Thursday, 14 June 2012

رسول اللہ ﷺ کے جان نثار صحابہ



مستند راستے وہی مانے گۓ،
جن سے ہوکر تیرے دیوانے گۓ.
===================
فضائلِ صحابہ - قرآن و حدیث سے:
نبي أكرم (صلے الله علیہ وسلم) کے دین کو سب سے زیادہ سمجھنے والے صحابہ (رضوان الله علیھم اجمعین) تھے, ان مہاجر-و-انصار (صحابہ) کی "اتباع" سے خدا کی رضا، جنت اور عظیم کامیابی ملتی ہے:
وَالسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ مِنَ المُہَاجِرِینَ وَالا َنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِاِحسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ وَا َعَدَّ لَہُم جَنَّاتٍ تَجرِی تَحتَہَا الا َنہَارُ خَالِدِینَ فِی ہَا اَبَداً ذَلِکَ الفَو زُ العَظِیمُ (سورة التوبة 100)
ترجمہ:” اورمہاجرین و انصار میں سے وہ اولیں لوگ جوکہ (ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں) دوسروں پر سبقت لے گئے، اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوںگی، ان میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے، (اور) یہی عظیم کامیابی ہے “۔تشریح : اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے تین قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایاہے:
(1) مہاجرین: جنہوں نے رب العزت کے دین کی خاطر اپنے آبائی وطن اورمال ومتاع کو چھوڑا اورمدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔
(2) انصارصحابہ ، جنہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اورمہاجر صحابہ کرام رضوان کی نصرت ومددکی اوران کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔اللہ تعالی نے ان دونوں (مہاجرین وانصار) میں سے ان حضرات کا تذکرہ فرمایاہے جو ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں سبقت لے گئے یعنی سب سے پہلے ہجرت کرکے اورسب سے پہلے ایمان قبول کرکے وہ دوسروں کے لیے نمونہ بنے ۔
(3) وہ حضرات جنہوں نے ان سابقین اولین کی اخلاص ومحبت سے پیروی کی اوران کے نقش قدم پہ چلے ، ان میں متاخرین صحابہ کرام ث ، تابعین اورقیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ شامل ہیں جو انہیں معیار ِحق تصور کرتے ہوئے ان کے پیروکار رہیں گے ۔تینوں قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالی نے انہیں دو خوشخبریاں سنائی ہیں:
٭ ایک یہ کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوگیا ہے، یعنی ان کی لغزشیں معاف کردی ہیںاوران کی نیکیوںکو شرفِ قبولیت سے نوازا ہے ۔
٭ اوردوسری یہ کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے جنات تیار کردی ہیں جن میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوںگے ۔محمدبن کعب القرضی کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تمام صحابہ کرام کی مغفرت کردی ہے اوراپنی کتاب میں ان کے لیے جنت کو واجب قرار دیا ہے ،ان میں سے جو نیک تھا اس کے لیے بھی اورجو خطاکارتھا اس کے لیے بھی،پھر انہوں نے قرآن مجید کی یہی آیت تلاوت کی اورکہا :”اس میں اللہ تعالی نے صحابہ کرام سے رضامندی اوران کے لیے جنت کا اعلان کیا ہے اوران کے پیروکاروںکے لیے بھی یہی انعام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان کی اخلاص ومحبت سے پیروی کریں “۔ (الدرالمنثور 4/272)
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: لاتسبوا اصحابی فلو ا ن ا حدکم ا نفق مثل ا حد ذھباً مابلغ مُدّ ا حدھم ولا نصیفہ ترجمہ: ”میرے ساتھیوں کو گالیاں مت دینا،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !اگر تم میں سے کوئی شخص احدپہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ نہ ان کے ایک مدّ کے برابر ہوسکتا ہے اورنہ آدھے مدّ کے برابر “۔ ( البخاری 2541،3673 مسلم2540)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: من سب اصحابی فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس ا جمعین ترجمہ: ”جس شخص نے میرے صحابہ کرام کوگالیاں دیں اس پر اللہ کی لعنت ،فرشتوںکی لعنت اورتمام لوگوںکی لعنت ہے ۔“ (الصحیحة للالبانی 2340)
====================
صحابۂ کرام کے حقوق:
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه .(صحيح البخاري : 3673 ، الفضائل / صحيح مسلم : 2541 ، الفضائل)
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو ، اسلئے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو انکے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔
تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے اچھا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی رسالت کیلئے منتخب کرلیا ، پھر جب [ نبیوں کے دلوں کے بعد اور ] بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو سب سے بہتر دلحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دل کو پایا تو اپنے نبی کے وزیر و ساتھی کے طور پر انکا انتخاب کر لیا جو اسکے دین کی بنیاد پر جہاد کئے ہیں تو یہ مسلمان [ یعنی صحابہ ] جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے ۔ {مسند احمد ، ج : 1 ، ص : 379 / شرح السنۃ ، ج : ۱ ص : 214 }
صحابی کہتے ہیں اس شخص کو جس نے حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اسکا انتقال بھی ہوا ہو ، اہل سنت وجماعت کے یہاں صحابہ کرام کی بڑی اہمیت اور انکے کچھ خاص حقوق ہیں جنکا ادا کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ، کیونکہ
اوّلا : تو وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں،
ثانیا :ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے،
ثالثا : وہ لوگ امت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ ہیں،
رابعا : اللہ تبارک و تعالی نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی،
خامسا : وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔

[ 1]محبت :إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ( سورة المائدة : 55)تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیںاس آیت میں اہل ایمان سے محبت کرنے والے کو اللہ تبارک وتعالی کا ولی قرار دیا گیا ہے اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اہل ایمان صرف صحابہءکرام تھے۔ارشاد نبوی ہے : آیۃ الایمان حب الانصار و آیۃ النفاق بغض الانصارصحیح البخاری و صحیح مسلم عن ابن انس ]انصار سے محبت ایمان کی علامت اور انصار سے بغض و نفرت نفاق کی علامت ہے ۔[ 2 ]دعا و استغفار :وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ( سورة الحشر : 10 )اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہےاس لئے اہل سنت و جماعت کے نزدیک " رضی اللہ عنہ " صحابہء کرام کیلئے شعار ہے ۔[ 3 ]صحیح دلیل سے ثابت انکے فضائل کا اقرار :جیسے عشرہ و مبشرہ ، حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ ، حضرت عمرو بن عاص وغیرہ کے فضائل میں وارد حدیثیں ۔[ 4 ]انکی عدالت کا اعتراف :یعنی وہ ہر قسم کے گناہ سے پرہیز کرتے تھے تقوی کا التزام کرتے تھے ، ہر معاملہ پر حق و صواب کو حرز جان بناتے تھے ، اگر ان میں کسی سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اجتہادی غلطی ہے یا پھر بتقاضائے بشریت ہے جس پر وہ اصرار نہیں کرتے تھے:وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ( سورة الحجرات : 7 )اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ، اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں ، تو تم مشکل میں پڑ جاو لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے ، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔[ 5 ]انکی تعظیم و توقیر کی جائے :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :اکرموا اصحابی فانہم خیارکم {النسائی الکبری ، مصنف عبد الرزاق عن عمر }میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں ۔[ 6 ]انکی عیب جوئی نہ کی جائے اورانہیں برا بھلا نہ کہا جائے :ارشاد نبوی ہے :لا تسبوا اصحابی ، لعن اللہ من سب اصحابی ۔ { الطبرانی الاوسط عن عائشۃ }میرے صحابہ کو بر بھلا نہ کہو ، اس شخص پر اللہ تعالی کی لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے ۔[ 7 ]انکی غلطیوں کو اچھالا نہ جائے اور انکے اختلافات کو حدیث مجالس نہ بنایا جائے :ارشاد نبوی ہے :اذا ذکر اصحابی فامسکو { الطبرانی الکبیر ، عن ابن مسعود }جب میرے صحابہ { کے آپسی اختلاف} کا ذکر ہو تو خاموشی اختیار کرو ۔[ 8 ]انکی علمیت اور دینی خدمات کا اعتراف کیا جائے :کیونکہ انہی لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ دین کو اخذ کیا ہے ۔بشکریہ : شیخ ابو کلیم فیضی (مرکز دعوت و ارشاد ، الغاط ، سعودی عرب)جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1833 45 - مناقب کا بیان : (359) حدیث مرفوع مکررات 11محمد بن یحیی، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، عبیدة بن ابی رائطہ، عبدالرحمن بن زیاد، حضرت عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ میرے بعد میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور انکو حدف ملامت نہ بنانا اس لئے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض کی اس نے مجھ سے بغض کیا اور جس نے انہیں ایذاء (تکلیف) پہنچائی گویا اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے اذیت دی گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اپنے عذاب میں گرفتار کرے گا۔ یہ حدیث حسن حسن غریب ہے ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 2606 حدیث مرفوع حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے پیچھے میرے صحابہ کو نشان طعن مت بنانا، جو ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے، اور جو ان سے نفرت کرتا ہے دراصل وہ مجھ سے نفرت کی وجہ سے ان کے ساتھ نفرت کرتا ہے جو انہیں ایذاء پہنچاتا ہے وہ مجھے ایذاء پہنچاتا ہے، اور جو مجھے ایذاء پہنچاتا ہے وہ اللہ کو ایذاء دیتا ہے، اور جو اللہ کو ایذاء دیتا ہے اللہ اسے عنقریب ہی پکڑ لیتا ہے۔

صحابۂ کرام کے حقوق

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه .

( صحيح البخاري : 3673 ، الفضائل / صحيح مسلم : 2541 ، الفضائل )

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو ، اسلئے کہ اگر تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو انکے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔

تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے اچھا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی رسالت کیلئے منتخب کرلیا ، پھر جب [ نبیوں کے دلوں کے بعد اور ] بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو سب سے بہتر دلحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دل کو پایا تو اپنے نبی کے وزیر و ساتھی کے طور پر انکا انتخاب کر لیا جو اسکے دین کی بنیاد پر جہاد کئے ہیں تو یہ مسلمان [ یعنی صحابہ ] جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے ۔ {مسند احمد ، ج : 1 ، ص : 379 / شرح السنۃ ، ج : ۱ ص : 214 }

صحابی کہتے ہیں اس شخص کو جس نے حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اسکا انتقال بھی ہوا ہو ، اہل سنت وجماعت کے یہاں صحابہ کرام کی بڑی اہمیت اور انکے کچھ خاص حقوق ہیں جنکا ادا کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ، کیونکہ

اوّلا : تو وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں ،

ثانیا :ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ،

ثالثا : وہ لوگ امت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ ہیں ،

رابعا : اللہ تبارک و تعالی نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی ،

خامسا : وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔

صحابہء کرام کے حقوق

[ 1]

محبت :

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ( سورة المائدة : 55)

تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں

اس آیت میں اہل ایمان سے محبت کرنے والے کو اللہ تبارک وتعالی کا ولی قرار دیا گیا ہے اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اہل ایمان صرف صحابہءکرام تھے۔

ارشاد نبوی ہے : آیۃ الایمان حب الانصار و آیۃ النفاق بغض الانصار

صحیح البخاری و صحیح مسلم عن ابن انس ]

انصار سے محبت ایمان کی علامت اور انصار سے بغض و نفرت نفاق کی علامت ہے ۔

[ 2 ]

دعا و استغفار :

وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ( سورة الحشر : 10 )

اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے

اس لئے اہل سنت و جماعت کے نزدیک " رضی اللہ عنہ " صحابہء کرام کیلئے شعار ہے ۔

[ 3 ]

صحیح دلیل سے ثابت انکے فضائل کا اقرار :

جیسے عشرہ و مبشرہ ، حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ ، حضرت عمرو بن عاص وغیرہ کے فضائل میں وارد حدیثیں ۔

[ 4 ]

انکی عدالت کا اعتراف :

یعنی وہ ہر قسم کے گناہ سے پرہیز کرتے تھے تقوی کا التزام کرتے تھے ، ہر معاملہ پر حق و صواب کو حرز جان بناتے تھے ، اگر ان میں کسی سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اجتہادی غلطی ہے یا پھر بتقاضائے بشریت ہے جس پر وہ اصرار نہیں کرتے تھے:

وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ( سورة الحجرات : 7 )

اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ، اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں ، تو تم مشکل میں پڑ جاو لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے ، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔

[ 5 ]

انکی تعظیم و توقیر کی جائے :

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

اکرموا اصحابی فانہم خیارکم {النسائی الکبری ، مصنف عبد الرزاق عن عمر }

میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں ۔

[ 6 ]

انکی عیب جوئی نہ کی جائے اورانہیں برا بھلا نہ کہا جائے :

ارشاد نبوی ہے :

لا تسبوا اصحابی ، لعن اللہ من سب اصحابی ۔ { الطبرانی الاوسط عن عائشۃ }

میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو ، اس شخص پر اللہ تعالی کی لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے ۔

[ 7 ]

انکی غلطیوں کو اچھالا نہ جائے اور انکے اختلافات کو حدیث مجالس نہ بنایا جائے :

ارشاد نبوی ہے :

اذا ذکر اصحابی فامسکو { الطبرانی الکبیر ، عن ابن مسعود }

جب میرے صحابہ { کے آپسی اختلاف} کا ذکر ہو تو خاموشی اختیار کرو ۔

[ 8 ]

انکی علمیت اور دینی خدمات کا اعتراف کیا جائے :

کیونکہ انہی لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ دین کو اخذ کیا ہے ۔

بشکریہ : شیخ ابو کلیم فیضی (مرکز دعوت و ارشاد ، الغاط ، سعودی عرب)

No comments:

Post a Comment