Monday, 11 June 2012

فقہِ حنفی کے خلاف سازشوں کی حقیقت


جیسے کوئی منکرِ اسلام، اسلام کو بدنام کرنے کے لئے آدھی بات قرآن[التوبہ:5] سے پیش کرے کہ’’مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ قتل کردو‘‘جو کہ حالتِ جنگ کے وقت کا حکم ہے. یا کوئی نافرمان، قرآن پاک سے بتاۓ کہ’’نماز کے قریب بھی نہ جاؤ‘‘[النساء:43]، یہ تو حالتِ نشے کے وقت کا حکم تھا، جو شراب کے حرام ہونے کے ساتھ منسوخ ہوچکا. ایسے ہی اس مسئلہ میں فقہِ حنفی کو بدنام کرنے کے لئے فقہ حنفی کی کتب سے مفتیٰ بہا / معمول بہا اقوال کہ بجاۓ شاذ/متروک عبارت کو، اس مسئلہ کو پورا بیان کیے بغیر انہیں قرآن وحدیث کے خلاف بتاکر عوام کو گمراہ کرتے دھوکہ دیتے رہتے ہیں. جس طرح احادیث کی کتب میں بعض احادیث صحیح/ضعیف، منسوخ(Cancel) و متروک(Obsolete) ہوتی ہیں، اسی طرح کتبِ فقہ اور اس کے شروح(تشریحات) اور فتاویٰ میں بھی بعض اقوال مفتیٰ بہا اور معمول بہا ہوتے ہیں...اسی طرح بعض مفتیٰ بہا اقوال مرجوح اور شاذ اقوال ہوتے ہیں. لہذا مرجوح و شاز اقوال کا بہانہ بنا کر فقہ_حنفی پر اعترضات کرنا ان منکرین_حدیث جیسا شیوا ہے جو ضعیف و موضوع حدیث کا بہانہ بناکر ذخیرہ احادیث کا انکار کرتے ہیں.
[فقہ_حنفی پر اعترضات کے جوابات:٢٧٢]






مذہبِ حنفی جو ظاہر الروایت ہے جس پر ہر جگہ عمل ہے اس کے خلاف شاذ روایت بیان کرنا یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائی، یہودی، رافضی متواتر قرآن پاک کے متعلق وسوسے ڈالنے کے لئے شاذ قرأتوں سے تحریف قرآن ثابت کرکے عوام اہل اسلام کے دلوں میں وسوسے ڈالا کرتے ہیں.جس طرح دین_اسلام کے مسائل کسی منکرِ اسلام سے سنکر کوئی اسلام کی مخالفت کرے تو یہ عقل وانصاف کے خلاف ہے، ویسے ہی فقہِ دین(التوبہ:122) کی تشریح کرنے والے اماموں میں سے امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب فقہ_حنفی کو ان کے منکروں سے غلط-ادھوری-بیانی سنکر مخالفت کرنا بھی اس کی نادانی اور ناانصافی کی علامت ہے.


[عادت کر درگزر کی اور حکم کر نیک کام کرنے کا اور کنارہ کر جاہلوں سے- سورۃ الاعراف:199]
جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمامِ حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرمالیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں۔

آنکھیں ہیں گر بند تو دن بھی رات ہے ----- اس میں بھلا کیا قصورہے آفتاب کا.


آدمیت کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور چیز؛
کتنا ہی طوطے کو پڑھایا مگر وہ حیواں کا حیواں ہی رہا.




فقہِ حنفی کا مختصر تاریخی ارتقاء

 یقینا صحابہؓ میں ایک جماعت اجتہاد وفتاوی کی ذمہ داری انجام دیتی تھی؛ لیکن عام طور پر ان کا یہ کام انفرادی ہوا کرتا تھا۔ ان کا کوئی مکتبِ فکر اور منظم مدرسہ نہیں تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ منظم طور پر فقہ واجتہاد کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوتا ہے؛ اس سوال کا جواب دینے کے لیے مورخین لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے صحابی جن کو منظم اور اجتماعی انداز سے فقہ وفتاوی کے موضوع پر کام کرنے کا شرف حاصل ہے وہ ہیں ، منبع فقہ، خادمِ رسول، صحابی جلیل سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔ امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں :

            ’’لم یکن أحد لہ أصحاب معروفون حرروا فتیاہ ومذاہبہ فی الفقہ غیر ابن مسعود‘‘ (ابن مسعودؓکے علاوہ (صحابہ میں ) کوئی ایسا نہیں گذرا ہے جس کے معروف تلامذہ ہوئے ہوں اور جس کے فقہی مسائل کو منضبط اور مرتب کیا گیا ہو۔)(إعلام الموقعین ج۲ ص۳۶-۳۷)



 مذہبِ حنفی کی اسی حیرت انگیز وسعت وجامعیت کا ذکرکرتے ہوئے فقیہ الادبائ، ادیب فقہائ، علامہ علی طنطاویؒ ’’رجال من التاریخ‘‘ (ص۲۵۳-۲۵۴) میں فرماتے ہیں :
          ’’والمذہب الحنفی الیوم أوسع المذاہب انتشارا، وأوسعہا فروعا وأقوالا، وہو أنفع المذاہب فی استنباط القوانین الجدیدۃ، والأجتہادات القضائیۃ، یلیہ فی کثر الفروع المذہب المالکی، وقد عرفت ذلک فی السنین التی اشتغلت فیہا بوضع مشروع قانون الأحوال الشخصیۃ، وسبب ذلک أن المذہب الحنفی صار مذہب دولۃ مدۃ العباسیین والعثمانیین، وہی ثلاثۃ أرباع التاریخ الأسلامی، والمالکی مذہب المغرب طول ہذہ المدۃ، فکثرت فیہما الفروع والمناقشات، أما المذہب الشافعی فلم یکن مذہبا رسمیا إلا حقبۃ قصیرۃ أیام الأیوبیین، بینما اقتصر المذہب الحنبلی علی نجد والحجاز الیوم‘‘
            ترجمہ: مذہبِ حنفی آج پوری دنیا میں تمام مذاہب میں سب سے زیادہ متداول اور شائع مذہب ہے  اور اسی طرح سے فقہی جزئیات واقوال کے اعتبار سے یہ مذہب سب سے زیادہ مالامال ہے ۔ نت نئے قوانین وضوابط کے استنباط، اور قضاء سے متعلق اجتہادات میں اس سے زیادہ نافع مذہب کوئی بھی نہیں ہے ۔ مذہبِ حنفی کے بعد کثرتِ فروع وجزئیات میں دوسرا مذہب مالکی ہے ۔ مجھے اس کا اندازہ ان سالوں میں ہوا جب میں پرسنل لاء کی منصوبہ سازی پر کام کر رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عباسی اور عثمانی خلافتوں کے دوران مذہبِِ حنفی سرکاری مذہب تھا اور یہ دونوں ہی خلافتیں تاریخِ اسلام کے تین ربع کو محیط ہیں ؛ جب کہ اس پوری مدت میں مالکی مذہب اندلس کا سرکاری مذہب رہا ہے ؛ اسی لیے ان دونوں ہی مذاہب میں فروعی مسائل اور فقہی مناقشات کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس مذہبِِ شافعی ایوبی سلطنت کے دوران ہی مختصر مدت کے لیے سرکاری مذہب کی حیثیت رکھتا تھا؛ جب کہ حنبلی مذہب اس وقت نجد اور حجازمیں محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔


انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کی شہادت:
            انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا مستشرقین اور مغربی مصنّفین کا عظیم ترین علمی اور ادبی کارنامہ ہے اور اسے انگریزی زبان کا سب سے اہم موسوعہ مانا جاتا ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیا کے مقالہ نگار نے فقہِ حنفی کی ہم آہنگی، لچک اور وسعت کا اعتراف مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے :
            The school of Ab anfah acquired such prestige that its doctrines were applied by a majority of Muslim dynasties.
            His legal acumen and juristic strictness were such that Ab anfah reached the highest level of legal thought achieved up to his time. Compared with his contemporaries, the Kufan Ibn Ab Layl (d.765) the Syrian Awz (d.774) and the Medinese Mlik (d.795) his doctrines are more carefully formulated and consistent and his technical legal thought more highly developed and refined.
(انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکاج۱ص۱۹)

            (یعنی ابوحنیفہؒ کے مذہب کو اتنا اثر ورسوخ حاصل تھا کہ اکثر اسلامی خلافتیں اور بادشاہتیں اسی مذہب کی پیروکار تھیں ۔ ابوحنیفہؒ کی قانونی اور فقہی بصیرت وذکاوت اس زمانہ تک حاصل کی گئی قانونی فکر کے سب سے اعلی معیار تک پہونچی ہوئی تھی۔ اپنے معاصرین ابن ابی لیلیؒ کوفی متوفی ۷۶۵ئ، اوزاعیؒ شامی متوفی ۷۷۴ئ، اور مالک مدنیؒ متوفی ۷۹۵ء کے مقابلہ میں آپ کے اصول کی تشکیل زیادہ محتاط انداز سے کی گئی ہے اور اس میں استقلال اور ہم آہنگی زیادہ ہے اور آپ کے علمی اور قانونی افکار کے مقابلہ میں زیادہ معیاری انداز سے مرتب اور منقح کیے گئے ہیں ۔)






جديد فرقہ وکٹورین اهلِ حدیث کا فـقہِ حنفی سے بُغض وعداوت:
اس فرقہ جدید کی بنیاد ہی امام اعظم أبي حنيفة رحمہ الله اورفقہ حنفی سے بغض وعداوت ونفرت وتعصب پر رکهی گئ ہے ، باستثناء بعض معتدل اشخاص سب کا یہی حال ہے ، ان کے چهوٹے بڑے آئے دن وقتا فوقتا فقہ حنفی کے خلاف کچهہ نہ بکواسات لکهتے اور بولتے رہتے هیں ، اور حتی کہ ایک ناواقف جاهل شخص جب ان کی ظاهری خوشنما جال میں پهنستا هے تو اس کو ابتدائ سبق هی یہ پڑهایا جاتا هے کہ " فقہ حنفی قرآن وحدیث کے بالکل خلاف ومتضاد هے " لہذا اس کے قریب بهی نہ جانا ، اور پهر اس کو مزید گمراه کرنے کے لیئے اور امام اعظم أبي حنيفةؒ اور فقہ حنفی سے متنفرکرنے کے لیئے چند کتب ورسائل کے پڑهنے کی تاکید کی جاتی هے جن کو بعض جہلاء نے ترتیب دیا ہے اوران میں امام اعظم أبي حنيفةؒ اورفقہ حنفی کے خلاف انٹرنیشنل جهوٹ وکذب وفریب کوجمع کیا ، اب ایک ناواقف وجاهل خالی الذهن شخص یہ سب کذبات وافترآت پڑهتا ہے یا سنتا ہے اور اس کو خالص اندهی تقلید میں قبول کرتا جاتا ہے ، کیونکہ یہ شخص بوجہ اپنی جہالت کے دین کے بنیادی احکامات وفرائض کی خبرنہیں رکهتا تو فقہ حنفی کی تفصیلات کا اس کو کیا علم ہوگا ، اور اس فرقہ جدید میں شامل ہونے والے اکثرکا یہی حال ہے کہ اسی قسم کا وسوسہ کسی نے سنایا یا پڑهایا اور ان کے ساتهہ ہولیا ، اب یہی شخص اس کے بعد رات دن امام اعظم أبي حنيفةؒ اورفقہ حنفی اورعلماء احناف کے خلاف طعن وتشنیع کرتا رهتا ہے اوراپنی عاقبت کوخراب کرتا هے ، اور یہ سب کام یہ شخص خالص اندهی وناجائز تقلید میں کرتا ہے ، کیونکہ خود تو اس کے اندر اتنی استعداد وصلاحیت نہیں هے کتب فقہیہ کی طرف رجوع کرکے صحیح وغلط جهوٹ وسچ کی تمیز وتفریق کرسکے ، لہذا چند جہلاء کے رسائل وکتیبات وبیانات پڑهی آمین ولبیک کہہ دیتا ہے ، اور اس طرح ضلالت کی وادی میں پہلا قدم رکهتا ہے ، لہذا ایک عاقل شخص پر لازم ہے کہ امام اعظم أبي حنيفةؒ اورفقہ حنفی اورعلماء احناف کے خلاف اس فرقہ جدید کی طرف سے پهیلائے گئے وساوس واکاذیب کو ہرگز قبول نہ کرے ، الله تعالی علماء حق علماء دیوبند کو جزاء خیردے کہ اس فرقہ جدید کی اڑائ ہوئی تمام جهوٹی باتوں کا جواب مستقل کتب ورسائل وبیانات وتقاریر کی صورت میں دے چکے ہیں اور اس فرقہ جدید پر خصوصا اور دیگر تمام لوگوں پر حُجت تمام کرچکے هیں ، یہاں میں صرف ایک بات امام اعظم أبي حنيفةؒ کے اصول اجتہاد کے حوالے سے عرض کرتا ہوں ، جس کو پڑهہ کرآپ اندازه کریں کہ امام اعظم نے باب اجتہاد میں کتنا عظیم اصول قائم کیا ہے ، اوراس اصول کو پڑهنے کے بعد امام اعظم اور فقہ حنفی کے خلاف اس فرقہ جدید کے پهیلائے ہوئے اکثر وساوس فنا ہوجاتے ہیں۔









