مسلمانوں کی سربلندی کا واحد سبب»
ایمان رکھنا۔
القرآن:
(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 139]
تفسیر:
جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز و سامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہیے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بےمقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بیخبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرت ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرت ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہیے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
ایمان والے کون؟
القرآن:
ایمان لانے والے تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانا ہے، پھر کسی شک میں نہیں پڑے، اور جنہوں نے اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔
[سورۃ الحجرات، آیت نمبر 15]
القرآن:
مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال،آیت نمبر 2]
القرآن:
مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام(جہاد) میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (47) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 24 النور،آیت نمبر 62]
تفسیر:
(47)یہ آیت غزوہ ٔ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کرجاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔
القرآن:
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مومن بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔
[سورۃ نمبر 49 الحجرات، آیت نمبر 10]
************************
کیسے قوت(ظاہری اور باطنی) حاصل ہوتی ہے؟
عاجزی چھوڑ کر اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ پر اعتماد کرنے، نیکی کرنے میں بھی اللہ سے مدد مانگنے، پھر اللہ کی تقدیر وقدرت کے حوالے نتائج کرنے، اور اللہ پر توکل ویقین رکھنے سےقوت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي کُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَی مَا يَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَکَ شَيْئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَکَذَا وَلَکِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَائَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ۔
ترجمہ:
طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے، ہر بھلائی میں ایسی چیز کی حرص کرو جو تمہارے لئے نفع مند ہو، اور اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور اس سے عاجز مت ہو، اور اگر تم پر کوئی مصیبت واقع ہوجائے تو یہ نہ کہو کاش میں ایسا ایسا کرلیتا کیونکہ کاش کا لفظ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے۔
[صحیح مسلم:2664(6774)، سنن ابن ماجہ:79-4168، صحیح ابن حبان:5721-5722، السنن الکبریٰ للبیھقی:20173]
تشریح:
"طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے، لیکن ہر ایک میں بھلائی ہے۔" یہاں "قوت" سے مراد نفس کی مضبوطی اور آخرت کے معاملات میں پختہ عزم اور ذہنی استعداد ہے۔ ایسا مومن جہاد میں دشمن کے خلاف زیادہ جرات مندانہ اقدام کرتا ہے، اس کے تعاقب میں تیزی سے نکلتا ہے، معروف (نیکی) کے حکم اور منکر (برائی) کے روکنے میں زیادہ ثابت قدم ہوتا ہے، ہر طرح کی تکلیف اور مصیبت کو اللہ کی رضا کے لیے برداشت کرتا ہے، اور عبادات جیسے نماز، روزہ، ذکرو اذکار وغیرہ کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے۔ وہ ان عبادات کو حاصل کرنے اور ان کی حفاظت کرنے میں زیادہ سرگرم رہتا ہے۔ (اور ہر ایک میں بھلائی ہے) یعنی طاقتور اور کمزور دونوں مومنوں میں بھلائی پائی جاتی ہے، کیونکہ دونوں ایمان میں شریک ہیں، اور کمزور مومن بھی عبادات انجام دیتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو تمہارے لیے مفید ہو، اس کی حرص کرو، اللہ سے مدد مانگو، اور ناتوانی کا اظہار نہ کرو۔" "احْرِصْ" میں "ر" پر کسرہ(زیر) ہے اور "تَعْجِزْ" میں "ج" پر کسرہ(زیر) ہے۔ بعض روایات میں دونوں کے فتحہ(زبر) کی بھی روایت ہے۔ اس کا مطلب ہے: اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرو، اللہ سے مدد مانگو، اور نہ تو عبادت کرنے میں سستی کرو اور نہ ہی اللہ سے مدد طلب کرنے میں۔
