Wednesday, 9 November 2016

ہر جان کو موت کا مزا چکھنا ہے [3:185]



كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ ۗ وَإِنَّما تُوَفَّونَ أُجورَكُم يَومَ القِيٰمَةِ ۖ فَمَن زُحزِحَ عَنِ النّارِ وَأُدخِلَ الجَنَّةَ فَقَد فازَ ۗ وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتٰعُ الغُرورِ {3:185}
ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا۔ تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے
یعنی موت کا مزہ سب کو چکھنا ہے، اس کے بعد قیامت کے دن ہر جھوٹے سچے اور مصدق و مکذب کو اپنے کئے کا پورا بدلہ مل رہے گا "پورے" کا یہ مطلب کہ کچھ تھوڑا سا ممکن ہے قیامت سے پہلے ہی مل جائے۔ مثلًا دنیا میں یا قبر میں۔
یعنی دنیا کی عارضی بہار اور ظاہری ٹیپ ٹاپ بہت دھوکہ میں ڈالنے والی چیز ہے جس پر مفتون ہو کر اکثر بےوقوف آخرت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ انسان کی اصلی کامیابی یہ ہے کہ یہاں رہ کر انجام کو سوچے اور وہ کام کرے جو عذاب الہٰی سے بچانے والا اور جنت تک پہنچانے والا ہو۔ (تنبیہ) آیت میں ان بعض متصوفین کا بھی رد ہو گیا جو دعوےٰ کیا کرتے ہیں کہ ہمیں نہ جنت کی طلب، نہ دوزخ کا ڈر، معلوم ہوا کہ دوزخ سے دور رہنا اور جنت میں داخل ہو جانا ہی اصل کامیابی ہے۔ کوئی اعلیٰ ترین کامیابی جنت سے باہر رہ کر نصیب نہیں ہو سکتی۔ و فی الحدیث { وَحَوْ لَھَا نُدنِدنُ } اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ہم کو بھی یہ کامیابی عنایت فرمائے۔

كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ ۗ وَنَبلوكُم بِالشَّرِّ وَالخَيرِ فِتنَةً ۖ وَإِلَينا تُرجَعونَ {21:35}
ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اور ہم تو لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں۔ اور تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آؤ گے
جہاں تمہارے صبر و شکر اور ہر نیک و بد عمل کا پھل دیا جائے گا۔
یعنی دنیا میں سختی نرمی ، تندرستی بیماری تنگی فراخی اور مصیبت و عیش وغیرہ مختلف احوال بھیج کر تم کو جانچا جاتا ہے تاکہ کھرا کھوٹا الگ ہو جائے اور علانیہ ظاہر ہو جائے کہ کون سختی پر صبر اور نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے اور کتنے لوگ ہیں جو مایوسی یا شکوہ شکایت اور ناشکری کے مرض میں مبتلا ہیں۔
یعنی جس طرح مذکورہ مخلوقات کا وجود حق تعالیٰ کی ایجاد سے ہوا ۔ تمام انسانوں کی زندگی بھی اسی کی عطا کردہ ہے جس وقت چاہے گا چھین لے گا موت ہر ایک پر ثابت کر دے گی کہ تمہاری ہستی تمہارے قبضہ میں نہیں ۔ چند روز کی چہل پہل تھی جو ختم ہوئی۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ کافر حضور کی باتیں سن کر کہتے تھے کہ یہ ساری دھوم محض اس شخص کے دم تک ہے یہ دنیا سے رخصت ہوئے پھر کچھ نہیں ۔ اس سے اگر ان کی غرض یہ تھی کہ موت آنا نبوت کے منافی ہے تو اس کا جواب دیا ۔ { وَمَا جَعَلْنَا لِبَشْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ } یعنی انبیاء مرسلین میں سے کون ایسا ہے جس پر کبھی موت طاری نہ ہو ہمیشہ زندہ رہے ۔ اور اگر محض آپ کی موت کے تصور سے اپنا دل ٹھندا کرنا ہی مقصود تھا تو اس کا جواب { أفَاِنْ مِّتَّ فَھُمْ الْخَالِدُوْنَ } میں دے دیا۔ یعنی خوشی کاہے کی ؟ کیا آپ کا انتقال ہو جائے تو تم کبھی نہیں مرو گے ، قیامت کے بوریے سمیٹو گے ؟ جب تم کو بھی آگے پیچھے مرنا ہے تو پیغمبر کی وفات پر خوش ہونے کا کیا موقع ہے ۔ اس راستہ سے تو سب کو گذرنا ہے کون ہے جس کو کبھی موت کا مزا چکھنا نہیں پڑے گا۔ گویا توحید اور دلائل قدرت بیان کرنے کے بعد اس آیت میں مسئلہ نبوت کی طرف روئے سخن پھیر دیا گیا۔

كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ ۖ ثُمَّ إِلَينا تُرجَعونَ {29:57}
ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "جب کافروں نے مکہ میں بہت زور باندھا تو مسلمانوں کو ہجرت کا حکم ہوا۔ چنانچہ اسّی تراسی گھر حبشہ چلے گئے۔ اس کو فرمایا کہ کوئی دن کی زندگی ہے جہاں بن پڑے وہاں کاٹ دو، پھر ہمارے پاس اکھٹے آؤ گے۔ اس میں مہاجرین کی تسلی کر دی تا وطن چھوڑنا اور حضرت سے جدا ہونا دل پر بھاری نہ گذرے گویا جتلا دیا کہ وطن، خویش و اقارب، رفقاء اور چھوٹے بڑے آج نہیں کل چھوٹیں گے۔ فرض کرو۔ اسوقت مکہ سے ہجرت نہ کی تو ایک روز دنیا سے ہجرت کرنا ضرور ہے مگر وہ بے اختیار ہوگا۔ بندگی اس کا نام ہے کہ اپنی خوشی اور اختیار سے ان چیزوں کو چھوڑ دے جو پروردگار حقیقی کی بندگی میں مزاحم اور خلل انداز ہوتی ہیں۔














حَتّىٰ إِذا جاءَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعونِ {23:99}
(یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے


نَحنُ قَدَّرنا بَينَكُمُ المَوتَ وَما نَحنُ بِمَسبوقينَ {56:60}
ہم نے تم میں مرنا ٹھہرا دیا ہے اور ہم اس (بات) سے عاجز نہیں
یعنی جلانا مارنا سب ہمارے قبضے میں ہے۔ جب وجود وعدم کی باگ ہمارے ہاتھ میں ہوئی تو مرنے کے بعد اٹھادینا کیا مشکل ہوگا۔



وَلَيسَتِ التَّوبَةُ لِلَّذينَ يَعمَلونَ السَّيِّـٔاتِ حَتّىٰ إِذا حَضَرَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قالَ إِنّى تُبتُ الـٰٔنَ وَلَا الَّذينَ يَموتونَ وَهُم كُفّارٌ ۚ أُولٰئِكَ أَعتَدنا لَهُم عَذابًا أَليمًا {4:18}
اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو (ساری عمر) برے کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی موت آموجود ہو تو اس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی (توبہ قبول ہوتی ہے) جو کفر کی حالت میں مریں۔ ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے
یعنی اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو برابر گناہ کئے جاتے ہیں اور باز نہیں آتے یہاں تک کہ جب موت ہی نظر آ گئ تو اس وقت کہنے لگا کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی توبہ قبول ہو گی جو کفر پر مرگئے اور اس کے بعد عذاب اخروی کو دیکھ کر توبہ کریں۔ ایسے لوگوں کے واسطے عذاب شدید تیار ہے۔ جاننا چاہئے کہ یہ دونوں آیتیں جو دربارۂ قبول توبہ اور عدم قبول توبہ یہاں مذکور ہیں ہم نے جو ان کا مطلب بیان کیا یہ بعض اکابر محققین کی تحقیق کے موافق ہے اور اس میں یہ خوبی ہے کہ قید جہالت اور لفظ قریب دونوں اپنے ظاہری معنی پر قائم رہے اور علی اللہ کے معنی بھی سہولت سے بن گئے اور اس موقع پر قبول اور عدم قبول توبہ کے ذکر فرمانے سے جو مقصد ہے یعنی توبہ کیف مااتفق مقبول نہیں اور توبہ کی چند صورتیں ہیں اور ان کی مقبولیت میں باہم فرق ہے تاکہ کوئی توبہ کے اعتماد پر معاصی پر جری نہ ہو جائے یہ مقصد بھی اس صورت میں خوب حاصل ہو جاتا ہے مگر مفسرین حضرات نے علی العموم جو ان آیتوں کا مطلب ارشاد فرمایا ہے تو قید جہالت کو احترازی اور شرطی نہیں لیتے بلکہ قید واقعی فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گناہ ہمیشہ جہل اور حماقت سے ہوتا ہے اور قریب کے معنی یہ لیتے ہیں کہ حضور موت سے پہلے جس قدر وقت ہے وہ قریب ہی ہے کیونکہ دنیا کی زندگی قلیل ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کا توبہ قبول فرمانے کا وعدہ ان سے ہے کہ سفاہت اور عدم انجام بینی سے گناہ کر لیتے ہیں اور پھر موت کے آنے سے پہلے تائب ہو جاتے ہیں اور جو لوگ کہ موت کو مشاہدہ کر چکے اور نزع کی حالت کو پہنچ چکے یا جو لوگ کہ کفر پر مر چکے ان کی تو بہ ہر گز قبول نہ ہو گی اس تقریر کے موافق توبہ کرنے والوں کی وہ دو صورتیں بین بین جو تقریر اول میں مذکور ہوئیں شق اول یعنی قبول توبہ کے اندر شمار ہو نگی۔ {فائدہ} جب موت کا یقین ہو چکے اور دوسرا عالم نظر آنے لگے تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں اور عالم آخرت کے دیکھنے سے پہلے کی توبہ البتہ قبول ہوتی ہے۔ اتنا فرق ہے کہ حسب تقریر اول صورت اول میں تو قبول توبہ قاعدہ عدل و انصاف کے موافق ہے اور دوسری صورتوں میں قبول توبہ اس کا محض فضل ہے کما مّر۔





اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنفُسَ حينَ مَوتِها وَالَّتى لَم تَمُت فى مَنامِها ۖ فَيُمسِكُ الَّتى قَضىٰ عَلَيهَا المَوتَ وَيُرسِلُ الأُخرىٰ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ {39:42}
خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یعنی نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے پھر (واپس) بھیجتا ہے۔ یہ ہی نشان ہے آخرت کا۔ معلوم ہوا نیند میں بھی جان کھینچتی ہے۔ جیسے موت میں۔ اگر نیند میں کھینچ کر رہ گئ وہ ہی موت ہے مگر یہ جان وہ ہے جس کو (ظاہر) ہوش کہتے ہیں۔ اور ایک جان جس سے سانس چلتی ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں اور کھانا ہضم ہوتا ہے سو دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی (موضح القرآن) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بغوی نے نقل کیا ہے کہ نیند میں روح نکل جاتی ہے مگر اس کا مخصوص تعلق بدن سے بذریعہ شعاع کے رہتا ہے جس سے حیات باطل ہونے نہیں پاتی(جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیند میں بھی وہ ہی چیز نکلتی ہے جو موت کے وقت نکلتی ہے لیکن تعلق کا انقطاع ویسا نہیں ہوتا جو موت میں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔



الَّذى خَلَقَ المَوتَ وَالحَيوٰةَ لِيَبلُوَكُم أَيُّكُم أَحسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ العَزيزُ الغَفورُ {67:2}
اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے
یعنی زبردست ہے جس کی پکڑ سے کوئی نہیں نکل سکتا اور بخشنے والا بھی بہت بڑا ہے۔
یعنی مرنے جینے کا سلسلہ اسی نے قائم کیا، ہم پہلے کچھ نہ تھے (اسے موت ہی سمجھو) پھر پیدا کیا، اس کے بعد موت بھیجی، پھر مرے پیچھے زندہ کر دیا۔ کما قال{ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ ِالَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } (البقرہ رکوع۳) موت و حیات کا یہ سارا سلسلہ اس لئے ہے کہ تمہارے اعمال کی جانچ کرے کہ کون برے کام کرتا ہے کون اچھے، اور کون اچھے سے اچھے پہلے زندگی میں یہ امتحان ہوا اور دوسری زندگی میں اس کا مکمل نتیجہ دکھلا دیا گیا۔ فرض کرو اگر پہلی زندگی نہ ہوتی تو عمل کون کرتا ، اور موت نہ آتی تو لوگ مبداء ومنتہیٰ سے غافل اور بےفکر ہو کر عمل چھوڑ بیٹھتے اور دوبارہ زندہ نہ کئے جاتے تو بھلے برے کا بدلہ کہاں ملتا۔




وَاتَّخَذوا مِن دونِهِ ءالِهَةً لا يَخلُقونَ شَيـًٔا وَهُم يُخلَقونَ وَلا يَملِكونَ لِأَنفُسِهِم ضَرًّا وَلا نَفعًا وَلا يَملِكونَ مَوتًا وَلا حَيوٰةً وَلا نُشورًا {25:3}
اور (لوگوں نے) اس کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑے ہونا
یعنی کس قدر ظلم اور تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ ایسے قادر مطلق، مالک الکل، حکیم علی الاطلاق کی زبردست ہستی کو کافی نہ سمجھ کر دوسرے معبود اور حاکم تجویز کر لئے گئے، جو گویا خدا کی حکومت میں حصہ دار ہیں۔ حالانکہ ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں نہ وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، نہ مارنا جِلانا ان کے قبضے میں ہے، نہ اپنے مستقل اختیار سے کسی کو ادنیٰ ترین نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بلکہ خود اپنی ذات کے لئے بھی ذرہ برابر فائدہ حاصل کرنے یا نقصان سے محفوظ رہنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ایسی عاجز و مجبور ہستیوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا کس قدر سفاہت اور بے حیائی ہے۔ (ربط) یہ قرآن نازل کرنے والے کی صفات و شئون کا ذکر تھا اور اس کے متعلق مشرکین جو بے تمیزی کر رہے تھے اسکی تردید تھی۔ آگے خود قرآن اور حامل قرآن کی نسبت سفیہانہ نکتہ چینیوں کا جواب ہے۔



إِنَّ فى خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَاختِلٰفِ الَّيلِ وَالنَّهارِ وَالفُلكِ الَّتى تَجرى فِى البَحرِ بِما يَنفَعُ النّاسَ وَما أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّماءِ مِن ماءٍ فَأَحيا بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها وَبَثَّ فيها مِن كُلِّ دابَّةٍ وَتَصريفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحابِ المُسَخَّرِ بَينَ السَّماءِ وَالأَرضِ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ {2:164}
بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کی چیزیں لے کر رواں ہیں اور مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز) کردیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانےمیں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں۔ عقلمندوں کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں
یعنی آسمان کے اس قدر وسیع اور اونچا اور بےستون پیدا کرنے میں اور زمین کے اتنی وسیع اور مضبوط پیدا کرنے اور اس کے پانی پر پھیلانے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے اور ان کے گھٹانے اور بڑھانے میں اور کشتیوں کے دریا میں چلنے میں اور آسمان سے پانی برسانے اور اس سے زمین کو سرسبز و تازہ کرنے میں اور جملہ حیوانات میں اُس سے توالد و تناسل نشوونما ہونے میں اور جہات مختلفہ سے ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں معلق کرنے میں دلائل عظیمہ اور کثیرہ ہیں حق تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت اور حکمت اور رحمت پر ان کے لئے جو صاحب عقل اور فکر ہیں۔ فائدہ { لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ } میں توحید ذات کا اور { الرَّحمٰنُ الرَّحِیْمُ } میں توحید صفات کا ثبوت تھا اور { اِنَّ فِی خَلْقِ } الخ میں توحید افعال کا ثبوت ہوا جس سے مشرکین کے شبہات بالکلیہ مندفع ہو گئے۔

وَاللَّهُ أَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَحيا بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايَةً لِقَومٍ يَسمَعونَ {16:65}
اور خدا ہی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا۔ بےشک اس میں سننے والوں کے لیے نشانی ہے
یعنی خشک زمین کو آسمانی بارش سے سر سبز کر دیا گویا خشک ہونا زمین کی موت اور سر سبز و شاداب ہونا حیات ہے۔
یعنی اسی طرح قرآن سے جاہلوں کو عالم اور مردہ دلوں کو زندہ کر دے گا۔ اگر توجہ قلبی اور انصاف سے سنیں گے۔

وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن نَزَّلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَحيا بِهِ الأَرضَ مِن بَعدِ مَوتِها لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعقِلونَ {29:63}
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد (کس نے) زندہ کیا تو کہہ دیں گے کہ خدا نے۔ کہہ دو کہ خدا کا شکر ہے۔ لیکن ان میں اکثر نہیں سمجھتے
یعنی مینہ بھی ہر کسی پر برابر نہیں برستا۔ اور اسی طرح حال بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ذرا دیر میں مفلس سے دولتمند کر دے۔

يُخرِجُ الحَىَّ مِنَ المَيِّتِ وَيُخرِجُ المَيِّتَ مِنَ الحَىِّ وَيُحىِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ وَكَذٰلِكَ تُخرَجونَ {30:19}
وہی زندے کو مردے سے نکالتا اور (وہی) مردے کو زندے سے نکالتا ہے اور( وہی) زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ اور اسی طرح تم (دوبارہ زمین میں سے) نکالے جاؤ گے
یعنی انسان کو نطفہ سے نطفہ کو انسان سے ، جانور کو بیضہ سے اور بیضہ کو جانور سے، مومن کو کافر سے، کافر کو مومن سے پیدا کرتا ہے اور زمین جب خشک ہو کر مر جاتی ہے تو رحمت کے پانی سے پھر زندہ کر کے سبز و شاداب کر دیتا ہے۔ غرض موت و حیات حقیقی ہو یا مجازی، حسی ہو یا معنوی، سب کی باگ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ پھر تم کو زندہ کر کے قبروں سے نکال کھڑا کرنا اس کے نزدیک کیا مشکل ہو گا۔

وَمِن ءايٰتِهِ يُريكُمُ البَرقَ خَوفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ ماءً فَيُحيۦ بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ {30:24}
اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ تم کو خوف اور اُمید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے مینھہ برساتا ہے۔ پھر زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ (و شاداب) کر دیتا ہے۔ عقل والوں کے لئے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
بجلی کی چمک دیکھ کر لوگ ڈرتے ہیں کہیں کسی پر گر نہ پڑے۔ یا بارش زیادہ نہ ہو جائے جس سے جان و مال تلف ہوں۔ اور امید بھی رکھتے ہیں کہ بارش ہو تو دنیا کا کام چلے۔ مسافر کبھی اندھیرے میں اس کی چمک کو غنیمت سمجھتا ہے کہ کچھ دور تک راستہ نظر آ جائے۔ اور کبھی خوف کھا کر گھبراتا ہے۔
یعنی اسی سے سمجھ لو کہ مرے پیچھے تمہارا پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔

فَانظُر إِلىٰ ءاثٰرِ رَحمَتِ اللَّهِ كَيفَ يُحىِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ إِنَّ ذٰلِكَ لَمُحىِ المَوتىٰ ۖ وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {30:50}
تو (اے دیکھنے والے) خدا کی رحمت کی نشانیوں کی طرف دیکھ کہ وہ کس طرح زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ بیشک وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
یعنی چند گھنٹے پہلے ہر طرف خاک اڑ رہی تھی اور زمین خشک بے رونق اور مردہ پڑی تھا ناگہاں اللہ کی مہربانی سےزندہ ہو کر لہلہانے لگی۔ بارش نے اس کی پوشیدہ قوتوں کو کتنی جلد ابھار دیا۔ یہ ہی حال روحانی بارش کا سمجھو، اس سے مردہ دلوں میں جان پڑے گی اور خدا کی زمین { ظَھَرَ الْفَسَادُفِے الْبَّرِ وَالْبَحْرِ } والی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو جائے گی۔ ہر طرف رحمت الہٰی کے نشان اور دین کے آثار نظر آئیں گے جو قابلیتیں مدت سے مٹی میں مل رہی تھیں، باران رحمت کا ایک چھینٹا ان کو ابھار کر نمایاں کر دے گا۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے بعثت محمدی کے ذریعہ سے یہ جلوہ دنیا کو دکھلا دیا۔ ہمارے صوبہ کے شاعر حکیم نے کیا خوب کہا ؎ ہے یہ وہ نام خاک کو پاک کرے نکھار کر ہے یہ وہ نام خار کر پھول کرے سنوار کر ہے یہ وہ نام ارض کو کر دے سما ابھار کر اکبر اسی کا ورد تو صدق سے بیشمار کر صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ
یعنی یہاں مردہ دلوں کو روحانی زندگی عطا فرمائے گا اور قیامت کے دن مردہ لاشوں میں دوبارہ جان ڈالے گا۔ اس کی قدرت کاملہ کے آگے کوئی چیز مشکل نہیں۔

وَاللَّهُ الَّذى أَرسَلَ الرِّيٰحَ فَتُثيرُ سَحابًا فَسُقنٰهُ إِلىٰ بَلَدٍ مَيِّتٍ فَأَحيَينا بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ كَذٰلِكَ النُّشورُ {35:9}
اور خدا ہی تو ہے جو ہوائیں چلاتا ہے اور وہ بادل کو اُبھارتی ہیں پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں۔ پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیتے ہیں۔ اسی طرح مردوں کو جی اُٹھنا ہوگا
اللہ کے حکم سے ہوائیں بادلوں کو اٹھا کر لاتی ہیں اور جس ملک کا رقبہ مردہ پڑا تھا۔ یعنی کھیتی و سبزہ کچھ نہ تھا، چاروں طرف خاک اڑ رہی تھی، بارش کے پانی سے اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی مرے پیچھے جلا کر کھڑا کر دے گا۔ روایات میں ہے کہ جب اللہ مردوں کو زندہ کرنا چاہے گا۔ عرش کے نیچے سے ایک (خاص قسم کی) بارش ہو گی جس کا پانی پڑتے ہی مردے اس طرح جی اٹھیں گے۔ جیسے ظاہری بارش ہونے پر دانہ زمین سے اگتا ہے مزید تفصیل روایات میں دیکھنی چاہئے۔

وَاختِلٰفِ الَّيلِ وَالنَّهارِ وَما أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّماءِ مِن رِزقٍ فَأَحيا بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها وَتَصريفِ الرِّيٰحِ ءايٰتٌ لِقَومٍ يَعقِلونَ {45:5}
اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں اور وہ جو خدا نے آسمان سے (ذریعہٴ) رزق نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد زندہ کیا اس میں اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں
یعنی ذرا بھی سمجھ سے کام لیں تو معلوم ہو جائے کہ یہ امور بجز اس زبردست قادر و حکیم کے اور کسی کے بس میں نہیں۔ جیساکہ پہلے متعدد مواضع میں اس کی تقریر گزر چکی۔
یعنی پانی آسمان کی طرف سے اتارا جو مادہ ہے روزی کا۔

اعلَموا أَنَّ اللَّهَ يُحىِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ قَد بَيَّنّا لَكُمُ الءايٰتِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ {57:17}
جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ہم نے اپنی نشانیاں تم سے کھول کھول کر بیان کردی ہیں تاکہ تم سمجھو
یعنی عرب لوگ جاہل اور گمراہ تھے جیسے مردہ زمین۔ اب اللہ نے ان کو ایمان اور علم کی روح سے زندہ کیا۔ اور ان میں سب کمال پیدا کر دیئے۔ غرض کسی مردہ سے مردہ انسان کو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ سچی توبہ کرلے تو اللہ پھر اس کے قالب میں روح حیات پھونک دے گا۔

لا يَذوقونَ فيهَا المَوتَ إِلَّا المَوتَةَ الأولىٰ ۖ وَوَقىٰهُم عَذابَ الجَحيمِ {44:56}
(اور) پہلی دفعہ کے مرنے کے سوا (کہ مرچکے تھے) موت کا مزہ نہیں چکھیں گے۔ اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا
یعنی جو موت پہلے آ چکی وہ آچکی، اب آگے کبھی موت نہیں، دائمًا اسی عیش و نشاط میں رہنا ہے نہ انکو فنا، نہ انکے سامانوں کو۔