ألإمام الأعظم أبي حنيفـة النعمانؒ كا عـظيم اجـتهادى أصـول:

الإمام الأعظم أبو حنيفة النعمان – رحمه الله تعالى فرماتے ہیں:

میں سب سے پہلے کتاب الله سے( مسئلہ وحکم ) لیتا ہوں ، اگر کتاب الله میں نہ ملے تو پهر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث کی طرف رجوع کرتا ہوں ، اور اگر كتاب الله وسنة اور احادیث رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بهی نہ ملے تو پهر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا هوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ إبراهيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پهر میں بهی اجتهاد کرتا ہوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا۰[تاريخ بغداد (13/368)].







حافظ ابن القیمؒ اپنی کتاب {إعلام الموقعين }فرماتے هیں کہ:



وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعـون علـى أن مذهـب أبـي حنيفـة أن ضعيـف الحديـث عنـده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبـه كمـا قـدّم حديـث القهقهـة مـع ضعفه على القياس والرأي ، وقـدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقيـاس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد"۔

امام أبي حنيفةؒ کے اصحاب کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام أبي حنيفةؒ کا مذهب یہ ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث بهی رائے و قیاس سے أولى وبہتر ( ومقدم ) ہے ، اور اسی اصول پر امام أبي حنيفة رحمه الله کے مذهب کی بنیاد واساس رکهی گئی ، جیساکہ قهقهـة والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پر مقدم کیا ، اور سفر میں نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفةؒ نے قیاس ورائے پر مقدم کیا ، پس حديث ضعيف وآثارُ الصحابة کو رائے وقیاس پر مقدم کرنا یہ الإمام أبي حنيفةؒ اور الإمام أحمدؒ کا قول ( وعمل وفیصلہ ) ہے ۰
{ إعلام الموقعين عن رب العالمين 1/77 } 




علامہ ابن حـزم ظـاهـری بهی یہی فرماتے هیں:

کہ جميع أصحاب أبي حنيفة مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي "{ إحكام الإحكام في أصول الأحكام 7/54. }

یہ ہے الإمام الأعظم أبي حنيفةؒ اورآپ کے اصحاب وتلامذه کا سنہری وزریں اصول جس کے اوپرمذهب حنفی بنیاد هے ، الإمام الأعظمؒ کا یہ اصول اهل علم کے یہاں معروف ہے ، اب جس امام کا حدیث کے باب میں اتنا عظیم اصول ہو اوراس درجہ تعلق ہو حدیث کے ساتهہ کہ ضعیف حدیث پربهی عمل کرنا هے ، اس امام کو اور اس کے اصحاب و پیروکاروں کو حدیث کا مخالف بتلایا جائے اور جاهل عوام کو گمراه کیا جائے، تو اس طرز کو هم کیا کہیں جہالت وحماقت یاعداوت ومنافقت ؟؟





شـيـخ الإسـلام إبن تيمية رحمه الله كـا فـتـوى:



ومن ظنّ بأبي حنيفة أوغيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيحلقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم ، وتكلّم إما بظنّ وإمـا بهـوى ، فهـذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضى بالنبيذ في السفر مع مخالفته للقياس ، وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما "اورجس نے بهی امام أبي حنيفة یا ان کے علاوه دیگر أئمة ُالمسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قياس یا ( رائے ) وغیره کی وجہ سے حديث صحيح کی مُخالفت کرتے هیں تو اس نے ان ائمہ پر غلط ( وجهوٹ ) بات بولی ، اور محض اپنے گمان وخیال سے یا خواہش وهوی سے بات کی ، اور امام أبي حنيفة تو نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث پر باوجود ضعیف هونے کے اور مُخالف قیاس هونے کے عمل کرتے هیں الخ

{ مجموع الفتاوي لابن تيمية 20/304، 305. }








شـيـخ الإسـلام إبن تيمية رحمه الله کا فتوی بالکل واضح هے یعنی امام اعظم کے مُتعلق اگرکوئی یہ گمان وخیال بهی کرے کہ وه صحیح حدیث کی مخالفت کرتے هیں اپنی رائے وقیاس سے تو ایسا شخص شـيـخ الإسـلام إبن تيمية رحمه الله کے نزدیک خیالات وخواہشات کا پیروکار هے اور ائمہ مُسلمین پرجهوٹ وغلط بولنے والا هے ۰کیا شـيـخ الإسـلام إبن تيمية کے اس فتوی کا مصداق آج کل کا جدید فرقہ اهل حدیث نہیں هے جو رات دن کا مشغلہ ہی یہی بنائے هوئے هیں ؟؟؟میں نے حافظ ابن القیم رحمہ الله اور ان کے شیخ شـيـخ الإسـلام إبن تيمية رحمہ الله کی تصریحات نقل کیں ، عجب نہیں کہ حافظ ابن القیم رحمہ الله شـيـخ الإسـلام إبن تيمية رحمہ الله کا یہ اعلان فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل جُہلاء کے لیئے باعث هدایت بن جائے ۰ اور یہ بهی یاد رهے کہ فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل جاهل نام نہاد شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ پهیلاتے هیں کہ فقہ حنفی" حدیث "کے بالکل مخالف هے ، گذشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ امام اعظم اورآپ کے اصحاب بالاتفاق ضعیف حدیث پرعمل نہیں چهوڑتے چہ جائیکہ صحیح حدیث کو چهوڑ دیں ، اس سلسلہ میں ایک اور مثال عرض کرتا هوں ،دیگرمُحدثین کے یہاں اور خود فرقہ جدید اهل حدیث کے یہاں بهی " مُرسَل حدیث " ضعیف اور ناقابل احتجاج هے ، جب کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب " مُرسَل حدیث " کو بهی قبول کرتے هیں ، اور قابل احتجاج سمجهتے هیں بشرطیکہ " مُرسِل " ثقہ وعادل هو ، یہاں سے آپ اندازه لگا لیں کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب " حدیث " کو کتنی اهمیت دیتے هیں ، اور حدیث رسول کے ساتهہ کس درجہ شدید و قوی تعلق رکهتے هیں ، لیکن پهر بهی عوام کو بے راه کرنے کرنے یہ جهوٹ و وسوسہ پهیلاتے هیں کہ فقہ حنفی حدیث کے بالکل مخالف هے ۰ هَـداهـُم الله فـهـُم لايـَعـلمون ٠مُرسَل حدیث کے متعلق مُحدثین کے چند تصریحات درج ذیل هیں ،حكم الحديث المرسل عند أبي حنيفة :















من الجدير بالذكر أن الحديث المرسل هو الحديث الذي يضيفه التابعي إلىالنبي صلى الله عليه وسلم مسقطاً الواسطة بينهما ، وقد اختلف العلماء في قول هذا المرسل أوعدم قبوله على أقوال عدة ، وكان أبو حنيفة النعمان يرى قبول الحديث المرسل والاحتجاج به بشرط أن يكون مرسِله ثقة عدلاً . قال الخطيب البغدادي في الكفاية : " اختلف العلماء في وجوب العمل بما هذه حاله، فقال بعضهم : إنه مقبول ويجب العمل به إذا كان المرسِل ثقة عدلاً ، وهذا قول مالك وأهل المدينة وأبي حنيفة وأهل العراق وغيرهم "الكفاية في علم الراوية ص384وقال ابن الصلاح وابن كثير : " والاحتجاج به مذهب مالك وأبي حنيفة وأصحابهما ء رحمهم الله ء في طائفة "انظر علوم الحديث لابن الصلاح ص 50 وقال العراقي في فتح المغيث : " فذهب مالك بن أنس وأبو حنيفة النعمان بن ثابت وأتباعهما في طائفة إلى الاحتجاج به "يعني بالمرسل .فتح المغيث في شرح ألفية الحديث ص65.وقال النووي في التقريب : " ثم المرسل حديث ضعيف عند جماهير المحدثين والشافعي وكثيـر من الفقهاء وأصحاب الأصول ، وقال مالك وأبو حنيفة في طائفة : صحيح " . وقال النووي في الارشاد : " وقال مالك وأبو حنيفة رضي الله عنهما وأصحابهما وطائفة من العلماء : يُحتجّ به " التقريب والتيسير في معرفة سنن البشير النذير ص35.إرشاد طلاب الحقائق ص81.وقـال السخـاوي فـي فتح المغيث : " واحتجّ به الإمام مالك بن أنس في المشهور عنه وكذا الإمام أبو حنيفة النعمان بن ثابت وتابعهما المقلدون لهما ء والمراد الجمهور من الطائفتين بل وجماعة من المحدثين والإمام أحمد في رواية حكاها النووي وابن القيم وغيرهم بالمرسل ودانوا بمضمونه أي جعل كل واحد منهم ما هو عنده مرسل ديناً يدين به في الأحكام وغيرها "فتح المغيث شرح ألفية الحديث 1/139 وقال السيوطي : " وقال مالك في المشهور عنه وأبو حنيفة في طائفة منهم أحمد في المشهور عنه : صحيح "تدريب الراوي 1/198





اگر فقہ سے اختلاف وضد تھا تو فقہ شافعی ، فقہ مالکی ، فقہ حنبلی کے خلاف کیوں کچھ نہیں لکھا گیا ؟؟


