Saturday 5 November 2016

ماهِ محرم کے خاص اعمال اور ہمارے نظریات ورسومات

ماهِ محرم كی شرعی اور تاريخی حيثيت
محرم الحرام چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک اور اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ جہاں کئی شرعی فضیلتوں کا حامل ہے وہاں بہت سی تاریخی اہمیتیں بھی رکھتا ہے۔
کیونکہ اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات اس مہینہ میں رونما ہوئے بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ نہ صرف تاریخ اُمت محمدیہ کی چند اہم یادگاریں اس سے وابستہ ہیں بلکہ گزشتہ اُمتوں اور جلیل القدر انبیاء کے کارہائے نمایاں اور فضلِ ربانی کی یادیں بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ لیکن شرعی اصولوں کی روشنی میں جس طرح دوسرے شہور(مہینوں) اور ایام(دنوں) کو بعض عظیم الشان کارناموں کی وجہ سے کوئی خاص فضیلت و امتیاز نہیں ہے۔ اسی طرح اس ماہ کی فضیلت کی وجہ بھی یہ چند اہم واقعات و سانحات نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اشہرِ حُرُم (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب) کو ابتدائے آفرینش سے ہی اس اعزاز و اکرام سے نوازا ہے۔
جس کی وجہ سے دورِ اسلام اور دورِ جاہلیت دونوں میں ان مہینوں کی عزت و احترام کا لحاظ رکھا جاتا تھا اور بڑے بڑے سنگدل اور جفا کار بھی جنگ و جدال اور ظلم و ستم سے ہاتھ روک لیتے تھے۔ اس طرح سے کمزوروں اور ناداروں کو کچھ عرصہ کے لئے گوشۂ عافیت میں پناہ مل جاتی تھی۔





اچھے یا برے دن منانے کی شرعی حیثیت: 
اسلام نے واقعاتِ خیر و شر کو ایام کی معیارِ فضیلت قرار نہیں دیا بلکہ کسی مصیبت کی بنا پر زمانہ کی برائی سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور قرآن مجید میں کفار کے اس قول کی مذمت بیان کی ہے:
وَمَا يُهۡلِكُنَآ إِلَّا ٱلدَّهۡرُ
ترجمہ:
یعنی ہمیں زمانہ ہی(کے خیر و شر)سے ہلاکت پہنچتی ہے۔
[سورۃ الجاثية:24]
اور حدیث میں ہے:
’’زمانہ کو گالی مت دو (برا بھلا مت کہو) کیونکہ در حقیقت اللہ تعالی ہی زمانہ (کا خالق ومالک) ہے۔ دن اور رات کو مین ہی تبدیل کرتا ہوں۔‘‘
[بخاری:6181، مسلم:2246]
یعنی خیر و شر کی وجہ لیل(رات) اور نہار(دن) نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی کارسازِ زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اچھے یا بُرے دِن منانے کی کوئی اصل ہی تسلیم نہیں کی جیسا کہ آج کل محرم کے علاوہ بڑے بڑے لوگوں کے دن یا سالگرہ وغیرہ منائی جاتی ہیں۔

نوٹ:-
(1) زمانے کو گالی دینا یا برابھلا کہنا ہرگز جائز نہیں۔ یہ بات توحید کے منافی ہے۔ اس لیے اس سے احتراز ضروری ہے۔ جہلاء کی عادت ہے کہ جب کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف ہو تو زمانے کو برا بھلا کہنے یا گالیاں دینے لگتے ہیں اور اس دن، ماہ یا سال کو لعنتی قرار دے کر شر یا برائی کی نسبت زمانہ کی طرف کرتے ہیں۔
(2) حالات و واقعات کی نسبت زمانہ کی طرف کرنا مشرکین کا طریقہ ہے۔ جبکہ اہل توحید تمام امور کی نسبت اللہ تعالی ہی کی طرف کرتے ہیں۔

(3) اس کا مطلب یہ نہیں کہ “الدهر”(زمانہ)اللہ تعالی کا نام ہے بلکہ اس سے بتلانا یہ مقصود ہے کہ زمانہ ازخود نہ تو کسی چیز کا مالک ہے اور نہ کچھ کرتا یا کرسکتا ہے بلکہ زمانے میں حقیقی مصرف اللہ تعالی ہے لہذا زمانے کو برابھلا کہنا ، اس میں تصرف کرنے والے اللہ تعالی کو برابھلا کہنے کے مترادف ہے۔



















فضیلتِ محرم قرآن کریم سے: 
خصوصی طور پر ماہِ محرم یا اس کے بعض ایام کی فضیلت کے متعلق میں پہلے قرآن و حدیث سے کچھ عرض کرتا ہوں، قرآن مجید میں ہے:۔
إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثۡنَا عَشَرَ شَهۡرٗا فِي كِتَٰبِ ٱللَّهِ يَوۡمَ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضَ مِنۡهَآ أَرۡبَعَةٌ حُرُمٞۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلۡقَيِّمُۚ فَلَا تَظۡلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمۡ 
ترجمہ:
بے شک شریعت میں ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کے ہاں بارہ 12 ماہ میں جن سے چار حرمت والے ہیں، یہی مستحکم دین ہے۔ تم ان مہینوں کی حرمت توڑ کر اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔
[سورۃ التوبة:36]



تفسیر جامع البیان ص 167 میں ہے:
فَاِنَّ الظُّلْمَ فِيْها اَعْظَمُ وِزْرًا فِيْمَا سِوَاهُ وَالطَّاعَةُ اَعْظَمُ اَجْرًا
یعنی ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں عبادت کا بہت اجر و ثواب ہے۔

تفسیر خازن جلد ۳ ص ۷۳ میں ہے:
وإنما سميت حرما لأن العرب في الجاهلية كانت تعظمها وتحرم فيها القتال حتى لو أن أحدهم لقي قاتل أبيه وابنه وأخيه في هذه الأربعة الأشهر لم يهجه ولما جاء الإسلام لم يزدها إلا حرمة وتعظيما ولأن الحسنات والطاعات فيها تتضاعف وكذلك السيئات أيضا أشد من غيرها فلا يجوز انتهاك حرمة الأشهر الحرم.
ترجمہ:
ان کا نام حرمت والے مہینے اس لئے پڑ گیا کہ عرب دورِ جاہلیت میں ان کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور ان میں لڑائی جھگڑے کو حرام سمجھتے تھے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنے یا بیٹے یا بھائی کے قاتل کو بھی پاتا تو اس پر بھی حملہ نہ کرتا۔ اسلام نے ان کی عزت و احترام کو اور بڑھایا۔ نیز ان مہینوں میں نیک اعمال اور طاعتیں ثواب کے اعتبار سے کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اسی طرح ان میں برائیوں کا گناہ دوسرے دنوں کی برائیوں سے سخت ہے۔ لہٰذا ان مہینوں کی حرمت توڑنا جائز نہیں۔






فضیلتِ محرم احادیث سے:
آیت مذکورہ بالا کی تفسیر سے محرم الحرام کی فضیلت اور اس ماہ کی عبادت کی اہمیت معلوم ہو چکی ہے۔ اب ہم احادیث سے صرف مزید وضاحت اور بعض ایام کی خوصی فضیلت پیش کرتے ہیں۔



ماہِ محرم کے روزے:
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ، بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صَلَاةُ اللَّيْلِ»
ترجمہ:
رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز (تہجد) ہے۔
[مسلم:1163، ابوداؤد:2429، ترمذی:438+740، نسائی:1614]




حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ كَانَ لَهُ كَفَّارَةُ سَنَتَيْنِ ، وَمَنْ صَامَ يَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ ثَلَاثُونَ يَوْمًا»
ترجمہ:
عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور جو محرم کے روزے رکھے اسے ہر روزہ کے عوض تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔
[المعجم الکبیر للطبرانی:963، مجمع الزوائد:5144، الترغيب والترهيب للمنذری:1529]
(یہ روایت اگرچہ اس پائے کی نہیں لیکن ترغیب و ترہیب میں قابلِ استیناس ہے)

عاشوراء کے ساتھ نو(9)محرم میں بھی روزہ رکھنا، یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرنا۔

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُا حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَائَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَی فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَائَ اللَّهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّی تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے عاشورہ(10محرم) کے دن روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس دن تو یہودی اور نصاریٰ(عیسائی) تعظیم کرتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں(9) تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔
[مسند احمد » حدیث نمبر:3213]
دوسری روایات میں مزید حضرت عباس کا یہ فرمان منقول ہے کہ:
ابھی آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے۔
[صحیح مسلم » حدیث نمبر: 1134(2666)]
[سنن أبوداود:2445، سنن ابن ماجه:173، معجم الکبیر-الطبراني:10785، سنن الصغیر-البيهقي:1414، شرح السنة-البغوي:1787]


















نیز حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ:
ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ رمضان کے بعد میں کس ماہ میں روزے رکھوں؟ آپ نے فرمایا: محرم کے روزے رکھ! کیونکہ وہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کر لی اور ایک اور قوم کی توبہ قبول کرے گا۔
[الترغیب والترھیب للمنذری:1527]


















خاص اعمالِ محرم الحرام:
(1)عاشوراء کا روزہ رکھنا: 
ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کے متعلق اگرچہ عمومی طور پر صحیح احادیث وارد ہیں، جیسا کہ ابھی گزرا لیکن خصوصی طور پر یومِ عاشوراء یعنی دس تاریخ محرم کے بارے میں کثرت سے احادیث آئی ہیں۔ جو اس دن کے روزے کی بہت فضیلت بیان کرتی ہیں بلکہ بعض روایات کے مطابق رمضان شریف کے روزوں سے قبل عاشوراء کا روزہ فرض تھا۔ (جیسا کہ بعض شوافع کا قول ہے)
[فتح الباری]
پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس دن کے روزے کی صرف تاکید باقی رہ گئی۔
اب قارئین اس سلسلہ میں وارد احادیث ملاحظہ فرمائیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا اليَوْمَ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ»
ترجمہ:
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلى الله عليه وسلم کو کسی دن کے روزے کا دوسرے عام دنوں کے روزوں پر افضل جانتے ہوئے ارادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح ہ یومِ عاشوراء اور ماہِ رمضان کا (اہتمام کرتے ہوئے دیکھا ہے)۔
[بخاري:2006 مسلم:1132 نسائی:2370]


عن أبی قتادة رضی الله عنه قال: سُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ؟ فَقَالَ: «يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ»
ترجمہ:
حضرت ابو قتادہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے عاشوراء کے روزہ کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے ایک سال گزشتہ کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
[مسلم:1162 احمد:22537]

عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: " أَرْبَعٌ لَمْ يَكُنْ يَدَعُهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صِيَامَ عَاشُورَاء ۔۔۔۔۔
ترجمہ:
(نبی ﷺ کی بیوی محترمہ) حضرت حفصہؓ فرماتی ہے کہ آپ ﷺ چار چیزیں نہ چھوڑا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک عاشوراء کا روزہ ہے۔
[نسائي:2416 احمد:26459 صحیح ابن حبان:6422]




عاشوراء کا روزہ اور یہود: 
عن ابن عباس رضی الله عنها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة فوجد اليهود صياما يوم عاشوراء فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما هذا اليوم الذي تصومونه؟ فقالوا: هذا يوم عظيم انجي الله فيه موسٰي وقومه وغرق فرعون وقومه نصامه موسٰي شكرا فنحن نصومه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فنحن احق واولٰي بموسٰي منكم فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم وامر بصيامه.
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا، یہ بہت بڑا دن ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور اس کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا (اس پر) موسیٰ علیہ السلام نے (اس دن) شکر کا روزہ رکھا۔ پس ہم بھی ان کی اتباع میں روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہم تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب اور حق دار ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ نے خود روزہ رکھا اور (صحابہؓ کو) اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
[بخاری:3397 مسلم:1130]

اس حدیث سے عاشوراء کے روزہ کا مسنون ہونا ثابت ہوا۔ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں نبی ﷺ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کا بھی ارادہ ظاہر فرمایا [رواہ رزین]۔ اور مسند احمد کی اک روایت میں گیارہ محرم کا بھی ذکر ملتا ہے یعنی ۹ محرم یا ۱۱ گیارہ۔

یومِ عاشوراء اور عرب عاشوراء کے دن کی فضیلت عرب کے ہاں معروف تھی۔ اس لئے وہ بڑے بڑے اہم کام اسی دن سر انجام دیتے تھے۔ مثلاً روزہ کے علاوہ اسی روز خاہ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔

حافظ ابن حجرؒ نے بحوالہ ازرقی ذکر کیا ہے کہ ’’حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی عاشوراء کے روز خانہ کعبہ کو غلاف چڑھایا۔‘‘
[فتح الباری: ج ۳ ص ۳۶۷]

حاصل یہ ہے کہ اللہ ارحم الراحمین اور نبی رحمۃ للعالمین ﷺ نے امتِ مسلمہ کو ماہِ محرم کی برکات و فیوض سے مطلع کر دیا ہے اور بعض ایام میں مخصوص اعمال کی فضیلت سے بھی آگاہ کر دیا ہے تاکہ ہم شریعت کے ہدایات کے مطابق عمل کر کے سعادتِ دارین حاصل کر سکیں۔

اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دیکھیے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد وہ ہمیں کتنے عظیم الشان مواقع مہیا کرتا ہے جن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم فیضانِ رحمت سے دامن بھر سکیں اور تلافیٔ مافات کرتے ہوئے اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کے لئے کمر بستہ ہو سکیں۔

رمضان خیر و برکت کی بارانی کرتا ہوا گزرا تو شوال اشہر الحج (شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ) کی نوید لایا پھر ذی الحجہ ختم ہوا ہی تھا کہ حرمت و عظمت میں اس کا شریک کار سن ہجری کا پہلا مہینہ اپنی برکات و فیوض سے ہم پر آسایہ فکن ہوا۔ گویا سدا رحمت برس رہی ہے۔

کاش کوئی جھولی بھرنے والا ہو! انسان کو چاہئے کہ ان مبارک اوقات کو غنیمت جانے اور اعمالِ صالحہ صوم و صلوٰۃ، ذکر و فکر، جہد و جہاد میں مصروف رہ کر اپنے آقا کو خوش کرے اور خداوندِ عزوجل کا قرب حاصل کر کے منزل مقصود پر پہنچ جائے لیکن یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ ہم ان ایام و شہور کی اصل برکتوں سے محروم رہ کر غلط رواجات اور قبیح رسومات میں مبتلا ہو کر یا ان میں شرکت کر کے ارحم الراحمین کی رحمت بے پایاں سے تہی دامن رہتے ہیں بلکہ اُلٹا گناہ گار ہو کر اس کے غضب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔






(2) اجتماعی توبہ کا دن:
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ لَهُ: مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَسْأَلُ عَنْ هَذَا، إِلَّا رَجُلًا سَمِعْتُهُ يَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ: «إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ فَصُمُ المُحَرَّمَ، فَإِنَّهُ شَهْرُ اللَّهِ، فِيهِ يَوْمٌ تَابَ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ، وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ آخَرِينَ»
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ رمضان کے علاوہ کون سے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں حضرت علی نے فرمایا: میں نے صرف ایک آدمی کے علاوہ کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے نہیں سنا میں اس وقت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں فرمایا: اگر رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہے تو محرم کے روزے رکھا کرو کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اس دن دوسری قوم کی بھی توبہ قبول کرے گا۔
[سنن الترمذي:741، مسند أحمد:1335]

فرمان ِحضرت علیؓ المرتضیٰ
توبہ 6 باتوں پر(سچی)ہوتی ہے: جو گناہ ہوچکے ان پر ندامت،جو فرائض ضایع کئے ان کی قضاء کرنا،جو(حقوق کی ادائیگی میں)ظلم کئے انہیں لوٹانا،نفس کو فرمانبرداری میں لگانا جیسے نافرمانی میں لگایا تھا،نفس کو فرمانبرداری کی مٹھاس چکھانا جیسے نافرمانی کی لذت چکھائی،اور(نافرمانی کے)ہر ہنسنے کے بدلے میں(خدا کے حضور معافی مانگتے)رونا۔
‏[تفسیر الثعالبی:8/315 الکشاف:4/222 الرازی:25/597-سورۃ الشوریٰ:25]



(3) 10 محرم میں اہل وعیال پر وسعت کرنا:
(1)حَدثنَا الْعَبَّاس قَالَ حَدثنَا شَاذان قَالَ حَدثنَا جَعْفَر الْأَحْمَر عَن إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد بن الْمُنْتَشِر قَالَ كَانَ يُقَال من وسع ‌على ‌عِيَاله ‌يَوْم ‌عَاشُورَاء لم يزَالُوا فِي سَعَة من رزقهم سَائِر سنتهمْ۔
ترجمہ:
(امام ابن معینؒ لکھتے ہیں کہ)ہم سے عباس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شازان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جعفر الاحمر نے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم بن محمد بن المنتشر سے کہ، انہوں نے کہا کہ:- کہا جاتا تھا کہ جو اپنے اہل و عیال پر وسعت کرے عاشورہ کے دن، ان کے رزق میں سال بھر کی فراوانی ہو گی۔
[تاريخ ابن معين(م233ھ) - رواية الدوري : حدیث نمبر 2223]
[مسائل الإمام أحمد(م241ھ) رواية ابنه أبي الفضل صالح(م266ھ) : حدیث نمبر 400]
[شعب الإيمان: 3796 (3516)][ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1832]
[التوسعة على العيال لأبي زرعة:14-15]
[شرح عمدة الفقه - ابن تيمية - كتاب الصيام:641 (جلد 2 / صفحہ 585)]


(2)حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ذَكْوَانَ ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: ‌‌«مَنْ وَسَّعَ ‌عَلَى ‌عِيَالِهِ ‌يَوْمَ ‌عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ»
ترجمہ:
ہم سے القاسم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے ابو عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے الحجاج بن نصیر نے بیان کیا، وہ محمد بن ذکوان سے، وہ علاء بن حکیم سے، انہوں نے سلیمان بن ابی عبداللہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے لیے وسعت (یعنی بقدرِ قدرت وگنجائش کشادگی) کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر وسعت کرے گا سارا سال۔"
[جزء القاسم بن موسى الأشيب(م302ھ) : حدیث نمبر 53]



(3نا مُحَمَّدٌ، نا مُحَمَّدٌ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَمَةَ الْجُهَنِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ وَسَّعَ ‌عَلَى ‌عِيَالِهِ ‌يَوْمَ ‌عَاشُورَاءَ أَوْسَعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَنَتَهُ»۔
ترجمہ:
ہم سے محمد نے(بیان کیا)کہ، ہم سے عبداللہ بن سلمہ الجہنی نے(بیان کیا)، ابن ابی صاعع سے، وہ اپنے والد سے، وہ حضرت ابو سعید الخدریؓ سے روایت کیا کہ، انہوں نے کہا کہ:- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے لیے وسعت کرے، اللہ تعالیٰ وسعت کرے گا اس پر سال بھر۔
[معجم ابن الأعرابي(م340ھ) : حدیث نمبر 225]
[ستة مجالس لأبي يعلى الفراء:76][المتفق والمفترق-الخطيب البغدادي:‌‌972]



(4)حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو عُبَيْدَةَ الْعَسْكَرِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ الْبَزَّازُ، ثنا الْهَيْثَمُ بْنُ الشَّدَّاخِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ وَسَّعَ ‌عَلَى ‌عِيَالِهِ ‌يَوْمَ ‌عَاشُورَاءَ لَمْ يَزَلْ فِي سَعَةٍ سَائِرَ سَنَتِهِ»۔
ترجمہ:
(امام طبرانیؒ لکھتے ہیں کہ) ہم سے عبد الوارث بن ابراہیم ابو عبیدہ العسکری نے بیان کیا، انہﷺن نے کہا ہم سے علی بن ابی طالب البزاز نے بیان کیا کہ، ہم سے الہیثم بن شدخ نے بیان کیا، اعمشؒ کے واسطے سے، وہ ابراہیم کی سند سے، وہ علقمہ سے، وہ حضرت عبداللہ(بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے لیے سخاوت کی وہ باقی سال تک سخاوت کرتا رہے گا۔‘‘
[المعجم الكبير للطبراني:10007، شعب الایمان:3792(3513)، فضائل الأوقات للبيهقي:244، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:815، فوائد حديث أبي ذر الهروي:12، التوسعة على العيال لأبي زرعة:4]

امام احمدؒ نے فرمایا:  یہ حدیث صحیح نہیں۔
[الجامع لعلوم الإمام أحمد - علل الحديث‌‌:407 (14 / 436)]
کیونکہ اس روایت میں ایک راوی (علي بْن أبي طالب البزاز القرشي بصري) ہے، یہ منکر الحدیث ہے۔
[الكامل في ضعفاء الرجال-ابن عدي(م365ھ) : جلد 6 / صفحہ 361]



(5)قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدٍ بْنِ مَيْسَرَةَ ، قَالَ: " بَلَغَنَا أَنَّ مَنْ وَسَّعَ ‌عَلَى ‌عِيَالِهِ ‌يَوْمَ ‌عَاشُورَاءَ، وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ السَّنَةِ.
قَالَ سُفْيَانُ: جَرَّبْنَاهُ فَوَجَدْنَاهُ كَذَلِكَ۔
ترجمہ:
(امام ابو اللیث السمرقندیؒ نے) کہا: ہم سے محمد بن الفضل نے بیان کیا کہ، ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہون نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا کہ، ہم سے سفیان نے ابراہیم کے واسطے سے، وہ محمد بن میسرہؒ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے لیے وسعت کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے باقی سال وسعت کرے گا۔
امام سفیانؒ نے کہا: ہم نے اسے آزمایا اور ایسا ہی پایا۔
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي(م373ھ) : حدیث نمبر 476]



(7)أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَلاءِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَرَّاقُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ وَسَّعَ ‌عَلَى ‌عِيَالِهِ ‌يَوْمَ ‌عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ»۔
ترجمہ:
(امام خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں کہ) ہم سے ابو الاعلٰی محمد بن الحسن الوراق نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبداللہ العمری نے، انہوں نے محمد بن یونس سے، انہوں نے عبداللہ بن ابراہیم سے، انہوں نے عبداللہ بن ابی بکر بن المنکدر سے، انہوں نے محمد بن المنکدر سے، وہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے لیے وسعت کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر وسعت کرے گا سارا سال۔"
[الأمالي بجامع دمشق-الخطيب البغدادي(م463ھ) : حدیث نمبر 42]
[التوسعة على العيال لأبي زرعة:3]

نوٹ:

