Friday, 24 April 2015

دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے کے دلائل

دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنّت ہے، اسے بدعت کہنا بہت بڑی جہالت اور گمراہی ہے. امام بخاری رح نے صحیح بخاری (2/926) میں اس مسئلہ کے لیے دو باب قائم کیے ہیں: (1) باب المصافح ، (2) باب الأخذ باليدين. پہلے باب میں امام بخاری نے صرف یہ بتایا ہے کہ مصافحہ سنّت ہے:


دلیل # ١:

وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ عَلَّمَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ وَکَفِّي بَيْنَ کَفَّيْهِ وَقَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِكٍ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا بِرَسُولِ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ إِلَيَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ يُهَرْوِلُ حَتّٰى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي۔

مصافحہ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد سکھلایا تو اس وقت میری دونوں ہتھیلیاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان تھیں، اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر بڑی تیزی سے میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور (توبہ قبول ہونے پر) مجھے مبارکباد دی۔

اشکال: اس میں تو تعلیم کے وقت مصافحہ کا ذکر ہے ، اس سے ملاقات کے وقت مصافحہ  ثابت کرنا  جہالت و ظلم ہے .
جواب: درج ذیل حضرات محدثین  کرام رحمہم الله علیھم  نے اس حدیث سے مطلق مصافحہ کو ثابت کیا ہے ،  وقت  ملاقات کے وقت.
(١) حضرت امام بخاری رحمہ الله  نے ، کیونکہ انھیں اس حدیث کو  "باب المصافح " اور "باب الأخذ باليدين" میں لاکر مصافحہ اور وہ بھی دونوں ہاتھوں سے کرنے پر استدلال کیا ہے.
(٢) جبل الحدیث حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله 
(٣) علامہ قسطلانی 
(٤) شارح بخاری حافظ عینی رحمہ الله 
یہ حضرت محدثین  بخاری کی شرح لکھنے والے ہیں، ان سب نے اس مقام پر امام بخاری رحمہ الله کے استدلال کو تسلیم کیا ہے. ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ  نہیں لکھا  کہ یہ مصافحہ تعلیم کے وقت کا ہے، اس سے مطلق مصافحہ کو ثابت کرنا غلط اور امام بخاری کی خطا ہے.
قرائین  کرام ! کیا یہ چاروں محدثین ظالم اور جاہل ہے؟(نعوذ بالله من ذالك)
تنبیہ: لا مذہبوں (غیر مقلدین) میں ہمّت ہے تو اجلہ اور نامور محدثین میں سے  صرف دو (٢) کا حوالہ پیش کریں جنہوں نے اس استدلال کو  غلط قرار دیکر اسے ظلم و جہالت کہا ہو، جیسے ہم نے دو نہیں پانچ عادل اور نامور  محدثین سے اس کو ثابت کیا ہے .

اشکال : مولوی عبد الحی لکھنوی رحمہ الله تو فرماتے ہیں کہ اس سے وہ مصافحہ جو ملاقات کے وقت کیا جاتا ہے مراد نہیں.(مجموع الفتاویٰ)
جواب: اس کے دو جواب ہیں (١)  محدثین کا ہم نے نام لیا ہے یہ ان کے ہم پلہ نہیں ، لہذا ان کے فہم و سمجھ کے مقابلے میں ان کی سمجھ کا اعتبار نہیں.
(٢) علامہ لکھنوی رحمہ الله کی عبارت تمہارے لیے کچھ  مفید نہیں  کیونکہ مولانا فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو مصافحہ ہے وہ تعلیم کے وقت کا مصافحہ ہے ملاقات کے وقت کا مصافحہ نہیں، اور یہ بات صحیح ہے اور سب مانتے ہیں کہ تشہد کی تعلیم کے وقت یہ مصافحہ تھا. اس کا کوئی منکر نہیں اور نہ اس میں اختلاف ہے. محل اختلاف تو یہ ہے کہ اس مصافحہ تعلیمیہ سے مطلق اور بوقت  ملاقات مصافحہ پر استدلال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ علامہ لکھنوی رحمہ الله نے اس استدلال کا انکار نہیں کیا، لہذا ان کا قول ہمارے خلاف عقل و دانش سے عاری اور بصیرت کا دشمن ہی پیش کرسکتا ہے.
(٣) غیر مقلد عالم ، علامہ ابو الحسن سیالکوٹی اپنی کتاب "فیض الباری:٢٥/٢٢٥"پر امام نووی رحمہ الله کا قول نقل کرتے ہیں کہ: مصافحہ سنّت ہے بالاجما ع  وقت ملاقات کے .

