ظاہر ہے کہ آنحضرت افضل الخلق ہیں، کوئی مخلوق بھی آپ سے افضل نہیں اور ایک حدیث میں ہے کہ آدمی جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے، اسی میں دفن کیا جاتا ہے، لہذا جس پاک مٹی میں آنحضرت کے جسد اطہر کی تدفین ہوئی اسی سے آپ کی تخلیق ہوئی، اور جب آپ افضل الخلق ہوئے،، تو وہ پاک مٹی بھی تمام مخلوق سے افضل ہوئی
علاوہ ازیں زمین کے جن اجزاء کو افضل الرسل، افضل البشر، افضل الخلق کے جسد اطہر سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ باقی تمام مخلوقات سے اس لیے بھی افضل ہیں کہ یہ شرف عظیم ان کے سوا کسی مخلوق کو حاصل نہیں
آپ کا یہ ارشاد بالکل بجا اور بر حق ہے کہ (پہلے اللہ اور پھر حضور اکرم ہیں) مگر زیر بحث مسئلے میں خدا نخواستہ اللہ تعالی کے درمیان اور آنحضرت کے درمیان تقابل نہیں کیا جا رہا، بلکہ آنحضرت کے درمیان اور دوسری مخلوقات کے درمیان تقابل ہے، کعبہ ہو، عرش ہو، کرسی ہو، یہ سب مخلوق ہے، اور آنحضرت تمام مخلوق سے افضل ہیں، اور قبر مبارک کی جسد اطہر سے لگی ہوئی مٹی اس اعتبار سے اشرف و افضل ہے کہ جس اطہر سے ہم آغوش ہونے کی جو سعادت اسے حاصل ہے، وہ نہ کعبہ کو حاصل ہے، نہ عرش و کرسی کو۔
اور اگر یہ خیال ہو کہ ان چیزوں کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہے، اور روضہ مطہر کے مٹی کی نسبت آنحضرت کی طرف ہے، اس لیے یہ چیزیں اس مٹی سے افضل ہونی چاہئیں، تو اسکا جواب یہ ہے کہ اس پاک مٹی کو آنحضرت سے ملابست کی نسبت ہے، اور کعبہ اور عرش و کرسی کو حق تعالی شانہ سے مالبست کا تعلق نہیں، حق تعالی شانہ اس سے پاک ہے
عظمت مدینہ بذریعہ عظمت نبوی
عبد الرزاق عن بن جريج قال أخبرني عمر بن عطاء بن وراز عن عكرمة مولى بن عباس أنه قال يدفن كل إنسان في . التربة التي خلق منها. [مصنف عبد الرزاق : باب يدفن في التربة التي منها خلق ، 6531 ، 3/515]؛
ترجمہ : عبدالرزاق ابن جریج سے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی عمر بن عطاء بن وراز نے، ان سے عکرمہ ابن عباس کے غلام نے کہ انہوں (حضرت ابن عباس) نے فرمایا: دفن کیا جاتا ہے ہر انسان اسی مٹی میں جس سے وہ پیدا کیا گیا؛
یہ بات (مضمون و معنی) حدیث رسول سے بھی ظاہر ہے؛
أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ ، قَالا : ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيرِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى مَوْلَى الأَسْلَمِيِّينَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ : " قَبْرُ مَنْ هَذَا ؟ " , فَقَالُوا : فُلانٌ الْحَبَشِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سِيقَ مِنْ أَرْضِهِ وَسَمَائِهِ إِلَى تُرْبَتِهِ الَّتِي مِنْهَا خُلِقَ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ. [المستدرك على الصحيحين، للحاکم :رقم الحديث: 1289 - 1/521 ، رقم 1356]؛
اس صحیح حدیث سے مشابہ (ملتے جلتے) مضمون کی صحیح ، ضعیف اور موضوع احادیث کے شواہد سے حضرت ابن عباس کے قول و نظریۂ کی اصل (بنیاد) ہونے کو تقویت ملتی ہے.
=========================================================================
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي " . رواه البخاري
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔
|
تشريح : یہ حصہ جنت ہی کا حصہ ہے اور دنیا کے فنا ہونے کے بعد جنت ہی کا ایک حصہ بن کر رہ جاۓ گا، اس لیے یہ کسی تاویل کے بغیر (دنیا میں موجود) جنّت کا ایک باغ ہے. اس حدیث میں ہے کہ "میرا منبر میرے حوض پر ہے" یعنی حوض یہیں پر ہوگا، منبر سے شام تک اس کی پہلائی ہوگی، اس لیے وہ منبر اب بھی حوض ہی پر ہے اور قیامت کے دن مشاہدہ میں آجاۓ گا. حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ایک روایت کی تخریج کی ہے جس میں ((بیت)) یعنی گھر کے بجاۓ ((قبر)) ہی کا لفظ ہے، گویا عالم تقدیر میں جو کچھ تھا اس کی آپ نے پہلے ہی خبر دیدی تھی.
سیدناحضرت علی المرتضیٰ ؓ کا فرمان:
انہ لیس فی الارض بقعۃ اکرم علی اللہ من بقعۃ قبض فیھانفس نبیہٖ۔( ترجمہ: زمین میں کوئی خطہ ایسانہیں جواللہ تعالیٰ کے ہاں اس خطہ سے زیادہ معززہوجس میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض فرمائی۔
ان احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح میں حضرات محدثین وفقہاء کرام نے بہت زیادہ تفصیل سے کلام فرمایاہے ۔
شارح مسلم‘محدث کبیر‘فقہ شافعی کے عظیم سرخیل ‘حضرت امام ابوزکریامحی الدین یحییٰ بن شرف المتوفی ٰ 676ھ۔
1): باب فضل مابین قبرہ ومنبرہ وفضل موضع منبرہ ۔ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ مابین بیتی ومنبری روضۃ من ریاض الجنۃ ذکروافی معناہ قولین احدھماان ذلک الموضع بعینہ ینقل الی الجنۃ والثانی ان العبادۃ فیہ تؤدی الی الجنۃ قال الطبری فی المرادبیتی ھناقولان احدھماالقبرقالہ زیدبن اسلم کماروی مفسرابین قبری ومنبری والثانی المرادبیت سکناہ علی ظاہرہ وروی مابین حجرتی ومنبری قال الطبری والقولان متفقان لان قبرہ فی حجرتہ وھی بیتہ۔(
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبراورمنبرکے درمیانی حصہ کی فضیلت : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادمابین بیتی ومنبری… الخ کے معنی میں دوقول ہیں۔
( 1)یہی جگہ بعینہ جنت سے آئی ہے۔ (2)اس میں عبادت کرناجنت لے جائے گا۔ امام طبری کہتے ہیں کہ یہاں’’بیت‘‘کے بارے میںدوقول ہیں۔(1)قبراورزیدبن ا سلم نے کہاہے ’’اورجیساکہ بین قبری ومنبری بھی واضح آیاہے۔( 2) رہائشی گھرمراد ہے اورحجرتی ومنبری کی روایت بھی آئی ہے۔ طبری کہتے ہیں کہ دونوںقول اتفاقی ہیں۔ کیونکہ آپ کی قبرآپ کے حجرے میں ہے اوروہی آپﷺ کاگھرہے۔
دوسرے مقام پرحضرت امام نووی ؒ استدلالاًفرماتے ہیں۔
2) اجمعواعلی ان موضع قبرہٖ ﷺ افضل بقاع الارض۔
ترجمہ: علماء کرام کااجماع ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کی جگہ روئے زمین کی سب جگہوں سے افضل ہے۔
3) محدث وقت‘فقہ مالکی کاعظیم فقیہ حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی المتوفی544ھ فرماتے ہیں ’’ولاخلاف ان موضع قبرہٖ افضل بقاع الارض۔‘‘
ترجمہ : اس بات میں کسی کابھی اختلاف نہیں ہے کہ آپﷺ کی قبرمبارک کی جگہ روئے زمین کے سب مقامات سے افضل ہے۔
4) علمائے احناف کے سرتاج‘محدث جلیل‘امام وقت علامہ بدرالدین ابی محمدمحمودبن احمدالعینی (المتوفی 855ھ)اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
المطابقہ بین الترجمۃ والحدیث غیرتامۃٍ لانّ المذکورفی الترجمۃ القبروفی الحدیث البیت۔ واجیب بان القبرفی البیت لانّ المراد بیت سکناہ والنبی دفن فی بیت سکناہ وحمل کثیرمن العلماء الحدیث علی ظاہرہٖ۔
ترجمہ: ترجمہ الباب اورحدیث پاک میں مطابقت نہیں ہے کیونکہ عنوان میں قبراورحدیث پاک میں بیت(گھر)کاذکرہے (اس کایہ )جواب دیاگیاہے کہ آپ ﷺکی قبرمبارک گھرمیںہے اور اس بیت سے مرادآپ کارہائشی گھرہے اورنبی کریمﷺ کی وفات اپنے رہائشی گھرمیںہوئی۔ حضرات محدثین اس حدیث کوظاہرپرمحمول کرتے ہیں (گویاکہ آپﷺ کی قبرمبارک کوحقیقتاًجنت مانتے ہیں
5) قال العینی وحمل کثیرمن العلماء الحدیث علی ظاہرہٖ فقالواینتقل ذالک الموضع بعینہٖ الی الجنۃ۔
ترجمہ: اکثرمحدثین اس حدیث سے ظاہری مطلب مرادلیتے ہیں اورفرماتے ہیں کہ یہی جگہ بعینہ جنت کی طرف منتقل کی جائے گی۔
6) وکذاوقع فی حدیث سعدبن ابی وقاص اخرجہ البزاربسندصحیح‘علی ان المرادبقولہؐ: بیتی‘ احدبیوتہٖ لاکلھا‘وھوبیت عائشہؓ الذی دفن ﷺ فیہ فصارقبرہ‘ وقدوردفی حدیث:مابین المنبروبیت عائشہؓ روضۃ من ریاض الجنۃ‘ اخرجہ الطبرانی فی الاوسط۔
ترجمہ: اور اس طرح حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت میںآتاہے جس کوامام بزارنے صحیح سندکے ساتھ نقل فرمایاہے کہ بیتی کے لفظ سے مرادنبی کریمﷺ کاایک ہی گھرمرادہے نہ کہ تمام گھراوروہ گھرحضرت عائشہؓ کاحجرہ مبارکہ ہے جس کے اندرآپﷺ اپنی قبرمیںآرام فرماہیں اورحدیث پاک میں آیاہے کہ میرے منبراوربیت عائشہؓ کادرمیانی مقام جنت کے باغوں میںسے ایک باغ ہے۔ امام طبرانی ؒ نے اس کواوسط میں روایت کیاہے۔
فقہ شافعی کے عظیم مفسر‘محدث‘فقیہ‘مورخ‘ جلال الدین سیوطیؒ (متوفی 911 ھ) فرماتے ہیں
7) اماھوفافضل البقاع بالاجماع نبہ علی ذالک القاضی عیاض وغیرہ بل ا فضل من الکعبۃ بل رائیت بخط القاضی تاج الدین السبکی عن ابن عقیل الحنبلی انہ افضل من العرش۔
ترجمہ: آپﷺ کی قبراطہرسب روئے زمین سے افضل ہے اوراس بات پرامت کااجماع ہے اس پرقاضی عیاضؒ وغیرہ نے تنبیہ فرمائی ہے بلکہ کعبہ سے بھی افضل ہے بلکہ میں نے قاضی تاج الدین سبکی کے ہاتھ کالکھاہوادیکھاہے کہ امام ابن عقیل حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ قبراطہرعرش معلی سے بھی افضل ہے۔
عظیم مفسرقرآن ‘سرخیل احناف ‘ حضرت علامہ السیدمحمودآلوسی البغدادی المتوفی 1270ھ
8) ان الامکنۃ والازمنۃ کلہامتساویۃ فی حدذاتہالایفضل بعضہابعضاالاَّ بمایقع فیہامن الاعمال ونحوھاوزادبعضھم اویحل لتدخل البقعۃ التی ضمتہ ﷺ فانھاافضل البقاع الارضیۃ والسماویۃ حتی قیل وبہٖ اقول انھاافضل من العرش۔
ترجمہ: بے شک تمام زمانے اورمقامات برابرہیں ایک دوسرے پرفضیلت نہیں رکھتے مگروہ مقام الگ ہے جس میں اچھے اعمال وغیرہ کیے جائیں یازمین کی وہ جگہ جوآپﷺ کواپنے اندرلیے ہوئے ہے۔یہ قبراطہرزمین وآسمان کے سب خطوںسے افضل ہے یہاں تک بھی کہاگیاہے اورمیں(علامہ آلوسیؒ) بھی اسکاقائل ہوں کہ قبراطہرعرش معلی سے بھی افضل ہے۔
ملاعلی قاری رحمہ اللہ المتوفی ص1014 ھفرماتے ہیں :
9) فیہ تصریح بان مکۃ افضل من المدینۃ کماعلیہ الجمھورالاالبقعۃ التی ضمت اعضائہ علیہ الصلوۃ والسلام فانھاافضل من مکۃ بل من الکعبۃ بل من العرش اجماعاً۔
ترجمہ: اس حدیث شریف میں صراحت ہے کہ مکہ مکرمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے یہی جمہورامت کامسلک ہے مگروہ حصہ زمین جوآپﷺ کے اعضاء مبارکہ سے ملاہواہے وہ مکہ مکرمہ سے بلکہ کعبہ مشرفہ اورعرش معلی سے باجماع افضل ہے۔
ایک دوسرے مقام پرفرماتے ہیں:
10) ولیس فیہ دلالۃعلی افضلیۃ المدینہ بل لافضلیۃ البقعۃ المکینۃ وقدقام الاجماع علٰی انھاافضل من مکۃ بل من الکعبۃ بل من العرش العظیم۔
ترجمہ: اس بات میں اس چیزکی کوئی دلالت نہیں کہ مدینہ طیبہ (مکہ مکرمہ سے افضل ہو)بلکہ فضیلت تواس مبارک جگہ کی ہے جس جگہ آپﷺ آرام فرماہیں (قبرمبارک) اوریقینا امت کااجماع قائم ہوچکاہے کہ یہ جگہ(قبراطہر)مکہ مکرمہ‘کعبۃ اللہ بلکہ عرش عظیم سے بھی افضل واشرف ہے۔
فقہ حنفی کے عظیم فقیہ النفس‘ محدث وقت‘ اصولی دوراں‘علامہ محمدامین عمربن عبدالعزیز الشھیر ابن عابدین الشامی الدمشقی المتوفی 1252ھ فرماتے ہیں:
11) والخلاف فیماعداموضع القبرالمقدس‘فماضم اعضاء ہ الشریفۃ فھوافضل بقاع الارض بالاجماع ۔۔۔۔۔۔وقدنقل القاضی عیاضؒ وغیرہ الاجماع علی تفضیلہٖ حتی علی الکعبۃ‘وان الخلاف فیماعداہ ونقل عن ابن عقیل الحنبلی ان تلک البقعۃ افضل من العرش وقدوافقہ السادۃ البکریون علی ذلک وقدصرح التاج الفاکھی بتفضیل الارض علی السموات لحلولہٖ ﷺ بھا وحکاہ بعضھم علی الاکثرین لخلق الانبیاء منھا ودفنھم فیھا۔
ترجمہ: اس بات میںکسی کااختلاف نہیں کرقبرمقدس اوروہ جگہ جس سے آپ ﷺ کے اعضاء مبارکہ مس کیے ہوئے ہیں یہ روئے زمین کے سب مقامات سے افضل ہے اوراس پر امت مسلمہ کااجماع ہے۔ …حضرت قاضی عیاضؒ نے قبرمبارک کے کعبۃ اللہ پرافضل ہونے میں امت کااجماع نقل فرمایاہے۔ امام ابن عقیل حنبلیؒ سے نقل کیاگیاہے کہ یہ جگہ عرش معلی سے بھی افضل ہے اوررؤسأبکریون نے بھی اس بات پرامام ابن عقیلؒ کی موافقت کی ہے۔ امام تاج الفاکھی ؒ نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ قبرمبارک کی جگہ آسمان زمین کے سب مقامات سے زیادہ مقدس ومطہرہے کیونکہ یہ جگہ خودنبی کریمﷺ کومس کیے ہوئے ہے اس طرح علمائے کرام کی جماعت انبیاء کرام ؑ کے خمیرکی جگہ اورمدفن کواعلیٰ و اشرف بتاتی ہے۔
محدث وقت‘ شارح بخاری شریف ‘حضرت امام کرمانی ؒ اورصاحب مجمع البحار‘عظیم محدث علامہ محمدبن طاہرپٹنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
12) وقال (صاحب مجمع البحار)نقلاًعن الکرمانی ای کروضۃ فی نزول الرحمت اوہی منقولۃ من الجنۃ کالحجرالاسودوالبیت فسربالقبروقیل بیت سکناھاولا تنافی لانّ قبرہ فی حجرتہٖ ۔
ترجمہ: حضرت علامہ طاہرپٹنیؒ اپنی کتاب مجمع البحارمیں حضرت امام کرمانی ؒ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ باغ ہے رحمت الہٰی کے نزول کایایہ جگہ واقعی جنت سے منتقل ہوکرآتی ہے حجراسودکی طرح اورحضرت کرمانی ؒنے بیت کی تفسیرقبرمبارک سے کی ہے اوریہ بھی کہاگیاہے کہ آپﷺ کارہائشی گھرمراد ہے اوردونوں معنوں میںکوئی منافات نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کی قبرمبارک اپنے گھرمیںہی ہے۔
منبع العلوم والفیوض ‘محدث جلیل‘سرخیل احناف حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒالمتوفی 1642ء
13) وفی اللمعات قال اھل التحقیق ان الکلام محمول علی الحقیقۃ بان ینقل ھذاالمکان الٰی الجنۃ الفردوس الاعلیٰ لایستہلک مثل سائربقاع الارض۔
ترجمہ: محققین فرماتے ہیں کہ یہاں کلام کاحقیقی معنی مرادہے کہ یہی جگہ جنت الفردوس میں منتقل کی جائے گی اوریہ جگہ زمین کے باقی خطوں کی طرح ہلاک وبربادنہ ہوگی (کیونکہ جنت الفردوس کاٹکڑاہے اورجنت کوہلاکت وبربادی لازم نہیں ہے)
الشیخ ‘المحدث‘ محشی بخاری شریف‘استادحضرت نانوتویؒ حضرت مولانااحمدعلی سہارن پوری المتوفی 1297ھ فرماتے ہیں۔
14) روضۃ من ریاض الجنۃ حقیقۃ بان یکون مقتطعاًمنھاکما ان الحجرالاسودوالفرات والنیل منھا۔
ترجمہ: یہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یہ حقیقتاًبھی ممکن ہے کہ یہ جنت سے کاٹ کریہاں لایاگیاہوجیسے حجراسودیادریافرات ودریانیل ہیں۔
فقیہ النفس‘ابوحنیفہ وقت‘محدث العصر‘سرخیل علماء دیوبندحضرت مولانارشیداحمدگنگوہیؒ المتوفی 1323ھ 1905ء فرماتے ہیں۔
15):ان تلک الارض اخرجت من الجنۃ ثم تنتقل الیھاعلم منہ ان المختارعندالشیخ الجنجوہی ان الحدیث محمول علی ظاہرہ واختلف الشراح فی معناہ علی اقوال ذکرت فی الشروح وقولہﷺ منبری علی حوضی الی یکون یوم القیمۃ علی حوض۔
ترجمہ: یہ زمین جنت سے نکالی گئی ہے پھروہیں منتقل کی جائے گی۔ اس سے پتہ چلاکہ حضرت گنگوہیؒ کے نزدیک حدیث اپنے ظاہرپرمحمول ہے۔ شراح حدیث کے ہاں اس کے معنی میں کئی اقوال ہیں جوشروح میں مذکورہیں۔ اورمنبری علی حوضی کاارشادکامطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن حوض پرہوگا۔
خاتم المحدثین ‘امام العصر‘نمونہ اسلاف ‘علمائے دیوبندکے عظیم مفسر‘محدث ‘اصولی ‘علامہ سیدانورشاہ کشمیری ؒ سابق صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند‘ شیخ الحدیث دارالعلوم ڈابھیل فرماتے ہیں:
16):قیل انہ ترجم بالقبرمع انہ اخرج فی الحدیث لفظ البیت……قلت واخرج الحافظ رحمہ اللہ تعالٰی فیہ لفظ القبرایضاً علی انّ بیتہ کان ھوقبرہ عالم التقدیرفصح کونہ بیتاًوقبراًوحینئذٍفیہ اخباربالغیب واصح الشروح عندی ان تلک القطعۃ من الجنۃ ثم ترفع الٰی الجنۃ کذلک فھی روضۃ من ریاض الجنۃ حقیقۃ بلاتاویل لاعلی نحوقولہﷺ اذامررتم بریاض الجنۃ فارتعوا……(
ترجمہ: عام طورپرکہاجاتاہے کہ امام بخاریؒ نے عنوان میں لفظ قبراوراورحدیث میں بیت کالفظ ذکرفرمایاہے میں(انورشاہ)کہتاہوںکہ حافظ ابن حجرؒ عسقلانی نے لفظ قبرکے ساتھ حدیث بھی ذکرکی ہے۔ نیزعالم تقدیرمیںانکی قبراپنے گھرمیں بننے والی تھی توانکاگھراوراورلفظ قبردونوں صحیح اوراس وقت اس میں عالم غیب کی خبریں ہیں(یعنی نبی علیہ السلام یہ پیشن گوئی فرمارہے ہیں کہ میراگھرمیری قبربنے گا…ازناقل)اورمیرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح تشریح یہی ہے کہ یہ ٹکڑاجنت میں سے ہے اورپھرجنت کی طرف اٹھالیا جائے گابس یہ حقیقت میں بغیرتاویل کے جنت کے باغوں میںسے ایک باغ ہے اذاامررتم …الخ کی طرح نہیں ہے۔
الشیخ ‘المحدث ‘شارح ابی دائود‘مناظرعلمائے دیوبند‘حضرت مولاناعلامہ خلیل احمدؒسہارن پوری ‘ صدرالمدرسین مظاہرالعلوم سہارن پورالمتوفی 1346ھ
علمائے دیوبندکی پہلی اجماعی دستاویزالتصدیقات لدفع التلبیسات المعروف بہ المہندعلی المفندمیںہے جس پر اس وقت کے جیدعلمائے دیوبندحضرت شیخ الہندمولانامحمودحسن ؒ ‘مولانااشرف علی تھانویؒ ‘ مولانامفتی کفایت اللہ دہلویؒ ‘ مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری ؒ ‘مولانامحمداحمدؒابن مولاناقاسم نانوتویؒ، مفتی اعظم دارالعلوم دیوبندمولانامفتی عزیزالرحمن ؒ کے تصدیقی دستخط ثبت ہیںمیںفرماتے ہیں۔
17):اوالبقاع ھوفضلھاالمختص بھاوھومع الذیادۃ موجودفی البقعۃ الشریفہ والرحبۃ المنیفۃ التی ضم اعضائہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل مطلقاًحتی من الکعبۃ ومن العرش والکرسی کماصرح بہ فقھائنارضی اللہ عنھم…
ترجمہ اورقبرمبارک کی یہ جگہ زیادہ فضیلت وبزرگی رکھتی ہے اس لیے کہ یہ جناب نبی کریمﷺ کے اعضاء مبارکہ کومس کیے ہوئے ہے یہ مقام علی الاطلاق سب مقامات سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبۃ اللہ اورعرش وکرسی پربھی اسکوفضیلت ودرجات حاصل ہیں چنانچہ ہمارے فقہاء کرام رحمھم اللہ نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے۔
دنیائے اسلام میں سب سے پہلے شیخ الحدیث کالقب پانے والے‘ پڑوسی ٔ رسولﷺ‘مکین ِ جنت البقیع‘ مصنف کتب فضائل واوجزالمسالک ‘حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریاکاندھلوی مہاجرمدنی شیخ الحدیث جامعہ مظاہرالعلوم سہارن پوری فرماتے ہیں :
18):ایک چیزیہ بھی قابل غورہے کہ باجماع امت قبراطہرکاوہ حصہ جوجسداطہرسے متصل ہے۔ کعبہ شریف بلکہ عرش معلی سے بھی افضل ہے (کیونکہ یہ جنت کاوہ حصہ ہے جس میں نبی کریمﷺ خودتشریف فرماہیں۔ بخلاف غیرہا۔ازناقل)
توکیایہ فضیلت صرف اس جسداطہرکی ہے جس کیساتھ کبھی روح مبارک تھی۔ اب نہیں ہے؟ اگرایساہوتاتوموئے مبارک جوبدن اطہرسے جداہوچکے ہیں ان کابھی یہی حال (حکم) ہوتا بلکہ لباس مبارک جوکبھی جسداطہرپرپڑچکاہے اسکابھی یہی حکم ہوتاوغیرہ وغیرہ (تویعنی دوسری اشیاء کے ساتھ روح مبارک کاتعلق نہ تھا تو ان کا حکم بھی یہ نہیں ہے تومعلوم ہوا کہ جسم اطہرکے ساتھ روح مبارک کاتعلق ہے (اسی تعلق کی وجہ سے نبی علیہ السلام اپنی قبرمبارک میں زندہ ہیں اوراسی تعلق ہی کی بنیادپرروضہ اقدس پرحاضرہونے والوں کاصلوٰۃ سلام خودسنتے ہیں) اسی لیے اسکاحکم یہ ہے کہ سب مقامات سے افضل ہے۔ … ازناقل)
صاحب ِ تفسیرعثمانی ‘ علامہ شبیراحمدعثمانی ؒ المتوفی1949 ء
19):قولہ مابین بیتی الخ ووقع فی حدیث سعدبن ابی وقاص عندالبزاربسندرجالہ ثقات وعندالطبرانی من حدیث ابن عمربلفظ القبر‘ قال القرطبی وکانہ بالمعنیٰ لانہٗ دفن فی بیت سکناہٗ فعلی ھذاالمرادبالبیت فی قولہ بیتی احدبیوتہٖ لاکلھاوھوبیت عائشہؓ الذی صارفیہ قبرہ… وان المرادانہ روضۃ حقیقۃ بان ینتقل ذلک الموضع بعینہ فی الاخرۃ الٰی الجنۃ ھذامحصل مااولہ العلماء فی ھذاالحدیث وقال فی المواہب ویحتمل الحقیقۃ بان یکون مااخبرعنہ ﷺ بانہ من الجنۃ مقتطعاًمنھاکماجاء فی الحجرالاسود……قلت والحق ان کونہ روضہ حقیقۃ بحیث ینتقل ذلک الموضع بعینہ فی الاخرۃ الٰی الجنۃ لایستلزم ترتب احکام الجنۃ وآثارھاعلیہ فی الحالۃ الراھنہ ۔
ترجمہ: امام بزارؒ نے حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ایک روایت جوقابل اعتماد رایوںسے مروی ہے نقل کی ہے جس میں لفظ بیت کی جگہ لفظ قبرموجودہے اور اس طرح امام طبرانی ؒنے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھماکی روایت ذکرکی ہے۔امام قرطبی ؒفرماتے ہیں لفظ بیت سے مرادنبی کریمﷺ کی وہ گھرہے جس میں آپ ﷺ دفن ہوتے ہیں نہ کہ ہرگھرمرادہے اوروہ بیت عائشہؓ ہے جس میں آپ ﷺ کی قبرمبارک بنی ہے۔ ……پس یہی مرادہے کہ یہ جگہ مبارک جنت ہی کاٹکڑاہے اورآخرت میں جنت ہی کی طرف دوبارہ منتقل کیاجائے گااوریہی بات حضرات محدثین کرام رحمھم اللہ کے اقوال کاخلاصہ ہے اورمواہب میںہے کہ یہ حدیث مبارک اس کااحتمال رکھتی ہے کہ یہ جنت کاٹکڑاہواجنت سے کٹاہواجس طرح حجراسودکے بارے میں آیاہے۔ …میں( شبیراحمدعثمانی ؒ) کہتا ہوںکہ یہی بات حق ہے کہ یہ ٹکڑاجنت کاہی ٹکڑاہے اورحقیقتاًقیامت میںجنت ہی کوجائے گااورفی الحال اس پرجنت کے احکام لاگونہیں ہوسکتے (کہ دخول کفارممکن نہ ہو…یہ اوربات ہے کہ وہاں کفارکاداخلہ ممنوع ہے اوریہی حق ہے …ازناقل )
محقق دوراں‘المحدث ‘الشیخ ‘العالم‘ حضرت مولاناحافظ احمدمکی ؒبن ضیاء الدین ؒفرماتے ہیں۔
20: عرش معلی‘مکہ مکرمہ سمیت روئے زمین کاکوئی حصہ آپﷺ کی تربت(روضہ مبارکہ)سے افضل نہیں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ , وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي " .
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری قبر (روضہ) اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔
|
اہل السنت کا مذہب :۔
روضۂ اقدس میں جہاں آپ رونق افروز ہیں اور جو مٹی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس کے نیچے ہے اس کی قدر اہل السنت کے مذہب میں عرش بریں سے بھی زیادہ ہے اس لئے کہ عرش خدا تعالیٰ کا مكان نہیں ہے کیونکہ وہ مكان سے وراء الوراء ہے اور جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آرام گاہ ہے وہی ریاض الجنۃ کہلاتا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں ہیں ،ورنہ اور مقامات کو بھی ایسا شرف حاصل ہونا چاہیئے
الإجماع على أن مكان جسد النبي صلى الله عليه وسلم أفضل من الکونين
اکابرین کے نزدیک اس بات میں تو اختلاف ہے کہ مکہ زیادہ افضل ہے یا مدینہ کیونکہ دونوں کی فضیلت اپنی جگہ احادیث میں آئی ہے لیکن یہ اختلاف روضۃ الرسول کے ٹکڑے کو مستثنی کرکے ہے کیونکہ اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ ٹکڑا دنیا کی ہر چیز سے افضل ہے حتی کہ عرش، کرسی، قلم، عرش تھامنے والے فرشتے اور کعبہ سے بھی اور اس پر کسی نے اختلاف نہیں کیا سوائے چند متاخرین کے۔ اور یہ مسئلہ جمہور میں متفق علیہ ہے۔ اسی طرح کی عبارات اکابرین اہلسنت سے منقول ہیں جو آپ عنقریب ملاحظہ کریں گے۔
امام سلفیت علامہ ابن القیم رحمت اللہ علیہ اور ابن عقیل حنبلی رحمت للہ علیہ کے نزدیک:
ابن القیم نے اپنی کتاب بدائع الفوائد میں لکھا
قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟
فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل ،
وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة
لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح
ترجمہ:"ابن عقیل حنبلی رحمتللہعلیہ نے کہا کہ سائل نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ افضل ہے یا کعبہ؟ جواب دیا اگر تمہارا ارادہ خالی حجرہ ہے تو تو پھر کعبہ افضل ہے اور اگر تمہاری مراد وہ ہے جو اس میں ہے [یعنی روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پر مدفون ہیں] تو پھر اللہ کی قسم نہ عرش افضل ہے نہ اس کے تھامنے والے فرشتے نہ جنت عدن اور نہ ہی پوری دنیا۔ اگر حجرے کا وزن جسد کے ساتھ کیا جائے تو وہ تمام کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بھی افضل ہوگا۔[بدائع الفوائد ج3 ص655]
ابن القیم نے اس کو عنوان ھل حجرۃ النبی افضل ام کعبه کے عنوان کے تحت لکھا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ابن القیم بھی اس کے قائل ہیں اور یہ لکھ کر رد نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کے منکر نہیں۔
قاضی عیاض ، علامہ خفاجی اور امام سبکی رحمتللہعلیہم کے نزدیک:
قاضی عیاض نے کتاب الشفا میں لکھا
ولا خلاف أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض
فعلَّق عليه الشيخ الخفَّاجي
بل أفضل من السموات والعرش والكعبة كما نقله السبكي رحمة الله
ترجمہ: اور اس کے خلاف کوئی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے اس پرعلامہ خفاجی رحمتللہعلیہ نے تعلیق لکھی کہ بلکہ [آپ کی قبر مبارک کی جگہ یا مٹی] آسمان، عرش، کعبہ سے بھی افضل ہے اور اس کے مثل امام سبکی رحمتللہعلیہ نے بھی نقل کیا۔[كتاب الشفا ج 2 ص 76 اور نسیم الریاض ج3 صفحہ 531]
علامہ حصفکی حنفی رحمت اللہ علیہ کے نزدیک:
علامہ حصفکی حنفی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
لا حرم للمدينة عندنا ومكة أفضل منها على الراجح
إلا ما ضم أعضاءه عليه الصلاة والسلام فإنه أفضل مطلقا حتى منالكعبة والعرش والكرسي .وزيارة قبره مندوبة , بل قيل واجبة لمن له سعة
ترجمہ: ہمارے نزدیک مدینہ سے بڑھ کر کوئی مقدس جگہ نہیں البتہ مکہ مدینے سے افضل ہے الا یہ کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء[ اس مٹی سے] مس ہوں تو مدینہ [کی مٹی ] بلکل افضل ہے حتی کہ کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی اور ہمارے نزدیک روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم مندوب ہے۔ بلکہ واجب ہے جس کی استطاعت ہو ۔[الدر المختار ج2 ص 689]
علامہ سخاوی رحمت اللہ علیہ کے نزدیک:
علامہ سخاوی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا:
مع الإجماع على أفضلية البقعة التي ضمته صلى الله عليه وسلم، حتى على الكعبة المفضلة على أصل المدينة، بل على العرش، فيما صرح به ابن عقيل من الحنابلة. ولا شك أن مواضع الأنبياء وأرواحهم أشرف مما سواها من الأرض والسماء، والقبر الشريف أفضلها،
وہ ٹکڑا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کے ساتھ ضم ہے اس کی افضلیت پر اجماع ہے حتی کہ اس کعبہ سے بھی افضل ہے جو اصل شہر مدینہ [سوائے اس حصے کے جہاں آنحضرت صلیللہعلیہسلم مدفون ہیں اس ] سے فضیلت میں زیادہ ہے۔ بلکہ عرش سے بھی زیادہ۔ اس کی تصریح علمائے حنابلہ میں سے ابن عقیل نے کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کی مقیم گاہیں اور روح اشرف ہیں زمین و آسمان کی تمام چیزوں سے۔اور ان کی قبریں بھی افضل ہیں ۔ [التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة السخاوي الصفحة : 12]
ملاعلی قاری رحمت اللہ علیہ کے نزدیک
ملا علی قاری رحمت اللہ علیہ نے کہا
أجمعوا على أنّ أفضل البلاد مكّة والمدينة زادهما الله شرفًا وتعظيمًا ، ثم اختلفوا بينهما أي في الفضل بينهما ، فقيل : مكة أفضل من المدينة ، وهو مذهب الأئمة الثلاثة وهو المرويُّ عن بعض الصحابة ، وقيل : المدينة أفضل من مكة ، وهو قول بعض المالكية ومن تبعهم من الشافعية ، وقيل بالتسوية بينهما۔۔۔
إلى أن قال والخلاف أي الاختلاف المذكور محصورٌ فيما عدا موضع القبر المقدس ، قال الجمهور : فما ضمّ أعضاءه الشريفة فهو أفضل بقاع الأرض بالإجماع حتى من الكعبة ومن العرش
اس بات پر تو اتفاق اور اجماع ہے کہ اللہ نے مکہ اور مدینہ کوافضل بنایا اور شرف و تعظیم سے مالا مال کیا ہے۔ لیکن پھر اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں زیادہ افضل کون ہے۔ بعض نے کہا مکہ مدینے سے افضل ہے اور یہ آئمہ ثلاثہ کا مذہب ہے اور بعض صحابہ سے مروی ہے۔ اور بعض نے کہا مدینہ مکے سے افضل ہے اور یہ قول ہے بعض مالکی اور شافعی علماء کا اور بعض نے کہا دونوں کے درمیان توازن ہے۔۔۔۔۔ پھر فرمایا لیکن یہ اختلاف قبر مبارک کو خارج بحث کرکے ہے کیونکہ جمہور نے فرمایا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء شریفہ ضم زمین ہیں وہ ٹکڑا اجماع کے مطابق تمام زمین سے افضل ہے حتی کہ کعبہ اور عرش سے بھی۔[المسلك المتقسط في المنسك المتوسط ص351 - ص352]
علامہ ابن عابدین حنفی، قاضی عیاض، ابن عقیل، علامہ تاج الدین فاکھی اور علامہ زکریا بن شرف نووی رحمت اللہ علیہم کے نزدیک:
ابن عابدین حنفی رحمت اللہ علیہ نے اس باب میں فرمایا کہ
والخلاف فيما عدا موضع القبر المقدس , فما ضم أعضاءه الشريفة فهو أفضل بقاع الأرض بالإجماع . قال شارحه : وكذا أي الخلاف في غير البيت : فإن الكعبة أفضل من المدينة ما عدا الضريح الأقدس وكذا الضريح أفضل من المسجد الحرام . وقد نقل القاضي عياضوغيره الإجماع على تفضيله حتى على الكعبة , وأن الخلاف فيما عداه . ونقل عن ابن عقيل الحنبلي أن تلك البقعة أفضل من العرش , وقد وافقه السادة البكريون على ذلك.وقد صرح التاج الفاكهي بتفضيل الأرض على السموات لحلوله صلى الله عليه وسلم بها , وحكاه بعضهم على الأكثرين لخلق الأنبياء منها ودفنهم فيها وقال النووي : الجمهور على تفضيل السماء على الأرض , فينبغي أن يستثنى منها مواضع ضم أعضاء الأنبياء للجمع بين أقوال العلماء
مکے اور مدینے میں افضلیت کی بحث قبر اقدس کو خارج از بحث رکھ کر ہے کیونکہ یہ اجماع سے ثابت ہے کہ جہاں آنحضرت کا جسد اطہر مس ہے وہ تمام زمین سے افضل ہے۔
شارح نے فرمایا کہ یہ اختلاف نبی کے آخری ٹھکانے کو چھوڑ کر ہے ۔ اسی لئے کعبہ مدینہ سے افضل ہے سوائے روضۃ الرسول صلیللہعلیہسلم کو چھوڑ کر اور اسی طرح روضۃ الرسول مسجد حرام سے زیادہ افضل ہے۔ تحقیق کہ قاضی عیاض مالکی نے اس کی افضلیت پر اجماع نقل کیا ہےحتی کہ کعبہ پر بھی اور جو اختلاف ہے وہ اس [ٹکڑائے زمین ] کو چھوڑ کر ہے ۔ اور انہوں نے ابن عقیل جنبلی رحمتللہعلیہ سے نقل کیا کہ وہ ٹکڑا [جہاں نبی صلیللہعلیہسلم مدفون ہیں ] عرش سے بھی افضل ہے اور جمہور اس پر متفق ہیں۔ اور علامہ تاج فاکھی نے تصریح کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمین میں مدفون ہونے سے زمین آسمان سے افضل ہے۔ اور بعض نے کثیر تعداد سے روایت کیا کہ تمام انبیاءاسی سے ہیں [یعنی مٹی سے بنے ہیں] اور اسی میں مدفون ہیں [لہذا زمین افضل ہے آسمان سے] لیکن علامہ نووی رحمتللہعلیہ نے جمہور سے روایت کیا ہے کہ آسمان زمین سے افضل ہے البتہ اس میں نبی صلیللہعلیہسلم کے مدفن کی استثناء ضرور ہے جیسا کہ جاننے والوں کے اقوال اس پر متفق ہیں۔[رد المختار ج 2 ص 688]
علامہ ابن حجر ہیتمی رحمت اللہ علیہ کے نزدیک:
علامہ ابن حجر ہیتمی رحمت اللہ علیہ نے لکھا
وهي كبقية الحرم أفضل الأرض عندنا وعند جمهور العلماء للأخبار الصحيحةالمصرحة بذلك وما عارضها بعضه ضعيف وبعضه موضوع كما بينته في الحاشية ومنه خبر { إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى } فهو موضوع اتفاقا ، وإنما صح ذلك منغير نزاع فيه في مكة إلا التربة التي ضمت أعضاءه الكريمة صلى الله عليه وسلم فهيأفضل إجماعا حتى من العرش
اور یہ کہ حرم کعبہ میرے اور اخبار صحیحہ صریحہ سے جمہور کے نزدیک تمام زمین سے افضل ہے اور جو چند دلیلیں اس کے معارض ہیں ان میں سے بعض ضعیف ہیں اور بعض موضوع مثلا حاشیہ میں جو دلیل ہے کہ إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى یہ بالاتفاق موضوع ہے ۔ لیکن اس طرح کی خبریں مکہ [کی فضیلت] کے بارے میں بلااختلاف درست ہیں سوائے اس مٹی کی فضیلت کہ جو نبی کریم صلیللہعلیہسلم کے اعضائے مقدسہ کے ساتھ مس ہے حتی کہ عرش سے بھی ۔ یہ فضیلت اجماع سے ثابت ہے[تحفة المحتاج ج 5 ص 167]
امام سلفیت قاضی شوکانی رحمت اللہ علیہ کے نزدیک:
قاضی شوکانی نے نیل الاوطار میں نقل کیا ہے
قال القاضى عياض ، إن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض
ان حوالوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ ٹکڑا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں وہ تمام اشیاء سے افضل ہے حتی کہ عرش اور کعبہ سے بھی اور جمہور کا اس پر اجماع ہے۔ اور جمہور کے اجماء کے مقابلے میں کسی کا تفرد کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ممکن ہے کہ کوئی بزرگ ایسا ہو جس کا عقیدہ اس کے برخلاف ہو لیکن اس مسئلے میں ہم اس بزرگ کو نہیں مانے گے کیونکہ جمہور کا اجماع ایک طرف ہے اور ان بزرگ کی شان میں گستاخی کئے بغیر یہ مانا جائے گا کہ ان سے اس مسئلے میں کوئی ذھول ہوگیا ہے اللہ ان کی خطا کو معاف فرمائے اور ان کو اچھی نیت کا ثواب عطا کرے۔
وهذه بعض أقوال علماء ديوبند في هذه المسألة
قال حكيم الأمة الإمام التهانوي في : (إمداد الفتاوى) له
( لمّا كا جسده الأطهر –r- محفوظاً في قبره اتفاقاً بين الموافقين والمخالفين , وهو فيه مع روحه كما ذكر , فظاهر –وقد صرح بذلك العلماء أيضاً- أنّ البقعة التي اتصل بها خصوص جسمه المبارك أفضل من العرش . لأن العرش إن الله تعالى ليس بجالس عليه ونعوذ بالله من ذلك فلو كان تعالى جالساً عليه لكان هذا أفضل من كلّ شيء ) . انتهى
وقال المحدّث مولانا شبّير عثماني في فتح الملهم
( نعم لو كان العرش مستوى الرحمن بمعنى أنّ ذاته قد حلّ به حلول المكين بالمكان تعالى الله عن ذلك وتقدّس , لقطعنا بأن العرش أفضل من سائر بقاع الأرض والسماء حتى ضريحه –r- , لظهور أن شرف المكان على قدر شرف المكين , ولكنّ الأمر ليس كذلك , والاستواء بالمعنى المذكور محال على الله تعالى) .انتهى
وقال الإمام أنور شاه الكشميري كما في معارف السنن لتلميذه البنّوري :
( اعلم أن تفضيل البقعة المباركة التي دفن فيها –r- فقد حكى القاضي عياض الإجماع على أنها أفضل بقاع الأرض كما هو في كتابه "الشفاء" في فصل فيما يلزم من دخل مسجد النبي –r- من الأدب , وحكاه قبله أبو الوليد الباجي وغيره , وبعده القرافي وغيره من المالكية , ثم حكاه ابن عساكر والسبكي الكبير والصغير والحافظ ابن حجر وغيرهم من الشافعية . ومثله ابن عقيل من قدماء الحنابلة , وحكاه ابن القيّم في الجزء الثالث من بدائع الفوائد ولم يردّه بل حكاه فائدة في كتابه . وكذلك يحكيه أرباب التأليف من الحنفية كالحافظ البدر العيني في العمدة في الجزء الثالث , وعلي القاري في "المرقاة" وصاحب "الدر المختار" وصاحب "رد المحتار" , وقال الخفاجي : وفي كلام شيخنا ابن القاسم ما يقتضي ما تقدّم أن البقعة التي ضمّت أعضاءه ثابت قبل دفنه فيها , وقبل موته , بل وقبل هجرته . نعم قد يقال : تفضيلها على الكعبة والعرش والكرسي إنما ثبت بعد دفنه فيها لشرفها به لا قبله ...) . باختصار .
وقال تلميذه العلامة المحدّث مولانا محمد يوسف البنوري في معارف السنن
(وإن شئت أن تستأنس في ذلك بدليل من السنّة فلاحظ إلى حديث رسول الله –r- "أن كل نفس تدفن في التربة التي خلقت منها" رواه الحاكم في مستدركه ) .انتهى
=====================================
غیر مقلدین جو کہ احناف دشمنی کی وجہ سے ہر وقت اہلسنت والجماعت دیوبند سے ہر وقت نالاں رہتے ہیں اور پروبگنڈے کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے احناف کو بدنام کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ خاص کر ان کے کچھ شیوخ عرب میں جاکر احناف دشمنی میں ریال کے عوض زہر اگل رہے ہیں ان میں سب سے زیادہ سامنے آنے والا نام توصیف الرحمان راشدی کا ہے جو اپنی جماعت میں فضیلۃ الشیخ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا آج تک کوئی علمی کام تو نظر سے نہیں گزرا البتہ کوئی عالم کسی بھی مسلک کا سوائے غیر مقلدین کے ایسا ہو جو اس کے وار سے بچ پایا ہو۔ ہمارے نزدیک توصیف صاحب یا تو خود کو سب سے بڑا عالم جانتے ہیں یا پھر شدید غلط فہمی پرہے۔ لہذا انہوں نے جس طرح دوسرے حضرات کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کافر کا فتوی لگایا انہی میں تبلیغی جماعت اور ان کے اکابرین بھی شامل ہیں۔ جن میں بالخصوص انہوں نے مولانا طارق جمیل صاحب حفظہللہ اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام قابل ذکر ہے۔
جب اس ملعون نے مولانا زکریا رحمتللہعلیہ کے خلاف پروپگنڈہ کے لئے ویڈیو بنائی تو اس میں ایک اعتراض یہ بھی کیا کہ مولانا نے اپنی تحریروں میں بعض جگہ روضۃ الرسول صلیللہعلیہسلم کو عرش سے افضل لکھا ہے اور یہ شرک ہے گمراہی ہے بدعت ہے اور قبر پرستی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اسی لئے ذیل میں ہم نے چند حوالے اکابرین اہلسنت والجماعت احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹکڑا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں وہ تمام کائنات سے افضل ہے اور اس پر اجماع امت ہے۔ تاکہ توصیف صاحب کے اس پروپگنڈے کا الم نشرح ہو اور لوگ توصیف صاحب کے سلفیت کے ڈھونگ سے واقف ہوجائیں اور دیکھ لیں کہ اجماع کیا کہتا ہے اور توصیف صاحب کی رائے کیا ہے اور اگر توصیف صاحب کی رائے کو مانا جائے تو تمام اکابرین مذاہب آئمہ بشمول قاضی شوکانی اور ابن القیم رحمت اللہ علیہما کافر، مشرک اور قبر پرست ہوجائے گے۔
اس پوسٹ کا جواب دینے والوں کے نام : جو اہلحدیث حضرات اس پوسٹ کا جواب دینے کی کوشش کریں ان سے درخواست ہے کہ جیسا کہ ان کا دعوی ہے کہ وہ قرآن اور حدیث کے سوا کچھ نہیں مانتے تو جوابا وہ قرآن یا حدیث سے ہے اس ٹکڑے کا تمام جہاں سے افضل نہ ہونا ثابت کریں۔ اور یاد رہے اس ضمن میں وہ احادیث پیش نہیں کی جائیں گی جس میں مکے کی افضلیت کا ذکر ہے کیونکہ اکابرین مع محدثین مثلا علامہ نووی اور قاضی شوکانی رحمت اللہ علیہما نے کہہ دیا کہ اس حدیث میں روضۃ الرسول کو خارج از بحث رکھ کر فضیلت بیان کی گئی ہے لہذا از خود اس حدیث سے جواب دینے والوں کا رد محدثین کی جماعت سے ثابت ہوگیا۔ اور اس پوسٹ سے جناب توصیف الرحمان صاحب راشدی کے دجل و فریب اور تعصب پسندی کا پردہ بھی چاک ہوا کہ جمہور کے اجماع والا عقیدہ رکھنے والوں کو کافر، بدعتی اور قبر پرست کہہ سستی شہرت اور دولت کمائی جارہی ہے۔ اور اس ضمن میں بے علم عوام کو جذباتی تقریروں اور احادیث کی من مانی تشریح کرکے گمراہ کیا جارہاہے۔ اللهم اعوذبك من ذلك
فضائلِ مدینہ ، مسجدِ نبوی و زیارتِ مدینہ دورانِ حج:؛
مدینہ منورہ اور اہل مدینہ کی فضیلت کیا ہے؟
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس شخص کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب الترغيب فی سکنی المدينة والصبر علی لاوائها، 2 : 1004، رقم : 1377)
اہل مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا ارادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص اس شہر والوں (یعنی اہل مدینہ) کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا ﷲ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب من أراد أهل المدينة بسوء أذا به اﷲ، 2 : 1007، رقم : 1386)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر دلنواز مدینہ منورہ کے رہنے والوں کا ادب و احترام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبه میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔
(ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3111)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَمُوتَ بِالْمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا ، فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوتُ بِهَا "[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْمَدِينَةِ ... رقم الحديث: 3882]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علی
وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں ﷲ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا۔
(ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3112)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
(بخاری، الصحيح، کتاب التطوع، باب فضل الصلاة فی مسجد مکة والمدينة، 1 : 398، رقم : 21133
مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجد مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394)
’’میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
صَلَاتُهُ فِيْ مَسْجِدِی بِخَمْسِيْنَ أَلْفِ صَلَاةً.
(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی الصلاة فی المسجد الجامع، 2 : 191، رقم : 1413)
’’جس نے میری مسجد (مسجد نبوی) میں ایک نماز پڑھی اسے پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ صَلَّى فِي مَسْجِدِي أَرْبَعِينَ صَلَاةً لَا يَفُوتُهُ صَلَاةٌ كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَةٌ مِنْ النَّارِ وَنَجَاةٌ مِنْ الْعَذَابِ وَبَرِئَ مِنْ النِّفَاقِ.(مسند احمد:12605)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فَإِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجدی مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394)
’’بیشک میں آخر الانبیاء ہوں اور میری مسجد آخر المساجد۔‘‘
حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَنَا خَاتِمُ الْاَنْبِياءِ وَمَسْجِدِي خَاتِمُ مَسَاجِدِ الْاَنْبِيَاءِ.
(ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 45، رقم : 112)
’’میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کرام کی مساجد کی خاتم ہے۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَلَّی فِی مَسْجِدِی أَرْبَعِيْنَ صَلٰوةً، لَا يَفُوْتُهُ صَلٰوةٌ کُتِبَتْ لَه بَرَاءَ ةٌ مِنَ النَّارِ، وَنَجَاةٌ مِنَ الْعَذَابِ وَبَرِيئَ مِنَ الْنَفَاقِ.
(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 12590
سمهودی، وفاء الوفا، 1 : 77)
’’جس نے مسجد نبوی میں چالیس نمازیں متواتر ادا کیں اس کے لئے جہنم، عذاب اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔‘‘
اگر کوئی حج کو جائے اور روضۂ اطہر کی زیارت کے بغیر واپس آجائے تو اس کا حج ہوگا یا نہیں؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر کی زیارت کے بغیر جو شخص واپس آجائے، حج تو اس کا ادا ہوگیا، لیکن اس نے بے مروّتی سے کام لیا اور زیارت شریفہ کی برکت سے محروم رہا۔ یوں کہہ لیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر کی زیارت کے لئے جانا ایک مستقل عملِ مندوب ہے، جو حج کے اعمال میں تو داخل نہیں مگر جو شخص حج پر جائے اس کے لئے یہ سعادت حاصل کرنا آسان ہے، اس لئے حدیث میں فرمایا:"من حج البیت ولم یزرنی فقد جفانی۔جس شخص نے بیت اللہ شریف کا حج کیا اور میری زیارت کو نہ آیا، اس نے مجھ سے بے مروّتی کی"۔
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۴/۱۵۱، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
قبرِ نبویؐ کے بت پرستی کا اندیشہ
حضرت عطاء ابن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یعنی یہ دعا فرمائی) اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَنًا یُعْبَدُ یعنی : اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کی عبادت کرنے لگیں۔ (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جن لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب (نازل) ہوا۔"
|
تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار ! تو میری قبر کو اس معاملے میں بتوں کی مانند نہ کر کہ میری امت کے لوگ میری قبر کی خلاف شرع تعطیم کرنے لگیں یا باربار زیارت کے لئے میلے کے طور آنے لگیں، یا میری قبر کو سجدہ گاہ قرار دے کر اپنی پیشانیوں کو جو صرف تیری ہی چوکھٹ پر جھکنے کی سزا وار ہے اس پر جھکانے لگیں اور سجدے کرنے لگیں۔
اس حدیث کو اور اس دعا کو بار بار پڑھیے اور ذرا آج کے حالات پر اس کو منطبق کیجئے پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا تعلق آنے والے زمانے سے تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عرفانی نگاہوں نے اس وقت دیکھ لیا تھا کہ وہ وقت آنے والا ہے۔ کہ جب کہ میری قبر تو الگ رہی اولیاء اللہ کے مزارات پر سجدہ ریزی ہوگی مقبروں پر میلے لگیں گے وہاں عرس قوالیاں ہوں گی، قبروں پر چادریں اور پھولوں کا چڑھاوا چڑھے گا۔ غرض کہ جس طرح ایک بت پرست قوم اللہ کی عبادت و فرمانبرداری سے سرکشی اور تمرد اختیار کر کے بتوں کے ساتھ معاملہ کرتی ہے میری امت کے بد قسمت اور بد نصیب لوگ جو میرے نام کے شیدائی کہلائیں گے، میرے محبت سے سر شاری کا دعوی کریں گے۔ میری لائی ہوئی پاک و صاف شریعت کی آڑ میں میرے دین کے نام پر وہی معاملہ قبروں کے ساتھ کریں گے لہٰذا آپ نے دعا فرمائی کہ اے پروردگار ! تو میری امت کو ایسی گمراہی میں مبتلا نہ کیجئے کہ وہ میری قبر کو پوجنے لگیں۔
جملہ اشتد غضب الخ کا تعلق دعا سے نہیں ہے بلکہ یہ جملہ مستانفہ یعنی ایک الگ جملہ ہے گویا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کر رہے ہیں تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اشتد الخ یعنی میں اپنی امت پر انتہائی شفقت و مہربانی کے لئے یہ دعا کر رہا ہوں کہ مبادا یہ بھی اس لعنت میں مبتلا نہ ہو جائیں جس طرح کہ یہود وغیرہ اس لعنت میں مبتلا ہو کر اللہ ذوالجلال کے غضب میں گرفتار ہوئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں اور میری قبر کو عید (میلہ وجشن منانے کی جگہ) مت بنانا بلکہ مجھ پر درود بھیجنا تم جہاں بھی ہو گے وہیں سے تمہارا درود مجھ تک پہنچا دیا جائے گا۔
[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 277 (16895)- مناسک حج کا بیان : قبروں کی زیارت کا بیان]
|
تشریح: حدیث کے پہلے جزء کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اول یہ کہ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح نہ سمجھ لو کہ جس طرح مردے اپنی قبر میں پڑے رہتے ہیں تم بھی اپنے گھروں میں مردوں کی طرح پڑے رہو ان میں نہ عبادت کرو اور نہ کچھ نمازیں پڑھو بلکہ اسی طرح گھروں میں بھی عبادت کرو اور کچھ نمازیں پڑھو تا کہ اس کے انوار و برکات گھر اور گھر والوں کو پہنچیں اور اس کی شکل یہ ہونی چاہئے کہ فرض نمازیں تو مساجد میں ادا کرو اور سنن و نوافل اپنے گھر آکر پڑھو کیونکہ نوافل مساجد کی بہ نسبت گھر میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔
دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ۔ اپنے گھروں میں مردے دفن نہ کرو۔ اس موقعہ پر یہ اشکال پیدا نہ کیجئے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے گھر ہی زیر زمین آرام فرما ہیں۔ کیونکہ یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کو ایسا نہ کرنا چاہئے۔
تیسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ قبروں کو سکونت کی جگہ قرار نہ دو جیسا کہ آجکل اولیاء اللہ کے مزارات اور قبرستانوں پر ان کے خدام مجاوروں نے سکونت اختیار کر رکھی ہے، تاکہ دل کی نرمی اور طبیعت و مزاج کی شفقت و رحمت ختم نہ ہو جائے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ قبروں کی زیارت کر کے اور ان پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس آجاؤ۔
حدیث کے دوسرے جزء" میری قبر کو عید (کی طرح) قرار نہ دو " کا مطلب یہ ہے کہ میری قبر کو عید گاہ کی طرح نہ سمجھو کہ وہاں جمع ہو کر زیب و زینت اور لہو و لعب کے ساتھ خوشیاں مناؤ اور اس سے لطف و سرور حاصل کرو۔ جیسا کہ یہود و نصاری اپنے انبیاء کی قروں پر اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔
حدیث کے اس جزء سے آج کل کے ان نام نہاد ملاؤں اور بدھ پرستوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے اولیا اللہ کے مزارات کو اپنی نفسانی خواہشات اور دنیاوی اغراض کا منبع و مرجع بنا رکھا ہے اور ان مقدس بزرگوں کے مزارات پر عرس کے نام سے دنیا کی وہ خرافات اور ہنگامہ آرائیاں کرتے ہیں جن پر کفر و شرک بھی خندہ زن ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان کے حوالے مانڈوں نذر و نیاز اور لذت پیٹ و دہن نے ان کی عقل پر نفس پرستی اور ہوس کاریوں کے وہ موٹے پردے چڑھا دیئے ہیں جن کی موجودگی میں نہ انہیں نعوذ باللہ قرآنی احکام کی ضرورت ہے اور نہ انہیں کسی حدیث کی حاجت۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین
بعض علماء نے اس جزء کی تشریح یہ کی ہے عید کی طرح سال میں صرف ایک دو مرتبہ ہی میری قبر کی زیارت کے لئے نہ آیا کرو بلکہ اکثر و بیشتر حاضر ہوا کرو۔ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر کی زیادہ سے زیادہ زیارت اور اس محیط علم و عرفان اور منبع امن و سکون پر اکثر و بیشتر حاضری پر امت کے لوگوں کو ترغیب دلائی ہے۔
حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجو، اگر کوئی آدمی میرے روضے سے دور ہے اور بعد مسافت اختیار کئے ہوئے ہے تو اس کو اس کا خیال نہ کرنا چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا ہی مجھ پر درود بھیجتا رہے کیونکہ جہاں سے بھی درود بھیجا جائے گا میرے پاس پہنچ جائے گا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشتاقان زیارت کی جنہیں روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت حاصل نہیں ہو سکی۔ تسلی فرمائی ہے کہ اگرچہ مجبوریوں کی بنا پر تم مجھ سے دور ہو لیکن تمہیں چاہئے کہ توجہ اور حضور قلب سے غافل نہ رہو کہ
قرب جانے چوں بود بعد کانے سہل ست
[سنن أبي داود » كِتَاب النِّكَاحِ » بَاب فِي حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرْأَةِ ... رقم الحديث: 1831]
حضرت قیس بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حیرہ میں آیا (حیرہ کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے) تو میں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ اپنے سردار کو (تعظیم کے طور پر) سجدہ کرتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ ان کے مقابلہ میں تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (تعظیماً) سجدہ کیا جائے۔ پھر جب میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے کہا۔ میں حیرہ گیا تھا اور میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے مقابلہ میں اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا بھلا کیا تو جب میری قبر پر آئے گا تو سجدہ کرے گا؟ میں نے کہا نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ (تو پھر زندگی میں بھی کسی کو سجدہ نہ کرو) (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا) اگر میں کسی کے لئے سجدہ کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں۔ اس حق کی بنا پر جو اللہ تعالیٰ نے ان پر مقرر کیا ہے۔
[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 376 (16994) - نکاح کا بیان : عورت پر شوہر کا حق کیا ہے]
مومن کی عظمت
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘
- طبراني، مسند الشاميين، 2: 396، رقم: 1568
- منذري، الترغيب والترهيب، 3: 201، رقم: 3679
Masha Allah ...
ReplyDelete