یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
قرآن کریم میں جہاں بہت سی پیش گوئیاں ہیں ان میں سے ایک مشہور پیش گوئی وہ ہے جو صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں سورۂ فتح میں ذکر فرمائی ہے،اور ان تمام مسلمانوں کو جو حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے حضورﷺکے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے ان سے اپنی رضامندی کا اعلان کیا اور فرمایا:
روحانی برکتوں کے علاوہ ہم نے انکو ایک فتح کی خبر دی جو بہت نزدیک ان کو ملنے والی ہے اور مال غنیمت کی کثرت اور اس کے حصول کی بھی ان کو خبر دی۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی نے ان مسلمانوں کی ہمت افزائی فرمائی،ان کو اپنی رضامندی عطا فرمائی، اور ان کے دلوں کے خلوص کو ظاہر کردیا اور ان پر سکینہ یعنی روحانی تسکین نازل فرمائی اور مکہ معظمہ سے بغیر عمرہ کیے واپس جانے پر ان کو بدلے میں ایک فتح قریب اور کثیر مال غنیمت سے ان کو مالا مال فرمایا، بہر حال جو اطلاع دی تھی وہ پوری ہوئی ؛چنانچہ اللہ تعالی نے تھوڑے ہی دنوں بعد خیبر کو فتح کیا اور اس کے ساتوں قلعے قبضے میں آئے، بہت سے باغات بھی بطور فئے حاصل ہوئے، جن کی تفصیل کتب سیر میں موجود ہے۔
صلح حدیبیہ کے بعد
نبی کریم ﷺ نے اپنا ایک خواب صحابۂ کرام کو بتایا کہ ہم لوگ عمرے کا احرام باندھ کر مکہ معظمہ میں داخل ہوں گے اور ارکان عمرہ بجالائیں گے؛ چنانچہ صحابہ نے اس خواب کو سن کر مکہ معظمہ چلنے کی تیاریاں شروع کردیں اور حضور ﷺ کے ہمراہ تشریف لے گئے،وہاں جاکر معاندین کی مزاحمت کی اور آپ ﷺ نے حدیبیہ میں قیام فرمایا اور کفار مکہ سے گفتگو ہوئی،سورۂ فتح میں اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کے خواب کی توثیق کی اور فرمایا یہ خواب آئندہ سال کے متعلق ہے اس سال یہ پورا ہونے والا نہ تھا بلکہ اس کی تعبیر آئندہ سال پوری ہونے والی ہے ؛چنانچہ یہ خواب والی پیشن گوئی آئندہ سال پوری ہوئی اور صحابہ کرام نہایت اطمینان کے ساتھ ارکان عمرہ بجالائے اور عمرے سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ بخیر یت تمام واپس ہوئے اور یہ پیشن گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی سورۂ فتح کی آخری رکوع میں اس کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
روم اور فارس کے فتح کرنے کی پیشن گوئی
آئندہ کیفتوحاتکے سلسلہ میں ایک اور پیشن گوئی سورۂ فتح میں مذکور ہے:
اس فتح کی خبر کے علاوہ اللہ تعالی نے ان غنائم کو اپنے احاطہ علمی میں لے رکھا ہے،اور ان کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
یعنی بظاہر تمہاری قدرت میں نہیں کہ تم ان پر قبضہ کرسکو مگر وہ اللہ کے علم وقدرت میں ہیں اور اس کی تائید سے وہ غنیمتیں تم کو حاصل ہوں گی۔
جمہور مفسرین نے اس پیشن گوئی سے مراد فارس اور روم کے غنائم کیے ہیں اور یہ واقعہ بھی ہے کہ شاہان فارس اور روم کے مقابلہ میں مسلمانوں کا کوئی شمار نہ تھا یہ قومیں بڑی طاقت اور بکثرت ساز وسامان سے بھر پور تھیں؛ چنانچہ قرآن نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہوا اور مسلمانوں کو بےشمار غنائم ہاتھ لگے۔
مرتدین کی سرکوبی
قرآنی پیشن گوئیوں میں ایک پیشن گوئی یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد کچھ مسلمان دین چھوڑ کر مرتد ہوجائیں گے پھر اللہ تعالی ان مرتدین کا استیصال ایسے مسلمانوں کے ہاتھ سے کرائے گا جو اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی ان کو دوست رکھتا ہے ،مسلمانوں کے روبرو تواضع کرنے والے ہیں اورمنکرین کے مقابلہ میں خود دار اور منکروں کو دبانے اور مغلوب کرنے والےہیں اور بغیر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کے خوف کےاپنی سعی اور کوشش اور جہاد فی سبیل اللہ کو جاری رکھتے ہیں؛ چنانچہ قرآن کی اس پیشن گوئی کے مطابق واقعہ پیش آیا اور نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد عرب کے کچھ قبائل مرتد ہوگئے اور کچھ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہوگئے، جس نے نبوتکا دعوی کیا تھااس وقت اخیار صحابہ نے جو صفات مذکورہ سے متصف تھے اس ارتداد کو اللہ تعالی کے فضل سے رفع کیا اور اس شبہ کو مٹایا ،مرتدین کو ہزیمت ہوئی اور مسیلمہ کذاب وحشی کے ہاتوں سے ماراگیا اور مقتول ہوا اور حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں حضرت خالد بن ولید کے ہاتھوں یہ فتنہ فرو ہوا اور مسلمانوں کے ایک لشکر کو حضرت خالد کی سرکردگی میں ان تمام مرتدین اور منکرین پر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ؛چنانچہ پارہ چھ میں ارشاد فرمایا:
اےایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے گاتو اللہ ایسے لوگ پیدا کردےگا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے ،جو مؤمنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے،اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سےنہیں ڈریں گے۔
اہل فارس
من جملہ اور پیش گوئیاں کہ قرآن کی یہ پیشن گوئی بھی مشہور ہے جو روم اور فارس کی جنگ کے سلسلہ میں فرمائی ہے ،واقعہ اس طرح ہے کہ رومیوں کی اہل فارس سے جنگ ہوئی تھی اس لڑائی میں اہل فارس کو غلبہ ہوا اور کچھ علاقہ اہل روم کے اہل فارس نے دبالیے اس خبر سے کفار مکہ نے خوشی کا اظہار کیا اور کہنے لگے جس طرح اہل فارس جو مشرک ہیں اہل کتاب پر غالب ہوں گے ،اہل فارس اور اہل روم اس وقت کی دو زبردست اور ترقی یافتہ حکومتیں تھیں اہل کتاب چونکہ آسمانی کتاب کا نام لیتے تھے اس لیے مسلمانوں کو ان سے دلچسپی تھی اور کفار مکہ کو بوجہ کفر کے اہل فارس سے محبت تھی اس لیے فطرتاً مسلمانوں کو اس شکست سے رنج ہوا اور کفار مکہ اہل فارس کی فتح پر بہت خوش ہوئے اور اپنے لیے نیک فال لینے لگے، اللہ تعالی نے اس موقع پر یہ آیت نازل فرمائی:
روم مغلوب ہوئے نزدیک کے ملک اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے چند ہی سال میں۔
قرآن نے یہ بات ظاہر کی کہ اہل فارس کی یہ فتح عارضی ہے کچھ دنوں کے بعدنو سال کے اندر اس کا الٹا اور اس کا عکس ہوگا اور آج کے مغلوب اس دن غالب آجائیں گے اور یہ بھی فرمایا کے اس دن اللہ تعالی کی مدد سے مسلمان خوش ہورہے ہوں گے،چنانچہ یہ پیشن گوئی پوری ہوئیاور جس دن مسلمان جنگ بدر میں فتح یاب ہوئے اسی دن نبی کریمﷺ کو بذریعہ ہوئی بتایا گیا کہ رومیوں نے اہل فارس پر فتح پائی اور مسلمان بہت مسرور ہوئے، ایک طرف جنگ بدر میں جو فتح نصیب ہوئی اس کی خوشی دوسری خوشی اس خبر سے حاصل ہوئی کہ رومیوں کو فتح حاصل ہوئی فارس پر اور رومیوں نے اپنے علاقے واپس لے لیے اور قرآن کریم کی پیشن گوئی پوری ہوئی۔
یہودیوں سے متعلق
قرآن کی پیشن گوئیوں میں ایک پیشن گوئی یہ ہے کہ جو قرآن نے یہود کے بارے میں بیان فرمائی کہ یہ کبھی موت کی تمنا اور خواہش نہیں کریں گے،واقعہ یوں ہے کہ یہود اس بات کے مدعی تھے کہ سوائے ہمارے اور کوئی شخص قیامت میں قرب خداوندی کا مستحق نہ ہوگا اور دار آخرت کی تمام خوبیاں اور بھلائیاں صرف ہمارے لیے ہوں گی قرآن نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا اگر تمہارے زعم باطل میں یہ بات ہے کہ دارآخرت میں فائدہ اٹھانے والے صرف تم ہی تم ہو تو پھر تم دنیا میں رہنا کیوں پسند کرتے ہو اور اللہ تعالی سے موت کی تمنا کیوں نہیں کرتے کہ وہ تم کو دنیا سے آخرت میں منتقل کردے تاکہ تم ان فوائد سے مستفید ہو اور دنیا کی الجھنوں سے رہائی حاصل کرلو اور یہود کی طبائع اور ان کے دل کی خباثت سے اللہ تعالی واقف تھا اس نے اپنی کتاب میں یہ پیشن گوئی بھی فرمادی:
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں،ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا،اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کو جو لاحق رہا ہے اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا ،(بس) وہ میری عبادت کریں میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں،اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمانہوں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نبی کریمﷺکی امت میں سےلوگ خلافت راشدہ کے مستحق ہوئے اور یہ سلسلہ خلافت راشدہ کے بعد بھی چلتا رہا تاآنکہ لوگ عیش پرستی میں مبتلا ہوگئے اور حکومت کو بجائے خدمت کے اپنا حق اور اپنی ملک سمجھنے لگے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح زمین پر پھیلے تھے بالآخر سمٹنے شروع ہوگئے اور ۷۰۰ ہجری سے ضعف بڑھتا گیا اور آج دنیا میں کہیں بھی صحیح معنوں میں اقتدار باقی نہ رہا،جو کبھی اقتدار تقسیم کیا کرتے تھے وہ آج خود اقتدار سے محروم اور دوسروں کے دست نگر ہیں بہر حال پیشن گوئی پوری ہوچکی۔
اے پیغمبر! آپ ان اعراب اور اہل دیہات سے جو حدیبیہ میں شریک نہیں ہوسکے ،فرمادیجیے کہ تھوڑے دنوں کے بعد تم کو ایک سخت جنگ جو قوم سے لڑنے کی دعوت دی جائے گی ،اس سخت قوم سے تم جنگ کروگے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے اور اسلام قبول کرلیں گے،پھر اس موقع پر تم نے اگر دعوت جہاد قبول کرلی اور اس جنگ جو قوم سے لڑنے کو نکل آئے تو اللہ تعالی تم کو بہترین اجر عنایت فرمائے گا اور اگر تم نے روگردانی کی جیسا کے پہلے روگردانی کرچکے ہوتو تمکوبڑا دردناکعذاب دے گا۔
حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓکے زمانۂ خلافت میں ان لوگوں کی مسیلمہ کذاب اور اس کے ہمراہی مرتدین سےاور فارس وروم وغیرہ سے جنگ ہوئی اور اعراب کو دعوت دی گئی اور قرآن نے جو پیشن گوئی کی تھی وہ لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
آپ کے پروردگار کی جانب سے جو احکام آپ پر نازلکیے جاتے ہیں آپ ان احکام کی تبلیغ کرتے رہیں اور مخالفین ومعاندین کا اندیشہ نہ کریں اور کسی دشمن کا خوف دل میں نہ لائیں، اللہ تعالی لوگوں سے آپ کی حفاظت کرنے والا اور آپ کو بچانے والا ہے۔
اس آیت کے نزول سے قبل آپﷺاپنے خدام میں سے بعض حضرات کو بطور پہرہ دار اور محافظ کے مقررفرمایا کرتے تھے،جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپﷺنے جملہ محافظین کو رخصت فرمادیا،یہ پیشن گوئی پوری ہوئی اور باوجود صدہا منکرین ومعاندین کے اللہ تعالی نے ہمیشہ آپ کے دشمنوں سےآپ کو محفوظ رکھا اور بڑے بڑے خطرات کے مواقع پرآپ کی مددفرمائی اور دشمنوں کے تمام مکر وفریب پامال کردیے گئے اور کوئی دشمن یا دشمن کی کوئی جماعت آپ پر قابو نہیں پاسکی،ایک مرتبہ آپ ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے اور آپ نے اپنی تلوار درخت میں لٹکا رکھی تھی؛چنانچہ ایک شخص نے دبے پاؤں آکر تلوار اتارلی اور تلوار ہاتھ میں لے کر حضورﷺکو آواز دی اور کہا اے محمد اب میرے ہاتھ سے تجھ کو کون بچائےگاآپ ﷺنے آنکھ کھول کر فرمایا :اللہ تعالی بچائےگا ،اللہ تعالی کا نام سن کر اس پر ہیبت طاری ہوگئی اور اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی، آپﷺاپنی خوابگاہ سے اٹھے تلوار اٹھائی اور اس سے دریافت کیا: اب تجھ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا، اس نے معذرت کی اور آپﷺسے معافی طلب کی آپﷺنے معاف کردیا ،آپﷺکی اس عنایت سے اس پر یہ اثر ہوا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا اور اپنی قوم میں جاکر کہا میں نے محمدﷺسے بہتر کوئی آدمی نہیں پایا ،بہر حال حفاظتکی پیشن گوئی اسی طرح ہر موقع پر پوری ہوئی۔
وہ تھوڑا بہت ستانے کے سوا تمہیں کوئی بڑا نقصانہرگز نہیں پہنچاسکیں گےاور اگر وہ تم سے لڑیں گے بھی توپیٹھ دِکھا جائیں گے،پھر انہی کوئی مدد بھی نہیں پہنچےگی۔
یہ آیت یہودیوں سے متعلق نازل ہوئی،جس میں ان کی حقیقت کو واضح کیا گیا،یہودیوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہا،اللہ نے ان کی تدبیروں کو ناکام بنادیا،بنی قریظہ،بنی نضیر،،بنی قینقاع اور خیبر کے یہود نے جب مقابلہ کیا پسپا ہوئے یہاں تک کہ فاروق اعظم کے زمانے میں ان سب کو خطۂ عرب سے جلا وطن کردیا گیا اور عرب سے ان کو نکال دیا گیا۔
" پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندہ کو مسجد حرام ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) تک جس کے گرد اگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیاتا کہ ہم اسے اپنی( قدرت) کی نشانیاں دکھائیں ،بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے"
"اور وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا ،پھر اور زیادہ قریب ہوا تو دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم،پھر اﷲ نے اپنے بندے (محمدﷺ) کی طر ف وحی بھیجی جو کچھ کہ بھیجی،جو کچھ انھوں نے دیکھا اس کو ان کے دل نے جھوٹ نہ جانا،کیا جو کچھ انھوں نے دیکھا تم اس کے بارے میں ان سے جھگڑتے ہو اور انھوں نے اس کو ایک اور دفعہ بھی دیکھا ہے،سدرۃ المنتہیٰ کے پاس،اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے جب کے اس سدرۃ المنتہیٰ پر چھا رہاتھا جوکچھ چھا رہا تھا،ان کی نگاہ نہ تو بہکی اور نہ (حدسے) آگے بڑھی ،انھوں نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) بڑ ی بڑی نشانیاں دیکھیں"
اور ان لوگوں سے اللہ کے راستے میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.
[سورة البقرة، آیت نمبر 190]
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِزْرِ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ، وَلَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِيرًا وَلَا امْرَأَةً وَلَا تَغُلُّوا وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ " . [سنن أبي داود» كِتَاب الْجِهَاد» بَاب فِي دُعَاءِ الْمُشْرِكِينَ ... رقم الحديث: 2250] حضرت انس بن مالک ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مجاہدین کو بھیجتے وقت) فرمایا: روانہ ہو جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی تائید و توفیق کے ساتھ اور آپ ﷺ کے دین پر۔ (دیکھو) قتل نہ کرنا بوڑھے آدمی کو نہ چھوٹے بچے کو اور نہ عورت کو اور تم مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا بلکہ مال غنیمت کو جمع کرنا اور اپنے احوال کی اصلاح کرنا اور بھلائی کرنا۔ بیشک اللہ نیکی اور بھلائی کرنیوالوں کو پسند فرماتا ہے۔
Narrated Anas ibn Malik:
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Go in Allah's name, trusting in Allah, and adhering to the religion of Allah's Apostle. Do not kill a decrepit old man, o a young infant, or a child, or a woman; do not be dishonest about booty, but collect your spoils, do right and act well, for Allah loves those who do well.
