}اسلامی کلمہ کے دو حصہ ہوتے ہیں:
1) توحید : لا الہ الا الله
2) رسالت : (اِس دور کی امت کے لئے) محمد رسول الله
دونوں قرآن مجید اور احادیث شریفہ سے ثابت ہیں۔
قرآن مجید میں کلمہ:
1) فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَلِلمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ مُتَقَلَّبَكُم وَمَثوىٰكُم {سورة محمد : 19}
پس جان رکھو کہ اللَّه کے سوا کوئی معبود نہیں(یعنی علم توحید سیکھنا ضروری ہے) اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے
2) مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم ۖ تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا ۖ سيماهُم فى وُجوهِهِم مِن أَثَرِ السُّجودِ ۚ ذٰلِكَ مَثَلُهُم فِى التَّورىٰةِ ۚ وَمَثَلُهُم فِى الإِنجيلِ كَزَرعٍ أَخرَجَ شَطـَٔهُ فَـٔازَرَهُ فَاستَغلَظَ فَاستَوىٰ عَلىٰ سوقِهِ يُعجِبُ الزُّرّاعَ لِيَغيظَ بِهِمُ الكُفّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنهُم مَغفِرَةً وَأَجرًا عَظيمًا
{سورة الفتح :29}
محمدﷺ اللَّه کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (الله کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم .کا وعدہ کیا ہے۔
آنحضرت ﷺ اور صحابہ کفار پر سخت ہیں:
یعنی کافروں کے مقابلہ میں سخت مضبوط اور قوی، جس سے کافروں پر رعب پڑتا اور کفر سے نفرت و بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ قال تعالٰی وَ لۡیَجِدُوۡا فِیۡکُمۡ غِلۡظَۃً (توبہ۔۱۲۳) وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ (توبہ۔۷۳) وقال تعالٰی اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ (المائدہ۔۵۴) حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "جو تندی اور نرمی اپنی خو ہو وہ سب جگہ برابر چلے اور جو ایمان سے سنور کر آئے وہ تندی اپنی جگہ اور نرمی اپنی جگہ" علماء نے لکھا ہے کہ کسی کافر کے ساتھ احسان اور سلوک سے پیش آنا اگر مصلحت شرعی ہو۔ کچھ مضائقہ نہیں۔ مگر دین کے معاملہ میں وہ تم کو ڈھیلا نہ سمجھے۔
آپس میں نرم دل ہیں:
یعنی اپنے بھائیوں کے ہمدرد و مہربان، اُنکے سامنے نرمی سے جھکنے والے اور تواضع و انکسار سے پیش آنے والے "حدیبیہ" میں صحابہ کی یہ دونوں شانیں چمک رہی تھیں۔ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ۔
صحابہ کرامؓ کے صفات حَسنہ:
یعنی نمازیں کثرت سے پڑھتے ہیں۔ جب دیکھو رکوع و سجود میں پڑے ہوئے اللہ کے سامنے نہایت اخلاص کے ساتھ وظیفہ عبودیت ادا کر رہے ہیں۔ ریاء و نمود کا شائبہ نہیں۔ بس اللہ کے فضل اور اسکی خوشنودی کی تلاش ہے۔
یعنی نمازوں کی پابندی خصوصًٓا تجہد کی نماز سے انکے چہروں پر خاص قسم کا نور اور رونق ہے۔گویا خشیت و خشوع اور حسن نیت و اخلاص کی شعاعیں باطن سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر کو روشن کر رہی ہیں۔ حضرت کے اصحاب اپنے چہروں کے نور اور متقیانہ چال ڈھال سے لوگوں میں الگ پہچانے جاتے تھے۔
صحابہ کرامؓ کا پچھلی کتابوں میں تذکرہ:
یعنی پہلی کتابوں میں خاتم الانبیاء ﷺ کے ساتھیوں کی ایسی ہی شان بیان کی گئ تھی۔ چنانچہ بہت سے غیر متعصب اہل کتاب انکے چہرے اور طور و طریق دیکھ کر بول اٹھتے تھے کہ واللہ یہ تو مسیحؑ کے حواری معلوم ہوتے ہیں۔
کھیتی کی مثال اور صحابہ کرامؓ:
حضرت شاہ صاحبؒ کھیتی کی مثال کی تقریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں "یعنی اول اس دین پر ایک آدمی تھا پھر دو ہوئے پھر آہستہ آہستہ قوت بڑھتی گئ حضرت کے وقت میں پھر خلفاء کے عہد میں "بعض علماء کہتے ہیں کہ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗمیں عہد صدیقی فَاٰزَرَہٗ میں عہد فاروقی فَاسْتَغْلَظَ میں عہد عثمانی اور فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ میں عہد مرتضوی کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ بعض دوسرے بزرگوں نے وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا کو علی الترتیب خلفائے اربعہ پر تقسیم کر دیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ یہ آیت تمام جماعت صحابہؓ کی بہیات مجموعی مدح و منقبت پر مشتمل ہے۔ خصوصًا اصحاب بیعت الرضوان کی جن کا ذکر آغاز سورت سے برابر چلا آ رہا ہے۔ واللہ اعلم۔
