نماز میں تَشَہُّد پڑھتے ہوئے شہادت کی انگلی (1)اٹھانا-(2)کھڑی کرنا، (3)اشارہ کرنا، (4)پکارنا - متعدد شرعی نصوص سے ثابت ہے۔ اسی وجہ سے اس پر امت کا تسلسل کے ساتھ عمل چلا آرہا ہے۔ حدیث اور فقہ کی تقریباً ہر کتاب میں اس کا ثبوت اور سنت ہونا واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔
مختلف روایات میں مختلف الفاظ:
(1)اور اٹھائی اپنی انگلی۔
وَرَفَعَ إِصْبَعَهَ
جو انگوٹھے کے متصل ہوتی ہے
الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ
(2)اور آپ نے کھڑی کی اپنی انگلی (دعا کیلئے)
وَنَصَبَ إِصْبَعَهُ (لِلدُّعَاءِ)
(3)پھر اشارہ کیا اپنی شہادت کی انگلی سے۔
ثُمَّ أَشَارَ بِسَبَّابَتِهِ
[مسند أحمد:١٨٨٧٨، نسائي:٨٨٩، ابوداود:٩٥٧، وقال الشيخ شعيب الأرناءوط: إسناده صحيح.]
اور اشارہ کیا اپنی انگلی سے (شہادت والی)
وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ (السَّبَّابَةِ)
[مسلم:1308(579)]
اور اپنی انگلی سے اشارہ کر رہے تھے۔
وَيُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ.
(4)اور بند کیا ہوا تھا تمام انگلیوں کو اور کھولا/پھیلایا ہوا تھا شہادت کی انگلی کو
وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ وَبَسَطَ السَّبَّابَةَ
پیغمبر ﷺ جب دعا کرتے تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔
وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ يَدْعُو بِهَا۔
اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے قریب والی انگلی اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے۔ (یعنی اشارہ کرتے)۔
فِي التَّشَهُّدِ
تشہد (یعنی شہادت) میں.
اہل حدیث عبيد الله الرحماني المباركفوري(م1414ھ) لکھتے ہیں:
(إذا دعا) أي تشهد
ترجمہ:
(جب پکارتے) یعنی جب شہادت دیتے۔
شافعی محدث امام بیھقیؒ(م458ھ) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا دُعَاؤُهُ بِالسَّبَّابَةِ، فَإِنَّمَا هُوَ الْإِشَارَةُ عِنْدَ الشَّهَادَةِ
ترجمہ:
اور جہاں تک شہادت کی انگلی سے دعا کرنا(یعنی تشہد کہنا) ہے تو وہ اشارہ شہادت کے وقت کا ہے۔
[معرفة السنن والآثار-البيهقي:3646]
جمع وتَطبِیق:
اشارہ کرنے سے مراد دعا کرنا ہے:
وَعَقَدَ ثَلَاثًا وَخَمْسِينَ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ۔
اور آپ ﷺ ترپن(53) کی گرہ بناتے، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے۔
وَعَقَدَ ثَلَاثًا وَخَمْسِينَ، وَدَعَا۔
اور آپ ﷺ گرہ بناتے ترپن (53) کی ، اور دعا کرتے۔
[مسند أحمد:6153][الخلافيات - البيهقي - ت النحال:1776]
ترپن کی گرہ بنانے کا مطلب:
(1)ثُمَّ قَبَضَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ(پھر اپنی انگلیوں کو سمیٹا-بند کیا)
[مسند أحمد:18870، إرواء الغليل:2/ 68]
ثُمَّ قَبَضَ ثَلَاثَةً مِنْ أَصَابِعِهِ(پھر اپنی تین انگلیوں کو سمیٹا-بند کیا)
[السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية: 2787]
ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ(پھر اپنی انگلیوں میں سے دو کو بند کرلیا)
(یعنی)
چھنگلی(چھوٹی انگلی) اور چھن٘گلیا سے پہلے کی ان٘گلی(ان٘گوٹھے کی طرف سے چوتھی ان٘گلی) کو موڑے رکھا۔
[سنن الكبري للبيهقي:2895(2784)، حدیث صحيح-خلاصة الاحكام للنووي:1384]
اور اپنا انگوٹھا بیچ والی انگلی کے اوپر رکھا۔
اور حلقہ(دائره) بنالیا
انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا
(2)پھر (شہادت کی) انگلی کو اٹھایا
کھڑا کیا
قبلہ کی طرف اشارہ کیا، اور اپنی نگاہ اسی انگلی پر رکھی۔
(3)پھر آپ نے اس(انگلی کو) کچھ جھکا کر رکھا تھا۔
اور آپ دعا کر رہے تھے.
یعنی آخر تک اسی حالت میں جھکائے رکھے ہوئے تھے۔
شافعی امام ابن حجر الہیتمیؒ(م974ھ)لکھتے ہیں:
لِئَلَّا تَخْرُجَ عَنْ سَمْتِ الْقِبْلَةِ (عِنْدَ) هَمْزَةِ (قَوْلِهِ إلَّا اللَّهُ) لِلِاتِّبَاعِ وَلَا يَضَعُهَا إلَى آخِرِ التَّشَهُّدِ
ترجمہ:
تاکہ وہ(انگلی) نہ ہٹے قبلہ کے رخ/جانب/طرف سے، اس کے إلَّا اللَّهُ کے ہمزہ کہنے کے وقت، اور اسے نہ رکھے تشہد کے آخر تک۔
[تحفة المحتاج في شرح المنهاج-ابن حجر الهيتمي(م974ھ) : جلد 2/ صفحہ 80]
شافعی امام شمس الدين الرملي(م1004ھ) نے بھی بھی لکھا ہے.
[نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج: 1/ 522]
اشارہ کا ثبوت اور اسکی حکمت:
حضرت خفاف بن ایماء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ «جب نماز کے اخیر میں یعنی قعدہ میں بیٹھتے تو اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے تھے»، اور مشرکین کہتے تھے کہ آپ ﷺ اس (اشارہ) سے جادو کرتے ہیں، حالانکہ وہ(مشرکین) جھوٹ بولتے تھے، بلکہ آپ ﷺ اس سے توحید (یعنی اللہ کے ایک ہونے) کا اشارہ کرتے تھے۔
حوالہ
عَنْ خُفَافِ بْنِ إِيمَاءَ بْنِ رَحَضَةَ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ» ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ يَسْحَرُ بِهَا وَكَذَبُوا، وَلَكِنَّهُ التَّوْحِيدُ.