جہاد - نبی الرحمۃ والملاحم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں
(مترجم: مولانا طلحہ السیف)
امام المجاہدین فی سبیل اللہ، حضرت عبداللہ بن المبارکؒ (م181ھ) اُمت مسلمہ کے ان جلیل القدر افراد میں سے ہیں جنہیں بجا طور پر اس اُمت کا فخر قرار دیا جاسکتا ہے۔ حضراتِ سلف کا کہنا یہ ہے کہ آپ ان مقبول ترین افراد میں سے ہیں جن کا تذکرہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن المبارکؒ ایک عظیم مجاہد تھے، زندگی بھر محاذوں پر لڑنا اور سرحدوں پر ’’رباط‘‘ کرنا آپ کا مشغلہ رہا ، علمِ حدیث کے بھی مسلّمہ امام تھے۔ آپؒ نے جہاد فی سبیل اللہ کی فرضیت ، اہمیت، فضائل اور مسائل کے بارے ایک مجموعہ مرتب فرمایا، جو’’ کتاب الجہاد لابن المبارکؒ‘‘ کے نام سے معروف ہے اور ہر زمانے میں مستند ماخذ مانا گیا ہے ، زیرِ نظر سطور میں اس کتاب کا ترجمہ نذر قارئین کیا جارہا ہے ۔
حدیث (۱):محبوب ترین عمل
حضرت عبداللہ بن سلامؓ بیان فرماتے ہیں:
’’ہم (کئی افراد) نے باہم مذاکرہ کیا کہ ہم میں سے کوئی نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ ترین عمل کونسا ہے؟ہم سب پوچھنے سے گھبراگئے (اور کوئی بھی تیار نہ ہوا)
حضرت عبداللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سب کو ایک ایک کرکے بلوایا یہاں تک کہ ہم سب جمع ہوگئے۔(یہ صورتحال دیکھ کر) ہم سب ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگے (کہ رسول اللہﷺ کو ہماری باہمی گفتگو کی خبر کس نے دی) پھر رسول اللہﷺنے ہمارے سامنے ’’سبح للّٰہ مافی السموت ومافی الارض‘‘ (سورۃ الصف) کی از اول تا آخر تلاوت فرمائی۔(سورۃ مبارکہ کی چوتھی آیت میں اس سوال کا جواب ہے۔ ’’ان اللّٰہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص‘‘جو لوگ خدا کی راہ میں (ایسے طور پر) پرے جما کر لڑتے کہ گویا سیسہ پلائی دیوار ہیں وہ بیشک محبوب کردگار ہیں)راوی (عطاء بن یسار) کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے (یہ حدیث روایت کرنے کے بعد) پوری سورۃ الصف کی تلاوت فرمائی۔ عطاء کے شاگرد ہلال کہتے ہیں کہ ہمیں عطاءؒ نے پوری سورۃ الصف سنائی۔
حدیث (۲):بہترین تجارت
حضرت ابو صالحؓ فرماتے ہیں:صحابہ کرامؓ نے (باہم) کہا کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ترین عمل معلوم ہوجائے (تو ہم اس کی رغبت کریں) اس پر یہ آیات نازل ہوئیں:
’’یا ایھا الذین آمنوا ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم تؤمنون باللّٰہ ورسولہ وتجاہدون فی سبیل اللّٰہ باموالکم وانفسکم ذلکم خیرلکم ان کنتم تعلمون‘‘
(مومنو! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے مخلصی دے (وہ یہ کہ) خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے)
لوگوں کو یہ بات مشکل لگی، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں
’’یا ایھا الذین آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون کبر مقتا عند اللّٰہ أن تقولوا ما لا تفعلون‘‘…
(مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں) (گویا تنبیہ کی گئی کہ اپنے ہی سوال کا جواب ملنے پر دشواری کا اظہار مناسب نہیں تھا)
(تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے خدا اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں جو لوگ خدا کی راہ میں (ایسے طور پر) پرے جما کر لڑتے کہ گویا سیسہ پلائی دیوار ہیں وہ بیشک محبوب کردگار ہیں )
حضرات انصار کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوا جن میں حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی شامل تھے، ان حضرات نے کہا تھا کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ترین عمل معلوم ہوجائے تو ہم اس پر موت تک کار بند رہیں گے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا:
’’میں مستقل اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد میں لگا رہوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے۔‘‘ پس وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کئے گئے۔
حدیث(۴):قیمتی بدلہ
قتادہؒ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی۔
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ (خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض ان کے لیے بہشت (تیار کی) ہے)
اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے ساتھ خرید و فروخت کی اور بدلے میں انہیں قیمتی چیز (جنت) دی۔
حدیث(۵):قتال سے پہلے نیک اعمال کی ضرورت
حضرت ابو الدرداءؓ فرماتے ہیں: قتال سے پہلے نیک اعمال کرو بے شک تم اپنے اعمال سے قتال کرتے ہو۔ (یعنی جیسے تمہارے اعمال ہوتے ہیں تمہارا قتال انہی کے مطابق ہوتا ہے)
حدیث(۶):شہادت… گناہوں کی معافی
حضرت ابو الدرداءؓ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہونا میل (گناہوں) کو دھو دیتا ہے اور قتل دو طرح کے ہیں: (۱) کفارہ (یعنی تمام گناہوں کی معافی) (۲) بلند درجات (تک پہنچانے کا ذریعہ)
حدیث (۷): تین طرح کے شہداء
عقبہ بن عبدالسلمیؓ جو اصحاب رسولﷺمیں سے ہیں۔ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: شہداء تین قسم کے ہیں۔
(۱)پہلا خالص مؤمن جو اللہ تعالیٰ کے راستے اپنی جان اور مال سے جہاد کرنے نکلا، حتی کہ اس کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا تو وہ لڑا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا۔ یہ خالص ترین شہید ہے(اس کا مقام) اللہ تعالیٰ کے خیمے میں عرش الٰہی کے نیچے ہے، انبیاء کرام علیہم السلام کو اس پر صرف درجۂ نبوت کی فضیلت حاصل ہے۔
(۲) دوسرا شخص جس نے چھوٹے بڑے گناہ کئے پھر اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی جان و مال سے جہاد کرنے نکلا حتی کہ اس کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے قتال کیا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا۔ یہ قتل اس کے حق میں صیقل ہے جو اس کے گناہوں کومٹا دیتا ہے۔ بے شک تلوار (کازخم) گناہوں کو مٹانے والی چیز ہے۔ یہ شخص جنت کے دروازوں میں سے جس سے چاہے گا داخل کردیا جائے گا اور جنت کے آٹھ دروازے جبکہ جہنم کے سات دروازے ہیں جو ایک دوسرے کے نیچے واقع ہیں۔
(۳) اور تیسرا وہ شخص جو منافق ہے، اپنی جان ومال سے لڑنے نکلا، یہاں تک کہ اس کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے قتال کیا حتیٰ کہ قتل کردیا گیا۔ یہ شخص جہنم میں ہے، بے شک تلوار نفاق کو نہیں مٹا سکتی۔
حدیث۸:جہاد میں نکلنے والوں کی دو قسمیں
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: لڑائی میں نکلنے والے دو طرح کے ہیں…
ایک جماعت وہ لوگ ہیں جو نکل کر کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں،دورانِ سفر فساد (لڑائی جھگڑے) سے گریز کرتے ہیں،اپنے ساتھیوں کی دیکھ بھال اور خدمت کرتے ہیں،اپنا بہترین مال خرچ کرتے ہیںاور جو مال اللہ تعالیٰ کے راستے (جہاد فی سبیل اللہ) میں خرچ کرتے ہیں اس پر دنیا کے فائدے کی خاطر خرچ کیے جانے والے مال کی نسبت زیادہ رشک کرتے ہیں اور جب لڑائی کے موقع پر ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے شرماتے ہیں اس بات سے کہ وہ ان کے دلوں میں کوئی شک دیکھے یا مسلمانوں کی مدد چھوڑ بھاگنے کا خیال پائے۔ جب غنیمت میںخیانت کا موقع میسر ہو اپنے دلوں کو اور اعمال کو اس برائی سے پاک رکھتے ہیں۔ پس شیطان ایسے لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا نہ ان کے دلوں پر زخم (برائی کا داغ) لگاسکتا ہے،انہی لوگوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے دین کو عزت بخشتاہے اور اپنے دشمنوں کو برباد کرتا ہے ۔
دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو نکلتے ہیں مگر نہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرتے ہیں اورنہ ہی اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں، فساد سے گریز نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے ساتھی کی مدد کرتے ہیں۔ اپنے اموال خرچ نہیں کرتے مگر بے دل اور تنگی کے ساتھ اور جو مال خرچ کرنا پڑجائے اسے تاوان سمجھتے ہیں اور شیطان انہیں اس (مال کے خرچ ہونے) پر غمزدہ کردیتا ہے اور (یہ لوگ) جب جنگ کے میدان میں ہوں تو سب سے پیچھے رہ جانے والوں اور (مسلمانوںکی) مدد چھوڑ کر بھاگ جانے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھ کر دیکھتے رہتے ہیں کہ لوگ کیا کررہے ہیں(یعنی محض دور سے جنگ کا نظارہ کرتے ہیں)
پس جب اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو فتح سے نواز دے تو یہ لوگ سب سے شدت کے ساتھ (بڑھ بڑھ کر) جھوٹ بولتے ہیں(لڑائی میں اپنے کارنامے گھڑ کر بیان کرتے ہیں) مال غنیمت میں خیانت کا موقع ملے تو اس میں اللہ تعالیٰ پر جرأت دکھاتے ہیں( جری ہوکر یہ گناہ کر گزرتے ہیں)اور شیطان انہیں پڑھاتا ہے کہ یہ غنیمت ہے (اس لیے دل کھول کر لوٹو) انہیں فراخی ملے تو اکڑتے ہیں اور تنگی آجائے تو شیطان انہیں مال و دولت کے فتنے میں ڈال دیتا ہے (اس کے حصول کے لئے ہر غلطی کر گزرتے ہیں) پس ایسے لوگوں کے لئے ایمان والوں کے اجر میں کوئی حصہ نہیں سوائے اس کے کہ ان کے جسم ایمان والوں کے ساتھ ہیں اور ان کا سفر ایمان والوں کے ساتھ ہے(یعنی محض ظاہری وابستگی ہے) ان کی دنیا اور ان کے اعمال جدا ہیں۔ انجام کار اللہ تعالیٰ انہیں روزِ قیامت جمع کرے گا پھر ان میں (اور ایمان والوں میں) جدائی کردے گا۔
حدیث۹:مقاتلین کی اقسام
مرّۃ (الہمدانی) کہتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کی مجلس میں ایک جماعت کا ذکر کیا جو جہاد میں قتل کئے گئے تھے (اور ان کی مدح سرائی کی) تو حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:
معاملہ (محض) ایسا نہیں ہے جیسا تم کہہ رہے ہو یا سمجھ رہے ہو۔ بے شک بات یوں ہے کہ جب بھی وہ آپس میں ٹکراتے ہیں تو فرشتے آسمان سے اُترتے ہیں اور لوگوں کو ان کے مقام (ومرتبہ) کے اعتبار سے لکھ لیا جاتا ہے (کہ ان میں سے) فلاں شخص دنیا کے لئے لڑرہا ہے اور فلاں حکومت کے لئے لڑرہا ہے اور فلاں اپنی ناموری کے لئے لڑ رہا ہے اور اسی طرح (ہر شخص اپنی نیت کے اعتبار سے لکھ لیا جاتا ہے) اور فلاں (ان میں سے) اللہ تعالیٰ (کی رضا جوئی) کے لئے لڑ رہا ہے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے (لڑتا ہوا) مارا گیا یہ مقتول جنت میں ہے۔
حدیث۱۰:انجام کا مدار نیت پر ہے
زہریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر بن الخطابؓ نبی کریمﷺکی مسجد میں تشریف لائے ایسی مجلس میں جہاں ایک ایسے لشکر کا تذکرہ ہو رہا تھا جو جہاد میں مارا گیا۔ بس لوگوں میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے آلۂ کار تھے۔ اس کے راستے میں مارے گئے بس ان کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لازم ہوگیا اور ایک (دوسرے) شخص نے کہا کہ ان کے (حال کے) بارے میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ان کے لئے وہی (بدلہ) ہے جس کی انہوں نے نیت کی۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے انہیں (بحث کرتے) دیکھا تو فرمایا:تم کیا بات کررہے ہو؟انہوں نے کہا: ہم ایک لشکر کے بارے میں بات کررہے ہیں اور بعض لوگ ان کے بارے میں یوں کہہ رہے ہیں اور دیگر بعض یوں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی قسم! بے شک کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا (کے مال ودولت) کی خاطر لڑتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو دکھلاوے اور شہرت کی خاطر لڑتے ہیں اور کچھ لوگ (اس وجہ سے) لڑتے ہیں کہ لڑائی ان پر اچانک آن پڑتی ہے اور ان کے پاس سوائے لڑنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا اور بے شک کچھ لوگ اللہ تعالیٰ (کی رضا جوئی) کے لئے لڑتے ہیں(صرف) یہی لوگ ’’شہدائ‘‘ ہیں اورہر ایک ان میں سے(قیامت کے دن) اپنی اسی نیت کے موافق اُٹھایا جائے گا جس پر (لڑتے ہوئے) مرا تھا اور بے شک بات یہ ہے کہ کوئی شخص (بھی) یہ نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا (معاملہ) کیا جائے گا۔ یہ شخص بھی (نہیں جانتا) جس کے بارے میں ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے گئے ہیں ۔
حدیث۱۱:مجاہد کے عمل کی افضلیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکو فرماتے سنا:
بے شک اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے ( کے عمل) کی مثال اور اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے کامجاہد ہے (یعنی کون خالص اس کی رضا جوئی کے لئے لڑنے والا ہے) اس شخص کی مانند ہے جو (برابر) نماز کے لئے کھڑا ہو۔ روزے سے رہے، ڈرنے والا ہو، رکوع اور سجدے کرنے والا ہو، (یعنی برابر ان اعمال میں لگا رہنے والا ہو)
حدیث۱۲:نیت میں ملاوٹ
طائوسؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺسے عرض کیا:’’میں جنگ کے میدان میں کھڑا ہوتا ہوں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا ارادہ کرتا ہوں اور (ساتھ ساتھ) یہ بھی پسند کرتا ہوں کہ میری لڑائی (اور استقامت) لوگ دیکھیں (اس عمل کا کیا حکم ہے؟؟)نبی کریمﷺنے اسے کوئی جواب نہ دیا تاوقتیکہ یہ آیت نازل ہوگئی:
ترجمہ: پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو (اسے چاہئے) وہ اچھے نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائے۔ (الکہف:110)
(یعنی ہر وہ نیت جو رضائے الٰہی سے ہٹ کر ہو عمل کو باطل کرنے والی ہے)۔
حدیث ۱۴:کوئی عمل بھی جہاد میں گزرے وقت کے برابر نہیں ہوسکتا
صبیح بن الحسن روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے ایک لشکر روانہ فرمایا،اس میں حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی تھے۔ پس لشکر چل پڑااور عبداللہ بن رواحہؓ رک گئے تاکہ نبی کریمﷺکے ساتھ نماز پڑھ لیں (پھر روانہ ہوکر لشکر میں جاملیں)جب نبی کریمﷺنماز پڑھ چکے تو عبداللہ بن رواحہؓ کو فرمایا:کیا آپ لشکر میں نہیں تھے؟انہوں نے عرض کیا:کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! (میں لشکر میں تھا) لیکن میں نے چاہا کہ آپﷺکے ساتھ نماز میں شریک ہولوں اور مجھے لشکر (کے پڑائو) کا مقام معلوم ہے بس شام کو روانہ ہوکر ان کے ساتھ جاملوں گا۔
نبی کریمﷺنے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم زمین پر جو کچھ ہے سب خرچ کر ڈالو ( تب بھی) ان کے (صبح) نکلنے کے اجر کو نہیں پاسکتے۔
حدیث ۱۵:اس امت کی رہبانیت جہاد ہے
معاویہ قرۃ فرماتے ہیں:یہ بات (ضرب المثل کے طور پر) کہی جاتی تھی کہ ہر امت کے لئے رہبانیت (زہد، ترک دنیا) ہے اور اس امت کی رہبانیت اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا ہے۔
حدیث۲۳:حوروں کی چمک اور خوشبو
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے، آپﷺنے فرمایا:جہاد میں ایک صبح یا ایک شام لگانا دنیا اور اس کے تمام تر ساز و سامان سے بہتر ہے اور جنت میں تم سے کسی کی ایک کمان یا ایک انسانی قد کے برابر جگہ دنیا اور اس کے تمام تر ساز و سامان سے زیادہ قیمتی ہے۔
اور اگر اہلِ جنت میں سے کوئی ایک عورت (حور) زمین پر جھانک لے تو (اس کی چمک سے) زمین و آسمان کا درمیانی حصہ جگمگا اُٹھے اور پوری زمین خوشبو سے بھر جائے اور اس (حور) کا دوپٹہ دنیا اور اس کے تمام تر سازو سامان سے زیادہ قیمتی ہے۔
حدیث۲۴:حوروں کی چمک اور خوشبو
سعید بن عامرؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:اگر (جنت کی) بہترین اور خوبصورت عورتوں (حوروں) میں سے کوئی ایک عورت (حور) آسمان سے جھانک لے تو اس کے جھانکنے سے زمین جگمگا اُٹھے اور اس کے چہرے کی چمک سورج اور چاند کی روشنی پر غالب آجائے اور وہ دوپٹہ جو وہ پہنتی ہے دنیا اور اس کے تمام تر سازو سامان سے قیمتی تر ہے اور پھر (سعید بن عامرؓ) اپنی بیوی سے فرمایا:
تو اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ میں تجھے ان (حوروں) کی خاطر چھوڑدوں بجائے اس کے کہ انہیں تیری خاطر چھوڑ دوں۔‘‘
حدیث۲۵:شہید کا جنت میں ایک کمرہ
المطلب بن حفطب فرماتے ہیں کہ شہید کا (جنت میں) ایک کمرہ صفاء (یمن) سے جابیہ (شام) کی مسافت جتنا طویل ہوگا۔ اس کا اوپری حصہ (یعنی چھت) موتیوں اور یاقوت کا بنا ہوگا اور درمیانی حصہ مشک اور کافور (کی خوشبو سے بھرا) ہوگا۔ پس اس کے پاس ملائکہ کی ایک جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ لے کر آئے گی اور ان کے نکلنے سے پہلے ہی فرشتوں کی ایک دوسری جماعت اللہ تعالیٰ کا ہدیہ لے کر آجائے گی۔
حدیث۲۶:جنت سے دنیا میں لوٹنے کی تمنا
انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ہاں خیر (جنت) پا لینے والا کوئی شخص بھی دنیا میں لوٹنے کو پسند نہیں کرے گا اگرچہ اس کے بدلے میں اسے پوری دنیا اور اس کا تمام تر سازو سامان دے دیا جائے سوائے شہید کے (کہ وہ لوٹنے کی تمنا کرے گا)کیونکہ شہید نے شہادت کی فضیلت دیکھی ہے اس لیے وہ تمنا کرے گا کہ دنیا میں لوٹے اور پھر بار بار (اللہ تعالیٰ کے راستے میں) قتل ہو۔
