Sunday, 17 June 2012

بشارتِ مقامِ امام ابوحنیفہؒ قرآن، حدیث اور علماءِ سلف سے


حافظ ابن کثیر شافعیؒ(م774ھ) نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے بارے میں فرمایا ہے:

وہ امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ کوفی ہیں ، عراق کے فقیہ ، ائمہ اسلام میں سے ایک ہیں ، عظیم سرداروں میں سے ایک ہیں ، ارکانِ علماء میں سے ہیں ، صاحبِ مذاہبِ متبوعہ کے چار اماموں میں سے ایک ہیں ، طویل حیات پائی ، اس لیے انہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا اور حضرت انس بن مالکؓ کو دیکها اور حضرات نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے(مزید) سات صحابہ سے بھی روایت کی ہے. ۔۔۔ امام صاحب کی وفات 150 ہجری میں ہوئی۔
[البدایہ والنہایہ(امام)ابن کثیر: ج13 ص 415 دار هجر]
[ج10/ ص114 دار إحياء التراث]
[ج10/ ص107 دار الفكر]




























===========
امام ابوحنیفہؒ(م150ھ) کیلئے پیشگوئی:


شیخ جلال الدین سیوطیؒ الشافعی(م911ھ) وغیرہ نے [ابو حنیفہؒ کے فضائل-و مناقب پر اپنی کتاب"التبييض الصحيفه في مناقب الإمام أبي حنيفه"میں] تسلیم کیا ہے کہ اس پیشین گوئی کے بڑے مصداق حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ النعمان ہیں۔یہ کتاب اردو میں بنام "امام ابوحنیفہؒ کے حالات، کمالات اور ملفوظات" فری ڈاؤن لوڈ کریں یا آن لائن پڑھیں۔

القرآن:
(1) ... اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے.
[سوره محمّد:38]



(2) ۔۔۔ اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں سے) نہیں ملے...
[سورۃ الجمعہ:3]


تفسیرِ نبوی:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! وہ دوسرے لوگ کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت سلیمان فارسیؓ پرہاتھ رکھ کر فرمایا: اس کی قوم ۔۔۔ خدا کی قسم! اگر دین/ایمان(علم) ثُریا پر جا پہنچے تو بھی فارس کے لوگ یا ان میں ایک شخص وہاں سے اس کو اتار لائیں گے۔
[صحیح البخاری:4897، صحیح مسلم:2546، الجامع معمر بن راشد:19923، شرح السنة للبغوی:3999]


ائمہ ومحدثین کے نزدیک اس سے مراد امام ابوحنیفہؒ ہیں:

1) امامِ حرم ابنِ حجر مکیؒ شافعی-الخیرات الحسان:1/24، دار الکتب العلمیہ، بیروت
2) امام جلال الدین سیوطیؒ شافعی-تبییض الصحیفہ:1/31، دار الکتب العلمیہ، بیروت
3) نواب صدیق حسن بھوپالی غیرمقلد - اتحاف النبلاء:1/224






الحمد للہ، صحابہ رضوان اللہ عنہم نے اس بینظیر ایثار اور جوشِ ایمانی کا ثبوت دیا کہ ان کی جگہ دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم فارس والوں نے اسلام میں داخل ہو کر علمِ دین اور ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی زبردست دینی خدمات انجام دیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص کو ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بیشک حضور ﷺ کی پیشین گوئی کے موافق یہ ہی قوم تھی جو بوقتِ ضرورت عرب کی جگہ پر کر سکتی تھی۔ ہزارہا علماء و آئمہ سے قطع نظر کر کے تنہا امام اعظم ابو حنیفہؒ کا وجود ہی اس پیشین گوئی کے صدق پر کافی شہادت ہے۔ بلکہ اس بشارت عظمیٰ کا کامل اور اولین مصداق امام صاحب ہی ہیں۔

فضیلتِ تابعیت:

کوئی بڑے سے بڑا تبع تابعی بھی ادنیٰ تابعی کے برابر "قطعی"(قرآن وسنت کی صراحت) فضیلت نہیں رکھتا چہ جائیکہ تبع تابعی۔
حوالہ:

فضیلتِ صحابہ و تابعین

القرآن:
وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ۔
[سورۃ التوبۃ:100]

جن لوگوں نے سبقت کی یعنی سب سے پہلے ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ انکی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے انکے لئے باغات تیار کئے ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔









 سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي , أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي "



ایمان کی حالت میں نبیؐ کو دیکھنے والے کو "صحابی" کہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں صحابی کو دیکھنے والے کو "تابعی" کہتے ہیں.




طُوبیٰ (جنت کا درخت/خوشخبری)ہے اس کیلئے جس نے مجھے دیکھا اور طُوبیٰ ہے اس کیلئے جس نے مجھے دیکھنے والے(صحابی)کو دیکھا، ان کیلئے طُوبیٰ ہے اور وہ کیا ہے بہترین ٹھکانہ ہے۔
[الاحادیث المختارۃ:87، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1254]


تم ہمیشہ خیر پر رہوگے جب تک رہے گا تم میں وہ جس نے مجھے دیکھا اور میری صحبت اختیار کی، اور الله کی قسم! تم ہمیشہ خیر پر رہوگے جب تک رہے گا تم میں وہ جس نے مجھے دیکھنے والے کو دیکھا اور میری صحبت والے کی صحبت اختیار کی۔
[مصنف ابن ابي شيبة:32417، سلسلة الأحاديث الصحيحة:3283]








امام ابوحنیفہؒ(م150ھ) کی تابعیت پر ائمہ دین کی گواہیاں:

(1) محمد بن اسحاق (المعروف بابن ندیم المتوفی:380ھ) لکھتے ہیں

وكان تابعين لقي عدة من الصحابة وكان من الورعين الزاهدين.

ترجمہ :
وہ تابعین میں سے تھے اور متعدد صحابہ کرام سے ملاقات کی اور آپ تھے متقین (سچے، راسخ العقیدہ) زاہدین (دنیا اور دنیاداروں سے بےرغبت ہوکر الله ہی پر توکل کرنے والوں) میں سے تھے.
[الفهرست ، لابن نديم: ص # 342]






(2) امام ابن عبد البر المالکیؒ (المتوفی:463ھہ) لکھتے ہیں:

قال أبو عمر : ذكر محمد بن سعد كاتب الوقدى أن أبا حنيفة رأي أنس بن مالك و عبدالله بن الحارث بن جزء.

ترجمہ :
ابو عمر کہتے ہیں : محمد بن سعد کاتب الواقدی فرماتے ہیں کہ : امام ابو حنیفہ نے دیکھا ہے حضرت انس بن مالک اور حضرت عبدالله بن حارث بن جزء (رضی الله عنھما) کو.
[جامع بيان العلم وفضله : ص # 54]





(3) شمس الدین ذہبیؒ الشافعی (المتوفی:748 ھہ) اپنی كتاب [تذکرۃ الحفاظ: ١/١٦٨] میں پانچویں طبقہ کے حفاظِ حدیث میں امام صاحب کا ذکر "ابو حنيفة الإمام الأعظم"  کے عنوان سے کرتے ہیں:
"مولده سنة ثمانين رأي مالك بن أنس غير مرة لما قدم عليهم الكوفة"۔
ترجمہ:
حضرت امامؒ کی پیدائش سنہ ٨٠ھ میں ہوئی، آپؒ نے حضرت انس بن مالکؓ (٩٣ھ) کوجب وہ کوفہ گئے توکئی دفعہ دیکھا۔
[تذكرة الحفاظ : 1/126 ، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة : 3/191]
آگے لکھتے ہیں:
"وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وابي اسحاق وخلق كثير..... وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابوعاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير، وكان اماما ورعا عالماً عاملاً متعبدا کبیر الشان"۔
ترجمہ:
امام ابوحنیفہؒ نے عطاء، نافع، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، سلمہ بن کہیل، ابی جعفر، محمدبن علی، قتادہ، عمرو بن دینار، ابی اسحاق اور بہت سے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے اور ابوحنیفہؒ سے وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت، ابوعاصم، عبدالرزاق، عبیداللہ بن موسیٰ، ابونعیم، ابوعبدالرحمن المقری اور خلق کثیر نے روایت لی ہے اور ابوحنیفہؒ امام تھے اور زاہد پرہیزگار عالم، عامل، متقی اور بڑی شان والے تھے۔






قرآن و حدیث کی فقہ (سمجھ) میں امام صاحب کی عظمت:
حضرت ضرار بن صرد نے کہا، مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) والا امام ثوریؒ ہیں یا امام ابوحنیفہؒ ؟ تو انہوں نے کہا کہ: ابوحنیفہؒ (حدیث میں) افقه (سب سے زیادہ فقیہ) ہیں اور سفیانؒ (ثوری) تو سب سے زیادہ حافظ ہیں حدیث میں.

حضرت عبدللہ بن مبارکؒ نے فرمایا :
امام ابو حنیفہؒ لوگوں میں سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) رکھنے والے تھے.

حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں : ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے عیال (محتاج) ہیں۔“

محدثین کے ذکر میں اسی کتاب میں آگے امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں :
"ان ابا حنیفۃ کان اماما"۔
ترجمہ: بے شک ابوحنیفہؒ (حديث میں) امام تھے۔





















علماءِ حدیث، حدیث کے راویوں/محدثین کے حالات کی تحقیق میں ان سے مروی خبروں (حدیثوں) میں ان کے ثقہ (قابل اعتماد) ہونے یا ضعیف (اعتماد میں کمزور) ہونے یا کذاب و دجال (جھوٹا اور فریبی) ہونے کا حکم دینے میں ان دو اماموں (امام ذہبیؒ اور امام ابن حجرؒ عسقلانی) کی تحقیق کو حجت مانتے ہیں. اور یہ دونوں امام ابو حنیفہؒ کی علم میں امامت، عمل میں زہد و تقویٰ پر علماء سلف کے اقوال کو شھادتاً پیش کرتے ان کی تعدیل کے و ثقاہت ثابت کرتے ہیں.

یہ اور ان جیسے مزید ائمہ کے اقوال امام ابو حنیفہؒ کی علم، عمل اور تقویٰ میں الامام الحافظ الحجة شهاب الدين أبي فضل أحمد بن علي بن الحجر العسقلانيؒ الشافعی (المتوفی ٨٥٢ھ) کی اسماء الرجال پر لکھی مشہور کتاب [تہذیب التهذیب : ١٠ / ٤٤٩-٤٥١] میں بھی مذکور ہیں۔





(4) امام يافعي محدث شافعيؒ (المتوفی:767ھہ) لکھتے ہیں :
رأي أنسا.
[مرآة الجنان وعبرة اليقظان في معرفة ما يعتبر من حوادث الزمان : 4/310]
ترجمہ :
انہوں نے دیکھا حضرت انس (بن مالک رضی الله عنہ) کو.



(5) مفسر قرآن، حافظ الحدیث امام ابن کثیر الشافعیؒ (المتوفی: 774ھہ) لکھتے ہیں :
لانه أدرك عصر الصحابة و رأي أنس بن مالك.
[البداية والنهاية ، لابن كثير : ص # 527]
ترجمہ :
آپ نے صحابہ کا زمانہ پایا اور حضرت انس بن مالک (رضی الله عنہ) کو دیکھا.




(6) شارح صحیح بخاری، حافظ الحدیث امام ابن حجر العسقلانی الشافعیؒ (المتوفی: 852 ھہ) فرماتے ہیں :
رأي أنسا.
یعنی انہوں نے دیکھا حضرت انس (بن مالک رضی الله عنہ) کو.
[تھذیب التھذیب : 6/55]

نوٹ :
حافظ ابن حجرؒ کا امام ابو حنیفہؒ کو طبقہ سادسہ میں شمار کرنا، یہ آپ کا سہو(غلطی) ہے کیونکہ یہاں آپ نے خود ہی اپنے اس نظریہ کی تردید فرمادی. اگر امام ابو حنیفہؒ چھٹے طبقہ میں ہوتے تو حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کو کیسے دیکھ سکتے تھے، لہذا آج کسی کا حافظ ابن حجرؒ کے اس سہو(فراموشی) کو لے کر امام ابو حنیفہؒ کو شرفِ تابعیت سے محروم قرار دینا ، یہ امام صاحب سے تعصب کا نتیجہ ہی ہو سکتا ہے۔




(7) شارح صحیح بخاری، حافظ الحدیث علامہ بدر الدین عینی حنفیؒ (المتوفی: 855ھہ) لکھتے ہیں :
ابن أبي أوفى أسمه عبدالله ... وهو أحد من رأه أبوحنيفة من الصحابة۔
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري : 2/505]

ترجمہ :
(صحابی رسول حضرت) ابن ابی اوفیٰ بنام عبدالله  ... اور وہ ان صحابہ میں سے ایک ہیں جنہیں امام ابوحنیفہ نے دیکھا.

(8) امام ابن العماد حنبلیؒ (المتوفی: 1089ھہ) لکھتے ہیں :
رأي أنسا وغيرة
یعنی آپ نے دیکھا حضرت انس کو اور ان کے علاوہ (صحابہ) کو بھی.
[شذرات الذهب في أخبار من ذهب :1/372]





(9) حافظ المذيؒ نے بیان فرمایا ہے:
کہ امام ابوحنیفہؒ کی ملاقات بہتر (٧٢) صحابہِ کرام سے ہوئی ہے.
[معجم المصنفین : ٢/٢٣]


(10) اہلِ حدیث کے نزدیک بھی امام ابو حنیفہؒ کے امام اور تابعی ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے کتابتِ حدیث کے استدلال کو انہوں نے "تابعین کا عمل" کے فصل میں جلی حرف سے ذکر کیا ہے، دیکھئے :
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ج # ١٢/ ص # ٢٤١ - ٢٤٢؛ دوسرا باب : کتابت احادیث و جمع روایات، فصل سوم: تابعین کا عمل]

القرآن : تِلكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ {2:196} یہ پورے دس ہوئے۔



























امام ابو حنیفہؒ کی تابعیت اور وحدانیات:
وحدانی روایت یعنی وہ حدیث جس میں نبی ﷺ تک امام صاحب کے درمیان "ایک راوی" ہو، یہ مرتبہ ان کے بعد کسی اور محدث کو حاصل نہیں.


(1) (أبو حنيفة قال) وُلِدْتُ سَنَةَ ثَمَانِينَ ، وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي سَنَةَ سِتٍّ وَتِسْعِينَ ، وَأَنَا ابْنُ سِتَّ عَشْرَةَ سَنَةً ، فَلَمَّا دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، وَرَأَيْتُ حَلَقَةً ، فَقُلْتُ لِأَبِي : حَلَقَةُ مَنْ هَذِهِ ؟ فَقَالَ : حَلَقَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَرْثِ بْنِ جَزْءٍ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتَقَدَّمْتُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " مَنْ تَفَقَّهَ فِي دِينِ اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ مَهَمَّهُ وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ " .
ترجمہ:
(امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ) میری پیدائش سن 80 ہجری میں ہوئی ، میں نے 96 ہجری میں جبکہ میری عمر 16 سال تھی ، اپنے والد صاحب کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی ، جب میں مسجد حرام میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ایک بہت بڑا حلقہ دیکھا ، میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ یہ کس کا حلقہ ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء الزبیدیؓ کا حلقہ ہے ، چنانچہ میں آگے بڑھ کر ان کے حلقہ میں شریک ہوگیا ، میں نے انھیں یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص الله کے دین میں فقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کرنے کی راہ پر چل پڑتا ہے ، الله اس کے کاموں میں اس کی کفایت فرماتا ہے ، اور اسے ایسی جگہوں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ گیا ہو.
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من تفقه في دين الله كفاه الله مهمه ورزقه من حيث لا يحتسبعبد الله بن الحارثمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي303أبو حنيفة150
2من تفقه في دين الله كفاه الله ورزقه من حيث لا يحتسبعبد الله بن الحارثمسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم4---أبو حنيفة150
3من تفقه في دين الله رزقه الله من حيث لا يحتسب وكفاه همهعبد الله بن الحارثتاريخ بغداد للخطيب البغدادي8324 : 50الخطيب البغدادي463
4من تفقه في دين الله كفاه الله همه ورزقه من حيث لا يحتسبعبد الله بن الحارثجامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر172216ابن عبد البر القرطبي463








(2) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا وَلَوْ كَمِفْحَصِ قَطَاةٍ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ" .
ترجمہ:
(امام ابو حنیفہؒ) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ کو فرماتے ہوۓ سنا کہ میں نے رسول الله ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ : جو شخص تعمیر مسجد میں حصہ لے ، اگرچہ قطاة (بھڑ، تیتر) پرندے کے گھونسلے کے برابر ہی ہو ، الله تعالیٰ اس کے لئے جنّت میں گھر بنائیں گے۔
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من بنى لله مسجدا ولو كمفحص قطاة بنى الله له بيتا في الجنةعبد الله بن علقمةمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي9013أبو حنيفة150
2من بنى مسجدا ولو كمفحص قطاة بنى الله له بيتا في الجنةعبد الله بن علقمةالتدوين في أخبار قزوين للرافعي305---عبد الكريم الرافعي623






(3) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ عَجْرَدٍ ، تَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَكْثَرُ جُنْدِ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ الْجَرَادُ ، لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ ".
ترجمہ :
(امام ابو حنیفہؒ) فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضرت عائشہ بنت عجرد رضی الله عنہا سے یہ فرماتے کہ فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے : الله کا سب سے بڑا لشکر زمین میں " ٹڈی دل " ہے ، میں اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام قرار دیتا ہوں.
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1أكثر جند الله في الأرض الجراد لا آكله ولا أحرمهموضع إرسالمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي3949أبو حنيفة150
2أكثر جنود الله لا آكله ولا أنهى عنهموضع إرسالمصنف ابن أبي شيبة2398024949ابن ابي شيبة235
3أكثر جنود الله في الأرض الجراد لا آكله ولا أحرمهموضع إرسالجزء محمد بن عبد الله الأنصاري77محمد بن عبد الله الأنصاري215
4أكثر جنود الله في الأرض الجراد لا أحله ولا أنهى عنهموضع إرسالجزء محمد بن عبد الله الأنصاري8890محمد بن عبد الله الأنصاري215






(4) (أبو حنيفة) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا رُزِقْتُ وَلَدًا قَطُّ وَلَا وُلِدَ لِي ، قَالَ : " فَأَيْنَ أَنْتَ مِنْ كَثْرَةِ الِاسْتِغْفَارِ ، وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةِ تُرْزَقُ بِهَا ، قَالَ : فَكَانَ الرَّجُلُ يُكْثِرُ الصَّدَقَةَ وَيُكْثِرُ الِاسْتِغْفَارَ ، قَالَ جَابِرٌ : فَوُلِدَ لَهُ تِسْعَةُ ذُكُورٍ " .
ترجمہ :
امام ابو حنیفہؒ حضرت جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی نبی ﷺ کی خدمات میں آکر کہنے لگا کہ اے الله کے رسول! میرے یہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی، نبی ﷺ نے فرمایا : (تو) تم کثرت استغفار اور صدقہ (و خیرات کرنے) سے کہاں غفلت میں رہے ؟ اس کی برکت سے تمہیں اولاد نصیب ہوگی۔ اس آدمی نے کثرت سے صدقہ دینا اور استغفار کرنا شروع کردیا۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے اس کے ہاں نو (9) لڑکے پیدا ہوۓ۔
تخريج الحديث:
المحدث: ابن عراق الكناني المصدر: تنزيه الشريعة - الصفحة أو الرقم: 2/143
خلاصة حكم : يدل عليه الآيات [النوح : 10-12] والآثار ، وأما بهذا السياق فلم أجده ، وهو من الوحدانيات لابي حنيفة الإمام




(5) (أبو حنيفةعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الدَّالُّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ " .
ترجمہ :
امام ابو حنیفہؒ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہیں کہ فرمایا رسول الله ﷺ نے : نیکی کے کام پر راہنمائی کرنے والا بھی ایسے ہی ہے جیسے نیکی کرنے والا.
الراوي: عبدالله بن أنيس و أبو الدرداء و أبو برزة المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3674
خلاصة حكم المحدث: حسن

الراوي: عبدالله بن أنيس المحدث: السفاريني الحنبلي المصدر: شرح كتاب الشهاب - الصفحة أو الرقم: 305

خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكجامع الترمذي26132670محمد بن عيسى الترمذي256
2الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكالأحاديث المختارة1983---الضياء المقدسي643
3الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكمسند أبي يعلى الموصلي42344296أبو يعلى الموصلي307
4الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر1022981ابن حجر العسقلاني852
5الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة46316968البوصيري840
6الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي46322أبو حنيفة150
7الدال على الخير كفاعله الله يحب إعانة اللهفانأنس بن مالكالمقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء9261041الهيثمي807
8الدال على الخير كفاعله والله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالككشف الأستار18321949نور الدين الهيثمي807
9الدال على الخير كفاعله الدال على الشر كفاعلهأنس بن مالكمعجم أسامي شيوخ أبي بكر الإسماعيلي1231 : 465أبو بكر الإسماعيلي371
10الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكمشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي3031أحمد بن عبد الدائم المقدسي718
11الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكمشيخة ابن جماعة2062 : 481ابن جماعة739
12الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكمعجم الشيوخ لتاج الدين السبكي236---السبكي771
13الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكحديث أبي الفضل الزهري383411الحسن بن علي الجوهري381
14الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكالسداسيات والخماسيات15---الحسن بن مسعود الوزير543
15الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكجزء ابن فيل113---الحسن بن أحمد بن إبراهيم بن فيل البالسي309
16الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكقضاء الحوائج لابن أبي الدنيا2727ابن أبي الدنيا281
17الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكالترغيب في فضائل الأعمال لابن شاهين508508ابن شاهين385
18الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالكجامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر4460ابن عبد البر القرطبي463
19الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكالبر والصلة لابن الجوزي340438أبو الفرج ابن الجوزي597
20الدال على الخير كفاعلهأنس بن مالككتاب العلم46---أبو طاهر السلفي576
21الدال على الخير كفاعله الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكاصطناع المعروف7479ابن أبي الدنيا281






6) (أبو حنيفة) عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ إِغَاثَةَ اللَّهْفَانِ " .

ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ حضرت انسؓ سے رسول الله ﷺ کا یہ ارشاد سننا نقل فرماتے ہیں کہ الله مظلوموں کی مدد کرنے کو پسند کرتا ہے.
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي47029أبو حنيفة150
2إن الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكمعجم شيوخ الابرقوهى64---أحمد بن إسحاق بن محمد الأبرقوهي701
3الله يحب إغاثة اللهفانأنس بن مالكمكارم الأخلاق للطبراني9595سليمان بن أحمد الطبراني360


7) (أبو حنيفة) قَالَ : وُلِدْتُ سَنَةَ ثَمَانِينَ ، وَقَدِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكُوفَةَ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ ، وَرَأَيْتُهُ ، وَسَمِعْتُ مِنْهُ ، وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ " .
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْأَدَبِ ... رقم الحديث: 472]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میری پیدائش 80 ہجری میں ہوئی اور حضرت عبدالله بن انیس رضی الله عنہ جو صحابی رسول ہیں 94 ہجری میں کوفہ تشریف لاۓ طے میں نے اس کی زیارت بھی کی اور ان سے حدیث کی سماعت (سننا) بھی کی ہے ، اور اس وقت میری عمر 14 سال تھی ، انہوں سنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے کہ : کسی چیز کی محبت تمہیں اندھا بھرا کر سکتی ہے.
تخريج الحديث
م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكسنن أبي داود44675130أبو داود السجستاني275
2حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكمسند أحمد بن حنبل2115221185أحمد بن حنبل241
3حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكمسند ابن أبي شيبة4949ابن ابي شيبة235
4حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكالبحر الزخار بمسند البزار 10-13474125أبو بكر البزار292
5حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكمسند الشاميين للطبراني14351454سليمان بن أحمد الطبراني360
6حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن أشقرمسند الشاميين للطبراني14491468سليمان بن أحمد الطبراني360
7حبك الشيء يعمي ويصمعبد الله بن أنيسمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي47231أبو حنيفة150
8حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكمسند الشهاب207219الشهاب القضاعي454
9حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكالمعجم الأوسط للطبراني44924359سليمان بن أحمد الطبراني360
10حبك الشيء يعمي ويصمعثمان بن عفانإسلام زيد بن حارثة وغيره من أحاديث الشيوخ261 : 180تمام بن محمد الرازي414
11حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكأمالي ابن بشران5291 : 228أبو القاسم بن بشران430
12حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكثلاثة مجالس من أمالي أبي عبد الله الروذباري13---أحمد بن عطا الروذباري369
13حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكأمالي ابن بشران ( مجالس أخرى )5111 : 228عبد الملك بن بشران431
14حبك الشيء يعمي ويصمنفير بن مالكأمثال الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني101115أبو الشيخ الأصبهاني369
15حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكشعب الإيمان للبيهقي392411البيهقي458
16حبك الشيء يعمي ويصمموضع إرسالالمعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان8442 : 189يعقوب بن سفيان277
17حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكالكني والأسماء للدولابي716546أبو بشر الدولابي310
18حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر9020---ابن عساكر الدمشقي571
19حبك الشيء يعمي ويصمعبد الله بن أنيستاريخ دمشق لابن عساكر12001---ابن عساكر الدمشقي571
20حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر13795---ابن عساكر الدمشقي571
21حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر1449716 : 186ابن عساكر الدمشقي571
22حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر1449816 : 186ابن عساكر الدمشقي571
23حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر1449916 : 187ابن عساكر الدمشقي571
24حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر14503---ابن عساكر الدمشقي571
25حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر66582---ابن عساكر الدمشقي571
26حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكتهذيب الكمال للمزي235---يوسف المزي742
27حبك الشيء يعمي ويصمنضلة بن عبيداعتلال القلوب للخرائطي350369محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي327
28حبك الشيء يعمي ويصمنضلة بن عبيداعتلال القلوب للخرائطي782820محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي327
29حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكذم الهوى لابن الجوزي1436أبو الفرج ابن الجوزي597
30حبك الشيء يعمي ويصمعويمر بن مالكالآداب للبيهقي164229البيهقي458



8) (أبو حنيفة) قَالَ : سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " لَا تُظْهِرَنَّ شَمَاتَةً لِأَخِيكَ فَيُعَافِيَهُ اللَّهُ وَيَبْتَلِيَكَ ".
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْأَدَبِ ... رقم الحديث: 473]
ترجمہ : امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ  وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ہے کہ : اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار کبھی نہ کرنا ، ہو سکتا ہے الله تعالیٰ اسے عافیت دیدے اور تمہیں اس (مصیبت) میں مبتلا کردے.
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعجامع الترمذي24432506محمد بن عيسى الترمذي256
2لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند الشاميين للطبراني378384سليمان بن أحمد الطبراني360
3لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند الشاميين للطبراني33173379سليمان بن أحمد الطبراني360
4لا تظهرن شماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي47332أبو حنيفة150
5لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند الشهاب857917الشهاب القضاعي454
6لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمسند الشهاب858919الشهاب القضاعي454
7لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالمعجم الأوسط للطبراني38653739سليمان بن أحمد الطبراني360
8لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالمعجم الكبير للطبراني17623127سليمان بن أحمد الطبراني360
9لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمعجم ابن الأعرابي15851612ابن الأعرابي340
10لا تظهر الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعمشيخة أبي عبد الله الإربلي14---محمد بن إبراهيم بن مسلم الإربلي633
11إذا أصيب أخوك بمصيبة فلا تظهر له الشماتة فيرحمه الله ويبتليك بأشد منهواثلة بن الأسقعحديث أبي الفضل الزهري569602الحسن بن علي الجوهري381
12لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالأربعون في شيوخ الصوفية للماليني931 : 182أحمد بن محمد الماليني412
13لا تظهر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعجزء القاسم بن موسى الأشيب54---القاسم بن موسى الأشيب209
14لا تظهر الشماتة بأخيك يرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالجزء السابع من الفوائد المنتقاة168---أبو الفتح بن أبي الفوارس412
15لا تظهر الشماتة بأخيك فيعافيه ربه ويبتليكواثلة بن الأسقعحديث أبي علي الشعراني82---الحسن بن علي الشعراني330
16لا تظهر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعأمالي ابن بشران ( مجالس أخرى )9861 : 417عبد الملك بن بشران431
17لا تظهرن الشماتة لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعأمثال الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني175202أبو الشيخ الأصبهاني369
18لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعموضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب6531 : 517الخطيب البغدادي463
19لا تظهر الشماتة بأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعشعب الإيمان للبيهقي62716777البيهقي458
20لا تظهر الشماتة في لأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعحلية الأولياء لأبي نعيم69766982أبو نعيم الأصبهاني430
21لا تظهر الشماتة لأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعتاريخ بغداد للخطيب البغدادي298910 : 135الخطيب البغدادي463
22لا تكثر الشماتة بأخيك فيرحمه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعالديباج للختلي611 : 105إسحاق بن إبراهيم الختلي283
23لا تظهر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليكواثلة بن الأسقعاعتلال القلوب للخرائطي777813محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي327

===========================

(2) دوسرے یہ کہ محدث سے فقیہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے گا جو ہماری بات (حدیث) سن کر اسے محفوظ (یاد) کرلے اور اسے پھر دوسرے اس شخص تک پہنچادے جس نے اسے براہ راست نہیں سنا کیونکہ بہت سے فقہ (یعنی علمِ حدیث) کے محافظ حقیقتاً فقیہ (یعنی علمِ حدیث کی گہری سمجھ رکھنے والے) نہیں ہوتے اور بہت سے فقیہ (علمِ حدیث کی فقہ رکھنے والے) تو ہیں لیکن جن کی طرف (یہ فقہ) منتقل کر رہے ہیں وہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں۔
[ابن ماجہ:230، ابوداؤد:3660]



حضرت امام ابوحنیفہؒ وہ جلیل القدر اورعظیم المرتبت ہستی ہیں،جن کی جلالت شان، امامت وفقاہت، اور فضل وکمال کو بڑے بڑے اساطین علم وفضل اور کبار فقہاء ومحدثین نے تسلیم کیا ہے۔ ہم تبرکا چند اکابر ائمہ کے اقول ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو اندازہ ہو سکے کہ اکابر علماء امت جس ہستی کے بارے میں يہ رائے رکھتے ہیں اس ہستی کے ساتھ لا مذہب غیر مقلدین کا کیا رويہ ہے۔





امام شافعی فرماتے ہیں، الله ان سے راضی ہو : امام مالک رحمہ الله سے پوچھا گیا : کیا آپ نے امام ابوحنیفہؒ کو دیکھا ہے؟ تو فرمایا : ہاں ، (اور ایک ستون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) میں نے انہیں ایسا شخص پایا کہ اگر وہ اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہتے تو اپنے علم کے زور پر وہ ایسا کر سکتے تھے ۔“

حضرت امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے خوشہ چین ہیں۔“
امام یحییٰ بن معین رحمہ الله نے فرمایا : قرأت میرے نزدیک حمزہ کی قرأت ہے، اور فقیہ (میرے نزدیک) امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے. [وفیات الاعیان لابن خلکان : ٥/٤٠٩]






حضرت عبد الله بن مبارک رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام مالک رحمہ الله کی خدمت میں حاضر تھا کہ ايک بزرگ آئے،جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو حضرت امام مالک رحمہ الله نے فرمایا جاتنے ہو يہ کون تھے؟ حاضرین نے عرض کیا کہ نہیں (اور میں انہیں پہچان چکا تھا) فرمانے لگے۔”يہ ابوحنیفہؒ ہیں عراق کے رہنے والے، اگر يہ کہہ دیں کہ یہ ستون سونے کا ہے تو ویسا ہی نکل آئے انہیں فقہ میں ایسی توفیق دی گئی ہے کہ اس فن میں انہیں ذرا مشقت نہیں ہوتی“۔
(حسین بن علی الصیمری: المحدث ۔ اخبار ابی حنیفة و اصحاب ص74)

امام عبداللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے:
"ولا تقولو رأیُ ابی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ولکن قولوا انہ تفسیر الحدیث“
(ذیل الجواہر المضیة، ج: 2،ص: 460 ؛ مناقب موفق ابن احمد مکی ج2 ص 51 )
یعنی لوگو یہ نہ کہا کرو کہ یہ ابوحنیفہ رحمة الله عليه کی رائے ہے بلکہ یوں کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر وبیان ہے۔

ایک دوسرے موقع پر انہی امام المحدثین عبداللہ بن مبارک رحمة الله عليه نے امام صاحب رحمة الله عليه کی اصابت رائے اوراس کی ضرورت واہمیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
”ان کان الاثر قد عرف واحتیج الی الرأی، فرأی مالک، وسفیان، وابی حنیفة، وابوحنیفة احسنہم وادقہم فطنة واغوصہم علی الفقہ، وہو افقہ الثلاثة“
[تاریخ بغداد للخطیب، ج:۱۳،ص:۳۴۳]
یعنی اگر حدیث معلوم ومعروف ہو اور (اس کی مراد کی تعیین میں) رائے کی ضرورت ہوتو امام مالک، امام سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہؒ کی رائے (ملحوظ رکھنی چاہیے) اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه ان تینوں میں فہم وادراک میں زیادہ بہتر اور فقہ کی تہہ تک زیادہ پہنچنے والے تھے۔

حضرت امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ الله اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے خوشہ چین ہیں۔“حضرت امام شافعی رحمہ الله يہ بھی فرماتے ہیں ”میں نے ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا





دین کی پہچان اور امام ابوحنیفہؒ

مکہ کے مفتی اور تابعی امام  حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کے ساتھ امام ابوحنیفہؒ کا واقعہ:
اور حکایت نقل کی ہے علامہ ابن بطالؒ نے ((شرح بخاری)) میں امام ابوحنیفہؒ سے : انہوں نے فرمایا : "میں نے ملاقات کی حضرت عطاء بن ابی رباحؒ سے مکہ میں ، پس میں نے سوال کیا ان سے کسی شیء کے بارے میں؟ تو انہوں نے فرمایا: تُم کہاں سے ہو؟ میں نے کہا: کوفہ والوں سے. فرمایا: تم اس شہر سے ہو...جنہوں نے تفرقہ(علیحدگی) اختیار کی اپنے دین سے اور ہوگئے شیعہ (الگ گروہ)؟﴿سورۃ الانعام:159﴾ میں نے کہا: جی ہاں. آپ نے فرمایا: تو تم کس قسم کے لوگوں میں سے ہو؟ میں نے کہا: ان لوگوں میں سے...(1)جو نہیں برا کہتے سلف یعنی گزرے ہوۓ نیک بزرگوں-صحابہ کو، (2)اور جو ایمان رکھتے ہیں تقدیر پر، (3)اور جو نہیں کافر کہتے کسی ایک کو بھی اس کے گناہ کے سبب. تو حضرت عطاء نے فرمایا: تو نے خوب پہچان لیا (دین کو) پس اب اسے لازم پکڑنا". (یعنی اسی پر قائم رہنا)
تخریج :
١) حلية الأولياء ، لابي نعيم : ٣/٣١٤
٢) مناقب الإمام أبي حنيفة ، لامام ألكردري : ٧٦
٣) العقد الثمين ، للفاسي : ٦/٩١.




حضرت ابوبکر مروزی رحمہ الله فرماتے ہیں ، میں نے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ الله کو يہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہمارے نزديک يہ بات ثابت نہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ الله نے قرآن کو مخلوق کہا ہے۔“ میں نے عرض کیا کہ الحمد لله، اے عبدالله (یہ امام احمد بن حنبل کی کنیت ہے) ان کا علم تو بڑا مقام ہے ، فرمانے لگے:”سبحان الله وہ تو علم، ورع، زہد، اور عالم آخرت کو اختیار کرنے میں اس مقام پر ہیں جہاں کسی کی رسائی نہیں
[مناقب الامام ابوحنیفہؒ ص27 ]



حارث بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ہم حضرت عطاءؒ کے پاس بیٹھے ہوتے تھے، جب امام ابوحنیفہؒ آتے توان کے لیے حضرت عطاءؒ جگہ بناتے اور اپنے قریب بٹھاتے، ابوالقاسمؒ نے ایک مرتبہ حضرت عطاءؒ سے عرض کیا کہ آپ کے نزدیک امام ابوحنیفہؒ بڑے ہیں یاسفیان ثوریؒ؟ توانھوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ میرے نزدیک ابنِ جریجؒ سے بھی زیادہ فقیہ ہیں، اُن سے زیادہ فقہ پر قادر شخص میری آنکھوں نے نہیں دیکھا۔
[تذکرہ النعمان:۱۷۱]

حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ الله فرماتے ہیں: ”میری آنکھ نے ابو حنیفہ رحمہ الله کی مثل نہیں ديکھا“
[مناقب الامام ابوحنیفہؒ ص19]
آپ يہ بھی فرماتے تھے:علماء تو يہ تھے ابن عباس رضی الله عنہ اپنے زمانے میں، امام شعبی رحمہ الله اپنے زمانے میں، ابو حنیفہ رحمہ الله اپنے زمانے میں، اور سفیان ثوری رحمہ الله اپنے زمانے میں۔
[اخبار ابی حنیفة واصحابہ ص76]


اقوالِ امام ابوحنیفہؒ احادیث کے مطابق ہوتے:

مشہور ثقہ محدث علی بن خشرم کا بیان ہے کہ ہم امام سفیان بن عیینہؒ کی مجلس میں تھے تو انھوں نے کہا: اے حدیث سے اشتغال رکھنے والو! حدیث میں تفقہ حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ تم پر اصحاب فقہ غالب ہوجائیں، امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے کوئی بات ایسی نہیں بیان کی ہے کہ ہم اس سے متعلق ایک، دو حدیثیں روایت نہ کرتے ہوں۔
[معرفة علوم الحدیث للحاکم، ص:66]
(تشریح: امام سفیان بن عیینہ نے اپنے اس ارشاد میں حاضرین مجلس کو دو باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے ایک یہ کہ وہ الفاظ حدیث کی تحصیل و تصحیح کے ساتھ حدیث کے معنی وفقہ کے حاصل کرنے کی بھی سعی کریں دوسرے امام صاحب کی اصابت رائے اور بصیرت فقہ کی تعریف میں فرمایاکہ ان کی رائے وفقہ حدیث کے مطابق ہے کیوں کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کی تائید وتوثیق کسی نہ کسی حدیث سے ہوجاتی ہے۔ )


























محدث بنانے والے:
حضرت سفیان بن عیینہؒ خود فرماتے ہیں:
‌أَوَّلُ ‌مَنْ ‌أَقْعَدَنِي ‌لِلْحَدِيثِ بِالْكُوفَةِ أَبُو حَنِيفَةَ
جس کے پاس میں حدیث (کی تعلیم) کیلئے سب سے پہلے بیٹھا، وہ ابو حنیفہؒ تھے۔
[الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر (م463ھ) : صفحہ 128]
اور فرماتے:
فَأَوَّلُ مَنْ ‌صَيَّرَنِي ‌مُحَدِّثًا ‌أَبُو ‌حَنِيفَةَ۔
سب سے پہلے جس نے مجھے محدث بنایا، وہ ابو حنیفہؒ ہے۔
[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي- (م446ھ) : ج1 / ص369 ، وفيات الأعيان-ابن خلكان (م681ھ) : ج2 / ص393]



























حافظ أبو نعيم أصفهانيؒ نے "مسند ابوحنیفہؒ" میں بسند متصل یحییٰ بن نصر صہب کی زبانی نقل کیا ہے کہ :
"دخلت على أبي حنيفة في بيت مملؤ كتابا، فقلت : ما هذه ؟ قال : هذه أحاديث كلها وما حدثت به إلا اليسير الذي ينتفع به".
ترجمہ
میں امام ابوحنیفہؒ کے ہاں ایسے مکان میں داخل ہوا جو کتابوں سے بھرا ہوا تھا. میں نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ سب کتابیں حدیث کی ہیں اور (کمالِ احتیاط کے سبب) میں نے ان میں سے تھوڑی سی حدیثیں بیان کی ہیں جن سے نفع اٹھایا جاۓ۔
[مناقب الامام الاعظم : ١/٩٥، المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي:671]




(3) امام ابوحنیفہؒ کو امامِ اعظم کہنے والے ائمہ کرام:

بغیر علم حدیث کے کوئی فقہ نہیں رکھتا، اور امام شافعی نے فرمایا کہ فقہ میں سب ابوحنیفہ کے عیال(ماتحت ومحتاج)ہیں۔ اسی لئے امام جرح والتعدیل امام ذہبی، حبر العلم امام سیوطی اور دیگر متعدد سلف ائمہ حدیث نے ابوحنیفہ کو امام اعظم لکھا ہے، امام بخاری کیلئے نہیں کہا گیا۔

حوالہ جات، کتب العقائد:
(1)ابوالحسن الاشعري{324ھ}
[الابانة عن اصول الدیانة» 1/ 90]

(2) الطِّيبي {743هـ}
[فتوح الغيب:11/ 487]

(3) ابن الوَزِير{840هـ}
[الرَّوضُ البَاسمْ : 2/ 325، العواصم والقواصم:2/ 84]

(4) الدَّوَّاني {918هـ}
[الحجج الباهرة في إفحام الطائفة الكافرة الفاجرة: ص309]

(5) ملا علي قاري{1014ھ}
[أدلة معتقد أبي حنيفة في ابوي الرسول: 1/ 62]

