Friday, 28 October 2022

فضائل اور تفاسیر آیة الکرسی

1-جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آية الكرسي پڑهے گا، وه جنت میں داخل هوگا۔

امام نسائیؒ(م303ھ) نے یہ حدیث  حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے  نقل  فرمائی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«مَنْ قَرَأَ آيَةَ ‌الْكُرْسِيِّ ‌فِي ‌دُبُرِ ‌كُلِّ ‌صَلَاةٍ ‌مَكْتُوبَةٍ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ إِلَّا أَنْ يَمُوتَ»۔

ترجمہ:

جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھا کرے تو اس کو جنت میں داخل ہونے کے لیے بجز موت کے کوئی مانع(رکاوٹ) نہیں ہے۔

(یعنی موت کے بعد فورا وہ جنت کے آثار اور راحت و آرام کا مشاہدہ کرنے لگے گا)

[عمل اليوم والليلة للنسائي:100، السنن الكبرى - النسائي:9848، عمل اليوم والليلة لابن السني:124، فضائل القرآن للمستغفري:748، المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي - مخطوط:18، الخامس عشر من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي:18]

[تفسير الثعلبي:2/ 229، تفسير الزمخشري:1/ 302، تفسير الرازي:7/ 5, تفسير البيضاوي:1/ 154، تفسير النسفي:1/ 210، تفسير ابن كثير - ت السلامة:1/ 667، تفسير النيسابوري:2/ 12، تفسير الثعالبي:1/ 502]





Tuesday, 25 October 2022

جائز اور ناجائز عذر و معذرت کا بیان


  • عذر، حیلہ، بہانہ، معافی، درگزر

سیاق و سباق اور محرکات کے لحاظ سے عذر قبول نہ کرنا صحیح اور غلط دونوں ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک متوازن نقطہ نظر ہے:

صحیح:
1. ذمہ داری کی حوصلہ افزائی:
عذر قبول نہ کرنا ذاتی ذمہ داری اور جوابدہی کو فروغ دے سکتا ہے۔
2. ترقی کو فروغ دیتا ہے:
بہانے قبول نہ کرنے سے، افراد اپنی غلطیوں سے سیکھ سکتے ہیں اور مسائل حل کرنے کی مہارتیں تیار کر سکتے ہیں۔
3. حدود طے کرتا ہے:
واضح توقعات قائم کرنا اور عذر قبول نہ کرنا تعلقات میں صحت مند حدود قائم کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔

غلط:
1. ہمدردی کی کمی:
عذر قبول نہ کرنا غیر حساس یا غیر ہمدردی کے طور پر سامنے آسکتا ہے، خاص طور پر اگر کسی کو حقیقی چیلنجوں کا سامنا ہو۔
2. غیر حقیقت پسندانہ توقعات:
دوسروں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کبھی غلطیاں نہ کریں یا توقعات پر پورا نہ اترنے کی معقول وجوہات ہوں تو یہ غیر حقیقی ہو سکتا ہے۔
3. دفاعی پن پیدا کرتا ہے:
عذر قبول نہ کرنا دفاعی اور جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بن سکتا ہے، تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

متوازن نقطہ نظر:
1. فعال طریقے سے سنیں:
اس شخص کی بات سنیں اور اس کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
2. عذر کا اندازہ:
اندازہ لگائیں کہ آیا عذر درست ہے یا نہیں۔
3. سپورٹ کی پیشکش:
اگر عذر درست ہے، تو مدد کی پیشکش کریں اور اس شخص کی مدد کریں جس کا حل تلاش کریں۔
4. واضح توقعات قائم کریں:
سمجھنے اور ہمدرد ہونے کے ساتھ ساتھ واضح توقعات اور نتائج قائم کریں۔

متوازن انداز اپنانے سے، آپ ہمدردی اور سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذاتی ذمہ داری کو فروغ دے سکتے ہیں۔

Wednesday, 5 October 2022

آخری پیغمبر محمد ﷺ کا تعارف اور ان کے ممتاز اوصاف

آخری پیغمبر ﷺ کو جانئے» ذاتی اور صفاتی ناموں سے تعارف:

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَعْنٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏

لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ.

ترجمہ:

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معن نے کہا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے محمد بن جیبر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد  (جبیر بن مطعم ؓ)  نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:

میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد، احمد اور ماحی ہوں  (یعنی مٹانے والا ہوں)  کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا، اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا  (قیامت کے دن)  میرے بعد حشر ہوگا، اور میں عاقب ہوں یعنی خاتم النبین ہوں کہ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر دنیا میں نہیں آئے گا۔

[صحیح بخاری »

کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان،

باب: باب: رسول اللہ ﷺ کے ناموں کا بیان۔

حدیث نمبر: 3532]




تشریح :

یہ تمام نام سابقہ کتابوں میں موجود تھے اور پچھلی امتوں کے اہلِ علم کے پاس محفوظ تھے۔


(1) آپ ﷺ مُحَمَّدٌ(یعنی بہت تعریف کے قابل) ہیں، کیونکہ انسانوں اور پیغمبروں میں آپ ﷺ کی تعریف سب سے زیادہ کی گئی ہے۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن صحابہ کرام سے) فرمایا کہ تمہیں اس پر تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح محفوظ رکھا ہے ؟ وہ مُذَمَّم(یعنی مذمت کیا گیا) کو گالیاں دیتے ہیں اور مُذَمَّم پر لعنت کرتے ہیں جب کہ میں "مُحَمَّدٌ"(یعنی بہت تعریف کیا گیا) ہوں۔
[صحيح البخاري:3533، سنن النسائى:3468]
تشریح :
"مُذَمَّم" معنی کے اعتبار سے "مُحَمَّدٌ" کی ضد ہے یعنی وہ شخص جس کی مذمت وبرائی کی گئی ہویہ لفظ قریش مکہ کے بغض وعناد کا مظہر تھا ، وہ بدبخت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو " محمد " کہنے کے بجائے مذمم کہا کرتے تھے اور یہی نام لے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد زبانی کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لعن وطعن کیا کرتے تھے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ قریش مکہ جو بدزبانی کرتے ہیں اور سب وشتم کے تیر پھینکتے ہیں ، ان سے آزردہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ بدبخت تو مذمم کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور مذمم پر لعن طعن کرتے ، اور میں مذمم نہیں ہوں بلکہ محمد ہوں ، یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ اس نے میرے نام کو جو میری ذات کا مظہر ہے ، ان حاسدوں کی گالیوں اور لعن طعن کا نشانہ بننے سے بچا رکھا ہے۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔



(2)آپ ﷺ اَحْمَدٌ(یعنی سب سے زیادہ تعریف کرنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے الله کی سب سے زیادہ اور بہترین تعریف بیان کی ہے اور قیامت کے دن مقامِ محمود پر ایسی تعریف بیان کرنے کی توفیق عطا کی جائے گی جو کسی اور کو نہیں عطا کی گئی۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔

(3)آپ ﷺ اَلْمَاحِيْ(یعنی مٹانے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے ذریعہ الله نے کفر کے غلبہ کو مکہ سے مٹایا۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔

(4)آپ ﷺ اَلْحَاشِرُ(یعنی اٹھانے/اکٹھا کرنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھیں گے اور پھر آپ ﷺ کے سامنے(ارد گرد) قبروں سے لوگوں کو اٹھائے/اکٹھا کئے جائیں گے۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔

(5)آپ ﷺ اَلْعَاقِبُ(یعنی اخیر میں آنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی(پیغمبر)نہیں۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔





اللہ کے پیغمبر کے بھیجے جانے ﷺ کے مقاصد

محبت رسول اللہ ﷺ کی علامات

توہین رسالت کا موثر حل سنتوں کو زندہ کرنا
میں تو بس ایک بشر(آدمی)ہوں۔۔۔[سورۃ الکھف:110،فصلت:6]
http://raahedaleel.blogspot.com/2017/01/1109.html
حدیث : مجھے حد سے نہ بڑھاو جیسے ...