے جہاں تدوین فقہ کی دستوری کمیٹی کے افراد کی علمی جلالتِ قدر سامنے آتی ہے اور بحث وتحقیق کا طریقِ کار معلوم ہوتا ہے، وہیں امام صاحب کے ارکانِ شوریٰ کی جامعیت اور آپ کے رفقاء کے بلند مقام کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔
بحث ومباحثہ:
          مجلس شوریٰ میں جب بھی کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا تو تمام اراکین کھل کر بحث ونقد میں حصہ لیتے اورہر ایک کو احادیث وآثار اور اجماع وقیاس کی روشنی میں آزادانہ نقد وتبصرہ کا موقع دیا جاتا، مجلس کا ہر ہر فرد آزادی کے ساتھ اپنی دلیل امام صاحب کے سامنے پیش کرتا اور امام صاحب ہر ایک کی دلیل صبر وضبط سے سنتے رہتے، بسا اوقات ان کی آواز بھی بلند ہوجاتی اور دورانِ بحث بعض اراکین خود امام صاحب سے جو صدر مجلس اور سب کے استاذ بھی ہوتے، اختلاف کربیٹھتے اور یہاں تک کہہ دیتے کہ ”آپ کی فلاں دلیل غلط ہے“ بعض اجنبی لوگ امام صاحب سے کہتے کہ: آپ اتنی بے باکی سے بات کرنے والوں کو کیوں نہیں روکتے؟ تو امام صاحب فرماتے کہ: میں نے خود ان کو آزادی دی ہے اوران کو اس امر کا عادی بنایا ہے کہ کسی سے مرعوب نہ ہوں اور یہ لوگ ہر ایک کے حتی کہ میرے دلائل پر نکتہ چینی کریں تاکہ صحیح بات بالکل منقح ہوکر سامنے آجائے۔ (معجم المصنّفین،ص:۱۷۴)
          بعض مرتبہ بعض اراکین امام صاحب کے سامنے ایک دوسرے کی تردید کرتے تو امام صاحب جانبین کے دلائل سن کر واضح فیصلہ فرماتے، علامہ کردری امام صاحب کے نبیرہ اسمٰعیل بن حماد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
”ایک مرتبہ امام ابویوسف امام ابوحنیفہ کے داہنے جانب بیٹھے تھے اور امامِ زفر بائیں جانب اور دونوں ایک مسئلہ میں بحث کرنے لگے، جب امام ابویوسف کوئی دلیل پیش کرتے توامامِ زفر اس کی تردید کردیتے اور جب امام زفر کوئی دلیل پیش کرتے توامام ابویوسف اس کی تضعیف کردیتے، یہ مباحثہ ظہر تک جاری رہا، جب ظہر کی اذان ہوئی تو امام ابوحنیفہ نے امامِ زفر کی ران پر ہاتھ مارکر فرمایا: زفر ایسے شہر کی سرداری کی طمع نہ کر جس میں ابویوسف رہتے ہیں اور امام ابویوسف کے حق میں فیصلہ فرمایا“ (مناقب کردری:۲/۳۹۶)




فقہ تقدیری:
          فقہ حنفی کی غیرمعمولی شہرت ومقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امام صاحب کی شوریٰ میں صرف پیش آمدہ واقعات وحادثات پر بحث نہیں ہوتی تھی؛بلکہ غیرپیش آمدہ واقعات کے حل کی جانب بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی؛ تاکہ جب واقعہ پیش آئے تو اس کا حل ممکن ہو اور عمل کرنا آسان ہو، امام صاحب نے شوریٰ کے توسط سے ایسے اصول مرتب کیے کہ ہر زمانے میں پیش آمدہ مسائل کا حل بآسانی دریافت کیا جاسکے، امام صاحب کے تقدیری مسائل سے شغف کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایاجاسکتا ہے جس کو خطب نے نقل کیا ہے کہ:
”نضر بن محمد کہتے ہیں کہ ابو قتادہ کوفہ آئے اور ابوبردہ کے گھر قیام کیا، ایک دن باہر نکلے تو لوگوں کی بھیڑ ان کے گرد جمع ہوگئی، قتادہ نے قسم کھاکر کہا جو شخص بھی حلال وحرام کا مسئلہ دریافت کرے گا میں ضرور اس کا جواب دوں گا، امام ابوحنیفہ کھرے ہوگئے اور فرمایا ابوالخطاب (ان کی کنیت ہے) آپ اس عورت کے متعلق کیا فرماتے ہیں کہ جس کا شوہر چند سال سے غائب رہا، اس نے یہ یقین کرکے کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے دوسرا نکاح کرلیا، اس کے بعد پہلا شوہر بھی آگیا، آپ اس کے مہر کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ اور جو بھیڑ ان کو گھیرے کھڑی تھی ان سے مخاطب ہوکر فرمایا اگر اس مسئلہ کے جواب میں یہ کوئی حدیث روایت کریں گے تو غلط روایت کریں گے اوراگر اپنی رائے سے فتویٰ دیں گے تو وہ بھی غلط ہوگا، قتادہ بولے کیا خوب! کیا یہ واقعہ پیش آچکا ہے، امام صاحب نے فرمایانہیں، انھوں نے کہا پھر جو مسئلہ ابھی تک پیش نہیں آیا اس کا جواب مجھ سے کیوں دریافت کرتے ہو، امام صاحب نے فرمایا کہ ہم حادثہ پیش آنے سے قبل اس کے لیے تیاری کرلیتے ہیں تاکہ جب پیش آجائے تو اس سے نجات کی راہ معلوم رہے، قتادہ ناراض ہوکر بولے خدا کی قسم میں حلال وحرام کا مسئلہ تم سے بیان نہیں کروں گا، ہاں کچھ تفسیر کے متعلق پوچھنا ہوتو پوچھو! اس پر امام صاحب نے ایک تفسیری سوال کیا قتادہ اس پر بھی لاجواب ہوگئے اور ناراض ہوکر اندر تشریف لے گئے۔ (تاریخ بغداد۱۳/۳۴۷)
          اس واقعہ سے امام صاحب کی ذکاوت وذہانت اور فقہ سے گہری وابستگی کے ساتھ تقدیری اور بعد میں پیش آنے والے مسائل کی طرف ان کے غایت انہماک واہتمام کا پتہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔




مجموعہ مسائل:
          امام صاحب ۱۲۰ھ میں اپنے استاذ حضرت حماد کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے اور ۱۵۰ھ میں عالم ناسوت سے داربقا کو چلے گئے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ امام صاحب کا شورائی نظام تقریباً تیس سال پر محیط ہے، لیکن بعض حضرات کی رائے ہے کہ ۲۲سال کی مدت میں امام صاحب نے قانونِ اسلامی اور فقہ حنفی کو مدون کیا ہے، خیر یہ مدت تیس سال ہو یا بائیس سال، اس طویل المیعاد مدت میں اس شوریٰ نے کس قدر مسائل کا استنباط کیا، اس میں بھی علماء کے اقوال مختلف ہیں، بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ تعداد بارہ لاکھ نوے ہزار ہے، شمس الائمہ کردری لکھتے ہیں کہ یہ مسائل چھ لاکھ تھے، علامہ موفق بن احمدمکی نے بھی چھ لاک کا قول نقل کیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ فقہ حنفی کی کتابوں سے اس کی تائید ہوتی ہے؛ لیکن محققین کے رائے ہے کہ امام صاحب کی شوریٰ کے ذریعہ فیصل ہونے والا مجموعہ ۸۳ ہزار دفعات پر مشتمل تھا، جس میں ۳۸ ہزار مسائل عبادات سے متعلق تھے، باقی ۴۵ ہزار مسائل کا تعلق معاملات وعقوبات سے تھا، اور امام صاحب کو جب کوفہ سے بغداد جیل منتقل کیا گیا تب بھی تدوین فقہ کا سلسلہ جاری رہا اور امام محمد کا تعلق امام ابوحنیفہ سے یہیں قائم ہوا اور اضافہ کے بعداس دستوری خاکہ میں کل مسائل کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔
(دفاع امام ابوحنیفہ،ص:۱۲۶، فتاویٰ رحیمیہ:۱/۱۳۶، سیرة النعمان،ص:۱۵۴)




