بھوک کی آزمائش کس کیلئے اور کیوں؟
القرآن:
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155]
مومن کی خوبی» ایک آنت میں کھانا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ﴿حضرت ابوھریرہ ؓ﴾سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الْمُؤْمِنُ﴿الْمُسْلِمُ﴾ يَأْكُلُ﴿يَشْرَبُ﴾ فِي مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ﴿وَالْمُنَافِقُ﴾ يَأْكُلُ ﴿يَشْرَبُ﴾ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ
ترجمہ:
مومن﴿مسلمان﴾ ایک آنت میں کھاتا ﴿پیتا﴾ ہے اور کافر﴿اور منافق﴾ سات آنت میں کھاتا ﴿پیتا﴾ ہے۔
[صحیح مسلم:5379(2060)، سنن الترمذي:1819، موطا مالک:1648، مسند احمد:8866+18982، صحیح ابن حبان:162، مسند ابویعلیٰ:1574]
﴿صحیح ابن حبان:161+5238، مسند احمد:7497+9874﴾
﴿المعجم الكبير-الطبراني:6959، صحیح البخاري:5394﴾
القرآن:
۔۔اور جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ (یہاں تو) مزے اڑا رہے ہیں، اور اسی طرح کھا رہے ہیں جیسے چوپائے کھاتے ہیں ۔۔۔
[تفسیر ابن کثیر»سورۃ محمد:12]
وضاحت:
علماء نے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں: (1) مومن اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرتا ہے، اسی لیے کھانے کی مقدار اگر کم ہے تب بھی اسے آسودگی ہوجاتی ہے، اور کافر چونکہ اللہ کا نام لیے بغیر کھاتا ہے اس لیے اسے آسودگی نہیں ہوتی، خواہ کھانے کی مقدار زیادہ ہو یا کم۔
(2) مومن دنیاوی حرص طمع سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے، اسی لیے کم کھاتا ہے، جب کہ کافر حصولِ دنیا کا حریص ہوتا ہے اسی لیے زیادہ کھاتا ہے۔
(3)مومن آخرت کے خوف سے سرشار رہتا ہے اسی لیے وہ کم کھا کر بھی آسودہ ہوجاتا ہے، جب کہ کافر آخرت سے بےنیاز ہو کر زندگی گزارتا ہے، اسی لیے وہ بےنیاز ہو کر کھاتا ہے، پھر بھی آسودہ نہیں ہوتا۔
مومن کی خوبی»پیٹ نہ بھرنا،پڑوسی کا کھلانا۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِه.
ترجمہ:
وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔
[الصحيحة:149(387)، الأدب المفرد-للبخاري:112، المستدك-الحاكم:7307، السنن الكبري-للبيهقي:19668، المعجم الكبير للطبراني:12741(12573)، مسند أبي يعلى:2699(2638)]
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔
[الصحيحة:1615(3539)، المعجم ابن الأعرابي:21]
جججج
تھوڑے پر قناعت:
حضرت ابو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عرض علي ربي بطحاء مكة ذهبا، فقلت: لا يا رب، ولكني أشبع يوما، وأجوع يوما، فإذا جعت تضرعت إليك وذكرتك وإذا شبعت حمدتك وشكرتك.
ترجمہ:
میرے رب نے مکہ کے پہاڑوں کو سونے کا بنا کر میرے سامنے پیش کیا، تو میں نے عرض کی، نہیں، اے میرے رب! بلکہ میں ایک روز سیر اور ایک روز بھوک سے رہوں، تاکہ جب میں خالی پیٹ ہوں گا تو آپ کی طرف گڑگڑاؤں گا، اور آپ کو یاد کروں گا، اور جب سیر ہوگا تو آپ کی تعریف اور شکر کروں گا۔
[احمد:22190، ترمذی:2347، طبرانی:7835]
القرآن:
اور یہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے ؟ اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہ کر لوگوں کو ڈراتا ؟
[تفسیر البغوی»سورۃ الفرقان:7]
مالداری پر آخرت میں افسوس وحسرت:
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مَا مِنْ أَحَدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ غَنِيٍّ وَلَا فَقِيرٍ، إِلَّا وَدَّ أَنَّمَا كَانَ أُوتِيَ مِنَ الدُّنْيَا قُوتًا".