[المعجم الكبير للطبراني:4176 ، معرفة الصحابة لأبي نعيم:2523، مسند احمد:16572، الخلافيات - البيهقي - ت النحال:1780، جامع المسانيد لابن الجوزي:1622]
محدث ہیثمیؒ(م807ھ) لکھتے ہیں:
وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
اور اس (امام طبرانیؒ کی حدیث) کے (روایت پہنچانے والے تمام) اشخاص قابلِ اعتماد ہیں۔
[مجمع الزوائد:2844، بَابُ التَّشَهُّدِ وَالْجُلُوسِ وَالْإِشَارَةِ بِالْإِصْبَعِ فِيهِ]
اشارے کا مقام:
محدث امام صنعانیؒ(م1182ھ) اور محدث شرف الحق العظيم آبادي(م1329ھ) تشریح میں لکھتے ہیں:
وَمَوْضِعُ الْإِشَارَةِ عِنْدَ قَوْلِهِ: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، لِمَا رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ فِعْلِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: وَيَنْوِي بِالْإِشَارَةِ التَّوْحِيدَ وَالْإِخْلَاصَ فِيهِ؛ فَيَكُونُ جَامِعًا فِي التَّوْحِيدِ بَيْنَ الْفِعْلِ وَالْقَوْلِ وَالِاعْتِقَادِ، وَلِذَلِكَ «نَهَى النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ الْإِشَارَةِ بِالْأُصْبُعَيْنِ
ترجمہ:
اور اشارہ کا مقام یہ ہے کہ جب وہ کہے: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، جو کہ امام بیھقیؒ(م458ھ) نے روایت کیا نبی ﷺ کے عمل سے، اور وہ(اشارہ کرنے والا) اشارہ کرنے میں توحید اور اخلاص کی نیت کرے، تاکہ یہ(اشارہ کرنا) توحید میں فعل، قول اور اعتقاد کو جمع کرنے والا ہوجائے، اور اسی لئے(ایک موقع پر) نبی ﷺ نے دو انگلیوں سے اشارہ کرنے سے روکا۔[سنن النسائی:1273، سنن الترمذی:3557][سنن النسائی:1274، سنن ابی داود:1499]
ترجمہ:
اور اشارہ کا مقام یہ ہے کہ جب وہ کہے: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، جو کہ امام بیھقیؒ(م458ھ) نے روایت کیا نبی ﷺ کے عمل سے، اور وہ(اشارہ کرنے والا) اشارہ کرنے میں توحید اور اخلاص کی نیت کرے، تاکہ یہ(اشارہ کرنا) توحید میں فعل، قول اور اعتقاد کو جمع کرنے والا ہوجائے، اور اسی لئے(ایک موقع پر) نبی ﷺ نے دو انگلیوں سے اشارہ کرنے سے روکا۔[سنن النسائی:1273، سنن الترمذی:3557][سنن النسائی:1274، سنن ابی داود:1499]
[عون المعبود وحاشية ابن القيم(م751ھ) : ج 2 / ص 305، تشریح حدیث نمبر 139]
[تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي-عبد الرحمن المباركفوري(م1353ھ): 2 / 159]
امام الزرکشی الحنبلی(م772ھ)حدیث کی تشریح لکھتے ہیں:
قال: ويشير بالسباحة.
ش: سميت مسبحة لأنه يشار بها للتوحيد، فهي منزهة مسبحة، وتسمى سبابة لأنهم كانوا يشيرون بها إلى السب، والأصل في الإشارة بها ما تقدم، وموضع الإشارة بها عند ذكر الله تعالى، للتنبيه على الوحدانية.
ترجمہ:
فرمایا: اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔
تشریح: اسے شہادت کی انگلی اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے اشارہ کیا جاتا ہے توحید کیلئے، کیونکہ یہ تنزیہ(یعنی ہر عیب ونقص سے پاکی)بیان کرنے والی شہادت کی انگلی ہے، اور اسے سبابہ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس (شہادت کی انگلی) کے ذریعہ اشارہ کیا جاتا ہے سب وشتم(یعنی برا بھلا کہنے)کیلئے، اور حقیقی بات اشارے کے متعلق یہی ہے جو پہلے گذری، اور اشارہ کا مقام اللہ تعالیٰ کے ذکر(یعنی لا الہ الا اللہ) کے وقت ہے، وحدانیت پر خبردار کرنے کیلئے۔
محدث ملا علی قاریؒ(م1014ھ) مزید لکھتے ہیں:
وَالْمُرَادُ إِذَا تَشَهَّدَ وَالتَّشَهُّدُ حَقِيقَةُ النُّطْقِ بِالشَّهَادَةِ وَإِنَّمَا سُمِّيَ التَّشَهُّدُ دُعَاءً لِاشْتِمَالِهِ عَلَيْهِ وَمِنْهُ قَوْلُهُ فِي الرِّوَايَةِ الثَّانِيَةِ يَدْعُو بِهَا أَيْ يَتَشَهَّدُ بِهَا وَأَنْ يَسْتَمِرَّ عَلَى الرَّفْعِ إِلَى آخِرِ التَّشَهُّدِ
ترجمہ :
اور (دعا سے) مراد جب تشہد پڑھتے اور تَّشَهُّدُ شہادت دینے کو کہا جاتا ہے ، اور یہاں تَّشَهُّدُ کو دعاء اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ اس میں دعاء بھی شامل ہے، اور انگلی اٹھا کر دعاء پڑھنے کا مطلب ہے انگشت شہادت کے ساتھ تشہد پڑھتے۔
مزید لکھتے ہیں:
وعندنا: يرفعها عند لا إله، ويضعها عند إلا الله لمناسبة الرفع للنفي، وملائمة الوضع للإثبات، ومطابقة بين القول والفعل حقيقة۔
ترجمہ:
اور ہم(حنفیہ)کے نزدیک(بہترین طریقہ یہ ہے کہ): وہ اس(شہادت کی انگلی)کو اٹھائے "لَا إلَهَ" (کہنے) کے وقت اور اسے رکھے "إلَّا اللَّهُ" (کہنے) کے وقت، کیونکہ نفی کی مناسبت کیلئے اس(شہادت کی انگلی)کو اٹھانا ہے، اور اثبات کی موزونیت کیلئے اس(شہادت کی انگلی)کو رکھنا ہے، تاکہ قول اور فعل کے درمیان حقیقی مطابقت ہو۔
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 729) ط:دار الفكر]
[البدائع (١/ ٢١٤)، وفتح القدير (١/ ٣٢١)، والبناية (٢/ ٣١٥)، والفتاوى الهندية (١/ ٧٥)، وحاشية ابن عابدين (٢/ ٢١٦، ٢١٨)، واللباب (١/ ٧٢).]
شافعی امام ترمذیؒ(م279ھ) لکھتے ہیں:
وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ يَخْتَارُونَ الْإِشَارَةَ فِي التَّشَهُّدِ، وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِنَا.
ترجمہ:
صحابہ کرام اور تابعین میں سے اہل علم(علماء) کا اسی پر عمل تھا، یہ لوگ تشہد(یعنی شہادت) میں انگلی سے اشارہ کرنے کو پسند کرتے اور یہی ہمارے اصحاب(شافعیہ) کا بھی قول(فتویٰ) ہے۔
خلاصہ:
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ (1)اشارہ کیلئے چھوٹی انگلی اور اس کے پاس والی کو بند کرلے، (2) اور درمیانی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائے، (3)اور جب کلمہ توحید لا الہ الا اللہ پر پہنچے تو شہادت کی انگلی کو اٹھائے، (4) اور حرکت نہ دے، (5)اور دو انگلیوں سے اشارہ نہ کرے، (6)اور پھر سلام پھیرنے تک اسی حالت مپر رکھے۔
شافعی محدث امام بیھقیؒ(م458ھ)نے اپنی کتاب [السنن الصغير للبيهقي: جلد1 / صفحہ 173] میں باب باندھا ہے کہ:
بَابُ الْإِشَارَةِ عِنْدَ الشَّهَادَةِ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ بِالْمِسْبَحَةِ
ترجمہ:
شہادت کی انگلی سے الله كی توحید کی شہادت دیتے وقت اشارہ کرنے کا باب
میں مندرجہ ذیل 5 احادیث نقل فرمائی ہیں:
(1)عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُعَاوِيِّ، قَالَ: رَآنِي ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَعْبَثُ، بِالْحَصَى فَلَمَّا انْصَرَفَ نَهَانِي وَقَالَ: " اصْنَعْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ. فَقُلْتُ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ؟ قَالَ: كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ كُلَّهَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى۔
ترجمہ:
علی بن عبدالرحمن معاوی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے منع کیا اور فرمایا: ایسے کرو جیسے رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کیسے کیا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: آپ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو داہنی ہتھیلی کو دائیں ران پر رکھتے اور تمام انگلیوں کو بند کرلیتے اور انگلی سے اشارہ کرتے جو انگوٹھے سے ملی ہوئی (شہادت والی انگلی) ہے اور بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے۔
(2)دوسری روایت میں مزید یہ بھی آیا ہے کہ:
وَأَشَارَ، بِإِصْبَعِهِ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ فِي الْقِبْلَةِ وَرَمَى بِبَصَرِهِ إِلَيْهَا أَوْ نَحْوَهَا»
ترجمہ:
اور آپ نے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ کیا قبلہ کی طرف اور اپنی نگاہ اس تک یا اس کی طرف رکھی۔
[صحیح ابن خزیمہ:719, صحیح ابن حبان:1947, سنن النسائي:1160 , وصححه الألباني في الإرواء تحت حديث:366، وصحيح موارد الظمآن:423]
(3)وَرَوَاهُ نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «وَعَقَدَ ثَلَاثًا وَخَمْسِينَ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ»
ترجمہ:
نافعؒ نے حضرت ابن عمر﷽ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ: "اور آپ ﷺ نے تریپن کی شکل بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے۔"
(4)وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الْوُسْطَى»
ترجمہ:
اور حضرت عبداللہ بن زبیر﷽ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ: ”آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور اپنا انگوٹھا بیچ والی انگلی کے اوپر رکھا۔"
نوٹ:
اس حدیث میں انگلیوں کے بند کرنے اور حلقہ بنانے کا ذکر نہیں بلکہ صرف ہاتھ کو ران پر رکھنے اور اشارہ کرنے کا ذکر ہے، لہٰذا بعض فقہاء حنفیہ اس کے بھی قائل ہیں۔
(5)وَرُوِّينَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ " سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْإِشَارَةِ، فَقَالَ: هُوَ الْإِخْلَاصُ "
ترجمہ:
اور حضرت عبداللہ بن عباس﷽ سے روایت ہے کہ: ان سے پوچھا گیا اس اشارہ کے بارے میں، تو ۤپ نے فرمایا: یہ اخلاص(کیلئے)ہے۔
سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ تَحْرِيكِ الرَّجُلِ إِصْبَعَهُ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: «ذَلِكَ الْإِخْلَاصُ»
ترجمہ:
حضرت ابن عباس﷽ سے پوچھا کیا گیا، آدمی کا نماز میں اپنی انگلی کو حرکت دینے کے متعلق : تو آپ نے فرمایا: یہ اخلاص (کیلئے) ہے۔
[المصنف امام عبد الرزاق(م211ھ) : (ت الأعظمي:3244)(ط التأصيل الثانية:3352)]
خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
[تخريج المسند لشاكر:5/57]
خلاصة حكم المحدث : حسن
[تخريج المسند لشعيب:3152]
یعنی خالص/محض اللہ کی (رضا کیلئے، اسی سے بدلہ پانے کی نیت سے) عبادت کرنے کو اخلاص کہتے ہیں۔
[حوالہ، سورۃ البینہ: ۤیت5]
دوسرے لفظوں میں شرک/حصہ داری سے پاک وحدانیت جسے توحید کہتے ہیں۔
(1)کب اشارہ کیا جائے؟
پہلی حدیث:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا، وَلَا يُحَرِّكُهَا»۔
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیرُ فرماتے ہیں کہ پیغمبر ﷺ جب پکارتے(دعا کرتے) تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔
[سنن ابوداود: باب تفريع أبواب الركوع والسجود ، باب الإشارة في التشهد۔۔۔ حدیث نمبر 989]
حضرت عبد اللہ بن زبیرُ فرماتے ہیں کہ پیغمبر ﷺ جب پکارتے(دعا کرتے) تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔
[سنن ابوداود: باب تفريع أبواب الركوع والسجود ، باب الإشارة في التشهد۔۔۔ حدیث نمبر 989]
دعا سے مراد:
اہل حدیث عبيد الله الرحماني المباركفوري(م1414ھ) لکھتے ہیں:
(إذا دعا) أي تشهد
ترجمہ:
(جب پکارتے) یعنی جب شہادت دیتے۔
حضرت وائل بن حجر﷽ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تشہد(یعنی کلمہ شہادت) میں انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنائے ہوئے ہیں اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرما رہے ہیں۔ اس سے تشہد(شہادت) میں دعا کر رہے تھے۔
رسول اللہ نے (تشہد میں) دو انگلیوں کو موڑے رکھا اور حلقہ بنایا۔ بشر راوی کہتے ہیں کہ انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنایا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔
رسول اللہ نے خنضر(یعنی چھنگلی-چھوٹی انگلی) اور بنصر(یعنی چھن٘گلیا سے پہلے کی ان٘گلی، ان٘گوٹھے کی طرف سے چوتھی) کو موڑے رکھا، پھر درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ذریعہ حلقہ بنایا اور شہادت کی انگلی کے ذریعہ اشارہ فرمایا۔
[سنن الكبري للبيهقي:2895(2784)، صحيح خلاصة الاحكام:1384]
دوسری حدیث:
(2)عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَی رُکْبَتَيْهِ وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الْيُمْنَی الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ فَدَعَا بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرَی عَلَی رُکْبَتِهِ الْيُسْرَی بَاسِطَهَا عَلَيْهَا۔
ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے، اور دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اٹھاتے وہ انگلی جو انگوٹھے کے قریب ہے، پھر آپ ﷺ اس(اشارہ) سے دعا کرتے، اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر بچھا دیتے۔
دعا سے مراد:- تشہد ہے۔
امام ترمذیؒ(م279ھ) اس حدیث کے بعد(تحت) لکھتے ہیں:
وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ يَخْتَارُونَ الْإِشَارَةَ فِي التَّشَهُّدِ، وَهُوَ قَوْلُ أَصْحَابِنَا.
ترجمہ:
صحابہ کرام اور تابعین میں سے اہل علم(علماء) کا اسی پر عمل تھا، یہ لوگ تشہد(یعنی شہادت) میں انگلی سے اشارہ کرنے کو پسند کرتے اور یہی ہمارے اصحاب(شافعیہ) کا بھی قول(فتویٰ) ہے۔
(3)عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: مَرَّ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَدْعُو بِأُصْبُعَيَّ، فَقَالَ: أَحِّدْ أَحِّدْ وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ.
ترجمہ:
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ میرے پاس سے رسول اللہ ﷺ گزرے، اور میں (تشہد میں) اپنی (ایک سے زائد) انگلیوں سے (اشارہ کرتے ہوئے) دعا کر رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایک سے (اشارہ) کرو ایک سے ، اور آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔
نوٹ:
(١)بعض روایات میں [اذا قعد للتشھد ۔۔۔ جب آپ بیٹھتے تشھد کیلئے] یا [اذا جلس فى الصلاة ۔۔۔ جب آپ بیٹھتے نماز میں] بھی آیا ہے، وہاں ہاتھ رکھنے کا ذکر ہے، اشارہ کرنے کی حرکت کا ذکر ۤلفظ "اور" کے بعد الگ سے ذکر کیا گیا ہے، ورنہ اوپر کی دو احادیث سے ٹکراو لازم ۤئے گا، کیونکہ ان میں انگلی سے اشارہ کا موقع دعا یعنی شہادت کہنا ہے۔
يحتمل أن يكون مراده بالتحريك الإشارة بها لا تكرير تحريكها حتى لا يعارض۔
ترجمہ:
ممکن ہے کہ حرکت کرنے سے مراد اس کی طرف اشارہ کرنا (اٹھانا) تھا، اس کی حرکت کو دہرانا نہیں تاکہ اعتراض نہ ہو۔
[السنن الكبرى:٢/ ١٣١، التلخيص الحبير:١٣٦٦]
(3)کیسے اشارہ کرنا چاہئے؟
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، قَال : " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حَلَّقَ الإِبْهَامِ وَالْوُسْطَى ، وَرَفَعَ الَّتِي تَلِيهِمَا يَدْعُو بِهَا فِي التَّشَهُّدِ " .
ترجمہ:
حضرت وائل بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے انگوٹھے اور بیچ والی انگلی کا حلقہ بنایا، اور ان دونوں سے متصل (شہادت کی) انگلی کو اٹھایا، اور اس(انگلی) سے تشہد (یعنی شہادت) میں پکار رہے تھے.‘‘
[سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب الْإِشَارَةِ فِي التَّشَهُّدِ ... رقم الحديث: 912]
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » تتمة مسند الكوفيين ... رقم الحديث: 18488(18391)+18493(18397)]
[البحر الزخار بمسند البزار 10-13 » مُسْنَدُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... » حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَيُعَدُّ فِي الْمَدَنِيِّينَ ... رقم الحديث: 366(4485) + 370(4489)]
مصباح الزجاجة، 1 : 113
خلاصة حكم المحدث:
إسناده صحيح
(4)انگلی اٹھاکے(کھڑی کرکے) کچھ جھکا دینا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ مِنْ بَنِي بَجِيلَةَ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ نُمَيْرٍ الْخُزَاعِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وَاضِعًا ذِرَاعَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ، رَافِعًا إِصْبَعَهُ السَّبَّابَةَ قَدْ حَنَاهَا شَيْئًا " .
ترجمہ:
حضرت نمیر خزاعی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا داہنی ران پر داہنا ہاتھ رکھے ہوئے اور شہادت والی انگلی اٹھائے ہوئے قدرے جھکی ہوئی۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَضْعِ ... » بَاب الْإِشَارَةِ فِي التَّشَهُّدِ ... رقم الحديث: 842]
خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
تخريج الحديث
2 - أنَّه رأى رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في الصَّلاةِ واضعًا اليُمنى على فخِذِه اليُمنى رافعًا أُصبُعَه السَّبَّابةَ قد حناها شيئًا وهو يدعو
ترجمہ:
حضرت نمیر خزاعی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا داہنی ران پر داہنا ہاتھ رکھے ہوئے اور شہادت والی انگلی اٹھائے ہوئے قدرے جھکی ہوئی۔ اور وه دعاء كر رہے ہوتے.
الراوي : نمير الخزاعي المحدث : ابن حبان
المحدث : ابن الملقن
المصدر : تحفة المحتاج الصفحة أو الرقم: 1/324 خلاصة حكم المحدث : صحيح أو حسن [كما اشترط على نفسه في المقدمة]
المحدث : عبد الحق الإشبيلي
المحدث : ابن باز
حضرت عبداللہ بن عمر﷽ سے مختلف الفاظ اور روایات:
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے ہاتھ سے کنکریاں ہٹا رہا ہے، تو جب وہ سلام پھیر چکا تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس سے کہا: جب تم نماز میں رہو تو کنکریوں کو ادھر ادھر مت کرو کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، البتہ اس طرح کرو جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، اس نے پوچھا: آپ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے سے متصل ہے قبلہ کی طرف اشارہ کیا، اور اپنی نگاہ اسی انگلی پر رکھی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے ہاتھ سے کنکریاں ہٹا رہا ہے، تو جب وہ سلام پھیر چکا تو عبداللہ بن عمر ؓ نے اس سے کہا: جب تم نماز میں رہو تو کنکریوں کو ادھر ادھر مت کرو کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، البتہ اس طرح کرو جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، اس نے پوچھا: آپ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے سے متصل ہے قبلہ کی طرف اشارہ کیا، اور اپنی نگاہ اسی انگلی پر رکھی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ کے بغل میں نماز پڑھی، تو میں کنکریوں کو الٹنے پلٹنے لگا، (نماز سے فارغ ہونے پر) انہوں نے مجھ سے کہا: (نماز میں) کنکریاں مت پلٹو، کیونکہ کنکریاں کو الٹنا پلٹنا شیطان کی جانب سے ہے، (بلکہ) اس طرح کرو جس طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے، میں نے کہا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کیسے کرتے دیکھا ہے؟، انہوں نے کہا: اس طرح سے، اور انہوں نے دائیں پیر کو قعدہ میں کھڑا کیا، اور بائیں پیر کو لٹایا، اور اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا.
علی بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے دیکھا تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے مجھے منع کیا، اور کہا: اس طرح کیا کرو جس طرح رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، میں نے کہا: آپ ﷺ کس طرح کرتے تھے؟ کہا: جب آپ ﷺ نماز میں بیٹھتے تو اپنی دائیں ہتھیلی اپنی دائیں ران پر رکھتے، اور اپنی سبھی انگلیاں سمیٹے رکھتے، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے کے قریب ہے اشارہ کرتے، اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران پر رکھتے.
دوسری سند:
نافع، حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اٹھاتے وہ انگلی جو انگوٹھے کے قریب ہے آپ ﷺ اس سے دعا کرتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر بچھا دیتے۔
[صحیح مسلم:1309(580)]
نافع، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے، اور جو انگلی انگوٹھے سے لگی ہوتی اسے اٹھاتے، اور اس سے دعا مانگتے، اور آپ کا بایاں ہاتھ آپ کے بائیں گھٹنے پر پھیلا ہوتا تھا، (یعنی: بائیں ہتھیلی کو حلقہ بنانے کے بجائے اس کی ساری انگلیاں بائیں گھٹنے پر پھیلائے رکھتے تھے) ۔
نافع، حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر رکھتے اور تریپن کی شکل بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے۔
[صحیح مسلم:1310(580)]
نافع، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے متصل انگلی کو اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے، اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پہ پھیلا کر رکھتے۔
امام نافع ؒ فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز (کے قعدہ) میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور نگاہ انگلی پر رکھتے، پھر (نماز کے بعد) فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
لھی اَشَدُّ عَلَی الشَّیطَانِ مِنَ الحَدِیدِ یعنِی السَّبَّابَةیہ شہادت کی انگلی شیطان پر لوہے سے زیادہ سخت ہے۔
[مسند احمد:6000 , مسند البزار:5917, وصححه الألباني في المشكاة: 917، صفة الصلاة: ص 159، هداية الرواة: 877]
حضرت وائل بن حجر ؓ سے مختلف الفاظ اور روایات:
حضرت وائل بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں ضرور رسول اللہ ﷺ کی نماز دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز ادا کرتے ہیں؟ ...... پھر بیٹھے تو اپنا بایاں پیر بچھایا، اور بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کو داہنی ران سے جدا رکھا اور دونوں انگلیوں (خنصر، بنصر) کو بند کرلیا اور دائرہ بنا لیا (یعنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے)۔
بشر بن مفضل بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے شیخ عاصم بن کلیب کو دیکھا وہ اسی طرح کرتے تھے، اور بشر نے انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا دائرہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔
..... پھر آپ نے قعدہ کیا، اور اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا، اور اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کا سرا اپنی داہنی ران کے اوپر اٹھائے رکھا، پھر آپ نے اپنی انگلیوں میں سے دو کو بند کرلیا، اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ (دائرہ) بنا لیا، پھر آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی، تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اسے حرکت دے رہے تھے اور اس سے دعا کرتے تھے۔
اور جب دو رکعت پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پیر کو بچھا دیتے، اور دائیں کو کھڑا رکھتے، اور اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے، اور (شہادت کی) انگلی دعا کے لیے کھڑی رکھتے، اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھتے....
..... پھر آپ بیٹھے تو اپنا بایاں پاؤں بچھایا، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی دائیں کہنی کو اپنی دائیں ران سے دور رکھا، پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں، اور حلقہ بنایا، اور میں نے انہیں اس طرح کرتے دیکھا۔ بشر نے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنایا۔
حضرت وائل بن حجر﷽ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تشہد(یعنی کلمہ شہادت) میں انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنائے ہوئے ہیں اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرما رہے ہیں۔ اس سے تشہد(شہادت) میں دعا کر رہے تھے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر﷽ سے مختلف الفاظ اور روایات:
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو اپنی بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے، آپ کی نگاہ آپ کے اشارہ سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔
[سنن النسائی:1276]
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں داہنی ران اور پنڈلی کے نیچے کرتے اور داہنا پاؤں بچھا دیتے اور بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی انگلی سے اشارہ کرتے، عبدالواحد نے ہمیں شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے دکھایا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنے بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے درمیان کرلیتے تھے اور اپنا دایاں پاؤں بچھا دیتے اور اپنا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھ لیتے اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھ لیتے اور اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قعدہ میں تشہد پڑھتے تو اپنے داہنے ہاتھ کو داہنے ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور انگوٹھے کو بیچ کی انگلی پر رکھتے۔ اور بایں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب تشہد پڑھتے تو اپنی انگلی سے اشارے کرتے تھے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے۔
ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار نے یہ اضافہ کیا ہے کہ مجھے عامر نے اپنے والد کے واسطہ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو اسی طرح تشہد پڑھتے دیکھا ہے اور نبی اکرم ﷺ اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب دعا کرتے تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے، اور اسے ہلاتے نہیں تھے.
ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو نے (اس میں) اضافہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ عامر بن عبداللہ بن زبیر نے مجھے خبر دی، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسی طرح دعا کرتے، اور آپ اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے بائیں پاؤں کو تھامے رہتے تھے۔
اس طریق سے بھی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ کی نظر اشارہ سے آگے نہیں بڑھتی تھی اور حجاج کی حدیث (یعنی پچھلی حدیث) زیادہ مکمل ہے۔
[سنن ابو داؤد:990]
تشہد میں انگلی کا اشارہ کرنا (اٹھانا-حرکت دینا)
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا باتفاق فقہاء وعلماء سنت ہے اور صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ اشارہ کی مختلف صورتیں احادیث میں مذکور ہیں اور سب جائز ہیں، علماء احناف کے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچیں تو دائیں ہاتھ کی چھوٹی اور ساتھ والی انگلی بند کرلیں، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنالیں، شہادت کی انگلی کو کھلا رکھیں، لا الہ پر شہادت کی انگلی اٹھائیں اور الا اللہ پر گرادیں۔ علماء احناف کی طرح بے شمار محدثین وفقہاء وعلماء مثلاً امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام نوویؒ اور امام بیہقی ؒکا بھی یہ موقف ہے کہ تشہد میں صرف انگلی سے اشارہ کرنا ہے، اس کو (مسلسل)حرکت دینا نہیں ہے۔
(1)عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عليه وسلم، إِذَا قَعَدَ يَدْعُو، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى. وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى. وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ. وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الوسطى. ويلقم كفه اليسرى ركبته.
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قعدہ میں تشہد پڑھتے تو اپنے داہنے ہاتھ کو داہنے ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور انگوٹھے کو بیچ کی انگلی پر رکھتے۔ اور بایں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے۔
کب اشارہ کیا جائے؟
(2)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا، وَلَا يُحَرِّكُهَا»۔
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب (توحید کی شہادت کے ساتھ اللہ کو) پکارتے(دعا کرتے) تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔
[سنن ابوداود: باب تفريع أبواب الركوع والسجود ، باب الإشارة في التشهد۔۔۔ حدیث نمبر 989]
[سنن النسائي:1270][صحيح أبي داود:989]
اس حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ تشہد میں حضور اکرم ﷺ انگلی سے اشارہ تو کرتے تھے مگر اس کو بار بار حرکت نہیں دیتے تھے۔
حدیث کا حکم:
امام ابوداود نے اہل مکہ کے نام اپنے پیغام میں کہا:
كل ما سكت عنه فهو صالح
ہر وہ (حدیث) جس کے بارے میں خاموش رہوں، تو وہ درست ہے۔
[رسالة أبي داود : ص ٢٧]
یعنی وہ صحیح یا حسن ہوسکتی ہے، لہٰذا احتیاطا اس پر حسن کا حکم ہوگا۔
[النكت على كتاب ابن الصلاح - امام ابن حجر العسقلاني : ص ١ / ج ٤٣٢]
امام ابن الملقن نے اپنی کتاب [تحفة المحتاج : 1/323] میں بھی نقل فرمایا کتاب کے مقدمہ میں احادیث کو (صحيح أو حسن) قرار دیا۔
امام ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی کتاب [هداية الرواة: 1/411] میں اس حدیث کو نقل فرمایا اور مقدمہ میں احادیث کو (حسن) قرار دیا۔
صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے معروف محدث حضرت امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
(المجموع)
امام ابن ملقن رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ امام ابوداؤد نے صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے۔
[خلاصۃ البدر المنیر۔ باب کیفیۃ الصلاة]
جو حضرات انگلی سے اشارہ کرنے کے بجائے انگلی کو حرکت دیتے رہتے ہیں، وہ حضرات وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین انگلیوں کو ملاکر حلقہ بنایا، ایک کو اٹھایا، میں نے دیکھا آپ ﷺ اس کو ہلاتے دعا کرتے۔
ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَفَعَ إِصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا۔
ان حضرات نے اس حدیث کی بنیاد پر نماز کے آخر تک انگلی کو حرکت دینے کے قول کو اختیار کیا حالانکہ اس حدیث میں اور نہ کسی دوسری حدیث میں یہ مذکور ہے کہ حرکت کی کیا صورت ہو، آہستہ یا تیز؟ اور کب تک یہ حرکت ہو؟ نیز اس حدیث کا یہ مفہوم لینے کی صورت میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی اس حدیث سے تعارض بھی ہورہا ہے جس میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ آپ ﷺ انگلی سے اشارہ تو کرتے تھے مگر حرکت نہیں کرتے تھے۔
چونکہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی حدیث ان حضرات کے موقف کے واضح طور پر خلاف ہے، لہٰذا ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیا جائے باوجودیکہ مشہور ومعروف محدث امام نووی ؒ جیسے محدث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور امام نووی ؒ کی خدمات کوساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ عصر حاضر میں شیخ ناصر الدین البانی نے اپنے مکتب فکر کی تائید کے لئے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت کے راوی (محمد بن عجلانؒ) کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، جبکہ صحیح بخاری شریف کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام المحدثین علامہ ابن حجرعسقلانی ؒ نے ان کو (احد العلماء العاملین) کہہ کر ثقہ قرار دیا ہے۔
جس حدیث کی بنیاد پر یہ حضرات مسلسل حرکت کے قائل ہیں وہ حضرت عاصم ؒ سے 11 راویوں نے روایت کی ہے ، حضرت زائدہ بن قدامہ ؒ کے علاوہ تمام 10 راویوں نے یہ حدیث (يُحَرِّكُهَا) کے لفظ کے بغیر روایت کی ہے، جو اس لفظ (يُحَرِّكُهَا) کے شاذ ہونے کی واضح دلیل ہے اور حدیث کے متفق علیہ اصول کی بنیاد پر حدیث میں یہ لفظ شاذ کہلائے گا، لہٰذا اس حدیث کو دلیل کو طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے، جیسا کہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (صحیح ابن خزیمہ۔
باب صفۃ الیدین علی الرکبتین فی التشہد) میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد اس کے شاذ ہونے کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: (احادیث میں سوائے اس حدیث کے کسی بھی حدیث میں "يُحَرِّكُهَا" کا لفظ نہیں ہے)۔