کھیتی کرنے والے چونکہ اس کام کے مبصر(دیکھنے والے) ہوتے ہیں اس لئے ان کا ذکر خصوصیت سے کیا۔ جب ایک چیز کا مبصر اسکو پسند کرے دوسرے کیوں نہ کریں گے۔
صحابہؓ سے حسد رکھنے والے:
یعنی اسلامی کھیتی کی یہ تازگی اور رونق و بہار دیکھ کر کافروں کے دل غیظ و حسد سے جلتے ہیں۔ اس آیت سے بعض علماء نے یہ نکالا کہ صحابہ سے جلنے والا کافر ہے۔
مومنین سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ:
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یہ وعدہ دیا انکو جو ایمان والے ہیں اور بھلے کام کرتےہیں۔ حضرت کے سب اصحاب ایسے ہی تھے۔ مگر خاتمہ کااندیشہ رکھا۔ حق تعالٰی بندوں کو ایسی صاف خوشخبری نہیں دیتا کہ نڈر ہو جائیں اس مالک سے اتنی شاباشی بھی غنیمت ہے"۔
مکمل پہلا کلمہ احادیث شریفہ میں:
(1) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ وَمَالَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ". فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا، فَقَالَ: {إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ} [الصافات: 35] ، وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا "} [الفتح: 26] ، وَهِيَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَكَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ کہیں، جس نے ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ“ کہہ لیا تو اس نے مجھ سے پانے مال اور اپنی جان کو محفوظ کرلیا، سوائے شرعی حق کے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا اور ایک قوم کا ذکر کیا جس نے تکبر کیا اور فرمایا: ان کی حالت یہ تھی کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کرتے تھے“[سورۃ الصافات:35] اور فرمایا: جب کافروں نے اپنے دلوں میں عار کو جگہ دی اور عار بھی جاہلیت کی، پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی تسکین اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر نازل فرمائی، اور ان کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا، اور وہ اس کے لائق اور قابل تھے۔[سورۃ الفتح:26] اور وہ پرہیزگاری کا کلمہ ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ“ تھا صلح حدیبیہ کے دن مشرکوں نے اس سے تکبر کا اظہار جس دن رسول اللہ ﷺ نے صلح کا معاہدہ لکھایا تھا۔
[الإيمان-ابن منده:199+200، الأسماء والصفات للبيهقي:195، الجامع الكامل في الحديث الصحيح:11/107]
تفسير الطبري:22/252، تفسير ابن أبي حاتم:18173، تفسير القرطبي:15/76، الدر المنثور:7/87
(2)عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا} [الكهف: 82] قَالَ: " كَانَ لَوْحٌ مِنْ ذَهَبٍ مَكْتُوبٍ فِيهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ عَجَبًا لِمَنْ يَذْكُرُ أَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ كَيْفَ يَفْرَحُ، وَعَجَبًا لِمَنْ يَذْكُرُ أَنَّ النَّارَ حَقٌّ كَيْفَ يَضْحَكُ، وَعَجَبًا لِمَنْ يَذْكُرُ أَنَّ الْقَدَرَ حَقٌّ كَيْفَ يَحْزَنُ، وَعَجَبًا لِمَنْ يَرَى الدُّنْيَا وَتَصَرُّفَهَا بِأَهْلِهَا حَالًا بَعْدَ حَالٍ كَيْفَ يَطْمَئِنُّ إِلَيْهَا "۔
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ (آیت:) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ (مدفون) تھا۔ [سورۃ الکھف:82] کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: وہ خزانہ سونے کی ایک تختی تھی جس میں لکھا ہوا تھا : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۔ تعجب ہے مجھے ایسے شخص پر جو موت کو حق سمجھتا ہے اور پھر بھی خوش ہوتا ہے، تعجب ہے مجھے ایسے شخص پر جو دوزخ کو حق سمجھتا ہے اور پھر ہنستا ہے، مجھے تعجب ہے ایسے شخص پر جو تقدیر کو حق سمجھتا ہے اور پھر بھی رنج و غم میں مبتلا ہوتا ہے، اور تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کو دیکھتا ہے اور اسی کی اپنے اہل کے ساتھ حشر آرائیاں دیکھتا ہے پھر بھی اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔
[شعب الإيمان للبيهقي:209، الزهد الكبير للبيهقي:545]
اسی طرح ایک روایت حضرت ابوذرؓ سے بھی مروی ہے۔
[مسند البزار:4065، تفسير ابن أبي حاتم:12880]
اسی طرح ایک روایت حضرت ابن عباسؓ سے بھی مروی ہے۔
[الدعاء للطبراني:1629، الزهد الكبير للبيهقي:544، تلخيص المتشابه في الرسم:2/838]