اگراس کا جواب یہ ہے کہ فقہ حنفی (معاذالله ) قرآن وحدیث کے مخالف ہے اس لیئے اس کے عدوات ومخالفت کی گئ توپھر عرض یہ هےکہ آخرامت مسلمہ میں علماء وائمہ کا ایک ٹھاٹھیں مارتا هوا سمندر جوگذرا ہے توان علماء امت وائمہ اسلام نے امت مسلمہ کو یہ نصیحت کیوں نہیں کی کہ خبردار فقہ حنفی کے قریب نہ جانا کیونکہ وه (معاذالله ) قرآن وحدیث کے مخالف ہے ؟؟؟

آخرچوده سوسال کی تاریخ اسلام میں فقہ حنفی وعلماءاحناف کی مخالفت هندوستان سے صرف انگریزی دورمیں کیوں شروع هوئی ؟؟

پھراس فرقہ نے ابتداء میں یہ نعره لگایا کہ ہم صرف قرآن وحدیث پرعمل کرتے هیں اوراسی کی دعوت ہمارا مشن ہے ، لیکن درحقیقت اس فرقہ کے ہم نواوں نے ذخیره احادیث میں سے صرف چند احادیث پراپنے مذہب کی بنیاد رکھی یعنی وه احادیث مبارکہ جن میں ائمہ اربعہ ودیگرمجتہدین کا فروعی اختلاف ہے ، لہذا اس فرقہ نے اپنا سارا زور عمل بالحدیث کے خوبصورت عنوان کے ساتھ ان چند احادیث میں صرف کیا جیسے( فاتحہ خلف الامام ، آمین بالجهر والسر، رفع الیدین وعدم رفع الیدین، رکعات التراویح، تقلید الائمہ، وغیره ) مسائل کو موضوع بحث بلکہ مسائل مہمہ اساسیہ میں سے قرار دیا ، اوران چند مسائل کولے کرایک بڑی جدوجہد کے ساتھ احناف کے خلاف ایک محاذ کھول دیا ۔
=====================================
فقہ_دین (دین کی سمجھ):

القرآن:
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کی فقہ(سمجھ)پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ بچتے رہیں۔
[التوبہ :١٢٢]


الحدیث:
سعید بن عفیر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عنایت فرماتا ہے اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا تو اللہ ہی ہے (یاد رکھو کہ) یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی، جو شخص ان کا مخالف ہوگا ان کو نقصان پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 72, علم کا بیان :اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا [چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے]معلوم ہوا کے دین کی سمجھ حاصل کرنے کا حکم (فرضِ کفایہ) ہے، اور حکم ہوتا ہے مکلف(جسے کام کی تکلف دی جاتے) کو، اور اس پر عمل کی توفیق اسے ملتی ہے، جس پر الله تعالیٰ خیر(بھلائی) کا ارادہ فرماتا ہے.]


http://www.scribd.com/collections/2344670/FIQH


القرآن : ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ، (راہ سجھا دی) خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا [الدهر:٣]
For Download Book: 
تعارفِ فقہ = مکمل ٦ حصے:
١. فقہ کی شرعی اور لغوی معنی، ضرورت-و-فضائلِ فقہ وفقہاء
٢. تاریخ و تدوینِ فقہ
٣. اصولِ فقہ
٤. فقہاءِ کرام کے حالات
٥. فقہِ حنفی کی کتب کا تعارف
٦. فقہِ حنفی پر اعترضات کے جوابات





For Watching Video:

Gher-Muqalideen (urf Ahl_Hadees Nafsi) k in sb Dajaaliyat o Wasawis ka Moonh-Tor Jawaab Dekhiye:


دعوا اور دعوت"الله و رسول ہی کی مانو"مگرآپ صرف ایک حدیث ایسی لکھوائیں جس کو اللہ یا رسولﷺ نے صحیح، ضعیف یا من گھڑت فرمایا ہو؟ قیامت تک نہیں لاسکتے۔ پھر تم کسی حدیث کو صحیح، حسن، ضعیف، من گھڑت کس دلیل سے کہتے ہو؟ یقیناً اپنی رائے یا کسی امتی محدث کی رائے سے کہتے ہو۔ تو پھر جناب اہل الرائے ہوئے یا اہل الرائے کے مقلد ہوئے، اہل حدیث تو نہ ہوئے










