شکوہ کے معنیٰ اظہارِ غم ہے۔
[المفردات فی غریب القرآن-امام الراغب اصفھانی]
قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یعقوب نے کہا : میں اپنے رنج و غم کا شکوہ (فریاد) (تم سے نہیں) صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔
[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 86]
یعنی کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بےصبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے بھیجے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ مجھ پر آزمائش ہے دیکھوں کس حد پر پہنچ کر بس ہو۔
صبرِ جمیل کے منافی اگر کوئی شکایت ہے تو وہ خالق کی آزمائش ومصیبت کی شکایت مخلوق سے کرنا ہے۔ لہٰذا مخلوق کی شکایت خالق سے کرنا یہ صبرِ جمیل کے منافی نہیں بلکہ عین دعاء والتجا ہے۔
شکوہ-شکایت کی دو اقسام ہیں:
(1)حق (2)ناحق
حق شکایات کے فوائد:
شکایات چھوڑ دینا صلح واصلاح کے امکانات کو ختم کردیتا ہے۔
تعلقات کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ دل کی بات کھول کر بیان کی جائے۔
درستگی کرنا اور شکوہ کر کے دل کی بات کہہ دینا، قطع تعلق سے بہتر ہے۔
اللہ سے ڈرنے کی علامت»سیدھی بات کہنا۔
القرآن:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِيۡدًا ۞
ترجمہ:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی-سچی بات کہا کرو۔
[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 70]
۔۔۔وَقُوۡلُوۡا لَهُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ۞
ترجمہ:
۔۔۔ اور ان سے معروف-مناسب (انداز میں) بات کرو۔
[سورۃ آلنساء:5]
حق (Rightful) اور ناحق (Wrongful) شکوہ وشکایت کے فوائد اور نقصانات
1. حق شکوہ (Rightful Complaint) کے دائمی فوائد:
- انصاف کی بحالی:
- مسئلے کا حل:
- معاشرتی بہتری:
- ذاتی تسکین:
---
3. ناحق شکوہ (Wrongful Complaint) کے فوائد (محدود-عارضی):
- توجہ حاصل کرنا:
- غیر ارادی فائدہ:
4. ناحق شکوہ کے نقصانات:
- اعتماد کا خاتمہ:
- بے جا تنقید:
- قانونی نتائج:
- معاشرتی بگاڑ:
---
5. اسلامی نقطہ نظر:
- حق شکوہ کی حوصلہ افزائی:
- ناحق شکایت کی مذمت:
---
6. متوازن راستہ:
- حق بات کہنا:
- گھٹیا شکایات سے پرہیز:
- مشورہ اور ثبوت:
جائز شکوہ-شکایت» جو مخلوق کے بجائے خالق سے کی جائے۔
القرآن:
قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یعقوب نے کہا : میں اپنے رنج و غم کا شکوہ (فریاد) (تم سے نہیں) صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔
[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 86]
تفسیر(امام)ابن کثیر:
(اللہ کے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کے) بچوں نے باپ کا یہ حال دیکھ کر انہیں سمجھانا شروع کیا کہ ابا جی آپ تو اسی کی یاد میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ اگر آپ کا یہی حال کچھ دنوں اور رہا تو کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ حضرت یعقوب نے انہیں جواب دیا کہ میں تم سے تو کچھ نہیں کہہ رہا میں تو اپنے رب کے پاس اپنا دکھ رو رہا ہوں ۔ اور اس کی ذات سے بہت امید رکھتا ہوں وہ بھلائیوں والا ہے۔ مجھے یوسف کا خواب یاد ہے ، جس کی تعبیر ظاہر ہو کر رہے گی۔
تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:
(اپنے بیٹے)یوسف کے غم میں روتے روتے یعقوب کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں (یعنی) آنکھوں کی سیاہی زائل ہوکر سفیدی میں تبدیل ہوگئی تھی، وہ دل ہی دل میں گھٹ رہے تھے (یعنی) مغموم بے چین تھے، اپنی بے چینی کا اظہار نہیں کرتے تھے، بیٹوں نے کہا: واللہ! آپ تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہو گے یہاں تک کہ اپنے طولِ مرض کی وجہ سے لب جان ہوجائیں گے، یا ہلاک ہی ہوجائیں گے۔ (یعقوب) نے ان سے کہا: میں تو اپنی پریشانی اور دکھ کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں نہ کہ کسی اور سے (بث) اس شدید غم کو کہتے ہیں کہ جس پر صبر نہ کیا جا سکے، یہاں تک کہ لوگوں کو بھی اس کا علم ہوجائے۔ ایک وہی ذات ایسی ہے کہ اسی سے فریاد فائدہ دے سکتی ہے اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم واقف نہیں ہو اس بات سے کہ یوسف (علیہ السلام) کا خواب سچا ہے اور وہ زندہ ہے۔
نوٹ:
مخلوق کی شکایت مخلوق سے کرنا: یہ دو قسم کی ہے:
(1)ظلم کے خلاف شکایت کرنا۔
(2)ناحق شکایت کرنا۔
اصلاح کیلئے خفیہ شکایات کرنا جائز ہے۔
القرآن:
لوگوں کی بہت سی خفیہ سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہوتی، الا یہ کہ کوئی شخص صدقے کا یا کسی نیکی کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے۔ اور جو شخص اللہ کی خوشنودی حاصل کے کرنے کے لیے ایسا کرے گا، ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے۔
[سورۃ النساء، آیت نمبر 114]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
المؤمِنُ مرآةُ المؤمِنِ"
مومن آئینہ ہے مومن کا۔
[أبوداوٗد:4918]
إِذَا رَأَى فِيهَا عيبا أصلحه۔
جب وہ دیکھے اس میں کوئی عیب تو اسکی اصلاح-درستگی کردے۔
[الادب المفرد-للبخاری:238]
عیب والے ہی کو عیب بتانا اور شکوہ وشکایت کرنا، یہ دراصل اصلاح کی خواہش کا اظہار ہے، جو تعلق کی بقا ومضبوطی کیلئے ضروری ہے۔
۔
ظالم کی اعلانیہ شکایت بیان کرنا جائز ہے۔
القرآن:
اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے، الا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو۔ اور اللہ سب کچھ سنتا، ہر بات جانتا ہے۔
[سورۃ النساء:148]
تفسیر:
کسی کی برائی بیان کرنا عام حالات میں جائز نہیں، البتہ اگر کسی پر ظلم ہوا ہو تو وہ اس ظلم کا تذکرہ لوگوں سے کرسکتا ہے، اس تذکرے میں ظالم کی جو برائی ہوگی معاف ہے۔