ارکانِ شوریٰ:
          امام اعظم نے دستور اسلامی کی مجلس تدوین میں جن جن عظیم المرتبت اشخاص کا انتخاب کیا تھا، فقہ اسلامی کے ماہرین اورامام صاحب کے تذکرہ نگاروں نے ان کی تعداد چالیس بیان کی ہے، امام طحاوی نے اپنی مسند سے نقل کیاہے کہ امام صاحب کے چالیس ممتاز اور ماہر فن تلامذہ تدوین فقہ اور کارِ اجتہاد میں ان کے شریک ومعاون تھے، اگرچہ امام طحاوی نے چند ناموں پراکتفاء کیاہے؛ لیکن بعض دیگر موٴرخین نے تمام اسماء کو شمار کرایا ہے، جو حسب ذیل ہیں:
          (۱) امام زفر م ۱۵۸ھ (۲) امام مالک بن مغول م ۱۵۹ھ (۳) امام داؤد طائی م ۱۶۰ھ (۴) امام مندل بن علی م ۱۶۸ھ (۵) امام نضر بن عبدالکریم م ۱۶۹ھ (۶) امام عمرو بن میمون م ۱۷۱ھ (۷) امام حبان بن علی م ۱۷۳ھ (۸) امام ابوعصمہ م ۱۷۳ھ (۹) امام زُہیر بن معاویہ م ۱۷۳ (۱۰) امام قاسم بن معن م ۱۷۵ھ (۱۱) امام حماد بن الامام الاعظم م ۱۷۶ھ (۱۲) امام ہیاج بن بسطام م ۱۷۷ھ (۱۳) امام شریک بن عبداللہ م ۱۷۸ (۱۴) عافیہ بن یزید م ۱۸۰ھ (۱۵) امام عبداللہ بن مبارک م ۱۸۱ھ (۱۶) امام ابویوسف م ۱۸۲ھ (۱۷) امام محمد بن نوح م ۱۸۲ھ (۱۸) مام ہشیم بن بشیر السلمی م ۱۸۳ھ (۱۹) ابوسعید یحییٰ بن زکریا م ۱۸۴ھ (۲۰) امام فضیل بن عیاض م ۱۸۷ھ (۲۱) امام اسد بن عمر م ۱۸۸ھ (۲۲) امام محمد بن الحسن م ۱۸۹ھ (۲۳) امام یوسف بن خالد م ۱۸۹ھ (۲۴) امام علی بن مسہر م ۱۸۹ھ (۲۵) امام عبداللہ بن ادریس م ۱۹۲ھ (۲۶) امام فضل بن موسیٰ م ۱۹۲ھ (۲۷) امام علی بن طبیان م ۱۹۲ھ (۲۸) امام حفص بن غیاث م ۱۹۴ھ (۲۹) وکیع بن جراح م ۱۹۷ھ (۳۰) امام ہشام بن یوسف م ۱۹۷ھ (۳۱) امام یحییٰ بن سعید القطان م ۱۹۸ھ (۳۲) امام شعیب بن اسحاق م ۱۹۸ھ (۳۳) امام حفص بن عبدالرحمن م ۱۹۹ھ (۳۴) ابومطیع بلخی م ۱۹۹ھ (۳۵) امام خالد بن سلیمان م ۱۹۹ھ (۳۶) امام عبدالحمید م ۲۰۳ھ (۳۷) امام حسن بن زیاد م ۲۰۴ھ (۳۸) امام ابوعاصم النبیل م ۲۱۲ھ (۳۹) امام مکی بن ابراہیم م ۲۱۵ھ (۴۰) امام حماد بن دلیل م ۲۱۵ھ (الجواہر المضیئہ:۱/۱۴، بحوالہ امام اعظم ابوحنیفہ،ص:۱۷۸)
          مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کی ایک فقہ اکیڈمی تھی جس میں ان کے ممتاز تلامذہ ان کے معاون اور شریک کار تھے اور امام صاحب مجتہد فیہ مسائل کو اجتماعی طورپر حل کیاکرتے تھے، لیکن ان حضرات کے اسمائے گرامی اور سنین ولادت ووفات کا عمومی جائزہ لیا جائے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ تمام تلامذہ اکیڈمی کے قیام کے وقت سے ہی ان کے شریک کار تھے، جیسے کہ امام محمد کی سن پیدائش ۱۳۲ھ اور یحییٰ بن ابوزائدہ کی سن پیدائش ۱۲۰ھ ہے اور عبداللہ بن مبارک کی سن پیدائش ۱۱۸ھ ہے جبکہ امام صاحب کی شوریٰ ۱۲۰ھ یا ۱۲۸ھ سے قائم ہے، تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ یہ تلامذہ اسی وقت سے ان کی کمیٹی میں داخل ہوگئے تھے، اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ امام صاحب نے وقتاً فوقتاً اپنے تلامذہ کو اپنے کارِ اجتہاد میں شریک کیا تھا، آپ کے بعض تلامذہ ایسے بھی تھے کہ جب آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے تو آپ سے جدا ہونا حرماں نصیبی تصور کیا اور تا حیات آپ کے علمی سرچشمے سے تشنگی علم کو فرو کرتے رہے، یہی تلامذہ جو درحقیقت خود بھی اجتہاد کے درجے پر فائز تھے، آپ کی اکیڈمی کے رکن رکین تھے، انھیں خادمانِ فقہ حنفی نے تقریباً تیس سال کی مدت میں فقہ حنفی کی تدوین کا عظیم الشان اور لازوال کارنامہ انجام دیا ہے، جن کی مجموعی تعداد چالیس تک پہنچتی ہے، جزاہم اللّٰہ خیر الجزاء․

امام صاحب کے مخصوص تلامذہ:
          جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا کہ فقہ حنفی کی تدوین میں امام صاحب کے چالیس تلامذہ شریک تھے، لیکن ان میں بھی دس تلامذہ سابقین اولین میں سے تھے، جیساکہ طحاوی نے اسد بن فرات سے نقل کیا ہے:
          ”کان أصحاب أبی حنیفة الذین دونوا الکتب أربیعن رجلاً فکان فی العشرة المتقدمین أبویوسف، زفر بن ہذیل وداوٴد الطائی وأسد بن عمر ویوسف بن خالد السمتی ویحیٰ بن زکریا بن ابی زائدہ (تقدمہ نصب الرایہ ص۳۸)
امام صاحب کے تلامذہ جنھوں نے فقہ حنفی کو مدون کیا چالیس ہیں ان میں دس سابقین میں: ابویوسف، زفر بن ہذیل، داؤد طائی، اسد بن عمر، یوسف بن خالد سمتی، یحییٰ بن زکریا بن ابوزائدہ ہیں۔
          یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چالیس افراد کی دستوری کمیٹی کے علاوہ دس یا بارہ افراد پر مشتمل ایک دوسری خصوصی کمیٹی تھی، جو فیصلے کو آخری شکل دیتی تھی اور حتمی نتائج پر پہنچتی تھی، جیسا ضمیری نے امام زفر کے متعلق لکھا ہے:
          ”ثم انتقل الی أبی حنیفة فکان أحد العشرة الأکابر الذین دونوا الکتب مع أبی حنیفة
پھر امام ابوحنیفہ کے پاس آئے اورامام صاحب کے ان دس لوگوں کی خصوصی کمیٹی کے رکن بنے جنھوں نے فقہ حنفی کو مدون کیا۔ (اخبار ابی حنیفہ ص۱۰۷)

          اب ذیل میں انھیں سابقین فقہ حنفی میں سے بعض کے مختصر حالات قلم بند کیے جاتے ہیں:
امام ابویوسف:
          آپ کااصل نام یعقوب بن ابراہیم ہے، کوفہ میں پیدا ہوئے اور ۱۸۲ھ میں وفات پائی، معاشی اعتبار سے بہت کمزور تھے، لیکن علم کا شغف بچپن ہی میں پیدا ہوگیا تھا، والد کی خواہش تھی کہ آپ کوئی کام کریں اور گھر کا انتظام کریں، لیکن امام صاحب کی صحبت فیض رسا نے مالی اعتبار سے بھی بے نیاز کردیا اور علمی دنیا میں قاضی القضاة کے مقام تک پہنچادیا، خلیفہ مہدی نے ۱۶۶ھ میں قاضی کے عہدہ پر مامور کیا، مہدی کے بعداس کے جانشیں ہادی نے بھی اسی عہدہ پر بحال رکھا، پھر خلیفہ ہارون رشید نے آپ کے لیاقت واہلیت سے واقف ہوکر تمام بلادِ اسلامیہ کا قاضی القضاة بنادیا، یہ وہ عہدہ تھا جو تاریخ اسلام میں کسی کو نصیب نہیں ہوا تھا، آپ کے عہدئہ قضاء پر فائز ہونے سے فقہ حنفی کو بڑا عروج حاصل ہوا، آپ فقہاء رائے میں اولین فقیہہ ہیں جنھوں نے اقوال کواحادیث نبویہ سے موٴید کیا، آپ اصحاب ابوحنیفہ میں سب سے بڑے حافظ حدیث کہلاتے تھے، امام ابویوسف نے بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں انھوں نے اپنے اور اپنے استاذ کے افکار ونظریات کو مدون کیا ہے، ابن الندیم نے ان تمام کتابوں کی فہرست دی ہے، ان میں کتاب الخراج، اختلاف ابن ابی لیلیٰ، الرد علی سیر الاوزاعی زیادہ مشہور ہیں۔

امام محمد:
          آپ کا نام محمد بن حسن اور کنیت ابوعبداللہ ہے، آپ کی ولادت ۱۳۲ھ اور وفات ۱۸۹ھ میں ہوئی، امام صاحب کی وفات کے وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی، اس لیے زیادہ مدت تک امام صاحب سے استفادہ نہ کرسکے، اس لیے ان کا شمار فقہ حنفی کے اولین سابقین میں نہیں ہوتا، لیکن انھوں نے امام صاحب کے بعدامام ابویوسف سے فقہ حنفی کی تکمیل کرکے تدوین فقہ کی طرف خاص توجہ دی،اور حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی کو متاخرین تک نقل کرنے کا سہرا امام محمد کے سر جاتا ہے اورآج امام محمد کی کتابیں ہی احناف کے لیے آنکھوں کا سرمہ ہیں،اور کوئی حنفی امام محمد کی کتابوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ امام محمد کو فقہ حنفی کا دوسرا بازو شمار کیا جاتا ہے، امام محمد کی کتابیں فقہ حنفی کا اولین مرجع شمار کی جاتی ہیں، امام محمد کی کتابیں استناد کے اعتبار سے دو درجوں میں منقسم ہیں:
          قسم اول: کتب ظاہر الروایت ہیں جو مندرجہ ذیل کتب ہیں: (۱) جامع صغیر (۲) جامع کبیر (۳) سیر صغیر (۴) سیر کبیر (۵) مبسوط (۶) زیادات، ان کو ”اصول“ بھی کہاجاتا ہے، فقہ حنفی کا زیادہ تر اعتماد انہی کتابوں پرہے۔
          قسم ثانی: اس میں وہ کتابیں ہیں جو آپ کی طرف منسوب ہونے میں قسم اوّل کے برابر نہیں ہیں ان میں یہ کتابیں شامل ہیں: (۱) کیسانیات (۲) ہارونیات (۳) جرجانیات (۴) رقیات (۵) زیادات، مندرجہ بالا کتابوں کو غیر ظاہر الروایت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

امام زفر:
          امام صاحب کے دونوں ارشد تلامذہ امام ابویوسف اورامام محمد سے صحبت کے اعتبار سے مقدم تھے، فقہ حنفی میں ان کا درجہ امام ابویوسف کے ہم پلہ اور امام محمد سے زیادہ شمار کیاجاتا ہے، امامِ زفر کے مرتبہ کا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے جس کو ضمیری نے امام صاحب کے نبیرہ اسمٰعیل بن حماد کے حوالے سے نقل کیا ہے ”کہ ایکدن امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ میرے ۳۱ شاگرد ہیں ان میں ۲۸ قاضی بن سکتے ہیں اور چھ مفتی بن سکتے ہیں اور دو یعنی ابویوسف اور زفر دونوں گروہ کے استاذ اور مربی بن سکتے ہیں۔ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ،ص۱۵۲)
          اس واقعہ میں امام صاحب نے امامِ زفر کو اپنے اراکین شوریٰ کا استاذ قرار دیا ہے، امامِ زفر قیاس واجتہاد میں اس درجہ ماہر تھے کہ قیاس ہی ان کی شان وپہچان بن گئی، تاریخ بغداد میں چاروں بزرگوں کا تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
ایک شخص امام مزنی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اہل عراق کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے امام مزنی سے کہا کہ ابوحنیفہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ مزنی نے کہا اہل عراق کے سردار ہیں، اس نے پھر پوچھا: ابویوسف کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ مزنی بولے وہ سب سے زیادہ حدیث کا اتباع کرنے والے ہیں، اسی شخص نے بھر کہا امام محمد کے بارے میں کیافرماتے ہیں مزنی فرمانے لگے وہ تفریعات میں سب سے فائق ہیں، وہ بولا اچھا تو زفر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امام مزنی نے کہا وہ قیاس میں سب سے ماہر ہیں“ (حیاتِ امامِ ابوحنیفہ:۳۰۳)
          امام ابوحنیفہ کے بعد امامِ زفر آپ کے حلقہ درس کی جانشیں ہوئے، ان کے بعد مسند تدریس امام ابویوسف کے حصہ میں آئی، بصرہ کا عہدہ قضا بھی ان کو ملا، لیکن فقہ حنفی میں ان کی کوئی تصنیف نہیں، اس لیے عموماً امام محمد کے بعد ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

