یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
’’غیرت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے مفہوم میں اہل زبان دو باتوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہو جانا، اور دوسرا یہ کہ اپنے کسی خاص حق میں غیر کی شرکت کو برداشت نہ کرنا۔ ان دو باتوں کے اجتماع سے پیدا ہونے والے جذبہ کا نام غیرت ہے۔
’’ البتہ وہ غیرت جسے اللہ تعالی ناپسند کرتا ہے، ایسی غیرت کہ جہاں شک کی کوئی بات ہی نہ ہو۔ بس صرف آدمی شکی مزاج ہو۔‘‘
[احمد:23752 ، نسائی:2558]
اہل عرب نے اس وقت اپنے طور پر غیرت کے تقاضے بنا رکھے تھے اور ان کے نزدیک غیرت کے معیار کچھ اور ہی تھے۔ فلاں کے اونٹ نے میرے اونٹ سے پہلے پانی کیوں پیا، فلاں کا اونٹ میرے اونٹ سے آگے کیوں نکل گیا۔ فلاں نے میرے خاندان یا میرے باپ دادا کے بارے میں یہ کیوں کہا، سالہا سال انہی باتوں پر خون بہائے جاتے تھے۔ یا پھر بیٹی کی پیدائش کو غیرت کے خلاف سمجھتے۔
[أخلاق العرب بين الجاهلية والإسلام: ص121]
سورہ النحل میں ارشاد باری ہے:
’’ان میں سے جب کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو اس کا چہرہ بے رونق ہو جاتا اور دل ہی دل میں گھٹتا رہتا اور بری خبر کی شرم سے لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا کہ اس ذلت کو برداشت کرے یا اسے مٹی میں گاڑ دے۔‘‘
(سورۃ النحل :58-59)
غیرتِ مذمومہ:
ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس ایک صاحب آئے، اور کہا: یا رسول اللہ! ہم لوگ جاہلیت والے اور بتوں کی عبادت کرنے والے لوگ تھے، ہم اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے، اور میری ایک بیٹی تھی، جب وہ کچھ بڑی ہوئی، اور اس کا حال یہ تھا کہ جب میں اسے بلاتا تو وہ میرے بلانے سے خوش ہوتی تھی، تو ایک دن میں نے اسے بلایا، وہ میرے پیچھے ہو لی، میں چلا یہاں تک کہ اپنے قبیلے کے ایک کنویں پر آیا جو زیادہ دور نہیں تھا، پھر میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، اور اسے کنویں میں ڈال دیا، اور آخری الفاظ جو اس نے مجھے کہے وہ یہ تھے: "اے میرے ابا، اے میرے ابا" . نبی کریم ﷺ کو یہ واقعہ سن کر رونا آگیا، یہان تک کہ آپﷺ کے آنسو چھلک پڑے، تو ان صاحب سے مجلس میں بیٹھے ایک دوسرے صاحب نے فرمایا کہ آپ نے نبی کریمﷺ کو غمگین کردیا۔ اس کہنے والے سے حضورﷺ نے فرمایا:" اسے کچھ نہ کہو، یہ اس چیز کے بارے میں پوچھ رہا ہے جس نے اسے پریشان کیا ہوا ہے"۔ پھر دوبارہ ان قصہ سنانے والے صاحب سے کہا کہ اپنا واقعہ مجھے دوبارہ سناؤ۔ انہوں نے واقعہ دوبارہ سنایا، آپﷺ پھر روئے یہاں تک کہ آپ کے آنسو آپ کی داڑھی پر بہہ پڑے۔ پھر ان صاحب سے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل جاہلیت کے تمام برے افعال (اسلام لانے کی وجہ سے) معاف فرما دئے ہیں، لہٰذا اب نئے سرے سے اعمال کرو۔
[سنن دارمي۔حدیث:2]
غیرتِ محمودہ:
صعصعۃ مجاشعی ؓ سے روایت کیا کہ جو فرزدق(شاعر) کے دادا تھے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے زمانہ جاہلیت میں کچھ نیک عمل کیے تھے کیا اس میں میرے لیے اجر ہوگا پوچھا تو نے کیا عمل کیا تھا؟ عرض کیا کہ میں نے تین سو ساٹھ زندہ درگور کی ہوئی لڑکیوں کو زندہ کیا اور میں نے ان میں سے ہر ایک کو دو دس ماہ کی گابھن اونٹنیوں، اور ایک اونٹ کے بدلے میں خریدا کیا اس میں میرے لیے اجر ہوگا نبی ﷺ نے فرمایا تیرے لیے اس میں اجر یہ ہے تب تو اللہ تعالیٰ نے تجھے اسلام کی توفیق عطا فرمائی۔
رسول اکرم ﷺ کی تشریف آوری کے وقت اس معاشرے میں غیرت مندی کے ایسے معیار تھے لیکن رسول اکرم ﷺ نے غیرت کے ان تمام معیاروں کو بدل کر رکھ دیا۔
اللہ رب العزت ہمیں بھی زمانہ جاہلیت کے ان غیرت کے معیاروں سے محفوظ فرمائے۔ اور خیر مجسمﷺ جیسی غیرت مندی نصیب فرمائے۔ آمین
’’غیرت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے مفہوم میں اہل زبان دو باتوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہو جانا، اور دوسرا یہ کہ اپنے کسی خاص حق میں غیر کی شرکت کو برداشت نہ کرنا۔ ان دو باتوں کے اجتماع سے پیدا ہونے والے جذبہ کا نام غیرت ہے۔
’’اور اللہ تعالیٰ کا غیرت کرنا اس بات پر اور اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بندہ وہ کام (شرک/گناہ) کرتا ہے جو اللہ تعالی نے حرام کر رکھا ہو ۔‘‘
[مسلم:2761]
علماء کرام نے اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کا باعث بھی غیرت ہی کو قرار دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جس گناہ کو چاہیں گے بخش دیں گے لیکن شرک کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ علماء کا کہنا ہے کہ بندگی اور عبادت اللہ تعالیٰ کا خاص حق ہے، اس لیے اس خاص حق میں کسی دوسرے کی شرکت کو گوارا کرنا غیرت کے خلاف ہے، اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ مذمت شرک کی بیان کی گئی ہے۔
غیرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس شخصیت کے ساتھ محبت ہو اس کی کسی درجہ میں بھی توہین برداشت نہیں ہوتی۔ حافظ ابن القیم کے بقول جس شخص کو جس شخصیت کے ساتھ جس قدر محبت ہو اسی قدر اسے اس پر غیرت آتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، قرآن کریم، اور جناب نبی اکرمؐ کی بے حرمتی پر ایک مسلمان سب سے زیادہ طیش میں آتا ہے کہ بحیثیت مسلمان اس کی محبت سب سے زیادہ انہی کے ساتھ ہوتی ہے۔ چنانچہ غیرت محبت کی علامت بھی ہے کہ جس کے ساتھ جتنی محبت ہوگی انسان اس پر اتنی ہی غیرت کھائے گا۔
اللہ تعالیٰ، قرآن کریم ، اور رسول اکرم ﷺ کے بعد غیرت کا مظاہرہ جس چیز پر سب سے زیادہ ہوتا ہے وہ میاں بیوی کا تعلق ہے اور عصمت و عفت کے باہمی تعلقات کا تحفظ ہے۔ اس کے بارے میں غیرت کے اظہار کے بیسیوں واقعات احادیث کے ذخیرے میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ اس حوالہ سے خود جناب نبی اکرمؐ اور ازواج مطہرات کے متعدد واقعات ہیں جو اسلامی تعلیمات میں اس جذبۂ صادقہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ ان میں سے چند واقعات کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
ابو داؤد کی روایت ہے کہ آنحضرتؐ ایک بار ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس ان کے حجرہ میں تشریف لائے تو ایک نوجوان کو ان کے حجرے میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ یہ دیکھتے ہی آپؐ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا جسے حضرت عائشہؓ نے بھانپ لیا اور فورًا وضاحت کی کہ یا رسول اللہ! یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔
اور یہ بھی غیرت ہی کا اظہار تھا کہ قرآن کریم میں پردے کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا مگر حضرت عمرؓ نے حضورؐ سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ! آپ کی مجلس میں مسلمان، منافق، کافر ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اور مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ آپ کی بیویوں اور بیٹیوں پر ان لوگوں کی نگاہ پڑے، اس لیے آپ انہیں پردہ کا حکم دیجیے۔ مفسرین کرام کا کہنا ہے کہ اسی کے بعد سورۃ الاحزاب کی یہ آیت نازل ہوئی:
’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیجیے کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکا کر رکھا کریں۔‘‘
غیرت کا تعلق مرد و عورت دونوں سے ہے۔ اسلام نے دونوں کا یہ حق مساوی تسلیم کیا ہے کہ اگر دوسرا فریق ان کے خاص حق میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو وہ اس پر غصہ کا اظہار کرے اور اس پر احتجاج کرے۔ حتیٰ کہ کسی مرد کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان بیویوں کا یہ حق بھی اسلام میں تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ باہمی معاملات کے توازن میں کوئی فرق محسوس کریں تو اس کا اظہار کریں۔ چنانچہ نسائی کی روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے ایک بار اپنی باری والے دن تھوڑی دیر کے لیے رسول اللہؐ کو اپنے پاس نہ پایا۔ انہیں خدشہ ہوا کہ آپؐ کسی اور بیوی کے ہاں تو نہیں چلے گئے تھے۔ حضورؐ جب واپس آئے تو حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے سر کے بالوں میں انگلیاں داخل کر کے یہ دیکھا کیا کہ کہیں آپ غسل کر کے تو نہیں آئے۔
جناب نبی اکرمؐ نے غیرت کو نہ صرف اچھا جذبہ قرار دیا ہے بلکہ اس کا احترام بھی کیا ہے۔ چنانچہ صحیح روایت میں ہے کہ آپؐ نے خواب میں جنت کی سیر کرتے ہوئے حضرت عمرؓ کا محل دیکھا اور اس میں داخل ہونا چاہا مگر کونے میں ایک خوبصورت خاتون کو وضو کرتے دیکھ کر رک گئے اور محل کے اندر نہیں گئے۔ اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ مجھے عمرؓ کی غیرت کا خیال آگیا تھا۔
اپنے گھر کے ماحول میں عصمت و عفت کے ماحول کو قائم رکھنا اور پردہ داری کے تقاضوں کا لحاظ کرنا گھر کے سربراہ کی ذمہ داریوں میں شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ نسائی کی روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ’’دیوث‘‘ شخص پر جنت حرام کر دی گئی ہے۔ اور پھر لفظ دیوث کی وضاحت بھی آپؐ نے خود فرمائی کہ وہ شخص جو اپنے گھر والوں میں بے حیائی کی باتیں برداشت کر لے۔
تاریخی روایات میں آتا ہے کہ حضرت عثمانؓ سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باغی جب انہیں شہید کرنے کے لیے گھر میں داخل ہوگئے تو امیر المومنینؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت نائلہؓ نے عربوں کے رواج کے مطابق سر کے بال بکھیر کر حملہ آوروں کو رحم کی دہائی دینا چاہی۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے دور سے چلا کر آواز دی کہ:
’’اپنی چادر اوڑھ لو۔ کیونکہ تمہارا ننگے سر ہونا میرے لیے ان لوگوں کے حملے سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔‘‘
احادیث کے ذخیرہ میں اس کے علاوہ بھی بیسیوں واقعات ہیں جن میں غیرت کے اسی دینی جذبہ کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر جس طرح انسان کے دوسرے اوصاف اور خصلتوں کی حدود بیان کی گئی ہیں اسی طرح جناب نبی اکرمؐ نے غیرت کے جائز اور ناجائز پہلوؤں کی بھی نشاندہی کی ہے اور اس کی حدود بیان فرمائی ہیں۔ مثلاً ابوداؤد میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ایک غیرت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ پھر فرمایا کہ جو غیرت کسی سبب کی وجہ سے ہو وہ پسندیدہ ہے جبکہ غیرت کا جو اظہار کسی سبب کے بغیر خواہ مخواہ ہو اسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے بلکہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ کسی سبب اور وجہ کے ظاہر ہونے پر اگر غصہ اور غیرت کا اظہار کیا جائے تو بجا ہے مگر بلاوجہ اور بلاسبب خواہ مخواہ غیرت کا اظہار شرعاً درست نہیں ہے۔
اسی طرح غیرت اور غصہ کا جائز حد تک اظہار تو بجا ہے مگر قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے کہ جب زنا کے ثبوت اور اس کی سزا کے لیے چار گواہوں کی شرط قرآن کریم میں نازل ہوئی تو حضرت سعد بن عبادہؓ نے تعجب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو دیکھ کر چار گواہ تلاش کرتا پھروں گا؟ نہیں بلکہ بخدا میں تو تلوار کے ساتھ اس کا کام تمام کر دوں گا۔ جناب نبی اکرمؐ نے اس پر فرمایا کہ دیکھو سعدؓ کتنا غیرت والا ہے، میں بھی غیرت والا ہوں اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غیرت والا ہے۔ یعنی آپؐ نے حضرت سعدؓ کی غیرت کا تذکرہ تو فرمایا مگر قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی۔
اسی طرح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی اہلیہ ان کے دور خلافت میں فجر اور عشاء کی نماز کے لیے باقاعدگی کے ساتھ مسجد میں جایا کرتی تھیں۔ حضرت عمرؓ کو یہ بات اپنی طبعی غیرت کی وجہ سے پسند نہیں تھی مگر منع بھی نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ یہ بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’اللہ کی بندیوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکا کرو۔‘‘
اس لیے حضرت عمرؓ پسند نہ ہونے کے باوجود اپنی اہلیہ کو مسجد میں جانے سے نہیں روکتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ غیرت کا اظہار بہت اچھی چیز ہے لیکن جو حقوق عورت کو شریعت نے دے رکھے ہیں انہیں غیرت کے نام پر ان سے روکنا درست نہیں ہے۔ الغرض غیرت ایک اچھا جذبہ ہے جو نہ صرف ہمارے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرتا ہے بلکہ عورت اور مرد کے عفت و عصمت کے نظام اور خاندانی ماحول کے تقدس کا محافظ بھی ہے۔ البتہ اس کے اظہار اور استعمال کی حدود بھی متعین ہیں کہ غیرت کے نام پر نہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت ہے اور نہ ہی عورتوں کو ان کے شرعی حقوق سے محروم کر دینے کا کوئی جواز ہے۔
غیرت کی خاطر قتل ہونے والے کو شہادت کا درجہ دیا گیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
((مَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ))
’’اور جو اپنے اہل خانہ کی حفاظت اور دفاع کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا تو وہ شہید ہے۔‘‘
[نسائی:4095]
اور غیرت کی اہمیت کو نہایت ہی تاکیدی الفاظ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((ثلاثة لا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ أبداً))
’’فرمایا: تین قسم کے لوگ ہرگز جنت میں نہیں جائیں گے۔‘‘
’’چنانچہ اس لیے اللہ تعالی نے ہر قسم کی ظاہری و باطنی فحاشی کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘
[صحيح البخاري:4634]
غیرت فطری ہے اور بےحیائی خلافِ فطرت: ایک نوجوان نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے۔ لیکن نبی ﷺ نے اسے فرمایا: میرے قریب آجاؤ۔ وہ نبی ﷺ کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کیا: تم اپنی والدہ کے حق میں اسے پسند کرو گے؟ (کہ کوئی تیری ماں سے زنا کی اجازت مانگے) اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لئے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں اسے پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بہن کے حق میں اسے پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں اسے پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لئے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں اسے پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لئے پسند نہیں کرتے۔ پھر نبی ﷺ نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعاء کی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ [الصَّحِيحَة:370، مسند احمد:22211(21189) طبرانی:7679+7759]
اب آئیے صحابہ کرام کی غیرت کے چند نمونے ملاحظہ کرتے ہیں، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں:
’’اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو میں تلوار کی ہموار اور چپنی طرف سے نہیں بلکہ تلوار کی دھار کی طرف سے اُس کو ضرب لگاؤں گا۔ یعنی کاٹ کے رکھ دوں گا۔‘‘
تو آپ ﷺ نے فرمایا
((اتعجبون من غيرة سعد؟))
’’کیا تمہیں سعد کی غیرت پر تعجب ہو رہا ہے؟‘‘
((فَوَ اللَّهِ لَأَنَا أَغَيْرُ مِنْهُ))
’’اللہ تعالی کی قسم میں سعد سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں ۔‘‘
((والله اغير مني))
’’اور اللہ تعالی مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔‘‘
[صحيح البخاري:7416]
اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ تو آپ نے سنا ہوگا، باقی جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں حملہ کرنے کے لیے داخل ہوئے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے سر کے بال حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر پھیلا دیئے تا کہ وہ قتل نہ کریں اور وہ محض ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھا، جو ایک طرح اُن کی مروت کے ذریعے بچاؤ کی ایک ہلکی سی امید تھی۔
تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی غیرت کا عالم ملاحظہ کیجئے کہ میں اس وقت کہ جب قاتل قتل کرنے کے لیے سر پر کھڑے تھے، فرماتے ہیں۔
’’اپنے چادر لو مجھے اُس عمر دینے والے کی قسم ان کا مجھ پر حملہ آور ہوتا تمہارے بالوں کی عزت و حرمت کے مقابلے میں بہت حقیر اور ہیچ ہے۔‘‘
[تاريخ المدينه لابن شيبه: 4/1300]
یعنی اپنی موت سے بڑھ کر حضرت نائلہ بھی بجھا کے بالوں کی حرمت کی غیرت اور فکر تھی۔ اسی طرح دیگر متعدد صحابہ کرام کی غیرت کے واقعات احادیث میں مذکور ہیں، اگرچہ تمام کے تمام صحابہ کرام ہی شدید غیرت والے تھے، بلکہ اسلام سے پہلے بھی تمام عرب انتہائی سخت غیرت رکھتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت کی آپ ﷺنے خود گواہی دی، حدیث میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
’’تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جو کہ مجلس میں موجود تھے، رو پڑے اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ میں آپ پر غیرت کروں گا ؟ ‘‘
[صحیح البخاری:5227]
یعنی جہاں سے غیرت کا ڈر اور خوف نہ ہو وہاں آدمی غیرت کیسے کر سکتا ہے، جیسا کہ کسی عورت کے پاس اس کا باپ یا بھائی بیٹھا ہو، تو غیرت کا کیا تک بنتا ہے۔
صحابہ کرام کی غیرت کے عجیب و غریب اور حیران کن واقعات ہیں اور پھر تاریخ اسلامی میں مسلمانوں کے خون کو گرما دینے والے واقعات بھی موجود ہیں۔ اور اسلام سے پہلے عرب میں غیرت انتہائی سخت تھی بلکہ بعض اوقات تو حد سے تجاوز کر جاتی تھی۔ جیسا کہ ایک جاہلی شاعر، یعنی زمانہ جاہلیت کا مشہور شاعر تھا اور شدت غیرت میں بہت مشہور تھا۔
ایک روز اپنی بیوی کے ساتھ جا رہا تھا، اُس نے دیکھا کہ کوئی آدمی اس کی بیوی کی طرف دیکھ رہا ہے تو اس نے وہیں اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور پھر کچھ شعر کہے، جن میں سے دو ایک یہ ہیں کہ:
إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ عَلَى طَعَامٍ
رَفَعْتُ يَدِي وَنَفْسِي تَشْتَهِيهِ
’’جب مکھیاں کھانے پر بیٹھ جائیں تو میں کھانے سے ہاتھ اٹھا لیتا ہوں اگر چہ جی چاہ بھی رہا ہوتا ہے۔‘‘
وتَجْتَنِبُ الْأَسودُ وَرُوْدَ مَاءٍ
إِذَا كَانَ الْكِلَابُ وَلَغْنَ فِيهِ
’’اور شیر اُس پانی سے دور رہتے ہیں، کہ جس میں کتے منہ مارتے ہوں ۔‘‘
تو یہ ایک احمقانہ غیرت تھی، اس کا حقیقی غیرت سے کوئی تعلق نہیں ہے، صرف شدت غیرت کا ذکر کرنا مقصود تھا۔
مگر جو غیرت ہمیں عزت، شرافت، شرم و حیا، پاکدامنی اور پاکیزہ زندگی گزارنے کا سبق دیتی ہے آئیے اس کا ایک اور واقعہ بھی سنتے چلیں۔
حضرت خنساء رضی اللہ تعالی عنہا ایک بہت بہادر اور مضبوط شخصیت کی مالک صحابیہ تھیں اور بہت بڑی شاعرہ تھیں، جنگ قادسیہ کے موقعے پر اپنے چار بیٹوں کو میدان جنگ میں اتارنے سے پہلے چند نصیحتیں کرتی ہوئی کہتی ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے 286ھ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے، کہ ایک عورت قاضی کے پاس اپنے خاوند کے خلاف 500 دینا ر حق مہر کا دعوی لے کر آئی اور کہنے لگی کہ میرے خاوند نے میرا حق مہر ادا نہیں کیا۔ خاوند انکاری ہوا۔ قاضی نے عورت سے کہا: گو اہ لاؤ۔
گواہ پیش کئے، تو ایک گواہ نے کہا کہ یہ عورت اپنے چہرے سے پردہ ہٹائے تا کہ میں جان سکوں کہ کیا یہ وہی عورت ہے، قاضی نے کہا: چہرے سے پردہ ہٹاؤ۔
خاوند نے دیکھا اور کہا قاضی صاحب، پر دہ نہ ہٹاؤ، میں قبول کرتا ہوں کہ میں نے اس کے500 دین حق مہر دینا ہے۔ دوسری طرف عورت نے اپنے خاوند کی غیرت کا یہ نظارہ دیکھا تو کہنے لگی قاضی صاحب گواہ رہنا کہ میں اپنے خاوند کو اپنا حق مہر معاف کرتی ہوں ۔
[جلباب المرأة المسلمة للالباني:113، تاريخ بغداد:13 /53، شعب الايمان ، الغيرة والمذاء]
[عیون الحکایات، الحکایۃ السادسۃ بعد الثلاثمائۃ، ص ۲۷۵]
تو جس معاشرے کی عورتیں اس طرح کی پاک باز، پاکدامن اور بلند اخلاق کی مالک ہوں ، اس معاشرے جیسا دنیا میں کوئی معاشرہ نہیں ہو سکتا اور اسے دنیا کی کوئی طاقت مغلوب نہیں کر سکتی۔
No comments:
Post a Comment