حدیث۲۷:آقا مدنیﷺکی تمنائے شہادت
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
اگر میری اُمت کے لیے (اس امر میں) دشواری نہ ہوتی (یا یوں فرمایا کہ لوگوں کے لیے دشواری نہ ہوتی) تو میں پسند کرتا کہ کسی بھی ایسے لشکر سے پیچھے نہ رہوں جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد پر نکل رہا ہو لیکن میں اتنی سواریاں نہیں رکھتا جن پر تمام لوگوں کو سوار کرکے (ساتھ)لے جاسکوں او ر نہ ہی سب لوگ اپنے پاس سواری (کی گنجائش) رکھتے ہیں اور ان کے لیے میرے (جانے کے بعد) پیچھے رہنا دشوار ہوگا۔ (راوی کہتے ہیں یااس سے ملتی جلتی کوئی بات فرمائی)اور میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کروں یہاں تک کہ قتل کردیاجائوں پھر زندہ کیا جائوںپھرقتل کیا جائوں پھر زندہ کیا جائوں پھر قتل کیا جائوں۔
حدیث۲۸:دس بار شہید ہونے کی تمنا
حضرت انس بن مالکؓ نبی کریمﷺکا ارشاد گرامی نقل فرماتے ہیں کہ:
جنت میں داخل ہوجانے کے بعد کوئی شخص بھی یہ نہیں چاہے گا کہ دنیا میں لوٹ آئے، اگرچہ اس کے عوض اسے زمین پر جو کچھ ہے سارے کا سارا دے دیا جائے سوائے شہید کے، بس بے شک وہ چاہے گا کہ دنیا میں لوٹے اور دس بار (اللہ تعالیٰ کے راستے میں) قتل کیا جائے۔
حدیث۲۹:مجاہد کے عمل کی مثال
نعمان بن بشیرؓ فرماتے ہیں:
مجاہد کے عمل (جہاد) کی مثال اس شخص (کے عمل) جیسی ہے جو دن میں روزہ رکھے اور رات کو (نماز میں) قیام کرے، یہاں تک کہ مجاہد لوٹ آئے جب بھی لوٹے۔
حدیث۳۰:راہِ جہاد کے غبار کی فضیلت
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے راستے (جہاد) کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک مؤمن کی ناک میں کبھی بھی جمع نہیں ہوسکتے۔
حدیث۳۱:جہاد اور جہادی سواری کی فضیلت عظیمہ
حضرت معاذبن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جنت کے (اعلیٰ) درجات پانے کے لیے فرض نماز کے بعد جہاد فی سبیل اللہ جیسا کوئی عمل نہیں ، جس میں (تھکاوٹ کی وجہ سے) کوئی چہرہ بے رنگ ہو یا قدم غبار آلود ہوں۔
اورمؤمن کے میزان (حسنات) میں اس جانور سے بھاری چیز کوئی نہیں جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں (دوران سفر) مرجائے یا (اس جانور سے بڑھ کر) جو سواری کے کام آئے۔
حدیث۳۲:جہاد میں پیادہ چلنے کااجر
ابو مصبح الحمصیؒ فرماتے ہیں کہ ہم سردی کے زمانے میں ملک روم میں جہاد کرنے والے ایک لشکر میں تھے جس کے امیر حضرت مالک بن عبداللہ خثمیؓ تھے، اچانک ہمارے پاس حضرت جابر بن عبداللہؓ پیادہ پااپنے خنجر کو کھینچتے ہوئے گزرے، حضرت مالکؓ نے ان سے کہا:
اے ابو عبداللہ!(حضرت جابر کی کنیت) آپ (خچر پر) سوار کیوں نہیں ہوتے؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سواری دی ہے۔
حضرت جابرؓ نے فرمایا:
میں اپنے خچر(کو آرام دے کر اس ) کی حالت کو درست کرتا ہوں اور اپنی قوم سے مستغنی ہوں (کہ ان سے سواری میں مدد طلب نہیں کرتا) اور میں نے رسول اللہﷺسے سنا ہے ، آپﷺنے فرمایا:
جس شخص کے پائوں میدان جہاد میں (پیدل چلنے کے سبب) غبار آلود ہوئے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ پر حرام کردیتے ہیں(لہٰذااس فضیلت کا حصول بھی پیدل چلنے میں پیش نظر ہے)
حضرت مالکؓ کو ان کی یہ بات بہت اچھی لگی، وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ وہ (حضرت مالکؓ) حضرت جابرؓ سے اتنے دور چلے گئے جہاں سے آواز سنائی دیتی ہے (یعنی جتنی دور سے آواز دی جاسکتی ہے) تو حضرت جابرؓ کو بلند آواز سے پکارا (اور کہا):
اے ابو عبداللہ! آپ (اپنے خچر پر) سوار کیوں نہیں ہوجاتے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سواری دی ہے؟
حضرت جابرؓ ان کی نیت کو سمجھ گئے (کہ وہ یہ حدیث تمام لشکر کو سنوانا چاہتے ہیں تاکہ سب لوگ اس فضیلت کو حاصل کرلیں، اس لیے دور جاکر پھر وہی سوال دہرایا ہے)
لہٰذا انہوں نے بھی بلند آواز میں جواب دیا:
میں اپنے خچر (کو آرام دے کر) اس کی حالت درست کرتا ہوں اور اپنی قوم (کی مدد سے) مستغنی ہوں اور میں نے رسو ل اللہﷺکو فرماتے ہوئے سنا:
جس بندے کے پائوں اللہ تعالیٰ کے راستے میں (پیدل چلنے سے) غبار آلود ہوئے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ پر حرام کردیتے ہیں۔
ابو مصبحؒ فرماتے ہیں:یہ سن کر لوگ اپنی سواریوں سے کود پڑے، پس میں نے اس دن سے زیادہ پیدل چلنے والوں کی تعداد کبھی نہیں دیکھی۔
حدیث۳۳:جہاد میں پیادہ چلنے کا اجر
ابو مصبح خثمیؒکہتے ہیں کہ ہم مالک بن عبداللہ خثمیؓ کے ساتھ ارضِ روم میں ایک جہاد میں تھے، ایک شخص (حضرت جابربن عبداللہؓ) لشکر سے آگے نکل گئے اور پھر اپنی سواری سے اُتر کر پیدل چلنے لگے۔
حضرت مالکؓ نے ان سے کہا:اے ابو عبداللہ! آپ سوار کیوں نہیں ہوجاتے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سواری دے رکھی ہے؟
انہوں نے فرمایا:
میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے:
جس بندے کے پائوں دن کی ایک گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلود ہوئے پس اللہ تعالیٰ یہ دونوں پائوں جہنم کی آگ پر حرام کردیتے ہیں۔
اور (ساتھ ساتھ) میں اپنے جانور (کو آرام دے کر) اس کی حالت درست کرتا ہوں تاکہ مجھے میری قوم سے بے نیاز رکھے (اور مجھے کسی اور سے سواری نہ مانگنی پڑے)
ابومصبحؒ کہتے ہیں کہ(یہ سن کر) لوگ سواریوں سے اُتر پڑے اور اس دن سے زیادہ (سواریوں سے اُتر کر) پیدل چلنے والے میں نے کبھی نہیں دیکھے۔
حدیث۳۴:جہاد میں دعاء کی قبولیت
مسروقؒ (تابعی) روایت کرتے ہیں کہ بندے کی کوئی حالت قبولیت دعاء کے لیے اس سے بڑھ کرنہیںکہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد میں ہو (اس حالت میں دعاء کی قبولیت) سجدے کی حالت میں جبین کو خاک پر رکھنے سے بھی (بڑھ کر ہے)۔
حدیث ۳۵:جہاد میں خوف… کفارۂ سیئات
حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں:
جب کسی بندے کا دل اللہ تعالیٰ کے راستے میں (دشمن کے خوف سے) کانپتا ہے تو اس کے گناہ (یوں) جھڑتے ہیں جیسے ٹہنیوں سے پتے جھڑتے ہیں
حدیث۳۶:معمولی جہاد بہت بڑےصدقے سے اجر میں بڑھ کر ہے
سعید بن ابی ہلالؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ بات سنی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے ایک بار (بہت بڑا مال) صدقہ کیا جس سے لوگ تعجب میں پڑگئے۔ یہاں تک کہ یہ بات نبی کریمﷺکے سامنے بھی ذکر کی گئی۔
نبی کریمﷺنے فرمایا:
کیا تمہیں عبدالرحمن بن عوفؓ کے صدقے نے تعجب میں ڈال دیا ہے؟(کہ تم اسے بہت بڑا عمل سمجھ رہے ہو) بے شک مہاجرین میں سے ایک نادار شخص کا راہِ جہادمیں کوڑا لہراتے ہوئے ایک شام لگانا ابن عوفؓ کے صدقے سے افضل ہے۔
حدیث۳۷:مجاہد کا عمل انتھک عبادت سے افضل ہے
حضرت ابوہریرہؓ نبی کریمﷺکا یہ ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں، آپﷺنے فرمایا:
(فضیلت میں) مجاہد (کے عمل) کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو روزے کی حالت میں (نماز میں) قیام کرے، نہ روزے کو قطع کرے اورنہ نماز کو، یہاں تک کہ مجاہد (اپنے گھر کو) لوٹ آئے۔
حدیث۳۸:چمکتے مہکتے زخم
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے،نبی کریمﷺنے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، نہیں زخمی ہوتا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں (اور اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں (اخلاص کے ساتھ قتال کرتے ہوئے) زخمی ہوتا ہے ، مگر یہ کہ وہ آئے گا اپنی اسی حالت میں قیامت کے دن (جس حالت میں زخمی ہوا تھا) رنگ تو خون کا ہوگا اور خوشبو مشک کی ہوگی۔
حدیث۳۹:مجاہد کے لیے دنیا وآخرت کی ضمانت
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں،نبی کریمﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے کے ہراس مجاہد کے لیے جو محض اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے کے جذبے سے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے نکلا ہو، اس بات کی ضمانت لی ہے کہ اسے (شہادت سے سرفرازکرکے) جنت میں داخل کرے یا اسے اس کے گھر جہاد میں حاصل شدہ اجر اور مال غنیمت کے ساتھ لوٹائے گا۔
حدیث۴۰:زخموں کے تحفے
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ہر زخم جومسلمان کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے پہنچتا ہے، قیامت کے دن (بالکل تروتازہ) اسی حالت میں ہوگا جس دن لگایا گیا۔ اس سے خون بہہ رہا ہوگا، پس اس (خون) کا رنگ توخون جیسا ہوگا اور خوشبو مشک کی ہوگی۔
حدیث۴۱:میدان جہاد سے فرار… اللہ تعالیٰ سے بغاوت
حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا:
حد درجہ جرأتمند ہے وہ شخص جو دشمن کے مقابلے سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے اور حد درجہ خائف ہے وہ شخص جو دشمن کے مد مقابل آنے پر اس پر ٹوٹ پڑے۔ یہاں تک کہ اسے اللہ تعالیٰ جو چاہے وہ حالت پیش آجائے (شہید ہوجائے یا فتحیاب)
عرض کیا گیا: اے ابوہریرہؓ! یہ (بظاہر اُلٹی بات) کس طرح؟؟
حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا:
بے شک جو شخص بھاگ کھڑا ہوااس نے اللہ تعالیٰ (کی نافرمانی) پر جرأت کرلی (اس لیے دلیر ہوا کہ چھوٹی اور جھوٹی طاقت سے بھاگ کر بڑی طاقت والے رب کی ناراضگی مول لے لی) اورخائف (جولڑتا رہا) وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرگیا۔
حدیث۴۲:شہداء اللہ تعالیٰ کے خاص اولیاء ہیں
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بادلوں کے جھرمٹ میں نزول فرمائیں گے اور فرشتے بھی، پھر کوئی آواز لگائے گا:
’’جمع ہونے والے سب لوگ جان لیں گے کہ آج کے دن بزرگی کس کے لیے ہے۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:
میرے ان دوستوں کو حاضر کرو جنہوں نے میری رضا جوئی کے لیے اپنے خون بہائے۔
پس وہ (شہدائ) نکل آئیں گے اور (عرش کے) قریب آجائیں گے۔
حدیث۴۳:اللہ تعالیٰ کی خاطرتکلیفیں اُٹھانے والے
حضرت معاذبن جبلؓ فرماتے ہیں:(قیامت کے دن) پکارنے والا پکارے گا:کہاں ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں تکلیفوں سے دوچار ہوئے؟ (وہ الگ ہو جائیں ) (یہ آواز سن کر) پس مجاہدین کے علاوہ کوئی کھڑا نہیں ہوگا (صرف وہی آگے بڑھیں گے)
حدیث۴۴:کمزور دل کے لیے جہاد وانفاق میں بڑا اجر
ابو عمران الجونیؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا:جب ایک بہادر اور ایک کمزور دل آدمی جہاد کریں تو ان میں زیادہ اجر کمزور دل والے کو ملتا ہے۔
اور ایک کنجوس اور ایک سخی آدمی صدقہ کریں تو زیادہ اجر ان میں سے کنجوس کو ملتا ہے۔ (کیونکہ اس کے نفس پر یہ اعمال بہادر اور سخی سے زیادہ شاق گزرتے ہیں)
حدیث۴۵:شہداء میدان حشر میں بے ہوشی سے مامون ہوںگے
حضرت سعید بن جبیرؒ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’اور صور پھونکا جائے گا تو بے ہوش ہوجائے گا ہر ایک جو زمین میں ہے اور آسمان میں مگر وہ جنہیں اللہ چاہے‘‘ (وہ بے ہوش نہ ہوںگے)کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’ وہ لوگ (جو بے ہوش نہ ہوںگے) شہداء ہوںگے، وہ اللہ تعالیٰ کے (اس بے ہوشی سے) مستثنیٰ کئے ہوئے لوگ ہیں۔ عرش کے ارد گرد تلواریں سونتے کھڑے ہوںگے۔
حدیث۴۶:سب سے پہلے جنت و جہنم میں داخل ہونے والے
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا:
مجھ پر جنت میں سب سے پہلے داخل کئے جانے والے تین لوگ پیش کئے گئے اور جہنم میں سب سے پہلے داخل کئے جانے والے تین لوگ بھی۔
جو تین لوگ جنت میں سب سے پہلے داخل کئے جائیں گے (وہ یہ ہیں)
(۱) شہید (۲) وہ غلام شخص جو اپنے رب کی اچھی طرح عبادت کرے اور اپنے آقا کی بھی خیر خواہی کرے (۳) پاکدامن اور کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرنے والا عیال دار آدمی۔
اور جوتین لوگ سب سے پہلے جہنم میں ڈالے جائیں گے (وہ درج ذیل ہیں)
(۱) زبردستی حاکم بننے والا (۲) وہ مالدار جو اپنے مال کے حقوق ادا نہ کرے (۳) ایسا مفلس جو متکبر ہو۔
حدیث۴۷:تین پسندیدہ اور تین ناپسندیدہ اشخاص
ابو الاحمسؒ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی کہ حضرت ابو ذرؓ فرماتے ہیں:
تین لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں اور تین کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے ہیں۔
(ابو الاحمسؒ) کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو ذرؓ سے ملا اور ان سے عرض کیا:اے ابوذرؓ!مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے ایک روایت کرتے ہیں۔میرا دل چاہتا ہے کہ خود آپ سے وہ سنوں۔
انہوں نے فرمایا:کون سی (روایت)؟
میںنے عرض کیا:تین لوگ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرماتے ہیں اور تین لوگوں کو ناپسند فرماتے ہیں (اس مضمون کی روایت) ابو ذرؓ نے فرمایا:(ہاں) میں نے یہ بات بیان کی ہے اور اس نے اسے رسول اللہﷺسے سنا ہے۔
میں نے عرض کیا:وہ تین لوگ کون سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں؟
انہوں نے فرمایا:(۱) ایک وہ شخص جو کسی لشکر میں تھا اس کے ساتھی بکھر گئے مگر اس نے اپنے آپ کو میدان میں جمائے رکھا اور اپنی جان قربانی کے لیے پیش کردی (پھر) وہ قتل کردیا گیا یا اللہ تعالیٰ نے اسے فتح عطاء فرمادی۔
اور (دوسرا) وہ شخص جو کسی قوم کے ساتھ سفر میں تھا، انہوں نے طویل سفر کیا اور (تھکاوٹ کی وجہ سے) انہیں اچھا لگا کہ زمین پر لیٹ جائیں (یعنی کچھ آرام کرلیں) پس انہوں نے پڑائو کرلیا (اور) یہ شخص ان سے کچھ دور ہوکر (ان کی حفاظت کے لیے) کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو (آگے) سفر کے لیے جگایا۔
اور (تیسرا) وہ شخص جس کا پڑوسی براآدمی تھا۔ اس (شخص) نے اس کی (طرف سے پیش آمدہ) تکلیفوں پر صبر کیا۔ یہاں تک کہ موت یا ترک سکونت نے ان کے درمیان جدا ئی کردی (یعنی دونوں میں کوئی ایک مرگیا یا اس علاقے سے کوچ کرگیا)
یہ تین لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں۔
(ابو الاحمسؒ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا:وہ تین لوگ کون سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتے ہیں؟
ابو ذرؓ نے فرمایا:بہت قسمیں کھانے والا بیوپاری (تاجر ) احسان جتلانے والا کنجوس اور متکبر فقیر۔
حدیث۴۸:افضل ترین شہداء
یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے نبی کریمﷺنے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے فضیلت والے شہداء وہ ہیں جو صف آراء ہوکر دشمن کے مدمقابل آئے اور پھر (کسی طرف) اپنا رخ نہ پھیرا، یہاں تک کہ قتل کردئیے گئے۔ یہ لوگ جنت کے بالا خانوں میں خوش عیشی کریں گے اور تیرا رب ان کے لیے مسکرائے گا اور بے شک تیرارب جس کے لیے مسکرائے اس کے لیے کوئی حساب نہیں(یعنی وہ بلاحساب جنت میں داخل ہوگا)
حدیث۴۹:افضل ترین شہداء
عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
کیا میں تمہیں مرتبے کے اعتبار سے سب سے افضل شہداء کا نہ بتائوں (کون لوگ ہیں؟)
یہ وہ لوگ جو صف آراء ہوکر دشمن کے مدمقابل آتے ہیں۔ جب دشمن سے آمنا سامنا ہوجائے تو دائیں بائیں متوجہ نہیں ہوتے (ہمہ تن قتال میں مشغول رہتے ہیں) اپنی تلواریں کندھوں پر رکھے ہوئے (ہوتے ہیں) اور اس وقت دعا میں یہ کہتے ہیں:
اے اللہ! میں نے پچھلی زندگی میں جو کچھ کیا اس کے بدلے میں آج اپنی جان پیش کرتا ہوں۔
پھر (اسی طرح لڑتے ہوئے) شہید کردیے جاتے ہیں۔ پس یہ وہ شہداء ہیں جو جنت کے بالا خانوں میں عیش آرام سے رہیں گے جہاں چاہیں گے۔
حدیث ۵۰:سب سے زیادہ فضیلت والا شہید
ھزاز بن مالک کہتے ہیں کہ مجھے حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اے ہزاز! کیا میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت کے دن سب سے زیادہ فضیلت والا شہید نہ بتائوں؟
میں نے عرض کیا: ضرور بتائیں۔
حضرت کعبؓ نے فرمایا: جو اجر و ثواب کی امید پر اپنی جان قربان کردے۔پھر فرمایا:
اے ہزاز بن مالکؓ! کیا میں تمہیں وہ شخص بتائوں جو (اجر وثواب میں) ان کے قریب ہے؟
میں نے عرض کیا ضرور بتائیں۔فرمایا:
(وہ شخص) جو سمندر میں ڈوب جائے۔
پھر (حضرت کعبؓ نے) نے فرمایا:
کیا میں تمہیں جمعہ پڑھنے والوں میں سب سے کم اجر پانے والے شخص کے بارے میں نہ بتائوں؟
میں نے عرض کیا ضرور بتائیں۔فرمایا:
جس نے صرف آخری رکعت پائی یا یوں فرمایا جس نے صرف آخری سجدہ پایا۔
پھر (حضرت کعبؓ) نے فرمایا:
خدا کی قسم! لوگ قیامت کے دن نہیں دیکھ پائیں گے شہداء (کے مقام) کی طرف مگر اس طرح اور (یہ کہہ کر) اپنی نگاہ آسمان کی طرف اُٹھائی۔
حدیث۵۱:سب سے افضل مجاہد
عبداللہ بن عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
رسول اللہﷺسے پوچھا گیا:یارسول اللہﷺ!