قاسم بن معن:
          عبداللہ بن مسعود کے خاندان سے ہیں، فقہ پر کافی عبور حاصل تھا اور عربیت وادب میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے، امام محمد نے اپنی کتابوں میں ان کے نام اور کنیت دونوں سے روایت کیا ہے، قاضی شریک بن عبداللہ کے بعد کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے۔ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ،ص۱۵۰)
          علم حدیث میں بھی اونچا مقام حاصل تھا، صحاحِ ستہ کے مصنّفین نے ان سے روایت کی ہیں۔ امامِ ابوحنیفہ کو ان سے خاص محبت تھی، یہ بھی منجملہ ان لوگوں کے ہیں جن کی نسبت امام صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ”تم لوگ میرے دل کی تسلی اورمیرے غم کو مٹانے والے ہو“ ان کو بھی امام صاحب کے ساتھ نہایت خصوص تھا، ایک شخص نے پوچھا کہ آپ فقہ وعربیت دونوں کے امام ہیں ان دونوں علموں میں وسیع کون علم ہے؟ فرمایا کہ واللہ ابوحنیفہ کی ایک تحریر کل فن عربیت پر بھاری ہے، ۱۷۵ھ میں وفات پائی (سیرة النعمان،ص:۲۳۰)

 عافیہ بن یزید:
          فن حدیث میں بلند مقام پر فائز تھے، امام نسائی اور ابوداؤد وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے، بغداد کے قاضی تھے، خطیب نے لکھاہے کہ عافیہ عالم وزاہد تھے، ایک مدت تک قاضی رہے پھر قضاء سے مستعفی ہوگئے۔ (سیر اعلام النبلاء ۷/۳۹۸) امام صاحب کے مخصوص تلامذہ میں سے تھے اور آپ کے شورائی کمیٹی کے اہم رکن تھے؛ امام صاحب ان کا بہت خیال کرتے؛ بلکہ ان کی رائے کے بغیر کچھ بھی دستوری کتاب میں تحریر نہ کیاجاتا تھا، ضمیری نے اسحاق بن ابراہیم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ
”ابوحنیفہ کے تلامذہ کسی مسئلہ میں غور وخوض کرتے اور اس وقت عافیہ نہ ہوتے توامام صاحب فرماتے اس کو ابھی مت لکھو اورجب عافیہ آتے اور سب کے رائے سے اتفاق کرتے توامام صاحب فرماتے اس کو لکھو اور اگر وہ اتفاق نہ کرتے توامام صاحب فرماتے اس کو مت لکھو۔“ (اخبار ابوحنیفہ واصحابہ،ص۱۴۹)

یحییٰ بن زکریا بن ابوزائدہ:
          علامہ شبلی نعمانی نے سیرة النعمان میں امام طحاوی کے حوالے سے نقل کیاہے کہ ”امام صاحب کی شوریٰ میں لکھنے کی خدمت یحییٰ سے متعلق تھی اور وہ تیس برس تک اس خدمت کو انجام دیتے رہے، آگے علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ یہ مدت صحیح نہیں؛ لیکن کچھ شبہ نہیں کہ وہ بہت دنوں تک امام صاحب کے ساتھ تدوین فقہ کا کام کرتے رہے اور خاص کر تصنیف وتحریر کی خدمت انہی سے متعلق رہی۔“ (سیرة النعمان،ص۲۱۶)
          ضمیری نے صالح بن سہیل کا قول نقل کیا ہے کہ:
”یحییٰ بن زکریا اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظ حدیث اور فقیہ تھے اور امام ابوحنیفہ اور ابن ابی لیلیٰ کی مجلسوں میں کثرت سے شریک ہوتے تھے۔“
(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ،ص:۱۵۰)
          یہ امام کے ارشد تلامذہ میں تھے اور ایک مدت تک آپ کے ساتھ رہے تھے، یہاں تک کہ علامہ ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں ان کو ”صاحب ابی حنیفہ“ کا لقب دیا ہے، تہذیب التہذیب میں ابن عیینہ کا قول ہے:
          ”ما قدم علینا مثل ابن المبارک ویحیٰ بن ابی زائدة
ہمارے پاس ابن مبارک اوریحییٰ بن ابی زائدہ جیسے اہل علم نہیںآ ئے۔“ (تہذیب التہذیب ۷/۳۷)
          ابن ابی حاتم سے منقول ہے کہ کوفہ میں سب سے پہلے یحیٰ بن ابوزائدہ نے کتاب لکھی اور عجلی کہتے ہیں کہ یحییٰ مدائن کے قاضی تھے اور کوفہ کے حفاظِ محدثین میں اُن کا شمار ہوتا تھا، وکیع نے اپنی کتابوں کو یحییٰ بن ابی زائدہ کی کتاب کی ترتیب پر مرتب کیا؛ ۱۸۲ھ یا ۱۸۳ھ میں مدائن میں ان کا انتقال ہوا۔ (تہذیب التہذیب ۷/۳۸)

یوسف بن خالد سمتی:
          آپ امام صاحب کی شوریٰ کے رکن تھے اور طویل مدت تک امام صاحب کی صحبت میں رہ کر آپ کے خرمن فیض سے خوشہ چینی کرتے رہے، یہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے بصرہ میں امام صاحب کی فقہ کو رائج کیا، ہارون رشید نے قاضی القضاة کا عہدہ تفویض کیا تھا، اخیر عمر میں زہد وتقشف کی زندگی بسر کی، قیاس میں بہت ماہر تھے؛ لیکن علم حدیث میں کوئی نمایاں مقام نہ تھا۔ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، ص۱۵۰)

داؤد طائی:
          امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگرد ہیں اور تدوین فقہ میں امام صاحب کے شریک اورمجلس کے معزز ممبر تھے، علامہ شمس الدین ذہبی نے ”سیر اعلام النبلاء“ ۷/۴۲۲ میں ”الامام الفقیہ القدوة الزاہد“ سے ان کو یاد کیاہے، فقہ واجتہاد کے امام تھے، امام محمد نے بھی ان سے استفادہ کیاہے، خاموش مزاج اور بہت کم گو تھے، ”امام محمد کہتے ہیں: میں داؤد سے اکثر مسئلے پوچھنے جاتا اگر کوئی ضروری اور علمی مسئلہ ہوتا تو بتادیتے ورنہ کہتے بھائی مجھے اور ضروری کام ہیں۔“ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ،ص۱۱۲)
          اخیر عمر میں زہد وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی کو ترجیح دی، علامہ ضمیری ان کے زہد وتقشف کے واقعات ذکر کرتے ہوئے عمرو بن ذرکا قول نقل کرتے ہیں: ”اگر داؤد الطائی صحابہ میں ہوتے تو ان میں نمایاں ہوتے“ محارب بن دثار کہتے ہیں کہ ”اگر داؤد الطائی پچھلی امتوں میں ہوتے تو اللہ تعالیٰ قرآن میں ان کا قصہ بیان کرتا“ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں: ”جب داؤد الطائی قرآن پڑھتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جواب سن رہے ہیں“ محمد بن سوید الطائی کہتے ہیں کہ ان کی بزرگی اور فضل وکمال کا یہ عالم تھا کہ جب انھوں نے امامِ ابوحنیفہ کے حلقہٴ درس کو ترک کیا تو خود امام صاحب اکثر ان کی زیارت کے لیے آتے تھے۔ ۱۶۲ھ میں انتقال ہوا۔ (اخبارابی حنیفہ واصحابہ،ص:۱۱۳ و ۱۱۶)




فقہ کے مدون اول:
اہل تشیع کہتے ہیں کہ فقہ کے مدون اول امام جعفر صادق ہیں، جب کہ علماء کی رائے یہ ہے کہ تدوین فقہ کا سہرا امام الائمہ ،کاشف الغمہ، سراج الامہ، حضرت نعمان بن ثابت، المعروف بہ امام اعظم ابو حنیفہ  کے سر جاتا ہے اور صحیح بات یہی ہے کہ فقہ کے مدون اول امام اعظم ابو حنیفہ  ہیں ،تمام فقہاء و مجتہدین نے اس کا اعتراف کیا ہے ،امام شافعی  نے فرمایا کہ جو فقہ پڑھنا چاہتا ہو وہ امام اعظم ابو حنیفہ  کا محتاج ہے ۔(الدا رالمختار حاشیہ ابن عابدین، مقدمہ)اور امام مالک  فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ کو فقہ کی توفیق دی گئی ہے ۔(تاریخ الفقہ، ص:29)اسی طرح علامہ سیوطی  لکھتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ  پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کی تدوین کی اور اسے ابواب میں مرتب کیا ،پھر موٴطا کی ترتیب میں امام مالک  نے انہیں کی پیروی کی۔ امام اعظم ابو حنیفہ  سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا۔ (تبییض الصحیفة:ص19)اسی طرح مسند خوارزمی میں ہے، امام اعظم نے سب سے پہلے شریعت کی تدوین کی ،کیوں کہ صحابہ و تابعین نے علم شریعت میں ابواب فقہ کی ترتیب پر کوئی تصنیف نہیں کی ؛کیوں کہ ان کو اپنی یاد داشت پر اطمینان تھا ،لیکن امام اعظم  نے صحابہ و تابعین کے بلاد اسلامیہ میں منتشر ہونے کی وجہ سے علم شریعت کو منتشر پایا اور متاخرین کے سوئے حفظ کا خیال کر کے تدوین شریعت کی ضرورت محسوس کی ،ان علماء و مجتہدین کے اقوال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ علم شریعت کی تدوین سب سے پہلے امام اعظم ابو حنیفہ  نے ہی کی ہے ۔

