Thursday, 25 July 2024

...تم ہی سربلند رہو گے اگر تم رہو (سچے) مومن۔[سورۃ آل عمران:139]

مسلمانوں کی سربلندی کا سبب»ایمان رکھنا۔

القرآن:

(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 139]

تفسیر:

جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز و سامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہیے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بےمقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بیخبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرت ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرت ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہیے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔












دعا



القرآن:

اے (زبان سے) ایمان والو! (دل سے) ایمان رکھو اللہ پر، اور اس کے رسول پر، اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اتاری ہے، اور ہر اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری تھی۔ اور جو شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور یومِ آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا ہے۔

[سورۃ النساء:136]


ایمان کیا ہے؟

فرمایا کہ تم ایمان لاؤ الله پر اور اسکے فرشتوں اور اسکے پیغمبروں پر،اور تم ایمان لاؤ موت پر اور موت کے بعد زندہ کیے جانے پر،اور تم ایمان لاؤ جنت وجھنم،حساب اور(اعمال تولنے والی)میزان پر،اور اچھی بری تقدیر(تقسیم)پر.

جب تم نے یہ کام انجام دے دیا یقینا ایمان لاچکے.

[مسند احمد:2924، صحیح ابن حبان:173]



رسول اللہ ﷺ کے ارشادات:

ہرگز کسی مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش پیچھے چلے اس(دین)کے جو میں لےکر آیا.

[المدخل،امام بیھقی: حديث#209]


تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے اور پورے مومن نہیں بنو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہیں کروگے کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے وہ یہ ہے کہ آپس میں ہر ایک آدمی کو سلام کیا کرو۔

[مسند احمد:9084، المعجم الکبیر للطبرانی:10396]


مسائل اور تخریج:

جنت میں صرف ایمان والے جائیں گے ایمان والوں سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور کثرت سلام آپس میں محبت کا باعث ہے۔

[صحیح مسلم:194(54)]


ایمان کی نفی(انکار) کا ذکر جس میں اللہ تعالیٰ کی خاطر (مسلمانوں) سے محبت نہیں۔

[صحیح ابن حبان:236]


سلام کو پھیلانے کا بیان۔

[سنن الترمذي:2688]


ایمان کا چالیسواں شعبہ» نفرت اور حسد کو ترک کرنے کی تلقین کرنے کا بیان۔

[شعب الإيمان-للبیھقي:6613]

ایمان کا اکسٹھواں شعبہ» یہ دینداروں کے قریب آنے اور ان سے دوستی، اور ان کے درمیان سلام پھیلانے کے بیان میں۔

[شعب الإيمان-للبیھقي:8745]














ایمان(بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر)دل کے یقین کرنے،اور زبان سے اقرار کرنے اور اعضاء سے عمل کرنے کا نام ہے.

[ابن ماجہ:65]




جس شخص میں تین او صاف موجود ہوں وہ ایمان کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ (۱) جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے زیادہ اور کسی سے محبت نہ رکھتا ہو۔ (۲) جس شخص کو اپنے دین سے مرتد ہوجانا آگ میں جلا دیا جانے سے زیادہ محبوب ہو۔ (۳) جو اللہ کے لیے کسی سے دوستی رکھتا ہو اور اللہ کے لیے ہی کسی سے بغض رکھتا ہو۔

[صحیح بخاري:16، صحیح مسلم:43]





طھارت(پاک رہنا،گندگی اور گناہوں سے)آدھا ایمان ہے.

[ترمذی:3519]

وضو(سے پاک رہنا)آدھا ایمان ہے.

[احمد:23099]

صبر(احکامِ دین پر جمے رہنا)آدھا ایمان ہے.

[طبرانی:8544]

جس نے نکاح کیا،اس نے اپنا آدھا ایمان کامل کرلیا،اب اپنے باقی آدھے ایمان کے بارے میں الله سے ڈرے.

[طبرانی(اوسط)7647]




جس نے الله ہی کی خاطر محبت کی، اور الله ہی کیلئے بغض رکھا، اور الله ہی کے واسطے دیا، اور الله ہی کیلئے روکا، تو اس کا ایمان"کامل"ہوگیا۔

[ابوداؤد:4681]



اشرف ایمان یہ ہے کہ انسانیت تجھ سے امن میں رہے.

[جامع الاحادیث:3499]

مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں ہوں.

[احمد:12561]

کیونکہ ایمان لفظ امن سے لیا گیا ہے جو خوف کی ضد ہے.