صحیح مسلم میں اس موضوع سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں مگر ایک حدیث میں بھی حرکت کا لفظ وارد نہیں ہوا ہے ، صحیح مسلم کی تمام ہی احادیث میں صرف اشارہ کا لفظ وارد ہونا اس بات کی واضح علامت ہے کہ اصل مطلوب صرف اشارہ ہے۔
مشہور ومعروف محدث امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی حدیث کی مشہور کتاب [سنن کبری للبیہقی۔باب من روی انہ اشار بہا ولم یحرکہا] میں دونوں احادیث میں تطبیق اس طرح پیش کی ہے کہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد حرکت سے مراد اشارہ ہے نہ کہ اس کو بار بار حرکت دینا۔ کیونکہ اشارہ بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں، اس طرح حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے موافق ہوجائی گی۔ غرضیکہ اس موقف کو اختیار کرنے میں دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے گا اور کسی حدیث کو ضعیف قرار دینے کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
مشہور ومعروف حنفی عرب عالم ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مرقاة میں بھی یہی تحریر کیا ہے کہ یہاں حرکت دینے سے مراد محض انگلی کا اٹھانا ہے اور اٹھانا بغیر حرکت کے ہوتا ہی نہیں۔
(بحوالہ اعلاء السنن)
غرضیکہ جمہور علماء خاص کر علماء احناف، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام نوویؒ اور امام بیہقی ؒ جیسے جلیل القدر علماءنے یہی قول اختیار کیا ہے کہ تشہد میں انگلی سے ایک مرتبہ اشارہ کرنا کافی ہے، نماز کے اختتام تک برابر حرکت کرتے رہنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ برصغیر کے جمہور علماء نے یہی قول اختیار کیا ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ لا الہ پر شہادت کی انگلی کے اٹھانے اور الا اللہ پر گرانے کا واضح ثبوت حضور اکرم ﷺ سے نہیں ملتا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ احادیث میں وارد اشارہ کا لفظ خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں صرف اشارہ کرنا مراد ہے نہ کہ حرکت۔ اور اشارہ الا اللہ پر خود ہی ختم ہوجائے گا۔ صحیح مسلم میں متعدد جگہوں پر اس مسئلہ کے متعلق متعدد احادیث ذکر کی گئی ہیں مگر تمام ہی جگہوں پر صرف اشارہ کا لفظ وارد ہوا ہے، ایک جگہ پر بھی حرکت یا مسلسل حرکت کا لفظ وارد نہیں ہوا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ انگلی اٹھانے کا سلسلہ نماز کے اختتام تک جاری رکھنے یا نماز کے اختتام تک حرکت جاری رکھنے کا کوئی ثبوت نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں موجود نہیں ہے۔
اشارہ کی حقیقت:
آپ ﷺ کا یہ اشارہ دراصل توحید کا اشارہ تھا اور توحید تشہد کا نام ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی گواہی دینا ہے اور توحید میں ایک تو غیر اللہ سے الوہیت کی نفی ہے اور دوسرے اللہ کی الوہیت کا اقرار اور اثبات ہے تو اشارہ بھی نفی اور اثبات ہونا چاہئے، اس لئے علماء احناف نے فرمایا کہ اثبات کے لئے انگلی اٹھانا اور نفی کے لئے انگلی کا رکھنا ہے۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
حضرت خفاف بن ایماء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے اخیر میں یعنی قعدہ میں بیٹھتے تو اپنی انگلی مبارک سے اشارہ فرماتے تھے۔ مشرکین کہتے تھے کہ (نعوذ باللہ) آپ ﷺ اس اشارہ سے جادو کرتے ہیں، حالانکہ مشرکین جھوٹ بولتے تھے، بلکہ رسول اللہ ﷺ اس اشارہ سے توحید کا اشارہ کرتے تھے(یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اشارہ ہے)۔
حوالہ
عَنْ خُفَافِ بْنِ إِيمَاءَ بْنِ رَحَضَةَ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ» ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ يَسْحَرُ بِهَا وَكَذَبُوا، وَلَكِنَّهُ التَّوْحِيدُ.
[المعجم الكبير للطبراني:4176 ، معرفة الصحابة لأبي نعيم:2523، مسند احمد:16572، الخلافيات - البيهقي - ت النحال:1780، جامع المسانيد لابن الجوزي:1622]
محدث علامہ ہیثمی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
حوالہ
رَوَاهُ أَحْمَدُ مُطَوَّلًا وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي صِفَةِ الصَّلَاةِ، وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ كَمَا تَرَاهُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
[مجمع الزوائد:2844، بَابُ التَّشَهُّدِ وَالْجُلُوسِ وَالْإِشَارَةِ بِالْإِصْبَعِ فِيهِ]
شہادت کی انگلی اٹھانے کی فضیلت:
امام نافع ؒ فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز (کے قعدہ) میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور نگاہ انگلی پر رکھتے، پھر (نماز کے بعد) فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
لھی اَشَدُّ عَلَی الشَّیطَانِ مِنَ الحَدِیدِ یعنِی السَّبَّابَةیہ شہادت کی انگلی شیطان پر لوہے سے زیادہ سخت ہے۔
[مسند احمد:6000 , مسند البزار:5917, وصححه الألباني في المشكاة: 917، صفة الصلاة: ص 159، هداية الرواة: 877]
یعنی تشہد کی حالت میں شہادت کی انگلی سے اللہ کی وحدانیت کا اشارہ کرنا شیطان پر کسی کو نیزے وغیرہ مارنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔
انگلی سے اشارہ قبلہ کی طرف:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اشارہ کرتے ہوئے رخ قبلہ کی طرف ہوتا۔
[سنن کبری للبیہقی۔ باب کیفیۃ الاشارة بالمجۃ]
یعنی اشارہ کے وقت انگلی کا رخ آسمان کی طرف نہیں بلکہ قبلہ کی طرف ہونا چاہئے۔
خلاصہ کلام:
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کے سنت ہونے پر حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں علماء کرام کا اتفاق ہے، اگرچہ اشارہ کرنے کی کیفیت میں اختلاف زمانہ قدیم سے چلا آر ہا ہے۔ امت مسلمہ کا اچھا خاصہ طبقہ نماز ہی پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر مسلمان کسی طرح نماز پڑھنے والا بن جائے، اور ہم اپنی اصلاح کی بھی فکر کریں کہ اللہ ہمیں خشوع و خضوع اور خشیت والی نعمتیں نصیب فرمائے۔ نیز ہم اپنی صلاحیت اس بات پر لگائیں کہ کس طرح عام مسلمان حرام روزی سے بچ کر حلال روزی پر اکتفاء کرنے والا بن جائے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم دوسری رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنی رائے کو خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کریں۔
غرضیکہ تشہد میں اشارہ کی مختلف صورتیں احادیث میں مذکور ہیں اور سب جائز ہیں، علماءاحناف کے ہاں بہتر صورت یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچیں تو دائیں ہاتھ کی چھوٹی اور ساتھ والی انگلی بند کرلیں، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنالیں، شہادت کی انگلی کو کھلا رکھیں، لا الہ پر شہادت کی انگلی اٹھائیں اور الا اللہ پر گرادیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ . ح قَالَ : وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظ لَهُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ، عَنابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذَا قَعَدَ يَدْعُو ، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى ، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الْوُسْطَى ، وَيُلْقِمُ كَفَّهُ الْيُسْرَى رُكْبَتَهُ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ » بَاب صِفَةِ الْجُلُوسِ فِي الصَّلَاةِ وَكَيْفِيَّةِ ... رقم الحديث: 915]
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب نماز کے لئے بیٹھتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملا لیتے۔
تخريج الحديث
|
2 - كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّه عليه وسلَّم إذا قعدَ يَدعو وضعَ يدَهُ اليمنى على فخذِهِ اليُمنى ، ويدَهُ اليسرى على فخذِهِ اليسرى ، وأشارَ بأصبعِهِ السَّبَّابةِ ، ووضعَ إبهامَهُ على إصبعِهِ الوسطى ويُلقِمُ كفَّهُ اليُسرى رُكْبتَهُ . لفظُ حديثِ أبي خالدٍ الأحمرِ ، وفي روايةِ اللَّيثِ بنِ سعدٍ : كانَ إذا قعدَ في الصَّلاةِ وضعَ يدَهُ على رُكْبتِهِ وأشارَبإصبعِهِ
الراوي : عبدالله بن الزبير المحدث : البيهقي
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان إذا تشهَّد وضَع يدَه اليُسرى على فخِذِه اليُسرى ووضَع يدَه اليُمنى على فخِذِه اليُمنى وأشار بأُصبُعِه السَّبَّابةِ لا يُجاوزُ بصَرُه إشارتَه
الراوي : عبد الله بن الزبير المحدث : ابن حبان
2 - قلت : لأنظرن إلى صلاة رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم كيف يصلي قال فقام رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم فاستقبل القبلة فكبر فرفع يديه حتى حاذتا أذنيه ثم أخذ شماله بيمينه فلما أراد أن يركع رفعهما مثل ذلك ثم وضع يديه على ركبتيه فلما رفع رأسه من الركوع رفعهما مثل ذلك فلما سجد وضع رأسه بذلك المنزل من بين يديه ثم جلس فافترش رجله اليسرى ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى وحد مرفقه الأيمن على فخذه اليمنى وقبض ثنتين وحلق حلقة ورأيته يقول هكذا وحلق بشر الإبهام والوسطى وأشار بًالسبًابة
المحدث : أبو داود
المصدر : سنن أبي داود الصفحة أو الرقم: 957(726 )
خلاصة حكم المحدث : سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
المحدث : الألباني
المحدث : الألباني
المحدث : ابن الملقن
المصدر : تحفة المحتاج الصفحة أو الرقم: 1/323
خلاصة حكم المحدث : صحیح أو حسن [كما اشترط على نفسه في المقدمة]
(1)انگلی کا اشارہ کرنا(حرکت دینا)
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَدَنِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ السَّاعِدِيُّ ، قَالَ : اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ , وَأَبُو أُسَيْدٍ , وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، فَذَكَرُوا صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ : أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ يَعْنِي لِلتَّشَهُّدِ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى ، وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْيُمْنَى عَلَى قِبْلَتِهِ ، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى وَكَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى ، وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ يَعْنِي السَّبَّابَةَ " .
ترجمہ:
حضرت عباس بن سہل الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلم رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا ، تو حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں، بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے یعنی تشھد کے لیے اور انہوں نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور دائیں پاؤں کا اگلا حصہ قبلہ رخ فرمایا اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پر رکھی اور بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر، اور اپنی انگلی سے اشارہ کیا۔ (یعنی شھادت والی انگلی سے اشارہ کیا)۔
[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ » بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ الْجُلُوسُ فِي التَّشَهُّدِ ... رقم الحديث: 293]
تشریح:
تَشَہُّد کو تشہد اس لئے کہتے ہیں (کیوں)کہ اس میں توحید-اور-رسالت کی شہادت دی جاتی ہے، یہ نماز کی ہر دو رکعت کے دو سجدوں کے بعد قَعْدَہ(یعنی گھٹنوں کے بل دوزانو ہوکر بیٹھنے)کی حالت میں التحیات پڑھنے کو کہتے ہیں۔
لہٰذا
قَعْدَہ میں التحیات کے بعد درود اور دعا کو تشہد نہیں کہتے۔
تخريج الحديث
|
تشہد میں ﷲ کی وحدانیت کا زبانی اقرار ہے اور انگشتِ شہادت سے اشارہ اس کا عملی اقرار ہے۔
علامہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی سندھی رحمة اللہ علیہ نے اس موضوع پر ٹھوس وقیع رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے،جس کا نام’’نورالعینین فی اثبات الاشارة فی التشھدین‘‘رکھا ہے
خلاصہ
دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کی ساتھ والی انگلی کو شہادت والی انگلی کہتے ہیں، چونکہ جب نمازی نماز میں اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی شہادت دیتا ہے تو یہ انگلی بھی یہی عملی شہادت دیتی ہے۔ لہٰذا تشہد میں جب ﴿اشہد ان لا الٰہ﴾ پر پہنچیں تو ہاتھ کی بڑی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائیں، شہادت کی انگلی سے اشارہ کریں اور ﴿الا اللہ﴾ پر انگلی کو نیچے کر لیں اور یہ حلقہ نماز کے آخر تک بنائے رکھیں۔
حوالہ
تشہد میں التحیات پڑھتے ہوئے ”لا الہ“ پر شہادت کی انگلی اٹھائی جائے اور ”الا اللہ“ پر گرادی جائے اور انگلیوں کا حلقہ سلام تک باقی رکھا جائے۔
درمختار میں ہے:
الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا، یرفعہا عند النفی ویضعہا عند الإثبات وفي الشامیة: الثانی بسط الأصابع إلی حین الشہادة فیعقد عندہا ویرفع السبابة عند النفي ویضعہا عند الإثبات وہذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحة ولصحة نقلہ عن أئمتنا الثلاثة الخ
[درمختار مع الشامی، زکریا: ۲/۲۱۸]
No comments:
Post a Comment