امام اعظم ابو حنیفہ  سے پہلے ابراہیم نخعی نے اس طرف توجہ دی تھی، لیکن ان کی یہ کوشش صرف زبانی روایات پر مشتمل تھی ،فن کی حیثیت سے نہ تھی اور نہ استنباط و استدلال کے قواعد مقرر تھے ،نہ احکام کی تفریع کے اصول و ضوابط متعین تھے ،اس لیے حضرت ابراہیم نخعی  کی یہ سعی قانون کے درجہ تک نہیں پہنچی تھی ،لیکن امام اعظم  کی طبیعت مجتہدانہ اور ذہن غیر معمولی فطین اور حافظہ نہایت ہی قوی تھا اور اپنے زمانے کے حالات اور تجارت کی وسعت اور ملکی تعلقات میں معاملات کی ضرورتوں سے باخبر تھے ،ہر روز سینکڑوں فتاوی آتے تھے، جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ تدوین فقہ کی کس قدر ضرورت ہے ،اس لیے امام اعظم  کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسائل کے جزئیات کو اصولوں کے ساتھ ترتیب دے کر قانون کا ایک مجموعہ تیار کیا جائے، جو آنے والی تمام انسانیت کے لیے ایک دستور ثابت ہو اور جس میں تمام چیزوں کی رعایت ہو چناں چہ امام اعظم  کی مجتہدانہ طبیعت نے اس فن کی تدوین و ترتیب کی طرف توجہ کی اور اس کے لیے ایک خاص فقہ اکیڈمی قائم کی، جسے دنیا کی سب سے پہلے فقہ اکیڈمی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

فقہ اکیڈمی کا قیام:
ہجرت کا ایک سو بیسواں سال تھا کہ امام اعظم ابو حنیفہ  کے استاذ حضرت حماد  اس دنیا سے رحلت کر گئے تھے ،اس وقت بلاد عرب و عجم میں فقہاء ومجتہدین کی کثرت تھی ،ہر فقیہ نئے مسائل میں قرآن و حدیث کو سامنے رکھ کر اپنے اجتہاد کے ذریعہ انفرادی طور پر فتاوی دیا کرتا تھا، ایسے میں امام اعظم ابو حنیفہ نے تمام مجتہدہین کے برعکس مسائل کے استنباط و اجتہاد کا یہ کام انفرادی طور پر تنہا انجام نہیں دیا، بلکہ اس کام کے لیے آپ نے حضرت عمر کی طرح شورائی طرز پر اپنے سینکڑوں تلامذہ میں سے خاص خاص تلامذہ کو، جو قرآن و حدیث ،فقہ و فتاوی،زہد و تقوی،عبادت و پرہیزگاری میں منفرد مقام رکھتے تھے، جمع کر کے ایک فقہ اکیڈمی تشکیل دی، جو فکری آزادی اور اظہار رائے میں اپنی مثال آپ تھی ،گویا فقہ اکیڈمی قائم کر کے امام اعظم ابو حنیفہ  نے اس حدیث پر عمل کیا، جس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی کہ جدید پیش آمدہ مسائل فقہاء سے معلوم کرو، کسی ایک کی بات پر مت چلو،علامہ طبری نے اپنی کتاب میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر کوئی ایسا امر پیش آئے جس میں امرو نہی منصوص نہ ملے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فقہاء و عابدین سے معلوم کرو اور کسی ایک کی بات پر مت چلو۔(طبری)

فقہ حنفی کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ تنہا ایک مجتہد کی رائے اور ان کی کوششوں کا ثمرہ نہیں، بلکہ یہ ممتاز فقہاء ومجتہدین کی پوری ایک جماعت کی سالہا سال کی کوششوں کا نتیجہ ہے ،علامہ موفق فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے فقہ حنفی کی تدوین کے لیے نظام شورائی رکھا اور وہ شرکائے مجلس کو چھوڑ کر تنہا اپنی رائے مسلط نہیں کرتے تھے۔ (مناقب ابی حنیفہ ج2ص133)

فقہ اکیڈمی کے چالیس فقہاء:
امام ابو حنیفہ  کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں سے متجاوزہے ؛لیکن آپ نے ان میں سے خاص خاص تلامذہ کو، جنہیں آپ بہت عزیز رکھتے تھے ،اپنی فقہ اکیڈمی میں شامل کیا ،جن کی تعداد بقول امام طحاوی چالیس تھی (بعض نے 36اور بعض 60بھی ذکر کیا ہے)

لیکن ان فقہاء کے سنین وفات اور امام صاحب سے وابستگی کو دیکھتے ہوئے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سارے حضرات شروع سے آخر تک اس کام میں شریک نہیں رہے ؛بلکہ مختلف ارکان نے مختلف ادوار میں تدوین کے اس کام میں ہاتھ بٹایا،ان میں بعض وہ تھے جنہوں نے آخری زمانے میں اس کام میں شرکت کی ،عام طور سے شرکائے مجلس کے نام ایک جگہ نہیں ملتے،مفتی عزیز الرحمن بجنوری اور ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے ان ناموں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے ،جس میں امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر،حسن بن زیاد،مالک بن معقول،داؤد طائی،مندلبن علی،نضربن عبدالکریم،عمرو بن میمون،حبان بن علی ،ابو عصمہ ،زہیر بن معاویہ ،قاسم بن معن ،حماد بن ابی حنیفہ،ہیاج بن بطام،شریک بن عبداللہ ،عافیہ بن یزید، عبداللہ بن مبارک ،نوح بن دارج ،ہشیم بن بشیر سلمی،ابو سعید یحییٰ بن زکریا،فضیل بن عیاض،اسد بن عمر ،علی بن مسہر،یوسف بن خالد التیمی ،عبد اللہ بن ادریس ،فضل بن موسی ،حفص بن غیاث ،وکیع بن الجراح ،یحییٰ بن سعید القطان ،شعیب بن اسحاق،ابو حفص بن عبد الرحمن ،ابو مطیع بلخی ،خالد بن سلیمان،عبدالحمید،ابو عاصم النبیل،مکی بن ابراہیم،حماد بن دلیل ،ہشام بن یوسف ،یحییٰ بن ابی زائدہ وغیر ہ شامل ہیں ،(بحوالہ طہارت و نماز کے مسائل)

امام اعظم نے فقہ اسلامی کے مختلف ابواب و مباحث کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور فقہ اکیڈمی کے قیام کے لیے نہایت کام یابی سے ان علوم کے ماہرین کو جمع کیا اور سالہاسال ان کی سر پرستی فرماتے رہے ،مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد حمید اللہ ”امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی“کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :فقہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہے اور قانون کے ماخذوں میں قانون کے علاوہ لغت ،صرف و نحو،تاریخ وغیرہ ہی نہیں، حیوانات ،نباتات،بلکہ کیمیا کی بھی ضرورت پڑتی ہے ،قبلہ معلوم کرنا جغرافیہ طبعی پر موقوف ہے ،نماز اور افطار اور سحری کے اوقات علم ہیئت وغیرہ کے دقیق مسائل پر مبنی ہے ،رمضان کے لیے روٴیت ہلال کو اہمیت ہے اور باد ل وغیرہ کے باعث ایک جگہ چاند نظر نہ آئے تو کتنے فاصلے سے رویت اطراف پر موٴثر ہوگی وغیرہ وغیرہ مسائل کی طرف اشارہ سے اندازہ ہوگا کہ نماز روزہ جیسے خالص عباداتی مسائل میں بھی علوم طبعیہ سے کس طرح قدم قدم پر مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے ،کاروبار ،تجارت ،معاہدات، آب پاشی، صرافہ ،بنک کاری وغیرہ کے سلسلے میں قانون سازی میں کتنے علوم کے ماہروں کی ضرورت ہوگی !!امام اعظم ابو حنیفہ  ہر علم کے ماہروں کو ہم بزم کرنے اور اسلامی قانون کو ان سب کے تعاون سے مرتب و مدون کرنے کی کوشش میں عمر بھر لگے رہے اور بہت حد تک کام یاب ہوئے (امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی)

امام ابو حنیفہ کی اس فقہ اکیڈمی میں جو ممتاز فقہاء قرآن سنت کی روشنی میں مسائل جدیدہ کو حل کرتے تھے ان کا علمی پایہ نہایت بلندتھا، بلکہ یہ سب اپنے اپنے فن میں ماہر تھے ،ان میں حدیث کے حافظ بھی تھے ،قیاس کے ماہرین بھی ،عربی زبان پر مکمل دسترس رکھنے والے بھی تھے ،مولانا عبدالحی فرنگی محلی امام صاحب کے تلامذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کے درس میں شریک ہو کر فیض پانے والے تلامذہ اپنے زمانے کے مجتہدین میں سے تھے ،ابو یوسف اخبار اور زبان کے ماہر تھے ،امام محمد کو فقہ ،اعراب اور بیان میں فوقیت حاصل تھی ،امام زفرقیاس میں ممتاز تھے ،حسن بن زیاد سوال اور مسائل اور مسائل کی تفریع میں بلند درجہ رکھتے تھے،عبداللہ بن مبارک اپنی اصابت رائے سے مشہور تھے ،زاہد مفسر وکیع بن الجراح اور ذکی و فطین حفص بن غیاث لوگو ں کے درمیان فیصلہ میں مہارت رکھتے تھے ،یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کا مقام احادیث کو جمع کرنے اور فروع کو محفوظ کرنے کے اعتبار سے بلند تھا۔(بحوالہ ترجمان السنة ج 1ص212)یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت وکیع بن الجراح کے سامنے کسی شخص نے کہا کہ امام اعظم نے اس مسئلہ میں غلطی کی ہے ،یہ سن کر حضرت وکیع  نے کہا ابو حنیفہ کیسے غلطی کر سکتے ہیں ،جب کہ ان کے ساتھ ابو یوسف اور زفر جیسے قیاس کے ماہر،یحییٰ بن ابی زائدہ،حفص بن غیاث، حبان اور مندل جیسے حفاظ حدیث اور قاسم بن معن جیسے لغت کے جاننے والے، داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسے زاہد و متقی شامل ہوں ؟!اگر وہ غلطی کرتے تو کیا یہ لوگ ان کی اصلاح نہیں کریں گے؟ (معجم المصنفین ص52)