(6)السفاريني الحنبلي {1188ھ}
[لوامع الانوار البهية»2/ 459]



کتب علوم القرآن والتفسیر:
[احکام القرآن للشافعي»1/ 6، روح البیان:5/235، روح المعاني:2/404، تفسیر المنار:1/76، المعجزة الكبرىٰ القرآن:1/415، التغيير والمفسرون:1/251، التفسیر الواضح:1/485، تفسیر سورۃ الحجرات، عطية بن محمد سالم:7/9]



کتبِ حدیث وشروح الحدیث:
(1) امام ابو الوليد الباجي{474ھ}
[المنتقىٰ شرح المؤطا:4/91]

(2) امام الخوارزمي {665هـ}
[مسانيد الإمام الأعظم أبي حنيفة]

(3) امام ابن الرجب الحنبلي{795ھ}
[فتح الباری شرح البخاري:6/153، 5/216]

(4) ابن المُلَقِّن {804ھ}
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح:21/ 324]

(5) بدر الدين العيني {855ھ}
[نخب الأفكار ۔۔۔ في شرح معاني الآثار: 4/ 103]

(6) امام ابن الجزري{833ھ}
[مناقب الاسد الغالب: حدیث95]

(7) السُّيُوطي {911ھ}
[شرح سنن ابن ماجه: ص110+205]

(8) القَسْطَلَّاني {923ھ}
[إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري:10/ 108، حدیث6966]

(9) ملا علي القاري{1014ھ}
[شرح مسند أبي حنيفة:1/ 5، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:1/ 29، شرح نخبة الفكر: ص518]

(10) عبد الحق الدِّهْلوي {1052ھ}
[لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح:1/ 92]

(11) العَزِيزي {1070هـ}
[السراج المنير شرح الجامع الصغير:4/ 147]

(12) عثمان الكماخي{1171هـ}
[المهيأ في كشف أسرار الموطأ:1/ 40، حدیث#210,]

(13) عَبْد الحَيّ اللكنوي {1304هـ}
[التعليق الممجد على موطأ محمد:1/ 120]

(14) خليل السهارنفوري{1346هـ}
[بذل المجهود في حل سنن أبي داود:1/ 122]

(15) محمد الأمين الهرري{1348 هـ -؟}
[الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم:5/ 327]

(16) محمود خطاب السُّبْكي{1352هـ}
[المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود:4/ 327]

(17) أنور شاه الكشميري{1353هـ}
[فيض الباري على صحيح البخاري:2/ 204]

(18) الفاداني المكي{1411ھ}
[العجالة في الحديث المسلسلة: 1/38]



کتبِ فقہ واصولِ فقہ:
(1) امام عبد العزيز البخاري {730هـ}
[كشف الأسرار شرح أصول البزدوي: 1/ 10]
(جاری)



حضرت امام ابوحنیفہؒ امامِ اعظم کیوں؟

حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی سب بالاتفاق حضرت امام ابوحنیفہؒ کو امامِ اعظم کہتے ہیں. اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ امام صاحب کے بارے میں جن احادیث میں پیش گویاں ہیں، ان میں اعظم کا لفظ آیا ہے.

(١) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " أَعْظَمُ النَّاسِ نَصِيبًا فِي الإِسْلامِ أَهْلُ فَارِسَ ، لَوْ كَانَ الإِسْلامُ فِي الثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ " . ( الثريا : مجموعة من نجوم السماء)۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ
اسلام میں بڑا حصہ (نصیب) فارس والوں کا ہے، اگر دین ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو فارس-والے اسے لے آئیں گے. (ثریا یعنی آسمان کے ستاروں کا مجموعہ)۔

فائدہ:
ظاہر ہے کہ جن کا اسلام میں نصیب "اعظم"(بڑا) ہو، ان کا امام بھی اعظم ہے، صحابہ (رضی الله عنھم) کے بعد سب نے اپ کو اعظم مانا اور دنیا میں "سوادِ اعظم" آج تک آپکے مقلدین کا ہے."السواد الاعظم" عربی زبان میں "عظیم-ترین(سب سے بڑی)جماعت" کو کہتے ہیں.
[الصحاح للجوهري:١/٤٨٩]




چونکہ قرآن پاک میں اسلام کا دوسرا نام ((دین حنیف)) ہے جس کی تکمیل آنحضرت پر ، تمکین صحابہ کے ذریعہ ہوئی اور تدوین میں اولیت کا شرف امام صاحب کو نصیب ہوا، اسی لئے پوری امت بالاتفاق آپ کی "وصفی کنیت" ابوحنیفہؒ قرار پائی یعنی دین حنیف کے پہلے مدون







اختلاف کا حل حدیثِ سوادِ اعظم سے
حضرت انسؓ رسول الله ﷺ سے مروی ہیں کہ: میری امت کسی گمراہی پر"جمع" (متفق) نہیں ہوگی بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم (بڑی-جماعت) کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)۔
[سنن ابن ماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم]

دوسری روایت میں حضرت ابنِ عمرؓ سے حدیث میں ہے ... بس تم سوادِ اعظم کا اتباع کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہے گا۔
[مستدرک حاکم: کتاب العلم، ١/١١٥]

امام حاکمؒ نے حضرت ابنِ عمرؓ کی یہ روایت دو طرق (طریقوں) سے نقل کی ہے اور دونوں کے بارے میں صحتِ سند کا رجحان تو ظاہر کیا ہے، فیصلہ نہیں کیا. اور حافظ ذہبیؒ نے سکوت (چُپ)کیا ہے۔(یعنی جرح وکلام نہیں فرمایا).








===========
شیخ الاسلام والمسلمین حضرت یزید بن ہارون رحمہ الله فرماتے ہیں ”ابوحنیفہ رحمہ الله پرہیز گار، پاکیزہ صفات، زاہد، عالم، زبان کے سچے، اور اپنے اہل زمانہ میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔ میں نے ان کے معاصرین میں س
ے جتنے لوگوں کو پایا سب کو یہی کہتے سنا کہ اس نے ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا“ 
(اخبار ابی حنیفة واصحابہ: ص36)





حافظ حدیث ابوعمر ابن عبدالبر مالکی اندلسی (المتوفی ۴۶۳ھ) اپنی کتاب ”جامع بیان العلم“ میں فرماتے ہیں کہ امام حدیث اعمش (سلیمان بن مہران) کی مجلس میں ایک شخص آیا اور اعمش سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، آپ کوئی جواب نہ دے سکے ،دیکھا کہ امام ابوحنیفہؒ تشریف رکھتے ہیں، فرمایا کہ: کہئے نعمان! کیا ہے ،جواب؟ امام ابو حنیفہؒ نے فوراً جواب دے دیا ۔ امام اعمش نے پوچھا : ابوحنیفہ! تم نے کہاں سے یہ جواب دیا؟ ابو حنیفہؒ نے فرمایا : آپ ہی نے تو مجھے فلاں حدیث اپنی سند سے بیان کی تھی، اسی سے یہ مسئلہ اس طرح نکلتاہے الخ۔ امام اعمش یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمانے لگے:
ترجمہ: آپ طبیب ہیں اور ہم لوگ عطار ہیں.
[معجم الشيوخ لابن جميع الصيداوي: ص79، مؤسسة الرسالة , دار الإيمان - بيروت , طرابلس]
[شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اہل الحدیث: ص261]
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:1/ 28، دار الفكر، بيروت - لبنان]




امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ متقدمین نے فرمایا ہے:
ﻗﺎﻟﺖ اﻷﻗﺪﻣﻮن: اﻟﻤﺤﺪث ﺑﻼ ﻓﻘﮫ ﻛﻌﻄﺎر ﻏﯿﺮ طﺒﯿﺐ ﻓﺎﻷدوﯾﺔ ﺣﺎﺻﻠﺔ ﻓﻲ دﻛﺎﻧﮫ وﻻ ﯾﺪري ﻟﻤﺎذا ﺗﺼﻠﺢ, واﻟﻔﻘﯿﮫ ﺑﻼ ﺣﺪﯾﺚ ﻛﻄﺒﯿﺐ ﻟﯿﺲ ﺑﻌﻄﺎر ﯾﻌﺮف ﻣﺎ ﺗﺼﻠﺢ ﻟﮫ اﻷدوﯾﺔ إﻻ أﻧﮭﺎ ﻟﯿﺴﺖ ﻋﻨﺪه.
[أثر الحديث الشريف في إختلاف الأئمة الفقهاء: 108 بحواله الحاوي للفتاوى: 2/398]
یعنی محدث بغیر فقہ کے ایسا "دوا فروش" ہے جو طبیب نہیں، اس کی دکان میں دوائیں ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ کس مرض کا علاج ہے اور بغیر حدیث کے فقیہ کی مثال جس کو یہ تو علم ہے کہ فلاں مرض کی دوا فلاں ہے لیکن اس کے پاس دوائیں نہیں تو وہ علاج (مریض کو مطمئن) کیسے کرے؟
[اختلاف_ائمہ اور حدیث_ نبوی:١٣٦ بحوالہ الحاوي للفتاوى: 2/398]


یعنی ہمارا (محدث کا) کام عطار کا ہے، جڑی بوٹی لانا، پتیوں پودوں کو جمع کرنا، اور انھیں مرتبان میں رکھ کر دکان سجانا. ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم یہ بتائیں کہ بکھر میں کونسا جوشاندہ استعمال کیا جاۓ، ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم دوائیں اکٹھا کردیں اس کے بعد آپ ڈاکٹر و حکیم (فقہاء) سے نسخہ لائیں، ہم اس نسخہ کے مطابق آپ کو دوا دیں گے یعنی فقیہ جب کوئی مسئلہ بتاۓ گا تو اس مسئلے کے مستدلات آپ کے سامنے پیش کر سکتے ہیں، اجتہاد ہمارے بس کی بات نہیں، فقہاء و محدثین میں یہ فرق ہے. 






























فقيه الحديث امامِ اعظم ابوحنیفہؒ:
عبيدالله بن عمرو سے مروی ہے کہ [میں امام اعمشؒ کی مجلس میں ایک شخص آیا اور ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، آپ کوئی جواب نہ دے سکے، دیکھا کہ امام ابوحنیفہ تشریف رکھتے ہیں تو(جامع بيان العلم : صفحہ # ٣٢١)] ... امام اعمش نے کہا امام ابو حنیفہؒ کو : اے نعمان ! تمہارا کیا کہنا ہے اس پر اور اس پر ؟؟؟ آپ نے کہا : یہ اور یہ . انہوں نے پوچھا : کہاں سے تم یہ کہتے ہو ؟ کہا : آپ ہی نے تو مجھے فلاں حدیث اپنی سند سے بیان کی تھی، اسی سے یہ مسئلہ اس طرح نکلتاہے الخ۔ امام اعمش یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمانے لگے: " أنتم يا معشر الفقهاء الأطباء ونحن الصيادلة ". ترجمہ: آپ  اے گروہِ فقہاء! طبیب ہیں اور ہم لوگ عطار ہیں.
[الثقات لابن حبان:8/467]





امام الجرح والتعدیل حضرت یحییٰ بن سعید القطان رحمہ الله فرماتے ہیں:”والله، ابو حنیفہ رحمہ الله اس امت میں خدا اور اس کے رسول سے جو کچھ وارد ہوا ہے اس کے سب سے بڑے عالم ہیں“
(مقدمہ کتاب التعلیم ص134)



سید الحفاظ حضرت یحییٰ بن معین رحمہ الله سے ايک بار ان کے شاگرد احمد بن محمد بغدادی نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق ان کی رائے دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ”سراپا عدالت ہیں، ثقہ ہیں ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جس کی ابن مبارک رحمہ الله اور وکیع رحمہ الله توثیق کی ہے“
(مناقب ابی حنیفہ ص101)

علمِ حدیث کے ایسے بالغ نظر علماء کا امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سننا اور پھراِن کے اس قدر گرویدہ ہوجانا کہ انہی کے قول پر فتوےٰ دینا حضرت امام کی علمی منزلت کی ناقابلِ انکار تاریخی شہادت ہے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں:

"وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً"۔                         

  (کتاب الانتقاء:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹)

ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔





حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) بھی وکیع کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

"وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲)

وکیع جیسے حافظ الحدیث اور عظیم محدث کا آپ کی تقلید کرنا اور فقہ حنفی پر فتوےٰ دینا حضرت امام کے مقام حدیث کی ایک کھلی شہادت ہے؛ پھرچند نہیں آپ نے ان سے کثیراحادیث سنیں،





امام اہل بلخ حضرت خلف بن ایوب رحمہ الله فرماتے ہیں:”الله تعالی سے علم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو پہنچا، آپ بعد آپ کے صحابہ کو، صحابہ کے بعد تابعین کو، پھر تابعین سے امام ابو حنیفہ رحمہ الله اور ان کے اصحاب کو ملا، اس پر چاہے کوئی خوش ہو یا ناراض“
(تاریخ بغداد ۔ج13ص336)


محدث عبدالله بن داود الخریبی فرماتے ہیں:
”حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کی عیب گوئی دو آدمیوں میں سے ايک کے سوا کوئی نہیں کرتا، یا جاہل شخص جو آپ کے قول کا درجہ نہیں جانتا یا حاسد جو آپ کے علم سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے حسد کرتا ہے“
(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ ص79)
نیز فرماتے ہیں:
”مسلمانو ں پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز میں ابو حنیفہ رحمہ الله کے لئے دعا کیا کریں۔ کیونکہ انہوں نے حدیث وفقہ کو ان کے لئے محفوظ کیا ہے “
(تاریخ بغداد ۔ج13ص344)
حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله فرماتے ہیں:”اگر الله تعالی نے مجھے ابو حنیفہ رحمہ اور سفیان ثوری رحمہ الله سے نہ ملایا ہوتا تو میں بدعتی ہوتا“
( مناقب الامام ابی حنیفہ ص18)




بغضِ امام ابو حنیفہؒ میں جھوٹی احادیث گھڑنے کا ثبوت
مشہور شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اسماء الرجال کے موضوع پر اپنی کتاب "تهذيب التهذيب" میں نعیم بن حماد کے متعلق نقل کیا ہے:
كان يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات في ثلب أبي حنيفة كلها كذب.
ترجمہ:
وہ سنت کی تقویت کے لئے حدیثیں گھڑا کرتے تھے اور (امام) ابو حنیفہؒ کی تنقیض میں حکایتیں گھڑا کرتے تھے اور وہ سب جھوٹی ہوتی تھیں.
[الكامل في ضعفاء الرجال، لابن عدي: (8/ 251) رقم:1959، الناشر: الكتب العلمية - بيروت-لبنان]
تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية:22/ 115
الأحكام الوسطى، عبد الحق الإشبيلي:1/ 118، 
الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي:3543،
الترغيب والترهيب للمنذري ت عمارة:4/ 579
تهذيب الكمال في أسماء الرجال، للمزي:29/ 476،
المغني في الضعفاء، للذهبي:6658،
سير أعلام النبلاء، للذهبي:10/ 609، الناشر : مؤسسة الرسالة
الجوهر النقي، لابن التركماني:3/ 305،
إكمال تهذيب الكمال، علاء الدين مغلطاي:5021،
التكميل في الجرح والتعديل ومعرفة الثقات والضعفاء والمجاهيل، لابن کثیر:1/ 389،
مختصر الكامل في الضعفاء۔ للمقريزي:ص756،
شذرات الذهب في أخبار من ذهب، لابن العماد الحنبلي:3/ 134،دار ابن كثير، دمشق - بيروت
سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة، للألباني:7156







































یہ امام بخاریؒ کے شیوخ میں سے رہے ہیں لیکن پھر بھی نعیم بن حماد کو خود امام بخاریؒ نے (کتاب الضعفاء الصغیر صفحہ 29) میں ضعیف لکھا ہے۔

مشہور محدث علامہ ابن عدیؒ (277-365ھہ) کے استاد ابّان بن جعفر امام ابو حنیفہؒ کے خلاف روایت گھڑا کرتے تھے جو سب کے سب کذب (جھوٹ) ہیں، انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ 300 سے زیادہ روایت ، امام ابو حنیفہؒ کے خلاف گھڑ رکھی تھیں، گمان غالب یہی ہے کہ علامہ خطیب بغدادیؒ نے اپنی "تاریخ بغداد" میں نقل کیا ہے.
قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: مضيت إِلَيْهِ فَحَدثني بِهَذَا الحَدِيث ورأيته قَدْ وضع على أَبِي ‌حَنِيفَةَ أَكْثَر من ثَلَاثمِائَة حَدِيث لم يحدث بِهِ أَبُو ‌حنيفَة قطّ.
[الموضوعات لابن الجوزي:2/ 101، ذيل ميزان الاعتدال:10، النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر:1/ 502، لسان الميزان:1/ 21، اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة:1/ 19، تذكرة الموضوعات للفتني: ص48]




حضرت قاسم بن عبادؒ (جو امام بخاریؒ اور امام ابو داودؒ کے استاد اور حدیث کے بہت بڑے حافظ) نے امام علی بن جعد جوھریؒ سے روایت کی ہے کہ "امام ابو حنیفہؒ جب حدیث بیان کرتے ہیں موتی کی طرح آبدار ہوتی ہے".



علامہ ذہبی رحمہ الله ”تذکرة الحفاظ“ میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا تدکرہ ان القابات کے ساتھ کرتے ہیں:” ابو حنیفہ رحمہ الله امام اعظم اور عراق کے فقیہ ہیں........ وہ امام، پرہیز گار، عالم باعمل، انتہائی عبادت گزار اور بڑی شان والے تھے“(تدکرة الحفاظ ج1ص168)

حافظ عماد الدین بن کثیر رحمہ الله حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا تذکرہ ان الفاظ سے کرتے ہیں:”وہ امام ہیں، عراق کے فقیہ ہیں، ائمہ اسلام اور بڑی شخصیات میں سے ايک شخصیت ہیں ، ارکان علماءمیں سے ايک ہیں،ائمہ اربعہ جن کے مذاہب کی پیروی کی جاتی ہے ان میں سے ايک امام ہیں“(البدایة والنہایة ج10ص107)

خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

"علمِ عقائد اور علمِ کلام میں لوگ ابوحنیفہؒ کے عیال اور خوشہ چیں ہیں"۔   (تاریخ بغدادی:۱۳/۱۶۱)


مشھور محدث ابو مقاتل حفص بن سلمؒ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ و حدیث میں امامت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
وَكَانَ أَبُو ‌حَنِيفَةَ ‌إِمَامَ ‌الدُّنْيَا فِي زَمَانِهِ فِقْهًا وَعِلْمًا وَوَرَعًا قَالَ وَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ مِحْنَةً يَعْرِفُ بِهِ أَهْلُ الْبِدَعِ مِنَ الْجَمَاعَةِ وَلَقَدْ ضُرِبَ بِالسِّيَاطِ عَلَى الدُّخُولِ فِي الدُّنْيَا لَهُمْ فَأَبَى .
[الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء: ص167، دار الكتب العلمية - بيروت؛ (ص ٣١٩، مکتبہ دار البشائر السلامیہ، بیروت ١٤١٧ع)]
ترجمہ :
امام ابو حنیفہؒ اپنے زمانہ میں (حدیث، فقہ و تقویٰ میں) دنیا کے امام تھے، ان کی ذات آزمائش تھی جس سے اہل السنّت والجماعت اور اہل البدعت میں فرق و امتیاز ہوتا تھا، انھیں کوڑوں سے مارا گیا تاکہ وہ دنیاداروں کے ساتھ دنیا میں داخل ہوجائیں (کوڑوں کی ضرب برداشت کرلی) مگر دخولِ دنیا قبول نہ کیا.


امام عبد العزیز بن ابی داودؒ فرماتے ہیں :
"ابو ‌حنيفَة ‌المحنة من أحب أَبَا حنيفَة فَهُوَ سني وَمن أبغضه فَهُوَ مُبْتَدع"
ترجمہ:
امام ابو حنیفہؒ آزمائش ہیں، جو ان سے محبت رکھتا ہے وہ سنی ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ بدعتی ہے.
 [أخبار أبي حنيفة و أصحابه لامام صميري : ص 86 الناشر: عالم الكتب - بيروت]




















حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق مذکورہ چند اکابر اعلام کے چیدہ چیدہ اقوال نقل کئے گئے ہیں ، ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں کے اقوال، کتب، تاریخ وتذکرہ میں موجود ہیں۔ جن سے حضرت امام صاحب کی فضلیت و منقبت، عظمت و بزرگی ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت امام صاحب کے بارے میں ان اقوال کے موجود ہوتے ہوئے غیر مقلدین کا ان پر طعن و تشنیع کرنا، ان کی عیب جوئی اور عیب گوئی کرنا اپنی عاقبت خراب کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔یحییٰ بن معین رحمہ الله سے پوچھا گیا کیا امام صاحب رحمہ الله ثقہ ہیں آپ نے دوبار فرمایا ثقہ ہیں ، ثقہ ہیںمورخ ابن خلکان رحمہ الله لکھتے ہیں کی آپ پر قلت عربیت کے سوا کوئی نقطہ چینی نہیں کی گئ (سبحان الله ) حافظ ابن ابی داؤد رحمہ الله فرماتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں ان کی شان سے ناواقف یا ان کے حاسدابن مبارک نے سفیان ثوری معین رحمہ الله سے پوچھا ابو حنیفہ معین رحمہ الله غیبت کرنے سے بہت دور رہتے ہیں دشمن ہی کیوں نہ ہو فرمایا ابو حنیفہ رحمہ الله اس سے بالاتر ہیں کہ اپنی نیکیوں پر دشمن کو مسلط کریں –یہ ایک حقیقت ہے کہ امام صاحب کے شاگردوں کی ان سے روایات کرنے والوں کی اور انہیں ثقہ و معتبر کہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے بہ نسبت نکتہ چینی کرنے والوں کےامام اعظم رحمہ الله کا علمی پایہ:شداد بن حکم رحمہ الله فرماتے ہے کہ " ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا "مکی بن ابراہیم رحمہ الله فرماتے ہیں " ابو حنیفہؒ اپنے زمانے کے سب سے بڑھے عالم تھےامام وکیع رحمہ الله فرماتے ہے " میں کسی عالم سے نہیں ملا جو ابو حنیفہؒ سے زیادہ فقیہ ہو اور ان سے بہتر نماز پڑھتا ہو "نذر بن شامل فرماتے " لوگ علم فقہ سے بے خبر پڑے تھے ابو حنیفہؒ نے انہیں بیدار کیا "محدث یحیٰ بن سعید القطان رحمہ الله فرماتے ہیں " ہم الله پاک کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتے واقعی ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر ہم نے فقہ میں کسی کی بات نہیں سنی اس لئے اکثر اقوال ہم نے ان کے اختیار کر لئے "امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں تمام لوگ فقہ میں ابو حنیفہ رحمہ الله کے محتاج ہیں "محدث یحییٰ بن معین رحمہ الله فرماتے ہیں " فقہ تو بس ابو حنیفہ رحمہ الله ہی کی ہے"جعفربن ربیع رحمہ الله فرماتے ہے " میں پانچ سال امام صاحب کی خدمت میں رہا میں نے ان جیسا خموش انسان نہیں دیکھا جب فقہ کا مسئلہ پوچھا جاتا تو کھل جاتے اور علم کا دریا لگتے تھے "عبد الله بن ابی داؤد رحمہ الله فرماتے ہیں " اہل اسلام پر فرض ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں کے بعد امام ابو حنیفہ رحمہ الله کیلئے دعا کریںشافعی المذہب محدث خطیب تبریزی رحمہ الله 743ھ ) نے مشکو'تہ شریف جمع کی پھر الاکمال کے نام سے رجل پر کتاب لکھی انہوں نے مشکو'تہ میں اگرچہ امام صاحب سے کوئی حدیث نقل نہیں کی مگر برکت کے لئے آپ کا تذکرہ کیا فرماتے ہیں " امام ابو حنیفہ رحمہ الله بڑھے عالم تھے صاحب عمل پریز گر تھے دنیا سے بے رغبت اور عبادت گزار تھے علوم شریعت میں امام تھے اگرچہ مشکو'تہ میں ہم نے ان سے کوئی روایت نہیں لی یھاں ذکر کرنے سے ہمی غرض ان سے برکت حاصل کرنا ہے " امام صاحب رحمہ الله علو مرتبت اور اونچے علم کی اور کیا نشانی ہو سکتی ہے 



حدیث بیان کرنے کی شرط اور امام ابوحنیفہؒ کا اسے بیان کرنے میں کمال احتیاط وتقویٰ:


 قَالَ أَبُو يُوسُفَ ، قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ " لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُحَدِّثَ مِنَ الْحَدِيثِ ، إِلا مَا يَحْفَظُهُ مِنْ وَقْتِ مَا سَمِعَهُ " .
یعنی ابویوسفؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ نے فرمایا: نہیں ہے جائز کسی شخص کیلئے کہ وہ بیان کرے کسی حدیث میں سے، بشرطیکہ جس وقت سے اس نے جو سنا وہ اسے یاد بھی ہو۔
[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه » لا ينبغي للرجل أن يحدث من الحديث ، إلا ما يحفظه ...، رقم الحديث: 84]
الجواهر المضية



ألإمام الأعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله كا عظيم اجتہادى أصول:
الإمام الأعظم أبو حنيفة النعمان رحمه الله تعالى فرماتے ہیں
آخذ بكتاب الله ، فما لم أجد فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن لم أجد في كتاب الله ولا سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت منهم، وأدع من شئت منهم ولا أخرج من قولهم إلى قول غيرهم وأما اذا انتهى الأمر الى إبراهيم والشعبي وإبن سيرين والحسن وعطا وسعيد ابن المُسيب وعد د رجالا فقوم اجتهدوا فأجتهدُ كما اجتهدوا ۔
میں سب سے پہلے کتاب الله سے۔ .. ( . مسئلہ وحکم . ) . لیتا ہوں ، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پهر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث کی طرف رجوع کرتا ہوں ، اور اگر كتاب الله وسنة اور احادیث رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بهی نہ ملے تو پهر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا ہوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ إبراہيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پهر میں بهی اجتهاد کرتا ہوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا ۔
(.تاريخ بغداد. (368./13.).
(الانتقاء للامام الحافظ ابن عبدالبر مع تعلیق الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة الله عليه، ص: ۲۶۴-۲۶۵)







امام ابوحنیفہؒ اور تحقیق:

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الطَّبَرِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ نُعَيْمَ بْنَ حَمَّادٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا ‌حَنِيفَةَ يَقُولُ: ‌إِذَا ‌جَاءَ ‌عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَى الرَّأْسِ وَالْعَيْنِ وَإِذَا جَاءَ عَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْتَارُ مِنْ قَوْلِهِمْ وَإِذَا جَاءَ عَنِ التَّابِعِينَ زَاحَمْنَاهُمْ۔

ترجمہ:

ہمیں خبر دی ابو عبداللہ الحافظ نے، انہوں نے کہا: میں نے سنا محمد بن احمد بن بلویہ کو کہتے کہ: میں نے ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ کو کہتے سنا کہ: میں نے ابو بکر الطبری کو کہتے سنا کہ: میں نے نعیم بن حماد کو کہتے سنا کہ: میں نے نعیم بن حمادؒ کو کہتے سنا کہ: میں نے ابن المبارکؒ کہتے ہیں: میں نے ابوحنیفہؒ کو کہتے سنا کہ: اگر (کوئی قول) آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تو وہ سر اور آنکھ پر ہو، اور اگر وہ آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرف سے آئے تو ہم انتخاب کرتے ہیں ان کے اقوال میں سے (کسی کے قول کو)، اور اگر (کوئی قول) ہو(میری طرح صحابہ کے پیروکار) تابعین کی طرف سے، تو ہم (اپنی رائے پیش کرکے)ان سے مزاحمت کریں گے۔

[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت الأعظمي: حدیث نمبر 40]

[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت عوامة: حدیث نمبر 1146]

سند صحیح

[إرشاد النقاد إلى تيسير الاجتهاد-الصنعاني: ص142، التفسير المظهري:2/ 153 سورۃ النساء:59]




حَدثنَا يحيى قَالَ حَدثنَا عبيد بن أبي قُرَّة قَالَ سَمِعت ‌يحيى ‌بن ‌ضريس يَقُول شهِدت سُفْيَان وَأَتَاهُ رجل فَقَالَ مَا تنقم على أبي ‌حنيفَة قَالَ وَمَاله قَالَ سمعته يَقُول آخذ بِكِتَاب الله فَمَا لم أجد فبسنة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَإِن لم أجد فِي كتاب الله وَلَا سنة آخذ بقول أَصْحَابه آخذ بقول من شِئْت مِنْهُم وأدع قَول من شِئْت ولاأخرج من قَوْلهم إِلَى قَول غَيرهم فَإِذا مَا انْتهى الْأَمر أَو جَاءَ الْأَمر إِلَى إِبْرَاهِيم وَالشعْبِيّ وَابْن سِيرِين وَالْحسن وَعَطَاء وَسَعِيد بن الْمسيب وَعدد رجَالًا فقوم اجتهدوا فأجتهد كَمَا اجتهدوا قَالَ فَسكت سُفْيَان طَويلا ثمَّ قَالَ كَلِمَات بِرَأْيهِ مَا بَقِي أحد فِي الْمجْلس إِلَّا كتب نسْمع التَّشْدِيد من الحَدِيث فنخافه ونسمع اللين فنرجوه لَا نحاسب الْأَحْيَاء وَلَا نقضي على الْأَمْوَات نسلم مَا سمعنَا وَنكل مَا لم نعلم إِلَى عالمه ونتهم رَأينَا لرأيهم

ترجمہ:

یحییٰ بن ضریسؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے سفیان ثوریؒ کو دیکھا اور ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: تم ابوحنیفہ سے تنقید کیوں نہیں کرتے؟ اس نے کہا: کیونکہ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں (مسئلہ) لیتا ہوں اللہ کی کتاب سے، پھر اگر مجھے نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے، پھر اگر میں نہیں پاتا اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے تو میں اس (رسول) کے ساتھیوں کا قول لوں گا، میں ان میں سے جس کو پسند کرتا ہوں اس کی بات لیتا ہوں اور ان میں سے جس کو پسند کرتا ہوں اس کی بات چھوڑ دیتا ہوں اور ان کے اقوال سے ہٹ کر دوسروں کے قول پر نہیں جاتا۔ لیکن اگر بات (میرے جیسے تابعین) ابراہیم، شعبی، ابن سیرین، حسن، عطاء، اور سعید بن المسیب وغیرہ پر آئے تو ان لوگوں نے بھی اجتہاد کیا تو میں بھی اجتہاد کرتا ہوں جیسے وہ اجتہاد کرتے ہیں۔

راوی(یحییٰ بن ضریس) کہتے ہیں: پھر سفیانؒ کافی دیر تک خاموش رہے، پھر انہوں نے اپنی رائے کے مطابق کچھ کلمات ارشاد فرمائے: مجلس میں موجود ہر شخص نے انہیں نوٹ کرلیا، (انہوں نے کہا) ہمیں احادیث میں شدت والی احادیث بھی سننے کو ملتی ہیں تو ہم اس کی امید رکھتے ہیں، ہم زندہ لوگوں کا محاسبہ نہیں کرتے ہیں، اور نہ ہی ہم مردوں کے خلاف دیتے ہیں، ہم نے جو (روایات) سنی ہیں اسے تسلیم کرتے ہیں، اور جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہم ان کا علم اس شخص کے سپرد کرتے ہیں جو ان سے واقفیت رکھتا ہے، اور ہم اپنی رائے کا الزام ان کی رائے پر عائد کرتے ہیں۔

[تاريخ ابن معين(م233ھ) - رواية الدوري:3163(4/ 63)]

[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي :245(1378)]

[ذم الكلام وأهله-لهروي:890]


امام حسن بن صالحؒ(م199ھ)فرماتے ہیں: 

كَانَ ابو حنيفَة ‌شَدِيد ‌الفحص عَن النَّاسِخ من الحَدِيث والمنسوخ فَيعْمل بِالْحَدِيثِ إِذا ثَبت عِنْده عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَعَن أَصْحَابه وَكَانَ عَارِفًا بِحَدِيث أهل الْكُوفَة وَفقه أهل الْكُوفَة شَدِيد الِاتِّبَاع لما كَانَ عَلَيْهِ النَّاس بِبَلَدِهِ وَقَالَ كَانَ يَقُول إِن لكتاب الله نَاسِخا ومنسوخا وَإِن للْحَدِيث نَاسِخا ومنسوخا وَكَانَ حَافِظًا لفعل رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْأَخير الَّذِي قبض عَلَيْهِ مِمَّا وصل إِلَى أهل بَلَده۔

ترجمہ:

ابو حنیفہؒ ناسخ منسوخ احادیث کی بہت چھان بین کرتے تھے۔ جب کوئی حدیث مرفوع یا اثر صحابی آپ کے نزدیک ثابت ہو جاتا تو اس پر عمل کرتے۔ آپ اہل کوفہ کی احادیث سے خوب آگاہ تھے اور ان پر بڑی سختی سے عامل رہتے تھے۔

[أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص25، المسودة في أصول الفقه-ابن تيمية: ص338]




امام ابوحنیفہؒ(م150ھ) فرماتے ہیں:

أَنى ‌آخذ ‌بِكِتَاب الله إِذا وجدته فَلَمَّا لم اجده فِيهِ اخذت بِسنة رَسُول الله والْآثَار الصِّحَاح عَنهُ الَّتِي فَشَتْ فِي أَيدي الثِّقَات عَن الثِّقَات فَإِذا لم اجد فِي كتاب الله وَلَا سنة رَسُول الله أخذت بقول أَصْحَابه من شِئْت وأدع قَول من شِئْت ثمَّ لَا أخرج عَن قَوْلهم إِلَى قَول غَيرهم فَإِذا انْتهى الْأَمر إِلَى ابراهيم وَالشعْبِيّ وَالْحسن وَابْن سِيرِين وَسَعِيد بن الْمسيب وَعدد رجَالًا قد اجتهدوا فلي أَن أجتهد كَمَا اجتهدوا۔

ترجمہ:

میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر جو بات نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر اگر مجھے وہ بات نہ تو کتاب اللہ میں ملے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت میں تو میں صحابہ کرامؓ کے اقوال کی طرف رجوع کرتا ہوں، اور ان میں سے جس کے قول کو چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جس کے قول کو چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں، لیکن صحابہؓ کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا، اور پھر جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسن بصریؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، سعید بن مسیبؒ وغیرہ تک پہنچتا ہے تو یہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے خود اجتہادات کیے، تو جس طرح انہوں نے اجتہادات کیے‘ میں بھی اجتہاد کرتا ہوں۔

[أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص24، المسودة في أصول الفقه-ابن تيمية: ص337، الحديث والمحدثون: ص285]




امام سفیان ثوریؒ(م161ھ)فرماتے ہیں:

كَانَ أَبُو حنيفَة ‌يركب ‌فِي ‌الْعلم أحد من سِنَان الرمْح كَانَ وَالله شَدِيد الْأَخْذ للْعلم ذابا عَن الْمَحَارِم مُتبعا لأهل بَلَده لَا يسْتَحل أَن يَأْخُذ إِلَّا بِمَا يَصح عِنْده من الْآثَار عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم شَدِيد الْمعرفَة بناسخ الحَدِيث ومنسوخه وَكَانَ يطْلب أَحَادِيث الثِّقَات وَالْآخر من فعل النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَمَا أدْرك عَلَيْهِ عَامَّة الْعلمَاء من أهل الْكُوفَة فِي اتِّبَاع الْحق أَخذ بِهِ وَجعله دينه۔

ترجمہ:

ابوحنیفہ علم کے حصول کے حوالے سے بہت سخت تھے اور وہ اس چیز کی شدت سے مخالت کرتے تھے کہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا جائے، جب کوئی مستند روایت ان تک پہنچ جاتی جسے قابلِ اعتماد راویوں نے نقل کیا ہوتا، تو وہ ان کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور وہ نبی اکرم ﷺ کے آخری عمل کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور وہ اس چیز کے مطابق فتویٰ دیتے تھے جس پر انہوں نے کوفہ کے علماء کو پایا تھا، تو کچھ لوگوں نے اس حوالے سے ان پر تنقید کی ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے ہم سب کی اور ان سب کی۔

[أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة: ص151، الطبقات السنية في تراجم الحنفية: ص47، الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء-ابن عبد البر: ص142، أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص75]


ان عبارات سے امام صاحب کی تحقیق کا اندازہ معلوم ہوگیا۔






حافظ ابن القیم رحمہ الله اپنی کتاب ‘‘إعلام الموقعين ’’ فرماتے هیں کہ
وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث عنده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبه كما قدّم حديث القهقهة مع ضعفه على القياس والرأي ، وقدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقياس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد "
امام أبي حنيفة رحمه الله کے اصحاب کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام أبي حنيفة رحمه الله کا مذہب یہ ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث بهی رائے و قیاس سےأولى وبہتر .( .ومقدم. ) .ہے ، اور اسی اصول پر امام أبي حنيفة رحمه الله کے مذهب کی بنیاد واساس رکهی گئی ، جیسا قهقهة والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، اور سفر میں نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، پس حديث ضعيف وآثارُ الصحابة کو رائے وقیاس پرمقدم کرنا یہ الإمام أبي حنيفة رحمه الله اور الإمام أحمد رحمه الله کا قول .(.وعمل وفیصلہ .). ہے ۔

.( إعلام الموقعين عن رب العالمين 77/.1 ) .





علامہ ابن حزم ظاہری بهی یہی فرماتے ہیں کہ
‘‘جميع أصحاب أبي حنيفة مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي’’
.(.(.إحكام الإحكام في أصول الأحكام 54/7 .).).



یہ ہے الإمام الأعظم أبي حنيفة رحمه الله اور آپ کے اصحاب وتلامذه کا سنہری وزریں اصول جس کے اوپر مذہب حنفی بنیاد ہے ، الإمام الأعظم رحمه الله کا یہ اصول اہل علم کے یہاں معروف ہے ، اب جس امام کا حدیث کے باب میں اتنا عظیم اصول ہو اوراس درجہ تعلق ہو حدیث کے ساتھ کہ ضعیف حدیث پربهی عمل کرنا ہے ، اس امام کواور اس کے اصحاب وپیروکاروں کو حدیث کا مخالف بتلایا جائے اورجاہل عوام کو گمراه کیا جائے،تو اس طرز کو ہم کیا کہیں جہالت وحماقت یاعداوت ومنافقت ؟؟




شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله كا فتوى
‘‘ومن ظنّ بأبي حنيفة أوغيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم ، وتكلّم إما بظنّ وإما بهوى ، فهذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضى بالنبيذ في السفر مع مخالفته للقياس ، وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما’’
اورجس نے بهی امام أبي حنيفة یا ان کے علاوه دیگر أئمة ُالمسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قياس یا ( رائے ) وغیره کی وجہ سے حديث صحيح کی مُخالفت کرتے ہیں تو اس نے ان ائمہ پر غلط. ( .وجهوٹ .) .بات بولی ، اور محض اپنے گمان وخیال سے یا خواہش وہوئی سے بات کی ، اور امام أبي حنيفة تو نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث پر باوجود ضعیف ہونے کے اور مُخالف قیاس ہونے کے عمل کرتے ہیں الخ
.(.(. مجموع الفتاوي لابن تيمية 304/20، 305.).).



شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله کا فتوی بالکل واضح ہے یعنی امام اعظم کے مُتعلق اگرکوئی یہ گمان وخیال بهی کرے کہ وه صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں اپنی رائے وقیاس سے تو ایسا شخص شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله کے نزدیک خیالات وخواہشات کا پیروکار ہے اور ائمہ مُسلمین پرجهوٹ وغلط بولنے والا ہے ۔کیا شيخ الإسلام إبن تيمية کے اس فتوی کا مصداق آج کل کا جدید فرقہ اہل حدیث نہیں ہے جو رات دن کا مشغلہ ہی یہی بنائے ہوئے ہیں ؟؟؟
میں نے حافظ ابن القیم رحمہ الله اور ان کے شیخ شيخ الإسلام إبن تيمية رحمہ الله کی تصریحات نقل کیں ، عجب نہیں کہ حافظ ابن القیم رحمہ الله شيخ الإسلام إبن تيمية رحمہ الله کا یہ اعلان فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جُہلاء کے لیئے باعث ہدایت بن جائے ۔اور یہ بهی یاد رہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جاہل نام نہاد شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ پهیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی‘‘ حدیث ’’کے بالکل مخالف ہے ، گذشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ امام اعظم اورآپ کے اصحاب بالاتفاق ضعیف حدیث پرعمل نہیں چهوڑتے چہ جائیکہ صحیح حدیث کو چهوڑ دیں ، اس سلسلہ میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں۔
دیگرمُحدثین کے یہاں اور خود فرقہ جدید اہل حدیث کے یہاں بهی ‘‘ مُرسَل حدیث’’ ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ، جب کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب ‘‘ مُرسَل حدیث ’’ کو بهی قبول کرتے ہیں ، اور قابل احتجاج سمجهتے ہیں بشرطیکہ ‘‘ مُرسِل’’ ثقہ وعادل ہو۔

یہاں سے آپ اندازه لگا لیں کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب ‘‘ حدیث ’’کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ، اور حدیث رسول کے ساتھ کس درجہ شدید و قوی تعلق رکهتے ہیں ، لیکن پهر بهی عوام کو بے راه کرنے کے لئے یہ جهوٹ و وسوسہ پهیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی حدیث کے بالکل مخالف ہے۔