محترم مولانا محمد ابو بکر صاحب غازیپوری دامت برکاتہم
السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ،
الحمد ﷲ و کفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی
گذارش خدمت میں یہ ہے کہ ریاض سعودی عرب سے ایک پمفلٹ مولانا انظر صاحب قاسمی بنگلور کے نام آیا ہے، اس پمفلٹ کو اور اس جیسے دوسرے پمفلٹ کو غیر مقلدین ریاض اور سعودی عرب کے دوسرے شہروں میں شائع کر کے عوام میں فتنہ پھیلاتے ہیں اور فقہ حنفی کے خلاف جذبات بھڑکاتے ہیں، مولانا انظر صاحب نے گذارش کی ہے کہ میں اس پمفلٹ کو آپ کے پاس بھیج دو آپ ان مسا ئل کے بارے میں روشنی ڈالیں تاکہ آپکاجو اب ریا ض بھیج دیا جائے نیز زمزم میں بھی شائع کر دیں تاکہ عام لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔
والسلام
سید محمود قادری بیجا پور
زمزم !
زمزم رسالہ میں اس کا اعلان کیا جا چکا ہے کہ بلا نام یا فرضی نام سے کسی شائع کردہ تحریر کا کوئی جواب نہیں دیا جائے گا،آپ نے جو پمفلٹ بھیجا ہے اس کا حال بھی یہی ہے کہ تحریر شائع کرنے والے کو یہ ہمت نہ ہو سکی کہ اپنا نام اور پورا پتہ ذکر کرتا،ایسی بے وزن اور غیر سنجیدہ تحریر کا کیا جواب دیا جائے۔
۲- اعتراض اگر برائے اعتراض ہو تو اس کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا، آپ جواب دیتے رہيں گے اور معترضین اعتراضات کرتے رہیں گے، پھر جواب دینے کا فائدہ کیا۔
۴ مسائل کے ساتھ اگر دلائل بھی مذکور ہوں تو مسائل پر اعتراض کرنا جہالت ہے، اہل علم دلائل کو دیکھتے ہیں، اگر کسی کو اعتراض ہی کرنا ہے تو وہ دلائل پر اعتراض کرے اور ان کی کمزوری کو واضح کرے، آج کل غیر مقلدین کا حال یہی ہے کہ چونکہ ان کا مقصد محض فتنہ انگیزی و شر انگیزی ہوتا ہے، اس وجہ سے وہ مسائل کے دلائل پر اعتراض نہیں کرتے صرف مسائل ذکر کر دیتے ہیں تاکہ عوام ان مسائل کی ظاہری شکل سے پریشان ہوں، آپ کے پمفلٹ کا حال بھی یہی ہے کہ عوام کو ورغلانے اور فقہ سے نفرت دلانے کےلئے ہدایہ سے چند مسائل ذکر کر دیئے، اور ان کی شکل گھنانی بنا کر دکھلائی ان مسائل کے دلائل پر اعتراض کرنے کی معترض کو ہمت نہ ہو سکی۔
۵ اگر مسائل کے ساتھ دلائل بھی مذکور ہوں تو صرف مسائل کو ذکر کرنا اور ان کے دلائل کو ذکر نہ کرنا خباثت نفس ہے، اور صریح خباثت ہے، موجودہ وقت کے غیر مقلدین افسوس اس قسم کی خباثتوں کا ارتکاب کر کے اپنی خباثت نفس کو ظاہر کرتے ہیں، اس پمفلٹ کا حال بھی یہی ہے کہ ہدایہ سے صرف مسئلوں کو ذکر کر دیا صاحب ہدایہ نے جو عقلی و نقلی دلائل ذکر کئے ہیں ان کا کسی مسئلہ کے ضمن میں اشارہ تک نہیں ہے۔
۶ اگر کسی کا مقصود محض فتنہ انگیزی نہ ہو اور وہ دین و دیانت سے بالکل محروم نہ ہو تو وہ کتاب کا پورا مسئلہ ذکر کرے گا، مسئلہ میں کاٹ چھانٹ نہیں کرے گا، آپ کے پمفلٹ والے کا حال یہ ہےکہ ہدایہ سے مسائل تو ذکر کرتا ہے مگر دیانت سے کام نہیں لیتا، خیانت کرتا ہے، اور پورا مسئلہ نقل نہیں کرتا، خیانت کے اس ارتکاب کی وجہ سے مسئلہ کی صحیح شکل سامنے نہیں آتی۔
۷ ان مسائل پر اعتراض کرنا جو خود غیر مقلدوں کی کتابوں میں مذکور ہیں حد درجہ کی جہالت ہے، پہلے غیر مقلدوں کو اپنے گھر کی خبر لینی چاہئے، اور اپنی کتابوں کو ان مسائل سے پاک و صاف کر لینا چاہئے جو فقہ اہلحدیث میں تالیف کی گئی ہیں۔
غیر مقلدوں کی جہالت و سفاہت کا عجیب حال ہے کہ جو مسئلے خو دان کی کتابوں میں مذکور ہیں اور جن کو وہ فقہ اہلحدیث کہتے ہیں وہی مسائل اگر فقہائے احناف کی کتابوں میںبھی مذکور ہوں تو ان پر بھی وہ اعتراض کرتے ہیں، احناف دشمنی میں ان کو اس کا بھی خیال نہیں رہتا کہ اس طرح وہ خود اپنے فقہ اہلحدیث کا بھی مذاق اڑاتے ہیں اور اپنی کتابوں سے جاہل ہونےکا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
۸ مسائل شرعیہ کا مذاق اڑانا اتنا بڑا دینی جرم ہے کہ اس سے ایمان جانے کا خطرہ ہے، غیر مقلدین چونکہ ایمان سے محروم ہیں اور ان کی مسلمانی محض نام کی ہے، اس وجہ سے وہ دینی و شرعی مسائل کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ اس بارے میں بہت بے باک ہو چکے ہیں۔
قرآن میں ہے نساءکم حرث لکم فاتو احرثکم انی شئتم اگر کوئی بد بخت اس آیت کا مذاق بنائے تو اس کا ایمان محفوظ نہیں رہے گا۔
حدیث میں ہے۔ آنحضور حالت صوم میں ازواج کا بوسہ لیتے تھے، اگر کوئی اس کا مذاق بنائے اور آنحضور کے اس فعل پر اعتراض کرے تو اس کا ایمان جاتا رہے گا۔
بیوی اگر حالت حیض میں ہو تو مباشرت فاحشہ کے علاوہ اس کے بدن کے ہر حصہ سے تلذذ حاصل کیا جا سکتا ہے، اس کا بیان احادیث میں ہے، اگر کوئی بدبخت عورت کے بدن کے ایک ایک حصہ کا نام لے کر نبوی تعلیمات و ہدایات کو مذاق بنائے تو اس کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے۔
غرض ایسے مسائل جن کا ذکر کتاب و سنت میں ہے اور انہی کی روشنی میں ان جیسے دوسرے مسائل کو بھی فقہاءنے اپنی کتابوں میں ذکر کر کے ان کا حکم کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کیا ہے، ان کا مذاق وہی شخص اڑائے گا جو ایمان کی دولت سے محروم ہے غیر مقلدین کا مسائل فقہیہ و شرعیہ کے ساتھ تمسخر اور مذاق اڑانے کا موجودہ انداز بتلا رہا ہے کہ وہ ایمان کی دولت سے محروم ہو چکے ہیں۔
۹ فقہ میں ان تمام مسائل سے گفتگو کی جاتی ہے جو انسان کی زندگی میں پیش آتے ہیں ، اور ان کا شرعی حکم بتلایا جاتا ہے، ان میں ایسے مسائل بھی ہوتے ہیں جن کا عام حالات میں زبان پر لانا اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر شرعی ضرورت کے تحت ان مسائل کا بھی ذکر فقہ کی کتابوں میں ہوتا ہے، اور فقہ اسلامی کی یہ عین خوبی ہے کہ وہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کو محیط ہوتا ہے اب جن کا نفس خبیث ہوتا ہے اور جن کی سرشت زبوں ہوتی ہے وہ اپنی خباثت نفس کا اظہار کرنے کے لئے فقہ کی کتابوں سے ان مسائل کو چن چن کر جمع کر کے شائع کرتے ہیں جن کا ذکر کرنا عام حالات میں مناسب نہیں ہوتا ہے اور جاہل لوگ اس طرح مسلمانوں میں فقہ کی دشمنی میں خود اسلام دشمنی اور شریعت دشمنی کا اظہار کرتے ہیں، یہ کہنا تو درست ہے کہ اﷲ ہر چیز کا خالق ہے مگر یہ کہنا کہ کیا وہ بندر کا بھی خالق ہے سور کا بھی خالق ہے، مکھی مچھر کا بھی خالق ہے اور اس کو مذاق بنا لینا قطعاً حرام ہے، ضرورتاً تو اس کا اظہار کیا جا سکتا ہے مگر مذاق کے طور پر اس طرح کی باتیں کرنا قطعاً جائز نہ ہو گا۔
۰ ۱ پمفلٹ میں جن مسائل کو بہت مکروہ سمجھ کر ہدایہ سے نقل کیا گیا ہے وہ اور اس طرح کے مسائل زمانہ نبوت و زمانہ خیرالقرون میں واقع اور پیش آ چکے ہیں اور ان کا ذکر خو دحدیث کی کتابوں میں ہے، صحابہ کرام میں سے بعض حضرات سے زنا کا صدور ہوا، آنحضور اکرم نے خود ان کا فیصلہ فرمایا، بعض عورتوں سے بھی زنا کا صدور ہوا، ان کا بھی فیصلہ حضور نے فرمایا۔ آنحضور کے زمانہ میں بعض، ہجڑے تھے ان کا ذکر اور ان کا حکم بھی احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آنحضور کے زمانہ میں ایسا بھی واقعہ پیش آیا کہ چوپایہ کے ساتھ کسی آدمی نے اپنی خواہش پوری کی آپ نے ایسے شخص کو حکم بیان فرمایا آنحضور کو اس کی اطلاع ملی کہ کچھ لوگ اپنی بیویوں سے پاخانہ کے راستہ میں خواہش پوری کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ وہ شخص ملعون ہے جو یہ کام کرے غرض اس کا بھی آپ نے حکم بیان فرمایا ہے خود حدیث میں اس کا ذکر ہے کہ آپ نے حالت حیض میں بیویوں سے مقام خاص کے علاوہ جگہوں پر مباشرت کرنےکی اجازت دی ہے، حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں اےک شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ لوگ وہ فعل کرتے ہیں جو عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے باقاعدہ صحابہ کرام کی جماعت کو بلایا اور مشورہ کیا، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس کو جلا کر مار ڈالا جائے۔
