نبوی سچی پیشگوئی»
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَكُونُ أُمَّتِي فِرْقَتَيْنِ، فَتَخْرُجُ مِنْ بَيْنَهُمَا مَارِقَةٌ يَلِي قَتْلَهَا أَوْلَاهُمَا بِالْحَقِّ»۔
ترجمہ:
حضرت ابوسعید ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "میری امت دو گروہوں میں بٹ جائے گی، پھر ان دونوں سے ایک(تیسرا)گروہ مارق(دین سے نکلنے والا) نکلے گا، اس کے قتل کا حق ان دونوں میں سے جو حق کے زیادہ قریب ہو اسے حاصل ہوگا۔"
[السنن الكبرى للنسائي:8502، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب-للنسائي:169+170+171، مسند أحمد بن حنبل:11416+11611+11906، مسند أبي يعلى الموصلي:1036، مسند البزار:10، سنن سعيد بن منصور:2972، المسند المستخرج على صحيح مسلم-لأبي نعيم:2380]
تشریح:
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے مستقبل میں پیدا ہونے والے ایک بڑے فتنے اور فرقہ وارانہ اختلاف کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1. دو گروہوں کا بننا (فِرْقَتَيْنِ):
* مراد وہ دو بڑے گروہ ہیں جو کسی اہم معاملے میں آپس میں اختلاف کریں گے۔
* تاریخی مصداق: اس کی سب سے واضح مثال حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہما) کے درمیان صفین کی جنگ (37 ہجری) کا واقعہ ہے۔ دونوں گروہوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔
وحدثني يعلى بن عبيد: ثنا أبي قال: قال أبو مسلم الخولاني وجماعة لمعاوية: أنت تنازع عليا هل أنت مثله فقال: لا والله إني لأعلم أن عليا أفضل مني وأحق بالأمر، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، وإنما أطلب بدمه، فأتوا عليا فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له، فأتوا عليا فكلموه بذلك، فلم يدفعهم إليه
ترجمہ
حضرت ابومسلم خولانی حضرت امیر معاویہؓ کے پاس گئے اور فرمایا:آپ حضرت علیؓ سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علیؓ جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا: نہیں الله کی قسم! میں جانتا ہوں کہ حضرت علیؓ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں، لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمانؓ کو ظلماً قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علیؓ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلینِ عثمانؓ کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا۔
[کتاب تاريخ الإسلام - الذهبي - ج ٣ - الصفحة ٥٤٠]
القرآن:
...اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہوجائے تو ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار دیا ہے...
[سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 33]
* معنیِ "مارقہ": عربی زبان میں "مارق" کا مطلب ہے "نکل جانے والا" یا "چھلانگ مار کر نکل جانے والا"۔ اصطلاح شریعت میں: یہ وہ گروہ ہے جو دین اسلام سے نکل جاتا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو کسی گناہِ کبیرہ کی بنا پر مسلمان کو کافر قرار دیتے ہیں اور بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ انہیں "خوارج" کہا جاتا ہے۔
* خصوصیات:
* یہ گروہ ان دو گروہوں کے درمیان سے نکلے گا۔
* یہ دین سے نکل جانے والا، انتہا پسند، تکفیر کرنے والا (مسلمانوں کو کافر قرار دینے والا) اور باغی گروہ ہوگا۔
* یہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوئے دوسروں پر تشدد کرے گا۔
* تاریخی مصداق: صفین کی جنگ کے بعد، جب حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے درمیان تحکیم (ثالثی) کا معاملہ طے پایا، تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے لشکر میں سے ایک گروہ (تقریباً 12000 افراد) یہ کہتے ہوئے نکل گیا کہ "لا حکم الا للہ" (حکم صرف اللہ کا ہے)، تحکیم کرنا کفر ہے، علی اور معاویہ دونوں کافر ہو گئے۔ یہی گروہ "خوارج" یا "حروریہ" (حروراء نامی جگہ پر جمع ہونے کی وجہ سے) کے نام سے مشہور ہوا۔ حضرت علی کے مطابق تحکیم یعنی اختلاف میں ایک حاکم(منصف) مقرر کرنے کی تعلیم اللہ ہی کا حکم ہے۔[حوالہ»سورۃ النساء:35] لیکن انہوں نے (تحکیم اور صلح کے فیصلوں سے) بغاوت کی اور معصوم مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔
3. جس کا قتل کرنا حق پرست گروہ کے لیے زیادہ ضروری ہوگا۔ (يَلِي قَتْلَهَا أَوْلَاهُمَا بِالْحَقِّ):
* معنیٰ: "يَلِي قَتْلَهَا" کا مطلب ہے "اس کا قتل کرنا لازم/ضروری/واجب ہوگا"۔ "أَوْلَاهُمَا بِالْحَقِّ" سے مراد وہ گروہ ہے جو ان دو گروہوں میں سے حق پر قائم ہوگا، جس کا موقف درست ہوگا۔
* مطلب: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان خوارج (مارقہ) سے جنگ کرنا اور انہیں قتل کرنا ان دو گروہوں میں سے جو گروہ حق پر ہوگا، اس کے لیے سب سے پہلا اور اہم فریضہ ہوگا۔
