Sunday, 10 August 2014

نماز میں بسم الله بلند اور آہستہ کہنے کے دلائل

بسم اللہ با آواز بلند یا دبی آواز سے؟
قرآن کے اصول کے تحت جہر (یعنی بلند آواز) کے سوا (یعنی آھستہ سے) ذکر کرنا ضروری نہ سہی لیکن افضل ہونا معلوم ہوتا ہے اسی لئے جہراً (بلند) آواز سے نہ پڑھنے سے مدلل روایات کو اکثر صحابہ و ائمہ نے ترجیح دی:
القران : وَاذكُر رَبَّكَ فى نَفسِكَ تَضَرُّعًا وَخيفَةً وَدونَ الجَهرِ مِنَ القَولِ بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ وَلا تَكُن مِنَ الغٰفِلينَ {7:205} 
ترجمہ : اور یاد کرتا رہ اپنے رب کو اپنے دل میں گڑگڑاتا ہوا اور ڈرتا ہوا اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو صبح کے وقت اور شام کے وقت اور مت رہ بے خبر 
تشریح :بڑا ذکر تو قرآن کریم ہے اس کا ادب بیان ہو چکا۔ اب عام ذکر اللہ کے کچھ آداب بیان فرماتے ہیں یعنی ذکر اللہ کی اصلی روح یہ ہے کہ جو زبان سے کہے دل سے اس کی طرف دھیان رکھے تاکہ ذکر کا پورا نفع ظاہر ہو اور زبان و دل دونوں عضو خدا کی یاد میں مشغول ہوں ۔ ذکر کرتے وقت دل میں رقت ہونی چاہئے۔ سچی رغبت و رہبت سے خدا کو پکارے۔ جیسے کوئی خوشامد کرنے والا ڈرا ہوا آدمی کسی کو پکارتا ہے۔ ذاکر کے لہجہ میں آواز میں اور ہیئت میں تضرع و خوف کا رنگ محسوس ہونا چاہئے۔ ذکر و مذکور کی عظمت و جلال سے آواز کا پست ہونا قدرتی چیز ہے { وَخَشَعَتِ الْاَ صْواتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ھَمْسًا }۔ اسی لئے زیادہ چلانے کی ممانعت آئی ہے۔ دھیمی آواز سے سراً یا جہراً خد اکا ذکر کرے تو خدا اس کا ذکر کرے گا۔ پھر اس سے زیادہ عاشق کی خوش بختی اور کیا ہو سکتی ہے۔

نماز میں بسم الله پڑھنا:
امام ابن کثیر الشافعی (701ھ -774ھ) فرماتے ہیں:
 امام شافعی رحمۃ اللہ کا مذہب ہے کہ سورۃ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیے۔ صحابہ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و موخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عمر، ابن عباس، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ بیہقی، ابن عبدالبر نے حضرت عمر اور حضرت علی سے بھی روایت کیا.[السنن الكبرى، للبيهقي: كتاب الصلاة، باب إفتتاح القرأة بسم الله الرحمن الرحيم (2/46)] اور امام خطیب بغدادی نے چاروں خلیفوں سے بھی روایت کیا لیکن سند غریب بیان کیا ہے۔ تابعین میں سے حضرت سعید بن جبیر، حضرت عکرمہ حضرت ابوقلابہ، حضرت زہری، حضرت علی بن حسن ان کے لڑکے محمد، سعید بن مسیب، عطا، طاؤس، مجاہد، سالم، محمد بن کعب قرظی، عبید، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابو وائل ابن سیرین کے مولیٰ زید بن اسلم، عمر بن عبدالعزیز، ارزق بن قیس، حبیب بن ابی ثابت، ابو شعثا، مکحول، عبداللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی، عبداللہ بن صفوان، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرأت اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورۃ فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیے۔ علاوہ ازیں سنن نسائی(حديث:906)، صحیح ابن خزیمہ(1/251، حديث:499)، صحیح ابن حبان(5/104-105، حديث:1801)، مستدرک حاکم (1/232، حديث:849) میں مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرأت میں اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ  کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں۔ اس حدیث کو دار قطنی خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔[ماخوذ : تفسیر ابن کثیر، مترجم : مولانا محمد جونا گڑھی]
{{{تنبیہ و تبصرہ: جبکہ یہ آپ نے بعض دفعہ تعلیم کے سبب کیا.حوالہ: هو محمول على التعليم [هداية: كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة]
لیکن حضرت ابو ہریرہ ہی سے یہ بھی مروی کہ بےشک نبی صلی الله علیہ وسلم نہیں جہر (اعلانیہ) کہتے تھے بسم الله الرحمٰن الرحیم سے.(الإنصاف فيما بين علماء المسلمين لابن عبد البر » رقم الحديث: 34، 
فتح الباري لابن رجب - الصفحة أو الرقم: 4/375 - خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد)}}}