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: "اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ 'اگر میں یہ کرتا تو یوں ہوتا'، بلکہ کہو: 'اللہ نے تقدیر میں لکھ دیا تھا، جو وہ چاہے گا وہی ہوگا'۔ کیونکہ 'اگر' شیطان کے کام کو کھول دیتی ہے۔" امام قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں: بعض علماء کے نزدیک یہ ممانعت صرف اس شخص کے لیے ہے جو یہ کہے اور اسے یقین ہو کہ اگر وہ ایسا کرتا تو یہ مصیبت قطعاً نہ آتی۔ لیکن جو شخص اللہ کی مشیت(چاہت) کے ساتھ اسے جوڑے، مثلاً یہ کہے کہ "اللہ کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا"، تو یہ ممانعت اس پر لاگو نہیں ہوتی۔ ابو بکر صدیقؓ کا غارِ ثور میں یہ کہنا کہ "اگر کوئی اپنا سر اٹھاتا تو ہمیں دیکھ لیتا"[صحیح بخاری:4663] اس کی دلیل ہے، لیکن قاضی عیاضؒ کے مطابق یہ حجت نہیں، کیونکہ یہ مستقبل کے بارے میں خبر دینے کی حد تک ہے، نہ کہ تقدیر کے بعد اسے رد کرنے کی دعویٰ۔ اسی طرح امام بخاریؒ نے "باب ما يجوز من اللَّوّ" میں جو احادیث ذکر کی ہیں، جیسے "اگر تمہارے قوم کا کفر کا زمانہ نیا نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو ابراہیمؑ کی بنیادوں پر مکمل کرتا"[بخاری:123،مسلم:1333] یا "اگر میں بغیر گواہی کے سنگسار کرتا تو فلاں عورت کو سنگسار کر دیتا"[بخاری:5310،مسلم:1497]، اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کیلئے انہیں مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ [بخاری:887]، یہ تمام احتمالات مستقبل کے لیے ہیں، نہ کہ ماضی کے تقدیر پر اعتراض۔
القرآن:
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے، وہ اور جنہوں نے ان کو (مدینہ میں) آباد کیا اور ان کی مدد کی، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، (مگر) انہوں نے ہجرت نہیں کی، جب تک وہ ہجرت نہ کرلیں (اے مسلمانو) تمہارا ان سے وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر دین کی وجہ سے وہ تم سے کوئی مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد واجب ہے سوائے اس صورت کے جبکہ وہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف ہو جس کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے اچھی طرح دیکھتا ہے۔
[سورۃ الأنفال،آیت نمبر 72]
تفسیر:
(51)سورة انفال کی ان آخری آیات میں میراث کے کچھ وہ احکام بیان فرمائے گئے ہیں جو مسلمانوں کی مکہ مکرمہ سے ہجرت کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ اصول شروع سے طے فرمادیا تھا کہ مسلمان اور کافر آپس میں ایک دوسرے کے وراث نہیں ہوسکتے، اب صورت حال یہ تھی کہ جو صحابہ کرام مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تھے، ان میں سے بہت سے ایسے تھے کہ ان کے رشتہ دار جو ان کے وارث ہوسکتے تھے، سب مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، ان میں سے اکثر وہ تھے جو کافر تھے اور مسلمان ہی نہیں ہوئے تھے، وہ مسلمانوں کے اس لئے وارث نہیں ہوسکتے تھے کہ ان کے درمیان کفر اور ایمان کا فاصلہ حائل تھا ؛ چنانچہ ان آیات نے واضح طور پر بتادیا کہ وہ نہ مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں اور نہ مسلمان ان کے وارث ہوسکتے ہیں اور مہاجرین کے کچھ ایسے رشتہ دار بھی تھے جو مسلمان تو ہوگئے تھے ؛ لیکن انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی، ان کے بارے میں بھی اس آیت نے یہ حکم دیا ہے کہ مہاجر مسلمانوں کا ان سے بھی وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تمام مسلمانوں کے ذمے فرض تھا کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کریں، اور انہوں نے ہجرت نہ کرکے اس فریضے کو ابھی تک ادا نہیں کیا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ مہاجر مسلمان مدینہ منورہ میں تھے جو دارالاسلام تھا، اور وہ حضرات مکہ مکرمہ میں تھے جو اس وقت دارالحرب تھا، اور دونوں کے درمیان بڑی رکاوٹیں حائل تھیں، بہر صورت مہاجر مسلمانوں کے جو رشتہ دار مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ان کے ساتھ مہاجرین کا وراثت کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار مکہ مکرمہ میں فوت ہوتا تو اس کے ترکے میں ان مہاجرین کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا اور اگر ان مہاجرین میں سے کوئی مدینہ منورہ میں فوت ہوتا تو اس کی میراث میں اس کے مکی رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف جو مہاجرین مدینہ منورہ آکر آباد ہوئے تھے ان کو انصار مدینہ نے اپنے گھروں میں ٹھہرایا تھا، آنحضرت ﷺ نے ہر مہاجر صحابی کا کسی انصاری صحابی سے بھائی چارہ قائم کردیا تھا جسے مؤاخات کہا جاتا ہے، اس آیت کریمہ نے یہ حکم دیا کہ اب مہاجرین کے وارث ان کے مکی رشتہ داروں کے بجائے وہ انصاری صحابہ کرام ہوں گے جن کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم کی گئی ہے۔
(52) یعنی جن مسلمانوں نے ابھی تک ہجرت نہیں کی، اگرچہ وہ مہاجرین کے وارث نہیں ہیں، لیکن چونکہ بہر حال مسلمان ہیں، اس لئے اگر کافروں کے خلاف مسلمانوں سے کوئی مدد مانگیں تو مہاجر مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مدد کریں، البتہ ایک صورت ایسی بیان کی گئی ہے جس میں اس طرح کی مدد کرنا مہاجر مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے، اور وہ یہ کہ جن کافروں کے خلاف وہ مدد مانگ رہے ہیں ان سے مہاجر مسلمانوں کا کوئی جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکا ہو، ایسی صورت میں اگر وہ اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے خلاف کوئی کاروائی کریں تو یہ بد عہدی ہوگی، اس لئے ایسی مدد کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، اس سے زیادہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ جب کوئی معاہدہ ہوجائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے بھی اس کی خلاف ورزی کو اسلام نے جائز نہیں رکھا ؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ کفار کے ہاتھوں پسے ہوئے مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ سے کفار قریش کے خلاف مدد مانگی اور مسلمانوں کا دل بےتاب تھا کہ انکی مدد کریں، مگر چونکہ قریش کے لوگوں سے معاہدہ ہوچکا تھا، اس لئے ان کے صبر وضبط کا بہت کڑا امتحان پیش آیا، اور آنحضرت ﷺ کے حکم کے تحت وہ اس امتحان میں ثابت قدم رہے۔
القرآن:
اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، وہ اور جنہوں نے انہیں آباد کیا اور ان کی مدد کی وہ سب صحیح معنوں میں مومن ہیں۔ ایسے لوگ مغفرت اور باعزت رزق کے مستحق ہیں۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال،آیت نمبر 74]
تفسیر:
(54)یعنی جن مسلمانوں نے ابھی ہجرت نہیں کی ہے، اگرچہ مومن وہ بھی ہیں، لیکن ان میں ابھی یہ کسر ہے کہ انہوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا، دوسری طرف مہاجرین اور انصار میں یہ کسر نہیں ہے، اس لئے وہ صحیح معنی میں مومن کہلانے کے مستحق ہیں۔
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
افضل طاقتور مومن کون؟
القرآن:
۔۔۔(درجے میں) نہیں برابر ہوسکتے تم میں سے وہ جنہوں نے خرچ کیا فتح(مکہ) سے پہلے، اور لڑائی بھی لڑی، (ورنہ)یوں تو اللہ نے بھلائی(جنت) کا وعدہ سب(مومنوں) سے کر رکھا ہے۔۔۔
[سورۃ الحدید:10]
القرآن:
جن مسلمانوں کو کوئی معذوری لاحق نہ ہو اور وہ (جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں) بیٹھ رہیں وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے مال و جان سے جہاد کرتے ہیں ان کو اللہ نے بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے۔ اور اللہ نے سب سے اچھائی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ (61) اور اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دے کر بڑا ثواب بخشا ہے۔
[سورۃ النساء:95]
تفسیر:
(61) یہ اس حالت کا ذکر ہے جب جہاد ہر شخص کے ذمے فرض عین نہ ہو، ایسے میں جو لوگ جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں بیٹھ گئے، اگرچہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ان کے ایمان اور دوسرے نیک کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہوا ہے لیکن جو لوگ جہاد میں گئے ہیں ان کا درجہ گھر بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے، البتہ جہاں جہاد فرض عین ہوجائے یعنی مسلمانوں کا امیر تمام مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیدے یا جب کوئی دشمن مسلمانوں پر چڑھ آئے تو پھر گھر بیٹھنا حرام ہے۔
************************،
[مصباح اللغات: ص41]
أَشْرَفُ الْإِيمَانِ أَنْ يَأْمَنَكَ النَّاسُ
ترجمہ:
اشرف ایمان یہ ہے کہ انسانیت تجھ سے امن میں رہے۔
[المعجم الصغیر-للطبراني:10، جامع الاحادیث-للسيوطي:3499]
الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ.
ترجمہ:
مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں ہوں۔
[احمد:12561، ابن ماجہ:3934، حاکم:25، طبرانی:193، بغوی:14، ابن حبان:510، البزار:7432]
ارکانِ ایمان»
حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ.
ترجمہ:
ایمان، (بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر) (1)دل کے یقین کرنے اور (2)زبان سے اقرار کرنے اور (3)اعضاء سے عمل کرنے کا نام ہے۔
[سنن ابن ماجہ:65، المعجم الأوسط-للطبراني:6254-8580، شعب الایمان-للبيهقي:16]
﴿تفسير الثعلبي:244-1609.سورۃ البقرۃ:3﴾
﴿تفسیر الدر المنثور-للسيوطي:7/583.سورة الحجرات:14﴾
************************
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

نہیں بن سکتا(سچاپکاکامل)مومن تم میں سے کوئی شخص جب تک...
(1)میں(نبی)اسے اسکی جان
[احمد:18047]
مال واھل
[نسائی:5014]
اسکے والدین واولاد
[بخاری13]
اور سارے لوگوں سے(بھی)زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔
[بخاری:14]
(2)۔۔۔اسے کفر کی طرف واپسی،آگ میں جانے کی طرح ناپسند ہو۔
[احمد:13959]
(3)۔۔۔اسکی خواہش پیچھے چلے(اس دین کے)جو میں لایا ہوں۔
[بغوی:104]
(4)۔۔۔اپنے مسلمان بھائی (پڑوسی)کیلئے وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے۔
[بخاری:12]

حضرت ابوھریرہ ﴿حضرت انس﴾ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ليس الإيمان بالتمنى ولا بالتحلى ولكن هو ما وقر فى القلب وصدقه الفعل.
﴿العلم علمان: علم باللسان وعلم فى القلب فأما علم القلب فالعلم النافع وعلم اللسان حجة الله على ابن آدم﴾.
ترجمہ:
ایمان(صرف)تمنا اور تزئین کا نام نہیں بلکہ ایمان تو وہ(یقین)ہے جو دل میں پختہ ہوجاۓ اور عمل(بھی) اس کی تصدیق کرے۔
﴿علم دو ہیں: ایک وہ جو دل میں(اللہ کا ڈر پیدا کرتا)ہو، یہی علم نافع ہے۔ اور جو علم (مال، شہرت یا مقابلے کیلئے) زبان پر ہو، وہ تو اللہ کی حجت (الزامی دلیل) ہے اس کے بندوں پر۔﴾
[شعب الایمان-للبيهقي:66، جامع الاحادیث:19317﴿19318﴾، كنزالعمال:11]
القرآن:
’’نہ تمہاری تمنائیں (جنت میں جانے کیلئے) کافی ہیں اور نہ اہل کتاب کی آرزوئیں۔ جو بھی برا عمل کرے گا وہ اسکی سزا پائے گا۔۔۔‘‘
﴿تفسير الراغب الاصفهاني:4/168،سورة النساء:123﴾
حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ آرزوئیں کرنے اور خلوت اختیار کرنے کا نام ایمان نہیں ہے ۔ بلکہ(نبوی باتوں پر) جو (یقین) دلوں میں ثبت ہو اور اعمال اس کی تصدیق کریں۔ (لہٰذا) جو شخص اچھی بات(کلمہ) کہے اور نیک عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی بات(کلمہ) کو رد فرما دیتے ہیں اور جو شخص اچھی بات(کلمہ) کہے اور نیک عمل بھی کرے تو یہ عمل اس بات کو بلند کرتا(قبولیت کا شرف بخشتا) ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’...اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلمہ اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے۔۔۔‘‘
﴿تفسير الدر المنثور-للسيوطي:7/10،سورة فاطر:10﴾
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إن الرجل لا يكون مؤمنا حتى يكون قلبه مع لسانه سواء ويكون لسانه مع قلبه سواء ولا يخالف قوله عمله ويأمن جاره بوائقه۔
ترجمہ:
آدمی(کامل)مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان کے موافق نہ ہوجاۓ(یعنی بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر اقرار کے ساتھ یقین ہو)،اور اس کا عمل اس کے قول(یعنی زبانی اقرار)کی مخالفت نہ کرے، اور امن سے ہو اس کا پڑوسی اس کے تکلیفوں سے۔
[الترغیب-لاصفھاني:53، جامع الاحادیث:6301-17374، كنزالعمال:85]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا {نہیں پہنچا} {خالص نہیں ہوا} {دل سے ایمان نہیں لائے}، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو {مومنوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ}{اور ان کو عار مت دلاؤ} اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا ۔
[سنن أبي داود:4880،
{سنن الترمذي:2032}
{مسند الروياني:305، المعجم الأوسط للطبراني:3778}
{التوبيخ والتنبيه لأبي الشيخ الأصبهاني:87، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2511}
{الجامع - معمر بن راشد:20251}]
القرآن:
یہ دیہاتی کہتے ہیں کہ : ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہو کہ : تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہو کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، (10) اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم واقعی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ذرا بھی کمی نہیں کرے گا۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔
[سورۃ الحجرات:14 (تفسير البغوي:2007، الزمخشري،القرطبي،ابن كثير،الدر المنثور،المظهري،الألوسي)]
القرآن:
اے (زبان سے) ایمان والو! (دل سے) ایمان رکھو اللہ پر، اور اس کے رسول پر، اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اتاری ہے، اور ہر اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری تھی۔ اور جو شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور یومِ آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا ہے۔
[سورۃ النساء:136]
تفصیلِ ایمان»
﴿مسند احمد:2924، صحیح ابن حبان:173﴾
اعمالِ ایمان:
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے اور پورے مومن نہیں بنو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہیں کروگے کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے وہ یہ ہے کہ آپس میں ہر ایک آدمی کو سلام کیا کرو۔
[مسند احمد:9084، المعجم الکبیر للطبرانی:10396]
مسائل اور تخریج:
جنت میں صرف ایمان والے جائیں گے ایمان والوں سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور کثرت سلام آپس میں محبت کا باعث ہے۔
[صحیح مسلم:194(54)]
ایمان کی نفی(انکار) کا ذکر جس میں اللہ تعالیٰ کی خاطر (مسلمانوں) سے محبت نہیں۔
[صحیح ابن حبان:236]
سلام کو پھیلانے کا بیان۔
[سنن الترمذي:2688]
ایمان کا چالیسواں شعبہ» نفرت اور حسد کو ترک کرنے کی تلقین کرنے کا بیان۔
[شعب الإيمان-للبیھقي:6613]
ایمان کا اکسٹھواں شعبہ» یہ دینداروں کے قریب آنے اور ان سے دوستی، اور ان کے درمیان سلام پھیلانے کے بیان میں۔
[شعب الإيمان-للبیھقي:8745]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص میں تین اوصاف موجود ہوں وہ ایمان کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ (۱) جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے زیادہ اور کسی سے محبت نہ رکھتا ہو۔ (۲) جس شخص کو اپنے دین سے مرتد ہوجانا آگ میں جلا دیا جانے سے زیادہ محبوب ہو۔ (۳) جو اللہ کے لیے کسی سے دوستی رکھتا ہو اور اللہ کے لیے ہی کسی سے بغض رکھتا ہو۔
[صحیح بخاري:16، صحیح مسلم:43]
نصف ایمان:
فرمایا:
طھارت(پکیزگی) آدھا ایمان ہے.
[ترمذی:3519]
نصف ایمان:
فرمایا:
وضو(سے رہنا)آدھا ایمان ہے.
[احمد:23099]
صبر(یعنی احکامِ دین پر جمے رہنا) آدھا ایمان ہے.
[طبرانی:8544]
جس نے نکاح کیا،اس نے اپنا آدھا ایمان کامل کرلیا،اب اپنے باقی آدھے ایمان کے بارے میں الله سے ڈرے.
[المعجم الأوسط-للطبراني:7647]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس نے الله ہی کی خاطر محبت کی، اور الله ہی کیلئے بغض رکھا، اور الله ہی کے واسطے دیا، اور الله ہی کیلئے روکا، تو اس کا ایمان"کامل"ہوگیا۔
[ابوداؤد:4681]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تمام لوگوں سے کامل ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق میں اچھے ہوں، اور نرم پہلوؤں والے ہوں جو دوستی رکھتے ہیں اور دوست رکھے جاتے ہیں اور جو شخص نہ کسی کو دوست رکھے اور نہ اس کو کوئی دوست رکھے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔‘‘
[الصحیحة:751۔ معجم الاوسط:4422۔، معجم الصغیر:35]
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں اپنے دل میں ایسے خیالات پاتا ہوں کہ ان کو زبان پر لانے سے یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ کوئلہ بن جاؤں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صریح ایمان ہے۔
[معجم الصغیر:65]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بندہ پورا ایمان نہیں لاتا جب تک کہ ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ چھوڑدے اور جھگڑنا چھوڑدے اگرچہ سچا(حق پر) ہو.
[احمد:8630]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس میں تین عادتیں پیدا ہوگئیں،اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا
یا فرمایا:تین باتیں ایمان کی تکمیل ہیں:
تھوڑے میں سے کچھ خرچ کرنا،اپنی جان سے انصاف کرنا(ہر نافرمانی سے بچانا)،اور عالم کو(خصوصا)سلام کرتے رہنا.
[جامع الاحادیث:40683]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تین عادتیں جس میں ہوئیں،اس کا ایمان مکمل ہوجاۓ گا:
وہ شخص جو الله کے بارے میں کسی کی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتا، اور نہ اپنے کسی عمل میں دکھلاوا کرتا ہے، اور جب اس کے سامنے دو کام آتے ہیں ایک دنیا کا اور ایک آخرت کا تو وہ(حکمِ خدا کے خلاف حاصل کی جانے والی) دنیا کے مقابلہ میں آخرت کے کام کو فوقیت(اور ترجیح)دیتا ہے.
[جامع الاحادیث:11197]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بندہ اس وقت تک ایمان کامل نہیں پاسکتا جب تک کہ اپنی زبان کو(غلط اور فضول استعمال سے بھی)روک لے۔
[جامع الاحادیث:17838]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایمان کی پانچ(5)باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی شخص میں ان میں سے کوئی نہ ہو تو اس کا ایمان(کامل)نہیں:
حکمِ الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا، فیصلہِ الہی(تقدیر) پر راضی رہنا، خود(کی چاہت)کو الله کے حوالہ کرنا، الله پر بھروسہ کرنا اور مصیبت کے پہلے جھٹکے میں صبر کرنا۔
[جامع الاحادیث،امام سیوطی:11982]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وہ شخص کامل الایمان مومن نہیں جو مصیبت کو نعمت نہ سمجھے اور نرمی وآسانی کو مصیبت نہ سمجھے...(کیونکہ)ہر مصیبت کے بعد نرمی اور ہر آسانی کے بعد مصیبت تو آتی ہی ہے۔
[طبرانی:10949]
القرآن:
جو لوگ (اللہ کا) خوف رکھتے تھے، ان میں سے دو مرد جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا تھا۔ (20) بول اٹھے کہ : تم ان پر چڑھائی کر کے (شہر کے) دروازے میں گھس جاؤ۔ جب گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اور اپنا بھروسہ صرف اللہ پر رکھو، اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 23]
تفسیر:
(20) یہ دو صاحبان حضرت یوشع اور حضرت کالب (علیہما السلام) تھے جو ہر مرحلے پر حضرت موسیٰ ؑ کے وفادار رہے تھے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے بھی سرفراز فرمایا، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرکے آگے بڑھو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق تم ہی غالب رہوگے۔
اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 54]
القرآن:
درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 175]
القرآن:
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 268]
القرآن:
اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 208]
منافق کون؟
القرآن:
اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحقِ عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو؟ یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔
[سورۃ النساء،آیت نمبر 144]
القرآن:
اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یار ومددگار نہ بناؤ، اور اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 57]
تفسیر:
”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (60: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (60: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
القرآن:
کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا، اور رسول کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں) پہل کی ؟ (12) کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔ ان سے جنگ کرو تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے، انہیں رسوا کرے، ان کے خلاف تمہاری مدد کرے، اور مومنوں کے دل ٹھنڈے کردے۔ اور ان کے دل کی کڑھن دور کردے، اور جس کی چاہے توبہ قبول کرلے (13) اور اللہ کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 13]
تفسیر:
(12) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ظلم شروع کیا اور یہ بھی کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کو توڑنے میں پہل کی۔
(13) یعنی اس کا بھی امکان ہے کہ کفار توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں، چنانچہ بہت سے لوگ اس کے بعد واقعی مسلمان ہوئے۔
القرآن:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی (کسی کے ذمے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 278]
القرآن:
(یہ کامیاب سودا کرنے والے وہ ہیں جو) توبہ کرنے والے ! اللہ کی بندگی کرنے والے ! اس کی حمد کرنے والے ! روزے رکھنے والے ! (86) رکوع میں جھکنے والے ! سجدے گزرنے والے ! نیکی کی تلقین کرنے والے، اور برائی سے روکنے والے، اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے، (87) (اے پیغمبر) ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 112]
تفسیر:
(86) قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ السائحون ہے اس لفظ کے اصل معنی تو سیاحت کرنے والے کے ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اس کی تفسیر روزہ رکھنے سے فرمائی ہے اور یہی تفسیر متعدد صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے (تفسیر ابن جریر) بظاہر روزے کو سیاحت اس لیے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح سفر میں انسان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات قائم نہیں رہتے، اسی طرح روزے میں بھی ان معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
( 87) قرآن کریم نے بہت سے مواقع پر ”اللہ کی قائم کی ہوئی حدود“ اور ان کی حفاظت کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ بڑی معنی خیز اصطلاح ہے۔ اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام دئیے ہیں۔ وہ کچھ حدود کے پابند ہیں۔ ان حدود میں رہ کر ان کو انجام دیا جائے تو وہ درست اور نیک کام ہیں۔ اور اگر حدود سے نکل جائیں تو وہی کام ناپسندیدہ اور بعض اوقات گناہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص عبادت میں اتنا منہمک ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے جو حقوق رکھے ہیں، ان کو پامال کرنے لگے، تو وہ عبادت بھی ناجائز ہوجاتی ہے۔ تہجد کی نماز بڑی عظیم فضیلت کی چیز ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ نمازیں اس طرح پڑھے جس سے سونے والوں کی نیند میں خلل آئے تو یہ ناجائز ہے۔ والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نفلی عبادت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی وجہ سے بیوی بچوں کے حقوق پامال کرنے لگے تو یہ گناہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں بہت سی نیکیوں کا بیان کرنے کے بعد آخر میں حدود کی حفاظت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہ حضرت تمام نیکیاں ان حدود میں رہ کر انجام دیتے ہیں جو ان کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہیں۔ ان حدود کی تعلیم آنحضرت ﷺ نے اپنے قول اور فعل سے دی ہے اور ان کو سیکھنے کا بہترین طریقہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے کہ انسان کسی اللہ والے کی صحبت میں رہے، اور اس کے طرز عمل کو دیکھ دیکھ کر ان حدود کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں ان کو اتارنے کی کوشش کرے۔
مومنین کون؟ نیک اعمال والے۔
القرآن:
بےشک یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے وہ راستہ جو سب سے زیادہ سیدھا ہے، اور خوشخبری دیتا ہے مومنین کو جو نیک عمل کرتے ہیں، انہیں کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
[سورۃ نمبر 17 الإسراء،آیت نمبر 9]
القرآن:
(نازل کی)ٹھیک سیدھی(کتاب) تاکہ ڈر سنائے عذاب سخت کا اس کی طرف سے اور خوشخبری دے مومنوں کو جو عمل کرتے ہیں اچھے کہ ان کے لیے ہے اجر اچھا۔
[سورۃ الكهف، آیت نمبر 2]
ترجمہ:
ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے کہ ان کو بہترین اجر ملنے والا ہے۔
No comments:
Post a Comment