* وجہ: کیونکہ یہ گروہ:
* دین سے خارج ہو چکا ہوتا ہے۔
* مسلم معاشرے میں فساد پھیلاتا ہے۔
* بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرتا ہے۔
* بغاوت کرتا ہے۔
* تاریخی مصداق: حضرت علی (رضی اللہ عنہ) (جو حق پر تھے) نے سب سے پہلے خوارج سے نمٹنے کو ترجیح دی۔ آپ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی، لیکن جب وہ نہ مانے اور قتل و غارت پر اتر آئے تو آپ نے ان سے جنگ کی اور جنگ نہروان (38 ہجری) میں ان کی بغاوت کو کچل دیا۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کی طرف اس حدیث میں واضح اشارہ ہے۔
4. شرحِ نووی علی مسلم: امام نووی رحمہ اللہ(676ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"یہ روایات صراحتاً بیان کرتی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی درست اور حق پر تھے، جبکہ دوسرا گروہ یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اصحاب باغی تھے جو تاویل(تفسیر/وجہ)پیش کرنے والے تھے۔ اور ان روایات میں صراحت ہے کہ دونوں گروہ مومن تھے، وہ جنگ کی وجہ سے ایمان سے خارج نہیں ہوئے اور نہ ہی فاسق قرار پائے۔
[شرح النووي علي صحيح مسلم: جلد 1، صفحہ 167-168]
خلاصہ اور اسباق:
* یہ حدیث نبی کریم ﷺ کی ایک بڑی پیشین گوئی ہے جو تاریخ (خصوصاً جنگ صفین اور نہروان) میں حرف بحرف پوری ہوئی۔
* اس میں "خوارج" نامی انتہا پسند، تکفیری اور باغی گروہ کی نشاندہی کی گئی ہے جو مسلمانوں کے اندرونی اختلافات سے جنم لیتا ہے۔
* ان کی علامات یہ ہیں: نوجوانی، سطحی سوچ، قرآن کے الفاظ کو اپنے مفہوم میں استعمال کرنا، دین سے نکل جانا، مسلم معاشرے میں فساد برپا کرنا، مسلمانوں کو کافر قرار دینا، اور بت پرستوں کو چھوڑدینا ہے۔
[بخاری:3344-5057-5058]
* شریعت نے ایسے باغی، فسادی اور قاتل گروہ سے جنگ کرنے اور ان کے شر سے امت کو بچانے کا حکم دیا ہے۔
* حق پرست حکمران اور گروہ کا فرض ہے کہ وہ ایسے فتنوں سے نمٹے۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا عمل اس کی عملی تفسیر ہے۔
* حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ فتنوں کے زمانے میں مسلمانوں کی جماعت (خلیفہ/حاکم کی اطاعت) سے وابستہ رہنا چاہیے اور گمراہ کن، باغی، انتہا پسند گروہوں سے علیحدہ رہنا چاہیے۔
یہ حدیث امت مسلمہ کو ہر دور میں پیدا ہونے والے انتہا پسند، تکفیری اور باغی گروہوں سے خبردار کرتی ہے اور ان سے نمٹنے کا شرعی طریقہ بھی بتاتی ہے۔
استدلالاتِ محدثین:
امام ابن حبان(م354ھ) نے اس حدیث کو اس مضمون کی کتاب کے باب میں نقل کیا ہے:
كتاب التاريخ» بَابُ إِخْبَارِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمَّا يكون في أمته من الفتن والحوادث» ذِكْرُ الْإِخْبَارِ عَنْ قَضَاءِ اللَّهِ جَلَّ وَعَلَا وَقْعَةَ صِفِّينَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ
ترجمہ:
تاریخ کی کتاب» آپ ﷺ کی ان خبروں کا بیان جو آپ ﷺ کی امت میں فتنے اور حادثات ہوں گے۔» مسلمانوں کے درمیان جنگ صفین کا واقع ہونے کے متعلق اللہ عزوجل کے فیصلہ کے متعلق خبر کا بیان۔
[صحیح ابن حبان:6735]
امام بغوی(م516ھ) نے اس حدیث کو اس مضمون کی کتاب کے باب کے تحت نقل کیا ہے:
كِتابُ قِتالِ أهْلِ الْبَغْيِ » بَابُ قِتالِ الْخَوَارِجِ وَالْمُلْحِدِينَ
ترجمہ:
باغیوں سے لڑنے کی کتاب » خوارجوں اور ملحدوں سے لڑنے کا باب۔
[شرح السنة للبغوي:2555]
[مصنف عبد الرزاق:18658 بَابُ مَا جَاءَ فِي الْحَرُورِيَّةِ]
فرمانِ علی برائے قتلِ عثمان:
حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ أَبُو مَعْمَرٍ ، نا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ مُضَارِبِ بْنِ حَزْنٍ ، قَالَ : قِيلَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " مَا حَمَلَهُمْ عَلَى قَتْلِ عُثْمَانَ ؟ قَالَ : الْحَسَدُ
حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو قتل عثمانؓ پر کس چیز نے برانگیختہ کیا تو فرمایا: حسد اور عناد نے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، وَطَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : " مَا قَتَلْتُ يَعْنِي : عُثْمَانَ وَلَا أَمَرْتُ ثَلَاثًا وَلَكِنِّي غُلِبْتُ " .
حضرت ابن عباسؓ حضرت علیؓ سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ کی قسم ! حضرت عثمانؓ کو میں نے قتل نہیں کیا اور نہ ہی میں نے ان کے قتل کا حکم دیا ہے، بلکہ میں نے اس قتل سے منع کیا تھا اور میں اس معاملے میں مغلوب رہا۔
[المصنف لابن ابی شیبہ: ج 15 ص 208]
فَقَالَ عَلِيٌّ : " لَعَنَ اللَّهُ قَتَلَةَ عُثْمَانَ فِي السَّهْلِ وَالْجَبَلِ وَالْبَرِّ وَالْبَحْرِ.
