Wednesday, 30 November 2016

اللہ کے پیغمبر ﷺ کے بھیجے جانے مقاصد

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
اور (اے نبیؐ) ہم نے تمہیں بھیجا ہے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔
[سورة الانبياء:107]

القرآن:
اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو۔۔۔
[سورۃ الأنفال، آیت نمبر 33]
رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: کیا آپ (قریش کے) مشرکین پر لعنت نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
[صحیح مسلم:2599()]
اور پرہیزگاروں کیلئے ہدایت (بن کر)۔
[مسند احمد:22218ـ22307]
میں تو بس ایک رحمت ہوں جو رہنمائی کرتا ہے۔
[الصحيحة:490، حاکم:100]
میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو  (اے اللہ)  میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے  اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب  (امیر المؤمنین)  کو لکھ بھیجوں گا۔
[سنن ابوداؤد:4659، مسند احمد:23706]

حضرت ابن عباس نے فرمایا: جو ایمان لائے گا اس پر دنیا اور آخرت میں رحم کیا جائے گا، اور جو ایمان نہیں لائے گا کہ وہ اس عذاب سے بچ جائے گا جو موجودہ دنیا میں قوموں پر ہوتا تھا۔ یعنی دھنسنے، چہرے بگڑنے اور پتھروں کی بارش سے، یہی اس دنیا میں رحمت ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني:12358، دلائل النبوة للبيهقي:5/486]


Monday, 14 November 2016

کلمہ توحید کے تقاضے

اللہ کے رسول (پیغمبر) محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ {مُخْلِصًا} وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ.....وَإِنْ زَنَى، ‌وَإِنْ ‌سَرَقَ، وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي الدَّرْدَاءِ.
ترجمہ:
اے ابودرداء! جس نے شہادت (اعلانیہ گواہی) دی {اخلاص کے ساتھ} کہ "نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور میں اللہ کا پیغمبر ہوں" تو واجب ہوجاتی ہے اس کیلئے جنت.......اگرچہ اس نے (اسلام قبول کرنے سے پہلے) زنا کی ہو یا چوری کی ہو، اگرچہ ابودرداء کی ناک خاک آلود ہو۔
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:9 {الآثار لأبي يوسف:891مسند أحمد:27491، السنن الكبرى-النسائي:10898+10899، المعجم الأوسط للطبراني:2932، مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم: ص175، المتفق والمفترق-الخطيب البغدادي:902]

Wednesday, 9 November 2016

مزاح اور خوش طبعی کا اسلامی نظریہ



مزاح اور خوش طبعی اسلام کی نظر میں

 


                اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے۔ جو دنیائے انسانیت کے لئے خالق کائنات کا ایک حسین تحفہ اور بے مثال نذرانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنفس نفیس اس کے احکام و قوانین وضع فرمائے ہیں۔ اور یہ احکام و قوانین عین انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور موافق ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ خالق انسانیت ہے۔ اسی نے انسانی فطرت اور مزاج تخلیق فرمایا ہے۔ لہٰذا اس سے زیادہ انسان کا مزاج شناش اور فطرت شناش اور کون ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی احکام اور قوانین میں جو انسانی مزاج اور فطرت کی رعایت نظر آتی ہے۔ بلاشک و شبہ اس کی نظیر اور مثال دنیائے انسانیت کے کسی قانون اور دستور میں دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود ساختہ انسانی قوانین کا ردوبدل اور ترمیم و تنسیخ کے بھینٹ چڑھنا ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ بنا ہوا ہے مگر قوانین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی بلکہ وہ ہر ملک کے باسی اور ہر صدی کے پیدائشی انسان کے مزاج اور فطرت کے موافق و مطابق ہیں۔ فطرت سلیمہ نے کسی قانونِ شرعی میں ردوبدل کا نہ کبھی مطالبہ کیا ہے اور نہ کرے گی (انشاء اللہ) ہاں فطرتِ خبیثہ رذیلہ اس کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔ مگر اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کسی حکم شرعی میں کوئی نقص یا خامی ہے بلکہ اس کی وجہ خود مطالبہ کرنے والی فطرت کا نقص اور کجی ہے۔ الغرض اسلام نے وضع قانون میں انسانی مزاج اور فطرت کی بدرجہٴ اتم رعایت برتی ہے۔ خوشی ہو یا غمی، صحت ہو یا مرض، بچپن ہو یا جوانی یا بڑھاپا۔ شریعت نے ہرحال، ہر آن اور ہر مرحلہ پر انسانی مزاج کے موافق احکام وقوانین مقرر کئے ہیں۔

ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔۔۔[3:185]


اٹل حقیقت»

القرآن:
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 185]




ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے بری بھلی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں، اور تم سب ہمارے پاس ہی لوٹا کر لائے جاؤ گے۔
[سورۃ الانبیاء:35]


القرآن:
ہر متنفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، پھر ہماری ہی طرف تم سب کو واپس لایا جائے گا۔
[سورۃ نمبر 29 العنكبوت،آیت نمبر 57]
تفسیر:
یعنی اگر(اللہ کی ماننے کیلئے) ہجرت کرنے سے اس لئے رُکاوٹ محسوس ہو کہ اپنے عزیزوں دوستوں کو چھوڑنا پڑے گا تو یہ جدائی کبھی نہ کبھی تو ہونی ہی ہے، کیونکہ ہر انسان کو موت آنی ہے، پھر جب سب ہمارے پاس واپس آجاؤگے تو پھر کبھی جدائی نہیں ہوگی۔

Saturday, 5 November 2016

ماهِ محرم کے خاص اعمال اور ہمارے نظریات ورسومات

ماهِ محرم كی شرعی اور تاريخی حيثيت
محرم الحرام چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک اور اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ جہاں کئی شرعی فضیلتوں کا حامل ہے وہاں بہت سی تاریخی اہمیتیں بھی رکھتا ہے۔
کیونکہ اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات اس مہینہ میں رونما ہوئے بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ نہ صرف تاریخ اُمت محمدیہ کی چند اہم یادگاریں اس سے وابستہ ہیں بلکہ گزشتہ اُمتوں اور جلیل القدر انبیاء کے کارہائے نمایاں اور فضلِ ربانی کی یادیں بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ لیکن شرعی اصولوں کی روشنی میں جس طرح دوسرے شہور(مہینوں) اور ایام(دنوں) کو بعض عظیم الشان کارناموں کی وجہ سے کوئی خاص فضیلت و امتیاز نہیں ہے۔ اسی طرح اس ماہ کی فضیلت کی وجہ بھی یہ چند اہم واقعات و سانحات نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اشہرِ حُرُم (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب) کو ابتدائے آفرینش سے ہی اس اعزاز و اکرام سے نوازا ہے۔
جس کی وجہ سے دورِ اسلام اور دورِ جاہلیت دونوں میں ان مہینوں کی عزت و احترام کا لحاظ رکھا جاتا تھا اور بڑے بڑے سنگدل اور جفا کار بھی جنگ و جدال اور ظلم و ستم سے ہاتھ روک لیتے تھے۔ اس طرح سے کمزوروں اور ناداروں کو کچھ عرصہ کے لئے گوشۂ عافیت میں پناہ مل جاتی تھی۔