شکوہ-شکایت کا سبب»
(1)غم وپریشانی یا (2)رنج ودکھ پہنچنے کی وجہ سے شکوہ-شکایت ہوتی ہے۔
شکوہ-شکایت کرنے کا مقصد»
غم اور رنج کا مداوا-علاج کرنا۔
جائز شکوہ-شکایت»جو مخلوق سے نہیں، خالق سے کی جائے۔
القرآن:
قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یعقوب نے کہا : میں اپنے رنج و غم کا شکوہ (فریاد) (تم سے نہیں) صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔
[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 86]
تفسیر(امام)ابن کثیر:
(اللہ کے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کے) بچوں نے باپ کا یہ حال دیکھ کر انہیں سمجھانا شروع کیا کہ ابا جی آپ تو اسی کی یاد میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ اگر آپ کا یہی حال کچھ دنوں اور رہا تو کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ حضرت یعقوب نے انہیں جواب دیا کہ میں تم سے تو کچھ نہیں کہہ رہا میں تو اپنے رب کے پاس اپنا دکھ رو رہا ہوں ۔ اور اس کی ذات سے بہت امید رکھتا ہوں وہ بھلائیوں والا ہے ۔ مجھے یوسف کا خواب یاد ہے ، جس کی تعبیر ظاہر ہو کر رہے گی۔
تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:
(اپنے بیٹے)یوسف کے غم میں روتے روتے یعقوب کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں (یعنی) آنکھوں کی سیاہی زائل ہوکر سفیدی میں تبدیل ہوگئی تھی، وہ دل ہی دل میں گھٹ رہے تھے (یعنی) مغموم بے چین تھے، اپنی بے چینی کا اظہار نہیں کرتے تھے، بیٹوں نے کہا: واللہ! آپ تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہو گے یہاں تک کہ اپنے طولِ مرض کی وجہ سے لب جان ہوجائیں گے، یا ہلاک ہی ہوجائیں گے۔ (یعقوب) نے ان سے کہا: میں تو اپنی پریشانی اور دکھ کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں نہ کہ کسی اور سے (بث) اس شدید غم کو کہتے ہیں کہ جس پر صبر نہ کیا جا سکے، یہاں تک کہ لوگوں کو بھی اس کا علم ہوجائے۔ ایک وہی ذات ایسی ہے کہ اسی سے فریاد فائدہ دے سکتی ہے اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم واقف نہیں ہو اس بات سے کہ یوسف (علیہ السلام) کا خواب سچا ہے اور وہ زندہ ہے۔
نوٹ:
صبرِ جمیل کے منافی اگر کوئی شکایت ہے تو وہ خالق کی آزمائش ومصیبت کی شکایت مخلوق سے کرنا ہے۔ لہٰذا مخلوق کی شکایت خالق سے کرنا یہ صبرِ جمیل کے منافی نہیں بلکہ عین دعاء والتجا ہے۔
مخلوق کی شکایت مخلوق سے کرنا: یہ دو قسم کی ہے:
(1)ظلم کی حق شکایت کرنا۔
(2)بلاوجہ ناحق شکایت کرنا۔
بیماری میں جزع فزع کی ممانعت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: " قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنَ , فَلَمْ يَشْكُنِي إِلَى عُوَّادِهِ أَطْلَقْتُهُ مِنْ إِسَارِي ثُمَّ أَبْدَلْتُهُ لَحْمًا خَيْرًا مِنْ لَحْمِهِ , وَدَمًا خَيْرًا مِنْ دَمِهِ، ثُمَّ يَسْتَأنِفُ الْعَمَلَ.
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ: میں جب اپنے مومن بندے کو (بیماری میں) مبتلا کرتا ہوں اور وہ عیادت کرنے والوں سے میری شکایت نہ کرے، تو میں اسے اپنی قید سے آزاد کردیتا ہوں، پھر اس کے گوشت کے بدلہ میں اچھا گوشت اور خون کے بدلہ اچھا خون لگا دیتا ہوں، پھر وہ ازسرنو عمل شروع کردیتا ہے۔
[حاکم:1290، بیھقی:6548، الصحيحة:272]