ترجمہ:
حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی قاتلینِ عثمان پر لعنت کرے ، ہر جگہ لعنت ہو ، صاف زمین میں ، پہاڑوں میں، اور خشکی اور سمندر میں۔
[المصنف لابن ابی شیبہ: ج 4 ص 1018]
أَخْبَرَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ : رَأَيْتُ عَلَى عَلِيٍّ عِمَامَةً سَوْدَاءَ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ ، قَالَ : وَرَأَيْتُهُ جَالِسًا فِي ظُلَّةِ النِّسَاءِ ، وَسَمِعْتُهُ يَوْمَئِذٍ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ يَقُولُ : " تَبًّا لَكُمْ سَائِرَ الدَّهْرِ " .
ترجمہ:
ابوجعفر انصاری کی روایت ہے کہ جس دن حضرت عثمانؓ قتل کئے گئے اس دن میں نے حضرت علیؓ کو سیاہ عمامہ باندھے دیکھا۔ حضرت علیؓ نے پوچھا: اس شخص نے کیا کیا؟ میں نے کہا: وہ قتل کر دیئے گئے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: ہمیشہ تم سب کیلئے ہلاکت ہو۔
فرمانِ علی برائے جنگِ صفین:
شیعوں کے معروف و معتبر عالم عبداللہ بن جعفر الحمیریؒ (م304ھ) اپنی معتبر کتاب "قرب الاسناد" میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے اس سند کے دو راوی جو حضرت علی عليه السلام سے روایت کر رہے ہیں خود آئمہ معصومین ہیں اور باقی تین راوی معتبر اور ثقہ شیعہ راوی ہیں جن کو جمہور شیعہ علماء نے ثقہ اور صحیح کہا ہے
" إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم، ولم نقاتلهم على التكفير لنا، ولكنا رأينا أنا على حق، ورأوا أنهم على حق۔
ترجمہ:
حضرت امام باقرؒ سے مروی ہے کہ حضرت علی المرتضٰیؓ اپنے مقابلین کے حق میں فرماتے تھے کہ ہم ان سے ان کی تکفیر کی بنا پر قتال نہیں کر رہے اور نہ ہی ان سے اس وجہ سے قتال کر رہے ہیں کہ وہ ہماری تکفیر کرتے ہیں۔ بلکہ بات یہ ہے کہ ہم یقین کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ یقیناً وہ حق پر ہیں۔
[کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة ٩٣، حدیث/313؛ قله المجلسي في البحار المجلد الثامن: 426 (الطبعة الحجرية).]
جعفر، عن أبيه عليه السلام: أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول: " هم إخواننا بغوا علينا " ۔
ترجمہ:
امام جعفر صادقؒ اپنے والد امام باقرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ اپنے مدمقابل (حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی۔
[کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة ٩٤، حدیث/318 ؛ نقله المجلسي في البحار المجلد الثامن: ٤٢٦ (الطبعة الحجرية).]
حضرت علیؓ نے فرمایا: اے لوگو! معاویہؓ کی حکومت کو برا مت کہو! خدا کی قسم جب وہ نہ رہیں گے تو دنیا میں سخت بد امنی پھیلے گی۔ ازالۃ الخفاء [لد 4 صفحہ 522)] میں امام ابن کثیرؒ (م774ھ) سے نقل کیا ہے کہ حضرت علیؓ جب جنگِ صفین سے واپس ہوئے تو فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا تَكْرَهُوا إِمَارَةَ مُعَاوِيَةَ; فَإِنَّهُ لَوْ فَقَدْتُمُوهُ لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْزُو مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ.
[البداية والنهاية (امام) ابن کثیر : ج 9 ص 233 دار هجر]
اے لوگو! تم معاویہؓ کی امارت کو نا پسند مت کرو، کیوں کہ اگر وہ نہ رہیں گے تو تم دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جس طرح حنظل کا پھل درخت سے ٹوٹ کر گرتا ہے۔
منهاج السنة النبوية [ج6 ، ص209] کی عبارت جنگِ جمل کے بیان میں گزرچکی اسے مکرر ملاحظہ فرمالیں۔
اسی طرح امام ابن کثیرؒ (م774ھ) نے لکھا ہے کہ مختلف سندوں(راویوں کے سلسلوں) سے یہ بات منقول ہے کہ حضرت معاویہؓ نے ایک گفتگو کے وقت فرمایا:
وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّهُ خَيْرٌ مِنِّي وَأَفْضَلُ، وَأَحَقُّ بِالْأَمْرِ مِنِّي، وَلَكِنْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُومًا، وَأَنَا ابْنُ عَمِّهِ، وَأَنَا أَطْلُبُ بِدَمِهِ ۔
[البدایہ والنہایہ(امام) ابن کثیر : ج 11 ، ص 425 دار هجر]
(کتنی تاکید سے فرماتے ہیں) اللہ کی قسم! یقینا میں جانتا ہوں کہ حضرت علیؓ مجھ سے افضل و بہتر ہیں اور خلافت کے بھی مجھ سے زیادہ حقدار ہیں۔ لیکن کیا یہ بات تم تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت عثمانؓ کو ظلماً شہید کیا گیا اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں، اس لئے مجھے ان کے خون کا بدلہ اور قصاص لینے کا زیادہ حق ہے۔
حافظ ابن عبدالبرؓ (م463ھ) لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ مختلف فقہی مسائل میں خط و کتابت کے ذریعہ حضرت علیؓ سے معلومات حاصل کرتے رہتے تھے جب حضرت علیؓ کی وفات کی خبر پہونچی تو کہا:
