Sunday, 28 July 2024

جائز اور ناجائز شکوہ-شکایت کا بیان

شکوہ کے معنیٰ اظہارِ غم ہے۔

[المفردات فی غریب القرآن-امام الراغب اصفھانی]


قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞ 

ترجمہ:

یعقوب نے کہا : میں اپنے رنج و غم کا شکوہ (فریاد) (تم سے نہیں) صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔

[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 86]

یعنی کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بےصبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے بھیجے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حد پر پہنچ کر بس ہو۔


صبرِ جمیل کے منافی اگر کوئی شکایت ہے تو وہ خالق کی آزمائش ومصیبت کی شکایت مخلوق سے کرنا ہے۔ لہٰذا مخلوق کی شکایت خالق سے کرنا یہ صبرِ جمیل کے منافی نہیں بلکہ عین دعاء والتجا ہے۔




نبوی دعائے شکوہ»

جب ابوطالب وفات پاگئے تو رسول اللہ ﷺ اپنے پیروں کے بل لوگوں کے پاس آئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے جواب بھی نہ دیا، پھر آپ لوٹے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی اور یہ دعا کی:

اے اللہ! میں شکوہ کرتا ہوں تجھ سے اپنی کمزوری کی اور حیلہ و تدبیر میں کمی کی اور لوگوں کے نزدیک اپنے بےوقعت ہونے کی۔ اے ارحم الراحمین! آپ مجھے کس کے حوالہ کرتے ہیں، ایسے دشمن کے جو مجھے دیکھ کر ترش رو ہوتا ہے؟ یا ایسے قریبی عزیز کے پاس جس کو تو نے میرے معاملات کا مالک بنادیا لیکن اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں۔ تیری عافیت میرے لیے کافی ہے۔ میں پناہ چاہتا ہوں تیرے چہرے کے نور کے طفیل، جس کی بدولت آسمان روشن ہوگئے تاریکیوں کے پردے چھٹ گئے اور دنیا و آخرت کے معاملے سلجھ گئے، کہ مجھ پر تیرا غضب اترے یا تیری ناراضگی اترے۔ تیری خوشامد فرض ہے حتی کہ تو راضی ہو اور ہر طرح کی طاقت و قوت تیرے ساتھ ہے۔

[طبراني:181، الاحاديث المختارة:162، مجمع الزوائد:9851]

[کنزالعمال:3613+3756+5120]


Thursday, 25 July 2024

ایمان کے معانی، فضائل، بنیادی ارکان اور اعمالِ کمالِ ایمان


مسلمانوں کی سربلندی کا واحد سبب»

ایمان رکھنا۔

القرآن:

(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 139]


تفسیر:

جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز و سامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہیے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بےمقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بیخبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرت ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرت ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہیے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔

Wednesday, 24 July 2024

بائیکاٹ-قطع تعلق کے معنیٰ، مقاصد، اقسام اور دلائل

 بائیکاٹ(boycott) کے معنیٰ:

مقاطعہ کرنا۔ مواصلات ترک کرنا ۔ تَعلُقات توڑ دینا ۔ ملنا جلنا ترک کرنا۔

بائیکاٹ(boycott) کے مقاصد:
(1)ظالم کی قوت توڑنا۔ (2)برائی سے باز رہنے کیلئے پریشر ڈالنا۔

بائیکاٹ(boycott) کے اقسام:
(1)معاشی (2)معاشرتی۔

یہ بات واضح رہے کہ موجودہ زمانے میں کسی بھی قوم و ملت کی سیاسی اور عسکری برتری  کی بنیاد معاشی ترقی اور معاشی برتری پر ہے، جب تک معاشی طور پر کوئی قوم مضبوط اور مختار نہ ہو اس وقت تک  وہ سیاسی اور عسکری طور پر کمزور ہوتی ہے، یہ بات ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں اگر کسی قوم کو کمزور کرنا ہو تو سب سے پہلے ان کی معیشت کو کمزور کیا جائے اور موجودہ زمانے میں اس کا مؤثر طریقہ کار ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے جس سے (1)ان کی معیشت پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے (2)اور مظلوم کے ساتھ یک جہتی اور ہمدردی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ مسلمانوں نے اس طریقہ کار  کو  ماضی قریب میں بھی اپنایا جب انگریزوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے لیے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف تحریکِ خلافت اور ترکِ موالات کی تحریک  چلائی، اسی طرح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفارِ قریش کے زور کو توڑنے کےلیے ان کے تجارتی قافلوں کے راستے جس پر شام سے مکہ اور مکہ سے شام تجارتی قافلوں کی آمد و رفت ہوتی تھی کو غیر محفوظ بنایا جس کے نتیجے میں غزوہ بدر  پیش آیا۔
[حوالہ»سورۃ الانفال:7، صحیح بخاری:3950+3951، صحیح مسلم:4915، سنن ابوداؤد:2618]
[صحیح مسلم:1935(4999)، سنن ابوداؤد:3840]



اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنونضیر کا محاصرہ کیا اور ان کے قلعے فتح نہیں ہورہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درختوں کے جلانے حکم دیا۔ اسی طرح جب حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ، جو نجد کے سردار تھے اور کفار قریش کو گندم فروخت کیا کرتے تھے، نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے کفارِ قریش پر گندم فروخت کرنا بند کردیا تھا۔
[حوالہ»سورۃ الحشر:5، صحیح بخاری:4372+4589، صحیح مسلم:1764(4589)، السنن الکبریٰ للبیھقی:12835+18030]

اسی طرح جب صلحِ حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ کو اور  صلحِ حدیبیہ کے بعد حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کیا جو کفارِ مکہ کی قید سے بھاگ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچے تھے تو انہوں نے مکہ سے شام جانے والے ایک راستے پر اقامت اختیار کی اور اس راستے سے کفار مکہ کا جو بھی تجارتی قافلہ گزرتا اس پر حملہ کردیتے جس سے کفار کی  قافلوں کی آمد و رفت بند ہوگئی۔
[حوالہ»صحیح بخاری:2731-2733+4182، سنن ابوداؤد:2765، السنن الکبریٰ للبیھقی:18833، المعجم الاوسط للطبرانی:15]

مذکورہ واقعات  اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کفار کی ان تجارتی اداروں اور مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا جو مسلمانوں کے خلاف  جنگ میں اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہیں  کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے اور ایمانی حمیت بھی اسی کا متقاضی ہے۔

تفصیلی حوالا جات:

بخاری شریف میں ہے:

"أنه لما كاتب رسول الله صلى الله عليه وسلم سهيل بن عمرو يوم الحديبية على قضية المدة، وكان فيما اشترط سهيل بن عمرو أنه قال: لا يأتيك منا أحد وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، وخليت بيننا وبينه. وأبى سهيل أن يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا على ذلك، فكره المؤمنون ذلك وامعضوا، فتكلموا فيه، فلما أبى سهيل أن يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا على ذلك، كاتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرد رسول صلى الله عليه وسلم أبا جندل بن سهيل يومئذ إلى أبيه سهيل ابن عمرو، ولم يأت رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد من الرجال إلا رده في تلك المدة، وإن كان مسلما."

(کتاب المغازي، باب:غزوۃ الحدیبیة، ج:4، ص:1532، ط:دار ابن کثیر دمشق)

وفیه أیضا:

"بعث النبي صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد، فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال، فربطوه بسارية من سواري المسجد، فخرج إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (ما عندك يا ثمامة). فقال: عندي خير يا محمد، إن تقتلني تقتل ذا دم، وإن تنعم تنعم على شاكر، وإن كنت تريد المال، فسل منه ما شئت. فترك حتى كان الغد، فقال: (ما عندك يا ثمامة). فقال: ما قلت لك، إن تنعم تنعم على شاكر فتركه حتى كان بعد الغد  فقال: ما عندك يا ثمامة فقال: عندي ما قلت لك فقال: (أطلقوا ثمامة). فانطلق إلى نخل قريب من المسجد، فاغتسل ثم دخل المسجد، فقال: أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا رسول الله، يا محمد، والله ما كان على الأرض وجه أبغض إلي من وجهك، فقد أصبح وجهك أحب الوجوه إلي، والله ما كان من دين أبغض إلي من دينك، فأصبح دينك أحب دين إلي، والله ما كان من بلد أبغض إلي من بلدك، فأصبح بلدك أحب البلاد إلي، وإن خيلك أخذتني، وأنا أريد العمرة، فماذا ترى؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه وسلم وإمرة أن يعتمر، فلما قدم مكة قال له قائل: صبوت، قال: لا، ولكن أسلمت مع محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا والله، لا يأتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى يأذن فيها النبي صلى الله عليه وسلم."

(کتاب المغازي، باب:وفد بني حنیفة و حدیث ثمامة  ابن أثال، ج:4،ص:1589، ط:دار ابن کثیر دمشق)

السیرۃ الحلبیہ میں ہے:

"يريد عيرا لقريش متوجهة للشام. يقال إن قريشا جمعت جميع أموالها في تلك العير لم يبق بمكة لا قرشي ولا قرشية له مثقال فصاعدا إلا بعث به في تلك العير إلا حويطب بن عبد العزى، يقال إن في تلك العير خمسين ألف دينار أي وألف بعير. وكان فيها أبو سفيان، أي قائدها. وكان معه سبعة وعشرون وقيل تسعة وثلاثون رجلا منهم مخرمة بن نوفل، وعمرو بن العاص، وهي العير التي خرج إليها حين رجعت من الشام. وكان سببا لوقعة بدر الكبرى كما سيأتي."

(باب ذكر مغازيه صلی اللہ علیه و سلم، غزوۃ العشیرۃ، ج:2، ص:175، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

وفیه أیضا:

"ثم إن العير التي خرج صلى الله عليه وسلم في طلبها حتى بلغ العشيرة ووجدها سبقته بأيام لم يزل مترقبا قفولها: أي رجوعها من الشأم، فلما سمع بقفولها من الشام ندب المسلمين» أي دعاهم وقال: «هذه عير قريش فيها أموالهم فاخرجوا إليها لعل الله أن ينفلكموها، فانتدب ناس» ، أي أجابوا «وثقل آخرون أي لم يجيبوا لظنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يلق حربا، ولم يحتفل لها رسول الله صلى الله عليه وسلم أي لم يهتم بها، بل قال «من كان ظهره» : أي ما يركبه «حاضرا فليركب معنا» ولم ينتظر من كان ظهره غائبا عنه."

(باب ذكر مغازیه صلی اللہ علیه و سلم، باب غزوۃ بدر الکبری، ج:2، ص:197، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت)

وفیه أیضا:

"وأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقطع النخل، أي وبحرقها بعد أن حاصرهم ست ليال وقيل خمسة عشر يوما: أي وقيل عشرين ليلة، وقيل ثلاثا وعشرين ليلة، وقيل خمسا وعشرين ليلة. وكان سعد بن عبادة رضي الله تعالى عنه في تلك المدة يحمل التمر للمسلمين: أي يجاء به من عنده. قال: واستعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم على قطع النخل أبا ليلى المازني وعبد الله بن سلام. وكان أبو ليلى يقطع العجوة وعبد الله يقطع اللين."

(باب مغازیه صلی اللہ علیه و سلم، غزوۃ بني النضیر، ج:2، ص:359، ط:دارالکتب العلمیة بیروت)

نورالیقین فی سیرۃ سید المرسلین میں ہے:

"وقد تمكن أبو بصير عتبة بن أسيد الثقفي رضي الله عنه من الفرار إلى رسول الله، فأرسلت  قريش في أثره رجلين يطلبان تسليمه، فأمره عليه الصلاة والسلام بالرجوع معهما، فقال يا رسول الله: أتردّني إلى الكفّار يفتنونني في ديني بعد أن خلصني الله منهم؟! فقال: إن الله جاعل لك ولإخوانك فرجا، فلم يجد بدّا من اتّباعه، فرجع مع صاحبيه، ولمّا قارب ذا الحليفة عدا على أحدهما فقتله، وهرب منه الاخر، فرجع إلى المدينة وقال: يا رسول الله وفت ذمتك أما أنا فنجوت، فقال له اذهب حيث شئت ولا تقم بالمدينة، فذهب إلى محل بطريق الشام تمرّ به تجارة قريش، فأقام به، واجتمع معه جمع ممن كانوا مسلمين بمكّة ونجوا، وسار إليه أبو جندل بن سهيل، واجتمع إليه جمع من الأعراب، وقطعوا الطريق على تجارة قريش حتى قطعوا عنهم الأمداد."

(السنة السادسة، صلح الحدیبیة، ص:172، ط:دارالفیحاء دمشق)

فقط واللہ اعلم


Saturday, 20 July 2024

تحفہ(عطیہ، ھدیہ، ھِبہ) لینے دینے کے آداب

 

ھدیہ دینے والے کے آداب»

(1)اخلاص سے ہدیہ دینا۔

محبت بڑھانے کا نسخہ

حضرت ابوھریرہ ؓ ﴿عائشہ ؓ﴾ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تهادوا تحابوا ﴿وتذهب الشحناء﴾ إن الهدية تذهب وحر الصدر

ترجمہ:

آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے آپس میں محبت ﴿زیادہ﴾ ہوگی۔ ﴿اور عداوت ختم ہوگی﴾۔ کیونکہ ہدیہ دل کا کینہ و عداوت ختم کرتا ہے۔
[الصحيحة:2306،  الإرواء الغليل:1601]

[مسند احمد:9239، الادب المفرد-للبخاري:594، سنن الترمذي:2130، مسند الطيالسى:2333، مسند ابويعلي:6148، شعب الإيمان-للبیھقي:8976، السنن الکبریٰ للبیھقی:11946+11947]

﴿موطا مالک:694، مشكاة المصابيح:4693﴾

﴿جامع الاحاديث-للسيوطي:11015+11016﴾

Friday, 12 July 2024

دین کیا ہے؟ اور دیندار کون؟


دین کے معانی

دین کے مختلف معانی ہیں:

(1) طاعت یعنی اپنے اختیار سے فرمانبرادی ہے، قرآن میں ہے :۔ 

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ
بےشک دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔
[سورۃ آل عمران:19]

(2) جزا یعنی بدلہ، ایک جگہ قرآن مجید میں ہے:
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
بدلہ والے دن کا مالک ہے۔
[سورۃ الفاتحہ:4]

(3) شریعت یا طریقت یعنی زندگی گذارنے کا اصول و ضابطہ، قرآن میں ہے:-
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ۔۔۔
اس(اللہ)نے تمہارے لیے دین کا رستہ مقرر کیا۔
[سورۃ الشوریٰ:13]

لفظ شریعت کا مادہ ش۔ر۔ع ہے اور اس کا لغوی معنی ہے وہ سیدھا راستہ جو واضح ہو۔

[امام راغب اصفهانی، مفردات القرآن : 259]



گگگگگگ

Wednesday, 10 July 2024

بھوک (الجوع) کے فضائل


بھوک کی آزمائش کس کیلئے اور کیوں؟

القرآن:

اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155]


حضرت ابوھریرہ‌ؓ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔

[الصحيحة:1615(3539)، المعجم ابن الأعرابي:21]

Tuesday, 9 July 2024

پل صراط کا بیان

القرآن:

اور تم میں سے کوئی نہیں ہے جس کا اس پر گزر نہ ہو۔ اس بات کا تمہارے پروردگار نے حتمی طور پر ذمہ لے رکھا ہے۔

[سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 71]


«يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثمَّ يصدون مِنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ فَأَوَّلُهُمْ كَلَمْحِ الْبَرْقِ ثُمَّ كَالرِّيحِ ثُمَّ كَحُضْرِ الْفَرَسِ ثُمَّ كَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِهِ ثُمَّ كَشَدِّ الرَّجُلِ ثُمَّ كَمَشْيِهِ»

تمام لوگ آگ (پل صراط) پر وارد ہوں گے، پھر وہ اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے پار ہوں گے، ان میں سے سب سے پہلے بجلی چمکنے کی مانند گزر جائیں گے، پھر ہوا کی مانند، پھر تیز رفتار گھوڑے کی مانند، پھر سواری پر سوار کی مانند، پھر دوڑنے والے آدمی کی مانند اور پھر پیدل چلنے والے کی مانند (اس پل سے گزریں گے جو کہ جہنم پر نصب ہو گا)۔

[سنن الترمذي:3159، احمد:4141، الحاكم:8741، الدارمي:2810، الصحیحہ:311]

موسوعة التفسير المأثور:47014،سورۃ مریم:71




Thursday, 4 July 2024

خودکشی کرنے والے"مسلمان"کیلئے دعائے بخشش کرنے، کافر نہ ہونے اور نماز جنازہ پڑھنے کا امکان

 امام احمد کہتے ہیں کہ:

*خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ امام(راہنما-حاکم) نہ پڑھائے، لیکن غیر امام(عوام) پڑھیں گے۔*

[سنن الترمذی:1068]

حوالہ

آپ ﷺ نے فرمایا:

۔۔۔رہا میں تو میں اس کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھوں گا۔*

[سنن النسائی:1966، سنن ابوداؤد: 3185]


تاکہ اس سے دوسروں کو نصیحت ہو۔

[سنن ابن ماجہ:1526]


۔۔۔اور اہلِ توحید(مسلمان) میں سے ہر مرحوم کی نمازِ جنازہ ادا کرنا، اگرچہ اس نے خودکشی کی ہو۔

[سنن دارقطنی: حدیث#1745]


القرآن:

بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔۔۔

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 48]

تفسیر:

یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے ؛ لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرکے توحید پر ایمان لے آئے۔

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