غرض اس طرح کے مسائل انسان کی زندگی میں پیش آتے ہیں، یہ نئے مسائل نہیں ہیں کہ فقہ کی کتابوں میں ان کا ذکر بطور تفریح کر دیا گیا ہے، جب سے انسان پیدا ہوا ان جیسے مسائل سے اس کو سابقہ پیش آتا رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہ کی کتابوں میں ان تمام مسائل کے کتاب و سنت ہی کی روشنی میں شرعی حکم بیان کیا گیا ہے، اب اگر کوئی ان کا استہزا کرتا ہے تو وہ فی الاصل شریعت اسلامیہ پر حملہ آور ہوتا ہے اور فقہ اسلامی کی جامعیت پر طعنہ زن ہے۔ یہ علم کی بات نہیں ہے بے علمی اور جہالت کی بات ہے۔
آپ نے جو پمفلٹ بھیجا ہے اس کا ہرگز جواب نہیں دیتا، اس وجہ سے کہ وہ بلا نام یا فرضی نام سے ہے دوسرے یہ کہ اس میں شریعت اسلامیہ کا بھر پور مذاق اڑایا گیا ہے، تیسرے یہ کہ پمفلٹ والے نے خیانت سے کام لے کر کئی مسئلوں میں پورا مسئلہ نہیں ذکر کیا ہے چوتھے یہ ہے کہ اس نے مسا ئل پر اعترا ض کئے ہیں دلا ئل کی روشنی پر نہیں، پانچویں یہ کہ سارے مسائل کچھ مزید زیادتی کے ساتھ خود غیر مقلدین علماءکی کتابوں میں موجود ہیں تو پھر فقہ حنفیہ پر اعتراض کیا معنی رکھتا ہے، یہ مسائل اگر ان کی کتابوں میں ہوں تو فقہ اہلحدیث کے مسائل کہلائیں اور قابل تعریف پائیں اور اگر ان کا ذکر حنفی کتابوں میں ہو تو وہ قابل اعتراض و استہزا ہوں کیا یہ عقلمندوں کی بات ہے؟
مگر میں جواب اس کا اس لئے دے رہا ہوں کہ جواب نہ دینے کی شکل میں مخلصین میں سے کئی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی جس کی بازگشت سعودیہ میں بھی سنائی دے گی یہ پمفلٹ سعودیہ سے آیا ہے اس وجہ سے ہمیں اپنے ریاض اور سعودیہ میں رہنے والے ہندوستانی و پاکستانی مخلصین کے جذبات کی بھی رعایت کرنی ہے۔
۱ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی نے حالت روزہ میں مشت زنی کی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا اس مسئلہ کو کتابچہ والے نے صاحب ہدایہ کی یہ عبارت نقل کر کے کالمستمنی بالکف علی ما قالوا اس طرح ذکر کیا ہے۔ یعنی مشت زنی کرنے والے کا روزہ نہیں ٹوٹتا حنفی فقہاءنے یہی کہا ہے گو روزہ کی حالت میں یہ کام کیا ہو۔
اس مسئلہ میں معترض نے جہالت و خیانت کے کئی گل کھلائے ہیں، پہلے تو اس نے علی ما قالوا کا ترجمہ چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ صاحب ہدایہ کی یہ عبارت بتلا رہی ہے کہ صاحب ہدایہ کے نزدیک مسئلہ اس طرح نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک حالت روزہ میں یہ کام روزہ کو باطل کرنے والا ہے۔ صاحب ہدایہ نے بعض دوسرے فقہاءکی یہ بات نقل کی ہے، خو داپنا اور حنفی مذہب کا مختار اور مفتی بہ مسئلہ نہیں بیان کیا ہے، ہدایہ کے حاشیہ میں خود اس پر حاشیہ لگا کر کے مسئلہ صاف کر دیا ہے، حاشیہ میں علی ماقالوا پر حاشیہ لگا کر لکھا ہے۔
عادتہ فی مثلہ افادة الضعف مع الخلاف و عامة المشائخ علی ان الا ستمتاعءمفطر و قال المصنف فی التجنیس انہ المختار۔
یعنی صاحب ہدایہ جہاں اس طرح کی عبارت لکھتے ہیں تو ان کا مقصد یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ ضعیف قول ہے اور عام مشائخ احناف کا مسلک یہ ہے کہ منی نکالنا روزہ کو باطل کر دیتا ہے، تجنیس میں اسی قول کو مختار بتلایا ہے۔
آپ بتلائیں کہ اس مسئلہ میں فقہ حنفی اور علماءاحناف کی اس وضاحت کے بعد بھی اس میں کسی اعتراض کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ اندازہ لگایئے کہ غیر مقلدین کس طرح فتنہ جگا رہے ہیں اور فقہ حنفی اور فقہاءاحناف کی دشمنی میں وہ انسانیت سے کتنے دور ہو چکے ہیں، علم و دیانت سے تہی دامنی ان کا مقدر بن چکی ہے۔
اور پھرغیر مقلدین کو کس طرح جرات ہوئی کہ وہ صاحب ہدایہ پر اس مسئلہ کو لے کر اعتراض کریں، اور فقہ حنفی اور فقہائے احناف کا مذاق اڑائیں، کیا ان کو اپنے گھر کی خبر نہیں کہ فقہ اہلحدیث کا کیا مذہب ہے۔
عرف الجادی میں نواب صاحب فرماتے ہیں :
وبالجملہ استنزال منی بکف یا بچیزے از جمادات نزد دعائے حاجت مباح ست .... ....بلکہ گاہے واجب گردو.... ....در مثل ایں کار حرجے نیست بلکہ ہمچواستخراج دیگر فضلات موذیہ بدن است ۷ ۰ ۲
یعنی حاصل کلام یہ ہے کہ ہاتھ سے یا کسی اور جماداتی چیز سی منی نکالنے میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ کبھی یہ عمل واجب ہو جاتا ہے.... اس طرح کا کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے: منی نکالنا اسی طرح کا عمل ہے جیسے بدن کے دوسرے تکلیف دہ فضلات کا خارج کرنا۔
منی نکالنے کے بارے میں جس کے گھر کا یہ مسئلہ ہو وہ بیچارہ فقہ حنفی پر اعتراض کرے۔
۲ کتابچہ کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہدایہ میں ہے پاخانہ کی جگہ میں وطی کرنے سے روزہ کا کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے۔ پمفلٹ والے صاحب لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کا یہی فتویٰ ہے :
پمفلٹ والے اس غیر مقلد نے اس مسئلہ میں بھی اپنی جہالت کا پورا ثبوت دیا ہے عن ابی حنیفہ کا وہ ترجمہ کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کا فتوی یہی ہے۔ اس جہالت کا کوئی ٹھکانہ ہے، جو لوگ فقہ کی کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں، وہ تو اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ سے ایک روایت یہ بھی ہے نہ کہ امام ابو حنیفہ کا یہی فتوی ہے اس علم کے بل بوتے پر فقہ حنفی پر اعتراض کا شوق ہو گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پمفلٹ والے نے زبردست خیانت سے کام لیا ہے اور جو اصل مسئلہ ہے اس کو ذکر نہیں کیا جب کہ پورا مسئلہ اسی ہدایہ کی اسی سطر میں مذکور ہے اور اس میں صاف صاف لکھا ہے۔والاصح انھا تجبیعنی صحیح تر بات یہ ہے کہ کفارہ واجب ہو گا، اس اندھے کو یہ نظر نہیں آیا کہ جو امام ابو حنیفہ کی صحیح تر روایت اور فقہ حنفی کا اصل مسئلہ ہے، اور عن ابی حنیفة انہ لایجب الکفارة نظر آ گیا ۔
جب یہ غیر مقلدین اس طرح کی خیانتوں پر اتر آئیں تو ان کا جواب آپ کہاں کہاں دیتے پھریں گے۔
عینی میں صاف صاف لکھا ہے کہ مغنی میں جو امام ابو حنیفہ سے اس بارے میں مشہور روایت کہہ کر ذکر کیا گیا ہے صحیح نہیں امام ابو حنیفہ کی صحیح ترین روایت وہی ہے کہ اس صورت میں کفارہ واجب ہو گا -ج۳ص۰ ۷ ۲
اب ذرہ غیر مقلدین اپنے گھر کا بھی مسئلہ سن لیں، فقہ اہلحدیث والی کتاب نزل الابرار میں لکھا ہے :
وان جامع المسافر عمدا فی سفرہ و ھو صائم اوجا مع فی غیر الفرج و انزل لذمہ القضہاءفقط۔فصل فی الکفارة ص ۱ ۳ ۲
یعنی اگر مسافر جو روزہ سے ہو اور جان بوجھ کر بھی جماع کرے تو اس پر صرف قضا واجب ہو گی کفارہ واجب نہیں ہوگا، اسی طرح جو آدمی عورت کی شرمگاہ کے علاوہ میں جماع کرے (خواہ وہ بدن کا کوئی حصہ ہو) تو اس پر بھی صرف قضا لازم آئے گی کفارہ نہیں ہے۔
جن کے گھر کا یہ مسئلہ ہو وہ فقہ حنفی پر اعتراض کریں یہ خباثت نفس اور شرارت نفس اور فتنہ انگیزی نہیں تو اور کیا ہے۔
۳ تیسرا مسئلہ یہ ذکر کیا ہی کہ مردہ عورت سے یا چوپائے سے بدفعلی کرنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا، انزال ہو تب بھی اور نہ ہو تب بھی۔
اس بیجارے کو اس مسئلہ میں اپنے گھر کی بھی خبر نہیں کہ فقہ اہلحدیث میں کیا لکھا ہے نزل الابرار میں لکھا ہے
وکذالک لا کفارة علی من جامع بھیمة او میتتہ اوصبیا اور صغیرة۔ص۱ ۳ ۳
یعنی اس پر روزہ کا کفارہ نہیں ہے جو کسی چوپایہ سے جماع کرے یا کسی مردہ عورت سے جماع کرے، یا بچے سے جماع کرے یا چھوٹی لڑکی سے جماع کرے۔
ہدایہ میں جو مسئلہ ذکر کیا ہے اس کے ساتھ صاحب ہدایہ نے دلیل بھی ذکر کی ہے اور فقہ اہلحدیث میں بلا دلیل ہی مسئلہ مذکور ہے، اس کے باوجود فقہ حنفی پر اعتراض اور اپنی فقہ اہلحدیث پر پھولوں کی بارش۔
فقہائے احناف کے یہاں کفارہ واجب اس شکل میں ہوتا ہے کہ جب جنایت اپنے حقیقی معنی اور حقیقی صورت کے ساتھ پائی جائے، غیر مقلد معترض بتلائے کہ صورت مذکورہ میں جنابت کا حقیقی معنی اور حقیقی صورت کا وجود ہے یا پھر وہ حدیث پیش کرے یا قرآن کی آیت جس سے ہدایہ کا یہ مسئلہ غلط ثابت ہو۔
۴ ایک مسئلہ یہ ذکر کیا ہے کہ ہدایہ میں ہے کہ شرمگاہ کے علاوہ میں اگر کسی نے جماع کیا تو اس پر کفارہ نہیں ہے۔
اوجامع فی غیر الفرج و انزل لزمہ القضاءفقط- ص۱ ۳ ۲
یعنی کسی نے شرمگاہ کے علاوہ میں جماع کیا تو صرف قضا واجب ہو گی کفارہ نہیں اگرچہ انزال ہو جائے۔
اوپر بتلایا جا چکا ہے کہ جماع کا معنی جب معنی و صورة کامل طور پر متحقق ہو گا تب ہی کفارہ واجب ہو گا، غیر مقلد معترض بتلائے کہ صورت مذکورہ میں جماع کا معنی صورة و معنی کامل طور پر متحقق ہے، غیر مقلد معترض کے لئے بہتر یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے اس مسئلہ کو غلط ثابت کرے۔ ان بیچاروں کو اس کا بھی پتہ نہیں ہے کہ جس طرح شبہات سے حددود مرتفع ہو جاتے ہیں اسی طرح شبہات سے کفارہ بھی، مندفع ہو جاتا ہے، کفارہ اس وقت واجب ہو گا جب جنایت کے صورة و معنی واقع ہونے میں ادنی شبہ نہ ہو، اگر ادنی شبہ بھی پایا جائے گا تو کفارہ واجب نہ ہو گا۔
۵ ایک مسئلہ یہ ذکر کیاہے کہ محرمات سے نکاح اگر کوئی کرے اور اس سے وطی بھی کرے تو اس پر حد زنا لاگو نہیں ہو گی۔ ہدایہ میں ایسا ہی لکھا ہے۔
پمفلٹ والے نے یہاں بھی سخت خیانت سے کام لیا ہے، اس نے یہ نہیں بتلایا ہے کہ احناف کے یہاں یہ فعل سخت گناہ اور حرام اور بہت بڑا جرم ہے، خود صاحب ہدایہ نے اس مسئلہ میں اسی سطر میں یہ بھی لکھا ہے۔لکنہ یوجب عقوبةیعنی اس کو اس جرم میں سخت ترین سزا دی جائے گی۔
زنا پر شرعی حد اسی وقت واجب ہو گی جب زنا کا شرعی و اصطلاحی معنی پایا جائے گا، زنا کے وجود میں ذرا بھی شبہ ہوا تو پھر خواہ وہ فعل حرام ہو اور شرعی جرم قرار پائے مگر اس پر حد زنا نہیں لاگو کی جائے گی، اﷲ کے رسول کا ارشاد ہے کہ شبہات کی وجہ سے حدود کو رفع کرو، ہاں اس کو امام وقت سخت ترین سزا دے گا حتی کہ وہ اس کو اس جرم میں قتل بھی کر سکتا ہے۔
احناف نے حد والی سزا ایسے شخص پر اس لئے نافذ نہیں کی کہ حدیث کا حکم یہی ہے کہ حدود کو شبہات پیدا ہونے کی وجہ سے رفع کرو، خواہ زنا کے ثبوت میںشبہ ہو خواہ زنا کے معنی پائے جانے میں شبہ ہو۔بہر حال شبہات کی وجہ سے حدودی سزا نہیں لاگو کی جائے گی۔ زنا اس فعل کو کہتے ہیں جو بلا کسی عقد کسی عورت سے مباشرة فاحشہ کی شکل میں ظہور پذیر ہو، صورت مذکورہ میں محرمہ عورت سے نکاح ہوا ہے، اگرچہ یہ فعل حرام ہے مگر زنا کے معنی میں شبہ پیدا ہو گیا ہے اس وجہ سے حدوالی سزا ایسے شخص پر نافذ نہیں کی جائے گی ہاں چونکہ یہ فعل حرام ہے اور بہت برا جرم ہے تو اس لئے امام وقت ایسے شخص کو بخشے گا بھی نہیں بلکہ اس کو سخت سے سخت سزا دے گا، حتی کہ اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔
فقہ حنفی کا یہ مسئلہ آنحضور اکرم  اور صحابہ کرام کے افعال سے ماخوذ ہے، یہ احناف کے گھر کا گھڑا ہوا مسئلہ نہیں ہے۔
حضرت براءبن عاذب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میرے ماموں کہیں جا رہے ہیں، میں نے ان سے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے اپنی باپ کی منکوحہ سے نکاح کر لیا ہے، آنحضور نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کو قتل کر آں اور اس کا مال لے لوں۔
اگر محرمات سے نکاح کرنا زنا ہوتا یعنی زنا شرعی تو آنحضوراس پر زنا کی جو شرعی حد ہے وہ جاری کرتے، مگر جب آپ نے ایسے شخص پر زنا کی حد جاری نہیں کی تو معلوم ہوا کہ زنا شرعی بھی نہیں ہے، اگرچہ بہت بڑا گناہ ہے۔
مصنف عبدالرزاق میں ہے۔عن ابن عباس من اتٰی ذات محرم فاقتلوہ یعنی حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جو شخص محرم عورت سے (نکاح کرے اور اس سے) جماع کرے تو اس کو قتل کر دو (ص۵ ۶ ۳ ج۷) ابن ماجہ میں یہ روایت حضرت ابن عباس سے مرفوعاً منقول ہے، اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے۔
غرض احناف کا یہ مسئلہ کتاب و سنت کی روشنی میں ہے،
اور اس پر غیر مقلدوں کا اعتراض بلا وجہ محض جہالت ہے۔
ہر باطل نکاح کو زنا شرعی نہیں کہا جاتا اور نہ ہر باطل نکاح پر حد واجب ہوتی ہے، اﷲ کے رسول کا ارشاد ہے، جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، یہ بالکل صحیح حدیث ہے ایسے نکاح کو آپ نے تین دفعہ باطل کہکر اس کے بالکل باطل ہونے پر مہر لگا دی، مگر کسی کا یہ مذہب نہیں ہے کہ اگر کوئی عورت اس طرح کا نکاح کرے تو اس پر حد زنا لاگو کی جائے گی۔ حدزنا وہی واجب ہو گی جہاں زنا کا کامل معنی پایا جائے گا اور اس کے زنا ہونے میں کسی طرح کا کوئی شبہ نہ ہو گا۔
امام ابو حنیفہ رحمة اﷲ علیہ کی فقہی بصیرت کا یہی کمال ہے کہ ان کے سامنے شرعی مسئلہ کے تمام پہلو ہوتے ہیں اور اس بارے میں کتاب اللہ سنت رسول اللہ اور صحابہ کرام کے فیصلے یہ سب چیزیں ان کے سامنے ہوتی ہیں پھر وہ ایک فیصلہ فرماتے ہیں، اب جن کے علم و خرد کی رسائی وہاں تک نہیں ہو پاتی انہیں تو اعتراض سوجھتا ہے مگر ماہرین کتاب و سنت اور ائمہ شریعت امام ابو حنفیہ کے مدارک اجتہاد کے سامنے اپنا سر جھکا دیتے ہیں ،خواہ مسائل میں ان سے اتفاق ہو یا اختلاف ،ہمیں پھر یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ غیر مقلدین خود اپنی کتابوں سے ناواقف اور جاہل ہیں ،ان کی فقہ اہلحدیث والی کتابوں میں بھی یہی لکھا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنے محرم سے نکاح کرے اور اس سے وطی کرے اس کی سزا یہ بھی ہے کہ اس کو امام تعزیر کرے گا اور اسے تعزیرً اقتل کر دے گا۔  نزل الابرارص ۸ ۹ ۲،کنز الحقائق ص ۲ ۰ ۱
اگر یہ فعل زنا حقیقی و شرعی ہوتا تو پھر اس پر صرف حد جاری کی جاتی ،حد کی متعین شکل ہے یا کوڑے مارنا یا رجم کرنا قتل کی سزا دینا حد شرعی نہیں ہے ،معلوم ہوا کہ غیر مقلد علما، بھی محرم کے ساتھ نکاح کو زنا شرعی نہیں سمجھتے ورنہ ایسے مجرم کی سزا ان کے یہاں صرف حد ہوتی قتل کرنا نہیں۔
چونکہ اس مسئلہ کو غیر مقلدین بہت اچھا لتے ہیں اس وجہ سے میں نے ذرا تفصیل سے کلام کیا تا کہ غیر مقلدوں کی جہالت واضح ہو جائے ۔
ناظرین یاد رکھیں چونکہ یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اس وجہ سے احناف کی کتابوں میں حالات و زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے یہ بھی مذکو ر ہے کہ فتویٰ صاجین کے قول پر ہے یعنی ایسے شخص کو زنا کامر تکب قرار دیا جائے گا اور اس پر حد زنا ہی لگائی جائے گی۔ عینی میں صاف لکھا ہے ۔لکن فی الخلاصة قال الفتویٰ علی قولھما ۔( ۹ ۴ ۲ج۵) یعنی خلاصہ میں مذکور ہے کہ فتویٰ صاجین کے قول پر ہے ۔
پمفلٹ والے نے فقہ حنفی سے عوام کو برگشتہ کرنے کے لئے پمفلٹ تو لکھ مارا مگر اسے اس کا پتہ ہی نہیں چل سکا کہ احناف کے یہاں مفتی بہ قول کون ہے ،مفتی بہ قول کو چھوڑ کر غیر مفتی بہ قول کو ذکر کرنا جاہلانہ حرکت ہے۔
۶ ایک مسئلہ یہ ذکر کیا ہے کہ ہدایہ میں ہے کہ جو شخص کسی عورت سے پاخانہ کی جگہ میں وطی کرے یا قوم لوط والا عمل کرے تو اس پر حد نہیں ہے۔
اس مسئلہ کے نقل کرنے میں بھی سخت خیانت کی ہے اس لئے کہ فلاحد علیہ عندابی حنفیہ کے بعد بھی ہدایہ ہے کہ ویعزر یعنی اس کو سزا دی جائے گی یہ لفظ بالکل اسی سطر میں اور اسی جگہ ہے مگر پمفلٹ والے غیر مقلد صاحب نے یہ لفظ چھوڑ کر کے اپنا ایمان برباد کیا۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ عمل حد والی سزا کا ہوتا تو آپسے حد والی سزا منقول ہوتی مگر، آپ  کا تو ارشا یہ منقول ہےاقتلو الفاعل والمفعول بہ یعنی جو ایسا کام کرے فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو، کیا اس سزا کو حد کہیں گے، یا اس کا تعلق تعزیر سے ہے یعنی اس سزا سے ہے جو امام اور حاکم وقت کی رائے پر محمول ہے؟ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کی رائے اس بارے میں الگ الگ رہی ہے کوئی کہتا ہے کہ اس کو جلا دیا جائے، کوئی کہتا ہے کہ اس کے اوپر دیوار گرا دی جائے گی، کوئی کہتا ہے کہ ایسے شخص کو اونچی جگہ سے نیچے گراکر اس پر پتھر برسایا جائے گا، غرض کہ زنا والی حد اگر متعین ہوتی تو صحابہ کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف نہ ہوتا اور آنحضور سے بھی قتل وغیرہ کا حکم منقول نہ ہوتا۔ اسلئیے کہ زنا کی حد تو شریعت میںمتعین شکل ہے، اس وجہ سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ نے آنحضورکے ارشادات اور صحابہ کرام کے فتووں کی روشنی میں یہ فرمایا کہ اگر اس جرم کا کوئی مرتکب ہوتا ہے تو اس کے بارے میں حاکم وقت فیصلہ کرے گا کہ اس کو کون سی سزا دی جائے حد کی سزا نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو معاف کر دیا جائے گا۔