أَو كَالَّذى مَرَّ عَلىٰ قَريَةٍ وَهِىَ خاوِيَةٌ عَلىٰ عُروشِها قالَ أَنّىٰ يُحيۦ هٰذِهِ اللَّهُ بَعدَ مَوتِها ۖ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِا۟ئَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قالَ كَم لَبِثتَ ۖ قالَ لَبِثتُ يَومًا أَو بَعضَ يَومٍ ۖ قالَ بَل لَبِثتَ مِا۟ئَةَ عامٍ فَانظُر إِلىٰ طَعامِكَ وَشَرابِكَ لَم يَتَسَنَّه ۖ وَانظُر إِلىٰ حِمارِكَ وَلِنَجعَلَكَ ءايَةً لِلنّاسِ ۖ وَانظُر إِلَى العِظامِ كَيفَ نُنشِزُها ثُمَّ نَكسوها لَحمًا ۚ فَلَمّا تَبَيَّنَ لَهُ قالَ أَعلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {2:259}
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے)رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
وہ شخص حضرت عزیزؑ پیغمبر تھے اور تمام توریت ان کو یاد تھی۔ بخت نصر کافر بادشاہ تھا اس نے بیت المقدس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل سے بہت لوگوں کو قید کر کے لے گیا ان میں حضرت عزیزؑ بھی تھے جب قید سے چھوٹ آئے تب حضرت عزیزؑ نے راہ میں ایک شہر دیکھا ویران اس کی عمارت گری ہوئی دیکھ کر اپنے جی میں کہا کہ یہاں کے ساکن سب مر گئے کیونکر حق تعالیٰ ان کو پھر جلاوے اور یہ شہر پھر آباد ہو۔ اسی جگہ ان کی روح قبض ہوئی اور ان کی سواری کا گدھا بھی مر گیا۔ سو برس تک اسی حال میں رہے اور کسی نے نہ ان کو وہاں آ کر دیکھا نہ ان کی خبر ہوئی اس مدت میں بخت نصر بھی مر گیا اور کسی بادشاہ نے اس مدت میں بیت المقدس کو آباد کیا اور اس شہر کو بھی خوب آباد کیا پھر سو برس کے بعد حضرت عزیزؑ زندہ کئے گئے ان کا کھانا اور پینا اسی طرح ان کے پاس دھرا ہوا تھا ان کا گدھا جو مر چکا تھا اور اس کی بوسیدہ ہڈیاں اپنی حالت پر دھری تھیں وہ ان کے روبرو زندہ کیا گیا اور اس سو برس میں بنی اسرائیل قید سے خلاص ہو کر شہر میں آباد بھی ہو چکے تھے حضرت عزیزؑ نے زندہ ہو کر آباد ہی دیکھا۔
جب حضرت عزیزؑ مرے تھے اس وقت کچھ دن چڑھا تھا اور جب زندہ ہوئے ابھی شام نہ ہوئی تھی تو یہ سمجھے کہ اگر میں یہاں نکل آیا تھا تو ایک دن ہوا اور اگر آج ہی آیا تھا تو دن سے بھی کم رہا۔
حضرت عزیزؑ کے سامنے وہ سب ہڈیاں موافق ترکیب بدن کے جمع کی گئیں پھر ان پر گوشت پھیلایا گیا اور چمڑا درست ہوا پھر خدا کی قدرت سے ایکبارگی اس میں جان آئی اور اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی بولی بولا۔
حضرت عزیزؑ نے اس تمام کیفیت کو ملاحظہ کرنے کے بعد فرمایا کہ مجھ کو خوب یقین ہوا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی میں جو جانتا تھا کہ مردہ کو جلانا خدا تعالیٰ کو آسان ہے سو اپنی آنکھ سے دیکھ لیا یہ مطلب نہیں کہ پہلے یقین میں کچھ کمی تھی ہاں مشاہدہ نہ ہوا تھا پھر حضرت عزیزؑ یہاں سے اٹھ کر بیت المقدس میں پہنچے کسی نے ان کو نہ پہچانا کیونکہ یہ تو جوان رہے اور ان کے آگے کے بچے بوڑھے ہو گئے جب انہوں نے توریت حفظ سنائی تب لوگوں کو ان کا یقین آیا بخت نصر بنی اسرائیل کی تمام کتابیں جلا گیا تھا جن میں توریت بھی تھی۔

أَم كُنتُم شُهَداءَ إِذ حَضَرَ يَعقوبَ المَوتُ إِذ قالَ لِبَنيهِ ما تَعبُدونَ مِن بَعدى قالوا نَعبُدُ إِلٰهَكَ وَإِلٰهَ ءابائِكَ إِبرٰهۦمَ وَإِسمٰعيلَ وَإِسحٰقَ إِلٰهًا وٰحِدًا وَنَحنُ لَهُ مُسلِمونَ {2:133}
بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں
یعنی تم حضرت یعقوبؑ کی وصیت کے وقت تو موجود بھی نہ تھے۔ انہوں نے تو ملت انبیائے موصوفین کا ارشاد فرمایا تھا تم نے یہ کیا کہ یہود اپنے سوا سب کو اور نصاریٰ اپنے سوا سب کو بےدین بتلانے لگے (اور مذہب حق (یعنی اسلام کے) دونوں کے مخالف ہو گئے) یہ تمہارا افتراء ہے۔

كُتِبَ عَلَيكُم إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوتُ إِن تَرَكَ خَيرًا الوَصِيَّةُ لِلوٰلِدَينِ وَالأَقرَبينَ بِالمَعروفِ ۖ حَقًّا عَلَى المُتَّقينَ {2:180}
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں با پ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کرجائے (خدا سے) ڈر نے والوں پر یہ ایک حق ہے
پہلا حکم قصاص یعنی مردہ کی جان کے متعلق تھا یہ دوسرا حکم اس کے مال کے متعلق ہے اور کلیات مذکورہ سابقہ میں جو { وَاتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی } ارشاد ہوا تھا اس کی تشریح ہے لوگوں میں دستور تھا کہ مردہ کا تمام مال اسکی بیوی اور اولاد بلکہ خاص بیٹوں کو ملتا تھا ماں باپ اور سب اقارب محروم رہتے تھے اس آیت میں ارشاد ہوا کہ ماں باپ اور جملہ اقارب کو انصاف کے ساتھ دینا چاہیئے مرنے والے پر اسی کے موافق وصیت فرض ہوئی اور یہ وصیت اس وقت فرض تھی جس وقت تک آیت میراث نہیں اتری تھی جب سورہ نساء میں احکام میراث نازل ہوئے سب کا حصہ خدا تعالیٰ نے آپ معین فرما دیا اب ترکہ میت میں وصیت فرض نہ رہی اس کی حاجت ہی جاتی رہی البتہ مستحب ہے مگر وارث کے لئے وصیت جائز نہیں اور تہائی ترکہ سے زائد نہ ہو ہاں اگر کسی شخص کے متعلق دیون اور ودائع وغیرہ دادوستد کا جھگڑا ہو اس پر وصیت اب بھی فرض ہے۔





إِلّا مَوتَتَنَا الأولىٰ وَما نَحنُ بِمُعَذَّبينَ {37:59}
ہاں (جو) پہلی بار مرنا (تھا سو مرچکے) اور ہمیں عذاب بھی نہیں ہونے کا

إِن هِىَ إِلّا مَوتَتُنَا الأولىٰ وَما نَحنُ بِمُنشَرينَ {44:35}
کہ ہمیں صرف پہلی دفعہ (یعنی ایک بار) مرنا ہے اور (پھر) اُٹھنا نہیں
درمیان میں حضرت موسٰیؑ کی قوم کا ذکر استطرادًا آ گیا تھا۔ یہاں سے پھر حضور کی قوم کا تذکرہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہتے ہیں کہ ہماری آخری حالت بس یہ ہی ہے کہ موت آ جائے موت کے بعد سب قصہ ختم۔ موجودہ زندگی کے سوا دوسری زندگی کوئی نہیں۔ کہاں کا حشر اور کیسا حساب کتاب۔


ثُمَّ بَعَثنٰكُم مِن بَعدِ مَوتِكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ {2:56}
پھر موت آ جانے کے بعد ہم نے تم کو ازسرِ نو زندہ کر دیا، تاکہ احسان مانو
اس وقت کو بھی ضرور یاد کرو کہ باوجود اس قدر احسانات کے کہ جب تم نے کہا تھا کہ اے موسٰیؑ ہم ہر گز تمہارا یقین نہ کریں گے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جب تک آنکھوں سے صریحًا خدائے تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں۔ اس پر بجلی نے تم کو ہلاک کیا اس کے بعد موسٰیؑ کی دعا سے ہم نے تم کو زندہ کیا اور یہ اس وقت کا حال ہے کہ حضرت موسٰیؑ ستر آدمیوں کو منتخب فرما کر کوہ طور پر کلام الہٰی سننے کی غرض سے لے گئے تھے ۔ پھر جب انہوں نے کلام الہٰی کو سنا تو انہی ستر نے کہا اے موسٰیؑ پردے میں سننے کا ہم اعتبار نہیں کرتے آنکھوں سے خدا کو دکھاؤ۔ اس پر ان ستر آدمیوں کو بجلی نے ہلاک کر دیا تھا۔


وَإِن مِن أَهلِ الكِتٰبِ إِلّا لَيُؤمِنَنَّ بِهِ قَبلَ مَوتِهِ ۖ وَيَومَ القِيٰمَةِ يَكونُ عَلَيهِم شَهيدًا {4:159}
اور کوئی اہل کتاب نہیں ہوگا مگر ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا۔ اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے
حضرت عیسٰیؑ زندہ موجود ہیں آسمان پر۔ جب دجال پیدا ہوگا تب اس جہان میں تشریف لا کر اسے قتل کریں گے اور یہود اور نصاریٰ ان پر ایمان لائیں گے کہ بیشک عیسٰیؑ زندہ ہیں مرے نہ تھے اور قیامت کے دن حضرت عیسٰیؑ ان کے حالات اور اعمال کو ظاہر کریں گے کہ یہود نے میری تکذیب اور مخالفت کی اور نصاریٰ نے مجھ کو خدا کا بیٹا کہا۔


فَلَمّا قَضَينا عَلَيهِ المَوتَ ما دَلَّهُم عَلىٰ مَوتِهِ إِلّا دابَّةُ الأَرضِ تَأكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الجِنُّ أَن لَو كانوا يَعلَمونَ الغَيبَ ما لَبِثوا فِى العَذابِ المُهينِ {34:14}
پھر جب ہم نے ان کے لئے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑے سے جو ان کے عصا کو کھاتا رہا۔ جب عصا گر پڑا تب جنوں کو معلوم ہوا (اور کہنے لگے) کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے
حضرت سلیمانؑ جنوں کے ہاتھ سے مسجد بیت المقدس کی تجدید کرا رہے تھے جب معلوم کیا کہ میری موت آ پہنچی جنوں کو نقشہ بتا کر آپ ایک شیشہ کے مکان میں دربند کر کے عبادت الہٰی میں مشغول ہو گئے جیسا کہ آپ کی عادت تھی کہ مہینوں خلوت میں رہ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ اسی حالت میں فرشتہ نے روح قبض کر لی اور آپ کی نعش مبارک لکڑی کے کے سہارے کھڑی رہی۔ کسی کو آپ کی وفات کا احساس نہ ہو سکا۔ وفات کے بعد مدت تک جن بدستور تعمیر کرتے رہے۔ جب تعمیر پوری ہو گئ جس عصا پر ٹیک لگا رہے تھے گھن کھانے سے گرا۔ تب سب کو وفات کا حال معلوم ہوا۔ اس سے جنات کو خود ا پنی غیب دانی کی حقیقت کھل گئ اور ان کے معتقد انسانوں کو بھی پتہ لگ گیا کہ اگر انہیں غیب کی خبر ہوتی تو کیا اس ذلت آمیز تکلیف میں پڑے رہتے۔ حضرت سلیمانؑ کی وفات کو محسوس کرتے ہی کام چھوڑ دیتے۔ اسی سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ شیاطین وغیرہ کی تسخیر کچھ حضرت سلیمانؑ کا کسبی کمال نہ تھا محض فضل ایزدی تھا۔ جو اللہ چاہے تو موت کے بعد ایک لاش کے حق میں بھی قائم رکھ سکتا ہے۔ نیز سلیمانؑ پر زندگی میں جو انعامات ہوئے تھے یہ اس کی تکمیل ہوئی کہ موت کے بعد بھی ایک ضروری حد تک انہیں جاری رکھا گیا۔ اور بتلا دیا کہ پیغمبروں کے اٹھائے ہوئے کاموں کو اللہ تعالیٰ کس تدبیر سے پورا کرتا ہے۔ (ربط) یہاں تک بعض منیب اور شکر گذار بندوں کا ذکر تھا۔ آگے ایک معرض و ناسپاس قوم (سبا) کا ذکر کیا جاتا ہے جو بڑے عیش و رفاہیت اور خوش حالی و فارغ البالی کے بعد کفر و ناسپاسی کی سزا میں تباہ کی گئ۔ یہ قوم یمن کی بڑی دولت مند اور ذی اقتدار قوم تھی جو صدیوں تک بڑے جاہ و جلال سے ملک پر حکومت کرتی رہی۔ ان ہی میں ایک وہ ملکہ تھی (بلقیس) جس کا حضرت سلیمانؑ کی بارگاہ میں حاضر ہونا سورہ "نمل" میں گذر چکا ہے۔ شاید یہاں سلیمانؑ کے بعد "سبا" کا ذکر اس مناسبت سے بھی ہوا ہو۔

وَهُوَ القاهِرُ فَوقَ عِبادِهِ ۖ وَيُرسِلُ عَلَيكُم حَفَظَةً حَتّىٰ إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ المَوتُ تَوَفَّتهُ رُسُلُنا وَهُم لا يُفَرِّطونَ {6:61}
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔ اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے
یعنی جس وقت اور جس طرح جان نکالنے کا حکم ہوتا ہے اس میں وہ کسی طرح کی رعایت یا کوتاہی نہیں کرتے۔
یعنی وہ فرشتے جو تمہاری اور تمہارے اعمال کی نگہداشت کرتے ہیں۔
یعنی جو فرشتے روح قبض کرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔

وَمَن أَظلَمُ مِمَّنِ افتَرىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَو قالَ أوحِىَ إِلَىَّ وَلَم يوحَ إِلَيهِ شَيءٌ وَمَن قالَ سَأُنزِلُ مِثلَ ما أَنزَلَ اللَّهُ ۗ وَلَو تَرىٰ إِذِ الظّٰلِمونَ فى غَمَرٰتِ المَوتِ وَالمَلٰئِكَةُ باسِطوا أَيديهِم أَخرِجوا أَنفُسَكُمُ ۖ اليَومَ تُجزَونَ عَذابَ الهونِ بِما كُنتُم تَقولونَ عَلَى اللَّهِ غَيرَ الحَقِّ وَكُنتُم عَن ءايٰتِهِ تَستَكبِرونَ {6:93}
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے۔ یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب خدا نے نازل کی ہے اس طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں۔ اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لئے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم خدا پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے
یعنی موت کی باطنی اور روحانی سختیوں میں۔
یعنی روح قبض کرنے اور سزا دینےکو ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور مزید تشدید اور اظہار غیظ کے لئے کہتے جاتے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں (جنہیں بہت دنوں سے بانواع حیل بچاتے پھرتے تھے)
یعنی سخت تکلیف کےساتھ ذلت و رسوائی بھی ہو گی۔
خدا پر بہتان باندھنے سے شاید یہ مراد ہے کہ خدا کی طرف ان باتوں کی نسبت کرے جو اس کی شان رفیع کے لائق نہیں ۔ مثلًا کسی کو اس کا شریک ٹھہرائے یا بیوی بچے تجویز کرے یا یوں کہے "ما انزل اللہ علی بشر من شی" یعنی اس نے بندوں کی ہدایت کو کوئی سامان نہیں کیا۔ ایسا کہنے والا سخت ظالم ہے اسی طرح جو شخص نبوت و پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کرے یا یہ ڈینگ مارے کہ خدا کے جیسا کلام تو میں لا سکتا ہوں ۔ جیسے بعض مشرکین کہتے تھے { لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَآ } یہ سب باتیں انتہائی ظلم اور دیدہ دلیری کی ہیں جس کی سزا کا تھوڑا سا حال آگے مذکور ہے۔
یعنی ازراہ تکبر آیات اللہ کو جھٹلاتے تھے۔


قُل يَتَوَفّىٰكُم مَلَكُ المَوتِ الَّذى وُكِّلَ بِكُم ثُمَّ إِلىٰ رَبِّكُم تُرجَعونَ {32:11}
کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی تم آپ کو محض بدن اور دھڑ سمجھتے ہو کہ خاک میں رل مل کر برابر ہو گئے۔ ایسا نہیں۔ تم حقیقت میں جان ہو۔ جسے فرشتہ لیجاتا ہے بالکل فنا نہیں ہو جاتے"۔ (موضح)۔


