Wednesday, 24 July 2024

بائیکاٹ-قطع تعلق کے معنیٰ، مقاصد، اقسام اور دلائل

 بائیکاٹ(boycott) کے معنیٰ:

مقاطعہ کرنا۔ مواصلات ترک کرنا ۔ تَعلُقات توڑ دینا ۔ ملنا جلنا ترک کرنا۔

بائیکاٹ(boycott) کے مقاصد:
(1)ظالم کی قوت توڑنا۔ (2)برائی سے باز رہنے کیلئے پریشر ڈالنا۔

بائیکاٹ(boycott) کے اقسام:
(1)معاشی (2)معاشرتی۔

یہ بات واضح  رہے کہ موجودہ زمانے میں کسی بھی قوم و ملت کی سیاسی اور عسکری برتری  کی بنیاد معاشی ترقی اور معاشی برتری پر ہے، جب تک معاشی طور پر کوئی قوم مضبوط اور مختار نہ ہو اس وقت تک  وہ سیاسی اور عسکری طور پر کمزور ہوتی ہے، یہ بات ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں اگر کسی قوم کو کمزور کرنا ہو تو سب سے پہلے ان کی معیشت کو کمزور کیا جائے اور موجودہ زمانے میں اس کا مؤثر طریقہ کار ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے جس سے (1)ان کی معیشت پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے (2)اور مظلوم کے ساتھ یک جہتی اور ہمدردی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ مسلمانوں نے اس طریقہ کار  کو  ماضی قریب میں بھی اپنایا جب انگریزوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے لیے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف تحریکِ خلافت اور ترکِ موالات کی تحریک  چلائی، اسی طرح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفارِ قریش کے زور کو توڑنے کےلیے ان کے تجارتی قافلوں کے راستے جس پر شام سے مکہ اور مکہ سے شام تجارتی قافلوں کی آمد و رفت ہوتی تھی کو غیر محفوظ بنایا جس کے نتیجے میں غزوہ بدر  پیش آیا۔
[حوالہ»سورۃ الانفال:7، صحیح بخاری:3950+3951، صحیح مسلم:4915، سنن ابوداؤد:2618]
[صحیح مسلم:1935(4999)، سنن ابوداؤد:3840]
اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنونضیر کا محاصرہ کیا اور ان کے قلعے فتح نہیں ہورہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درختوں کے جلانے حکم دیا۔ اسی طرح جب حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ، جو نجد کے سردار تھے اور کفار قریش کو گندم فروخت کیا کرتے تھے، نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے کفارِ قریش پر گندم فروخت کرنا بند کردیا تھا۔
[حوالہ»سورۃ الحشر:5، صحیح بخاری:4372+4589، صحیح مسلم:1764(4589)، السنن الکبریٰ للبیھقی:12835+18030]

اسی طرح جب صلحِ حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ کو اور  صلحِ حدیبیہ کے بعد حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کیا جو کفارِ مکہ کی قید سے بھاگ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچے تھے تو انہوں نے مکہ سے شام جانے والے ایک راستے پر اقامت اختیار کی اور اس راستے سے کفار مکہ کا جو بھی تجارتی قافلہ گزرتا اس پر حملہ کردیتے جس سے کفار کی  قافلوں کی آمد و رفت بند ہوگئی۔
[حوالہ»صحیح بخاری:2731-2733+4182، سنن ابوداؤد:2765، السنن الکبریٰ للبیھقی:18833، المعجم الاوسط للطبرانی:15]
مذکورہ واقعات  اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کفار کی ان تجارتی اداروں اور مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا جو مسلمانوں کے خلاف  جنگ میں اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہیں  کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے اور ایمانی حمیت بھی اسی کا متقاضی ہے۔

تفصیلی حوالا جات:

بخاری شریف میں ہے:

"أنه لما كاتب رسول الله صلى الله عليه وسلم سهيل بن عمرو يوم الحديبية على قضية المدة، وكان فيما اشترط سهيل بن عمرو أنه قال: لا يأتيك منا أحد وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، وخليت بيننا وبينه. وأبى سهيل أن يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا على ذلك، فكره المؤمنون ذلك وامعضوا، فتكلموا فيه، فلما أبى سهيل أن يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا على ذلك، كاتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرد رسول صلى الله عليه وسلم أبا جندل بن سهيل يومئذ إلى أبيه سهيل ابن عمرو، ولم يأت رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد من الرجال إلا رده في تلك المدة، وإن كان مسلما."

(کتاب المغازي، باب:غزوۃ الحدیبیة، ج:4، ص:1532، ط:دار ابن کثیر دمشق)

وفیه أیضا:

"بعث النبي صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد، فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال، فربطوه بسارية من سواري المسجد، فخرج إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (ما عندك يا ثمامة). فقال: عندي خير يا محمد، إن تقتلني تقتل ذا دم، وإن تنعم تنعم على شاكر، وإن كنت تريد المال، فسل منه ما شئت. فترك حتى كان الغد، فقال: (ما عندك يا ثمامة). فقال: ما قلت لك، إن تنعم تنعم على شاكر فتركه حتى كان بعد الغد  فقال: ما عندك يا ثمامة فقال: عندي ما قلت لك فقال: (أطلقوا ثمامة). فانطلق إلى نخل قريب من المسجد، فاغتسل ثم دخل المسجد، فقال: أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا رسول الله، يا محمد، والله ما كان على الأرض وجه أبغض إلي من وجهك، فقد أصبح وجهك أحب الوجوه إلي، والله ما كان من دين أبغض إلي من دينك، فأصبح دينك أحب دين إلي، والله ما كان من بلد أبغض إلي من بلدك، فأصبح بلدك أحب البلاد إلي، وإن خيلك أخذتني، وأنا أريد العمرة، فماذا ترى؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه وسلم وإمرة أن يعتمر، فلما قدم مكة قال له قائل: صبوت، قال: لا، ولكن أسلمت مع محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا والله، لا يأتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى يأذن فيها النبي صلى الله عليه وسلم."

(کتاب المغازي، باب:وفد بني حنیفة و حدیث ثمامة  ابن أثال، ج:4،ص:1589، ط:دار ابن کثیر دمشق)

السیرۃ الحلبیہ میں ہے:

"يريد عيرا لقريش متوجهة للشام. يقال إن قريشا جمعت جميع أموالها في تلك العير لم يبق بمكة لا قرشي ولا قرشية له مثقال فصاعدا إلا بعث به في تلك العير إلا حويطب بن عبد العزى، يقال إن في تلك العير خمسين ألف دينار أي وألف بعير. وكان فيها أبو سفيان، أي قائدها. وكان معه سبعة وعشرون وقيل تسعة وثلاثون رجلا منهم مخرمة بن نوفل، وعمرو بن العاص، وهي العير التي خرج إليها حين رجعت من الشام. وكان سببا لوقعة بدر الكبرى كما سيأتي."

(باب ذكر مغازيه صلی اللہ علیه و سلم، غزوۃ العشیرۃ، ج:2، ص:175، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

وفیه أیضا:

"ثم إن العير التي خرج صلى الله عليه وسلم في طلبها حتى بلغ العشيرة ووجدها سبقته بأيام لم يزل مترقبا قفولها: أي رجوعها من الشأم، فلما سمع بقفولها من الشام ندب المسلمين» أي دعاهم وقال: «هذه عير قريش فيها أموالهم فاخرجوا إليها لعل الله أن ينفلكموها، فانتدب ناس» ، أي أجابوا «وثقل آخرون أي لم يجيبوا لظنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يلق حربا، ولم يحتفل لها رسول الله صلى الله عليه وسلم أي لم يهتم بها، بل قال «من كان ظهره» : أي ما يركبه «حاضرا فليركب معنا» ولم ينتظر من كان ظهره غائبا عنه."

(باب ذكر مغازیه صلی اللہ علیه و سلم، باب غزوۃ بدر الکبری، ج:2، ص:197، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت)

وفیه أیضا:

"وأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقطع النخل، أي وبحرقها بعد أن حاصرهم ست ليال وقيل خمسة عشر يوما: أي وقيل عشرين ليلة، وقيل ثلاثا وعشرين ليلة، وقيل خمسا وعشرين ليلة. وكان سعد بن عبادة رضي الله تعالى عنه في تلك المدة يحمل التمر للمسلمين: أي يجاء به من عنده. قال: واستعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم على قطع النخل أبا ليلى المازني وعبد الله بن سلام. وكان أبو ليلى يقطع العجوة وعبد الله يقطع اللين."

(باب مغازیه صلی اللہ علیه و سلم، غزوۃ بني النضیر، ج:2، ص:359، ط:دارالکتب العلمیة بیروت)

نورالیقین فی سیرۃ سید المرسلین میں ہے:

"وقد تمكن أبو بصير عتبة بن أسيد الثقفي رضي الله عنه من الفرار إلى رسول الله، فأرسلت  قريش في أثره رجلين يطلبان تسليمه، فأمره عليه الصلاة والسلام بالرجوع معهما، فقال يا رسول الله: أتردّني إلى الكفّار يفتنونني في ديني بعد أن خلصني الله منهم؟! فقال: إن الله جاعل لك ولإخوانك فرجا، فلم يجد بدّا من اتّباعه، فرجع مع صاحبيه، ولمّا قارب ذا الحليفة عدا على أحدهما فقتله، وهرب منه الاخر، فرجع إلى المدينة وقال: يا رسول الله وفت ذمتك أما أنا فنجوت، فقال له اذهب حيث شئت ولا تقم بالمدينة، فذهب إلى محل بطريق الشام تمرّ به تجارة قريش، فأقام به، واجتمع معه جمع ممن كانوا مسلمين بمكّة ونجوا، وسار إليه أبو جندل بن سهيل، واجتمع إليه جمع من الأعراب، وقطعوا الطريق على تجارة قريش حتى قطعوا عنهم الأمداد."

(السنة السادسة، صلح الحدیبیة، ص:172، ط:دارالفیحاء دمشق)

فقط واللہ اعلم






پہلی قرآنی دلیل»اعانت نہ کرنا۔

القرآن:

 .....اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت(مدد) کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت "مت" کرو.....

[سورۃ المائدۃ:2]

اور حرام ہے جان بوجھ کر فتنہ پرور لوگوں کو ہتھیار بیچنا کیونکہ یہ گناہ میں معاونت ہے۔

[فتاویٰ عالمگیریہ:4/268» باب البغاۃ]

[الدر المختار مع رد المحتار: 268/4، ط: دار الفكر]


نوٹ:

برائی اور دشمنی میں ساتھ دینا منع گناہ ہے، اگرچہ اس سے اپنا یا دوسرے کا دنیاوی-فانی نفع ہوتا ہو، ورنہ نفع کیلئے استثنیٰ واجازت دی جاتی۔

لہٰذا جب "معلوم" ہو جائے کہ ایک شخص کے مدد (1)اللہ اور رسول کی نافرمانی میں ہوگی (2)یا دوسرے شخص کی جان، مال اور عزت میں زیادتی ہوگی.....تو تعاون کرنا حلال(جائز) نہیں، بلکہ ایسا تعاون حرام(گناہ) ہوجاتا ہے۔

تو پھر جو شخص دشمن-قاتل-فتنہ پرور ہو تو ایسے شخص کی مدد کرنا، وہ بھی گناہ اور زیادتی میں کیوں کر جائز ہوسکتی ہے؟


اور نیکی میں تعاون کرنا پسندیدہ ہے لازم نہیں، جبکہ برائی-حرام سے بچنا-بچانا پسندیدہ بھی ہے اور لازم بھی۔



کافروں کی مالی اعانت، اللہ والوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔

کافر کون؟

لوگوں کو اللہ کی راستے(اسلام) سے روکنے والے۔

القرآن:

جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ اپنے مال اس کام کے لیے خرچ کر رہے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکیں۔ (21) نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ خرچ تو کریں گے، مگر پھر یہ سب کچھ ان کے لیے حسرت کا سبب بن جائے گا، اور آخر کار یہ مغلوب ہوجائیں گے۔ اور (آخرت میں) ان کافر لوگوں کو جہنم کی طرف اکٹھا کر کے لایا جائے گا۔

[سورۃ الأنفال، آیت نمبر 36]

تفسیر:

(21) جنگ بدر کے بعد قریش کے بچے کھچے سرداروں نے چندہ جمع کرنا شروع کیا تھا کہ اس سے ایک بڑی جنگ کی تیاری کریں۔ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی۔



ہم مظلوم فلسطینیوں کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں؟

(1)دعا قنوتِ نازلہ سے (2)صدقات سے (3)اس خیر/نیکی کی بات کو پھیلانے سے (4)ظالم کو ظالم کہنے_مذمت کرنے سے (5)دشمن کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے۔


*امداد برائے اہلِ فلسطین:*

جامعہ دارالعلوم کراچی کی طرف سے فلسطینی بے بس اور مظلوم بھائیوں کے ساتھ معاونت کے لیے عطیات فلسطین بھیجنے کا نظم قائم کیا جا رہا ہے، پہلی ترجیح کھانے اور ادویات کی ہے، زکوۃ صدقات خیرات و عطیات وغیرہ کی مد میں رقم کی وصولی کا انتظام کیا جا رہا ہے، جو جامعہ دارالعلوم کراچی کے درج ذیل بینک اکاؤنٹ نمبر پر جمع کرائی جا سکتی ہیں۔

مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق اکاؤنٹ میں رقم جمع کرانے کے بعد دارالعلوم اسٹاف کو بذریعہ فون یا واٹس ایپ پر زکوۃ وعطیات کی مد کے بارے میں مطلع فرمائیں اور رقم منتقلی کا اسکرین شارٹ مذکورہ بالا واٹس ایپ نمبر پر بھیج دیں۔ شکریہ

ACCOUNT:

Imdad Mutasireen Aafat Darul uloom Karachi


SWIFT CODE:

MEZNPKKAGRD


IBAN No:

PK59MEZN0099280100571167


Branch Code:

9928


Account:

0100571167


Meezan Bank

Korangi Darul Uloom branch






دوسری دلیل»مت جھکنا۔

القرآن:

اور (دیکھو) ظالموں کی طرف مت "جھکنا" ورنہ تمہیں بھی آتش دوزخ آپکڑے گی....

[سورۃ ھود:113]

تفسیر:

﴿وَلَا تَرْكَنُوا} تَمِيلُوا {إلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا} بِمَوَدَّةٍ أَوْ مُدَاهَنَة أَوْ رِضَا بِأَعْمَالِهِمْ

ترجمہ:

﴿اور مت جھکنا﴾ یعنی میل ملاپ رکھنا ﴿ظالموں کی طرف﴾ یعنی ان کے ساتھ دوستی کرکے، یا نرمی کرکے، یا ان کے اعمال پر رضامندی ظاہر کرکے۔

[تفسیر جلالین: صفحہ#301]


والنهى متناول ‌للانحطاط في هواهم، والانقطاع إليهم، ومصاحبتهم ومجالستهم وزيارتهم ومداهنتهم، والرضا بأعمالهم، والتشبه بهم، والتزيي بزيهم، ومد العين إلى زهرتهم. وذكرهم بما فيه تعظيم لهم.

ترجمہ:

اور "ممانعت" مین ان کی خواہشات سے پرہیز کرنا، اور ان سے "توڑنا" میں ان کے ساتھ رہنا اور بیٹھنا اور ان کی زیارت کرنا اور ان کی خوشامد کرنا، ان کے اعمال سے مطمئن ہونا، ان کی مشابہت اختیار کرنا، ان جیسا لباس پہننا اور ان کے حسن پر نگاہ ڈالنا شامل ہیں۔ اور وہ باتیں ذکر کرنا جو ان کی تعظیم کیلئے ہوں۔

[تفسیر الکشاف-امام الرازی»2/433]




تیسری دلیل»دوست ومددگار مت بنانا۔

القرآن:

مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو، (9) اور اللہ تمہیں اپنے (عذاب) سے بچاتا ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔

[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 28]

تفسیر:

(9)”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (60: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (60: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔



عزت کی تلاش

القرآن:

وہ(منافق)جو مسلمانوں کے بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کر رہے ہیں ؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کی ہے۔

[سورۃ نمبر 4 النساء،آیت نمبر 139]


منافق کون؟

القرآن:

اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحقِ عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو؟ یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔

[سورۃ النساء،آیت نمبر 144]







چوتھی دلیل»مت بیٹھنا۔

القرآن:

اور اس نے کتاب میں تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں، ورنہ تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے۔ یقین رکھو کہ اللہ تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے۔

[سورۃ النساء،آیت نمبر 140]

القرآن:

اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کو برا بھلا کہنے میں لگے ہوئے ہیں، تو ان سے اس وقت تک کے لیے الگ ہوجاؤ جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں یہ بات بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو۔

[سورۃ نمبر 6 الأنعام،آیت نمبر 68]






پانچویں دلیل»شیطان کے باتوں میں نہ آنا۔

القرآن:

اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 208]

القرآن:

شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 268]

القرآن:

درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 175]



















معاشی جنگ کا اظہار» دشمن کی مصنوعات کا بائیکات»

واضح رہے کہ اسرائیل نے فلسطین کے مظلوم اور نہتے مسلمانوں پر ظلم اور بربریت کا جو دردناک وکربناک بازار گرم کر رکھا ہے، اور عائلی قوانین کا جیسے جنازہ نکالا ہے، ایک انسان ہونے کے ناطے دنیا کا کوئی شخص بھی اس کو برداشت نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے کہ کسی مذہبی تفریق کے بغیر پوری دنیا کے عوام اسرائیل کے اس ظلم، خون ریزی، اور کم ظرفی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، بلکہ بہت سے مغربی ممالک میں اس ظلم کے خلاف غیرمسلموں کی طرف سے بڑی تاریخی مظاہرے نکالے گئے ہیں، اس موقع پر دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان کی شرعی، اخلاقی اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلسطین کے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنی استطاعت کے مطابق ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا سلسلہ جاری رکھے۔

فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ تعاون اور مدد کی ایک اہم صورت یہ ہے کہ یہودیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے، کیونکہ انہی مصنوعات کا خاطر خواہ نفع اسرائیل کو جاتا ہے، جو اس سے بارود، اسلحہ وغیرہ تیار کرکے آئے دن غزہ کے نہتے معصوم بچوں کو شہید کر رہا ہے، ان حالات میں ایک مسلمان کے لیے یہودیوں کی مصنوعات کی خرید وفروخت کرنا دراصل اس ظلم میں ان کے معاون اور شریک بننے کے مترادف ہے، لہذا ان کو خرید کر ظالموں کا تعاون کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ دینی اور انسانی غیرت کے بھی خلاف ہے، لہذا ایک مسلمان ہونے کے ناطے آپ کو چاہیے کہ یہودی کمپنیوں کی کولڈ ڈرنکس اور دیگر مصنوعات کی خرید و فروخت سے مکمل گریز اور بائیکاٹ کرے۔


اسرائیلی و دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ازلی دشمن یہودیوں کو ہماری وجہ سے کوئی فائدہ نہ پہنچے، اور مذکورہ کمپنیاں جو مسلم ممالک میں ہیں اور اشیاء بھی خودمسلمان بناتے ہیں، یہ کمپنیاں ان کا نام استعمال کرتی ہے ، جس کی وجہ سے منافع کا خاطر خواہ حصہ اسرائیل و دیگریہودی کمپنیوں(جن کا نام استعمال کرتے ہیں) کو جاتا ہے، جو کہ ان کو معاشی طور پر مضبوط کرنا اور ان کی معیشت کو فائدہ پہنچاناہے اور انہی منافع سے یہ یہودی گولہ بارود اور دیگر اسلحہ خرید کر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں، اور اب تک ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کو شہید اور زخمی کر چکے ہیں، لاکھوں بے یار و مددگا پڑے ہوئے ہیں، ان کے گھروں کو بمباری سے ختم کر کے تہس نہس کردیا ہے، اور یہ مسلمان خیموں اور کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں، اسی طرح آئے دن مسلمانوں کی نسل کشی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے رہتے ہیں، لہذا ان کی مصنوعات کو خریدنا درحقیقت انہیں قوت پہنچانا ہے جو کہ نہ صرف مکروہ ہے بلکہ ایمانی غیرت کے خلاف ہے؛ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے ممالک اور ریاستوں کو فائدہ پہنچانے سے مکمل طور پر گریز کرے، اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت، اہلِ اسلام سے یک جہتی اور دینی حمیت کا مظہر ہوگا۔


باقی بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ہمارے ملک کے بعض مسلمان یہودی کمپنیوں کا نام استعمال کر کے چیزیں بناتے ہیں، ان چیزوں کا بائیکاٹ کرنے سے ہمارے ملک کو بھی نقصان ہوگا،یا پاکستان میں موجود کمپنی کے ملازمین بیروزگار ہو جائیں گے اور مالک بھی کنگال ہوگا یہ عذر شرعاً قابلِ اعتناءنہیں ہے، اس طرح تو تمام اسرائیلی اور یہودی کمپنیوں کی تیار کردہ مصنوعات مسلمانوں کی دوکانوں میں فروخت ہوتی ہوں تو مسلمان دوکان دار کو مالی فائدہ ہوتا ہے، اور بائیکاٹ کرنے سے دوکان دار ان اشیاء کے منافع سے محروم رہیں گے، تو پھر بھی ملکی نقصان کہہ کر بائیکاٹ کو ترک کر دیا جائے ؟ مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کا تقاضہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ یہودی کمپنیوں کا نام بھی استعمال نہ کریں جس کی بنیاد پر یہودی معیشت مضبوط ہو، بلکہ ملکی اور غیر ملکی غیر یہودی مصنوعات کو فروخت کریں۔





واضح رہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، ایک خطے کے مسلمان اگر حالتِ جنگ میں ہوں اور ظالم قوتوں کے ظلم کا شکار ہوں تو تمام مسلمانوں کی ایمانی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ ان مظلوم افراد کے حق میں کھڑے ہوں، ان کی امداد کریں، ظلم سے نکالنے میں ہر ممکن کوشش کریں، اور ظالم قوتوں کی کمر توڑنے کے لیے یک جان ہو کر تمام تر اقدامات سے گریز نہ کریں، سوال میں بیان کردہ صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل اور مسلمانوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کرنے والے ہر ملک سے اقتصادی اور معاشی سطح پر بائیکاٹ کرنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے، اس وقت ہر مسلمان کی غیرتِ ایمانی کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے اور ظالم صہیونی قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے پرزور اقدامات کرے، خاص طور پر ان تمام معاشی راستوں کو بند کردیں جن کے ذریعے ظالم قوت حاصل کر کے ہمارے مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔


2۔موجودہ صورتِ حال میں تمام مسلم حکمرانوں کا ایمان ان سےاس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں، اسلامی اخوت اور حمیت کو سامنے رکھتے ہوئے غزہ کے مسلمانوں کو اس مشکل سے نکالنے میں متحد ہو کر تمام ضروری اقدامات کریں، ظالموں کے ظلم کے خاتمے کے لیے تمام تدبیریں اختیار کریں، لہٰذا تمام اسلامی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ان تمام ذرائع کے بائیکاٹ کے احکام جاری اور نافذ کریں جن کے ذریعے اسرائیلی قوت حاصل کر کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے میں مصروف ہیں۔





شرح سنن ابی داؤد لابن رسلان میں ہے:

"وكما أنه لا يجوز حمل السلاح إلى أرض العدو، لا يجوز أن يباع العدو شيئا مما يستعينون به في حروبهم من كراع أو سلاح، ولا شيئا مما يرهبون به على المسلمين في قتالهم مثل الرايات وما يلبسون في حروبهم." 

ترجمہ:

"جس طرح دشمن کے علاقے میں ہتھیار لے جانا جائز نہیں ہے، اسی طرح دشمن کو کسی بھی چیز کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے جو وہ اپنی جنگوں میں استعمال کرتے ہیں، جیسے زرہ یا ہتھیار، یا کوئی ایسی چیز جسے وہ اپنی لڑائی میں مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جھنڈوں کے طور پر اور جو وہ اپنی جنگوں میں پہنتے ہیں۔

[كتاب الجهاد، باب في حمل السلاح إلى أرض العدو، ج:١٢، ص:١٢١، رقم:٢٧٨٦، ط:دارالفلاح]


الجامع لاحکام القرآن للقرطبی میں ہے:

"روى الأئمة عن أبي سعيد الخدري قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان). قال العلماء: الأمر بالمعروف باليد على الأمراء، وباللسان على العلماء، وبالقلب على الضعفاء، يعني عوام الناس."

ترجمہ:

ائمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو دل سے، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔

علماء نے فرمایا: ہاتھ (کی طاقت) سے نیکی کا حکم دینا حکمرانوں پر ہے، اور زبان سے علماء پر اور دل سے کمزوروں یعنی عام لوگوں پر لازم ہے۔"

[الآية:٢٢، سورة آل عمران، ج:٤، ص:٤٩، ط:دار الكتب المصرية]


احکام القرآن لابن العربی میں ہے:

وفي هذا الحديث من غريب الفقه أن النبي - صلى الله عليه وسلم - بدأ في البيان بالأخير في الفعل، وهو تغيير المنكر باليد، وإنما يبدأ باللسان والبيان، فإن لم يكن فباليد. يعني أن يحول بين المنكر وبين متعاطيه بنزعه وبجذبه منه، فإن لم يقدر إلا بمقاتلة وسلاح فليتركه، وذلك إنما هو إلى السلطان."

لآية:١٧، ج:١، ص:٣٨٣، ط:دارالكتب العلمية]


فتح القوی المتین میں ہے:

هذا الحديث مشتمل على درجات إنكار المنكر وأن من قدر على التغيير باليد تعين عليه ذلك، وهذا يكون من السلطان ونوابه في الولايات العامة."

ترجمہ:

اس حدیث میں برائی کی تردید کے درجات بھی شامل ہیں، اور یہ کہ جو شخص اسے ہاتھ سے (برائی کو نیکی میں) بدل سکتا ہے اس پر ایسا کرنا واجب ہے، اور یہ سلطان اور عوام کی گورنری میں اس کے نائبین ہیں۔"

لحديث الرابع والثلاثون، ص:١١٦، ط:دارابن القيم]




فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

"یہودی کمپنیوں کا مال خریدنا اور ان کو نفع پہنچانا جائز نہیں ہے، یہودی اسلام کے خلاف آج کل محارب ہیں، ان کے ارادے یہ ہیں کہ حجازِ مقدس بالخصوص مدینہ طیبہ زادہا اللہ شرفاً اور اس کے گرد و نواح کو فتح کر لیں، ان کے زعم میں یہ دراصل یہودی علاقے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہودِ مدینہ، بنی نظیر، بنی قینقاع، یہود خیبر ان علاقوں کے مالک تھے، اس حالت میں کوئی ایسی چیز بازار سے نہ خریدی جائے جس سے یہودی کی مالی پوزیشن مستحکم ہو، قرآن کریم میں ہے:ولا ينالون من عدو نيلا إلا كتب لهم به عمل صالح...الآية، لا نکرہ ہے، تحت النفی مفید استغراق ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دشمن کو کسی طرح کوئی بھی نقصان پہنچانا عملِ صالح ہے، فقہاء کی عبارات سے بھی اسی طرح کے حوالہ جات نقل کیے جا سکتے ہیں کہ مسلمانِ عالم کو اجتماعی طور پر یہودیوں کے اموال تجارت کا بائیکاٹ کرنا لازم ہے ۔"

اب الحظر والاباحۃ، عنوان:یہودی کمپنیوں کا مال خریدنا، ج:11، ص:204، ط:جمعیت پبلیکیشنز]


جواہر الفقہ میں ہے:

"بلا ضرورت مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار و مشرکین کے ساتھ معاملات نہ کیے جائیں... کفار و مشرکین کے ساتھ اس طرح معاملات نہ کیے جائیں جس سے مسلمانوں کی ذلت ظاہر ہو، روایاتِ حدیث و فقہ کے دیکھنے اور حالاتِ موجودہ پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوا کہ اس وقت باوجود اباحت فی نفسہا کے مسلمانوں کے لیے اپنی دکانیں چھوڑ کر غیر مسلموں سے سامان خریدنا ہرگز جائز نہیں۔"

[غیر مسلموں کے ساتھ معاملات، ج:5، ص:355/ 362، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی]




کیوں دشمن کی مالی امداد کا بائیکاٹ کرنا لازم ہے؟


غزہ اور فلسطین کے حالیہ معرکہ کے بارے میں ایک بار پھر یاددہانی کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا کہ اس کی معروضی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں تین فریق آمنے سامنے ہیں جن کے درمیان محاذ آرائی کا بازار گرم ہے:

  • اسرائیل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے لیے سرگرم عمل ہے،
  • ایران دولتِ فاطمیہ کی بحالی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے،
  • جبکہ عرب ممالک کسی واضح ایجنڈے کے بغیر اپنی حکومتیں، ریاستیں اور بادشاہتیں بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں،
  • اور ایک ممکنہ فریق ترکیہ ہے جو خلافتِ عثمانیہ کی طرف واپسی کی سوچ رکھتا ہے اور اس کے لیے مناسب مواقع کی تلاش میں ہے۔ 

باقی پورا عالمِ اسلام خاموش تماشائی ہے اور مسلم حکومتیں اس سلسلہ میں کوئی عملی کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دے رہیں۔

اس معرکہ میں بیت المقدس کی حرمت، فلسطین کی آزادی، اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی اپنی حمیت اور جذبات کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں، مگر اس سے زیادہ کوئی کردار ادا کرنے کے لیے انہیں اپنی حکومتوں کی طرف سے کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ فلسطینیوں کی حمایت میں رائے عامہ کی بیداری، پبلک اجتماعات کا اہتمام، سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے علاوہ تجارتی بائیکاٹ کے محاذ پر بھی مختلف حلقوں کی سرگرمیاں جاری ہیں، مگر انہیں منظم اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس میں عوام کے مختلف طبقات کے ساتھ ریاستی اداروں اور حکومتی حلقوں کا شریک ہونا بھی ضروری ہے جس کے لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔ 

جہاں تک تجارتی بائیکاٹ کا تعلق ہے، یہ بھی جنگ کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کا مکہ والوں نے شعب ابی طالب میں جو محاصرہ کیا تھا اور تین سال تک معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کا ماحول قائم رکھا تھا، وہ معاشی جنگ ہی کا اظہار تھا۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بدر کے غزوہ کا آغاز قریش کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے کی مہم سے کیا تھا، جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  کہ تم قافلہ کو روکنے کی طرف جا رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا رخ بدر کی طرف موڑ کر معرکہ بپا کروا دیا۔ صلح حدیبیہ میں کفار مکہ کی طرف سے یہ یکطرفہ اور غلط شرط مسلمانوں کے لیے انتہائی اضطراب کا باعث بنی تھی کہ باہم صلح کے دور میں قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے، جبکہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص انہیں چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا گیا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہو گی۔ اس شرط پر مسلمانوں کے اضطراب بالخصوص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بے چینی کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاہدہ کی خاطر منظور کر لیا تھا۔ مگر بعد میں مکہ والوں کو خود یہ شرط واپس لینا پڑی تھی جس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابوبصیرؓ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کے مطابق انہیں قریش کے دو نمائندوں کے ساتھ واپس بھیج دیا، مگر واپس مکہ مکرمہ جانے کی بجائے انہوں نے راستہ میں قریش کے ایک نمائندہ کو قتل کر کے محفوظ جگہ ٹھکانہ بنا لیا جس میں رفتہ رفتہ وہ لوگ جمع ہوتے گئے جو مسلمان ہو گئے تھے مگر معاہدہ کی رو سے مدینہ منورہ والے انہیں پناہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان لوگوں نے مضبوط جتھہ اور مرکز بنا کر قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا شروع کر دیا تھا جس کے کچھ عرصہ جاری رہنے پر مکہ والوں نے اپنی تجارت کو خطرہ محسوس کیا تو خود وفد بھیج کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس اڈے کو ختم کرنے کی گزارش کی اور اس کے لیے انہوں نے مذکورہ شرط واپس لے لی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی ناکہ بندی اور تجارتی بائیکاٹ بھی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ ہوتا ہے اور جہاد کا ایک شعبہ ہے۔ پھر قرآن کریم نے جہاد کے مسائل کے ذکر میں ’’ولا ینالون من عدو نیلاً‌‘‘ فرما کر یہ اعلان کیا کہ حالتِ جنگ میں دشمن کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا جہاد کا حصہ اور عملِ صالح ہے۔ اس لیے اگر ہم آج غزہ کے مجاہدین کی اور کوئی مدد نہیں کر سکتے تو اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا منظم بائیکاٹ کر کے عملاً‌ اس جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اور ہمیں یہ کام منظم اور مربوط طریقہ سے وسیع ماحول میں کرنا چاہیے اور ہمارے آج کے اس سیمینار کا قوم کے نام یہی پیغام ہے کہ یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کو منظم کرنا اس جہاد میں ہماری عملی شرکت کا قابلِ عمل ذریعہ ہے اور ہمیں ہر طرح سے اس میں شریک ہونا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔








ہالینڈ اور سویڈن کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا جائے: جامعہ الازھر
دونوں ملکو ں میں قرآن کی بے حرمتی کےرد عمل میں شیخ امام احمد الطیب کا مسلم امہ سے مطالبہ

پہلی اشاعت: 27 جنوری ,2023: 03:18 AM GST
آخری اپ ڈیٹ: 27 جنوری ,2023: 04:38 AM GST

مصر اور عالم اسلام کی معروف جامعہ الازھر نے امہ مسلمہ سے ہالینڈ اور سویڈن کی مصنوعات کی بائیکاٹ کا مطالبہ کردیا۔ حالیہ دنوں میں دو نوں ملکوں میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی جس کے رد عمل میں پورے عالم اسلام میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں۔

بدھ کے روز الازہر کے شیخ امام احمد الطیب نے دی ہیگ اور سٹاک ہوم میں دو انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں کی طرف سے قرآن کے دو نسخوں کو ’’ نعوذ باللہ‘‘ نذر آتش اور اوراق کو پُرزے کیا گیا تھا۔

اشتہار
سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے سویڈش پولیس کی طرف سے اختیار کردہ مظاہرے کے تناظر میں انتہائی دائیں بازو کے سویڈش-ڈینش راسموس پالوڈن نے 21 جنوری ہفتہ کو ۔ نعوذ باللہ ۔ نذر آتش کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ اتوار کے روز اسلام مخالف "پیگیڈا" تحریک کے ایک رہنما نے دی ہیگ میں ڈچ پارلیمنٹ کے ہیڈکوارٹرز کے قریب اکیلے کھڑے ہو کر ۔ نعوذ باللہ ۔ اوراق کے پُرزے کرنے کی حرکت کر ڈالی تھی۔ ڈچ پبلک ٹیلی ویژن "NOS" نے اعلان کیا تھا کہ مقامی پولیس نے اسے انتہا پسند کو نذر آتش کے اقدام کی طرف جانے سے روک دیا تھا۔


دونوں واقعات کے بعد اسلامی ملکوں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ ترکی، عراق، شام، پاکستان، افغانستان ، یمن اور دیگر ملکو ں میں مظاہرے کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں آج جمعہ کے روز یوم مذمت منایا جا رہا ہے۔

آزادی اظہار
الازہر کے امام نے عرب اور اسلامی عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام ڈچ اور سویڈش مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں اور ان دونوں ملکوں کی حکومتوں کو مناسب جواب دینے کی ہدایت کریں۔ یہ ملک نفرت انگیز اور وحشیانہ جرائم کو آزادی اظہار رائے کے نام پر تحفظ دے رہے ہیں۔

مصری وزارت خارجہ نے دونوں ممالک میں ہونے والے واقعات کی شدید مذمت کی اور کہا کہ مذاہب کی بے حرمتی کے بار بار ہونے والے واقعات اور متعدد یورپی ممالک میں اسلامو فوبیا میں اضافہ قابل تشویش ہے۔
















قادیانیوں کی مصنوعات کا حکم:

قادیانیوں کا حکم عام کفار کا نہیں ہے، بلکہ قادیانی شرعاً مرتد اور زندیق کے حکم میں ہیں؛ لہذا ان سے لین دین رکھنا، ان کی دکان کرایہ پر لینا  اور اسی طرح دیگر معاملات کرنا سب ناجائز ہے۔لہذا قادیانی سےکرایہ داری کا معاملہ ختم کرنا واجب ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ مذکورہ بلڈنگ قادیانی کی ملکیت ہے جس سے ایک مسلمان نے کرایہ پر لی ہے تو  سب سے پہلے قادیانی کی بلڈنگ کرایہ پر لے کر فلور مل چلانے والے مسلمان کو شرعی حکم سمجھا کر قادیانی کے ساتھ کرایہ داری کا معاملہ ختم کرنے   اور دوسری متبادل جگہ تلاش کرنے کے لیے کہا جائے، اگر سمجھانے کے باوجود بھی وہ کرایہ داری کا معاملہ ختم کرنے کے لیے تیار نہیں  تو جب تک  وہ قادیانی کے ساتھ کرایہ داری ختم نہ کرے اس فلور مل کے آٹے کا بائیکاٹ کیا جائے۔

فتاوٰی بینات میں ”قادیانیوں کے ساتھ موالات“ کے عنوان سے ایک تفصیلی فتوٰی میں مذکور ہے:

”جو کافر مرتد اور باغی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوں ان سے خرید و فروخت اور لین دین، جب کہ اس سے ان کو تقویت حاصل ہوتی ہو جائز نہیں، بلکہ ان کی اقتصادی نا کہ بندی کر کے ان کی جارحانہ قوت کو مفلوج کردینا واجب ہے“

(کتاب العقائد: ج: 1، ص: 239، ط: مکتبہ بینات)

فیض الباری میں ہے:

"قوله: (أتي علي بزنادقة) ... إلخ، والزناديق قيل هم: الذين يتعبدون - بالزند - والقاف ملحق في المعربات؛ قلت: والزنديق من يحرف في معاني الألفاظ، مع إبقاء ألفاظ الإسلام كهذا اللعين في القاديان، يدعي أنه يؤمن بختم النبوة، ثم يخترع له معنى من عنده يصلح له بعده الختم دليلًا على فتح باب النبوة، فهذا هو الزندقة حقًّا، أي التغيير في المصاديق، وتبديل المعاني على خلاف ما عرفت عند أهل الشرع، وصرفها إلى أهوائه مع إبقاء اللفظ على ظاهره، والعياذ بالله". 

(کتاب استتابة المرتدین و المعاندین و قتالهم: ج:1، ص:104، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"فإن الزنديق يموّه كفره ويروّج عقيدته الفاسدة، ويخرجها في الصورة الصحيحة".

(كتاب الجهاد، باب المرتد:ج:4، ص:242، ط: دار الفکر)

احکام القرآن میں ہے:

"{إن الذين يحادون الله ورسوله أولئك في الأذلين} ... الثانية: استدل مالك رحمه الله من هذه الآية على معاداة القدرية وترك مجالستهم. قال أشهب عن مالك: لاتجالس القدرية وعادهم في الله، لقوله تعالى: {لاتجد قومًا يؤمنون بالله واليوم الآخر يوادون من حاد الله ورسوله} قلت: وفي معنى أهل القدر جميع أهل الظلم والعدوان".

(سورة المجادلة (58) : آية 22،ج:17، ص:306، ط: دارالکتب المصریة)

فقط والله أعلم

































بائیکاٹ یا مقاطعہ کرنے کی اصل تو سنت نبوی میں موجود ہے۔ جیسا کہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کو فرمایا تھا:

وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنَ ‌الْيَمَامَةِ ‌حَبَّةُ ‌حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم

اللہ کی قسم یمامہ سے تمھارے پاس گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم اسکی اجازت نہ دے دیں۔

صحیح البخاری: 4372

مقاطعہ یا بائیکاٹ کرنے کی روش اس   سے قبل بھی موجود تھی جیسا کہ قریش اور کنانہ نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کا بائیکاٹ کیا تھا۔

صحیح البخاری: 1590

بائیکاٹ کا ہتھیار پہلے زمانوں میں بھی استعمال ہوتا رہا  ہے جیساکہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اناج لینے آئے اپنےبھائیوں کو رخصت کرتے ہوئے فرمایا تھا:

ائْتُونِي بِأَخٍ لَكُمْ مِنْ أَبِيكُمْ أَلا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِي وَلا تَقْرَبُونِ

میرے پاس اپنے پدری بھائی کو بھی لانا، کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں پورا ماپ دیتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں، اگر تم اسے نہ لائے تو تمہارے لیے کوئی ماپ (اناج) میرے پاس نہیں ہوگا، اور تم میرے قریب بھی مت آنا۔

سورۃ یوسف: 59،60

گویا یوسف علیہ السلام نے اناج روکنے کو اپنا بھائی بلانے کے وسیلے اور  ہتھیار  کے طور پہ استعمال کیا ہے، اور وہ اس میں کامیاب رہے۔

اسی طرح کفار پہ سختی کرنے کا اللہ تعالى نے باقاعدہ حکم صادر فرمایا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ

اے نبی! صلى اللہ علیہ وسلم کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پہ سختی کیجئے۔

سورۃ التوبۃ: 73

اور کفار کو غصہ دلانے کو باعث ثواب کام قرار دیا ہے:

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلا نَصَبٌ وَلا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا يَطَأُونَ مَوْطِئاً يُغِيظُ الْكُفَّارَ وَلا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلاً إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

یہ اس وجہ سے کہ انھیں اللہ کی راہ میں  نہ کوئی پیاس لگتی ہے، نہ تھکاوٹ، نہ بھوک، اور نہ وہ کسی ایسی جگہ سے گزرتے ہیں جو کفار کو غصہ دلائے، اور نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں، مگر اس کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے، یقینا اللہ تعالى نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

سورۃ التوبۃ: 120

اور معاشی بائیکاٹ بھی کفار کو غیظ وغضب میں مبتلا کرنے کا باعث بنتاہے، اور ان پہ سختی کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کی قبیل سے ہی ہے۔

اور آج تک معاشی واقتصادی مقاطعے کو جنگی ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں اسکی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ کسی قوم سے اقتصادی مقاطعہ انکے خلاف جنگ کا ایک بہترین ہتھیار اور نتیجہ خیز طریقہ کار ہے۔ اور جب یہ کفار کے خلاف مسلمانوں کی مناصرت کی خاطر ہو، تو یہ جہاد فی سبیل اللہ میں شامل و داخل ہے۔  جس کے ذریعے کفار کی معیشت کو کمزور اور انکے حوصلوں کو پست کیا جاسکتا ہے۔

لیکن  یہ مقاطعہ ہر وقت فائدہ مند نہیں ہوتا، بلکہ کبھی اس کا نقصان فائدے سے زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ شریعت اسلامیہ فوائد حاصل کرنے اور نقصانات سے بچنے کا حکم دیتی ہے۔ لہذا جب مقاطعہ / بائیکاٹ کرنے سے  بڑی مصلحت ہاتھ سے نکل رہی ہو، یا بڑا نقصان پیدا ہو رہا ہو، تو ایسی صورت میں مقاطعہ ناجائز ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ مقاصد شریعت کے خلاف ہے۔

الغرض مقاطعہ / بائیکاٹ کا مختلف حالات میں حکم مختلف ہوتا  ہے۔ 

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کسی بھی قوم یا فرد سے تجارت مقصود اصلی نہیں ، بلکہ نفع  و فائدہ حاصل کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔ کیونکہ کسی بھی فرد یا قوم کو کسی ایسی چیز  کی ضرورت ہوتی ہے جو اسکے اپنے پاس موجود نہ ہو، بلکہ دوسرے فرد یا قوم کے پاس موجود ہو۔ وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے دوسرے سے وہ شے طلب کرتا ہے، جو اسے بلا عوض نہیں ملتی۔ سو یہ کسی عوض (قیمت) کے بدلے اپنے فائدے کی شے حاصل کرلیتا ہے، اور اسی کا نام تجارت ہے۔ گویا خرید وفروخت اصل مقصد نہیں، بلکہ اصل مقصد دونوں فریقوں کا ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے، تجارت (خرید وفروخت) تو اس نفع کے حصول کا اک وسیلہ  اور ذریعہ ہے۔

اور یہ وسائل کبھی مصلحت کے حصول کا سبب بنتے ہیں اور کبھی فساد کا پیش خیمہ۔ اس اعتبار سے ان وسائل کو چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:

1- ایسا وسیلہ جو ہو ہی فساد کا سبب، جیسے شراب نوشی، یہ نشے کا وسیلہ ہے ، اور  شرع نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

2- ایسا وسیلہ جو  بذات خود تو حلال ہو، لیکن اسے حرام یا فساد کا ذریعہ بنا لیا جائے، جیسا کہ نکاح شرعا حلال ہے، لیکن اگر حلالے کی نیت سے کیا جائے تو لعنت کا سبب ہے۔ سو اسے بھی شرع نے حرام قرار دیا  ہے۔

3- ایسا وسیلہ جو بذاتہ حلال و جائز ہے، اور اس سے ناجائز کام مقصود بھی نہیں ہے، لیکن عموما اس کا نتیجہ غلط نکلتا ہے، اور اس کا نقصان اس کے فائدے کی نسبت زیادہ ہے۔ جیسا کہ کفار کے سامنے ان کے معبودوں کو برا کہنا۔ شرع نے اسے بھی ناجائز وحرام قرار دیا ہے ۔

4- ایسا وسیلہ جو بذاتہ حلال و جائز ہے،  اور اس سے ناجائز کام مقصود بھی نہیں ہے، لیکن کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کا نتیجہ فساد کی صورت نکلتا ہے۔ لیکن اسکا فائدہ اسکے نقصان کی نسبت زیادہ ہے ۔ جیسا کہ سلطان جابر کے سامنے کلمہء حق کہنا۔  یہ قسم  مصلحت کے اعتبار سے کبھی محض جائز ومباح ہوتی ہے، کبھی مستحب، اور  کبھی فرض ۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے  دوسری ا ور تیسری قسم کی حرمت 99 وجوہ سے واضح فرمائی ہے۔

اعلام الموقعین: جـ4 صـ 5 ط: عطاءات العلم

اسی طرح کفار ومشرکین کی بھی چار اقسام ہیں:1- حربی کافر: 

یعنی وہ کفار جو ایسے دار الکفر میں رہتے ہیں جن کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ان کے ممالک کو دار الحرب کہا جاتا ہے۔

2- معاہد کافر:

یعنی وہ کفار جو ایسے دار الکفر میں رہتے ہیں جن کے اور مسلمانوں کے درمیان عہد ومیثاق ہے۔ ان کے ممالک کو دار العہد کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ عصر حاضر میں معاہد کفار ممالک بھی دو طرح کے ہیں ایک غیر جانبدار اور دوسرے جانبدار۔

3- مستامن کافر: 

یعنی وہ کفار جو دار الکفر کے ہی رہنے والے ہیں ، لیکن وقتی طور پر امان (ویزہ) حاصل کرکے مسلمان ملک میں آئے ہیں۔

4- ذمی کافر:

یہ وہ کفار ہیں جو مسلمانوں کے ملک میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں، اور مسلمانوں کی طرف سے مقرر کردہ جزیہ (ٹیکس) ادا کرتے اور اسلامی ملک کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔

ان تمام کفار کے ساتھ مالی معاملات  بھی  چار اقسام کے  ہی ہوتے ہیں:

1- کفار وغیرہ سے ایسی تجارت جس کے نتیجے میں حرام کا ارتکاب ہو۔ ایسا عقد (خرید وفروخت کا معاہدہ) شرعا باطل ہے، اور اس کی حرمت میں کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ اور یہ عقد  سابقہ سطور میں مذکور وسائل اربعہ میں سے پہلی قسم کے تحت آتا ہے۔

2- محارب یا معاہد  کفار کے ساتھ ایسے اقتصادی معاملات کرنا جو کہ اصلا مباح ہیں، لیکن ان میں مقصود کافر ممالک کو معاشی ترقی دینا، اور ان کی اقتصادیات کو مضبوط کرنا ہو۔ ایسے عقد بھی شرعا حرام و ناجائز ہی ٹھہریں گے، کیونکہ اس میں کفار سے موالاۃ اور ان سے ذلت کو ختم کرنے جیسے شرعی جرائم پائے جاتے ہیں۔ اور یہ عقد  سابقہ سطور میں مذکور وسائل اربعہ میں سے دوسری قسم کے تحت آتا ہے۔

3- محارب یا معاہد کفار سے ایسے معاملات طے کرنا  جو بذاتہ حلال ہوں، اور ان سے مقصود بھی جائز ہو، مثلا ذاتی طور پہ نفع کمانا وغیرہ۔ لیکن کفار کو ان معاشی معاہدوں سے ایسا فائدہ حاصل ہو کہ جس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔ خواہ یہ نقصان مسلمانوں کے قتل کرنے  کی صورت میں ہو یا انہیں علاقہ بدر کرنے، یا انکے عقائد ونظریات بگاڑنے، یا انکی معیشت غیر مستحکم کرنے کی شکل میں ہو، الغرض کوئی بھی صورت ہو جس میں مسلمانوں کو کفار کی جانب سے نقصان پہنچتا ہو، اور نقصان حاصل ہونے والے فائدے کی نسبت زیادہ ہو، تو ایسے عقود (معاملات و عہد وپیمان) بھی بنیادی طور پر شریعت کی نگاہ  میں حرام و ناجائز ہی ٹھہرتے ہیں۔ بالخصوص جب کفار سے منگوایا جانے والا سامان ایسا ہوکہ اسکا نعم البدل مسلمانوں کے پاس موجود ہو، یا بے ضرر کفار سے دستیاب ہو سکتا ہو۔ اور یہ عقد  سابقہ سطور میں مذکور وسائل اربعہ میں سے تیسری قسم  کے تحت آتا ہے۔

4- معاہد  کفار سے ایسا عقد طے کرناجو بذاتہ ہی بھی حلال ہو، اور اس سے جائز مقاصد کا حصول مطلوب ہو۔ تو بنیادی طور پر اس کے مباح و جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اور کبھی ایسا عقد مستحب بلکہ کبھی واجب بن جاتا ہے۔ یہ عقد  سابقہ سطور میں مذکور وسائل اربعہ میں سے چوتھی قسم کے تحت آتا ہے۔

الغرض پہلی قسم کے معاہدات  تجارت کی حرمت  تو بالکل واضح ہے ، جبکہ دوسری اور تیسری قسم کے عقد بھی  وسائل ممنوعہ ہونے کی وجہ سے  ناجائزہیں۔ سو ان تین صورتوں میں تو کفار سے مقاطعہ  بنیادی طور پر واجب ہے!کیونکہ کسی بھی کام سے ممانعت اسکے الٹ کام کو واجب کر دیتی ہے جب اسکی ضد بالاتفاق ایک ہو، جیسا کہ علم اصول میں یہ بات واضح ہے۔

ان بنیادی باتوں کو سمجھنے کے بعد کفار کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا حکم سمجھنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے، تو اباحت اصلیہ کی وجہ سے کفار سے تجارت کرنا ، ان کی مصنوعات استعمال کرنا وغیرہ سب اصلا حلال و جائز ہے۔ البتہ وہ چند صورتیں جن کا ذکر سابقہ سطور میں گزر چکا ہے، ان صورتوں میں حکم بدل جائے گا۔

چونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے، تو کفار سے اقتصادی مقاطعہ  یعنی ان سے خرید وفروخت روک لینا وغیرہ بھی اصلا حلال و مباح ہے۔  اور مصالح ومفاسد کے پیش نظر اس(بائیکاٹ) کے احکام مختلف ہوتے ہیں۔

یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اباحت میں دونوں اطراف برابر ہوتے ہیں۔ یعنی جب کوئی کام کرنا مباح ہوتا ہے تو وہ کام نہ کرنا بھی اسی طرح مباح ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بنیادی طور پر مقاطعہ/ بائیکاٹ کرنے اور نہ کرنے دونوں کو مباح اصلا مباح قرار دیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض حالات میں یہ مقاطعہ حرام اور بعض حالات میں واجب  یا مندو ب و مستحب ہو جاتا ہے۔

جیساکہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ مقا طعہ (بائیکاٹ) جب رب کی رضا کی خاطر ہو، تو  یہ جہاد کی اقسام میں سے ایک قسم ہے، کیونکہ اس سے کفار کو نقصان  پہنچتا  ہے ، جس کے نتیجے میں کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانا بند یا کم کر دیتے ہیں، یا مسلمانوں کو کچھ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔  لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مقاطعہ (بائیکاٹ) کا ہتھیار استعمال کرنے کے نتیجے میں کبھی کفار کی طرف سے برا رد عمل بھی ظاہر ہوسکتا ہے، بالخصوص ان کافر ممالک کی طرف سے جو دنیا میں جگے بنے ہوئے ہیں۔ جس کی نتیجے میں مسلمانوں کو فائدے سے کہیں زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور کبھی اس مقاطعہ کے دوران مسلمان خود ہی اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں کہ بہت سے مسلمانوں کا ہی روزگار تباہ ہو جاتا ہے۔ 

چونکہ معاشی بائیکاٹ کا ہتھیار استعمال کرنے کے کا مقصد   (1)مصالح و فوائد حاصل کرنا  (2)اور مفاسد  و نقصانات ختم کرنا ہے، سو یہ دیکھنا چاہیے کہ جلب مصالح اور درء مفاسد میں سے بائیکاٹ کے نتیجے میں کیا حاصل ہو رہا ہے۔ کیا دونوں مقاصد حاصل ہو رہے ہیں ، یا دونوں ہی حاصل نہیں ہو رہے، یا دونوں میں سے کوئی ایک حاصل ہو رہا ہے؟۔ اس طرح غور کرنے سے مقاطعہ کی چار صورتیں بنیں گی:

1- دونوں مقاصد حاصل ہو ں۔یعنی مقاطعہ (بائیکاٹ) کرنے سے کفار کو نقصان پہنچے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو کوئی بڑا نقصان بھی نہ ہو۔اور کفار کی طرف سے  مسلمانوں کو پہنچنے والا ضرر کم یا ختم ہو جائے۔ تو ایسی صورت میں مقاطعہ واجب ہے!

2- دونوں مقاصد ہی حاصل نہ ہوں۔ یعنی مقاطعہ  کے نتیجے میں کفار کو کوئی نقصان نہ ہو،  بلکہ الٹا مسلمانوں کو نقصان پہنچے  مثلا کفار مسلمانوں پہ ظلم بڑھا دیں، جنگ مسلط کر دیں،  یا مسلمانوں کی معیشت کمزور کرکے رکھ دیں۔ تو ایسی صورت میں بائیکاٹ کرنا حرام ہے!

3- دونوں مقاصد میں سے پہلا مقصد (جلب مصالح) حاصل ہو ، اور دوسرا مقصد (درء مفاسد) حاصل نہ ہو۔ یعنی مقاطعہ (بائیکاٹ) کے نتیجے میں کفار کو نقصان پہنچے، لیکن ساتھ مسلمانوں کو بھی کوئی بڑا نقصان پہنچے۔ گویا مصلحت و فائدے کے حصول کے ساتھ ساتھ ایسا مفسدہ  بھی پیدا ہو جائے جسے ختم کرنا مقاصد شریعت میں شامل ہے۔ تو یہاں مصلحت اور مفسدۃ میں تعارض آ جائے گا۔ تو  ایسی صورت میں اگر پیدا ہونے والا فساد حاصل ہونے والی مصلحت (فائدے) سے کم تر ہو ، تو مقاطعہ کرنا مباح ہے۔ لیکن اگر حاصل ہونے والا مفسدۃ (نقصان وخرابی)  فائدے سے زیادہ ہے، تو ایسی صورت میں مقاطعہ جائز نہ ہوگا۔ اور اگر  مصلحت و مفسدۃ ( فائدہ اور نقصان) دونوں برابر ہوں تو تب بھی بائیکاٹ ناجائز ہوگا، کیونکہ شریعت کی نظر میں مفاسد کو دور کرنا مصالح حاصل کرنے پہ مقدم ہے۔

4- دونوں میں سے پہلا مقصد (جلب مصالح) حاصل نہ ہو، ا لبتہ دوسرا مقصد (درء مفاسد) پورا ہو جائے۔یعنی بائیکاٹ سے کفار کا کوئی خاص نقصان نہ ہو،ا ور نہ ہی مسلمانوں کو کسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے، تو ایسی صورت میں بائیکاٹ کرنا مستحب و مندوب ہوتا ہے۔ کہ یہ بھی کفار کے خلاف احتجاج  اور غیظ وغضب کا اظہار ہے۔

اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ:

کفارکے معاشی معاملات اصلا حلال ہیں، ہاں اس میں کچھ استثناءات ہیں۔ اور معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ  انسانی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں  ہیں۔ اور معاشی بائیکاٹ اپنے مطالبے منوانے اور مخالف کو زیر کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ اور جب یہ رضائے الہی کی خاطر ہو، تو یہ جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے۔  اور بائیکاٹ کرنا بھی اصلا مباح ہے، لیکن مختلف حالات میں یہ کبھی واجب، کبھی حرام، کبھی مستحب  ہو جاتا ہے۔

مذکورہ بالا بحث کے نتیجے میں بائیکاٹ کا عمومی حکم آپ کے سامنے واضح ہو چکا۔  اور اسکی حلت و حرمت کے دلائل  بھی سامنے آچکے۔ رہا موجودہ صورت حال میں اسرائیل سے بائیکاٹ کا حکم تو آپ اگر مذکورہ بالا بحث پہ غور فرمائیں تو واضح ہوگا کہ اس بائیکاٹ کے نتیجے میں مسلمانوں کی اس شدید دشمن قوم کا معاشی نقصان ہوا ہے جو کہ حاصل ہونے والے راجح مصلحت ہے،  لیکن اس کے نتیجے میں اہل غزہ پہ اسرائیل کا ظلم وستم کم نہیں ہوا، بلکہ ظلم وستم کا مسلسل جاری رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں اتنے نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے۔ جبکہ مسلمان ملکوں میں تیار ہونے والے اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات سے جڑے بہت سے مسلمانوں کا روزگار کسی حد تک متاثر ہو رہا ہے۔ یہ مفسدہ ہے جو اس بائیکاٹ کے نتیجے میں پیدا ہو رہا ہے۔ گویا یہ جاری بائیکاٹ تیسری قسم کا بائیکاٹ ہے جس میں مصلحت اور مفسدت میں تعارض آگیا ہے۔ لہذا یہ دیکھنا ہوگا کہ پہنچنے والے نقصان کا حاصل ہونے والے فائدے سے کیا تناسب ہے؟

اگر تو نقصان کم تر ہے تو یہ مباح بائیکاٹ ہے  جو محض احتجاج کی قبیل سے ہے، لہذا یہ بائیکاٹ جائز ہے، لیکن واجب یا فرض نہیں، نہ ہی حرام ہے۔ اہل غزہ کی مناصرت کی نیت سے بائیکاٹ جاری رکھنے والے یقینا اپنی نیت کی وجہ سے ماجور ہیں، جبکہ بائیکاٹ سے تہی رہنے والے مجرم یا گنہگار نہیں ہیں۔

اور اگر  نقصان نسبتا زیادہ ہے تو یہ بائیکاٹ حرام ہے۔ 

اور اگر نقصان اور فائدہ دونوں برابر  ہیں تب بھی  یہ بائیکاٹ حرام ہوگا۔

اب یہ فیصلہ کہ نفع اور نقصان میں تناسب کتنا ہے؟ حکومت وقت کا کام ہے، یا ان اداروں کا وظیفہ ہے جو ایسے سروے کرکے نتائج نکالتے ہیں۔ ہم صرف شرعی حکم ہی بتا سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے بائیکاٹ اس وقت نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے جب حکومتی سطح پہ اس کا اہتمام کیا جائے۔عوام کا اپنے طور پہ کسی قوم کا بائیکاٹ کرنا کبھی نتیجہ خیز ثابت ہوتاہے اور  کبھی نہیں۔ اور نتیجہ خیز تب ہوتا ہے جب تمام عوام بائیکاٹ پہ متفق ہو جائیں، یا کم ازکم اتنی بڑی تعداد میں اکثریت بائیکاٹ کرے کہ دشمن کو خاطر خواہ نقصان پہنچے۔  یہ اس وقت ہے جب بائیکاٹ مباح ہو، اگر حرام ہو تو کسی کا بھی بائیکاٹ کرنا نا جائز ہوگا، اور اگر واجب ہو تو کسی کا بھی بائیکاٹ سے پیچھے رہنا گناہ کا باعث ہوگا۔







تین صحابہ سے نافرمانی پر معاشرتی بائیکاٹ اور قبولیتِ توبہ تک ان کی رُوداد:

ہم تمہیں سیاسی پناہ دیں گے اور عزت و اکرام کا معاملہ کریں گے۔ میں نے خط پڑھ کر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا کہ کیا یہ امتحان ابھی باقی رہ گیا تھا؟ میں اس قبطی کو ساتھ لے کر اپنے محلے کے ایک تنور پر گیا جس میں آگ جل رہی تھی، میں نے وہ خط جلتی ہوئی آگ میں پھینک کر اس قبطی سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے جا کر کہہ دینا کہ یہ اس کے خط کا جواب ہے۔


ہم مسلسل چالیس روز تک اسی کیفیت میں رہے کہ ایک روز جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام آیا کہ اپنی بیویوں سے الگ ہو جاؤ اور ان کے قریب نہ جاؤ ۔ ہلال بن امیہؓ کی بیوی نے یہ کہہ کر گھر میں رہنے کی اجازت لے لی کہ یا رسول اللہؐ! اس کا تو روٹی پکانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ آپؐ نے یہ فرما کر اجازت دے دی کہ ضروری کاموں کے لیے تم گھر میں رہ سکتی ہو لیکن تم ایک دوسرے کے قریب نہیں جاؤ گے۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ اس قسم کی اجازت میں بھی حاصل کر لوں مگر میں نے کہا کہ میں جوان آدمی ہوں نباہ نہیں سکوں گا۔ اس لیے میں نے بیوی سے کہا کہ تم میکے چلی جاؤ اور کوئی فیصلہ ہونے تک وہیں رہو۔ اس دوران میں مسجد نبوی میں جاتا رہا، نماز میں شریک ہوتا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتا تھا۔ حاضر ہو کر آنحضرتؐ کی خدمت میں سلام عرض کرتا اور منہ دوسری طرف کر کے کن انکھیوں سے دیکھتا کہ کیا آپؐ نے میرے سلام کا جواب دیا ہے؟ مگر ادھر مکمل خاموشی رہتی تھی۔


اسی امتحان و آزمائش میں روز و شب گزر رہے تھے کہ ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی اور گہرے دوست ابوقتادہؓ کے پاس اس کے گھر چلا گیا۔ میں نے سلام کیا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم اس بات کو نہیں جانتے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ قلبی محبت رکھتا ہوں؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے دوبارہ سہ بارہ قسم دلا کر پوچھا تو اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اس پر میں انتہائی مایوسی کے عالم میں روتے ہوئے اس گھر سے نکل آیا۔


ہمارے ساتھ مدینہ منورہ کے لوگوں کے اس سوشل بائیکاٹ پر پچاس راتیں گزر چکی تھیں اور ہماری پریشانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا کہ ایک روز میں فجر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو مجھے گھر کے سامنے کے پہاڑ ’’سلع‘‘ سے آواز سنائی دی کہ اے کعب! خوش ہو جاؤ! میں سمجھ گیا کہ ہماری معافی کا اعلان آگیا ہے۔ ہوا یوں کہ رات کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہماری معافی کا فیصلہ سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیت کریمہ کے ذریعے صادر فرما دیا تھا اور جناب نبی اکرمؐ نے صبح نماز فجر کے بعد جب مسجد نبوی میں اس کا اعلان فرمایا تو دو حضرات مجھے اس کی خبر دینے کے لیے دوڑ پڑے اور ان میں مجھے یہ خبر پہلے دینے میں مقابلہ ہوگیا۔ ایک گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے میری طرف تیزی سے آرہا تھا جبکہ دوسرا پیدل ہی دوڑ پڑا اور درمیانی راستوں سے ہوتے ہوئے میرے گھر کے بالکل قریب جبل سلع تک پہنچ گیا، یہ صاحب حضرت حمزہ اسلمیؓ تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ گھڑ سوار ان سے پہلے کعبؓ کے گھر پہنچ جائے گا تو انہوں نے اسی پہاڑ سے میرے گھر کی طرف رخ کر کے میرے لیے خوشخبری کی آواز لگا دی جو مجھے فورًا پہنچ گئی اور وہ گھڑ سوار پر سبقت لے گئے۔


میں دیوانہ وار گھر سے نکلا، اپنے کپڑے خوشخبری دینے والے کو انعام کے طور پر دیے اور خود پڑوسی سے مانگ کر کپڑے پہنے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا تو وہ صحابہ کرامؓ کے جھرمٹ میں انتہائی خوشی کے عالم میں تشریف فرما تھے۔ حضرت طلحہؓ نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور جناب رسول اللہؐ نے مجھے اس آزمائش میں سرخرو ہونے پر مبارکباد دی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے سچ بولنے کی وجہ سے یہ اعزاز ملا ہے اس لیے وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ اس خوشی میں میرا سارا مال و جائیداد اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ سارا نہیں اپنے لیے بھی کچھ روک لو، میں نے عرض کیا ٹھیک ہے، خیبر میں ملنے والا باغ میں اپنے لیے روک لیتا ہوں اس کے سوا باقی میرا سارا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے۔

[حوالہ»سورۃ التوبۃ:117-119، صحیح بخاری:2947+2948+4418، صحیح مسلم:3006(7016-7019)، سنن ابوداؤد:2637، سنن الترمذي:3102، سنن النسائی:731+732]





















No comments:

Post a Comment