غیر مقلدین کو فقہ احناف کا پورا مسئلہ ہی معلوم نہیں یا معلوم ہے مگر فتنہ انگیزی چونکہ ان کا مقصود ہے اس وجہ سے پورا مسئلہ ذکر نہیں کرتے۔ عینی میں لکھا ہے۔
ولکنة یعذرو یسجن حتی یموت او یتوب ولو اعتاد اللوا طة قتلہ الا مام
یعنی ایسے کام کرنے والے کو سزا دی جائے گی اور اسے تازندگی قید میں رکھا جائے گا الا یہ کہ وہ توبہ کر لے اور اگر وہ فعل کا عادی ہے تو امام اس کو قتل کر دے گا۔
یہ ہے اس مسئلہ میں فقہ حنفی کا پورا مسئلہ مگر پمفلٹ والے نے خیانت کر کے اس کو نہایت مکروہ شکل میں پیش کیا ہے، دین و دیانت کے اپنے اس کردار و مظاہرہ پر غیر مقلدین ثواب دارین کی امید رکھتے ہیں۔
۷ ایک مسئلہ یہ بھی ذکر کیا ہےکہ ہدایہ میں ہے کہ جو چوپایہ سے وطی کرے اس اور پر حد نہیں ہے۔
تو کیا غیر مقلدین کے مذہب میں اس پر حد ہے؟ ذرا وہ اپنی کتابوں سے ایسے شخص پر حد کی سزا دکھلاویں۔ نزل الابرار میں لکھا ہے۔ویعزر من نکح بھیمة و یجوز للامام ان یقتلہ۔یعنی جو چوپایہ سے وطی کرے امام اس کی تعزیر کرے گا۔ اور اس کو قتل بھی کر سکتا ہے، اور یہی بات کنز الحقائق میں لکھی ہے، تو پھر ہدایہ اور آپ کی کتابوں کا مسئلہ الگ الگ ہوا یا ایک؟
اچھا ذرا غیر مقلدین وہ حدیث تو پیش کر دیں یا قرآن کی کوئی آیت جس سے ہدایہ کے مسئلہ کا غلط ہونا ثابت ہو۔
یہاں بھی پمفلٹ والے غیر مقلد نے خیانت سے کام لیا ہے اور ہدایہ کا پورا مسئلہ نہیں بیان کیا ہے، پورا مسئلہ یہ ہے الا انہ یعزر یعنی اس کی تعزیر ہو گی یعنی امام اپنی صواب دید سے جو مناسب سمجھے گا اس کو سزا دے گا۔
حضرت امام ابو حنیفہ جو فرماتے ہیں اور ہدایہ کا جو مسئلہ ہے وہی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے۔ مصنف عبدالرزاق میں ہے۔
عن ابن عباس فی الذی یقع علی البھیمة قال لیس علیہ الحد  ۰ ۶ ۶ ۲ ج۷) یعنی حضرت عبداﷲ بن عباس کا فتوی یہ تھا کہ جو شخص جانوروں سے بد فعلی کرے اس پر حد نہیں ہے۔
غیر مقلدوں کے پاس اتنی عقل ہی نہیں کہ ان کو یہ سمجھایا جائے کہ زنا شرعی کس کو کہا جاتا ہے اور حد شرعی کب واجب ہوتی ہے۔ اس کےلئے فقہی بصیرت کی ضرورت ہے اور غیر مقلدین کو یہ دولت گرا نما یہ حاصل نہیں اس وجہ سے میںصرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ اگر امام ابو حنیفہ نے اپنے فتوی کی بنیاد حضرت عبداﷲ بن عباس کے فتوی پر رکھی ہے تو غیر مقلدوں کو اعتراض کیوں ہے، کیا صحابی کے فتوی کی روشنی میں فتوی دینا حرام ہے؟ یا وہ اتنے بد دین ہو گئے ہیں کہ صحابی رسول کے فتوی کا بھی مذاق اڑائیں گے؟
اس مسئلہ میں حضرت عطاءسے پوچھا گیا کہ اگر کوئی جانور سے بد فعلی کرے تو اس کا کیا حکم ہے، تو انہوں نے فرمایا، اﷲ تو بھولنے والا نہیں ہے اگر اس بارے میں شریعت کی متعین سزا ہوتی تو اﷲ اس کو نازل کرتا، البتہ یہ فعل ہے بہت برا تو جو برا ہے اس کو برا سمجھو،
مصنف ص۶ ۶ ۳ ج۷
دیکھئے حضرت عطاءجیسا جلیل القدر تابعی بھی یہی کہتا ہے کہ اس بارے میں کوئی حد شرعی نہیں ہے، چونکہ یہ عمل قبیح ہے اس لئے اس کا معاملہ امام کی صواب دید پر ہو گا وہ جیسی چاہے سزا دے، اسی کو تعزیر کہتے ہیں اور اسی کا بیان ہدایہ میں بھی ہے۔
آنحضورکا ارشاد بھی جو اس بارے میں منقول ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو حد شرعی زنا والی سزا نہیں جاری کی جائے گی، آپ نے فرمایا کہ چوپایہ اور چوپایہ کے ساتھ جو فعل کرے دونوں کو قتل کر دو۔ مصنف ج۷ ص۴ ۶ ۲
غرض امام ابو حنیفہ کا اس مسئلہ میں جو فتوی ہے وہ پوری طرح عقل و نقل کی روشنی میں ہے، اور امام کی بے پناہ فقہی بصیرت کو اجاگر کرنے والا ہے، ہاں البتہ ان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا جن کا مقصد محض اعتراض ہو اور جو علم اور بصیرت سے محروم ہوں۔
۸ ایک مسئلہ میں پمفلٹ میں یہ ذکر کیا ہے کہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنی خوشی اور رضا مندی سے کسی بے وقوف یا بچے سے زنا کرائے تو نہ بیوقوف اور بچے پر حد ہے اور نہ عورت پر۔
اس مسئلہ پمفلٹ والے غیر مقلد صاحب نے ایک خیانت تو یہ کی ہے کہ ہدایہ میں مجنون کا لفظ ہے، اس کے معنی پاگل کے ہیں اس کا ترجمہ انہوں نے بیوقوف کیا ہے، معلوم نہیں مجنون کا ترجمہ بے وقوف کس لغت میں ہے، یا غیر مقلدوں کے یہاں مجنون کا ترجمہ بے وقوف ہوتا ہے۔؟ واﷲ اعلم بالصواب۔
اس مسئلہ پر اعتراض بھی غیر مقلدوں کی دانشمندی کی انتہا ہے، کیا پاگل اور بچے پر بھی شرعی احکام کا اجراءہوتا ہے؟ حدیث میں ہے کہ بچوں اور پاگلوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے کسی امام اور کسی محدث کے نزدیک بچے اور پاگل احکام شرعیہ کے مخاطب نہیں ہیں کہ ان پر حدود شرعیہ جاری ہوں، تو پھر اعتراض کیا؟ عورت پر اس لئے حد نہیں ہے کہ جنایت کاملہ جو حد کو واجب کرے نہیں پائی گئی اور زنا کا معنی پورے طور پر متحقق نہیں ہوا،پس بحکم حدیث شریف حدود کو شبہات سے دفع کرو، اس عورت پر بھی حد نہیں لگائی جائے گی، البتہ اس کو تعزیر کی جائےگی۔
براہ کرم غیر مقلدین وہ حدیث پیش کریں جس سے معلوم ہو کہ جس عورت کے ساتھ کوئی پاگل یا بچہ زنا کرے اس پر حد شرعی لگائی جائے گی؟ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے اور یقینا نہیں کر سکتے تو پھر فقہ حنفی اور ہدایہ کتاب کے خلاف یہ شورو ہنگامہ کیوں؟
غیر مقلدین کو غالباً اس کا بڑا شوق رہتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت پر حدود موقع بموقع ضرور نافذ کئے جائیں، حالانکہ رسول اکرم  کا ارشاد ہے کہ جہاں تک ہو سکے حدود کو دفع کرو، اور یہی وجہ ہے کہ ادنی شبہ سے بھی حدود مندفع ہو جاتے ہیں، احادیث کی روشنی میں امام ابو حنیفہ اس کا پورا لحاظ رکھتے ہیں کہ شرعی حدود سے جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو محفوظ رکھا جائے، رسول اکرم  کا یہی طریقہ تھا، اور مسلمانوں کےلئے آپ کی یہی تعلیم تھی، آنحضورکے ان ارشادات کو ملاحظہ فرمایا جائے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضورکا ارشاد ہے کہ مسلمانوں سے جہاں تک ہو سکے حدود کو دفع کرو، ذرا بھی اس کا راستہ پاتو درگذر کرو، پھر آپ نے فرمایا کہ حاکم معاف کرنے میں غلطی کرے یہ زیادہ بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرے۔
حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ حدود کو دفع کرو، حضرت ابوہریرہ ؓکی روایت ہے کہ آنحضورنے فرمایا کہ جہاں تک ہو سکے حدود کو دفع کرو، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ذرا بھی گنجائش دیکھو تو حدود کو دفع کرو، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضرت علی اور حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہما کا ارشاد اور مسلمانوں کو تاکید تھی کہ مسلمانوں سے قتل کو جہاں تک ہو سکے دفع کرو۔
حضرت ماعزؓ آپ کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ مجھ سے زنا کا صدور ہو گیا ہے۔ آپ نے منہ پھیر لیا پھر انہوں نے کہا پھر آپنے منہ پھیر لیا، پھر انہوں نے کہا، پھر آپنے منہ پھیر لیا، چوتھی دفعہ جب انہوں نے کہا تو آپنے فرمایا کہ تم نے بوسہ لیا ہو گا،تم نے چھوا ہو گا، غرض آپنے حضرت ماعزؓپر حد جاری کرنے سے حتی الامکان پرہیز کیا اور جب حضرت ماعزؓکا اصرار بہت بڑھ گیا تب آپ نے ان پر حد نافذ کرنے کا حکم دیا۔
آپ کے اس عمل سے معلوم ہوا کہ حدود کا جاری اور نافذ کرنا حالت مجبوری کی بات ہے ورنہ حتی الامکان حدود کو دفع ہی کیا جائے گا۔
فقہ حنفی میں اس کا بہت لحاظ رکھا گیا ہے، مگر فقہ حنفی کا یہی امتیاز اور ہنر اور احادیث کی روشنی میں احکام شرعیہ کا بیان غیر مقلدین کو برا لگا۔ اور انہوں نے حضرت  کے قول و عمل کو بالکل نظر انداز کر دیا اور فقہ حنفی کے خلاف اپنے دل کا بخار نکالا۔ فالی اﷲ المشتکی۔