يُجٰدِلونَكَ فِى الحَقِّ بَعدَما تَبَيَّنَ كَأَنَّما يُساقونَ إِلَى المَوتِ وَهُم يَنظُرونَ {8:6}
وہ لوگ حق بات میں اس کے ظاہر ہوئے پیچھے تم سے جھگڑنے لگے گویا موت کی طرف دھکیلے جاتے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں
یعنی سوچو کہ اس جنگ (بدر) میں شروع سے آخر تک کس طرح حق تعالیٰ کی تحریک و تائید اور امداد و توفیق مسلمانوں کے حق میں کارفرما رہی۔ خدا ہی تھا جو نصرت دین اسلام کے حق (سچے) وعدے کر کے اپنے نبی کو ایک امر حق یعنی کفار کے ساتھ جہاد کرانے کے لئے مدینہ سے باہر بدر کے میدان میں اس وقت لے آیا جبکہ ایک جماعت مسلمانوں کی لشکر قریش سے نبرد آزمائی کرنے پر راضی نہ تھی۔ یہ لوگ ایسی سچی اور طے شدہ چیز میں پس و پیش کر رہے اور حجتیں نکال رہے تھے جس کی نسبت بذریعہ پیغمبر انہیں ظاہر ہو چکا تھا کہ وہ یقینًا خدا کی فرمائی ہوئی اٹل بات ہے (یعنی اسلام و پیروان اسلام کا بذریعہ جہاد غالب و منصور ہونا) ابوجہل کے لشکر سے مقابلہ کرنا ان کو اس قدر شاق اور گراں تھا۔ جیسے کسی شخص کو آنکھوں دیکھتے موت کے منہ میں جانا مشکل ہے تاہم خدا اپنی توفیق سے ان کو میدان جنگ میں لے گیا اور اپنی امداد سے مظفر و منصور واپس لایا۔ پس جیسے خدا ہی کی مدد سے اول تا آخر یہ مہم سر ہوئی، مال غنیمت بھی اسی کا سمجھنا چاہئے وہ اپنے پیغمبر کے ذریعہ سے جہاں بتلائے وہاں خرچ کرو۔ (تنبیہ) { کَمَا اَخْرَجَکَ } الخ کے "کاف" کو میں نے اپنی تقریر میں صرف تشبیہ کے لئے نہیں لیا، بلکہ ابوحیان کی تحقیق کے موافق معنی تعلیل پر مشتمل رکھا ہے جیسے { وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدَا کُمْ } میں علماء نے تصریح کی ہے۔ اور { اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ } الی آخر الآیات کے مضمون کو میں نے { اَلْاَنْفَالُ لِلہِ وَالرَّسُوْلِ } کا ایک سبب قرار دیا ہے ابوحیان کی طرح { اَعَزَّ کَ اللہُ } وغیرہ مقدر نہیں مانا۔ نیز تقریر آیت میں صاحب "روح المعانی" کی تصریح کے موافق اشارہ کر دیا ہے کہ { اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ } میں صرف آنِ خروج مِن البیت مراد نہیں۔ بلکہ خروج من البیت سے دخول فی الجہاد تک کا ممتد اور وسیع زمانہ مراد ہے جس میں { وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَ۔یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ } وغیرہ سب احوال کا وقوع ہوا۔ ایک فریق کی کراہیۃ تو عین خروج من المدینۃ ہی کے وقت ظاہر ہو گئ جسے ہم صحیح مسلم اور طبری کے حوالہ سے سورۃ الانفال کے پہلے فائدہ میں بیان کر چکے ہیں اور مجادلہ کی صورت غالبًا آگے چل کر لشکر کی اطلاع ملنے پر مقام صفراء میں پیش آئی۔ اس کے سمجھ لینے سے بعض مبطلین کے مغالطات کا استیصال ہو جائے گا۔



أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ خَرَجوا مِن دِيٰرِهِم وَهُم أُلوفٌ حَذَرَ المَوتِ فَقالَ لَهُمُ اللَّهُ موتوا ثُمَّ أَحيٰهُم ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذو فَضلٍ عَلَى النّاسِ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَشكُرونَ {2:243}
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے۔ تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ۔ پھر ان کو زندہ بھی کردیا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
یہ پہلی امت کا قصہ ہے کہ کئ ہزار شخص گھر بار کو ساتھ لے کر وطن سے بھاگے ان کو ڈر ہوا تھا غنیم کا اور لڑنے سے جی چھپایا یا ڈر ہوا تھا دبا کا اور تقدیر پر توکل اور یقین نہ کیا پھر ایک منزل پر پہنچ کر بحکم الہٰی سب مر گئے پھر سات دن کے بعد پیغمبر کی دعا سے زندہ ہوئے کہ آگے کو توبہ کریں اس حال کو یہاں اس واسطے ذکر فرمایا کہ کافروں سے لڑنے یا فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے میں جان اور مال کی محبت کے باعث دریغ نہ کریں اور جان لیویں کہ اللہ موت بھیجے تو چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں اور زندگی چاہے تو مردہ کو دم کے دم میں زندہ کر دے زندہ کو موت سے بچا لینا تو کوئی چیز ہی نہیں پھر اس کی تعمیل حکم میں موت سے ڈر کر جہاد سے بچنا یا افلاس سے بچ کر صدقہ اور دوسروں پر احسان یا عفو اور فضل سے رکنا بد دینی کے ساتھ حماقت بھی پوری ہے۔

وَيَقولُ الَّذينَ ءامَنوا لَولا نُزِّلَت سورَةٌ ۖ فَإِذا أُنزِلَت سورَةٌ مُحكَمَةٌ وَذُكِرَ فيهَا القِتالُ ۙ رَأَيتَ الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ يَنظُرونَ إِلَيكَ نَظَرَ المَغشِىِّ عَلَيهِ مِنَ المَوتِ ۖ فَأَولىٰ لَهُم {47:20}
اور مومن لوگ کہتے ہیں کہ (جہاد کی) کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی؟ لیکن جب کوئی صاف معنوں کی سورت نازل ہو اور اس میں جہاد کا بیان ہو تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھنے لگیں جس طرح کسی پر موت کی بےہوشی (طاری) ہو رہی ہو۔ سو ان کے لئے خرابی ہے
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "مسلمان سورت مانگتے تھے۔ یعنی کافروں کی ایذاء سے عاجز ہو کر آرزو کرتے تھے کہ اللہ جہاد کا حکم دے تو جو ہم سے ہو سکے کر گذریں۔ جب جہاد کا حکم آیا تو منافق اور کچے لوگوں پر بھاری ہوا۔ خوفزدہ اور بے رونق آنکھوں سے پیغمبر کی طرف دیکھنے لگے کہ کاش ہم کو اس حکم سے معاف رکھیں۔ بیحد خوف میں بھی آنکھ کی رونق نہیں رہتی۔ جیسے مرتے وقت آنکھوں کا نور جاتا رہتا ہے۔
یعنی جچے تلے احکام پر مشتمل ہے جو غیر منسوخ ہیں اور ٹھیک اپنے وقت پر اترتے ہیں۔
یعنی ایسی سورت جس میں جہاد کی اجازت ہو۔


الَّذينَ قالوا لِإِخوٰنِهِم وَقَعَدوا لَو أَطاعونا ما قُتِلوا ۗ قُل فَادرَءوا عَن أَنفُسِكُمُ المَوتَ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {3:168}
یہ خود تو (جنگ سے بچ کر) بیٹھ ہی رہے تھے مگر (جنہوں نے راہ خدا میں جانیں قربان کردیں) اپنے (ان) بھائیوں کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ اگر ہمارا کہا مانتے تو قتل نہ ہوتے۔ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو اپنے اوپر سے موت کو ٹال دینا
یعنی خود نامرد بن کر بیٹھ رہے اور اپنی برادری کے بھائیوں (انصار مدینہ) کو کہتے ہیں کہ ہماری بات مان کر گھر میں بیٹھے رہتے تو مارے نہ جاتے۔
یعنی اگر گھر میں بیٹھ رہنے سے جان بچ سکتی ہے تو دیکھیں موت کو گھر میں کس طرح نہ آنے دیں گے۔ اگر یہاں رہ کر بھی موت پیچھا نہیں چھوڑتی تو پھر بہادروں کی طرح میدان میں عزت کی موت کیوں نہ مریں۔

قُل إِنَّ المَوتَ الَّذى تَفِرّونَ مِنهُ فَإِنَّهُ مُلٰقيكُم ۖ ثُمَّ تُرَدّونَ إِلىٰ عٰلِمِ الغَيبِ وَالشَّهٰدَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِما كُنتُم تَعمَلونَ {62:8}
کہہ دو کہ موت جس سے تم گریز کرتے ہو وہ تو تمہارے سامنے آ کر رہے گی۔ پھر تم پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے (خدا) کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائے گا
یعنی موت سے ڈر کر کہاں بھاگ سکتے ہو۔ ہزار کوشش کرو، مضبوط قلعوں میں دروازے بند کر کے بیٹھ رہو، وہاں بھی موت چھوڑنے والی نہیں۔ اور موت کے بعد پھر وہ ہی اللہ کی عدالت ہے اور تم ہو (ربط) یہود کی بڑی خرابی یہ تھی کہ کتابیں پیٹھ پر لدی ہوئی ہیں، لیکن ان سے منتفع نہیں ہوتے دین کی بہت سی باتیں سمجھتے بوجھتے، پر دنیا کے واسطے چھوڑ بیٹھتے۔ دنیا کے دھندوں میں منہمک ہو کر اللہ کی یاد اور آخرت کے تصور کو فراموش کر دیتے، ایسی روش سے ہم کو منع کیا گیا۔ جمعہ کا تقید بھی ایسا ہی ہے کہ اس وقت دنیا کے کام میں نہ لگو بلکہ پوری توجہ اور خاموشی سے خطبہ سنو اور نماز ادا کرو۔ حدیث میں ہے کہ "جو کوئی خطبہ کے وقت بات کرے وہ اس گدھے کی طرح ہے جس پر کتابیں لدی ہوں"۔ یعنی اس کی مثال یہود کی سی ہوئی۔ العیاذ باللہ۔


أَينَما تَكونوا يُدرِككُمُ المَوتُ وَلَو كُنتُم فى بُروجٍ مُشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبهُم حَسَنَةٌ يَقولوا هٰذِهِ مِن عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبهُم سَيِّئَةٌ يَقولوا هٰذِهِ مِن عِندِكَ ۚ قُل كُلٌّ مِن عِندِ اللَّهِ ۖ فَمالِ هٰؤُلاءِ القَومِ لا يَكادونَ يَفقَهونَ حَديثًا {4:78}
(اے جہاد سے ڈرنے والو) تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ کر رہے گی خواہ بڑے بڑے محلوں میں رہو اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے تو (اے محمد تم سے) کہتے ہیں کہ یہ گزند آپ کی وجہ سے (ہمیں پہنچا) ہے کہہ دو کہ (رنج وراحت) سب الله ہی کی طرف سے ہے ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے
یعنی ان منافقین کا اور عجیب حال سنو اگر تدبیر لڑائ کی درست آئی اور فتح ہوئی اور غنیمت کا مال ہاتھ آ گیا تو کہتےہیں یہ خدا کی طرف سے ہے یعنی اتفاقی بات ہو گئ۔ رسول اللہ کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے اور اگر تدبیر بگڑ جاتی اور ہزیمت و نقصان پیش آ جاتا تو الزام رکھتے آپ کی تدبیر پر۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ان کو جواب دے دو کہ بھلائی اور برائی سب اللہ کی طرف سے ہے سب باتوں کا موجد اور خالق اللہ تعالیٰ ہے اس میں کسی دوسرے کو دخل نہیں اور پیغمبر کی تدبیر بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کا الہام ہے۔ تمہارا الزام رکھنا نبی پر غلط اور سراسر کم فہمی ہے اور بگڑی کو بگڑا نہ سمجھو یہ اللہ کی حکمت ہے وہ تم کو سدھاتا ہے اور آزماتا ہے تمہارے قصوروں پر یہ جواب اجمالی ہوا منافقین کے الزام کا اگلی آیت میں اس کی تفصیل آتی ہے۔
یعنی کیسے ہی مضبوط اور محفوظ اور مامون مکان میں رہو مگر موت تم کو کسی طرح نہ چھوڑے گی کیونکہ موت ہر ایک کے واسطے مقدر اور مقرر ہو چکی ہے اپنے وقت پر ضرور آئے گی کہیں ہو۔ سو اگر جہاد میں نہ جاؤ گے تو بھی موت سے ہر گز نہیں بچ سکتے تو اب جہاد سے گھبرانا اور موت سے ڈرنا اور کافروں کے مقاتلہ سےخوف کرنا بالکل نادانی اور اسلام میں کچے ہونے کی بات ہے۔

وَمَن يُهاجِر فى سَبيلِ اللَّهِ يَجِد فِى الأَرضِ مُرٰغَمًا كَثيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخرُج مِن بَيتِهِ مُهاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسولِهِ ثُمَّ يُدرِكهُ المَوتُ فَقَد وَقَعَ أَجرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا {4:100}
اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جائے وہ زمین میں بہت سی جگہ اور کشائش پائے گا اور جو شخص خدا اور رسول کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے پھر اس کو موت آپکڑے تو اس کا ثواب خدا کے ذمے ہوچکا اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے
اس آیت میں ہجرت کی ترغیب ہے اور مہاجرین کو تسلی دی جاتی ہے یعنی جو شخص اللہ کے واسطے ہجرت کرے گا اور اپنا وطن چھوڑے گا تو اس کو رہنے کے لئے بہت جگہ ملے گی اور اس کی روزی اور معیشت میں فراخی ہو گی تو ہجرت کرنے میں اس سے مت ڈرو کہ کہاں رہیں گے اور کیا کھائیں گے اور یہ بھی خطرہ نہ کرو کہ شاید رستہ میں موت آ جائے تو ادھر کے ہوں نہ اُدھر کے کیونکہ اس صورت میں بھی ہجرت کا پورا ثواب ملے گا اور موت تو اپنے وقت ہی پر آتی ہے وقت مقرر سے پہلے نہیں آ سکتی۔

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا شَهٰدَةُ بَينِكُم إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوتُ حينَ الوَصِيَّةِ اثنانِ ذَوا عَدلٍ مِنكُم أَو ءاخَرانِ مِن غَيرِكُم إِن أَنتُم ضَرَبتُم فِى الأَرضِ فَأَصٰبَتكُم مُصيبَةُ المَوتِ ۚ تَحبِسونَهُما مِن بَعدِ الصَّلوٰةِ فَيُقسِمانِ بِاللَّهِ إِنِ ارتَبتُم لا نَشتَرى بِهِ ثَمَنًا وَلَو كانَ ذا قُربىٰ ۙ وَلا نَكتُمُ شَهٰدَةَ اللَّهِ إِنّا إِذًا لَمِنَ الءاثِمينَ {5:106}
مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم (مسلمانوں) میں سے دو عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کر لو) اگر تم کو ان گواہوں کی نسبت کچھ شک ہو تو ان کو (عصر کی) نماز کے بعد کھڑا کرو اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں کہ ہم شہادت کا کچھ عوض نہیں لیں گے گو ہمارا رشتہ دار ہی ہو اور نہ ہم الله کی شہادت کو چھپائیں گے اگر ایسا کریں گے تو گنہگار ہوں گے
یعنی غیر مسلم۔
یعنی نماز عصر کے بعد کہ وہ وقت اجتماع اور قبول کا ہے شاید ڈر کر جھوٹی قسم نہ کھائیں۔ یا کسی نماز کے بعد یا وصی جس مذہب کے ہوں ان کی نماز کے بعد۔
یعنی جب خدا کے پاس سب کو جانا ہے تو جانے سے پہلے سب کام ٹھیک کر لو۔ اسی میں سے ایک اہم کام ضروری امور کی وصیت اور اس کےمتعلقات ہیں۔ ان آیات میں وصیت کا بہترین طریقہ تلقین فرمایا ہے۔ یعنی مسلمان اگر مرتے وقت کسی کو اپنا مال وغیرہ حوالہ کرے تو بہتر ہے کہ دو معتبر مسلمانوں کو گواہ کرے۔ مسلمان اگر نہ ملیں جیسےسفر وغیرہ میں اتفاق ہو جاتا ہے تو دو کافروں کو وصی بنائے۔ پھر اگر وارثوں کو شبہ پڑ جائے کہ ان شخصوں نے کچھ مال چھپا لیا اور وارث دعویٰ کر دیں اور دعویٰ کے ساتھ شاہد موجود نہ ہو تو وہ دونوں شخص قسم کھائیں کہ ہم نے نہیں چھپایا اور ہم کسی طمع یا قرابت کی وجہ سےجھوٹ نہیں کہہ سکتے اگر کہیں تو گنہگار ہیں۔
یعنی بہتر یہ ہے ۔ باقی اگر دو نہ ہوں یا معتبر نہ ہوں تب بھی وصی بنا سکتا ہے اور گواہ سے مراد یہاں وصی ہے اس کےاقرار و اظہار کو گواہی سے تعبیر فرما دیا۔
یعنی مسلمانوں میں سے۔


أَو كَصَيِّبٍ مِنَ السَّماءِ فيهِ ظُلُمٰتٌ وَرَعدٌ وَبَرقٌ يَجعَلونَ أَصٰبِعَهُم فى ءاذانِهِم مِنَ الصَّوٰعِقِ حَذَرَ المَوتِ ۚ وَاللَّهُ مُحيطٌ بِالكٰفِرينَ {2:19}
یا ان کی مثال مینہ کی سی ہے کہ آسمان سے (برس رہا ہو اور) اس میں اندھیرے پر اندھیرا (چھا رہا) ہو اور (بادل) گرج (رہا) ہو اور بجلی (کوند رہی) ہو تو یہ کڑک سے (ڈر کر) موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور الله کافروں کو (ہر طرف سے) گھیرے ہوئے ہے
ان منافقین کی مثال ان لوگوں کی سی ہے کہ اُن پر آسمان سے مینہ شدت کے ساتھ پڑ رہا ہو اور کئ طرح کی تاریکی اس میں ہو ۔ مثلًا بادل بھی تہہ بر تہہ بہت غلیظ اور کثیف ہے اور قطرات ابر کی بھی بہت کثرت اور ہجوم ہے اور بھی اندھیری ہے اور تاریکی شدید کے ساتھ بجلی کی کڑک اور چمک بھی ایسی ہولناک ہے کہ وہ لوگ موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں دیتے ہیں کہ آواز کی شدت سے دم نہ نکل جائے۔ اسی طرح پر منافقین تکالیف و تہدیدات شرعیہ کو سن کر اور اپنی خواری و رسوائی کو دیکھ کر اور اغراض مصالح دینوی کو خیال کر کر عجب کشمکش اور خوف و پریشانی میں مبتلا ہیں اور اپنی بیہودہ تدبیروں سے اپنا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر حق تعالیٰ کی قدرت سب طرف سے کفار کا احاطہ کئے ہوئے ہے اُس کی گرفت و عذاب سے وہ کسی طرح بچ نہیں سکتے۔





هٰأَنتُم أُولاءِ تُحِبّونَهُم وَلا يُحِبّونَكُم وَتُؤمِنونَ بِالكِتٰبِ كُلِّهِ وَإِذا لَقوكُم قالوا ءامَنّا وَإِذا خَلَوا عَضّوا عَلَيكُمُ الأَنامِلَ مِنَ الغَيظِ ۚ قُل موتوا بِغَيظِكُم ۗ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدورِ {3:119}
دیکھو تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہو حالانکہ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے اور تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو (اور وہ تمہاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں (ان سے) کہہ دو کہ (بدبختو) غصے میں مر جاؤ خدا تمہارے دلوں کی باتوں سے خوب واقف ہے
یعنی خدا تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کو اور زیادہ ترقیات و فتوحات عنایت فرمائے گا۔ تم غیظ کھا کھا کر مرتے رہو۔ اگر ایڑیاں رگڑ کر مر جاؤ گے تب بھی تمہاری آرزوئیں پوری نہ ہونگی، خدا اسلام کو غالب اور سربلند کر کے رہے گا۔
یعنی یہ کیسی بےموقع بات ہے کہ تم ان کی دوستی کا دم بھرتےہو، اور وہ تمہاے دوست نہیں بلکہ جڑ کاٹنے والے دشمن ہیں اور طرفہ یہ ہے کہ تم تمام آسمانی کتابوں کو مانتے ہو۔ خواہ وہ کسی قوم کی ہوں اور کسی زمانہ میں کسی پیغمبر پر نازل ہوئی ہوں ( جن کے خدا نے نام بتلا دیئے ان پر علی التبعیین اور جن کے نام نہیں بتلائے ان پر بالاجمال ایمان رکھتے ہو) اس کے برخلاف یہ لوگ تمہاری کتاب اور پیغمبرکو نہیں مانتے، بلکہ خود اپنی کتابوں پر بھی ان کا ایمان صحیح نہیں، اس لحاظ سے چا ہئے تھا کہ وہ تم سے قدرے محبت کرتے اور تم ان سے سخت نفور و بیزار رہتے۔ مگر یہاں معاملہ بر عکس ہو رہا ہے۔
یعنی اسلام کا عروج اور مسلمانوں کی باہمی الفت و محبت دیکھ کر یہ لوگ جلے مرتے ہیں۔ اور چونکہ اس کے خلاف کچھ بس نہیں چلتا۔ اس لئے فرط غیظ و غضب سے دانت پیستے اور اپنی انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔
اسی لئے مسلمانوں کو ان شریروں کے باطنی حالات اور قلبی جذبات پر مطلع کر دیا اور سزا بھی ان کو ایسی دے گا جو اندرونی شرارتوں اور خفیہ عداوتوں کے مناسب ہو۔
منافقین تو کہتے ہی تھے، عام یہود و نصاریٰ بھی بحث و گفتگو میں " آمنا" (ہم مسلمان ہیں) کہہ کر یہ مطلب لے لیتے تھے کہ ہم اپنی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو تسلیم کرتے ہیں۔


قُل يٰأَيُّهَا الَّذينَ هادوا إِن زَعَمتُم أَنَّكُم أَولِياءُ لِلَّهِ مِن دونِ النّاسِ فَتَمَنَّوُا المَوتَ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {62:6}
کہہ دو کہ اے یہود اگر تم کو دعویٰ ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں تو اگر تم سچے ہو تو (ذرا) موت کی آرزو تو کرو





وَهُوَ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ وَكانَ عَرشُهُ عَلَى الماءِ لِيَبلُوَكُم أَيُّكُم أَحسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلتَ إِنَّكُم مَبعوثونَ مِن بَعدِ المَوتِ لَيَقولَنَّ الَّذينَ كَفَروا إِن هٰذا إِلّا سِحرٌ مُبينٌ {11:7}
اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ (تمہارے پیدا کرنے سے) مقصود یہ ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور اگر تم کہو کہ تم لوگ مرنے کے بعد (زندہ کرکے) اٹھائے جاؤ گے تو کافر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے
جب یہ دنیا امتحان و آزمائش کی وجہ ہے تو ضرور ہے کہ اس کے بعد مجازات (انعام و انتقام) کا سلسلہ ہوتا شاکرین و کافرین کو اپنے اپنے کئے کا پھل ملے ۔ اسی لئے یہاں بعث بعد الموت کا ذکر کیا گیا۔ یعنی کفار مکہ کو یقین نہیں آتا کہ موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور اپنے جرائم کی سزا بھگتیں گے۔ جب وہ قرآن میں یا حضور کی زبان سے بعث بعدالموت کا نہایت مؤثر بیان سنتے ہیں تو کہتےہیں کہ آپ کا یہ بیان کھلا ہوا جادو ہے جس نے بہت سے لوگوں کو مرعوب و مسحور کر لیا۔ مگر یاد رکھئے ہم پر یہ جادو چلنے والا نہیں ۔ (ابن کثیر)۔
یعنی اس سارےنظام کی تخلیق و ترتیب سے مقصود تمہارا یہاں بسانا اور امتحان کرنا ہے۔ کہ کہاں تک اس عجیب و غریب نظام اور سلسلہ مصنوعات میں غور کر کے خالق و مالک کی صحیح معرفت حاصل کرتے اور مخلوقات ارضی و سماوی سے منتفع ہو کر محسن شناسی اور سپاس گذاری کا فطری فرض بجا لاتے ہو۔ یہ مقام تمہاری سخت آزمائش کا ہے۔ مالک حقیقی دیکھتا ہے کہ تم میں سےکونسا غلام صدق و اخلاص اور سلیقہ مندی سےاچھا کام کرتا اور فرائض بندگی انجام دیتا ہے۔
یعنی آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے پانی مخلوق ہوا جو آئندہ اشیاء کا مادہ حیات بننے والا تھا۔ { وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ } (الانبیاء رکوع۳) اس وقت عرش خداوندی اسی کے اوپر تھا جیسے اب سماوات کے اوپر ہے گویا یہ ایک صورت تھی جو اس حقیقت کو ظاہر کر رہی تھی کہ کائنات کا مادہ اور ذریعہ حیات بالکلیہ رب العرش کے تسلط و تصرف اور قیومیت مطلقہ کے ماتحت ہے۔ واللہ اعلم۔
یہ علم کے بعد قدرت کا بیان ہے ۔ اس کی تفسیر سورہ اعراف کے ساتویں رکوع میں گذر چکی۔



وَأَنفِقوا مِن ما رَزَقنٰكُم مِن قَبلِ أَن يَأتِىَ أَحَدَكُمُ المَوتُ فَيَقولَ رَبِّ لَولا أَخَّرتَنى إِلىٰ أَجَلٍ قَريبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِنَ الصّٰلِحينَ {63:10}
اور جو (مال) ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے اس (وقت) سے پیشتر خرچ کرلو کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے تو (اس وقت) کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں خیرات کرلیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہوجاتا




قُل إِن كانَت لَكُمُ الدّارُ الءاخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خالِصَةً مِن دونِ النّاسِ فَتَمَنَّوُا المَوتَ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {2:94}
کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر اور لوگوں (یعنی مسلمانوں) کے لیے نہیں اور خدا کے نزدیک تمہارے ہی لیے مخصوص ہے تو اگر سچے ہو تو موت کی آرزو تو کرو
یہود کہتے تھے کہ "جنت میں ہمارے سوا کوئی نہیں جائے گا اور ہم کو عذاب نہ ہوگا" اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "اگر یقینی بہشتی ہو تو مرنے سے کیوں ڈرتے ہو۔"



























1 comment: