لفظ تہجد، عربی کے لفظ ھجود سے ماخوذ ہے، جو کہ اضداد میں سے ہے، یعنی ھجد کہہ کر سونا ، اور جاگنا دونوں ہی مراد لیے جاتے ہیں۔
[تفسير القرطبي:10/ 307 سورۃ الاسراء،آیت79]
اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو۔۔۔
[سورۃ الإسراء:79]
رات کو کھڑے رہو مگر تھوڑی (دیر)، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو، یا اس سے کچھ بڑھا دو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
[سورة المزمل:2-6]
اور وہ لوگ اپنے رب کے سامنے سجدہ کرتے اور کھڑے رہتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں۔
[سورة الفرقان:64]
وہ رات کو تھوڑا ہی سوتے تھے، اور صبح کے وقت استغفار کرتے تھے۔
[سورة الذاریات:17-18]
رات كو سوئے بغير تہجد ادا كرنا :
لفظِ تہجد ترکِ ہجود یعنی ترکِ نوم (نیند چھوڑنا) سے مشتق (لیا اور بنایا گیا) ہے، یعنی سونے کے اوقات اور عشاء کے بعد تمام اوقات تہجد ہی کے اوقات ہیں۔
تهجد سے قبل سونا ضروری نہیں، اس کے بغیر بھی تہجد کی نماز ہوجاۓ گی، جبکہ عشاء کے بعد بھی تہجد کی نیت سے نوافل پڑھی جاسکتی ہے۔
[کما فی الشامیہ : ٢/٤٦٧]
روایتِ ایاس بن معاویہ المزنی:
لا بُدَّ مِنْ صَلاةٍ بِلَيْلٍ ، وَلَوْ نَاقَةً ، وَلَوْ حَلْبَ شَاةٍ ، وَمَا كَانَ بَعْدَ صَلاةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ فَهُوَ مِنَ اللَّيْلِ " .
ترجمہ:
"رات میں نماز (قیام اللیل) ضرور پڑھو، خواہ اونٹنی کے دودھ دوہنے جتنی ہی دیر کیوں نہ ہو، یا بکری کا دودھ دوہنے کے برابر۔ اور جو کچھ بھی عشاء کی نماز کے بعد ہو، وہ رات (کے قیام) کا حصہ سمجھا جائے گا۔"
[المعجم الکبیر للطبرانی:787، دیلمی:7984 مجمع الزوائد:2/252، جامع الاحادیث-الیسوطی:16030، کنزالعمال:21427]
تخريج الحديث
|
وفي معجم الطبراني من حدیث الحجاج بن عمرو رضي اللہ قال: یحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلي حتی یصبح أنہ قد تہجد إنما التہجد المرء یصلي الصلاة بعد رقدہ۔
ترجمہ:
حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "تم میں سے کوئی رات کو صبح تک قیام کر کے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے تہجد پڑھی ہے، تہجد تو یہ ہے کہ تھوڑی دیر سونے کے بعد نماز پڑھی، پھر دوبارہ سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز ایسی ہی تھی۔ "
[رد المختار مطلب في صلاة اللیل: ۲/۲]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "التلخيص الحبير" (2/ 35) میں لکھتے ہیں کہ: "اس اثر کی سند حسن ہے، اس کی سند میں ابو صالح جو کہ لیث کے کاتب تھے اس میں معمولی کمزوری ہے، نیز اس اثر کو طبرانی نے بھی روایت کیا ہے، لیکن طبرانی کی سند میں ابن لھیعہ ہے، تاہم اس کی روایت سابقہ روایت سے تقویت حاصل کر لیتی ہے"۔
وعن ابن عمر رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وتراً۔
[رواہ مسلم بحوالہ مشکاة المصابیح: ۱۱۱، باب صلاة الوتر]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی عشاء کی (فرض ) نماز پڑھ کر میرے پاس آتے تھے تو چار رکعت یا چھ رکعت ضرور پڑھتے تھے۔"
[روہ ابو داود : كتاب التطوع ، الصلاة بعد العشاء بحوالہ مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 1148 نماز کا بیان : عشاء کی سنتیں]
تہجد کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحاح میں روایت موجود ہے کہ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد ابتدائی شب میں بھی، نصف شب میں بھی اور آخری شب میں بھی پڑھی مگر آخر زندگی میں زیادہ تر آخر (رات کا آخری چھٹا حصہ) تمام حصوں سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔
فتاویٰ اہلِ حدیث :
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بعض دفعہ عشاء کے بعد بھی نمازِ تہجد پڑھی ہے لیکن ہمیشہ نہیں پڑھی اس لئے کبھی کبھی پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔
No comments:
Post a Comment