اسی طرح ایک روایت حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے۔
[تفسير الماوردي:3/336، تفسير السمرقندي:2/358]
(3)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: {لما عرج بِي إِلَى السَّمَاء} دَخَلتُ الْجَنَّةَ فَرَأَيْتُ في عَارِضَتَى الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا ثَلَاثَةَ أَسْطرٍ بِالذَّهَبِ، السَّطرُ الأَوَّلُ: لَا إِلَه إِلَّا اللَّه، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّه، وَالسَّطْرُ الثَّانِى: مَا قَدَّمْنَا وَجَدْنَا، وَمَا أَكَلْنَا رَبِحْنَا وَمَا خَلَّفْنَاهُ خَسِرْنَا، وَالسَّطْرُ الثَّالِثُ: أُمَّةٌ مُذنِبةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ۔
ترجمہ:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{جب (معراج میں)چڑھایا گیا مجھے آسمان کی طرف} میں جنت میں داخل ہوا اور جنت کے دونوں جانب پر تین سطریں سونے سے لکھی ہوئی دیکھیں، پہلی سطر میں لکھا تھا ”(لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ) اور دوسری سطر میں لکھا تھا کہ (جو ہم نے آگے بھیجا پالیا جو کھایا اس کا فائدہ اٹھالیا، اور جو پیچھے چھوڑا، نقصان اٹھایا) اور تیسری سطر میں لکھا تھا کہ (امت تو گناہ کرنے والی ہے اور رب بہت بخشنے والا ہے).
[{مسند الفردوس للديلمي:5316}الجامع الصغير:6707، كنزالعمال:10395](4)عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ الَّذِي أَذْنَبَهُ، رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى الْعَرْشِ، فَقَالَ: أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ إِلَّا غَفَرْتَ لِي، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: وَمَا مُحَمَّدٍ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٍ؟ فَقَالَ: تَبَارَكَ اسْمُكَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَى عَرْشِكَ، فَإِذَا فِيهِ مَكْتُوبٌ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمُ عِنْدَكَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِكَ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: يَا آدَمَ إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ، وَإِنَّ أَمَتَهُ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ، وَلَوْلَا هُوَ يَا آدَمُ مَا خَلَقْتُكَ»۔
ترجمہ:
حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب آدمؑ نے جرم کا اعتراف کیا تو عرض کیا اے اللہ آپ سے محمد (ﷺ) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں مجھے معاف فرمادیں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ آپ نے محمد کو کی سے پہچان لیا حالانکہ میں نے ان کو ابھی تک پیدا نہیں کیا تو عرض کیا یا اللہ آپ نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اس میں روح پھونکا میں نے سراٹھا کر دیکھا توعرش کے ستون پر لکھا ہوا تھا: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ“ تو مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ نے اپنے نام کے ساتھ آپ کے سب سے محبوب بندہ کے نام کو ہی ملایا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے سچ کہا اے آدم وہ میرے نزدیک تمام مخلوق میں محبوب ہیں جب ان کے وسیلہ سے سوال کیا تو میں نے معاف کردیا اگر محمد (ﷺ) کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو تمہیں پیدا نہ کرتا۔
[المعجم الأوسط للطبراني:6502، المعجم الصغير للطبراني:992، الشريعة للآجري:956، تاريخ دمشق لابن عساكر:7/437, السيرة النبوية لابن كثير:1/320]
الدر المنثور في التفسير بالمأثور:1/142 سورة البقرة:37
(5) أَخْبَرَنَا أَبُو خَلِيفَةَ ، نَا أَبِي ، نَا عَرْعَرَةُ بْنُ الْبِرِنْدِ ، عَنْ عَزْرَةَ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ ثُمَامَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَن ّالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " كَانَ فَصُّ خَاتَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَبَشِيًّا ، وَكَانَ مَكْتُوبًا عَلَيْهِ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سَطْرٌ ، وَمُحَمَّدٌ سَطْرٌ ، وَرَسُولُ اللَّهِ سَطْرٌ " .
