سچے اور جھوٹے کی پہچان:
قربِ قیامت کی نشانیوں میں۔۔۔۔دھوکہ کا زمانہ آنے کی پیشگوئی دیتے فرمایا کہ اس زمانہ میں سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا قرار دیا جائے گا، امانتدار کو خائن اور خیانت کرنے والے کو امین قرار دیا جائے گا۔
[سنن ابن ماجه:4036، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1887]
لہٰذا
قرآنی ہدایات کی روشنی میں سچوں کی پہچان کیلئے جو ظاہری معیار بتائے گئے ہیں، مومن کیلئے وہی معیار سب سے پہلے ہیں۔
کہ
جو رب سے سچا نہیں، وہ سب سے سچا نہیں۔ جو ظاہر میں سچا نہیں، باطن میں بھی سچا نہیں۔
سچے اور پرہیزگار لوگوں کے ظاہری اعمال-عادات:
قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ کی آیت 177 میں ایمانیات کے بعد درج ذیل ظاہری اعمال-عادات بتائی گئی ہیں:
(1)نماز کی پابندی کرنے والے:
کیونکہ جو لوگ نماز کے الفاظ کے معانی سمجھتے کی کوشش کرتے۔۔۔۔یا رب دیکھ رہا ہے سمجھتے ہوئے دھیان وتوجہ سے نماز کو پڑھتے ہیں۔۔۔۔اور پابندی سے وقت پر پڑھتے ہیں۔۔۔
تو نماز انہیں (اعلانیہ)بےحیائی اور (خفیہ)برائی سے روکتی ہے۔۔۔۔اور جو نماز کی پابندی نہیں کرتے وہ بےحیائی اور برائی کے پابند بن جاتے ہیں۔
(2)زکوٰۃ دینے والے:
جسم کی زکاۃ روزہ ہے۔۔۔۔زبان کی زکاۃ ذکر ہے۔۔۔۔۔اور مال میں فرض زکاۃ کے قابل نہ ہو تو وہ اللہ کے عطا کردہ رزق میں سے کچھ نہ کچھ، خوشحالی اور تنگی ہر حال میں، خرچ کرتے رہتے ہیں۔
(3) اپنے وعدے پورے کرنے والے:
خالق سے وعدہ اسے ہی رب ماننا ہے یعنی کسی مخلوق کو نفع نقصان کا مالک اور پکار وعبادت کے قابل نہ ماننا ہے
اور مخلوق سے کئے گئے وعدے بھی پورے کرنے لازم ہیں۔
(4) دین کی حفاظت کیلئے لڑنے والے صابر ہیں۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:177]
یعنی اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں
[حوالہ سورۃ الحشر:8]
[قرآنی شاہدی-سورۃ الحجرات:15]
(5)یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں، اب ہمارے گناہوں کو بخش دیجیے، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔
(اور سحری کے وقت بخشش مانگنے والے ہیں۔)
[سورۃ آل عمران:16(17)]
اس مضمون کی دعائیں علماء اور ان کی صحبت میں رہنے والے ہمیشہ مانگتے رہتے ہیں۔
لہٰذا
سچے لوگوں کی صحبت-ساتھ رہنے کا حکم بھی دیا۔
[حوالہ سورۃ التوبہ:119]
جتنا زیادہ نیک اتنا زیادہ سچا، پرہیزگار اور معتبر ہوگا۔۔۔۔دوسری صورت میں اتنا ہی زیادہ نافرمان، برا، جھوٹا اور ناقابلِ اعتبار ہوگا۔
سچے لوگ کون؟
إِنَّمَا المُؤمِنونَ الَّذينَ ءامَنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ ثُمَّ لَم يَرتابوا وَجٰهَدوا بِأَموٰلِهِم وَأَنفُسِهِم فى سَبيلِ اللَّهِ ۚ أُولٰئِكَ هُمُ الصّٰدِقونَ {49:15}
مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے لڑے۔ یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں
یعنی سچے مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ اللہ و رسول پر پختہ اعتقاد رکھتا ہو اور انکی راہ میں ہر طرح جان و مال سے حاضر رہے۔
The [true] believers, that is, those who are true in their [affirmation of] faith — as He makes explicit in what follows — are only those who believe in Allah (True God) and His Messenger, and then have not doubted, they have not been uncertain of [their] faith, and who strive with their wealth and their souls for the cause of God, hence their striving manifests the sincerity of their faith. It is they who are sincere, in their faith, not those who say, ‘We believe’, and from whom all that has been forthcoming is their submission [to the religion].