ترجمہ:
کوئی ایک بھی قیامت کے دن مالدار یا فقیر نہ ہوگا مگر وہ چاہے گا کہ اسے اتنی دنیا جاتی جس سے وہ بس اپنی بھوک مٹا سکتا۔
[مسند احمد:12163، سنن ابن ماجہ:4140 مسند عبد بن حمید:1235، ھناد:596، مسند ابویعلیٰ:4341، شعب الایمان:10378]
کچھ بھوکا رہنے کی فضیلت:
حضرت سلمان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَطْوَلَ النَّاسِ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا
ترجمہ:
قیامت کے روز سب سے زیادہ بھوک والے وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں اکثر پیٹ بھر کر کھاتے ہیں۔
[سنن ابن ماجة:3351، الصحیحہ:343-3372، حاکم:7864، جامع الاحادیث-السیوطی:15531، ترمذی:2478، ابن ماجہ:3350، شعب الإيمان:5646، المعجم الاوسط للطبرانی:4109]
يَا سَلْمَانُ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ۔
ترجمہ:
اے سلمان! دنیا قیدخانہ ہے مومن کا، اور جنت ہے کافر کی۔
[طبرانی:6183، جامع الاحادیث-السیوطی:4275]
کھانے میں اعتدال پر قائم رہنا۔
يا أبا جحيفة أقصر من جشائك فإن أطول الناس جوعا يوم القيامة﴿الآخرۃ﴾ أكثرهم شبعا في الدنيا۔
ترجمہ:
اے ابو جحیفۃ! کم کرو ﴿روکے رکھو ہم سے﴾ اپنی ڈکار، (کیوں) کہ قیامت﴿آخرت﴾ میں لمبی بھوک والے وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں اکثر پیٹ بھر کر کھاتے ہیں۔
[﴿حاکم:7864-7140، المعجم الکبیر طبرانی:351-327، المعجم الاوسط للطبرانی:3746، شعب الإيمان:5643-5642-5644، جامع الاحادیث:4214﴾]
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا، تو آپ نے فرمایا: تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا۔
[سنن الترمذي:2478، سنن ابن ماجة:3350]
دنیا مچھر سے بھی حقیر ہے
حضرت ابو جحیفہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إن أطول الناس جوعا يوم القيامة أكثرهم شبعا في الدنيا۔
ترجمہ:
سب سے لمبا وہ لوگ بھوکے ہوں گے قیامت کے دن جو دنیا میں اکثر پیٹ بھر کر-خوب سیر ہو کر کھاتے ہیں۔
[الطبرانى:327، شعب الإيمان:5642، جامع الاحادیث-السیوطی:6073، کنزالعمال:6218]
عامر بن قیس روایت کرتے ہیں صحابہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إن أطولكم حزنا فى الدنيا أطولكم فرحا فى الآخرة وإن أكثركم شبعا فى الدنيا لأكثركم جوعا فى الآخرة
ترجمہ:
بےشک سب سے زیادہ لمبے غم والے دنیا میں سب سے زیادہ فرحت میں ہوں گے آخرت میں، اور بےشک دنیا میں تمہارے اکثر پیٹ بھرے ہوئے (لوگ) یقیناً بھوکے ہوں گے آخرت میں۔
[تمام:، ابن عساکر:(4/26) ، جامع الاحادیث-السیوطی:6074-42822، کنزالعمال:8722-16578]
وإن أكثر الناس ضحكا يوم القيامة أكثرهم بكاء فى الدنيا۔
ترجمہ:
اور بےشک اکثر لوگ ہنسنے والے قیامت کے دن وہ ہوں گے جو اکثر روتے ہیں (اپنے گناہوں پر) دنیا میں۔
[ابن عساکر:(4/26)، جامع الاحادیث-السیوطی:42823، کنزالعمال:8722-16578]
القرآن:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) کوچ کرو تو تم بوجھ ہو کر زمین سے لگ گئے ؟ کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی پر راضی ہوچکے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو (یاد رکھو کہ) دنیوی زندی کا مزہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر تھوڑا۔
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:4 /191» سورۃ التوبة، آیت نمبر 38]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: أصَابَني الجُهد وفي رواية: إِنِّي مَجْهُودٌ فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ فَقُلْنَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا مَعَنَا إِلَّا الْمَاءُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ يَّضُمُّ أَوْ يُضِيفُ هَذَا يَرَحَمُهُ اللهُ فَقَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْأَنْصَارِ يقال له: أبو طلحة أَنَا فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ فَقَالَ أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاتدخري شيئا فَقَالَتْ والله! مَا عِنْدَنَا إِلَّا قُوتٌ لِّلصِبْيَان! فَقَالَ هَيِّئِي طَعَامَكِ وَأَصْلِحِي سِرَاجَكِ وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا وَأَصْلَحَتْ سِرَاجَهَا وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ فَجَعَلَا يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلَانِ وَأَكَلَ الضَّيْف فَبَاتَا طَاوِيَيْنِ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ لقد ضَحِكَ اللهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فِعَالِكُمَا بِضَيْفِكُمَا اللَّيْلَةَ وأَنْزَلَ اللهُ :