فقہ حنفی کی معروف کتاب درمختار
پر اعتراضات کا محققانہ جواب
اﷲ تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائىں۔ بعض اوقات اپنی فہم کے ناقص ہونے کی وجہ سے اعتراض پیدا ہوا ہے۔ اس میں کتاب یا صاحب کتاب کا قصور نہیں ہوتا جب تک کسی فن میں مہارت نہ ہو۔ اس وقت تک اس فن کی غلطی نکالنا اپنی کوتاہ فہمی پر شہادت دینا ہے، پھر جو کسی فن سے دشمنی رکھنے والا ہو اس کی نکالی ہوئی غلطی ذہنی بغض کی عکاس ہوتی ہے ۔ عربی کا اىک شاعر کہتا ہے
عین الرضا عن کل عیب کلیلة
ولکن عین السخط تبدی السماویا
یعنی رضا مندی کی نظر ہر عیب کے ادراک سے کمزور ہوتی ہے،لیکن ناراضگی کی نظر تمام برائیوں کو ظاہر کر دیتی ہے
لیکن يہاں معاملہ اس سے بھی بڑھ کر دہے کہ فقہ دشمنی کی وجہ سے نظرخوبیوں کو بھی عیب بنا رہی ہے۔ سوامی دیانند نے قران پاک پر159 اعتراضات کئے تھے۔ مولوی ثناءاﷲ امرتسری فرماتے ہیں:.... ” اس بات کا اظہار کچھ ضروری نہیں کہ سوامی جی کے سوالات عموما غلطی فہمی پر مبنی ہیں اسلئے کہ حق کو قبول کرنے سے ہمیشہ غلط فہمی ہی مانع ہوا کرتی ہے “ (حق پر کاش ص2) نیز فرماتے ہیں کہ :.... ” ہم نے اس جواب میں کسی سماجی مصنف کو مخاطب نہیں کیا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جس قدر اسلام سے دوری ہوئی ہے وہ صرف سوامی دیانند کی غلطی فہمی سے ہوئی ہے“ (حق پرکاش، ص 3) تو جس طرح قرآن دشمنی اور غلط فہمی نے قرآن پر اعتراضات کی راہ کھول دی ہے اگر فقہ دشمنی فقہ پر اعتراضات کر دے تو کوئی عجیب بات نہیں۔
مسئلہ نمبر1
لاعند وطی بھیمة ۔ یعنی جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے سے نہ غسل لازم آتاہے اور نہ وضو ٹوٹتا ہے جب تک انزال نہ ہو(تحفہ حنفیہ ،ج 1ص425) اس مسئلہ کے ثبوت کےلئے داود ارشد صاحب نے درمختار ص166ج1، بحراالرائق ص59ج1، مظاہر حق ص150ج1، اور حلبی کبیر ص42 کا حوالہ دے کر اس کا حنفیہ کے ہاں متفق علیہ اور مفتیٰ بہ ہونا ظاہر کیا ہے ۔(تحفہ حنفیہ ص426)اور پھر اس کو حیا سوز کہاہے۔(تحفہ حنفیہ ص425) نیز لکھا ہے کہ کیا خوب ہے کہ چار پائے سے بدفعلی کی کس مہذب انداز میں رخصت دی جا رہی ہے۔(تحفہ حنفیہ ص426)
نوٹ:.... دواد ارشد صاحب نے ىہ اور اس کے بعد والے نو مسئلے ذکر کر کے صرف فقہ حنفی سے اظہار بغض نہیں کیا بلکہ مولانا محمد اسماعیل صاحب محمودی حفظہ اﷲ کے اس وعوی کو سچا کر دیا ہے کہ نام نہاد اہل حدیث مدینہ میں لکھی جانے والے کتاب بلکہ باشارہ نبوی لکھی جانے والے تصنیف پر اعتراض کرکے مدینہ بلکہ صاحب مدینہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت و شرف کے منکر ہوئے ہیں،کیونکہ ان مسائل کے آخر میں فرماتے ہیں....” ثابت ہوا کہ ىہ مدینہ میں بیٹھ کر کوک شاستر لکھی گئی ہے۔ اسلام کی خدمت نہیں کی گئی بلکہ اسلامی تعلیم کو مسخ کرنے کی سعی لا حاصل کی گئی ہے“ (تحفہ حنفیہ ص427ج1)باقی داود ارشد نے جو چند مسائل میں اہل مدینہ سے حنفیوں کا اختلاف نقل کیا ہے وہ بے سود ہے کیونکہ کوئی حنفی فقہ مالکیہ کو کوک شاستر یا اسلامی تعلیم کو مسخ کرنا نہیں کہتا بلکہ ہمارے ہاں تو ان کو اىک یقینی اور دوسرے اجر کا احتمال ہے تو ہمارا ان سے اجتہادی اختلاف ہے ۔غیر مقلدین کا عنادی اختلاف ہے کیونکہ وہ اجتہاد کو کار ابلیس اور تقلید کو شرک کہتے ہیں۔
وضاحت مسئلہ:
مذکورہ بالا مسئلہ غیر مقلدین کا حیا سوز کہنا ىہ اىک بے محل بات ہے کیونکہ نہ ہی صاحب در مختار نے اس کو حیا دار ہونے کا دعوی کیاہے کہ اور نہ کسی اور حنفی نے بلکہ صاحب درمختار نے تو اس کو گناہ کبیرہ قرار دے کر اس کا ارتکاب کرنے والے پر تعزیر کی سزا مقرر کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:.... بل یعزر وتذبح ثم تحرق ویکرہ الانتفاع بھاحیا ومیتا مجتبی وفی النھر الظاہر انہ یطالب ندبا لقولھم تضمن بالقیمة(درمختار ج4ص26) یعنی جانور سے بدکاری کرنے والے پر تعزیر لگا ئی جائے گی۔(نیز ىہ بھی فرماتے ہیں) کہ تعزیر کبھی قتل کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔(ص62 ج4) اور جانور کو ذبح کر کے جلا دیا جائے۔علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کی حکمت ىہ ہے کہ اس جانور کو دىکھ کر لوگ اس برائی کا زبانوں سے تذکرہ بھی نہ کریں۔(شامی ص26ج4)اور اس جانور کے ساتھ زندگی اور موت کی حالت میں نفع حاصل کرنا مکروہ ہے ۔ اور شامی ؒ نے لکھا ہے کہ اگر غیر کے جانور سے ىہ فعل کرے تو مستحب ہے کہ مالک کو اس جانور کی قیمت ادا کرے، پھر اس جانور کو ذبح کر کے جلا دے۔ معلوم ہوا کہ فقہ حنفی تو آدمی اورجانور کیا اس فعل کے ذکر کو بھی برداشت نہیں کرتی۔
نوٹ:....داود صاحب نے برالرائق کا بھی اس مسئلہ میں حوالہ دیا ہے، حالانکہ بحرالرائق میں لکھا ہے کہ طبیعت سلیمہ اس فعل سے نفرت کرتی ہے اور اس برائی پر ابھار نے والی انتہائی بداخلاقی یا مغلوب الشہوت ہونا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ اس فعل کے ارتکاب کرنے والے کو تعزیر اسی دلىل سے لگائی جائے گی جس کو ہم نے (مسئلہ لواطع میں) بیان کر دیا ہے۔ اور جو ىہ بات ذکر کی جاتی ہے کہ جانور کو ذبح کر کے جلا دیا جائے ىہ اس فعل کے تذکرہ کو ختم کرنے کےلئے ہے اور ىہ واجب نہیں۔فقہا نے کہا ہے کہ اگر ماکول اللحم جانور نہ ہوتو اس کو ذبح کر کے جلا دیا جائے اور اگر ماکول اللحم ہو تو اس کو ذبح کر دیا جائے اور امام حکم اس وقت ہے جب جانور بدفعلی کرنے والے کا ہو اور اگر اس کے غیر کا ہوتو قاضی خان میں ہے کہ اس کے مالک کو اختیار ہے کہ ىہ جانور اس برائی کرنےوالے کو قیمتاً دىد ے اور تبیین الحقائق میں ہے کہ اس کے مالک سے مطالبہ کیا جائے گا کہ ىہ جانور قیمت لے کر اس شخص کو دىدے، پھر اس کو ذبح کر دیا جائے۔ فقہا نے اسی طرح ذکر کیا ہے اورایسا حکم سماع سے ہی تعلق رکھتا ہے، اس لئے اس کو سماع پر محمول کیا جائے گا۔ (بحر الرائق ص18ج5) اگر داود صاحب فقہ کی پوری عبارت نقل کر دىتے تو نہ ان کو ىہ کہنے کی گنجائش رہتی کہ فقہ میں حیا سوز مسائل ہیں اور نہ ىہ کہنے کی گنجائش تھی کہ فقہ میں چوپائے سے بدفعلی کی اجازت دی جا رہی ہے۔
مسئلہ نمبر 2
نقص وضو وغسل
باقی وضو یا غسل کے ٹوٹنے کا بے حیائی سے تعلق نہیں۔ دىکھئے پیشاب، پاخانہ، نیند وغیرہ نواقص وضو بے حیائی کے کام نہیں لىکن ان سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر کوئی شخص وضو کر کے ماں باپ کی نافرمانی کرے یا لوگوں کو فحش گالیاں نکالے،مجمع میں ننگا ہو کرنا چنا شروع کر دے، اپنے اساتذہ اور اولیاء اﷲ کی توہین کرے تو ىہ سب بے حیائی اوربرائی کے کام ہیں لیکن ان سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ غیر مقلدین میں سے کیسی نے ان کو ناقص نہیں لکھا اور نہ قران وسنت سے ان کا ناقص ہونا ثابت کر سکتے ہیں تو اس کا مفہوم یہی ہو گا کہ غیر مقلدین نے ان برائیوں کا دروازہ کھول رکھا ہے یا ان کے مسائل حیا سوز ہیں۔اسی طرح وجوب غسل کا تعلق غسل کو توڑنے والی چیزوں کے ساتھ ہے۔ حیا وعدم حیاءکے ساتھ اس کا تعلق نہیں۔مثلاً بیوی سے ہمبستری ،حیض، نفاس ےہ کوئی گناہ اور بے حیائی کی چیز نہیں ہیں اور ان سے غسل واجب ہو جاتا ہے مگر کسی کو ناحق قتل کرنا، چوری کرنا، ڈاکہ ڈالنا، شراب پینا، سودلینا، سود ینا اور رشوت لینا یقینا گناہ کبیرہ ہیں،مگر ان سے غسل واجب ہونا کسی کا قول نہیں تو کوئی آدمی ىہ شور مچائے کہ دىکھو ان گناہوں کا ىہ دروازہ کھولنا ہے، ىہ غلط بات ہے۔
مسلک غیر مقلدین
غیرمقلدین کا ىہ عام نعرہ ہوتا ہے کہ اہل حدیث کے دو اصول” اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول“ ابویحییٰ خان نوشہروی بھی فرماتے ہیں ۔
اصل دیں آمد کلام اﷲ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن
یعنی اصل دین کلام اﷲ کو معظم رکھنا،پھر حدیث مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو جان پر مسلم رکھنا ہے “
(نقوش ابوالوفاءص34)
نیز مولوی صادق صاحب سیالکوٹی فرماتے ہیں:.... ”مسئلہ اور فتوی صرف وہی قابل عمل ہے جو قران وحدیث کے ساتھ مدلل ہو“ (صلوة الرسول ص46) بلکہ خود داود ارشد صاحب فرماتے ہیں:.... ” ىہ بات یا رکھىے کہ ہمارے نزدىک احکام شرعیہ میں قران وحدیث ہی کافی ہے“ (تحفہ حنفیہ ص168) اپنے اس مسلمہ اصول کے مطابق کوئی غیر مقلد قران پاک یا حدیث مرفوع سے یہ ثابت کر دے کہ ”وطی بہیمہ بلا انزال“ سے وضو یا غسل واجب ہوجاتا ہے اور اس کے معارض بھی کوئی حدیث نہ ہو توتم مان جائیں گے کہ ىہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے مگر ایسی کوئی روایت غیر مقلدین پیش نہیں کر سکتے جس میں جانور کی صراحت ہو۔ اىک غیر مقلد کہنے لگا کہ بخاری اور مسلم کے حوالہ سے محمد جونا گڑھی نے لکھا ہے کہ حدیث میں وان لم ینزل آیا ہے ۔ میں نے کہا کہ بخاری کی طرف اس روایت کی نسبت غلط ہے۔ مسلم میں ىہ روایت موجود ہے مگر اس میں اور بخاری میں غسل نہ واجب ہونے کی روایات بھی ہیں اور امام بخاری کا مسلک بھی عدم وجوب غسل ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں والغسل احوط یعنی غسل احتیاطی چیز ہے نہ کہ وجوبی۔(بخاری ص43) علامہ وحید الرمان فرماتے ہیں ىہاں اىک اور مذہب ہے جس کی طرف صحابہ کرام کا اىک گروہ گیا ہے اور اس کو ہمارے بعض اصحاب نے پسند کیا ہے‘جیسے امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ وہ ىہ ہے کہ غسل صرف دخول سے واجب نہیں ہوتا جب تک کہ انزال نہ ہو۔ انما الماءمن الماءکی حدیث پر عمل کرتے ہوئے۔(نزل الابرار ص23ج2)
نوٹ:
و ان لم والی روایت عورت سے ہمبستری کے متعلق ہے‘جانور کا وہاں کوئی ذکر نہیں‘ جانور کوعورت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے اور قیاس تو بہر حال غیر مقلدین کے ہاں کار ابلیس ہے ا سلئے اس قیاس سے شیطان کا تمغہ ملنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ وحید الزمان غیر مقلد لکھتاہے اور اسی طرح (غسل واجب نہیں ہوتا)جبکہ جانور کی فرج میں یا آدمی یا جانور کی دبر میں ادخال کرے۔(نزل الابرار من فقہ النبی المختار ص23ج1)
فائدہ:
دادارشد نے بحر الرائق کی اس عبارت میں تسلیم بھی کر لیا ہے کہ حنفی مسئلہ کی بنیاد حدیث پر ہے۔ چنانچہ داود ارشد نقل کرتے ہیں۔ فقال علماءنا ان الموجب للغسل ہو انزال المنی کما افادہ الحدیث الاول۔ یعنی ہمارے علماءفرماتے ہیں کہ غسل اس وقت فرض ہوتا ہے جب منی خارج ہو(بدوں انزال کے غسل واجب نہیں ہوتا)جیسا کہ پہلی حدیث کا مفاد ہے۔(بحرالرائق ص 59ج 1‘تحفہ حنیفہ ص425) جب ىہ مسئلہ حدیث سے ثابت ہے تو مذکورہ بالا سارا اعتراض حدیث پر ہوگا جو منکرین حدیث کاشیوہ ہے نہ کہ اہل حدیث کا۔
مسئلہ نمبر2
مدینہ سے اظہار نفرت کےلئے دوسرا مسئلہ داود ارشد نے در مختار سے ہے نقل کیا ہے۔ وافاد کلامہ طہارة جلد کلب وفیل وھو المعتمد۔ یعنی صاحب تنویر کے کلام کا مفاد یہ ہے کہ ہاتھی اور کتے کا کھال پاک ہے‘اس کی شرح میں ابن عابدین فرماتے ہیں کہ اس وجہ سے کہ کتانجس العین نہیں‘ تصحیح کے لحاظ سے یہی اصح ہے۔(درالمختار ص204 ج1) اس پر تبصرہ کرتے ہوئے داود ارشد لکھتے ہیں مطلع صاف ہے کہ اگر جھنگوی صاحب کتے کی کھال کی جیکٹ بنوائیں یا ٹوپی ڈول یا جائے نماز یا دستر خوان یا اپنی کتب پر جلدیں بندھوائیں سب جا ئز ہے بلکہ اگر اس کھال کا مصلیٰ بھی بنا لیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔( تحفہ حنفیہ ص426)
جواب:
اس حوالہ سے صرف مدینہ کی تصنیف سے اظہار بغض کیا ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث ذکر نہیں کی جبکہ شامی نے اسی حاشیہ میں بیہقی کے حوالے سے ہاتھی کے بارے میں ىہ حدیث ذکر کی تھی کہ انہ صلی اﷲ علیہ وسلم کان یمتشط بمشط من عاج کہ نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ہاتھی کے دانت سے بنی ہوئی گنگھی سے بالوں میں کنگھی کرتے تھے اور علامہ جوہری وغیرہ نے عاج کی تفسیر ہاتھی کی ہڈی کے ساتھ کی ہے۔ مسلم شریف میں حضرت عبداﷲ بن عیاش سے روایت ہے :.... قال سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول اذ ا دبع الاھاب فقد طہر۔ (مسلم ص159)
فائدہ:
اس روایت میں مطلق چمڑے کے دباغت سے پاک ہونے کا ذکر ہے۔ امام صاحب رحمتہ اﷲ علیہ نے خنزیر کے چمڑے کو فانہ رجس کی وجہ سے نجس العین ہونے کی بنا پر انسان کے چمڑے کو احترام کی وجہ سے مستثنیٰ کیا۔امام نووی رحمتہ اﷲ علیہ اس مسئلہ کو اجتہادی قرار دے کر سات مذاہب نقل کرکے فرماتے ہیں کہ ان مذاہب والوں سے ہر گروہ نے احادیث وغیرہ سے استدال کیا ہے۔معلوم ہوا امام مسلم رحمتہ اﷲ علیہ متوفی 672 کے زمانہ تک اس مسئلہ کو حدیث کے مخالف نہیں کہا جاتا تھا بلکہ مبنی برحدیث قراد دیا جاتا تھا۔ آج کل غیر مقلدین نے اس پر اعتراضات شروع کےے ہیں جبکہ پرانے غیر مقلدین نے بھی اس کو نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی فقہ قرار دیا تھا ۔ علام وحید الزمان غیر مقلد فرماتے ہیں جس چمڑے کو بھی دباغت دی جائے وہ پاک ہو جاتا ہے۔ہمارے بعض اصحاب نے خنزیر اور آدمی کے چمڑے کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور صحیح عدم استثناءہے۔(نزل الابرار ص29) نیز فرماتے ہیں کہ مچھلی کا خون پاک ہے،اسی طرح کتا اور اس کالعاب ہمارے محققین اصحاب کے نزدیک۔(نرل الابرار ص30) نیز فرماتے ہیں کہ اس چمڑے کا جائے نماز اور ڈول بنا لیا جائے گا اور اگر وہ پانی میں گر گیا اور پانی میں تغیر پیدا نہ ہو تو پانی ناپاک نہیں اگرچہ کتے کا منہ پانی کو پہنچ جائے۔ اسی طرح کپڑا کتے کی چھینٹوں سے ناپاک نہی ہوگا اور نہ ہی اس کے کاٹنے سے ناپاک ہوگا اور نہ ہی جوڑ ناپاک ہوگا،اگرچہ اس کو اس کا لعاب بھی لگ جائے اور اس کو اٹھا کر نماز پڑھنے والے کی نماز فاسد نہ ہوگی۔(نرل الابرار ص30ج1)
نوٹ:
جب ىہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی فقہ ہے تو مولانا جھنگوی پر کسے ہوئے تمام الفاظ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچیں گے۔
فائدہ:
بعض غیرمقلدین ابو داود شریف کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے درندوں کی چمڑی کو پہنے اور ان پر سوار ہونے سے روکا ہے ۔(ابو داود ص570ج2)
جواب:


یہ حدیث اپنے ظاہر کے اعتبار سے بالاتفاق متروک ہے کیونکہ صحاح ستہ کہ روای امام زہری ؒتمام مرداروں کی چمڑیوں سے بغیر دباغت کے بھی نفع حاصل کرنے کو جائز قرار دىتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ دباغت کے بعد خنزیر کے علاوہ باقی تمام درندوں کی چمڑیوں کو پاک قرار دیتے ہیں۔



2 comments: