Thursday, 26 September 2024

حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔

 حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔

القرآن:

مسیح کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھ سکتے کہ وہ اللہ کے بندے ہوں، اور نہ مقرب فرشتے (اس میں کوئی عار سمجھتے ہیں) اور جو شخص اپنے پروردگار کی بندگی میں عار سمجھے، اور تکبر کا مظاہرہ کرے تو (وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ) اللہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔ 

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 172]


تفسیر:

نجران کے وفد نے کہا: اے محمد ﷺ! آپ ہمارے آقا (عیسیٰ مسیح) پر عیب لگاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں کیا کہتا ہوں؟ وفد والوں نے کہا: آپ ان کو اللہ کا بندہ اور رسول کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا بندہ ہونا عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باعث عار نہیں۔

[تفسير امام البغوي: حديث#735 (جلد1 صفحه726)]


نوٹ:

(1)اللہ کی شان انبیاء بلکہ تمام مخلوق سے بھی بلند ہے، لہٰذا اللہ کے مقابلے میں کسی کی شان کو اللہ سے بلند یا برابر نہ رکھنا بلکہ چھوٹا/کم رکھتے بندہ کہنا کہلوانا حق ہے، اس بات پر کوئی پیغمبر یا فرشتہ ہرگز عار محسوس نہیں کرتا بلکہ خوشی وفخر محسوس کرتا یے۔

(2)اگر حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں، جو ایسا سمجھے وہ نادان ہے۔


دیگر مثالیں:

*(2)پیغمبر کو "بشر"(انسان) ماننا:*

اللہ نے خود پیغمبر کو حکم فرمایا کہ "کہدیجئے! میں تم جیسا بشر ہوں..."

[حوالہ سورۃ الکھف:100، فصلت:6]


*(3)پیغمبر کو "امی" کہنا-ماننا۔*

[حوالہ سورۃ الاعراف:157-158، الجمعہ:2]


(4)کہدیجئے! میں مالک نہیں اپنے لئے بھی کسی نفع کا اور نہ کسی نقصان کا مگر جو چاہے اللہ...

[سورۃ الاعراف:188]


(5)کہو کہ : میں پیغمبروں میں کوئی انوکھا پیغمبر نہیں ہوں، مجھے معلوم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ یہ معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا ؟ میں کسی اور چیز کی نہیں، صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے بھیجی جاتی ہے۔ اور میں تو صرف ایک واضح انداز سے خبردار کرنے والا ہوں۔

[سورۃ الأحقاف، آیت نمبر 9]


(6)(اے پیغمبر) حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو خود چاہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے، اور ہدایت قبول کرنے والوں کو وہی خوب جانتا ہے۔

[سورۃ القصص ،آیت نمبر 56]


(7)(اے نبی) تم ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کرو گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا ہے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔

[سورۃ التوبة ،آیت نمبر 80]


(8)اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔

[سورۃ البقرة، آیت نمبر 120]


(9)اور اگر (بالفرض) یہ پیغمبر کچھ (جھوٹی) باتیں بنا کر ہماری طرف منسوب کردیتے۔ تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ تے۔ پھر ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی نہ ہوتا جو ان کے بچاؤ کے لیے آڑے آسکتا۔

[سورۃ الحاقة، آیت نمبر 44-47]


(10)یہ بات کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی رہیں جب تک کہ وہ زمین میں (دشمنوں کا) خون اچھی طرح نہ بہا چکا ہو (جس سے ان کا رعب پوری طرح ٹوٹ جائے) تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو اور اللہ (تمہارے لیے) آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔ اگر اللہ کی طرف سے ایک لکھا ہوا حکم پہلے نہ آچکا ہوتا تو جو راستہ تم نے اختیار کیا، اس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑی سزا آجاتی۔

[سورۃ الأنفال ،آیت نمبر 67-68]



Tuesday, 10 September 2024

عظیم اخلاق

 

القرآن:
اور یقیناً آپ(اے پیغمبر!) اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہیں۔
[سورۃ القلم،آیت#4]

چنانچہ ہر فعل آپ کا موصوف باعتدال اور قرین رضائے الٰہی ہے۔

اور وہ بھی اس مرتبہ پر کہ آپ ﷺ کی سیرت تو نظیر اور نمونہ کا کام دے گی زندگی کے ہر ہر شعبہ میں اور وہ بھی کسی ایک قوم ، کسی ایک زمانہ کے لئے نہیں، ہر ملک ، ہر قوم ، ہر زمانہ کے لئے عدیم النظیر سیرت والے کی جانب جنون ودیوانگی کی نسبت دینا خود اپنے پاگل پن کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے۔

عظیم اخلاق کی تفاسیر»
(1)قرآن(کی تعلیمات)، آپ کے اخلاق تھے۔
[تفسير البغوي:2248، مسند احمد:25302+25813(24601)]

سورۃ المؤمنون(آیت 1سے11) پڑھ لو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق تھے۔
[الأدب المفرد-للبخاري:308]

(2)قرآن، آپ کا اخلاق تھا کہ آپ اللہ کی رضا پر راضی رہتے اور اسکی ناراضگی والی باتوں پر غصہ ہوتے۔
[المعجم الأوسط-للطبراني:72، اخلاق النبي-ابي الشيخ:54(1/198)]

(3)قرآن، آپ کا اخلاق تھا اور آپ کنواری لڑکیوں سے بڑھ کر لوگوں سے حیا کرنے والے تھے جو اپنے پردے میں ہوتی ہیں۔

(4)دینِ اسلام، آپ کا اخلاق تھا۔
[تفسير مقاتل بن سليمان:4/403، تفسير ابن جرير: 23/150]

(5)عظیم اخلاق یہ ہیں کہ اللہ کے احکام کو بجا لاتے تھے اور اللہ کی ممانعت سے رکتے تھے۔
[تفسير الثعلبي:9/10، تفسير البغوي:8/188]

(6)آپ نے خادم کو کبھی اف تک نہ کہا، کبھی یہ نہ کہا کہ یہ کیوں نہ کیا اور یہ کیوں کیا؟
[صحیح البخاري:6038، تفسير البغوي:2251]
ملامت کرنے والے ملامت کرتے تو آپ فرماتے کہ اسے چھوڑدو، اگر یہ چیز مقدر میں ہوتی تو اس طرح ہوجاتا۔
[السنة ابن ابي عاصم:355، جامع الاحاديث-للسيوطي:12358]
(7)آپ نہ فحش کام کرنے والے تھے، اور نہ فحش بات کہنے والے تھے، اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے تھے، لیکن آپ درگذر کرنے والے، اور معاف کرنے والے تھے۔
[جامع الترمذي:2016، صحيح ابن حبان:7288، مسند احمد:25990]

(8)اللہ کی راہ میں لڑنے کے علاؤہ کسی پر ہاتھ نہ اٹھاتے، نہ خادم پر اور نہ عورت پر۔
[تفسير البغوي:2256، شرح السنة-للبغوي:3667]

(9)جب کسی مرد کو مصافحہ کرتے تو اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے، اور اپنے چہرے کو اس کے چہرے سے نہ پھیرتے حتیٰ کہ وہ خود اپنے چہرے کو پھیر لے، اور آپ (علیہ السلام) کو کبھی کسی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی طرف ٹانگیں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
[تفسير البغوي:2255، جامع الترمذي:2490]
حوالہ
[موسوعة التفسير المأثور: 78023-78045]



تمام جہانوں کیلئے رحمت» محمد رسول اللہ ﷺ

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
اور (اے محمد!) ہم نے تمہیں بھیجا ہے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔
[سورة الانبياء:107]

القرآن:
اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو۔۔۔
[سورۃ الأنفال، آیت نمبر 33]
رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: کیا آپ (قریش کے) مشرکین پر لعنت نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
[صحیح مسلم:2599()]
اور پرہیزگاروں کیلئے ہدایت (بن کر)۔
[مسند احمد:22218ـ22307]
میں تو بس ایک رحمت ہوں جو رہنمائی کرتا ہے۔
[الصحيحة:490، حاکم:100]
میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو  (اے اللہ)  میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے  اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب  (امیر المؤمنین)  کو لکھ بھیجوں گا۔
[سنن ابوداؤد:4659، مسند احمد:23706]

حضرت ابن عباس نے فرمایا: جو ایمان لائے گا اس پر دنیا اور آخرت میں رحم کیا جائے گا، اور جو ایمان نہیں لائے گا کہ وہ اس عذاب سے بچ جائے گا جو موجودہ دنیا میں قوموں پر ہوتا تھا۔ یعنی دھنسنے، چہرے بگڑنے اور پتھروں کی بارش سے، یہی اس دنیا میں رحمت ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني:12358، دلائل النبوة للبيهقي:5/486]




Thursday, 5 September 2024

نظرِ بد کی حقیقت، تاثیر اور علاج

نظرِ بد کا اثر اور حقیقت»

حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"العين تدخل الرجل القبر وتدخل الجمل القِدر".

ترجمہ:

نظر آدمی پر قبر میں بھی لگ جاتی ہے اور ہانڈی میں گوشت پر بھی لگ جاتی ہے۔

[مسند الشھاب:1057، کنزالعمال:17660، صحیح الجامع:4144، الصحیحہ:1249]

القرآن:

جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے جب وہ نصیحت کی یہ بات سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنی (تیز تیز) آنکھوں سے تمہیں ڈگمگا دیں گے۔۔۔

[سورۃ القلم:51]



Tuesday, 3 September 2024

شدت-انتہاپسندی کے جائز اور ناجائز پہلو

انتہا-شدت پسندی یہ نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ سچا، مخلص اور گہری عقیدت رکھی جائے۔ علمِ دین کی لگن، دین پر ثابت قدمی، غیر متزلزل عزم-وابستگی، بغیرسمجھوتہ عدل وانصاف، ظلم وناحق کا انکار کیا جائے۔

بلکہ

انتہا-شدت پسندی تو یہ ہے کہ گناہ/ناحق پر قائم اور ضدی رہنا، اللہ کی مقرر کردہ حدود سے نکلنا، عدل وانصاف پر سمجھوتا کرنا، لوگوں کو ناحق تکلیف/نقصان پہنچانا، اپنوں کا ظلم میں ساتھ دینا اور دوسروں کیلئے دوغلی پالیسی رکھنا، حقوق وحدود کا انکار کرنا ہے۔



محمود انتہاپسندی


قرآن و سنت میں "اچھی" یا "صحیح" انتہا پسندی کے تصور کو اس طرح سمجھا گیا ہے:


انتہا پسندی مثبت معنی میں:

1. گہری عقیدت

2. سچی لگن

3. غیر متزلزل عزم


دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، نیک مقاصد کے لیے۔


قرآنی رہنمائی:

1. _اللہ کی راہ میں جہاد کرنا_:

"اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو..."

(قرآن 9:20)

2. _استقامت-ثابت قدم رہنا:

(قرآن 2:250، 3:147، 4:66، 8:45، 10:89، 11:122، 16:102، 17:74، 41:30، 46:13)

"اور تقویٰ پر ثابت قدم رہو..."

(قرآن 3:79)

3. _نیک کاموں میں سبقت/جلدی کرنا_:

"اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف دوڑو..."

(قرآن 57:21)


نبوی تعلیمات (سنت):


1. _عبادت میں فضیلت تلاش کرنا_:

"بہترین اعمال وہ ہیں جو مستقل-دائمی ہوں، چاہے وہ چھوٹے-تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔"

(صحیح بخاری)

2. _علم کا جوش-لگن_:

"علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔"

 (سنن ابن ماجہ)

3. _غیر متزلزل عزم_:

"ثابت قدم رہو، اور ڈگمگانے والوں میں سے نہ بنو۔"

(سنن ابوداؤد)


مثبت انتہا پسندی کی مثالیں:


1. _حضرت عبداللہ ابن عباس کی_ علم کی لگن

2. _حضرت عمر بن عبدالعزیز کا_غیر سمجھوتہ کرنے والا انصاف

3. _امام احمد بن حنبل کی_تحفظ حدیث سے غیرمتزلزل وابستگی


درست انتہا پسندی کی خصوصیات:


1. _اخلاص_: اللہ ہی کی رضا کی تلاش میں سچا اور باوفا رہنا۔

2. _علم_:

3. _توازن_: خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بچنا۔بچانا۔

4. عاجزی: اپنی حدود کو پہچاننا۔


حق اور ناحق انتہاپسندی میں فرق-تمیز:


1. _حوصلہ افزائی_:

صحیح انتہا پسندی اللہ کی محبت سے چلتی ہے، جب کہ غلط انتہا پسندی نفرت یا ذاتی فائدے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

2. _طریقہ کار:

صحیح انتہا پسندی پرامن، شرعی وقانونی ذرائع استعمال کرتی ہے، جب کہ غلط انتہا پسندی تشدد یا نقصان کا سہارا لیتی ہے۔

3. _اثر_:

صحیح انتہا پسندی معاشرہ/سماج کو فائدہ پہنچاتی ہے، جبکہ غلط انتہا پسندی اسے نقصان پہنچاتی ہے۔


آخر میں، قرآن و سنت مثبت انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جس کی خصوصیت راستبازی، علم اور عقیدت کے لیے غیر متزلزل وابستگی ہے، جبکہ نقصان دہ اور پرتشدد انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔





In the Quran and Sunnah, the concept of "good" or "right" extremism is understood as:


*Al-Ghuluww* (الغلو): Extremism in a positive sense, meaning:


1. Excessive devotion

2. Intense dedication

3. Unwavering commitment


to righteous causes, without harming others.


*Quranic Guidance:*


1. _Striving in Allah's path_: "And strive in Allah's path with your wealth and your lives..." (Quran 9:20)

2. _Standing firm_: "And stand firm in righteousness..." (Quran 3:79)

3. _Excelling in good deeds_: "Race towards forgiveness from your Lord and a Garden..." (Quran 57:21)


*Prophetic Teachings (Sunnah):*


1. _Excellence in worship_: "The best of deeds are those which are constant, even if they are small." (Sahih Bukhari)

2. _Zeal for knowledge_: "Seeking knowledge is obligatory upon every Muslim." (Sunan Ibn Majah)

3. _Unwavering commitment_: "Be steadfast, and do not be of the wavering ones." (Sunan Abu Dawud)


*Examples of Positive Extremism:*


1. _Abdullah ibn Abbas's_ dedication to knowledge

2. _Umar ibn Abdul Aziz's_ uncompromising justice

3. _Ahmad ibn Hanbal's_ unwavering commitment to Hadith preservation


*Characteristics of Right Extremism:*


1. _Sincerity_: Pure intentions for Allah's sake

2. _Knowledge_: Grounded in Islamic scholarship

3. _Balance_: Avoiding harm to oneself or others

4. _Humility_: Recognizing one's limitations


*Distinguishing Right from Wrong Extremism:*


1. _Motivation_: Right extremism is driven by love for Allah, while wrong extremism is fueled by hatred or personal gain.

2. _Methodology_: Right extremism employs peaceful, lawful means, whereas wrong extremism resorts to violence or harm.

3. _Impact_: Right extremism benefits the community, while wrong extremism harms it.


In conclusion, the Quran and Sunnah encourage positive extremism, characterized by unwavering commitment to righteousness, knowledge, and devotion, while condemning harmful and violent extremism.






مذموم انتہاپسندی

قرآن و سنت میں انتہا پسندی کی مذمت اور اس کے خلاف تنبیہ کی گئی ہے۔ یہاں کچھ اہم نقطہ نظر ہیں:


قرآنی رہنمائی:


1. اعتدال (وسطیہ):

"اور اس طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا..."

(قرآن،سورۃ البقرۃ:143)

2. توازن:

"اور زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو..."

(قرآن 31:19)

3. غلو-حد سے گذرنا:

"اپنے دین میں غلو نہ کرو..."

(قرآن 4:171، 5:77)

4. عدل اور انصاف:

"عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے..."

(قرآن 5:8)


نبوی تعلیمات (سنت):


1. عبادت میں اعتدال:

"بہترین اعمال وہ ہیں جو مستقل ہوں، چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔"

(صحیح بخاری)

2۔ غلو سے اجتناب:

"دین میں غلو سے بچو، کیونکہ غلو نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ کر دیا۔"

(سنن ابن ماجہ)

3. ہمدردی اور رحم:

"زمین والوں پر رحم اور رحم کرو، تاکہ اللہ تم پر رحم اور رحم کرے۔"

(سنن ابوداؤد)

4. نقصان سے منع کرنا:

"نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ اور نہ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچاؤ۔"

(صحیح مسلم)


شدت پسندی کی اقسام:


1. مذہبی انتہا پسندی:

اسلامی تعلیمات کی حدود سے باہر جانا۔

2. پرتشدد انتہا پسندی:

بے گناہ کمزور لوگوں کے خلاف تشدد کرنا۔

3. نظریاتی انتہا پسندی:

دوسروں پر اپنے خیالات مسلط کرنا۔


انتہا پسندی کے نتائج:


1. صحیح راستے سے بھٹکنا:

"جو لوگ راہ راست سے بھٹکتے ہیں ان پر غضب نازل ہوتا ہے۔"

(قرآن 7:182)

2. خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچانا:

 "جس نے کسی انسان کو قتل کیا، گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔"

(قرآن 5:32)

3. معاشرے کی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا:

 "زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔"

(قرآن 7:56)


انتہا پسندی کا علاج:


1. علم کی تلاش:

"علم کو جھولا سے قبر تک حاصل کرو۔" (حدیث)

2. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی:

"نبی کی سنت کی پیروی کرو۔"

(قرآن 33:21)

3. برداشت اور افہام و تفہیم کو فروغ دینا:

"معافی دکھاؤ، نیکی کا حکم دو، اور احمقوں سے کنارہ کشی کرو۔"

(قرآن 7:199)


آخر میں، قرآن و سنت اعتدال، توازن، انصاف اور ہمدردی پر زور دیتے ہیں، جبکہ انتہا پسندی کی ان اقسام کی مذمت کرتے ہیں۔


In the Quran and Sunnah, the concept of "good" or "right" extremism is understood as:


*Al-Ghuluww* (الغلو): Extremism in a positive sense, meaning:


1. Excessive devotion

2. Intense dedication

3. Unwavering commitment


to righteous causes, without harming others.


*Quranic Guidance:*


1. _Striving in Allah's path_: "And strive in Allah's path with your wealth and your lives..." (Quran 9:20)

2. _Standing firm_: "And stand firm in righteousness..." (Quran 3:79)

3. _Excelling in good deeds_: "Race towards forgiveness from your Lord and a Garden..." (Quran 57:21)


*Prophetic Teachings (Sunnah):*


1. _Excellence in worship_: "The best of deeds are those which are constant, even if they are small." (Sahih Bukhari)

2. _Zeal for knowledge_: "Seeking knowledge is obligatory upon every Muslim." (Sunan Ibn Majah)

3. _Unwavering commitment_: "Be steadfast, and do not be of the wavering ones." (Sunan Abu Dawud)


*Examples of Positive Extremism:*


1. _Abdullah ibn Abbas's_ dedication to knowledge

2. _Umar ibn Abdul Aziz's_ uncompromising justice

3. _Ahmad ibn Hanbal's_ unwavering commitment to Hadith preservation


*Characteristics of Right Extremism:*


1. _Sincerity_: Pure intentions for Allah's sake

2. _Knowledge_: Grounded in Islamic scholarship

3. _Balance_: Avoiding harm to oneself or others

4. _Humility_: Recognizing one's limitations


*Distinguishing Right from Wrong Extremism:*


1. _Motivation_: Right extremism is driven by love for Allah, while wrong extremism is fueled by hatred or personal gain.

2. _Methodology_: Right extremism employs peaceful, lawful means, whereas wrong extremism resorts to violence or harm.

3. _Impact_: Right extremism benefits the community, while wrong extremism harms it.


In conclusion, the Quran and Sunnah encourage positive extremism, characterized by unwavering commitment to righteousness, knowledge, and devotion, while condemning harmful and violent extremism.


Would you like more information or specific Quranic and Hadith references?