ترجمہ:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: نبی ﷺ کی مہر کا نگینہ حبشی تھا، اور اس پر لکھا تھا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، (پہلی) سطر پر لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، اور (دوسری) سطر پر مُحَمَّدٌ ، اور (تیسری) سطر پر رَسُولُ اللَّهِ۔
سنده جید یعنی اس کی سند عمدہ ہے۔
(6)حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ الصَّفَّارُ الْبَغْدَادِيُّ ، ثنا عَلِيُّ بْنُ جَمِيلٍ الرَّقِّيُّ ، ثنا جَرِيرٌ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ أَوْ مَا فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ شَكَّ عَلِيُّ بْنُ جَمِيلٍ مَا عَلَيْهَا وَرَقَةٌ إِلا مَكْتُوبٌ عَلَيْهَا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ أَبُو بَكْرِ الصِّدِّيقُ عُمَرُ الْفاروقُ عُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ ".
[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ التَّاءِ » الاخْتِلافُ عَنِ الأَعْمَشِ فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ ... » أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ ... رقم الحديث: 10937]
سنده صحيح
تخريج الحديث
عَنْ علي بن أبي طالب ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي رَأَيْتُ عَلَى الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ الْفَارُوقُ ، وَعُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ يُقْتَلُ مَظْلُومًا " .
ترجمہ:
حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میں نے معراج کی رات عرش پر لکھا ہوا دیکھا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، ابوبکر سچا، عمر (حق وباطل میں)فرق کرنے والا، اور عثمان دو نور والا قتل ہوگا مظلوماََ۔
[ابن جوزی فی الواھیات بطوبقہ ابی الحمراء ذیل اللالی: 64]
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الأَنْبَارِيِّ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْهَيْثَمِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عِقَالٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَبِيبٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَكْتُوبٌ عَلَى الْعَرْشِ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ الْفَارُوقُ ، عُثْمَانُ ذُو النُّورَيْنِ يُقْتَلُ مَظْلُومًا .
ترجمہ:
حضرت حسین ابن علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عرش پر لکھا ہے کہ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، اور ابوبکر سچا ہے، عمر (حق وباطل میں)فرق کرنے والا، اور عثمان دو نور والا ظلماََ قتل ہوگا۔
تخريج الحديث
|
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ : " تَدْرُونَ مَا عَلَى الْعَرْشِ مَكْتُوبٌ ؟ مَكْتُوبٌ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ، أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ الْفَارُوقُ ، عُثْمَانُ الشَّهِيدُ ، عَلِيٌّ الرِّضَا " .
ترجمہ:
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : تم جانتے ہو کہ عرش پر کیا ہے ؟ عرش پر لکھا ہے: لالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان شھید، علی المرتضیٰ۔
نوٹ:
یہ حدیث ضعیف ہے ، اس روایت کا راوی محمد بن عامر کذاب ہے۔
[ اللآلی : ٢٩٩١۔]
أنبأ ، أنبأ علي بْن عبيد اللَّه الرازي ، إجازة عن كتاب أبي حامد عَبْد الرحمن بْن مُحَمَّد بْن محمود الطبري ، و أحمد بْن إبراهيم بْن هجير ، و أبي معشر حبيب بْن نصر الصوفي ، قالوا :أَنْبَأَ أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الطَّبَرِيُّ الْمُفَسِّرُ فِي كِتَابِ التَّفْرِيدِ فِي فَضَائِلِ التَّوْحِيدِ مِنْ جَمْعِهِ ، ثنا الْقَاضِي أَبُو الْحَسَنِ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَاكٍ بِقَزْوِينَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَأَرْبَعِينَ وَأَرْبَعِ مِائَةٍ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الصَّلْتِ ، بِبَغْدَادَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَأَرْبَعِ مِائَةٍ ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْهَاشِمِيُّ ، ثنا أَبُو مُصْعَبٍ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ جَنَّةَ عَدْنٍ ، وَهِيَ أَوَّلُ مَا خَلَقَهَا اللَّهُ تَعَالَى ، قَالَ لَهَا : يَا جَنَّةَ عَدْنٍ تَكَلَّمِي ، فَتَكَلَّمَتْ ، فَقَالَتْ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [سورة المؤمنون آية 1] قَدْ أَفْلَحَ مَنْ دَخَلَ فِيَّ وَشَقِيَ مَنْ دَخَلَ النَّارَ .
