بیشک آنحضرت ﷺ کے دور مبارک میں خواتین کو مسجد میں حاضر ہونے اور نماز پڑھنے کی اجازت تھی(حکم نہ تھا اور جانے میں بھی مرد سے ممتاز و منفرد شرائط رکھیں)، کیونکہ خود رحمۃ للعالمینﷺ موجود تھے، تعلیمات کا سلسلہ جاری تھا، احکام نازل ہورہے تھے، وہ دور مقدس تھا جس کو خیر القرون فرمایا گیا ہے، یہ دور ختم ہونے لگا تو خرابیاں پیدا ہونے لگیں، چنانچہ حضرت عمرؓ نے مسجد میں عورتوں کو جانے سے منع فرمایا، اس کی شکایت حضرت عائشہؓ سے کئی گئی تو سیدہ عائشہؓ نے فرمایا: اگر آنحضرت ﷺ یہ حالت دیکھتے جو حضرت عمرؓ نے دیکھی ہے تو عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دیتے، ان وجوہات کی بناء پر حضرات فقہاء کرام نے بھی فتویٰ دیا کہ عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے، خواہ پنجوقتہ نمازوں کی جماعت کے لئے جائیں یا جمعہ اور عیدین کی نماز کے لئے یا مجلسِ وعظ میں شرکت کرنے کے لئے جائیں۔ یہ حکم عام ہے، حرم شریف ہو یا مسجد نبویؐ ہو، ہندوستان ہو یا عربستان، سب کے لئے یہی حکم ہے۔
عورتوں کےلئے جہاں ممکن ہو مخفی مقام پر اور چھپ کر نماز پڑھنے میں زیادہ فضیلت اور ثواب ہے:
(1) نا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ دَرَّاجًا أَبَا السَّمْحِ حَدَّثَهُ ، عَنِ السَّائِبِ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " خَيْرُ مَسَاجِدِ النِّسَاءِ قَعْرُ بُيُوتِهِنَّ " .
ترجمہ: حضرت ام سلمہ -رضی اللہ عنہا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کی کوٹھریوں کا اندرونی مکان ہے۔
[أخرجه أحمد (رقم 26542) ، والبيهقى (3/131، رقم 5143) . وأخرجه أيضًا: ابن خزيمة (3/92، رقم 1683) وقال: إن ثبت الخبر فإنى لا أعرف السائب مولى أم سلمة بعدالة ولا جرح. والحاكم (1/327، رقم 756) ، والقضاعى (2/231، رقم 1252) ، والديلمى (2/182، رقم 2919) . قال المنذرى (1/141) : رواه ابن خزيمة فى صحيحه والحاكم من طريق دراج أبى السمح عن السائب مولى أم سلمة عنها وقال ابن خزيمة لا أعرف السائب مولى أم سلمة بعدالة ولا جرح وقال الحاكم صحيح الإسناد.]
تخريج الحديث
|
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن خزيمة - الصفحة أو الرقم: 1683
خلاصة حكم المحدث: حسن
خلاصة حكم المحدث: حسن
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
اس روایت کی تائید خود قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے:
امام سیوطیؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوۓ یہ حدیث لکھتے ہیں:
أخرج عبد بن حميد وابن المنذر عن محمد بن سيرين قال : نبئت انه قيل لسودة زوج النبي صلى الله عليه و سلم رضي الله عنها : مالك لا تحجين ولا تعتمرين كما يفعل أخواتك ؟ ! فقالت : قد حججت واعتمرت وأمرني الله أن أقر في بيتي فول الله لا أخرج من بيتي حتى أموت قال : فوالله ما خرجت من باب حجرتها حتى أخرجت بجنازتها.
ترجمہ :
امام عبد بن حمید اور ان منذر رحمھم الله نے حضرت ابن سیرین رحمہ الله سے روایت نقل کی ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی زوجہ حضرت سودہ رضی الله عنہا سے کہا گیا کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ نہ حج کرتی ہیں اور نہ عمرہ کرتی ہیں جس طرح کہ دوسری ازواج مطہرات آتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے (فرض) حج بھی کیا ہے اور (سنّت) عمرہ بھی کیا ہے، اور الله تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں گھر میں ہی رہوں. الله کی قسم! میں لوٹ آنے تک گھر سے نہیں نکلوں گی. الله کی قسم! وہ اپنے کمرے کے دروازہ سے باہر نہ آئیں یہاں تک کہ وہاں سے آپ کا جنازہ نکالا گیا.
(2) حَدَّثَنَا هَارُونُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْب ، ٍقَال : حَدَّثَنِي دَاوُدُ ابْنُ قَيْس ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُوَيْدٍ الْأَنْصَارِيّ ، عَنْ عَمَّتِهِ أُمِّ حُمَيْدٍامْرَأَةِ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنَّهَا جَاءَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي أُحِبُّ الصَّلَاةَ مَعَكَ ؟ قَالَ : " قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكِ تُحِبِّينَ الصَّلَاةَ مَعي ,ِ وَصَلَاتُكِ فِي بَيْتِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي حُجْرَتِكِ ، وَصَلَاتُكِ فِي حُجْرَتِكِ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِي دَارِك ، وَصَلَاتُكِ فِي دَارِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ ، وَصَلَاتُكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِي " , قَالَ : فَأَمَرَتْ فَبُنِيَ لَهَا مَسْجِدٌ فِي أَقْصَى شَيْءٍ مِنْ بَيْتِهَا وَأَظْلَمِه ، فَكَانَتْ تُصَلِّي فِيهِ حَتَّى لَقِيَتْ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ .
ابوحمید ساعدی -رضی اللہ عنہ- کی بیوی ام حمید -رضی اللہ عنہا- فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: میں جانتا ہوں کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو، مگر تمہاری وہ نماز جو گھر کی اندرونی کوٹھری میں ہو، وہ بیرونی کمرہ کی نماز سے بہتر ہے، اور بیرونی کمرہ کی نماز، گھر کے صحن کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے، اور مسجد محلہ کی نماز میری مسجد کی نماز سے بہتر ہے۔ چنانچہ ان کے حکم پر ان کے گھر کے سب سے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا ہوتا تھا نماز پڑھنے کے لئے جگہ بنادی .
تخريج الحديث
المحدث: أحمد شاكر - المصدر: المحلى - الصفحة أو الرقم: 3/133
خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن خزيمة - الصفحة أو الرقم: 1689
خلاصة حكم المحدث: حسن
المحدث: محمد ابن عبد الوهاب - المصدر: الحديث لابن عبدالوهاب - الصفحة أو الرقم: 2/73
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الموارد - الصفحة أو الرقم: 286
خلاصة حكم المحدث: حسن
اس حدیث کے باب کو امام ابن خزیمہ نے اپنی "صحیح ابن خزیمہ" میں اس عنوان سے قائم کیا ہے:
باب اختيار صلاة المرأة في حجرتها على صلاتها في دارها ، وصلاتها في مسجد قومها على صلاتها في مسجد النبي - صلى الله عليه وسلم - وإن كانت صلاة في مسجد النبي - صلى الله عليه وسلم - تعدل ألف صلاة في غيرها من المساجد ، والدليل على أن قول النبي - صلى الله عليه وسلم - : " صلاة في مسجدي هذا أفضل من ألف صلاة فيما سواه من المساجد " ، أراد به صلاة الرجال دون صلاة النساء .
خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن خزيمة - الصفحة أو الرقم: 1689
خلاصة حكم المحدث: حسن
المحدث: محمد ابن عبد الوهاب - المصدر: الحديث لابن عبدالوهاب - الصفحة أو الرقم: 2/73
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الموارد - الصفحة أو الرقم: 286
خلاصة حكم المحدث: حسن
اس حدیث کے باب کو امام ابن خزیمہ نے اپنی "صحیح ابن خزیمہ" میں اس عنوان سے قائم کیا ہے:
باب اختيار صلاة المرأة في حجرتها على صلاتها في دارها ، وصلاتها في مسجد قومها على صلاتها في مسجد النبي - صلى الله عليه وسلم - وإن كانت صلاة في مسجد النبي - صلى الله عليه وسلم - تعدل ألف صلاة في غيرها من المساجد ، والدليل على أن قول النبي - صلى الله عليه وسلم - : " صلاة في مسجدي هذا أفضل من ألف صلاة فيما سواه من المساجد " ، أراد به صلاة الرجال دون صلاة النساء .
[الترغيب والترهيب:1/225]
ترجمہ :
ترجمہ :
یہ باب (اس بیان میں ہے کہ) عورت کی نماز اپنی کوٹھری میں اس کے گھر کی نماز سے بہتر ہے اور اس کی محلہ کی مسجد میں پڑھی ہوئی نماز مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کی نماز سے بہتر ہے اگرچہ مسجد نبوی کی نماز دیگر مساجد کی نمازوں سے ہزار درجہ افضل ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد "میری مسجد کی نماز دیگر مسجدوں کی نماز سے ہزار گنا بہتر ہے" کا مطلبیہ ہے کہ یہ افضلیت" خاص مردوں کو" حاصل ہوتی ہے عورتیں اس حکم میں شامل نہیں ہیں.
(3) یہی مضمون حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے بھی مروی ہے، بطور شواہد پیش خدمت ہیں:
(4) حدثنا وكيع ثنا إسرائيل عن عبد الاعلى عن سعيد بن جبير عن عبد الله بن عباس أن امرأة سألته عن الصلاة في المسجد يوم الجمعة فقال صلاتك في مخدعك أفضل من صلاتك في بيتك وصلاتك في بيتك أفضل من صلاتك في حجرتك وصلاتك في حجرتك أفضل من صلاتك في مسجد قومك .
[مصنف ابن أبي شيبة:2/384 حديث#7615 ، رجاله رجال الجماعة سوى عبد الأعلى وهو صدق بهم وروي عنه الأربعة وحسن له الترمذي وصح الطبري حديثه في الكسوف.]
ترجمہ :
(3) یہی مضمون حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے بھی مروی ہے، بطور شواہد پیش خدمت ہیں:
تخريج الحديث
|
(4) حدثنا وكيع ثنا إسرائيل عن عبد الاعلى عن سعيد بن جبير عن عبد الله بن عباس أن امرأة سألته عن الصلاة في المسجد يوم الجمعة فقال صلاتك في مخدعك أفضل من صلاتك في بيتك وصلاتك في بيتك أفضل من صلاتك في حجرتك وصلاتك في حجرتك أفضل من صلاتك في مسجد قومك .
[مصنف ابن أبي شيبة:2/384 حديث#7615 ، رجاله رجال الجماعة سوى عبد الأعلى وهو صدق بهم وروي عنه الأربعة وحسن له الترمذي وصح الطبري حديثه في الكسوف.]
ترجمہ :
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے ان سے مسجد میں جمعہ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : تمہارا نماز پڑھنا اپنی چھوٹی کوٹھری میں افضل ہے کمرے میں نماز پڑھنے سے، اور تمہارا کمرے میں نماز پڑھنا افضل ہے گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا افضل ہے اپنے قوم (محلہ) کی مسجد میں نماز پڑھنے سے.
(5) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ حَدَّثَهُمْ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا ، وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا " .
ترجمہ:
(5) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ حَدَّثَهُمْ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا ، وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا " .
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کی نماز کوٹھری میں بیرونی کمرہ کی نماز سے بہتر ہے۔ اور کوٹھری کے اندر کی نماز، کوٹھری کی نماز سے بہتر ہے۔
یعنی عورت جس قدر بھی پردہ اختیار کرے گی اسی قدر بہتر ہے صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی ہوئی کوٹھری میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
تخريج الحديث
|
المحدث: أبو داود - المصدر: سنن أبي داود - الصفحة أو الرقم:570
خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
امام ابو داود نے کہا : جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت (خاموشی اختیار) کروں تو وہ احتجاج (حجت و دلیل ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے...(فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢ ، كتاب الزكوة ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)
المحدث: ابن حزم - المصدر: المحلى - الصفحة أو الرقم: 4/201
خلاصة حكم المحدث: احتج به ، وقال في المقدمة: (لم نحتج إلا بخبر صحيح من رواية الثقات مسند)
خلاصة حكم المحدث: احتج به ، وقال في المقدمة: (لم نحتج إلا بخبر صحيح من رواية الثقات مسند)
المحدث: النووي - المصدر: الخلاصة - الصفحة أو الرقم: 2/677
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم
المحدث: النووي - المصدر: المجموع - الصفحة أو الرقم: 4/198
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم
خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة]
المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 1021
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم
(6) وعنہ: وصلاتُها في دارها أفضل من صلاتِها فيما سواها ثم قال إنَّ المرأةَ إذا خرجَتْ استشرفَها الشيطانُ
الراوي: [عوف بن مالك بن نضلة أبو الأحوص] المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 2/37 خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح
ترجمہ: اور ان (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) سے یہ بھی مروی ہے کہ: اور جو نماز اس (عورت) کی اس کے گھر میں ہو افضل ہے اس نماز سے جو ہو اس کے سوا میں، پھر فرمایا : بےشک عورت جب نکلتی ہے تو اسے شیطان جھانک کر دیکھتا ہے .( یعنی اُسے دیکھنا شیطانی کام ہے)۔
(7) وعنہ: ما صلَّتِ امرأةٌ مِن صلاةٍ أحبُّ إلى اللَّهِ من أشدِّ مَكانٍ في بيتِها ظُلمةً
ترجمہ:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورت کی کوئی نماز، کو اس نماز سے زیادہ محبوب نہیں، جو اس کی تاریک تر کوٹھری میں ہو۔
المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 2/38خلاصة حكم المحدث: رجاله موثقون
[الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/180
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
المحدث: السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم:7927
خلاصة حكم المحدث: حسن
(8) عن عبد الله بن مسعود قال : ((كان الرجال والنساء من بنى إسرائيل يصلون جميعاً ، فكانت المرأة إذا كان لها خليل تلبس القالبين تطول بهما لخليلها، فألقى الله عز وجل عليهن الحيض ، فكان ابن مسعود يقول : أخرجوهن من حيث أخرجهن الله . قلنا : ما القالبين ؟ قالوا : رقيصتين من خشب)).
[قال في المجمع (2/35) : (رواه الطبراني في الكبير (9/295) ورجاله رجال الصحيح )]
ترجمہ :
ترجمہ :
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا : بنی اسرائیل کے مرد و عورت اکٹھا نماز پڑھتے تھے، جب کسی عورت کا کوئی آشنا ہوتا تو وہ (عورت) کھڑاؤں (اونچی ہونے کو لکڑی کے پاؤں) پہن لیتی تھی جن سے وہ لمبی ہوجاتی اپنے آشنا (کو دیکھنے) کے لیے تو (ان کی اس نازیبا حرکت پر بطور سزا کے) ان پر حیض (کو دراز مدت تک) مسلط کردیا گیا اور اس حالت میں مسجد میں آنا حرام کردیا گیا. حضرت عبدالله اس کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے: ان عورتوں کو پیچھے رکھو جس جگہ سے الله نے انھیں پیچھے کردیا ہے.
اور طبرانی کی روایت میں ((أخرجوهن حيث أخرجهن الله)) کے الفاظ ہیں یعنی ان عورتوں کو نکال دو جہاں سے الله نے ان کو نکالا.
عیدین کے موقع پر عورتوں کا عیدگاہ جانے کی روایات کا حکم:
مفسرِ قرآن امام قرطبیؒ (م671ھ) لکھتے ہیں:
لا يستدل بذلك على الوجوب لان هذا إنما توجه ليس بمكلف بالصلاة بالإتفاق، وإنما المقصود التدرب على الصلاة والمشاركة في الخير وإظهار جمال الإسلام، وقال القشيري: لان أصل الإسلام كانوا إذ ذاك قليلين.
ترجمہ :
اور طبرانی کی روایت میں ((أخرجوهن حيث أخرجهن الله)) کے الفاظ ہیں یعنی ان عورتوں کو نکال دو جہاں سے الله نے ان کو نکالا.
عیدین کے موقع پر عورتوں کا عیدگاہ جانے کی روایات کا حکم:
مفسرِ قرآن امام قرطبیؒ (م671ھ) لکھتے ہیں:
لا يستدل بذلك على الوجوب لان هذا إنما توجه ليس بمكلف بالصلاة بالإتفاق، وإنما المقصود التدرب على الصلاة والمشاركة في الخير وإظهار جمال الإسلام، وقال القشيري: لان أصل الإسلام كانوا إذ ذاك قليلين.
ترجمہ :
ان حدیثوں (جن میں عورتوں کو عیدین کے موقع پر عیدگاہ جانے کا حکم ہے) اس کے وجوب (لازم قرار دینے) پر استدلال صحیح نہیں، کیونکہ یہ حکم ان کو دیا گیا ہے جو سرے سے اس نماز کے مکلّف ہی نہیں ہیں، بلکہ عورتوں (اور بچوں) کو عیدگاہ لے جانے کا مقصد تو یہ تھا کہ انھیں نماز کا عادی بنایا جاۓ، (مسلمانوں کے دعاؤں کی) اور خیر وبرکت میں ان کی بھی شرکت ہوجاۓ بقول امام قشیریؒ: اور چونکہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لیے عورتوں اور بچوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ عیدین کے موقع پر مردوں کے ساتھ عیدگاہ حاضر ہوں تاکہ جماعت مسلمین کی کثرت سے اسلام کے جمال اور شوکت کا اظھار ہو.
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح : 5 / 119 ، الناشر: دار النوادر، دمشق - سوريا
عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 3 /305 ، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت
نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار: 6/ 162 ، الناشر: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - قطر]
عورتیں عیدگاہ میں نہ جائیں:
ابتداء اسلام میں عورتوں کو دین کے بنیادی احکامات، مسائل اور آداب سے روشناس کرنے کے لیے مختلف اجتماعات مثلاً فرض نماز، جمعہ، عیدین وغیرہ میں شرکت کی اجازت تھی۔ جب یہ ضرورت پوری ہوئی اور عورتیں بنیادی مسائل واحکام سے واقف ہو گئیں تو انہیں ان اجتماعات سے روک دیا گیا۔ مندجہ ذیل روایات اس پر شاہد ہیں۔
(1) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ»۔
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آج اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو عورتوں کو مسجد جانے سے ضرور روک دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔
[صحیح البخاری:869 بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى المَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالغَلَسِ، صحیح مسلم:144 بَابُ خُروجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ إِذَا لَمْ يَتَرَتَّبْ عَلَيْهِ فِتْنةٌ، وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً]
(2) عَنِ ابْنِ عُمَرَ «أَنَّهُ كَانَ لَا يُخْرِجُ نِسَاءَهُ فِي الْعِيدَيْنِ»
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بیویاں نماز عیدین کے لیے نہیں جاتی تھیں۔
[مصنف ابن أبي شيبة: مَنْ كَرِهَ خُرُوجَ النِّسَاءِ إِلَى الْعِيدَيْنِ ، حدیث نمبر: 5795]
(3) عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّهُ كَانَ لَا يَدَعُ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِهِ تَخْرُجُ إِلَى فِطْرٍ، وَلَا إِلَى أَضْحَى»۔
ترجمہ:
ہشامؒ بن عروہ اپنے والد عروہؓ بن زبیر بن عوام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی کسی عورت کو عیدالفطر اور عید الاضحی کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں جانے دیتے تھے۔
[مصنف ابن أبي شيبة: مَنْ كَرِهَ خُرُوجَ النِّسَاءِ إِلَى الْعِيدَيْنِ ، حدیث نمبر:5796]
(4) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: «كَانَ الْقَاسِمُ، أَشَدَّ شَيْءٍ عَلَى الْعَوَاتِقِ، لَا يَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى»۔
ترجمہ:
حضرت عبدالرحمن بن قاسمؒ کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رحمہ اللہ نوجوان عورتوں کے بارے میں بہت سخت تھے کہ انہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی میں نہیں جانے دیتے تھے۔
[مصنف ابن أبي شيبة: مَنْ كَرِهَ خُرُوجَ النِّسَاءِ إِلَى الْعِيدَيْنِ ، حدیث نمبر:5797]
(5) عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: «كُرِهَ لِلشَّابَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إِلَى الْعِيدَيْنِ»۔
ترجمہ:
جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نمازوں کے لئے جانا مکروہ ہے۔
[مصنف ابن أبي شيبة: مَنْ كَرِهَ خُرُوجَ النِّسَاءِ إِلَى الْعِيدَيْنِ ، حدیث نمبر:5798]
(9) عن عبد الله بن مسعود قال : (( إنما النساء عورة ، وإن المرأة لتخرج من بيتها وما بها من بأس ، فيستشرفها الشيطان فيقول : إنك لا تمرين بأحد إلا أعجبته ، وأن المرأة لتلبس ثيابها فيقال: أين تريدين ؟ فتقول : أعود مريضاً أو أشهد جنازة أو أصلى في مسجد وما عبدت امرأة ربها مثل أن تعبده في بيتها)).[قال في المجمع (2/35) : (رواه الطبراني في الكبير (9/185) ورجاله ثقات) وذكره المنذري في الترغيب (1/305) وقال : إسناد هذا حسن]
ترجمہ :حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا : عورتیں سراپا پردہ ہیں، عورت گھر سے اس حال میں نکلتی ہے کہ اس کا قلب بےعیب صاف ستھرا ہوتا ہے (لیکن گھر سے نکلتے ہی) شیطان اس کی فکر میں پڑتا ہے اور وہ اس کی نگاہوں میں آجاتی ہے، اور اس کے دل میں ڈالتا ہے تو جس کے پاس سے بھی گزرے گی اسے اچھی لگے گی اور عورت (باہر جانے کے لیے) کپڑا پہنتی ہے تو (گھر والے) پوچھتے ہیں کہ کہاں کا ارادہ ہے تو وہ کہتی ہے کہ بیمار کی عیادت کے لیے جا رہی ہوں یا جنازہ میں جا رہی ہوں یا مسجد میں نماز کو جا رہی ہوں حالانکہ عورت کی سب سے بہتر اور اچھی عبادت یہی ہے کہ وہ (کسی کار_خیر کے لیے باہر جانے کے بجاۓ) اپنے گھر میں الله کی عبادت کرے.
(10) وعن ابن مسعود قال : ((ما صلت امرأة في موضع خير لها من قعر بيتها إلا أن يكون المسجد الحرام أو مسجد النبي صلى الله عليه وسلم إلا امرأة تخرج في منقليها)) . يعني: خفيها.
[قال في المجمع الزوائد (2/34) : ( رواه الطبراني في الكبير (9/293) ورجاله رجال الصحيح )]
* وعنه أيضاً ((أنه كان يحلف فيبلغ في اليمين ما من مصلى للمرأة خير من بيتها إلا في حج أو عمرة إلا امرأة قد يئست من البعولة وهي في منقليها. قلت : ما منقليها ؟ قال : امرأة عجوز قد تقارب طوها)).
[قال في المجمع الزوائد (2/35) :(رواه الطبراني في الكبير (9/293)ورجاله موثقون )]
ترجمہ :(دونوں احادیث کا یہ ہے کہ) حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا : (اور بطور تاکید کے) سخت قسم کھاکر فرماتے تھے کہ عورت کے لیے اس کے گھر کے اندرونی حصہ سے بہتر کوئی جگہ نماز کی نہیں سواۓ (حج و عمرہ میں) مسجد حرام (بیت الله) اور مسجد نبوی صلی الله علیہ وسلم کے لیکن وہ (بوڑھی) عورت جو شوہروں سے ناامید ہوچکی ہو اور اپنے موزے میں ہو. راوی نے پوچھا موزوں سے آپ کی کیا مراد ہے تو فرمایا : کہ ایسی بڑھیا (کہ بڑھاپے کی کمزوری کی وجہ سے) جس کے قدم قریب قریب پڑنے لگیں.
(11) حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ عَيَّاشٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِيَاسٍ الْبَجَلِيِّ ، قَالَ : رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ يُخْرِجُ النِّسَاءَ مِنَ الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، وَيَقُولُ : " اخْرُجْنَ ، فَإِنَّ هَذَا لَيْسَ لَكُنَّ " .
(11) حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ عَيَّاشٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِيَاسٍ الْبَجَلِيِّ ، قَالَ : رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ يُخْرِجُ النِّسَاءَ مِنَ الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، وَيَقُولُ : " اخْرُجْنَ ، فَإِنَّ هَذَا لَيْسَ لَكُنَّ " .
حضرت سعد بن إياس (ابو عمرو الشیبانی) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کو دیکھا کہ جمعہ کے دن عورتوں کو کنکری مارمار کر مسجد سے باہر نکال رہے تھے.
المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم:1/181
خلاصة حكم المحدث: إسناده لا بأس به
المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم:2/38
خلاصة حكم المحدث: رجاله موثقون
اس روایت کی تائید ان ہی کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ((اور ان عورتوں کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں)):
(14) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ " .
المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم:1/181
خلاصة حكم المحدث: إسناده لا بأس به
المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم:2/38
خلاصة حكم المحدث: رجاله موثقون
(12) علامہ بدر الدین عینی رحمہ الله نے حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کا بھی یہ یہی اسوہ اور طرز عمل نقل کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
وكان ابن عمر، رضي الله تعالى عنهما، يقوم يحصب النساء يوم الجمعة يخرجهن مِنَ الْمَسْجِدِ.
[عمدة القاري - العيني - ج ٦ - الصفحة ١٥٧]
ترجمہ :
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ جمعہ کے دن کھڑے عورتوں کو کنکریاں مارمار کر مسجد سے باہر نکال رہے تھے.
(13) عن عبدالله بن عمر عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: صلاة المرة وحدها أفضل على صلواتها في الجمع بخمس و عشرين درجة.
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کا اکیلے نماز پڑھنا اس کی نماز باجماعت پر پچیس (٢٥) گنا فضیلت رکھتی ہے.
[التيسير الشرح الجامع الصغير للمناوي: ٢/١٩٥ ؛ جامع الأحاديث للسيوطي:١٣/٤٩٧، حديث # ١٣٦٢٨، الجامع الصغير مع فتح القدير : ٤/٢٣٣ ورمز المصنف لصحته وفيه بقية بن الوليد وهو صدوق كثير التدليس عن الضعفاء كما في التقريب : ص#١٢٦، ورواه مسلم متابعة](14) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ " .
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اپنی عورتوں کو مساجد آنے سے نہ روکو اور ان کے گھر (اداۓ نماز کے واسطے) ان کے حق میں بہت بہتر ہے.
(15) حَدَّثَنَا خَلَفٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَوْلَا مَا فِي الْبُيُوتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالذُّرِّيَّةِ ، لَأَقَمْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ ، وَأَمَرْتُ فِتْيَانِي يُحْرِقُونَ مَا فِي الْبُيُوتِ بِالنَّارِ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 8597
مسند أبي داود الطيالسي » أَحَادِيثُ النِّسَاءِ » مَا أَسْنَدَ أَبُو هُرَيْرَةَ » وَمَا رَوَى سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي ... رقم الحديث: 2431]
ترجمہ:
تخريج الحديث
|
(15) حَدَّثَنَا خَلَفٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَوْلَا مَا فِي الْبُيُوتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالذُّرِّيَّةِ ، لَأَقَمْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ ، وَأَمَرْتُ فِتْيَانِي يُحْرِقُونَ مَا فِي الْبُيُوتِ بِالنَّارِ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » بَاقِي مُسْنَد المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 8597
مسند أبي داود الطيالسي » أَحَادِيثُ النِّسَاءِ » مَا أَسْنَدَ أَبُو هُرَيْرَةَ » وَمَا رَوَى سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي ... رقم الحديث: 2431]
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں نماز عشاء قائم کرتا، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگادیں۔
المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/205
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
المحدث: أحمد شاكر - المصدر: عمدة التفسير - الصفحة أو الرقم: 1/590
خلاصة حكم المحدث: [أشار في المقدمة إلى صحته]
نوٹ :
المحدث: المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/205
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
المحدث: أحمد شاكر - المصدر: عمدة التفسير - الصفحة أو الرقم: 1/590
خلاصة حكم المحدث: [أشار في المقدمة إلى صحته]
نوٹ :
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں کو جو جماعت عشاء میں حاضر نہ ہوتے تھے، آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا مگر عورتوں، بچوں کا گھروں میں ہونا اس کی تکمیل سے مانع آیا، عورتوں کا اس حدیث میں ذکر فرمانا اس کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں، اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اوراسی سزا کی مستوجب ہوتیں۔
(16) أخرج ابن أبي حاتم عن أم نائلة رضي الله عنها قالت : ((جاء أبو برزة فلم يجد أم ولده في البيت ، وقالوا ذهبت إلى المسجد ، فلما جاءت صاح بها فقال : إن الله نهى النساء أن يخرجن ، وأمرهن يقرن في بيوتهن ، ولا يتبعن جنازة ، ولا يأتين مسجدا ، ولا يشهدن جمعة )).
امام ابن ابی حاتم نے حضرت ام نائلہ سے روایت نقل کی ہے کہ ابو برزہ آۓ اور اپنی ام ولد کو نہ پایا، لوگوں نے بتایا کہ وہ مسجد کی طرف گئی ہوئی ہے، جب وہ واپس آئی تو بلند آواز سے اسے ڈانٹا پھر کہا کہ الله نے عورتوں کو گھروں سے نکلنے سے منع کیا ہے کہ اور انھیں حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھر میں رہیں ، جنازہ کہ ساتھ نہ جائیں ، مسجد میں حاضر نہ ہوں ، اور جمعہ میں بھی حاضر نہ ہوں.
اس روایت کی تائید خود قرآن مجید کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخۡرُجۡنَ[سورۃ الطلاق:١]
ترجمہ :
لَا تُخۡرِجُوۡہُنَّ مِنۡۢ بُیُوۡتِہِنَّ وَ لَا یَخۡرُجۡنَ[سورۃ الطلاق:١]
ترجمہ :
مت نکالو ان کو ان کے گھروں سے اور وہ بھی نہ نکلیں...
(17) حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : لَوْ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمُنِعْنَ الْمَسَاجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حرکات کو دیکھتے جو آج کل کی عورتوں نے ایجاد کرلی ہیں تو ان کو مسجد میں جانے سے روک دیتے، جس طرح کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔
(صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم:869 - صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 445 )
المحدث: العيني - المصدر: عمدة القاري - الصفحة أو الرقم: 6/429
خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم:569
خلاصة حكم المحدث: صحيح
صحبت نبوی سے دوری و جدائی کا یہ اثر حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے بیان سے واضح ہوتا ہے:
ما نقضنا أيدينا عن قبر رسول الله صلي الله عليه وسلم حتى أنكرنا قلوبنا.
ترجمہ :
المحدث: العيني - المصدر: عمدة القاري - الصفحة أو الرقم: 6/429
خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم:569
خلاصة حكم المحدث: صحيح
تخريج الحديث
|
صحبت نبوی سے دوری و جدائی کا یہ اثر حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے بیان سے واضح ہوتا ہے:
ما نقضنا أيدينا عن قبر رسول الله صلي الله عليه وسلم حتى أنكرنا قلوبنا.
ترجمہ :
ہم نے ابھی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو دفن کرکے ہاتھوں سے مٹی بھی نہیں جھاڑی تھی کہ اپنے دلوں کی بدلتی ہوئی کیفیت کو محسوس کیا.
بعض لوگ گرد و پیش سے آنکھیں بند کرکے اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ خیر القرون اور عہد رسالت علی صاحبھا الصلاة والسلام کی طرح آج بھی عورتوں کو مسجد میں جمعہ و جماعت میں شریک ہونا جائز اور اسلامی تقاضے کے مطابق ہے، جبکہ اس دور فتنہ و فساد میں جتنی جنسی انارکی اور شہوانی بےراہ رویکی قدم قدم پر نہ صرف افزائش بلکہ ہمّت افزائی ہو رہی ہے، دین و مذھب اور حیا و مروت کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہیں کوچہ و بازار کا کیا ذکر شرور و فتن کی خود سر موجیں گھروں کی چہار دیواری سے ٹکرانے لگی ہیں، جبکہ احادیث میں آخر دور فتن میں امّت محمدیہ کا اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کی پیروی میں دو جوتوں کی طرح مشابہت اختیار کرتے (بےحیائی کی انتہا میں) ماں سے بدکاری کرنا اور (مقاصد دین کی پابندیوں سے آزادی اختیار کرتے) فرقوں میں بٹ جانا منقول ہے، ایسے فساد انگیز حالات میں بھی خواتین اسلام اور عفت مآب ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں کو گھروں کی چہار دیواری سے باہر نکل کر جمعہ و جماعت کو مسجد میں حاضر ہونے کی عادت اختیار کرنا مقاصد شریعت اور اصول صد ذرائع کے خلاف ہے، اس لیے ان حالات میں شرعاً اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی.
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آج جب کہ مغرب عورتوں کی آزادی سے تنگ آکر اپنی اخلاقی تباہ ہالی پر ماتم کر رہا ہے اور وہاں کے مدبرین اس بےحجابی کے آغوش سے نشو ونما پانے اور پروان چڑھنے والی انسانیت سوز بےحیائی و فحش کاری سے اپنے معاشرے کو بچانے کی تدبیریں سوچ رہے ہیں، اور ہمارے مشرق کے نام نہاد مصلحین نماز و مسجد جیسے مقدس اور باعظمت نام سے مستورات کو بےپردہ کرنے کے درپے ہیں!
[التمهيد، للحافظ ابن عبد البر:3/394 ، مطبوعه 1410 ھہ ؛ ورواه الترمذي في الشمائل:ص27 عن أنس رضي الله عنه ]
بعض لوگ گرد و پیش سے آنکھیں بند کرکے اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ خیر القرون اور عہد رسالت علی صاحبھا الصلاة والسلام کی طرح آج بھی عورتوں کو مسجد میں جمعہ و جماعت میں شریک ہونا جائز اور اسلامی تقاضے کے مطابق ہے، جبکہ اس دور فتنہ و فساد میں جتنی جنسی انارکی اور شہوانی بےراہ رویکی قدم قدم پر نہ صرف افزائش بلکہ ہمّت افزائی ہو رہی ہے، دین و مذھب اور حیا و مروت کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہیں کوچہ و بازار کا کیا ذکر شرور و فتن کی خود سر موجیں گھروں کی چہار دیواری سے ٹکرانے لگی ہیں، جبکہ احادیث میں آخر دور فتن میں امّت محمدیہ کا اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کی پیروی میں دو جوتوں کی طرح مشابہت اختیار کرتے (بےحیائی کی انتہا میں) ماں سے بدکاری کرنا اور (مقاصد دین کی پابندیوں سے آزادی اختیار کرتے) فرقوں میں بٹ جانا منقول ہے، ایسے فساد انگیز حالات میں بھی خواتین اسلام اور عفت مآب ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں کو گھروں کی چہار دیواری سے باہر نکل کر جمعہ و جماعت کو مسجد میں حاضر ہونے کی عادت اختیار کرنا مقاصد شریعت اور اصول صد ذرائع کے خلاف ہے، اس لیے ان حالات میں شرعاً اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی.
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آج جب کہ مغرب عورتوں کی آزادی سے تنگ آکر اپنی اخلاقی تباہ ہالی پر ماتم کر رہا ہے اور وہاں کے مدبرین اس بےحجابی کے آغوش سے نشو ونما پانے اور پروان چڑھنے والی انسانیت سوز بےحیائی و فحش کاری سے اپنے معاشرے کو بچانے کی تدبیریں سوچ رہے ہیں، اور ہمارے مشرق کے نام نہاد مصلحین نماز و مسجد جیسے مقدس اور باعظمت نام سے مستورات کو بےپردہ کرنے کے درپے ہیں!
ان تمام حدیثوں سے صراحةً ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جماعتوں میں حاضر ہونا، محض رخصت واباحت کی بنا پر تھا، کسی تاکید یا فضیلت واستحباب کی بنا پر نہیں، اس رخصت واباحت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشاد، ان کے لیے یہی تھا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور فضیلت بیان فرماتے تھے۔ حدیث نمبر (14) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں کو جو جماعت عشاء میں حاضر نہ ہوتے تھے، آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا مگر عورتوں، بچوں کا گھروں میں ہونا اس کی تکمیل سے مانع آیا، عورتوں کا اس حدیث میں ذکر فرمانا اس کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں، اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اوراسی سزا کی مستوجب ہوتیں۔ اور حدیث نمبر 7-1اور 10 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کی کوٹھری کے اندر کی نماز، دالان کی نماز سے افضل او ردالان کی نماز، صحن کی نماز سے افضل اور صحن کی نماز محلہ کی نماز سے افضل ہے، پس اس میں کیا شبہ رہا کہ عورتوں کو جماعت میں اورمسجد نبوی میں حاضر ہونا کسی استحباب وفضیلت کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ محض مباح تھا۔ پس کس قدر افسوس ہے ان لوگوں کے حال پر جو عورتوں کو مسجد میں بلاتے اورجماعتوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں، اورغضب یہ کہ اسے سنت بتاتے ہیں اوراپنے اس فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں۔ اگر عورتوں کے لیے جماعتوں میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد کی نماز سے مسجد محلہ کی نماز کو اور مسجد محلہ کی نماز سے گھر کی نماز کو افضل کیوں فرماتے؟؟؟ کیوں کہ اس صورت میں گھر میں تنہا نماز پڑھنا عورتوں کے لیے ترک سنت ہوتا تو کیا ترک سنت میں ثواب زیادہ تھا، اور سنت پر عمل کرنے میں ثواب کم؟؟؟ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب دے کر گویا ترک سنت کی ترغیب دیتے تھے؟؟؟ شاید یہ لوگ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ سے زیادہ بزرگ اور اپنی مسجدوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد شریف سے افضل سمجھتے ہیں۔ جن حدیثوں میں خاوندوں کو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کی ممانعت ہے، ان حدیثوں سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کو مسجد میں جانا، مستحب یا سنت موٴکدہ ہے، عورتوں کو چونکہ آپ کے زمانہ میں مسجدوں میں جانا مباح تھا، تو اس اباحت ورخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق انھیں حاصل تھا؛ اس لیے مردوں کو ان کے روکنے سے منع فرمایا کہ ان کا یہ حق زائل نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس وقت عورتوں کے مسجد میں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو تعلیم کی بہت حاجت تھی، اور اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مسجد میں حاضر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال نماز کو دیکھیں اور سیکھیں۔ کوئی بات پوچھنی ہو تو خود پوچھ لیں۔ تیسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک زمانہ فتنہ وفساد سے مامون تھا۔ وغیرہ وغیرہ
پس ان حدیثوں سے عورتوں کے لیے جماعتوں کی حاضری کا سنت یا مستحب ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔
مساجد میں عورتوں کی حاضری کا جواز کب اور کیسے؟؟؟
1) بلا ضرورت اور بلا پردہ اورخوشبو لگاکر گھر سے باہر نہ نکلنا:
القرآن : وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجٰهِلِيَّةِ الأولىٰ ... [الاحزاب:٣٣]
ترجمہ : اور (ٹک کر) قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھلاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھلانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں...
امام ابن کثیر رح اس آیت کی تفسیر کرتے ہوۓ یہ احادیث لکھتے ہیں:هذه آداب أمر الله تعالى بها نساء النبي صلى الله عليه وسلم ونساءُ الأمة تبع لهن في ذلك ..... { وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ } أي: إلزمن بيوتكن، فلا تخرجن لغير حاجة، ومن الحوائج الشرعية الصلاة في المسجد بشرطه؛ كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " لا تمنعوا إِماء الله مساجد الله، وليخرجن وهن تفلات " وفي رواية: " وبيوتهن خير لهن " وقال الحافظ أبو بكر البزار: حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا أبو رجاء الكلبي روح بن المسيب ثقة، حدثنا ثابت البناني عن أنس رضي الله عنه قال: جئن النساء إِلى رسول الله، فقلن: يارسول الله ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله تعالى، فما لنا عمل ندرك به عمل المجاهدين في سبيل الله تعالى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " من قعدت ــــ أو كلمة نحوها ــــ منكن في بيتها، فإِنها تدرك عمل المجاهدين في سبيل الله تعالى " .... وقال البزار أيضاً: حدثنا محمد بن المثنى، حدثني عمرو بن عاصم، حدثنا همام عن قتادة عن مورّق عن أبي الأحوص عن عبد الله رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إِن المرأة عورة، فإِذا خرجت، استشرفها الشيطان، وأقرب ما تكون بروحة ربها، وهي في قعر بيتها ".[تفسير القرآن الكريم/ ابن كثير (ت 774 هـ)]
ترجمہ : یہ چند آداب ہیں جن کا الله تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عورتوں کو اور امت کی عورتیں تابع ہیں ان کی ان احکام میں کہ ((وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ)) یعنی اپنے گھروں سے چمٹی رہو بلا ضرورت (بشری یا شرعی) باہر نہ نکلو اور شرعی ضرورتوں میں سے ایک (یہ ہے کہ) شرائط مقررہ کی پابندی کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنا بھی ہے جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : الله کی بندیوں کو الله کی مسجدوں سے نہ روکو، اور وہ نکلیں تو خوشبو نہ لگاۓ ہوۓ ہوں.{سنن أبي داود:477} ایک روایت میں (یہ زیادتی ہے) اور نماز پڑھنے کے لیے ان کے گھر ہی ان کے لیے بہتر ہیں.{سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسْجِدِ ... رقم الحديث: 479}
اور حافظ ابو بکر بزار نے حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ کچھ عورتیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! مرد تو فضل و جہاد کو لے اڑے لہذا ہمیں بھی کوئی ایسا کام بتایا جاۓ جس سے ہم جہاد کے ثواب کو پالیں؟ آپ نے فرمایا : تم میں سے جو اپنے گھر میں جمی بیٹھی رہے (یا اسی کے ہم معنا کوئی کلمہ فرمایا) اسے راہ خدا میں جہاد کا ثواب حاصل ہوجاۓ گا.{البحر الزخار بمسند البزار 10-13 » بَقِيَّةُ مُسْنَدِ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ » مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ ... رقم الحديث: 2463}
اور حافظ بزار حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : عورت سراپا پردہ ہے (اور وہ جب اپنے آپ کو بے پردہ کرکے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک میں لگ جاتا ہے اور عورت اپنے رب کی رحمت اور مہربانی سے سب سے قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے.{البحر الزخار مسند البزار » السادس عشر وهو الثاني من حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ » مُوَرِّقٌ الْعِجْلِيُّ عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ عَنْ ... رقم الحديث: 1840}
امام سیوطی رح اس آیت کی تفسیر کرتے ہوۓ یہ حدیث لکھتے ہیں:
أخرج ابن أبي شيبة عن عمر رضي الله عنه قال : ((استعينوا على النساء بالعري ، إن إحداهن إذا كثرت ثيابها، وحسنت زينتها أعجبها الخروج )).[رواه ابن أبي شيبة (4/53) وإسناده صحيح، الدر المنثور (6/600)]
ترجمہ : امام ابن ابی حاتم نے حضرت عمر رضی الله سے روایت نقل کی ہے کہ: مدد لو عورتوں کے بارے میں کم لباس سے، ان میں سے جب کسی کے کپڑے زیادہ ہوتے ہیں اور ان کی زینت زیادہ ہوتی ہے تو اسے باہر نکلنا اچھا لگتا ہے.
2) مرد کی اجازت:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَالِمًا ، يَقُولُ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِذَا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ إِلَى الْمَسَاجِدِ ، فَأْذَنُوا لَهُنّ " .
ترجمہ : حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا کہ جب تم میں سے تمہاری عورتیں مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو.
تخريج الحديث
|
ان ہی سے مروی بعض احادیث میں ہر نماز کے بجاۓ خصوصاً ((رات کی نماز)) کے متعلق اجازت لینا مروی ہے:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ حَنْظَلَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِذَا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسْجِدِ فَأْذَنُوا لَهُنَّ ".[صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ ... رقم الحديث: 821]
ترجمہ :حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جب تم میں سے تمہاری عورتیں رات میں (جو نسبتاً ستر اور پوشیدگی کا وقت ہے) مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو.
تخريج الحديث
|
قال الكرماني فيه الدليل إن النهار يخالف الليل لنصه على الليل، وحديث ((لم تمنعوا إماء الله مساجد الله)) محمول على الليل أيضا، وفيه ينبغي أن يأذن لها ولا يمنعها مما فيه منفعتها وذلك إذا لم يخف الفتنة عليها ولا بها وقد كان هو إلا غلب في ذالك الزمان.[بخاري:١/١١٩، حاشیہ:١٢]
ترجمہ : اس حدیث میں لیل (رات) کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ دن کا حکم رات کے برخلاف ہے (یعنی دن کو یہ اجازت نہیں ہوگی)، اور حدیث ((نہ روکو الله کی بندیوں کو الله کی مسجدوں (میں آنے) کو)) اس میں بھی رات کی قید ملحوظ ہوگی یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کر رہی ہے کہ عورتوں کو ان امور سے نہ روکا جاۓ جن میں ان کا نفع ہو بشرطیکہ ہر طرح سے فتنہ و فساد سے امن ہو اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں امن و صلاح ہی کا غلبہ تھا.
علامہ بدر الدین عینی رح بھی اپنے الفاظ میں بعینہ یہی بات لکھی ہے:
بخلاف زماننا هذا فإن الفساد فيه فاش والمفسدون كثيرون وحديث عائشة رضي الله تعالى عنها الذي يأتي يدل على هذا.[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:9/477 لملتقى أهل الحديث، 6/157 مطبوعہ المکتبہ الرشید پاکستان 1402ھہ]
ترجمہ : یعنی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں جو صلاح و خیر اور امن و امان کے غلبہ کا دور تھا، رات کی تاریکی میں عورتوں کو مسجد آنے کے اجازت تھی، برخلاف ہمارے زمانہ کے جب کہ فساد و بگاڑ کا دور دورہ اور مفسدین کی کثرت ہے (یہ اجازت بھی نہیں رہی) جس پر حضرت عائشہ کی حدیث (دیکھیے:حدیث#7) دلالت کر رہی ہے.
امام بخاری رح نے "باب هل على من لم يشهد الجمعة غسل من النساء والصبيان وغيرهم" میں اسی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ عورتوں پر جمعہ واجب نہیں کیونکہ اس حدیث کی رو سے انھیں رات میں مسجد آنے کی اجازت ہے دن میں نہیں اور نماز جمعہ دن میں ادا کی جاتی ہے تو معلوم ہوا کہ جمعہ ان پر فرض نہیں ورنہ انھیں دن میں آنے سے نہ روکا جاتا.[بخاري:١/١٢٣، حاشیہ:٤]
شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رح کی عبارت سے بھی یہی صاف ظاہر طور پر یہی معلوم ہورہا ہے کہ امام بخاری کے نزدیک یہ عورتوں کو یہ اجازت رات کے ساتھ مقید تھی. حوالہ:
قال الإسماعيلي : أورد البخاري حديث مجاهد عن ابن عمر بلفظ ائذنوا للنساء بالليل إلى المساجد وأراد بذلك أن الإذن إنما وقع لهن بالليل فلا تدخل فيه الجمعة . قال : ورواية أبي أسامة التي أوردها بعد ذلك تدل على خلاف ذلك ، يعني قوله فيها لا تمنعوا إماء الله مساجد اللهانتهى . والذي يظهر أنه جنح إلى أن هذا المطلق يحمل على ذلك المقيد . والله أعلم . [فتح الباري شرح صحيح البخاري » كتاب الجمعة » باب هل على من لم يشهد الجمعة غسل من النساء والصبيان وغيرهم ... 2/487]
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ " .[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسْجِدِ ... رقم الحديث: 479]
ترجمہ : حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اپنی عورتوں کو مساجد آنے سے نہ روکو اور ان کے گھر (اداۓ نماز کے واسطے) ان کے حق میں بہت بہتر ہے.
تخريج الحديث
|
عورتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جماعتوں میں حاضر ہونا، محض رخصت واباحت کی بنا پر تھا، کسی تاکید یا فضیلت واستحباب کی بنا پر نہیں، اس رخصت واباحت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشاد، ان کے لیے یہی تھا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور فضیلت بیان فرماتے تھے۔
شرائط کی پابندی کرنے والی عورتوں کو مسجد سے روکنا مکروہ تنزیہی ہے:
مشہور شارح حدیث امام نووی رح اپنی شرح مسلم میں فرماتے ہیں:هَذَا وَشَبَهُهُ مِنْ أَحَادِيثِ الْبَابِ ظَاهِرٌ فِي أَنَّهَا لَا تُمْنَعُ مِنْ الْمَسْجِدِ لَكِنْ بِشُرُوطٍ ذَكَرَهَا الْعُلَمَاء مَأْخُوذَةٍ مِنْ الْأَحَادِيثِ وَهِيَ أَنْ لَا تَكُونَ مُتَطَيِّبَةً وَلَا مُتَزَيِّنَةً ذَاتَ خَلَاخِل يُسْمَعُ صَوْتُهَا وَلَا ثِيَابًا فَاخِرَةً وَلَا مُخْتَلِطَةً بِالرِّجَالِ وَلَا شَابَّةً وَنَحْوَهَا مِمَّنْ يُفْتَتَنُ بِهَا وَأَنْ لَا يَكُونَ بِالطَّرِيقِ مَا يُخَافُ بِهِ مَفْسَدَةٌ وَنَحْوُهَا وَهَذَا النَّهْيُ عَنْ مَنْعِهِنَّ مِنْ الْخُرُوجِ مَحْمُولٌ عَلَى كَرَاهَةِ التَّنْزِيهِ [صحیح مسلم مع شرح النووی: 1/183]
ترجمہ : یہ (حدیث) اور اس باب سے متعلق اسی معنا کی دوسری احادیث کا ظاہری مفاد یہی ہے کہ عورتوں کو مطلق (بلکل / ہرصورت) مسجد میں آنے سے روکا نہ جاۓ، لیکن علماۓ دین نے اس خروج کے لیے کچھ شرطیں بیان کی ہیں جو احادیث سے اخذ کی گئی ہیں وہ شرطیں یہ ہیں کہ (گھر سے نکلنے کے وقت) خوشبو لگاۓ ہوۓ نہ ہو، بنی سنوری نہ ہو، بجتے ہوۓ پازیب پہنے ہوۓ نہ ہو، دلکش و جاذب نظر کڑے زیب تن نہ ہوں، (راستے اور مسجد میں) مردوں کے ساتھ اختلاط (میل جول) نہ ہو، جوان نہ ہو، اور نہ ایسی ہو کہ جوانوں کی طرح اس سے فتنہ کا اندیشہ ہو، اور (مسجد آنے کا راستہ بھی) فتنہ و فساد وغیرہ سے مامون ہو اور عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکنے کے متعلق حدیث میں وارد نہی (ممانعت) کراہیت تنزیہی پر محمول کی گئی ہے.
یعنی ان تمام مذکورہ شرطوں کی پابندی کرتے ہوۓ اگر کوئی عورت مسجد آۓ تو اس صورت میں اسے روکنا شرعاً مکروہ تنزیہی ہوگا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس شرائط کے ساتھ عورتوں کی مسجد میں حاضری صرف جائز و مباح ہے سنّت یا واجب نہیں، ورنہ انھیں مسجود آنے سے روکنا مکروہ تنزیہی کے بجاۓ مکروہ تحریمی یا حرام ہوتا. اور نہ اس حاضری کے لیے انھیں اپنے شوہروں اور سرپرستوں سے اجازت لینی پڑتی، چنانچہ حافظ (الحدیث) ابن حجر عسقلانی رح (صحیح بخاری کی شرح کرتے) لکھتے ہیں:
وفيه إشارة إلى أن الإذن المذكور لغير الوجوب ؛ لأنه لو كان واجبا لانتفى معنى الاستئذان ، لأن ذلك إنما يتحقق إذا كان المستأذن مخيرا في الإجابة أو الرد .
ترجمہ :
اور حدیث میں مذکور اجازت دینے کا حکم اس بات کو بتارہا ہے کہ اجازت امر(حکم) غیر واجب کے لیے ہے اس لیے کہ مسجدوں کی حاضری اگر عورتوں پر واجب ہوتی تو اجازت لینے کا سوال ہی نہیں، کیونکہ اجازت ایسے موقع پر لی جاتی ہے جہاں مستاذن (جس سے اجازت لی جاۓ) کو اجازت دینے یا نہ دینے کا اختیار ہو(اور کسی امر واجب سے روکنے کا کسی کو اختیار نہیں)
[فتح الباري شرح صحيح البخاري » أبواب صفة الصلاة » باب خروج النساء إلى المساجد بالليل والغلس: 1/405]
ضروری وضاحت : لا ریب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں یہ نہیں فرمایا کہ عورتوں کو کسی حال میں گھر سے مت نکلنے دو. لیکن اس نکلنے پر جو کچھ قیود و شرطیں عائد کی ہیں، ان سب کے بعد بھی جس طرح صاف اور واضح لفظوں میں بار بار عورتوں کو گھر میں نماز ادا کرنے کی جانب متوجہ کیا رغبت دلائی اور جس کثرت سے اپنی مرضی مبارک کا ارشاد فرمایا ان کا سرسری مطالعہ بھی ایک صاحب_ایمان کے دل میں یہ یقین پیدا کرنے کے لیے کافی ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تائید و حمایت اس گروہ کے ساتھ نہیں ہے جو مستورات کو گھر سے باہر نکلنے کی دعوت و ترغیت دے رہے ہیں اور اپنی کم فہمی و گمراہی کے سبب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے خلاف_منشا عمل کو "سنّت" ٹھہرا رہے ہیں. ذرا غور تو کیجئے اگر عورتوں کے لیے جماعت کی حاضری سنّت ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم جماعت ترک کرکے گھروں میں نماز پڑھنے کو افضل و بہتر کیونکر فرماتے؟؟؟ اور اس کی ترغیب کیوں دیتے؟؟؟ جبکہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ جماعت میں نہ ہونے والوں پر اس درجہ سخت ناراض ہوۓ کہ اپنی تمام تر صفت_رحمت و شفقت کے باوجود انھیں مع (ساتھ) ان کے گھروں کے جلانے کی دھمکی دی؟؟؟ سچی بات تو یہی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ایک ایک لفظ اور ہر ہر فقرہ سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ خواتین_اسلام کو ان ساری شرطوں کی رعایت کے باوجود آپ گو زبان_مبارک سے صاف طور سے روک تو نہیں رہے مگر یہ ضرور "چاہتے" ہیں کہ خود مستورات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی و منشا سے واقف ہوکر باہر نکلنے اور جماعت میں حاضر ہونے سے رک جائیں.
مسند ہند شاہ ولی الله محدث دہلوی قدس سرہ نے اس سلسلہ میں بری دلکش بات کہی ہے وہ لکھتے ہیں:
ولا اختلاف بين قوله صلى الله عليه و سلم إذا استأذنت امرأة أحدكم إلى المسجد فلا يمنعها وبين ما حكم به جمهور الصحابة من منعهن إذ المنهي عنه الغيرة التي تنبعث من الأنفة دون خوف الفتنة والجائز ما فيه خوف الفتنة ، وذلك قوله صلي الله عليه وسلم : الغيرة غيرتان ... [الحجة الله البالغه : 3/60]
ترجمہ : اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں کہ "جب تم میں سے کسی کی عورت مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے نہ روکو"، اور جمہور صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جو عورتوں کو اس سے روکا، تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جس روکنے کو منع فرمایا ہے یہ وہ رکاوٹ ہے جو اس غیرت کی وجہ سے ہو جس کا سرچشمہ کبرو نخوت ہے نہ کہ فتنہ و ابتلاۓ معصیت کا اندیشہ (اور جمہور صحابہ کرام نے اپنے زمانہ میں جو عورتوں کو مسجد سے روکا) تو وہ اس جائز غیرت کی وجہ سے جو خوف و فتنہ کی بناء پر تھی چنانچہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا یہی فرمان ہے کہ (یعنی غیرت کی دو قسم ہیں، ان میں کی ایک الله تعالیٰ کو پسند ہے اور دوسری الله تعالیٰ کے نزدیک مبغوض اور ناپسندیدہ ہے، پسندیدہ وہ غیرت ہے جو موقع تہمت اور خوف_فتنہ و معصیت کی وجہ سے ہو اور ناپسندیدہ وہ غیرت ہے جو کبر و نخوت کی بناء پر ہو[اعتلال القلوب للخرائطي » بَابُ ذِكْرِ الْغَيْرَةِ عَلَى النِّسَاءِ ... رقم الحديث: 704]).
المحدث: الألباني - المصدر: إرواء الغليل - الصفحة أو الرقم: 1999
خلاصة حكم المحدث: حسن
یہی بات غیر مقلد عالم صدیق حسن خان بھی لکھتے ہیں.[دیکھے : الروضة الندية:1/327]
صحابہ کرام پر اعتراض یا قرآن و سنّت پر اعتراض :
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو ان صحابہ کے لیے یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان لوگوں جیسے ایمان لائیں[البقرہ:١٣ ، ١٣٧]
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان مہاجر و انصار صحابہ کے ساتھ ان کی اتباع (پیروی) کرنے والوں پر بھی اپنی رضا اور جنّت میں داخلہ جیسی عظیم کامیابی حاصل ہوگی[التوبہ:١٠٠] ؟؟؟
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو تعلیم دیتا ہے کہ ان مومنین کے راستہ کی مخالفت بھی جہنم لے جائیگی[النساء:١١٥]
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کی دینی فقہ [التوبہ:١٢٢] یعنی سمجھ (عذاب سے) بچنے کا ذریعہ ہے؟؟؟
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو اپنے نبی کے ذریعے ان صحابہ کے لیے یہ تعلیم دیتا ہے کہ: تم لوگوں میں بہتر میرے زمانے کے لوگ (صحابہ) ہیں پھر جو ان کے بعد والے (تابعین) ہیں پھر ان کے بعد والے (تبع تابعین) ہیں پھر ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے ۔
[صحيح البخاري » كِتَاب الشَّهَادَاتِ » بَاب لَا يَشْهَدُ عَلَى شَهَادَةِ جَوْرٍ إِذَا أُشْهِدَ ... رقم الحديث: 2471]
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو اپنے نبی کے ذریعے ان صحابہ کے لیے یہ تعلیم دیتا ہے کہ: بیشک میرے صحابہ کو الله تعالیٰ نے سارے جہاں والوں میں سے پسند فرمایا ہے سواۓ انبیاء اور رسولوں کے، اور پسند کیا میرے لئے میرے صحابہ میں سے چار کو ، (جو) ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضوان الله علیھم (ہیں)، بس بنادیا ان کو میرے ساتھی ؛
[رواہ البزار، رجالہ ثقات ؛ مجمع الزوائد: ج ١٠ / ص ١٦]
لہذا! صحابہ کے متعلق اپنا نظریہ درست کیجیے، کیونکہ الله علیم وخبیر تو غلطی و بھول سے پاک ہے لیکن ہم اور ہماری عقل نہیں.
حافظ ابن حجر عسقلانی رح مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں لکھتے ہیں:
قال ابن دقيق العيد : هذا الحديث عام في النساء ، إلا أن الفقهاء خصوه بشروط : منها أن لا تتطيب ، وهو في بعض الروايات وليخرجن تفلات ..... قال : ويلحق بالطيب ما في معناه لأن سبب المنع منه ما فيه من تحريك داعية الشهوة كحسن الملبس والحلي الذي يظهر والزينة الفاخرة وكذا الاختلاط بالرجال _____ وقد ورد في بعض طرق هذا الحديث وغيره ما يدل على أن صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في المسجد ، وذلك في رواية حبيب بن أبي ثابت عن ابن عمر بلفظ لا تمنعوا نساءكم المساجد ، وبيوتهن خير لهنأخرجه أبو داود وصححه ابن خزيمة ...... ووجه كون صلاتها في الإخفاء أفضل تحقق الأمن فيه من الفتنة ، ويتأكد ذلك بعد وجود ما أحدث النساء من التبرج والزينة ، ومن ثم قالت عائشة ما قالت.[فتح الباري شرح صحيح البخاري» أبواب صفة الصلاة » باب خروج النساء إلى المساجد بالليل والغلس ... 1/408]
ترجمہ : حافظ ابو الفتح ابن دقیق العيد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تمام عورتوں کے حق میں (بظاھر) عام ہے مگر فقہاۓ اسلام نے اس عموم کو شرطوں کے ساتھ خاص کردیا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ (مسجد میں حاضر ہونے والی عورت) خوشبو سے معطر نہ ہو، یہ شرط بعض احادیث میں [یعنی گھروں سے بغیر خوشبو کے استعمالی کپڑوں کی بو کے ساتھ نکلیں (مسند أحمد بن حنبل:9431، صحيح ابن حبان:2253 ، التاريخ الكبير للبخاري:695)] کے الفاظ کے ساتھ مصرح ہے ..... اور یہی حکم ہر اس چیز کا ہوگا جس میں اندر خوشبو کی طرح تحریک_شہوت کی صفت پائی جاۓ کیونکہ (گھر سے نکلنے کے وقت) خوشبو استعمال کرنے کی ممانعت کا سبب یہی ہے کہ اس سے جذبہ شہوت میں تحریک اور بیداری پیدا ہوجاتی ہے (لہذا ہر وہ حالت جو اس جذبہ کی تحریک کا سبب بنے وہ بھی استعمال خوشبو کی طرح ممنوع ہوگی) جیسے خوبصورت کپڑے، نمایاں زیورات، قابل ذکر آرائش، اور اسی طرح مردوں کے ساتھ خلط ملط (میل جول) ہونا _____ پھر اس حدیث کے بعض سندوں میں اور اس کے علاوہ دیگر احادیث میں وہ الفاظ آتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا اپنے گھر میں نماز ادا کرنا مسجد میں ادا کرنے سے افضل و بہتر ہے، جیسے حبیب بن ابی ثابت عن ابن عمر کی روایت میں ہے کہ [اپنی عورتوں کو مساجد آنے سے نہ روکو اور ان کے گھر (اداۓ نماز کے واسطے) ان کے حق میں بہت بہتر ہے(سنن أبي داود:479)] اس حدیث کو امام ابو داود نے نقل کیا ہے اور امام ابن خزیمہ نے اسے صحیح بتایا ہے ..... زیادہ سے زیادہ پوشیدگی اور پردے کی حالت میں عورتوں کی نماز افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس حالت میں فتنہ سے پوری طرح امن و حفاظت حاصل ہوجاتی ہے اور عورتوں میں (بلا لحاظ حکم شریعت) آرائش جمال اور مردوں کے سامنے جلوہ آرائی کی رسم بد پیدا ہوجانے کے بعد اس کے لیے مسجد کی حاضری کے بجاۓ گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم مزید مؤکّد ہوجاتا ہے (اس لیے ان حالات میں اس کی حاضری کے متعلق حکم سابق باقی نہیں رہ سکتا) حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنے ارشاد (دیکھئے:حدیث#7) میں اسی تبدیلی حالات سے تبدیلی حکم کی بات کہی ہے.
شارحین_حدیث کی ان تشریحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی حیات میں چونکہ چند شرطوں کی پابندی کے ساتھ مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی اجازت تھی اور اس وقت بھی ان کے لیے اپنے گھر میں نماز ادا کرنا ہی افضل و بہتر تھا.
مشہور غیر مقلد عالم و محدث مولانا عبد الرحمٰن مبارکپوری نے بھی امام نووی شارح_مسلم اور امام ابن حجر عسقلانی کی مذکورہ بالا عبارت شرح ترمذی میں نقل کی ہے اور صراحت کے ساتھ یہ بات لکھی ہے کہ:
أن صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في المسجد [تحفة الأحوذي شرح سنن الترمذي » أبواب السفر » باب ما جاء في خروج النساء إلى المساجد ... 3/143، مطبوعہ المکتبہ التجاریہ مصطفیٰ احمد الباز1415 ھہ]
ترجمہ : عورت کی نماز اپنے گھر میں اس کی مسجد کی نماز سے افضل ہے.
قال ابن دقيق العيد : هذا الحديث عام في النساء ، إلا أن الفقهاء خصوه بشروط : منها أن لا تتطيب ، وهو في بعض الروايات وليخرجن تفلات ..... قال : ويلحق بالطيب ما في معناه لأن سبب المنع منه ما فيه من تحريك داعية الشهوة كحسن الملبس والحلي الذي يظهر والزينة الفاخرة وكذا الاختلاط بالرجال _____ وقد ورد في بعض طرق هذا الحديث وغيره ما يدل على أن صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في المسجد ، وذلك في رواية حبيب بن أبي ثابت عن ابن عمر بلفظ لا تمنعوا نساءكم المساجد ، وبيوتهن خير لهنأخرجه أبو داود وصححه ابن خزيمة ...... ووجه كون صلاتها في الإخفاء أفضل تحقق الأمن فيه من الفتنة ، ويتأكد ذلك بعد وجود ما أحدث النساء من التبرج والزينة ، ومن ثم قالت عائشة ما قالت.[فتح الباري شرح صحيح البخاري» أبواب صفة الصلاة » باب خروج النساء إلى المساجد بالليل والغلس ... 1/408]
ترجمہ : حافظ ابو الفتح ابن دقیق العيد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تمام عورتوں کے حق میں (بظاھر) عام ہے مگر فقہاۓ اسلام نے اس عموم کو شرطوں کے ساتھ خاص کردیا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ (مسجد میں حاضر ہونے والی عورت) خوشبو سے معطر نہ ہو، یہ شرط بعض احادیث میں [یعنی گھروں سے بغیر خوشبو کے استعمالی کپڑوں کی بو کے ساتھ نکلیں (مسند أحمد بن حنبل:9431، صحيح ابن حبان:2253 ، التاريخ الكبير للبخاري:695)] کے الفاظ کے ساتھ مصرح ہے ..... اور یہی حکم ہر اس چیز کا ہوگا جس میں اندر خوشبو کی طرح تحریک_شہوت کی صفت پائی جاۓ کیونکہ (گھر سے نکلنے کے وقت) خوشبو استعمال کرنے کی ممانعت کا سبب یہی ہے کہ اس سے جذبہ شہوت میں تحریک اور بیداری پیدا ہوجاتی ہے (لہذا ہر وہ حالت جو اس جذبہ کی تحریک کا سبب بنے وہ بھی استعمال خوشبو کی طرح ممنوع ہوگی) جیسے خوبصورت کپڑے، نمایاں زیورات، قابل ذکر آرائش، اور اسی طرح مردوں کے ساتھ خلط ملط (میل جول) ہونا _____ پھر اس حدیث کے بعض سندوں میں اور اس کے علاوہ دیگر احادیث میں وہ الفاظ آتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا اپنے گھر میں نماز ادا کرنا مسجد میں ادا کرنے سے افضل و بہتر ہے، جیسے حبیب بن ابی ثابت عن ابن عمر کی روایت میں ہے کہ [اپنی عورتوں کو مساجد آنے سے نہ روکو اور ان کے گھر (اداۓ نماز کے واسطے) ان کے حق میں بہت بہتر ہے(سنن أبي داود:479)] اس حدیث کو امام ابو داود نے نقل کیا ہے اور امام ابن خزیمہ نے اسے صحیح بتایا ہے ..... زیادہ سے زیادہ پوشیدگی اور پردے کی حالت میں عورتوں کی نماز افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس حالت میں فتنہ سے پوری طرح امن و حفاظت حاصل ہوجاتی ہے اور عورتوں میں (بلا لحاظ حکم شریعت) آرائش جمال اور مردوں کے سامنے جلوہ آرائی کی رسم بد پیدا ہوجانے کے بعد اس کے لیے مسجد کی حاضری کے بجاۓ گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم مزید مؤکّد ہوجاتا ہے (اس لیے ان حالات میں اس کی حاضری کے متعلق حکم سابق باقی نہیں رہ سکتا) حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنے ارشاد (دیکھئے:حدیث#7) میں اسی تبدیلی حالات سے تبدیلی حکم کی بات کہی ہے.
أن صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في المسجد [تحفة الأحوذي شرح سنن الترمذي » أبواب السفر » باب ما جاء في خروج النساء إلى المساجد ... 3/143، مطبوعہ المکتبہ التجاریہ مصطفیٰ احمد الباز1415 ھہ]
ترجمہ : عورت کی نماز اپنے گھر میں اس کی مسجد کی نماز سے افضل ہے.
ولا اختلاف بين قوله صلى الله عليه و سلم إذا استأذنت امرأة أحدكم إلى المسجد فلا يمنعها وبين ما حكم به جمهور الصحابة من منعهن إذ المنهي عنه الغيرة التي تنبعث من الأنفة دون خوف الفتنة والجائز ما فيه خوف الفتنة ، وذلك قوله صلي الله عليه وسلم : الغيرة غيرتان ... [الحجة الله البالغه : 3/60]
ترجمہ : اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں کہ "جب تم میں سے کسی کی عورت مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے نہ روکو"، اور جمہور صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جو عورتوں کو اس سے روکا، تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جس روکنے کو منع فرمایا ہے یہ وہ رکاوٹ ہے جو اس غیرت کی وجہ سے ہو جس کا سرچشمہ کبرو نخوت ہے نہ کہ فتنہ و ابتلاۓ معصیت کا اندیشہ (اور جمہور صحابہ کرام نے اپنے زمانہ میں جو عورتوں کو مسجد سے روکا) تو وہ اس جائز غیرت کی وجہ سے جو خوف و فتنہ کی بناء پر تھی چنانچہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا یہی فرمان ہے کہ (یعنی غیرت کی دو قسم ہیں، ان میں کی ایک الله تعالیٰ کو پسند ہے اور دوسری الله تعالیٰ کے نزدیک مبغوض اور ناپسندیدہ ہے، پسندیدہ وہ غیرت ہے جو موقع تہمت اور خوف_فتنہ و معصیت کی وجہ سے ہو اور ناپسندیدہ وہ غیرت ہے جو کبر و نخوت کی بناء پر ہو[اعتلال القلوب للخرائطي » بَابُ ذِكْرِ الْغَيْرَةِ عَلَى النِّسَاءِ ... رقم الحديث: 704]).
المحدث: الألباني - المصدر: إرواء الغليل - الصفحة أو الرقم: 1999
خلاصة حكم المحدث: حسن
الشواهد
|
یہی بات غیر مقلد عالم صدیق حسن خان بھی لکھتے ہیں.[دیکھے : الروضة الندية:1/327]
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو ان صحابہ کے لیے یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان لوگوں جیسے ایمان لائیں[البقرہ:١٣ ، ١٣٧]
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان مہاجر و انصار صحابہ کے ساتھ ان کی اتباع (پیروی) کرنے والوں پر بھی اپنی رضا اور جنّت میں داخلہ جیسی عظیم کامیابی حاصل ہوگی[التوبہ:١٠٠] ؟؟؟
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو تعلیم دیتا ہے کہ ان مومنین کے راستہ کی مخالفت بھی جہنم لے جائیگی[النساء:١١٥]
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کی دینی فقہ [التوبہ:١٢٢] یعنی سمجھ (عذاب سے) بچنے کا ذریعہ ہے؟؟؟
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو اپنے نبی کے ذریعے ان صحابہ کے لیے یہ تعلیم دیتا ہے کہ: تم لوگوں میں بہتر میرے زمانے کے لوگ (صحابہ) ہیں پھر جو ان کے بعد والے (تابعین) ہیں پھر ان کے بعد والے (تبع تابعین) ہیں پھر ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے ۔
[صحيح البخاري » كِتَاب الشَّهَادَاتِ » بَاب لَا يَشْهَدُ عَلَى شَهَادَةِ جَوْرٍ إِذَا أُشْهِدَ ... رقم الحديث: 2471]
کیوں عالم الغیب الله مومنوں کو اپنے نبی کے ذریعے ان صحابہ کے لیے یہ تعلیم دیتا ہے کہ: بیشک میرے صحابہ کو الله تعالیٰ نے سارے جہاں والوں میں سے پسند فرمایا ہے سواۓ انبیاء اور رسولوں کے، اور پسند کیا میرے لئے میرے صحابہ میں سے چار کو ، (جو) ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضوان الله علیھم (ہیں)، بس بنادیا ان کو میرے ساتھی ؛
[رواہ البزار، رجالہ ثقات ؛ مجمع الزوائد: ج ١٠ / ص ١٦]
لہذا! صحابہ کے متعلق اپنا نظریہ درست کیجیے، کیونکہ الله علیم وخبیر تو غلطی و بھول سے پاک ہے لیکن ہم اور ہماری عقل نہیں.
عورت کا اعتکاف اس کے گھروالی مسجد میں:
حافظ (الحدیث) ابن عبد البر المالکی (368ھ ۔ 463ھ) لکھتے ہیں:
ولم يختلفوا أن صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في المسجد ، فكذلك الاعتكاف .
[التمهيد: 11/196 ؛ كتاب الاستذكار » كتاب الاعتكاف » باب قضاء الاعتكاف » حديث عائشة في اعتكاف رسول الله عشرا من شوال... 10/309، 14983]
ترجمہ : اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ عورت کی گھر میں نماز مسجد میں نماز سے افضل و بہتر ہے.پس اسی طرح اعتکاف بھی.
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عورت کی مسجد اس کا گھر (مخصوص جگہ) ہے تو اللہ رب العزت نے بھی مسجد میں اعتکاف کرنے کا ذکر فرمایا وانتم عاکفون فی المساجد اسی وجہ سے مرد مسجد عرفی میں اور عورت اپنے گھر والی مسجد میں ہی اعتکاف کرے لیکن آج کے اس دور میں عورتوں کو اصل تعلیمات اسلامیہ سے ہٹاکرنام نہاد اسلام کے ’’شیوخ ‘‘نے عورتوں کو مردوں کی ہم نشینی میں کھلے آسمان تلے اعتکاف کروا کے مزید اس بدعت اور اخلاق باختگی کو فروغ دیااوراپنے اس عمل یعنی مسجد میں عورت کے اعتکاف کوقرآن وحدیث سے ثابت کرنے کی ناکام وبے فائدہ کوشش کی ہے ۔مثلاً: قرآن میں ہے وانتم عاکفون فی المساجد(البقرہ)تم مسجدوں میں بیٹھنے والے ہو،اس سے یہ سمجھا کہ مرد وعورت مسجد میں ہی اعتکاف کریں جب کہ ہم نے مندرجہ بالا سطور میں مرد اور عورت کی الگ الگ مسجدکو دلائل کی روشنی سے ثابت کردیاکہ حضور e نے عورت کے گھر کو ہی عورت کی مسجد بتلایا ہے مزید برآں اسی آیت کے ذیل میںمفسرِقرآن ابوبکر الجصاصؒ (وفات ۳۷۰ھ) نے فرمایا ہے کہ مسجد میں اعتکاف کرنے کا حکم فقط مردوں کیلئے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔
احادیث رسول میں بھی کسی عورت کا عملاً مسجد میںاعتکاف کرنا یا پیغمبر e کا حکم دیناکہ عورت مسجد میں اعتکاف کرے کسی صحیح ،صریح حدیث سے ثابت نہیںہے ۔
وساوس وشبہات :
لیکن اس کے باوجو د عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے بخاری ج۱ص۲۷۱،۲۷۳سے دو حدیثیں دکھاتے ہیں کہ (۱)حضور کے بعد آپ کی گھر والیوں نے اعتکاف کیا(۲)حضرات امہات المومنین نے مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے خیمے لگائے۔
کاش!!! یہ لوگ ضداور تعصب سے بالا تر ہو کر حدیث کو پڑھیں توبات بہت آسان ہے حدیث میں ہے حضور eہر رمضان میں مسجد نبوی میں مخصوص جگہ بنا کر اعتکاف کرتے تو حضرت عائشہؓ نے بھی اجازت لی تو حضورe نے اعتکاف کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ انہوںنے بھی اپنا خیمہ لگایا پھر ان کی دیکھا دیکھی حضرت حفصہ ؓ ،حضرت زینب ؓ نے بھی اپنا اپناخیمہ لگالیا ۔ آپ e نے جب مسجدمیںخیمے دیکھے تو تعجباً سوال کیایہ کیوں لگائے گئے ہیں؟ اور کس چیز نے ان(یعنی ازواج مطہراتؓ)کواس نیکی(یعنی مسجد نبوی میں اعتکاف)پر اُبھارا ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ یہ خیمے لگا کر اعتکاف کو تم نیکی سمجھتی ہو؟اس کے بعد حضور eنے ان خیموں کے اکھاڑنے کا حکم ارشاد فرمایا۔تو مسجد نبوی سے ازواج مطہرات کے خیمے (دوران اعتکاف ہی)اکھاڑ دیے گئے اور اس ناراضگی کی وجہ سے حضور eنے اپنا اعتکاف بھی توڑ دیا پھر شوال میں اس قضا ء فرمائی ۔
محترم قارئین! اگر عورت کے لیے بھی اعتکاف مسجد میں کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے باوجود حضورeنے اپنے اہل بیت کو مسجد میںاعتکاف کیوں نہ کرنے دیا؟اور خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کاحکم کیوں دیا ؟اور اس نیکی پر ان کو کس نے اُبھارا ہے؟ اپنے اہل بیت کو عتاب کیوں فرمایا؟اور اپنے اعتکاف کو بھی آخر ختم کیوں کردیا؟
اتنی عام فہم حدیث کے باوجو دبھی عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کی دعوت دینا یہ ا طاعت مصطفیeنہیں بلکہ صرف اور صرف نفسانی خواہشات کی اتباع ہے اور حضورeکے عمل کی خلاف ورزی ہے ۔علامہ ابن حجر ؒشارح بخاری حضرت ابراھیم بن علیۃؒ کا قول نقل کرتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیں۔
اور مزید لکھتے ہیں:’’ عورت کے لیے افضل بات یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف نہ کرے ۔
اور امام شافعیؒ کے ہاں عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے ۔
لہذا عورت کا اپنے گھر کے مخصوص حصہ میں اعتکاف کرنا قرآن وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے اور یہی فقہاء کا مذھب اور ہم اہل السنۃ والجماعۃ حنفیہ کاعمل ہے ۔اللہ رب العزت ہمیں رمضان المبارک میںسلف صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔
No comments:
Post a Comment