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(الحشر:9)
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے سخت بھوک لگی ہے، (اور ایک روایت میں ہے: میں بھوکا ہوں)آپ نے اپنی بیویوں کی طرف پیغام بھیجا،تو انہوں نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ہمارے پاس صرف پانی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کو کون ملائے گا، یا مہمان نوازی کرے گااللہ اس پر رحم فرمائے ایک انصاری جس کا نام ابوطلحہ تھا، نے کہا میں،پھر وہ لے کر اپنی بیوی کے پاس آئےاور کہا: رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر مدارت کروکوئی چیز چھپا کر نہ رکھو اس نے کہا (واللہ) ہمارے پاس تو صرف بچوں کا کھانا ہے ابو طلحہ نےکہا کھانا تیار کرو، چراغ درست کرو، اور جب بچے رات کا کھانا مانگیں تو بچوں کو سلا دو، اس نے کھانا تیار کیا چراغ درست کیا اور بچوں کوسلادیا، پھر وہ کھڑی ہوئیں گویا کہ چراغ درست کر رہی ہیں اور اسے بجھا دیا، اور دونوں (ابوطلحہ اور ان کی بیوی) مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔(مہمان نے کھانا کھا لیا) ان دونوں نے بھوکے رات گزاری جب صبح ہوئی،ابو طلحہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم دونوں کے تمہارے مہمان کے ساتھ عمل کی وجہ سے مسکرایا یا خوش ہوا، اور اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’اور یہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ یہ خود سخت ضرورت مند ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کی بخیلی سے بچالئے گئے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
(سورۃ الحشر:9)
[الصحيحة:3272(151)، صحيح البخاري:3514 كِتَاب الْمَنَاقِبِ بَاب قَوْلِ اللهِ { وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ } ]
عن عبدالرحمن بن حسنۃ قال: کنت مع رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم في سفر فأصبنا ضبانا، فکانت القدور تغلي، فقال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : إن أمۃ من بني إسرائیل مسخت وأنا أخشی أن تکون ھذہ یعني الضباب۔ قال: فأکفاناھا وإنا لجیاع۔
ترجمہ:
عبدالرحمن بن حسنہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ تھے۔ ہمیں کئی سانڈے (گوہ) ملے، ہانڈیاں جوش مار رہی تھیں، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی ایک امت کے چہرے تبدیل کردیے گئے تھے مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ ہی نہ ہو۔ یعنی سانڈہ۔ عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ نے کہا: ہم نے بھوکے ہونے کے باوجود وہ ہانڈیاں الٹ دیں۔
[الصحيحة:1492(3099)، سنن ابن ماجة كِتَاب الْفِتَنِ بَاب افْتِرَاقِ الْأُمَمِ رقم:3982]
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَنَّ رَجُلا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ؟ وَأَيُّ الأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللهِ تَعَالَى أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ وَأَحَبُّ الأَعْمَالِ إِلَى اللهِ عَزوَجَل سُرُورٌ يُّدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ أَوْ يَكَشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً أَوْ يَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا أَوْ يَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا وَلأَنْ أَمْشِيَ مَعَ أَخِ فِي حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَعْنِي مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ شَهْرًا وَمَنَ كَفَّ غَضَبَهُ سَتَرَ اللهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ كَظَمَ غَيْظَهُ وَلَوْ شَاءَ أَنْ يُمْضِيَهُ أَمْضَاهُ مَلأَ اللهُ قَلْبَهُ رَجَاءً يَّوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ مَّشَى مَعَ أَخِيهِ فِي حَاجَةٍ حَتَّى تَتَهَيَّأَ لَهُ أَثْبَتَ اللهُ قَدَمَهُ يَوْمَ تَزُولُ الأَقْدَامُ. (وَإنَّ سوءَ الْخُلُقِ يُفْسِدُ الْعَمَلَ كَمَا يُفْسِدُ الْخَلُّ الْعَسَلَ).