لفُقَراءِ المُهٰجِرينَ الَّذينَ أُخرِجوا مِن دِيٰرِهِم وَأَموٰلِهِم يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا وَيَنصُرونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ ۚ أُولٰئِكَ هُمُ الصّٰدِقونَ {59:8}
(اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دیئے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں۔ یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں
یعنی یوں تو اس مال سے عام مسلمانوں کی ضروریات و حوائج متعلق ہیں لیکن خصوصی طور پر ان ایثار پیشہ جاں نثاروں اور سچے مسلمانوں کا حق مقدم ہے جنہوں نے محض اللہ کی خوشنودی اور رسول کی محبت و اطاعت میں اپنے گھر بار اور مال و دولت سب کو خیر باد کہا اور بالکل خالی ہاتھ ہو کر وطن سے نکل آئے تا اللہ و رسول کے کاموں میں آزادا
نہ مدد کرسکیں۔
[At] the poor Emigrants (li’l-fuqarā’i is semantically connected to an omitted [verb], that is to say, a-‘ajibū, ‘What! Do they marvel [at the poor Emigrants]’) who have been driven away from their homes and their possessions that they should seek bounty from Allah (True God) and beatitude and help Allah (True God) and His Messenger? Those — they are the sincere, in their faith.
لَيسَ البِرَّ أَن تُوَلّوا وُجوهَكُم قِبَلَ المَشرِقِ وَالمَغرِبِ وَلٰكِنَّ البِرَّ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ وَالمَلٰئِكَةِ وَالكِتٰبِ وَالنَّبِيّۦنَ وَءاتَى المالَ عَلىٰ حُبِّهِ ذَوِى القُربىٰ وَاليَتٰمىٰ وَالمَسٰكينَ وَابنَ السَّبيلِ وَالسّائِلينَ وَفِى الرِّقابِ وَأَقامَ الصَّلوٰةَ وَءاتَى الزَّكوٰةَ وَالموفونَ بِعَهدِهِم إِذا عٰهَدوا ۖ وَالصّٰبِرينَ فِى البَأساءِ وَالضَّرّاءِ وَحينَ البَأسِ ۗ أُولٰئِكَ الَّذينَ صَدَقوا ۖ وَأُولٰئِكَ هُمُ المُتَّقونَ {2:177}
نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (خدا کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (خدا سے) ڈرنے والے ہیں
تفسیر:
جب آیات سابقہ اپنی برائی میں سنیں تو یہود و نصاریٰ کہنے لگے کہ ہم میں تو بہت سے اسباب و آثار ہدایت و مغفرت موجود ہیں ایک کھلی بات یہی ہے کہ ہم جس قبلہ کی طرف منہ کرنے کے مامور ہیں اس کی طرف متوجہ ہو کر نماز جو افضل عبادت ہے اس کو اللہ کے حکم کے موافق ادا کرتے ہیں پھر ان خرابیوں اور عذاب کے ہم کیسے مستحق ہو سکتے ہیں اس خیال کی تردید میں فرمایا جاتا ہے کہ بڑی نیکی جو مغفرت اور ہدایت کے لئے کافی ہو یہ نہیں کہ تم صرف اپنا منہ نماز میں مشرق یا مغرب کی طرف کر لیا کرو اور عقائد و اعمال ضروریہ کی پروا بھی نہ کرو۔
یعنی نیکی اور بھلائی جو اثر ہدایت اور سبب مغفرت ہو یہ ہے کہ اللہ اور روز قیامت اور جملہ ملائکہ اور کتاب آسمانی اور انبیاء پر دل سے ایمان لائے اور ان پر یقین کرے اور باوجود محبت اور رغبت کے اپنے مال کو علاوہ زکوٰۃ کے قریبوں اور یتیموں اور غریبوں اور مسافروں اور سائلوں کو جو کہ محتاج ہوں دے اور گردنیں چھڑانے میں یعنی مسلمان جس کو کفار نے ظلمًا قید کر لیا ہو اس کی رہائی میں یا مقروض کو قرض خواہ سے چھڑانے میں یا غلام کو آزاد کرانے میں یا غلام مکاتب کو خلاصی دلانے میں مال دیوے اور نماز کو خوب درستی کے ساتھ پڑھے اور چاندی اور سونے اور جملہ اموال تجارت میں سے زکوٰۃ دے اور اپنے عہد و قرار کو پورا کرے اور فقروفاقہ اور بیماری اور تکلیف اور خوف کی حالت میں صبر و استقلال سے رہے اور یہود و نصاریٰ چونکہ ان عقائد اور اعمال و اخلاق میں قاصر اور ناقص تھے اور طرح طرح سے ان میں خلل اندازی کرتے تھے جیسا کہ آیات قرآنی میں اس کا ذکر ہے تو اب یہود یا نصاریٰ کا صرف اپنے استقبال قبلہ پر ناز کرنا اور اپنے آپ کو طریقہ ہدایت پر مستقیم سمجھنا اور مستحق مغفرت کہنا بیہودہ خیال ہے تاوقتیکہ ان اعتقادات اور اخلاق و اعمال پر قائم نہ ہوں گے جو اس آیہ کریمہ میں بالتفصیل مذکور ہیں صرف استقبال قبلہ سے نہ ہدایت نصیب ہو سکتی ہے نہ عذاب الہٰی سے نجات مل سکتی ہے۔
یعنی جو لوگ اعتقادات و اخلاق و اعمال مذکورہ کے ساتھ متصف ہیں وہی لوگ سچے ہیں اعتقادات اور ایمان اور دین میں یا اپنے قول و قرار میں اور وہی لوگ پرہیز گار اور متقی ہیں اپنے اخلاق اور اعمال میں یا بچنے والے ہیں گناہ اور بری باتوں سے یا عذاب الہٰی سے اہل کتاب کہ جن کو ان خوبیوں میں سے ایک بھی میسر نہیں ان کا اپنی نسبت ایسا خیال کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔
It is not piety, that you turn your faces, in prayer, to the East and to the West. This was revealed in response to the claim made by the Jews and the Christians to this effect. True piety, that is, the pious person (al-birr, is also read al-barr, in the sense of al-bārr [‘the dutiful person’]) is [that of] the one who believes in Allah (True God) and the Last Day and the angels and the Book, that is, the scriptures, and the prophets, and who gives of his substance, however, despite [it being], cherished, by him, to kinsmen and orphans and the needy and the traveller and beggars, and for, the setting free of, slaves, both the captive and the one to be manumitted by contract; and who observes prayer and pays the alms, that are obligatory, and what was [given] before [alms were made obligatory], in the way of charity; and those who fulfil their covenant when they have engaged in a covenant, with Allah (True God) or with others, those who endure with fortitude (al-sābirīna is the accusative of laudation) misfortune (al-ba’sā’ is abject poverty), hardship, illness, and peril, at the height of a battle in the way of Allah (True God); these, described in the way mentioned, are the ones who are truthful, in their faith and in their claims to piety, and these are the ones who are fearful, of Allah (True God).
So,
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكونوا مَعَ الصّٰدِقينَ {9:119}
اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ رہو
یعنی سچوں کی صحبت رکھو اور انہی جیسے کام کرو۔ دیکھ لو یہ تین شخص سچ کی بدولت بخشے گئے اور مقبول ٹھہرے منافقین نے جھوٹ بولا اور خدا کا ڈر دل سے نکال دیا تو "درک اسفل" کے مستحق بنے۔
O you who believe, fear Allah (True God), by refraining from [acts of] disobedience to Him, and be with those who are truthful, in [their] faith and covenants, by adhering to sincerity.
No comments:
Post a Comment