Saturday, 25 April 2015

سجدے میں قدموں اور ایڑیوں کا الگ الگ رکھنا سنت ہے



مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں قدموں اورایڑیوں کے درمیان فاصلہ رکھے اور دونوں پاؤں کی انگلیوں کا رخ بھی قبلہ کی طرف ہو، دونوں قدموں اورایڑیوں کے ملانے کا ذکر فقہائے احناف کی کتبِ متقدمہ جیسے ہدایہ اور اس کی شروح نہایہ، عنایہ، کفایہ، بنایہ، فتح القدیر اور کنز وغیرہ میں نہیں ملتا؛ البتہ متأخرین رحمہم اللہ نے اس کو ذکر کیا ہے؛ مگر اس کا مطلب محاذات اور برابر رکھنا ہے، الصاق حقیقی (دونوں کا ملانا) مراد نہیں ہے۔
          کما فی السعایة للعلامة اللکنوی رحمة اللہ: ومنہا الصاق الکعبین وذکرہ جمع من المأخرین وجمہور الفقہاء لم یذکروہ ولا أثر لہ فی الکتب المعتبرة کالہدایة وشروحہا: النہایة والعنایة والبنایة والکفایة وفتح القدیر وغیرہا والکنز وشرحہ للعینی وشرح النقایة لا لیاس زادہ والبرجندی والشمنی وفتاوی قاضی خان والبزازیة وغیرہا․․․․ وقال خیر المتاخرین شیخ مشائخنا محمد عابد السندی المدنی فی طوالع الأنوار شرح الدرالمختار قولہ والصاق کعبیہ أی حالة الرکوع قال الشیخ الرحمتی مع بقاء تفریج ما بین القدمین قلت لعلہ أراد من الالصاق المحاذاة وذلک یحاذی کل من کعبیہ الاٰخر فلا یتقدم أحدہما علی الاٰخر․․․ قلت لقد دارت ہذہ المسألة فی سنة اربع وثمانین بعد الألف المئتین بین علماء عصرنا فأجاب أکثرہم بأن الصاق الکعبین فی الرکوع والسجود لیس بمسنون ولا أثر لہ فی الکتب المعتبرة والقول الفیصل أن یقال ان کان المراد بالصاق الکعبین أن یلزق المصلی أحد کعبیہ بالآخر ولا یفرج بینہما کما ہو ظاہر عبارة الدرالمختار والنہر وغیرہما وسبق الیہ فہم المفتی ابی السعود أیضا فلیس ہو من السنن علی الأصح کیف وقد ذکر المحققون من الفقہاء أن الاولٰی للمصلی أن یجعل بین قدمیہ نحو أربعة أصابع ولم یذکروا أنہ یلزقہما فی حالة الرکوع والسجود وقال العینی فی البنایة نقلاً عن الواقعات ینبغی أن یکون بین قدمی المصلی قدر أربع أصابع الید لأنہ أقرب الی الخشوع والمراد من قولہ علیہ الصلوة والسلام الصقوا الکعاب بالکعاب اجماعہما انتہیٰ فہٰذا صریح فی أن المسنون ہو التفریج مطلقاً والا لقیدہ بحالة القیام وأن المراد بالصاق الکعب بالکعب الوارد فی الخبر غیر الزاقہما ویوٴیدہ ما أخرجہ أبوداود وصححہ ابن خزیمة وذکرہ البخاری تعلیقا عن النعمان بن بشیر قال رأیت الرجل منا یلزق کعبہ بکعب صاحبہ وفی رد المحتار نقلا عن فتاویٰ سمرقند ینبغی أن یکون بین القدمین مقدار أربع أصابع وما روی أنہم الصقو الکعاب بالکعاب أرید بہ الجماعة انتہی وان کان المراد بہ محاذاة احدی الکعبین بالاٰخر کما أبدع العلامة السندی فہو أمر حق ولا بعد فی حمل الالصاق علی المحاذاة فانہ جاء استعمالہ فی القرب ویوٴید عدم سنیة الزاق الکعبین والمعنی الأول أی ترک التفریج بینہما أنہ یلزم فیہ تحریک احدی الکعبین الی الأخری وتحریک عضو فی الصلوة من غیر ضرورة لیس بجائز عندہم (جلد۲/۱۸۰-۱۸۱ سہیل اکیڈمی، لاہور، پاکستان)
          الصاق حقیقی کی بات سب سے پہلے زاہدی نے مجتبیٰ میں تحریر فرمائی، پھر ان ہی کے اتباع میں قہستانی نے جامع الرموز میں اور شرح خلاصہ کیدانیہ میں اور حلبی نے غنیة میں اور ابن نجیم نے بحر اور ان کے تلمیذ تمرتاشی نے منع الغفار میں نقل کی ہے اور صاحب نہر اور صاحب درمختار نے صیغہٴ جزم سے اسے نقل کیا ہے؛ لیکن نقل کرتے ہوئے کسی نے بھی الصاق کعبین کی مراد کو واضح نہیں کیا؛ جبکہ بعض فقہاء کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ تفریج (علیحدہ رکھنا) ہی سنت ہے۔
          کما فی السعایة للعلامة اللکنوی: واما الذین اوردوہ فی ذکرہ الزاہدی حیث قال فی المجتبی برمزبط یسن فی الرکوع الصاق الکعبین واستقبال الأصابع القبلة ونقلہ عنہ القہستانی فی جامع الرموز وفی شرح الخلاصة الکیدانیة والحلبی فی الغنیة وابن نجیم فی البحر وتلمیذہ التمرتاشی فی منع الغفار واقروہ وذکرہ صاحب النہر وصاحب الدرالمختار علی سبیل الجزم لکن لم یبین واحد منہم المراد من الصاق الکعبین․․․ ورأیت کلاما للشیخ محمد حیات السندی یقتضی اثبات سنیة التفریج ونفی سنیة الالصاق انتہی کلامہ (جلد۲/۱۸۰-۱۸۱)
          فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں مولانا میرک شاہ کا جواب زیربحث مسئلہ میں مفصل مذکور ہے، جس میں مولانا رقمطراز ہیں کہ:
          ”بعض فقہاء کے کلام سے اور توارث وتعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ تفریج ہی سنت ہونا چاہیے، کما فی السعایہ ورأیت کلاما للشیخ الخ ان حالات کو دیکھ کر فقہاء متأخرین کی عبارت یا موٴول ہوگی یا مرجوح، طوالع الانوار شرح درمختار میں شیخ محمد عابد نے اس کی تاویل کرتے ہوئے الصاق کعبین سے محاذات کعبین مراد لی ہے اور اس میں علامہ رحمتی کے قول سے استیناس بھی کرلیا ہے․․․ اور جن فقہاء نے اس کی تاویل کا ارادہ نہیں کیا ہے، وہ اس کو قولِ مرجوح اور زاہدی کے اوہام میں درج کرتے ہیں“ الخ (۲/۲۰۳-۲۰۴)
          واضح رہے کہ علامہ شامی نے الصاق کو سنت لکھا ہے؛ مگر علامہ رافعی نے اس کی تردید کرتے ہوئے (مذکورة الصدر قول کو) لکھا ہے کہ ہمارے بعض مشائخ نے اسے اوہامِ صاحب مجتبیٰ میں شمار کیا ہے۔
          قال العلامة الرافعی رحمة اللہ: (قول الشارح ویسن أن یلصق کعبیہ) قال الشیخ أبوالحسن السندی الصغیر فی تعلیقتہ علی الدر ہذہ السنة انما ذکرہا من ذکرہا من المتأخرین تبعا للمجتبیٰ ولیس لہا ذکر فی الکتب المتقدمة کالہدایة وشروحہا وکان بعض مشائخنا یری أنہا من أوہام صاحب المجتبی ولم ترد فی السنة علی ما وقفنا علیہ، وکأنہم توہموا ذلک مما ورد أن الصحابة کانوا یہتمون بسد الخلل فی الصفوف حتیٰ یضمون الکعاب والمناکب ولا یخفیٰ أن المراد ہنا الصاق کعبہ بکعب صاحبہ لا کعبہ مع کعبہ الاٰخر اھ قلت ولعل الشیخ أبا الحسن لحظ الی الاٰثار الواردة فی أن التراوح بین القدمین فی الصلاة مطلقاً أفضل من الصاقہما اھ (تقریرات الرافعی ۱/۶۸ مکتبہ امدادیہ ملتان، پاکستان)
          حضرت اقدس تھانوی نے بھی ایک سوال کے جواب میں سعایہ کی تحقیق کو راجح قرار دیا ہے، سائل نے سوال میں زاہدی کے متعلق النافع الکبیر اور الفوائد البہیہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ”وہ فقہ میں عظیم المرتبت امام تھے؛ لیکن نقل روایات میں متساہل تھے، نیز وہ عقیدةً معتزلی تھے اور علامہ شامی نے تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں لکھا ہے کہ زاہدی کی ”الحاوی“ روایاتِ ضعیفہ نقل کرنے میں مشہور ہے، جس کی وجہ سے ابن وہبان وغیرہ فرماتے ہیں کہ زاہدی کا جو قول دیگر فقہاء کے خلاف ہو اس کا اعتبار نہیں“ الخ۔ (تفصیل ملاحظہ ہو: امداد الفتاویٰ ۱/۲۲۲تا ۲۲۴)
          امداد الاحکام میں بھی سعایہ کی تحقیق درج فرمائی اور آخر میں یہ لکھا ہے کہ ”امام طحاوی نے رکوع وسجود کے درمیان فاصلے کی سنیت کی تصریح فرمائی ہے“۔ (امداد الاحکام ۲/۹۱-۹۲ زکریا بک ڈپو دیوبند) صاحب احسن الفتاویٰ نے بھی سعایہ کی تحقیق کو اختیار فرمایا ہے۔ (احسن الفتاویٰ ۳/۳۷ تا ۴۰- ۴۹ تا ۵۰)
          مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی نے ایک سوال کے جواب کے ضمن میں یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ: ”بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ اصل سنت الصاق محاذات و تسویہٴ صف سے حاصل ہوجاتی ہے، اور تجربہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رکوع اور سجود میں الصاق کعبین حقیقتاً متعذر ہے یا بہت تکلف اور دقت سے ہوتا ہے، ایڑیوں کو تو ملایا جاسکتا ہے؛ مگر تجربہ سے معلوم ہوا کہ ایڑیوں کے ملانے سے کعبین نہیں ملتے؛ البتہ محاذات کعبین پوری طرح اس میں حاصل ہوجاتی ہے، اور یہی مقصود شارع علیہ السلام معلوم ہوتا ہے جیساکہ احادیث سے ثابت ہے۔“ (فتاویٰ دارالعلوم ۲/۲۰۲-۲۰۳ بعنوان رکوع میں ٹخنوں کا ملانا سنت ہے یا نہیں)
          آخر میں ابوحنیفہٴ عصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی اس باب میں فیصلہ کن تحریر ”باقیات فتاویٰ رشیدیہ“ سے درج کی جارہی ہے،جو انشاء اللہ چشم کشا ثابت ہوگی، حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ: ”الصاق کعبین رکوع و سجود میں جیسا درمختار میں ہے، کسی کتاب حدیث سے اس کا نشان معلوم نہیں ہوتا اور چونکہ اس کی سنیت حیزخفا میں ہے؛ لہٰذا متروک ہے۔ بعض پہلے علماء کو بھی اس میں تکرار ہوا ہے، بخاری کا الصاق کعاب باہم مقتدیوں کا مراد ہے اوراس سے محاذات مقصود ہے اور اتصال و تراص صفوف، اور یہاں وہ بظاہر مراد نہیں“، فقط۔ واللہ تعالیٰ اعلم
          ”اگر سجود میں الصاقِ کعبین کیا جاوے تو توجہ اصابع رجلین الی القبلة نہیں ہوسکتا؛ مگر ہاں! جس کا سارا پنجہ پاؤں کا مساوی اور سب انگشت پا برابر مساوی ہوویں، تو مضائقہ نہیں۔ اور ایسا پاؤں تو کہیں شاذ ونادر ہوتا ہے، تو اب حقیقی معنی الصاق میں توجہ اصابع الی القبلة فوت ہوتی ہے، تو بظاہر یہ مراد نہیں، اگر محاذات پر حمل کیا جاوے تو رکوع وسجود کی خصوصیت کیا ہے، یہ قیام کی سنت ہونی چاہیے؛ مگر یہ معنی مراد نہیں ہوسکتے؛ کیونکہ شامی سجدہ کی بحث میں کہتا ہے، قدمنا أنہ ربما یفہم منہ أن السجود کذلک، اذ لم یذکروا تفریجہا بعد الرکوع فالأصل بقاوٴہما ہنا کذلک الخ
          ترجمہ: اس سے پہلے ہم کہہ چکے ہیں، کبھی کبھی اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ سجدے بھی اس طرح ہیں؛ کیوں کہ ان دونوں کو رکوع کے بعد کھولنے کا ذکر نہیں، تو اصل ان کا یہاں اس طرح باقی رہنا ہے۔
          سو تفریج کے مخالف الصاق مراد رکھتے ہیں اور وہ معنی حقیقی کے مراد ہونے پر دال ہے، اور اس الصاق کی کہیں سند نہیں ملی، پہلے بھی تحقیق کیا تھا“۔ فقط (مکتوبات بنام مولانا خلیل احمد مکتوب نمبر۳۴)
          محدث کبیر حضرت اقدس مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: (قولہ سو تفریج) یہ بحث کا خلاصہ ہے کہ جو لوگ الصاق کعبین کے قائل ہیں اور تفریج (کشادہ رکھنے) کے مخالف ہیں، وہ اِلصاق کے حقیقی معنی مراد لیتے ہیں، صرف محاذات مراد نہیں لیتے اور اِلصاق حقیقی کی کوئی دلیل نہیں؛ بلکہ طحاوی باب التطبیق فی الرکوع میں تفریق کے افضل ہونے کی صراحت ہے۔ (باقیات فتاویٰ رشیدیہ ص:۱۷۱-۱۷۲)
          اب آخر میں یہ بات رہ جاتی ہے کہ بعض احادیث میں ”فوجدتہ ساجدًا راصاً عقبیہ“ کے الفاظ ایڑیوں کے ملانے پر صراحتاً دلالت کرتے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ الفاظ کی یہ زیادتی شاذ ہے، جو قابل استدلال نہیں ہے، اس سلسلہ کا تحقیقی کلام فتاویٰ دارالعلوم زکریا (جنوبی افریقہ) سے درج کیاجارہا ہے، صاحب فتاویٰ مفتی رضاء الحق صاحب مدظلہ رقمطراز ہیں کہ: یہ حدیث مختلف طرق کے ساتھ مختلف کتب میں مذکور ہے؛ لیکن یہ الفاظ ”فوجدتہ ساجداً راصاً عقبیہ“ صرف یحییٰ بن ایوب نقل کرتے ہیں اور دوسرے ثقات کی مخالفت کرتے ہیں؛ لہٰذا یہ زیادتی شاذ ہے۔
          حدیث کی تحقیق ملاحظہ ہو:
          یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں مذکور ہے:
          (۱) الاسناد الاوّل: ابن خزیمة (۶۵۴) ابن حبان: (۱۹۳۳) شرح معانی الاٰثار: (۱/۲۳۴) الحاکم: (۱/۲۲۸) البیہقی فی الکبیر: (۲/۱۱۶) ابن عبد البر فی التمہید: (۲۳/۳۴۸) واسنادہ عند جمیعہم من طریق سعید بن ابی مریم عن یحیٰی بن ایوب عن عمارة بن غزیة عن ابی النضر عن عروة عن عائشة رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا
سعید بن ابی مریم
متفرد

یحیٰی بن ایوب
علل الذہبی احادیثہ
رد احمد روایتہ فی الوتر لیس بذلک القویقال ابوحاتم: لا یحتج بہ وقال النسائی:
لیس بالقوی وقال الدارقطنی: فی حدیثہ اضطراب
المستدرک: ۲/۲۰۱۱
المستدرک: ۳/۹۷
الضعفاء للعقیلی: ۲۱۱
تنقیح التحقیق ۲/۱۹۳
میزان الاعتدال ۴/۳۶۳

          ولفظہ راصاً عقبیہ عن الکل، یحیٰی بن ایوب لیس بذلک القوی وخالف الاقوی ہنا فشذت روایتہ
          (۲) الاسناد الثانی: رواہ مسلم: (۱/۳۵۲) واحمد: (۶/۸۵، ۲۰۱) و ابوداوٴد: (۱/۵۴۷) والنسائی: (۱/۱۰۲) وابن عبدالبر: (۲۳/۳۴۹) عن:

ابو اسامة
ثقة
لسان المیزان
عبید اللّٰہ بن عمر

حجة من العدول

بیان مشکل الاٰثار
تحفة الاحوذی ۳/۲۴۰
محمد بن یحیٰی بن حبان
ثقة
التاریخ الکبیر
الاعرج
ثقة
الاکمال
ابو ہریرة رضی اللہ عنہ
الصحابی


ولفظہ عند الکل ”فوقعت یدی علی بطن قدمیہ“
          (۳) الاسناد الثالث: رواہ مالک: (۱/۲۱۴) والترمذی: (۵/۴۸۹) والطحاوی: (۳۴۱) والبغوی: (۵/۱۶۶) عن:

یحیٰی بن سعید الانصاری

ثقة

ولفظہ عند الکل ”فوقعت یدی علی قدمیہ“
محمد بن ابراہیم التمیمی
ثقة

عائشة رضی اللّٰہ عنہا
ام الموٴمنین


          الخلاصة: الحدیث اصلہ صحیح فی صحیح مسلم: (۱/۳۵۲) واحمد: (۶/۸۵، ۲۰۱) وابوداوٴد: (۱/۵۴۷) والنسائی: (۱/۱۰۲) وابن عبد البر: (۲۳/۳۴۹) ومالک: (۱/۲۱۴) والترمذی: (۵/۴۸۹) والطحاوی: (۳۴۱) والبغوی: (۵/۱۶۶) ولیس عندہم رصّ العقبین، فہذا شاذ کما ذکر الحاکم واللّٰہ اعلم (ملخص من رسالة ”لا جدید فی احکام الصلوة“)
                                                     (فتاویٰ دارالعلوم زکریا: ۲/۱۳۵-۱۳۶)                                                                                             مطبوع: زمزم پبلشرز، کراچی
          مذکورہ بالا محققین کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رکوع وسجود میں دونوں قدموں اورایڑیوں کو علیحدہ رکھنا ہی مسنون ہے۔ ہٰذا ہُو الحقُّ والحقُّ أحَقُّ أنْ یُتَّبَعَ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب





No comments:

Post a Comment