اشکال: اس سے اگر ملاقات کے وقت کا  مصافحہ تسلیم کرلیا جاۓ  تو اس سے تین ہاتھوں کا مصافحہ ثابت ہوگا ، ایک کے دو ہاتھ اور دوسرے کا ایک ہاتھ جبکہ تم چار ہاتھوں کے مصافحہ کو ثابت کرتے ہو.
جواب:
اس کے کئی جواب ہیں: (١) کسی حدیث میں حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کے دوسرے ہاتھ کی نفی نہیں ، کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دو ہاتھ تھے اور ان کا ایک ہاتھ تھا اور ایک نہ تھا.
(٢) یہ کہنا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم  کے دو ہاتھ تھے اور ابن مسعود  رضی الله عنہ  کا ایک ہاتھ تھا،عقل و درایت اور محبت (ادب)رسول صلی الله علیہ وسلم  کے خلاف ہے کیونکہ کس کا  کہ آپ صلی الله علیہ وسلم  نے مصافحہ کے لیے دونوں ہاتھ بڑھاۓ اور حضرت ابن مسعود رضرضی الله عنہ نے ایک ہاتھ بڑھایا ہو،عرف اور عادت الناس اس پر شاہد ہے کہ ہمیشہ سے جب بھی چھوٹا بڑے کو کچھ پکڑاتا ہے تو دونوں ہاتھ سے ادب سمجھ کر پکڑاتا ہے اور جب مصافحہ کرتا ہے تو دونوں ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کرنے کو ادب و احترام سمجھتا ہے.حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ  سے ہرگز ہرگز یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے ادب و احترام کے راستے کو چھوڑکر صرف ایک ہاتھ دیا ہو.
(٣) اس حدیث میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم  کے دونوں ہتھیلیوں کا ذکر صراحتاً
ہے اور حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ  سے دونوں ہتھلیوں کا کا ذکر دلالتاً ہے . تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب آدمی دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتا ہے تو ایک ہاتھ کے دونوں طرف دوسرے کی ہتھیلیاں لگتی ہیں ، حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ  اپنے اپنے ایک ہاتھ کی یہ خوبی بیان فرما رہے ہیں کہ میرے اس ہاتھ کے دونوں طرف رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم  کی مبارک ہتھیلیاں لگتی تھیں. ان کا مقصد "کَفِّي بَيْنَ کَفَّيْهِ" سے اپنے اس ہاتھ کی یہ خوبی بیان کرنا ہے ، اپنے دوسرے ہاتھ کی نفی بیان کرنا نہیں یعنی ان کا مقصد یہ بیان کرنا نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم  نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا اور میں نے ایک ہاتھ سے کیا، اور دوسرے ہاتھ کو الگ دور رکھا تھا.






دلیل #٢:
صحیح بخاری۔ جلد:۲/ پچیسواں پارہ/ حدیث نمبر:۵۸۵۱/ حدیث مرفوع

۵۸۵۱۔ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسٍ أَکَانَتِ الْمُصَافَحَةُ فِي أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ۔

