یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھا کرے تو اس کو جنت میں داخل ہونے کے لیے بجز موت کے کوئی مانع(رکاوٹ) نہیں ہے۔
(یعنی موت کے بعد فورا وہ جنت کے آثار اور راحت و آرام کا مشاہدہ کرنے لگے گا)
[عمل اليوم والليلة للنسائي:100، السنن الكبرى - النسائي:9848، عمل اليوم والليلة لابن السني:124، فضائل القرآن للمستغفري:748، المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي - مخطوط:18، الخامس عشر من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي:18]
[تفسير الثعلبي:2/ 229، تفسير الزمخشري:1/ 302، تفسير الرازي:7/ 5, تفسير البيضاوي:1/ 154، تفسير النسفي:1/ 210، تفسير ابن كثير - ت السلامة:1/ 667، تفسير النيسابوري:2/ 12، تفسير الثعالبي:1/ 502]
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معن نے کہا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے محمد بن جیبر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد (جبیر بن مطعم ؓ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد، احمد اور ماحی ہوں (یعنی مٹانے والا ہوں) کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا، اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا (قیامت کے دن) میرے بعد حشر ہوگا، اور میں عاقب ہوں یعنی خاتم النبین ہوں کہ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر دنیا میں نہیں آئے گا۔
[صحیح بخاری »
کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان،
باب: باب: رسول اللہ ﷺ کے ناموں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3532]
تشریح :
یہ تمام نام سابقہ کتابوں میں موجود تھے اور پچھلی امتوں کے اہلِ علم کے پاس محفوظ تھے۔
(1) آپ ﷺ مُحَمَّدٌ(یعنی بہت تعریف کے قابل) ہیں، کیونکہ انسانوں اور پیغمبروں میں آپ ﷺ کی تعریف سب سے زیادہ کی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن صحابہ کرام سے) فرمایا کہ تمہیں اس پر تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح محفوظ رکھا ہے ؟ وہ مُذَمَّم(یعنی مذمت کیا گیا) کو گالیاں دیتے ہیں اور مُذَمَّم پر لعنت کرتے ہیں جب کہ میں "مُحَمَّدٌ"(یعنی بہت تعریف کیا گیا) ہوں۔
[صحيح البخاري:3533، سنن النسائى:3468]
تشریح :
"مُذَمَّم" معنی کے اعتبار سے "مُحَمَّدٌ" کی ضد ہے یعنی وہ شخص جس کی مذمت وبرائی کی گئی ہویہ لفظ قریش مکہ کے بغض وعناد کا مظہر تھا ، وہ بدبخت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو " محمد " کہنے کے بجائے مذمم کہا کرتے تھے اور یہی نام لے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد زبانی کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لعن وطعن کیا کرتے تھے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ قریش مکہ جو بدزبانی کرتے ہیں اور سب وشتم کے تیر پھینکتے ہیں ، ان سے آزردہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ بدبخت تو مذمم کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور مذمم پر لعن طعن کرتے ، اور میں مذمم نہیں ہوں بلکہ محمد ہوں ، یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ اس نے میرے نام کو جو میری ذات کا مظہر ہے ، ان حاسدوں کی گالیوں اور لعن طعن کا نشانہ بننے سے بچا رکھا ہے۔
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔
(2)آپ ﷺ اَحْمَدٌ(یعنی سب سے زیادہ تعریف کرنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے الله کی سب سے زیادہ اور بہترین تعریف بیان کی ہے اور قیامت کے دن مقامِ محمود پر ایسی تعریف بیان کرنے کی توفیق عطا کی جائے گی جو کسی اور کو نہیں عطا کی گئی۔
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔
(3)آپ ﷺ اَلْمَاحِيْ(یعنی مٹانے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے ذریعہ الله نے کفر کے غلبہ کو مکہ سے مٹایا۔
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔
(4)آپ ﷺ اَلْحَاشِرُ(یعنی اٹھانے/اکٹھا کرنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھیں گے اور پھر آپ ﷺ کے سامنے(ارد گرد) قبروں سے لوگوں کو اٹھائے/اکٹھا کئے جائیں گے۔
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔
(5)آپ ﷺ اَلْعَاقِبُ(یعنی اخیر میں آنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی(پیغمبر)نہیں۔