یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
ہر قول اور فعل ، دعا اور پکار ، ثنا اور تعظیم ، رکوع اور سجود ، قیام اور قعود وغیرہ جو اس اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو کہ معبود کو مافوق الاسباب ہمارے تمام معاملات پر غیبی قبضہ اور تسلط حاصل ہے، اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے، وہ عبادت ہے. چنانچہ علامہ ابن القیم رح نے عبادت کی تعریف کو ایک جامع تعبیر سے حسب ذیل عبارت میں بیان فرمایا ہے:
العبادة عبارة عن الإعتقاد والشعور بأن للمعبود سلطة غيبية في العلم والتصرف فوق الأسباب يقدر بها على النفع والضر. فكل دعاء وثناء وتعظيم ينشأ من هذه الإعتقاد فهو عبادة.
عبادت اس اعتقاد اور شعور کا نام ہے کہ معبود کو ایک غیبی تسلط حاصل ہے، جس کی وجہ سے وہ نفع نقصان پر قادر ہے، اس لئے ہر تعریف، ہر پکار اور ہر تعظیم جو اس مذکورہ اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو وہ عبادت ہے.
An expression of the belief and perception that the diety has an unseen authority (control, power) in knowledge and control (of the affairs) above the (created) ways and means (asbaab) through which He has power of benefit and harm. So every invocation (du'a), praise and veneration that emanates from this belief is considered ibaadah (worship).
سو تو جان لے کہ کسی کی بندگی نہیں سوائے اللہ کے
اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اور ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے [۳۰] اور اللہ کو معلوم ہے بازگشت تمہاری اور گھر تمہارا
[۳۱]
یعنی
جتنے پردوں میں پھرو گے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچو گے جو تمہار اصلی گھر ہے۔
ہر
ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ
کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدود ءجواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات
مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ { حَسَنَاتُ الْابْرَارِ سَیِّئَاتُ
الْمُقَرَّبِیْنَ } کے یہ ہی معنی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ دن
میں سو بار استغفار فرماتے تھے (تنبیہ) { فَاعْلَمْ اَنَّہٗ
لَااِلٰہَ اِلَّا للہُ } الخ کا خطاب ہر ایک مخاطب کو ہے۔ اور اگر خاص نبی کریم ﷺ
مخاطب ہوں تو مطلب یہ ہے کہ اس علم پر برابر جمے رہیئے۔ اور استغفار کرتے رہے۔ اور
{ فَاعْلَمْ } کی تفریع ماقبل پر اس طرح ہے کہ قیامت آنے کے بعد کسی کو ایمان و
توبہ وغیرہ نافع نہیں تو آدمی کو چاہئے کہ اس کے آنے سے قبل صحیح معرفت حاصل
کرے۔ اور ایمان و استغفار کے طریق پر مستقیم رہے۔
اور (عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر (ہو کر جائیں گے اور کہیں گے) کہ میں تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بشکل پرند بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے (سچ مچ) جانور ہو جاتا ہے اور اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں اور اللہ کے حکم سے مردے میں جان ڈال دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو ان باتوں میں تمہارے لیے (قدرت خدا کی) نشانی ہے.
امام بغوی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
حضرت عیسیٰ نے چمگاڈر بنائی تھی ، چمگاڈر کی خصوصیت کی وجہ یہ تھی کہ تخلیق (اور ساخت) کے لحاظ سے چمگاڈر سب سب پرندوں سے زیادہ کامل ہے ، اس کے پستان بھی ہوتے ہیں اور دانت بھی اور اس کو حیض بھی آتا ہے. حضرت وھب نے بیان کیا : وہ پرندہ جب تک لوگوں کی نظروں کے سامنے ہوتا تھا اڑتا رہتا تھا اور آنکھوں سے غائب ہوتے ہی گر کر مرجاتا تھا. ایسا صرف اس لئے ہوتا تھا کہ براہ راست خدائی تخلیق اور بندہ کی وساطت سے تخلیق میں فرق واضح ہوجاۓ.
محض شکل و صورت بنانے کو "خلق" سے تعبیر کرنا صرف ظاہری حیثیت سے ہے۔ جیسے حدیث صحیح میں معمولی تصویر بنانے کو "خلق" سے تعبیر فرمایا:
[أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ (البخاري:5526)]
یا الله کو
[اَحْسَنُ الْخَالِقِیْن (القرآن:37/125)]
فرما کر بتلا دیا کہ محض ظاہری صورت کے لحاظ سے غیر اللہ پر بھی یہ لفظ بولا جا سکتا ہے۔ اگرچہ حقیقت تخلیق کے لحاظ سے حق تعالیٰ کے سوا کوئی "خالق" نہیں کہلا سکتا۔ شاید اسی لئے یہاں یوں نہ فرمای
{ انی اخلق لکم من الطین طیراً }
(میں مٹی سے پرندہ بنا دیتا ہوں)
یوں کہا کہ میں مٹی سے پرندہ کی شکل بنا کر اس میں پھونک مارتا ہوں، پھر وہ پرندہ اللہ کے حکم سے بن جاتا ہے۔ بہرحال یہ معجزہ آپ نے دکھلایا اور کہتے ہیں بچپن میں ہی بطور "اِرہاص" آپ سے یہ خرق عادت ظاہر ہوا۔ تاکہ تہمت لگانے والوں کو ایک چھوٹا سا نمونہ قدرت خداوندی کا دکھلا دیں کہ جب میرے نفخہ (پھونکنے) پر الله تعالیٰ مٹی کی بےجان صورت کو جاندار بنا دیتا ہے، اسی طرح اگر اس نے بدن مس بشر محض روح القدس کے نفخہ سے ایک برگزیدہ عورت کے پانی پر روح عیسوی فائز کردی تو کیا تعجب ہے۔ بلکہ حضرت مسیحؑ چونکہ نفخہ جبرئیلیہ سے پیدا ہوئے ہیں اس مسیحائی نفخہ کو اسی نوعیت ولادت کا ایک اثر سمجھنا چاہئے۔
اگر صفت خلقت میں کوئی اس کا شریک ہوتا تو الله یہ نہ فرماتا:
القرآن:
أَيُشرِكونَ ما لا يَخلُقُ شَيـًٔا وَهُم يُخلَقونَ {7:191}
کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کیے جاتے ہیں۔
وجود کی دو صورتیں ہیں:
(1)ہر تخلیق کا خالق ضروری ہے۔ پس اگر وہ خالق کا انکار کرتے ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ خود بغیر خالق کے پائے جائیں۔ (2)یا خود کو خود پیدا کیا جائے، اور یہ سخت ترین باطل(جھوٹی بات) ہے۔ اس لئے کہ جس چیز کا خود وجود نہ تھا وہ کیسے پیدا کرسکتی ہے۔ پس جب دونوں صورتیں باطل ہوگئیں تو ان پر حجت قائم ہوگئی کہ ان کا خالق ہے۔ پس چاہیے کہ وہ اس پر ایمان لے آئیں۔ کہ کیا وہ باطل(فضول) پیدا گئے ہیں کہ نہ ان کا محاسبہ نہ ہوگا اور نہ ان کو حکم دیا جائے گا؟
(ان سے) پوچھو کہ بھلا تمھارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے کہ مخلوق کو ابتداً پیدا کرے (اور) پھر اس کو دوبارہ بنائے؟ کہہ دو کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا تو تم کہاں اُکسے جارہے ہو.
یعنی جب اعتراف کر چکے کہ زمین ، آسمان ، سمع و بصر موت و حیات سب کا پیدا کرنے والا اور تھامنے والا وہ ہی ہے تو ظاہر ہے کہ مخلوق کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا اور دہرا دینا بھی اسی کا فعل ہو سکتا ہے۔ پھر انبیاء علیہم السلام کی زبانی جب وہ خود اس دہرانے کی خبر دیتا ہے تو اس کی تسلیم میں کیا عذر ہے۔ ''مبداء'' کا اقرار کر کے ''معاد'' کی طرف سے کہاں پلٹے جاتے ہو۔
ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ (تم ہی ان کی طرف سے) کہہ دو کہ اللہ۔ پھر (ان سے) کہو کہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو کیوں کارساز بنایا ہے جو خود اپنے نفع ونقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے (یہ بھی) پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ یا اندھیرا اور اُجالا برابر ہوسکتا ہے؟ بھلا ان لوگوں نے جن کو اللہ کا شریک مقرر کیا ہے۔ کیا انہوں نے اللہ کی سی مخلوقات پیدا کی ہے جس کے سبب ان کو مخلوقات مشتبہ ہوگئی ہے۔ کہہ دو کہ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ یکتا (اور) زبردست ہے
اور (لوگوں نے) اس کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑے ہونا
بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا۔ پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے اور (کون) تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں) کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو
بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اُگائے۔ تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم اُن کے درختوں کو اگاتے۔ تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہو رہے ہیں
وَرَبُّكَ يَخلُقُ ما يَشاءُ وَيَختارُ ۗ ما كانَ لَهُمُ الخِيَرَةُ ۚ سُبحٰنَ اللَّهِ وَتَعٰلىٰ عَمّا يُشرِكونَ {28:68}
اور تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) برگزیدہ کرلیتا ہے۔ ان کو اس کا اختیار نہیں ہے۔ یہ جو شرک کرتے ہیں اللہ اس سے پاک وبالاتر ہے
اللہ ہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو رزق دیا پھر تمہیں مارے گا۔ پھر زندہ کرے گا۔ بھلا تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ کر سکے۔ وہ پاک ہے اور (اس کی شان) ان کے شریکوں سے بلند ہے
بھلا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو۔ مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین سے کون سی چیز پیدا کی ہے یا (بتاؤ کہ) آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ یا ہم نے ان کو کتاب دی ہے تو وہ اس کی سند رکھتے ہیں (ان میں سے کوئی بات بھی نہیں) بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے
لوگو اللہ کے جو تم پر احسانات ہیں ان کو یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق (اور رازق ہے) جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟
بھلا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین سے کون سی چیز پیدا کی ہے یا (بتاؤ کہ) آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ یا ہم نے ان کو کتاب دی ہے تو وہ اس کی سند رکھتے ہیں (ان میں سے کوئی بات بھی نہیں) بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے
کہو کہ بھلا تم نے ان چیزوں کو دیکھا ہے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو (ذرا) مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے۔ یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ اگر سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب میرے پاس لاؤ۔ یا علم (انبیاء میں) سے کچھ (منقول) چلا آتا ہو (تو اسے پیش کرو)
اور اگر اُن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا۔ اور سورج اور چاند کو کس نے (تمہارے) زیر فرمان کیا تو کہہ دیں گے اللہ نے۔ تو پھر یہ کہاں اُلٹے جا رہے ہیں
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں کہ اللہ نے۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر
اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ اُن کی طرف (مائل ہوکر) آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی جو لوگ غور کرتے ہیں اُن کے لئے ان باتوں میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا۔ اہلِ دانش کے لیے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
اور رات اور دن اور سورج اور چاند اس کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تم لوگ نہ تو سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو۔ بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے اگر تم کو اس کی عبادت منظور ہے
مریم نے کہا پروردگار میرے ہاں بچہ کیونکر ہوگا کہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک تو لگایا نہیں فرمایا کہ اللہ اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے
لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔ اور اللہ سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت بر آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (ہے)۔ اس کے اولاد کہاں سے ہو جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا سب اس کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی (اسی کا ہے)۔ یہ اللہ رب العالمین بڑی برکت والا ہے
وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب معلوم کرو۔ یہ (سب کچھ) اللہ نے تدبیر سے پیدا کیا ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے وہ اپنی آیاتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے
لوگو اگر تم کو مرنے کے بعد جی اُٹھنے میں کچھ شک ہو تو ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا تھا (یعنی ابتدا میں) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر۔ پھر اس سے خون کا لوتھڑا بنا کر۔ پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی تاکہ تم پر (اپنی خالقیت) ظاہر کردیں۔ اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک میعاد مقرر تک پیٹ میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ہیں۔ پھر تم جوانی کو پہنچتے ہو۔ اور بعض (قبل از پیری مرجاتے ہیں اور بعض شیخ فالی ہوجاتے اور بڑھاپے کی) نہایت خراب عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے کے بعد بالکل بےعلم ہوجاتے ہیں۔ اور (اے دیکھنے والے) تو دیکھتا ہے (کہ ایک وقت میں) زمین خشک (پڑی ہوتی ہے) پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو شاداب ہوجاتی اور ابھرنے لگتی ہے اور طرح طرح کی بارونق چیزیں اُگاتی ہے
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا۔ تو اللہ جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے
اور اللہ ہی نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ تو اس میں بعضے ایسے ہیں کہ پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، بےشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے
وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا
جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا وہ (جس کا نام) رحمٰن (یعنی بڑا مہربان ہے) تو اس کا حال کسی باخبر سے دریافت کرلو
کیا اُنہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا۔ کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اُن کو حکمت سے اور ایک وقت مقرر تک کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں
اُسی نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر پیدا کیا جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور زمین پر پہاڑ (بنا کر) رکھ دیئے تاکہ تم کو ہلا ہلا نہ دے اور اس میں ہر طرح کے جانور پھیلا دیئے۔ اور ہم ہی نے آسمانوں سے پانی نازل کیا پھر (اُس سے) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اُگائیں
بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ (ان کو پھر) ویسے ہی پیدا کر دے۔ کیوں نہیں۔ اور وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے
٢٩) وَاللَّهُ خَلَقَكُم وَما تَعمَلونَ {37:96}
حالانکہ تم کو اور جو تم بناتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے
جو عاد تھے وہ ناحق ملک میں غرور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے؟ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس نے ان کو پیدا کیا وہ ان سے قوت میں بہت بڑھ کر ہے۔ اور وہ ہماری آیتوں سے انکار کرتے رہے
اور وہ اپنے چمڑوں (یعنی اعضا) سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی؟ وہ کہیں گے کہ جس اللہ نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے
کیا انہوں نے نہیں سمجھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں۔ وہ اس (بات) پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے۔ ہاں ہاں وہ ہر چیز پر قادر ہے