سنده ضعيف
ترجمہ:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
جب اللہ نے جنتِ عدن کو پیدا فرمایا، جو اللہ کی تخلیقات میں پہلی چیز ہے تو اللہ نے اس کو فرمایا کلام کر، وہ گویا ہوئی، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، یقیناً مومن لوگ فلاح پاگئے [سورۃ المومنون:1] بیشک جو شخص میرے اندر داخل ہوا کامیاب ہوگیا، اور جو جہنم میں گیا نامراد ہوگیا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زَنْجُوَيْهِ الْمُخَرِّمِيُّ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلانِيُّ ، نَا عَبَّاسُ بْنُ طَالِبٍ ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي مَجَازٍ ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " كَانَتْ رَايَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْدَاءَ وَلِوَاءُهُ أَبْيَضَ ، مَكْتُوبٌ فِيهِ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ " .
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زَنْجُوَيهِ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ ، نَا ابْنُ وَهْبٍ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَهُ .
ترجمہ :
حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا کہ : تھا بڑا جھنڈا رسول الله ﷺ کا کالا جبکہ چھوٹے جھنڈے کا رنگ سفید تھا ، لکھا تھا اس میں : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ.
تخريج :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سَهْلٍ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالُوا : ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ ، ثنا زَكَرِيَّا ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ ، ثنا أَشْعَثُ ابْنُ عَمِّ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، وَكَانَ يَفْضُلُ عَلَى الْحَسَنِ ، ثنا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَكْتُوبٌ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ , مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ يُخْلَقَ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ بِأَلْفَيْ عَامٍ "
ترجمہ :
حضرت جابر رضی الله عنہ سے، انہوں نے فرمایا : کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : لکھا گیا جنت کے دروازے پر : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، آسمانوں اور زمیں کے دو ہزار سال پہلے.
تخريج :
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي ، أَنْبَأَنَا أَبُو عَلِيٍّ حَامِدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَوْرِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَزَّالُ ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حَمَّادٍ ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ سِكَكِ الْمَدِينَةِ ، فَمَرَرْنَا بِخِبَاءِ أَعْرَابِيٍّ فَإِذَا ظَبْيَةٌ مَشْدُودَةٌ إِلَى الْخِبَاءِ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ هَذَا الأَعْرَابِيَّ اصْطَادَنِي وَلِي خِشْفَانِ فِي الْبَرِيَّةِ ، وَقَدْ تَعَقَّدَ اللَّبَنُ فِي أَخْلافِي ، فَلا هُوَ يَذْبَحَنِي فَأَسْتَرِيحُ ، وَلا يَدَعَنِي فَأَرْجِعُ إِلَى خِشْفَيَّ فِي الْبَرِيَّةِ ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنْ تَرَكْتُكِ تَرْجِعِينَ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، وَإِلا عَذَّبَنِي اللَّهُ عَذَابَ الْعَشَّارِ ، فَأَطْلَقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ تَلْبَثْ أَنْ جَاءَتْ تَلَمَّظُ ، فَشَدَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْخِبَاءِ ، وَأَقْبَلَ الأَعْرَابِيُّ وَمَعَهُ قِرْبَةٌ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَتَبِيعُنِيهَا ؟ " قَالَ : هِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَأَطْلَقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ : فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُهَا تَسِيحُ فِي الْبَرِيَّةِ ، وَتَقُولُ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ .
قَالَ : وَنَا قَالَ : وَنَا إِسْحَاقُ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ السَّقَطِيُّ ، نَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْمُؤَدِّبُ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الضَّحَّاكِ ، نَا أَحْمَدُ بْنُ الْهَيْثَمِ ، نَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، نَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ دَرَّاجٍ أَبِي السَّمْحِ ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَخْرُجُ مُعَاوِيَةُ مِنْ قَبْرِهِ وَعَلَيْهِ رِدَاءٌ مِنَ السُّنْدُسِ وَالإِسْتَبْرَقِ ، مُرَصَّعٌ بِالدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ ، عَلَيْهِ مَكْتُوبٌ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ، أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ " . .
ترجمہ :
حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : نکلیں گے معاویہ اپنی قبر سے ، اور ان پر ہوگا لباس باریک دیبا اور اطلس کا ، جڑاؤ ہوگا موتی اور یاقوت کا، اس پر لکھا ہوگا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ، أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ، عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ " .
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَخْبَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ، فَذَكَرَ قَوْمًا اسْتَكْبَرُوا فَقَالَ : إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ ، وَقَالَ تَعَالَى : إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ، وَهِيَ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اسْتَكْبَرَ عَنْهَا الْمُشْرِكُونَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَوْمَ كَاتَبَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ۔
ترجمہ:
ہمیں ابوعبداللہ الحافظ نے خبردی(انہوں نے کہا کہ): ہمیں ابوالعباس محمد بن یعقوب نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں محمد بن اسحاق نے حدیث بیان کی (کہا) : ہمیں یحیی بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں اسحاق بن یحیی الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں الزہری نے حدیث بیان کی (کہا): مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی، بے شک انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی کہ آپ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر کیا: یقینا جب انہیں لا الہ الا اللہ کہا جاتا ہے تو تکبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون واطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور ان کے لئے کلمة التقوی کو لازم قراردیا اور وہ اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے اور وہ (کلمة التقوی) '' لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ '' ہے۔ حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ ﷺ نے مدت (مقرر کرنے) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تھا تو مشرکین نے اس کلمہ سے تکبر کیا تھا''۔
تِلكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ {سورۃ البقرۃ:196} یہ پورے دس ہوئے۔
Excellent bhai sb.....jazakallah khiaraan
ReplyDelete
ReplyDeleteالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ کلمہ یا عبارت خاص ان الفاظ کے ساتھ "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" مستند نہیں ہے
اللہ تعالیٰ کسی بھی عمل کو بغیر سنت کے قبول نہیں کرے گا کلمہ کسی بھی مسلمان کا پہلا اور بنیادی رکن ہے اور اگر کسی کا یہی کلمہ درست نہیں یعنی سنت کے مطابق نہیں ہے تو وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں اس لیے وقت ضائع کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ مولانا آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔
شہادت کی مستند شکلوں کو آسانی سے سمجھنے کے لیے برائے مہربانی درج ذیل ٹیبل پر غور کریں۔
Most Authentic Sunnah
👈اشْهَدُ انْ لّآ اِلهَ اِلَّا اللّهُ وَاَنَّ مُحَمَّدً رَسُولُ اللہ*
(اخرجہ بخاري حدیث نمبر462,3861 و اخرجہ مسلم حدیث نمبر 93- یشْهَدُ انْ لّآ اِلهَ اِلَّا اللّهُ وَاَنَّ مُحَمَّدً رَسُولُ اللہ)
👈 اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ*
(اخراجہ بخاري4372,)
👈اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدان محمدا عبدہ و رسولہ*
(اخراجہ بخاري, مسلم)
👈لا إله إلا الله*
(اخراجہ بخاري حد یث نمبر-44 ومسلم11)
نوٹ. یہ کلمے سب سے مستند ہیں ، رسول اللہ اور ان کے اصحاب یعنی جمہور سلف و آئمہ سے ثابت ہیں
________________________________
Fabricated, Bada
👈لا إله إلا الله محمد رسول الله *(اخرجہ فی ضعیف ،موضوع الحدیث من البيهقی اسماء و صفات 195 و طبرانی )
*نوٹ. یہ کلمہ صرف من گھڑت احادیث میں مذکور ہے اور یہ صریح بدعت، شرک ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے اسے کبھی نہیں پڑھا۔
اگر آپ اس مسئلے کے بارے میں مزید وضاحت چاہتے ہیں تو ناقابل تردید ثبوت مندرجہ ذیل ہیں
جو لوگ کہتے ہیں کلمہ کو کسی بھی زبان میں پڑھ لیں یا کسی بھی طرح پڑھیں بس مقصد تو توحید و رسالت کا اقرار ہے, کچھ کہتے ہیں یہ کلمہ قرآن میں دو الگ الگ جگہوں پر مذکورہ ہے ہم اسے اپنی مرضی سے ملا کر پڑھ سکتے ہیں ۔
تو کیا اسے لوگوں کو یہ روایات نظر نہیں آتیں کہ ترمذی اور نسائی میں صحیح احدیث موجود ہیں ، عبداللہ بن عمر کے سامنے ایک شخص چھینک مارتے ہوئے کہا "الحمداللہ و سلام علیٰ رسول اللہ " تو ابن عمر نے کہا اتنا ہی کہوں جتنا سنت سے ثابت ہے۔ یعنی صرف "الحمدللہ" کہو ،معلوم ہوا کہ کوئی عمل چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہیں اگر وہ سنت سے ثابت نہیں وہ رد ہے اور بدعت کے زمرے میں اتا ہے،
لہٰذا شہادتیں چاہے اذان میں ہو یا تشہد میں یا چاہے کلمہ میں،اگر سنت کے مطابق پڑھی جائے گی تب ہی قابل قبول ہو گی
امام بخاریؒ نے ا ہزاروں ثقہ راویوں سے شہادت کی مختلف صورتیں نقل کی ہیں لیکن کسی نے بھی اس کی روایت نہیں کی۔
امام مسلم نے ہزاروں راویوں سے کلمہ کی مختلف صورتوں کو روایت کیا ہے لیکن کسی نے بھی شہادت کی اس صورت کو روایت نہیں کیا۔
مزید برآں نسائی، ترمذی، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے بھی سیکڑوں اور ہزاروں راویوں سے روایت کی ہے لیکن کسی نے بھی اس قسم کی شہادت کے بارے میں نبی یا صحابہ سے نہیں سنا لہذا دلائل بہت واضح ہیں یہ کلمہ طیبہ جمہور و اجماع سلف کے خلاف ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر کلمہ طیبہ کی یہ صورت موجود تھی تو بخاری ، مسلم...اور سینکڑوں اور ہزاروں راویوں نے اسے پڑھا کیوں نہیں ۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ کوئی کہے، ولیم شیکسپیئر انگریزی زبان نہیں جانتے تھے، لہٰذا یہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ اس قسم کا کلمہ اسلام میں من گھڑت ہے۔
پس اس مکمل عبارت کی اصل "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" من گھڑت احادیث ہیں اور یہ امت مسلمہ میں صوفیا کے ذریعے وائرل ہوئی، جو کہتےہیں 'یہ کلمہ آسمان پر لکھا تھا اور اللہ نے اس کے ذریعے حضرت آدم کی بخشش کو قبول کیا'۔ یہ من گھڑت ہے درحقیقت یہ کلمہ طیبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، یقیناً یہ من گھڑت احادیث سے آرہا ہے جیسے کہ اسماء صفات بیہقی کی کتاب، حدیث نمبر 195، اور تفسیر طبرانی…، معروف علمائے حدیث کے مطابق یہ روایتیں معتبر نہیں اور اصول حدیث کے خلاف ہیں مزید برآں ان کے سند اور متن دونوں میں خرابی ہے
تنبیہ : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کلمہ طیبہ بیہقی کی صحیح حدیث سے ثابت ہے حالانکہ امام بیهقی بذات خود علماء احادیث کے نزدیک معتبر محدث نہیں ہے۔اور بالفرض اگر مان بھی لیں کلمہ طیبہ کسی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے پھر بھی اس سے اصول کہاں بنتا ہے کیونکہ کہ ایک صحیح حدیث سے رفع یدین نہ کرنا بھی ثابت ہے اور کسی ایک صحیح حدیث سے آزان میں بھی اختلاف موجود ہے یعنی صحیح مسلم کی روایت ہے جس سے اذان میں "لاحول ولا قوۃ الا باللہ" پڑھنا ثابت ہے. جبکہ ہم ایسا نہیں کرتے نہیں بلکہ اذان، رفع یدین کرنے میں متواتر حدیث و جمہورسلف کی پیروی کرتے ہیں لہذا کوئی ایسا عمل جو کسی ایک آدھ حدیث سے بھی ثابت ہو۔لیکن وہ متواتر احدیث آور اجماع سلف کے خلاف ہو تو اسے اصول حدیث و اصول فقہ میں شاز یا مردود کہتے ہیں
حقیقت میں کلمہ طیبہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے بہقی کی مندرجہ ذیل روایت کی سند ضعیف ہے
ReplyDeleteIMG_20230309_062205.jpg
IMG_20230309_061838.jpg
مندرجہ بالا راویوں میں ابو حافظ عبداللہ ( مستدرک الحاکم)،امام ابن صلاح کے نزدیک ایک متساہل ہے
IMG_20230309_181618.jpg
اور امام زہری کے بارے میں بھی امام ابو داؤد کا موقف ہے اس کی ادھی روایات صحیح ہیں جبکہ ادھی موضوع ہیں IMG_20230309_200455.jpg