[مصباح اللغات: ص41]




تمام لوگوں سے کامل ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق میں اچھے ہوں، اور نرم پہلوؤں والے ہوں جو دوستی رکھتے ہیں اور دوست رکھے جاتے ہیں اور جو شخص نہ کسی کو دوست رکھے اور نہ اس کو کوئی دوست رکھے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔‘‘

[الصحیحة:751۔ معجم الاوسط:4422۔، معجم الصغیر:35]




سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں اپنے دل میں ایسے خیالات پاتا ہوں کہ ان کو زبان پر لانے سے یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ کوئلہ بن جاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صریح ایمان ہے۔

[معجم الصغیر:65]





بندہ پورا ایمان نہیں لاتا جب تک کہ ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ چھوڑدے اور جھگڑنا چھوڑدے اگرچہ سچا(حق پر) ہو.

[احمد:8630]




جس میں3عادتیں پیدا ہوگئیں،اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا

یا فرمایا:3باتیں ایمان کی تکمیل ہیں:

تھوڑے میں سے کچھ خرچ کرنا،اپنی جان سے انصاف کرنا(ہر نافرمانی سے بچانا)،اور عالم کو(خصوصا)سلام کرتے رہنا.

[جامع الاحادیث:40683]





3عادتیں جس میں ہوئیں،اس کا ایمان مکمل ہوجاۓ گا:

وہ شخص جو الله کے بارے میں کسی کی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتا، اور نہ اپنے کسی عمل میں دکھلاوا کرتا ہے، اور جب اس کے سامنے دو کام آتے ہیں ایک دنیا کا اور ایک آخرت کا تو وہ(حکمِ خدا کے خلاف حاصل کی جانے والی) دنیا کے مقابلہ میں آخرت کے کام کو فوقیت(اور ترجیح)دیتا ہے.

[جامع الاحادیث:11197]




بندہ اس وقت تک ایمان کامل نہیں پاسکتا جب تک کہ اپنی زبان کو(غلط اور فضول استعمال سے بھی)روک لے۔

[جامع الاحادیث:17838]




آدمی(کامل)مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان کے موافق نہ ہوجاۓ(یعنی بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر اقرار کے ساتھ یقین ہو)،اور اس کا عمل اس کے قول(یعنی زبانی اقرار)کی مخالفت نہ کرے...

[جامع الاحادیث:6301]

تفسیر سورۃ النساء:136،آل عمران:102، الحجرات:14




ایمان کی5باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی شخص میں ان میں سے کوئی نہ ہو تو اس کا ایمان(کامل)نہیں:

حکمِ الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا، فیصلہِ الہی(تقدیر) پر راضی رہنا، خود(کی چاہت)کو الله کے حوالہ کرنا، الله پر بھروسہ کرنا اور مصیبت کے پہلے جھٹکے میں صبر کرنا۔

[جامع الاحادیث،امام سیوطی:11982]



وہ شخص کامل الایمان مومن نہیں جو مصیبت کو نعمت نہ سمجھے اور نرمی وآسانی کو مصیبت نہ سمجھے...(کیونکہ)ہر مصیبت کے بعد نرمی اور ہر آسانی کے بعد مصیبت تو آتی ہی ہے۔

[طبرانی:10949]




ایمان(صرف)تمنا اور تزئین کا نام نہیں بلکہ ایمان تو وہ(یقین)ہے جو دل میں پختہ ہوجاۓ اور عمل(بھی) اس کی تصدیق کرے۔

[جامع الاحادیث:19317]






اللہ پر بھروسہ رکھتے چڑھائی کرتے گھس جانا۔

القرآن:

جو لوگ (خدا کا) خوف رکھتے تھے، ان میں سے دو مرد جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا تھا۔ (20) بول اٹھے کہ : تم ان پر چڑھائی کر کے (شہر کے) دروازے میں گھس جاؤ۔ جب گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اور اپنا بھروسہ صرف اللہ پر رکھو، اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 23]

تفسیر:

(20) یہ دو صاحبان حضرت یوشع اور حضرت کالب (علیہما السلام) تھے جو ہر مرحلے پر حضرت موسیٰ ؑ کے وفادار رہے تھے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے بھی سرفراز فرمایا، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرکے آگے بڑھو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق تم ہی غالب رہوگے۔





القرآن:

اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 54]




القرآن:

درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 175]

القرآن:

شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 268]

القرآن:

اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 208]