مسائل میں بحث وتحقیق:
امام اعظم کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی میں ایک ایک مسئلہ پر بہت گہری نظر ڈالی جاتی اور ہر مسئلہ کو پوری تحقیق کے بعد قابل عمل قراردیا جاتا،مسائل پر بحث،تحقیق کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے علامہ الموفق لکھتے ہیں، ایک ایک مسئلہ مجلس کے تمام مجتہدین کے سامنے پیش کیا جاتا،لوگوں کے خیالات کو الٹ پلٹ کر دیکھا جاتا، اراکین مجلس کے دلائل سنے جاتے اور اپنی رائے اور دلائل سے شرکائے مجلس کو مطلع کیا جاتااور ان سے بحث وتحقیق کی جاتی،کبھی کبھی ایک ایک مسئلہ کی تحقیق میں پورا مہینہ یا اس سے بھی زیادہ مدت لگ جاتی، یہاں تک کہ مسئلہ کا کوئی ایک پہلو متعین ہو جاتااور امام اعظم ابو حنیفہ کا یہ انداز تھا کہ وہ کسی پر زور نہیں دیتے یا اپنا مسئلہ کسی پر زبردستی نہیں تھوپتے تھے، بلکہ مجلس کے تمام شرکاء کو آزادانہ مناظرہ کی دعوت دی جاتی اور رائے پیش کرنے پر شرکاء کی حوصلہ افزائی کی جاتی اور مجلس کو بے تکلف بناتے ،تا کہ ادب واحترام،عقیدت ومحبت کے باعث قانون سازی کے عمل میں کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے،آپ کے ایک شاگرد حضرت عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں ایک مسئلہ پیش ہوا اس پر مسلسل تین دن تک بحث ومباحثہ ہوتا رہا اور اراکین اس پر غور وخوض کرتے رہے۔(مناقب الامام ابی حنیفہ)

مشہور محدث امام ا عمش مجلس کے حالات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس مجلس کے سامنے کوئی مسئلہ آتا ہے تو حاضرین اس مسئلہ کو اس قدر گردش دیتے ہیں اور الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ بالآخر اس کا حل روشن ہو جاتا ہے ۔(مناقب امام ابو حنیفہ 3-2)

اسد بن عمر بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب کی مجلس میں پہلے ایک مسئلہ کے مختلف جوابات دیے جاتے، پھر جس کا جواب سب سے زیادہ محقق ہوتا آپ اس کی توثیق کرتے اور ہمت افزائی کرتے اور وہ جواب دیوان میں لکھ لیا جاتا۔(نصب الرایہ مقدمہ ج1 ص23)



سیرت ائمہ اربعہ میں ہے کہ تدوین فقہ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی بات کا مسئلہ پیش کیا جاتا، اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق ہوتے تو اسی وقت قلم بند کر لیا جاتا اور نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں، کبھی کبھی عرصہ دراز تک مباحثہ چلتا رہتا ۔امام اعظم ابو حنیفہ  بہت غور و تحمل کے ساتھ سب کی تقریریں سنتے اور آخر میں ایسا فیصلہ فرماتے کہ سب کو تسلیم کرناپڑتا ۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ امام اعظم کے فیصلہ کے بعد بھی لوگ اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے ۔اس وقت تمام مختلف فیہ اقوال قلم بند کر لیے جاتے اور اس بات کا خاص التزام کیا جاتا کہ جب تک تمام حضرات شریک نہ ہوتے کسی مسئلہ کو طے نہ کیا جاتا ۔تمام شرکائے مجلس حاضر ہو جاتے اور اتفاق کر لیتے تب وہ مسئلہ تحریر کیا جاتا اس طرح تیس سال کے عرصہ میں یہ عظیم الشان کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔

امام اعظم ابو حنیفہ کی مجلس اجتہاد میں بعض اہم عصری موضوعات زیر تحقیق لائے گئے ،امام اعظم ابو حنیفہ  پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب الفرائض اور کتاب الشروط وضع کیے ،قانون بین الممالک جو تاریخ کا حصہ سمجھا جاتا تھا اس کو تاریخ سے الگ کر کے مستقل فقہی چیز قرار دیا گیا اور کتاب السیر مرتب ہوئی، جس میں صلح اور جنگ کے قوانین مدون ہوئے ،اس طرح ایک ضخیم مجموعہ قوانین تیار ہوا ،جو متعدد کتب کی شکل میں اس دور میں موجود رہا،بعد میں اسے امام محمد  نے مزید منقح کر کے مدون کیا اور یہی مجموعہ فقہ حنفی کی اساسی کتب ہیں۔ (تدوین فقہ اور امام ابو حنیفہ کی خدمات)

فقہ اکیڈمی میں اجتہاد کا طریقہ کار:

امام اعظم ابو حنیفہ کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی میں مسائل پر غور وخوض کرنے کا وہی طریقہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اختیار کیا تھا،بالخصوص سیدنا عبداللہ بن مسعود،سیدنا علی،قاضی شریح،ابراہیم نخعی،حماد اور دیگر ہم عصر فقہاء ومجتہدین کے فیصلوں کو کافی اہمیت دی جاتی،ڈاکٹر صحبی محمصانی اجتہاد کے طریقہ کار کے بارے میں امام اعظم ابو حنیفہکا اپنا قول نقل کرتے ہیں:”اگر کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں مسئلہ نہ مل سکے تو اقوال صحابہ سے اخذ کرتا ہوں، جس کا قول چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جس کا قول چھوڑنا چاہوں ترک کردیتا ہوں اور ان کے اقوال سے کسی دوسرے کے قول کی طرف تجاوز نہیں کرتا،لیکن جب معاملہ ابراہیم نخعی،شعبی،ابن سیرین،حسن بصری،عطا،اور سعید بن جبیر تک پہنچتا ہے تو وہ اجتہاد کرنے والے لوگ تھے،ہمیں بھی ان کی طرح اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے ۔”(فلسفہ التشریع فی الاسلام)اسی طرح علامہ عبد البر نے اپنے کتاب میں تحریر کیا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ ہمیشہ معتبر قول کی طرف رجوع فرماتے،قول قبیح کو ترک کرتے، عوام کے معاملات میں غوروفکر اور قیاس سے کام لیتے،مگرجب قیاس سے کسی قسم کے فساد کا اندیشہ ہوتا تو لوگوں کے معاملات کا فیصلہ استحسان سے کرتے،جب اس سے بھی معاملات بگڑتے نظر آتے تو مسلمانوں کے تعامل کی طرف رجوع کرتے،جس حدیث پر محدثین کا اجماع ہوتا اس پر عمل کرتے، جب تک مناسب سمجھتے اسی پر اپنی قیاس کی بنیاد کھڑی کرتے، پھر استحسان کی طرف توجہ فرماتے،آپ احادیث میں ناسخ ومنسوخ کی تحقیق فرماتے جب کوئی حدیث مرفوع ثابت ہو جاتی تو اس پر سختی سے عمل کرتے۔(الانتقاء فی فضائل الثلاثة الفقہاء ص141)

ان اقوال سے ثابت ہوا کہ امام صاحب کی فقہ اکیڈمی میں جدید مسائل کا حل پہلے قرآن وسنت میں تلاش کیا جاتاہے؛کیوں کہ یہ دونوں اصل الاصول ہیں اور دین کا سرچشمہ ہیں، جس سے کسی عقل مند کو انکار نہیں،پھر صحابہ کے اقوال یا قضایا سے استدلال کیا جاتا، صحابہ جس بات پر متفق ہوں امام صاحب اس پر عمل کرتے ہیں اور اگر صحابہ میں اختلاف پایا جائے تو علت مشترکہ کی بنیاد پر ایک صورت کو دوسری صورت پر قیاس کرتے۔

حل شدہ مسائل کی تعداد:
حنفی فقہ اکیڈمی کا قیام120ھ میں ہوا اور150ھ تک قائم رہی، ان تیس سالوں کی جہد مسلسل کے بعد ایک ایسا مجموعہ تیار کیا گیا جس کی تعداد کے بارے میں تذکرہ نگاروں کے مختلف اقوال ملتے ہیں،چناں چہ علامہ خوارزمینے ان کی تعداد تراسی(83)ہزار لکھی ہے، جن میں اڑتیس کا تعلق عبادات سے ہے اور باقی کا معاملات سے،جب کہ بعض حضرات نے چھ لاکھ اور بعض نے بارہ لاکھ سے بھی زیادہ ذکر کیا ہے، مشہور محقق مولانا مناظر احسن گیلانی کا خیال ہے کہ اس تعداد میں ان مسائل کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو امام اعظم کے مقرر کردہ اصول و کلیات کی روشنی میں مستنبط کیے گئے تھے (قاموس الفقہ ج1ص360)اگر تراسی ہزار کو ہی مان لیا جائے تو یہ تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔

بہر حال فقہ حنفی دنیا کی وہ عظیم فقہ ہے جس کی ترتیب وتدوین میں پوری ایک جماعت کا حصہ ہے اور وہ صیقل شدہ ہے ،یعنی حکومت اور کار قضاء اس کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کا حل اس نے پیش کیا ہے اور لوگوں کو جو مختلف طرح کے معاملات پیش آتے ہیں ان میں راہ نمائی کی ہے، تیرہ صدیوں سے وہ تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن ہو چکی ہے، اس لیے بلاخوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی مذہب اور مسلک تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن ہوا ہے اور مضبوط شورائی نظام کے ذریعہ اس کی ترتیب عمل میں آئیہے تو وہ صرف فقہ حنفی ہے ،وہ اب تک زندہ اور پایندہ ہے،دوسری خاص بات یہ بھی ہے کہ امام ابو یوسف،امام محمد اور امام زفراگرچہ خود اپنی جگہ مجتہد مطلق تھے، لیکن ان کے اقوال امام اعظم ابو حنیفہ کے اقوال کے ساتھ ہی کتابوں میں ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا یہ سب مل ملا کر فقہ حنفی ہو گئے ہیں۔جس کی وجہ سے فقہ حنفی کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔


فقہ حنفی کی چار امتیازی خصوصیات:
(اتحاد اہل سنت کے زیر اہتمام حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے حوالہ سے ایک سیمینار سے خطاب)
اتحادِ اہل سنت پاکستان شکریہ کی مستحق ہے کہ وقتاً فوقتاً حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کی یاد میں ایسی محافل کا انعقاد کرتی رہتی ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے اس عظیم محسن کو ایک بار پھر یاد کر لیتے ہیں جو ماضی میں تو ہمارا محسن تھا ہی، ہمارا مستقبل بھی اسی کے انتظار میں ہے۔ گزشتہ بارہ سو سال سے تو اس نے علم و حکمت کی دنیا میں حکمرانی کی ہے، لیکن مستقبل کا فکری تناظر اور علمی تناظر بھی اسی کی طرف دیکھ رہا ہے کہ آنے والے دور کے تقاضے اور آنے والے دور کی ضروریات اسی راستے سے پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں جس راستے سے امام ابو حنیفہؒ نے اس کام کا آغاز کیا تھا۔ ان کا کام جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ان کے خدام ہر دور میں علم کی، دین کی اور فقہ کی خدمت کرتے آرہے ہیں، آج بھی کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز قیامت تک کرتے رہیں گے۔ مجھے آج گفتگو کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ فقہ حنفی کی امتیازی خصوصیات پر میں نے کچھ باتیں آپ سے کہنی ہیں۔ لمبی گفتگو کا موقع نہیں ہے اس لیے مختصرًا کچھ عرض کروں گا۔
عالم اسلام کی پہلی مدون فقہ:
فقہ حنفی کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عالم اسلام کی پہلی باقاعدہ فقہ ہے۔ امام صاحبؒ سے پہلے بھی تفقہ کے مختلف دائرے رہے ہیں لیکن اس تفقہ کی بنیاد پر کسی باقاعدہ فقہ کی تشکیل سب سے پہلے امام صاحبؒ نے کی۔ فقہ حنفی کی اولین امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عالم اسلام کی پہلی باضابطہ مدون فقہ ہے۔ اس کا اعتراف مؤرخین و محدثین نے کسی تأمل کے بغیر کیا ہے۔ ہمارے علمی ماضی کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کے امتیازات کا اور ایک دوسرے کی خصوصیات کا اعتراف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ امام جلال الدین سیوطیؒ شافعی مسلک کے بزرگ ہیں اور بڑے پکے شافعی ہیں لیکن امام اعظم ابو حنیفہؒ کی عظمت کے اعتراف میں انہوں نے کتاب لکھی ہے جس میں اعتراف کیا ہے کہ أول من دوّن الفقہ و رتب أبوابہ سب سے پہلا وہ شخص جس نے فقہ کو مدون کیا ہے اور جس نے فقہ کے ابواب مرتب کیے ہیں اور جس نے ابواب کے لحاظ سے فقہ مرتب کی ہے وہ شخص ابو حنیفہ نعمان ابن ثابتؒ ہے۔
اس عمل کو ہم فقہ بھی کہتے ہیں، تفقہ بھی کہتے ہیں اور تدوینِ فقہ بھی کہتے ہیں لیکن آج کی اصطلاح میں اسے قانون سازی کہا جاتا ہے۔ قانون سازی کسے کہتے ہیں؟ جسے ابتدائی دور میں ’’فقۂ فرضی‘‘ کہا جاتا تھا اور جس سے بہت سے اہل علم نے بعض تحفظات کے باعث گریز کیا۔ ایسے اہل علم صحابہ کرامؓ میں بھی تھے اور تابعین میں بھی جن کو فقۂ فرضی سے تحفظات تھے اور وہ کہا کرتے تھے کہ جب تک کوئی مسئلہ پیش نہ آئے اس کے بارے میں تردد اور تحقیق مت کرو۔ جب کوئی معاملہ پیش آجائے تو پھر اس کے بارے میں جستجو کرو۔ لیکن تحفظات کا دائرہ الگ ہوتا ہے اور ضروریات کا دائرہ الگ ہوتا ہے۔ تحفظات کی دنیا یہ ہوتی ہے کہ اس کام سے بھی بچنا چاہیے، اس کام سے گریز کرنا چاہیے، فلاں معاملے میں بھی نہیں پڑنا چاہیے وغیرہ۔ لیکن جب ضروریات پیش آتی ہیں تو ان کا دائرہ اس سے مختلف ہوتا ہے کہ فلاں ضرورت بھی پوری کرنی ہے اور فلاں ضرورت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھنا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ تحفظات اور ضروریات کے درمیان ہر زمانے میں کشمکش رہی ہے۔ یہ کشمکش تابعین کے زمانے سے شروع ہوئی ہے، آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گی۔ تحفظات اور ضروریات دونوں لازمی ہیں۔ میں تحفظات اور ضروریات کو گاڑی کے دو پہیوں سے تعبیر کیا کرتا ہوں کہ تحفظات کا دائرہ بھی چھوڑا نہیں جا سکتا اور ضروریات کے دائرے سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان دونوں کے درمیان توازن قائم کرنے کا نام علم الفقہ ہے۔ جس طرح گاڑی کے پہیوں کی وہیل بیلسنگ کی جاتی ہے، معائنہ کر کے ان کے درمیان توازن قائم رکھا جاتا ہے کہ اگر ان کے درمیان یہ بیلنس نہ ہو تو گاڑی کسی ایک طرف کو لڑھکنے لگتی ہے۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ امام ابو حنیفہؒ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے فقہ فرضی کی طرف، یا قانون سازی کی طرف ، یا اس وقت تک پیش نہ آنے والے مسائل کے پیشگی حل کی طرف ایک ادارے کی شکل میں پیش رفت کی اور دنیا کو بتایا کہ یہ امت کی ضرورت ہے اور ضروریات کو زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا۔ امام صاحبؒ نے ایسی پیش رفت کی کہ آج تک عالم اسلام کے فقہ و قانون کی بنیاد اسی پیش رفت پر ہے۔ آج بھی قانون سازی کے لیے جب ضرورت پیش آتی ہے تو ابتداء وہیں سے ہوتی ہے کہ اس معاملے میں زیرو پوائنٹ امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے۔ یہ فقہ حنفی کا امتیاز ہے کہ قانون سازی کا آغاز فقہ حنفی نے کیا اور دستور سازی کا آغاز بھی فقہ حنفی نے کیا۔ قانون سازی یہ کہ امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں پینتیس سے چالیس کے قریب علماء بیٹھتے تھے جو اپنے اپنے فن کے ماہرین تھے۔ وہ مسائل پر بحث کرتے تھے جس میں اختلاف بھی ہوتا تھا، اتفاق بھی ہوتا تھا اور نتیجے میں ایک قانون تشکیل پاتا تھا۔ لیکن دستور سازی کا آغاز کہاں سے ہوا؟ پہلا باقاعدہ تحریری دستور ہارون الرشید کے کہنے پر امام ابو یوسفؒ نے تحریر کیا۔ حکومتِ وقت نے ، امیر المؤمنین ہارون الرشید نے قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس امام ابو یوسفؒ سے درخواست کی کہ آپ تحریری طور پر مجھے کوئی ایسا ضابطہ مرتب کر دیں جس کے مطابق میں نظام چلاؤں۔ امام ابو یوسفؒ نے اس پر ایک کتاب لکھی جسے ہم ’’کتاب الخراج‘‘ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔ یہ ’الخراج‘ ملک کا نظام چلانے کا دستور تھا۔ اس میں زیادہ تر معاشیات کے مسائل ہیں لیکن یہ اجتماعی طور پر ایک دستوری ڈھانچہ تھا جو سب سے پہلے خلیفہ ہارون الرشید کے کہنے پر امام ابو یوسفؒ نے لکھا اور یہ دستور نافذ رہا۔ چنانچہ پہلا امتیاز یہ ہے کہ عالم اسلام میں قانون سازی کا آغاز بھی فقہ حنفی نے کیا اور دستور سازی کا بھی آغاز فقہ حنفی نے کیا۔ پہلا مدوّن قانون امام صاحبؒ اور ان کے شاگردوں نے پیش کیا جبکہ پہلا مدون معاشی دستور امام صاحب کے شاگرد امام ابو یوسفؒ نے پیش کیا۔
شورائی فقہ:
فقہ حنفی کی سب سے بڑی اور سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ شورائی فقہ ہے۔ مسئلہ مجلس میں پیش ہوتا تھا اور اس پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا جس کے بعد ایک نتیجے پر پہنچتے تھے۔ اگر نتیجے تک پہنچتے تھے تو متفقہ فیصلہ لکھا جاتا تھا اور اگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تھے تو اختلافی اراء لکھی جاتی تھیں کہ فلاں کی رائے یہ ہے اور فلاں کی رائے یہ ہے۔ پھر امام محمدؒ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اس مجلس کے اور اس شورائی نظام کے نتائج کو مرتب کیا۔ امام صاحبؒ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شخصی رائے پر فقہ کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ اپنی مجلس کی اجتماعی رائے پر فقہ مرتب کی۔ مشاورت ، بحث و مباحثہ ، مجلس میں بات پیش ہونا، اس کا تجزیہ کرنا، اس کے اتفاق یا اختلاف کے مراحل سے گزرنا یہ فقہ حنفی کا مزاج ہے اور اس کا خمیر اسی پر ہے۔ میں اس پر ایک واقعاتی تناظر پیش کرنا چاہوں گا کہ حنفی فقہ میں اور دوسری فقہوں میں امتیاز کیا ہے۔
