یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
تم قرآن کریم کو اہل عرب کے لہجوں اور ان کی آوازوں کے مطابق پڑھو، اہل کتاب اور فاسق﴿عاشق﴾ لوگوں کے طرز پر پڑھنے سے بچو۔ میرے بعد ایک جماعت پیدا ہوگی جس کے افراد (خوشی میں)راگ اور (غمی میں)نوحہ کی طرح آواز بناکر قرآن پڑھیں گے، (ان کا یہ حال ہوگا) قرآن ان کی حلق سے آگے نہیں بڑھے گا(یعنی قرآن ان کے دل پر اثر نہ کرے گا)۔ ان کے اور ان کی قرأت سن کر خوش ہونے والوں کے دل فتنہ(گمراہی) میں مبتلا ہوں گے۔
[المعجم الاوسط للطبرانی:7223، شعب الایمان-للبیھقی:2406، جامع الاصول-ابن الاثیر:913، تفسیر القرطبی:1/17، جامع الاحادیث-للسیوطی:4180]
(2)حضرت بریدہؓ نے حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ
یعنی جو لوگ قرآن شریف کو طلب دنیا کی غرض سے پڑھتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم لوگ قرآن پڑھ رہے تھے اور ہم میں بدوی بھی تھے اور عجمی بھی، آپ ﷺ نے فرمایا: پڑھو سب ٹھیک ہے عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو اسے (یعنی قرآن کے الفاظ و کلمات کو) اسی طرح درست کریں گے جیسے تیر درست کیا جاتا ہے (یعنی تجوید و قرآت میں مبالغہ کریں گے) اور اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کے بجائے جلدی جلدی پڑھیں گے۔
[احمد:15273، أبوداود:830، البغوي:609، شعب الإيمان-للبيهقي:2642، کنزالعمال:4124]
مقصد یہ ہے کہ محض خوش آوازی بیکار ہے جب کہ اس میں اخلاص نہ ہو محض دنیا کمانے کے واسطے کیا جاوے چہرہ پر گوشت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نیاشرف الاشیاء کو ذلیل چیز کمانے کا ذریعہ کیا تو اشرف الاعضاء چہرہ کو رونق سے محروم کر دیا جائے گا۔
حضرت عمران بن حصینؓ کا ایک واعظ پر گذر ہوا جو تلاوت کے بعد لوگوں سے کچھ طلب کر رہا تھا یہ دیکھ کر انہوں نے انا ﷲ پڑھی اور فرمایا کہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ:
مَنْ قَرَأَ القرآن فَلْيَسْأَلِ اللَّهَ به، فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يَقْرَءُونَ القُرْآنَ يسألونبهالناس.
ترجمہ:
جو شخص تلاوت کرے اس کو جو مانگنا ہو اﷲ سے مانگے عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو پڑھنے کے بعد لوگوں سے بھیک مانگیں گے۔
[سنن ترمذی:2917، شعب الایمان-للبیھقی:2386، جامع الاحادیث-للسیوطی:23390، سنن سعید بن منصور:47، مصنف ابن أبى شيبة:30002، طبرانی:370-374]
مشائخ سے منقول ہے کہ جو شخص علم کے ذریعے سے دنیا کماوے اس کی مثال ایسی ہے کہ جوتے کو اپنے رخسار سے صاف کرے اس میں شک نہیں کہ جوتا تو صاف ہو جاوے گا مگر چہرہ سے صاف کرنا حماقت کی منتہا ہے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوا ہے:
(یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلہ میں گمراہی خریدی ہے پس نہ ان کی تجارت کجھ نفع والی ہے اور نہ یہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں )۔
حضرت ابی بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن شریف کی ایک سورت پڑھائی تھی اس نے ایک کمان مجھے ہدیہ کے طور سے دی میں نے حضور سے اس کا تذکرہ کیا تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جہنم کی ایک کمان تو نے لے لی۔
[ابن ماجہ:2158]
اس طرح کا واقعہ حضرت عبادۃ بن الصامت نے اپنے متعلق نقل کیا اور حضور ﷺ کا جواب یہ نقل کیا کہ
جہنم کی ایک چنگاری اپنے مونڈھوں کے درمیان لٹکا دی۔
[ابوداؤد:3417]
دوسری روایت میں ہے کہ
اگر تو چاہے کہ جہنم کا ایک طوق گلہ میں دالے تو اس کو قبول کر لے۔
[ابن ماجہ:2157]
یہاں پہنچ کر میں ان حفاظ کی خدمت میں جن کا مقصود قرآن شریف کے مکتبوں سے فقط پیسہ ہی کمانا ہے بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ خدارا اپنے منصب اور اپنی ذمہ داری کا لحاظ کیجئے، جو لوگ آپ کی بدنیتیوں کی وجہ سے کلام مجید پڑھانا یا حفظ کرنا بند کرتے ہیں اس کے وبال میں وہ تنہا گرفتار نہیں خود آپ لوگ بھی اس کے جواب دہ اور قرآن پاک کے بند کرنے والوں میں شریک ہیں آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اشاعت کرنے والے ہیں لیکن درحقیقت اس اشاعت کے روکنے والے ہم ہی لوگ ہیں جن کی بد اطواریان اور بد نیتیاں دنیا کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ قرآن پاک ہی کو چھور بیٹھیں علماء نے تعلیم کی تنخواہ کو اس لئے جائز نہیں فرمایا کہ ہم لوگ اسی کو مقصود بنا لیں بلکہ حقیقتاً مدرسین کی اصل غرض صرف تعلیم اور اشاعت علم و قرآن شریف ہونے کی ضرورت ہے اور تنخواہ اس کا معاوضہ نہیں بلکہ رفع صرورت کی ایک صورت ہے جس کو مجبوراً اور اضطرار کی وجہ سے اختیار کیا گیا۔
ریا ودکھلاوے کی مذمت:
حضرت عبد اﷲ بن عمروؓ اور حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے، ان دونوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
میری امت کے اکثر منافق اس (قرآن) کو پڑھنے والے ہوں گے۔
[أحمد:6633-6634، 6637-17405، ابن أبي شيبة:34335، شعب الإيمان-للبيهقي:6959، طبراني:305-471-841، الزهد-ابن المبارک:451، صفة المنافق-للفريابي:32-33]
تشریح:
منافقین سے مراد:
یہاں منافقین سے مراد وہ لوگ نہیں جو ظاہر و باطن دونوں میں کافر ہوں، بلکہ وہ ہیں جو ظاہر میں اسلام کا اظہار کرتے ہیں لیکن باطن میں کفر چھپائے ہوتے ہیں۔
قراء سے مراد:
یہاں قراء سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے تو ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے، غلط تاویلات کرتے ہیں، اور قرآن کو دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تفصیلی وضاحت:
"أكثر منافقي أمتي":
اس سے مراد یہ ہے کہ اس امت میں نفاق کی زیادتی قراء میں پائی جاتی ہے، لیکن ہر قاری منافق نہیں ہوتا۔ کچھ قراء ایسے بھی ہیں جو قرآن کو سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔
"قراؤها":
اس سے مراد وہ افراد ہیں جو قرآن پڑھتے اور سیکھتے تو ہیں لیکن اسے اپنی زندگی میں نافذ نہیں کرتے۔ یہ لوگ ریاکار ہوتے ہیں اور تعریف و توصیف کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
حدیث میں نفاق کی نوعیت:
یہاں وہ نفاق مراد نہیں جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دے، بلکہ یہ عملی نفاق ہے جس میں ریا کاری اور عبادت میں دکھاوا شامل ہے۔
نفاق کی وجوہات:
اس کی وجہ قرآن کی تلاوت اور عمل میں اخلاص کی کمی ہو سکتی ہے، یا پھر قرآن کی تلاوت سے دنیاوی فوائد حاصل کرنے کی خواہش ہو سکتی ہے۔
حدیث کی اہمیت و پیغام:
نفاق سے خبردار کرنا:
حدیث نفاق کے تمام پہلوؤں سے خبردار کرتی ہے، خاص طور پر اس عملی نفاق سے جو بعض قراء میں پایا جاتا ہے۔
اخلاص کی تاکید:
حدیث قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل میں اخلاص کی اہمیت پر زور دیتی ہے، اور ریاکاری و شہرت سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔
تدبر اور عمل کی اہمیت:
حدیث قرآن کریم کے معانی پر غور وفکر کرنے اور اس پر عمل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، نہ کہ صرف اسے پڑھنے اور حفظ کرنے کی۔
غلط تاویل سے خبردار کرنا:
حدیث قرآن کی غلط تاویلات کرنے اور اسے دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے منع کرتی ہے۔
خلاصہ کلام:
یہ حدیث ہمیں قرآن کے ساتھ سچے تعلق کی تعلیم دیتی ہے۔ صرف تلاوت کرنا کافی نہیں، بلکہ اسے سمجھنا، اس پر عمل کرنا، اور اسے دنیاوی فوائد کے لیے استعمال کرنے سے بچنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کو اس کے صحیح مقام پر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نکات:
"میرے امت کے اکثر منافقین اس کے قرآن پڑھنے والے ہیں۔"
- یعنی جو لوگ قرآن کی تاویل (تفسیر) غلط طریقے سے کرتے ہیں اور اسے اس کے صحیح مقام پر نہیں رکھتے۔
- یا وہ لوگ جو صرف دکھاوے کے لیے یا اپنے آپ کو شک سے بچانے کے لیے قرآن پڑھتے ہیں، جبکہ دل میں اس کے خلاف عقیدہ یا عمل رکھتے ہیں۔
-امام الزمخشری کہتے ہیں: اس حدیث میں نفاق سے مراد "ریاکاری" ہے، کیونکہ دونوں (منافقت اور ریا) میں ظاہر اور باطن کا اختلاف پایا جاتا ہے۔
- منافق ظاہر میں اللہ کے لیے ایمان دکھاتا ہے، لیکن باطن میں اپنی جان و مال کی حفاظت چاہتا ہے۔
- ریا کار ظاہر میں آخرت کی طلب دکھاتا ہے، لیکن باطن میں لوگوں کی تعریف اور دنیا کا مال چاہتا ہے۔
- قاری (قرآن پڑھنے والا) ظاہر میں اللہ کی رضا چاہتا ہے، لیکن باطن میں اپنا فائدہ (ثواب) چاہتا ہے اور خود کو اس کا اہل سمجھتا ہے، اپنے عمل کو بڑا خیال کرتا ہے۔ اس طرح وہ منافق سے مشابہت رکھتا ہے، کیونکہ دونوں کے ظاہر و باطن میں اختلاف ہوتا ہے۔
- یہ بیماریاں عام لوگوں میں بھی ہوتی ہیں، لیکن علماء و حفاظ کو خصوصاً ان سے بچنا چاہیے۔
[فیض القدیر-للمناوی]
جس میں بعض دینی کاموں کو دکھاوے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ دنیاوی فائدہ حاصل ہو، جیسے بعض قراء کا دنیا دار حکمرانوں اور مالداروں سے تعلق رکھنا اور ان کے پاس موجود دنیاوی فوائد کی طلب کرنا۔
یہاں ہر قاری مراد نہیں ہے، کیونکہ بعض میں صرف عمل میں اخلاص کی کمی یا ریاء و شہرت کا شائبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بغیر عادت کے ایسا کرے تو اسے فوراً منافق نہیں کہا جا سکتا۔
خلاصہ:
یہ حدیث اور اس کی تشریح ہمیں خبردار کرتی ہے کہ علم اور قرآنی تعلیمات کو صرف ظاہری دکھاوے یا دنیاوی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں، بلکہ اخلاص اور اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھیں۔
یہ روایت ضعیف ہے۔ ابن لهيعة اور الفضل بن المختار ضعیف ہے۔
[الكامل في الضعفاء-ابن عدي:7/123]
[ذخيرة الحفاظ-ابن القيسراني:1/445]
[الضعفاء الكبير-العقيلي1/274]
وحسن إسناده البوصيري في إتحاف الخيرة المهرة، وصححه أحمد شاكر، والألباني، وشعيب الأرنؤوط بمجموع طرقه.
جبکہ بعض نے اس کے معنیٰ کو درست مانا ہے، کیونکہ دوسری احادیث میں بھی علم کے بغیر عمل کرنے والوں پر تنبیہ کی گئی ہے:
له متابعة
[التاريخ الكبير-البخاري:1/257]
[شعب الإيمان-البيهقي:(5/363) 2359]
ایصالِ ثواب یا برکت کے حصول کے لئے قرآن خوانی تو بلاشبہ دُرست ہے، لیکن اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
اوّل:…
یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میّت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔
دوم:…
یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ: “بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!”
سوم:…
یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میّت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لئے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لئے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے لئے جمع کرنا مکروہ ہے۔
(فتاویٰ بزازیہ)
[آپ کے مسائل اور ان کاحل4/429،مکتبہ لدھیانوی]
چہارم:... قرآن خوانی کے لیے کوئی دن خاص کرکے (مثلاً سوئم، چہلم وغیرہ) اس کا التزام نہ کیا جائے، اگر خاص دن کا التزام کیا جائے تو بھی درست نہیں ہوگا۔
لہٰذا اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جائے، اور اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اگر اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں یا وہاں موجود لوگ مل کر قرآن خوانی کرلیں، یا اگر کوئی پڑھنے والا دست یاب نہ ہو تو جو پڑھنا جانتے ہیں ان سے پڑھوا لیا جائے اور اس پر اجرت کا لین دین نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے عوض میں دعوت کا التزام کیا جائے تو یہ جائز ہے۔ لیکن جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہاں اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 56):
" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ". فقط واللہ اعلم
امام ابوبکر جعفر بن محمد الفریابیؒ(م301ھ) " فضائل القرآن" میں روایت کرتے ہیں کہ:
سیدنا عقبہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سيخرج أقوام من أمتي يشربون القرآن كشربهم الماء»
میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن کو پانی کی طرح پئیں گے۔
[سلسلۃ الحادیث الصحیحہ:1886]
تشریح:
علامہ محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانیؒ لکھتے ہیں:
وہ ناکارہ قاری، قرآن کے احکام کو سمجھے بغیر اور بغیر تدبر وتفکر کے تیزی و سرعت سے قرآن پڑھتے جائیں گے جیسے پیا جانے والا دودھ اور پانی تیزی سے زبان سے گزر جاتا ہے۔
حوالہ
أي يتلقونه بألسنتهم من غير تدبر لمعانيه ولا تأمل في أحكامه بل يمرونه على ألسنتهم كما يمر اللبن المشروب عليها بسرعة وهذا ذم لهم
[التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ]
اب جو لوگ روز نماز میں قرآن نہسمجھتے-سنتے ہیں، اور نہ ایک آیت ہی روز سمجھنے کیلئے پڑھتے ہیں، تو ان کا کیا ہوگا۔
امام ابوالقاسم الطبرانیؒ(360ھ) نے روایت کی ہے،فرماتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يوشك أن يقرأ القرآن قوم يشربونه كشربهم الماء لا يجاوز تراقيهم ثم وضع يده على حلقه فقال لا يجاوز ها هنا لم يرو هذا الحديث عن عطاء بن السائب إلا عمرو بن أبي قيس
ترجمہ:
قریب ہے کہ لوگ قرآن (اس طرح ) پڑھیں گے ،اس کو پئیں گے جس طرح پانی کو پیا جاتا ہے۔ان کے حلق سے قرآن نیچے نہیں اترے گا، پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے حلق پر رکھا اور فرمایا یہاں سے نیچے نہیں اترے گا ۔
[المعجم الأوسط-الطبرانیؒ:825]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابن سعدؒ(230ھ) نے صحیح اسناد سے نقل فرمایا ہے کہ :
قال: أخبرنا عفان. قال شعبة حدثت عن منصور عن تميم بن سلمة أن أبا عبد الرحمن كان إمام المسجد فكان يحمل في الطين في اليوم المطير.
قال: أخبرنا حفص بن عمر الحوضي قال: حدثنا حماد بن زيد قال: حدثنا عطاء بن السائب أن أبا عبد الرحمن السلمي قال: إنا أخذنا هذا القرآن عن قوم أخبرونا أنهم كانوا إذا تعلموا عشر آيات لم يجاوزوهن إلى العشر الأخر حتى يعلموا ما فيهن. فكنا نتعلم القرآن والعمل به. وإنه سيرث القرآن بعدنا قوم ليشربونه شرب الماء لا يجاوز تراقيهم بل لا يجاوز هاهنا. ووضع يده على الحلق.
ترجمہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیدا ہونے والے نامور تابعی ابوعبدالرحمن السلمی رحمہ اللہ
[جنہوں نے سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن سیکھا (دیکھئے سیراعلام النبلاء 4/268)]
وہ فرماتے ہیں کہ: ہم نے جن (صحابہ کرام ) سے قرآن سیکھا، وہ اپنے بارے میں بتاتے تھے کہ جب ہم دس آیات سیکھتے تو اگلی دس آیات کی طرف اس وقت تک نہ جاتے جب ان دس میں جو(احکام وعقائد) ہوتے وہ پوری نہ سیکھ لیتے، ہم قرآن بھی سیکھتے اور اس پر عمل کرنا بھی سیکھتے، لیکن ہمارے بعد جو لوگ اس قرآن کے وارث بنیں گے، وہ(اسے تدبر سے سیکھنے کی بجائے) پی لیں گے جیسے پانی پیتے ہیں، انہوں نے اپنے حلق پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ قرآن یہاں سے نیچے نہیں اترے گا (بس گلے تک ہی رہے گا )۔
[الطبقات الکبریٰ: جلد6 ص212]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت ابو سعید خدریؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح دور پھینک دئیے جائیں گے جیسے تیر پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ کبھی دین میں نہیں واپس آ سکتے، یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ(خود) واپس آ جائے۔
[صحیح بخاریؒ:7562]
حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘
میرے بعد میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے گلوں سے آگے نہیں بڑھے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور میں سے گزر جاتا ہے، پھر وہ (دین میں ) واپس نہیں آئیں گے۔ وہ تمام مخلوقات میں سے بدترین افراد ہوں گے۔
میرے بعد میری امت میں کچھ ایسے لوگ جو سر منڈاتے ہوں گے، یہ قرآن پڑھیں گے، لیکن ان کے گلوں سے آگے نہیں بڑھے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانہ بننے والے جانور میں سے گزر جاتا ہے، وہ تمام مخلوقات میں سے بدترین لوگ ہوں گے۔
[مسند ابوداود الطیالسی:]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قرآن کے حلق (گلے) سے آگے نہ گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر قرآن کا اثر نہیں ہو گا یا ان کے دل قرآن مجید کو سمجھنے سے عاری ہوں گے۔ (2) اہل بدعت جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ (3) اس حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ بدعتی فرقوں کے لوگ امت میں شامل ہیں، یعنی دنیوی معاملات میں ان سے مسلمانوںوالا سلوک کیا جائے گا، البتہ وہ گمراہ اور فاسق ہیں۔ واللہ اعلم
قرآن کا غلط جگہ(مسلمانوں کے خلاف)استعمال:
حضرت سہل بن حنیفؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عراق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يخرج منه قوم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية.
ترجمہ:
ادھر سے ایک جماعت نکلے گی یہ لوگ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے باہر نکل جاتا ہے۔
[صحيح البخاري:6934]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
رب تال للقرآن والقرآن يلعنه۔
ترجمہ:
بہت سے قرآن کی تلاوت کرنے والے( ایسے ہوتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں) حالانکہ قرآن ان پر لعنت کر رہا ہوتا ہے۔
[احیاء علوم الدین-امام غزالی» (274/1، ط: دار المعرفۃ)]
تشریح:
بعض اسلاف نے فرمایا کہ ایک بندہ جب قرآن کریم کی کوئی سورۃ شروع کرتا ہے، تو قرآن کریم اس کے لیے رحمت کی دعا کرتا ہے، یہاں تک وہ بندہ اس کی قرأت سے فارغ ہوجاتا ہے، اور ایک بندہ جب قرآن کریم کی کوئی سورۃ شروع کرتا ہے، تو قرآن کریم اس پر لعنت کرتا ہے، یہاں تک وہ بندہ اس کی قرأت سے فارغ ہوجاتا ہے، تو کہا گیا کہ یہ کیسے ہوتا ہے؟ تو جواب میں فرمایا: جب قرآن کریم کی حلال کردہ چیزوں کو حلال جانے اور حرام کردہ چیزوں کو حرام جانے، یعنی جب اس کے اوامر و احکام کو پورا کرے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو روکے، تو قرآن کریم اس کے لیے رحمت کی دعا کرتا ہے، ورنہ لعنت کرتا ہے۔
بعض علمائے کرام نے فرمایا: بندہ (بسا اوقات )تلاوت کرتا ہے، تو اپنے اوپر لعنت کرتا ہے، حالانکہ اس کو اس کا پتہ نہیں ہوتا ہے، (کیونکہ) وہ آیت پڑھتا ہے: "الا لعنةالله على الظالمين" (خبردار ظالموں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔) حالانکہ وہ خود اپنے اوپر یا دوسروں پر ظلم کرتا ہے، وہ آیت پڑھتا ہے: "الا لعنةالله على الكاذبين" (خبردار جھوٹوں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔) حالانکہ وہ خود جھوٹوں میں سے ہوتا ہے۔
[اتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين » (469/4، ط: مؤسسۃ التاریخ الاسلامی)]
حضرت عائشہ نے فرمایا:
كم من قارئ يقرأ القرآن والقرآن يلعنه يقرأ ألا لعنة الله على الظالمين، وهو ظالم.
ترجمہ:
کتنے ہی قرآن کریم پڑھنے والے ایسے ہیں، جو قرآن کریم پڑھتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم ان پر لعنت کرتا ہے، وہ پڑھتا ہے: ﴿خبردار! ظالموں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ (سورۃ ھود:18.الاعراف:44)﴾ حالانکہ وہ خود ظالم ہوتا ہے۔
[المدخل-لابن الحاج» ج:٢،ص:٢٩٥،ط:دار التراث]
امام ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں مہران بن میمون (جو کہ تابعی ہیں) کا قول نقل کیا ہے:
إن الرجل ليصلي ويلعن نفسه في قراءته فيقول: ألا لعنة الله على الظالمين وإنه لظالم۔
ترجمہ:
یقیناً آدمی نماز پڑھتا ہے اور قرأت میں اپنے آپ پر لعنت کرتا ہے، کیونکہ وہ قرآن مجید کی آیت پڑھتا ہے: "الا لعنة الله على الظالمين" ﴿خبردار! ظالموں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ (سورۃ ھود:18.الاعراف:44)﴾ حالانکہ وہ خود ظالم ہوتا ہے۔
[تفسير-لابن أبي حاتم» حدیث نمبر:8484]
[تقریب التھذیب:7049 (ص: 585، ط: دار الیسر)]
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (3 / 213) دوسرا ایڈیشن ، میں ہے کہ:
مسلمان کو قرآن کریم پر عمل کے بغیر پڑھنے سے خبردار کیا گیا ہے؛ کیونکہ کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن بھی پڑھتے ہیں اور ایسے کام بھی کرتے ہیں جن سے قران کریم روکتا ہے، مثلاً: قرآن کریم سودی لین دین سے روکتا ہے لیکن وہ پھر بھی سودی لین دین کرتا ہے، قرآن کریم ظلم سے روکتا ہے لیکن پھر بھی وہ ظلم کرتا ہے، اسی طرح قرآن کریم غیبت سے روکتا ہے لیکن وہ پھر بھی غیبت کرتا ہے، اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات اور ممنوعہ اعمال کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔
قرآن کریم میں ایسی چیزیں جو اس شخص کی مذمت اور لعنت کا تقاضا کرتی ہیں، مثلاً: وہ شخص قرآن کریم بھی پڑھتا ہے لیکن اس کے احکامات کی مخالفت کرتا ہے، یا ممنوعہ کاموں کا ارتکاب کرتا ہے، وہ شخص اللہ کی کتاب بھی پڑھتا ہے لیکن قرآن کریم کے احکامات اور ممنوعات کا خیال نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ برا بھلا کہلائے جانے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
اگر یہ روایت نبی ﷺ سے صحیح ثابت ہو جائے تو اس کا صحیح ترین معنیٰ یہی ہو گا۔"
[مجموع فتاوى ابن باز : 26 / 61]
جنہیں قرآن پڑھنا کوئی نفع نہیں دیتا۔
حضرت ابوسعید خدریؓ نے فرمایا کہ حضرت علیؓ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو آپ ﷺ نے اسے اَقرع بن حابس حنظلی جو بنو مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے تھا، اور زید الخیل طائی جو بنی نبہان سے تھا؛ ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور اَنصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تو ان کی تالیفِ قلب کے لئے کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سر منڈا ہوا تھا، اور اس نے کہا: اے محمد! اﷲ سے ڈرو۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کی اِطاعت کرنے والا کون ہے اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے؟ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی، میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولیدؓ تھے، تو حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں منع فرما دیا۔ (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے: اس شخص نے کہا: اے محمد! ﷲ سے ڈرو اور عدل کرو۔ تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آسمان والوں کے ہاں میں امانت دار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا: ہاں۔ سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا)۔ تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا: میں اس کی گردن کاٹ دوں؟) جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ اگر میں انہیں پاؤں تو قومِ عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔
حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
[بخاري:6532-4771، مسلم:1064، ابن حبان:6737]
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا: ان کی نشانی سر منڈانا ہے۔ یا فرمایا: سر منڈائے رکھنا ہے۔
[بخاري:7123، مسلم:1068]
یُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارِج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے سنا ہے؛ اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہا: وہ اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا، اور دین سے ایسے خارج ہوجائیں گے جیسے تیر شکار سے (خارج ہوجاتا ہے)۔
[بخاري:7123، مسلم:1068]
اور مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے۔ (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اگر میں ان لوگوں کو پا لیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔
[مسلم:1064]
زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی، وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت ہوگی نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
[مسلم:1066، أبوداود:4768، نسائي:8571]
امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے: ﷲ تعالیٰ کا فرمان: ”اور اﷲ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے۔“ [سورۃ التوبہ:115] اور حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں (یعنی خوارج کو) اﷲ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے (کیونکہ) انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اِطلاق مومنین پر کرنا شروع کردیا۔
”اور اِمام عسقلانی ”فتح الباری“ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار میں بکیر بن عبد اﷲ بن اَشج کے طریق سے مسندِ علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ”انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ انہیں اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کے بدترین لوگ خیال کرتے تھے۔ جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اِطلاق مومنین پر کیا۔ میں ”ابن حجر عسقلانی“ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
[بخاري:6532]
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے آدمی کو ہرگز نہ پاؤں جس کے پاس کوئی ایسی بات آئے جس کا میں نے حکم دیا ہو یا جس سے میں نے منع کیا ہو تو وہ کہے: میں نہیں جانتا، ہم نے صرف اسی کی پیروی کی جسے اللہ کی کتاب (قرآن) میں پایا۔
[ترمذي:2663، أبوداود:4605، ابن ماجة:13]
حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب میری اُمت میں اِختلاف اور تفرقہ بازی ہوگی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو اُن کے گلے سے نہیں اترے گا، (اور ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے)، وہ دین سے ایسے خارج جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے۔ وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے۔ خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اﷲ عز و جل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوگا، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا: سر منڈانا۔
ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح فرمایا: ان کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔
[أبوداود:4765، ابن ماجة:169، أحمد:13362، حاکم:2649، الأحاديث المختارة:2391-2392، أبو يعلى:3117، طبراني:7553، السنة للمروزي:52]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔
[أبوداود:4603، السنن الکبرى للنسائي:8093، أحمد:7976، ابن حبان:1464، المعجم الأوسط للطبراني:2478]
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب نو عمر لوگ نکلیں گے جوکہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھنے والے ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں مار دو، پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو۔ یقینا ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا۔
[حاکم:2645، السنة ابن أبي عاصم:937، السنة عبدﷲ بن أحمد:1519، حارث:704]
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں مشرق کی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا۔ اور ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ (کی صورت) میں نکلے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ (کی صورت) میں نکلے گا کاٹ دیا جائے گا؛ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ہی دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا۔ فرمایا: ان میں جو بھی (شیطان کے) سینگ (کی صورت) میں ظاہر ہوگا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل سے دجال نکلے گا۔
[أحمد:6871، حاکم:8497، الشريعة للآجري:260]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا: جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا: عدل کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو، اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے چھوڑ دیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کردوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
[أحمد:1461، المسند المستخرج على صحيح الإمام مسلم-أبو نعيم:2372]
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے نبی! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا: شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا۔
[صحيح ابن حبان:81، مسند البزار:2793، التاريخ الکبير-والبخاري:2907]
[المعجم الکبير-للطبراني:169، مسند الشاميين-للطبراني:1291، السنة-ابن أبي عاصم:43، تفسير ابن کثير:2 / 266]
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔
[طبراني:821]
حضرت ابو عثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو یربوع یا بنو تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ الذَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلاَتِ وَالنَّازِعَاتِ کے کیا معنی ہیں؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے سر سے کپڑا اتارو، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے۔ فرمایا: بخدا! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں۔ شعبی کہتے ہیں: پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ بصرہ کے نام خط لکھا، یا کہا کہ ہمیں خط لکھا، جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا، ہماری تعداد ایک سو (100) بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہو جاتے تھے۔
[الصارم المسلول-ابن تيمية: 1 / 195]
حضرت سائب بن یزید نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، اسی اثنا میں ایک شخص آیا، اس نے (اعلیٰ) کپڑے پہن رکھے تھے اور عمامہ باندھا ہوا تھا، تو اس نے بھی دوپہر کا کھانا کھایا۔ جب فارغ ہوا تو کہا: اے امیر المومنین! وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلاَتِ وِقْرًا کا کیا معنی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو وہی (گستاخِ رسول) ہے۔ پھر اس کی طرف بڑھے اور اپنے بازو چڑھا کر اسے اتنے کوڑے مارے یہاں تک کہ اس کا عمامہ گرگیا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں تجھے سر منڈا ہوا پاتا تو تیرا سر کاٹ دیتا۔
”حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: یہ قرآن لوگوں کے سینے میں اس طرح بوسیدہ ہوجائے گا جس طرح ایک کپڑا بوسیدہ ہو کر گر پڑتا ہے۔ لوگ اس کو پڑھیں گے لیکن اس کی تلاوت کے لئے نہ تو کوئی خواہش رکھیں گے اور نہ ہی اس کی تلاوت سے کوئی حظ لیں گے۔ گویا وہ بھیڑیوں کے دلوں پر بھیڑوں کی اون کا لباس پہنائیں گے، ان کے اعمال سراسر لالچ پر مبنی ہوں گے جن میں اﷲ کی خشیت کی آمیزش بھی نہیں ہوگی۔ اگر انہوں نے کوئی تقصیر کی تو کہیں گے کہ عنقریب ہم اپنی منزل کو پہنچ جائیں گے؛ اور اگر کوئی برائی کی تو کہیں گے کہ عنقریب اﷲ ہمیں بخش دے گا کیونکہ بیشک ہم کسی کو اﷲ کا شریک نہیں ٹھہراتے۔“
No comments:
Post a Comment