سب سے افضل جہاد (کرنے والا مجاہد) کون سا ہے؟
رسول اللہﷺنے فرمایا:
جس کے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں اور (خود) اس کا خون بہا دیا جائے۔
حدیث۵۲:شہداء اللہ تعالیٰ کے امان یافتہ بندے
خالد بن معدان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا:
شہداء اللہ تعالیٰ کے اماں یافتہ بندے ہیں، (خواہ میدان جنگ میں) قتل کئیے جائیںیا انہیں اپنے بستروں پر موت آئے ( یعنی شہادت کی سچی نیت اور تڑپ رکھنے والے کو اگر بستر پر بھی موت آئے تب بھی وہ مقام شہادت سے سرفراز ہوتا ہے اور شہید کے فضائل پاتا ہے)
حدیث۵۳:حضرت خالد بن ولیدؓ کا شوقِ شہادت
ابو وائلؒ کہتے ہیں:جب حضرت خالد بن ولیدؓ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو انہوں نے فرمایا:
’’میں نے موت (شہادت) کو اس کے ہر مکان میں ڈھونڈا لیکن میرے مقدر میں یہی بات تھی کہ میں اپنے بستر پر مروں (سو وہی ہوکر رہا) اور میرے اعمال میں میرے نزدیک کلمہ لا الہ الا اللہ (ایمان) کے بعد اس رات سے بڑھ کر (اجروثواب کی) امید والی کوئی چیز نہیں جو (رات) میں نے اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کندھے پر کمان لٹکاکر گزاری اس حال میں کہ آسمان مجھ پر پانی برسا رہا تھا (یعنی بارش بھی تھی) ہم صبح کے منتظر تھے تاکہ دشمن پر اچانک ٹوٹ پڑیں۔‘‘
پھر (حضرت خالد بن ولیدؓ نے) فرمایا:
’’جب میرا انتقال ہوجائے تو میرا اسلحہ اور گھوڑے بچا رکھنا (میراث میں تقسیم نہ کرنا) اور اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد میں لگادینا۔‘‘
جب حضرت خالد بن ولیدؓ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عمرؓ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے نکلے اور راوی (ابو وائلؒ) نے آپ کا یہ قول نقل کیا، آپؓ نے فرمایا:
ابو الولیدؓ قبیلہ بنو مخزوم کی عورتوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ حضرت خالد بن ولیدؓ پر روئیں۔ بشرطیکہ آواز بلند نہ کریں اور سر پر خاک نہ ڈالیں۔
حدیث۵۴:حضرت عکرمہؓ بن ابو جہل کا شوقِ شہادت
ثابت البنانیؒ کہتے ہیں کہ عکرمہؓ ایک بار (میدانِ جنگ میں) دشمن پر حملے آور ہوئے۔حضرت خالدؓ نے ان سے فرمایا:
’’آپ ایسا نہ کریں، آپ کا شہید ہونا مسلمانوں پر بھاری گزرے گا۔‘‘
عکرمہؓ نے فرمایا:
’’اے خالد! مجھے چھوڑ دیجئے، آپ کا تو نبی کریمﷺکے ساتھ (جنگوں میں) کافی وقت گزرا (جس سے آپ کے ماضی کی تلافی ہوگئی) جبکہ میں اور میرا والد نبی کریمﷺکے سخت ترین دشمن تھے (اور مجھے آپﷺکی حیات مبارکہ میں اس کی تلافی کا موقع بھی نہ ملا، اب شہادت پاکر اس کی تلافی کرنے کا ارادہ ہے) (یہ کہہ کر) وہ (دشمن کی طرف) چل پڑے، یہاں تک کہ شہید کر دئیے گئے۔
حدیث ۵۵: عکرمۃ رضی اللہ عنہ سے متعلق نبی کریمﷺکا خواب
عبدالرحمن بن الحارثؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ابوجہل میرے پاس آیا اور مجھ سے بیعت کرلی…‘‘
جب حضرت خالد بن ولیدؓ اسلام لائے تو لوگوں نے کہا:
’’یارسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کا خواب سچا کر دکھایا، وہ (خواب) خالد بن ولیدؓ کے اسلام سے متعلق تھا۔‘‘
رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’وہ اس کے علاوہ ہوگا۔‘‘ (یعنی وہ کسی اور کے اسلام لانے سے متعلق ہے)
یہاں تک کہ عکرمہؓ نے اسلام قبول کرلیا۔ یہی نبی کریمﷺکے خواب کا مصداق تھا۔
حدیث۵۶:عکرمہ رضی اللہ عنہ کا عشق قرآن
ابن ابی ملیکہؒ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عکرمہؓ جب قرآن مجید کو اٹھاتے تو اسے اپنے چہرے سے لگاتے اور خوب روتے اور فرماتے:
’’یہ میرے رب کی کتاب ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔‘‘
حدیث۵۷:بد دعاء سے بچ جانے والے خوش نصیب
حضرت سالم بن عبداللہؓ سے پوچھا گیا:
قرآن مجید کی آیت ’’لیس لک من الامرشئی‘‘ (الآیۃ)
کن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی؟…
انہوں نے فرمایا:
’’نبی کریمﷺصفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے لیے بد دعاء فرمایا کرتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
ترجمہ: تیرا کوئی اختیار نہیں ہے اللہ تعالیٰ خواہ انہیں توبہ کی توفیق دے یا انہیں عذاب کرے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔
حدیث:۵۸
حضرت سالمؓ اپنے والد (عبداللہ بن عمرؓ) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے نبی کریمﷺکو فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے سر اٹھا کر (قومہ میں) ’’سمع اللہ لمن حمدہ اور ’’ربنا لک الحمد‘‘ کہنے کے بعد یہ فرماتے سنا:
اے اللہ! فلاں پر لعنت فرما اور فلاں پر (یعنی مخصوص کفار کا نام لے کر ان پر لعنت فرمائی) بس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
ترجمہ: تیرا کوئی اختیار نہیں ہے اللہ تعالیٰ خواہ انہیں توبہ کی توفیق دے یا انہیں عذاب کرے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔
حدیث ۵۹:جنت سے باہر جنت کے مزے
ابن جریجؒ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان…
ترجمہ : جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے(اٰل عمران ، ۱۶۹ )
کی تفسیر میں نقل کیا گیا ہے کہ شہداء کو جنت کے پھلوں سے رزق دیا جائے گا اور وہ جنت کی خوشبو پائیں گے، حالانکہ وہ جنت میں نہ ہوں گے۔(یعنی جنت میں ان کا داخلہ قیامت کے بعد ہوگا۔ فی الحال وہ جنت سے باہر رہ کر جنت کی مہمانی کے مزے لوٹتے ہیں)
حدیث۶۰:ایک نعمت میں ہر نعمت کا مزا
حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
شہداء جنت کے باہر (قریب) واقع باغات میں گنبدوں میں مقیم ہوںگے۔ ان کے لیے ایک مچھلی اور بیل کو بھیجا جائے گا جو باہم (اٹکھیلیاں کرتے ہوئے) لڑ رہے ہوں گے۔ شہداء ان سے کھیلیں گے، پھر جب انہیں کھانے کی طلب ہوگی، ان (مچھلی اور بیل) میں سے ہر ایک دوسرے کو گرادے گا (وہ پکا پکایا پیش ہوجائے گا) شہداء اس کا گوشت کھائیں گے تو اس کے گوشت میں جنت کے ہر کھانے کا مزا پائیں گے اور مچھلی کے گوشت میں جنت کے ہر مشروب کا ذائقہ (پا لیں گے)۔
حدیث۶۱:سبز پرندوں کی سواری
حضرت کعبؓ سے روایت ہے:جنت الماوٰی میں سبز رنگ کے پرندے ہوںگے جن میں شہداء کی ارواح (جنت میں) گھومتی پھرتی (کھاتی پیتی) پھریں گی۔
حدیث۶۲:اُمت کے نام شہداء اُحد کا پیغام
ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:’’جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید کردیے گئے، اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو سبز پرندوں کے پیٹ میں سوار کر دیا۔ یہ (شہداء کی ارواح) جنت کی نہروں پر آتے ہیں اور جنت کے پھل کھاتے ہیں اور عرش کے سائے میں (معلق) سونے کے فانوسوں میں ٹھہرتے ہیں۔ پس جب ان شہداء نے بہترین کھانا پینا پا لیا اور اپنا بہترین انجام دیکھ لیا تو (باہم) کہنے لگے:
’’کاش! ہمارے (دنیا میں رہ جانے والے) بھائیوں کو علم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا کیسا اکرام کیا اور (وہ جان لیں) ہم کس حال میں ہیں تاکہ وہ جہاد میں بے رغبتی نہ دکھائیں اور جنگ کے وقت بزدلی کا مظاہرہ نہ کریں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے (ان کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے) فرمایا:میں ان لوگوں کو تمہاری طرف سے (یہ بات) پہنچا دیتا ہوں، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
ترجمہ: جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے(اٰل عمران ، ۱۶۹ )
حدیث۶۳:شہداء لوگوں کا اپنے جسم کے ساتھ معاملہ دیکھتے ہیں
حیان بن ابی حیلۃ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’جب کوئی شخص شہید ہوجاتا ہے توا للہ تعالیٰ اس کے لیے ایک بہت خوبصورت جسم پیدا فرماتے ہیں، پھر اس کی روح کو حکم فرماتے ہیں، وہ اس جسم میں داخل کردی جاتی ہے۔پس وہ (شہید کی روح) دیکھتی ہے، اپنے اس (پرانے) جسم کی طرف کہ اس کے ساتھ (لوگوں کی طرف سے) کیا معاملہ کیا جاتا ہے اور وہ دیکھتی ہے اس (جسم) کے ارد گرد کہ کون اس پر غمگین ہوتا ہے۔ پس اسے گمان ہوتا ہے کہ لوگ اسے سن یا دیکھ رہے ہیں تو وہ اپنی بیویوں (حورعین) کی طرف چلا جاتا ہے۔‘‘
حدیث۶۴:شہداء بیر معونہ
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:
’’بیر معونہ میں شہید ہونے والوں کے بارے میں قرآن مجید (کی آیت) نازل ہوئی جسے ہم پڑھتے رہے پھر وہ منسوخ ہوگئی۔‘‘
ترجمہ:ہماری قوم کو ہماری جانب سے پیغام پہنچادو کہ ہم نے اپنے رب سے ملاقات کی، پس وہ ہم سے راضی ہوا اور ہم اس سے راضی ہوئے۔
حدیث۶۵:حنین کے دن استقامت کا انعام
قاسمؒ اور حکمؒ سے روایت ہے کہ حارثہ بن نعمانؓ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے، آپﷺاس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام سے بات فرما رہے تھے، (اس لیے) وہ (حارثہ بن نعمانؓ) بغیر سلام کیے (مجلس میں) بیٹھ گئے۔
جبرئیل علیہ السلام نے کہا:’’یارسول اللہ! اگر یہ (حارثہ) سلام کرتے تو ہم انہیں ضرور جواب دیتے۔‘‘
نبی کریمﷺنے فرمایا:’’کیا آپ انہیں جانتے ہیں؟‘‘
جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا:
’’جی ہاں!یہ ان اسّی (۸۰) اصحاب میں سے ہیں جو حنین کے دن آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے۔ ان کا اور ان کی اولادوں کا رزق اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے جنت میں۔‘‘
حدیث ۶۶:اللہ کے راستے میں قتل اور موت کا اجر برابر
سلامان بن عامرالشعبانیؒروایت فرماتے ہیں کہ وہ سمندری جہادمیں حضرت فضالۃ بن عبیدؓکے ساتھ دو جنازوں میں شریک ہوئے۔
ان میں سے ایک منجنیق (کا گولہ لگنے) سے قتل ہوا تھا اور دوسرا (طبعی) موت مرا تھا۔
حضرت فضالۃؓ طبعی موت مرنے والے کی قبر پر جا بیٹھے، ان سے کہا گیا کہ آپ نے شہید (کی قبر) کو کیوں چھوڑ دیا اور اس کے پاس نہیں بیٹھے؟
حضرت فضالۃؓ نے فرمایا:
’’خدا کی قسم! مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں ان دو قبروں میں سے کس سے (قیامت کے دن) اُٹھایا جائوں۔(یعنی میرے خیال میں یہ دونوں قبر میں برابر ہیں) بے شک اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ:اورجنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی پھر قتل کیے گئے یامرگئے ضرور انہیں اللہ تعالیٰ اچھا رزق دے گا اور بے شک اللہ تعالیٰ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ، ضرور انہیں ایسی جگہ پہنچائے گا جسے پسند کریں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا بردبار ہے۔(سورۂ حج:آیت ۵۸،۵۹)
پس اے بندے تجھے اور کیا چاہیے جب تجھے پسندیدہ جگہ پر داخل کردیا جائے اور بہترین رزق تجھے دے دیا جائے۔
خدا کی قسم! مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ (قیامت کے دن) ان دو قبروں میں سے کس سے اُٹھایا جائوں۔
حدیث۶۷:اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہر طرح کی موت ’’شہادت‘‘ ہے
یحییٰ بن ابی کثیرؒ سے روایت ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا:جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھر بار سے جدا ہوتے ہوئے اپنا پائوں (سواری کی) رکاب میں رکھا پھراسے کسی زہریلے کیڑے نے ڈس لیا اور اس کی سواری نے اسے گرا کر مار ڈالا یا کسی بھی طرح کی موت مارا گیا، وہ شہید ہے۔
حدیث۶۸:اجر بحساب نیت
حضرت عتیک بن الحارثؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺحضرت عبداللہ بن الحارثؓ کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ ان پر غشی طاری تھی، نبی کریمﷺنے انہیں (زور سے) پکارا، انہوں نے جواب نہیں دیا،رسول اللہﷺنے ’’اناللّٰہ واناالیہ راجعون‘‘ پڑھا اور فرمایا:
’’اے ابوالربیع!تمہارے معاملے میں ہم بے بس ہوگئے۔(یہ سن کر)عورتیںچیخنے لگیںاورروپڑیں۔
حضرت جابر بن عتیکؓ انہیں خاموش کرانے لگے۔
رسول اللہﷺنے فرمایا:انہیں چھوڑ دو (رونے دو) ہاں جب بات ثابت ہوجائے تو کوئی رونے والی نہ روئے ۔
انہوں نے پوچھا:یارسول اللہ! ثابت ہوچکنے کا کیا معنی؟
آپﷺنے فرمایا:جب موت آجائے(یعنی جب ان کی وفات یقینی ہوجائے) اس وقت کوئی نہ روئے، فی الحال غشی کی کیفیت میں تھے۔
عبداللہ بن الحارث ؓکی بیٹی نے کہا:خداکی قسم!مجھے اُمید ہے کہ آپ شہید ہیںکیونکہ آپ نے اپنی تیاری پوری کرلی تھی۔
رسول اللہﷺنے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے ان کا اجر ان کی نیت کے حساب سے لکھ دیا ہے۔
اور (فرمایا) تم شہادت کسے سمجھتے ہو؟
لوگوں نے عرض کیا:اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کو۔
رسول اللہﷺنے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل (ہونے والے) کے علاوہ بھی سات لوگ شہید ہیں۔
پیٹ کی بیماری میں مرجانے والا شہید ہے۔
ڈوب کر مرجانے والا شہید ہے۔
چوٹ لگنے سے مرجانے والا شہید ہے۔
بوجھ کے نیچے دب کر مرجانے والا شہید ہے۔
جل کر مرجانے والا شہید ہے۔
اور ولادت کے وقت مرجانے والی عورت شہید ہے۔
حدیث۶۹:آخرت کے شہداء
طارق بن شہابؒ کہتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے سامنے شہداء کا تذکرہ کیا، پس کہا گیا: فلاں شخص فلاں دن قتل ہوااور فلاں شخص فلاں دن قتل ہوا۔ (یعنی صرف مقتولین کا ذکر آیا) حضرت عبداللہؓ نے فرمایا: اگر تمہارے خیال میں شہداء صرف قتل ہونے والے ہی ہیں تو تمہارے شہداء بہت کم ہیں۔
بے شک جو شخص پہاڑ سے لڑھک جائے اور جو پانی میں ڈوب جائے اور جسے درندے کھاجائیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہداء ہیں۔ (یعنی آخرت میں انہیں شہداء کا اجر ملے گا)
حدیث۷۰:مجاہد کے ایک دن کی فضیلت
صفوان بن سلیمؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا:
کیا تم میں سے کوئی شخص یہ استطاعت رکھتا ہے کہ (نماز کے لیے) ہمیشہ قیام کرے اور اسے قطع نہ کرے اور روزہ رکھے اور اسے کبھی افطار نہ کرے جب تک زندہ رہے؟
ان سے عرض کیا گیا:
اے ابوہریرہؓ! کون اس کی استطاعت رکھ سکتا ہے؟ (ایسا کس طرح ممکن ہے)
حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا:
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، بے شک مجاہد کا اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن اس (زندگی بھر کی عبادت) سے بھی افضل ہے۔
حدیث۷۱:مجاہد کے ایک دن کی فضیلت
عبدالاعلیٰ بن ہلال اسلمیؒ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفانؓ نے اپنی قوم سے فرمایا: خدا کی قسم! یہ بات واضح ہوگئی کہ میں نے تمہیں جہاد (پرجانے سے) روکے رکھا یہاں تک کہ مجھ پر بھی لازم ہوگیا اور تم پر بھی (کہ ہم جہاد پر نکل کھڑے ہوں) پس (اب) تم میں سے جو چاہے وہ (جہاد کے لیے) شام چلا جائے جو عراق جانا پسند کرے وہ بھی چلا جائے اور جو مصر جانا پسند کرے وہ بھی ایسا کر گزرے(کیونکہ) بے شک اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص کا ایک دن روزے دار کے (ایسے) ہزار دنوں سے افضل ہے جن میں وہ افطار نہ کرے (برابر روزہ رکھے) اور نماز پڑھنے والے کے ایسے ہزار دنوں سے بھی جن میں وہ برابر نماز پڑھتا رہے۔
حدیث۷۲:مجاہد کے ایک دن کی فضیلت
حضرت عثمانؓ کے غلام ابوصالحؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے مسجد خیف (منیٰ) میں (لوگوں سے) فرمایا:
اے لوگو! بے شک میںنے نبی کریمﷺسے ایک حدیث سنی ہے جو میں نے تم سے چھپائے رکھی تم پر بخل کرتے ہوئے (کہ تم سب اسے سن کر مجھے اکیلا چھوڑ کر نکل نہ جائو) اور اب مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں تمہاری خیر خواہی کے لیے اسے ظاہر کردوں۔
میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا:اللہ تعالیٰ کے راستے (جہاد) میں ایک دن (گزارنا) اس کے علاوہ (دیگر کاموں) میں ایک ہزار دنوں سے افضل ہے۔
بس اب تم سے ہر شخص اپنے لیے بہتر فیصلہ کرلے۔
حدیث۷۳:صحابہ کرامؓ کامحبوب ترین عمل ’’جہاد‘‘
حضرت ضحاکؒ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’کتب علیکم القتال‘ ‘(الآیۃ)ترجمہ:لڑائی تم پر فرض کردی گئی اور وہ تمہیں ناپسند ہے۔
کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
آیت قتال نازل ہوئی، صحابہ کرامؓ کو یہ عمل(قتال) دشوار لگا،پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل قتال کا ثواب، اہل قتال کی فضیلت اور اہل قتال کے لیے جو (خاص قسم کی) زندگی اور رزق تیار کیا ہے (ان چیزوں) کو بیان فرمایا تو اہل ایمان جہاد پر کسی عمل کو ترجیح نہ دیتے تھے۔ پس وہ جہاد سے محبت کرنے لگے اور انہیں جہاد کی رغبت ہوگئی، یہاں تک کہ وہ نبی کریمﷺسے اپنے لیے (جہاد میں جانے کی خاطر) سواری مانگتے تھے (اور اگر) نبی کریمﷺکے پاس انہیں دینے کے لیے سواری نہ ہوتی تو اس حال میں گھروں کو لوٹتے تھے کہ ان کی آنکھیں اس غم کی وجہ سے بہہ رہی ہوتی تھیں کہ ان کے پاس اتنا مال نہیں جسے وہ (اپنی سواری خریدنے پر) خرچ کرلیتے۔
اور (ضحاکؒ نے فرمایا)جہاد اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔
حدیث۷۴:مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے لڑنا
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’ومالکم لاتقاتلون فی سبیل اللّٰہ والمستضعفین‘‘ (النسائ)
(ترجمہ: اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم نہیں لڑتے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے) کو
ترجمہ: کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جائو گے حالانکہ تمہیں وہ( حالات ) پیش نہیں آئے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلادئیے گئے۔
پس جب غزوۂ احزاب کے موقع پر لشکر سامنے آئے اور مؤمنین نے انہیں دیکھا تو کہا:
یہ تو وہی چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا۔
اس فرمان کے مطابق (جو سورۃ بقرہ میں گزرا تھا) کہ تم نے کیا گمان کرلیا کہ جنت میں داخل کردیئے جائو گے؟ (یعنی اس طرح بڑے لشکر کا مدمقابل آنا وہی امتحان ہے جس کے بغیر میں داخلہ کے گمان سے روکا گیا ہے اس لئے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فرمان سچ ثابت ہوا اور امتحان کی وہ گھڑی آگئی جس میں ایمان کو جانچا جائے گا)
====================================
عبداللہ بن مبارک (م181ھ)
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ زمرۂ تبع تابعین کے گلِ سرسید ہیں، ان کی زندگی اسلام کا مکمل نمونہ اور اس کی چلتی پھرتی تصویر تھی، ان کا جذبۂ دینی اور شوقِ جہاد ان کی فیاضی اور نرم خوئی، دنیا سے بے رغبتی اور احساسِ ذمہ داری اور اس کے سوانح حیات کے جلی عنوانات ہیں، ان کے ہاتھ میں کوئی مادی طاقت نہیں تھی؛ مگرانہی اخلاقی صفات کی وجہ سے اسلامی مملکت کے ہرفرد کے دل پران کی حکمرانی تھی، ایک بار وہ رقہ آئے، پورا شہر ان کی زیارت کے لیے ٹوٹ پڑا، اتفاق سے ہارون رشید اپنے خدم وحشم کے ساتھ وہاں موجود تھا، محل سے اس کی بیوی یااس کی لونڈی یہ تماشا دیکھ رہی تھی، اس نے پوچھا کہ یہ ہجوم کیسا ہے، لوگوں نے بتایا کہ خراساں کے عالم عبداللہ بن مبارک آئے ہوئے ہیں، یہ انہی کے مشتاقانِ دید کا ہجوم ہے، اس نے بے ساختہ کہا کہ حقیقت میں خلیفۂ وقت یہ ہیں نہ کہ ہارون رشید کہ اس کے گرد پولیس اور فوج کی مدد کے بغیر کوئی مجمع نہیں ہوتا۔
نسب
عبداللہ بن مبارک کے والد مبارک ایک شخص کے غلام تھے، ان کی شادی اسی کی لڑکی سے ہوئی تھی، اس وقت تک اسلامی معاشرہ میں عہد سعادت کے آثار باقی تھے، اس لی نسبت نکاح کا معیار حسب ونسب نہیں لکہ لڑکے کی صلاحیت اور اس کا دین وتقویٰ ہوتا تھا، مبارک چونکہ اس حیثیت سے ممتاز تھے، اس لی آقا نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی؛ گواس کی نسبتیں دوسری بڑی بڑی جگہوں سے بھی آرہی تھیں، مبارک کی جن خصوصیات کی بناپریہ شادی ہوئی، مختصراً ہم اس کا تذکرہ کرتے ہیں:
مبارک نہایت دیانت دار ومحتاط شخص تھے، آقا ان کے سپرد جوکام کرتا تھا اس کووہ نہایت دیانت داری اور اطاعت شعاری کے ساتھ انجام دیتے تھے، آقا نے باغ کی نگرانی ان کے سپرد کردی تھی، ایک بار اس نے اُن سے کہا کہ ایک ترش انار باغ سے توڑلاؤ، وہ گئے اور شیریں انار توڑلائے، اس نے دوبارہ اُن سے شیریں انار لانے کے لیے کہا تووہ پھرترش ہی انار توڑ لائے، آقا نے غصہ میں کہا؛ تمھیں ترش وشیریں انار کی بھی تمیز نہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس نے وجہ پوچھی توبتایا کہ آپ نے مجھے ترش انار کھانے کی اجازت تودی نہیں ہے، اس لیے میں اس کوکیسے پہچان سکتا ہوں، اس نے تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ بات صحیح ہے، مبارک کی اس غیرمعمولی دیانتداری اور حق شناسی کا اس پربہت بڑا اثر پڑا اور وہ ان کی بہت قدرومنزلت کرنے لگا۔
مبارک کے آقا کی ایک نیک خدا لڑکی تھی جس کی شادی کے پیغامات ہرطرف سے آرہے تھے؛ لیکن غالباً وہ ان نسبتوں میں کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا تھا، اس نے اس بارے میں ایک روز مبارک سے بھی مشورہ کیا کہ مبارک! میں اس لڑکی کی شادی کہاں اور کس سے کروں؟ انہوں نے کہا کہ: عہدجاہلیت میں لوگ نسبت میں حسب یعنی عزت وشہرت اور نسب کوتلاش کرتے تھے، یہودیوں کومالدار کی جستجو ہوتی تھی اور عیسائی حسن وجمال کوترجیح دیتے تھے؛ لیکن اُمتِ محمدیہ کے نزدیک تومعیار دین وتقویٰ ہے، آپ جس چیز کوچاہیں ترجیح دیں، ااقا کوان کا یہ ایمان افروز اور دانشمندانہ جواب بہت پسند آیا، وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ میری لڑکی کا شوہر بننے کے لیے مبارک سے بہتر کوئی دوسرا شخص نہیں ہے، بیوی بھی نیک بخت تھیں انہوں نے بھی اس رائے کوپسند کیا اور آقا کی لڑکی سے اُن کی شادی ہوگئی۔
(ابنِ خلکان، شذرات الذہب:۱/۲۹۶)
ولادت اور تعلیم
حضرت عبداللہ بن مبارک اسی باسعادت لڑکیکے بطن سے سنہ۱۱۸ھ میں مرو میں پیدا ہوئے، ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، ان کا اصلی وطن مرو تھا، اس لیے وہ مروزی کہلاتے ہیں، یہ مرو جہاں ان کی ولادت ہوئی، مسلمانوں کا قدیم شہر ہے، افسوس ہے کہ یہ اس وقت روس کے قبضہ میں ہے، اس سرزمین سے جہاں اخلاق وروحانیت کے سینکڑوں چشمے اُبلے اور اسلامی علم وتمدن کے صدہاسوتے پھوٹے، اب وہاں مادیت ہی کا نہیں بلکہ دھریت کا سیلاب رواں ہے، ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت کے متعلق بہت کم معلومات ملتے ہیں؛ لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ کے بیان سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ ابتائے عمر ہی سے طلب علم کے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے لگتے تھے۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۰)
اس وقت اسلامی مملکت کے کسی قصبہ اور کسی قربیہ میں بھی علماء وفضلاء کی کمی نہیں تھی، مرو جو خراسان کا ایک مشہور شہر تھا، اس کواچھی خاصی مرکزیت حاصل تھی، اس لیے وہاں اہلِ علم کی کیا کمی ہوسکتی تھی، غالباً ابتدائی تعلیم وتربیت وہیں ہوئی، اس کے بعد اس زمانے کے عام مذاق کے مطابق علم حدیث کی طرف توجہ کی، اس کے لیے انہوں نے شام وحجاز، یمن ومصر اور کوفہ وبصرہ کے مختلف شہروں اور قصبوں کا سفر کیا اور جہاں سے جوجواہر علم ملے انہیں اپنے دامن میں سمیٹ لیئے، امام احمد فرماتے ہیں:
طلب علم کے لیے عبداللہ بن مبارک سے زیادہ سفر کرنے والا ان کے زمانے میں کوئی دوسرا موجود نہیں تھا؛ انہوں نے دور دراز شہروں کا سفر کیا تھا، مثلاً: یمن، مصر، شام، کوفہ، بصرہ وغیرہ، ابواُسامہ فرماتے ہیں کہ:
ترجمہ: میں نے عبداللہ بن مبارک سے زیادہ کسی کوملک درملک گھوم کرطلب علم کرنے والا نہیں دیکھا۔
یہ سفر آج کل کا نہیں تھا کہ چند لمحوں میں انسان نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے؛ بلکہ اس زمانے کے سفر کا ذکر ہے، جب لوگ پیدل یااونٹ یاگدہوں کے ذریعہ مہینوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے تھے؛ پھرراستو کی دشواریاں توالامان، الحفیظ اور یہ کچھ عبداللہ بن مبارک ہی کی خصوصیت نہ تھی؛ بلکہ سب ہی اکابر ائمہ نے حصولِ علم میں دُور دُور کی خاک چھانی تھی۔
شیوخ کی تعداد
موجودہ زمانہ کی طرح اس وقت علم وفن نہ اس طرح مدون تھا اور نہ ایک جگہ محفوظ، خصوصیت سے علومِ دینیہ میں علمِ حدیث کا ذخیرہ تقریباً تمام ممالکِ اسلامیہ میں بکھرا ہوا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ حدیث کے سب سے پہلے حامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگی گوشہ گیری کی نہیں؛ بلکہ مجاہدانہ تھی، اس لیے وہ شوقِ جہاد اور دوسری دینی ضرورتوں کی بناء پرتمام امصاروقصبات میں پھیل گئے تھے، وہ جہاں پہنچتے تھے، وہاں کے باشندے ان سے اکتساب فیض کرتے تھے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وعمل اور آپ کی سیرت کو ان سے معلوم کرکے اپنے سینوں اور سفینوں میں محفوظ کرتے جاتے تھے، اب جن لوگوں کوصرف عملی زندگی کے لیے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذخیرہ کے معلوم کرنے کی خواہش ہوتی تھی ان کوبہت زیادہ کدوکاوش کی ضرورت نہیں تھی، ان کے لیے ان کے دربار کے صحابہ کرام اور ان کے بعدوہاں کے علماء وفضلاء کی زندگی کا دیکھ لینا بھی کافی تھا؛ مگرجولوگ اس تمام بکھرے ہوئے جواہرریزوں اور شہ پاروں کویکجا مدون اور مرتب کردینا چاہتے تھے کہ ان زندہ ہستیوں کے اُٹھ جانے کے بعد کہیں یہ ذخیرہ ضائع نہ ہوجائے، ان کے لیے دور دور کی خاک چھاننی اور شہروں اور قصبوں کے لیئے زحمتِ سفر اُٹھانی ناگزیر تھی، عبداللہ بن مبارک ان ہی بزرگوں میں تھے، خود فرماتے ہیں:
حملت من اربع الاف شیخ فردیت عن الف منہم۔
ترجمہ: میں نے چار ہزار شیوخ واساتذہ سے فائدہ اُٹھایا اور ان میں سے ایک ہزار سے روایت کی ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہہ:
کتبت عن الف۔
ترجمہ: میں نے ایک ہزار شیوخ کی روایتوں کولکھ لیا ہے۔
یعنی جن لوگوں سے تحصیل علم کیا ان کی تعداد توچار ہزار ہے؛ مگرہرشیخ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کے علم وروایت کومعیاری قرار دیا جائے، اس لیے غایت احتیاط میں صرف ایک ہزار شیوخ کی روایت کولکھنا پسند کیا اور اسی کوانہوں نے دوسروں تک منتقل کیا۔
عباس کہتے ہیں کہ ان کے آٹھ سوشیوخ سے تومجھے ملاقات کا موقع ملاہے۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۲)
ان کے بعض ممتاز اساتذہ کے نام لکھے جاتے ہیں:
(۱)امام ابوحنیفہ، یہ امام صاحب کے خاص شاگردوں میں ہیں، ان کوامام صاحب سے بڑی محبت اور انسیت تھی، فرماتے کہ مجھ کوجوکچھ حاصل ہوا وہ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کی وجہ سے حاصل ہوا، ان کے الفاظ یہ ہیں:
(سیراعلام النبلاء:۶/۳۹۸، شاملہ، موقع یعسوب۔ تہذیب التہذیب، ترجمہ اجمام ابوحنیفہ)
ترجمہ:اگراللہ تعالیٰ امام ابوحنیفہاور سفیان ثوری کے ذریعہ میری دستگیری نہ کرتا توعام آدمیوں کی طرح ہوتا۔
مناقب کردری میں ابن مطیع کی روایت ہے کہ میں نے ان کوامام صاحب کے پاس کتاب الرائے کی قرأت کرتے ہوئے دیکھا، ان سے اچھی قرأت کرنے والا میں نے کسی کونہیں دیکھا۔
(کردری:۲/۱۷۹)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں ان کے بہت سے اشعار منقول ہیں، خطیب نے ان میں سے چند اشعار نقل کئے ہیں۔
(تاریخ بغداد، جلد:۱۱)
(۲)ان کے دوسرے ممتاز شیخ امام مالک رحمہ اللہ ہیں، امام مالک سے انہوں نے مؤطاکا سماع کیا تھا، موطا کے متعدد نسخے ہیں، جن میں ایک کے راوی ابن مبارک بھی ہیں، امام مالک کے مشہور شاگرد یحییٰ بن یحییٰ اندلسی امام مالک کی مجلسِ درس میں ابن مبارک کی ایک آمد کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
ابن مبارک ایک بار امام مالک کی خدمت میں گئے توامام مالک مجلسِ سے اُٹھ گئے اور ان کواپنے قریب بٹھایا، اس سے پہلے امام مالک کسی کے لیے مجلس درس سے نہیں اُ,ھے تھے، جب اُن کوبٹھالیا، تب درس کا سلسلہ جاری کیا، قاری پڑھتا جاتا تھا، جب امام مالک کسی اہم مقام پرپہنچتے توابن مبارک سے دریافت فرماتے کہ اس بارے میں ااپ لوگوں یعنی اہلِ خراسان کے پاس کوئی حدیث یااثر ہوتو پیش کیجئے، عباللہ بن مبارک غایتِ احترام میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتے، اس کے بعد وہ وہاں سے اُٹھے اور مجلس سے باہر چلے گئے (غالباً یہ بات بھی اُستاد کے احترام کے خلاف معلوم ہوئی کہ وہ ان کی موجودگی میں کوئی جواب دیں) امام مالک رحمہ اللہ ان کے اس پاسِ ادب ولحاظ سے بہت متاثر ہوئے اور تلامذہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ ابنِ مبارک خراسان کے فقیہ ہیں۔
(تہذیب التہذیب:۵/۳۸۷)
یہ واقعہ غابلاً ان کے طالب علمی کے زمانہ کا نہیں ہے؛ بلکہ اس وقت کا ہے جب ان کی شخصیت مشہور ومعروف ہوچکی تھی اور وہ ایک فقیہ اور محدث کی حیثیت سے جانے جاچکے تھے، اس لیے امام مالک ان کا اعزاز اسی حیثیت سے کررہے تھے اور وہ ایک شاگردِ رشید کی طرح ان سے پیش آرہے تھے، ان ائمہ کے علاوہ ان کے چند معروف وممتاز شیوخ کے نام یہ ہیں، جن میں متعدد کبائر تابعین ہیں۔
تابعین
ہشام بن عروہ، سلیمان التیمی، یحییٰ الانصاری، حمید الطویل، اسماعیل بن ابی خالد، عبدالرحمن بن یزید، امام اعمش، موسیٰ بن عقبہ صاحب المغازی، ان تابعین کے علاوہ بیشمار اتباع تابعین سے استفادہ کیا تھا، چند ممتاز ائمہ کے نام حسب ذیل ہیں:
سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، حماد بن سلمہ، مسعربن کدام، شعبہ بن مجاج، امام اوزاعی، ابن جریج، لیث بن سعد، ابن ابی ذیب، سعید بن عروہ، صالح بن صالح، عمروبن میمون، معمربن راشد وغیرہ۔
مسند درس
خود غبداللہ بن مبارک نہایت ذہین وذکی اور غیرمعمولی قوتِ حافظہ کے مالک تھے؛ پھران کے شیوخ میں ہرفن کے استاد بلکہ امام موجود تھے، اس لیے وہ ان کے فیض صحبت اور اپنی صلاحیت سے جلد ہی ایک ممتاز حیثیت کے مالک ہوگئے اور علم وفن کے صدر نشین بنادیئے گئے اور خلقِ خدا ان سے مستفید ہونے لگی ان کی زندگی بالکل مجاہدانہ تھی اس لیے کہیں مستقل طور سے جم کروہ مجلسِ درس قائم نہیں کرسکے؛ لیکن ان کا علم سفیذ کا مرہونِ منت نہیں تھا؛ بلکہ جوکچھ تھا وہ سینہ میں محفوظ تھا، اس لیے وہ جہاں کہیں اور جس حالت میں بھی رہتے ان کا علم ان کے ساتھ رہتا تھا؛ گویا ان کی ذات ایک رواں دواں چشمۂ فیض تھی، جس سے تشنگانِ علم ہرآن ہور ہروقت استفادہ کرسکتے تھے، کبھی وہ کوفہ میں ہیں توکبھی بصرہ میں کبھی بغداد میں ہیں توکبھی مصر اور رقہ میں؛ غرض وہ جہاں بھی رہے علم وفن سایہ کی طرح اُن کے ساتھ ساتھ رہا، بڑے بڑے شیوخ اور ان کے بعض اساتذہ تک ان سے سماع حدیث کے مشتاق رہتے تھے، حماد بن زید مشہور محدث ہیں، ابنِ مبارک ایک بار ان کی خدمت میں آئے؛ انہوں نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ بولے خراسان سے، پوچھا خراسان کے کس شہر سے؟ بولے مرو سے، مرو کا نام سن کرانہوں نے فوراً پوچھا: عبداللہ بن مبارک سے واقف ہو، جواب دیا کہ وہ آپ کے سامنے موجود ہے، حماد نے انہیں اپنے سینے سے لگالیا۔
(خطیب:۱۱/۱۵۷)
سفیان ثوری رحمہ اللہ ان کے استاد ہیں، ان سے کسی خراسانی نے کوئی مسئلہ دریافت کیا؛ انہوں نے فرمایا کہ تمہارے پاس مشرق ومغرب کے سب سے بڑے عالم عبداللہ بن مبارک موجود ہی ہیں، ان سے کیوں نہیں دریافت کرتے۔
(مناقب کردری:۲/۱۷۳)
تلامذہ
گوکسی خاص جگہ ان کی مسندِ درس قائم نہیں تھی؛ مگرایک خلقِ کثیر نے ان سے استفادہ کیا تھا اور جہاں وہ جاتے تھے ان کے ساتھ اکتساب فیض کے لیئے لوگوں کا ہجوم ہوجاتا تھا، ان کے تلامذہ کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ:
حدث عنه خلق لايحصون من أهل الأقاليم۔
(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۲۰۲، شاملہ، المكتبة الرقمية۔ دیگرمطبوعہ:۱/۲۵۰)
ترجمہ: ممالک اسلامیہ کے اتنے لوگوں نے ان سے فائدہ اُٹھایا ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بعض ممتاز تلامذہ کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں ان سے ایک خلقِ کثیر نے استفادہ کیا تھا۔
(تہذیب التہذیب:۵/۳۸۵)
بعض ممتاز اور سرمایۂ ناز تلامذہ کے نام یہ ہیں:
سفیان ثوری رحمہ اللہ یہ ان کے استاد بھی تھے اور ان سے روایت بھی کرتے ہیں (اس زمانہ میں عام دستور تھا کہ اصاغر، اکابر سے اور اکابر اصاغر سے روایت کرتے تھے کہ ایک روایت کسی معمولی شاگرد کے پاس ایسی ہے جس کا علم استاد کونہیں ہے، اس سے استفادہ کرنے میں شیوخ کوئی عار محسوس نہیں کرتے) معمر بن راشد، ابواسحاق انفراری، عبدالرحمن بن مہدی یہ لوگ بھی ان کے استاد تھے، امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، سعید القطان، فضیل بن عیاض، ابوداؤد الطیالسی، سلیمان المروزی وغیرہ۔
علم حدیث سے شغف
ان کوتمام دینی علوم میں دستگاہ تھی؛ مگرعلم حدیث کے حفظ وروایت سے انہیں خاص شغف تھا، جووقف جہاد اور عبادت سے بچتا تھا وہ اس مبارک کام میں صرف کرتے تھے، بسااوقات حدیث کا ذکرِ خیر چھڑ جاتا توپوری رات آنکھوں میں کٹ جاتی، ایک دن عشا کی نماز کے بعد علی بن حسن سے کسی حدیث کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی، ساری رات مسجد کے دروازے پرکھڑے کھڑے گذرگئی اور ان کواحساس بھی نہ ہوا۔
(تہذیب اور مناقب کردری)
شغف بالحدیث کا یہ عالم تھا کہ گھر سے باہر بہت کم نکلتے تھے، کسی نے پوچھا کہ آپ ہمہ وقت مکان کے اندر بیٹھے رہتے ہیں، وحشت نہیں ہوتی؟ فرمایا کہ وحشت کی کیا بات ہے؟ جب کہ مجھے اس تنہائی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے شرف صحت کی دولت نصیب ہے، مقصد یہ تھا کہ میں جب ہروقت حدیث نبوی اور ااثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے مطالعہ اور غوروخوض میں لگا رہتا ہوں توگویا میں ان کی صحبت میں بیٹھ کراُن سے بات چیت کرتا ہوں اور اُن کی نشست وبرخاست، رفتار وگفتار کا نقشہ ہروقت میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے؛ پھراس سے زیادہ ایک مسلمان کے لی انس اور خوشی کی بات کیا ہوسکتی ہے۔
علم حدیث میں ان کا مرتبہ
علم حدیث میں ان کا مرتبہ ایک امام حدیث کا تھا، حدیث کی جتنی متداول کتابیں ہیں ان کی روایات کثرت سے موجود ہیں، ان سے جوروایات مروی ہیں، ان کی تعداد بیس، اکیس ہزار بتائی جاتی ہے، ابنِ معین جومشہور حافظِ حدیث اور امام جرح وتعدیل ہیں، فرماتے ہیں کہ انہوں نے جوروایتیں کی ہیں ان کی تعداد بیس، اکیس ہزار ہے۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۱)
لیکن کثرتِ روایت سے ان کی حدیث دانی کا پورا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا؛ بلکہ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ان کے معاصر ائمہ حدیث اور بعد کے محدثین اور فقہا اور ائمہ رجال کے خیالات معلوم کئے جائیں اور اسی آئینہ میں ان کی حدیث دانی کے خدوخال دیکھے جائیں، ابواسامہ کا قول ہے کہ وہ فنِ حدیث میں امیرالمؤمنین تھے، عبدالرحمن بن مہدی جوائمہ اسماء الرجال میں ہیں، وہ فرماتے تھے کہ عبداللہ بن مبارک سفیان ثوری رحمہ اللہ سے افضل تھے، لوگوں نے ان سے کہا کہ لوگ آپ کی رائے کوصحیح نہیں سمجھتے، فرمایا کہ عام لوگوں کوان کے علم کا اندازہ نہیں ہے، میں نے ابنِ مبارک جیسا کسی کونہیں پایا؛ پھرکہا: میرے نزدیک ائمہ حدیث چار ہیں، سفیان ثوری رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، حماد بن زید رحمہ اللہ اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ۔
ابواسحاق فرازی کا قول ہے کہ وہ امام المسلمین تھے، احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حافظِ حدیث اور اس کے عالم تھے، سفیان ثوری رحمہ اللہ گوابنِ مبارک کے اُستاد ہیں؛ مگران کے علم وفضل کے معترف تھے، ایک بار ان کے سامنے کسی نے ابنِ مبارک کویاعالم المشرق! اے مشرق کے عالم کے لفظ سے مخاطب کیا، سفیان ثوری رحمہ اللہ موجود تھے؛ انہوں نے اُس شخص کوڈانٹا اور فرمایا کہ ان کوعالم المشرق والمغرب کہو، محدثین میں اگرکسی حدیث کے بارے میں اختلاف ہوتا توعبداللہ بن مبارک کی طرف رجوع کیا جاتا تھا، فضالہ فرماتے ہیں کوفہ کے محدثین کی خدمت میں میری آمدورفت تھی، جب کسی حدیث کے بارے میں ان میں اختلاف ہوتا تووہ لوگ کہتے تھے اچھا اس اختلاف کوطبیب حدیث کے پاس لے چلو، وہی اس کا فیصلہ کریں گے، اس طبیب سے مراد عبداللہ بن مبارکؒ تھے۔
(یہ تمام اقوال تہذیب الاسماء اور تہذیب التہذیب سے لیے گئے ہیں)
حدیث کا احترام
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے دل میں بے حداحترام تھا؛ اگرکسی سے اس کے خلاف حرکت سرزد ہوجاتی توخفگی کا اظہار کرتے تھے، ایک بار کوئی شخص دور سے سفر کرکے سماعِ حدیث کے لیے ان کے پاس آیا اور اسی وقت سماع کی درخواست کی؛ انہوں نے انکار کیا، وہ فوراً اُٹھ کرجانے لگا تودوڑ کراس کی سواری کی رکاب تھام لی، اس نے کہا کہ آپ نے حدیث کے سماع سے تومحروم رکھا؛ مگرمیری سواری کی رکاب تھام رہے ہیں، فرمایا کہ ہاں! میں اپنی ذات کوتوذلیل کرسکتا ہوں؛ مگرحدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین مجھے گوارا نہیں۔
(مناقب کردری:۲/۱۷۳)
غالباً اس نے بے موقع سوال کیا تھا، یا سماعِ حدیث کا وہ اہلِ نہیں تھا، اس لیے سماع نہیں کرایا؛ مگرعام انسانی اخلاق صرف کرنے سے گریز نہیں کیا؛ اسی طرح ایک شخص نے راستہ میں ان سے کسی حدیث کے بارے میں سوال کیا؛ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور فرمایا:
لَیْسَ ھٰذَا مَوْضِعُ حَدِیْث۔
(مناقب کردری:۲/۱۷۳)
ترجمہ:یعنی یہ موقع حدیث نبوی کی روایت وسماع کا نہیں ہے۔
امام کے بعض اُصولِ حدیث
حضرت عبداللہ بن مبارک کا عہد حدیث کی تدوین واشاعت کا خاص عہد تھا، اس لیے اس وقت ہرشخص اس خدمت کواپنے لیے سرمایۂ افتخار سمجھتا تھا، اخبرنا وحدثنا کی آواز گھر گھر گونج رہی تھی، ہرشہربلکہ ہرقصبہ اور ہربڑی بستی میں درس حدیث کی کئی کئی مجلسیں برپا تھیں؛ لیکن جس قدر یہ سلسلہ عام اور وسیع تھا؛ اسی قدر حدیث کی نقل وروایت میں افراط وتفریط شروع ہوگئی تھی؛ خصوصیت سے پیشہ ورواعظوں اور قصہ گویوں نے نہ جانے کتنی حدیثیں وضع کرڈالی تھیں، خلافتِ راشدہ کے زمانہ تک حدیث کی روایت پربڑی پابندی عائد تھی، خصوصیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بارے میں بہت سخت تھے اور بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کواس پرتنبیہ کرتے رہتے تھے اور جب تک کوئی اپنی روایت کا دوسرا شاہد پیش نہیں کرتا تھا وہ اسے قبول نہیں کرتے تھے اور نہ اس روایت کوبیان کرنے کی اجازت دیتے تھے؛ مگراس عہدراشد کے بعد جب دینی معاملات میں قانونی گرفت ڈھیلی ہوئی توہرکس وناکس نے روایت وتحدیث شروع کردی، بنواُمیہ کے زمانہ میں اس فتنہ نے کافی بال وپرنکالے، اس لیے اس وقت جوائمہ حدیث اور اس فن کے نبض شناس تھے ان کواس فتنہ کے انسداد کی فکر ہوئی، ظاہر ہے کہ ان کے ہاتھ میں قانون کی طاقت توتھی نہیں اس لیے انہوں نے قرآن وحدیث اور صحابہ کے عمل کی روشنی میں اصول مرتب کئے، جس سے اس فتنہ کا انسداد ہوسکے؛ چنانچہ ان ہی اُصولوں کے تحت بڑے بڑے راوی حدیث کی مرویات جانچی وپرکھی جانے لگیں، جس نے بھی قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ زبان سے نکالا، اس کی روایت کی صحت حتی کہ اس کے ذاتی حالات تک کی تفتیش شروع ہوجاتی تھی، جب تک اس کے ضبط، احتیاط، قوت حافظہ اور اس کی اخلاقی حالت کے متعلق پورا اطمینان نہیں ہوجاتا تھا، ائمہ حدیث نہ تواس کی روایت ہی قبول کرتے تھے اور نہ اس کوقابل اعتماد اور ثقہ سمجھتے تھے، اس وقت اُصولِ حدیث کا فن ہمارے سامنے مدوّن اور مرتب طور پرموجود ہے، ابتداءً اس کی یہ شکل نہیں تھی؛ بلکہ ہرامام اور محدث نے اپنے علم وبصیرت کے مطابق کچھ اُصول بنالیے تھے جنہیں بعد میں مرتب ومدون کردیا گیا، عبداللہ بن مبارک بھی ان بزرگوں میں تھے، جنھوں نے حدیث کی روایت کے کچھ اُصول مرتب کرلیے تھے، ان کے چند اُصول درجِ ذیل ہیں:
(۱)حدیث کے صحیح اور قابل حجت ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے تمام رواۃ ثقہ اور فقیہ ہوں، فقیہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ الفاظ کی تاثیر، زبان کے قواعد ومحاورات اور مطالب کے طرزِ ادا سے بخوبی واقف ہوں، وہ احادیث جن کے رواۃ ثقہ ہوں مگرفقیہ نہ ہوں، قابل حجت توہیں لیکن قسم اوّل کی حدیثوں سے کم رتبہ ہیں۔
(۲)قرب استاد (یعنی راوی کا کم نہ ہونا) حدیث کی صحت وجودت کی دلیل نہیں ہے، رواۃ کی تعداد خواہ کسی قدر ہو؛ مگریہ ضروری ہے کہ ان میں ہرایک راوی ثقہ اور معتبر ہو۔
(۳)حدیث کے لائق احتجاج ہونے کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ راوی نے خود اس کوسنا ہو اور روایت کرتے وقت تک اس نے اس کواچھی طرح محفوظ رکھا ہو۔
(۴)روایت بالمعنی کے قائل تھے، انما المیت یعذب بیکاء الحئی (یعنی میت پراس کے خاندان والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے؛ اس روایت کوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لفظاً ومعنا کسی طرح بھی تسلیم ہی نہیں کرتی تھی، ان کا استدلال قرآن کی اس آیت سے تھا،وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (الانعام:۱۶۴) وہ فرماتی تھیں کہ اس میں راویوں سے غلطی ہوگئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ کچھ لوگ میت پررورہے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا توفرمایا کہ میت پرعذاب ہورہا ہے اور یہ رورہے ہیں، رونا عذاب کا سبب نہیں تھا؛ مگرراویوں نے اسے سبب قرار دیا) کوحدیث بالمعنی تسلیم کرتے تھے ۔
(۵)اصولِ درایت کوتسلیم کرتے تھے؛ لیکن بالعموم نہیں؛ بلک ہخاص حالتوں میں۔
(۶)تدلیس یعنی راوی کا اپنے شیخ کو صراحۃ ذکر نہ کرنے کے سخت مخالف تھے۔
فقہ
فقہ کی مشق وممارست انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدمت میں بہم پہنچائی تھی، اس لیے ان میں قدرے تفقہ بھی تھا، امام مالک رحمہ اللہ ان کوخراسان کا فقیہ کہتے تھے؛ اسی طرح بعض دوسرے علماء بھی ان کے تفقہ کے معترف ہیں؛ مگریہ مسلم ہے کہ حدیث میں ان کا جومرتبہ تھا، تفقہ واجتہاد میں ان کووہ درجہ حاصل نہیں تھا، جوامام صاحب کے دوسرے تلامذہ کوحاصل تھا؛ یہی وجہ ہے کہ ان کی شہرت فقیہ کی حیثیت سے کم اور محدث کی حیثیت سے زیادہ ہے، یحییٰ بن آدم جوان کے معاصر اور خاص شاگرد ہیں فرماتے ہیں کہ:
كنت إذا طلبت الدقيق من المسائل فلم أجده عندہ أيست منه۔
(مناقب کردری:۲/۱۷۳۔ تذکرۃ المغاظ:۱/۲۵۱، یحییٰ بن آدم نے اپنی کتاب الخراج میں تقریباً ۶۰/روایتیں ابنِ مبارک سے کی ہیں، اس لیے اس سلسلہ میں ان کا بیان قابل قدر ہے۔)
ترجمہ: جب بھی میں نے اُن سے دقیق مسائل دریافت کیے تواس کا جواب ان سے نہیں پایا، جس سے میں بہت مایوس ہوا۔
دوسرے علوم
عبداللہ بن مبارک حدیث وفقہ کے ساتھ تفسیر، سیرت، نحو وبلاغت، ادب ولغت شعروشاعری؛ غرض ان تمام اصنافِ علم سے واقف تھے، جن کی ضرورت علومِ دینیہ میں ہوتی ہے، ایک بار ان کے تلامذہ مثلاً فضیل بن عیاض مخلد بن حسین وغیرہ جمع ہوئے اور آپس میں طے کیا کہ عبداللہ ابنِ مبارک کی علمی وعملی لیاقتوں اور صلاحیتوں کوشمار کریں؛ پھران کے بارے میں کہا کہ:
جع العلم الفقہ والادب والنحو واللغۃ والشعر والعربیۃ والفصاحۃ۔
(تہذیب الاسماء)
ترجمہ:وہ علم وفقہ، ادب ونحو، لغت وشاعری، عربی ادب اور فصاحت کے جامع تھے۔
اس وقت شعروشاعری عام طور پرسرتاسررندی وہوسنا کی کامظہر بن گئی تھی، شعراء یاتوداد وتحسین حاصل کرنے کے لیے غزل کہتے تھے یامادی فائدے سمیٹنے کے لیے امراء وسلاطین کی مدح سرائی وقصیدہ گوئی کرتے تھے؛ مگر اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے موجود تھے جواخلاقی شاعری کے دیدبان تھے۔
عبداللہ بن مبارک بھی شعروشاعری کا پاکیزہ ذوق رکھتے تھے اور کبھی کبھی کچھ کہہ بھی لیا کرتے تھے، ان کے جواشعار خطیب بغدادی اور کردری وغیرہ نے نقل کئے ہیں وہ اخلاقی تعلیمات سے پر ہیں، چند اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں؎
إذارافقت فى الأسفار قوما
فكن لهم كذي الرحم الشفيق
جب تم کسی کے رفیقِ سفر ہوتو، اس کے ساتھ اس طرح پیش آؤ جیسے اپنے بھائی بند کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
متی تاخذ تعنفہم تولوا
وتبقی فی الزمان بلاصدیق
اگرتم اپنے احباب کے ساتھ سخت رویہ رکھو گے تو، اُس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا کوئی دوست نہیں رہ جائے گا۔
قدیفتح المرٔحانوتا لمتجرہ
وقد فتحت لک الحانوت بالدین
لوگ اسباب تجارت کے لیے دُوکان کھولتے ہیں اور تونے دین فروشی کی دوکان کھول رکھی ہے۔
صَیَّرت وبینک شاھیناً تصیدیہ
ولیس یفلح اصحاب الشواھین
تم نے شکار کرنے کے لیے دین کوشاہین بنارکھا ہے؛ مگریاد رکھو کہ ایسے شاہین باز فلاح نہیں پاسکتے۔
اِن اشعار میں ان دنیادار اور علماء اور فقہاء کی زندگی کی تصویر کھینچی گئی ہے؛ جنہوں نے مسندِ درس کودولت ووجاہت کے حصول کا ذریعہ بنارکھا تھا۔
عبادت وتقویٰ اور عادات واخلاق
عبداللہ بن مبارک عبادت ریاضت زہد وتقویٰ اور اپنے عادات واخلاق میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نمونہ تھے، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے نمونہ تھے، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی سب سے بڑی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ:
فی اللیل رہبان وفی النہار فرمان۔
ترجمہ:رات میں راہبوں کی طرح عبادت کرتے تھے اور دن میں شہ سوار بن کرمیدانِ کارزار میں نظر آتے تھے۔
ابنِ مبارک رحمہ اللہ اس خصوصیت کی چلتی پھرتی تصویر تھے؛ اسی بناپرسفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ:
نظرت فی امرالصحابۃ فمارایت لہم فقلا علی بن المبارک الالصحبتہم النبیﷺ
ترجمہ: میں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حالات پرغور کیا توصحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی چیز میں ابنِ مبارک کوان سے کم تر نہیں پایا۔
ظاہر ہے کہ صحبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اتنا بڑا فضل ہے کہ اس میں نہ توان کا کوئی شریک وسہیم ہے اور نہ اُس میں کوئی ان کی ہمسری کا دعویٰ کرستکا ہے؛ مگراپنے اخلاق وکردار کے لحاظ سے اُمت میں ان کے بعد بہت سے ایسے افراد پیدا ہوتے رہے ہیں جوان کی صحیح تصویر تھے؛ انہی میں ابنِ مبارک رحمہ اللہ بھی تھے، ہم مختلف عنوانوں کے تحت مختصر طور سے اُن کی زندگی کے اُن اخلاقی اوصاف کی یہاں وضاحت کرتے ہیں۔
عبادت وتقویٰ
عبادت وتقویٰ میں ضروب المثل تھے، ابونعیم نے حلیۃ الاولیاء میں اور امام شعرانی نے طبقات الکبریٰ میں ان کا شمار زہاد تبع تابعین میں کیا ہے سفیان ثوری رحمہ اللہ جن کی جلالت پرایک زمانہ متفق ہے، وہ فرماتے تھے کہ میں نے کوشش کی کہ عبداللہ بن مبارک جیسی محتاط زندگی گزاروں تومیں چند دن بھی نہ گذارپایا (صفوۃ الصفوۃ:۴/۱۱۱) تمام اہلِ تذکرہ فرماتے ہیں کہ وہ زہد وورع، عبادت اور قیام لیل میں آپ اپنی مثال تھے(تہذیب:۵/۳۸۵) اسماعیل بن عیاش فرماتے ہیں کہ کوئی نیک خصلت ایسی نہیں ہے جوان میں موجود نہ رہی ہو۔
(تہذیب:۵/۳۸۵)
احساسِ ذمہ داری
ایک بار شام میں کسی شخص سے قلم مستعار لیا، اتفاق سے قلم اس شخص کوواپس کرنا بھول گئے، جب مروپہنچے توقلم پرنظر پڑی، مرو سے شام پھرواپس گئے اور قلم صاحب قلم کوواپس کیا۔
(کردری:۲/۱۷۹)
تنہا یہ واقعہ ان کی اخلاقی زدنگی کا بہترین مظہر ہے اور دنیا کی اخلاقی تاریخ کا غیر معمولی واقعہ ہے، مروشام سے سینکڑوں میل دُور ہے اور پھریہ واقعہ اس زمانہ کا ہے جب رسل ورسائل کے ذرائع صرف گھوڑے اُونٹ اور خچر ہوتے تھے۔
خشیتِ الہٰی
اس زہدوورع کے ساتھ آخرت کی باز پرس سے ہروقت لرزاں رہتے تھے؛ انہوں نے زہد وورع پرایک کتاب لکھی تھی، جب اس کوطلبہ کے سامنے پڑھتے تھے توان پراس قدر رقت طاری ہوجاتی تھی کہ بول نہیں سکتے تھے، قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مبارک کے ساتھ اکثر سفر میں رہتا تھا، میرے دل میں خیال ہوا کہ آخر کس بناء پران کواتنا فضل وشرف اور قبولِ عام حاصل ہے، جس طرح وہ نماز پڑھتے ہیں ہم بھی نماز پڑھتے ہیں، جتنے روزْ وہ رکھتے ہیں ہم بھی اُن سے کم روزہ نہیں رکھتے، وہ حج کرتے ہیں ہم بھی حج کرتے، وہ جہاد میں شرکت کرتے ہیں اس شرف میں ہم بھی اُن سے پیچھے نہیں ہیں، کہتے ہیں کہ ایک بار ہم لوگ شام جارہے تھے، راستہ میں رات کوکہیں ٹھہرے، سب لوگ رات کا کھانا کھارہے تھے کہ یک بہ یک چارغ گل ہوگیا، ایک آدمی چراغ جلانے کے لیے اُٹھا، چراغ جلاکر وہ واپس ہوا توہم نے دیکھا کہ عبداللہ بن مبارک کی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہے، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اسی (حشیتِ الہٰی کی) وجہ سے ان کویہ فضل وشرف حاصل ہے؛ پھرفرماتے ہیں غالباً چراغ گل ہونے پراندھیرا ہوگیا اور اس سے یک گونہ ہم لوگوں پرجوگھبراہٹ طاری ہوئی اس چیز نے ان کوقبر وقیامت کی یاد دلادی اور ان پررقت کی یہ کیفیت طاری ہوگئی۔
(صفوۃ الصفوۃ:۴/۱۲۰)
امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے ان کوجورفعت دی تھی وہ ان کی اس باطنی کیفیت کی بناء پرتھی جو اُن کے لیے مخصوص تھی۔
(صفوۃ الصفوۃ:۴/۱۲۰)
اخلاق وعادات
ان کا یہ زہد واتقاء صرف عبادات ہی تک محدود نہیں تھا؛ بلکہ ان کے اخلاق وکردار اور ان کے معاملات میں بھی اس کا پورا اثر نمایاں تھا۔
مہمان نوازی
مہمان نوازی اسلامی زندگی کی ایک امتیازی خصوصیت ہے اس میں وہ معروف تھے، ان کا دسترخوان ان کے احباب، اعزہ پڑوسی اور اجنبی سب کے لیے خوان یغما تھا، وہ کبھی بغیر مہمان کے کھانا نہیں کھاتے تھے، اس بارے میں کسی نے اُن سے پوچھا توفرمایا کہ مہمان کے ساتھ جوکھانا کھایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کا حساب نہیں لیتا، سال کے بیشتر حصہ میں وہ روزہ رکھتے تھے، جس دن وہ روزہ سے ہوتے اس دن دوسروں کوعمدہ عمدہ کھانا پکواکر کھلاتے، ابواسحاق کا بیان ہے کہ کسی سفرِ جہاد یاحج میں جارہے تھے تواُن کے ساتھ دواونٹنیوں پربھنی ہوئی مرغیاں لدی ہوئی تھیں، یہ سب سامان ان مسافروں کا تھا جوان کے ہمسفر تھے۔
(تاریخ بغداد:۱۱/۱۶)
ادب اور حسن معاشرت
ادب اور حسن معاشرت کا نمونہ تھے، فرماتے تھے کہ ادب وحسن معاشرت دین کا دوحصہ ہے، حدیث کی مجلس میں ان کا یہ ادب دیکھنے کے قابل ہوتا تھا، یوں توعام مجلسوں میں بھی وہ حلافِ اسلام کوئی فعل نہیں دیکھ سکتے تھے، ایک بار مجلس میں کسی شخص کوچھینک آئی، اُس نے الحمدللہ نہیں کہا، آپ کچھ دیرمنتظر رہے؛ پھراس سے مخاطب ہوکرفرمایا کہ بھائی! جب چھینک آئے توکیا کہنا چاہیے، اُس نے کہا کہ الحمدللہ، آپ نے جواب میں یرحَمُکَ اللہ کہا، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس شخص کواپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور دوسروں کواتباعِ سنت کی ترغیب ہو۔
ذریعۂ معاش
اسلاف میں بے شمار ایسے لوگ گزرے ہیں، جن کا ذریعہ معاش صنعت وحرفت یاتجارت تھا، جب تک اسلامی زندگی کے نمایاں آثار باقی تھے اس وقت تک اس چیز کوکم درجہ یامعیوب نہیں سمجھا جاتا تھا؛ بلکہ اُمت کے بلند ترافراد حرفہ وپیشہ ہی اختیار کرناپسند کرتے تھے، عبداللہ بن مبارک نے تجارت کواپنا ذریعۂ معاش بنایا تھا، ان کا تجارتی کاروبار بہت وسیع تھا، تجارت کی وسعت کا اندازۃ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک لاکھ درہم سالانہ صرف فقراء پرخرچ کرتے تھے، عموماً وہ خراسان سے سامانِ تجارت حجاز لاتے اور وہیں فروخت کرتے تھے۔
(تاریخ بغداد:۱۱/۱۶)
تجارت کا مقصد
مگریہ تجارت محض حصولِ زریادنیا طلبی کے لیے نہیں بھی؛ بلکہ اس کا مقصد وہی تھا جواسلام نے مقرر کیا ہے، فضیل بن عیاض نے ایک روز اُن سے کہا کہ آپ ہم لوگوں کوتوزہد وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی کی ترغیب دیتے ہیں اور خود قیمتی قیمتی سامانوں کی تجارت کرتے اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں؛ انہوں نے فرمایا کہ:اے فضیل! یہ تجارت اس لیے کرتا ہوں کہ اس سے اپنی ذات کومصائب سے اپنی عزت کوذلت سے بچاسکوں اور خدا کی اطاعت میں اس سے مددلوں اور اللہ تعالیٰ نے جومالی حقوق میرے ذمہ ڈالے ہیں، اُن کی طرف میں سبقت کروں اور انہیں بخوبی پورا کروں۔
(تاریخ بغداد:۱۱/۱۶۰)
لولا انت واصحابک مااتجرت۔
ترجمہ:اگرتم اور تمہارے ساتھی نہ ہوتے تومیں تجارت نہ کرتا۔
یعنی میں تمھیں لوگوں کے لیے یہ پریشانی اُٹھاتا ہوں، ایسے علماء اور طلباء کی ڈھونڈ کرامداد کرتے تھے، جودینی علوم کے حصول یادرس وتدریس میں لگے ہوتے؛ مگرمعاشی حیثیت سے پریشان ہوتے، ان لوگوں کی مدد کووہ سب کاموں پرمقدم رکھتے تھے؛ چنانچہ اس کے لیے وہ ہزاروں روپیے اپنے شہر سے باہر بھیجتے تھے، بعض لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ آپ اپنا مال اپنے شہر میں اس فراوانی کے ساتھ نہیں حرچ کرتے جس فراوانی کے ساتھ باہر بھیجتے ہیں، جواب میں فرمایا: میں ان لوگوں پرمال خرچ کرتا ہوں جن کے علم وفضل اور صداقت ودیانت سے بخوبی واقف ہوں وہ علم دین کی طلب واشاعت میں لگے ہوئے ہیں؛ مگران کی ذاتی اور (خانگی) ضرورتیں بھی ہیں؛ اگریہ لوگ ان کے پورا کرنے میں لگ جائیں توعلم ضائع ہوجائے گا اور اگرہم اُن کی مدد کرتے ہیں توان کے ذریعہ علم (دین کی) اشاعت ہوتی رہے گی اور منصب نبوت کے اختتام کے بعد علمِ دین کی اشاعت سے بڑھ کردوسرا کوئی کام نہیں ہے۔
(تاریخ بغداد:۱/۱۶۰)
عام فیاضی
ان کی سخاوت وفیاضی صرف اہلِ علم ہی تک محدود نہیں تھی؛ بلکہ اس سے ہرخاص وعام فائدہ اُٹھاتا تھا، چند واقعے ملاحظہ ہوں:
ایک شخص سات سودرہم کا مقروض تھا، کچھ لوگوں نے ابنِ مبارک سے کہا کہ آپ اس کا قرض اداکردیں؛ انہوں نے منشی کولکھا کہ فلاں شخص کو سات ہزار درہم دے دیئے جائیں، یہ تحریر لے کرمقروض ان کے مشنی کے پاس پہنچا، اس نے خط پڑھ کر حاملِ رقعہ سے پوچھا کہ تم کوکتنی رقم چاہیے، اس نے کہا کہ میں سات سو کا مقروض ہوں اور اسی رقم کے لیے لوگوں نے ابن مبارک سے میری سفارش کی ہے، منشی کوخیال ہوا کہ ابن مبارک سے سبقت قلم ہوگئی ہے اور وہ سات سو کے بجائے سات ہزار لکھ گئے ہیں، منشی نے حاملِ رقعہ سے کہا کہ خط میں کچھ غلطی معلوم ہوتی ہے، تم بیٹھو میں ابنِ مبارک سے دوبارہ دریافت کرکے تم کورقم دیتا ہوں، اس نے ابنِ مبارک کولکھا کہ خط لانے والا توصرف سات سودرہم کا طالب ہے اور آپ نے سات ہزار دینے کی ہدایت کی ہے، سبقتِ قلم تونہیں ہوگئی ہے؟ انہوں نے جواب میں لکھا کہ جس وقت تم کویہ خط ملے اسی وقت اس شخص کوتم چودہ ہزار درہم دے دو، منشی نے ازارہِ ہمدردی اُن کودوبارہ لکھا کہ اگراسی طرح آپ اپنی دولت لٹاتے رہے توجلد ہی سارا سرمایہ ختم ہوجائے گا، منشی کی یہ ہمدردی اور خیرخواہی ان کوناپسند ہوئی اور انہوں نے ذرا سخت لہجہ میں لکھا کہ اگرتم میرے ماتحت اور مامور ہوتومیں جوحکم دیتا ہوں اس پرعمل کرو اور اگرتم مجھے اپنا مامور ومحکوم سمجھتے ہو توپھر تم آکر میری جگہ پربیٹھو، اس کے بعد جوتم حکم دوگے میں اس پرعمل کرونگا، میرے سامنے مادی دولت وثروت سے زیادہ سرمایہ قیمتی آخرت کا ثواب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشادِ گرامی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ جوشخص اپنے کسی مسلمان بھائی کواچانک اورغیرمتوقع طور پرخوش کردے گا اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا، اس نے مجھ سے سات سودرہم کا مطالبہ کیا تھا میں نے سوچا کہ اس کوسات ہزار ملیں گے تویہ غیرمتوقع رقم پاکر وہ بہت زیادہ خوش ہوگا اور فرمانِ نبوی صلی اللہ علہ وسلم کے مطابق میں ثواب کا مستحق ہوں گا، دوبارہ رقعہ میں چودہ ہزار انہوں نے اس لیے کرایا کہ غالباً لینے والے کوسات ہزار کا علم ہوچکا تھا، اس لیے اب زاید ہی رقم اس کے لیے غیرمتوقع ہوسکتی تھی۔
محمد بن عیسی کا بیان ہے کہ ابن مبارک طرطوس (شام) اکثر آیا کرتے تھے، راستہ میں رقہ پڑتا تھا؛ یہاں وہ جس سرائے میں قیام کرتے تھے، اس میں ایک نوجوان بھی رہا کرتا تھا، جب تک ان کا قیام رہتا یہ نوجوان ان سے سماع حدیث کرتا اور اُن کی خدمت میں لگا رہتا تھا، ایک بار یہ پہنچے تو اس کونہیں پایا، دریافت کرنے پرمعلوم ہوا کہ وہ قرض کے سلسلہ میں قید کردیا گیا ہے، انہوں نے قرض کی مقدار اور صاحب قرض کے بارے میں معلوم کیا توپتہ چلا کہ فلاں شخص کا وہ دس ہزار کا مقروض تھا اس نے دعویٰ کیا تھا اور عدم ادائیگی کی صورت میں وہ قید کردیا گیا، عبداللہ بن مبارک نے قرض خواہ کوتنہائی میں بلایا اور اُس سے کہا کہ بھائی تم اپنے قرض کی رقم مجھ سے لے لو اور اس نوجوان کورہا کرادو یہ کہہ کر اس سے یہ قسم بھی لی کہ وہ اس کا تذکرہ کسی سے نہ کرے گا، اس نے اسے منظور کرلیا، اِدھر آپ نے اس کی رہائی کا انتظام کیا اور اسی رات رختِ سفرباندھ کروہاں سے روانہ ہوگئے، نوجوان رہا ہوکر سرائے میں پہنچا تواس کوآپ کی آمدورفت کی اطلاع ملی، اس کوملاقات نہ ہونے کا اتنا رنج ہوا کہ اسی وقت طرطوس کی طرف روانہ ہوگیا، کئی منزل کے بعد آپسے ملاقات ہوئی توآپ نے اس کا حال دریاف تکیا، اس نے اپنے قید ہونے اور رہا ہونے کا ذکر کیا، آپ نے پوچھا رہائی کیسے ہوئی، بولا کہ کوئی اللہ کا بندہ سرائے میں آکر ٹھہرا تھا اسی نے اپنی طرف سے قرض ادا کرکے مجھے رہا کرادیا؛ مگرمیں اسے جانتا نہیں فرمایا کہ خدا کا شکرادا کرو کہ اس مصیبت سے تمھیں نجات ملی، محمد بن عیسیٰ کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے بعد قرض خواہ نے اس واقعہ کولوگوں سے بیان کیا۔
(صفوۃ الصفوہ:۴/۱۱۷)
ان کی زندگی کا ایک خاص معمول زیارتِ حرمین بھی تھا، قریب قریب ہرسال اس سعادت کوحاصل کرنے کی کوشش کرتے، سفرِ حج کے موقع پران کا معمول تھا کہ سفر سے پہلے اپنے تمام رفقائے سفر سے کہتے کہ اپنی اپنی رقم سب لوگ میرے حوالہ کردیں جب وہ لوگ حوالہ کردیتے توہرایک کی رقم کوالگ الگ ایک ایک تھیلی میں ہرایک کا نام لکھ کرصندوق میں بند کردیتے اور پورے سفر میں جوکچھ خرچ کرنا ہوتا وہ اپنی جیب سے کرتے، ان کواچھے سے اچھا کھانا کھلاتے، ان کی دوسری ضروریات پوری کرتے، جب فریضہ حج ادا کرکے مدینہ منورہ پہنچتے تورفقا سے کہتے کہ اپنے اہل وعیال کے لیے جوچیزیں پسند ہوں خرید لیں، سفر حج تم کرکے جب گھرواپس آتے توتمام رفقائے سفر کی دعوت کرتے؛ پھروہ صندوق کھولتے جس میں لوگوں کی رقمیں رکھی ہوئی تھیں اور جس تھیلی پرجس کا نام ہوتا اس کے حوالہ کردیتے، راوی کا بیان ہے کہ زندگی بھر ان کا یہی معمول رہا۔
ان کے سوانح حیات اس طرح کے واقعات سے پر ہیں، یہ چند واقعات اس لیے نقل کیئے گئے ہیں کہ اندازہ ہوسکے کہ ان کی تجارت اور حصولِ دولت کا مقصد اور مصرف کیا تھا؛ اس علم وفضل، زہدوتقویٰ اور فیاضی اور سیرچشمی کے باوجود طبیعت میں تواضع وخاکساری اس قدر تھی کہ وہ اپنی رفتار وگفتار نشست وبرخاست کسی چیز سے اپنی اس امتیازی حیثیت کوظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، مرو میں ان کے پاس اچھا خاصا کشادہ مکان تھا، جہاں ہروقت لوگوں کا ہجوم رہتا، آپ کویہ عقیدت مندی ناپسند تھی اس لیے وہاں سے کوفہ چلے آئے اور ایک نہایت ہی تنگ وتاریک مکان میں قیام پزیر ہوئے، لوگوں نے دریافت کیا کہ اتنا وسیع مکان چھوڑ کراس تنگ وتاریک مکان میں رہتے ہوئے وحشت نہیں ہوتی؟ فرمایا کہ جس بات کوتم پسند کرتے ہو یعنی عقیدت مندوں کا ہجوم وہ مجھے ناپسند ہے؛ اسی لیے تومیں مرو سے بھاگ نکلا اور یہاں تم گمنام زندگی کوناپسند کرتے ہو؛ حالانکہ مجھے یہی پسند ہے۔
(صفوۃ الصفوۃ:۴/۱۰۵)
ایک بار کسی سبیل (اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت عام جگہوں پرپانی پینے اور پلانے کا انتظام ہوتا تھا) پرپانی پینے کے لیے گئے، اس کے قریب پہنچے توایک ہجوم سے اُن کوایسا دھکا لگا کہ وہ پانی پینے کی جگہ سے دور جاپڑے، جب وہاں سے نکلے توحسن سے جوان کے ساتھ تھے فرمایا کہ:
ماالعیش الاھٰکذا یعنی لم تعرف ولم توقر۔
ترجمہ:زندگی اسی طرح گذارنی چاہیے کہ نہ ہم کولوگ پہچانیں اور نہ ہماری توقیر کریں۔
شوقِ جہاد
اوپرسفیان ثوری رحمہ اللہ کا یہ قول گذرچکا ہے کہ ابنِ مبارک اپنی پوری زندگی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے نمونہ تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ان کی زندگی کا کوئی لمحہ دعوت وتبلیغ اور اقامت دین کی جدوجہد اور اصلاحِ حال اور جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری سے خالی نہیں ہوتا تھا، کسی وقت وہ اپنے داخلی دشمن کومغلوب کرنے کے لیئے جہاد بالنفس میں مشغول رہتے تھے اور کبھی خارجی دشمن کوزیر کرنے کے لیئے سینہ سپررہتے تھے، ان کی یہ خصوصیت ضرب المثل بن گئی ہے:
فی اللیل رہبان وفی النہار فرسان۔
ترجمہ: رات میں وہ یکسوہوکر عبادت میں لگے رہتے ہیں اور دن کومیدان میں شہ سوار نظر آتے ہیں۔