ترجمہ:
عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ: ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول! کونسا شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے اور کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کے ہاں وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے۔ اور اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دے، یا اس سے مصیبت دور کرے، یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی بھوک ختم کرے، اور اگر میں کسی بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چلوں تو یہ مجھے اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں ایک ماہ اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ جس شخص نے اپنا غصہ روکا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا، جو شخص اپنے غصے کے مطابق عمل کرنے کی طاقت کے باوجود اپنے غصے کو پی گیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو امید سے بھر دے گا۔ اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری ہونے تک اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدم رکھیں گے جس دن قدم ڈگمگا رہے ہوں گے (اور یقیناً بد اخلاقی عمل کو خراب کر دیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے)
[الصحيحة:906(209)، المعجم الكبير:13468، 10626]
القرآن:
اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پر امن اور مطمئن تھی اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فراوانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کردی، تو اللہ نے ان کے کرتوت کی وجہ سے ان کو یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف ان کا پہننا اوڑھنا بن گیا۔
[سورۃ نمبر 16 النحل،آیت نمبر 112]
تفسیر:
یہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام مثال دی ہے کہ جو بستیاں خوشحال تھیں، جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور نافرمانی پر کمر باندھ لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کا مزہ چکھایا لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ کی بستی ہے جس میں سب لوگ خوشحالی اور امن کے ساتھ رہ رہے تھے، لیکن جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کو جھٹلایا تو ان پر سخت قسم کا قحط مسلط کردیا گیا جس کے نتیجے میں لوگ چمڑا تک کھانے پر مجبور ہوئے۔ بعد میں انہوں نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ آپ قحط دور ہونے کی دعا فرمائیں۔ چنانچہ وہ آپ کی دعا سے دور ہوا۔ اس واقعے کا ذکر سورة دخان میں بھی آنے والا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنھما قَالَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ وَأَعُوذُ بِاللهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا إِلَّا فَشَا فِيهِمْ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمْ الَّذِينَ مَضَوْا وَلَمْ يَنْقُصُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللهِ وَعَهْدَ رَسُولِهِ إِلَّا سَلَّطَ اللهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِّنْ غَيْرِهِمْ فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللهِ وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللهُ إِلَّا جَعَلَ اللهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ .
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے: اے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے اور میں اللہ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم ان میں مبتلاہوجاؤ، کسی بھی قوم میں جب کھلے عام گناہ ہوتا ہے تو ان میں طاعون اور بھوک کی ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو ان کے پہلے لوگوں میں نہیں ہوئی ہوتیں، اور جب کوئی قو م پیمانہ اور تول کم کر دیتی ہے تو انہیں قحط،سخت مشقت اور ظالم بادشاہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور جب کوئی قوم اپنے مال کی زکاۃ روک لیتی ہے تو آسمان سے بارش رک جاتی ہے، اگر جانور نہ ہوں تو انہیں پانی کا ایک قطرہ نہ ملے، اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ کوئی دوسرا دشمن مسلط کر دیتا ہے، تو وہ ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہوتا اس میں سے کچھ چھین لیتے ہیں۔ اور جب کسی قوم کے حکمران اللہ کی کتاب سے فیصلے نہیں کرتے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ انہیں آپس کے اختلافات میں مبتلا کر دیتا ہے۔
[الصحيحة:106(1876)، سنن إبن ماجه رقم (4009)،كِتَاب الْفِتَنِ، بَاب الْعُقُوبَاتِ .]
جججکج
یہاں تو تمہیں یہ فائدہ ہے کہ نہ تم بھوکے ہوگے، نہ ننگے۔
[سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 118]
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: بَعَثَنِي إِلَى (قومي) (بَاهِلَةَ)،(فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَأَنَا طَاوٍ)، فَأَتَيْتُ وَهُمْ عَلَى الطَّعَامِ، (وَفِي رِوَايَةٍ: يَأكُلُوْنَ دَمًا)، فَرَجَعُوا بِي وَأَكْرَمُونِي، قَالُوا: مَرْحَبًا بِالصُّدَيِّ بن عَجْلانَ، قَالُوا: بَلَغَنَا أَنَّكَ صَبَوْتَ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ. قُلْتُ: لا وَلَكِنْ آمَنْتُ بِاللهِ وَبِرَسُولِهِ، وَبَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلَيْكُم أَعْرِضُ عَلَيْكُمُ الإِسْلامَ وَشَرَائِعَهُ ،وَقَالُوا: تَعَالَ كُلْ، فَقُلْتُ: (وَيْحَكُمْ إِنَّمَا) جِئْتُ لأَنْهَاكُمْ عَنْ هَذَا ، وَأَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، أَتَيْتُكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِهِ،(فَجَعَلْتُ أَدْعُوْهُمْ إِلَى الْإِسْلَام) فَكَذَّبُونِي وَزَبَرُونِي،فَقُلْتُ لَهُمْ: وَيْحَكُمُ ائْتُونِي بِشَيْءٍ مِّنْ مَّاءٍ، فَإِنِّي شَدِيدُ الْعَطَشِ ، قَالَ: وَعَلَيَّ عِمَامَتِي، قَالُوا: لا، وَلَكِنْ نَدَعُكَ تَمُوتُ عَطَشًا،فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا جَائِعٌ ظَمْآنُ قَدْ نَزَلَ بِي جَهْدٌ شَدِيدٌ، قَالَ: فَاعْتَمَمْتُ وَضَرَبْتُ رَأْسِي فِي الْعِمَامَةِ، وَنِمْتُ فِي الرَّمْضَاءِ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ،فَأُتِيتُ فِي مَنَامِي بِشَرْبَةٍ مِّنْ لَبَنٍ،لَمْ يَرَ النَّاسُ أَلَذَّ مِنْهُ، فَأَمْكَنَنِي مِنْهَا فَشَرِبْتُ ، وَرَوَيْتُ وَعَظُمَ بَطْنِي، فَقَالَ الْقَوْمُ: أَتَاكُمْ رَجُلٌ مِّنْ خِيَارِكُمْ وَأَشْرَافِكُمْ فَرَدَدْتُّمُوهُ، فَاذْهَبُوا إِلَيْهِ فَأَطْعِمُوهُ مِنَ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ مَا يَشْتَهِي، فَأَتَوْنِي بِطَعَامٍ، قُلْتُ: لا حَاجَةَ لِي فِي طَعَامِكُمْ وَشَرَابِكُمْ، فَإِنَّ اللهَ قَدْ أَطْعَمَنِي وَسَقَانِي، فَنَظَرُوا إِلَى الْحَالِ الَّتِي أَنَا عَلَيْهَا،فأريتهم بطني فَنَظَرُوا فَآمَنُوا بِي، وَبِمَا جِئْتُ بِهِ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فأَسْلَمُوا عَنْ آخِرَهُمْ)
ترجمہ:
ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھے اپنی قوم (باہلہ) کی طرف بھیجا۔ (جب میں ان کے پاس پہنچا تو سخت بھوکا تھا) میں ان کے پاس آیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے۔( اور ایک روایت میں ہے: خون کھا رہے تھے۔) وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے عزت دی(کہنے لگے: صدی بن عجلان کو خوش آمدید، ہمیں خبر ملی ہے کہ تم نے اس شخص کی طرف مائل ہوگئے ہو اور بے دین ہو گئے ہو میں نے کہا: نہیں لیکن میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا ہوں، اور مجھے رسول اللہ ﷺ نے تمہاری طرف بھیجا ہے تاکہ میں تمہارے سامنے اسلام اور اس کے اصول پیش کر سکوں) کہنے لگے: آؤ، کھاؤ، میں نے کہا: (برا ہو) میں تو اس سے منع کرنے آیا ہوں، اور میں اللہ کے رسول ﷺ کا قاصد ہوں، میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ۔(میں نے انہیں اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو) انہوں نے مجھے جھٹلایا اور مجھے دھمکانے ڈانٹنے لگے۔ ( میں نے ان سے کہا: افسوس! مجھے تھوڑا پانی تو دے دو میں شدید پیاسا ہوں۔