ذهب الْعلم بِمَوْت عَليّ۔
[استیعاب تحت الاصابہ: ج ۳ ، ص ۴۳ ، تاريخ قضاة الأندلس(امام) النباهي: ص23، منح الجليل شرح مختصر خليل:9 / 648]
یعنی علیؓ کی موت سے علم رخصت ہوگیا ۔
دونوں فریقین حق پر تھے، ایک زیادہ حق پر تھا:
فائدہ :
ان مشاجرات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں "اجتہادی" اختلاف تھا ۔ احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ صحیح مسلم اور مسند احمد بن حنبل میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے متعدد سندوں کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے ۔
«تَمْرُقُ مَارِقَةٌ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ، فَيَلِي قَتْلَهُمْ أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ»
ترجمہ:
مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے وقت ایک گروہ (جماعت سے) نکل جائے گا اور اس کو وہ گروہ قتل کرے گا، جو مسلمانوں کے دونوں گروہ میں حق سے زیادہ قریب ہوگا۔
[صحیح مسلم :1064، السنن الكبرى للنسائي:8501، شرح السنة للبغوي:2555]
فائدہ :
اس حدیث میں مارقہ سے مراد باتفاق "خوارج" کا گروہ ہیں، ان کو حضرت علیؓ اور ان کی جماعت نے قتل کیا، جن کو آپؐ نے اولی الطائفتین بالحق فرمایا۔ آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو جماعت حق پر ہوگی وہ قتل کرے گی، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کا اختلاف صریح حق و باطل کا نہیں بلکہ "اجتہادی" (جائز اور افضل کا) اختلاف ہوگا، البتہ حضرت علیؓ کی جماعت حق کے زیادہ قریب ہوگی اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اور حدیث کی متعدد کتابوں میں قوی سند کے ساتھ یہ حدیث منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ، وَتَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ وَدَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ»۔
ترجمہ:
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ مسلمانوں کی دو عظیم جماعتیں آپس میں قتال نہ کریں ان کے درمیان زبردست خوں ریزی ہوگی حالاں کہ دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا۔
[صحیح مسلم : 157، صحیح بخاری:7121، صحیح ابن حبان:6734]
علامہ نوویؒ (م676ھ) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں مسلمانوں کی دو جماعتوں سے مراد حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی جماعتیں ہیں اور حضور اقدس ﷺ نے دونوں کی دعوت کو ایک قرار دیا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں اسلام ہی کی دعوت لے کر کھڑی ہوئی تھیں اور اپنے اپنے اجتہاد کے موافق دین ہی کی بھلائی چاہتی تھیں، کسی کے پیشِ نظر اقتدار کی خواہش اور حصولِ جاہ کی تمنا نہ تھی ۔
حافظ ابن کثیرؒ (م774ھ) ان دونوں روایتوں کو نقل کرکے فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ علیؓ اولی الطائفتین الی الحق ہیں اور یہی مذہب اہلِ سنت والجماعت کا ہے کہ حضرت علیؓ مصیب ہیں اور حضرت معاویہؓ چوں کہ مجتہد ہیں اس لئے انشاء اللہ وہ بھی ماجور ہوں گے ۔
[البدایہ والنہایہ: ج ۷ ، ص۲۷۹]
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ الْوَلِيدِ ، عَنْ جُنْدُبٍ الْخَيْرِ ، قَالَ : أَتَيْنَا حُذَيْفَةَ حِينَ سَارَ الْمِصْرِيُّونَ إِلَى عُثْمَانَ ، فَقُلْنَا : إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ سَارُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَمَا تَقُولُ ؟ قَالَ : " يَقْتُلُونَهُ وَاللَّهِ " ، قَالَ : قُلْنَا : أَيْنَ هُوَ ؟ قَالَ : " فِي الْجَنَّةِ وَاللَّهِ " , قَالَ : قُلْنَا : فَأَيْنَ قَتَلَتُهُ ؟ قَالَ : " فِي النَّارِ وَاللَّهِ " .
حضرت جندب خیر کی روایت ہے کہ ہم حضرت حذیفہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب مصریوں نے حضرت عثمانؓ کا محاصرہ کر رکھا تھا، تو ہم نے کہا: یہ لوگ اس شخص کی طرف چل پڑے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں: اللہ کی قسم ! یہ لوگ اسے قتل کر کے رہیں گے۔ ہم نے کہا : یہ شخص کہاں ہو گا۔ فرمایا جنت میں ۔ ہم نے کہا : اس کے قاتل کہاں ہوں گے ۔ فرمایا : اللہ کی قسم ! دوزخ میں جائیں گے۔
عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، ذَاتَ يَوْمٍ ، وَمَعَهُ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ الطَّائِيُّ ، فَإِذَا رَجُلٌ مِنْ طَيِّئٍ قَتِيلٌ ، قَدْ قَتَلَهُ أَصْحَابُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَقَالَ عَدِيُّ : يَا وَيْحَ هَذَا ! كَانَ أَمْسِ مُسْلِمًا وَالْيَوْمَ كَافِرًا ، فَقَالَ عَلِيٌّ : " مَهْلا ، كَانَ أَمْسِ مُؤْمِنًا وَالْيَوْمَ مُؤْمِنٌ " .
ترجمہ:
حضرت علیؓ اپنی جماعت کے ساتھ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت ایک شخص عدی بن حاتم طائی بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ انہوں نے بنی طے کے ایک مقتول کو دیکھا جس کو حضرت علیؓ کی جماعت نے قتل کر ڈالا تھا۔ تو عدی بن حاتم کہنے لگا کہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ یہ کل مسلمان تھا اور آج کافر مرا پڑا ہے۔ حضرت علیؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ ایسا نہ کہو، بلکہ یہ کل بھی مومن تھا اور آج بھی مومن ہے۔
حضرت علیؓ اور مقتولینِ جنگِ صفین:
(1)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ جنگ صفین کی رات نکلے تو اہل شام کی طرف نظر اٹھا کر فرمایا:
((اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُمْ))
’’اے اللہ مجھے اور انھیں معاف فرمادے‘‘
[مصنف ابن ابی شیبہ:37198، تَنْزِيهُ خَالِ المُؤْمِنِيْنَ مُعَاوِيَةَ-لأبي يَعْلَى:93، بغية الطلب فى تاريخ حلب - ت زكار:1/303، تاريخ دمشق لابن عساكر:1/346]
[مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... (40672 - ت الشثري)(37865- ت الحوت)]
(2)صحیح سند سے یزید بن الاصم سے منقول ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صفین کے مقتولین کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا
((قَتْلَانَا وَقَتَلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ))
ترجمہ:
’’ہمارے اور ان کے مقتولین جنتی ہیں‘‘
[سنن سعید بن منصور:2968، جامع الاحادیث-للسیوطی:33447، السيرللذهبي:3/144، کنزالعمال:31711(31700)]
القرآن:
اور ان کے سینوں میں (ایک دوسرے سے دنیا میں) جو کوئی رنجش رہی ہوگی، اسے ہم نکال باہر کریں گے، ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، اور وہ کہیں گے: تمام تر شکر الله کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر الله ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے۔ اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ : لوگو! یہ ہے جنت! تم جو عمل کرتے رہے ہو ان کی بنا پر تمہیں اس کا وارث بنادیا گیا ہے۔
[سورہ الاعراف:43 ﴿الحجر:57﴾]
(3)علامہ ابن خلدونؒ نے امام طبریؒ (م360ھ) وغیرہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ جنگِ جمل اور جنگِ صفین کے مقتولین کا انجام کیا ہوگا؟ حضرت علیؓ نے دونوں فریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
«والّذي نفسي بيده لا يموتنّ أحد من هؤلاء وقلبه نقيّ إلّا دخل الجنّة» ۔
ترجمہ:
قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! ان میں سے جو بھی صفائی قلب کے ساتھ مرا ہوگا وہ جنت میں جائے گا۔
جبکہ اس معاملہ پر قرآن کریم کی صریح دلالت ہے .
وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن میں نہریں جاری ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے.
[سورۃ التوبہ:100]
وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن میں نہریں جاری ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے.
[سورۃ التوبہ:100]
(4)عن ميمون بن مهران قال : مر علي برجل مقتول يوم صفين ومعه الاشتر فاسترجع الاشتر فقال علي : ما لك ؟ قال : هذا حابس اليماني عهدته مؤمنا ثم قتل على ضلالة ، قال علي : والان هو مؤمن.
ترجمہ:
۔۔۔ میمون بن مہران سے روایت ہے کہ صفین کی دن علی ؓ کا گذر ایک مقتول پر ہوا آپ کے ساتھ اشترنخعی بھی تھا اس نے انا اللہ وانا راجعون پڑھی تو علی ؓ نے فرمایا تمہیں کیا ہوا؟ کہا کہ یہ حابس یمانی ہے میں نے ایمان کی حالت میں اس سے ملاقات کی تھی آج گمراہی پر مارا گیا علی ؓ نے فرمایا کہ وہ اب بھی مومن ہے۔
[تاريخ دمشق-ابن عساكر:1107(11/353)، منهاج السنة النبوية:5/245، المنتقى من منهاج الاعتدال-الذهبي:ص336، جامع الأحاديث-السيوطي:34786، كنز العمال:31711 (31722)]
(5)عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : كُنْتُ إِلَى جَنْبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِصِفِّينَ , وَرُكْبَتِي تَمَسُّ رُكْبَتَهُ , فَقَالَ رَجُلٌ : كَفَرَ أَهْلُ الشَّامِ , فَقَالَ عَمَّارٌ : " لَا تَقُولُوا ذَلِكَ ، نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ، وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ ، فَحَقَّ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوا إِلَيْهِ
ایک شخص نے اہل شام کے حق میں کفر کی نسبت کی اور ان کو کافر کہنے لگا تو حضرت عمارؓ نے سن کر ارشاد فرمایا کہ ایسا مت کہو کیونکہ ان کے اور ہمارے نبی ایک ہیں اور ان کا اور ہمارا قبلہ ایک ہے لیکن بات یہ ہے کہ وہ لوگ فتنہ میں مبتلا ہو گئے اور امر حق سے متجاوز ہو گئے ہیں ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کے ساتھ قتال کریں تاکہ وہ حق کی طرف پلٹ آئیں۔
[المصنف-ابن أبي شيبة:(40647 - ت الشثري)(37841 - ت الحوت)]
[صحيح؛ أخرجه الدولابي:2/ 480، تعظيم قدر الصلاة-المروزي:599، تاریخ دمشق ابن عساكر:1/ 348، بغية الطلب-ابن أبي جردة :1/ 303]
مسلمانوں میں جنگ ممکن اور صلح کا حکم»
القرآن:
وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَاۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮهُمَا عَلَى الۡاُخۡرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىۡ تَبۡغِىۡ حَتّٰى تَفِىۡٓءَ اِلٰٓى اَمۡرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کر رہا ہو، یہاں تک کہ وہ الله کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ چنانچہ اگر وہ لوٹ آئے، تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرادو، اور (ہر معاملے میں) انصاف سے کام لیا کرو، بیشک الله انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
[سورۃ نمبر 49 الحجرات،آیت نمبر 9]
نوٹ:
لڑائی کا مقصد، کفر نہیں بغاوت روکنا ہے، ورنہ انہیں مسلمانوں میں شمار نہ کیا جاتا۔
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مِهْرَانَ ، قال : حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيًّا ، يَوْمَ صِفِّينَ وَهُوَ عَاضٌّ عَلَى شَفَتِهِ : " لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ الْأَمْرَ يَكُونُ هَكَذَا مَا خَرَجْتُ , اذْهَبْ يَا أَبَا مُوسَى فَاحْكُمْ وَلَوْ بِحَزِّ عُنُقِي
سلیمان بن مہران کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بیان کیا جس نے صفین کے موقع پر خود حضرت علی سے سنا تھا ، اس وقت آپ کی اضطرابی کیفیت یہ تھی کہ آپ اپنے لب مبارک کو زیر دندان کرتے تھے اور فرماتے اگر اس معاملہ کے متعلق مجھے یہ معلوم ہوتا کہ یہاں تک پہنچے گا تو میں اس کے لیے خروج ہی نہ کرتا۔ حضرت ابوموسٰی کے حق میں فرمان دیا کہ آپ تشریف لے جائیں اور فیصلہ کریں اگرچہ اس میں مجھے خسارہ ہو۔
[مصنف لابن ابی شیبہ ج 15 ص 293]
عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ يَوْمَ الْجَمَلِ : " يَا حَسَنُ ، لَيْتَ أَبَاكَ مَاتَ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً " ، فَقَالَ لَهُ : يَا أَبَتِ قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا ، قَالَ : " يَا بُنَيَّ لَمْ أَرَ أَنَّ الأَمْرَ يَبْلُغُ هَذَا
حضرت علی نے فرمایا : اے حسن! کاش تیرا باپ آج سے بیس سال قبل فوت ہوگیا ہوتا۔ حضرت حسن نے کہا : اے ابا جان! میں نے آپ کو اس سے روکا تھا۔ حضرت علی نے کہا! اے بیٹے! مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا۔
[البدایۃ والنہایہ ج 7 ص 288]
حضرت علی نے فرمایا : اللهم أحلل بقتلة عثمان خزيا
اے اللہ ! قاتلین عثمان پر ذلت اور رسوائی نازل کر۔
المصنف لابن ابی شیبہ ج 15 ص 277
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
إِنَّمَا أُرِيدُ أَنْ يَحْجِزَ بَيْنَ النَّاسِ مَكَانِي قَالَتْ : وَلَمْ أَحْسَبْ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ ، وَلَوْ عَلِمْتُ ذَلِكَ لَمْ أَقِفْ ذَلِكَ الْمَوْقِفَ أَبَدًا قَالَتْ : فَلَمْ يَسْمَعِ النَّاسُ كَلَامِي ، وَلَمْ يَلْتَفِتُوا إِلَيَّ ، وَكَانَ الْقِتَالُ
میرا خیال تھا کہ میں اپنے مقام و مرتبہ کی بنا پر لوگوں کے درمیان (جنگ) سے مانع ہوں گی۔ اور فرماتی ہیں کہ مجھے یہ گمان ہی نہیں تھا کہ لوگوں کے درمیان قتال واقع ہو گا۔ اگر مجھے یہ بات قبل ازیں معلوم ہوتی تو میں اس مقام میں ہرگز نہ پہنچتی۔ فرماتی تھیں کہ لوگوں نے میرا کلام نہ سنا اور میری بات کی طرف توجہ نہ کی۔ اور قتال واقع ہو گیا۔
[المصنف لعبدالرزاق: ج 5 ص 457 ]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ الزُّبَيْدِيُّ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو جَمِيلَةَ ، قَالَ : قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ لِعَائِشَةَ : يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ ! - يَوْمَ الْجَمَلِ - ، فَقَالَتْ : كُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ ، فَأَغْمَدَ سَيْفَهُ بَعْدَمَا سَلَّهُ ، ثُمَّ قَالَ : حَتَّى قُتِلَ
حضرت محمد بن طلحہ سے حضرت عائشہ نے کہا کہ آدم کے فرزندوں میں سے بہترین فرزند کی صورت اختیار کر۔ پس اس نے جو تلوار کھینچی تھی، اس کو نیام میں کر لیا، پھر کھڑا تھا حتی کہ کسی نے شہید کر ڈالا۔
[تاریخ کبیر : ج 1 ص 110 ]
عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، قَالَ : قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَاشِمَةِ : " لَمَّا فَرَغَ مِنْ أَصْحَابِ الْجَمَلِ وَنَزَلَتْ عَائِشَةُ مَنْزِلَهَا ، دَخَلْتُ عَلَيْهَا ، فَقُلْتُ : السَّلامُ عَلَيْكِ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ ، قَالَتْ : مَنْ هَذَا ؟ قُلْتُ : خَالِدُ بْنُ الْوَاشِمَةِ ، قَالَتْ : مَا فَعَلَ طَلْحَةُ ؟ قُلْتُ : أُصِيبَ ، قَالَتْ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، فَمَا فَعَلَ الزُّبَيْرُ ؟ قُلْتُ : أُصِيبَ ، قَالَتْ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، قُلْتُ : بَلْ نَحْنُ لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ فِي زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ ، قَالَتْ : وَأُصِيبَ زَيْدٌ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَتْ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، فَقُلْتُ : يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ ، ذَكَرْتُ طَلْحَةَ ، فَقُلْتِ : يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، وَذَكَرْتُ الزُّبَيْرَ ، فَقُلْتِ : يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، وَذَكَرْتُ زَيْدًا ، فَقُلْتِ : يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، وَقَدْ قَتَلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا ، وَاللَّهِ لا يَجْمَعُهُمُ اللَّهُ فِي جَنَّةٍ أَبَدًا ، قَالَتْ : أَوَ لا تَدْرِي أَنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ابن سیرین کہتے ہیں کہ خالد بن واشمہ جنگ جمل کے بعد حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اس سے دریافت کیا۔ حضرت طلحۃ کا کیا بنا، تو خالد نے عرض کیا، وہ شہید ہو گئے، توحضرت عائشہ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور ان پر ترحم کے کلمات فرمائے۔ پھر پوچھا کہ زبیر کا کیا ہوا۔ تو خالد نے عرض کی : وہ بھی شہید ہو گئے تو حضرت صدیقہ نے پھر کلمہ ترجیع ادا فرمایا اور کلمات ترحم فرمائے۔ پھر میں نے کہا زید بن صوحان جو قبیلہ عبدالقیس پر امیر تھا، اور حضرت علی کے حامیوں میں سے تھا، قتل ہو گئے، تو حضرت صدیقہ نے ان پر بھی کلمہ ترحم ادا فرمایا۔ اس وقت خالد بن واشمہ کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا ام المومنین : میں نے طلحہ اور زبیر کا ذکر کیا، تو آپ نے کلمہ ترحم ادا فرمائے اور جب میں نے زید بن صوجان کی شہادت کا ذکر کیا ، پھر بھی آپ نے کلمہ ترحم فرمائے ہیں، حالانکہ یہ ہر دو فریق مقابل تھے اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا ہے۔ اور اللہ تعالٰی کی قسم یہ لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ تو حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا کہ اے خالد! کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالٰی کی رحمت وسیع ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔
سنن الکبرٰی للبیہقی ، کتاب النفقات، بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ ثَنَاءِ السُّلْطَانِ
***********************
صحابہ کرامؓ، تاریخی روایات
احوالِ زمانہ سے عبرت حاصل کرنا، انقلابات جہاں سے دنیا کی بے ثباتی کا سبق لے کر فکر آخرت کو مقدم رکھنا، اللہ تعالیٰ کے انعامات واحسانات کا استحضار، انبیاء وصلحاءِ امت کے احوال سے قلوب کو منور کرنا اور کفار وفجار کے انجام بد سے نصیحت حاصل کرنا وغیرہ فن تاریخ -جو واقعات نگاری اور احوال ماضیہ کو بیان کرنے کا نام ہے- کے فوائد ہیں، اس لئے اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے، اس کی اہمیت کے لئے تو یہی کافی ہے کہ قصص وتاریخ، قرآن کریم کے پانچ علوم میں سے ایک ہے اور اس کا وہ حصہ جس پر حدیث نبویؐ کے صحت وسقم کو پہچاننے کا مدار ہے، جس کو محدثین نے"اسماء الرجال" کے نام سے الگ مکمل تنقیح واحتیاط کے ساتھ جمع کیا ہے، فن حدیث کے جزء کی حیثیت رکھتا ہے، اس اہمیت کے باوجود تاریخ کا یہ مقام نہیں ہے کہ اس سے عقائد کے باب میں استدلال کیا جائے یا حلال وحرام کی تعیین میں حجت قرار دیا جائے،یا قرآن وسنت اور اجماع امت سے ثابت شدہ مسائل میں تاریخی روایات کی بناء پر شکوک وشبہات پیدا کئے جائیں، اس لئے صحابہ کرامؓ اور تاریخی روایات کے باب میں علماء دیوبند کا موقف جمہور امت کے مطابق یہ ہے کہ:
۱۔ چوں کہ صحابہ کرامؓ عام افراد امت کی طرح نہیں ہیں بلکہ یہ حضرات، رسول خداﷺ اور خلق خدا کے درمیان خدا تعالیٰ کا ہی عطا کیا ہوا ایک واسطہ ہیں ، یہ از روئے قرآن وحدیث ایک خاص مقام رکھتے ہیں، اس لئے ان کے مقام کی تعیین تاریخ سے نہیں ، قرآن وسنت سے کی جائے گی۔
۲۔ چوں کہ قرآنِ کریم کی دسیوں آیات میں صحابہ کرامؓ کے حالات مصرح مذکور ہیں اس لئے تاریخی روایات ان کے معارض قطعاً نہیں ہوسکتیں ۔
۳۔ یہ ان احادیث صحیحہ ثابتہ کے بھی معارض نہیں ہوسکتیں جن کے جمع وتدوین میں وہ احتیاط برتی گئی ہے جو احتیاط تاریخ میں نہیں کی گئی، اصول حدیث کے معروف امام ابن صلاحؒ لکھتے ہیں :
وغالب علی الاخباریین الاکثار والتخلیط فی ما یروونہ۔
(علوم الحدیث:۲۶۳)
"مؤرخین میں یہ بات غالب ہے کہ روایاتِ کثیرہ جمع کرتے ہیں جن میں صحیح وسقیم ہرطرح کی روایات خلط ملط ہوتی ہیں"۔
۴۔ پھر یہ مسئلہ عقائد اسلامیہ سے متعلق ہے اور جمہور امت نے کتب عقائد میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق مفصل یا مجمل اس کا ذکر کیا ہے اس لئے اس کا مدار قرآن وسنت پر ہی رکھا جاسکتا ہے نہ کہ تاریخ کی خلط ملط روایات پر۔
*************************************
مشاجرات صحابہؓ
صحابہ کرامؓ کے مابین جو اختلافات رونما ہوئے اور خون ریز جنگوں تک کی نوبت آگئی، ان اختلافات کو علماء امت، صحابہ کرامؓ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے"مشاجرات" کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں ، جنگ وجدال کی تعبیر سے گریز کرتے ہیں کہ اس میں ایک گونہ ان کے تئیں سوء ادب ہے"مشاجرہ" کے معنی از روئے لغت ایک درخت کی شاخوں کا دوسرے میں داخل ہونا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ درختوں کے لئے باعث زینت ہے نہ کہ عیب، اس طرح علماء امت اس اختلاف کی تعبیر سے ہی یہ اشارہ دینا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے وہ اختلافات جو اپنی انتہاء کو پہنچ گئے تھے اور جس میں وہ باہم برسرپیکار بھی ہوگئے وہ اختلافات بھی کوئی نقص وعیب نہیں بلکہ زینت وکمال ہیں ۔
مشاجرات صحابہؓ میں باعث تشویش یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق، جب تمام صحابہ کرامؓ واجب الاحترام اور لائق تعظیم ہیں اور کسی ایک کے حق میں بھی ادنیٰ سے ادنیٰ سوء ادب کی گنجائش نہیں تو پھر اختلاف کے موقع پر یہ احترام کیسے قائم رہ سکتا ہے کیونکہ ان اختلافات میں ایک فریق کا حق پر اور دوسرے فریق کا خطا پر ہونا بدیہی ہے بلکہ ایمان وعقیدے کے لئے اہل حق اور ارباب خطا کی تعیین ضروری بھی ہے تو جو خطا پر ہیں ان کی تنقیص ایک لازمی امر ہے۔
مشاجراتِ صحابہؓ کے اس شبہ کے سلسلے میں علماء امت اور علماء دیوبند کا دوٹوک موقف یہ ہے کہ باجماع امت تمام صحابہ کرامؓ واجب التعظیم ہیں ، اسی طرح اس بات پر بھی اجماع ہے کہ جنگ جمل وجنگ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ حق پر تھے اور ان سے مقابلہ کرنے والے حضرت معاویہؓ وغیرہ خطا پر، لیکن ان کی خطا اجتہادی تھی جو شرعاً گناہ نہیں کہ جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے عتاب کے مستحق قرار پائیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ جب انہوں نے اصولِ اجتہاد کی رعایت کرتے ہوئے اپنی وسعت بھر تمام تر کوشش کی پھر بھی خطا ہوگئی تو وہ ایک اجر کے حق دار ہوں گے، اس طرح خطا وصواب بھی واضح ہوگیا اور صحابہ کرامؓ کے مقام ومرتبے پر کوئی آنچ بھی نہیں آئی، ہمارے خیال میں مشاجرات صحابہؓ کے حوالہ سے"امام قرطبی" نے اپنی تفسیر میں سورۃ الحجرات کی آیت"وإن طائفتان من المومنین اقتتلوا" کے ذیل میں اہل سنت والجماعت کے مسلک کی بہترین تحقیق فرمائی ہےاس کا مطالعہ کرلینا ہی چاہئے، یہ سطور اس تفصیل کی متحمل نہیں، تاہم مفسر موصوف کے ایک استدلال کا خلاصہ نقل کردینا مناسب ہوگا جو -انشاء اللہ- بیمار دلوں کے لئے سامان شفاء ہوگا۔
مفسر موصوفؒ نے اس نظریے کو مدلل کرتے ہوئے کہ دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی گناہ اور فسق وفجور کا مرتکب نہیں تھا، حضرت طلحہؒ حضرت زبیرؓ اور حضرت عمارؓ سے متعلق ارشادات نبویؐ بیان فرمائے ہیں ، جس کا ماحصل یہ ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ کے بارے میں فرمایا ہے:"طلحہ روئے زمین چلنے والے شہید ہیں "اورحضرت زبیرؓ کے بارے میں خود حضرت علیؓ سے یہ حدیث مروی ہے:"زبیر کا قاتل جہنم میں ہے"، حضرت علیؓ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ"صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو" اور یہ دونوں حضرات ان عشرۂ مبشرہؓ میں ہیں جن کے نام لے کر جنتی ہونے کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، پھر یہ بھی معلوم ہے کہ ان دونوں حضرات نے حضرت عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کیا تھا، حضرت علیؓ سے مقابلہ کیا اور اسی دوران شہید ہوئے۔
دوسری طرف حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ ہیں ، حضرت علیؓ کے طرف دار ہیں ، آپ کے مخالفین سے پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کی بھی پیشین گوئی فرمائی ہے۔
جب حال یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے طرف دار بھی شہید اور مخالفین بھی شہید، تو پھر کیسے کسی فریق کو گناہ گار یا فاسق کہا جاسکتا ہے، ہرگز نہیں ! بلکہ ان تمام حضرات کے پیش نظر رضاء الٰہی کے حصول کے سوا کچھ نہ تھا، دونوں کا اختلاف کسی دنیوی غرض سے نہ تھا بلکہ اجتہاد ورائے کی بناء پر تھا جس پر کسی بھی فریق کو مجروح ومطعون نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح جو صحابہؓ کنارہ کش رہے وہ بھی اجتہاد کی بناء پر، اس لئے وہ بھی نقص وعیب سے مبرأ اور واجب التعظیم ہیں ۔
پھر علماء دیوبند کے نزدیک سب سے اہم سکوت اور کف لسان ہے اور حضرت حسن بصریؒ کا یہ قول ان کے لئے اسوہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں :
"یہ ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہؓ موجود تھے اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے، ہم نہیں جانتے، جس معاملے پر تمام صحابہؓ کا اتفاق ہے، ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملے میں ان کے درمیان اختلاف ہے اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں"۔
(قرطبی سورۂ حجرات)
القرآن:
یہ امت ہے جو گزر گئی جو اس نے کمایا اس کیلیے وہی ہے اور تمہارے لئے وہ ہے جو تم نے کمایا، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
[سورۃ البقرة:134، 141]
۔۔۔اے ہمارے پروردگار! ہماری بھی مغفرت فرمایئے، اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی بغض نہ رکھیے۔ اے ہمارے پروردگار ! آپ بہت شفیق، بہت مہربان ہیں۔
[سورۃ نمبر 59 الحشر،آیت نمبر 10]
ان کے سینوں میں جو کچھ رنجش ہوگی، اسے ہم نکال پھینکیں گے، وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے (جنت کی) اونچی نشستوں پر بیٹھے ہوں گے۔
[سورۃ نمبر 15 الحجر،آیت نمبر 47]
No comments:
Post a Comment