عذر کی جدید طبی اور نفسیاتی صورتیں:
۱۔مرگی اور ہسٹریا (Hysteria)
بعض اعصابی بیماریوں میں بھی مریض کا شعور اور اختیار ختم ہو جاتا ہے اور ان کا فہم و ادراک معدوم ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان سے ایسی حر کات اعمال اور اقوال سر زد ہوتے ہیں جن کو نہ وہ سمجھتے ہیں اور نہ ان کی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں فقہا ء کرام نے خصوصیت کے ساتھ اس قسم کی مر یضانہ کیفیتوں پر روشنی نہیں ڈالی ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہو کہ اس وقت نفسیاتی اور طبعی علوم نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی جس قدر کہ آج کر چکے ہیں۔ مگر قواعد شر یعت کی روشنی میں ان مریضانہ کیفیتوں کا حکم معلوم کر لینامشکل نہیں ہے۔
جس وقت مرگی کے مریض پر تشنجی دورے پڑتے ہیں تو اس کا ادراک و اختیار مفقود ہو جاتا ہے اور اس وقت اس سے ایسے اعمال سرزد ہو سکتے ہیں جن کا اسے افاقہ ہو جانے کے بعد بھی احساس نہ ہو کہ اس نے کیا کیا ہے۔
اسی طرح ہسٹیر یا کے مریض پر تشنجی دورے آتے ہیں جن میں وہ بے سمجھے ہذیان بکتا ہے جبکہ مالیخو لیا کا مریض ایسے تصور اور خیالات قائم کرتا ہے جن کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ان تصورات کے وقت وہ بلا جواز امور کا ارتکاب کر لیتا ہے۔
چنانچہ عبدالقادر عودہ نے التشریع الجنائی الاسلامی میں ان مریضوں اور ایسی ہی دیگر صورتوں کا حکم وہی لکھا ہے جو مجنون کا ہے بشر طیکہ ارتکاب جرم کے وقت ان کا ادراک مفقود ہو۔ یا ان کا ادراک معتوہ کے درجے میں کمزور ہو۔ اور اگر ان مریضوں کا وقت ارتکاب جرم ادراک و اختیار مفقود نہ ہو تو یہ فوجداری طور پر مسؤل ہوں گے۔
[عودہ،عبدالقادر، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی،بذیل مادہ نمبر 418، الصرع والھستیریا وماأشبہ، نمبر417، ۱/587-588]
۲۔ذہن پر غلط تصورات کا تسلط (تسلّط الأفکار الخبیثۃ)
افکارِ خبیثہ کا تسلط ایک ایسا عذر ہے جو جنون کے ساتھ ملحق ہے اور ذہن پر غلط تصورات کا تسلط بھی عوارض جدیدہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ یہ ایک ایسی مر یضانہ کیفیت ہے جو اعصاب کی کمزوری سے رونما ہوتی ہے یا خاندانی وراثت سے منتقل ہوتی ہے اور انسان کے ذہن پر ایک تصور اس قدر چھا جاتا ہے کہ وہ اس کے نتیجے میں وہ شخص کوئی خاص کام یا عمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پرزیر نظر عارضہ سے متاثرہ شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ مظلوم ہے اور اسے کچھ لوگ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یا مثلاً قتل کرنا یا زہر دینا چاہتے ہیں تو اس کے ذہن میں انتقام کا شدید جذبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جو لوگ اسے نقصان پہنچانا یاقتل کرنا چاہتے ہیں تووہ خود انہیں قتل کر دے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ذہن پر یہ غلط تصور مسلط نہیں ہوتا بلکہ اس کا سر کش جبلی میلان اسے کسی جرم کے ارتکاب پر مجبور کر دیتا ہے۔
