جس شخص نے اپنا عمل لوگوں کو سنانے کے لیے کیا تو اللہ تعالی بھی مخلوق کے کانوں میں یہ بات پہنچادے گا کہ یہ آدمی ریا کار ہے، اور اسے ذلیل و رسوا اور حقیر کر دیتا ہے۔
[ابن الجعد:135، احمد:7085، البغوي:4138]
القرآن:
۔۔۔نماز پڑھتے ہیں تو سستی سے پڑھتے ہیں لوگوں کو دکھانے کیلئے...
[تفسير ابن كثير»سورة النساء:142]
[احمد:23630-23636، الطبراني:4301، البغوي:4135]
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: 951)
ہر نیک عمل خالص اللہ کیلئے کرنا۔
القرآن:
...لہذا جس کسی کو اپنے مالک سے جاملنے کی امید ہو، اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے، اور اپنے مالک کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائے۔
[سورۃ الکھف:110]
القرآن:
اور انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ الله کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہو کر صرف اسی کے لیے خاص رکھیں...
[سورۃ البينة:5]
کیوں نہیں، آپ ہمیں بتلائیں، تو آپ نے ارشاد فرمایا:
وہ شرک خفی ہے یعنی جب نمازی کسی شخص کو اپنی طرف نظر کرتا دیکھے تو اپنی نماز کو مزین کر کے اچھی طرح پڑھنے لگتا ہے۔
[ابن ماجہ:4204]
تفسیر الثعلبی،القرطبی»سورۃ الکھف:110
ترجمہ:
تم میں سے جو اپنے اعمال صالحہ کو چھپانے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ چھپائے.
[الأحاديث المختارة:884، صحيح الجامع:6018]
یعنی اپنے نیک عملوں کو دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرے۔
[طبرانی:7139، البزار:3482، حاکم:7938]
القرآن:
۔۔۔اور نماز قائم کرو اور ان نہ ہو تم مشرکوں میں سے۔
[سورۃ الروم:31]
تفسیر الثعلبی،القرطبی»سورۃ الکھف:110
---
تشریح:
یہ حدیث مبارکہ اعمالِ عبادت میں اخلاص (خلوصِ نیت) کی اہمیت اور ریا (دکھاوا) کی شدید مذمت بیان کرتی ہے، حتیٰ کہ اسے شرک کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔
1. ریا کی تعریف و اہمیت:
* ریا کا مطلب ہے کہ کوئی شخص عبادت (جیسے نماز، روزہ، صدقہ) یا کوئی بھی نیک کام درحقیقت اللہ کی رضا کے لیے نہ کرے بلکہ لوگوں کو دکھانے، اپنی تعریف کروانے، شہرت حاصل کرنے یا دنیاوی فوائد (جیسے عزت، مال) کے حصول کے لیے کرے۔
* حدیث میں تین نمایاں عبادات (نماز، روزہ، صدقہ) کو خاص طور پر اس لیے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ اعمال ہیں جن میں ریا کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ دوسروں کو نظر آتے ہیں۔
* امام نووی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب "ریاض الصالحین" (باب: اخلاص و نیت کی فضیلت) میں لکھتے ہیں کہ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔ جو عمل خالصتاً اللہ کے لیے نہ ہو، وہ نہ تو قبول ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی ثواب ملتا ہے۔
2. ریا کو شرک کیوں کہا گیا؟
* شرک اصغر: علماء کرام (جیسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ) نے واضح کیا ہے کہ یہاں مراد "شرک اصغر" (چھوٹا شرک) ہے، نہ کہ شرک اکبر (وہ شرک جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دے)۔
* وجہ تشبیہ: اسے شرک اس لیے کہا گیا ہے:
* اللہ کے حق کی ادائیگی میں خلل: عبادت صرف اللہ کا حق ہے۔ ریا کرنے والا اس حق میں کسی مخلوق (لوگوں) کو شریک ٹھہراتا ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
* نیت کا فساد: عبادت کی بنیاد نیت ہے۔ ریا نیت کو فاسد کر دیتا ہے، جس سے عمل کا مقصد ہی بگڑ جاتا ہے۔
* شدید وعید: اسے شرک کہہ کر اس عمل کی سنگینی اور خطرناکی کو واضح کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اس سے بچیں۔
* حوالہ: حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ اپنی کتاب "جامع العلوم والحکم" (حدیث نمبر 1 کی شرح میں) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ریا کو شرک قرار دیا کیونکہ ریا کرنے والا اپنے عمل سے اللہ کے علاوہ کسی اور کی خوشنودی چاہتا ہے۔
3. حدیث کے عملی پہلو اور نصیحتیں:
* اخلاص کی ضرورت: ہر نیک عمل خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ نیت کو بار بار پاک کرتے رہنا چاہیے۔
* ریا سے بچاؤ:
* اعمال کو تا حد ممکن چھپا کر کرنا (خصوصاً صدقہ)۔
* لوگوں کی تعریف یا مذمت پر عمل کو متاثر نہ ہونے دینا۔
* یہ سوچنا کہ اللہ ہر چیز دیکھ رہا ہے۔
* ریا کے خطرناک نتائج پر غور کرنا۔
* عمل کا رد نہیں: یہ حدیث یہ نہیں کہہ رہی کہ نماز، روزہ یا صدقہ چھوڑ دو۔ بلکہ یہ بتا رہی ہے کہ انہیں کیسے کرنا چاہیے۔
* خفیہ ریا سے بچنا: بعض اوقات ریا واضح نہیں ہوتا بلکہ بہت خفیہ ہوتا ہے، جیسے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنا یا لوگوں کے علم میں آنے کی خوشی محسوس کرنا۔ اس سے بھی محتاط رہنا ضروری ہے۔
---
خلاصہ: یہ حدیث مبارکہ مسلمان کو یہ بنیادی سبق دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہر عمل کا واحد مقصد ہونا چاہیے۔ دکھاوے کے لیے کی گئی عبادت، چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہوتی اور اس میں شرکِ اصغر کا گناہ پایا جاتا ہے۔ ایمان کی تکمیل اور اعمال کی قبولیت کے لیے **اخلاص نیت** نہایت ضروری ہے۔ ہمیں اپنے دل کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے اور ہر عمل سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی کے طالب ہیں۔
No comments:
Post a Comment