میرے سر پر عمامہ بندھا ہوا تھا وہ کہنے لگے: نہیں ہم تمہیں اس حالت میں چھوڑیں گے کہ تم پیاسے مر جاؤ)۔ میں بھوک اور پیاس کی حالت میں وہاں سے چل پڑا، مجھے شدید تکلیف محسوس ہو رہی تھی اور میں نے اپنا سر عمامہ پر رکھ لیا۔ میں(شدید گرمی میں تپتی ہوئی زمین پر)سو گیا۔ مجھے خواب میں دودھ کا ایک مشروب پلایا گیا، لوگوں نے اس سے لذیذ کوئی چیز نہیں پی ہوگی، میں نے برتن پکڑ لیااور سیر ہو کر پیا، میرا پیٹ بوجھل ہوگیا۔ پھر انہی لوگوں نے کہا: تمہارے پاس تمہارا ایک بہترین اور شریف آدمی آیا تھا اور تم نے اسے لوٹا دیا، جاؤ اسے کھانا کھلاؤ، اور جو چاہتا ہے پلاؤ۔ وہ میرے پاس کھانا لائے میں نے کہا: مجھے تمہارے کھانے پینے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کھلا دیا ہے اور پلا بھی دیا ہے۔ انہوں نے میرا حال دیکھا ( میں نے انہیں اپنا پیٹ دکھایا(جب انہوں نے یہ صورتحال) دیکھی تو وہ مجھ پر اور جو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے لایا تھا اس پر ایمان لے آئے( اور ان کے آخری شخص نے بھی اسلام قبول کر لیا)۔
[الصحيحة:2706(3466)، المعجم الكبير للطبراني:8024]
جججکج
جس نے بھوک کی حالت میں انہیں کھانے کو دیا، اور بدامنی سے انہیں محفوظ رکھا۔
[سورۃ نمبر 106 قريش، آیت نمبر 4]
إِنَّهُ اتَّبَعَنَا رَجُلٌ لَّمْ يَكُنْ مَعَنَا حِينَ دَعَوْتَنَا فَإِنْ أَذِنْتَ لَهُ دَخَلَ جَاءَ من حديث أَبِي مَسْعُودٍ البَدري، وجابر بن عبدالله. هذا لفظ حديث أَبِي مَسْعُود البدري قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يُّقَالُ لَهُ أَبُو شُعَيْبٍ إِلَى غُلَامٍ لَّهُ لَحَّام فَقَالَ: اصْنَعْ لِي طَعَامًا يَّكْفِي خَمْسَةً فَإِنِّي رَأَيْتُ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْجُوعَ قَالَ: فَصَنَعَ طَعَامًا ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَدَعَاهُ وَجُلَسَاءَهُ الَّذِينَ مَعَهُ فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتَّبَعَهُمْ رَجُلٌ لَّمْ يَكُنْ مَّعَهُمْ حِينَ دُعُوا فَلَمَّا انْتَهَى رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلَى الْبَابِ قَالَ لِصَاحِبِ الْمَنْزِلِ...فذكره قَالَ: فَقَدْ أَذِنَّا لَهُ فَلْيَدْخُلْ.
ترجمہ:
ہمارے پیچھے ایک آدمی چلنے لگاجو ہمارے ساتھ نہیں تھا جب ہمیں دعوت دی گئی اگر تم اسے اجازت دو تو یہ اندر آجائے۔ یہ حدیث ابو مسعود البدری اور جابر بن عبداللہ سے مروی ہے اور ابو مسعود بدری انصاریؓ سے مروی حدیث کے الفاظ ہیں کہ ایک آدمی جسے ابو شعیب کہا جاتا تھا اپنے ایک قصاب غلام کی طرف آیا اور کہا: میرے لئے اتنا کھانا بناؤ جو پانچ آدمیوں کے لئے کافی ہو،کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر بھوک کے آثار دیکھے ہیں۔ اس نے کھانا بنایا، پھرابو شعیب نے نبی ﷺ کی طرف پیغام بھیجا آپ کو اور آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ساتھیوں کو بلایا جب نبی ﷺ کھڑے ہوئے تو ایک آدمی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا جو دعوت کے وقت ان کے ساتھ نہیں تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ دروازے تک پہنچے تو آپ نے گھر کے مالک سے کہا:۔۔۔حدیث ذکر کی اور اس نے کہا: ہم نے اسے اجازت دے دی ہے یہ اندر آجائے۔
[الصحيحة:3579(309) سنن الترمذي كِتَاب النِّكَاحِ بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَجِيءُ إِلَى الْوَلِيمَةِ مِنْ غَيْرِ دَعْوَةٍ رقم 1018]
ججججج
No comments:
Post a Comment