حضرت امام مالکؒ ہمارے سروں کے تاج ہیں، امام اہل سنت ہیں، امام دار الھجرہ ہیں، امام مدینہ ہیں اور امت کے اساطین میں سے ہیں۔ امام مالکؒ امام ابوحنیفہؒ کے معاصر ہیں۔ امام صاحبؒ مقدم ہیں اور وہ متاخر ہیں لیکن معاصر ہیں۔ فقہ حنفی بھی اسی دور میں وجود میں آئی اور کوئی دس بیس سال کے فرق سے فقہ مالکی بھی اسی دور میں وجود میں آئی۔ فقہ کی ترتیب میں امام صاحبؒ کو تقدم حاصل ہے جبکہ دوسرا نمبر امام مالکؒ کا ہے۔ امام مالکؒ بھی مجلس میں بیٹھتے تھے اور یہ سینکڑوں علماء کی مجلس ہوتی تھی۔ لیکن امام ابو حنیفہؒ کی اور امام مالکؒ کی مجلسوں میں فرق کیا تھا؟ امام مالکؒ کی اپنی ہیبت تھی، اپنا جلال تھا، کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور کوئی مجلس میں چوں بھی نہیں کر سکتا تھا، ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ امام مالکؒ تشریف لاتے تھے تو مجلس میں سناٹا طاری ہو جاتا تھا اور جب کوئی شخص روایت پڑھتا تھا تو اگر امام صاحب کو کوئی تبصرہ کرنا ہوتا تھا وہ کرتے تھے اور اگر تبصرہ نہیں کرنا ہوتا تھا خاموش رہتے تھے، کسی کو سوال کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ امام صاحبؒ کی مرضی ہوتی تو وہ وضاحت فرماتے ورنہ اگلی روایت پر چلے جاتے۔ قاضی عیاضؒ نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ ایک موقع پر ایک شاگرد کو شوق آگیا، شاگرد بھی معمولی نہیں تھے، ہشام ابن عمارؒ تھے۔ یہ امام شام تھے، امام دمشق تھے اور اپنے وقت کے بڑے محدث تھے۔ ان کو یہ شوق آیا کہ آج خود پڑھنے کی بجائے استاد سے روایت سننی چاہیے۔ حضرت امام مالکؒ تشریف لائے اور بیٹھے، مجلس جمی، حسب معمول کہا کہ پڑھو بھئی۔ اس دن ہشام کی باری تھی انہوں نے کہاکہ استاد جی آج آپ پڑھیں۔ امام مالکؒ نے غصے سے کہا اقراء ہشام نے کہا استاد جی آج آپ پڑھیں۔ امام صاحبؒ نے پھر فرمایا اقراء ہشام نے پھر کہا کہ استاد جی آج آپ سے سننے کو جی چاہتا ہے۔ امام مالکؒ کا اپنا ایک مقام تھا ان کا اپنا ایک ذوق تھا، ساتھ والے شاگرد سے کہا کہ چھڑی پکڑو اور ہشام کی کمر پر پندرہ چھڑیاں مارو۔ اس نے ہشام کی کمر پر پندرہ چھڑیاں ٹکا دیں کہ استاد کا یہی حکم تھا۔ ہشام کھڑے ہوگئے کہ استاد جی کس جرم کی سزا دی گئی ہے؟ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ آج آپ سے روایت سننے کو جی چاہتا ہے اس پر آپ نے مجھے پندرہ چھڑیاں مروائی ہے۔ اچھا ٹھیک ہے ان چھڑیوں کا حساب کل قیامت کے دن آپ سے لوں گا۔ یہ اچھا زمانہ تھا اور بہت اچھے لوگ تھے۔ بلکہ ’’بہت اچھا‘‘ کے الفاظ بھی ان لوگوں کے لیے بہت چھوٹے تھے۔ قیامت کا نام جب سنا تو امام مالکؒ گھبرا گئے، فرمایا کہ ہشام غلطی ہوگئی معافی دے دو۔ ہشام نے کہا کہ استاد جی کوئی معافی نہیں ہے۔ یہ چھڑی ہوگی قیامت ہوگی اللہ کی عدالت ہوگی اور آپ ہوں گے، معافی کس بات کی؟ امام صاحب اور زیادہ گبھرائے کہ یہ تو سیریس کیس ہے۔ فرمایا بیٹا معافی کی کوئی شکل ہے؟ ہشام نے کہا کہ استاد جی ایک شرط پر معافی مل سکتی ہے، آپ نے پندرہ چھڑیاں مروائی ہیں اب پندرہ حدیثیں پڑھ کر سنا دیں۔ قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ امام مالکؒ نے اپنے مزاج کے خلاف ایک شاگرد کو پندرہ حدیثیں سنائیں اور وہ بھی قیامت کے ڈر سے۔ ایسے موقع پر میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ دیکھیں، اچھے لوگ تھے اور اچھا زمانہ تھا کہ لوگ قیامت کا نام سن کر ڈر جایا کرتے تھے۔ ہم پر قیامتیں بیت جاتی ہیں لیکن ہمارا کچھ نہیں بگڑتا پھر اسی طرح ہشاش بشاش ہوتے ہیں۔
اس واقعہ سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کی مجلسوں کے مناظر دکھانا چاہتا تھا کہ ان دونوں کے مزاج میں کیا فرق تھا۔ ایک منظر تو میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ دوسرا منظر مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی مجلس تھی، مسائل پیش ہو رہے تھے اور ان پر بحث ہو رہی تھی۔ جاحظ مشہور نحوی ہیں وہ بھی آکر مجلس میں بیٹھ گئے کہ دیکھتا ہوں یہاں کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ تو کھلی بحثیں کر رہے ہیں ایک دوسرے کا لحاظ ہی نہیں کر رہے۔ اتنے میں کوئی مسئلہ پیش ہوا جس کے متعلق امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ اس بارے میں میری رائے یہ ہے۔ اس پر ایک نوجوان کھڑا ہوا اور کہا أخطأت یا شیخ آپ کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ جاحظ کو یہ بات سن کر بڑا تعجب ہوا کہ ایک لڑکا کس انداز سے مخاطب ہو رہا ہے۔ وہ استاد محترم ہیں امام ابو حنیفہ ہیں اور یہ لڑکا ایک بھری مجلس میں کھڑا ہو کر کہہ رہا ہے کہ شیخ آپ کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ امام صاحبؒ تو نوجوان کی بات سن کر مسکرا دیے لیکن جاحظ سے یہ برداشت نہیں ہوا۔ جاحظ نے اٹھ کر کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو آپ لوگ۔ ایک لڑکا اٹھ کر کہہ رہا ہے کہ أخطأت یا شیخ ۔ اس پر امام صاحبؒ نے جاحظ سے کہا کہ بیٹھ جاؤ نحن عودناھم کہ یہ عادت ہم نے ان کو ڈالی ہے۔
امام صاحبؒ کی مجلس میں تو یہاں تک ہوتا تھا کہ کسی مسئلہ پر اگر آخر وقت تک اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اختلافی نوٹ لکھوائے جاتے تھے۔ اگر کسی مسئلے پر بحث و مباحثہ کے بعد باہمی اتفاق نہیں ہوا تو امام زفرؒ ، امام حسنؒ ، امام محمدؒ نے اس مسئلے کے تحت اپنی رائے الگ لکھوائی کہ مجلس کا فیصلہ الگ لکھیں اور میری رائے الگ لکھیں۔ پھر یہ باقاعدہ لکھا جاتا کہ فلاں مسئلے میں مجلس کی رائے یہ تھی جبکہ امام زفرؒ کی رائے یہ تھی۔ فلاں مسئلے میں مجلس کی رائے یہ تھی جبکہ امام حسنؒ کی رائے یہ تھی۔ چنانچہ میں فقہ حنفی کا دوسرا امتیاز یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ شخصی نہیں ہے بلکہ شورائی فقہ ہے۔
روایت و درایت میں توازن:
فقہ حنفی کا تیسرا بڑا امتیاز روایت و درایت میں توازن یعنی وحی اور عقل سے اپنے اپنے موقع پر صحیح استفادہ ہے۔ ہماری بنیاد وحی پر ہے لیکن عقل سے انکار بھی نہیں ہے بلکہ ایک معاون کے طور پر عقل کا صحیح استعمال خود دین کا تقاضہ ہے جس کا اہتمام احناف کے ہاں سب سے بہتر پایا جاتا ہے۔ اس دور میں اصحابِ ظاہر کی بنیاد محض روایت پر تھی جبکہ معتزلہ نے عقل و درایت کو ہی معیار قرار دے دیا تھا۔ اس دور میں جبکہ روایت اور درایت کے جھگڑے کا آغاز ہو رہا تھا اور یہ جھگڑا ایک طوفان بن گیا تھا۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ابو حنیفہؒ نے سب سے بڑا کارنامہ یہ کیا کہ روایت اور درایت کے اس طوفانی جھگڑے میں ان دونوں کے درمیان اعتدال و توازن کا موقف قائم کیا۔ امام صاحبؒ نے اعتدال کے ساتھ روایت اور درایت کا رشتہ جوڑ کر دنیا کو یہ بتایا کہ روایت تو ہماری بنیاد ہے ہی لیکن درایت بھی ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ بات وہی صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے جس کی اس دور کی تاریخ پر نظر ہے کہ روایت اور درایت کے جھگڑے نے کیا طوفان بپا کر دیا تھا۔ اسباب کی دنیا میں اگر امام ابو حنیفہؒ روایت اور درایت کے درمیان توازن اور اعتدال کا جھنڈا لے کر نہ کھڑے ہوتے تو خدا جانے یہ طوفان کہاں سے کہاں نکل جاتا۔ امام صاحبؒ نے یہ بتایا کہ روایت کا دائرہ یہ ہے اور درایت کا دائرہ یہ ہے۔ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ روایت کو درایت کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے اور درایت بغیر روایت کے گمراہی ہے۔ اس کا خلاصہ عرض کرنا چاہوں گا کہ روایت کو سمجھنے کے لیے درایت ضروری ہے جبکہ نری درایت جو روایت کے بغیر ہو یہ گمراہی ہے۔ یہی امام صاحبؒ کی فکر کا خلاصہ ہے کہ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ عقل اور وحی کے درمیان رشتہ کیا ہے۔
فقہ حنفی کے عروج کی وجہ:
لوگ کہتے ہیں کہ امام صاحبؒ کی فقہ کو عروج اس لیے حاصل ہوا کہ یہ اقتدار میں تھی۔ یعنی اقتدار فقہ حنفی کی ترقی و عروج کا باعث ہے۔ عباسی دور میں بھی فقہ حنفی حکمران رہی ہے، عثمانی دور میں بھی رہی ہے، ہمارے ہاں مغلوں میں بھی یہی فقہ رائج رہی ہے۔ لیکن میں تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ فقہ حنفی کو عروج اقتدار کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ بلکہ فقہ حنفی کو اقتدار اس کی خصوصیات کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ فقہ حنفی کو اقتدار اس لیے ملا کہ اس کے علاوہ نظامِ حکومت کے لیے کوئی فقہ عملی اور معاشرتی نہیں ہے۔ نظری بحثیں اور چیز ہیں، علمی مباحث کا دائرہ مختلف ہوتا ہے، لیکن سوسائٹی کے لیے ایک پریکٹیکل سسٹم دینا یہ ابوحنیفہؒ کا کمال ہے۔ معاشرے کی ضروریات کو سمجھنا، نفسیات کو سمجھنا اور سماج کی ضروریات کو سامنے رکھ کر دینی روایات کے ساتھ تعلق قائم رکھتے ہوئے اس کا حل پیش کرنا یہ فقۂ حنفی کا کمال ہے۔ میں کوئی مزید بات کہے بغیر اس پر اپنی بات سمیٹنا چاہوں گا کہ سماج، روایت اور درایت، ان میں امتزاج قائم کرنے کی جو صلاحیت فقۂ حنفی میں ہے اور کسی فقہ میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہمیں محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
=====================================

::: امام اعظم ابو حنیفہؒ علامہ اقبالؒ کی نظر میں :::
علامہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے فقہاء کرام اور مفسرین کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے متعلق لکھا ہے۔
”تاہم جہاں تک میرا علم ہے شریعتِ اسلامی کی جو توضیح جناب ابو حنیفہ نے کی ہے ویسی کسی اسلامی مفسر نے آج تک نہیں کی، اگر مذہب اسلام کی رو سے مجسموں کے ذریعے بڑے بڑے حکماء اور علماء کی یادگاریں قائم رکھنے کا دستور جائز ہوتا تو یہ عظیم الشان فقیہہ اس عزت کا سب سے پہلا حقدار تھا، دینی خدمت کے اس حصے یعنی فلسفہء شریعت کی تفسیر و توضیح میں امیر المؤمنین جناب علیؓ کے بعد جو کچھ اس فلسفی امام نے سکھایا ہے قوم اسے کبھی فراموش نہیں کرے گی۔“
(ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر ص 41،42)




اسی لئے شافعی مسلک کے مایہ ناز امام حافظ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب ”تبییض الصحیفہ“ میں لکھا ہے کہ عبد العزیز بن روادؒ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کے باب میں کلام کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو ان کے حال سے نا واقف ہیں، دوسرے وہ جو حاسد ہیں۔

تندیء بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے



=====================================

امام الحافظ الذهبی رحمہ الله فرماتے ہیںقلتُ: الإرجاءُ مذهبٌ لعدةٍ من جِلَّة العلماء، ولا ينبغی التحاملُ على قائیله۔

(میزان،۳/۱۶۳ فی ترجمة   مِسْعَر بن كِدَام)

میں ( امام ذهبی ) کہتاہوں کہ   ارجاء   تو بڑے بڑے علماء کی ایک جماعت کا مذهب ہے اور اس مذهب کے قائیل پر کوئی مواخذه نہیں کرنا چائیے۔


امام ابو حنیفہؒ اور معترضین



اس کی سند مرکب ہے اور اس میں محمد بن اسماعیل السلمی ہے، جس کے بارے میں علامہ ابن ابی حاتم نے کہا : (کہ) حضرات محدثین نے اس پر کلام کیا ہے اور اس کا روی محمد بن عبداللہ الشافعی تو انتہائی متعصب تھا. اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کا ذکر اس روایت میں بہت عرصہ بعد درج کیا گیا ہے. اور جو الازہری کی سند جو آرہی ہے اس میں ہے اور وہ لوگ جو ان سے روایت کرتے ہیں، بیشک وہ کتاب الحیل میں کلام کرتے ہیں. پختہ بات ہے کہ وہ ایسی کتاب کے بارے میں کلام کرتے ہیں جو ایسے مسائل پر مشتمل ہے جو صریح کفر تک پھنچانے والے ہیں اور حق کو باطل اور باطل کو حق کرنے والے ہیں اور واجب کو ساقط کرنے والے ہیں، اور تشریعی احکامات سے متضاد ہیں، اس کا چرچا وہ لوگ کرتے ہیں جو اس زمانہ میں بے حیا مشہور تھے.

بھر حال اس مذکور کتاب کی نسبت امام ابو حنیفہؒ کی طرف کرنا بلکل باطل ہے اس لئے کہ بیشک اس کے اصحاب میں جو اس کی تالیفات کے راوی ہیں ان میں سے کسی نے بھی کسی ایسی کتاب کا ذکر نہیں کیا نہ ہی ثقہ راویوں میں سے کسی نے صحیح سند کے ساتھ اس سے یہ روایت کی ہے. بس جس نے اس کتاب کی نسبت اس کی طرف کی ہے تو اس نے جھوٹ اور غلط نسبت کی ہے


=========================

حضرت امام ابو حنیفہ کے فتاویٰ

حسن بن زیاد لولوی کا بیان ہے کہ ایک عورت دیوانی تھی اس کو ام عمران کہتے تھے اس کے پاس سے ایک شخص اس کو کچھ کہتا ہو گزرا۔ اس عورت نے اس سے کہا کہ "اے زانیوں کے بچے" قاضی ابن ابی لیلی عورت کی یہ بات سنی اور حکم دیا کہ عورت کو پکڑ کر لائیں اور ا س کو مسجد میں لے گئے ۔ قاضی ابو لیلی نے مسجد میں اس کی دوحدیں لگو ائیں ۔ ایک حد باپ کی وجہ سے اور دوسری ماں کی وجہ سے ۔اس واقعہ کی خبر حضرت امام ابو حنیفہ کوہوئی ۔ آپؓ نے فرمایا: قاضی ابو لیلی نے اس واقعہ میں چھ غلطیاں کی ہیں ۔

1۔ دیوانی پر حد جاری کی ہے حالانکہ دیوانی پر حد نہیں ہے۔

2۔ حد مسجد میں قائم کی حالانکہ مسجد میں حد قائم نہیں کی جاتی۔

3۔ عورت کو کھڑا کر کے حد لگوائی حالانکہ عورت کو بٹھا کر حد ماری جاتی ہے۔

4۔ اس عورت پر دو حدیں قائم کیں ہیں حالانکہ حد ایک ہی لگتی ہے اگر کوئی ایک جماعت کو ائے زانیوں کہہ دے ، اس کو ایک ہی حد لگے گی۔

5۔ عورت نے جس شخص کےماں باپ کو زانی کہا وہ دونوں غائب تھے ۔ حالانکہ حد ان کے سامنے لگنی تھی۔

6۔ دونوں حدوں کا ایک ساتھ لگوایا گیا ہے حالانکہ دوسری حد اس وقت لگنی چاہیے جب پہلی حد کی چوٹیں ٹھیک ہو جائیں۔



حضرت اما م ابو حنیفہؓ کی صحیح علمی تنقید قاضی ابو لیلی کو پہنچی ، وہ گھبر ا کر امیر کو فہ کے پاس پہنچے اور آپؓ کی شکا یت کی۔ امیر نے حکم دیا کہ ابو حنیفہؓ فتویٰ نہ دیا کریں۔پھر امیر عیسیٰ بن موسیٰ نے کچھ مسائل آپؓ کے پا س بھیجے ۔آپ نے ان کا جواب لکھ دیا ۔ امیر کو آپ کے جوابات پسند آئے اور اس نے آپ کو اجازت دے دی کہ فتویٰ دیا کریں۔

1۔ (عقود الجمعان فی مناقب الاماماابی حنیفہ النعمان،علامہ شامی محمد یوسف شافعی، صفحہ264)

2۔ (سوانح امام ابو حنیفہ، شاہ ابو الحسن زید فاروقی مجددیؒ،صفحہ131،132)






     اگرچہ خواب شریعت میں حجت نہیں ہے؛ لیکن استیناس کے لیے خواب کا ذکر کرنا متقدمین ومتاخرین کے یہاں مستحسن مانا گیا ہے اور اگر کوئی خواب کسی عظیم عالم یا امام کا ہو اور اس خواب کی تعبیر بھی کسی عظیم ہستی کی جانب سے بیان کی جائے ، تو پھر خواب کافی با معنی اور اہم ہوجاتا ہے ۔ ٍصحیحین کی مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃ جُزْئٌ مِنْ سِتَّۃٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْئًا مِنْ النُّبُوَّۃِ) یعنی نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۔ امام ابوحنیفہؒ کا وہ خواب تواریخ وطبقات کی کتابوں میں موجود ہے جس کی تعبیر ابن سیرینؒ نے بیان فرمائی تھی۔ حافظ ذہبی ؒ ’’مناقب أبی حنیفۃ وصاحبیہ‘‘ ص۳۶میں فرماتے ہیں :
          ’’عَنْ أَبِی یُوسُفَ، قَالَ: رَأَی أَبُو حَنِیفَۃَ کَأَنَّہُ یَنْبُشُ قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ یَأْخُذُ عِظَامَہُ یَجْمَعُہَا، وَیُؤَلِّفُہَا، فَہَالَہُ ذَلِکَ، فَأَوْصَی صَدِیقًا لَہُ إِذَا قَدِمَ الْبَصْرَۃَ أَنْ یَسْأَلَ ابْنَ سِیرَینَ، فَسَأَلَہُ، فَقَالَ: ہَذَا رَجُلٌ یَجْمَعُ سُنَّۃَ النَّبِیِّ وَیُحْیِیہَا‘‘
            (یعنی ابو یوسفؒ بیان فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ نے خواب دیکھا کہ وہ نبی ﷺ کی قبر کھود رہے ہیں اور جسم اطہر کی ہڈیاں جمع کر رہے ہیں اور انھیں جوڑ رہے ہیں ۔ اس خواب سے آپ بڑے خائف ہوئے اور اپنے ایک دوست سے یہ کہا کہ جب وہ بصرہ جائیں تو ابن سیرینؒ سے اس خواب کی تعبیر دریافت فرمالیں ؛ چنانچہ انھوں نے جب ابن سیرینؒ سے سوال کیا، تو ابن سیرینؒ نے جواب دیا: یہ شخص رسول اللہ ﷺ کی سنت کو جمع کرے گا اور اس کا احیاء کرے گا۔)
            امام ذہبیؒ اسی کتاب میں علی ابن عاصمؒ کی روایت سے نقل کرتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ نے فرمایا:
          ’’رَأَیْتُ کَأَنِّی نَبَشْتُ قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَزِعْتُ وَخِفْتُ أَنْ یَکُونَ رِدَّۃً عَنِ الإِسْلامِ، فَجَہَّزْتُ رَجُلًا إِلَی الْبَصْرَۃِ، فَقَصَّ عَلَی ابْنِ سِیرِینَ الرُّؤْیَا، فَقَالَ: إِنْ صَدَقَتْ رُؤْیَا ہَذَا الرَّجُلِ فَإِنَّہُ یَرِثُ عِلْمَ نَبِیٍّ‘‘
            (میں نے خواب دیکھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی قبر کھود رہا ہوں ، جس کی وجہ سے میں سہم گیا اور مجھے اس بات کا اندیشہ ہونے لگا کہ یہ کہیں میرے مرتد ہونے کی جانب اشارہ تو نہیں ہے؛ چنانچہ میں نے ایک شخص کو بصرہ بھیجا اور اس نے ابن سیرین ؒ کے سامنے سارا واقعہ سنایا۔ ابن سیرینؒ نے تعبیر دیتے ہوئے فرمایا: اگر اس شخص کا خواب سچا ہے ، تو یہ علومِ نبوت کا وارث ہوگا۔)
            خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی دو صدی سے دیوبندی مکتب فکر کو عالمی طور پر مذہبِ حنفی کے سب سے بڑے ترجمان کی حیثیت حاصل ہے ۔ آج پوری دنیا میں علماءِ دیوبند کی علمی، فکری اور فقہی خدمات سے اہلِ ایمان سیراب ہورے ہیں اور اپنی دینی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں ۔



No comments:

Post a Comment