منافق کون؟

القرآن:

اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحقِ عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو؟ یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔

[سورۃ النساء،آیت نمبر 144]

القرآن:

اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یار ومددگار نہ بناؤ، اور اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 57]

تفسیر:

”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (60: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (60: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔




القرآن:

کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا، اور رسول کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں) پہل کی ؟ (12) کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔ ان سے جنگ کرو تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے، انہیں رسوا کرے، ان کے خلاف تمہاری مدد کرے، اور مومنوں کے دل ٹھنڈے کردے۔ اور ان کے دل کی کڑھن دور کردے، اور جس کی چاہے توبہ قبول کرلے (13) اور اللہ کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 13]

تفسیر:

(12) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ظلم شروع کیا اور یہ بھی کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کو توڑنے میں پہل کی۔

(13) یعنی اس کا بھی امکان ہے کہ کفار توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں، چنانچہ بہت سے لوگ اس کے بعد واقعی مسلمان ہوئے۔






القرآن:

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی (کسی کے ذمے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 278]





القرآن:

(یہ کامیاب سودا کرنے والے وہ ہیں جو) توبہ کرنے والے ! اللہ کی بندگی کرنے والے ! اس کی حمد کرنے والے ! روزے رکھنے والے ! (86) رکوع میں جھکنے والے ! سجدے گزرنے والے ! نیکی کی تلقین کرنے والے، اور برائی سے روکنے والے، اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے، (87) (اے پیغمبر) ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 112]

تفسیر:

(86) قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ السائحون ہے اس لفظ کے اصل معنی تو سیاحت کرنے والے کے ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اس کی تفسیر روزہ رکھنے سے فرمائی ہے اور یہی تفسیر متعدد صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے (تفسیر ابن جریر) بظاہر روزے کو سیاحت اس لیے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح سفر میں انسان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات قائم نہیں رہتے، اسی طرح روزے میں بھی ان معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔

( 87) قرآن کریم نے بہت سے مواقع پر ”اللہ کی قائم کی ہوئی حدود“ اور ان کی حفاظت کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ بڑی معنی خیز اصطلاح ہے۔ اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام دئیے ہیں۔ وہ کچھ حدود کے پابند ہیں۔ ان حدود میں رہ کر ان کو انجام دیا جائے تو وہ درست اور نیک کام ہیں۔ اور اگر حدود سے نکل جائیں تو وہی کام ناپسندیدہ اور بعض اوقات گناہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص عبادت میں اتنا منہمک ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے جو حقوق رکھے ہیں، ان کو پامال کرنے لگے، تو وہ عبادت بھی ناجائز ہوجاتی ہے۔ تہجد کی نماز بڑی عظیم فضیلت کی چیز ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ نمازیں اس طرح پڑھے جس سے سونے والوں کی نیند میں خلل آئے تو یہ ناجائز ہے۔ والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نفلی عبادت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی وجہ سے بیوی بچوں کے حقوق پامال کرنے لگے تو یہ گناہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں بہت سی نیکیوں کا بیان کرنے کے بعد آخر میں حدود کی حفاظت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہ حضرت تمام نیکیاں ان حدود میں رہ کر انجام دیتے ہیں جو ان کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہیں۔ ان حدود کی تعلیم آنحضرت ﷺ نے اپنے قول اور فعل سے دی ہے اور ان کو سیکھنے کا بہترین طریقہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے کہ انسان کسی اللہ والے کی صحبت میں رہے، اور اس کے طرز عمل کو دیکھ دیکھ کر ان حدود کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں ان کو اتارنے کی کوشش کرے۔



مومنین کون؟ نیک اعمال والے۔

القرآن:

بےشک یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے وہ راستہ جو سب سے زیادہ سیدھا ہے، اور خوشخبری دیتا ہے مومنین کو جو نیک عمل کرتے ہیں، انہیں  کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

[سورۃ نمبر 17 الإسراء،آیت نمبر 9]

القرآن:

(نازل کی)ٹھیک سیدھی(کتاب) تاکہ ڈر سنائے عذاب سخت کا اس کی طرف سے اور خوشخبری دے مومنوں کو جو عمل کرتے ہیں اچھے کہ ان کے لیے ہے اجر اچھا۔

[سورۃ الكهف، آیت نمبر 2]

ترجمہ:

ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے کہ ان کو بہترین اجر ملنے والا ہے۔









No comments:

Post a Comment