فقہاء کرام نے اس قسم کے مریضوں کا حکم مجنون کے ساتھ ملحق کیاہے۔ اب اگر ارتکابِ جرم کے وقت ان میں ادراک مفقود ہے یا ان کا ادراک اس قدر کمزور ہے کہ معتوہ کے درجے پر پہنچ گیا ہے تو وہ فوجداری طور پر مسؤل نہیں ہیں لیکن اس کے لیے نا قص اہلیت اداء ثابت ہوتی ہے مگر اہلیت وجوب مکمل طور پر باقی رہتی ہے۔ اسی بناء پر ان پر ایسے حقوق العباد جن سے مال مقصود ہو واجب ہو نگے لیکن سزائیں اورحدود ثابت نہ ہو گے۔
[عودہ،عبدالقادر، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی،بذیل مادہ نمبر 418، تسلط الأفکار الخبیثۃ،]
۳۔جذبات کی بر انگیختگی
شریعت اسلامیہ میں کوئی ایسا عذر نہیں ہے جو اہلیت وجوب یا اہلیت اداء کے منافی ہو۔ لہٰذا اس صورت میں جب ادراک و اختیار کی موجودگی بھی ہو جو انسان ارتکاب جرم کرے وہ اس جرم کے بارے میں فوجداری اور دیوانی دونوں طرح مسؤل ہے خواہ اس نے جرم کا ارتکاب کسی شدید جذبے کے زیر اثر کیا ہو اور خواہ اس کا یہ جذبہ شائستہ ہو یا کوئی سفلی میلان ہو۔ لہٰذا اگر کسی نے جذبہ انتقام کی شدت کے زیر اثر یا کسی دوسرے شخص کو انتہائی برا محسوس کرتے ہوئے ارتکاب جرم کیا تو وہ جواب دہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی سے کوئی شخص شدید محبت رکھتا ہو اور وہ اسے اس کے تکالیف و مصائب سے نجات دلانے کے لیے قتل کر دے۔ تو وہ بھی مسؤل ہو گا۔ عرض جذبات کی شدت خواہ کسی درجے پر پہنچ جائے۔ مر تکب جرم فوجداری طور پر مسؤل ہے اور دیوانی طور پر بھی البتہ اگر تعزیری سزا ہو تو اس میں یہ عارضہ شدیدہ شر یعت کی نظر میں مؤثر ہو سکتا ہے۔ مگر حدود میں جذبہ شدید نہ مسؤلیت پر اثر انداز ہے اور نہ سزا پر۔
شدید جذبات کی برانگیختگی شر یعت کی نظر میں نہ تو ارتکاب جرم کا جواز بنتا ہے اور نہ فو جداری مسؤ لیت سے مانع ہے۔ اگر اس کی کچھ تا ثیر ہے تو وہ تعزیری سزا میں ظاہر ہوتی ہے۔ مگر حدود میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔
ظلم و اعتداء کے شدید خوف سے فو جداری مسؤ لیت ختم ہو جاتی ہے۔ بشر طیکہ مدافعت کی حالت شرعی موجود ہو یا اکراہ کی صورت ہو۔
مروجہ ملکی قوانین میں بھی شر یعت اسلامیہ کی طرح شدید جذبات کا اہلیت پر اور مسؤ لیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا تاہم اگر عدالت محسوس کرے تو یہ جذبات سزا کی تخفیف کا سبب بن سکتے ہیں۔ البتہ بعض قوانین حالت اشتعال کو قانونی عذر مانتے ہیں جیسے فر انسیسی قانون جرائم قتل اور ضرب میں اشتعال کو بطور عذر تسلیم کرتا ہے اور جیسے مصری قانون حالت ِ ارتکاب زنا کو شوہر کے لیے عذر خیال کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اس کے آشنا کو قتل کر دے۔
[عودہ،عبدالقادر، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی، بذیل مادہ نمبر ۴۲۴، ھیاج العواطف، ۱/٥٩٢]
۴۔حرکت نومیہ (یقظۃ النوم)
یاتی بعض الناس افعالا وھو نائم دون ان یشعر‘ ویغلب ان تکون الحرکات التی یاتی بھا النائم تردیدا للحرکات التی اعتاد ان یأتیھا فی الیقظۃ۔ولکن یحدث ان یاتی بحرکات مخالفۃ لاعلاقۃ لھا بالحرکات التی یاتیھا وھو متیقظ۔
ترجمہ:۔
عض اشخاص غیر شعوری طور پر سوتے ہوئے کوئی فعل انجام دیتے ہیں اور ان کی یہ حرکات ان حرکات کی تر دید ہوتی ہیں جو وہ حالت ِبیداری میں کرتے ہیں۔ مگر کبھی وہ حالت ِ خواب میں ایسی حرکات کرجاتے ہیں جن کا بیداری کی حالت کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
[عودہ،عبدالقادر، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی:۱/٥٩٠]
اس ضمن میں سائنسی نقطہ نگاہ سے عالم خواب میں چلنے پھرنے یا کچھ کرنے کی تو جیہہ یہ ہے کہ انسان کی تمام صلا حیتیں نیند سے متاثر نہیں ہوتیں۔ بلکہ بعض صلا حیتیں کسی نہ کسی درجے میں بیدار رہتی ہیں اور کبھی یہ صلاحیتیں غیر معمولی طور پر بیدار رہتی ہیں اور اس صورت میں سونے والا ایسے اعمال انجام دے لیتا ہے۔ جن کا اسے پتہ بھی نہیں چلتا اور جب یہ حالت ختم ہو جاتی ہے۔ تو پھر اپنی طبعی حالت پر آ جاتا ہے اور بیدار ہونے کے بعد اسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ عالم خواب میں وہ کیا کرتا رہا ہے۔
شر یعت اسلامیہ میں ایک عمومی اصول یہ ہےکہ نائم یعنی سونےوالے پر سزا نہیں ہے کیونکہ ارشاد نبویﷺ ہے:
”رفع القلم عن ثلاث عن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یکبر وعن المجنون حتی یعقل او یفیق“۔
ترجمہ:
تین افرادکے اعمال نہیں لکھے جاتے۔ ۱۔سونے والے کے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ ۲۔ بچے کے یہاں تک کے بالغ ہو جائے۔ ۳۔اور مجنون کے یہاں تک کہ اُسے فاقہ ہو جائے۔
[ابوداؤد، سلیمان بن الاشعث ،السجستانی ،(م-275ھ )السنن،( مکتبہ العصریہ،بیروت )(باب ماجاء فی المجنون)، حدیث نمبر 4401]
[النسائی،ابوعبدالرحمٰن،احمد بن شعیب،(م-302ھ)،السنن،(مطبع مجتبائی،دہلی،1991ء)،( کتاب الطلاق،باب مالایقع طلاقہ من الازواج،حدیث نمبر3465]
اگرچہ حدیث میں حالت نوم اور حالت جنون کو ایک ساتھ بیان کر کے ان کا ایک ہی حکم بیان کیا گیا ہے۔ مگر فقہاء کرام حالت نوم کو اکراہ کے ساتھ ملحق کرتے ہیں۔ جنون کے ساتھ ملحق نہیں کرتے اور شاید اس کی حکمت یہ ہے کہ نائم متیقظ یعنی خواب میں جا گنے والے میں اد راک نوم موجود ہے مگر اختیار موجود نہیں ہے کیونکہ وقت عمل اس کے اپنے ارادے کو کوئی دخل نہیں ہوتا مگر اس کا ادراک موجود ہوتا ہے کیونکہ وہ نا سمجھی کے کام نہیں کرتا بلکہ اُسے مفید اور غیر مفید امور کی تمیز ہوتی ہے اور نقصان دہ امور سے اجتناب کرتا ہے۔
تاہم مروجہ قوانین میں یہ حالت جنون کے ساتھ ملحق ہے اوران کا اساس یہ ہے کہ نائم کا ادراک اور اختیار دونوں مفقود ہوتے ہیں اوراُسکےمیلانات اُس کے عضلات کو حرکت دیتے ہیں۔ مگر وہ خود اپنے عمل کو نہ دیکھتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔
عرض یہ کہ اس مسئلے میں شر یعت اسلامیہ اور مروجہ قوانین میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اکراہ اور جنون سے شر یعت میں بھی سزاختم ہو جاتی ہے اور مروجہ ملکی قوانین میں بھی۔ اس لیے نائم کو خواہ مکرہ سمجھا جائے یا مجنون بہر صورت اس کے ان جرائم پر سزا نہیں ہے جن کا وہ حالت خواب میں ار تکاب کرے اور اس صورت میں وہ معذور سمجھا جائے گا۔
[عودہ،ایضاً،التشریع الجنائی الاسلامی ، بذیل مادہ نمبر 422، الحرکۃ النومیۃ]
مسمر یزم (عمل تنویم)
یہ مصنوعی نیند کی ایک صورت ہے جس میں ایک شخص عمل تنویم کرنے و الے کے اس طرح زیر اثر آ جاتا ہے کہ اس عمل کے دوران یا اس کے بعد عمل کرنے والا معمول کو جو بھی حکم دے وہ اُسے غیر شعوری طور پر اور بالکل مشینی انداز میں انجام دیتا ہے اور وہ عمل کرنے والے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اگرچہ ابھی تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ عمل تنویم کے دوران معمول پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے۔ مگر بعض اطباء کا خیال ہے کہ معمول حکمِ جرم کی خلاف ورزی کر سکتاہے۔ اس حالت پر اگر قواعد شر عیہ کی تطبیق کی جائے تو اس عمل تنویم کو طبعی نوم کے ساتھ ملحق کرنا چاہیے اس لیے معمول مکرہ ہے اور حالت اکراہ میں سزا نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمل تنویم کو جنون کے ساتھ ملحق کرنا دشوار ہے کیونکہ مصنوعی نیند سے ادراک ختم نہیں ہوتا صرف اختیار ختم ہو جاتا ہے۔
بیشتر ماہرین قانون کی رائے اس ضمن میں شر یعت اسلامیہ کے مطابق ہے چنانچہ ماہرین قانون عمل تنویم کو اکراہ کے ساتھ ملحق کرتے ہیں اگرچہ اس پر گفتگو جنون کے ذیل میں کرتے ہیں۔
عمل تنویم کا یہ حکم بایں صورت ہے کہ معمول کو جبرا ً معمول بنا یا گیا ہو یا عمل تنویم سے قبل معمول کا ارتکابِ جرم کے بارے میں کوئی ارادہ نہ ہو لیکن اگر معلوم ہو کہ عامل کا مقصد اُسے ارتکابِ جرم کی جانب متوجہ کرنا اور آمادہ کرنا ہے اور اس کے باوجود وہ عمل تنویم کو قبول کرے تو وہ ارتکاب جرم کو قصداکرنے والا متصور کیا جائے گا اور اس تنویم کو ایک وسیلہ سمجھا جائے گا اور وہ شر یعت کے عام اصولوں کے مطابق مسؤل ہو گا۔ اس ضمن میں مروجہ قوانین بھی شر یعت اسلامیہ سے متفق ہیں۔
[عودہ،ایضاً،التشریع الجنائی الاسلامی: بذیل مادہ نمبر 423، التنویم المقناطیسی، ۱/591ومابعد]
۶۔ضعف ِ تمیز
بعض لوگوں میں مجنون اور معتوہ سے زیادہ ادراک موجود ہوتا ہے۔ مگرایسا ادراک نہیں ہوتا جیسا ایک مکمل انسان میں ہونا چاہیے چنانچہ ایسے لوگوں میں ادراک اور تمیز کی کمی ہوتی ہے اور اس کمزور ادراک کی بناء پر کسی فعل کی جانب تیزی سے سبقت کرجاتے ہیں۔تاہم ارتکاب جرم کے وقت ان میں اپنے فعل کا ادراک اور تمیز کچھ نہ کچھ موجود ہوتی ہے۔
اس ضمن میں قوانین شریعت اورمروجہ قوانین ایک دوسرے کےمطابق ہیں اوران قوانین کی روسےیہ کمزور ادراک والے سزا سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔اسی طرح جدید مروجہ قوانین میں بھی کمزور ادراک کے حامل لوگ سزا سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
البتہ بعض ماہرین فاعل کو معذور خیال کرتے ہوئے تخفیف سزا کے قائل ہیں۔ جبکہ دیگر ماہرین سزا میں شدت کے قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک سخت سزا اس قسم کے لوگو ں کو ارتکاب جرم سے باز رکھے گا۔
علاوہ ازیں قواعد شرعیہ کے مطابق تعزیراتی سزاؤں میں تخفیف ہو سکتی ہے مگر حدود و قصاص میں نہ تخفیف ہو سکتی ہےاورنہ انہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ جرائم انتہائی شدید ہیں اوراشخاص اور امن عامہ سے ان کا گہرا تعلق ہے۔
[عودہ،ایضاً،التشریع الجنائی الاسلامی: بذیل مادہ نمبر 423، التنویم المقناطیسی، ۱/589]
۷۔گونگے بہرے انسان
گونگے بہرے انسان اپنے جرائم کے بارے میں فو جداری طور پر مسؤل ہیں۔ بشر طیکہ وقت ارتکابِ جرم ان میں ادراک و اختیار موجود ہو۔ اگر ان کی حالت ان کے ادراک پر اس حد تک اثر انداز ہو جائے کہ انہیں مجنون اور معتوہ کے درجے میں تصور کیا جا سکے تو ان پر مسؤ لیت نہیں ہے۔
امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ گونگے بہرے لوگوں سے حدساقط ہے اور انہیں صرف تعزیزی سزا دی جائے گی اگرچہ وہ اقرار جرم بھی کر لیں کیونکہ گو نگا بہرا ہونا شبہ ہے اور ان کا اقرار اشارے سے ہوتا ہے۔ممکن ہے کہ ان کا اپنے اشارے سے کوئی اور مفہوم مراد ہو۔ نیز یہ کہ اگر وہ بول سکتے تو انہیں الزام کو رد کرنے اور شاہدوں (گواہوں) پر جرح کرنے کا اختیار ہوتا۔ ائمہ ثلاثہ کی رائے اس کے بر خلاف ہے۔ چنانچہ یہ ائمہ گونگے بہرے کے اشارے کو درست تسلیم کرتے ہیں اور سقوطِ حد کے قائل نہیں ہیں۔چنانچہ یہ فرماتے ہیں۔
الاشارۃ المعھودۃ للاخرس کالبیان باللسان۔
[الاتاسی،محمد خالد،شرح المجلہ لاحکام العدلیۃ،( مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ، 1403ھ)، ۱/193
تنزیل الرحمن، جسٹس، قانونی لغت،(پی ایل ڈی پبلشرز،لاہور،2011ء،چودھواں ایڈیشن) ، ص554]
یعنی گونگے کا معین اشارہ زبان سے بیان کرنے کی مانند ہے۔یہاں تک کہ نکاح وطلاق، خریدو فروخت، رہن وھبہ، اقرار ویمین میں اس پر احکام صادر ہوں گے۔
[عودہ، ایضاً، التشریع الجنائی الاسلامی، بذیل مادہ نمبر 421، الصم البکم، ۱/589 ومابعد]
قانونی عذر کے اطلاق سے متعلق قواعد فقہیہ کا تعارف
قانونی عذر کے اطلاق سے متعلق فقہ اسلامی کے بہت سارے فقہی قواعد ہیں جن کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل ہے:
۱۔ماجاز لعذر بطل بزوالہ۔
(جو امر کسی عذر کے سبب جائز ہوا ہو۔ وہ اس عذر کے زائل ہونے کے ساتھ ہی باطل ہوجاتا ہے)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ ، ۱/59۔60]
یعنی جب کوئی چیز عذر کی وجہ سے جائز ہوجاتی ہو تو جب وہ عذر ختم ہوجائیں اور اصل پر عمل کرنا ممکن ہو تو پھر اصل پر عمل کرنا ضروری ہوگا وگرنہ اصل اور خلف کا جمع ہونا لازم آئے گا جیسے حقیقت اور مجاز کو ایک وقت میں جمع کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ قاعدہ ہے جب تک حقیقت پر عمل کرنا ممکن ہو تو مجاز کی طرف نہیں جائیں گے۔ لیکن جب حقیقت پر عمل کرنا متعذر ہوجائے تو پھر مجاز کی طرف جا سکتے ہیں۔مثلاً
العاری اذا وجد ثوبا یستر عورتہ لان الطھارۃ والستر والقیام والقرا ء ۃ فرض علی القادر علیھا والسقوط عن ھٰؤلاء للعجز وقد زال۔یعنی جب شرعی لباس پر قادر نہ ہونے والے کو اسی حالت میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر جب وہ اتنے کپڑے پر قادر ہوجائے جس سے وہ ستر چھپا سکے تو پھر ستر کا چھپانا اس پر لازم ہوجاتا ہے اور پھر بغیر ستر چھپائے نماز نہیں ہو گی۔ کیونکہ طہارت‘ ستر کا ڈھانپنا‘ قیام‘ قرات‘ فرض ہے۔اور جو کوئی اس پر قادر نہ ہو تو اس کے لئے عجز کی وجہ سے گنجائش ہے مگر جب یہ عجز زائل ہوجائیں تو پھر فرض پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اسی طرح متیمم جب پانی پالے تو اُس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔اسی طرح اشارہ کے ساتھ نماز پڑھنے والا جب رکوع سجود پر قادر ہوجائے تو اس کی نماز اشارے سے نہیں ہوگی۔ وگرنہ پھر اصل اور فرع کا جمع ہونا لازم آئے گا۔
۲۔الضرورات تبیح المحظورات۔
( ضرورتیں محظورات (ممنوعات) کو جائز کر دیتی ہیں)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ:۱/۵۵]
یہ قاعدہ دراصل قرآنِ کریم کی آیت سے ماخوذ ہے اور اللہ کا قول ہے
اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ۔
[سورۃ الانعام 119]
اور اضطرار حاجت شدیدہ کو کہتے ہیں جبکہ ممنوع چیز کے کرنے سے منع کیا گیا ہے مگر یہی ممنوع چیز ضرورت کے وقت جائز ہوجاتی ہے جیسے کہ شدید بھوک کی حالت میں مردار کا کھانا۔اورشراب کا پینا شدید پیاس کی حالت میں۔
۳۔الضرورات تقدر بقدرھا۔
(ضرورتوں کی مقدار اُن کے اندازہ کے اعتبار سے متعین کی جاتی ہے)
[امام ابن نجیم(-970ھ)،الاشباہ والنظائرعلی مذہب ابی حنیفۃ النعمان،(دارالکتب العلمیہ،بیروت،1419ھ):87، تنزیل الرحمن، ایضاً،قانونی لغت ، ص۵۳۵]
ضرورت کے وقت ممنوع چیز کے مباح ہونے کی مقدار معین ہے اور اس سے تجاوز نہیں کر سکتے جیسا کہ شدید بھوک کی حالت میں مردار کا کھانا اتنا جائز ہے جس سے ہلاکت سے بچ جائے۔اور اسی قاعدہ پر بڑے سارے فقہی مسائل کا دارومدار ہے۔
۴۔المشقۃ تجلب التیسیر۔
یعنی ان الصعوبۃ تصیر سبب للتسھیل ویلزم التوسیع فی وقت المضایقۃ یتفرع علی ھذا الاصل کثیر من الاحکام الفقھیۃ کالقرض والحوالۃوالحجروغیرذالک وماجوزہ الفقھاءمن الرخص والتخفیفات فی الاحکام الشرعیۃمستنبط من ھذہ القاعدۃ۔
ترجمہ:
(مشقت آسانی کو پیدا کرتی ہے یعنی سختی سہولت کی موجب ہوتی ہے اور تنگی کے وقت میں وسعت ضروری ہوجاتی ہے۔ اس کلیہ پر بہت سے فقہی احکام مبنی ہیں مثلاً قرض‘ حوالگی اور حجر (محرومی) وغیرہ اور فقہاء نے شرعی احکام میں جورخصتیں اور سہولتیں جائز کی ہیں وہ اسی قاعدے سے مستنبط ہیں)
[۔ابن نجیم، ایضاً ،الاشباہ والنظائر:87، تنزیل الرحمن،قانونی لغت: ص534]
۵۔ما حرم فعلہ حرم طلبہ۔
( جس کام کا کرنا حرام ہوں۔ اُس کام کو طلب کرنا بھی حرام ہے)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ، ۱/78]
ہر وہ شی ئجس کا کرنا (مرتکب ہونا) ناجائز ہوں۔اس کا دوسرے سے طلب عمل بھی ناجائز ہے۔ چاہے اس کا تعلق قول سے ہو یا عمل سے ہو۔ بایں صورت کہ وہ واسطہ ہو یا ذی واسطہ ہو۔
جیسے انسان پر ظلم کرنا حرام ہے۔ اور رشوت لینا‘جھوٹی گواہی دینا‘ جھوٹی قسمیں کھانا حرام ہے۔ اسی طرح اوروں سے طلب کرنا بھی حرام ہیں۔
کہ دوسرے کو ان کے کرنے کا حکم دیں۔ یا شوق دلائیں یا اس کے لئے آلہ یا واسطہ بن جائے۔
۶۔الاشارات المعھودۃ للاخرس کالبیان باللسان۔
(گونگے کے معین اشارات زبان سے بیان کرنے کے مانند ہے)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ:۱/193، ابن نجیم،الاشباہ والنظائر:87]
تشریح:گونگےکےلئےمعین اشارات جوعرف میں عام ہوں۔ جیسےاشارہ کرناآنکھ سے یا سر سے یا ہاتھ اور پیر سے تو یہ نطق”کلام“کےحکم میں ہیں۔ یہاں تک کہ نکاح وطلاق،خریدوفروخت،رہن وھبہ،اقرارویمین میں اس پراحکام صادر ہوں گے۔
۷۔البینۃ حجۃ متعدیۃ والاقرار حجۃ قاصرۃ۔
( گواہ دلیل متعدیہ ہوتا ہے جب اقرار دلیل قاصرہ ہے)
[تنزیل الرحمن، ایضاً، قانونی لغت، ص۵۴۵۔546]
تشریح:گواہ دلیل متعدیہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک گواہ کسی معاملے میں جو گواہی دیتا ہے۔ وہ اپنے اثرات ونتائج کے اعتبار سے محض فریقین مقدمہ پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی۔ بلکہ دیگر افراد ومعاملات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مثلاً کسی مقدمے میں یہ گواہی دی جائے کہ زید عمر کا بیٹا ہے۔ تو اس سے نہ صرف زید کا نسب ثابت ہوگا۔ بلکہ اس دلیل کے نتیجے میں زید عمر کا وارث بھی تسلیم کیا جائے گا۔
حجۃ قاصرہ سے مراد یہ ہے کہ اقرار کا اثر مقرتک محدود رہتا ہے۔ اس کااثر کسی دوسرے شخص کی طرف متعدی نہیں ہوتا۔ یعنی اقرار صرف اس شخص کے حق میں معتبر ہے جو اقرار کررہا ہو۔ اگر اس اقرار کا اثر کسی دوسرے شخص کے حق پر پڑتا ہو تو اس دوسرے شخص کے حق میں اس کا اعتبار نہیں کیونکہ مقرکو اپنے علاوہ دوسرے پر ولایت نہیں ہوتی۔ اس لیے مقرکی ذات پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔
اس حوالہ سے جب فقہی اور قانونی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اقرار کا دائرہ مقر کی ذات تک محدود ہے یا کوئی بھی شخص (مقر) اپنے اقرار پر ماخوذ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عدالت کی نگاہوں میں اگر کوئی مقر دوسرے کو اپنے اقرار میں اپنا شریک جرم (Accomplice) قرار دینا چاہے تو عدالت اس کو شریک جرم قرار نہیں دے گی کیونکہ حجت قاصرہ کے طور پر اقرار ثانی الذکر شخص کے حق میں عذر ہے۔
۸۔المرء مواخذ باقرارہٖ۔
( آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ ، ۱/226]
شرعی طور پر اقرار حق غیر کو اپنے نفس پر ثابت کرناہے کہ جب خبر سچ وجھوٹ کے درمیان متردّد ہوں تو اس وقت مرد کے اقرار کا اعتبار ہوگا۔اور جب اس نے اقرار کر لیا تو پھر رجوع نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ رجوع میں تضاد ہے۔مثلاً زید عمر کے لئے ایک ہزار روپے کا اقرار کرتا ہے تو پھر اپنے اس اقرار سے رجوع نہیں کر سکتا۔
۹۔الاضطرار لایبطل حق الغیر۔
یتفرع علی ھذہ القاعدۃ انہ لو اضطر انسان من الجوع فاکل طعام الاخر یضمن قیمتہ۔
ترجمہ:
اضطرار دوسرے کا حق باطل نہیں کرتا۔ اس قاعدہ پر یہ امر مبنی ہے کہ جب انسان بھوک سے بیتاب ہو اور کسی دوسرے شخص کا کھانا کھالے تو اس کھانے کی قیمت اس کے ذمہ واجب ہو گی۔
[۔تنزیل الرحمن، ایضاً، قانونی لغت، ص537]
۱۰۔الضرر لایکون قدیما۔
(ضرر قدیم نہیں ہوتا)
[الاتاسی، ایضاً ،شرح المجلہ، ۱/24]
تشریح:یعنی ہر وہ شی جو غیر مشروع ہوں۔ اور اس میں ضرر ہوں۔تو وہ زائل ہوجائیگا۔ اور قدیم اور جدیدمیں کوئی فرق نہیں اس لئے کہ ضرر دونوں میں مشترک علت ہیں۔
۱۱۔لا حجۃ مع الاحتمال الناشئی عن دلیل۔
(جو احتمال دلیل سے پیدا ہو وہ دلیل نہیں بن سکتا)
[تنزیل الرحمن، ایضاً ،قانونی لغت، ص544]
مثلاً ایک شخص نے مرض الموت میں اپنے ایک وارث کے قرض کا اقرار کیا تو وہ اقرار اس وقت تک صحیح نہ ہوگا جب تک دوسرے ورثاء اس کی تصدیق نہ کر دیں کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ مریض نے اس اقرار قرض سے دوسرے تمام ورثاء کو ورثہ سے محروم کردینے کا ارادہ کیا ہو۔اور اس حوالے سے یہ احتمال دیگر ورثاء کے حق میں عذر متصور ہوگا جیسے کہ طلاق فار مطلقہ کے حق میں۔ کیونکہ وہ اقرار بحالت مرض الموت کیا گیالیکن اگر قرض کا اقرار صحت وتندرستی کے زمانہ میں کیا گیا ہو تو ایسا اقرار جائز ہوگا کیونکہ صحت کی حالت میں دوسرے تمام ورثاء کو محروم کر دینے کے ارادہ کا محض احتمال ایک وہم ہے اور وہم اقرار کی دلیل میں مانع نہیں ہو سکتا۔
مروجہ ملکی قوانین اور عذر:
قانونی لغات کی رو سے عذر کی تعریف:
قانونی اعتبار سے جب عذر کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد کوئی ایسا قانونی وجہ ہوتی ہے جو قانون کی نظر میں قابل توجہ ہو۔ اور جسے قانون بطور عذر تسلیم کرتا ہو۔
[تنزیل الرحمن، ایضاً ،قانونی لغت، بذیل مادہ Lawful, Excuse ، ص216]
اسی طرح ایک معنی یہ بیان کیا گیا ہے
العذر تعذر علیہ الامر بمعنی تعسر علیہ۔
ترجمہ:
عذر کا مطلب ہے جب کسی پر کسی امر کا بجا لانا شاق گزرے یعنی وہ اس کے لئے مشکل بن جائے۔
[فیروز آبادی، محمد بن یعقوب،(م۔817ھ)،القاموس المحیط،مذکور، بذیل مادہ،عذر]
المعجم الوسیط میں بھی بذیل مادہ عذر یہی معنی کئے گئے ہیں۔
[ابراہیم مصطفی،احمد الزیات،حامد عبدالقادر،محمد النجار،مجمع اللغۃ العربیۃ بالقاہرہ،المعجم الوسیط،(دارالدعوۃ،مصر)،بذیل مادہ، عذر]
EXCUSE.A Lawful Excuse is a defence that may be raised by the defendant at trial. The onus/burden is on the defendant that even though they were breaking a law, they have a legal reason why they did it, and thus should not be found guilty. Example. Medical Emergency, if you get a ticket for speeding, but the reason you were speeding was you that were driving a very sick friend to the hospital.An Excuse is essentially a defence for an individual's conduct that is intended to mitigate the individual's blame - worthiness for a particulars act or to explain why the individual acted in a specific manner. A driver sued for negligence, for exmaple, might raise the defence of excuse if the driver was rushing an injured person to a hospital.[zaka336@gmail.com (10-9-2013) Time: 8:16pm]
مذکورہ عبارت میں کہا گیا ہے کہ Lawful Excuse ایک دفاعی طریقہ ہے۔ البتہ اِس اَمر کی ذمہ داری، بہرحال، مدعا علیہ پر ہے کہ وہ ثابت کرے گا کہ اگر وہ قانون شکنی کا ملزم ہے تو اس کے پاس قانونی جواز موجود ہے جس کی بنا پر اُسے مجرم قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ اس کی مثال میڈیکل ایمرجنسی کی ہے، اگر آپ کا مقررہ حد رفتار سے زائد گاڑی چلانے پر چالان کیا جاتا ہے تو آپ اس عذر کی وجہ سے اپنا دفاع کر سکتے ہیں کہ آپ نے ایسا مجبوری کی وجہ سے کیا۔ اور وہ مجبوری یہ تھی کہ ایک انتہائی بیمار دوست کو جلد از جلد ہسپتال پہنچا کر اس کی جان بچانا چاہتے تھے۔
دراصل کوئی عذر بنیادی طور پر اس لئے ہوتا ہے کہ کسی فرد پر لگائے گئے الزام کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ کسی خاص معاملہ میں ایک طرزِ عمل کی وضاحت کرکے دفاع کیا جا سکے۔مثلا اگر ایک ڈرائیور پر غفلت کے مرتکب ہونے کا کیس ہو تو وہ اپنے دفاع میں یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ اس نے ایسا مجبوری کی وجہ سے کیا تاکہ ایک زخمی کو فوری طور پر ہسپتال پہنچا سکے۔