مزید امام ابن کثیر الشافعی (701ھ -774ھ) فرماتے ہیں: 
 ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نماز کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا کرتے تھے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں۔ مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ حضور  بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے۔[ماخوذ : تفسیر ابن کثیر، مترجم : مولانا محمد جونا گڑھی]
{{{تنبیہ و تبصرہ: لیکن حضرت ابن عباس ہی سے یہ بھی مروی کہ اس آیت : وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 کے نازل ہونے کے بعد حکم دیا رسول الله  نے کہ نہ جہراً پڑھی جاۓ اس (بسم الله) کو. (معرفة السنن والآثار للبيهقي » كِتَابُ الصَّلاةِ  » باب الْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ... رقم الحديث: 737 ، 
المعجم الكبير للطبراني » بَابُ التَّاءِ  » الاخْتِلافُ عَنِ الأَعْمَشِ فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ ... رقم الحديث: 12086 ، 
المعجم الأوسط للطبراني  » بَابُ الْعَيْنِ  » مَنِ اسْمُهُ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ ... رقم الحديث: 4896 ، 
مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 2/111 - خلاصة حكم المحدث: رجاله موثقون یعنی اس کے راوی ثقہ یعنی قابل اعتماد ہیں)
اور
حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ آواز سے بسم الله الرحمٰن الرحیم کہنا ، اعراب (بدوؤں یعنی کم علم و عقل والے دیہاتیوں) کی قرأت ہے.
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَشِيرٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " الْجَهْرُ بِـ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1 قِرَاءَةُ الْأَعْرَابِ " .(مصنف ابن ابی شیبہ: کتاب الصلاة، باب من كان لا يجهر بسم الله ... رقم الحديث : 4169(4037)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ "اعراب (بدوؤں یعنی کم علم و عقل والے دیہاتیوں) کا فعل ہے".
[شرح معاني الآثار للطحاوي  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » بَابُ قِرَاءَةِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ... رقم الحديث: 747
نخب الافكار (العيني) - الصفحة أو الرقم: 3/605 - خلاصة حكم المحدث: [ورد] من طريقين صحيحين
أصل صفة الصلاة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 1/290 - خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح}}}

مزید امام ابن کثیر الشافعی (701ھ -774ھ) فرماتے ہیں: 
امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ رسول اللہ  کا انداز قرأت صحیح بخاری (حديث:5046) میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ کی قرأت کس طرح تھی۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سنائی بسم اللہ پر مد کیا الرحمن پر مد کیا الرحیم پر مد کیا۔ [ماخوذ : تفسیر ابن کثیر، مترجم : مولانا محمد جونا گڑھی]
{{{تنبیہ و تبصرہ: لیکن حضرت انس سے ہی یہ بھی مروی ہے کہ میں نے نماز پڑھی نبی صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ، اور ابو بکر ، اور عمر، اور عثمان رضی الله عنھم (کے ساتھ) ، پس نہیں میں نے سنا ان میں سے کسی ایک سے بھی پڑھتے بسم الله الرحمٰن الرحیم.(مجموع الفتاوى - لابن تیمیہ : 22/278- خلاصة حكم المحدث: صحيح ؛ 
صحيح مسلم  » كِتَاب الصَّلَاةِ  » بَاب حُجَّةِ مَنْ قَالَ لَا يُجْهَرُ بِالْبَسْمَلَةِ ...رقم الحديث: 610-611 ؛ 
صحيح ابن حبان  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » بَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ  » ذِكْرُ الْخَبَرِ الْمُدْحِضِ قَوْلَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ ... رقم الحديث: 1839 ؛ 
صحيح ابن حبان  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » بَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ  » ذِكْرُ الإِبَاحَةِ لِلْمَرْءِ تَرْكُ الْجَهْرِ بِبِسْمِ ... رقم الحديث: 1835+1836  ؛ 
الأحكام الكبير (ابن كثير) - الصفحة أو الرقم: 3/46 - خلاصة حكم المحدث: رواية (لا يجهرون بها) ثابتة من طرق عن أنس  ؛ 
الأحكام الكبير (ابن كثير) - الصفحة أو الرقم: 3/46 - خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
نصب الراية (الزيلعي ) - الصفحة أو الرقم: 1/329 - خلاصة حكم المحدث: رجاله كلهم ثقات مخرج لهم في الصحيحين
شرح فتح القدير (ابن الهمام) - الصفحة أو الرقم: 1/297 - خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيح
شرح مسند أبي حنيفة (ملا علي قاري ) - الصفحة أو الرقم: 84 - خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيح
كشف اللثام (السفاريني الحنبلي ) - الصفحة أو الرقم: 2/458 - خلاصة حكم المحدث: رجاله بشرط الصحيح
الحديث لابن عبدالوهاب - الصفحة أو الرقم: 1/390 - خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
نيل الأوطار (الشوكاني) - الصفحة أو الرقم: 2/215 - خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيح
فتح الغفار (الرباعي) - الصفحة أو الرقم: 325/1 - خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيح
مجموع فتاوى ابن باز - الصفحة أو الرقم: 120/11 - خلاصة حكم المحدث: صحيح
أصل صفة الصلاة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 1/279 - خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
مجموع فتاوى ابن عثيمين - الصفحة أو الرقم: 114/13 - خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيح}}}

مزید امام ابن کثیر الشافعی (701ھ -774ھ) فرماتے ہیں: 
مسند احمد(6/302)، سنن ابو داؤد(حديث:4001)، صحیح ابن خزیمہ(1/248، حديث:493) اور مستدرک حاکم(1-231، حديث:2909-2910) میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرأت الگ الگ ہوتی تھی جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر الحمد للہ رب العالمین پھر ٹھہر کر الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر ملک یوم الدین. دار قطنی اسے (سند کے لحاظ سے) صحیح بتاتے ہیں۔[ماخوذ : تفسیر ابن کثیر، مترجم : مولانا محمد جونا گڑھی]
{{{تنبیہ و تبصرہ: لیکن اس روایت کے الفاظ میں اختلاف ہے، اضطراب_متن ملاحظہ ہو:
بسم الله کے بجاۓ الحمد للّہ سے قرات شروع کرنے کی ان ہی سے روایت:
١) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ ، يَقُولُ : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ثُمَّ يَقِفُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3 ثُمَّ يَقِفُ ، وَكَانَ يَقْرَؤُهَا مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4 ".
[جامع الترمذي  » كِتَاب الْقِرَاءَاتِ  » بَاب فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ ... رقم الحديث: 2870
الشمائل المحمدية للترمذي  » بَابُ مَا جَاءَ فِي قِرَاءَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى ... رقم الحديث: 302
الأنوار في شمائل النبي المختار  » 47 ـ بَابٌ فِي صِفَةِ قِرَاءَتِهِ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى ... رقم الحديث: 629
مختصر الشمائل (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 270 - خلاصة حكم المحدث: صحيح
تخريج مشكاة المصابيح (ابن حجر العسقلاني) - الصفحة أو الرقم: 2/398 - خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة]
٢) حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، نَظُنُّهَا أُمَّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذَا قَرَأَ قَالَ : " الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ . الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ . مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ " يَقْطَعُ قِرَاءَتَهُ .
[المصاحف لابن أبي داود  » بَابُ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ ...  » فَاتِحَةُ الْكِتَابِ ... رقم الحديث: 252
٣) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الْفَقِيهُ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ قُرَيْشٍ وَأَبُو عَمْرُو بْنُ عَبْدُوسٍ الْمُقْرِئُ ، قَالُوا : ثنا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حُجْرِ بْنِ إِيَاسٍ السَّعْدِيُّ ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَن ّالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَقْطَعُ قِرَاءَتَهُ آيَةً آيَةً : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، ثُمَّ يَقِفُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3 ، ثُمَّ يَقِفُ " ، قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ : وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ تَقْرَؤُهَا 0 مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 0 هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ , وَلَهُ شَاهِدٌ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَلَى شَرْطِهِمَا ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ .
[المستدرك على الصحيحين  » رقم الحديث: 2837 (2 : 231) ، صحيح الجامع (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 5000 - خلاصة حكم المحدث: صحيح]
لہذا اس اضطراب_متن کی وجہ سے یہ روایت اس مسئلہ کے ثبوت کے لیے قابل حجت نہیں. البتہ اس حدیث کے متن (الفاظ) سے بسم الله کا سورة الفاتحہ کا حصہ نہ ہونا، اس کے الحمد للّہ سے شروع ہونے سے معلوم ہوتا ہے. جو دوسرے کئی صحابہ سے مروی صحیح روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے.}}}

مزید امام ابن کثیر الشافعی (701ھ -774ھ) فرماتے ہیں:
 امام شافعی، امام حاکم نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا۔ چنانچہ پھر جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو بسم اللہ پڑھی۔[الأم، للشافعي: كتاب الصلاة، باب التامين:1/233، حديث:851] غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لئے کافی ہیں۔[ماخوذ : تفسیر ابن کثیر، مترجم : مولانا محمد جونا گڑھی]
{{{تنبیہ و تبصرہ: لیکن یہ (حضرت معاویہ کے متعلق واقعہ) بے سند و من گھڑت بات ہے، اس روایت کا مدار (( ابن خیثم )) پر ہے، امام یحییٰ بن معین نے فرماتے ہیں کہ (( ليس بشئ ))، پھر اس کی سند میں بھی اضطراب ہے اور متن میں بھی ، (مَثَلاً سند میں اضطراب یہ ہے کہ) اس کا راوی (( الاسلمی )) مکشوف الحال اور (( یحییٰ بن سلیم )) بھی کثیر الوھم (یعنی بہت وہمی) اور سئ الحفظ (یعنی حافظہ کا برا) تھا.[الجوہر النقی] اسماعیل بن عیاش کی روایت بھی اہل حجاز (حج والے یعنی مکّہ مدینہ والوں) سے قابل رد ہے. اور متن (میں اضطراب) کا یہ حال ہے کہ بیہقی(ج٢/ص٥٠) میں ہے کہ "نہ بسم الله پڑھی نہ تکبیرات انتقال کہیں"، اور دارقطنی(ج ١ / ص ٣١١) میں ہے کہ " نہ فاتحہ سے پہلے بسم الله پڑھی نہ فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے اور نہ ہی تکبیرات انتقال کہیں "، اور حاکم(ج ١ / ص ٢٣٣) میں ہے کہ " فاتحہ سے پہلے بسم الله جہراً پڑھی اور سورت سے پہلے نہیں پڑھی اور نہ ہی تکبیرات انتقال کہیں "، امام شافعی نے الام (ج ١ / ص ٩٣) پر بھی یہی روایت کیا ہے کہ "فاتحہ سے پہلے بسم الله پڑھی اور سورت سے پہلے نہیں پڑھی اور نہ ہی تکبیرات انتقال کہیں"، اور عبد الرزاق(ج ٢ / ص ٩٢) میں ہے کہ " نہ ہی بسم الله پڑھی نہ ہی تکبیرات انتقال کہیں.
جبکہ صحیحین ہی میں حضرت انس بن مالک ہی سے مروی ہے کہ میں نے نبی  اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب الحمد للہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے۔[صحيح البخاري: كتاب الأذان، باب ما يقول بعد التكبير . حديث:743 ، صحيح مسلم: كتاب الصلاة، باب حجة من قال لا يجهر بالبسمله، حديث:399 ، واللفظ له، حافظ ابن الحجر نے بلوغ المرام(کتاب صلاة، باب صفة صلاة، قبل الحديث:278) میں لکھا ہے کہ مسند احمد (3/179)، سنن نسائی (کتاب الإفتتاح، باب ترك الجهر بسم الله الرحمٰن الرحیم، حديث:908) اور صحیح ابن خزیمہ (1/250، حديث:498) کی روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ "یہ حضرات بسم الله الرحمٰن الرحیم کو جھری (بلند) طور پر نہیں پڑھا کرتے تھے". لهذا صحيح مسلم کی روایت میں جو نفی ہے اسے اسی (بلند نہ پڑھنے) پر محمول کیا جاۓ گا.}}}

بسم الله جہراً نہ پڑھنے کے دلائل:
مزید امام ابن کثیر الشافعی (701ھ -774ھ) خود یہ بھی فرماتے ہیں: باقی رہے اس کے خلاف آثار، روایات، ان کی سندیں، ان کی تعلیل، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں بسم اللہ کو زور سے نہ پڑھنا چاہیے۔ خلفاء اربعہ (حضرت ابو بکر ، عمر، عثمان اور علی رضوان الله علیھم) اور حضرت عبداللہ بن معقل، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہی ثابت ہے۔ ابو حنیفہ، ثوری، احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے بسم اللہ پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند کیا۔[فتح المالك بتبوب التمهيد: كتاب الصلاة، باب القرأة خلف الإمام ... 2/113] ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم[کتاب الصلاة، باب ما يجمع صفة الصلاة وما يفتتح به ... حديث:498] والی حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ  نماز کو تکبیر سے اور قرأت کو الحمد للہ رب العالمین سے ہی شروع کیا کرتے تھے۔[سنن أبو داود: الصلاة، باب من لم ير الجهر بسم الله ... حديث:783] صحیحین میں ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں میں نے نبی  اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب الحمد للہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے۔[صحيح البخاري: كتاب الأذان، باب ما يقول بعد التكبير . حديث:743 ، صحيح مسلم: كتاب الصلاة، باب حجة من قال لا يجهر بالبسمله، حديث:399 ، واللفظ له، حافظ ابن الحجر نے بلوغ المرام(کتاب صلاة، باب صفة صلاة، قبل الحديث:278) میں لکھا ہے کہ مسند احمد (3/179)، سنن نسائی (کتاب الإفتتاح، باب ترك الجهر بسم الله الرحمٰن الرحیم، حديث:908) اور صحیح ابن خزیمہ (1/250، حديث:498) کی روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ "یہ حضرات بسم الله الرحمٰن الرحیم کو جھری (بلند) طور پر نہیں پڑھا کرتے تھے". لهذا صحيح مسلم کی روایت میں جو نفی ہے اسے اسی (بلند نہ پڑھنے) پر محمول کیا جاۓ گا.] مسلم میں ہے کہ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرأت کے شروع میں نہ اس قرأت کے آخر میں۔[صحيح مسلم: كتاب الصلاة، باب حجة من قال لا يجهر بالبسمله، حديث:(52)-399] سنن میں حضرت معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی مروی ہے۔ یہ ہے دلیل ان ائمہ کے بسم اللہ آہستہ پڑھنے کی۔[جامع الترمذي : كتاب الصلاة ، باب ما جاء في ترك الجهر بسم الله ... حديث:244 ؛ سنن النسائی : كتاب الإفتتاح ، باب ترك الجهر بسم الله ... حديث:909 ، سنن ابن ماجة : إقامة الصلاة ، باب إفتتاح القرأة ، حديث:815]

یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت (صحيح ہونے) کا قائل ہے۔ فالحمد للہ (بسم اللہ کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں ۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں ۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے قوی (مضبوط) ہیں. واللہ اعلم۔ مترجم)[ماخوذ : تفسیر ابن کثیر، مترجم : مولانا محمد جونا گڑھی]
لہذا
حیرت ہوتی ہے ان نام نہاد توحیدی عرف وہابی، غیر مقلد وکٹورین اہل حدیث پر جو پھر بھی اپنے مقلد چند عوام کے سوا، اکثریت پر مبنی صحابہ و ائمہ کے قول کی تقلید (پیروی) کرنے والی اہل سنّت والجماعت عوام میں اس اختلاف کو ادھورا بیان کرتے فقہ کے ائمہ اور ان کے مقلدین (پیروکاروں) کو مخالف حدیث ہی نہیں بلکہ منکر حدیث کافر تک کہنے سے دریغ و ہچکچاہت محسوس نہیں کرتے. ان کو اپنے ہی گھر سے ایسی شہادتیں بھی نہیں دکھتیں جن سے ان کے اکابر (بڑے) علماء نے اس جمہور کے مسلک کو اختیار کرکے اسے راجح (قابل ترجیح) اور قوی (مضبوط، وزنی) قرار دیا ہے: اہل حدیث کے شیخ الکل سید نذیر حسین دھلوی اور شمس الحق محدث ڈیاںوی (تعلیق المغنی: ج ١ / ص ٣١٥ - ٣١٦)، علامہ البانی (صفة الصلاة:ص٧٧)، ابن باز (حاشیہ فتح الباری: ج ٢ / ص ٢٢٩)، شعیب و عبد القادر (تحقیق زاد المعاد:١/٢٠ بحوالہ حاشیہ صلاة الرسول:٣٥٤) اور مولانا محمد جونا گڑھی کا ترجمہ تفسیر ابن کثیر().
بس
قرآن کے اصول کے تحت جہر (یعنی بلند آواز) کے سوا (یعنی آھستہ سے) ذکر کرنا ضروری نہ سہی لیکن افضل ہونا معلوم ہوتا ہے اسی لئے جہراً (بلند) آواز سے نہ پڑھنے سے مدلل روایات کو اکثر صحابہ و ائمہ نے ترجیح دی:
القران : وَاذكُر رَبَّكَ فى نَفسِكَ تَضَرُّعًا وَخيفَةً وَدونَ الجَهرِ مِنَ القَولِ بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ وَلا تَكُن مِنَ الغٰفِلينَ {7:205} 
ترجمہ : اور یاد کرتا رہ اپنے رب کو اپنے دل میں گڑگڑاتا ہوا اور ڈرتا ہوا اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو صبح کے وقت اور شام کے وقت اور مت رہ بے خبر 
تشریح :بڑا ذکر تو قرآن کریم ہے اس کا ادب بیان ہو چکا۔ اب عام ذکر اللہ کے کچھ آداب بیان فرماتے ہیں یعنی ذکر اللہ کی اصلی روح یہ ہے کہ جو زبان سے کہے دل سے اس کی طرف دھیان رکھے تاکہ ذکر کا پورا نفع ظاہر ہو اور زبان و دل دونوں عضو خدا کی یاد میں مشغول ہوں ۔ ذکر کرتے وقت دل میں رقت ہونی چاہئے۔ سچی رغبت و رہبت سے خدا کو پکارے۔ جیسے کوئی خوشامد کرنے والا ڈرا ہوا آدمی کسی کو پکارتا ہے۔ ذاکر کے لہجہ میں آواز میں اور ہیئت میں تضرع و خوف کا رنگ محسوس ہونا چاہئے۔ ذکر و مذکور کی عظمت و جلال سے آواز کا پست ہونا قدرتی چیز ہے { وَخَشَعَتِ الْاَ صْواتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ھَمْسًا }۔ اسی لئے زیادہ چلانے کی ممانعت آئی ہے۔ دھیمی آواز سے سراً یا جہراً خد اکا ذکر کرے تو خدا اس کا ذکر کرے گا۔ پھر اس سے زیادہ عاشق کی خوش بختی اور کیا ہو سکتی ہے۔

بسم الله جہراً پڑھنا بدعت:
1) عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : سَمِعَنِي أَبِي ، وَأَنَا أَقُولُ : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1 ، فَقَالَ : أَيْ بُنَيَّ ، إِيَّاكَ قَالَ : " وَلَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَبْغَضَ إِلَيْهِ حَدَثًا فِي الْإِسْلَامِ مِنْهُ فَإِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ ، وَعُمَرَ ، وَمَعَ عُثْمَانَ ، فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَقُولُهَا ، فَلَا تَقُلْهَا ، إِذَا أَنْتَ قَرَأْتَ ، فَقُلْ : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ " .[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 16435 ، سنن ابن ماجه  » رقم الحديث: 807 ، معرفة السنن والآثار للبيهقي  » رقم الحديث: 756 ، مصنف عبد الرزاق  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » بَابُ مَا يُخْفِي الْإِمَامُ ... رقم الحديث: 2511 ، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر  » كِتَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ  » جماع أبواب القراءة في الصَّلاة ... رقم الحديث: 1300 ، شرح معاني الآثار للطحاوي  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » بَابُ قِرَاءَةِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ... رقم الحديث: 736 ، الإنصاف فيما بين علماء المسلمين لابن عبد البر » رقم الحديث: 1-2 ، التمهيد لابن عبد البر  » باب العين  » مالك عن العلاء بن عبد الرحمن ... رقم الحديث: 3591 ، التاريخ الكبير للبخاري  » باب الياء  » باب ع ... رقم الحديث: 1058]
حضرت عبدالله بن مغفل رضی الله عنہ کے بیٹے نے کہا میرے والد نے سنا کہ میں نماز میں بسم الله الرحمٰن الرحیم پڑھ رہا تھا تو انہوں نے مجھے کہا : اے میرے بیٹے! یہ (دین میں) نئی بات ہے اور تم نئی بات سے بچو اور میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ جس کے نزدیک اسلام میں نئی بات پیدا کرنے سے زیادہ کوئی چیز بری ہو اور (میرے والد نے) کہا: تحقیق میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ، ابو بکر ، عمر اور عثمان (رضی الله علیھم) کے ہمراہ (ساتھ) نماز پڑھی ہے میں نے ان میں سے کسی کو بھی نہیں سنا جو یہ (بسم الله کو جہراً یعنی اونچی آواز سے)  پڑھتا ہو تو تم بھی (اونچی آواز سے) نہ پڑھو، جب تم نماز پڑھو الحمد للّہ رب العالمين کہو.[مسند ابی حنیفہ:ص٥٨ ، عبد الرزاق:ج ٢/ص٥٨ ،  ابن ابی شیبہ:ج١/ص٤١٠، احمد:ج٤/ص٨٥، ج٥/ص٥٤، ابن ماجہ:ص٥٩، ترمذی:ص٥٧، نسائی:ج١/ص١٤، طحاوی:ج١/ص١٤، بیہقی:ج٢/ص٥٢]

اب ظاہر ہے کہ بسم الله فاتحہ کی آیت ہوتی تو اس کا فاتحہ کے ساتھ بلند پڑھنا کیوں بدعت کہلاتا، حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ (تابعی) امام ابراہیم نخعی فرماتے تھے کہ امام کا بلند آواز سے بسم الله پڑھنا بدعت ہے.[ابن ابی شیبہ:ج١/ ص٤١١] (امام) اثرم نے حضرت  ابراہیم نخعی سے روایت کیا ہے کہ میں نے کسی کو جہراً بسم الله پڑھتے نہیں پایا اور بسم الله جہراً پڑھنا بدعت ہے.[نصب الرایہ:ج١/ ص٣٥٨]

مولوی عبد الرؤف صاحب فاضل مدینہ یونیورسٹی فرماتے ہیں: "بسم الله جہراً پڑھنے کے بارے میں بعض ضعیف اور متعدد سخت ضعیف اور من گھڑت قسم کی روایات سنن دارقطنی وغیرہ میں موجود ہیں، (امام) ابن تیمیہ اور زیلعی نے بھی ذکر کیا ہے کہ (امام) دارقطنی جب مصر تشریف لے گئے تو بعض مصریوں نے ان سے بسم الله جہراً پڑھنے کے بارے میں ایک مستقل رسالہ تالیف کرنے کی درخواست کی انہوں نے جب رسالہ تالیف کرلیا تو کسی مالکی عالم نے ان سے سوال کیا کہ اس رسالے میں کتنی صحیح روایات ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ((اس بارے میں جتنی بھی مرفوع (نبوی)  حدیثیں ہیں وہ سب کی سب غیر صحیح ہیں، رہے آثار (اقوال صحابہ) تو ان میں بعض صحیح ہیں اور بعض ضعیف. شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ حدیث کی معرفت اور جان پہچان رکھنے والے اس امر پر متفق ہیں کہ بسم الله جہراً پڑھنے کے بارے میں کوئی صحیح "صریح" روایت نہیں اور نہ ہی مشہور سنن کے مؤلفین مَثَلاً: ابو داود، ترمذی، نسائی نے اس بارے میں کوئی حدیث روایت کی ہے، اس کو جہراً پڑھنے کا ذکر من گھڑت روایات میں ملتا ہے، جن کو (امام) ثعلبی اور ماوردی اور ان جیسے مفسرین نے ذکر کیا ہے یا پھر یہ روایات ان فقہاء کے کتب میں ملتی ہیں جو موضوع اور غیر موضوع روایات میں تمیز نہیں کرتے بلکہ ہر قسم کی احادیث سے حجت لے لیتے ہیں.
بس
علامہ ابن قیم الحنبلی (٦٩١ھ - ٧٥١ھ) رح سیرت النبی کے موضوع پر لکھی اپنی کتاب [زاد المعاد (مترجم): ١/٢٠٣] پر لکھتے ہیں کہ "رسول الله صلی الله علیہ وسلم سفر و حضر میں، ہر دن اور رات میں پانچوں مرتبہ اگر بسم الله کو جہراً پڑھتے تو یہ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام پر مخفی نہ رہتا، یہ (مخفی رہنا) امحل المحال میں سے ہے.[تحقیق زاد المعاد:١/٢٠ بحوالہ حاشیہ صلاة الرسول:٣٥٥]


5 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  4. نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے اعوذ باللہ یا بسم اللہ(آہستہ آواز میں بھی) پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہے کیونکہ بخاری اور مسلم،نسائی ترمذی ابوداؤد نے تواتر کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر۔اولی اور سورہ فاتحہ کے درمیان دعائے استفتاح کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتے تھے۔
    حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے اللہ کے رسول آپ تکبیر اور سورۃ فاتحہ کے درمیان کیا پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا، اللھم باعد بینی وبین خطایای ... (یعنی دعا استفتاح) ۔متفق علیہ

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يسكت بَين التَّكْبِير وَبَين الْقِرَاءَة إسكاتة قَالَ أَحْسبهُ قَالَ هنيَّة فَقلت بِأبي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَة مَا تَقُولُ قَالَ: «أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ والثلج وَالْبرد»
    مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ (الألباني)


    جبکہ ابو داؤد کی ایک حدیث سے ہمیں تعوذ سے ملتی جلتی ایک عبارت ملتی ہے

    حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ مُطَهَّرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ كَبَّرَ ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ ‏"‏ ‏.‏ ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ‏"‏ ‏.‏ ثَلاَثًا ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ‏"‏ ‏.‏ ثَلاَثًا ‏"‏ أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ ‏"‏ ‏.‏ ثُمَّ يَقْرَأُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا الْحَدِيثُ يَقُولُونَ هُوَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلاً الْوَهَمُ مِنْ جَعْفَرٍ ‏.‏

    لیکن امام ابو داود اور ترمذی دونوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحت کے اعتبار سے صحیح نہیں بلکہ حسن ہے



    لہٰذا کسی بھی صحیح حدیث سے نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے نہ توں تعوذ اور نہ ہی اونچی یا آہستہ آواز میں کہی تسمیہ کا ذکر ملتا ہے ۔

    ReplyDelete
  5. واضح رہے کہ کسی بھی صحیح حدیث سے نماز میں دعائے استفتاح اور سورۃ فاتحہ کے درمیان تعوذ خوبخو ان الفاظ کے ساتھ "اعوذ باللہ من شیطان الرجیم" اور "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھنا ثابت نہیں ۔ تو جو لوگ ابوداؤد یا ترمذی کی ایک حدیث کی مثال دیتے ہیں کہ اس میں تعوذ کا ذکر ہے یاد رکھیں یہ تو وہ نہیں جو اپ پڑھتے ہیں، بلکہ کچھ اور طرح ہے جو کہ مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔اور دوسری بات کی یہ حدیث ایک مکمل دعائے استفتاح ہے اس کے اندر ہی تعوذ سے ملتی جلتی عبارت ہے نہ کہ اس کے بعد، اور یہ حدیث سند کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں بلکہ حسن ہے ،
    لہذا دعائے استفتاح اور سورۃ فاتحہ کے درمیان تعوذ اور تسمیہ مستند نہیں ہیں

    ReplyDelete