لفظِ تہجد ترکِ ہجود یعنی ترکِ نوم (نیند چھوڑنا) سے مشتق (لیا اور بنایا گیا) ہے، یعنی سونے کے اوقات اور عشاء کے بعد تمام اوقات تہجد ہی کے اوقات ہیں۔
رات كو سوئے بغير تہجد ادا كرنا :
تهجد سے قبل سونا ضروری نہیں، اس کے بغیر بھی تہجد کی نماز ہوجاۓ گی، جبکہ عشاء کے بعد بھی تہجد کی نیت سے نوافل پڑھی جاسکتی ہے.
[کما فی الشامیہ : ٢/٤٦٧ حدیث طبرانی : لا بُدَّ مِنْ صَلاةٍ بِلَيْلٍ ، وَلَوْ نَاقَةً ، وَلَوْ حَلْبَ شَاةٍ ، وَمَا كَانَ بَعْدَ صَلاةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ فَهُوَ مِنَ اللَّيْلِ " .
تخريج الحديث
|
http://www.jamiabinoria.net/efatawa/2011-10/12495.html
وروی الطبراني مرفوعاً: لا بد من صلاة بلیل ولو حلب شاة وما کان بعد صلاة العشاء فھو من اللیل وھذا یفید أن ھذہ السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم في معجم الطبراني من حدیث الحجاج بن عمرو رضي اللہ قال: یحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلي حتی یصبح أنہ قد تہجد إنما التہجد المرء یصلي الصلاة بعد رقدہ (رد المختار مطلب في صلاة اللیل: ۲/۲۴ وعن ابن عمر رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وتراً (رواہ مسلم بحوالہ مشکاة المصابیح: ۱۱۱، باب صلاة الوتر)
اور
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی عشاء کی (فرض ) نماز پڑھ کر میرے پاس آتے تھے تو چار رکعت یا چھ رکعت ضرور پڑھتے تھے۔"
[روہ ابو داود : كتاب التطوع ، الصلاة بعد العشاء بحوالہ مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 1148 نماز کا بیان : عشاء کی سنتیں]
تہجد کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحاح میں روایت موجود ہے کہ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد ابتدائی شب میں بھی، نصف شب میں بھی اور آخری شب میں بھی پڑھی مگر آخر زندگی میں زیادہ تر آخر (رات کا آخری چھٹا حصہ) تمام حصوں سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔
فتاویٰ اہلِ حدیث :
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بعض دفعہ عشاء کے بعد بھی نمازِ تہجد پڑھی ہے لیکن ہمیشہ نہیں پڑھی اس لئے کبھی کبھی پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں.(فتاویٰ اہلِ حدیث : ٢/٧٦)
No comments:
Post a Comment