Sunday, 12 April 2015

رفع السبابة - تشہد میں شہادت کی انگلی کا اٹھانا

نماز میں تَشَہُّد پڑھتے ہوئے شہادت کی انگلی (1)اٹھانا-(2)کھڑی کرنا، (3)اشارہ کرنا، (4)پکارنا - متعدد شرعی نصوص سے ثابت ہے۔ اسی وجہ سے اس پر امت کا تسلسل کے ساتھ عمل چلا آرہا ہے۔ حدیث اور فقہ کی تقریباً ہر کتاب میں اس کا ثبوت اور سنت ہونا واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔

مختلف روایات میں مختلف الفاظ:

(1)اور اٹھائی اپنی انگلی۔
وَرَفَعَ إِصْبَعَهَ
جو انگوٹھے کے متصل ہوتی ہے
الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ

(2)اور آپ نے کھڑی کی اپنی انگلی (دعا کیلئے)
وَنَصَبَ إِصْبَعَهُ (لِلدُّعَاءِ)

(3)پھر اشارہ کیا اپنی شہادت کی انگلی سے۔
ثُمَّ أَشَارَ بِسَبَّابَتِهِ
[مسند أحمد:١٨٨٧٨، نسائي:٨٨٩، ابوداود:٩٥٧، وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.]
اور اشارہ کیا اپنی انگلی سے (شہادت والی)
وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ (السَّبَّابَةِ)
[مسلم:1307(579) ، ابوداود:988، نسائي:1275، مسند احمد:16145]
اور اپنی انگلی سے اشارہ کر رہے تھے۔
وَيُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ.

(4)اور بند کیا ہوا تھا تمام انگلیوں کو اور کھولا/پھیلایا ہوا تھا شہادت کی انگلی کو
وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ ‌وَبَسَطَ ‌السَّبَّابَةَ 

پیغمبر ﷺ جب دعا کرتے تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔
[سنن أبي داود:989، سنن النسائی:1270، مستخرج أبي عوانة:2019]
وَرَفَعَ ‌إِصْبَعَهُ ‌الَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ يَدْعُو بِهَا۔
اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے قریب والی انگلی اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے۔ (یعنی اشارہ کرتے)۔
[سنن الترمذی:294، سنن النسائی:1269، صحيح ابن خزيمة:717]
فِي التَّشَهُّدِ
تشہد (یعنی شہادت) میں.
[سنن ابن ماجه:912، خلاصة الأحكام-النووي:1385 - بِإِسْنَاد صَحِيح]



اہل حدیث عبيد الله الرحماني المباركفوري(م1414ھ) لکھتے ہیں:
(إذا دعا) أي تشهد
ترجمہ:
(جب پکارتے) یعنی جب شہادت دیتے۔

شافعی محدث امام بیھقیؒ(م458ھ) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا دُعَاؤُهُ بِالسَّبَّابَةِ، فَإِنَّمَا هُوَ ‌الْإِشَارَةُ ‌عِنْدَ ‌الشَّهَادَةِ
ترجمہ:
اور جہاں تک شہادت کی انگلی سے دعا کرنا(یعنی تشہد کہنا) ہے تو وہ اشارہ شہادت کے وقت کا ہے۔
[معرفة السنن والآثار-البيهقي:3646]



جمع وتَطبِیق:
اشارہ کرنے سے مراد دعا کرنا ہے:

وَعَقَدَ ثَلَاثًا وَخَمْسِينَ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ۔
اور آپ ﷺ ترپن(53) کی گرہ بناتے، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے۔
[مستخرج أبي عوانة:2054][صحیح مسلم:1310(580)]
[السنن الكبرى - البيهقي:2781][السنن الصغير للبيهقي:449]

وَعَقَدَ ‌ثَلَاثًا ‌وَخَمْسِينَ، وَدَعَا۔
اور آپ ﷺ گرہ بناتے ترپن (53) کی ، اور دعا کرتے۔
[مسند أحمد:6153][الخلافيات - البيهقي - ت النحال:1776]

ترپن کی گرہ بنانے کا مطلب:
(1)ثُمَّ قَبَضَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ(پھر اپنی انگلیوں کو سمیٹا-بند کیا)
[مسند أحمد:18870، إرواء الغليل:2/ 68]
ثُمَّ قَبَضَ ثَلَاثَةً مِنْ أَصَابِعِهِ(پھر اپنی تین انگلیوں کو سمیٹا-بند کیا)
[السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية: 2787]

ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ(پھر اپنی انگلیوں میں سے دو کو بند کرلیا)
(یعنی)
چھنگلی(چھوٹی انگلی) اور چھن٘گلیا سے پہلے کی ان٘گلی(ان٘گوٹھے کی طرف سے چوتھی ان٘گلی) کو موڑے رکھا۔
[سنن الكبري للبيهقي:2895(2784)، حدیث صحيح-خلاصة الاحكام للنووي:1384]

اور اپنا انگوٹھا بیچ والی انگلی کے اوپر رکھا۔

اور حلقہ(دائره) بنالیا
انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا
(2)پھر (شہادت کی) انگلی کو اٹھایا
کھڑا کیا
قبلہ کی طرف اشارہ کیا، اور اپنی نگاہ اسی انگلی پر رکھی۔
(3)پھر آپ نے اس(انگلی کو) کچھ جھکا کر رکھا تھا۔
اور آپ دعا کر رہے تھے.
یعنی آخر تک اسی حالت میں جھکائے رکھے ہوئے تھے۔

شافعی امام ابن حجر الہیتمیؒ(م974ھ)لکھتے ہیں:
لِئَلَّا تَخْرُجَ عَنْ سَمْتِ الْقِبْلَةِ (عِنْدَ) هَمْزَةِ (قَوْلِهِ إلَّا اللَّهُ) لِلِاتِّبَاعِ وَلَا يَضَعُهَا ‌إلَى ‌آخِرِ ‌التَّشَهُّدِ
ترجمہ:
تاکہ وہ(انگلی) نہ ہٹے قبلہ کے رخ/جانب/طرف سے، اس کے إلَّا اللَّهُ کے ہمزہ کہنے کے وقت، اور اسے نہ رکھے تشہد کے آخر تک۔
[تحفة المحتاج في شرح المنهاج-ابن حجر الهيتمي(م974ھ) : جلد 2/ صفحہ 80]

شافعی امام شمس الدين الرملي(م1004ھ) نے بھی بھی لکھا ہے.
[نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج: 1/ 522]




اشارہ کا ثبوت اور اسکی حکمت:
حضرت خفاف بن ایماء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ «جب نماز کے اخیر میں یعنی قعدہ میں بیٹھتے تو اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے تھے»، اور مشرکین کہتے تھے کہ آپ ﷺ اس (اشارہ) سے جادو کرتے ہیں، حالانکہ وہ(مشرکین) جھوٹ بولتے تھے، بلکہ آپ ﷺ اس سے توحید (یعنی اللہ کے ایک ہونے) کا اشارہ کرتے تھے۔
حوالہ
عَنْ خُفَافِ بْنِ إِيمَاءَ بْنِ رَحَضَةَ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ» ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ يَسْحَرُ بِهَا وَكَذَبُوا، وَلَكِنَّهُ التَّوْحِيدُ.
محدث ہیثمیؒ(م807ھ) لکھتے ہیں:
وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
اور اس (امام طبرانیؒ کی  حدیث) کے (روایت پہنچانے والے تمام) اشخاص قابلِ اعتماد ہیں۔
[مجمع الزوائد:2844، بَابُ التَّشَهُّدِ وَالْجُلُوسِ وَالْإِشَارَةِ بِالْإِصْبَعِ فِيهِ]


اشارے کا مقام:
محدث امام صنعانیؒ(م1182ھ) اور محدث شرف الحق العظيم آبادي(م1329ھ) تشریح میں لکھتے ہیں:
وَمَوْضِعُ الْإِشَارَةِ عِنْدَ قَوْلِهِ: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، لِمَا رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ فِعْلِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: وَيَنْوِي بِالْإِشَارَةِ التَّوْحِيدَ وَالْإِخْلَاصَ فِيهِ؛ فَيَكُونُ جَامِعًا فِي التَّوْحِيدِ بَيْنَ الْفِعْلِ وَالْقَوْلِ وَالِاعْتِقَادِ، وَلِذَلِكَ «نَهَى النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ الْإِشَارَةِ بِالْأُصْبُعَيْنِ
ترجمہ:
اور اشارہ کا مقام یہ ہے کہ جب وہ کہے: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، جو کہ امام بیھقیؒ(م458ھ) نے روایت کیا نبی  کے عمل سے، اور وہ(اشارہ کرنے والا) اشارہ کرنے میں توحید اور اخلاص کی 
نیت کرے، تاکہ یہ(اشارہ کرنا) توحید میں فعل، قول اور اعتقاد کو جمع کرنے والا ہوجائے، اور اسی لئے(ایک موقع پر) نبی  نے دو انگلیوں سے اشارہ کرنے سے روکا۔[سنن النسائی:1273، سنن الترمذی:3557][سنن النسائی:1274، سنن ابی داود:1499]
[عون المعبود وحاشية ابن القيم(م751ھ) : ج 2 / ص 305، تشریح حدیث نمبر 139]
[تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي-عبد الرحمن المباركفوري(م1353ھ): 2 / 159]


امام الزرکشی الحنبلی(م772ھ)حدیث کی تشریح لکھتے ہیں:
قال: ويشير بالسباحة.
ش: سميت مسبحة لأنه يشار بها للتوحيد، فهي منزهة مسبحة، وتسمى سبابة لأنهم كانوا يشيرون بها إلى السب، والأصل في الإشارة بها ما تقدم، وموضع الإشارة بها عند ذكر الله تعالى، للتنبيه على الوحدانية.
ترجمہ:
فرمایا: اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔
تشریح: اسے شہادت کی انگلی اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے اشارہ کیا جاتا ہے توحید کیلئے، کیونکہ یہ تنزیہ(یعنی ہر عیب ونقص سے پاکی)بیان کرنے والی شہادت کی انگلی ہے، اور اسے سبابہ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس (شہادت کی انگلی) کے ذریعہ اشارہ کیا جاتا ہے سب وشتم(یعنی برا بھلا کہنے)کیلئے، اور حقیقی بات اشارے کے متعلق یہی ہے جو پہلے گذری، اور اشارہ کا مقام اللہ تعالیٰ کے ذکر(یعنی لا الہ الا اللہ) کے وقت ہے، وحدانیت پر خبردار کرنے کیلئے۔
[شرح الزركشي على مختصر الخرقي: ج 1 / ص 581 ، حدیث نمبر 512]

محدث ملا علی قاریؒ(م1014ھ) مزید لکھتے ہیں:
وَالْمُرَادُ إِذَا تَشَهَّدَ وَالتَّشَهُّدُ حَقِيقَةُ النُّطْقِ بِالشَّهَادَةِ وَإِنَّمَا سُمِّيَ التَّشَهُّدُ دُعَاءً لِاشْتِمَالِهِ عَلَيْهِ وَمِنْهُ قَوْلُهُ فِي الرِّوَايَةِ الثَّانِيَةِ يَدْعُو بِهَا أَيْ يَتَشَهَّدُ بِهَا وَأَنْ يَسْتَمِرَّ عَلَى الرَّفْعِ إِلَى آخِرِ التَّشَهُّدِ
ترجمہ :
اور (دعا سے) مراد جب تشہد پڑھتے اور تَّشَهُّدُ شہادت دینے کو کہا جاتا ہے ، اور یہاں تَّشَهُّدُ کو دعاء اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ اس میں دعاء بھی شامل ہے، اور انگلی اٹھا کر دعاء پڑھنے کا مطلب ہے انگشت شہادت کے ساتھ تشہد پڑھتے۔
مزید لکھتے ہیں:
وعندنا: يرفعها عند لا إله، ويضعها عند إلا الله لمناسبة الرفع للنفي، وملائمة الوضع للإثبات، ومطابقة بين القول والفعل حقيقة۔
ترجمہ:
اور ہم(حنفیہ)کے نزدیک(بہترین طریقہ یہ ہے کہ): وہ اس(شہادت کی انگلی)کو اٹھائے "لَا إلَهَ" (کہنے) کے وقت اور اسے رکھے "إلَّا اللَّهُ" (کہنے) کے وقت، کیونکہ نفی کی  مناسبت کیلئے اس(شہادت کی انگلی)کو اٹھانا ہے، اور اثبات کی موزونیت کیلئے  اس(شہادت کی انگلی)کو رکھنا ہے، تاکہ قول اور فعل کے درمیان حقیقی مطابقت ہو۔
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 729) ط:دار الفكر]
[البدائع (١/ ٢١٤)، وفتح القدير (١/ ٣٢١)، والبناية (٢/ ٣١٥)، والفتاوى الهندية (١/ ٧٥)، وحاشية ابن عابدين (٢/ ٢١٦، ٢١٨)، واللباب (١/ ٧٢).]



شافعی امام ترمذیؒ(م279ھ) لکھتے ہیں:
وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ يَخْتَارُونَ الْإِشَارَةَ فِي التَّشَهُّدِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِنَا.
ترجمہ:
صحابہ کرام اور تابعین میں سے اہل علم(علماء) کا اسی پر عمل تھا، یہ لوگ تشہد(یعنی شہادت) میں انگلی سے اشارہ کرنے کو پسند کرتے اور یہی ہمارے اصحاب(شافعیہ) کا بھی قول(فتویٰ) ہے۔

خلاصہ:
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ (1)اشارہ کیلئے چھوٹی انگلی اور اس کے پاس والی کو بند کرلے، (2) اور درمیانی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائے، (3)اور جب کلمہ توحید لا الہ الا اللہ پر پہنچے تو شہادت کی انگلی کو اٹھائے، (4) اور حرکت نہ دے، (5)اور دو انگلیوں سے اشارہ نہ کرے، (6)اور پھر سلام پھیرنے تک اسی حالت مپر رکھے۔



شافعی محدث امام بیھقیؒ(م458ھ)نے اپنی کتاب [السنن الصغير للبيهقي: جلد1 / صفحہ 173] میں باب باندھا ہے کہ:
بَابُ الْإِشَارَةِ عِنْدَ الشَّهَادَةِ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ بِالْمِسْبَحَةِ
ترجمہ:
شہادت کی انگلی سے الله كی توحید کی شہادت دیتے وقت اشارہ کرنے کا باب

میں مندرجہ ذیل 5 احادیث نقل فرمائی ہیں:
(1)عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُعَاوِيِّ، قَالَ: رَآنِي ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَعْبَثُ، بِالْحَصَى فَلَمَّا انْصَرَفَ نَهَانِي وَقَالَ: " اصْنَعْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ. فَقُلْتُ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ؟ قَالَ: كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ كُلَّهَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى۔
ترجمہ:
علی بن عبدالرحمن معاوی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے منع کیا اور فرمایا: ایسے کرو جیسے رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کیسے کیا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: آپ ﷺ  جب نماز میں بیٹھتے تو داہنی ہتھیلی کو دائیں ران پر رکھتے اور تمام انگلیوں کو بند کرلیتے اور انگلی سے اشارہ کرتے جو انگوٹھے سے ملی ہوئی (شہادت والی انگلی) ہے اور بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے۔

(2)دوسری روایت میں مزید یہ بھی آیا ہے کہ:
وَأَشَارَ، بِإِصْبَعِهِ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ فِي الْقِبْلَةِ وَرَمَى بِبَصَرِهِ إِلَيْهَا أَوْ نَحْوَهَا»
ترجمہ:
اور آپ نے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ کیا قبلہ کی طرف اور اپنی نگاہ اس تک یا اس کی طرف رکھی۔
[صحیح ابن خزیمہ:719, صحیح ابن حبان:1947, سنن النسائي:1160 , وصححه الألباني في الإرواء تحت حديث:366، وصحيح موارد الظمآن:423]


 


(3)وَرَوَاهُ نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «وَعَقَدَ ثَلَاثًا وَخَمْسِينَ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ»
ترجمہ:
نافعؒ نے حضرت ابن عمر﷽ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ: "اور آپ ﷺ نے تریپن کی شکل بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے۔"




(4)وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الْوُسْطَى»
ترجمہ:
اور حضرت عبداللہ بن زبیر﷽ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ: ”آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور اپنا انگوٹھا بیچ والی انگلی کے اوپر رکھا۔"
نوٹ:
اس حدیث میں انگلیوں کے بند کرنے اور حلقہ بنانے کا ذکر نہیں بلکہ صرف ہاتھ کو ران پر رکھنے اور اشارہ کرنے کا ذکر ہے، لہٰذا بعض فقہاء حنفیہ اس کے بھی قائل ہیں۔


(5)وَرُوِّينَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ " سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْإِشَارَةِ، فَقَالَ: هُوَ الْإِخْلَاصُ "
ترجمہ:
اور حضرت عبداللہ بن عباس﷽ سے روایت ہے کہ: ان سے پوچھا گیا اس اشارہ کے بارے میں، تو ۤپ نے فرمایا: یہ اخلاص(کیلئے)ہے۔

سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ تَحْرِيكِ الرَّجُلِ إِصْبَعَهُ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: «ذَلِكَ الْإِخْلَاصُ»
ترجمہ:
حضرت ابن عباس﷽ سے پوچھا کیا گیا، آدمی کا نماز میں اپنی انگلی کو حرکت دینے کے متعلق : تو آپ نے فرمایا: یہ اخلاص (کیلئے) ہے۔
[المصنف امام عبد الرزاق(م211ھ) : (ت الأعظمي:3244)(ط التأصيل الثانية:3352)]

خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
[تخريج المسند لشاكر:5/57]
خلاصة حكم المحدث : حسن
[تخريج المسند لشعيب:3152]

یعنی خالص/محض اللہ کی (رضا کیلئے، اسی سے بدلہ پانے کی نیت سے) عبادت کرنے کو اخلاص کہتے ہیں۔
[حوالہ، سورۃ البینہ: ۤیت5]
دوسرے لفظوں میں شرک/حصہ داری سے پاک وحدانیت جسے توحید کہتے ہیں۔





(1)کب اشارہ کیا جائے؟
پہلی حدیث:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا، وَلَا يُحَرِّكُهَا»۔
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیرُ فرماتے ہیں کہ پیغمبر ﷺ جب پکارتے(دعا کرتے) تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔
[سنن ابوداود: باب تفريع أبواب الركوع والسجود ، باب الإشارة في التشهد۔۔۔ حدیث نمبر 989]

دعا سے مراد:
اہل حدیث عبيد الله الرحماني المباركفوري(م1414ھ) لکھتے ہیں:
(إذا دعا) أي تشهد
ترجمہ:
(جب پکارتے) یعنی جب شہادت دیتے۔

حضرت وائل بن حجر﷽ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  کو دیکھا تشہد(یعنی کلمہ شہادت) میں انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنائے ہوئے ہیں اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرما رہے ہیں۔ اس سے تشہد(شہادت) میں دعا کر رہے تھے۔
رسول اللہ نے (تشہد میں) دو انگلیوں کو موڑے رکھا اور حلقہ بنایا۔ بشر راوی کہتے ہیں کہ انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنایا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔
رسول اللہ نے خنضر(یعنی چھنگلی-چھوٹی انگلی) اور بنصر(یعنی چھن٘گلیا سے پہلے کی ان٘گلی، ان٘گوٹھے کی طرف سے چوتھی) کو موڑے رکھا، پھر درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ذریعہ حلقہ بنایا اور شہادت کی انگلی کے ذریعہ اشارہ فرمایا۔
[سنن الكبري للبيهقي:2895(2784)، صحيح خلاصة الاحكام:1384]



دوسری حدیث:
(2)عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَی رُکْبَتَيْهِ وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الْيُمْنَی الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ فَدَعَا بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرَی عَلَی رُکْبَتِهِ الْيُسْرَی بَاسِطَهَا عَلَيْهَا۔
ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے، اور دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اٹھاتے وہ انگلی جو انگوٹھے کے قریب ہے، پھر آپ ﷺ اس(اشارہ) سے دعا کرتے، اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر بچھا دیتے۔

دعا سے مراد:- تشہد ہے۔
امام ترمذیؒ(م279ھ) اس حدیث کے بعد(تحت) لکھتے ہیں:
وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ يَخْتَارُونَ الْإِشَارَةَ فِي التَّشَهُّدِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِنَا.
ترجمہ:
صحابہ کرام اور تابعین میں سے اہل علم(علماء) کا اسی پر عمل تھا، یہ لوگ تشہد(یعنی شہادت) میں انگلی سے اشارہ کرنے کو پسند کرتے اور یہی ہمارے اصحاب(شافعیہ) کا بھی قول(فتویٰ) ہے۔


(3)عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَدْعُو بِأُصْبُعَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَحِّدْ أَحِّدْ وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ.
ترجمہ:
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ میرے پاس سے رسول اللہ ﷺ گزرے، اور میں (تشہد میں) اپنی (ایک سے زائد) انگلیوں سے (اشارہ کرتے ہوئے) دعا کر رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایک سے (اشارہ) کرو ایک سے ، اور آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔


نوٹ:
(١)بعض روایات میں [اذا قعد للتشھد ۔۔۔ جب آپ بیٹھتے تشھد کیلئے] یا [اذا جلس فى الصلاة ۔۔۔ جب آپ بیٹھتے نماز میں] بھی آیا ہے، وہاں ہاتھ رکھنے کا ذکر ہے، اشارہ کرنے کی حرکت کا ذکر ۤلفظ "اور" کے بعد الگ سے ذکر کیا گیا ہے، ورنہ اوپر کی دو احادیث سے ٹکراو لازم ۤئے گا، کیونکہ ان میں انگلی سے اشارہ کا موقع دعا یعنی شہادت کہنا ہے۔

يحتمل أن يكون مراده بالتحريك الإشارة بها لا تكرير تحريكها حتى لا يعارض۔
ترجمہ:
ممکن ہے کہ حرکت کرنے سے مراد اس کی طرف اشارہ کرنا (اٹھانا) تھا، اس کی حرکت کو دہرانا نہیں تاکہ اعتراض نہ ہو۔
[السنن الكبرى:٢/ ١٣١، التلخيص الحبير:١٣٦٦]




(3)کیسے اشارہ کرنا چاہئے؟
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، قَال : " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حَلَّقَ الإِبْهَامِ وَالْوُسْطَى ، وَرَفَعَ الَّتِي تَلِيهِمَا يَدْعُو بِهَا فِي التَّشَهُّدِ " .
ترجمہ:
حضرت وائل بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے انگوٹھے اور بیچ والی انگلی کا حلقہ بنایا، اور ان دونوں سے متصل (شہادت کی) انگلی کو اٹھایا، اور اس(انگلی) سے تشہد (یعنی شہادت) میں پکار رہے تھے.‘‘
[سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب الْإِشَارَةِ فِي التَّشَهُّدِ ... رقم الحديث: 912]
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » تتمة مسند الكوفيين ... رقم الحديث: 18488(18391)+18493(18397)]

مصباح الزجاجة، 1 : 113


خلاصة حكم المحدث:
إسناده صحيح
[الخلاصة :1/427, المحدث : النووي]
صحيح أو حسن [كما اشترط على نفسه في المقدمة]




(4)انگلی اٹھاکے(کھڑی کرکے) کچھ جھکا دینا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ مِنْ بَنِي بَجِيلَةَ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ نُمَيْرٍ الْخُزَاعِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وَاضِعًا ذِرَاعَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ، رَافِعًا إِصْبَعَهُ السَّبَّابَةَ قَدْ حَنَاهَا شَيْئًا " .
ترجمہ:
حضرت نمیر خزاعی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا داہنی ران پر داہنا ہاتھ رکھے ہوئے اور شہادت والی انگلی اٹھائے ہوئے قدرے جھکی ہوئی۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَضْعِ ... » بَاب الْإِشَارَةِ فِي التَّشَهُّدِ ... رقم الحديث: 842]


الراوي : نمير الخزاعي المحدث : أبو داود المصدر : سنن أبي داود الصفحة أو الرقم: 991 
خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا إصبعه السبابة قد حناها شيئانميرسنن أبي داود842991أبو داود السجستاني275
2واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنى في الصلاة يشير بأصبعهنميرسنن النسائى الصغرى12551271النسائي303
3قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا أصبعه السبابة قد أحناها شيئا وهو يدعونميرسنن النسائى الصغرى12581274النسائي303
4واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنى في الصلاة يشير بإصبعهنميرسنن ابن ماجه901911ابن ماجة القزويني275
5قاعد في الصلاة قد وضع ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا بأصبعه السبابة قد حناها شيئا وهو يدعونميرمسند أحمد بن حنبل1555215439أحمد بن حنبل241
6واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنى في الصلاة يشير بأصبعهنميرمسند أحمد بن حنبل1555315440أحمد بن حنبل241
7واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنى يشير بإصبعهنميرصحيح ابن خزيمة696692ابن خزيمة311
8قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا أصبعه السبابة قد أحناها شيئا وهو يدعونميرصحيح ابن خزيمة697693ابن خزيمة311
9واضعا اليمنى على فخذه اليمنى رافعا أصبعه السبابة قد حناها شيئا وهو يدعونميرصحيح ابن حبان19851946أبو حاتم بن حبان354
10واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنى في الصلاة يشير بإصبعهنميرالسنن الكبرى للنسائي11761195النسائي303
11قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا إصبعه السبابة قد أحناها شيئا وهو يدعونميرالسنن الكبرى للنسائي11792 : 66النسائي303
12قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا إصبعه السبابة قد أحناها شيئا وهو يدعونميرالسنن الكبرى للبيهقي25582 : 131البيهقي458
13واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنى في الصلاة يشير بإصبعهنميرمسند ابن أبي شيبة554554ابن ابي شيبة235
14جالسا في الصلاة واضعا يده اليمنى على فخذه يشير بإصبعهنميرمصنف ابن أبي شيبة82508517ابن ابي شيبة235
15واضعا يده اليمنى على فخذه يشير بأصبعهنميرمعجم الصحابة لابن قانع18332081ابن قانع البغدادي351
16إذا جلس يتشهد يشير بأصبعهنميرمعجم الصحابة لابن قانع18342082ابن قانع البغدادي351
17واضعا ذراعه اليمنى على فخذه رافعا أصبعه السبابة قد حناها شيئا وهو يدعونميرالأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر14871536محمد بن إبراهيم بن المنذر318
18قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا أصبعه السبابة قد حناها شيئا وهو يدعونميرالتمهيد لابن عبد البر202513 : 195ابن عبد البر القرطبي463
19واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنى يشير في الصلاة بإصبعهنميرالطبقات الكبرى لابن سعد71176 : 386محمد بن سعد الزهري230
20واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا إصبعه السبابة وهو يدعو قد حناها شيئانميرالطبقات الكبرى لابن سعد84447 : 32محمد بن سعد الزهري230
21واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنى في الصلاة يشير بأصبعهنميرالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم20742329ابن أبي عاصم287
22واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا أصبعه السبابة قد حناها وهو يدعونميرالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم20752330ابن أبي عاصم287
23إذا جلس في الصلاة وضع يده اليمنى على فخذه أشار بإصبعيهنميرأخبار أصبهان لأبي نعيم25402 : 310أبو نعيم الأصبهاني430
24قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا أصبعه السبابة قد أحناها شيئا وهو يدعونميرمعرفة الصحابة لأبي نعيم59416473أبو نعيم الأصبهاني430
25قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا أصبعه السبابة قد حناها شيئا وهو يدعونميرتاريخ دمشق لابن عساكر45596---ابن عساكر الدمشقي571
26قاعدا في الصلاة واضعا يده اليمنى على فخذه اليمنىنميرأسد الغابة1633---علي بن الأثير630
27قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا إصبعه السبابة قد أحناها شيئا وهو يدعونميرتهذيب الكمال للمزي3443---يوسف المزي742
28قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا أصبعه السبابة قد أحناها شيئا وهو يدعونميرالسفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة12---ابن أبي خيثمة279
29قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا إصبعه السبابة قد أحناها شيئا وهو يدعونميرالسفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة1286---ابن أبي خيثمة279
30قاعدا في الصلاة واضعا ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى رافعا أصبعه السبابة قد حناهما شيئا وهو يدعونميرالدعاء للطبراني585636سليمان بن أحمد الطبراني360

2 - أنَّه رأى رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في الصَّلاةِ واضعًا اليُمنى على فخِذِه اليُمنى رافعًا أُصبُعَه السَّبَّابةَ قد حناها شيئًا وهو يدعو
ترجمہ:
حضرت نمیر خزاعی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا داہنی ران پر داہنا ہاتھ رکھے ہوئے اور شہادت والی انگلی اٹھائے ہوئے قدرے جھکی ہوئی۔ اور وه دعاء كر رہے ہوتے.

الراوي : نمير الخزاعي المحدث : ابن حبان
المصدر : صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم: 1946 خلاصة حكم المحدث :أخرجه في صحيحه

المحدث : ابن الملقن
المصدر : تحفة المحتاج الصفحة أو الرقم: 1/324 خلاصة حكم المحدث : صحيح أو حسن [كما اشترط على نفسه في المقدمة]

المصدر : الأحكام الصغرى الصفحة أو الرقم: 249 خلاصة حكم المحدث :[أشار في المقدمة أنه صحيح الإسناد]

المحدث : ابن باز
المصدر : حاشية بلوغ المرام لابن باز الصفحة أو الرقم: 232 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن






حضرت عبداللہ بن عمر﷽ سے مختلف الفاظ اور روایات:
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے ہاتھ سے کنکریاں ہٹا رہا ہے، تو جب وہ سلام پھیر چکا تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس سے کہا: جب تم نماز میں رہو تو کنکریوں کو ادھر ادھر مت کرو کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، البتہ اس طرح کرو جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، اس نے پوچھا: آپ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے سے متصل ہے قبلہ کی طرف اشارہ کیا، اور اپنی نگاہ اسی انگلی پر رکھی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے ہاتھ سے کنکریاں ہٹا رہا ہے، تو جب وہ سلام پھیر چکا تو عبداللہ بن عمر ؓ نے اس سے کہا: جب تم نماز میں رہو تو کنکریوں کو ادھر ادھر مت کرو کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، البتہ اس طرح کرو جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، اس نے پوچھا: آپ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے سے متصل ہے قبلہ کی طرف اشارہ کیا، اور اپنی نگاہ اسی انگلی پر رکھی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کے بغل میں نماز پڑھی، تو میں کنکریوں کو الٹنے پلٹنے لگا، (نماز سے فارغ ہونے پر) انہوں نے مجھ سے کہا: (نماز میں) کنکریاں مت پلٹو، کیونکہ کنکریاں کو الٹنا پلٹنا شیطان کی جانب سے ہے، (بلکہ) اس طرح کرو جس طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے، میں نے کہا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کیسے کرتے دیکھا ہے؟، انہوں نے کہا: اس طرح سے، اور انہوں نے دائیں پیر کو قعدہ میں کھڑا کیا، اور بائیں پیر کو لٹایا، اور اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا.
علی بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے دیکھا تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے مجھے منع کیا، اور کہا: اس طرح کیا کرو جس طرح رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، میں نے کہا: آپ ﷺ کس طرح کرتے تھے؟ کہا: جب آپ ﷺ نماز میں بیٹھتے تو اپنی دائیں ہتھیلی اپنی دائیں ران پر رکھتے، اور اپنی سبھی انگلیاں سمیٹے رکھتے، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے کے قریب ہے اشارہ کرتے، اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران پر رکھتے.

دوسری سند:
نافع، حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اٹھاتے وہ انگلی جو انگوٹھے کے قریب ہے آپ ﷺ اس سے دعا کرتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر بچھا دیتے۔
نافع، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے، اور جو انگلی انگوٹھے سے لگی ہوتی اسے اٹھاتے، اور اس سے دعا مانگتے، اور آپ کا بایاں ہاتھ آپ کے بائیں گھٹنے پر پھیلا ہوتا تھا، (یعنی: بائیں ہتھیلی کو حلقہ بنانے کے بجائے اس کی ساری انگلیاں بائیں گھٹنے پر پھیلائے رکھتے تھے) ۔
نافع، حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر رکھتے اور تریپن کی شکل بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے۔
نافع، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے متصل انگلی کو اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے، اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پہ پھیلا کر رکھتے۔
امام نافع ؒ فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز (کے قعدہ) میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور نگاہ انگلی پر رکھتے، پھر (نماز کے بعد) فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
لھی اَشَدُّ عَلَی الشَّیطَانِ مِنَ الحَدِیدِ یعنِی السَّبَّابَة
یہ شہادت کی انگلی شیطان پر لوہے سے زیادہ سخت ہے۔
[مسند احمد:6000 , مسند البزار:5917, وصححه الألباني في المشكاة: 917، صفة الصلاة: ص 159، هداية الرواة: 877]



حضرت وائل بن حجر ؓ سے مختلف الفاظ اور روایات:
حضرت وائل بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں ضرور رسول اللہ ﷺ کی نماز دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز ادا کرتے ہیں؟ ...... پھر بیٹھے تو اپنا بایاں پیر بچھایا، اور بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کو داہنی ران سے جدا رکھا اور دونوں انگلیوں (خنصر، بنصر) کو بند کرلیا اور دائرہ بنا لیا (یعنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے)۔
بشر بن مفضل بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے شیخ عاصم بن کلیب کو دیکھا وہ اسی طرح کرتے تھے، اور بشر نے انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا دائرہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔
..... پھر آپ نے قعدہ کیا، اور اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا، اور اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کا سرا اپنی داہنی ران کے اوپر اٹھائے رکھا، پھر آپ نے اپنی انگلیوں میں سے دو کو بند  کرلیا، اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ (دائرہ) بنا لیا، پھر آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی، تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اسے حرکت دے رہے تھے اور اس سے دعا کرتے تھے۔
اور جب دو رکعت پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پیر کو بچھا دیتے، اور دائیں کو کھڑا رکھتے، اور اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے، اور (شہادت کی) انگلی دعا کے لیے کھڑی رکھتے، اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھتے....
..... پھر آپ بیٹھے تو اپنا بایاں پاؤں بچھایا، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی دائیں کہنی کو اپنی دائیں ران سے دور رکھا، پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں، اور حلقہ بنایا، اور میں نے انہیں اس طرح کرتے دیکھا۔ بشر نے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنایا۔
حضرت وائل بن حجر﷽ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  کو دیکھا تشہد(یعنی کلمہ شہادت) میں انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنائے ہوئے ہیں اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرما رہے ہیں۔ اس سے تشہد(شہادت) میں دعا کر رہے تھے۔




حضرت عبداللہ بن زبیر﷽ سے مختلف الفاظ اور روایات:
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو اپنی بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے، آپ کی نگاہ آپ کے اشارہ سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔
[سنن النسائی:1276]
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں داہنی ران اور پنڈلی کے نیچے کرتے اور داہنا پاؤں بچھا دیتے اور بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی انگلی سے اشارہ کرتے، عبدالواحد نے ہمیں شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے دکھایا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنے بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے درمیان کرلیتے تھے اور اپنا دایاں پاؤں بچھا دیتے اور اپنا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھ لیتے اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھ لیتے اور اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قعدہ میں تشہد پڑھتے تو اپنے داہنے ہاتھ کو داہنے ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور انگوٹھے کو بیچ کی انگلی پر رکھتے۔ اور بایں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے۔
[صحیح مسلم:1308(579) مسند احمد:16145]
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب تشہد پڑھتے تو اپنی انگلی سے اشارے کرتے تھے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے۔
ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار نے یہ اضافہ کیا ہے کہ مجھے عامر نے اپنے والد کے واسطہ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو اسی طرح تشہد پڑھتے دیکھا ہے اور نبی اکرم ﷺ اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب دعا کرتے تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے، اور اسے ہلاتے نہیں تھے.
ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو نے (اس میں) اضافہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ عامر بن عبداللہ بن زبیر نے مجھے خبر دی، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسی طرح دعا کرتے، اور آپ اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے بائیں پاؤں کو تھامے رہتے تھے۔
اس طریق سے بھی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ  سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ کی نظر اشارہ سے آگے نہیں بڑھتی تھی اور حجاج کی حدیث (یعنی پچھلی حدیث) زیادہ مکمل ہے۔
[سنن ابو داؤد:990]


 
 تشہد میں انگلی کا اشارہ کرنا (اٹھانا-حرکت دینا)

تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا باتفاق فقہاء وعلماء سنت ہے اور صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ اشارہ کی مختلف صورتیں احادیث میں مذکور ہیں اور سب جائز ہیں، علماء احناف کے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچیں تو دائیں ہاتھ کی چھوٹی اور ساتھ والی انگلی بند کرلیں، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنالیں، شہادت کی انگلی کو کھلا رکھیں، لا الہ پر شہادت کی انگلی اٹھائیں اور الا اللہ پر گرادیں۔ علماء احناف کی طرح بے شمار محدثین وفقہاء وعلماء مثلاً امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام نوویؒ اور امام بیہقی ؒکا بھی یہ موقف ہے کہ تشہد میں صرف انگلی سے اشارہ کرنا ہے، اس کو (مسلسل)حرکت دینا نہیں ہے۔
(1)عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عليه وسلم، إِذَا قَعَدَ يَدْعُو، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى. وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى. وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ. وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الوسطى. ويلقم كفه اليسرى ركبته.
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قعدہ میں تشہد پڑھتے تو اپنے داہنے ہاتھ کو داہنے ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور انگوٹھے کو بیچ کی انگلی پر رکھتے۔ اور بایں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے۔
[صحیح مسلم:1308(579) سنن النسائي:1275، سنن ابوداود:988، مسند احمد:16145]

کب اشارہ کیا جائے؟
(2)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا، وَلَا يُحَرِّكُهَا»۔
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب (توحید کی شہادت کے ساتھ اللہ کو) پکارتے(دعا کرتے) تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔
[سنن ابوداود: باب تفريع أبواب الركوع والسجود ، باب الإشارة في التشهد۔۔۔ حدیث نمبر 989]
[سنن النسائي:1270][صحيح أبي داود:989]

اس حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ تشہد میں حضور اکرم ﷺ انگلی سے اشارہ تو کرتے تھے مگر اس کو بار بار حرکت نہیں دیتے تھے۔ 

حدیث کا حکم:
امام ابوداود نے اہل مکہ کے نام اپنے پیغام میں کہا:
كل ما سكت عنه فهو صالح
ہر وہ (حدیث) جس کے بارے میں خاموش رہوں، تو وہ درست ہے۔
[رسالة أبي داود : ص ٢٧]
یعنی وہ صحیح یا حسن ہوسکتی ہے، لہٰذا احتیاطا اس پر حسن کا حکم ہوگا۔
[النكت على كتاب ابن الصلاح - امام ابن حجر العسقلاني : ص ١ / ج ٤٣٢]
امام ابن الملقن نے اپنی کتاب [تحفة المحتاج : 1/323] میں بھی نقل فرمایا کتاب کے مقدمہ میں احادیث کو (صحيح أو حسن) قرار دیا۔
امام ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی کتاب [هداية الرواة: 1/411] میں اس حدیث کو نقل فرمایا اور مقدمہ میں احادیث کو (حسن) قرار دیا۔
صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے معروف محدث حضرت امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
(المجموع)
امام ابن ملقن رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ امام ابوداؤد نے صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے۔
[خلاصۃ البدر المنیر۔ باب کیفیۃ الصلاة]


جو حضرات انگلی سے اشارہ کرنے کے بجائے انگلی کو حرکت دیتے رہتے ہیں، وہ حضرات وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین انگلیوں کو ملاکر حلقہ بنایا، ایک کو اٹھایا، میں نے دیکھا آپ ﷺ اس کو ہلاتے دعا کرتے۔
ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَفَعَ إِصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا۔

ان حضرات نے اس حدیث کی بنیاد پر نماز کے آخر تک انگلی کو حرکت دینے کے قول کو اختیار کیا حالانکہ اس حدیث میں اور نہ کسی دوسری حدیث میں یہ مذکور ہے کہ حرکت کی کیا صورت ہو، آہستہ یا تیز؟ اور کب تک یہ حرکت ہو؟ نیز اس حدیث کا یہ مفہوم لینے کی صورت میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی اس حدیث سے تعارض بھی ہورہا ہے جس میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ آپ ﷺ انگلی سے اشارہ تو کرتے تھے مگر حرکت نہیں کرتے تھے۔
چونکہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی حدیث ان حضرات کے موقف کے واضح طور پر خلاف ہے، لہٰذا ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیا جائے باوجودیکہ مشہور ومعروف محدث امام نووی ؒ جیسے محدث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور امام نووی ؒ کی خدمات کوساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ عصر حاضر میں شیخ ناصر الدین البانی نے اپنے مکتب فکر کی تائید کے لئے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت کے راوی (محمد بن عجلانؒ) کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، جبکہ صحیح بخاری شریف کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام المحدثین علامہ ابن حجرعسقلانی ؒ نے ان کو (احد العلماء العاملین) کہہ کر ثقہ قرار دیا ہے۔
جس حدیث کی بنیاد پر یہ حضرات مسلسل حرکت کے قائل ہیں وہ حضرت عاصم ؒ سے 11 راویوں نے روایت کی ہے ، حضرت زائدہ بن قدامہ ؒ کے علاوہ تمام 10 راویوں نے یہ حدیث (يُحَرِّكُهَا) کے لفظ کے بغیر روایت کی ہے، جو اس لفظ (يُحَرِّكُهَا) کے شاذ ہونے کی واضح دلیل ہے اور حدیث کے متفق علیہ اصول کی بنیاد پر حدیث میں یہ لفظ شاذ کہلائے گا، لہٰذا اس حدیث کو دلیل کو طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے، جیسا کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (صحیح ابن خزیمہ۔
باب صفۃ الیدین علی الرکبتین فی التشہد) میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس کے شاذ ہونے کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: (احادیث میں سوائے اس حدیث کے کسی بھی حدیث میں "يُحَرِّكُهَا" کا لفظ نہیں ہے)۔
صحیح مسلم میں اس موضوع سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں مگر ایک حدیث میں بھی حرکت کا لفظ وارد نہیں ہوا ہے ، صحیح مسلم کی تمام ہی احادیث میں صرف اشارہ کا لفظ وارد ہونا اس بات کی واضح علامت ہے کہ اصل مطلوب صرف اشارہ ہے۔
مشہور ومعروف محدث امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی حدیث کی مشہور کتاب [سنن کبری للبیہقی۔باب من روی انہ اشار بہا ولم یحرکہا] میں دونوں احادیث میں تطبیق اس طرح پیش کی ہے کہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد حرکت سے مراد اشارہ ہے نہ کہ اس کو بار بار حرکت دینا۔ کیونکہ اشارہ بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں، اس طرح حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے موافق ہوجائی گی۔ غرضیکہ اس موقف کو اختیار کرنے میں دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے گا اور کسی حدیث کو ضعیف قرار دینے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
مشہور ومعروف حنفی عرب عالم ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مرقاة میں بھی یہی تحریر کیا ہے کہ یہاں حرکت دینے سے مراد محض انگلی کا اٹھانا ہے اور اٹھانا بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں۔
(بحوالہ اعلاء السنن)
غرضیکہ جمہور علماء خاص کر علماء احناف، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام نوویؒ اور امام بیہقی ؒ جیسے جلیل القدر علماءنے یہی قول اختیار کیا ہے کہ تشہد میں انگلی سے ایک مرتبہ اشارہ کرنا کافی ہے، نماز کے اختتام تک برابر حرکت کرتے رہنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماء نے یہی قول اختیار کیا ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ لا الہ پر شہادت کی انگلی کے اٹھانے اور الا اللہ پر گرانے کا واضح ثبوت حضور اکرم ﷺ سے نہیں ملتا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ احادیث میں وارد اشارہ کا لفظ خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں صرف اشارہ کرنا مراد ہے نہ کہ حرکت۔ اور اشارہ الا اللہ پر خود ہی ختم ہوجائے گا۔ صحیح مسلم میں متعدد جگہوں پر اس مسئلہ کے متعلق متعدد احادیث ذکر کی گئی ہیں مگر تمام ہی جگہوں پر صرف اشارہ کا لفظ وارد ہوا ہے، ایک جگہ پر بھی حرکت یا مسلسل حرکت کا لفظ وارد نہیں ہوا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ انگلی اٹھانے کا سلسلہ نماز کے اختتام تک جاری رکھنے یا نماز کے اختتام تک حرکت جاری رکھنے کا کوئی ثبوت نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں موجود نہیں ہے۔
اشارہ کی حقیقت:
آپ ﷺ کا یہ اشارہ دراصل توحید کا اشارہ تھا اور توحید تشہد کا نام ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی گواہی دینا ہے اور توحید میں ایک تو غیر اللہ سے الوہیت کی نفی ہے اور دوسرے اللہ کی الوہیت کا اقرار اور اثبات ہے تو اشارہ بھی نفی اور اثبات ہونا چاہئے، اس لئے علماء احناف نے فرمایا کہ اثبات کے لئے انگلی اٹھانا اور نفی کے لئے انگلی کا رکھنا ہے۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
حضرت خفاف بن ایماء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے اخیر میں یعنی قعدہ میں بیٹھتے تو اپنی انگلی مبارک سے اشارہ فرماتے تھے۔ مشرکین کہتے تھے کہ (نعوذ باللہ) آپ ﷺ اس اشارہ سے جادو کرتے ہیں، حالانکہ مشرکین جھوٹ بولتے تھے، بلکہ رسول اللہ ﷺ اس اشارہ سے توحید کا اشارہ کرتے تھے(یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اشارہ ہے)۔
حوالہ
عَنْ خُفَافِ بْنِ إِيمَاءَ بْنِ رَحَضَةَ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ» ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ يَسْحَرُ بِهَا وَكَذَبُوا، وَلَكِنَّهُ التَّوْحِيدُ.
محدث علامہ ہیثمی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
حوالہ
رَوَاهُ أَحْمَدُ مُطَوَّلًا وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي صِفَةِ الصَّلَاةِ، وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ كَمَا تَرَاهُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
[مجمع الزوائد:2844، بَابُ التَّشَهُّدِ وَالْجُلُوسِ وَالْإِشَارَةِ بِالْإِصْبَعِ فِيهِ]

شہادت کی انگلی اٹھانے کی فضیلت:
امام نافع ؒ فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز (کے قعدہ) میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور نگاہ انگلی پر رکھتے، پھر (نماز کے بعد) فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
لھی اَشَدُّ عَلَی الشَّیطَانِ مِنَ الحَدِیدِ یعنِی السَّبَّابَة
یہ شہادت کی انگلی شیطان پر لوہے سے زیادہ سخت ہے۔
[مسند احمد:6000 , مسند البزار:5917, وصححه الألباني في المشكاة: 917، صفة الصلاة: ص 159، هداية الرواة: 877]
یعنی تشہد کی حالت میں شہادت کی انگلی سے اللہ کی وحدانیت کا اشارہ کرنا شیطان پر کسی کو نیزے وغیرہ مارنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔

انگلی سے اشارہ قبلہ کی طرف:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اشارہ کرتے ہوئے رخ قبلہ کی طرف ہوتا۔
[سنن کبری للبیہقی۔ باب کیفیۃ الاشارة بالمجۃ]
یعنی اشارہ کے وقت انگلی کا رخ آسمان کی طرف نہیں بلکہ قبلہ کی طرف ہونا چاہئے۔
خلاصہ کلام:
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کے سنت ہونے پر حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام کا اتفاق ہے، اگرچہ اشارہ کرنے کی کیفیت میں اختلاف زمانہ قدیم سے چلا آر ہا ہے۔ امت مسلمہ کا اچھا خاصہ طبقہ نماز ہی پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر مسلمان کسی طرح نماز پڑھنے والا بن جائے، اور ہم اپنی اصلاح کی بھی فکر کریں کہ اللہ ہمیں خشوع و خضوع اور خشیت والی نعمتیں نصیب فرمائے۔ نیز ہم اپنی صلاحیت اس بات پر لگائیں کہ کس طرح عام مسلمان حرام روزی سے بچ کر حلال روزی پر اکتفاء کرنے والا بن جائے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم دوسری رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے کو خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کریں۔
غرضیکہ تشہد میں اشارہ کی مختلف صورتیں احادیث میں مذکور ہیں اور سب جائز ہیں، علماءاحناف کے ہاں بہتر صورت یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچیں تو دائیں ہاتھ کی چھوٹی اور ساتھ والی انگلی بند کرلیں، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنالیں، شہادت کی انگلی کو کھلا رکھیں، لا الہ پر شہادت کی انگلی اٹھائیں اور الا اللہ پر گرادیں۔








حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ . ح قَالَ : وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظ لَهُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذَا قَعَدَ يَدْعُو ، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى ، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الْوُسْطَى ، وَيُلْقِمُ كَفَّهُ الْيُسْرَى رُكْبَتَهُ " .

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز کے لئے بیٹھتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملا لیتے۔


تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى بين فخذه وساقه وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بإصبعهعبد الله بن الزبيرصحيح مسلم914580مسلم بن الحجاج261
2إذا قعد يدعو وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى أشار بإصبعه السبابة ووضع إبهامه على إصبعه الوسطى ويلقم كفه اليسرى ركبتهعبد الله بن الزبيرصحيح مسلم915580مسلم بن الحجاج261
3إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى تحت فخذه اليمنى وساقه وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرسنن أبي داود840988أبو داود السجستاني275
4يضع يديه على ركبتيه ثم أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرسنن النسائى الصغرى11481161النسائي303
5إذا قعد في التشهد وضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى أشار بالسبابة لا يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرسنن النسائى الصغرى12591275النسائي303
6إذا جلس في التشهد وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى أشار بالسبابة ولم يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرمسند أحمد بن حنبل1576615668أحمد بن حنبل241
7إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى بين فخذه وساقه ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرصحيح ابن خزيمة678674ابن خزيمة311
8إذا تشهد وضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بأصبعه السبابة لا يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرصحيح ابن خزيمة699695ابن خزيمة311
9إذا جلس في الركعتين افترش اليسرى ونصب اليمنى ووضع إبهامه على الوسطى وأشار بالسبابة ووضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى وألقم كفه اليسرى ركبتهعبد الله بن الزبيرصحيح ابن حبان19821943أبو حاتم بن حبان354
10إذا تشهد وضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بأصبعه السبابة لا يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرصحيح ابن حبان19831944أبو حاتم بن حبان354
11إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى تحت فخذه وساقه وفرش قدمه اليمنىعبد الله بن الزبيرمستخرج أبي عوانة15632001أبو عوانة الإسفرائيني316
12إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى تحت فخذه وساقه وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بإصبعه وأشار بالسبابةعبد الله بن الزبيرمستخرج أبي عوانة15642002أبو عوانة الإسفرائيني316
13إذا قعد في الصلاة وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى أشار بالسبابةعبد الله بن الزبيرمستخرج أبي عوانة15742015أبو عوانة الإسفرائيني316
14يدعو بالتشهد هكذا يتحامل يده اليسرى على فخذه اليسرىعبد الله بن الزبيرمستخرج أبي عوانة15752016أبو عوانة الإسفرائيني316
15إذا تشهد وضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ويده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بإصبعه السبابة لا يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرمستخرج أبي عوانة15772018أبو عوانة الإسفرائيني316
16إذا قعد في التشهد في الصلاة جعل قدمه اليسرى تحت فخذه وساقيه وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ويده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرالمسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم11261282أبو نعيم الأصبهاني430
17إذا قعد يدعو وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى أشار بأصبعه السبابة قال وضع إبهامه على أصبعه الوسطى ويلقم كفه اليسرى ركبتهعبد الله بن الزبيرالمسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم11271283أبو نعيم الأصبهاني430
18إذا قعد في الصلاة وضع يديه على ركبتيه أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرالمسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم11281284أبو نعيم الأصبهاني430
19إذا جلس في الثنتين أو في الأربع يضع يديه على ركبتيه ثم أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرالسنن الكبرى للنسائي739749النسائي303
20إذا قعد في التشهد وضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى أشار بالسبابة لا يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرالسنن الكبرى للنسائي11801199النسائي303
21إذا جلس يدعو يعني في التشهد يضع يده اليمنى يشير بإصبعه اليمنى السبابة ويضع الإبهام على الوسطى ويضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ويلقم كفه اليسرى فخذه اليسرىعبد الله بن الزبيرسنن الدارقطني11511309الدارقطني385
22إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى بين فخذه وساقه وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على ركبته اليمنى أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرالسنن الكبرى للبيهقي25552 : 130البيهقي458
23إذا قعد يدعو وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى أشار بإصبعه السبابة ووضع إبهامه على أصبعه الوسطى ويلقم كفه اليسرى ركبتهعبد الله بن الزبيرالسنن الكبرى للبيهقي25562 : 130البيهقي458
24يتحامل النبي بيده اليسرى على رجله اليسرى على فخذهعبد الله بن الزبيرالسنن الكبرى للبيهقي25602 : 131البيهقي458
25إذا جلس في الصلاة وضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى وكفه اليمنى على فخذه اليمنى أشار بأصبعه السبابة لا يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرالسنن الكبرى للبيهقي25642 : 132البيهقي458
26إذا جلس في ثنتين أو في أربع وضع يديه على ركبتيه أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرالسنن الكبرى للبيهقي25652 : 132البيهقي458
27إذا جلس للتشهد ثنى رجله اليسرى ونصب اليمنى أشار بالسبابة وحلق حلقةعبد الله بن الزبيرالبحر الزخار بمسند البزار19712204أبو بكر البزار292
28إذا جلس للتشهد ثنى رجله اليسرى ونصب اليمنى أشار بالسبابة وحلق حلقةعبد الله بن الزبيرالبحر الزخار بمسند البزار19722206أبو بكر البزار292
29إذا قعد في التشهد قال هكذا وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى واليسرى على فخذه اليسرى أشار بالسبابة ولم يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرمسند أبي يعلى الموصلي67636807أبو يعلى الموصلي307
30إذا جلس يدعو يعني في التشهد يضع يده اليمنى ويشير بأصبعه السبابةعبد الله بن الزبيرإتحاف المهرة6777---ابن حجر العسقلاني852
31إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى بين فخذه وساقه ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى وأشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرإتحاف المهرة6780---ابن حجر العسقلاني852
32إذا قعد يدعو وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى أشار بإصبعه السبابة ووضع إبهامه على إصبعه الوسطى ويلقي كفه اليسرى على ركبتهعبد الله بن الزبيرمصنف ابن أبي شيبة82528519ابن ابي شيبة235
33إذا قعد يدعو وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى وأشار بإصبعه السبابة ووضع إبهامه على إصبعه الوسطى ويلقم كفه اليسرى ركبتيهعبد الله بن الزبيرمصنف ابن أبي شيبة2909930169ابن ابي شيبة235
34إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى تحت فخذه اليسرى وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرالمعجم الأوسط للطبراني96909456سليمان بن أحمد الطبراني360
35إذا جلس في الصلاة وضع رجله اليمنى بين فخذه وساقه ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنىعبد الله بن الزبيرالمعجم الكبير للطبراني2101221027سليمان بن أحمد الطبراني360
36إذا صلى فجلس في الثنتين أو الأربع يضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ويضع يده اليمنى على فخذه اليمنى يشير بإصبعه التي تلي الإبهامعبد الله بن الزبيرالمعجم الكبير للطبراني2101321028سليمان بن أحمد الطبراني360
37إذا صلى وضع إحدى يديه على فخذه اليسرى واليد الأخرى على فخذه اليمنى بإصبعه هكذا يشيرعبد الله بن الزبيرالمعجم الكبير للطبراني2101421029سليمان بن أحمد الطبراني360
38إذا جلس للتشهد في الصلاة جعل يده اليمنى على فخذه الأيمن أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرجزء ما رواه أبي الزبير عن غير جابر2930أبو الشيخ الأصبهاني369
39إذا جلس في الصلاة وضع يده اليمنى على فخذه أشار بإصبعهعبد الله بن الزبيرالثاني من الفوائد المنتقاة لأبي القاسم الأزجي92---أبو القاسم عبد العزيز بن علي الأزجي330
40يقعد في التشهد يضع يده اليسرى على فخذه اليسرى ويده اليمنى على فخذه اليمنى يشير بأصبعه بالسبابة ولا يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرالأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر14881537محمد بن إبراهيم بن المنذر318
41إذا جلس يدعو ويضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى أشار بأصبعه السبابة ووضع إبهامه على أصبعه الوسطى ويلقم كفه اليسرى ركبتهعبد الله بن الزبيرالتمهيد لابن عبد البر202313 : 194ابن عبد البر القرطبي463
42إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى تحت فخذه وساقه وفرق بين قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بأصبعهعبد الله بن الزبيرالتمهيد لابن عبد البر202413 : 194ابن عبد البر القرطبي463
43إذا صلى وضع إحدى يديه على فخذه اليسرى واليد الأخرى على فخذه اليمنى وقال بأصبعه هكذاعبد الله بن الزبيرحلية الأولياء لأبي نعيم37893792أبو نعيم الأصبهاني430
44إذا قعد يدعو وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى أشار بأصبعه السبابة ووضع إبهامه على أصبعه الوسطى ويلقم كفه اليسرى ركبتهعبد الله بن الزبيرالأنوار في شمائل النبي المختار559---الحسين بن مسعود البغوي516
45في الصلاة جالسا وهو يشير بإصبعه السبابةعبد الله بن الزبيرالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم548586ابن أبي عاصم287
46يدعو كذلك ويتحامل بيده اليسرى على رجله اليسرىعبد الله بن الزبيرالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم549587ابن أبي عاصم287
47إذا قعد في التشهد قال هكذا وضع يحيى يده اليمنى على فخذه اليمنى واليسرى على فخذه اليسرى أشار بالسبابة معا ولم يجاوز بصره إشارتهعبد الله بن الزبيرأسد الغابة751---علي بن الأثير630
48إذا دعا وضع في الصلاة يده اليمنى على فخذه اليمنى نصب أصبعه التي تلي الإبهامعبد الله بن الزبيرالدعاء للطبراني588639سليمان بن أحمد الطبراني360


2 - كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّه عليه وسلَّم إذا قعدَ يَدعو وضعَ يدَهُ اليمنى على فخذِهِ اليُمنى ، ويدَهُ اليسرى على فخذِهِ اليسرى ، وأشارَ بأصبعِهِ السَّبَّابةِ ، ووضعَ إبهامَهُ على إصبعِهِ الوسطى ويُلقِمُ كفَّهُ اليُسرى رُكْبتَهُ . لفظُ حديثِ أبي خالدٍ الأحمرِ ، وفي روايةِ اللَّيثِ بنِ سعدٍ : كانَ إذا قعدَ في الصَّلاةِ وضعَ يدَهُ على رُكْبتِهِ وأشارَبإصبعِهِ
الراوي : عبدالله بن الزبير المحدث : البيهقي
المصدر : السنن الكبرى للبيهقي الصفحة أو الرقم: 2/131 خلاصة حكم المحدث : قوي الإسناد ثابت الخبر


أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان إذا تشهَّد وضَع يدَه اليُسرى على فخِذِه اليُسرى ووضَع يدَه اليُمنى على فخِذِه اليُمنى وأشار بأُصبُعِه السَّبَّابةِ لا يُجاوزُ بصَرُه إشارتَه
الراوي : عبد الله بن الزبير المحدث : ابن حبان
المصدر : صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم: 1944 خلاصة حكم المحدث :أخرجه في صحيحه






2 - قلت : لأنظرن إلى صلاة رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم كيف يصلي قال فقام رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم فاستقبل القبلة فكبر فرفع يديه حتى حاذتا أذنيه ثم أخذ شماله بيمينه فلما أراد أن يركع رفعهما مثل ذلك ثم وضع يديه على ركبتيه فلما رفع رأسه من الركوع رفعهما مثل ذلك فلما سجد وضع رأسه بذلك المنزل من بين يديه ثم جلس فافترش رجله اليسرى ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى وحد مرفقه الأيمن على فخذه اليمنى وقبض ثنتين وحلق حلقة ورأيته يقول هكذا وحلق بشر الإبهام والوسطى وأشار بًالسبًابة
المحدث : أبو داود
المصدر : سنن أبي داود الصفحة أو الرقم: 957(726 )
خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]

المحدث : الألباني
المصدر : صحيح أبي داود الصفحة أو الرقم: 957(726 ) خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : الألباني
المصدر : صحيح النسائي الصفحة أو الرقم: 1264 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : الألباني

المصدر : صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 753 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : الألباني
المصدر : أصل صفة الصلاة الصفحة أو الرقم: 3/834(3/983) خلاصة حكم المحدث :إسناده صحيح

المحدث : الوادعي
المصدر : الصحيح المسند الصفحة أو الرقم: 1208 خلاصة حكم المحدث :حسن

المحدث : ابن الملقن
المصدر : تحفة المحتاج الصفحة أو الرقم: 1/323 
خلاصة حكم المحدث : صحیح أو حسن [كما اشترط على نفسه في المقدمة]



(1)انگلی کا اشارہ کرنا(حرکت دینا)

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَدَنِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ السَّاعِدِيُّ ، قَالَ : اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ , وَأَبُو أُسَيْدٍ , وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، فَذَكَرُوا صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ : أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ يَعْنِي لِلتَّشَهُّدِ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى ، وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْيُمْنَى عَلَى قِبْلَتِهِ ، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى وَكَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى ، وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ يَعْنِي السَّبَّابَةَ " 
ترجمہ:
حضرت عباس بن سہل الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلم رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا ، تو حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں، بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے یعنی تشھد کے لیے اور انہوں نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور دائیں پاؤں کا اگلا حصہ قبلہ رخ فرمایا اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پر رکھی اور بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر، اور اپنی انگلی سے اشارہ کیا۔ (یعنی شھادت والی انگلی سے اشارہ کیا)۔ 

[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ » بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ الْجُلُوسُ فِي التَّشَهُّدِ ... رقم الحديث: 293]
تشریح:
تَشَہُّد کو تشہد اس لئے کہتے ہیں (کیوں)کہ اس میں توحید-اور-رسالت کی شہادت دی جاتی ہے، یہ نماز کی ہر دو رکعت کے دو سجدوں کے بعد قَعْدَہ(یعنی گھٹنوں کے بل دوزانو ہوکر بیٹھنے)کی حالت میں التحیات پڑھنے کو کہتے ہیں۔
لہٰذا
قَعْدَہ میں التحیات کے بعد درود اور دعا کو تشہد نہیں کہتے۔

 

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1جلس يعني للتشهد فافترش رجله اليسرى وأقبل بصدر اليمنى على قبلته ووضع كفه اليمنى على ركبته اليمنى وكفه اليسرى على ركبته اليسرى أشار بأصبعه يعني السبابةمنذر بن سعدجامع الترمذي270293محمد بن عيسى الترمذي256
2يفتح أصابع رجليه إذا سجد ثم يقول الله أكبر ويرفع ويثني رجله اليسرى فيقعد عليها ثم يصنع في الأخرى مثل ذلك فذكر الحديث قال حتى إذا كانت السجدة التي فيها التسليم أخر رجله اليسرى وقعد متوركا على شقه الأيسرمنذر بن سعدسنن أبي داود826963أبو داود السجستاني275
3إذا كان في الركعتين اللتين تنقضي فيهما الصلاة أخر رجله اليسرى وقعد على شقه متوركا ثم سلممنذر بن سعدسنن النسائى الصغرى12461262النسائي303
4إذا كانت الركعة التي تنقضي فيها الصلاة أخر رجله اليسرى وقعد على شقه متوركا ثم سلممنذر بن سعدصحيح ابن خزيمة682678ابن خزيمة311
5إذا كان في الركعتين التي تنقضي فيها الصلاة أخر رجله اليسرى وقعد على شقه متوركا ثم سلممنذر بن سعدالسنن الكبرى للنسائي11672 : 58النسائي303
6إذا جلس في الأوليين جلس على قدمه اليسرى ونصب قدمه اليمنى وإذا جلس في الآخرة جلس على إليته وجعل بطن قدميه اليسرى عند مأبض فخذه اليمنى ونصب قدمه اليمنىمنذر بن سعدالسنن الكبرى للبيهقي25452 : 127البيهقي458
7إذا قعد في الركعتين قعد على بطن قدميه اليسرى ونصب اليمنى فإذا كانت الرابعة أفضى بوركه اليسرى إلى الأرض وأخرج قدميه من ناحية واحدةمنذر بن سعدالسنن الكبرى للبيهقي25462 : 128البيهقي458
8جلس فافترش رجله اليسرى وأقبل بصدر اليمنى على قبلته ووضع كفه اليمنى على ركبته اليمنى وكفه اليسرى على ركبته اليسرى أشار بإصبعه وهذا في التشهد الأولمنذر بن سعدالسنن الكبرى للبيهقي25472 : 128البيهقي458
9حتى إذا كان في السجدة التي فيها التسليم أخر رجله اليسرى فقعد متوركا على شقه الأيسرمنذر بن سعدالسنن الكبرى للبيهقي25482 : 128البيهقي458
10إذا جلس في السجدتين ثنى رجله اليسرى فجلس عليها ونصب قدمه اليمنى وإذا جلس في الأربع أماط رجليه عن وركه وأفضى بمقعدته إلى الأرض ونصب وركه اليمنىمنذر بن سعدمعرفة السنن والآثار للبيهقي868872البيهقي458
11إذا قعد في الركعتين قعد على بطن قدمه اليسرى ونصب اليمنى فإذا كانت الرابعة أفضى بوركه اليسرى على الأرض وأخرج قدميه من ناحية واحدةمنذر بن سعدموطأ عبد الله بن وهب354396عبد الله بن وهب بن مسلم197
12إذا جلس في السجدتين ثنى رجله اليسرى فجلس عليها ونصب قدمه اليمنى فإذا جلس في الأربع أماط رجليه عن وركه وأفضى بمقعدته الأرض ونصب وركه اليمنىمنذر بن سعدمسند الشافعي158166الشافعي204
13إذا جلس في السجدتين ثنى رجله اليسرى فجلس عليها ونصب قدمه اليمنى فإذا جلس في الأربع أماط رجليه عن وركه وأفضى بمقعدته إلى الأرض ونصب وركه اليمنىمنذر بن سعدمسند الإمام الشافعي ( ترتيب سنجر)205---الأمير سنجر745
14إذا جلس في الصلاة في الركعتين الأوليين نصب قدمه اليمنى وافترش اليسرى أشار بإصبعه التي تلي الإبهام وإذا جلس في الأخريين أفضى بمقعدته إلى الأرض ونصب قدمه اليمنىمنذر بن سعدمصنف عبد الرزاق29623046عبد الرزاق الصنعاني211
15فتخ أصابع رجليه وقعد على اليسرىمنذر بن سعدغريب الحديث للحربي19123 : 1047إبراهيم بن إسحاق الحربي285
16إذا جلس في السجدتين ثنى رجله اليسرى فجلس عليها ونصب قدمه اليمنى وإذا جلس في الأربع أماط رجليه عن وركه وأفضى بمقعدته الأرض ونصب وركه اليمنىمنذر بن سعدالأم للشافعي1821 : 133الشافعي204
17جلس يعني للتشهد فافترش رجله اليسرى وأقبل بصدر اليمنى على قبلته ووضع كفه اليمنى على ركبته اليمنى وكفه اليسرى على ركبته اليسرى أشار بأصبعه يعني السبابةمنذر بن سعدشرح السنة668672الحسين بن مسعود البغوي516
18إذا جلس في السجدتين ثنى رجله اليسرى وجلس عليها ونصب قدمه اليمنى وإذا جلس في الأربع أماط رجليه عن وركه وأفضى بمقعدته إلى الأرض ونصب وركه اليمنىمنذر بن سعدبيان خطأ من أخطأ على الشافعي4848البيهقي458


تشہد میں ﷲ کی وحدانیت کا زبانی اقرار ہے اور انگشتِ شہادت سے اشارہ اس کا عملی اقرار ہے۔


علامہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی سندھی رحمة اللہ علیہ نے اس موضوع پر ٹھوس وقیع رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے،جس کا نام’’نورالعینین فی اثبات الاشارة فی التشھدین‘‘رکھا ہے 


خلاصہ

دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کی ساتھ والی انگلی کو شہادت والی انگلی کہتے ہیں، چونکہ جب نمازی نماز میں اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی شہادت دیتا ہے تو یہ انگلی بھی یہی عملی شہادت دیتی ہے۔ لہٰذا تشہد میں جب ﴿اشہد ان لا الٰہ﴾ پر پہنچیں تو ہاتھ کی بڑی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائیں، شہادت کی انگلی سے اشارہ کریں اور ﴿الا اللہ﴾ پر انگلی کو نیچے کر لیں اور یہ حلقہ نماز کے آخر تک بنائے رکھیں۔
حوالہ
تشہد میں التحیات پڑھتے ہوئے ”لا الہ“ پر شہادت کی انگلی اٹھائی جائے اور ”الا اللہ“ پر گرادی جائے اور انگلیوں کا حلقہ سلام تک باقی رکھا جائے۔
درمختار میں ہے:
الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا، یرفعہا عند النفی ویضعہا عند الإثبات وفي الشامیة: الثانی بسط الأصابع إلی حین الشہادة فیعقد عندہا ویرفع السبابة عند النفي ویضعہا عند الإثبات وہذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحة ولصحة نقلہ عن أئمتنا الثلاثة الخ 
[درمختار مع الشامی، زکریا: ۲/۲۱۸]








No comments:

Post a Comment