۵۸۵۱۔ عمرو بن عاصم، ہمام، قتادہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں مصافحہ کا رواج تھا؟ انہوں کہا: ہاں!
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1أكانت المصافحة في أصحاب النبي قال نعمأنس بن مالكصحيح البخاري58196263محمد بن إسماعيل البخاري256
2أكانت المصافحة على عهد رسول الله قال نعمأنس بن مالكصحيح ابن حبان497492أبو حاتم بن حبان354
3أكانت المصافحة على عهد رسول الله قال نعمأنس بن مالكمسند أبي يعلى الموصلي28422871أبو يعلى الموصلي307
4المصافحة على عهد رسول الله قال نعمأنس بن مالكمشيخة ابن جماعة21 : 98ابن جماعة739
5أكانت المصافحة على عهد رسول الله قال نعمأنس بن مالكالجزء الثاني من حديث أبي بكر الدقاق13---محمد بن عبد الله بن خلف بن بخيت الدقاق372



دلیل #٣:
صحیح بخاری۔ جلد:۲/ پچیسواں پارہ/ حدیث نمبر:۵۸۵۲/ حدیث مرفوع

۵۸۵۲۔ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ سَمِعَ جَدَّهٗ عَبْدَ اللہِ بْنَ هِشَامٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔

۵۸۵۲۔ یحیی بن سلیمان، ابن وہب، حیوہ، ابوعقیل زہرہ بن معبد، حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور اس وقت آپ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1كنا مع النبي وهو آخذ بيد عمر بن الخطابعبد الله بن هشامصحيح البخاري34413694محمد بن إسماعيل البخاري256
2كنا مع النبي وهو آخذ بيد عمر بن الخطابعبد الله بن هشامصحيح البخاري58206264محمد بن إسماعيل البخاري256



سوال:
ہمارے غیر مقلد علماء فرماتے ہیں کہ احادیث میں "يد" کا  لفظ مفرد آیا ہے اور لغت میں مصافحہ کی تعریف   ["الأخذ باليد " اور "وضع صفح الكف في صفح الكف "  یعنی ایک ہتھیلی کا دوسری ہتھیلی کے ساتھ ملنا] سے کی گئی ہے جس میں "يد" اور "كف " مفرد استعمال ہوا ہے کہ مصافحہ صرف ایک ہاتھ سے کیا جاۓ گا.حنفیہ اس معقول استدلال  کو کیوں نہیں مانتے؟
 جواب:اس کے دو جواب ملاحظہ فرمائیں: (١) اگر یہ استدلال معقول ہوتا تو امام بخاری ، حماد، ابن مبارک رحمہم الله وغیرہ جیسے محدثین اس استدلال کو ضرور  اور فرماتے کہ دو ہاتھ سے مصافحہ حدیث کے خلاف ہے ، لغت کے خلاف ہے اس لیے ایک ہی ہاتھ سے مصافحہ کیا کرو. لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی یوں انہی فرمایا. معلوم ہوا کہ یہ استدلال انتہائی درجہ نامعقول ہے .
(٢) ہر زبان میں واحد کا صیغہ دو طرح استعمال ہوتا ہے:
(الف) بطور مفرد یعنی ان سے ایک فرد مراد ہوتا ہے،(ب) بطور جنس،جو صیغہ واحد کا رکھتا ہے لیکن اس سے متعدد افراد مرد ہوتے ہیں ، جیسے ہم کہا کرتے ہیں مجھے انگور دے دو، مجھے فلسہ  دے دو ، میں نے اجھے اپنی آنکھ سے کھڑا دیکھا ہے، میں نے اپنے کان سے تیری بات سنی. اسی طرح یہاں بھی  "يد"  مفرد بطور جنس استعمال ہوا ہے اس سے مرد دونوں ہاتھ ہیں. مَثَلاً :
(i ) قرآن کریم میں یہ آیت ہے :"وَلا تَجعَل يَدَكَ مَغلولَةً إِلىٰ عُنُقِكَ{17:29} یعنی اور نہ رکھ اپنا ہاتھ بندھا ہوا اپنی گردن کے ساتھ"، یہاں "يد" سے مراد مفرد ہے لیکن سب مانتے ہیں کہ ایک ہاتھ مراد نہیں بلکہ دونوں ہٹ مراد ہیں.
(ii) ایک حدیث میں ہے : "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده(بخاری:١٠،مسلم:٦٢) یعنی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامت رہیں" ،  کیا یہاں "يد" کے مفرد ہونے سے یہ کہنا جائز ہے کہ ایک ہاتھ سے مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں ، دونوں ہاتھوں سے جائز ہے؟ ؟؟ جو دونوں ہاتھوں سے پٹائی کو ناجائز کہتے ہیں وہ اس حدیث کے خلاف کہتے ہیں.
(iii) حدیث ہے: "مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ (مسلم :٧٣،ترمذی :٢٠٩٨) یعنی جو تم میں سے برائی کو دیکھے پس وہ اس کو اپنے ہاتھ سے مٹاۓ"،  یہاں اس حدیث میں بھی  "يد"کا لفظ  مفرد ہےلیکن  مراد عام ہے ، جہاں تغییر  منکر کے لیے دونوں ہاتھوں کا استعمال ہوگا تو بھی عمل بالحدیث ہوگا.کسی پاگل نے  حدیث کے لفظ مفرد سے دوسرے ہاتھ سے استعمال ناجائز ہونے اور حدیث کے خلاف ہونے کا حکم نہیں لگایا.
تنبیہ: لغت میں مصافحہ کی تعریف میں دو چیزوں کا ذکر ہے:، ایک"الأخذ باليد یعنی پکڑنا ہاتھ کا " اور دوسری " ہتھیلی سے ہتھیلی ملانا ". اور مصافحہ بالدین ہی میں یہ دونوں سورتیں ممکن ہیں کیونکہ اس مصافحہ میں دونوں کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلیاں آپس میں مل جاتی ہیں اور ہر ایک بائیں ہاتھ سے ایک دوسرے کا دایاں ہاتھ پکڑتا ہے. نیز اگر "أخذ" اور"وضع  اليد" کا تعلق صرف ایک ہاتھ سے تسلیم کرلیا  جاۓ  تو بھی بائیں ہاتھ کے ملانے سے اس "اخذ و وضع " میں کوئی ایسا نقص نہیں آتا جس سے مصافحہ کا معنا  باطل ہوجاۓ.
لہذا لغت کی یہ تعریف ہمارے خلاف نہیں.
====================================
دوسرے باب میں امام بخاری رحمہ الله نے مصافحہ کا طریقہ بتلایا ہے کہ مصافحہ دو ہاتھوں کے ساتھ ہے، اس کیفیت کے ساتھ کہ ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے بھی جائیں نہ صرف یہ کہ ہاتھ ملادیے جائیں کیونکہ مصافحہ کے وقت ہاتھوں کے پکڑنے میں اظہار محبت ہے بلکہ جس قدر محبت اور بےتکلفی زیادہ ہوتی ہے مصافحہ میں اتنے ایک دوسرے کے ہاتھ زیادہ دباۓ جاتیں ہیں . اس لیے امام بخاری رحمہ الله نے بطور ثبوت کے تبا تابعین کا عمل کو پیش کیا ہے . فرمایا:
دلیل # ٤:

 وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ابْنَ الْمُبَارَكِ بِيَدَيْهِ۔

۔ حماد بن زید نے ابن مبارک سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔

علم حدیث اور علم  جرح و تعدیل کے امام ذہبی رحمہ الله ،حضرت عبد الرحمٰن بن مہدی رحمہ الله کا قول نقل کرتے ہیں کہ :(تمام محدثین کے) امام چار ہیں :مالک ، سفیان ثوری ، (امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے  شيخ)حماد اور(امام ابو حنیفہ کے شاگرد)  ابن مبارک.[تذكرة  الحفاظ:١/٢٧٥]


 سوال : غیر مقلد علماء کہتے اور لکھتے ہیں  کہ دو ہاتھ سے مصافحہ حدیث کے خلاف ہے تو ان دو عظیم محدثین کو اس کا علم کیونکر نہ ہوا کہ ہمارا یہ عمل حدیث کے خلاف ہے؟؟؟  نیز جن محدثین کے سامنے ان دونوں نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا انہوں نے ان پر انکار اور اعتراض کیوں نہ کیا کہ یہ عمل فلاں حدیث کے خلاف ہے ؟؟؟ نیز امام بخاری رحمہ الله نے ان کے اس مصافحہ کو جب محدثین کے سامنے بیان کیا اور کتاب میں لکھ کر شایع کیا تو محدثین نے امام بخاری رحمہ الله پر یہ اعتراض کیوں نہ کیا کہ ان کا عمل فلاں حدیث کے خلاف ہے پھر آپ کیوں بیان کر رہے ہو اور اپنی صحیح بخاری میں لکھ کر کیوں شایع کر رہے ہو؟؟؟ نیز امام بخاری رحمہ الله جیسے محدث جن کو لاکھوں حدیثیں یاد تھیں انہوں نے اس (دو ہاتھ سے مصافحہ کے)عمل کو حدیث کے خلاف کیوں نہیں سمجھا؟؟؟ نیز اگر اس محدث کا نام اور سن ولادت و وفات بتادیا جاۓ جس نے سب سے پہلے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے عمل کو حدیث کے خلاف سمجھ کر اس پر رد کیا ہو، بہت اچھا ہوگا. کیونکہ ہمارے لیے موازنہ اور  ہوجاۓ گا کہ انکار نہ کرنے والے کس صدی اور کتنے بڑے محدث اور نیک و پرہیزگار ہیں اور یہ انکار و رد کرنے والا کس پایہ کا ہے تاکہ ہمارے لیے ترجیح دینے میں آسانی ہو.
جواب: جناب! اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آپ کا یہ سوال انصاف اور حق پر مبنی ہے ، لیکن یہ سوال ہمارے بجاۓ غیر مقلد علماء سے کیجیے  ، اس لیے کہ مدعی وہ ہیں. ہم نے نہ اس کو حدیث کے خلاف کہا نہ کہتے ہیں.البتہ  جو کہنے والے ہیں ان سے ضرور جواب طلب کیجیے.


دلیل # ٥:
صحیح بخاری۔ جلد:۲/ پچیسواں پارہ/ حدیث نمبر:۵۸۵۳/ حدیث متواتر مرفوع

۵۸۵۳۔ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سَيْفٌ قَالَ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يَقُولُ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ سَخْبَرَةَ أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَفِّي بَيْنَ کَفَّيْهِ التَّشَهُّدَ کَمَا يُعَلِّمُنِي السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ التَّحِيَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُهٗ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللہُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُولُهٗ وَهُوَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا فَلَمَّا قُبِضَ قُلْنَا السَّلَامُ يَعْنِي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

۵۸۵۳۔ ابونعیم، سیف، مجاہد، عبد اللہ بن سخبرہ ابومعمر، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشہد اس طرح سکھایا جس طرح قرآن کی صورت سکھائے تھے اور میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں لے لیا (وہ کلمات تشہد یہ ہیں) التَّحِيَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُهٗ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللہُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُولُهٗ، آپؐ اس وقت ہمارے درمیان موجود تھے، جب آپؐ کی وفات ہوگئی تو ہم لوگ السَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ پڑھنے لگے۔

پہلے امام بخاری رحمہ الله نے اسی حدیث سے مصافحہ ثابت کیا اور اب اس حدیث سے دو ہاتھوں سے پکڑنا ثابت کررہے ہیں ، سو امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ مصافحہ دو ہاتھوں کے ساتھ اس طور پر کیا جاۓ کہ ہاتھوں کو پکڑا جاۓ نہ یہ کہ ایک آدمی اپنے ہاتھ دوسرے آدمی کے ہاتھوں پر رکھ دے اور صرف ملادے بلکہ ایک دوسرے کے ہاتھوں کو پکڑلیں کہ اس سے اظہار محبت سے، اس سے ثابت ہوا کہ مصافحہ دو ہاتھ سے ہے.


(جاری ہے)

1 comment: