شکوہ کے معنیٰ اظہارِ غم ہے۔
[المفردات فی غریب القرآن-امام الراغب اصفھانی]
قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یعقوب نے کہا : میں اپنے رنج و غم کا شکوہ (فریاد) (تم سے نہیں) صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔
[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 86]
یعنی کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بےصبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے بھیجے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حد پر پہنچ کر بس ہو۔
صبرِ جمیل کے منافی اگر کوئی شکایت ہے تو وہ خالق کی آزمائش ومصیبت کی شکایت مخلوق سے کرنا ہے۔ لہٰذا مخلوق کی شکایت خالق سے کرنا یہ صبرِ جمیل کے منافی نہیں بلکہ عین دعاء والتجا ہے۔
نبوی دعائے شکوہ»
جب ابوطالب وفات پاگئے تو رسول اللہ ﷺ اپنے پیروں کے بل لوگوں کے پاس آئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے جواب بھی نہ دیا، پھر آپ لوٹے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی اور یہ دعا کی:
اے اللہ! میں شکوہ کرتا ہوں تجھ سے اپنی کمزوری کی اور حیلہ و تدبیر میں کمی کی اور لوگوں کے نزدیک اپنے بےوقعت ہونے کی۔ اے ارحم الراحمین! آپ مجھے کس کے حوالہ کرتے ہیں، ایسے دشمن کے جو مجھے دیکھ کر ترش رو ہوتا ہے؟ یا ایسے قریبی عزیز کے پاس جس کو تو نے میرے معاملات کا مالک بنادیا لیکن اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں۔ تیری عافیت میرے لیے کافی ہے۔ میں پناہ چاہتا ہوں تیرے چہرے کے نور کے طفیل، جس کی بدولت آسمان روشن ہوگئے تاریکیوں کے پردے چھٹ گئے اور دنیا و آخرت کے معاملے سلجھ گئے، کہ مجھ پر تیرا غضب اترے یا تیری ناراضگی اترے۔ تیری خوشامد فرض ہے حتی کہ تو راضی ہو اور ہر طرح کی طاقت و قوت تیرے ساتھ ہے۔
[طبراني:181، الاحاديث المختارة:162، مجمع الزوائد:9851]
[کنزالعمال:3613+3756+5120]