Saturday 30 April 2016

اسلام میں آزادی کا تصور

ہر چیز کے خالق، مالک، خوب قدرت وعلم رکھنے والے سب کے پالنہار اللہ نے اپنے پیغمبروں علیہم السلام کو بھیجا تاکہ وہ اس کے بندوں کو مخلوق سے آزادی دلائیں:
اَنۡ اَدُّوۡۤا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ۔
(حضرت موسٰیؑ نے یہ کہا) کہ اللہ کے بندوں (یعنی بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کر دو تمہاری طرف (خدا کا) پیغمبر (ہوکر آیا ) ہوں دیانت دار ہوں۔
saying, “Deliver to me the servants of Allah. I am an honest messenger to you,”
[القرآن - سورۃ الدخان:18]

یعنی خدا کے بندوں کو اپنا بندہ مت بناؤ۔ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزادی دو اور میرے حوالہ کرو۔ میں جہاں چاہوں لے جاؤں۔
[saying], ‘Give over to me, what I summon you to in the way of faith, that is, manifest your faith to me, O, servants of God; indeed I am for you a messenger [who is] faithful’, in what he has been sent with,


حضرت موسیٰ کا فرعون سے اللہ کے بندوں کو آزاد کرنے کا مطالبہ:
سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰؑ کو قومِ فرعون کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ تم لوگ میرے حوالے کردو اللہ کے بندوں کو ۔ سو اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کے بندو اللہ کا رسول ہونے کے اعتبار سے جو میرا حقِّ اطاعت و اِتباع تم پر واجب ہوتا ہے اس کو میرے لئے ادا کرو کہ یہ میرا حقِّ واجب ہے۔ اور اسی میں خود تم لوگوں کا بھلا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں احتمالوں کا نتیجہ و مآل ایک ہی نکلتا ہے۔ چونکہ پیغمبر کا حق اِطاعت و اِتباع ہی ہوتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کا حکم و ارشاد اور آپ علیہ السلام کا مطالبہ یہی تھا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو اور انکو عذاب مت دو ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:-
{ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَلاَ تُعَذِّبْہُمْ }
ترجمہ:
اس لئے بنو اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو، اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ۔
[سورۃ طٰہٓ: 47]
البتہ یہاں پر حضرت موسیٰؑ نے اپنے مطالبہ کے حق میں ایک اہم اور ٹھوس دلیل بھی دے دی کہ یہ اللہ کے بندے ہیں ۔ لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انکو اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ پس تم لوگ اللہ کے بندوں کو اپنی غلامی کی جکڑبندیوں سے آزاد کر کے ہمارے ساتھ روانہ کر دو کہ تم کو ان کے غلام بنائے رکھنے کا کوئی حق نہیں ۔
22 حضرت موسیٰ کا اپنی شان امانت و دیانت کا اِعلان و اِظہار :
سو حضرت موسیٰؑ نے ان لوگوں سے کہا اور اسلوبِ تاکید میں کہا کہ " یقینا میں تم لوگوں کے لیے ایک امانتدار رسول ہوں " ۔ پس میں چونکہ رسول ہوں اس لئے میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ بلکہ اپنے رب کا پیغام تمہیں سناتا ہوں اور بس۔ اور چونکہ میں امانت دار ہوں اس لئے اپنے رب کا پیغام بدوں کسی کم و کاست کے پوری امانت داری کے ساتھ تمہیں پہنچا رہا ہوں ۔ پس تم پر میری اطاعت لازم ہے۔ اسی میں تمہارا بھلا اور بہتری ہے۔ اور اس کے برعکس اگر تم لوگوں نے مجھے مفتری قرار دے کر میری تکذیب کی تو اس کے نتائج نہایت مہلک اور خطرناک ہوں گے۔ اور جس ذات نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے وہ تم سے ضرور انتقام لے گی - والعیاذ باللہ جل وعلا - سو پیغمبر ہر اچھائی اور خوبی میں اعلی اور عمدہ نمونہ ہوتا ہے - علیہم الصلاۃ والسلام -

کیا تم آزاد ہو؟
القرآن:
پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا ہے کہ جب (کسی کی) جان گلے تک پہنچ جاتی ہے۔
اور اس وقت تم (حسرت سے اس کو) دیکھ رہے ہوتے ہو۔
اور تم سے زیادہ ہم اس کے قریب ہوتے ہیں، مگر تمہیں نظر نہیں آتا۔
اگر تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے تو ایسا کیوں نہیں ہوتا۔
کہ تم اس جان کو واپس لے آؤ، اگر تم سچے ہو؟
[سورۃ نمبر 56 الواقعة، آیت نمبر 83-87]

حقیقی آزادی کیا ہے؟
حَدَّثَنِي ‌أَسْوَدُ بْنُ ‌أَصْرَمَ الْمُحَارِبِيُّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَوْصِنِي، قَالَ: «تَمْلِكُ يَدَكَ؟» قُلْتُ: فَمَاذَا أَمْلِكُ إِذَا لَمْ أَمْلِكْ يَدِي؟ قَالَ: «تَمْلِكُ لِسَانَكَ؟» قَالَ: فَمَاذَا أَمْلِكُ إِذَا لَمْ أَمْلِكْ لِسَانِي؟ قَالَ: «لَا تَبْسُطْ يَدَكَ إِلَّا إِلَى خَيْرٍ، وَلَا تَقُلْ بِلِسَانِكَ إِلَّا مَعْرُوفًا»۔
ترجمہ:
حضرت اسود بن اصرمؓ المحاربی فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول، مجھے کچھ وصیت فرمائیے؟ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تم اپنے ہاتھ کے مالک ہو؟ میں نے عرض کیا کہ: اگر میں اپنے ہاتھ کا مالک نہیں تو پھر کس چیز کا مالک ہوں؟ آپ ﷺ نے پھر دریافت فرمایا: کیا تم اپنی زبان کے مالک ہو؟ میں نے عرض کیا کہ: اگر میں اپنی زبان کا مالک نہیں تو پھر کس چیز کا مالک ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (زبان اور ہاتھ کا اصل مالک ہونا یہ ہے کہ) تم اپنے ہاتھ کو خیر کی سوا کسی اور طرف نہ بڑھاؤ اور اپنی زبان سے سوائے خیر کی کوئی اور بات نہ کہو۔
[أخبار القضاة-وكيع القاضي:3 /212، معجم الصحابة لابن قانع:1/ 21، المعجم الكبير للطبراني:718+818، مسند الشاميين للطبراني:1605، معرفة الصحابة لابن منده:ص187، معرفة الصحابة لأبي نعيم:912+913، الأحاديث المختارة:1440]
[صحيح الترغيب والترهيب:2867، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1560]

تشریح:
(1)ایمان کی شاخ:-‌‌زبان کی حفاظت، باب:خاموشی کی فضیلت
[شعب الإيمان:4931(4583)، مجمع الزوائد:18155]
(2)اسلام کا بیان:-زبان اور ہاتھ سے لوگوں کو محفوظ وسلامت رکھنا۔
(3)آداب کی کتاب:- حیاء کی ترغیب(حوصلہ افزائی) اور جو کچھ اسکی فضیلت میں بیان ہوا، اور فحاشی اور بدزبانی کی ترھیب(حوصلہ شکنی) کا بیان۔
[الترغيب والترهيب للمنذري - ط العلمية:3/ 340]
(4)کتاب:شرعی اخلاق، باب:اچھے اخلاق، پیغمبرانہ وصیت۔
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد:9 /481]
(5)پیغمبر کی سنت:- خیر(نفعمند باتوں)کی دعوت، نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا۔
(6)آدابِ تعلیم:- سوال سے متوجہ کرنا، دعوتِ فکر وعقل دینا۔
(7)حقیقی آزادی:- زبانی اور عملی برائی میں نفس،شیطان،مخلوق سے مجبور نہ ہونا ہے۔
(8)حقیقی اختیار وملکیت:- نیکی اور خیر ہی کی باتیں اور کام کرنا ہے۔

القرآن:
لوگوں کی بہت سی خفیہ سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہوتی، الا یہ کہ کوئی شخص صدقے کا یا کسی نیکی کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے۔ اور جو شخص اللہ کی خوشنودی حاصل کے کرنے کے لیے ایسا کرے گا، ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے۔
[سورۃ النساء:114][الدر المنثور في التفسير بالمأثور-السيوطي:2/ 681]










اسلامی نظام حکومت اور آزادی کا تصور:

ایک دفعہ حضرت عمرو بن عاصؓ ولی مصر کے بیٹے نے ایک غیرمسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفہ وقت امیرالمومنین حضرت عمر رضى الله تعالى عنه کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو انھوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیرمسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا:
مذ كم تعبّدتم الناس وقد ولدتهم ‌أمّهاتهم أحرارا؟
ترجمہ:
تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے؟ حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔
[جمع الجوامع«الجامع الكبير»-2007:2007، فتوح مصر والمغرب: ص195، ربيع الأبرار ونصوص الأخيار-الزمخشري:-3 /391]



غلام اور آزاد کی مثال
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا عَبۡدًا مَّمۡلُوۡکًا لَّا یَقۡدِرُ عَلٰی شَیۡءٍ وَّ مَنۡ رَّزَقۡنٰہُ مِنَّا رِزۡقًا حَسَنًا فَہُوَ یُنۡفِقُ مِنۡہُ سِرًّا وَّ جَہۡرًا ؕ ہَلۡ یَسۡتَوٗنَ ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ 
﴿قرآن - سورۃ النحل:75﴾
 اللہ (ابطال شرک کے لئے) ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ (فرض کرو کہ) ایک غلام ہے جو دوسرے کا ایسا مملوک ہے کہ (اپنے جیسے مالک کی اجازت کے بغیر) وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا، اور دوسرا وہ شخص ہے جس کو ہم نے اپنی طرف سے دے رکھی ہو عمدہ روزی، اور وہ اس میں سے (اپنی مرضی کے مطابق) پوشیدہ بھی خرچ کرتا ہو، اور ظاہراً بھی، تو کیا یہ دونوں آپس میں برابر ہو سکتے ہیں؟ (پس ثابت ہوا کہ معبود حقیقی بھی اللہ ہی ہے اور) ہر تعریف کا حقدار بھی اللہ ہی ہے، مگر لوگوں کی اکثریت ہے کہ وہ جانتے نہیں (حق اور حقیقت کو)۔
Allah gives an example: There is a slave owned (by someone), who has no power over anything, and there is a person whom We have given good provision from Us, and he spends out of it secretly and openly. Are they equal? Praise be to Allah. But, most of them do not know.
God strikes a similitude (mathalan, this is substituted by [the following, ‘abdan mamlūkan]) a slave who is a chattel (mamlūkan, an adjective to distinguish him [this type of slave] from a free man, who is the servant of God [alone]) having no power over anything, since he has no mastery, and one on whom (man, is an indefinite [noun], adjectivally qualified, in other words, a free man) We have bestowed a fair provision from Us, such that he spends thereof secretly and openly, that is, disposing of it as he wishes: the first similitude is for the idols, while the second is His, exalted be He. Are they equal?, the powerless slaves and the dispensing free men? No. Praise belongs to God, alone. But most of them, that is, the people of Mecca, do not know, the chastisement they will come to, and so they associate others with God.

ابطالِ شرک کے لئے ایک مثال کا ذکر و بیان :
اور توحید کے بارے میں صحیح مثال وہی ہوسکتی ہے جو وہ خود بیان فرمائے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ابطالِ شرک کیلئے ایک مثال بیان فرمائی ۔ یعنی وہ آزاد شخص چاہے اور جیسے چاہے اور جہاں چاہیے اور جس قدر چاہے خرچ کرتاہے کہ وہ آزاد اور خود مختار ہے۔ توایسا شخص اور دوسرا وہ شخص جو عاجز ہو اور کچھ نہ کرسکتاہو ، کیا یہ دونوں شخص باہم ایک برابر ہوسکتے ہیں؟ اور جب نہیں اور یقینا نہیں تو پھر تم لوگ خداوند قدوس کے ساتھ اس کے مملوکوں کو برابر کس طرح مانتے ہو؟ جب وہ خالقِ کل اور مالکِ مطلق ہے۔ اور باقی سب اس کی مخلوق اور اس کے مملوک ہیں ۔ آخر تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا اور تم کہاں اور کیسے اندھے اور اوندھے ہورہے ہو؟۔
مشرکوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے والا سوال : کہ کیا یہ دونوں شخص باہم برابر ہوسکتے ہیں؟ جب نہیں اور یقینا وہرگز نہیں ۔ حالانکہ یہ دونوں بشر ، انسان ، اور مخلوق ہیں، تو پھر حضرت خالق ، جل مجدہ ۔ کے ساتھ کسی کی برابری کا کیا سوال پیدا ہوسکتاہے؟(مراغی ، صفوۃ اور معارف وغیرہ) جبکہ وہ خالق کل مالک مطلق دائرہ مخلوق سے وراء الوراء ہے ۔ تو پھر کیسے اندھے اور کس قدر اوندھے ہیں وہ لوگ جو اپنے خود ساختہ معبودوں کو اس کے برابر ٹھہراتے ہیں ۔ (لایقدرعلی شی ء ) کہ " کسی چیز پر قدرت نہ رکھتا ہو " کی صفت کاشفہ سے اس غلام کی بے اختیاری کو اور واضح کردیا گیا۔ کیونکہ غلاموں میں ایک غلام وہ بھی ہوتا ہے جس کو کسی قدر تصرف کی اجازت ہوتی ہے ۔ جس کو " عبد ماذون " کہا جاتاہے۔ اور ایک وہ ہوتا ہے جو " مکاتب " کہلاتاہے ۔ جسے مالک نے بقدر ضرورت وحاجت کمائی کیلئے اجازت دے رکھی ہوتی ہے۔ جوفقہ کی اصطلاح میں " بدل کتابت " کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ کتب فقہ میں مذکورہے۔ مگر یہ غلام اس طرح کا کوئی اختیار بھی نہیں رکھتا۔ سو اس سوال سے مشرکوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑا گیا ہے تاکہ وہ باز آجائیں شرک کے گھناؤنے جرم سے۔ مگر کہاں ؟ الا ماشاء اللہ ۔
سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں: کہ وہی ہے جو ہرنقص وعیب سے پاک اور ہر خوبی وکمال سے متصف ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ وبحمدہ۔ اور وہی معبود برحق ہے۔ اور ہرقسم کی عبادت وبندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے جبکہ تمہارے خود ساختہ معبودوں میں سے اے مشرکو!نہ کسی کے اختیار میں کچھ ہے ۔ اور نہ ان کیلئے کسی طرح کی تعریف وتوصیف کا کوئی حق ہے کہ وہ سب سراسر بے بنیاد ہیں ۔ جبکہ اس ساری کائنات کاخالق ومالک اور اس میں حاکم ومتصرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ اور جس کو جو کچھ ملا ، یا ملنا ہے یا آئندہ ملے گا، وہ سب اسی وحدہ لاشریک کی طرف سے ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔







سب اللہ کے بندے ہیں:
إِن كُلُّ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ إِلّا ءاتِى الرَّحمٰنِ عَبدًا۔
(قرآن - سورۃ مریم:93)
تمام شخص جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سب خدا کے روبرو بندے ہو کر آئیں گے۔
There is none in the heavens and the earth, but bound to come to the All-Merciful as a salve.
یعنی سب خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں اور بندے ہی بن کر اس کے سامنے حاضر ہوں گے پھر بندہ بیٹا کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور جس کے سب محکوم و محتاج ہوں اسے بیٹا بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ 

There is none in the heavens and the earth but he comes to the Compassionate One as a servant, servile, submissive, on the Day of Resurrection, including [individuals such as] Ezra and Jesus.







ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبدًا مَملوكًا لا يَقدِرُ عَلىٰ شَيءٍ وَمَن رَزَقنٰهُ مِنّا رِزقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنهُ سِرًّا وَجَهرًا ۖ هَل يَستَوۥنَ ۚ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعلَمونَ {16:75}
خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے جو (بالکل) دوسرے کے اختیار میں ہے اور کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور ایک ایسا شخص ہے جس کو ہم نے اپنے ہاں سے (بہت سا) مال طیب عطا فرمایا ہے اور وہ اس میں سے (رات دن) پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا رہتا ہے تو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں؟ (ہرگز نہیں) الحمدلله لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں سمجھ رکھتے
Allah propoundeth a similitude: there is a bondman enslaved who hath not power over aught; and there is one whom We have provided from Ourselves with goodly provision and he expendeth thereof secretly and openly; can they be equal? All praise Unto Allah; but most of them know not.

يٰأَيُّهَا النّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاستَمِعوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لَن يَخلُقوا ذُبابًا وَلَوِ اجتَمَعوا لَهُ ۖ وَإِن يَسلُبهُمُ الذُّبابُ شَيـًٔا لا يَستَنقِذوهُ مِنهُ ۚ ضَعُفَ الطّالِبُ وَالمَطلوبُ {22:73}
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
O Mankind! a similitude is propounded; so hearken thereto. Verily those whom ye call upon beside Allah will by no means create a fly, even though they assembled for that; and if the fly were to snatch away aught from them, they cannot recover it from him: weak the seeker and the sought!

ضَرَبَ لَكُم مَثَلًا مِن أَنفُسِكُم ۖ هَل لَكُم مِن ما مَلَكَت أَيمٰنُكُم مِن شُرَكاءَ فى ما رَزَقنٰكُم فَأَنتُم فيهِ سَواءٌ تَخافونَهُم كَخيفَتِكُم أَنفُسَكُم ۚ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الءايٰتِ لِقَومٍ يَعقِلونَ {30:28}
وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ بھلا جن (لونڈی غلاموں) کے تم مالک ہو وہ اس (مال) میں جو ہم نے تم کو عطا فرمایا ہے تمہارے شریک ہیں، اور (کیا )تم اس میں (اُن کو اپنے) برابر (مالک سمجھتے) ہو( اور کیا) تم اُن سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو، اسی طرح عقل والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں
He propoundeth unto you a similitude taken from yourselves. Have you, from among those whom your right hands own, partners in that wherewith We have provided you, so that ye are equal in respect thereof, and ye fear them as ye fear each other? In this wise We detail the signs for a people who reflect.

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فيهِ شُرَكاءُ مُتَشٰكِسونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَل يَستَوِيانِ مَثَلًا ۚ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعلَمونَ {39:29}
خدا ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (آدمی) شریک ہیں۔ (مختلف المزاج اور) بدخو اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا (غلام) ہے۔ بھلا دونوں کی حالت برابر ہے۔ (نہیں) الحمدلله بلکہ یہ اکثر لوگ نہیں جانتے







سیاسی آزادی اور تہذیبی غلامی:
ملکوں نے سیاسی آزادی تو حاصل کرلی لیکن فکری وعلمی طور پر تہذیبی غلامی کی زنجیریں اور مضبوط ہوگئیں ہیں وہ حقیقی آزادی سے آشنا نہیں، انہیں ابھی تک حقیقی آزادی کا ذائقہ چکھنے کا موقع تک نہیں ملا۔ جس آزادی میں انسان، دشمن کی ہر قسم کی قید وبند سے چھوٹ جائے۔

انسانی تاریخ میں کہے جانے والے چند بڑے اقوال میں سیدنا عمرؓ کا قول ’’مائوں نے لوگوں کو آزاد جنا تھا، تم نے انہیں غلام بنانا کہاں سے سیکھ لیا؟‘‘ انسانیت کے آسمان پر صدیوں سے کہکشاں کی طرح جگمگارہا ہے۔ 14 سو سال پہلے کہا جانے والا یہ قول یقینا اسلام کی تعلیمات اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ ہے ورنہ عرب کے بادیہ نشین قبائلی معاشرے میں گندھے ہوئے عمرؓ ابن خطاب کو انسانی معراج کی بلندیوں کا کہاں علم تھا۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانوں پر انسانوں کی بادشاہت ہر سطح پر موجود ہو، گھروں میں غلام اور کنیزیں معاشرے میں اکھڑ اور مفرور سردار اور علاقوں پر ظالم بادشاہ اور فرمانروا۔ ایسے معاشرے میں صرف 23 سال کی تربیت کا یہ عالم کہ خطبہ حجۃ الوداع میں آقا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ اعلان کریں: ’’آج تمہاری جاہلیت کے نسل رنگ اور عصبیت کے بت میرے پائوں تلے کرچی کرچی ہو چکے۔‘‘ 
اگر کوئی سیاح 612 عیسوی کے لگ بھگ جزیرہ نمائے عرب کا دورہ کرتا جب ابھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت نہیں ہوئی تھی اور اپنے ذہن میں عرب کے معاشرے کا ایک نقشہ بٹھا لیتا۔ اس نقشے کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ دنیا اس تہذیب و تمدن سے الگ تھلگ جنگ و جدل اور عصبیت میں رچے ہوئے عرب معاشرے کو خوب جانتی ہے۔ دنیا کے نقشے پر نہ وہ ایک عظیم سلطنت تھے اور نہ ہی علوم و فنون سے آراستہ کوئی قوم۔ سیاح 23 سال کے بعد واپس لوٹتا تو دم بخود رہ جاتا۔ حیرت سے ان انسانوں کو دیکھتا جنہیں وہ صرف 2 دہائیاں پہلے انسانیت کے نچلے ترین درجے پر دیکھ کر گیا تھا، آج یہ لوگ کیسے پوری دنیا کے لیے انسانی اخلاقیات اور احترام آدمیت کے مشعل بردار بن چکے ہیں۔ اسے یقینا اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا۔ اس لیے کہ یہ انفراسٹرکچر اور عمارات کی تبدیلی نہیں تھی انسانوں کی تبدیلی تھی۔
آپ کسی بھی شہر میں ہزاروں لاکھوں مزدور لگا کر بڑے بڑے پلازہ، عالیشان عمارتیں، بہترین پل، دلکش باغات اور حیرت انگیز سہولیات فراہم کر سکتے ہیں اور یہ سب 23 سال کے عرصے، بلکہ اس سے بھی کم میں ممکن ہے۔ محنت سے آپ ایک پورا شہر نیا آباد کر سکتے ہیں، لیکن آپ ایک ایسا معاشرہ تخلیق کر دیں جس میں غرور و نخوت میں ڈوبے ہوئے عرب معاشرے میں حضرت عمرؓ جیسا فرد پوری زندگی ایک حبشی غلام حضرت بلالؓ کو ’’سیدنا بلال‘‘ یعنی ’’میرے آقا بلال‘‘ کہہ کر پکارے۔ جہاں رسول اکرم ﷺ ایک بستی سے گزریں اور ایک شخص اپنے غلام پر سختی کر رہا ہو۔ آپ فرمائیں: ’’دیکھو! جتنا اختیار تمہیں آج اس غلام پر حاصل ہے، اللہ کو روزِ قیامت اس سے کئی گنا اختیار تم پر حاصل ہوگا۔‘‘ تو وہ تھر تھر کانپنے لگے اور فوراً یہ پکار اٹھے میں نے اللہ کی رضا کے لیے اس غلام کو آزاد کیا۔ عصبیت سے بھرے معاشرے میں کوئی سوچ سکتا تھا کہ خانۂ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اللہ کے گھر کی جانب بلانے کا اعزاز ایک حبشی غلام سیدنا بلالؓ کو حاصل ہوگا۔ کسی نے کبھی تصور بھی کیا تھا کہ لوگوں میں آخرت کی جوابدہی کا احساس اس قدر پختہ ہو جائے گا اور افراد اللہ کے سامنے جانے سے اس قدر ڈریں گے کہ ان کی خواہش یہ ہو گی کہ ان کے گناہوں کی سزا انہیں یہیں مل جائے۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ مائدؓ نے زنا کا ارتکاب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: ’’مائد ہلاک ہوگیا۔‘‘ فرمایا: ’’اللہ سے معافی طلب کرو، وہ غفور و رحیم ہے۔‘‘ دوسری دفعہ پھر دہرایا: ’’مائد ہلاک ہوگیا۔‘‘ 
وہی جواب ملا۔ تیسری دفعہ دہرایا اور کہا: ’’میں اپنے جرم کی سزا یہیں بھگتنا چاہتا ہوں، اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتا ہوں۔‘‘ سنگسار کر دیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مائد نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پورے مدینے پر تقسیم کردی جائے تو کافی ہے۔‘‘ 
غرور و نخوت سے بھرپور معاشرہ جس کی حالت یہ کہ جب ابوجہل بدر کے میدان میں معاذ و معوذ کے ہاتھوں زخمی ہو کر گر پڑا اور موت کی گھڑیاں گن رہا تھا تو عبداللہ بن مسعودؓ اس کے سینے پر چڑھ گئے۔ یہ وہی عبداللہ بن مسعود جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جائو! مکہ کے بازار میں جا کر قرآن سنانا شروع کرو۔‘‘ ان کو اللہ نے خوش الحانی بخشی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے رمضان میں قرآن پاک سنا کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’اللہ نے تمہیں حضرت دائودؑ کے مضامیر میں سے ایک مضامیر عطا کیا ہے۔‘‘ انہوں نے قرآن سنانا شروع کیا تو ابوجہل کے حکم سے لوگوں نے انھیں تھپڑ مارنا شروع کردیے، لیکن آپ بازار کے آخر تک قرآن سناتے گئے۔ آج وہ عبداللہ بن مسعود ابوجہل کے سینے پر سوار ہوئے تو سرداری زعم میں بولا: ’’مجھے آج یہ دن بھی دیکھنا تھا۔‘‘ پھر کہنے لگا: ’’دیکھو! آج اگر میرا سر قلم کرو تو گردن کے نیچے سے کاٹنا تاکہ کٹے ہوئے سروں میں پڑا ہوا معلوم ہو کہ سردار کا سر ہے۔‘‘ ایسے معاشرے میں خوفِ خدا کا تصور جاگزیں کرانا، لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کر کے اللہ کی غلامی کا اسیر بنانا اور پھر اعلان کرنا: ’’تم میں سے کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں! فضیلت اس کو ہے جو اللہ سے تم سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔‘‘ یہ تھا معاشرہ جس سے ایسے افراد نے جنم لیا جو پڑوسی کی ناراضی سے ڈرتے تھے۔ یتیم، مسکین، لاچار اور بیوہ کا حق ادا نہ کرنے سے ڈرتے تھے۔ ایسے معاشرے میں ہی یہ قول تاریخ کی راہداریوں میں گونجتا ہے کہ ’’مائوں نے لوگوں کو آزاد جنا تھا، تم نے انہیں غلام بنانا کہاں سے سیکھ لیا۔‘‘ 
14 سو سال پہلے جس معاشرے نے جنم لیا تھا وہ معاشرہ زیادہ آزاد اور انسانی غلامی سے دور تھا یا آج کا جمہوریت اور جمہوری اقدار کا امین معاشرہ؟ اللہ کے رسول ﷺ کے ترتیب دیے گئے اور تربیت سے نکھرے ہوئے گروہ کو اگر ایک پارٹی تصور کر لیا جائے تو ان میں ہر کوئی صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا پابند تھا۔ ان کے گلے میں صرف اللہ کی غلامی اور سید الانبیاء کی فرمانبرداری کا طوق ہے۔ اب ذرا اس جمہوری اقدار کے معاشرے میں قائم پارٹیوں، گروہوں، انجمنوں، یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کو دیکھیے تو آپ حیرت میں گم ہو جائیں گے۔ امریکا اور یورپ سے لے کر ترقی پذیر جمہوری ممالک تک سب جگہ یہ گروہ بدترین غلامی کی مثال ہے۔ مغرب میں جو گروہ پارٹی فنڈنگ کرتا ہے، اس کی مرضی کی پالیسی پارلیمنٹ یا کانگریس میں چلتی ہے۔ کوئی اس کے خلاف بات کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ جس تنظیم کے بورڈ آف گورنرز یا ڈونرز بورڈ کے افراد جس قدر سرمایہ فراہم کریں گے، وہ تنظیم اسی قدر ان کی رائے کا احترام اور ان کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو گی۔ ہمارے جمہوری معاشرے کا کیا کہنا۔ پارٹی کے لیڈر دن میں اتنا اللہ کا ذکر نہیں کرتے جتنا میرے قائد، میرے لیڈر، یا میرے رہنما کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ جرم کرے، کرپشن کرے، بددیانتی کرے، کسی کو قتل کرے یا قتل کروائے، کسی کو بھری محفل میں ذلیل و رسوا کر دے، وہ قائد ہی رہتا ہے، اس کے سامنے زبان نہیں کھولی جا سکتی۔ 
سب سے اہم بات یہ کہ ان تمام افراد کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ بددیانت ہے، چور ہے، ظالم ہے، لیکن مسلسل جھوٹ بول کر اس کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ وہ غلامی ہے جو بظاہر نظر آتی ہے۔ کبھی ان گروہوں، پارٹیوں، انجمنوں اور ایسوسی ایشنوں میں شامل ہو کر دیکھیں آپ کو انسانوں کی انسانوں پر حکومت اور بدترین غلامی کی وہ صورت نظر آئے گی کہ آپ کانپ اٹھیں۔ اقبالؔ نے اسی غلامی کو کتے کی زندگی سے بھی بدتر تعبیر کیا ہے۔ اقبالؔ فرماتے ہیں۔ 
آدم از بے بصری بندگی آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذر قباد و جم کرد
یعنی درخوئے غلامی ز سگان خوار تر است
من نہ دیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد 

عقل کو وحیِ الٰہی سے آزاد کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ کی پارلیامینٹ میں ہم جنس پرستی (Homo-Sexuality) کے جواز کا بل تالیوں کی گونج میں منظور کر رہی ہے۔ 

انسان اپنی بصیرت کی کمی کی وجہ سے انسان کی غلامی کرتا ہے۔ اسے اللہ نے آزادی کی نعمت عطا کی، لیکن وہ اسے بادشاہوں کے سامنے بیچ دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غلامی تو کتے کی زندگی سے بھی بدتر ہے۔ میں نے آج تک کسی کتے کو دوسرے کتے کے سامنے سر خم کرتے نہیں دیکھا۔ ٭٭٭






انسان کے بنیادی اور فطری حقوق کے تحت جن جن امور کو شامل کیا جاتا ہے ان میں حقوق اِنسانی کا جامع ترین تصور، انسانی مساوات کا حق، انسانی عزت وآبرو کی حفاظت، انسانی جان ومال اور جائداد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا حق، آزادیٴ ضمیر کا حق ضروریات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق میں فرد ومعاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق کی حفاظت،اسی طرح انسانوں کے معاشی وثقافتی اور تعلیمی حقوق نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
تحفظ آزادی (شخصی ومذہبی): اسلامی معاشرہ میں چونکہ ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں کسی کا کسی پر بیجا دباؤ نہیں، ہر ایک آزاد اور خود مختار ہے اس لیے اسلام نے انسان کی شخصی آزادی کی بقاء کے لیے انسان کی نجی اور پرائیویٹ زندگی میں مداخلت سے دوسروں کو روکا ہے اور خواہ مخواہ کی دخل اندازی ٹوہ بازی اور بلا اجازت کسی کے گھر میں دخول سے منع کیا ہے۔ ارشاد حق ہے: مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں) کے گھروں میں گھروالوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہواکرو۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ (بعض) گمان گناہ ہے اور ایک دوسرے کے حال کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ اسی طرح اسلام میں مذہب اور ضمیر واعتقاد کے تحفظ کی گارنٹی یوں دی گئی: دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے، ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ ایک دانشور مفکر لکھتے ہیں ”صبر واعتقاد کی آزادی ہی کا قیمتی حق تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ کے سیزدہ سالہ دور ابتلاء میں مسلمانوں نے ماریں کھاکھا کر کلمہ حق کہااور بالآخر یہ حق ثابت ہوکر رہا۔ اسلامی تاریخ اس بات سے عاری ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیرمسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے پرمجبور کیا ہو، یا کسی قوم کو مارمار کر کلمہ پڑھوایا ہو۔


آزادی کی حفاظت
میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ (مخلوق کی غلامی سے) آزادی حاصل کرنا تو بہت اچھا ہے مگر اسے برقرار رکھنا اس کے بغیر ناممکن ہے کہ ہماری اخلاقی حالت درست ہو اور ہماری زندگی میں انسانیت زندہ ہو۔ دنیا کی تاریخ بتلاتی ہے کہ کوئی ملک اور کوئی حکومت بغیر اخلاقی ترقی اور انسانیت کی بقا کے قائم نہیں رہ سکتی۔
آج یہ کام ہر طبقہ اور ہر درجہ کیلئے ضروری ہے، آپ اس یقین کے ساتھ اس سے تعاون کریں کہ بغیر ایک بےلوث خدمت کے جذبہ اور اخلاقی بلندی اور انسانیت کی بیداری کے ہماری زندگی کی مصیبتیں دور نہیں ہوسکتیں۔





آزادی کے نام پر - تہلکہ، آروشی، نرائن سائس



مرض کے بجائے علامات کا علاج کرنے والے جدید ہندوستانی معاشرہ کو ترون تیج پال کے بہانہ ایک اور سنسنی خیز معاملہ ہاتھ آگیا، گو کہ اس معاملہ میں ماڈرن ہندوستان کے رویّہ کا تضاد ویسا ہی ہے، جیسا کہ دہلی کے کچھ اردو اخباروں کا کہ ایک طرف وہ ہندو فرقہ پرستوں کو کوستے ہیں مودی کو دن رات بُرا بھلا کہتے ہیں؛ مگر اسی قاتل مودی کی تصویر کا آدھے صفحہ کا پہلے صفحہ کا اشتہار بھی شائع کرتے ہیں۔ ویسے ہی نام نہاد ماڈرن، لبرل معاشرہ ایک طرف جرم کیے جانے کے تمام اسباب مہیا کراتا ہے، دوسری طرف اس کے نتائج سے روبرو ہونے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔ اگر ماں باپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک بچہ کو بھی ڈھنگ سے پال سکیں، اسے وقت دے سکیں اسے پیار کے دوگھنٹہ دے سکیں تو انھیں کیا حق ہے کہ وہ اس بچہ کی غلط عادت جو کہ انھیں کی غفلت اور اپنی خودغرضی ونفس پرستی سے وجود میں آئی ہے، اسے قتل کردیں (آروشی قتل) سالوں سال بچی کو جوان نوکر نوکرانیوں کے درمیان چھوڑ کر ماں باپ دولت کمانے نکل جاتے ہیں، بچہ پیچھے کالج میں دوستوں کے ساتھ، لیپ ٹاپ پر، آئی پیڈ پر کیاکرتا ہے آپ کو خبر نہیں، جب شیطان بچہ کے پیار، محبت کے بھوکے ذہن پر ڈاکہ ڈال چکا ہوتا ہے تو آپ کواچانک ایک حادثہ کے تحت حقیقت سے آنکھیں چار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور آپ اچانک انتہائی مشرقی مرد یا باغیرت بن جاتے ہیں اور اپنے جرم کو بھول کر پوری سزا بچہ کو دے دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ضمیر کا بوجھ اور غیرت کا تقاضہ پورا کردیا۔
          حال کے دنوں میں جدید ہندوستانی سماج کی کشمکش مختلف بڑی بڑی خبروں کے حوالہ سے ایک بار پھر اُجاگر ہورہی ہے بڑے بڑے لال بجھکڑ چینلوں پر بیٹھ کر سخت قانون، عورتوں کی آزادی مردوں کے دماغ درست کرنے کی تراکیب وغیرہ وغیرہ پر غور کررہے ہیں اور حال یہ ہے کہ جس عطار کے لڑکے کی وجہ سے بیمار ہوئے اسے ہی معالج بنائے رکھنے کی ضد بھی ہے، ورنہ بیک وارڈ اور دقیانوسی کا طعنہ سہنا پڑے گا۔ ترون تیج پال کا معاملہ، سپریم کورٹ کا فیصلہ کہ بغیر شادی کے ساتھ رہنے والے جوڑوں کے بچوں اور خمار اترنے کی صورت میں علاحدگی پر خاتون کے تحفظ کا بندوبست ہونا چاہیے، گجرات میں ایک نوجوان بچی کی صوبہ کے بڑے نیتاؤں کے ذریعہ جاسوسی اور دہلی میں ایک ڈاکٹر خاتون جو کہ موجودہ M.P. کی بیوی بھی ہیں کے ذریعہ اپنی نوکرانی کا بے رحمانہ قتل (پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق قاتلہ ڈاکٹر نے مقتولہ پر ۲۸ وار کیے ہیں جن میں ۹ سرپر ہوئے ہیں)۔
          یہ پچھلے ایک دو ہفتہ کی سرخیوں والی خبریں ہیں جو بتارہی ہیں کہ سماج میں اندر اندر کیا چل رہا ہے۔ آج کی نام نہاد جدید تہذیب جسے بجا طور پر ”جاہلیتِ جدیدہ“ کہا گیا ہے، وہ ہزاروں سال پرانے اصول، ضوابط، اخلاقیات سب کو تباہ کرنے پر آمادہ ہے اور یہ سب علم، سائنس اور ترقی کے نام پر کیاجارہاہے؛ جبکہ یہ ساری گمراہی سراسر غیرعملی، غیرسائنسی اور غیرحقیقی ہے۔ مثال کے طور پر جدید مغربی تہذیب نے مساواتِ مردو زن کا نعرہ زور شور سے بلند کیا؛ مگر قانونی اور جسمانی ساخت اور جسمانی افعال کا فرق سازشاً بحث میں نہیں لایاگیا۔ ہر دو صنف کو ہر طرح کے کام ، حالات اور ذمہ داریوں کا حقدار بتایاگیا؛ جبکہ ہر دو صنفوں میں بناوٹ، مزاج اورافعال کا فرق بالکل واضح ہے اور یہ فرق سائنس، تجربہ اور تاریخ ہر ایک سے ثابت شدہ ہے۔ یہ بہتر اور کمتر کا معاملہ نہیں؛ بلکہ مختلف صلاحیتوں کا معاملہ ہے، جسے شیطانی اغراض کے تحت بہتر وکمتر کی کشمکش بناکر شیطانی تہذیب نے عالمِ انسانیت کا استحصال کیا، خصوصاً خواتین کا۔ کچھ ازلی وابدی حقیقتیں ہیں ان سے سائنسی اعتبار سے انکار ممکن نہیں۔ مردوں کی بیرونی اندرونی بناوٹ، مختلف ہارمون کا پایا جانا، ان ہارمون کے مختلف کیمیائی اثرات اور نفسیاتی اثرات ایسی گھلی ہوئی حقیقتیں ہیں کہ ان کا انکار ہی خللِ دماغ کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک دوسرے صنف کے لیے جنسی کشش سے کبھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس سب حقائق کے باوجود آپ بضد ہیں کہ دونوں کو ایک ساتھ رکھیں گے، ایک جیسی ذمہ داریاں دیں گے، ایک جیسے کپڑے پہنائیں گے، ایک جیسے کام کرائیں گے وغیرہ؛ مگر عملاً جدید جاہلیت کے دعویداروں نے آج تک اس خوشنما جال میں پھانس کر خواتین کے جسمانی، نفسیاتی، جنسی استحصال کو صرف بڑھاوا ہی دیا ہے۔ اس شیطانی تہذیب کے علمبرداروں نے کہیں بھی اہم کلیدی شعبوں اور عہدوں پر خواتین کو مقرر نہیں کیاہے۔ امریکہ کی آزادی کی تقریباً ۳۰۰ سال کی تاریخ میں ایک بھی خاتون صدر، خاتون آرمی چیف، خاتون پنٹاگن چیف نہیں مقرر ہوا۔ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کے علاوہ کون نام نظر آتا ہے، اگر کسی ایک بھی شعبہ میں جو کہ سب سے اہم بھی مانا جاتاہو، خواتین کو عملاً ذمہ داریاں دنیا میں انھیں علمبرداروں نے نہیں دی ہیں جوکہ اس کے دعویدار ہیں تو اس کا مطلب یقینا یہ ہی ہے کہ صلاحیتوں میں اختلاف ہے۔ اور یہ عیب نہیں ہے یہ خالقِ کائنات کی طرف سے دنیا کا نظام چلانے کا منصفانہ نظام ہے۔ جدید جاہلیت کے علمبرداروں نے اس منصفانہ نظام کو ظالمانہ اور غلامانہ بتاکر انھیں آزادی اور برابری کا وہ خواب دکھایا، جس کی بھیانک تعبیر آج ساری دنیا بکھرتے رشتوں، ٹوٹتے خاندانوں، جنسی جرائم، ہم جنس پرستی، بڑھتی شرحِ طلاق، بغیر نسب کی نسل، کنواری مائیں، ایڈس، جسم فروشی، خودکشی، بوڑھاپے کی مایوسی اور تنہائی (خصوصاً خواتین) جیسے لاتعداد مسائل کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ بے حیائی، بے قید آزادی، بے لگام جنسی اختلاط اور اوپر سے میڈیا اور اشتہارات کی انڈسٹری نے سماج میں عورت کی جنسی کشش کو ہی عورت بناکر اتنا پیش کیاکہ سماج میں پوری طرح سے جنسی بارودی سرنگیں بھردی ہیں، جنھیں شیطانی وسوسہ کی ذراسی لہر دھماکہ میں تبدیل کرکے زندگیوں، خاندانوں اور سماج کو تباہ کررہی ہے۔ جب ایسی کوئی بارودی سرنگ پھٹ کر خبر بن جاتی ہے، تو پھر یہی جنس کا کاروبار کرنے والے چینلوں اور اخباروں میں عدالتیں سجاکر عورت کے حمایتی بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور سخت سے سخت سزا اور فوری سزا (مگر عورت زیادہ سے زیادہ آزادی اور ہر جگہ موجودگی پر اصرار کے ساتھ) کی مانگ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ جتنا قانون بنا رہے ہیں، معاملہ اتنا الجھ رہا ہے۔ قانون تو آپ نے بنادیا کہ اگر کوئی خاتون کو چھوبھی لے گا، گھور کر دیکھ لے گا، کچھ اشارہ کردے گا تو وہ بھی جرم ہوگا۔ اب ہر مرد اور عورت اپنے آپ کو اس جگہ رکھ کر تصور کرے کہ آفس، کلاس روم، کوچنگ، ٹرین، میٹرو، سٹی بس وغیرہ کے ماحول میں اور میڈیا کی تمام جنسی اکساہٹ (فلمیں اور لٹریچر سمیت) کے بعد کیا مندرجہ بالا قوانین پر عمل کرنا آسان ہے؟ فرشتوں یا کم سے کم صوفی ہستیوں سے ہی یہ توقع رکھی جاسکتی ہے۔ نارمل مرد اور عورت سے یہ توقع کرنا بے وقوفی ہی ہے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے لال بجھکڑ سخت سزا کی بات کرتے ہیں؛ مگر کسی بھی حفاظتی تدبیر خصوصاً صنفوں کی علاحدگی کی شدومد سے مخالفت کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے سخت قوانین اور تیز انصاف کی بات کرتے ہیں؛ مگر وہاں پر جنسی اختلاط پر پابندی ہے، اس سے نظریں چراتے ہیں؛ بلکہ مذاق اڑاتے ہیں۔ حفاظتی تدبیر کے نام پر محافظ رکھو، کمیٹی بناؤ، سی سی ٹی وی کیمرہ لگاؤ سب کچھ ہے، مگر یہ نہیں ہے کہ دونوں کے ساتھ ساتھ ہی کیوں رکھو؟ ساتھ ساتھ اسکورلنگ کے کیا فائدے ہوتے ہیں؟ ساتھ ساتھ بسوں میں یا دوکانوں میں جانے کے کیا فائدے ہوتے ہیں، اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا جاتا۔ بس ضد ہے کہ ترقی کی یہ علامت ہے کہ ساتھ ساتھ پڑھیں؛ بلکہ اب تو ہاسٹل میں بھی ساتھ ساتھ رہنے کی پابندی کی بات ہورہی ہے کہ اس سے ”اعتماد“ پیدا ہوتا ہے۔ اس کلچر کو فروغ دینے کے لیے کروڑوں لوگوں کو ”ریالٹی شو“ جیسے فحش اور شیطانی سیریل کروڑوں روپیہ خرچ کرکے دکھائے جاتے ہیں۔
          قانونی لحاظ سے ہمارے سپریم کورٹ نے بھی اس فساد کو پیدا کرنے میں پورا تعاون یہ کہہ کر کیاہے کہ اگر شادی کے علاوہ جنسی روابط بنائے گئے ہیں اوراس میں زور زبردستی نہیں ہوئی ہے تو یہ جرم نہیں ہے۔ اب اتنی بڑی شیطانی چھوٹ کے بعد آپ اگر عقل رکھتے ہیں تو خود نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ آج جو کچھ ہورہا ہے، وہ ہمارے اِن لال بجھکڑوں کی اُلٹی سیدھی تدبیروں اور سماج کو جنس کا غلام بناکر سماجی ذمہ داریوں سے بھگانے کی سازش کا ہی نتیجہ ہے، جس کے مظاہر ہم آج دن رات دیکھ رہے ہیں۔
          خواتین کی کسی بھی ترقی تعلیمی، معاشی، معاشرتی، تخلیقی کے لیے مخلوط سوسائٹی ناگزیر شرط نہیں ہے۔ ناگزیر ضرورت بھی نہیں؛ مگر اس پر دن رات اصرار بڑھ رہاہے کہ نہیں انھیں ساتھ ساتھ رکھنا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ جنس کا داعیہ انسانوں میں بھوک کے بعد سب سے بڑا داعیہ ہوتا ہے۔ اب جو معاشرہ اتنے زبردست داعیہ کو بے لگام چھوڑ دے اوراس کو بے لگام کرنے کے اسباب لباس، نشست وبرخواست، ہیجان انگیز لباس اور ماحول سب کچھ مہیا کرادے، پھر امید کرے کہ سب ٹھیک ٹھاک رہے گا تو کیا عقلاً ممکن ہے۔ اتنا سب خلافِ فطرت رویہ اپناکر ہم اچانک مشرقی بھی بن جاتے ہیں۔ بیٹی کو کسی کے ساتھ دیکھ لیا، اسے قتل کردیا، بیوی کو دیکھ لیا آگ لگادی، محبوبہ کو کسی کے ساتھ بات کرتے دیکھ لیا تیزاب ڈال دیا، یہ سب کیا ہے۔ یا تو مکمل جانور بن جانا چاہیے (بے غیرت بے حس) اور اگر غیرت، حس، عزت، آبرو نامی الفاظ کے معانی بھی قدروقیمت رکھتے ہیں، تو ان الفاظ کی آبرو بھی رکھنی ہوگی۔ منافقانہ طرزِ عمل جو ہم نے آج اپنا رکھا ہے کہ فتنہ وفساد کے تمام اسباب مہیا کرادو اور پھر ”کھلاپن“ اور مخلوط معاشرہ بھی پروان چڑھایا جائے اورامید رکھی جائے کہ کوئی گھورے گا نہیں، چھیڑے گا نہیں، چھوئے گا نہیں، آنکھوں سے اشارہ بھی نہیں کرے گا، جسم سے بھی اشارہ نہیں کرے گا ، کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا انسانی تاریخ میں کبھی بھی ایساہوا ہے؟ کیا آج کا نام نہاد مغربی یا مغرب زدہ معاشرہ اسی فساد کی آخری انتہاؤں پر پہنچ کر واپسی کی راہ نہیں تلاش رہا ہے؟ کیا آج پھر وہاں ”بنیادوں کی طرف واپسی“ کی لہر نہیں چل رہی؟ جس روش سے اس کے موجد ہی عاجز ہوکر پناہ مانگ کر تائب ہورہے ہیں، اس روش کی اندھی نقل کرنے پر ہمیں کون مجبور کررہا ہے؟ اس مہم کو چلانے والے مغرب کی وظیفہ خوار، کارپوریٹ میڈیا، میک اپ کا سامان بنانے والی کمپنیوں کے اربوں روپیہ کے مقابلہٴ حسن اور اشتہارات اور اِن کے خریدے ہوئے نام نہاد حقوقِ نسواں کے دعویدار، ماڈلنگ کے نام پر سماج میں جسم کی نمائش کو پروان چڑھانے والے میڈیا گروپ، اسکول، تعلیمی ادارہ وغیرہ وغیرہ ہی اصل میں خواتین کے خلاف ہورہی زیادتیوں اور اخلاقی فساد وجنسی بے راہ روی کے لیے ذمہ دار ہیں۔ ان تمام طاقتوں کے خلاف خواتین کے ہر حقیقی بہی خواہ کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، ورنہ سماج میں کسی کی بھی عزت وآبرو، جان ومال محفوظ نہیں رہے گی۔ صرف سخت قوانین ہی نہیں؛ بلکہ حفاظتی تدابیر اختیار کرنی بھی ضروری ہے، جو کہ اصلاً فطرت کا منشاء بھی ہے۔
***

آزادی کی آڑ میں پیغمبرِانقلاب کی تعلیمات میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ بس غلامی کے طوق کو اتار پھینکنے سے تمہاری آخرت سنور جائے گی اور بس!





مذہبی آزادی - بقائے باہم کا ایک درخشاں اصول

(قرآن وسنت کے تناظر میں)









اسلام ایک استدلالی وعقلی اور مبرہن ومدلل مذہب ہے۔ جسے مالک الملک نے ایک اصول وضابطے کی شکل میں کائنات انسانی میں بسنے والے لوگوں کے لئے طے کرکے دنیا میں اتار دیا ہے۔ یہ انسان کے لئے زندگی کے تمام تر شعبہ جات میں اس کی مکمل رہنمائی کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا، اس کی تبلیغ و دعوت کے اصول حکمت و دانشمندی، وعظ و تلقین اور بحث ومباحثہ پر قائم ہیں۔ پیغمبراسلام صلى الله عليه وسلم پر جو صحیفہٴ ربانی نازل ہوا، اس نے سب سے پہلے عقل انسانی کو مخاطب کیا۔اور غور وفکر، فہم و تدبر کی دعوت دی کہ اسلام اپنی کسی بھی تعلیم کو لوگوں پر زبردستی نہیں تھوپتا ہے۔ بلکہ وہ لوگوں کو غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ حق وباطل کے امتیاز کو واضح کرتا ہے۔ ضلالت وگمراہی اور نجات و فلاح کے راستے سے لوگوں کو روشناس کراتا ہے پھر یہ کہ جو مذہب اپنی ترویج واشاعت کے لئے دعوت و تبلیغ، ارشاد و تلقین کا راستہ اختیار کرنے اور سوچنے سمجھنے کا لوگوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھلا کیوں کسی مذہب کے پیروکاروں کو جبر وکراہ کے ذریعہ اپنے مذہب میں داخل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور زور زبردستی اختیار کرے گا۔متعصبین اور معاندین اسلام اس کی اشاعت کو فتوحات اور ملکی محاربات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھک رہی ہے کہ، اسلام کو بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ اسلام نے اپنی ذاتی خوبیوں اور محاسن سے لوگوں کو اپنا مطیع فرمان نہیں بنایا بلکہ اپنی طاقت و قوت سے جبر واکراہ کے ذریعہ دین اسلام کا قلاوہ ان کی گردن میں ڈال دیا ہے اور اسی جبر واکراہ نے امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ رضا ورغبت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ لیکن ہم تعلیمات اسلام کی روشنی میں اس قسم کی مسموم ذہنیت رکھنے والوں کے باطل خیالات کو پرکھیں گے، کہ قرآنی آیات اور تعلیمات نبوی صلى الله عليه وسلم میں مذہبی آزادی کے سلسلہ میں کیا احکام وتعلیمات موجود ہیں اوراسلام کے ماننے والے ان تعلیمات پر کتنا عمل پیراہوئے ہیں۔



اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو طویل معرکہ آرائیوں سے سابقہ پڑا ہے۔ ان کے یہ محاربات جارحانہ ہوں یا مدافعانہ، فتوحاتِ ملکی کے لئے ہوں یا اعلاء کلمة اللہ کے لئے، ان تمام محاربات و فتوحات کا مقصد اور حاصل یہ نہ تھا کہ کسی کو بزورِ شمشیر اور حکومت و اقتدار کے بل بوتے پر مسلمان بنایا جائے اسلام نے تو صرف اور صرف اپنی خوبیوں اور محاسن سے عالم میں رسوخ اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس نے جس تیزی کے ساتھ اقوام وملل کے اذہان و قلوب کو مسخر کیا اس طرح کی نظیر دوسرے مذاہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ یہ بات کہ اسلام میں کوئی زور و زبردستی نہیں ہے، اس کو ثابت کرنے کے لئے شریعت اسلام کے اصول، رسول صلى الله عليه وسلم کے اوصاف وخصائل اخلاق حمیدہ وطریقہ تعلیم اور پھر آپ کے بعد آپ کے صحابہ کا طرز عمل یہ ساری چیزیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ شریعت اسلام نے بہ زور و تخویف کسی کو مسلمان بنانے کی سخت ممانعت کی ہے قرآن کی متعدد آیات اس بات پر شاہد عدل ہیں۔



(۱) لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت ویومن باللّٰہ فقد استمسک بالعروة الوثقٰی لا انفصام لہا واللّٰہ سمیع علیم. (سورہ البقرة ۲۵۶)



ترجمہ: زبردستی نہیں ہے دین کے معاملہ میں بے شک جدا ہوچکی ہے ہدایت گمراہی سے اب جب کوئی نہ مانے گمراہ کرنے والوں کو اور یقین لائے اللہ پر تو اس نے پکڑلیا حلقہ مضبوط جو ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ جانتا اور سنتا ہے۔



(۲) افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین. (یونس ۹۹)



ترجمہ: کیا تو زبردستی کرے گا لوگوں پرکہ ہوجائیں با ایمان۔



(۳) ولا تسبو الذین یدعون من دون اللّٰہ فیسبو اللّٰہ عدواً بغیر علم. (الانعام۱۰۸)



ترجمہ: اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا بس وہ برا کہنے لگیں گے بربنائے دشمنی بغیر جانے۔



(۴) ولو شاء ربک لجعل الناس امة واحدة ولا یزالون مختلفین الا من رحم ربک ولذٰلک خلقہم وتمت کلمة ربک لأملئن جہنم من الجنة والناس اجمعین. (ہود:۱۱۸-۱۱۹)


ترجمہ: اوراگر چاہتا تیرا رب تو بنادیتا لوگوں کو ایک جماعت اور لوگ ہمیشہ باہم اختلاف کرتے رہیں گے مگر جن پر رحم کیا تیرے رب نے اور اسی واسطے ان کو پیدا کیا اور پوری ہوئی بات تیرے رب کی کہ البتہ بھر دوں گا دوزخ جنوں سے اور آدمیوں سے اکٹھے۔

(۵) ولو شاء ربک لآمن من فی الارض کلہم جمیعا افانت تکرہ الناس حتّٰی یکونوا موٴمنین. (یونس۹۹)

ترجمہ: اوراگر تیرا رب چاہتا بے شک ایمان لے کر آتے جتنے لوگ کہ زمین میں ہیں سارے۔

(۶) ولو شاء اللّٰہ ما اشرکوا. (الانعام:۱۰۷)

ترجمہ: اوراگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے۔

(۷) ان نشأ ننزل علیہم من السماء آیة فظلت اعناقہم لہا خاضعین. (الشعراء:۴)

ترجمہ: اگر ہم چاہیں تو اتار دیں ان پر آسمان سے ایک نشانی پھر ہوجائیں ان کی گردنین ان کے آگے نیچی۔

(۸) انک لا تہدی من احببت ولکن اللّٰہ یہدی من یشاء وہو اعلم بالمہتدین. (القصص:۵۶)

ترجمہ: تو راہ پر نہیں لاسکتا جس کو تو چاہے لیکن اللہ راہ پر لاتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے جو راہ پر آئیں گے۔

(۹) وما انت علیہم بجبار فذکر بالقرآن من یخاف وعید. (ق:۴۵)

ترجمہ: تو نہیں ہے ان پر زور کرنے والا سو تو سمجھا قرآن سے اس کو جوڈرے میرے ڈرانے سے۔

(۱۰) فذکر انما انت مذکر لست علیہم بمصیطر. (الغاشیہ: ۲۱-۲۲)

ترجمہ: سو تو سمجھائے جا تیرا کام سمجھانا ہے تو نہیں ہے ان پر مسلط۔

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسانوں کو ارادہ واختیار کی آزادی دی ہے۔ اور رد و قبول کے فیصلوں کو اس کے ہاتھوں سونپ دیا ہے۔ دین ومذاہب کے سلسلے میں وہ بالکل آزاد ہیں۔ چاہے تو قبول کرکے اپنی دنیا وآخرت کو سنواریں،اور چاہے تو انجامِ بد کے لئے تیار ہوجائیں۔ کیونکہ اسلامی ریاست کے ذریعہ ان پر زور زبردستی، طاقت وقوت اور جبر واکراہ اور حکومت واقتدار کا استعمال کرکے اپنا ہم مذہب بنانا ناجائز ہے۔ اسی لئے تمام انبیاء ورسل کو اللہ نے پیغام رساں بنایا اور انہیں حکم دیا کہ صرف میرا پیغامِ حق ان تک پہنچادو، تم پھر اپنے فرضِ منصبی سے آزاد ہو۔ تمہارا کام صرف پیغام رسانی کا ہے۔ وہ اپنے مذہبی رسم ورواج، دین ومذہب کے افعال واعمال کی ادائیگی میں قطعی طور پر کسی کے پابند نہیں ہیں حق و باطل کا فیصلہ تو ہم کریں گے۔ لا اکراہ فی الدین کی آیت کے ذیل میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں:

”لا یتصور الاکراہ فی ان یومن احد اذ الاکراہ الزام الغیر فعلا لایرضی بہ الفاعل وذا لایتصور الا فی افعال الجوارح واما الایمان فہو عقد القلب وانقیادہ لایوجد بالاکراہ“ (تفسیرمظہری،ج:۱، ص:۲۸۰)

کسی کے ایمان قبول کرنے کے باب میں مجبور کرنے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ مجبور کرنے کا مطلب ہے کسی کے سر ایسا کام تھوپ دیا جس کو وہ ناپسند کرتا ہے لہٰذا یہ چیز افعال وجوارح میں تو پائی جاسکتی ہے لیکن ایمان جو تصدیق قلبی اور انقیاد محض کا نام ہے دباؤ کے ساتھ نہیں پایا جاسکتا ہے۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:

”اس اصل عظیم کا اعلان کہ دین واعتقاد کے معاملے میں کسی طرح کا جبر واکراہ جائز نہیں۔ دین کی راہ دل کے اعتقاد و یقین کی راہ ہے۔اور اعتقاد دعوت وموعظت سے پیداہوسکتا ہے نہ کہ جبر واکراہ سے۔ احکامِ جہاد کے بعد بھی یہ ذکر اس لئے کیاگیا تاکہ واضح ہوجائے کہ جنگ کی اجازت ظلم وتشدد کے انسداد کے لئے دی گئی ہے نہ کہ دین کی اشاعت کے لئے۔ دین کی اشاعت کا ذریعہ ایک ہی ہے اور وہ دعوت ہے۔ (مولانا ابوالکلام آزاد: ترجمان القرآن ص:۲۳۲ جلد دوم)

اس میں کچھ تردد شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم خداوندی اور عہدنامہٴ رسول کی پاسداری کی ہے بلکہ ان احکامات ومعاہدات کے مطیع و فرمانبردار بن کر رہے اور ان کا پورا پورا حق ادا کیا۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین نے مختلف اقوام وملل سے جو معاہدے کیے اور ان کے ساتھ جو صلح نامے تیار کئے ان میں ہمیں اسلام کی وسعت نظری کا اندازہ اور دریادلی کا ثبوت ملتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ غیر اقوام کے لوگوں نے بھی اس چیز کو تسلیم کیا ہے۔ کہ اسلام کس طرح سے غیر مذاہب کے لوگوں کا ادب واحترام محفوظ رکھتا ہے انھیں کس طرح سے مذہبی آزادی، معاشرتی و تجارتی آزادی کی چھوٹ دیتا ہے۔ بطور مثال کچھ معاہدات وصلح نامہ حوالہٴ قرطاس کئے جاتے ہیں اہل نجران کی درخواست پر نبی صلى الله عليه وسلم نے جو انہیں صلح نامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔“

ولنجران وحاشیتہم جوار اللّٰہ وذمة محمد النبی صلی اللّٰہ علی انفسہم وملتہم، وارضہم واموالہم وغائبہم وشاہدہم وغیرہم وبعثہم وامثلتہم لا یغیر ما کانوا علیہ ولا یغیر حق من حقوقہم. (فتوح البلدان ص ۷۳)

ترجمہ: نجران کے عیسائیوں اور ان کے ہمسایوں کے لئے پناہ اللہ کی اور محمد نبی صلى الله عليه وسلم کا عہد ہے ان کے جانوں کے لئے۔ ان کے مذہب ان کی زمین، ان کے اموال، ان کے حاضر وغائب، ان کے اونٹوں ان کے قاصدوں،اور ان کے مذہبی نشانات سب کے لئے جس حالات پر وہ اب تک ہیں اسی پر بحال رہیں گے۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق اور نشانات میں سے کوئی نشان نہ بدلا جائے گا۔

حضرت عمر نے اہل بیت المقدس کو جو صلح نامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ اس طرح ہیں:

اعطاہم امانا لانفسہم واموالہم ولکنائسہم وصلبانہم وسقیمہا وبریہا وسائر ملتہا انہ لا یسکن کنائسہم ولا تہدم ولا ینتقص منہا ولا من صلبہم ولا من مثئی من اموالہم ولا یکرہون علی دینہم ولا یضار احد عنہم. (تاریخ طبری فتح المقدس، ج۴، ص۱۵۹)

ترجمہ: ان کو امان دی ان کی جان ومال اور ان کے کنیسوں اور صلیبوں اور ان کے تندرستوں اور بیماروں کے لئے یہ امان ایلیا کی ساری ملت کے ہے۔عہد کیاجاتا ہے کہ ان کے کنیسوں کو مسلمانوں کا مسکن نہ بنایا جائے گا اور نہ ہی ان کو منہدم کیا جائے گا۔ نہ ان کے احاطوں اور ان کی عمارتوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے اموال میں سے کسی چیز کو نقصان پہنچایا جائے گا ان پر دین کے معاملے میں کوئی جبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو ضرر پہنچایاجائے گا۔

۱۴ھ میں فتح دمشق کا واقعہ پیش آیا حضرت خالد بن ولید نے اس موقع سے جو امان نامہ لکھ کر اہل دمشق کو دیا اس کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:

اعطاہم امانا علی انفسہم واموالہم وکنائسہم وسور مدینتہم لا یہدم ولا یسکن شیٴ عن دورہم. (فتوح البلدان ص ۱۲۷-۱۲۸)

ان کو امان دی ان کی جان ومال کے لئے اوران کے کنیسوں اور ان کے شہر کے فصیل کے لئے ان کے مکانات میں سے نہ کوئی توڑا جائے گا اورنہ ہی مسلمانوں کا مسکن بنایا جائے گا۔

حضرت خالد بن ولید نے اہل عانات کو صلح نامہ لکھ کردیا تھا۔

لایہدم لہم بیعة ولا کنیسة وعلی ان یضربوا نواقیسہم فی ای ساعة شاوٴا من لیل او نہار الا فی اوقات الصلاة وعلی ان یخرجوا الصلبان فی ایام عیدہم. (فتوح البلدان ص۸۶)

ان کاکوئی معبد اور کوئی گرجا گھر منہدم نہ کیا جائے گا رات دن میں جس وقت چاہیں اپنے ناقوس بجائیں مگر اوقات نماز کا احترام ملحوظ رکھیں ان کو حق ہوگا کہ اپنے ایام عیدمیں صلیب نکالیں۔

اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ عزت واحترام کا معاملہ کیا اور ان کا کتنا پاس ولحاظ رکھا۔ اگر انھوں نے اسلامی ریاست میں رہنا قبول کرلیا اور ان سے عہد وپیمان ہوچکا تو۔ اب ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری قرار پائی۔ اب کسی طرح کی ظلم وزیادتی کا ان کو شکار نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اس کا اندازہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے۔

الا من ظلم معاہدًا وانتقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخد منہ شیئاً بغیر طیب نفس فانا حجیجہ یوم القیامة. (ابوداؤد : حدیث نمبر ۳۰۵۲)

”خبردار جس کسی نے معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کی استطاعت سے زیادہ اس سے کام لیا۔ اس کی رضا کے بغیر اس کی کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جھگڑوں گا۔ (القرطبی، الجامع لاحکام القرآن ج:۸، ص:۱۱۵)

حضرت ابوبکررضى الله تعالى عنه جس کسی لشکر کو روانہ فرماتے اس کو یہ ہدایت دیتے تھے:

ولا تہدموا بیعة ولا تقتلو الولدان ولا الشیوخ ولا النساء وستجدون اقوامًا حبسوا انفسہم فی الصوامع فدعوہم، وما حبسوا انفسہم لہ وستجدون آحرین اتخد الشیطان فی روٴوسہم افحاصًا فاذا وجدتم اولیک فاضربوا اعناقہم.

کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنھوں نے اپنے آپ کو گرجا گھروں میں محبوس کررکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ ان کے علاوہ تمہیں کچھ دوسرے لوگ ملیں گے جو شیطانی سوچ کے حامل ہیں جب تمہیں ایسے لوگ ملیں تو ان کی گردنیں اڑادینا۔ (البیہقی، السنن الکبریٰ، جلد ۹، ص:۸۵، عبدالرزاق المصنف ۵-۱۹۹)

ایک فعہ حضرت عمرو بن عاص ولی مصر کے بیٹے نے ایک غیرمسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفہ وقت امیرالمومنین حضرت عمر رضى الله تعالى عنه کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو انھوں نے سرعام گورنرمصر کے بیٹے کو اس غیرمسلم مصری سے سزادلوائی اور ساتھ ہی فرمایا تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔

حضرت عمر رضى الله تعالى عنه نے بیت المقدس کے کلیسا کے ایک گوشے میں نماز پڑھی پھر خیال آیا کہ کہیں مسلمان میری نماز کو حجت قرار دے کر عیسائیوں کو نکال نہ دیں اسلئے ایک خاص عہد نامہ لکھواکر بطریق (پادری) کو دیا۔ جس کی رو سے کلیسا کو عیسائیوں کیلئے مخصوص کردیاگیا۔ اور یہ پابندی لگادی گئی کہ ایک ہی مسلمان کلیسا میں داخل ہوسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔ (اسلامی ریاست، امین احسن اصلاحی،ص:۲۹)

علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

”حضرت عبداللہ بن عباس کا فتوی بھی اس لحاظ سے تھا کہ اس وقت تک مسلمان اور دوسری قومیں اچھی طرح ملی بھی نہیں تھیں۔ لیکن جب یہ حالت نہیں رہی، تو وہ فیصلہ بھی نہیں رہا۔ چنانچہ خاص اسلامی شہروں میں اکثریت کے ساتھ گرجا، بت خانے، آتش کدے بنے کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا۔ بغداد خاص مسلمانوں کا آباد کیا ہوا شہر ہے۔ وہاں کے گرجوں کے نام مجمع البلدان میں کثرت سے ملتے ہیں۔ قاہرہ میں جو گرجے بنے وہ مسلمانوں ہی کے عہد میں بنے۔ (رسائل شبلی)

اسلام قطعی طور پر مذہب کے سلسلہ میں جبر واکراہ کو سرے سے خارج قرار دیتا ہے۔ اس لئے کہ اسلام صرف ظاہری و روایتی رسوم کا نام نہیں ہے بلکہ وہ لوگوں کے دلوں کو اپنی دعوت و تبلیغ کا نشیمن بنانا چاہتا ہے۔ وہ انسان کے خرمن دل کو نور ایمانی سے منور کرنا چاہتا ہے۔ کیسا اسلام اسے درکار ہے کیسے دین و مذہب کا متقاضی ہے سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:

”اسلام کی دو حیثیت ہے ایک حیثیت میں وہ دنیا کے لئے اللہ کا قانون ہے۔ دوسری حیثیت میں وہ نیکی و تقویٰ کی جانب ایک دعوت اور پکار ہے۔ پہلی حیثیت کا منشاء دنیا میں امن قائم کرنا ہے اس کو ظالم و سرکش انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچانا اور دنیا والوں کو اخلاق وانسانیت کے حدود کا پابند بنانا ہے۔ جس کے لئے قوت وطاقت کے استعمال کی ضرورت ہے لیکن دوسری حیثیت میں وہ قلوب کا تزکیہ کرنے والا ارواح کو پاک وصاف کرنے والا، حیوانی کثافتوں کو دور کرکے بنی آدم کو اعلیٰ درجہ کا انسان بنانے والا ہے۔ جس کے لئے تلوار کی دھار نہیں بلکہ ہدایت کا نور، دست و پاکا انقیاد نہیں بلکہ دلوں کا جھکاؤ اور جسموں کی پابندی نہیں بلکہ روحوں کی اسیری درکار ہے۔اگر کوئی شخص سرپر تلوار چمکتی ہوئی دیکھ کر لا الٰہ الا اللہ کہہ دے مگر اس کا دل بدستور ماسوی اللہ کا بتکدہ بنارہے تو دل کی تصدیق کے بغیر یہ زبان کا اقرار کسی کام کا نہیں اسلام کے لئے اس کی حلقہ بگوشی قطعاً بیکار ہے۔ (الجہاد فی الاسلام،ص:۱۶۵)

علامہ سید سلیمان ندوی اپنے مقالہ ”ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کیوں کر ہوئی“ میں لکھتے ہیں: ”تمام دنیا کے مذاہب میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے یہ فلسفہ دنیا میں ظاہر کیا کہ ”مذہب یقین کا نام ہے اور یقین تلوار کی دھار اور نیزہ کی نوک سے نہیں پیدا کیا جاسکتا“ (بحوالہ غیرمسلموں سے تعلقات اور مذہبی رواداری، مفتی سرور فاروقی، جمعیت پیام امن)

آپ صلى الله عليه وسلم اور سلاطین اسلام مذہبی آزادی اور رواداری کے ایسے نقوش چھوڑ گئے جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا کی (قدیم وجدید تاریخ) قاصر ہے غزوئہ خیبر میں جو مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا تھا اس میں توریت کے متعدد نسخے تھے۔ یہودیوں نے درخواست کی وہ ان کو عطا کردئیے جائیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا کہ یہ سب صحیفے ان کے حوالے کردئیے جائیں۔ یہودی فاضل ڈاکٹر اسرائیل ولفنسون اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔

”اس واقعہ سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان مذہبی صحیفوں کا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دل میں کس درجہ احترام تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی اس رواداری اور فراخ دلی کا یہودیوں پر بڑا اثر پڑا۔ وہ آپ کے اس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتے کہ آپ نے ان کے صحیفوں کے ساتھ کوئی ایسا سلوک نہیں کیا جن سے ان کی بے حرمتی لازم آتی ہو۔ اس کے بالمقابل انہیں یہ واقعہ بھی خوب یاد ہے کہ جب رومیوں سے یروشلم کو سن ۷۰ قبل مسیح میں فتح کیا تھا تو انھوں نے ان مقدس صحیفوں کو آگ لگادی اور ان کو اپنے پاؤں سے روندا۔ اسی طرح متعصب نصرانیوں نے اندلس میں یہودیوں پر مظالم کے دوران توریت کے صحیفے نذر آتش کئے یہ ہے وہ عظیم فرق جو ان فاتحین (جن کا ابھی ذکر گذرا ہے) اور اسلام کے نبی کے درمیان ہمیں نظر آتا ہے۔ (تاریخ الیہود فی بلاد العرب ص۱۷۰) (ماخوذ رسول اللہ کی انسانیت نوازی عبدالعلیم حبیب ندوی، ادارہ احیاء علم لکھنوٴ)

ایک اور فاضل موٴرخ مسٹرجیسن جو ایک بے باک تاریخ داں ہیں جنھوں نے موجودہ دور کے تمام عیسائیوں اور مسلم موٴرخوں کی تحریروں کا بہت ہی باریک بینی سے اور ناقدانہ مطالعہ کیا ہے، لکھتے ہیں:

”آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے نہایت فراخدلی کے ساتھ اسلامی مملکت میں آباد عیسائیوں کی جان، ان کی تجارت اور ان کے مال واسباب اور مذہبی امور کی ادائیگی اور ہر قسم کے تحفظ کی ضمانت دے دی۔ اور رواداری کے اصول پر نہ صرف خلفائے راشدین ہی نے پوری سختی سے عمل کیا تھا بلکہ تمام عرب حکمراں بھی رواداری کے اس اصول پر کاربند رہے۔ اسلام اورمسلمانوں کے عروج کی تاریخ رواداری، بے توجہی اور ان کے اعلیٰ قدروں کو اجاگر کرنے کی تاریخ ہے۔ اس دور کی مسلمانوں کی سلطنتیں ستم رسیدہ، یہودیوں،اور نسطوری، یعقوبی اور دوسرے عقائد رکھنے والے عیسائیوں کی پناہ گاہ تھیں اور ان کے مذہبی عقائد سے اختلاف کے باوجود مسلم ممالک میں انھیں پناہ لینے کی کھلی آزادی تھی۔ بلکہ انھیں مذہبی فرائض کی ادائیگی اور اپنی عبادت گاہوں کو تعمیر کرنے کی بھی آزادی حاصل تھی“۔ (بحوالہ اسلام اور رواداری ص:۵۹، دعوت، دہلی ۱۳ ستمبر ۱۹۸۳/)

ہملٹن نامی ایک انگریز سیاح جو باشاہ عالمگیر کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا وہ اپنے سفرنامے میں مختلف شہروں کا عینی مشاہدہ درج کرتے ہوئے شہر ٹھٹھ کے متعلق لکھتا ہے:

”حکومت کا مسلمہ مذہب اسلام ہے۔ لیکن تعداد میں اگر دس ہندو ہیں تو ایک مسلمان ہے، ہندوؤں کے ساتھ مذہبی رواداری پوری طرح برتی جاتی ہے۔ وہ اپنے برت رکھتے ہیں، پوجا پاٹ کرتے ہیں اور تہواروں کو اسی طرح مناتے ہیں جیسے کہ اگلے زمانے میں مناتے تھے۔ جبکہ بادشاہت ہندوؤں کی تھی۔ (سفرنامہ ہملٹن، ج:۱، ص:۱۲۷-۱۲۸)

سرولیم میور نے لکھا:

”رسول خدا نے بنی حارث اور نجران کے پادریوں کو پوری مذہبی آزادی دینے کا اقرار کیا تھا۔ وہ اپنے طریقے پر اپنے گرجاؤں میں جس طرح چاہیں عبادت کریں بشپ اور راہب اپنی جگہ پر بحال رہیں جب تک یہ لوگ امن وامان کے ساتھ رہیں ان کے ساتھ کچھ تعرض نہ ہوگا۔ (لائف آف محمد جلد دوم ص۲۹۹)

دین ومذہب کے سلسلے میں مسلمانوں کے ساتھ دوسری اقوام نے کیا سلوک و برتاؤ کیا، کس طرح سے انھیں مذہبی جبر واکراہ کا شکار بنایا اس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں آج تک محفوظ ہے۔ کہ اندلس کی سرزمین پر مسلمانوں نے کئی سو سال تک حکومت کی اور وہاں کے چپہ چپہ پر اسلامی تہذیب وثقافت کی یادگاریں قائم کیں۔ لیکن جب حکومت واقتدار ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور ادبار نے ان کو آگھیرا تو عیسائیوں نے ان کے ساتھ کیسی سفاکی و درندگی کا مظاہرہ کیا۔ ایک انگریز مورخ کی زبانی سنئے وہ لکھتا ہے:

”غرناطہ کے سقوط کے بعد ان تمام عربوں کی موت تھی۔ جنھوں نے اسپین پر سات سو اکیاسی (۷۸۱) سال (۷۱۱-۱۴۹۲) تک حکومت کی، فردی ننڈ سے معاہدہ تو ضرور ہوگیا تھا۔ لیکن اس پر عمل کرنے کا اس کا مطلق ارادہ نہ تھا۔ اس نے غرناطہ پر قبضہ کرلیا۔ یہی اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ وہ اپنی سیاسی زندگی میں ذاتی مفاد کی خاطر ہر چیز کو قربان کرسکتا تھا۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ عربوں کو مجبور کرے گا کہ وہ اپنے مذہب اور طرز زندگی کو ترک کرکے یہاں کے باشندوں میں ضم ہوجائیں۔ وہ اپنے مذہبی قوانین میں تبدیلی اس طرح کرتا رہا کہ سارے مسلمان کیتھولک بنے رہیں۔ مسلمانوں پر عبادت کرنے کی پابندی عائد کی گئی۔ پھر وہ کھل کر اس اعلان کے ساتھ سامنے آگیا کہ وہ مسلمان جو عیسائیت قبول نہ کریں ملک بدر کردئیے جائیں۔ غرناطہ میں کہرام مچ گیا، مگر کوئی سماعت نہیں ہوئی مسلمان گرجا جاتے عیسائیوں کی طرح عبادت کرتے، مگر گھر آکر توبہ استغفار کرتے۔ “ (ہسٹری آف دی ورلڈ جلد ششم حصہ دوم ص ۲۵۸)

سنگدلی اور بے رحمی کی یہی تاریخ صقلیہ میں بھی دہرائی گئی۔ جہاں عربوں نے دوسوسال تک حکومت کی تھی۔ لیکن جب ۱۰۷۲ میں پلرمو کی لڑائی میں شکست ہوئی تو جس طرح مسلمانوں کو تباہ کیا وہ بھی ایک موٴرخ کی زبانی سنئے:

”پلرمو میں پانچ سو مسجدیں تھیں، ان کو منہدم کرکے گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا۔ وہاں علماء صوفیا اور حکماء کی جتنی قبریں تھیں، سب نیست و نابود کردی گئیں۔ چارلس دوم کے زمانے میں سسلی کے مسلمانوں کو زبردستی عیسائیوں کا بپتسہ دیاگیا۔ نوسیرا اور بوسیرا کے مسلمانوں کی تعداد اسّی (۸۰) ہزار تھی ان کو زبردستی عیسائی بنالیاگیا۔ ساری جگہیں مسلمانوں سے خالی کرالی گئیں۔ (ہسٹری آف ورلڈ ۹۰/۸۲)

اسلام نے دوسرے مذاہب وادیان کے ماننے والوں کو کتنا عزت وتوقیر سے نوازا، ان کو کس طرح کی مذہبی آزادی دی اور کس طرح ان کے حقوق کا پاس ولحاظ رکھا۔ اس کے بالمقابل مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے کیا طریقہ کار اپنایا کس طرح سے ان کی عزت وناموس سے کھلواڑ کیا اور ان کے مذہبی حقوق کو چھین لیا۔ اور ان کو اپنا دین ومذہب ماننے پر مجبور کیا۔ ہم نے انھیں کی زبانی مندرجہ بالا سطروں میں ملاحظہ کیاہے۔ یہ ہے وہ واضح فرق اسلام میں اور دوسرے ادیان ومذاہب میں اسلام جیسی وسعت قلبی دنیا آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے۔

قرآن کریم اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور خلفاء راشدین وسلاطین اسلام نے مذہبی آزادی کے معاملے میں جس وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے اور جتنا انھوں نے دین ومذہب کے سلسلہ میں استغنا سے کام لیا اس کی مثال اور کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ دوسرے مذہب کی تعلیمات میں اور ان کے ماننے والوں میں مذہبی امور کو انجام دینے کی اس طرح کی آزادی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ مذہبی آزادی اسلام میں کتنی ہے اس کے ثبوت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے کوئی کمیٹی یا کوئی ادارہ قائم نہیں کیاگیا۔ اسلامی ریاست میں یہود ونصاریٰ پوری آزادی کے ساتھ مذہبی امور کو ادا کرتے تھے ان کو بھی ملت اسلامیہ میں وہی حقوق حاصل تھے جو خود مسلمانوں کو حاصل تھے ان کے جان ومال کی وہی قدروقیمت تھی جو ایک مسلمان کے جان ومال کی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے اگر اس قسم کی تدبیریں کی جاتیں جو دوسرے ادیان و مذاہب کی ترویج واشاعت کیلئے اختیار کی گئی ہیں، تو بلاد اسلام میں کسی غیر مذہب یا اس کے ماننے والوں کا وجود بھی باقی نہ رہتا۔ اسلام کی ذاتی خوبیوں اور سادہ تعلیم کے ساتھ اگر سامانِ رضا ورغبت کو بھی جمع کردیا جاتا تو کیا ایک بھی ایسا انسان باقی رہ جاتا جو اسلام کو قبول نہ کرلیتا۔ کیا جس طرح ”اندلس“ (اسپین) جیسا وسیع ملک جہاں کروڑوں مسلمان تھے پھر مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔ روم، شام، عراق، ہند وسندھ وغیرہ اور خود ”اندلس“ کا ہی حال پامال نہ ہوتا، تاآنکہ سوائے اسلام کے دوسرے مذاہب وادیان کا نام و نشان مٹ چکاہوتا، لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا۔

بہرحال اسلام نے مساوات اور مذہبی آزادی کے وہ فراخدل اصول وضابطے تیار کیے جن کی وجہ سے سلطنت اسلامیہ کے عروج کے زمانہ میں یہودی وعیسائی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے تھے اور بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے میں مسلمانوں سے مزاحمت کرتے تھے۔
***



No comments:

Post a Comment