فتنہ کے معنیٰ:
دراصل فتن کے معنیٰ سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ظاہر ہوجائے، اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ
[سورۃ الذاریات:13]
جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا۔
[المفردات القرآن: صفحه623، امام الراغب الاصفھانی(م606ھ)]
یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Sunday, 31 August 2014
فتنہ کے معنیٰ ، اقسام اور علاج
فتنہ کیا ہے؟ اور کیا کیا چیزیں فتنہ ہیں؟
آزمائش
(برائی اور بھلائی کی......ھدایت اور گمراہی کی)
﴿سچے اور جھوٹے میں فرق کو ظاہر کرنے کیلئے﴾
[حوالہ»سورہ بقرۃ:102 نساء:91 مائدہ:41 (اعراف:155) توبۃ:126 یونس:85 اسراء:60 طٰہٰ:40۔85(انبیاء:35) حج:53 فرقان:20 نمل:47 عنکبوت:2﴿3﴾ ص:24۔34 دخان:17]
غیر اللہ کا دین/حکم
[بقرۃ:193 انفال:39]
اللہ کے راستے/مسجد سے روکنا،کفر کرنا
[البقرۃ:217]
فساد
[آل عمران:7 انفال:73 توبۃ:47-49]
کافروں کا مومنوں کو ستانا
[نساء:101 یونس:83 نحل:110 عنکبوت:10 بروج:10]
بہکاوہ
[مائدۃ:49،صافات:162]
پکڑ
[مائدۃ:71]
بہانہ-شرارت
[انعام:23،ذاریات:14]
امتحانِ الٰہی
[انعام:53]
شیطانی گمراہی
[اعراف:27،طٰہٰ:85۔90]
مصیبت-وبال-آفت
[انفال:25،نور:63]
مال اور اولاد
[انفال:28 تغابن:15]
وحی سے ہٹانے کی بات/کوشش
[اسراء:73]
دنیاوی کی زینت وآرائش
[طٰہٰ:131]
ڈھیل-سزا میں تاخیر
[انبیاء:111]
دنیاوی نقصان
[حج:11]
جنگ
[احزاب:14]
زقوم کا درخت
[صافات:63]
نعمت(بھی آزمائش ہے)
[زمر:49]
آگ میں تپایا جانا
[ذاریات:13]
نبی صالح کی اونٹنی
[قمر:27]
جھوٹی آرزؤں کے انتظار اور شک میں پڑے رہنا
[حدید:14]
تختۂ مشق
[ممتحنہ:5]
Wednesday, 27 August 2014
فکر و مراقبہ - Ponder & Meditation
مراقبہ کیا ہے؟
مراقبہ یعنی دل سے خدا کا دھیان رکھنا (توجہ، یاد، تصور، فکر، اِسْتِحْضار، دلی لگانا، لُو لگانا، استغراق، محو ہونا) اور اس کا بیان(جس کی ضد غفلت ہے)، دل سے ہر وقت دھیان رکھے کہ اللہ تعالی کو میرے سب حالوں کی خبر ہے ظاہر کی بھی اور دل کی بھی اگر برا کام ہو گا یا برا خیال لایا جائے گا شاید اللہ تعالی دنیا میں یا آخرت میں سزا دیں دوسرے عبادت کے وقت یہ دھیان جما لے کہ وہ میری عبادت کو دیکھ رہے ہیں اچھی طرح بجا لانا چاہیے ، طریقہ اس کا یہی ہے کہ کثرت سے ہر وقت یہ سوچا کرے تھوڑے دنوں میں اس کا دھیان بندھ جائے گا پھر انشاء اللہ تعالی اس سے کوئی بات اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف نہ ہو گی۔
مراقبہ کی یہ حقیقت مشہور حدیث:
(كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ)
(دنیا میں اس طرح ہو جا جیسے تو مسافر-اجنبی ہو۔)
[صحيح البخاري:6416]
سے ثابت ہے۔
مراقبہ کی 3 اقسام معلوم ہوئیں:
(۱) مراقبہ رؤیت (۲) مراقبہ معیت (۳) مراقبہ فنائیت۔
قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَزْكِيَةُ الْمَرْءِ نَفْسَهُ؟ قَالَ: «أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ مَعَهُ حَيْثُ كَانَ»۔
(1)مراقبہ رؤیت:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت نبوی ﷺ روایت ہے کہ:
اللہ کی عبادت کر جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہو۔
[مسند احمد:6156، الغرباء،لآجری:32]
ورنہ(ایسے دھیان میں رکھ کہ)وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
ورنہ(ایسے دھیان میں رکھ کہ)وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
[بخاری:50]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صَلِّ صَلَاةَ مُوَدِّع، فَإِنَّكَ إِنْ كُنْتَ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
ترجمہ:
نماز اس طرح پڑھا کرو جیسے کہ (تم ابھی دنیا سے ) رخصت ہونے والے ہو، بےشک اگر تو اس(اللہ)کو نہیں دیکھ رہا وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صَلِّ صَلَاةَ مُوَدِّع، فَإِنَّكَ إِنْ كُنْتَ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
ترجمہ:
[صحیح الترغیب و الترھیب:3350، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:1914]
(2)تزکیہ اور مراقبہ معِیَت:
حضرت عبادہ بن الصامتؓ نے فرمایا ، (کہ) فرمایا رسول الله ﷺ نے : (کہ) بیشک افضل ایمان انسان کا یہ ہے کہ وہ علم(یقین واحساس) رکھے کہ بےشک الله اس کے ساتھ ہے، جہاں بھی وہ ہو.
[شعب الإيمان للبيهقي » الْحَادِي عَشَرَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ...، رقم الحديث: 740]
[ المعجم الأوسط للطبراني: حدیث#8796 ، تفسیر ابن کثیر (مترجم) : 5/317]
[شعب الإيمان للبيهقي » الْحَادِي عَشَرَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ...، رقم الحديث: 740]
[ المعجم الأوسط للطبراني: حدیث#8796 ، تفسیر ابن کثیر (مترجم) : 5/317]
قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَزْكِيَةُ الْمَرْءِ نَفْسَهُ؟ قَالَ: «أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ مَعَهُ حَيْثُ كَانَ»۔
ترجمہ:
نبی ﷺ سے پوچھا گیا: آدمی کا اپنے نفس کا تزکیہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: انسان یہ یقین جان لے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔
[التاريخ الكبير للبخاري:54، الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:1162، السنن الكبرى للبيهقي:7275، المعجم الصغير:555، مسند الشاميين:1870، معجم الصحابة لابن قانع:2/102، معرفة الصحابة لأبي نعيم:4528، السلسلة الصحيحة:3/38]
(3)مراقبہ فنائیت:
۔۔۔اور ہوجا دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح۔
[بخاری:4614]
۔۔۔اور شمار کر اپنے نفس کو قبر والوں میں سے۔
[ترمذی:2333،ابنِ ماجہ:4114]
حضرت معاذ بن جبلؓ سے نبی ﷺ کی روایت ہے:
(1) اللہ کی عبادت کر جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہو اور (2) شمار کر اپنے نفس کو قبر والوں میں، اور (3) ذکر کر اللہ ہر پتھر اور درخت کے قریب بھی، اور (4) کوئی برائی ہوجائے تو عمل کر فوراؒؒ نیکی کا: خفیہ(گناہ پر)خفیہ اور اعلانیہ پر اعلانیہ۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:34325]
(2)حضرت عبادہ بن الصامتؓ نے فرمایا ، (کہ) فرمایا رسول الله ﷺ نے : (کہ) بیشک افضل ایمان انسان کا یہ ہے کہ وہ علم(یقین واحساس) رکھے کہ بےشک الله اس کے ساتھ ہے، جہاں بھی وہ ہو.
[شعب الإيمان للبيهقي » الْحَادِي عَشَرَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ...، رقم الحديث: 740]
[ المعجم الأوسط للطبراني: حدیث#8796 ، تفسیر ابن کثیر (مترجم) : 5/317]
(3)۔۔۔اور ہوجا دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح۔
[صحیح بخاری:4614]
۔۔۔اور شمار کر اپنے نفس کو قبر والوں میں سے۔
[سنن ترمذی:2333، سنن ابنِ ماجہ:4114]
حضرت معاذ بن جبلؓ سے نبی ﷺ کی روایت ہے کہ (1) اللہ کی عبادت کر جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہو اور (2) شمار کر اپنے نفس کو قبر والوں میں، اور (3) ذکر کر اللہ ہر پتھر اور درخت کے قریب بھی، اور (4) کوئی برائی ہوجائے تو عمل کر فوراؒؒ نیکی کا: خفیہ(گناہ پر)خفیہ اور اعلانیہ پر اعلانیہ۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:34325]
مراقبہ موت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ " ، يَعْنِي الْمَوْتَ ، قَالَ : وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ .
حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا " (دنیا کی) لذتوں کو کھو دینے والی چیز کو ، کہ جو موت ہے کثرت سے یاد کرو" ۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَلَّاهُ فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ ، قَالَ : " أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى ، فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى الْقَبْرِ يَوْمٌ إِلَّا تَكَلَّمَ فِيهِ ، فَيَقُولُ : أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ ، فَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ : مَرْحَبًا وَأَهْلًا ، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ ، قَالَ : فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ ، وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوِ الْكَافِرُ , قَالَ لَهُ الْقَبْرُ : لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا ، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ ، قَالَ : فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلَاعُهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِهِ : فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ ، قَالَ : وَيُقَيِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ "
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مصلی پر تشریف لائے تو کچھ لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم لذتوں کو ختم کرنے والی چیز کو یاد کرتے تو تمہیں اس بات کی فرصت نہ ملتی جو میں دیکھ رہا ہوں لہذا لذتوں کو قطع کرنے والی موت کو زیادہ یاد کرو کوئی قبر ایسی نہیں جو روزانہ اس طرح نہ پکارتی ہو کہ غربت کا گھر ہوں میں تنہائی کا گھر ہوں میں مٹی کا گھر ہوں اور میں کیڑوں کا گھر ہوں پھر جب اس میں کوئی مومن بندہ دفن کیا جاتا ہے تو وہ اسے ( مَرْحَبًا وَأَهْلًا) کہہ کر خوش آمدید کہتی ہے پھر کہتی ہے کہ میری پیٹھ پر جو لوگ چلتے ہیں تو مجھ ان سب میں محبوب تھا اب تجھے میرے سپرد کر دیا گیا ہے تو اب تو میرے حسن سلوک دیکھے گا پھر وہ اس کے لئے حدنگاہ تک کشادہ ہو جاتی ہے اور اس کے لئے جنت کا درواز کھول دیا جاتا ہے اور جب گنہگار یا کافر آدمی دفن کیا جاتا ہے قبر اسے خوش آمدید نہیں کہتی بلکہ (لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا) کہتی ہے پھر کہتی ہے کہ میری پیٹھ پر چلنے والوں میں تم سب سے زیادہ مغبوض شخص تھے آج جب تمہیں میرے سپرد کیا گیا ہے تو تم میری بدسلوکی بھی دیکھو گے پھر وہ اسے اس زور سے بھنچتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیاں ایک دوسری میں داخل کر کے دکھائیں پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد اس پر ستر اژدھے مقرر کر دئیے جاتے ہیں اگر ان میں سے ایک زمین پر ایک مرتبہ پھونک مار دے تو اس پر کبھی کوئی چیز نہ اگے پھر وہ اسے کاٹتے ہیں اور نوچتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اسے حساب و کتاب کے لئے اٹھایا جائے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے
:تشریح
صحیح یہی ہے کہ لفظ " ہاذم" ذال کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں قطع کرنے والا، چنانچہ جن لوگوں نے دال کے ساتھ یعنی لفظ " ہادم" بمعنی ڈھالنے والا جو نقل کیا ہے صحیح نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ اس بارہ میں کسی راوی سے چوک ہو گئی ہو۔
بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنا چاہئے کیونکہ موت کو یاد کرنے سے غفلت جو نیک اعمال کے راستہ میں رکاوٹ بنتی ہے دور ہوتی ہے، موت کی یاد دنیا (کے برے کاموں ) کی مشغولیت سے باز رکھتی ہے اور موت کو یاد کرنے والا طاعات و عبادات کی طرف متوجہ رہتا ہے جو توشہ آخرت ہے۔
نسائی نے اس روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں۔ فَإِنَّهُ لا يَكُونُ فِي كَثِيرٍ إِلا قَلَّلَهُ , وَلا فِي قَلِيلٍ إِلا كَثَّرَهُ (ترجمہ) جب مال کی زیادتی میں موت یاد آتی ہے تو وہ مال کو کم کر دیتی ہے (یعنی موت یاد آ جانے کی وجہ سے مال کی طرف کوئی رغبت نہیں رہتی اور مال کو فانی سمجھنے لگتا ہے اس لئے اس وقت زیادہ مال بھی نظروں میں حقیر ہو جانے کی وجہ سے کم ہی محسوس ہوتا ہے) اور جب مال کی کمی میں موت یاد آ جاتی ہے تو وہ مال کو زیادہ کر دیتی ہے (یعنی جب موت یاد آتی ہے تو دنیا کو فانی سمجھ کر کم مال پر قناعت کرتا ہے اس لئے تھوڑا مال بھی زیادہ معلوم ہونے لگتا ہے۔
مراقبہ(ذکر وفکر) کا ثبوت:
مراقبہ ایک طرح سے فکر، ذکرِ قلبی، ذکرِ نفسی یا ذکرِ خفی ہے، جس میں خفیہ دعا و ندا بھی کی جاتی ہے. جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
ذکرِ قلبی کا ثبوت:
ذکرِ قلبی کا ثبوت:
وَاصبِر نَفسَكَ مَعَ الَّذينَ يَدعونَ رَبَّهُم بِالغَدوٰةِ وَالعَشِىِّ يُريدونَ وَجهَهُ ۖ وَلا تَعدُ عَيناكَ عَنهُم تُريدُ زينَةَ الحَيوٰةِ الدُّنيا ۖ وَلا تُطِع مَن أَغفَلنا قَلبَهُ عَن ذِكرِنا وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ وَكانَ أَمرُهُ فُرُطًا {18:28}
|
اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو۔ اور تمہاری نگاہیں ان میں (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ۔ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا
|
یعنی اس کے دیدار اور خوشنودی حاصل کرنے کے شوق میں نہایت اخلاص کے ساتھ دائمًا عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔ مثلاً ذکر کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں ، نمازوں پر مداومت رکھتے ہیں۔ حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں خالق و مخلوق دونوں کے حقوق پہچانتے ہیں ، گو دنیوی حیثیت سے معزز اور مالدار نہیں ۔ جیسے صحابہ میں اس وقت عمار ، صہیب ، بلال ، ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم تھے۔ ایسے مومنین مخلصین کو اپنی صحبت و مجالست سےمستفید کرتے رہئے۔ اور کسی کے کہنے سننے پر ان کو اپنی مجلس سے علیحدہ نہ کیجئے۔
|
یعنی ان غریب شکستہ حال مخلصین کو چھوڑ کر موٹے موٹے متکبر دنیاداروں کی طرف اس غرض سے نظر نہ اٹھائیے کہ ان کے مسلمان ہو جانے سے دین اسلام کو بڑی رونق ہو گی۔ اسلام کی اصلی عزت و رونق مادی خوشحالی اور چاندی سونے کے سکوں سے نہیں ۔ مضبوط ایمان و تقویٰ اور اعلیٰ درجہ کی خوش اخلاقی سے ہے۔ دنیا کی ٹیپ ٹاپ محض فانی اور سایہ کی طرح ڈھلنے والی ہے ، حقیقی دولت تقویٰ اور تعلق مع اللہ کی ہے جسے نہ شکست ہے نہ زوال ، چنانچہ اصحاب کہف کے واقعہ میں خدا کو یاد کرنے والوں اور دنیا کے طالبوں کا انجام معلوم ہو چکا۔
|
یعنی جن کے دل دنیا کے نشہ میں مست ہو کر خدا کی یاد سے غافل اور ہر وقت نفس کی خوشی اور خواہش کی پیروی میں مشغول رہتے ہیں ، خدا کی اطاعت میں ہیٹے اور ہواپرستی میں آگے رہنا ان کا شیوہ ، ایسے بدمست غافلوں کی بات پر آپ کان نہ دھریں خواہ وہ بظاہر کیسے ہی دولتمند اور جاہ و ثروت والے ہوں۔ روایات میں ہے کہ بعض صنادید قریش نے آپ سےکہا کہ ان رذیلوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیجئے تاکہ سردار آپ کے پاس بیٹھ سکیں رذیل کہا غریب مسلمانوں کو اور سردار دولتمند کافروں کو۔ ممکن ہے آپ کے قلب مبارک میں خیال گزرا ہو کہ ان غرباء کو تھوڑی دیر علیحدہ کر دینے میں کیا مضائقہ ہے ۔ وہ تو پکےمسلمان ہیں مصلحت پر نظر کر کے رنجیدہ نہ ہوں گے اور یہ دولت مند اس صورت میں اسلام قبول کر لیں گے۔ اس پر یہ آیت اتری کہ آپ ہر گز ان متکبرین کا کہنا نہ مانئے کیونکہ یہ بیہودہ فرمائش ہی ظاہر کرتی ہے کہ ان میں حقیقی ایمان کا رنگ قبول کرنے کی استعداد نہیں ۔ پھر محض موہوم فائدہ کی خاطر مخلصین کا احترام کیوں نظر انداز کیا جائے نیز امیروں اور غریبوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنے سے احتمال ہے کہ عام لوگوں کےقلوب میں پیغمبر کی طرف سے معاذ اللہ نفرت اور بد گمانی پیدا ہو جائے جس کا ضرر اس ضرر سے کہیں زیاد ہو گا جو ان چند متکربین کے اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں تصور کیا جا سکتا ہے۔
|
Keep yourself content with those who call their Lord morning and evening, seeking His pleasure, and let not your eyes overlook them, seeking the splendor of the worldly life. And do not obey the one whose heart We have made heedless of Our remembrance, and who has followed his desire and whose behavior has exceeded the limits.
[AL-QURAN : Chapter # 18, Verse # 28]
Tafsir al-Jalalayn : Then eat from every [kind of] fruit, and follow, enter, the ways of your Lord, [follow] His paths in seeking pastures, [ways] made easily accessible’ (dhululan is the plural of dhalūl, and is a circumstantial qualifier referring to al-subul, ‘the ways’, in other words, [those paths] disposed for you, such that they pose no difficulty for you, even if it should be rough [terrain], and [such that] you would not lose your way when returning therefrom, even if it be far away; it [dhululan] is also said to be [a circumstantial qualifier] referring to the person of [the pronominal suffix of] fa’slukī, ‘you follow’, meaning [in this case] [follow those paths] in compliance with what is required of you). There comes forth from their bellies a drink, namely, honey, of diverse hues, wherein is a cure for mankind, from [all] ailments; it is also said [that it means that it is a cure only] for some [ailments], as indicated by the indefinite [noun] shifā’un, ‘a cure’; or [that it is a cure] for all [ailments] when supplemented with some other [remedy]; or without these [other remedies] but with the resolve (niyya) [to get better]. The Prophet (s) used to prescribe it for anyone suffering from stomach pains, as reported by the two Shaykhs [Bukhārī and Muslim]. Surely in that there is a sign for a people who reflect, upon God’s handiwork, exalted be He.
Asbab Al-Nuzul by Al-Wahidi : (Restrain thyself along with those who cry unto their Lord…) [18:28]. The judge Abu Bakr Ahmad ibn al-Hasan al-Hiri related to us by dictation in Dar al-Sunnah on Friday after prayer, in the months of the year 410 a.h.> Abu'l-Hasan ibn 'Isa Ibn 'Abdawayh al-Hiri> Muhammad ibn Ibrahim al-Bushanji> al-Walid ibn 'Abd al-Malik ibn Musarrih al-Harrani> Sulayman ibn 'Ata' al-Harrani> Maslamah ibn 'Abd Allah al-Juhani> his uncle Ibn Mashja'ah ibn Rub'i al-Juhani> Salman al-Farisi who said: “Those whose hearts were to be reconciled (al-mu'allafati qulubuhum) - 'Uyaynah ibn Hisn, al-Aqra' ibn Habis and their families - came to the Messenger of Allah, Allah bless him and give him peace, and said: 'O Messenger of Allah, if only you could sit at the front of the assembly and remove these people - meaning: Salman al-Farisi, Abu Dharr al-Ghifari and other poor Muslims - and their smelly outer garments - because the only thing they had on them were these woollen outer garments - from us, then we could sit with you, talk to you and learn from you!' As a response, Allah, exalted is He, revealed (And recite that which hath been revealed unto thee of the Scripture of thy Lord. There is none who can change His words, and thou wilt find no refuge beside Him. Restrain thyself along with those who cry unto their Lord at morn and evening, seeking His Countenance) [18:27-28] up to His words (Lo! We have prepared for disbelievers Fire...) [18:29], threatening them with hell. The Prophet, Allah bless him and give him peace, stood up and went looking for them. He found them at the back of the mosque making remembrance of Allah, exalted is He. He said: 'Praise be to Allah Who did not take away my soul until He commanded me to restrain myself with men of my community. It is with you that I live and with you that I die' ”. (…and obey not him whose heart We have made heedless of Our remembrance…) [18:28]. Abu Bakr al-Harithi informed us> Abu'l-Shaykh al-Hafiz> Abu Yahya al-Razi> Sahl ibn 'Uthman> Abu Malik> Juwaybir> al-Dahhak> Ibn 'Abbas who said regarding the words of Allah, exalted is He (…and obey not him whose heart We have made heedless of Our remembrance…): “This verse was revealed about Umayyah ibn Khalaf al-Jumahi. He asked the Prophet, Allah bless him and give him peace, to do something that he disliked. He asked him to chase away the poor from his assembly and draw to him, instead, the leaders of Mecca. Allah, exalted is He, revealed (…and obey not him whose heart We have made heedless of Our remembrance), i.e. sealed his heart such that he will never believe in Allah's divine oneness (who followeth his own lust) i.e. idolatry”.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (Restrain thyself along with those who cry unto their Lord) who worship their Lord (at morn and evening) the reference here is to Salman al-Farisi and his fellow believers, (seeking His Countenance) by worshipping Him they seek only Allah's Countenance and good pleasure; (and let not your eyes overlook them, desiring the pomp of the life of the world) the embellishment of this worldly life; (and obey not him whose heart We have made heedless of Our remembrance) of Our divine Oneness, (who followeth his own lust) by worshipping the idols (and whose case) and whose words (hath been abandoned) at a loss. This verse was revealed about 'Uyaynah Ibn Hisn al-Fazari.
Tafsir al-Tustari : …And do not obey him whose heart We have made oblivious to Our remembrance…He said:Heedlessness (ghafla) is wasting time with futile things (biṭāla). And he further said:The heart has a thousand deaths, of which the ultimate is being cut off (qaṭīʿa) from God, Mighty and Majestic is He; and the heart has a thousand lives, of which the ultimate is the encounter (liqāʾ) with God, Mighty and Majestic is He. Furthermore, with each sinful act the heart undergoes a death, and with each act of obedience it receives [new] life.His words, Exalted is He:
ذکرِ نفسی کا ثبوت:
وَاذكُر رَبَّكَ فى نَفسِكَ تَضَرُّعًا وَخيفَةً وَدونَ الجَهرِ مِنَ القَولِ بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ وَلا تَكُن مِنَ الغٰفِلينَ {7:205}
|
اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح وشام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا
|
بڑا ذکر تو قرآن کریم ہے اس کا ادب بیان ہو چکا۔ اب عام ذکر اللہ کے کچھ آداب بیان فرماتے ہیں یعنی ذکر اللہ کی اصلی روح یہ ہے کہ جو زبان سے کہے دل سے اس کی طرف دھیان رکھے تاکہ ذکر کا پورا نفع ظاہر ہو اور زبان و دل دونوں عضو خدا کی یاد میں مشغول ہوں ۔ ذکر کرتے وقت دل میں رقت ہونی چاہئے۔ سچی رغبت و رہبت سے خدا کو پکارے۔ جیسے کوئی خوشامد کرنے والا ڈرا ہوا آدمی کسی کو پکارتا ہے۔ ذاکر کے لہجہ میں آواز میں اور ہیئت میں تضرع و خوف کا رنگ محسوس ہونا چاہئے۔ ذکر و مذکور کی عظمت و جلال سے آواز کا پست ہونا قدرتی چیز ہے { وَخَشَعَتِ الْاَ صْواتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ھَمْسًا }۔ اسی لئے زیادہ چلانے کی ممانعت آئی ہے۔ دھیمی آواز سے سراً یا جہراً خد اکا ذکر کرے تو خدا اس کا ذکر کرے گا۔ پھر اس سے زیادہ عاشق کی خوش بختی اور کیا ہو سکتی ہے۔
|
Remember your Lord in your heart with humility and awe, and without speaking loudly, in mornings and evenings, and do not be among the heedless.
[AL-QURAN : Chapter # 7, Verse # 205]
Tafsir al-Jalalayn : And remember your Lord within yourself, that is, secretly, humbly, submissively, and fearfully, in awe of Him, and, louder than [speaking] in secret, more quietly than speaking out loud, that is, a middle way between the two, at morning and evening, at the beginning of the day and at its end. And do not be among the heedless, of God’s remembrance.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (And do thou (O Muhammad) remember thy Lord within thyself) recite alone by yourself, O Muhammad, if you are leading the prayer (humbly and with awe, below your breath) avoiding to raise your voice too loudly or lowering it too much, (at morn and evening) during the morning prayer and in evening prayer: Maghrib and 'Isha'. (And be you not of the neglectful) of reciting the Qur'an in prayers whether you are praying alone or leading the prayer.
Tafsir al-Tustari : And remember your Lord inwardly, humbly and fearfully…[Sahl was asked], ‘What is the true reality of remembrance (ḥaqīqat al-dhikr)?’ He answered:It is the realisation (taḥqīq) of the knowledge that God, Exalted is He, witnesses you, and it is that you see Him close to you with your heart. Thus, you feel shame before Him and give Him priority over yourself in all your affairs.Then he said:The one who claims to keep remembrance (dhikr) is not necessarily one who [truly] remembers [God] (dhākir).He was asked, ‘What is the meaning of the saying of the Prophet : “The world is accursed and what it contains is accursed save the remembrance of God (dhikr Allāh), most High?”’ [He replied]:His saying ‘the remembrance of God’ here means renouncing what is unlawful (zuhd ʿan al-ḥarām), that is, when something unlawful comes a person’s way he remembers God, Exalted is He, and he knows that God is watching him, so he avoids that unlawful thing. His words:
…and do not be one of the heedless…Sahl said:In truth I say to you without any falsehood, in certainty without a doubt, that any person who spends a breath in other than God’s remembrance does so while being heedless of God, Mighty and Majestic is He.He also said:Heedlessness (ghafla) among the elite (khāṣṣ) is acquiescing (sukūn) in anything [other than Him]. Heedlessness among the generality (ʿāmm) is taking pride (iftikhār) in anything [other than Him], that is to say, it is [also] acquiescing (sukūn) [in other than Him]. His words, Exalted is He:
ذکرِ خفی کا ثبوت:
أَخْبَرَنَا ابْنُ قُتَيْبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَبِيبَةَ حَدَّثَهُ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ ، وَخَيْرُ الرِّزْقِ ، أَوِ الْعَيْشِ ، مَا يَكْفِي " . الشَّكُّ مِنِ ابْنِ وَهْبٍ .
[صحيح ابن حبان » كِتَابُ الرَّقَائِقِ » بَابُ الأَذْكَارِ ِ » ذِكْرُ الْبَيَانِ بِأَنَّ ذِكْرَ الْعَبْدِ رَبَّهُ ... رقم الحديث: 816]
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہترین ہے ذکر خفی، اور بہترین رزق یا عیش (وہ ہے) جو کافی ہو (یعنی ضرورت پوری کردے).
الشواهد
|
قال في تفسیر المظہري: الثالث الذکر الخفي بالقلب والروح والنفس وغیرہا الذي لا مدخل فیہ بلسان وہو الذکر الخفي الذي لا یسمعہ الحفظة أخرج أبویعلی [في مسنده (4668)]
[المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء » كِتَابُ الأَذْكَارِ » بَابُ : خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ، رقم الحديث: 1452] قلت وہو الذکر لا انقطاع لہا ولا فتور لہا․
?سوم قلب اور روح کے ساتھ ذکر خفی ہے یہ وہ ذکر ہے جس میں زبان کو کوئی دخل نہیں اور جسے کاتبین بھی نہیں سن سکتے۔ امام ابویعلی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس ذکر خفی کو ملائکہ کاتبین سن نہیں سکتے اسے غیر ذکر خفی پر ستر گنا زیادہ فضیلت ہے۔ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو حساب کے لیے جمع کرے گا اور کاتبین اپنی تحریریں پیش کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھو اس کی کوئی نیکی رہ تو نہیں گئی، وہ عرض کریں گے ہمیں جو معلوم ہوا سب لکھ لیا پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کی ایک نیکی ایسی ہے جو تم نہیں جانتے وہ ذکر خفی ہے". میں کہتا ہوں کہ ذکر خفی نہ منقطع ہوتا ہے نہ اس میں فتور آتا ہے۔
تخريج الحديث
الشواهد
|
عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اذْكُرُوا اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرًا خَامِلًا " , قَالَ : فَقِيلَ : وَمَا الذِّكْرُ الْخَامِلُ ؟ قَالَ : " الذِّكْرُ الْخَفِيُّ " .[الزهد والرقائق لابن المبارك : رقم الحديث: 154]
ترجمہ : الله کا ذکر کرو رازدارانہ (اندرونی کیفیت سے) ذکر ، پوچھا گیا : رازدارانہ ذکر کیا ہے؟ فرمایا : ذکر خفی.
إِذ نادىٰ رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا {19:3}
|
جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا
|
کہتےہیں رات کی تاریکی اور خلوت میں پست آواز سے دعا کی جیسا کہ دعا کا اصل قاعدہ ہے { اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃَ } (اعراف رکوع۷) ایسی دعا ریا سے دور اور کمال اخلاص سے معمور ہوتی ہے۔ شاید یہ بھی خیال ہو کہ بڑھاپے کی عمر میں بیٹا مانگتے تھے۔ اگر نہ ملےتو سننے والے ہنسیں ، اور ویسے بھی عمومًا بڑھاپے میں آواز پست ہو جاتی ہے۔
|
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے کو یاد فرمایا اور اس فعل یعنی مخفی یاد کرنے کو پسند فرمایا (تفسیر مظہری)
When he called his Lord in a low voice.
[AL-QURAN : Chapter # 19, Verse # 3]
Tafsir al-Jalalayn : when (idh is semantically connected to rahma, ‘mercy’) he called out to his Lord a call, entailing a supplication, in secret, in the middle of the night, because this [time of the night] invites a faster response [to one’s supplication].
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (When he cried unto his Lord) Zachariah called his Lord in the sanctuary (a cry in secret) in secret from his people,
آیاتِ فکر وتدبر
أَوَلَم يَتَفَكَّروا فى أَنفُسِهِم ۗ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما إِلّا بِالحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثيرًا مِنَ النّاسِ بِلِقائِ رَبِّهِم لَكٰفِرونَ {30:8}
|
کیا اُنہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا۔ کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اُن کو حکمت سے اور ایک وقت مقرر تک کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں
|
یعنی عالم کا اتنا زبردست نظام اللہ تعالیٰ نے بیکار نہیں پیدا کیا، کچھ اس سے مقصود ضرور ہے وہ آخرت میں نظر آئے گا۔ ہاں یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہتا تو ایک بات تھی، لیکن اس کے تغیرات و احوال میں غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ اس کی کوئی حد اور انتہا ضرور ہے۔ لہذا ایک وعدہ مقررہ پر یہ عالم فنا ہو گا اور دوسرا عالم اس کے نتیجہ کے طور پر قائم کیا جائے گا۔
|
وہ سمجھتے ہیں کہ کبھی خدا کےسامنے جانا ہی نہیں جو حساب و کتاب دینا پڑے۔
|
Did they not reflect in their own selves? Allah did not create the heavens and the earth and what is between them but with a just cause and for an appointed time. Yet many of the people are disbelievers in the meeting with their Lord.
[AL-QURAN : Chapter # 30, Verse # 8]
Tafsir al-Jalalayn : Have they not contemplated themselves?, so that they might emerge from their oblivion. God did not create the heavens and the earth, and what is between them, except with the truth and an appointed term, for that [creation], at the conclusion of which this [creation] will perish, and after which will be the Resurrection. But indeed many people, that is to say, [such as] the Meccan disbelievers, disbelieve in the encounter with their Lord, that is, they do not believe in resurrection after death.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (Have they not) i.e. the disbelievers of Mecca (pondered upon themselves) among themselves? (Allah created not the heavens and the earth, and that which is between them) of created beings and marvels, (save with truth) save for the Truth and the establishment of commands and prohibitions and not merely for falsehood (and for a destined end) and for an appointed time in which there will be requital. (But truly many of mankind) i.e. the disbelievers of Mecca (are disbelievers in) deny (the meeting with their Lord) resurrection after death.
وَهُوَ الَّذى مَدَّ الأَرضَ وَجَعَلَ فيها رَوٰسِىَ وَأَنهٰرًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فيها زَوجَينِ اثنَينِ ۖ يُغشِى الَّيلَ النَّهارَ ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ {13:3}
|
اور وہ وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا پیدا کئے اور ہر طرح کے میوؤں کی دو دو قسمیں بنائیں۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے۔ غور کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں
|
اس کے معنی سورہ اعراف میں آٹھویں پارے کے خاتمہ پر بیان ہو چکے وہاں دیکھ لیا جائے۔
|
یعنی چھوٹا بڑا ، کھٹا میٹھا، سیاہ سفید ، گرم سرد ، اور جدید تحقیق کے موافق ہر ایک میں نر و مادہ بھی پائے جاتے ہیں۔
|
یعنی پہاڑ جو ایک جگہ کھڑے ہیں اور دریا جو ہر وقت چلتے رہتے ہیں۔
|
He is the One who spread out the earth and made mountains and rivers on it, and created in it the pairs of two from all the fruits. He makes the night cover the day. Surely, in that there are signs for a people who think.
[AL-QURAN : Chapter # 13, Verse # 3]
Tafsir al-Jalalayn : And He it is Who spread out, extended [flat], the earth and set, created, therein firm mountains and rivers, and of every fruit He has made in it two kinds, of every species. He covers, He cloaks, the night, and its darkness, with the day. Surely in that, which is mentioned, are signs, indications of His Oneness, exalted be He, for a people who reflect, upon God’s handiwork.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (And He it is who spread out the earth) He spread out the earth on water (and placed therein firm hills) He created in the earth firm mountains as pillars (and flowing streams) and placed therein flowing rivers, (and of all fruits) and of all the different kinds of fruit (He placed therein two spouses) sweet and sour are one pair, the white and the red are another pair. (He covereth the night with the day) and the day with the night, i.e. He brings the day and removes the night and brings the night and removes the day. (Lo! Herein) in the difference of that which I have mentioned (verily are portents) signs (for people who take thought) in order to reflect.
يُنبِتُ لَكُم بِهِ الزَّرعَ وَالزَّيتونَ وَالنَّخيلَ وَالأَعنٰبَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۗ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايَةً لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ {16:11}
|
اسی پانی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور (اور بےشمار درخت) اُگاتا ہے۔ اور ہر طرح کے پھل (پیدا کرتا ہے) غور کرنے والوں کے لیے اس میں (قدرتِ خدا کی بڑی) نشانی ہے
|
یعنی ایک ہی پانی سے مختلف قسم کے پھل اور میوے اگاتا رہتا ہے جن کی شکل و صورت ، رنگ و بو ، مزہ اور تاثیر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ اس میں غور کرنے والوں کے لئے خدا کی قدرت کاملہ اور صنعت غریبہ کا بڑا نشان ہے کہ ایک زمین ایک آفتاب ایک ہوا اور ایک پانی سے کیسے رنگ برنگ کے پھول پھل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
|
He causes the crops therewith to grow for you, and olives, and date palms, and grape vines, and all the fruits. Surely, in that, there is a sign for a people who ponder.
[AL-QURAN : Chapter # 16, Verse # 13]
Tafsir al-Jalalayn : With it He makes the crops grow for you, and olives and date-palms and vines and all kinds of fruit. Surely in that, which is mentioned, there is a sign, indicating His Oneness, exalted He be, for people who reflect, upon His handiwork and therefore believe.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (Therewith) by means of water (He causeth crops to grow for you, and the olive and the date-palm and grapes and all kinds of fruit. Lo! Herein) in all the different kinds of fruit and of their tastes (is indeed a portent) a sign and a lesson (for people who reflect) upon that which Allah has created for them.
Tafsir al-Tustari (Sufi) : …and all kinds of fruit...! [And He disposed for you the night and the day and the sun and the moon and the stars.] Surely in that there are signs…He said:This is because the crops [mentioned] are of one species [i.e. fruit], whereas the night and day are two kinds, and likewise are the sun and moon. And He said: …signs in this for people who understand (yaʿqilūn) [16:12]. Know that God, Exalted is He, when He wished to make His knowledge apparent, deposited His knowledge in the intellect (ʿaql). Then He ruled that no one could have access to any of it [His knowledge] except through the intellect. Thus whoever has been deprived of his intellect has also been deprived of knowledge. His words:
وَسَخَّرَ لَكُم ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ جَميعًا مِنهُ ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ {45:13}
|
اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا۔ جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے اس میں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں
|
یعنی اپنے حکم اور قدرت سے سب کو تمہارے کام میں لگا دیا۔ یہ اسی کی مہربانی ہے کہ ایسی ایسی عظیم الشان مخلوقات انسان کی خدمت گذاری میں لگی ہوئی ہیں۔
|
آدمی دھیان کرے تو سمجھ سکتا ہے کہ یہ چیز اسکے بس کی نہ تھی۔ محض اللہ کے فضل اور اسکی قدرت کاملہ سے یہ اشیاء ہمارے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ تو لا محالہ ہم کو بھی کسی کے کام میں لگنا چاہیئے۔ وہ کام یہ ہے کہ اس منعم حقیقی اور محسن علی الاطلاق کی فرمانبرداری اور اطاعت گذاری میں اپنی حیات مستعار کے لمحات صرف کر دیں تاکہ آئندہ چل کر ہمارا انجام درست ہو۔
|
He has subjugated for you whatever there is in the heavens and whatever there is in the earth, all on His own. Surely in this there are signs for a people who reflect.
[AL-QURAN : Chapter # 45, Verse # 13]
Tafsir al-Jalalayn : And He has disposed for you whatever is in the heavens, of sun, moon, stars, water and otherwise, and whatever is in the earth, of animals, trees, vegetation, rivers and otherwise, that is to say, He created [all] that for your benefit, all (jamī‘an is for emphasis) being from Him (minhu is a circumstantial qualifier, that is to say, He has disposed them as something from Him, exalted be He). Surely in that there are signs for a people who reflect, on them and therefore believe.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (And hath made of service unto you whatsoever is in the heavens) the sun, the moon, the stars and the clouds (and whatsoever is in the earth) the trees, the beasts, the mountains and the seas; (it is all from Him) all these are from Allah. (Lo! Herein) in that which I have mentioned (verily are portents) are signs and lessons (for people who reflect) upon what Allah has created.
Tafsir al-Tustari (Sufi) : He has put at your disposal all that is in the heavens and the earth, [as a gift] from Him…He said:When the heart of the servant finds tranquil repose (sukūn) in its Master, the state of the servantbecomes strong. Subsequently everything is subjected to him, and indeed everything is on intimate terms with him, even the birds and the beasts.It was related of al-Thawrī that he said, ‘I set off with Shaybān al-Rāʿī towards Mecca and on the way a lion appeared before us, so I said, “O Shaybān, do you not see this dog?” He replied, “Do not fear! It’s only that the lion heard the speech of Shaybān al-Rāʿī so he started to wag his tail.” Then Shaybān approached him and proceeded to take hold of his ear and twist it. Then I said, “O Shaybān what is this fame you have?” He answered, “And what sort of fame is it that you see, O Thawrī? I swear by God that if it wasn’t for the fear of fame I wouldn’t have carried my provisions for the journey to Mecca other than [loaded] on its back.” Shaybān was on his way to the Friday prayer when he caught sight of a wolf with his sheep, so he said to it, “Sit with the sheep until I return and I will give you a lamb.” When he returned from the Friday prayer, he found the wolf sitting down looking after the sheep, so he gave him a lamb to take away.’ Sahl used to say to a youth who kept his company, ‘If you are afraid of predatory beasts then do not keep my company.’ And he was asked, ‘How does a man reach the rank of charismatic gifts (karāmāt)? He replied:‘Whoever abstains from (zahada) the world for forty days in veracity and sincerity (ṣādiqan wa mukhliṣan), will have charismatic gifts (karāmāt) manifested to Him from God, Mighty and Majestic is He. But if [such gifts] are not manifested to a person, it is due to the lack of true faith and sincerity in his renunciation’ — or words to that effect.His words, Exalted is He:
أَيَوَدُّ أَحَدُكُم أَن تَكونَ لَهُ جَنَّةٌ مِن نَخيلٍ وَأَعنابٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ لَهُ فيها مِن كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَأَصابَهُ الكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفاءُ فَأَصابَها إِعصارٌ فيهِ نارٌ فَاحتَرَقَت ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الءايٰتِ لَعَلَّكُم تَتَفَكَّرونَ {2:266}
|
بھلا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور اس میں اس کے لئے ہر قسم کے میوے موجود ہوں اور اسے بڑھاپا آپکڑے اور اس کے ننھے ننھے بچے بھی ہوں۔ تو (ناگہاں) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل کر (راکھ کا ڈھیر ہو) جائے۔ اس طرح خدا تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو (اور سمجھو)
|
یہ مثال ان کی ہے جو لوگوں کو دکھانے کو صدقہ خیرات کرتے ہیں یا خیرات کر کے احسان رکھتے ہیں اور ایذا پہنچاتے ہیں یعنی جیسے کسی شخص نے جوانی اور قوت کے وقت باغ تیار کیا تاکہ ضعیفی اور بڑھاپے میں اس سے میوہ کھائے اور ضرورت کے وقت کام آئے۔ پھر جب بڑھاپا آیا اور میوے کی پوری حاجت ہوئی تب وہ باغ عین حالت احتیاج میں جل گیا یعنی صدقہ مثل باغ میوہ دار کے ہے کہ اس کا میوہ آخرت میں کام آئے ۔ جب کسی کی نیت بری ہے تو وہ باغ جل گیا پھر اس کا میوہ جو ثواب ہے کیونکر نصیب ہو حق سبحانہ اسی طرح کھول کر سمجھاتا ہے تم کو آیتیں تاکہ غور کرو اور سمجھو۔
|
Would any of you wish to have a garden of dates and grapes, with rivers flowing beneath it, in which there are all kinds of fruit for him, and old age befalls him, and he has children who are (too) weak (to earn livelihood), then a whirlwind comes upon it with fire in it, and it is all burnt? This is how Allah makes the signs clear to you, so that you may ponder.
[AL-QURAN : Chapter # 2, Verse # 266]
Tafsir al-Jalalayn : Would any of you wish to have a garden, an orchard, of date-palms and vines, with rivers flowing beneath it, for him there is in it all manner of fruit, then old age smites him, and makes him too weak to profit from it, and he has seed, but they are weak, young children who cannot manage it; then a whirlwind (i‘sār are violent winds) with fire smites it, and it is consumed?, so that he loses what he is most in need of, and now he and his children have become incapacitated, confused, without any resources. This is a similitude of how the expenditure of the one expending for show, or the one who reproaches [after having expended], vanishes and how it is of no avail when he will be most in need of it in the Hereafter (the interrogative [a-yawaddu, ‘would any wish’] is intended as a denial). According to Ibn ‘Abbās, this is the person who performs deeds of obedience, but when Satan comes to him, he begins to work disobedience, until all his good deeds have been consumed. So, in the way that He has explained what has been mentioned, God makes clear the signs to you, so that you might reflect, and take heed.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (Would any of you like) wish (to have a garden of palm-trees and vines, with rivers flowing beneath it) under its trees, houses and rooms, (with all kinds of fruit for him therein) in the garden; (and old age hath stricken him and he hath feeble offspring) who cannot fend for themselves; (and a fiery whirlwind) a strong cold or hot wind (striketh it) i.e. the garden (and it is (all) consumed by fire. Thus Allah maketh plain His revelations) His signs through commands and prohibitions (unto you, in order that you may give thought) so that you may reflect on the similes of the Qur'an. This is also like the unbelievers in the Hereafter, they shall have no power neither will they be able to come back to the life of this world just as a person advanced in age is without strength and cannot revert to his former vigour and youth.
اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنفُسَ حينَ مَوتِها وَالَّتى لَم تَمُت فى مَنامِها ۖ فَيُمسِكُ الَّتى قَضىٰ عَلَيهَا المَوتَ وَيُرسِلُ الأُخرىٰ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ {39:42}
|
خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں
|
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یعنی نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے پھر (واپس) بھیجتا ہے۔ یہ ہی نشان ہے آخرت کا۔ معلوم ہوا نیند میں بھی جان کھینچتی ہے۔ جیسے موت میں۔ اگر نیند میں کھینچ کر رہ گئ وہ ہی موت ہے مگر یہ جان وہ ہے جس کو (ظاہر) ہوش کہتے ہیں۔ اور ایک جان جس سے سانس چلتی ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں اور کھانا ہضم ہوتا ہے سو دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی (موضح القرآن) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بغوی نے نقل کیا ہے کہ نیند میں روح نکل جاتی ہے مگر اس کا مخصوص تعلق بدن سے بذریعہ شعاع کے رہتا ہے جس سے حیات باطل ہونے نہیں پاتی(جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیند میں بھی وہ ہی چیز نکلتی ہے جو موت کے وقت نکلتی ہے لیکن تعلق کا انقطاع ویسا نہیں ہوتا جو موت میں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
|
Allah fully takes away the souls (of the people) at the time of their death, and (of) those who do not die, in their sleep. Then He withholds those on whom He had decreed death, and sends others back, up to an appointed term. Surely, in this, there are signs for a people who ponder.
[AL-QURAN : Chapter # 39, Verse # 42]
Tafsir al-Jalalayn : God takes the souls at the time of their death, and, He takes, those that have not died in their sleep, in other words, He takes them during sleep. Then He retains those for whom He has ordained death and releases the others until an appointed term, that is, until the time of their death. The one that is released is the soul [that possesses the faculty] of discernment, without which the soul [containing the force] of life is able to remain [temporarily] — but this cannot be the other way round. Truly in that, mentioned, there are signs, indications, for a people who reflect, and then realise that the One with the power to do this also has the power to resurrect — Quraysh, however, never reflected on this [fact].
Tafsir al-Tustari (Sufi) : God takes the souls at the time of their death, and those that have not died, in their sleep…He said:When God takes the souls (anfus) to Himself, He extracts the luminous spirit (rūḥ nūrī) from the subtle substance (laṭīf) of the dense natural self (nafs al-ṭabʿ al-kathīf). The taking up [of souls] (al-tawaffī) in God’s Book is of three kinds: the first is death (mawt), the second, sleep (nawm), and the third, ascension (rafʿ). Death is as we have just mentioned. Sleep is as [described] in His words: and those that have not died, in their sleep, which means that He also takes unto Himself (yatawaffā) those who have not died, in their sleep (manām). [God also] said, It is He who takes you at night [6:60] meaning, in sleep. Ascension (rafʿ) is mentioned in relation to Jesus , to whom God said, ‘O Jesus, I am gathering you and raising you to Me’ [3:55]. Thus when a person dies, He [God] removes (yanziʿu) from him the subtle substance (laṭīf) of the luminous spiritual self (nafs al-rūḥ al-nūrī) [separating it] from the subtle substance (laṭīf) of the dense natural self (nafs al-ṭabʿ al-kathīf), and by this [luminous spiritual self] he comprehends things (yaʿqilu al-ashyāʾ), and is given the vision (rūʾyā) in the heavenly kingdom (malakūt). However, when a person sleeps, He extracts from him the subtle substance of the dense natural self, not the subtle substance of the luminous spiritual self. Therefore, when the sleeping person awakens, he recovers a subtle breath (nafas laṭīf) from the subtle substance of the spiritual self, for if this were to part from him, it would leave him without motion (ḥaraka), and lifeless (mayyit). Thus, the dense natural self has a subtle substance (laṭīfa) and likewise the spiritual self has a subtle substance (laṭīfa). The life of the subtle substance of the natural self is by virtue of the light of the subtle substance of the spiritual self (nūr laṭīf nafs al-rūḥ). The spiritual life of the subtle substance of the spiritual self (ḥayāt rūḥ laṭīf nafs al-rūḥ) is by virtue of remembrance [of God] (dhikr), just as He has said: rather they are living with their Lord, provided for [by Him] [3:169], that is, they are sustained by remembrance, due to what they attained through the subtle luminous self.
فکر کا بیان
إِنَّما مَثَلُ الحَيوٰةِ
الدُّنيا كَماءٍ أَنزَلنٰهُ مِنَ السَّماءِ فَاختَلَطَ بِهِ نَباتُ الأَرضِ
مِمّا يَأكُلُ النّاسُ وَالأَنعٰمُ حَتّىٰ إِذا أَخَذَتِ الأَرضُ زُخرُفَها
وَازَّيَّنَت وَظَنَّ أَهلُها أَنَّهُم قٰدِرونَ عَلَيها أَتىٰها أَمرُنا لَيلًا
أَو نَهارًا فَجَعَلنٰها حَصيدًا كَأَن لَم تَغنَ بِالأَمسِ ۚ كَذٰلِكَ
نُفَصِّلُ الءايٰتِ لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ {10:24}
|
دنیا
کی زندگی کی مثال مینھہ کی سی ہے کہ ہم نے اس کو آسمان سے برسایا۔ پھر اس کے
ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں مل کر نکلا یہاں تک کہ زمین سبزے سے
خوشنما اور آراستہ ہوگئی اور زمین والوں نے خیال کیا کہ وہ اس پر پوری دسترس
رکھتے ہیں ناگہاں رات کو یا دن کو ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا تو ہم نے اس کو کاٹ
(کر ایسا کر) ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ جو لوگ غور کرنے والے ہیں۔ ان
کے لیے ہم (اپنی قدرت کی) نشانیاں اسی طرح کھول کھول کر بیان کرتے ہیں
|
یعنی
مختلف الوان و اشکال کی نباتات نے زمین کو پر رونق اور مزین کر دیا اور کھیتی
وغیرہ ایسی تیار ہو گئ کہ مالکوں کو کامل بھروسہ ہو گیا کہ اب اس سے پورا فائدہ
اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔
|
بعض
نے { فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ } کے معنی کثرت پیداوار کے لئے ہیں۔
کیونکہ جب زمین کی پیداوار زیادہ قوی ہوتی ہے تو گنجان ہو کر ایک جزء دوسرے سے
مل جاتا اور لپٹ جاتا ہے بعض نے ''بہٖ'' کی ''باء'' کو مصاحبت کے لئے لےکر یہ
معنی کئے ہیں کہ زمین کا سبزہ پانی کے ساتھ رل مل جاتا ہے۔ کیونکہ نباتات اجزائے
مائیہ کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں ، جس طرح کھانا انسان کا جزو بدن بنتا ہے۔ ایسے
ہی پانی ، گویا نباتات کی غذا بنتی ہے۔ مترجمؒ کے صنیع سے مترشح ہوتا ہے کہ
اختلاط سے یہ مراد لے رہے ہیں کہ زمین اور پانی کے ملنے سے جو سبزہ نکلتا ہے اس
میں آدمی کی اور جانوروں کی خورات مخلوط (رلی ملی) ہوتی ہے مثلاً گیہوں کے درخت
میں دانہ ہے جو انسان کی غذا بنتی ہے اور بھوسہ بھی ہے جو جانوروں کی خوراک ہے۔
اسی طرح درختوں میں پھل اور پتے لگتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے کھانے والے علیحدہ
ہیں۔
|
یعنی
ناگہاں خدا کے حکم سے دن میں یا رات میں کوئی آفت پہنچی (مثلاً بگولا آ گیا ، یا
اولے پڑ گئے یا ٹڈی دل پہنچ گیا۔ وعلیٰ ہذا القیاس) اس نے تمام زراعت کا ایسا
صفایا کر ڈالا ، گویا کبھی یہاں ایک تنکا بھی نہ اگا تھا۔ ٹھیک اسی طرح حیات
دنیا کی مثال سمجھ لو کہ خواہ کتنی ہی حسین اور تروتازہ نظر آئے ۔ حتٰی کہ
بےوقوف لوگ اس کی رونق و دلربائی پر مفتوں ہو کر اصل حقیقت کو فراموش کر دیں
لیکن اس کی یہ شادابی اور زینت و بہجت محض چند روزہ ہے جو بہت جلد زوال و فنا کے
ہاتھوں نسیًا منسیًا ہو جائے گی۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اس مثال کو نہایت لطیف طرز
میں خاص انسانی حیات پر منطبق کیا ہے۔ یعنی پانی کی طرح روح آسمان (عالم بالا)
سے آئی ، کالبد خاکی میں مل کر قوت پکڑی ، دونوں کے ملنے سے آدمی بنا ، پھر کام
کئے انسانی اور حیوانی دونوں طرح کے ۔ جب ہر ہنر میں پورا ہوا اور اس کے متعلقین
کو اس پر بھروسہ ہو گیا ، ناگہاں موت آ پہنچی جس نے ایک دم میں سارا بنا بنایا
کھیل ختم کر دیا۔ پھر ایسا بے نام و نشان ہوا گویا کبھی زمین پر آباد ہی نہ ہوا
تھا۔ (فائدہ) { لَیْلاً اَوْ نَھَارًا } (رات کو یا دن کو) شاید اس لئے فرمایا
کہ رات کا وقت غفلت کا ہے اور دن میں لوگ عمومًا بیدار ہوتے ہیں مطلب یہ ہے کہ
جب خدا کا حکم آ پہنچے ، پھر سوتا ہو یا جاگتا ، غافل ہو یا بیدار ، کوئی شخص
کسی حالت میں اس کو روک نہیں سکتا۔
|
The example of worldly life is just like the water We sent down from the sky, then the vegetation of the earth grew with it, which is (meant to be) eaten by men and cattle, until when the earth took on its ornament and was fully adorned, and its people thought that they had control over it, Our command came to it at night or by day, and We turned it into a stubble, as if it had not been there a day earlier. This is how We elaborate the verses for a people who reflect.
[AL-QURAN : Chapter # 10, Verse # 24]
Tafsir al-Jalalayn : The likeness, the description, of the life of this world is only as water, rain, which We send down from the heaven, then the plants of the earth mingle with it, [they mingle] because of it, attaching themselves one to another, whereof mankind eat, [plants] such as wheat and barley and so on, and cattle [eat], of pasture, until, when the earth has taken on its ornaments, its splendour of plants, and has adorned itself, with flowers (izzayyanat, ‘adorned itself’, is originally tazayyanat, but the tā’ has been substituted with the zāy and assimilated with it) and its inhabitants think that they are masters of it, fully capable of harvesting its fruits, Our command, Our decree or Our chastisement, comes upon it by night or day, and We make it, that is, its crops, as reaped corn, like that which has been reaped with sickles, as though (ka-an is softened, in other words [read it as] ka-annahā) the previous day it had not flourished, [as though] it never were. Thus do We detail, [do] We make clear, the signs for a people who reflect.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (The similitude of the life of the world) in terms of its permanence and evanescence (is only as water) rain (which We send down from the sky, then the earth's growth of that which men and cattle eat) grains and fruits for men and plants and abundant grass for cattle (mingles with it till, when the earth hath taken on her ornaments and is embellished) with the colours red, yellow and green, (and her people) the plowmen (deem that they are masters of her) of her yielding, (Our commandment) Our punishment (cometh by night or by day) just as if sheep have trampled on its enclosure destroying all the plowmen's plantations (and we make it as reaped corn) in the summer (as if it had not flourished yesterday) as if they had not existed yesterday. (Thus do We expound the revelation) We explain in the Qur'an the evanescence of the life of this world (for people who reflect) upon the matter of this world and the Hereafter.
إِنَّ فى خَلقِ السَّمٰوٰتِ
وَالأَرضِ وَاختِلٰفِ الَّيلِ وَالنَّهارِ لَءايٰتٍ لِأُولِى الأَلبٰبِ {3:190}
|
بے
شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل
والوں کے لیے نشانیاں ہیں
|
یعنی
عقلمند آدمی جب آسمان و زمین کی پیدائش اور ان کے عجیب و غریب احوال و روابط اور
دن رات کے مضبوط و محکم نظام میں غور کر تا ہے تو اس کو یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ
سارا مرتب و منظم سلسلہ ضرور کسی ایک مختار کل اور قادر مطلق فرمانروا کے ہاتھ
میں ہے جس نے اپنی عظیم قدرت و اختیار سے ہر چھوٹی بڑی مخلوق کی حد بندی کر رکھی
ہے۔ کسی چیز کی مجال نہیں کہ اپنے محدود وجود اور دائرہ عمل سے باہر قدم نکال
سکے۔ اگر اس عظیم الشان مشین کا ایک پرزہ یا اس کارخانہ کا ایک مزدور بھی مالک
علی الاطلاق کی قدرت و اختیار سے باہر ہوتا تو مجموعہ عالم کا یہ مکمل و محکم
نظام ہر گز قائم نہ رہ سکتا۔
|
الَّذينَ يَذكُرونَ اللَّهَ
قِيٰمًا وَقُعودًا وَعَلىٰ جُنوبِهِم وَيَتَفَكَّرونَ فى خَلقِ السَّمٰوٰتِ
وَالأَرضِ رَبَّنا ما خَلَقتَ هٰذا بٰطِلًا سُبحٰنَكَ فَقِنا عَذابَ النّارِ
{3:191}
|
جو
کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی
پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے
فائدہ نہیں پیدا کیا تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو
|
یعنی
کسی حال خدا سے غافل نہیں ہوتے اس کی یاد ہمہ وقت ان کے دل میں اور زبان پر جاری
رہتی ہے جیسے حدیث میں رسول اللہ ﷺ
کی نسبت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا
{ کان یذکر اللہ علیٰ کل احیانہٖ } نماز بھی خدا کی بہت بڑی یاد ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کھڑا ہو کر نہ پڑھ سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے لیٹ کر پڑھ
لے بعض روایات میں ہے کہ جس رات میں یہ آیات نازل ہوئیں نبی کریم ﷺ کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حالت میں اللہ کو یاد کر کے روتے رہے۔
|
یعنی
ذکر و فکر کے بعد کہتے ہیں کہ خداوندا! یہ عظیم الشان کارخانہ آپ نے بیکار پیدا
نہیں کیا جس کا کوئی مقصدنہ ہو، یقینًا ان عجیب و غریب حکیمانہ انتظامات کا
سلسلہ کسی عظیم و جلیل نتیجہ پر منتہی ہونا چاہئے۔ گویا یہاں سے ان کا ذہن تصور
آخرت کی طرف منتقل ہو گیا جو فی الحقیقت دنیا کی موجودہ زندگی کا آخری نتیجہ ہے
اسی لئے آگے دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی دعا کی اور درمیان میں خدا تعالیٰ کی
تسبیح و تنزیہہ بیان کر کے اشارہ کر دیا کہ جو احمق قدرت کے ایسے صاف و صریح
نشان دیکھتے ہوئے تجھ کو نہ پہچانیں یا تیری شان کو گھٹائیں یا کارخانہ عالم کو
محض عبث و لعب سمجھیں تیری بارگاہ ان سب کی ہزلیات و خرافات سے پاک ہے۔ ا س آیت
سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین اور دیگر مصنوعات الہٰیہ میں غور و فکر کرنا وہ ہی
محمود ہو سکتا ہے جس کا نتیجہ خدا کی یاد اور آخرت کی طرف توجہ ہو، باقی جو مادہ
پرست ان مصنوعات کے تاروں میں الجھ کر رہ جائیں اور صانع کی صحیح معرفت تک نہ
پہنچ سکیں، خواہ دنیا انہیں بڑا محقق اور سائنس داں کہا کرے، مگر قرآن کی زبان و
میں وہ اولوالالبا ب نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ پرلے درجہ کے جاہل و احمق ہیں۔
|
Surely, in the creation of the heavens and the earth, and in the alternation of night and day, there are signs for the people of wisdom, who remember Allah standing and sitting, and (lying) on their sides, and ponder on the creation of the heavens and the earth (and say) “Our Lord, You have not created all this in vain. We proclaim Your purity. So, save us from the punishment of Fire.
[AL-QURAN : Chapter # 3, Verse # 190-191]
Tafsir al-Jalalayn : Surely in the creation of the heavens and the earth, and the marvels contained in them, and in the alternation of night and day, coming and going, increasing and diminishing, there are signs, indications of God’s power, for people of pith, for people possessing intellects.
Those who (alladhīna, an adjectival qualification of the preceding [li-ūlī l-albāb, ‘for people of pith’], or a substitution for it) remember God, standing and sitting and on their sides, reclining, that is to say, in all states: [it is reported] from Ibn ‘Abbās that they perform prayer in these ways, [each] according to [his own] capacity; and reflect upon the creation of the heavens and the earth, to deduce therefrom the power of their Creator, saying: ‘Our Lord, You have not created this, creation that we see, in vain (bātilan, a circumstantial qualifier), frivolously, but as a proof of the totality of Your power. Glory be to You!, exalted above any frivolity. So guard us against the chastisement of the Fire.
Asbab Al-Nuzul by Al-Wahidi : (Lo! In the creation of the heavens and the earth…) [3:190]. Abu Ishaq al-Muqri’ informed us> ‘Abd Allah ibn Hamid> Ahmad ibn Muhammad ibn Yahya al-'Anbari> Ahmad ibn Najdah> Yahya ibn ‘Abd al-Hamid al-Humani> Ya‘qub al-Qummi Ja‘far ibn Abi al-Mughirah> Sa‘id ibn Jubayr> Ibn ‘Abbas who said: “The people of Quraysh went to the Jews and said: ‘What are the signs that Moses brought to you?’ They replied: ‘His staff and white hand for people to see’. Then they went to the Christians and said: ‘How was Jesus in your midst?’ They said: ‘He restored eyesight to the blind, healed the leper and brought the dead back to life’. The people of Quraysh then went to the Prophet, Allah bless him and give him peace, and said: ‘Ask your Lord to turn the hill of al-Safa into gold’. As a consequence, Allah, exalted is He, revealed (Lo! In the creation of the heavens and the earth and (in) the difference of night and day are tokens (of His Sovereignty) for men of understanding)”.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : Allah then exposited on the sign of His ability to the unbelievers of Mecca when they said: " O Muhammad, bring us a clear sign to prove what you are saying " , saying: (Lo! In the creation of the heavens) in that which We created in the heavens of angels, the sun, moon, stars and clouds (and the earth) and in the creation of the earth and what is in it of mountains, seas, trees and beasts (and (in) the difference of night and day) and in the alternation of day and night (are tokens (of His sovereignty)) signs of His divine Oneness (for men of understanding) for those among them who have reasons,
(Such as remember Allah) pray to Allah, (standing) when they are able to, (sitting) when they cannot stand, (and reclining) when they can neither stand nor sit, (and consider) the marvellous things which are contained in (the creation of the heavens and the earth, (and say): Our Lord) they say: O our Lord! (Thou createdst not this in vain) for nothing. (Glory be to Thee!) exalt Allah [from any thought that He created them in vain]. (Preserve us from the doom of Fire) drive away from us the torment of hell.
Tafsir al-Tustari : Those who remember God, standing, sitting, and [reclining] on their sides…He [Sahl] said:Whoever wishes to memorise the Qurʾān should complete three whole readings following the conditions stated in this verse: a reading completed while standing in prayer, a reading completed while sitting and studying it, and a reading completed while reclining on one’s side. Then, he will not forget [it], God willing, Mighty and Majestic is He. Moreover, whoever occupies himself with seeking knowledge with the full awareness of God, and with the recitationof the Qurʾān, the remembrance (dhikr) of God, Mighty and Majestic is He, adherence to the Sunna, and avoidance of all frivolity (lahw), will not be afflicted by disease or sickness. Furthermore, whoever obeys God with knowledge and sincere intention (nīya) will not lose his mind [lit. intellect, ʿaql].The Prophet said, ‘Whoever obeys God, Mighty and Majestic is He, has truly remembered Him, but whoever disobeys Him has truly forgotten Him.’ His words:
يَسـَٔلونَكَ عَنِ الخَمرِ
وَالمَيسِرِ ۖ قُل فيهِما إِثمٌ كَبيرٌ وَمَنٰفِعُ لِلنّاسِ وَإِثمُهُما أَكبَرُ
مِن نَفعِهِما ۗ وَيَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ قُلِ العَفوَ ۗ كَذٰلِكَ
يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الءايٰتِ لَعَلَّكُم تَتَفَكَّرونَ {2:219}
|
(اے پیغمبر) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں۔
کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے
نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ
میں) کون سا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح خدا تمہارے
لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
|
لوگوں
نے پو چھا تھا کہ مال اللہ کے واسطے کس قدر خرچ کریں حکم ہوا کہ جو اپنے اخراجات
ضروری سے افزود (زائد) ہو کیونکہ جیسا آخرت کا فکر ضرور ہے دنیا کا فکر بھی ضرور
ہے اگر سارا سامان اٹھا ڈالو تو اپنی ضروریات کیونکر پوری کرو جو حقوق تم پر
لازم ہیں ان کو کیونکر ادا کرو معلوم نہیں کس کس خرابی دینی اور دینوی میں
پھنسو۔
|
شراب
پینے سے عقل جاتی رہتی ہے جو تمام امور شنعیہ سے بچاتی ہے اور لڑائی اور قتل
وغیرہ طرح طرح کی خرابیوں کی نوبت آتی ہے اور مختلف قسم کے امراض روحانی اور
جسمانی پیدا ہوتے ہیں جو بسا اوقات باعث ہلاکت ہوتے ہیں اور جوا کھیلنے میں حرام
مال کا کھانا اور سرقہ اور تضیع مال اور عیال باہم دشمنی وغیرہ طرح طرح کے مفاسد
ظاہری و باطنی پیش آتے ہیں ان میں سرسری نفع بھی ہے مثلًا شراب پی کر لذت و سرور
ہو گیا اور جوا کھیل کر بلا مشقت مال ہاتھ آ گیا۔
|
شراب
اور جوئے کے حق میں کئ آیتیں اتریں ہر ایک میں ان کی برائی ظاہر کی گئ آخر سورۃ
مائدہ کی آیت میں صاف ممانعت کر دی گئ۔ اب جو چیزیں نشہ لاویں وہ سب حرام ہیں
اور جو شرط بدی جائے کسی چیز پر جس میں ہار اور جیت ہو وہ محض حرام ہے اور ایک
طرف کی شرط حرام نہیں۔
|
They ask you about wine and gambling. Say, “In both there is great sin, and some benefits for people. And their sin is greater than their benefit.” And they ask you as to what they should spend. Say, “The surplus”. This is how Allah makes His verses clear to you, so that you may ponder.
[AL-QURAN : Chapter # 2, Verse # 219]
Tafsir al-Jalalayn : They ask you about wine, and divinatory arrows, gambling, and what the ruling is regarding them. Say, to them: ‘In both, that is, in the partaking of both, is great sin (a variant reading [for kabīr, ‘great’] has kathīr, ‘much’) because of the fighting, cursing and swearing that ensue from it; and profit for men, by way of delight and enjoyment in wine, and acquiring money effortlessly from gambling; but the sin in them, that is, the degenerate behaviour in which they result, is greater, graver, than the usefulness’. When this verse was revealed, some gave up drinking, while others persisted, until the verse of sūrat al-Mā’ida [Q. 5:90-91] finally made it illicit. And they will ask you what, that is to say, how much, they should expend. Say, expend, ‘Comfortably’ (al-‘afwa [in the accusative] is also read in the nominative, al-‘afwu, implying a preceding huwa), that is, the surplus of your need, and do not expend what you need, ruining yourselves. So, just as He explained to you what has been mentioned, God makes clear His signs to you that you might reflect,
Asbab Al-Nuzul by Al-Wahidi : (They question thee about strong drink and games of chance…) [2:219]. This was revealed about 'Umar ibn al-Khattab, Mu'adh ibn Jabal and a group of Helpers who went to the Messenger of Allah, Allah bless him and give peace, and said: “Please give us your verdict about intoxicants and games of chance, for intoxicants suspend people's reasoning faculties while games of chance waste their money”. As a response, Allah, exalted is He, revealed this verse.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (They question thee about strong drink and games of chance). This was revealed about 'Umar Ibn al-Khattab who prayed: “O Allah! Show us Your judgement regarding alcoholic drinks!” So Allah said to Muhammad (pbuh): (Say) O Muhammad! (in both is great sin) this is after they were declared unlawful, (and (some) utility for men) by means of their trading, i.e. before they were unlawful; (but the sin of them) after their being declared unlawful (is greater than their usefulness) before they were made unlawful; and then both were prohibited. (And they ask thee what they ought to spend). This was revealed about 'Amr Ibn al-Jamuh who asked the Prophet (pbuh): “What should we spend from our wealth”. Allah told His Prophet: they ask you about what they should spend from their wealth. (Say: That which is superfluous) that which is in surplus to your sustenance requirements and of food for your dependents. But this was abrogated by those verses on the poor-due. (Thus Allah maketh plain to you (the) revelations) the commands and prohibitions and the insignificance of this world, (that ye may reflect) that it is evanescent.
ثُمَّ كُلى مِن كُلِّ
الثَّمَرٰتِ فَاسلُكى سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخرُجُ مِن بُطونِها شَرابٌ
مُختَلِفٌ أَلوٰنُهُ فيهِ شِفاءٌ لِلنّاسِ ۗ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايَةً لِقَومٍ
يَتَفَكَّرونَ {16:69}
|
اور
ہر قسم کے میوے کھا۔ اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا۔ اس کے پیٹ سے
پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کے کئی امراض) کی
شفا ہے۔ بےشک سوچنے والوں کے لیے اس میں بھی نشانی ہے
|
"کلی"اور "فاسلکی" سب اوامر تکوینیہ ہیں۔
یعنی فطرۃً اس کو ہدایت کی کہ اپنی خواہش اور استعداد مزاج کے مناسب ہر قسم کے
پھلوں اور میووں میں سے اپنی غذا حاصل کرے۔ چنانچہ مکھیاں اپنے چھتہ سے نکل کر
رنگ برنگ کے پھول پھل چوستی ہیں جن سے شہد اور موم وغیرہ حاصل ہوتا ہے۔
|
یعنی
بہت سی بیماریوں میں صرف شہد خالص یا کسی دوسری دوا میں شامل کر کے دیا جاتا ہے
جو باذن اللہ مریضوں کی شفایابی کا ذریعہ بنتا ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ ایک شخص
کو دست آ رہے تھے اس کا بھائی حضور ﷺ
کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے شہد پلانے کی رائے دی ۔ شہد پینے کے بعد اسہال میں ترقی
ہو گئ۔ اس نے پھر حاضر ہو کر
عرض کیا کہ حضرت دست زیادہ آنے لگے فرمایا { صَدَقَ اللہ وَکَذَبَ بَطْنُ
اَخِیْکَ } (اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے)۔ پھر پلاؤ۔ دوبارہ
پلانے سے بھی وہ ہی کیفیت ہوئی ۔ آپ ﷺ
نے پھر وہی فرمایا۔ آخر تیسری
مرتبہ پلانے سے دست بند ہو گئے اور طبیعت صاف ہو گئ۔ اطباء نے اپنے اصول کے موافق
کہا ہے کہ بعض اوقات پیٹ میں "کیموس" فاسد ہوتا ہے جو پیٹ میں پہنچنے
والی ہر ایک غذا اور دوا کو فاسد کر دیتا ہے اس لئے دست آتے ہیں اس کا علاج یہ
ہی ہے کہ مسہلات دی جائیں۔ تا وہ "کیموس فاسد" خارج ہو۔ شہد کے مسہل
ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ گویا حضور ﷺ کا مشورہ
اسی طبی اصول کے موافق تھا ۔ مامون رشید کے زمانہ میں ثمامہ عبسی کو جب اسی قسم
کا مرض لاحق ہوا تو اس زمانہ کے شاہی طبیب یزید بن یوحنا نے مسہل سے اس کا علاج
کیا اور یہ ہی وجہ بتلائی ۔ آج کل کے اطباء شہد کے استعمال کو استطلاق بطن کے
علاج میں بے حد مفید بتاتے ہیں۔
|
یعنی
مختلف رنگ کا شہد نکلتا ہے سفید، سرخ ، زرد کہتے ہیں کہ رنگتوں کا اختلاف موسم
غذا اور مکھی کی عمر وغیرہ کے اختلاف سے پیدا ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم۔
|
یعنی
غذا حاصل کرنے اور کھا پی کر چھتہ کی طرف واپس آنے کے راستے کھلے پڑے ہیں کوئی
روک ٹوک نہیں ۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ مکھیاں غذا کی تلاش میں بعض اوقات بہت
دور نکل جاتی ہیں پھر بے تکلف اپنے چھتہ میں واپس آ جاتی ہیں۔ ذرا راستہ نہیں
بھولتیں۔ بعض نے { فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکَ ذُلُلًا } کا مطلب یہ لیا ہے کہ
قدرت نے تیرے عمل و تصرف کے جو فطری راستے مقرر کر دیے ہیں ان پر مطیع و منقاد
بن کر چلتی رہ ۔ مثلاً پھول پھل چوس کر فطری قویٰ و تصرفات سے شہد وغیرہ تیار
کر۔
|
حضرت
شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں برے میں سے بھلا نکلنے
کے تین پتے بتلائے ۔ جانور کے پیٹ اور خون گوبر کے مادہ سے دودھ، نشے کے مادہ
(انگور کھجور وغیرہ) سے پاک روزی اور مکھی کے پیٹ سے شہد ۔ تینوں میں اشارہ ہوا
کہ اللہ تعالیٰ اس قرآن کی بدولت جاہلوں کی اولاد میں عالم پیدا کر ے گا۔ حضرت
کے وقت میں یہ ہی ہوا کہ کافروں کی اولاد عارف کامل ہوئی۔
|
Then, eat from all the fruits, and go along the pathways of your Lord made easy for you.” From their bellies comes out a drink of various colors in which there is cure for people. Surely, in that there is a sign for a people who ponder.
[AL-QURAN : Chapter # 16, Verse # 69]
Tafsir al-Jalalayn : Then eat from every [kind of] fruit, and follow, enter, the ways of your Lord, [follow] His paths in seeking pastures, [ways] made easily accessible’ (dhululan is the plural of dhalūl, and is a circumstantial qualifier referring to al-subul, ‘the ways’, in other words, [those paths] disposed for you, such that they pose no difficulty for you, even if it should be rough [terrain], and [such that] you would not lose your way when returning therefrom, even if it be far away; it [dhululan] is also said to be [a circumstantial qualifier] referring to the person of [the pronominal suffix of] fa’slukī, ‘you follow’, meaning [in this case] [follow those paths] in compliance with what is required of you). There comes forth from their bellies a drink, namely, honey, of diverse hues, wherein is a cure for mankind, from [all] ailments; it is also said [that it means that it is a cure only] for some [ailments], as indicated by the indefinite [noun] shifā’un, ‘a cure’; or [that it is a cure] for all [ailments] when supplemented with some other [remedy]; or without these [other remedies] but with the resolve (niyya) [to get better]. The Prophet (s) used to prescribe it for anyone suffering from stomach pains, as reported by the two Shaykhs [Bukhārī and Muslim]. Surely in that there is a sign for a people who reflect, upon God’s handiwork, exalted be He.
Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs : (Then eat of all fruits) from all types of fruits, (and follow the ways of your Lord, made smooth (for thee)) made tractable for you. (There cometh forth from their bellies) from the bellies of bees (a drink diverse of hues) red, yellow and white, (wherein) in honey there (is healing for mankind) from illness; it is also said that this means: there is in the Qur'an healing for mankind. (Lo! Herein) in that which I have mentioned there (is indeed a portent) a sign and lesson (for people who reflect) on what I have created.
Subscribe to:
Posts (Atom)