جب کہ ان راویوں میں ایک شدید کاذب راوی محمد بن اسحاق بھی شامل ہے جس کے بارے میں آئمہ کرام کی کی رائے درج ذیل ہے
علامہ ذھبی
علامہ ذھبیؒ لکھتے ہیں وَقَدْ أَمْسَكَ عَنِ الاحْتِجَاجِ بِرِوَايَاتِ ابْنِ إِسْحَاقَ غَيْرُ، وَاحِدٍ مِنَ العُلَمَاءِ, لأَشْيَاءَ مِنْهَا: تَشَيُّعُه۔
محمد بن اسحاق کی روایات کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف اسباب کی وجہ سے رک گئے ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔(سیراعلام النبلا ج۷ ص۳۹)
32۔علامہ ابن رجب الحنبلیؒ
علامہ ابن رجب الحنبلیؒ لکھتے ہیں ولا ريب أنه كان يتهم بأنواع من البدع، ومن التشيع والقدر وغيرهما
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد بن اسحاق مختلف قسم کی بدعات کے ساتھ متہم تھا جیسے شیعہ اور قدری یعنی تقدیر کا منکر وغیرہ۔(شرح علل الترمذی لابنرجب ج۱ ص۴۱۹)
علامہ نوویؒ فرماتے ہیں بدعتی کی حدیث کے بارے میں راجح مذہب یہ ہے کہ جس حدیث سے اس کی بدعت کی تقویت و تائید ہوتی ہو اس کی وہ حدیث قبول نہیں کی جاتی ۔(شرح مسلم للنوی ص۲ شرح نختبہ الفکر ص۱۱۸)
33۔ابو حاتمؒ
ابو حاتم ؒ محمد بن اسحاق کو ضعیف کہتے ہیں۔ (کتاب العلل جلد ۱ص۴۳۳)
36۔امام بیہقیؒ
امام بیہقیؒ فرماتے ہیں
محدثین اور حفاظ حدیث ابن اسحاق کے تفردات سے گریز کرتے ہیں۔ (سنن الکبری بحوالہ الجوھر النقی جلد ۱
ص۱۵۵)
38۔ عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ
عبداللہؒ فرماتے ہیں لم یکن يحتج به في السنن
میرے باپ احمد بن حنبلؒ ابن اسحاق کو سنن اور احکام میں ان سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔(بغدای جلد۱ ص۲۳۰،تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
حنبل بن اسحاق کا بیان ہے کہ امام احمد ؒ نے فرمایا کہ ابن اسحاق لیس بحجۃ یعنی ابن اسحاق حجۃ نہیں ہے۔(بغدادی جلد۱ ص۲۳۰، تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
امام احمدؒ سے دریافت کیا گیا کہ ابن اسحاق جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کی حدیث حجت ہو گی؟ قال لا واللہ (بغدادی جلد۱ ص۲۳۰) بخدا ہرگز نہیں۔
39۔ابن معینؒ
ابن ابی خیثمہؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو لیس بذالك ،ضعیف ، اور لیس بالقوی کہا ۔ میمونی ؒ کا بیان ہے کہ ابن معینؒ نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔(بغدای جلد۱ ص۲۳۱ تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۴)
40۔علی بن المدینیؒ
علی بن المدینیؒ کا بیان ہے لم یضعفه عندي الا روایته، عن اھل الکتاب (تہذیب التہذیب جلد۹ص۴۵)
میرے نزدیک ابن اسحاق کو صرف اس بات نے ضعیف کر دیا ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ سے روایتیں لے لے کر بیا ن کرتا ہے۔
42۔امام ترمذیؒ
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ بعض محدثین نے ان کے حافظہ کی خرابی کی وجہ سے اس میں کلام کیا ہے۔ (کتاب العلل جلد۲ص۲۳۷)
43۔امام نوویؒ
امام نوویؒ فرماتے ہیں جو راوی صحیح کی شرطوں کے مطابق نہیں ہیں ان میں ایک محمد بن اسحاق بھی ہے۔(مقدمئہ نووی ص
۱۶)
44۔امام ذھبیؒ
علامہ ذھبیؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق کی روایت درجئہ صحت سے گری ہوئی ہے اور حلال و حرام میں اس سے احتجاج درست نہیں۔ (تذکرہ جلد۱ ص۱۶۳)
رہی بات بڑے آئمہ اکرام کی جیسا کہ بخاری ،مسلم ، احمد بن حنبل ، ابو حنیفہ، ابن تیمیہ، بن باز، علامہ البانی... نے بھی کلمہ طیبہ کی تصحیح نہیں کی۔
لہذا یہ تمام شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ بیان من گھڑت ہے اور رسول اللہ کی طرف جھوٹی عبارت منسوب کی گئی ہے۔اور کلمہ طیبہ واضح بدعت،شرک ہے ۔
مندرجہ ذیل لنک م مولانا لوگ کیسے ہمیں گول گول گما رہے ہیں جب کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
Last