(1)اپنے اہل وعیال کے بجائے غیر لوگوں پر فراخی کرنے کی تعلیم نہیں۔
صدقات تو فقراء ومساکین کا حق ہے۔
[سورۃ التوبہ:60]
لہٰذا مالدار غنی کو کھلانے پر صدقہ کا ثواب نہیں۔
(2)وسعت میں کسی بھی چیز کی تخصیص وپابندی لازم نہیں، لہٰذا کسی چیز کو مخصوص کرنا مثلا: اناج کا کھچڑا یا حلیم کھانے کھلانے وغیرہ کی تخصیص و پابندی کی تعلیم نہیں۔
(3)حافظ الحدیث اور امام المفسرین والتاریخ ابن کثیر رحمہ اللہ (مھ) اپنی تاریخ کی مستند کتاب (البدایہ والنہایہ) میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
خوارج نے حضرتِ حسین کی شہادت کی خوشی میں کھچڑا پکایا تھا۔
[البدایہ والنہایہ ج 8]
تو پتہ چلا کہ کھچڑا پکانا اہل بیت اطہار سے دشمنی کی علامت ہے ، لھذا محبین اہل بیت کو اس سے بچنا چاہیے۔
[بھشتی زیور]
مرثیہ گوئی، ماتمی مجلس، کالے رنگ کے کپڑے کا استعمال، تقسیم شیرینی، مچھلی کھا نے کو معیوب سمجھنا، اس دن سرمہ لگانے اور قبرستان جا نے کا خصوصی اہتمام سب بدعات و خرافات کا حصہ ہیں، اصل دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں، یہ ساری چیزیں رافضی خلیفہ معزالدولہ کے حکم پر  352ھ میں محرم الحرام کا جز بنائی گئیں۔
[البدایہ والنہایہ: ج 11صفحہ243]


حکم الحدیث:
امام سیوطیؒ اس حدیث کی "سند" کو کمزور مانتے ہیں، لیکن اصولِ حدیث کے مطابق ثابت صحیح کہتے ہیں کیونکہ دوسری سندوں(راویوں کے سلسلوں)کی شاہدیاں اس کے ثبوت کو مفیدِ اطمینان ہونے میں قوت دیتی ہیں، لکھتے ہیں:
كلا بل هو ثابت صحيح، أخرجه البيهقي في الشعب من حديث أبي سعيد الخدري وأبي هريرة وابن مسعود وجابر، وقال: أسانيده كلها ضعيفة، ولكن إذا ضمّ بعضها إلى بعض أفاده قوة.
[الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة:397]

فقہ شافعی کے امام ابن حجر الشافعیؒ نے فرمایا:
وَطُرُقُهُ وَإِنْ كَانَتْ كُلُّهَا ضَعِيفَةً لَكِنْ اكْتَسَبَتْ قُوَّةً بِضَمِّ بَعْضِهَا لِبَعْضٍ بَلْ صَحَّحَ بَعْضَهَا۔
ترجمہ:
اس کے طریقے (روایت پہنچانے والے راویوں کے سلسلے) اگرچہ سب کے سب ضعیف ہیں، لیکن ان میں سے بعض کو ایک دوسرے سے جوڑ کر قوت حاصل ہوتی ہے، بلکہ ان میں بعض تصحیح کی گئی ہے۔
[تحفة المحتاج في شرح المنهاج: جلد 3 / صفحہ 455]



بعض نے تجربہ بھی کرکے دیکھا۔ 
قال ابن عيينة: قد ‌جربناه منذ خمسين سنة أو ستين سنة فما رأينا إلا خيرًا۔
ترجمہ:
امام سفیان بن عیینہؒ نے کہا: ہم نے پچاس یا ساٹھ سال سے اس کا تجربہ کیا اور نہیں دیکھا ہم نے اسے سوائے خیر کے۔
[الجامع لعلوم الإمام أحمد:943]
[شرح عمدة الفقه - ابن تيمية - كتاب الصيام:641 (جلد 2 / صفحہ 585)]





ماہِ محرم کی بدعات: 
ہم نے ماہِ محرم سے بہت سے غلط رواج وابستہ کر لیے ہیں، اسے دکھ اور مصیبت کا مہینہ قرار دے لیا ہے جس کے اظہار کے لئے سیاہ لباس پہنا جاتا ہے۔ رونا پیٹنا، تعزیہ کا جلوس نکالنا اور مجالس عزاء وغیرہ منعقد کرنا یہ سب کچھ کارِ ثواب سمجھ کر اور امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ سب چیزیں نہ صرف نبی صلى الله عليه وسلم کے فرمودات کے خلاف ہیں بلکہ نواسۂ رسول صلى الله عليه وسلم کے اس مشن کے بھی خلاف ہیں جس کے لئے انہوں نے اپنی جان قربان کر دی۔ شیعہ حضرات کی دیکھا دیکھی خود کو سنی کہلانے والے بھی بہت سی بدعات میں مبتلا ہو گئے ہیں مثلاً اس ماہ میں نکاح شادی کو بے برکتی اور مصائب و آلام کے دور کی ابتداء کا باعث سمجھ کر اس سے احتراز کیا جاتا ہے اور لوگ اعمالِ مسنونہ کو چھوڑ کر بہت سی من گھڑت اور موضوع احادیث پر عمل کرتے ہیں۔
مثلاً بعض لوگ خصوصیت سے عاشوراء کے روز بعض مساجد و مقابر کی زیارتیں کرتے اور اہل و عیال پر فراخی کرنے کے بجائے غیرمستحق لوگوں پر صدقہ کرنے کو موجبِ برکت سمجھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

کیا ماہِ محرم صرف غم کی یادگار ہے؟ 
شہادت حسینؓ اگرچہ اسلامی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں جس کی یاد محرم سے وابستہ ہے بلکہ محرم میں کئی دیگر تاریخی واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن میں سے اگر چند ایک افسوسناک ہیں تو کئی موقعے ایسے بھی ہیں جن پر خوش ہونا اور خدا کا شکر بجا لانا چاہئے ۔
جیسا کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے موسیٰؑ کی اقتداء میں عاشورے کے دن شکر کا روزہ رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن موسیٰؑ کو فرعون سے نجات دی تھی۔ نیز اگر اتفاق سے شہادتِ حسینؓ کا المیہ بھی اسی ماہ میں واقع ہو گیا تو بعض دیگر جلیل القدر صحابہؓ کی شہادت بھی تو اسی ماہ میں ہوئی ہے۔ مثلاً سطوتِ اسلامی کے عظیم علمبردار خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسی ماہ کی یکم تاریخ کو حالت نماز میں ابو لؤلؤ فیروز نامی ایک غلام کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
اس لئے شہادتِ حسینؓ کا دن منانے والوں کو ان کا بھی دن منانا چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام اسی طرح دن منانے کی اجازت دے دے تو سال کا کوئی ہی ایسا دن باقی رہ جائے ا جس میں کوئی تاریخی واقعہ یا حادثہ رونما نہ ہوا ہو اور اس طرح مسلمان سارا سال انہی تقریبات اور سوگوار ایام منانے اور ان کے انتظام میں لگےے رہیں گے۔

آزمائشیں دنیا کی امامت اور حیات جاودانی بخشتی ہیں: 
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا دار البلاء اور امتحان گاہ ہے۔ اس دنیا میں ہر نبی اور امت پر کٹھن وقت آئے ہیں صرف بنی اسرائیل ہی کو لیجئے۔ ان پر کس قدر آزمائشیں آئیں؟ کس قدر انبیاء بے دریغ قتل کئے گئے؟ کتنے معصوم بچے ذبح ہوئے؟ جس کا اعتراف قرآن کریم نے بھی کیا ہے:
وَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ ---- یعنی اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی
ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم فداہ ابی و امی، اہل بیت، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف و خلف میں ائمہ دین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین پر ایسی ایسی مشکل گھڑیاں آئیں کہ ان کے سننے سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
بعثت سے لے کر واقعہ کربلا اور پھر کربلا سے لے کر اب تک اسلامی تاریخ کا کونسا ایسا ورق ہے جو اس قسم کے دِل ہلا دینے والے واقعات سے خالی ہو؟ نبی صلى الله عليه وسلم کی مکی زندگی اور اسلام قبول کرنے والوں کے دل دوز حالات اور پھر مدنی زندگی اور حق و باطل کے معرکے کس قدر جگر سوز ہیں۔ کیا شہادت حمزہؓ، شہادتِ عمرؓ، شہادتِ عثمانؓ، شہادتِ علیؓ، شہادت عبد اللہ بن زبیرؓ اور شہادت جگر گوشۂ رسول صلى الله عليه وسلم حسینِ کے لرزہ خیز حالات سننے کی تاب کسی کو ہے؟ لیکن یہی آزمائشں تو انہیں امامت کے منصب پر فائز کرتی ہیں اور حیات جاودانی بخشتی ہیں۔

قرآن مجید میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہیں دنیا کی امامت آزمائشوں میں کامرانی کے بعد ہی ملی تھی۔ ارشاد ہے:
(وَاِذِ ابْتَلٰيْٓ اِبْرَاهِيْمَ رَبُّهُ بِكَلِمٰتٍ فَاَتمَّهُنَّ قَالَ اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلْنَّاسِ اِمَامًا)
ترجمہ:
ہم نے اپنے بندے ابراہیم کو چند آزمائشوں سے گزارا، وہ ان میں پورے اترے تو ہم نے کہا (اے ابراہیم) ہم آپ کو دنیا کا امام بنا رہے ہیں۔
[سورۃ البقرہ: ۱۲۴]
ترمذی میں ہے:
’’ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف ظالم نے لوگ باندھ کر قتل کیے وہ ایک لاکھ بیس ہزار تھے (جن میں سے بیشتر صحابہ، جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین تھے) ‘‘
اور مسلم میں ہے کہ: ’’حجاج نے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو کئی روز تک سولی پر لٹکائے رکھا۔ لوگ آتے اور ان کا درد ناک انجام دیکھ کر گزر جاتے، جب حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو کہنے لگے۔ میں نے تجھے کئی بار منع کیا تھا۔ تین بار کہا۔ پھر فرمایا۔ خدا کی قسم!

جہاں تک مجھے علم ہے تو بہت روزے رکھنے والا، بہت قیام کرنے والا اور بہت صلہ رحم تھا۔ خبردار! جو امت تجھ کو برا سمجھتی ہے بُری امت ہے! حجاج بن یوسف کو جب یہ خبر پہنچی تو ابن زبیرؓ کی نعش کو وہاں سے اتروا کر اسے بے گور و کفن یہود کے قبرستان میں پھینک دیا۔ پھر ان کی والدہ اسماءؓ، بنت ابی بکر الصدیقؓ کو بلایا۔ وہ نہ آئیں تو دوبارہ آدمی بھیجا اور کہا کہ آجا! ورنہ ایسے آدمی بھیجوں گا جو تجھے چوٹی (میڈیوں) سے پکڑ کر گھسیٹ کر لائیں گے۔ اسماءؓ نے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک تو ایسے آدمی نہ بھیجے جو مجھے زمین پر گھسیٹ کر تیرے پاس لائیں میں نہیں آؤں گی۔ پھر حجاج غصہ میں اُٹھا اور الٹا جوتا پہن کر تکبر سے اسماءؓ کے پاس آیا اور کہا تو نے دیکھا لیا، میں نے اللہ کے دشمن (تیرے بیٹے عبد اللہ) کے ساتھ کیسا کیا ہے؟ حضرت اسماء نے جواب دیا، میں نے دیکھا لیا کہ تو نے اس کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری آخرت تباہ کر دی۔ نیز فرمایا،میں نے سنا ہے کہ تو میرے بیٹے عبد اللہؓ کو ’’دو آزار بند والی کا بیٹا‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ خدا کی قسم! واقعی میرے دو آزار بند تھے، ایک سے میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور ابو بکرؓ کا کھانا باندھتی تھی جس وقت کہ وہ غارِ ثور میں چھپے ہوئے تھے۔ دوسرا وہی جو عورتوں کے لئے ہوتا ہے، پھر حضرت اسماء نے کہا: گوش ہوش سے سن لے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمیں بتایا تھا کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک مفسد ہو گا۔ کذاب تو میں پہلے دیکھ چکی ہوں اور مفسد تو ہی ہے۔ پس وہ لاجواب ہو کر چلا گیا۔‘‘
اسی طرح اپنوں ہی نے حضرت عثمانؓ خلیفہ ثالث اور نواسۂ رسول صلى الله عليه وسلم حضرت امام حسینؓ کو میدانِ کربلا میں جس طرح تختہ مشق بنایا اور بے جگری سے شہید کیا، سن کر پتا پانی ہوتا ہے۔
غرضیکہ دنیا آزمائشوں کا گھر اور حق و باطل کا میدان کار زار ہے۔ اس میں خدا پرستوں پر اللہ کے دین کی خاطر اسی طرح کے مصائب و آلام کی بارش ہوا کرتی ہے جس سے وہ ہمیشہ سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ دکھ اور الم کی لہروں کے سامنے وہ چٹان بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ ان کے دل ڈرتے ہیں، نہ پاؤں ڈگمگاتے ہیں بلکہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر سب کچھ خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے اعتبار سے ہمیشہ کامیاب و کامران لوٹا کرتے ہیں۔



نوحہ اور ماتم بزرگانِ ملّت کی تعلیم کے خلاف اور ان کے مشن کی توہین ہے:
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پاکباز ہستیاں کس طرح صبر و استقلال کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔ ان کے خلفاء اور ورثاء بھی ان کے نقش قدم پر چلے۔ نہ کسی نے آہ و فغاں کیا، نہ کسی نے ان کی برسی منائی نہ چہلم، نہ روئے نہ پیٹے، نہ کپڑے پھاڑے، نہ ماتم کیا اور نہ تعزیہ کا جلوس نکال کر گلی کوچوں کا دورہ کیا بلکہ یہ خرافات سات آٹھ سو سال بعد تیمور لنگ بادشاہ کے دور میں شروع ہوئیں لیکن یہ سب حرکتیں اور رسوم و رواج نہ صرف روح اسلام اور ان پاکباز ہستیوں کی تلقین و ارشاد کے خلاف ہیں بلکہ ان بزرگوں کی توہین اور غیر مسلمانوں کے لئے استہزاء کا ساماں ہیں۔ اسلام تو ہمیں صبر و استقامت کی تعلیم دیتا ہے اور ’’بَشِّرِ الصَّابِرِينَ‘‘ (صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو) کا مژدہ سناتا ہے۔
﴿ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٞ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ﴾ [البقرة: 156]
وہ لوگ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

نوحہ اور ماتم کی مذمت زبانِ رسالت ﷺ سے:
نوحہ اور ماتم کی مذمت کے سلسلہ میں اگرچہ قرآن کریم کی کئی آیات اور احادیث نبوی سے استدلال کیا جا سکتا ہے بلکہ شیعہ حضرات کی بعض معتبر کتابوں سے ان کی ممانعت ثابت کی جا سکتی ہے لیکن اختصار کے پیشِ نظر ہم یہاں چند فرامینِ نبوی پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:


فطری غم اور مصنوعی غم کا حکم:
فرمانِ نبوی ﷺ ہے:
بےشک الله پاک آنکھ کے آنسوں پر اور دل کے غمزدہ ہونے پر عذاب نہیں دیتا، بلکہ وہ تو اس(زبان کی ناشکری وبےصبری)کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یا اس(زبان کے شکر وصبر)کے باعث رحم فرماتا ہے۔

[صحیح البخاري»1304، صحیح مسلم»926]


حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الجَاهِلِيَّة۔
ترجمہ:
جو شخص رخسار پیٹے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کا واویلا کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[بخاری:1297، مسلم:103، نسائی:1862]


حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنَا بَرِيءٌ مِمَّنْ حَلَقَ وَسَلَقَ وَخَرَقَ۔
ترجمہ:
جو شخص سر منڈوائے، بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے میں اس سے بیزار ہوں۔
[مسلم:104، ابوداؤد:3130، نسائی:1861، ابن ماجہ:1586]




مخلوق کے سامنے شکویٰ کرنا بےصبری ہے۔
حضرت ابن مسعودؓ اور ابن عمرؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ بثَّ لَمْ يَصْبِرْ
جو(اپنی مصیبت کی مخلوق سے)شکوہ کرے اس نے صبر نہیں کیا۔
[فوائد تمام:1101، شعب الإيمان للبيهقي:9574]



حضرت یوسفؑ کی جدائی میں حضرت یعقوبؑ کا شکوہ کرنا مخلوق سے نہ تھا۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے:
إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ
ترجمہ:
میں تو بس شکویٰ کرتا ہوں اپنے رنج وغم کا اللہ کی طرف۔۔۔
[سورۃ یوسف:86]

وَابْيَضَّتْ عَيْناهُ مِنَ الْحُزْنِ ثُمَّ أَمْسَكَ لِسَانَهُ عَنِ النِّيَاحَةِ
ترجمہ:
آنکھیں سفید ہوگئی تھیں غم میں روتے، اور روکے رکھا اپنی زبان کو نوحہ(چیخنے چلانے)سے۔
[تفسیر الرازی:18/497، تفسیر النيسابوري:4/118]






ماہِ محرم کے چند تاریخی واقعات: 
اب آخر میں وہ چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں جو ماہِ محرم میں وقوع پذیر ہوئے لیکن آج عوام میں امام حسینؓ کی شہادت کے علاوہ ان کی یادیں طاق نسیاں میں رکھی رہتی ہیںَ اگرچہ ان کے ذِکر سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ
شہادتِ حسینؓ کی طرح ان کی بھی یادیں منائی جائیں کیونکہ جیسا کہ میں پہلے ذِکر کر چکا ہوں کہ اگرچہ اسلام ان واقعات کی اہمیت اپنی جگہ تسلیم کرتا ہے اور ان کی عظمت کی یاد دہانی بھی ضروری سمجھتا ہے تاکہ ان کا کردار ہمیں جذبۂ قربانی اور شوق شہادت دے اور جن موقعوں پر مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی یا ظلم و ستم سے نجات حاصل کی ان کے ذِکر سے ہماری تثبیتِ قلبی ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر سکیں لیکن وہ اس عظمت میں لیل و نہار کا کسی طرح کا دخل تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی عظمت میں انہیں شریک کار بناتا ہے۔
بلکہ میرا مقصد تاریخی یاد داشتوں کی حیثیت سے ان کا ذِکر ہے۔
دو جلیل القدر صحابیوں، بطل جلیل امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور گوشۂ جگر رسول صلى الله عليه وسلم سید شباب المسلمین حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا ذکر تو پہلے ہو چکا ہے جو بالترتیب یکم محرم اور دس محرم الحرام کو واصل بحق ہوئے اور ابتدائے آفرینش سے لے کر بعثت رسول صلى الله عليه وسلم تک چیدہ چیدہ واقعات درج ذیل ہیں:
نمبر1: آدمِ ثانی حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے ان کی قوم کے ہتھکنڈوں سے اسی ماہ میں نجات ملی اور طوفانِ نوح میں مجرم کیفرِ کردار کو پہنچے۔
نمبر2: ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نارِ نمرود اسی ماہ میں گلزار بنی اور نمرود اور اس کے ایجنٹوں کی کوششیں اکارت گئیں۔
نمبر3: موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے دس محرم (عاشوراء) کو نجات ملی اور فرعون اور اس کی فوج غرقاب ہوئی۔
اس قسم کے بہت سے دیگر معرکہ ہائے حق و باطل تھے جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حق کو کامیابی نصیب ہوئی اور باطل خائب و خاسر ہوا۔ اگر ان شخصیتوں سے ہمارا بھی کوئی دینی اور روحانی تعلق ہے اور اسی حق میں ہم پیروکار ہیں جس کی خاطر انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور جابر و ظالم بادشاہوں سے ٹکر لی تو ہمیں جہاں امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن الخطاب کی شہادت کا غم ہے وہاں ان چند واقعات پر خوش بھی ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے حق کی مدد فرما کر اسلامی تاریخ کو ایسا تابناک بنایا اور ہمارے اسلاف کو اسی حق کی خاطر ثابت قدم فرما کر دین کا بول بالا کیا۔
ہمیں چاہئے کہ ان واقعات سے اچھا سبق لیں اور ان بزرگوں کی زندگیوں سے دینِ الٰہی کی خاطر ہر قسم کی جدوجہد کا نمونہ حاصل کریں۔ حتیٰ کہ اگر اس راہ میں اپنے جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں۔ ان واقعات کی یہی روح اور یہی ان بزرگوں کا مشن تھا۔ یہی راستہ دارین کی فوز و فلاح کا ضامن ہے اور یہی ان سے اظہارِ محبت کا طریقہ ہے۔
محرم کے مروجہ رواجات و رسوماتِ ماتم، مرثیہ خوانی، مجالس عزاء، تعزیہ داری، علم دلدل، مہندی تابوت، لباسِ غم پہننا، امام حسین کے نام کی سبیلیں لگانا، ان کے نام کی نذر و نیاز دینا اور مالیدہ چڑھانا شرعاً ممنوع ہونے کے ساتھ ساتھ ان ائمہ کے مشن سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نہ ہی ان کے خلاء و ورثاء محبین مخلصین کا یہ وطیرہ تھا او نہ ہی یہ سب کچھ ان سے اظہارِ عقیدت کا ذریعہ ہے۔
مراد ما نصیحت بود گفتمیم
حوالت با خدا کریم رفتیم
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو صحیح رستہ پر چلائے اور بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین




عشرۂ محرم کی رسوم ِقبیحہ:

یہ رسوم دو قسم کی ہیں  : ایک وہ جو فی نفسہ حرام ہیں۔ دوسری وہ جو فی نفسہ مباح تھیں مگر فسادِ عقیدہ کے سبب حرام ہوگئیں۔ دونوں کو جدا جدا بیان کیا جاتا ہے۔

قسم اول کے منکرات : 
(١)  تعزیہ بنانا  :
جس کی وجہ سے طرح طرح کا فسق و شرک صادر ہوتا ہے۔ بعض جہلاء کا اعتقاد ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ اِس میں حضرت امام حسین رونق افروز ہیں اور اِس وجہ سے اُس کے آگے نذر و نیاز رکھتے ہیں جس کا مَا اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ  میں داخل ہوکر کھانا حرام ہے۔ اُس کے آگے دست بستہ تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں، اُس کی طرف پشت نہیں کرتے، اُس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں، اُس کے دیکھنے کو زیارت کہتے ہیں اور اِس قسم کے واہی تباہی معاملات کرتے ہیں جو صریح شرک ہیں۔ ان معاملات کے اعتبار سے تعزیہ اس آیت کے مضمون میں داخل ہے اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ  یعنی کیا ایسی چیز کو پوجتے ہو جس کو خود تراشتے ہو۔ اور طرف ماجرا یہ ہے کہ یا تو اُس کی بیحد تعظیم و تکریم ہورہی تھی اور یا دفعةً اُس کو جنگل میں لے جاکر توڑ پھوڑ برابر کیا۔ معلوم نہیں آج وہ ایسا بے قدر کیوں ہوگیا، واقعی جو امر خلافِ شرع ہوتا ہے وہ عقل کے بھی خلاف ہوتا ہے۔ بعضے نادان یوں کہتے ہیں کہ صاحب اِس کو حضرت امام عالی مقام کے ساتھ نسبت ہوگئی اور اُن کا نام لگ گیا اس لیے تعظیم کے قابل ہوگیا۔ جواب اِس کا یہ ہے کہ نسبت کی تعظیم ہونے میں کوئی کلام نہیں مگر جبکہ نسبت واقعی ہو مثلاً حضرت امام حسین   کا کوئی لباس ہو یا اور کوئی اُن کا تبرک ہو۔ ہمارے نزدیک بھی وہ قابل تعظیم ہیں اور جو نسبت اپنی طرف سے تراشی ہوئی ہو وہ ہرگز اسبابِ تعظیم سے نہیں ورنہ کل کو کوئی خود امام حسین ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تو چاہیے کہ اس کو اور زیادہ تعظیم کرنے لگو، حالانکہ بالیقین اُس کو گستاخ و بے ادب قرار دے کر اُس کی سخت توہین کے درپے ہوجائوگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نسبت ِکاذبہ سے وہ شے معظم نہیں ہوئی بلکہ اِس کذب کی وجہ سے زیادہ اہانت کے قابل ہوتی ہے۔ اس بنا پر انصاف کرلو کہ تعزیہ تعظیم کے قابل ہے یا اِہانت کے۔ 
(٢)  معازف و مزامیر کا بجانا  :
 جس کی حرمت حدیث میں صاف صاف مذکور ہے اور باب اوّل میں وہ حدیث لکھی گئی ہیں اور قطع نظر خلافِ شرع ہونے کے عقل کے بھی تو خلاف ہے۔ معازف و مزامیر تو سامانِ سرور ہیں، سامانِ غم میں اِس کے کیا معنی؟ یہ تو درپردہ خوشی منانا ہے۔  ع   برچنیں دعوائے اُلفت آفریں 

(٣)  مجمع فساق و فجار کا جمع ہونا  :
 جس میں وہ فحش واقعات ہوتے ہیں کہ ناگفتہ بہ ہیں۔
(٤)  نوحہ کرنا  : 
جس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ ابوسعید سے روایت ہے کہ لعنت فرمائی ہے رسول اللہ  ۖ  نے نوحہ کرنے والے اور اُس کی طرف کان لگانے والے کو۔[ابوداؤد:3128، احمد:11622، بيهقي:7113]
(٥)  مرثیہ پڑھنا  : 
جس کی نسبت حدیث میں صاف ممانعت آئی ہے۔
رسول اللہ  ۖﷺ نے مرثیوں(یعنی نوحہ پڑھنے اور جاہلانہ پکار پکارنے)سے منع فرمایا۔
[ابن ماجۃ:1592، مصنف عبد الرزاق:6404، مصنف ابن ابی شیبۃ:12121، مسند الحميدي:735]

(٦)  اکثر موضوع روایت پڑھنا :
جس کی نسبت احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔


مسلمانوں کو ہمیشہ سے تاریخی کتب کے جھوٹے قصوں اور واقعات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے، اگر کوئی عقل مند اس فرمانِ باری تعالی پر غور کرے:

( تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ )

ترجمہ:
یہ امت ہے جو گزر گئی جو اس نے کمایا اس کیلیے وہی ہےاور تمہارے  لئے وہ ہےجو تم نے کمایا، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
[سورۃ البقرة:134]

اور پھر اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دے، اور فتنوں سے متعلقہ گفتگو میں مت پڑے، تاکہ اللہ کے سامنے جب جائے تو اس نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو، نبوی خانوادے سے محبت کرے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی روا رکھے تو وہ اپنے رب کے ہاں متقی شخص ہو گا اور اس کا دین بھی صحیح سلامت ہوگا۔

مسلمانوں کے ما بین ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کو بیان کرنے والے عام طور پر راوی  جھوٹے ، نا معلوم  اور کذاب ہوتے ہیں، اس لیے ان راویوں کی جانب سے بیان کردہ روایات پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ عادل راوی نہیں ہیں، جبکہ کسی کی بات پر اعتماد کرنے کیلیے اللہ تعالی نے اصول بیان فرمایا کہ:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ )
ترجمہ:
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو [مبادا] تم کسی قوم کو لا علمی کی بنا پر کوئی گزند پہنچاؤ اور پھر تمھیں اپنے کیے پر ندامت اٹھانی پڑے۔
[سورۃ الحجرات:6]

انہی جھوٹے قصہ گو راویوں میں ابو مخنف ہے
[ميزان الاعتدال:3/419]

تاریخِ اسلامی میں جھوٹے راویوں کا کردار

صرف تاریخِ طبری میں موجود جھوٹے دروغ گو راویوں کا اجمالی خاکہ یہ ہے:
حمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات، حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ،محمد بن عمر کی چار سو چالیس (۴۴۰)روایات ،سیف بن عمر تمیمی کی سات سو (۷۰۰)روایات ، ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات، ہیثم بن عدی کی سولہ(۱۶) روایات،محمد بن اسحاق بن سیار (یسار)(۲۵) کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ہیں،ان سب کی روایات کا مجموعہ جن کو موٴرخ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے وہ انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) ہے۔
[تفصیل کے لیے دیکھیے : مدرسة الکذابین فی روایة التاریخ الإسلامي و تدوینیہ، ص:۴۵۔۴۷،دار البلاغ الجزائر]


اصول وقاعدہ:
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں جو آیات وارد ہیں، وہ قطعی ہیں، جو احادیث صحیحہ ان کے متعلق وارد ہیں، وہ اگرچہ ظنّی ہیں؛ مگر ان کی اسانید اس قدر قوی ہیں کہ تواریخ کی روایات ان کے سامنے ہیچ ہیں؛ اس لیے اگر کسی تاریخی روایت میں اور آیات واحادیث صحیحہ میں تعارض واقع ہوگا تو تواریخ کو غلط کہنا ضروری ہوگا۔
علامہ ابن تیمیہؒ  نے ’’الصارم المسلول‘‘میں قاضی ابویعلیٰ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:
’’رضٰی‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفتِ قدیم ہے، وہ اپنی رضا کا اعلان صرف انھیں کے لیے فرماتا ہے، جن کے متعلق وہ جانتا ہے کہ ان کی وفات اسبابِ رضا پر ہوگی۔
۔۔۔ میرا رب نہ غلطی کرتا ہے اور نہ ہی بھولتا ہے۔
[سورۃ طٰہٰ:52]
یعنی وہ لوگوں کی خوش بختی اور بدبختی میں خطا نہیں کرتا اور ان کے ثواب اور عقاب کو نہیں بھولتا۔
[تفسیر مدارک]



(٧)  ان ایام میں قصداً زینت ترک کرنا  :  جس کو سوگ کہتے ہیں اور حکم اِس کا شریعت میں یہ ہے کہ عورت کو صرف خاوند پر چار ماہ دس دن یا وضع حمل تک واجب ہے اور دوسرے عزیزوں کے مرنے پر تین دن جائز ہے باقی حرام، سو اَب تیرہ سو سال کے بعد یہ عمل کرنا بلاشک حرام ہے۔ 
(٨)  کسی خاص لباس یا کسی خاص رنگ میں اظہارِ غم کرنا  :   ابن ماجہ میں حضرت عمران بن حصین سے ایک قصہ میں منقول ہے کہ ایک جنازہ میں رسول اللہ  ۖ  نے لوگوں کو دیکھا کہ غم میں چادر اُتارکر صرف کُرتہ پہنے ہیں یہ وہاں غم کی اصطلاح تھی۔ آپ  ۖ  نہایت ناخوش ہوئے اور فرمایا کیا جاہلیت کے کام کرتے ہو یا جاہلیت کی رسم کی مشابہت کرتے ہو؟ میرا تو یہ اِرادہ ہوگیا تھا کہ تم پر ایسی بد دعا کروں کہ تمہاری صورتیں مسخ ہوجاویں۔ پس فوراً اُن لوگوں نے اپنی چادریں لے لیں اور پھر کبھی ایسا نہیں کیا۔ اِس سے ثابت ہوا کہ کوئی خاص وضع و ہیئت اظہارِ غم کے لیے بنانا حرام ہے۔ 
(٩)  بعض لوگ اپنے بچوں کو امام حسین  کا فقیر بناتے ہیں اور ان سے بعضے بھیک بھی منگواتے ہیں، اِس میں اعتقادی فساد تو یہ ہے کہ اِس عمل کو اِس کی طویل حیات میں مؤثر جانتے ہیں یہ صریح شرک ہے کہ بھیک مانگنا بلا اِ ضطرار حرام ہے۔ 
(١٠)  حضرات اہل بیت کی اِہانت بر سر بازار کرتے ہیں، اگر ایام عذر کے واقعات جس میں کسی خاندان کی عورتوں کا ہتک ہوا ہو اِس طرح علی الاعلان گائے جاویں، اُس خاندان کے مردوں کو کس قدر غیض و غضب آئے گا۔ پھر سخت افسوس ہے کہ حضرات اہل بیت کے حالات اعلان کرنے میں غیرت بھی نہ آئے۔ 
اور اس طرح کے بہت سے اُمور قبیحہ ہیں جو اِن دنوں میں کیے جاتے ہیں اُن کا اختیار کرنا اور ایسے مجمع میں جانا سب حرام ہے اور یہی تمام تر فضیحتیں پھر چہلم کو دُہرائی جاتی ہیں۔



قسم دوم کے منکرات :
(١)  کھچڑا یا اور کچھ کھانا پکانا:
احباب یا مساکین کو دینا اور اِس کا ثواب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بخش دینا۔
اِس کی اصل وہی حدیث ہے کہ جو شخص اِس دن میں اپنے عیال پر وسعت دے، اللہ تعالیٰ سال بھر تک اُس پر وسعت فرماتے ہیں۔ وسعت کی یہ بھی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ بہت سے کھانے پکائے جاویں خواہ جدا جدا یا ملاکر کھچڑا میں کئی جنس مختلف ہوتی ہیں اِس لیے وہ اِس وسعت میں داخل ہوسکتا تھا۔
چنانچہ دُرمختار میں ہے:
وَلَا بَأْسَ بِالْمُعْتَادِ خَلَطًا وَّیُوَجِّہُ
جب اہل و عیال کو دیا کچھ غریب غرباء کو بھی دے دیا۔
حضرت امامین(حضرت امام حسن و حضرت امام حسین) کو بھی ثواب بخش دیا۔ مگر چونکہ لوگوں نے اِس میں طرح طرح کی رسوم کی پابندی کرلی ہے گویا خود اِس کو ایک تہوار قراردیدیا ہے اِس لیے رسم کے طور پر کرنے سے ممانعت کی جائے گی۔ بلا پابندی اگر اِس روز کچھ فراخی خرچ میں کھانے پینے میں کردے تو مضائقہ نہیں۔

(٢)  شربت پلانا  :
یہ بھی اپنی ذات میں مباح تھا، کیونکہ جب پانی پلانے میں ثواب ہے تو شربت پلانے میں کیا حرج تھا؟ مگر وہی رسم کی پابندی اس میں ہے اور اِس کے علاوہ اِس میں اہل رِفض کے ساتھ تشبہ بھی ہے، اس لیے یہ بھی قابل ترک ہے۔
تیسرے اِس میں ایک مضمر خرابی یہ ہے کہ شربت اِس مناسبت سے تجویز کیا گیا ہے کہ حضرات شہدائے کربلا پیاسے شہید ہوئے تھے اور شربت مسکن عطش(پیاس بجھانے والا) ہے، اِس لیے اِس کو تجویز کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے عقیدہ میں شربت پہنچتا ہے جس کا باطل اور خلاف ِقرآن مجید ہونا فصل دوم میں مذکور ہوچکا ہے اور اگر پلانے کا ثواب پہنچتا ہے تو ثواب سب یکساں ہے، کیا صرف شربت دینے کو ثواب میں تسکینِ عطش کا خاصہ ہے۔ پھر یہ بھی اِس سے لازم آتا ہے کہ اُن کے زعم میں اَب تک شہدائے کربلا نعوذ باللہ پیاسے ہیں، یہ کس قدر بے ادبی ہے۔ اِن مفاسد کی وجہ سے اِس سے بھی احتیاط لازم ہے۔ 
(٣)  شہادت کا قصہ بیان کرنا  :
یہ بھی فی نفسہ چند روایات کا ذکر کردینا ہے۔ اگر صحیح ہوں تو روایات کا بیان کردینا فی ذاتہ جائز تھا مگر اِس میں یہ خرابیاں عارض ہوگئیں  :
(الف)  مقصود اِس بیان سے ہیجان اور جلب غم اور گریہ و زاری کا ہوتا ہے، اس میں صریح مقابلہ شریعت مطہرہ ہے کیونکہ شریعت میں ترغیب ِصبر مقصود ہے اور تعزیت سے یہی مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ مزاحمت شریعت کی سخت معصیت اور حرام ہے، اس لیے گریہ و زاری کو بھی قصداً یاد کرکے لانا جائز نہیں۔ البتہ غلبۂ غم سے اگر آنسو آجائیں تو اِس میں گناہ نہیں۔ 
(ب)  لوگوں کو اِسی لیے بلایا جاتا ہے اور ایسے اُمور کے لیے تداعی و اہتمام خود ممنوع ہے۔ 
(ج)  اِس میں مشابہت اہل رِفض کے ساتھ بھی ہے، اس لیے ایسی مجلس کا منعقد کرنا اور اس میں شرکت کرنا سب ممنوع ہے۔ چنانچہ مطالب المومنین میں صاف منع لکھا ہے اور قواعد ِشرعیہ بھی اِس کے مشاہد ہیں اور یہ تو اُس مجلس کا ذکر ہے جس میں کوئی مضمون خلاف نہ ہو ۔اور نہ وہاں نوحہ و ماتم ہو اور جس میں مضامین بھی غلط ہوں یا بزرگوں کی توہین ہو یا نوحۂ حرام ہو، جیساکہ غالب اِس وقت میں ایسا ہی ہے تو اُس کا ''حرام'' ہونا ظاہر ہے اور اِس سے بدتر خود شیعہ کی مجالس میں جاکر شریک ہونا بیان سننے کے لیے یا ایک پیالہ فرینی اور دو نان کے لیے۔ 
[اصلاح الرسوم]

حافظ الحدیث اور امام المفسرین امام التاریخ امام ابن کثیر رحمہ اللہ (م774ھ) اپنی تاریخ کی کتاب (البدایہ والنہایہ) میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
فَكَانُوا فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ ‌يَطْبُخُونَ ‌الْحُبُوبَ
تو وہ خوارج حضرتِ حسین کی شہادت کی خوشی میں) عاشورہ کے دن کھچڑا(اناج) پکایا کرتے تھے۔
[البداية والنهاية-ابن كثير: جلد 11/ صفحہ 577 ت التركي]
تو پتہ چلا کہ کھچڑا پکانا اہل بیت اطہار سے دشمنی کی علامت ہے ، لھذا محبین اہل بیت کو اس سے بچنا چاہیے۔
[بھشتی زیور]
مرثیہ گوئی، ماتمی مجلس، کالے رنگ کے کپڑے کا استعمال، تقسیم شیرینی، مچھلی کھا نے کو معیوب سمجھنا، اس دن سرمہ لگانے اور قبرستان جا نے کا خصوصی اہتمام سب بدعات و خرافات کا حصہ ہیں، اصل دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں، یہ ساری چیزیں رافضی خلیفہ معز الدولہ کے حکم پر 352ھ میں محرم الحرام کا جز بنائی گئیں۔
[البدایہ والنہایہ: ج 11صفحہ243]

اب  ''زوال ُالسنة'' سے بعض رسوم قبیحہ کی مذمت نقل کی جاتی ہے: 
(١)  بعض لوگ اُس بچے کو منحوس سمجھتے ہیں جو محرم میں پیدا ہو یہ بھی غلط عقیدہ ہے۔ 
(٢)  بعض لوگ اِن ایام میں شادی کو برا سمجھتے ہیں۔ یہ عقیدہ بھی باطل ہے۔ 
(٣)  بعض جگہ اِن ایام میں گُٹکہ، دَھنیا، مصالح تقسیم کرتے ہیں، یہ بھی واجب الترک ہے۔ 
(٤)  بعض شہروں میں اِس تاریخ کو روٹیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور ان کی تقسیم کا یہ طریقہ نکالا ہے کہ چھتوں کے اُوپر کھڑے ہوکر پھینکتے ہیں جس سے کچھ تو لوگوں کے ہاتھ میں آتی ہیں اور اکثر زمین پر گر کر پَیروں میں روندی جاتی ہیں جس سے رزق کی بے ادبی اور گناہ ہونا طاہر ہے۔ حدیث شریف میں اکرام رزق کا حکم اور اُس کی بے احترامی وبال سلب ِرزق آیا ہے۔ خدا سے ڈرو اور رزق برباد مت کرو (اور بے ادبی کے علاوہ بدعت اور ریا وغیرہ کا گناہ بھی اِس رسم میں موجود ہے)۔
وَمَا عَلَےْنَا اِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِینُ۔
[ماخوذ  از :  بارہ مہینوں کے فضائل و احکام]






عاشوراء کے روز تعطیل کا حکم:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس دن کی تعطیل تشبہ بالتشیع کی وجہ سے بدعت ہے۔ حدیث میں ہے:
«‌مَنْ ‌تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ.»
جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انھیں میں سے ہے۔
[سنن أبي داود:4031]



ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء

 

 

    

 

یوم عاشوراء زمانہٴ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے، اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے؛ لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں(بخاری۱/۴۸۱) بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے؛ چنانچہ بخاری ومسلم میں سلمہ بن الاکوع اور ربیع بنت معوذ بن عفراء سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں، اور جنھوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں ؛ بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰) لیکن اس کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، جیساکہ حدیث آگے آرہی ہے (معارف الحدیث۴/۱۶۸)

یومِ عاشورہ کی تاریخی اہمیت

یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ:

(۱) یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیا گیا۔

(۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔

(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

(۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔

(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

(۶) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

(۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

(۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

(۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔

(۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔

(۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

(۱۵) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔

(۱۷) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔

(۱۸) اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔

(۱۹) اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔

(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔

(۲۱) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸، معارف القرآن پ ۱۱ آیت ۹۸۔ معارف الحدیث ۴/۱۶۸)

یومِ عاشورہ کی فضیلت

مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں؛ چنانچہ:

(۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ھذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وھذا الشھرَ یعنی شھرَ رَمَضَان (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰،۳۶۱)

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔

مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔

(۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَھْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․ (رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب ۲,۱۱۵)

روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔

(۳) عن أبی قتادة رضی اللہ عنہ قال قال رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: انّي أحْتَسِبُ عَلَی اللہِ أنْ یُکفِّر السنةَ التي قَبْلَہ․ (مسلم شریف ۱,۳۶۷، ابن ماجہ ۱۲۵)

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السنة التی بعدھا“ کے الفاظ ہیں) کذا فی الترغیب۲/۱۱۵)

ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔

ماہِ محرم کی فضیلت اور اس کی وجوہات

یوم عاشوراء کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے؛ چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے:

(۱) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ: انْ کُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَھْرِ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ فانَّہٗ شَھْرُ اللّٰھِا فِیْہِ یَوْمٌ تَابَ اللہُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ وَیَتُوْبُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ آخَرِیْنَ ․ (ترمذی ۱/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔

نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ صِیَامِ شَھْرِ رَمَضَانَ شَھْرُ اللہِ الْمُحَرَّمُ․ (ترمذی ۱/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْمًا․ (الترغیب والترہیب ۲/۱۱۴) یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔

(۲) مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے دوسری وجہ یہ معلوم ہوئی کہ یہ ”شھرُ اللہ“ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے تو اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔

(۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ”اشھر حرم“ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں:

(۱) ذی قعدہ (۲) ذی الحجہ (۳) محرم الحرام (۴) رجب (بخاری شریف ۱/۲۳۴، مسلم ۲/۶۰)

(۴) چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہے؛ چنانچہ امام غزالی لکھتے ہیں کہ ”ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے؛ اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے، اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔ (احیاء العلوم اردو ۱/۶۰۱)

یوم عاشوراء میں کرنے کے کام

احادیث طیبہ سے یومِ عاشوراء میں صرف دو چیزیں ثابت ہیں: (۱) روزہ: جیساکہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں؛ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فَاذَا کَانَ العامُ المُقْبِلُ ان شاءَ اللہ ضُمْنَا الیومَ التاسعَ قال فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُّ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تَوَفّٰی رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم شریف ۱/۳۵۹) یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔

اہم فائدہ

بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ صرف یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہ ہے؛ لیکن حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے فرمایا ہے کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں: (۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے (۲) نویں اور دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، تو حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہت سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔ (معارف السنن ۵/۴۳۴)

(۲) اہل وعیال پر رزق میں فراخی: شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اورفراخی کرنا اچھا ہے؛ کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے؛ چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأھْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب ۲/۱۱۵) یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔

بعض رسمیں اور بدعات

اوپر کی تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہ محرم اور یوم عاشوراء بہت ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے؛ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس باعظمت مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہوکر خدائے تعالیٰ کی خاص الخاص رحمت کا اپنے کو مستحق بنائیں؛ مگر ہم نے اس مبارک مہینہ کو خصوصاً یوم عاشوراء کو طرح طرح کی خود تراشیدہ رسومات وبدعات کا مجموعہ بناکر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کیا کہ الامان والحفیظ، اس ماہ میں ہم نے اپنے کو چنددر چند خرافات کا پابند بناکر بجائے ثواب حاصل کرنے کے الٹا معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا سامان کرلیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اس ماہ میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیات کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس محترم مہینہ میں ہر قسم کی بدعات وخرافات سے احتراز کرے۔ ذیل میں مختصر انداز میں اس ماہ کی چند بدعات ورسومات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

(۱) ماتم کی مجلس اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت

عشرہٴ محرم میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ماتم کی مجلسوں میں، اسی طرح دسویں تاریخ کو تعزیہ کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے جمع ہوجاتی ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے؛ حالانکہ اس کے اندر کئی گناہ ہیں:

(۱) ایک گناہ تو اس میں یہ ہے کہ ان مجالس اور جلوس میں شرکت کرنے سے دشمنانِ صحابہ کی رونق بڑھتی ہے؛ جبکہ دشمنوں کی رونق بڑھانا حرام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”مَنْ کَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“ (کنزالعمال ۹/۳۶) یعنی جس نے کسی قوم کی رونق بڑھائی وہ انھیں میں سے ہے۔

(۲) دوسرا گناہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح عبادت کا کرنا اور دیکھنا اور اس سے خوش ہونا باعثِ اجر وثواب ہے، اسی طرح گناہوں کے کاموں کو بخوشی دیکھنا بھی گناہ ہے، ظاہر ہے کہ ماتم کی مجلس میں جانا اور تعزیہ نکالنا یہ سب گناہ کے کام ہیں۔

(۳) تیسرا گناہ یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے، وہاں اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ایسی غضب والی جگہ پر جانا بھی گناہ سے خالی نہیں، غرض کہ ان مجلسوں اور جلوسوں سے بھی احتراز کرنا لازم ہے۔ (مستفاد احسن الفتاویٰ ۱/۳۹۳، خیرالفتاویٰ ۱/۳۳۶)

(۲) دسویں محرم کی چھٹی کرنا

یوم عاشوراء کی چھٹی کرنے میں کئی قباحتیں ہیں، مثلاً: (۱) پہلی قباحت تو یہ ہے کہ اس دن چھٹی کرنا روافض اور اہلِ تشیع کا شعار ہے اور غیروں کے شعار سے اجتناب لازم ہے؛ کیونکہ حدیث میں ہے ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“ (مشکوٰة شریف ص ۳۷۵) جس شخص نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔

(۲) دوسری قباحت یہ ہے کہ اس دن چھٹی کرکے ہم لوگ بیکاری اور بے ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہیں؛ جبکہ اہلِ تشیع اپنے مذہب کے لیے بے پناہ مشقت اور سخت محنت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

(۳) تیسری خرابی یہ ہے کہ چھٹی کرنے کی وجہ سے اکثر مسلمان تعزیہ کے جلوس میں چلے جاتے ہیں اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت کی خرابیاں بتائی جاچکی ہیں۔

(۳) دسویں محرم کو کھچڑا پکانا

بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا پکاتے ہیں، یہ بالکل ناجائز اور سخت گناہ ہے، البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ سیّدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف اناج ملاکر پکاتے تھے۔ ”فَکَانُوْا الٰی یَوْم عَاشُوْرَاءَ یَطْبَخُوْنَ الْحُبُوبَ“ (البدایہ والنہایہ ۸/۲۰۲، ۵۹۹ بیروتی) معلوم ہوا کہ اس دن کھچڑا پکانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے دشمنی رکھنے والوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، اہل بیت سے الفت ومحبت رکھنے والوں کو اس رسم بعد سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ۱۳۸، خیرالفتاویٰ ۱/۵۵۸، بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲۰/۵۸۸)

(۴) ایصال ثواب کے لیے کھانا پکانا

محرم کے مہینے میں خصوصاً نویں، دسویں، گیارہویں تاریخ میں بعض لوگ کھانا پکاکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں، یہ طریقہ بھی بالکل غلط اور کئی قباحتوں کا مجموعہ ہے۔

(۱) جن ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے اگر ان کو نفع ونقصان کا مالک سمجھا گیا اوران اکابرِ سلف کے نام سے وہ کھانا پکایاگیا تو یہ شرک ہے اورایسا کھانا ”مَا اُھِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللہِ“ میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

(۲) عموماً یہ خیال کیاجاتا ہے کہ جو چیز صدقہ دی جاتی ہے، میت کو بعینہ وہی ملتی ہے؛ حالانکہ یہ خیال بالکل باطل ہے، میت کو وہ چیز نہیں پہنچتی؛ بلکہ اس کا ثواب پہنچتا ہے۔

(۳) ایصالِ ثواب میں اپنی طرف سے قیود لگالی ہیں یعنی صدقہ کی متعین صورت یعنی کھانا، مہینہ متعین، دن متعین؛ حالانکہ شریعت نے ان چیزوں کی تعیین نہیں فرمائی، جو چیز چاہیں جب چاہیں صدقہ کرسکتے ہیں، شریعت کی دی ہوئی آزادی پر اپنی طرف سے پابندیاں لگانا گناہ اور بدعت؛ بلکہ شریعت میں مداخلت ہے۔

(۵) پانی یا شربت کی سبیل لگانا

بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو پانی کی یا شربت کی سبیل لگاتے ہیں اور راستوں وچوراہوں پر بیٹھ کر گزرنے والے کو وہ پانی یا شربت پلاتے ہیں تو اگرچہ پانی بلانا باعثِ ثواب اور نیکی کا کام ہے؛ لیکن یہ عمل بھی مندرجہ بالا پابندیوں کی وجہ سے بدعت اور قابلِ ترک ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ رشیدیہ ۱۳۹، خیرالفتاویٰ ۱/۵۶۹، بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲/۵۸۸)

(۶) مٹھائی تقسیم کرنا

بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ دس محرم کو مٹھائی وغیرہ مسجد میں لاکر یا گھر میں ہی تقسیم کردیتے ہیں، یہ امر بھی معصیت اور خلافِ شریعت ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱۵/۳۴۹)

(۷) عید کی طرح زینت کرنا

بعض حضرات یومِ عاشورہ میں عید کی طرح زینت اختیار کرتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے، اور بعض حضرات جواز کے قائل ہیں، اور تائید میں حدیث پیش کرتے ہیں؛ مگر جواز پر دلالت کرنے والی تمام احادیث موضوع ہیں۔ (فتاویٰ عبدالحئی ۵۰۹ بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲/۵۸۹)

(۸) محرم میں نکاح کرنا

اس سلسلے میں اصل گفتگو یہ ہے کہ یہ مہینہ معظم ومحترم ہے یا منحوس ہے؟ شیعہ حضرات اس ماہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے نزدیک شہادت بہت بری اور منحوس چیز ہے اور چونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اس میں ہوئی ہے اس لیے وہ لوگ اس میں کوئی تقریب اور خوشی کا کام شادی ونکاح وغیرہ نہیں کرتے۔

اس کے برخلاف سنیوں کے نزدیک یہ مہینہ معظم ومحترم اور فضیلت والا ہے، محرم کے معنی ہی پُرعظمت اور مقدس کے ہیں، جیسا کہ بالتفصیل مضمون کی ابتداء میں بیان کیاگیا ہے۔

جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ مہینہ اور دن افضل ہے تو اس میں نیک اعمال بہت زیادہ کرنے چاہئیں، نکاح وغیرہ خوشی کی تقریبات بھی اس میں زیادہ کرنی چاہئیں، اس میں شادی کرنے سے برکت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اس مہینے میں شادی کو منحوس سمجھنا شیعی ذہنیت ہے، جس سے پرہیز لازم ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہر قسم کے گناہوں اور معصیتوں سے محفوظ فرمائے اور اپنی اور اپنے حبیبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نوازے۔ آمین ثم آمین

$ $ $

 

----------------------------------------------------












محرم الحرام میں شادی بیاہ کرنے کا حکم



اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم الحرام کو سال کے بارہ مہینوں میں خاص طرح کا امتیاز حاصل ہے، صحیح بخاری میں ایک حدیث مبارکہ ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر ایک طویل اور نہایت ہی قیمتی نصائح پر مشتمل خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں یہ بات بھی تھی:
”(اس وقت) زمانہ اسی رفتار اور ہیئت پر آ چکا ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا فرمایا تھا، ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے ، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، جن میں سے تین مہینے یعنی: ذوالقعدہ ذوالحج اور محرم الحرام تو مسلسل ہیں۔ اور ایک ”رجب“ کا مہینہ ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۴۲۹۴)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف فرمان کے مطابق اس ماہ مبارک میں کیے جانے والے اعمال کا اجر بنسبت دیگر ایام یا مہینوں کے زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے میں روزے رکھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا: ”رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے یہاں محرم الحرام کے روزے ہیں“۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۱۱۶۳)
علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں فضیلت محض روزے رکھنے کی ہی نہیں ہے؛ بلکہ اس ماہ کا ہر نیک عمل بہ نسبت دوسرے مہینوں کے بہت بڑھا ہوا ہے؛ چنانچہ اعمال میں سے ایک بڑا اور اہم عمل نکاح کا بھی ہے، معاشرے میں ماہِ محرم الحرام سے متعلق کچھ ایسا تصور اور رجحان عام ہو چکا ہے کہ اس مہینے میں نکاح نہیں کرنا چاہیے حالانکہ شریعت کا مزاج اور احکام اس کی صریح نفی کرتے ہیں۔ 
”عمل ِ نکاح“ چاہے کسی مہینے میں ہو، یہ اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہے، اور مباح کام کا ناجائز ہونا کسی واضح ممانعت سے ہوتا ہے؛ لیکن اس مہینے میں ، یا اس کے علاوہ کسی اور بھی مہینے میں شریعت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ملتی، نہ کتاب وسنت میں، نہ اجماع امت سے اور نہ ہی قیاس وغیرہ سے؛ چنانچہ جب ایسا ہے تو اس ماہ کا نکاح اپنی اصل (مباح ہونے )کے اعتبار سے جائز ہی رہے گا۔ 
بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فقہائے کرام کا اس بات پر کہ ( محرم یا اس کے علاوہ کسی بھی مہینے میں نکاح کرناجائزہے ) کم از کم اجماعِ سکوتی ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین وتبع تابعین اور متقدمین یا متاخرین فقہاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے، جو اس ماہ مبارک میں شادی، بیاہ وغیرہ کو ناجائز قرار دیتا ہو۔ لہٰذا اگر کوئی اس کو منع بھی کرتا ہے تو اس کا منع کرنا بغیر دلیل کے ہو گا اور کسی بھی درجہ قابل اعتبار نہیں ہو گا۔
اس ماہ میں نکاح سے منع کرنے کی بنیاد کیا ہے ؟ چنانچہ تتبع سے عقلاً اس کی بنیاد اس مہینے کا منحوس ہونا ہو سکتی ہے، یا غم والا مہینہ ہونا(جس کی بناء پر سوگ کو لازم سمجھا جاتا ہے اور سوگ والے دنوں یا مہینوں میں شادی کو جائز سمجھا جاتا)۔ ذیل میں ہر دو امر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
کیا ماہ محرم نحوست والا مہینہ ہے؟
مزاج شریعت سے معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس مہینے کی نحوست کا قائل نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوات سے بہت پہلے سے ہی اس مہینے کا معزز ومکرم اور صاحب شرف ہونا مشہور ومعروف چلا آ رہا ہے، حتی کہ زمانے کی ابتدا سے اب تک ہر ذی شان کام کا اسی مہینے میں وقوع پذیر ہونا زبان زد عام ہے؛ بلکہ روایات کے مطابق تو وقوع قیامت کا عظیم الشان واقعہ بھی اس مہینے میں ہو گا۔ 
چنانچہ اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے اس مہینہ کو نحوست والا قرار دینا ممکن ہی نہیں، لہٰذا اس بنا پر تو اس مہینے میں نکاح سے روکنا عقلا بھی درست نہیں ہے۔
کیا ماہ محرم غم والا مہینہ ہے؟
اس مہینے میں شادی سے روکنے والے اگر اس بنیاد پر شادی سے روکتے ہیں کہ یہ غم اور سوگ کا مہینہ ہے لہٰذا اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟! اس لیے کہ اس مہینے میں نواسہٴ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بیدردی سے شہید کر دیا گیاتھا، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، تو یہ احکامات دینیہ سے ناواقفیت کی علامت ہے؛ اس لیے کہ ”شہادت“ جیسی نعمتِ بے بہا کسی بھی طور پر غم کی چیز نہیں ہے، یہ تو سعادت چیز ہے۔ یہاں سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہ نمائی ملتی ہے؟تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الف تحیہ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہا سعادت کی بات ہے۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت
 یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے، (صحیح البخاری، کتاب فضائل مدینہ، باب کراہیة النبي  صلی اللہ علیہ وسلم أن تعری المدینة، رقم الحدیث: ۱۸۹۰، ۳/۲۳، دارطوق النجاة)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنہیں بارگاہِ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے؛ لیکن اللہ کی شان انھیں شہادت نہ مل سکی، تو جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔ (البدایہ والنھایہ، سنة احدی وعشرین، ذکر من توفی احدی وعشرین: ۷/۱۱۴، مکتبة المعارف، بیروت)
جناب رسول اللہ ﷺ کا شوق شہادت
شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، جس میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں، پھر شہید کر دیا جاوٴں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کر دیا جاوٴں،(پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اورپھر شہید کر دیا جاوٴں“۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب: فضل الجھاد والخروج في سبیل اللہ، رقم الحدیث: ۴۹۶۷)
الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت ہے، جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے، اگر اس عمل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے توپھر غور کر لیا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا مہینہ یا دن ہے ؟ جس میں کسی نہ کسی صحابیِ رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے، ہر دن میں کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی، مثلاً: 
صفر: ۳ ھ میں مقام رجیع میں ۸/ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا گیا۔ صفر: ۴ ھ میں بئر معونہ کے واقعے میں کئی اصحاب صفہ کو شہید کیا گیا۔صفر: ۵۲ ھ میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔
ربیع الاول: ۱۸ ھ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ ربیع الاول: ۲۰ ھ میں ام الموٴمنین حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔
ربیع الثانی: ۲۱ ھ میں مقام نہاوند میں ایرانی کفار سے لڑائی کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو لاکھ ایرانیوں کے مقابلے کے لیے چالیس ہزار مسلمانوں کی فوج بھیجی جس میں تقریباتین ہزار مسلمان شہید ہوئے اور کفار کے تقریباًایک لاکھ افراد واصل جہنم ہوئے، اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ربیع الثانی: ۲۱ ھ میں مشہور صحابی رسول حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ ربیع الثانی: ۵۰ ھ میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔
جمادی الاولی: ۸ ھ میں حضرت سراقہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ اور اسی سال ، اسی مہینے میں حضرت عبادہ بن قیس رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔جمادی الاولی: ۸ ھ میں ہی غزوہ موتہ ہوا، جس میں کئی جلیل القدر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔
جمادی الاخری: ۴ھ میں حضرت ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ جمادی الاخری: ۱۳ ھ میں صحابی رسول حضرت ابو کبشہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ جمادی الاخری: ۲۱ ھ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ جمادی الاخری: ۵۰ ھ میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کی وفات ہوئی۔
رجب المرجب:۱۵ھ میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب المرجب: ۲۰ھ میں حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔رجب المرجب:۴۵ھ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔
شعبان : ۹ ھ میں بنت ِ رسول حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔شعبان :۵۰ھ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کاانتقال ہوا۔ شعبان : ۹۳ھ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔
رمضان:۱۰نبوی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ رمضان:۲ھ میں بنت رسول حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ رمضان:۱۱ھ میں بنت رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ رمضان:۳۲ھ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔
شوال: ۳ھ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ شوال: ۳۸ھ میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔
ذوالقعدہ: ۶۲ھ میں مشہور تابعی حضرت مسلمہ بن مخلد رحمہ اللہ کا انتقال ہوا۔ ذوالقعدہ: ۱۰۶ھ میں حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب کا انتقال ہوا۔
ذو الحجہ: ۵ ھ میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ ذو الحجہ: ۶ھ میں حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ ذو الحجہ: ۱۲ھ میں حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔
اس پوری تاریخ کا مقتضی تو یہ ہے کہ ان میں سے ہر دن کو اظہارِ غم اور افسوس بنایا جائے۔ اور شادی وغیرہ ہر خوشی اور اظہار خوشی سے گریز کیا جائے؛ لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذی شعور اس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ 
نیز! اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی؛ لیکن کیا ہمارے پیارے نبی  صلی اللہ علیہ وسلمنے بھی ان کی شہادت کے دن کو بہ طور یادگار کے منایا؟ نہیں ؛بالکل نہیں، تو پھر کیا ہم اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں؟! خدا را !ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی گم راہ کن رسومات سے بچنے کی مکمل کوشش کریں۔
شرعاًسوگ کرنے کا حکم
شرعاً سوگ کرنے کی اجازت صرف چند صورتوں میں ہے اور وہ بھی صرف عورتوں کے لیے نہ کہ مردوں کے لیے:
(۱) ایسی عورت جس کو طلاق بائن دی گئی ہو اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔
(۲)جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔
(۳)کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن کے لیے۔ اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر عورت کے لیے سوگ کرنا جائز نہیں ہے ۔
اور سوگ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناوٴ سنگار نہ کرے، زینت کی کسی بھی صورت کو اختیار نہ کرے، مثلا: خوش بو لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا اور رنگ برنگے خوشنما کپڑے وغیرہ پہننا، اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا، مثلاً: اظہارِ غم کے لیے سیاہ لباس پہننا یا بلند آواز سے آہ وبکا جائز نہیں۔نیز! مرد وں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے تو پھر محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی سوگ اور ماتم کے نام پر پورے ملک وملت کو عملی طور پر یرغمال بنا لینا کیا معنی رکھتا ہے؟؟!!
محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم
اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس ماہِ مبارک میں سوگ کرنا بالکلیہ بے اصل اور دین کے نام پر دین میں زیادتی ہے، جس کا ترک لازم ہے، لہٰذا جب سوگ جائز نہیں ہے تو پھر شرعاً اس مہینے میں شادی نہ کرنے کی وجہ یہ بھی نہیں بن سکتی۔
بنت رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی
بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک معتبر قول کے مطابق امیر الموٴمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی، اگرچہ اس قول کے علاوہ دیگر اقوال بھی ملتے ہیں۔(ملاحظہ ہو: تاریخ مدینة الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاة والسلام وأزواجہ: ۳/۱۲۸، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبري، ذکر ما کان من الأمور في السنة الثانیة، غزوة ذات العشیرة، ۲/۴۱۰، دار المعارف بمصر)
محرم الحرام کے دنوں میں فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا پر ایک میسیج بہت زیادہ گردش کرتا ہے، جس میں تین شخصیات کے نکاح کا محرم الحرام میں ہونا مذکور ہوتا ہے:
(۱) زوجہ النبی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔
(۲) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے۔ 
(۳) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے۔
تو اس میسج کا تحقیقی رُخ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سنہ ۲/ ہجری میں ہوا؛ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مہینہ کون سا تھا، توا س میں تین طرح کے اقوال ملتے ہیں، محرم الحرام، صفر المطفر اور ذوالحجہ۔ ابن عساکر اور طبری رحمہما اللہ نے محرم الحرام کے مہینے میں نکاح ہونے کی روایت کو ترجیح دی ہے۔
بقیہ دو شخصیات کا نکاح بھی محرم میں نہیں ہوا، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ۷/ ہجری، ماہ صفر میں ہوا۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے ۳/ ہجری میں ربیع الاول کے مہینے میں ہوا اور رخصتی جمادی الاخری کے آخر میں ہوئی۔
خلاصہ کلام یہ کہ اپنے مدعیٰ کے ثبوت کے لیے غیر محقق امور کو پیش کرنا مناسب نہیں ہے، معتبر اور محقق بات ہی پیش کرنا مفید ثابت ہوتا ہے۔
چند فقہی کتب کا حوالہ
اکابر مفتیانِ عظام کے فتاوی میں اس کی تصریحات موجود ہیں، ذیل میں فتاوی رحیمیہ سے اسی مسئلے کا جواب نقل کیا جاتا ہے: 
(الجواب): ماہ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں ، حرام ہے، آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 
”لا یحل لامرأة توٴمن باللہ والیوم الآخر إن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعة أشھر وعشراً“
 ترجمہ: ”جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے؛ مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے“۔ (بخاري، باب: تحد المتوفی عنھا أربعة أشھر وعشراً إلخ، ص: ۸۰۳، ج:۲، پ:۲۲)، ( صحیح مسلم، باب: وجوب الإحداد في عدة الوفات، إلخ، ص: ۴۹۶، ج:۱)، (مشکوٰة، باب العدة، الفصل الأول، ص: ۲۸۸)
ماہ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنے کو نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے، اسلام میں جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا گیا ہو، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ روافض اور شیعہ سے پوری احتیاط برتیں، ان کی رسومات سے علیحدہ رہیں، ان میں شرکت حرام ہے۔
”مالابد منہ“ میں ہے: ”مسلم ر اتشبہ بہ کفار وفساق حرام است۔“ یعنی: مسلمانوں کو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے۔ (ص: ۱۳۱)
ماہ مبارک میں شادی وغیرہ کے بارے میں دیوبندی اور بریلوی میں اختلاف بھی نہیں ہے۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کا فتویٰ پڑھیے:
(سوال) بعض سنی جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ ۲: ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے۔ ۳:ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے، اس کا کیا حکم ہے؟ 
(الجواب) تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ (احکام شریعت، ص: ۹۰، ج:۱) فقط واللہ اعلم بالصواب
(فتاوی رحیمیہ، کتاب البدعة والسنة، ماہ محرم میں شادی کرے یا نہیں؟۲/۱۱۵، دارالاشاعت، کراچی )
اسی طرح فتاوی حقانیہ (کتاب البدعة والرسوم،محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم؟ ۲/۹۶، جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک)میں بھی موجود ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے منکرات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رکھے! آمین 
$$$



بریلوی علماء کی نظر میں:

عرض کیا محرم ، صفر میں نکاح منع ہے ؟
ارشاد فرمایا..... نکاح کسی بھی مہینہ میں منع نہیں یہ غلط مشہور ہے ۔ ( ملفوظات اعلیٰ حضرت حصہ اول ص 64)


قرآن کریم، حدیث شریف، شروحِ حدیث، فقہ وفتاویٰ میں نکاح کے احکام بہت مفصل طریق پر بیان کیے گئے ہیں حتی کہ فرائض، شرائط، ارکان، مستحبات، مکروہات، موانعات پر تفصیل سے بحث ہے اسی طرح ماہِ محرم میں عبادات کی ترغیب اور خلافِ شرع پھیلے ہوئے منکرات قبائح، برائیاں ذکر کرکے سب کے تفصیلی احکام کتب معتبرہ میں موجود ہیں، مگر کسی کتاب میں نکاح یا محرم کے منکرات اور رسومِ مروجہ وغیرہ میں نو-دس یا کسی اور دیگر تاریخ محرم میں اس کو شمار نہیں کیا، پس محرم یا محرم کی نو دس تاریخ میں شادی بیاہ کرنا شریعت مطہرہ کی نظر میں مثل دیگر ماہ اور دیگر ماہ کی ہرتاریخ میں بلاکراہت درست ہونا یکساں ہے، جو لوگ اس ماہ یا اس ماہ کی نو دس تاریخ میں شادی کی تقریب کو انجام دینا برا سمجھتے ہیں ان کی سوچ شرعی اعتبار سے غلط ہے، حقیقت شرعیہ کے اعتبار سے ایسی سوچ لغو اور کالعدم ہے۔ 


محرم میں نکاح کرنا منع نہیں.
[رد المحتار: ج4،ص76 کتاب النکاح]


رسول اللہ ﷺ کا اپنا نکاح حضرت خدیجہؓ کےساتھ محرم میں ہوا اور اسی طرح حضرت علیؓ کا حضرت فاطمہؓ کے ساتھ نکاح بھی محرم میں ہوا:
[تاریخ الخمیس، جلد:1 صفحہ:361، الناشر: دار صادر - بيروت]



حضرت علیؓ نے دو سال قبل محرم کے آغاز میں ان(سیدہ فاطمہؓ) سے شادی کی تھی۔
[الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ: ج14 ص88]




محرم 







No comments:

Post a Comment