- عذر، حیلہ، بہانہ، معافی، درگزر
سیاق و سباق اور محرکات کے لحاظ سے عذر قبول نہ کرنا صحیح اور غلط دونوں ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک متوازن نقطہ نظر ہے:
صحیح:
1. ذمہ داری کی حوصلہ افزائی:
عذر قبول نہ کرنا ذاتی ذمہ داری اور جوابدہی کو فروغ دے سکتا ہے۔
2. ترقی کو فروغ دیتا ہے:
بہانے قبول نہ کرنے سے، افراد اپنی غلطیوں سے سیکھ سکتے ہیں اور مسائل حل کرنے کی مہارتیں تیار کر سکتے ہیں۔
3. حدود طے کرتا ہے:
واضح توقعات قائم کرنا اور عذر قبول نہ کرنا تعلقات میں صحت مند حدود قائم کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔
غلط:
1. ہمدردی کی کمی:
عذر قبول نہ کرنا غیر حساس یا غیر ہمدردی کے طور پر سامنے آسکتا ہے، خاص طور پر اگر کسی کو حقیقی چیلنجوں کا سامنا ہو۔
2. غیر حقیقت پسندانہ توقعات:
دوسروں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کبھی غلطیاں نہ کریں یا توقعات پر پورا نہ اترنے کی معقول وجوہات ہوں تو یہ غیر حقیقی ہو سکتا ہے۔
3. دفاعی پن پیدا کرتا ہے:
عذر قبول نہ کرنا دفاعی اور جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بن سکتا ہے، تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
متوازن نقطہ نظر:
1. فعال طریقے سے سنیں:
اس شخص کی بات سنیں اور اس کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
2. عذر کا اندازہ:
اندازہ لگائیں کہ آیا عذر درست ہے یا نہیں۔
3. سپورٹ کی پیشکش:
اگر عذر درست ہے، تو مدد کی پیشکش کریں اور اس شخص کی مدد کریں جس کا حل تلاش کریں۔
4. واضح توقعات قائم کریں:
سمجھنے اور ہمدرد ہونے کے ساتھ ساتھ واضح توقعات اور نتائج قائم کریں۔
متوازن انداز اپنانے سے، آپ ہمدردی اور سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذاتی ذمہ داری کو فروغ دے سکتے ہیں۔
مَعْذَرَت عربی لفظ ہے، اس کے معنیٰ ہیں:
الزام سے بری ہونا، عذر قبول کرنا۔
اعتذار کے معنیٰ ہیں:
عذر بیان کرنا۔
لہٰذا
معذرت و اعتذار کے مرادی معنیٰ ہیں:
”اپنی کسی غلطی یا کوتاہی کا عذر یا جواز (Justification) پیش کرنا، اسی کو ”عذر تراشنا یا بہانے بازی کہتے ہیں۔
قرآنِ کریم منافقین کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
”اور ان میں سے بعض نے اللہ تعالی سے عہد کیا: اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں (مال) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور ہم ضرور نیکوکاروں میں سے ہو جائیں گے، پھر جب انہیں اللہ نے اپنے فضل سے مال عطا فرمایا تو انہوں نے بخل کیا اور اپنے عہد سے پھر گئے اور وہ روگردانی کرنے والے تھے۔
[سورۃ التوبہ: 75-76]
منافقین ہر حال میں مومنوں پر طعن کرتے تھے، اللہ تعالی نے فرمایا:
یہ (منافق) اللہ کی راہ میں صدقات دینے والے مومنوں کو طعنہ دیتے ہیں اوران پر بھی جو (صدقہ دینے کے لیے) اپنی مزدوری کے سوا کچھ نہیں پاتے، تو یہ منافق ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ انہیں ان کے مذاق اڑانے کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
[سورۃ التوبہ:79]
یعنی جو صحابہ کرام اللہ کی راہ میں وافر مال دیتے، ان پر ریاکاری کا طعن کرتے اور جو صحابہ کرام نادار ہونے کے سبب اپنی روز کی مزدوری میں سے کچھ حصہ دیتے، تو ان پر طعن کرتے کہ ایک دو کلو کھجوروں سے کیا حاصل ہو جائے گا، الغرض مخلص مومنین کی کوئی بھی خصلت انہیں پسند نہ تھی اور ان پر طعن کرنا ان کا شعار تھا۔
جو مخلص اہلِ ایمان جہاد میں نہ جانے کے لیے معقول اور مقبول عذر رکھتے تھے، ان کی بابت اللہ تعالی نے فرمایا: ” کمزوروں، بیماروں اور ان پر جو خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، (جہاد میں شریک نہ ہونے پر) کوئی حرج نہیں ہے،جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اخلاص سے عمل کریں اور نِکوکاروں پر بھی کوئی ملامت نہیں ہے اور اللہ نہایت بخشنے والا، بہت مہربان ہے اور ان پر بھی کوئی الزام نہیں ہے،جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ان کے لیے سواری کا بندوبست کر دیں، تو آپ فرماتے ہیں:
میرے پاس تمہاری سواری کا کوئی بندوبست نہیں ہے، تو وہ اس حال میں لوٹتے ہیں کہ غم کے مارے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں کہ وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، البتہ وہ لوگ قابلِ ملامت ہیں جو مالدار ہوتے ہوئے آپ سے (ترکِ جہاد کی) رخصت طلب کرتے ہیں، وہ اس بات پر راضی ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ (گھروں میں) رہیں اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، پس وہ کچھ نہیں جانتے۔
[سورۃ التوبہ: 91-93]۔
غزوہ تبوک کو ”جیش العسر بھی کہا جاتا ہے، یعنی ایسا لشکر جو نہایت عسرت اور تنگی کے زمانے میں ترتیب دیا گیا، اس کا پس منظر یہ ہے: ”یہ خبر آئی کہ قیصر نے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے ایک بہت بڑا لشکر ترتیب دیا ہے، تو رسول اللہۖ نے صحابہ کرام کو جہاد کی ترغیب دی اور مدینہ منورہ میں رہ کر دفاع کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا، اللہ تعالی کے فضل وکرم سے یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی اور دشمن کو مقابلے میں آنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔
آج کل معذرت بھی مشروط ہوتی ہے، یعنی کہنے والا کہتا ہے: ”اگر میری بات سے کسی کی یا فلاں شخص کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں، اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی بات کی صحت پر اصرارکر رہا ہے اوراس کے کلام سے جو معنی ہر سننے اور پڑھنے والے کو واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے، اسے ان کے فہم کا قصور قرار دیتا ہے، لہذا یہ معذرت کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہے۔ معافی اسے کہتے ہیں: ”جب انسان اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اس پر نادم ہو اور غیر مشروط طور پر اس کی معافی مانگے۔ غزوہ تبوک سے سوائے تین افراد کے اسی کے لگ بھگ افراد کسی عذرِ معقول و مقبول کے بغیر جان بوجھ کرجہاد سے پیچھے رہ گئے تھے، یہ لوگ منافق تھے، جب مسلمان سرخرو ہو کر واپس آئے تو قرآن نے ان کی بابت رسول اللہۖ کو پیشگی بتا دیا:
(مسلمانو!) جب تم ان (منافقین) کی طرف لوٹ کر جائو گے تو وہ تمہارے سامنے بہانے بنائیں گے، آپ کہہ دیجیے: تم بہانے نہ بنائو، ہم ہرگز تمہاری بات کا یقین نہیں کریں گے، اللہ نے ہمیں تمہارے حالات پر مطلع کر دیا ہے اور اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے طرزِ عمل کو دیکھیں گے، پھر تم اس ذات کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ہر غیب اور ہر ظاہر کا جاننے والا ہے اور تمہیں ان کاموں کی خبر دے گا جو تم کرتے تھے۔
[سورۃ التوبہ:94]
البتہ غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت کی جائے یا معافی مانگی جائے، وہ قابلِ تحسین ہے اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔
احادیث مبارکہ میں ہے:
حضرت جودان بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے اپنے بھائی کے سامنے (اپنی کسی غلطی پر) معافی مانگی اور اس نے یہ معافی قبول نہ کی تو اس پر ایسا ہی گناہ ہوگا جیسے ٹیکس کی وصولی میں خیانت یا زیادتی کرنے والے پر ہوتا ہے۔
[سنن ابن ماجه: 3718]
معذور کا عذر قبول نہ کرنا احساس یا ہمدردی نہ ہونے کی دلیل ہے۔ یہ بات جذبات کو مجروح کرسکتی اور تعلقات کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ لوگ کبھی غلطیاں نہ کریں یا تمام مطالبات وقت پر پورے کریں ایسی توقع رکھنا ناحق(خلافِ حقیقت)ہے۔
(2) ”ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ: نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
تم پاک دامنی اختیار کرتا کہ تمہاری عورتیں بھی پاک دامن ہوں، تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تاکہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کرے اور جو (اپنی کسی غلطی پر) اپنے مسلمان بھائی سے معافی مانگے اور وہ اس کی معافی کو قبول نہ کرے تو وہ میرے حوضِ(کوثر) پر نہیں آئے گا۔
[المعجم الاوسط:6295]
(3) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہۖ نے فرمایا:
جس نے اپنی زبان کو (لوگوں کی پردہ دری سے) روکے رکھا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے پر قابو پایا، اللہ تعالی اپنے عذاب کو اس سے روک دے گا اور جواللہ تعالی کے حضور (اپنی خطاؤں پر) معافی کا طلبگار ہوا، اللہ اس کی معافی کو قبول فرمائے گا۔
[شعب الاِیمان:7958]
(4) وکیع بن الجراح کہتے ہیں: سفیان ثوری بیمار ہو گئے، میں نے ان کی عیادت میں تاخیر کر دی، پھر میں ان کی عیادت کو آیا اور تاخیر پر معذرت کی تو انہوں نے کہا: بھائی! معذرت نہ کرو، بہت سے معذرت کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں، جان لو! دوست سے کوئی حساب طلبی نہیں ہوتی اور دشمن سے خیر کی توقع نہیں ہوتی۔
[شعب الاِیمان: 7995]۔
ابتدائے آفرینش میں ہمارے سامنے دو مثالیں ہیں: آدم و حوا علیہما السلام کو اللہ تعالی نے جنت میں داخل کیا تو اس کی بابت قرآن کریم بیان فرماتا ہے:
اور ہم نے فرمایا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو، کسی روک ٹوک کے بغیر کھاؤ، ہاں! اس (خاص) درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہو جاؤ گے، پھر شیطان نے انہیں اس درخت کے ذریعے پھسلایا اور ان نعمتوں سے باہر نکال دیا جن میں وہ رہتے تھے، پھر آدم و حوا جنت سے نکالے گئے، وہ اپنے کیے پر نادم ہوئے تو اللہ تعالی فرماتا ہے: پھر آدم نے اپنے رب سے (توبہ کے) کلمات سیکھ لیے اور توبہ کی، بے شک وہ بہت توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان ہے۔
[سورۃ البقرہ: 36 تا 37]۔
ان کلماتِ توبہ کی بابت اللہ تعالی نے فرمایا:
”ان دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
[سورۃ الاعراف: 23]۔
الغرض حضرت آدم و حوا علیہما السلام نے اپنی خطائے اجتہادی کو تسلیم کیا اور اس پر اللہ تعالی سے غیر مشروط معافی مانگی تو اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی، اس کے برعکس شیطان نے بھی آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کر کے از راہِ تکبر و استکبار اللہ تعالی کی حکم عدولی کی، تو اللہ تعالی نے اس سے بھی جواب طلبی فرمائی:
جب میں نے تجھے (آدم کو سجدہ کرنے کا) حکم دیا تھا تو تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا، ابلیس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔
[سورۃ الاعراف: 12]
الغرض ابلیس نے اپنے جوہرِ تخلیق کو افضل قرار دیتے ہوئے آدم علیہ السلام پر اپنی برتری ثابت کی، منطق اور دلیل کا سہارا لیا، اللہ تعالی کے حکم کو بلا چون و چرا تسلیم نہ کیا اور قیامت تک کے لیے راندہ درگاہ اور ملعون قرار پایا۔ پس اپنی خطائے اجتہادی کو تسلیم کر کے غیر مشروط طور پر معافی مانگنا آدمیت ہے اور آدم علیہ السلام کی سنت ہے اور اللہ تعالی کے فرمان کو قصداً تسلیم نہ کر کے اس کا جواز پیش کرنا اور عقلی دلیل کا سہارا لینا یہ ابلیس کا وتیرہ ہے اور اسی بنا پر ہمیشہ کے لیے وہ راندہ درگاہ ٹھہرا۔
آج کا مسئلہ یہی ہے کہ لوگ اپنی غلطی کو غیر مشروط طور پر تسلیم کر کے معافی مانگنے پر آمادہ نہیں ہوتے، ان کا عجب و استکبار انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا، وہ بودے دلائل کا سہارا لے کر اپنے نفسِ امارہ اور اپنے چاہنے والوں کو تسکین پہنچاتے ہیں اور وہ بھی ان کی پیروی میں اسی روش کو آگے بڑھاتے ہیں، یہی شعار تمام خرابیوں کی جڑ ہے، جبکہ آدمیت عجز و انکسار کا نام ہے۔ غلطی کو تسلیم کر کے اس کا ازالہ کرنا شِعار آدمیت ہے، افتخارِ آدمیت ہے، وسیلہ نجات ہے اور اسی سے بغض و عداوت اور نفرتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالی کے اسمائے صفات میں ”العفو ہے، یہ ”عفو سے فعول کا وزن ہے جو مبالغہ کے معنی میں آتا ہے، اس کے معنی ہیں: ”گناہ سے درگزر کرنا اور اس پر سزا نہ دینا، اس کے لغوی معنی ہیں: ”مٹا دینا۔
[لسان العرب، ج: 15، ص: 72]
اس کے برعکس صفح کے معنی ہیں: ”کسی کی خطا سے منہ موڑ لینا، یعنی اسے بھلادینا کہ نہ اس کا ذکر کرے، نہ اسے یاد دلائے، نہ اس گناہ پر اسے عار دلائے اور نہ سختی سے پیش آئے۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیبِ مکرمۖ سے فرمایا:
آپ ان کو معاف کیجیے اور درگزر کیجیے، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
[سورۃ المائدہ:13]
یہ بھی ذہن میں رہے کہ شیطان ہمیشہ خیرخواہ کے روپ میں حملہ آورہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
اور شیطان نے کہا: تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے بن جاؤ یا دائمی زندگی پا لو اور ان دونوں کو قسم کھاکر کہا: میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔
[سورۃ الاعراف:20-21]