عبداللہ ابن مبارک اس خصوصیت میں صحابہ کرام کا نقشِ ثانی تھے، ایک وقت میں وہ مجلس درس میں رونق افروز ہوتے تودوسرے وقت میں وہ ارشاد واصلاح کی مسند پرمتمکن نظ رآتے اورتیسرے وقت ایک سپاہی کی طرح میدانِ جہاد میں سرگردان دکھائی دیتے؛ انہوں نے سال کوتین حصوں میں تقسیم کردیا تھا، ایک حصہ میں تجارت کرتے، دوسرے حصہ میں درس وتدریس کا کام انجام دیتے اور تیسرے حصہ میں جہاد اور سفرِ حج میں مشغول رہتے تھے، ان کے درس وتدریس اور سفر حج کے واقعات کا ذکر اوپر آچکا ہے، شرکتِ جہاد کے ایک دوایک واقعے نقل کئے جاتے ہیں، اس زمانے میں رومیوں اور مسلمانوں میں برابر آویزش رہتی تھی، کبھی رومی اسلامی سرحدوں پرحملہ کرتے اور کبھی مسلمان پیش قدمی کرتے، ایک بار مسلمانوں نے پیش قدمی کی، عبداللہ بن مبارک بھی جہاد میں (اس وقت تک کرایہ کے سپاہی ہی میدان میں نہیں بھیجے جاتے تھے؛ بلکہ ہرمسلمان شرکتِ جہاد کواپنے لیے سب سے بڑی خوش قسمتی اور سب سے افضل عبادت سمجھتا تھا) رضاکارانہ شریک ہوئے، رومی فوج سے ایک سپاہی نکلا اور اس نے دعوتِ مبازرت دی، سلیمان مروزی کا بیان ہے کہ اسلامی فوج سے بھی ایک شخص اس کے مقابلہ کے لیے نکلا اور پہلے ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا؛ پھردوسرا شخص سامنے آیا اس کا حشر بھی وہی ہوا؛ لگاتار اسی طرح یکے بعد دیگرے کئی آدمی مقالبہ میں آئے اور اس مجاہد نے ان سب کوڈھیرکردیا، لوگوں نے یہ بہادری دیکھ کرمجاہد کوگھیرلیا، اس نے اپنا چہر لپیٹ رکھا تھا، جب لوگوں نے چہرے سے کپڑا ہٹایا تودیکھا یہ بہادر مجاہد عبداللہ بن مبارک ہیں۔
(صفوۃ الصفوۃ)
اہلِ تذکرہ لکھتے ہیں کہ مصیصہ، طرظوس وغیرہ مقامات میں یہ رومیوں کی سرحد سے قریب پڑتے تھے اس لیے بغرضِ جہاد ان جگہوں پروہ اکثرجاتے رہتے تھے، ایک بار کسی مجوسی سے برسرپیکار تھے کہ اسی اثنا میں مجوسی کی عبادت کا وقت آگیا، اس نے ان سے مہلت چاہی، جب وہ سورج کے سامنے سربسجود ہوا توانہوں نے ارادہ کیا کہ اس کا کام تمام کردیں؛ مگریہ آیت:
سامنے آئی تورُک گئے، جب وہ عبادت سے فارغ ہوا اور اس کواس بات کا علم ہوا تووہ یہ کہتا ہوا حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا کہ:
نعم الرب ربُّ ایعاتب ولیہ فی عدو۔
ترجمہ:بہترین رب وہ ہے جواپنے دوستوں پردشمن کے معاملہ میں عتاب کرتا ہے۔
مختصر یہ کہ دوسرے دینی فرائض کے ساتھ انہوں نے فریضہ جہاد کوبھی پنے اوپر لازم کرلیا تھا۔
امراء اور سلاطین سے گریز
امراء وسلاطین سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے، ہارون رشید نے کئی بار ملاقات کی خواہش ظاہر کی مگریہ گریز کرتے رہے، ابراہیم موصلی جن کا تعلق دربارِ شاہی سے بھی تھا وہ ابن مبارک سے غایت درجہ محبت کرتے تھے، ان کی روایت ہے کہ ہارون نے متعدد بار ابن مبارک سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر میں کسی طرح ٹال دیتا تھا، اس لیے کہ میں جانتا تھا کہ ابن مبارک کے سامنے دین وشریعت کے خلاف کوئی بات ہوگی تووہ ہارون کوسختی سے روکیں گے؛ بلکہ تنبیہ کریں گے اور یہ بات ہارون جیسے خودپسند خلیفہ کی ناگواری کا سبب بنے گی اور پھرنہ جانے اس کا کیا نتیجہ ہو؛ یہی نہیں کہ وہ خود دربار سے گریز کرتے تھے؛ بلکہ اپنے تمام احباب واقراب کوبھی اس سے روکتے تھے۔
ابن علیہ اس وقت کے ممتاز محدث اور امام تھے وہ عبداللہ بن مبارک کے خاص احباب میں تھے، تجارت میں بھی وہ ان کے شریک تھے، اٹھنا بیٹھنا بھی ساتھ تھا؛ مگرانہوں نے بعض امراء کی مجالس میں جانا شروع کردیا تھا (بعض روایتوں میں ہے کہ صدقات کی وصولی کے انچارج بنادیئے گئے تھے) عبداللہ بن مبارک کوجب اس کی اطلاع ہوئی توانہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور ایک روز مجلس میں آئے توان سے مخاطب نہیں ہوئے، ابن علیہ بے حد پریشان ہوئے، مجلس میں توکچھ نہ کہہ سکے؛ گھرپہنچے توبڑے اضطراب کی حالت میں ابن مبارک کویہ خط لکھا:
اے میرے سردار! مدتوں سے آپ کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہوں، قسم ہے خدا کی ان احسانات کومیں اپنے متعلقین کے حق میں برکت شمار کرتا تھا، آپ نے مجھ کونہ جانے کیوں اپنے سے جدا کردیا اور مجھ کومیرے ہمنشینوں میں کم رتبہ بنادیا، میں آپ کے دولت کدہ پرحاضر ہوا؛ لیکن آپ نے میری طرف توجہ تک نہ کی؛ اسی عدم توجہی سے مجھے آپ کی ناراضگی کا علم ہوا اور مجھے اب تک نہیں معلوم ہوسکا کہ میری کونسی غلطی آپ کے غضب وغصہ کا سبب بنی ہے، اے میرے محترم میری آنکھوں کے نور! میرے استاذ! خدا کی قسم! آپ نے کیوں نہیں بتلایا کہ وہ کیا خطا ہوئی؟ جس کی بناء پرمیں آپ کی ان تمام نوازشوں اور کرم فرمائیوں سے جومیرے غائیت تمنا تھیں محروم ہوگیا۔
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے یہ پراثر خط پڑھا مگر ان پراس کا کوئی اثر نہیں ہوا، یہ چند اور اشعار جواباً ان کے پاس لکھ کربھیج دیئے
يا جاعِلَ العِلمِ لَهُ بازِياً
يَصطادُ أَموالَ المَساكينِ
اے علم کوایک ایسا باز بنانے والے، جوغریبوں کا مال سمیٹ کرکھاجاتا ہے۔
اِحتَلتَ الدُنيا وَلَذّاتَها
بِحيلَةٍ تَذهَبُ بِالدَينِ
تم نے دنیا اور اس کی لذتوں کے لیے، ایسی تدبیر کی ہے جودین کومٹاکر رکھ دے گی۔
نَصِرتَ مَجنوناً بِها بَعدَما
كُنتَ دَواءً لِلمَجانينِ
تم خود مجنون ہوگئے، جب کہ تم مجنونوں کا علاج تھے۔
أَينَ رِوايَاتک في سَردِها
عَنِ اِبنِ عَونِ وَاِبنِ سيرينِ
وہ تمام روایتیں آپ کی کیا ہوئیں، جوابن عون اور ابنِ سیرین سے آپ بیان کرتے ہیں۔
أَينَ رِوايَاتك وَالْقول فی
لزوم ابواب السلاطین
وہ روایتیں کہاں گئیںجن میں، سلاطین سے ربط وضبط رکھنے کی وعید آئی ہے۔
إِن قُلتُ أُكرِهتُ فَمَازَا لَذَا
زَلَّ حَارُ العِلمِ في العلينِ
اگرتم کہو کہ میں اس پرمجبور کیا گیا توایسا کیوں ہوا، ہاں چار پایہ بروکتابے چند، کہ اسی طرح ذلت ہوتی ہے۔
ابنِ علیہ کے پاس قاصد یہ اشعار لے کرپہنچا اور انہوں نے پڑھا توان پررقت طاری ہوگئی اور اسی وقت اپنے عہدہ سے استعفا لکھ کربھیج دیا۔
(صفوۃ الصفوۃ:۴/۱۱۶)
مرجع خلائق
انہی محاسن اور اوصاف کی بنا پروہ مرجع خلائق بن گئے تھے؛ اگرچہ وہ اپنے فضل وکمال کوبہت کم ظاہر ہونے دیتے تھے؛ مگرپھربھی جس مقام پرپہنچ جاتے، لوگ جوق درجوق ان کے گرد جمع ہوجاتے تھے، ان کوجوقبول عام حاصل تھا اس کا اندازۃ اس واقعہ سے کیجئے کہ ایک بار ابنِ مبارک رقہ آئے (خلفائے عباسیہ عموماً رقہ میں گرمی گذارتے تھے، یہ مقام نہایت ہی سرسبز اور شاداب ہے) اس کا علم ہوا تواستقبال کے لیے پورا شہر ٹوٹ پڑا، ہارون رشید کی ایک لونڈی محل سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی، اس نے لوگوں سے دریافت کیا یہ کیا ماجرا ہے، لوگوں نے اسے بتایا کہ خراسان کے ایک عالم ابنِ مبارک یہاں آئے ہیں، انہی کے استقبال کے لیے یہ مجمع اُمڈ آیا ہے، اس نے بے ساختہ کہا کہ:
ھُوَالمُلْك لامُلْك هارون الذي لايجتمع النّاس عَلَیْہِ إلابشُرَط وأعوان۔
(کردری:۱۷۳)
ترجمہ:حقیقت میں خلیفہ وقت یہ ہیں ہارون نہیں، اس لیے کہ اس کے گرد کوئی مجمع بغیر پولیس، فوج اور اعوان وانصار اکٹھا نہیں ہوتا۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ ا ن کومشرق ومغرب کا عالم کہا کرتے تھے۔
(کردری:۱۷۳)
زرین اقوال
تذکروں میں عبداللہ ابن مبارک کے سینکڑوں قیمتی اقوال ملتے ہیں، جن می سے چند یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
معرفتِ الہٰی
ایک بار فرمایا کہ اہلِ دنیا، دنیا کی سب سے مرغوب اور لذید چیز سے لطف اندوز ہوئے بغیر یہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں، لوگوں نے پوچھا کہ سب سے لذیذ چیز کیا ہے؟ فرمایا معرفتِ الہٰی۔
ورع وتقویٰ
فرمایا کہ اگرآدمی سوباتوں میں تقویٰ اور خوفِ خدا اختیار کرتا ہے اور ایک بات میں نہیں تووہ متقی نہیں ہے، فرمایا کہ اگرکوئی شخص سوچیزوں میں پرہیزگاری اختیار کرتا ہے اور ایک چیز میں اسے ترک کردیتا ہےتو اس کومتورع یعنی پرہیزگارنہیں کہا جاسکتا۔
مشتبہ مال
فرمایا کہ میں ایک مشتبہ (مال ودولت کی تین صورتیں ہوتی ہیں، ایک حلال، دوسرے حرام اور تیسرے جس کا حلال یاحرام ہونا مشتبہ ہے، آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے کہ آدمی جب مشتبہات کے قریب جائے گا توپھرحرام کھائیگا اس لیے مشتبہ سے بچنا چاہئے، یہ اسی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے) درہم کواستعمال نہ کرنے کوسودرہم صدقہ کرنے کے مقابلہ میں زیادہ پسند کرتا ہوں۔
اللہ کے لیے محبت
فرمایا میں کسی چیز کے تلاش کرنے میں تھکا نہیں بجز ایسے دوست کی تلاش میں جوصرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہو۔
شہرت
فرمایا کہ گم نامی کوپسند کرو اور شہرت سے دور رہو؛ مگریہ ظاہر نہ کرو کہ تم گم نامی کوپسند کرتے ہو اس لیے کہ اس سے بھی نفس میں بلندی اور غرور پیدا ہوگا۔
شاعر اور عوام
کسی نے پوچھا کہ بازاری لوگ کون ہیں، بولے خزیمہ اور اس کے ساتھی؛ پھرپوچھا کہ سب سے گرے ہوئے کون لوگ ہیں، بولے جوقرض پرزندگی بسرکرتے ہیں اور ہاتھ پیر نہیں ہلاتے۔
(صفوۃ الصفوۃ:۴/۱۱۵،۱۱۴)
جہل
فرمایا جس میں جہالت وجاہلیت کی ایک عادت بھی موجود ہوگی اس کوجاہل کہا جائے گا، کیا سنا نہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جب یہ کہا کہ اے اللہ! میرے لڑکے کواس طوفان سے بچاے، اس لیے کہ وہ میرے اہل میں ہے اور تونے میرے اہل وعیال کوبچانے کا وعدہ فرمایا ہے توخدا تعالیٰ نے جواب دیاکہ میں نصیحت کرتا ہوں کہ توجاہلوں میں نہ ہو، تیرا لڑکا جب ایمان کی دولت سے محروم ہوگیا توپھراہل میں کہاں رہا، صاحب زہد وتقویٰ آدمی دنیا میں بھی ایک بادشاہ وقت سے زیادہ معزز ہوتا ہے؛ کیونکہ بادشاہ اگر اپنے گردلوگوں کوجمع کرنا چاہے تواسے جبروکراہ کرنا پڑتا ہے، بخلاف خدارسیدہ آدمی کےکہ وہ لوگوں سے بھاگتا ہے؛ مگرلوگ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔
علم اور علماء
وہ شخص عالم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کے دل میں خوفِ خدا اور دنیا سے بے رغبتی نہ ہو۔
تواضع
ایک شخص نے پوچھا کہ تواضع کیا ہے، آپ نے فرمایا کہ اغنیا کے مقابلہ میں خوددار رہنا، فرمایا کہ شریف وہ ہے جسے اطاعتِ الہٰی کی توفیق ہوئی اور ذلیل وہ ہے جس نے بے مقصد زندگی گذاردی، ایک شخص نے حسن خلق کی تعریف پوچھی توفرمایا کہ ترک الغضب، غصہ نہ کرنا۔
محاسن ومساوی
فرمایا کہ کسی آدمی کے محاسن اور معائب کا اندازہ اس کی کمیت سے کرنا چاہیے، یعنی اگرکسی کے اندر محاسن زیادہ ہیں تواس کے معائب کوسامنے نہ لانا چاہیے اور اگرکسی میں معائب زیادہ ہیں تومحاسن کا کوئی شمار نہیں۔
حسنِ نیت
فرمایا کہ بہت سے چھوٹے اعمال ہیں جوحسنِ نیت کی وجہ سے بڑے ہوجاتے ہیں اور بہت سے اعمال ہیں جوسوءنیت کی وجہ سے چھوٹے ہوجاتے ہیں؛ علم کے لیے سب سے پہلے نیت وارادہ؛ پھرفہم، پھرعمل، پھرحفظ او راس کے بعد اس کی اشاعت وترویج کی ضرورت ہے۔
اُمت کے طبقے
ایک روز مسیب بن واضح سے ابن مبارک نے پوچھا کہ تم کومعلوم ہے کہ عام بگاڑ اور فساد کیسے پیدا ہوتا ہے؟ مسیب نے کہا کہ مجھے علم نہیں، فرمایا کہ خواص کے بگاڑ سے عام بگاڑ پیدا ہوتا ہے؛ پھرفرمایا کہ اُمتِ محمدیہ کے پانچ طبقے ہیں جب ان میں فساد اور خرابی پیدا ہوجاتی ہے توسارا ماحول بگڑ جاتا ہے:
(۱)علماء یہ انبیا کے وارث ہیں؛ مگرجب دنیا کی حرص وطمع میں پڑجائیں توپھر کسی کواپنا مقتدا بنایا جائے؟۔
(۲)تجاریہ اللہ کے امین ہیں جب یہ خیانت پراُترآئیں توپھر کس کوآمین سمجھا جائے؟۔
(۳)مجاہدین، یہ اللہ کے مہمان ہیں، جب یہ مالِ غنیمت کی چوری شروع کریں توپھردشمن پرفتح کس کے ذریعہ حاصل کی جائے؟۔
(۴)زیادیہ زمین کے اصل بادشاہ ہیں، جب یہ لوگ برے ہوجائیں توپھر کس کی پیروی کی جائے؟۔
(۵)حکام یہ مخلوق کے نگران ہیں جب یہ گلہ بان ہی بھیڑیا صفت ہوجائے توگلہ کوکس کے ذریعہ بچایا جائے؟۔
غرور اور خود پسندی
ابووہب مروزی نے غرور کی تعریف پوچھی توفرمایاکہ لوگوں کوحقیر سمجھنا اور عجب نکالنا غرور ہے؛ پھرعجب یعنی خود پسندی کی تعریف پوچھی توبولے کہ آدمی یہ سمجھے کہ جواس کے پاس ہے وہ دوسرے کے پاس نہیں ہے۔
حقیقی جہاد
ایک شخص نے جہاد اور اس کی تیاری کے بارے میں سوال کیا توفرمایا کہ اپنے نفس کوحق پرجمائے رکھنا؛ یہاں تک کہ وہ خود اس پرجم جائے، سب سے را جہاد ہے، یہ اس حدیث کا بالکل ترجمہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ:
الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ۔
(کردری:۲/۱۷۶)
ترجمہ:مجاہد وہ ہے جواپنے نفس سے لڑے۔
تصنیف
حضرت عبداللہ بن مبارک کی زندگی میں مجاہدانہ رنگ غالب تھا اس لیے وہ علم وفن اور تدوین وتالیف کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کرسکے؛ پھربھی انہوں نے جوکچھ تحریری یادگاریں چھوڑی ہیں وہ ان کے علم وفضل پرشاہد ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں ان کی صرف ایک کتاب، کتاب الذہب کا تذکرہ کیا ہے اور پھرلکھا ہے:
صاحب التصانيف النافعة۔
(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۰)
ترجمہ: بہت سی مفید کتابوں کے مصنف ہیں۔
تذکروں میں کتاب الذہب کے علاوہ ان کی کسی تصنیف کا ذکر نہیں ہے؛ مگرابن ندیم نے متعدد کتابوں کا تذکرہ کیا ہے: (۱)کتاب السنن (۲)کتاب التفسیر (۳)کتاب التاریخ (۴)کتاب الزہد (۵)کتاب البروالصلۃ۔
(ابنِ ندیم:۳۱۹)
وفات
ان کی وفات جس طرح ہوئی اس میں ہرمؤمن کے لیئے سامانِ بصیرت ہے، ان کی زندگی زہد واتقا کا مرقع تھی؛ مگران کی سب سے نمایاں خصوصصیت جہاد فی سبیل اللہ تھی، اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ ان کی وفات بھی اسی مبارک سفر میں ہوئی، شام کے علاقہ میں جہاد کے لیے گئے ہوئے تھے کہ اثنائے سفر میں طبیعت خراب ہوئی، ستو پینے کی خواہش کی، ایک شخص نے ستو پیش کیا مگریہ شخص ہارون رشید کا درباری تھا، اس لیے اس کا ستوپینے سے انکار کردیا، وفات سے کچھ دیر پہلے آواز پھنس گئی، اس گلوبندی کی وجہ سے ان کوگمان ہوا کہ زبان سے کلمۂ شہادت نکلنا نہ رہ جائے اس لیے انہوں نے اپنے ایک شاگرد حسن بن ربیع سے کہا کہ دیکھو جب میری زبان سے کلمہ شہادت نکلے توتم اتنی بلند آواز سے دہرانا کہ میں سن لوں، جب تم ایسا کروگے تویہ کلمہ خود بخود میری زبان پرجاری ہوجائے گا، چنانچہ اسی حالت میں وہ اپنے خالق سے جاملے۔
سنہ، عمر اور مقام وفات
یہ حادثۂ عظمیٰ سنہ۱۸۱ء میں مقام ہیت (یہ مقام گوحدودِ کوفہ ہی میں داخل تھا؛ مگرصحرائے شام میں واقع ہے، اس وقت اس کی حیثیت ایک قصبہ کی تھی) میں پیش آیا، وفات کے وقت عمر ۶۳/سال تھی۔
مقبولیت
وفات گووطن سے سینکڑوں میل دور ہوئی تی، عام مقبولیت کا حیال یہ تھا کہ جب لوگوں کووفات کی اطلاع ملی توجنازہ پراس قدر اژدہام ہوا کہ ہیت کے حاکم کو اس واقعہ کی اطلاع دارالخلافہ بغداد بھیجنی پڑی، زندگی میں وہ ہارون سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے؛ مگرجب اس کواس حادثہ کی اطلاع ہوئی تواس نے اپنے وزیرفضل سے کہا کہ آج لوگوں کوعام اجازت دے دو کہ ان کی تعزیت لوگ ہمارے پاس آکر کریں (مقصد یہ تھا کہ ان کی وفات پوری مملکتِ اسلامی کے لیے ایک حادثہ ہے اور میں اس وقت اس کا ذمہ دار ہوں توان کی تعزیت کا میں بھی حقدار ہوں) مگرفضل نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی توہارون نے ان کے کچھ اشعار پڑھے اور اس حادثہ کی اہمیت بتلائی، راوی کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے بعد مجھے اس آیت کا مفہوم واضح ہوا: