فرقة النّاجية : نجات یافتہ فرقہ


ناجیہ فرقہ ایک ہوگا۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ افْتَرَقَتْ عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَأَنْتُمْ تَفْتَرِقُونَ عَلَى مِثْلِهَا كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا فِرْقَةً۔

ترجمہ:

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور تم بھی اتنے ہی فرقوں میں تقسیم ہوجاؤ گے اور سب جہنم میں جائیں گے  سوائے ایک فرقے کے۔

[مسند احمد:12208]




فرقہ ناجیہ کون؟

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَفْتَرِقُ هَذِهِ الْأُمَّةُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً» . قَالُوا: وَمَا تِلْكَ الْفِرْقَةُ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي»۔
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک﷽ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ امت تہتر فرقوں پر الگ ہوگی، سب آگ میں ہوں گے سوائے ایک کے۔ پوچھا گیا: وہ "فرقہ" کون سا ہوگا؟ فرمایا: جس (فرقہ) پر میں ہوں آج کے دن اور میرے صحابہ ہیں۔
[المعجم الاوسط:4886+7840، المعجم الصغیر:724]


اسنادہ حسن(اس حدیث کی سند اچھی ہے).

[الأحادیث المختارۃ-امام المقدسی:2733]


تشریح:

قرآن مجید کی واضح ادھوری آیتوں سے بھی گمراہی کی دلیل نکالنا ممکن ہے۔

جیسے:

لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ...مت قریب جاؤ نماز کے

اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ...عمل کرو جو چاہو تم

فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ...تو عبادت کرو جس کی چاہو تم

قرآنی گواہی:

*۔۔۔اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو ھدایت دیتا ہے اور اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، اور نہیں وہ(الله)گمراہ کرتا اس کے ذریعے سے مگر نافرمانوں ہی کو۔*

[سورۃ البقرۃ:26]




گمراہی کی دلیل پکڑنے کا طریقہ:

قرآن مجید کا جو معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر الله کے رسول کے صحابہ سے اماموں نے بیان نہیں کیا، بعد کے کسی شخص نے کیا، تو وہ جدید معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر غلط اور گمراہی کی ہے۔

دلیلِ قرآن:

اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت(قرآن) واضح ہونے کے بعد بھی رسول(سنت) کی مخالفت کرے، اور مومنوں(یعنی صحابہ کی جماعت-اجماع) کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

[سورۃ النساء:115]


اسلام میں فرقے کیسے بنائے گئے؟

(1)قرآن مجید کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہوئے، قرآن پہنچانے والوں یعنی رسول ﷺ کی تفسیر اور رسول ﷺ کے علم کے وارث(محافظ) جماعت یعنی صحابہ وعلماء کی متفقہ باتوں/طریقوں کی مخالفت کرنا (2)صرف اپنے خیال وخواہش سے من مانی تشریحات اور نئی نئی باتوں کو لانا/پھیلانا (3)فرقہ واریت کے خاتمہ کے دعوے کے ساتھ اپنے فرقہ کا خود مقرر کیا ہوا علیحدہ نام۔پہچان مشہور کرنا۔






فرقہ کے معنیٰ جماعت یا گروہ کے ہیں. یہ لفظ "فرق" سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ الگ کرنا، جدا ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں فرقہ کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ کسی بھی مذہب ، جماعت (سیاسی یا مذہبی) یا گروپ کا ذیلی حصہ ہوتا ہے جو اپنے الگ خیالات و نظریات کی وجہ سے الگ جانا جاتا ہے۔

[آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا]

ٰ


التفریق اصل میں کسی چیز کے شیرازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا:
يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ....جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں
[سورة البقرة:102]
اور فرقہ یعنی بڑی جماعت سے جدا ہونے والا گروہ۔
[دیکھئے:-سورہ الانعام:159، الروم:32، آل عمران:104]
تفرقہ یعنی صراط مستقیم جیسی بڑی شاہراہ کو چھوڑکر چھوٹے جدا راستے اختیار کرنا۔
[دیکھئے:- سورہ الانعام:153]
علم وآیات سے بغاوت کرنا ہے۔
[دیکھئے:- سورہ الشوری:14، الجاثیہ:17]
اور فرقان یعنی جدا کرنے والا۔ قرآن کو فرقان کہا کیونکہ وہ حق وباطل میں فرق کردیتا ہے۔
[دیکھئے:- سورة البقرة:145، آل عمران:4، الانفال:9]




دو بنیادی فرقے:
القرآن:
وہی(اللہ) ہے جس نے تمہیں بنایا پھر کوئی تم میں کافر (یعنی انکار کرنے والا) ہے اور کوئی تم میں مومن (یعنی ماننے والا) ، اور الله دیکھتا ہے جو تم کرتے ہو۔
[سورۃ التغابن:2]
چونکہ حق اور باطل(ناحق)، ہدایت اور گمراہی، نیکی اور برائی ایک دوسرے کی ضد بلکہ مخالف ہیں، اسی طرح ایمان والے اور کفر والے ایک دوسرے سے جدا(فرقے)رہیں گے۔
جیسے:
پاک-پانی اور پلیت-پیشاب کے ملنے سے پانی پاک نہیں رہتا، سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ سے وہ سچ نہیں رہتا۔۔۔۔۔ایسے ہی مومن یا تو خالص مومن رہے گا ورنہ وہ(منافق) کل قیامت میں رب کی عدالت میں کافر(انکاری) والا بدلہ ہمیشہ جہنم پائے گا۔
[حوالہ سورۃ النساء:40]
بلکہ سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔
[حوالہ سورۃ النساء:145]
لہٰذا اصلاح ودرستگی یہ نہیں کہ حق کو چھوڑکر باطل(ناحق) سے جڑا جائے بلکہ اصلاح ودرستگی تو یہ ہے کہ ناحق چھوڑکر حق کے ساتھ جڑا جائے۔


(1)ہدایت یافتہ فرقہ اور (2)گمراہ فرقہ:
القرآن:
ایک فرقہ کو ہدایت کی اور ایک فرقہ پر مقرر ہوچکی گمراہی(کیونکہ)انہوں نے بنایا شیطانوں کو رفیق الله کو چھوڑ کر اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں۔
[سورۃ الاعراف:30]
مثال ان دونوں فرقوں کی جیسے ایک تو اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا کیا برابر ہے دونوں کا حال پھر کیا تم غور نہیں کرتے۔
[سورۃ ھود:24]

‌‌اب کیا تم (اے مومنو!) توقع رکھتے ہو کہ وہ مانیں تمہاری بات اور ان میں ایک فرقہ تھا کہ سنتا تھا اللہ کا کلام پھر بدل ڈالتے تھے اس کو جان بوجھ کر اور وہ جانتے تھے۔

[سورۃ البقرۃ:75]
القرآن:
میرے بندوں میں سے ایک فرقہ یہ دعا کرتا تھا کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے ہیں، پس ہمیں بخش دیجیے، اور ہم پر رحم فرمایے، اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ہیں۔
[سورۃ المؤمنون:109]

القرآن:
اور واقعی ان لوگوں کے بارے میں ابلیس نے اپنا خیال درست پایا  چنانچہ یہ اسی کے پیچھے چل پڑے، سوائے اس فرقہ کے جو مومن تھا۔
[سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 20]
القرآن:
۔۔۔ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور ایک فرقہ بھڑکتی ہوئی آگ میں۔
[سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 7]

وأخرج أبو الشيخ ابن حيان عن علي بن أبي طالب قال: لتفترقنّ هذه الأمّة على ثلاث وسبعين فرقة كلّها في النّار إلا فرقة، يقول الله: وَمِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ، وَبِهِ يَعْدِلُونَ فهذه هي التي تنجو من هذه الأمّة.
ترجمہ:
امام ابو الشیخ ابن حیان نے حضرت علی ابن ابی طالب سے روایت نقل کی ہے کہ، انہوں نے کہا: یہ امت تہتر(73) فرقوں میں بٹ جائے گی، سوائے ایک فرقے کے سب فرقے آگ میں ہوں گے۔ اللہ نے فرمایا: اور ہماری مخلوق میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو لوگوں کو حق کا راستہ دکھاتی ہے اور اسی (حق) کے مطابق انصاف سے کام لیتی ہے۔﴿سورۃ الاعراف:181﴾ یہی وہ (فرقہ) ہو گا جو اس امت میں سے نجات پائے گا۔ 
[التفسير الدر المنثور-امام السیوطی:3 /617]
(کنزالعمال:4382، جامع الاحادیث:33046




اہل کتاب کا گمراہانہ تفرقہ:- 
(1)انبیاء میں فرق کرتے یعنی بعض کو مانتے اور بعض کا انکار کرتے۔
القرآن:
جو لوگ منکر ہیں اللہ سے اور اسکے رسولوں سے اور چاہتے ہیں کہ فرق نکالیں اللہ میں اور اسکے رسولوں میں اور کہتے ہیں ہم مانتے ہیں بعضوں کو اور نہیں مانتے بعضوں کو اور چاہتے ہیں کہ نکالیں اس کے بیچ میں ایک راہ۔
[سورۃ النساء:150]
تم کہہ دو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو (اللہ کا حکم) اترا ہم پر اور جو اترا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور اس کی اولاد پر اور جو ملا موسٰی کو اور عیسٰی کو اور جو ملا دوسرے پیغمبروں کو انکے رب کی طرف سے، ہم فرق نہیں کرتے ان سب میں سے ایک میں بھی، اور ہم اسی پروردگار کے فرمانبردار ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:136][285][آل عمران:184]

اور جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اسکے رسولوں پر اور فرق نہ کیا ان میں سے کسی کو ان کو جلد دے گا انکے ثواب اور اللہ ہے بخشنے والا مہربان۔
[سورۃ النساء:152]


(2)علم رکھتے ہوئے بھی حق چھپاتے۔
القرآن:
جن کو ہم نے دی ہے کتاب پہچانتے ہی اس (محمد ﷺ کے اللہ کا پیغمبر ہونے) کو جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور بیشک ایک فرقہ ان میں سے البتہ چھپاتے ہیں حق کو جان کر۔
[سورۃ البقرۃ:146]


علم ہوتے ہوئے بھی بےعمل(جاہل) رہتے۔
القرآن:
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول آئے جو اس (توراۃ) کی تصدیق کر رہے تھے جو ان کے پاس ہے، تو اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب (توراۃ و انجیل) کو اس طرح پس پشت ڈال دیا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے۔ (کہ اس میں نبی آخر الزماں ﷺ) کے بارے میں کیا ہدایات دی گئی تھیں) ۔
[سورۃ البقرۃ:101]

(3)اللہ کے نام جھوٹی باتیں گھڑتے۔
القرآن:
اور ان میں ایک فریق ہے کہ زبان مڑوڑ کر پڑھتے ہیں کتاب تاکہ تم جانو کہ وہ کتاب میں ہے جبکہ وہ نہیں کتاب میں، اور کہتے ہیں وہ اللہ نے کہا ہے جبکہ وہ نہیں اللہ نے کہا، اور اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں جان کر۔
[سورۃ آل عمران:78]

***********



(1)دين كو قائم نہ رکھنا تفرقہ ہے۔
القرآن:
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ طے کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا، اور جو (اے پیغمبر) ہم نے تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا (وہ یہ)کہ تم دین کو قائم کرو، اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ (پھر بھی) مشرکین کو وہ بات بہت گراں گزرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو کوئی اس سے لو لگاتا ہے اسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے۔
[سورۃ الشوریٰ:13]

{دین قائم کرو}
یعنی دین پر عمل کرو، اور دین کی دعوت دو۔
{اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو}
یعنی دین کی حد سے نہ بڑھو بلکہ دینی بھائی بنے رہو، اور دین میں اختلاف نہ کرو بلکہ ہر پیغمبر کو سچا مانو۔
[تفسير(امام)العز بن عبد السلام(م660ھ) : ج3/ ص140]

دین کو کیسے قائم رکھیں؟
الله کے خلاف کسی کا حکم نہ ماننا اور صرف اسی کی عبادت کرنا۔
[حوالہ سورۃ یوسف:40]
اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں
[حوالہ سورۃ البینہ:5]

دین پر عمل پیرا نہ رہنے والا تعمیری نہیں تخریبی ہے۔







اس دنیا میں بہت سے دین پاۓ جاتے ہیں مگر ان میں سچا دین صرف اور صرف اسلام ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ 
بےشک دین جو ہے الله کے ہاں سو یہی اسلام (یعنی حکم برداری) ہے۔
[سورۃ آل عمران:19]


وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
[سورۃ آل عمران:85]
اور جو کوئی چاہے سوائے اسلام(یعنی فرمان برداری) کے اور کوئی دین سو اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا اور وه آخرت میں خراب ہے۔


دین کے معانی:
(1)﴿لازم﴾فرمان برداری
[حوالہ سورۃ آل عمران:19 ﴿النحل:52﴾ الانفال:29]
(2)عقیدت وعبادت کا طریقہ۔
[حوالہ سورۃ الکافرون:6]
(3)بدلہ/حساب/فیصلہ
[حوالہ سورۃ الفاتحہ:3، الحجر:35، الصافات:20-21]
اعمال کا
[حوالہ سورۃ الشعراء:82]




دین کی تین بنیادیں:
القرآن:
اور انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہو کر صرف اسی کے لیے (1)خاص رکھیں، اور (2)نماز قائم کریں اور (3)زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی سچی امت کا دین ہے۔
[سورۃ نمبر 98 البينة، آیت نمبر 5]



دین کی سب سے اول بنیاد:-توحید۔
(1)پیدا کرنے والے نے جو فطری(پیدائشی)صلاحیت رکھی ہے کہ پیدا کرنے والے کو ایک اکیلی ہستی مانا جائے، اس کو نہ بدلنا۔
[سورۃ الروم:30]
یعنی اس کا انکار نہ کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ماننا۔

(2)حکم صرف اللہ کا ماننا اور اسی کی عبادت کرنا۔
[حوالہ سورۃ یوسف:40، الزمر:2-3-11]

(3)رب کے انصاف والے حکم یعنی دین کو اللہ ہی کیلئے (شرک سے) خالص بناتے ہوئے اس کیلئے سجدہ(نماز)کرنا
[حوالہ سورۃ الاعراف:29]

(4)اور اسے ہی غائبانہ مدد کیلئے پکارنا۔
[یونس:22، العنکبوت:65، لقمان:32، غافر:14-65]



توحید کے بعد دو بنیادیں:-(1)نماز(2)زکوٰۃ۔
القرآن:
لہذا اگر یہ توبہ کرلیں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو یہ تمہارے دینی بھائی بن جائیں گے۔ (10) اور ہم احکام کی یہ تفصیل ان لوگوں کے لیے بیان کر رہے ہیں جو جاننا چاہیں۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 11]
تفسیر:
(10)یہاں یہ واضح کردیا گیا کہ اگر کوئی شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اس سے بھائیوں کا سا سلوک کریں اور جو تکلیفیں اس نے اسلام لانے سے پہلے پہنچائی ہیں۔ ان کو بھلا دیں، کیونکہ اسلام اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں اور زیادتیوں کو مٹا دیتا ہے۔







کب لوگ تفرقہ ڈالتے/مخالفت کرتے ہیں؟
علم(حکم)سے بغاوت-عداوت کے سبب۔
القرآن:
اور لوگوں نے آپس کی بغاوتوں کی وجہ سے (دین میں) جو تفرقہ ڈالا ہے وہ اس کے بعد ہی ڈالا ہے جب ان کے پاس یقینی علم آچکا تھا۔ اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک معین مدت تک کے لیے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوتی تو ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ اور ان لوگوں کے بعد جن کو کتاب کا وارث بنایا گیا ہے وہ اس کے بارے میں ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے انہیں خلجان میں ڈال رکھا ہے۔
[سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 14]





جماعت سے تفرقہ»
حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُوا جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْبَرَكَةَ مَعَ الْجَمَاعَةِ۔
ترجمہ:
تم کھانا کھاؤ جمع(اکٹھا)ہوکر اور تفرقہ مت کرو(یعنی جدا جدا ہوکر مت کھاؤ)، اس لیے کہ برکت جماعت کے ساتھ(مل کر کھانے)میں ہے۔
[ابن ماجہ:3287]

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ ﴿إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَى اللَّهِ﴾ أَحْسَنُكُمْ أَخْلَاقًا، الْمُوَطَّئُونَ أَكْنَافًا، الَّذِينَ يَأْلَفُونَ وَيُؤْلَفُونَ، وَأَبْغَضَكُمْ إِلَى اللَّهِ الْمَشَّاءُونَ بِالنَّمِيمَةِ، الْمُفَرِّقُونَ بَيْنَ الْأَحِبَّةِ، الْمُلْتَمِسُونَ لِلْبُرَآءِ الْعَنَتَ»
ترجمہ:
تم میں سے اعلی اخلاق والے لوگ مجھے ﴿یا فرمایا: الله کو﴾ بےحد محبوب ہیںعاجزی کرنے والے، جو الفت رکھتے ہیں اور ان سے بھی الفت رکھی جاتی ہے۔
اور
تم میں سے الله کو وہ لوگ انتہائی ناپسندیدہ ہیں، جو چغلخور ہیں(جو)محبت کرنے والے ﴿بھائیوں﴾ کے درمیان تفرقہ(پھوٹ) ڈالتے ہیں اور گناہوں سے بری لوگوں کی"لغزشوں" کو تلاش کرنے والے ہیں.
[المعجم الأوسط،الطبراني:7697]
[المعجم الصغير،الطبراني:835]
﴿الصمت لابن أبي الدنيا:253، المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي:17، أمالي ابن بشران:513﴾
[صحيح الجامع الصغير:1231، سلسلة الأحاديث الصحيحة:751]
القرآن:
بڑی خرابی ہے اس شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پر عیب لگانے والا (اور) منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو۔
[سورۃ نمبر 104 الهمزة، آیت نمبر 1][تفسير القرطبي: 18/ 229]

طعنے دینے کا عادی ہے، چغلیاں لگاتا پھرتا ہے۔
[تفسير الثعلبي:10/ 11 سورۃ القلم:11]






جو لوگوں کو آپس میں لڑواتا ہے، وہ تعمیری نہیں تخریبی ہے۔

فرقہ واریت سے مراد#1»قومی تعصب۔
القرآن:
اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں تفرقہ(پھوٹ) نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔
[سورۃ آل عمران:103]
آیت میں فرقہ واریت سے مراد قومی تعصب سے گروہ بندی ہے۔۔۔کیونکہ جب یہ آیت نازل ہوئی تب امت میں موجودہ کوئی فرقہ نہ تھا۔
اور
یہ آیت مدینہ میں اوس اور خزرج نامی دو قبائل میں قومی تعصب یعنی ظلم میں اپنی قوم کا ساتھ دینے کے سبب نازل ہوئی۔ تفاسیر یا پوری آیت پر غور کریں۔




حَبْلِ یعنی رسی۔
[سورۃ اللھب:4]
رگ۔۔۔دل کی
[سورۃ ق:16]

الله کی رسی۔۔۔یعنی قرآن
[سورۃ آل عمران:103]
اور لوگوں کی رسی۔۔۔یعنی لوگوں کی پناہ، سہارا، حفاظت، عہد وذمہ داری
[آل عمران:112]





مضبوط پکڑے/تھامے رکھو۔۔۔۔۔
(1)الله کو
[آل عمران:101]
الله پر ایمان لانے کو
[النساء:175]
الله ہی کو مولا ومددگار ماننے کو
[الحج:78]

(2)جو حکم بھیجا گیا۔۔۔سیدھے راستے والے۔۔۔نبی کو
[الزخرف:43]
الله کے حلقے/گِرہ/کڑے۔۔۔یعنی دین کو۔
[سورۃ البقرۃ:256]
خالص الله کی رضا کیلئے دین کو
[النساء:146]
اسلام لانے اور نیک بننے کو
[لقمان:22]


(3)کتاب کو
[الزخرف:21]
الله کی رسی(کتاب الله)کو
[آل عمران:103]





















فرقہ واریت#2» بعض احکام ماننا اور بعض نہ ماننا۔
عربی گرامر کے مطابق اگر۔۔۔جَمِیْعًا۔۔۔کا "مفعول" حَبْلِ(رسی۔۔۔یعنی دین/کتاب الله) ہو تو معنیٰ ہوگا۔۔۔کہ سارے کے سارے دین/کتاب کو تھامو۔۔۔جیساکہ الله پاک نے فرمایا۔۔۔کیا پھر تم کتاب کے بعض(حصہ)پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا کفر کرتے ہو۔۔۔﴿سورۃ البقرۃ:85﴾
[تفسیر المظهري:1/106]
مثلاً: الله اور رسول میں فرق کرنا یعنی کسی کا انکار کرنا۔
[حوالہ سورۃ النساء:152+150]
رسولوں میں فرق کرنا یعنی بعض رسولوں کو ماننا اور بعض رسولوں  کا انکار کرنا
[حوالہ سورۃ البقرۃ:285+136، آل عمران:84]
مومنو! داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے۔۔۔﴿سورۃ البقرۃ:208﴾







فرقہ واریت#3»دین کو قائم نہ رکھنا۔
الله پاک نے فرمایا:
۔۔۔دین کو قائم رکھنا اور تفرقہ نہ ڈالنا اس(دین)میں۔۔۔
[سورۃ الشوریٰ:13]

دین کو کیسے قائم رکھیں؟
الله کے خلاف کسی کا حکم نہ ماننا اور صرف اسی کی عبادت کرنا
[حوالہ سورۃ یوسف:40]
اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں
[حوالہ سورۃ البینہ:5]







تفرقہ کی پہچان»
اپنی (غیرعالمانہ) رائے سے دین کو بدلنا۔

حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
میری امت ستر(70) سے زائد فرقوں میں بٹ جائے گی۔ میری امت کا سب سے بڑا فتنہ یہ ہوگا کہ(عام)لوگ اپنے رائے سے (دینی)معاملات میں قیاس کریں گے اور اپنی رائے سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کردیں گے۔
[الحاکم:6325، البزار:2755، الطبرانی:90، ابن بطۃ:272]
اشارۂ سورۃ الروم:آیۃ29-32




گمراہ فرقوں کو پہچاننے کا اصول:
جتنے بھی گمراہ لوگوں نے اسلام میں فرقے نکالے ہیں ان سب گمراہوں میں ایک بات قدر مشترک کے طور پر آپکو ملے گی، وہ یہ کہتے ہیں کہ:
ہم براہِ راست خدا کی کتاب کو سمجھیں گے اور رسول اللہ ﷺ کی احادیٹ وسنت کو اور ہمارے لئے صحابہ کرام کی سمجھ کوئی حجت ودلیل نہیں ہے۔ جس طرح کتاب وسنت ان کے سامنے تھی ویسے ہی ہمارے سامنے ہے، ہم ذاتی (رائے کے) طور پر اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔(یعنی اپنی رائے کو اسلام کہیں گے). جیسے: حضرت علی کو کافر قرار دینے والے خارجی قرآن سے دلیل دیتے۔






ناجیہ فرقہ ایک ہوگا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَفْتَرِقُ هَذِهِ الْأُمَّةُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً» . قَالُوا: وَمَا تِلْكَ الْفِرْقَةُ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي»۔
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک﷽ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ امت تہتر فرقوں پر الگ ہوگی، سب آگ میں ہوں گے سوائے ایک کے۔ پوچھا گیا: وہ "فرقہ" کون سا ہوگا؟ فرمایا: جس (فرقہ) پر میں ہوں آج کے دن اور میرے صحابہ ہیں۔
[المعجم الاوسط:4886+7840، المعجم الصغیر:724]


اسنادہ حسن(اس حدیث کی سند اچھی ہے).

[الأحادیث المختارۃ-امام المقدسی:2733]



مذہبی تفرقہ»
اجماعی واتفاقی باتوں سے علیحدگی۔
رسول الله ﷺ  نے ارشاد فرمایا:
۔۔۔اور میری امت تہتر(73)فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ اور وہ الجماعة ہے۔
[سنن ابن ماجہ:3992 صحیح]
پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:
اور مضبوطی سے تھامے رکھو اللہ کی رسی(قرآن)کو۔۔۔سب مِل کر۔۔۔اور آپس میں جدائی نہ ڈالو۔۔۔
[تفسیر الطبري:7577»سورۃ آل عمران:103]

جملَة النَّاس الَّتِي اجْتمعت على طَاعَة السُّلْطَان وبخعت بهَا برا كَانَ أَو فَاجِرًا مَا أَقَامَ الصَّلَاة كَمَا قَالَ أنس بن مَالك وَقَالَ يزِيد الرقاشِي روى عُثْمَان بن عبد الرَّحْمَن عَن عِكْرِمَة بن عمار عَن يزِيد بن ابان الرقاشِي قَالَ قلت لأنس أَيْن ‌الْجَمَاعَة ‌فَقَالَ ‌أمرائكم۔
ترجمہ:
عظیم گروہ ان لوگوں کی جماعت ہے جو سلطان کی اطاعت کے لیے جمع ہوئے اور اس کی توقیر کرے، خواہ وہ نیک ہو یا فاسق، جب تک کہ وہ نماز قائم کرے۔  جیسا کہ یزید بن ابان الرقاشی نے حضرت انس بن مالکؓ سے پوچھا: کہاں ہے جماعت؟ فرمایا: تمہارے حکم دینے والے(علماء وحکام)۔
[غريب الحديث - ابن قتيبة(م286ھ) : 1 / 319، تهذيب اللغة-الأزهري(م370ھ): 13/ 27]

امام قرطبیؒ(المتوفى: 671هـ) فرماتے ہیں:
هَذِهِ الْفِرْقَةُ الَّتِي زَادَتْ فِي فِرَقِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ قَوْمٌ يُعَادُونَ الْعُلَمَاءَ وَيُبْغِضُونَ الْفُقَهَاءَ۔
ترجمہ:
یہ زائد (73واں) فرقہ وہ ہے جو اس امتِ محمدیہ ﷺ میں ان لوگوں کا ہے جو علماء سے عداوت اور فقہاء سے بغض رکھتے ہیں۔
[الجامع لأحكام القرآن = تفسير القرطبي : 7 / 141، سورۃ الانعام:153]

قرآن ومسجد سے امت کو دور کرنے کیلئے شیطانی گروہ لوگوں کو تمام علماء یا ان کے بڑے کی تحقیر پر لگادیتا ہے۔ یہ تعمیر نہیں تخریب ہے۔







جماعتِ صحابہ سے علیحدگی، فرقہ واریت ہے»
نبی ﷺ نے فرمایا:
میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں(یعنی تابعین)کی پھر ان کے بعد آنے والوں(یعنی تبع تابعین)کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی(جھوٹی)قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی(جھوٹی)گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور تفرقہ سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے، اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے.
[ترمذی:2165]
تفسیرالثعلبي»سورة آل عمران:103


غ
غ




جماعتِ علماء سے جدائی، فرقہ واریت ہے»
رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس نے جدائی اختیار کی جماعت سے ایک بالشت بھی، تو اس نے اپنی گردن سے اسلام کا پٹہ نکال پھینکا۔
[ابوداؤد:4758، حاکم:401]
تفسیر الماتريدي،الخازن»سورۃ آل عمران:103




حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ان بنی اسرائيل افترقت علی أحد وسبعين فرقة. وان أمتی ستفترق علی ثنتين وسبعين فرقة. کلها فی النار، الا واحدة. وهی الجماعة.
ترجمہ:
یقینا بنی اسرائیل اکتہر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت یقینا بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ وہ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے۔
[سنن ابن ماجه:3991، مسند أحمد:12501]

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ أُمَّتِي لَا تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا ‌فَعَلَيْكُمْ ‌بِالسَّوَادِ ‌الْأَعْظَمِ».
ترجمہ:
بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی، پس اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اختیار کرو۔
[سنن ابن ماجه: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، حديث#3950]
[معجم الکبير-للطبرانی:13623، مکتبة ابن تيمية قاهره]
تشریح:
أي الجماعة الكثيرة. فإن اتفاقهم أقرب إلى الإجماع. قال السيوطي في تفسير السواد الأعظم أي جماعة الناس ومعظمهم الذين يجتمعون على سلوك المنهج المستقيم. والحديث يدل على أنه ينبغي العمل بقول الجمهور۔
ترجمہ:
بہت سے لوگوں کی جماعت۔ تو اگر ان کا اتفاق اجماع کے قریب تر ہے۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجه:2/ 464]
امام سیوطیؒ(م911ھ) نے [السواد الأعظم] کی تفسیر میں کہا ہے: یعنی لوگوں کی جماعت اور انکے معظم لوگ جو صراط مستقیم پر متفق ہیں۔ اور یہ حدیث دلیل ہے کہ جمہور کے قول پر عمل کرنا ضروری ہے۔
[شرح سنن ابن ماجه للسيوطي وغيره: صفحہ283]

جملَة النَّاس الَّتِي اجْتمعت على طَاعَة السُّلْطَان وبخعت بهَا برا كَانَ أَو فَاجِرًا مَا أَقَامَ الصَّلَاة كَمَا قَالَ أنس بن مَالك وَقَالَ يزِيد الرقاشِي روى عُثْمَان بن عبد الرَّحْمَن عَن عِكْرِمَة بن عمار عَن يزِيد بن ابان الرقاشِي قَالَ قلت لأنس أَيْن ‌الْجَمَاعَة ‌فَقَالَ ‌أمرائكم۔
ترجمہ:
عظیم گروہ ان لوگوں کی جماعت ہے جو سلطان کی اطاعت کے لیے جمع ہوئے اور اس کی توقیر کرے، خواہ وہ نیک ہو یا فاسق، جب تک کہ وہ نماز قائم کرے۔  جیسا کہ یزید بن ابان الرقاشی نے حضرت انس بن مالکؓ سے پوچھا: کہاں ہے جماعت؟ فرمایا: تمہارے حکم دینے والے(علماء وحکام)۔
[غريب الحديث - ابن قتيبة(م286ھ) : 1 / 319، تهذيب اللغة-الأزهري(م370ھ): 13/ 27]


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
«لَا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا» وَقَالَ: «يَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ ‌فَاتَّبِعُوا ‌السَّوَادَ الْأَعْظَمَ، فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ».
ترجمہ:
اللہ تعالی اس امت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا۔ اور فرمایا : اللہ تعالی کا دست قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:1/ 199 حدیث نمبر391، 1/ 201 حدیث نمبر396]
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة-اللالكائي:154]
[امام ابن ابی عاصم، کتاب السنة:1/ 39، حدیث نمبر80]
قرآن-النساء:115
التوبۃ:100

دوسری روایت میں ہے:
بےشک بنی اسرائیل 71 فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ 72 فرقوں میں بٹ گئے، سب گمراہی پر ہیں سواۓ سوادِاعظم کے.
پوچھا گیا:
کیا ہے سوادِ اعظم؟
فرمایا:
«مَنْ كَانَ عَلَى مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي، مَنْ لَمْ يُمَارِ فِي دِينِ اللَّهِ تَعَالَى وَلَمْ يُكَفِّرْ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ بِذَنْبٍ»
ترجمہ:
’’وہ جو اس طریقہ پر ہے جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے دین میں زیادتی نہیں کرتا اور توحید والوں میں سے کسی کو گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کرتا‘‘۔
[المعجم الكبير-للطبراني(م360ھ)حدیث نمبر7659(7551)]
[الشريعة-للآجري(م360ھ) : حدیث نمبر111]
[الإبانة الكبرىٰ-ابن بطة: حدیث نمبر532]
[ذم الكلام وأهله-الهروي(م481ھ) : 1/ 65]

حضرت نعمان بن بشیرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ منبر پر فرمایا: جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا اللہ کے انعامات و احسانات کو بیان کرنا شکر ہے اور اسے چھوڑنا کفر ہے، اجتماعیت رحمت ہے اور افتراق عذاب ہے۔
کہا: پھر حضرت ابوامامہ باہلیؓ نے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اختیار کرو۔ تو ایک شخص نے حضرت ابوامامہؓ سے پوچھا: سواد اعظم کیا ہے؟ تو حضرت ابوامامہؓ نے فرمائی(پکاری)  اس آیت کو جو سورۃ النور میں ہے:
 (ان سے) کہو کہ : اللہ کا حکم مانو اور رسول کے فرمان بردار بنو، پھر بھی اگر تم نے منہ پھیرے رکھا تو رسول پر تو اتنا ہی بوجھ ہے جس کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی ہے، اور جو بوجھ تم پر ڈالا گیا ہے، اس کے ذمہ داری تم خود ہو۔
[مسند احمد:18450+1151] 

القرآن:
کہو کہ : وہ اس بات پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (نکال دے) یا تمہیں مختلف ٹولیوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے بھڑا دے، اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ! ہم کس طرح مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں واضح کر رہے ہیں تاکہ یہ کچھ سمجھ سے کام لے لیں۔
[سورۃ الانعام:65]























فرقہ واختلاف کا حل#(1)متفقہ باتوں پر آؤ۔
القرآن:
(مسلمانو ! یہود و نصاری سے) کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، (اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو : گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 64]

امام حسن نے بیعت کے بعد امیر معاویہ کے بھرے دربار میں اپنے بنوہاشم اور اہل بیت کو سناتے ہوئے فرمایا: ”یقینا مسلمانوں کا دین کی بہت سی باتوں پر اتفاق ہے اور ان میں کوئی جھگڑا، اختلاف اور فرقہ بندی نہیں ہے۔ ان متفق علیہ چیزوں میں سے کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کا اقرار اور آپ کو خدا کا بندہ ماننا ہے۔ پانچ وقت کی نمازیں، زکوٰة، رمضان کے روزے اور حج بیت اللہ (اسلام کے ارکان خمسہ) ہیں۔ خدا کی تابعداری میں ان کے علاوہ اور بھی متفق علیہ چیزیں ہیں جن کا شمار اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ نیز مسلمان زنا، چوری، جھوٹ، خیانت اور بہت سے گناہوں کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ جن کو خدا ہی گن سکتا ہے۔ مسلمانوں کا اختلاف اگرہے تو چند سنتوں کی بابت ہے، جن میں وہ باہم لڑائی کرکے فرقے بن گئے ہیں۔ کہ ایک دوسرے کوبرا کہتے ہیں۔ اور یہ اختلافی مسئلہ ”ولایت اورحکومت کرنے کا ہے“ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے تبرا کرتے ہیں۔ اور قتل کرتے ہیں۔ ہرایک کہتا ہے کہ ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں صرف ایک فرقہ اس اختلاف سے بچا ہے جو کتاب اللہ اور سنت نبوی کا پیروکار ہے۔ پس جو شخص ان باتوں کو اپنائے، جن میں تمام اہل قبلہ کا اتفاق ہے کسی کا اختلاف نہیں اورجن باتوں میں اہل قبلہ کا اختلاف ہے ان کا علم اللہ کے حوالے کردے۔ (کسی پرکافر منافق اور غیر مومن ہونے کافتویٰ نہ لگائے کیونکہ صرف خود کو مومن جاننا دوسرے کو کافر کہنا ہے خدا فرماتا ہے: ”ہو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن“ (پارہ ۲۸ ، رکوع ۱۵) وہ دوزخ سے بچ جائیگا۔ اور جنتی ہوگا) (احتجاج طبری صفحہ ۱۴۷ طبع لکھنوٴ جلد نمبر ۲ صفحہ ۶ طبع ایران)

                ہمیں یقین ہے کہ اگر خاص مومن اپنے امام دوم کا یہ عقیدہ و عمل اپنالیں انتظامیہ قانون بنائے ذرائع ابلاغ ان کی اشاعت کریں تو سب فرقے ختم ہوکر مسلمان ایک قوم بن جائیں (آمین) منہ





فرقہ واختلاف کا حل#2» قرآن وسنت کی طرف لوٹنا۔
القرآن:
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور رسول کے حوالے کردو۔ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 59]





فرقہ واختلاف کا حل#3»ایک دوسرے کی محترم شخصیات کو برا بھلا نہ کہنا۔
القرآن:
(مسلمانو) جن (جھوٹے معبودوں) کو یہ لوگ اللہ کے بجائے پکارتے ہیں تم ان کو برا نہ کہو، جس کے نتیجے میں یہ لوگ جہالت کے عالم میں حد سے آگے بڑھ کر اللہ کو برا کہنے لگیں۔ (اس دنیا میں تو) ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے عمل کو اس کی نظر میں خوشنما بنا رکھا ہے۔ پھر ان سب کو اپنے پروردگار ہی کے پاس لوٹنا ہے۔ اس وقت وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کچھ کیا کرتے تھے۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 108]





فرقہ واختلاف کا حل#4»کسی کو چھیڑو نہیں۔
القرآن:
تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔
[سورۃ نمبر 109 الكافرون، آیت نمبر 6]





فرقہ واختلاف کا علاج»اگر کوئی چھیڑے تو اسے چھوڑو نہیں۔
القرآن:
(لیکن جب تک وہ وقت نہ آئے) تم برائی کا دفعیہ ایسے طریقے سے کرتے رہو جو بہترین(معقول ومدلل) ہو۔ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں۔
[سورۃ المؤمنون:96]

اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔
[سورۃ فصلت:34]





تفرقہ واختلاف کا حل#6»ھدایت کی دعا میں سب کو ہمیشہ یاد رکھنا۔
القرآن:
ہم سب کو سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔
[سورۃ الفاتحہ:5]




اختلاف اور مخالفت میں فرق:
ہر ایک کو اپنی اپنی رائے پر عمل کرنے کی اجازت دینا اختلافِ رائے کا ادب اور حق ہے۔
لیکن
جہاں بھی اور جب بھی موقع ملے مختلف رائے رکھنے والے سے جھگڑنا یا لوگوں کو جھگڑنے پر اکسانے کی کوشش کرنا مخالفت ہے۔





اختلاف کا حق غیرعالم کو نہیں۔
القرآن:
اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں، اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں، حالانکہ یہ سب (آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں۔ اسی طرح وہ (مشرکین) جن کے پاس کوئی (آسمانی) علم ہی سرے سے نہیں ہے، انہوں نے بھی ان (اہل کتاب) کی جیسی(مخالفانہ) باتیں کہنی شروع کردی ہیں۔ چنانچہ اللہ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 113]





حق-علم کی مخالفت ناجائز ہے۔
القرآن:
یہ سب کچھ اس لئے ہوگا کہ اللہ نے حق پر مشتمل کتاب اتاری ہے، اور جن لوگوں نے ایسی کتاب کے بارے میں مخالفت کا رویہ اختیار کیا ہے وہ ضدا ضدی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 176]




(شروع میں) سارے انسان ایک ہی دین کے پیرو تھے، پھر (جب ان میں اختلاف ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے جو (حق والوں کو) خوشخبری سناتے، اور (باطل والوں کو) ڈراتے تھے، اور ان کے ساتھ حق پر مشتمل کتاب نازل کی، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں ان کا اختلاف تھا۔ اور (افسوس کی بات یہ ہے کہ) کسی اور نے نہیں بلکہ خود انہوں نے جن کو وہ کتاب دی گئی تھی، روشن دلائل آجانے کے بعد بھی، صرف باہمی ضد کی وجہ سے اسی (کتاب) میں اختلاف نکال لیا، پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انہیں اپنے حکم سے حق کی ان باتوں میں راہ راست تک پہنچایا جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا، اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست تک پہنچا دیتا ہے۔
[سورۃ البقرة:213]





علم کی مخالفت کرنے والا عالم نہیں، بلکہ جھٹلانے والا ضدی ہوتا ہے۔
القرآن:
بیشک (معتبر) دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے، اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی انہوں نے الگ راستہ لاعلمی میں نہیں بلکہ علم آجانے کے بعد محض آپس کی ضد کی وجہ سے اختیار کیا اور جو شخص بھی اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے تو (اسے یاد رکھنا چاہیے کہ) اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 19]




واضح احکام کی مخالفت تفرقہ ہے۔
القرآن:
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جن کے پاس کھلے کھلے دلائل آچکے تھے، اس کے بعد بھی انہوں نے آپس میں تفرقہ(پھوٹ) ڈال لی اور اختلاف میں پڑگئے، ایسے لوگوں کو سخت سزا ہوگی۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 105]




اختلاف کی وجہ یقینی (علم)کے بجائے خیالات واندازوں کے پیچھے چلنا ہے۔
القرآن:
اور یہ کہا کہ : ہم نے اللہ کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ ؑ کو قتل کیا تھا، نہ انہیں سولی دے پائے تھے، بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم حاصل نہیں ہے، اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ عیسیٰ ؑ کو قتل نہیں کر پائے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 157]





اختلافات میں ھدایت، کتاب الله کی نبوی تفسیر ہے۔
القرآن:
اور ہم نے تم پر یہ کتاب اسی لیے اتاری ہے تاکہ(اے نبی!)تم ان کے سامنے وہ باتیں کھول کھول کر بیان کردو جن میں انہوں نے مختلف راستے اپنائے ہوئے ہیں، اور تاکہ یہ ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا سامان ہو۔
[سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 64]
یعنی
نبوی تفسیر کے خلاف رائے پر مبنی تشریح مردود ہے۔





حق وباطل کا اختلاف ہمیشہ رہے گا۔
القرآن:
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی طریقے کا پیرو بنا دیتا، (مگر کسی کو زبردستی کسی دین پر مجبور کرنا حکمت کا تقاضا نہیں ہے، اس لیے انہیں اپنے اختیار سے مختلف طریقے اپنانے کا موقع دیا گیا ہے) اور وہ اب ہمیشہ مختلف راستوں پر ہی رہیں گے۔
[سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 118]





اختلافات کا حل رحمتِ ربانی ہے۔
القرآن:
مگر جن پر تمہارا پروردگار رحم فرمائے گا(ان میں اختلاف ہمیشہ نہیں رہے گا)، ان کی بات اور ہے (کہ اللہ انہیں حق پر قائم رکھے گا) اور اسی (امتحان) کے لیے اس نے ان کو پیدا کیا ہے۔ اور تمہارے رب کی وہ بات پوری ہوگی جو اس نے کہی تھی کہ : میں جہنم کو جنات اور انسانوں دونوں سے بھر دوں گا۔
[سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 119]





حق سے اختلاف کرنے والے کون؟
القرآن:
واقعہ یہ ہے کہ یہ قرآن بنو اسرائیل کے سامنے اکثر ان باتوں کی حقیقت واضح کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 76]
بنی اسرائیل اولادِ یعقوب، یہود ونصاریٰ کو کہتے ہیں، جو الله کے تمام انبیاء میں آخری نبی کو نہیں مانتے۔






ہر اختلاف مذموم(بُرا) نہیں۔
القرآن:
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ذریعے "مختلف" رنگ برنگ کے پھل اُگائے؟ اور پہاڑوں میں بھی ایسے ٹکڑے ہیں جو "مختلف" رنگ برنگ کے سفید اور سرخ ہیں، اور کالے سیاہ بھی۔
[سورۃ نمبر 35 فاطر، آیت نمبر 27]

مذموم تو بس بندے کا اختلاف کرنا ہے حق-علمِ الٰہی سے۔





علم والوں کا رنگ مختلف رہے گا، الله سے نہ ڈرنے والوں کے مقابلہ میں۔
القرآن:
اور انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی ایسے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیں۔ اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔ یقینا اللہ صاحبِ عزت واقتدار بھی ہے، بہت بخشنے والا بھی۔
[سورۃ نمبر 35 فاطر، آیت نمبر 28]





اختلاف کرنے والے وہ ہیں جو غیرالله کو رکھوالا بناتے ہیں۔
القرآن:
یاد رکھو کہ خالص بندگی اللہ ہی کا حق ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کے بجائے دوسرے رکھوالے بنا لیے ہیں۔ (یہ کہہ کر کہ) ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ ان کے درمیان اللہ ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ یقین رکھو کہ اللہ کسی ایسے شخص کو راستے پر نہیں لاتا جو جھوٹا ہو، کفر پر جما ہوا ہو۔
[سورۃ نمبر 39 الزمر، آیت نمبر 3]





اختلاف کرنے والے کون؟ حق(علم) کے مقابلہ شک کے پیچھے چلنے والے۔
القرآن:
اور ہم نے موسیٰ کو بھی کتاب دی تھی، پھر اس میں بھی اختلاف ہوا۔ اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کردی گئی ہوتی، تو ان لوگوں کا معاملہ چکا ہی دیا گیا ہوتا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے ان کو خلجان(دھوکہ) میں ڈال رکھا ہے۔
[سورۃ نمبر 41 فصلت، آیت نمبر 45]





اختلاف کرنے والے» حق(علمِ الٰہی)والوں کی مخالفت پر اڑے رہنے والے ضدی لوگ ہیں۔
القرآن:
اور انہیں کھلے کھلے احکام دیے تھے، اس کے بعد ان میں جو اختلاف پیدا ہوا وہ ان کے پاس علم آجانے کے بعد ہی ہوا، صرف اس لیے کہ ان کو ایک دوسرے سے ضد ہوگئی تھی۔ یقینا تمہارا پروردگار ان کے درمیان قیامت کے دن ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔
[سورۃ نمبر 45 الجاثية، آیت نمبر 17]




اختلاف کرنے والے» قیامت کے منکر ہیں۔
القرآن:
یہ(کافر) لوگ کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں؟ اس زبردست واقعے(قیامت)کے بارے میں۔ جن میں خود ان کی باتیں مختلف ہیں۔
[سورۃ النباء:1+3]
یعنی
نافرمانی کیلئے خود کو اپنے خالق کے حضور حاضری اور حساب کی فکر سے آزادی کے نام پر دھوکہ میں مبتلا بےلغام لوگ۔




سیاسی تفرقہ» منتخب شدہ حاکم کی مخالفت:
حضرت عَرفَجَہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عنقریب فتنہ وفساد ظاہر(عام)ہوں گے۔
[نسائی:4020]
تو جو دیکھے جماعت سے جدا کرنے والے کو، یا وہ ارادہ کرے
[ابوداؤد:4762]
کہ تفریق ڈالے اس امت کے(اجتماعی)معاملہ(خلافت وحکومت)میں جبکہ وہ(امت)متفق ہوچکی ہو
[مسلم:1852]
کسی ایک شخص پر
[مسلم:4796]
تو اس(تفریق ڈالنے والے دوسرے شخص)کو تلوار سے ماردو، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔[احمد:18295]
کیونکہ الله کا ہاتھ جماعت پر ہے، اور جو جماعت سے علیحدہ ہوا شیطان اس کے ساتھ ہوتا ہے، اسے لات مار کر ہانکتا ہے۔
[نسائی:4020(4025)]





مسلمانوں میں کئی فرقے ملتے ہیں مگر ان میں نجات پانے والے  رسول الله ﷺ نے فرمایا:
ما انا علیه واصحابی 
ترجمہ:
(1)جو (2)میرے اور(3)میرے صحابہؓ کے طریقہ پر ہوں گے۔
[ترمذی:2641]
اور فرمایا :
میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا 
[ترمذی:2676]
اور فرمایا :
جس نے میری سنت سے منہ موڑا وه مجھ سے نہیں۔
[بخاری:5063]
اور ایک روایت میں تو آپ نے تارکِ سنت کو ملعون فرمایا۔ (مشکوة)
اور اہل سنت والجماعت کے علاوه باقی فرقوں کو آپ نے دوزخی فرمایا۔





اھل السنۃ والجماعۃ کا ثبوت:
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ سے آیت کریمہ: ’’يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ‘‘ یعنی اس دن روشن ہوں گے کئی چہرے[سورۃ آل عمران:106] کی تفسیر پوچهی گی تو آپ ﷺ نے فرمایا جن کے چهرے قیامت کے دن روشن ہوں گے وه اھل السنۃ والجماعۃ ہیں اور حضرت عبدالله بن عباسؓ نے بهی یہی ارشاد فرمایا.
[تفسیر(امام)ابن کثیر:3/139،ابن ابی حاتم:1/729،البغوي:2/88،فتح القدير:1/238،الدر المنثور: 2/63،قرطبی:5/255(4/159)،خازن:1/286]




















اھل السنۃ والجماعۃ کا مطلب:

(1) اھل یعنی وہ لوگ جو پیچھے چلنے’’والے‘‘ ہوں
[دلائلِ قرآن:سورۃ لقمان:15،الطور:21]

(2) اس راستہ پر جو معصوم نبی کی اس ’’السنۃ‘‘(قائمہ) پر ہوں
[الحج:52،النساء:64،النجم:2،المائدۃ:67]

(3)جس پر نبی کے صحابہ کی ’’الجماعۃ‘‘ چلتی رہی۔
[سورۃ التوبہ:100،النساء:115]

یہی صراطِ مستقیم [لفاتحہ:7،النساء:69] ہے۔

باقی لوگ ’’صرف‘‘ اپنی رائے[النجم:28] اور خواہشوں[الجاثیۃ:23] کے پیچھے چلتے ہوئے

(1)علم ہوتے ہوئے بھی نافرمانی کرنے والے یہود کی طرح’’غضب یافتہ‘‘
[البقرة:61، آل عمران:112، الفتح: 6]
یا

(2)علم خود حاصل نہ کرکے اپنے بزرگوں اور درویشوں کے اندھا دھند پیچھے چلنے والے عیسائیوں کی طرح ’’گم راہ‘‘ ہیں۔
[المائدة: 77،الجاثیۃ:18]
(تفسیر القرطبی: 1/ 150)












(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ بْنِ أَنْعَمُ الْأَفْرِيقِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ ، حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ ، وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً ، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً ، قَالُوا : وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي " .

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت پر بھی وہی کچھ آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا اور دونوں میں اتنی مطابقت ہوگی جتنی جوتیوں کے جوڑے میں ایک دوسرے کے ساتھ۔ یہاں تک کہ اگر ان کی (کافر) امت میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری (مسلم) امت میں بھی ایسا کرنے والا آئے گا اور بنو اسرائیل بہتر فرقوں پر تقسیم ہوئی تھی لیکن میری (کلمہ گو مسلم) امت تہتر فرقوں پر تقسیم ہوگی، ان میں ایک کے علاوہ باقی سب فرقے جہنمی ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! وہ نجات پانے والے کون ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر چلیں گے۔

[سنن ترمذی:2641، البدع لابن وضاح:250، السنة لمحمد بن نصر المروزي:59، الشريعة للآجري:23+24، المعجم الكبير للطبراني:62، الإبانة الكبرى لابن بطة:1+264، المستدرك على الصحيحين للحاكم:444، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:147]






تفرقہ سے مراد، متقدمین اہلِ علم کے نزدیک، اس راستے کو ترک کرنا ہے جس پر رسول ﷲ ﷺ اور صحابہ کرامؓ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ تفرقہ سے مراد مفسرین ومحدثین کے نزدیک اہلِ بدعت ہیں اور اہلِ اھواء۔ کیونکہ دین میں ایک نیا راستہ ایجاد کرکے آدمی رسول ﷲ ﷺ اور صحابہؓ کے راستہ سے خود بخود علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ تفرقہ بنیادی طور پر حق سے ’’علیحدگی‘‘ ہے۔



          اس حدیث میں فرقِ اسلامیہ کی نجات وہلاکت اور بہ الفاظ دیگر ان کے حق وباطل ہونے کا معیار نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ وہ میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ ہے؛ لیکن اس طریقہ کو شخصیتوں سے الگ کرکے تنہا کو معیار نہیں بتلایا؛ بلکہ اپنی ذاتِ بابرکات اور اپنے صحابہ کی ذواتِ قدسیہ کی طرف منسوب کرکے معیار بتلایا کہ وہ ان شخصیتوں کے ضمن میں پایا جائے۔ ورنہ بیانِ معیار میں اس نسبت اور نام زدگی کی ضرورت نہ تھی؛ بلکہ مَنْ ہُمْ کے جواب میں بجائے مَا أَنَا عَلَیْہِ کے سیدھی تعبیر یہ تھی کہ مَا جِئْتُ بہ فرمادیا جاتا، یعنی معیارِ حق وہی ہے، جسے لے کر میں آیا ہوں یعنی شریعت؛ لیکن اس شریعت کو شخصیتوں سے الگ کرکے ذکر کرنے کے بجائے شخصیتوں کے انتساب سے ذکر کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ محض کاغذ کے کالے نقوش معیار نہیں؛ بلکہ وہ ذوات معارِ حق ہیں، جن میں یہ نقوش و حروف اعمال واحوال بن کر رچ گئے ہیں اور اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ اب کوئی بھی ان کی ذوات کو دین سے الگ کرکے اور دین کو ان کی ذوات سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھ سکتا، جس کا حاصل یہ نکلا کہ محض لٹریچر معیارِ حق نہیں؛ بلکہ وہ ذوات معیارِ حق ہیں، جو اس لٹریچر کے حقیقی ظرف بن چکے ہیں:
          بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ أوتُوا الْعِلْمَ وَمَا یَجْحَدُ بِآیاتِنَا الاَّ الظٰلِمُوْنَ (سورة العنکبوت:۴۸)
          ترجمہ: بلکہ یہ قرآن تو آیتیں ہیں صاف، ان لوگوں کے سینوں میں جن کو سمجھ ملی ہے، اور منکر نہیں ہماری باتوں سے؛ مگر وہی جو بے انصاف ہیں۔ پھر اس طریقہ کو شخصیت کی طرف منسوب کرنے کے سلسلہ میں بظاہر ”ما“ کے بعد ”اَنا“ کافی تھا اور یہ فرمادینا بس کرتا کہ نجات وہلاکت پہنچانے کا طریقہ میری ذات ہے؛ تاکہ معیارِ حق صرف رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ثابت ہوتی؛ لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اپنے صحابہ کو بھی شامل فرمایا۔ جس سے واضح طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ فرقوں اور مختلف مکاتیبِ خیال کے پرکھنے کا معیار جیسے رسول کی ذات ہے، ویسے ہی صحابہٴ رسول کی ذوات بھی ہیں اور اس لیے رسولِ خدا کی موجودگی یا عدمِ موجودگی میں کسی فرقہ اور مکتب خیال کے افراد کو پرکھنے کے لیے یہ دیکھ لینا کافی ہے کہ وہ صحابہ کی راہ کے مطابق چل رہے ہیں یا مخالف سَمت میں ہیں۔ ان کی اطاعت کررہے ہیں یا اس سے گریز کررہے ہیں، ان کے ساتھ حسنِ ظن کا برتاؤ کررہے یا سوءِ ظن اور بے اعتمادی کا؟ کہ یہی شان کسی شئے کے معیار ہونے کی ہوتی ہے جس سے صاف طور پر رسولِ خدا کے ساتھ صحابہٴ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا معیارِ حق ہونا واضح ہوجاتا ہے اور یہ حدیث اس بارے میں نص صریح ثابت ہوتی ہے، جس کا مقصد ہی یہ مدعا ثابت کرنا ہے۔
          اس کی وجہ یہ ہے جو خود اس حدیث ہی سے نمایاں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اپنے طریق کو بعینہ اپنے صحابہ کا طریق بتلایا ہے، جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ ان کی راہ چلنا میری راہ چلنا ہے اور ان کی پیروی میری پیروی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیساکہ حق تعالیٰ شانہ نے اپنے رسولِ پاک  صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أطَاعَ اللّٰہَ (سورة النساء:۸۰) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
          اس سے ایک کی اطاعت کو بعینہ دوسرے کی اطاعت بتلانا مقصود ہے، جس کے صاف معنی یہی ہوتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کا طریق الگ الگ نہیں جو رسول کا راستہ ہے وہی اللہ کا راستہ ہے۔ پس اللہ کی اطاعت معلوم کرنے کا معیار یہ ہے کہ رسول کی اطاعت دیکھ لی جائے، اگر وہ ہے تو بلاشبہ خدا کی اطاعت بھی ہے ورنہ نہیں۔ وہی صورت یہاں بھی ہے کہ رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی پیروی اور اطاعت کو بعینہ اپنی پیروی اور اطاعت قرار دیا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر رسول کی اطاعت دیکھنی ہوتو صحابہ کی اطاعت دیکھ لی جائے۔
          اگر صحابہ کی متابعت کی جارہی ہے تو رسولِ خدا کی اطاعت قائم ہے ورنہ نہیں۔ اس کا حاصل وہی نکلتا ہے کہ رسول اور صحابہٴ رسول کے طریقے الگ الگ نہیں؛ بلکہ جو رسول کا طریقہ ہے وہی بعینہ صحابہٴ رسول کا طریقہ ہے، اس لیے جیسے رسول فرقوں کے حق وباطل ہونے کا معیار ہیں، ایسے ہی صحابہٴ رسول بھی معیارِ حق وباطل ہیں۔ جن کو سامنے رکھ کر سب کے حق وباطل کو بآسانی پرکھا جاسکتا ہے۔“

          خلاصہ یہی ہے کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا معیارِ حق وباطل ہونا کوئی قیاسی مسئلہ نہیں؛ بلکہ منصوص مسئلہ ہے۔ حدیثِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی حکیمانہ تشریح سے یہ بات بَیِّنْ طریقہ سے واضح ہوتی ہے کہ اہل السنة والجماعة کا مصداق وہ جماعت ہے جو کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماعِ صحابہ کو حجتِ شرعیہ مانتی ہو اور امت کا سوادِ اعظم اسی زمرہ میں آتا ہے؛ کیونکہ پوری دنیا میں زیادہ تر ائمہٴ اربعہ کے ماننے والے اور ان کے مقلدین ہیں ، جو بالاتفاق اصولِ ثلاثہ کو حجت مانتے ہیں اور طریقہٴ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اقوالِ صحابہ، افعالِ صحابہ اور بالخصوص اجماعِ صحابہ کو دلیلِ شرعی مان کر اتباع کرتے ہیں اور صرف اتباع ہی نہیں؛ بلکہ سنت کا درجہ دیتے ہیں، خاص طور پر خلفاءِ راشدین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو اتفاقی طور پر قبول کرکے عمل کرتے ہیں؛ کیونکہ حدیث شریف میں حضرات خلفاء راشدین کے طریقوں کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل اپنا طریقہ فرمایا ہے جیساکہ حضرت حکیم الاسلام کی تحریر میں بہ وضاحت یہ مسئلہ آچکا ہے، اور ایک دوسری حدیث میں یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ مذکور ہے؛ ارشاد نبوی ہے: عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ (مشکاة المصابیح:۳۰) تم لوگ میرے طریقہ اور رہنمائی کرنے والے اور راہ یافتہ خلفاء کے طریقہ کو لازم پکڑلو اور اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ حضرت رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلفاءِ راشدین کے طریقوں اور ان کے اعمال واقوال کو سنت رسول کے مساوی قرار دے رہے ہیں کہ دونوں پر سنت کا لفظ لانا اور پھر بہا میں ضمیر واحد لانا بتاتا ہے کہ حجت شرعیہ ہونے کی حیثیت سے دونوں میں فرقِ مراتب نہیں؛ بلکہ دونوں مساوی اور برابر ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوتا کہ اہل حق صرف اہل السنة والجماعة ہیں اور اہل السنة والجماعة کا صحیح مصداق ائمہٴ اربعہ کے مقلدین؛ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی حضرات ہیں اور جو حضرات تقلید کے قائل نہیں وہ اہل السنة والجماعة میں داخل نہیں؛ بلکہ خارج ہیں۔








وأخبر النبي عليه الصلاة و السلام : ( ستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة الناجية منها واحدة والباقون هلكى ) 
قيل : ومن الناجية ؟ قال : ( أهل السنة والجماعة ) قيل : وما السنة والجماعة ؟ قال : ( ما أنا عليه اليوم وأصحابي ) 
وقال عليه الصلاة و السلام : ( لا تجتمع أمتي على ضلالة ) .
ترجمہ :
اور ان لوگوں میں کہ جنکو ہم نے پیدا کیا ہے ایک جماعت ہے کہ راہ بتلاتے ہیں سچی اور اسی کے موافق انصاف کرتےہیں۔[الاعراف:181] اور خبر دی نبی ﷺ نے : (عنقریب میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں بٹ جاۓ گی، اس میں نجات یافتہ فرقہ صرف ایک ہوگا اور باقی ہلاک ہونگے) پوچھا گیا : اور نجات یافتہ کونسا ہوگا؟ فرمایا : (اہل السنّت والجماعت پوچھا گیا : اور سنّت اور جماعت سے کیا مراد ہے؟ فرمایا : (جس طریقہ پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں) اور فرمایا آپؐ نے : (میری امت میں سے ایک گروہ حق پر قائم رہے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی) اور فرمایا آپ صلی الله علیہ وسلم نے : (نہیں جمع ہوگی میری امت گمراہی پر).




































اور سیدنا حسینؓ نے میدانِ کربلا میں اپنے مخالفین سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ بےشک رسول اللہ ﷺ نے نجھ سے اور میرے بھاٗی (سیدنا حسنؓ) سے فرمایا:
تم دونوں اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہو اور اہلسنت کے آنکهوں کی ٹهنڈک ہیں۔
[الکامل الابن اثیر: ص62ج 4]














شیخ عبد القادر جیلانی رح نے بھی اخبارِ نبوی سے فرقہ ناجیہ اہل السنّت والجماعت فرمایا.






















عقیدہ اہل سنّت کی اہمیت، امام غزالیؒ (450ھ - 505ھ) کے نظر میں:




نبوی سچی پیشگوئی:

اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے۔

[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار:2/ 340]عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ
[الزهد والرقائق-ابن المباركؒ(م181ھ): حدیث#1376]
[الأمر بالمعروف-عبد الغني المقدسي(م600ھ): حدیث#56]
[العلل لابن أبي حاتم(م327ھ):2759]
[جامع الأحاديث-السيوطي(م911ھ):41392]


[مسند الفاروق لابن كثير(م776ھ):3/ 733، حدیث#951]عن عمر

[جامع الأصول-ابن الأثيرحدیث#7506]علي بن أبي طالب

[الفتن لنعيم بن حماد(م228ھ): حدیث#111]عَنْ أَبِي هَارُونَ الْمَدِينِيِّ
[کتاب البدع-ابن وضاحؒ(م286ھ): حدیث#155]عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر-ابن أبي الدنياؒ(م281ھ) : حدیث#32]

[مسند-أبي يعلىؒ(م307ھ) : حدیث#6420]عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
[المعجم الأوسط-الطبراني (م360هـ):حدیث#9325]
[مجمع الزوائد-الهيثمي(م807ھ):12210]
[إتحاف الخيرة المهرة-البوصيري(م840ھ):7404]
[الخصائص الكبرى-السيوطي(م911ھ):2/ 264]




تین چیزیں ایسی ہیں جب تم انہیں دیکھ لو گے اس وقت آباد ویران اور ویران آباد ہوجائے گا۔ نیکی کو گناہ اور گناہ کو نیکی سمجھا جانے لگے گا، اور آدمی امانت کو یوں رگڑے جیسے اونٹ درخت کو رگڑتا ہے۔

[جامع المسانيد والسنن-ابن كثير(م774ھ):9267، جامع الأحاديث:11106]
[معجم الصحابة للبغوي(م317ھ):1969]عن محمد بن عروة بن السعدي
[تاريخ دمشق لابن عساكر(م571ھ):11093]
[أسد الغابة في معرفة الصحابة-ابن الأثير(م630ھ):‌‌4756]
[جامع الأحاديث-السيوطي(م911ھ):11106]





::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::



وضاحت:
آپ ﷺ نے فرمایا: میرے امتیو! میں دو چیزیں چهوڑ کر جا رہا ہوں ان پر مضبوطی سے قائم رہو گے تو گمراه نہیںہوگےـ الله کی کتاب اور میری سنت (موطا ص 702) قرآن پاک الله تعالی کی آخری کتاب اور کامل کتاب ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے ـ اور لفظی الهام یا وحی متلو ہے اور آپ ﷺ نے اس کتاب پر خود الله تعالی کے سمجهانے سے الله تعالی کی زیر نگرانی عمل کر کے جو عملی نمونہ پیش فرمایا اس کو سنت کهتے ہیں اس سے اہل سنت کا معنی بهی سمجھ آگیا کہ جو لوگ قرآن پاک پر اپنی خود رای سے نہیں بلکہ رسول اقدس ﷺ کے عملی نمونے کو سامنے رکھ کر عمل کرتے ہیں وه ’’اہل سنت‘‘ کهلاتے ہیں۔ کیونکہ الفاظ قرآن کے ہوں اور نمونہ عمل حضور کا ہو یہی سنت ہے۔

تین لفظوں سے مرکب ہے:’’اہل‘‘ کے معنى اشخاص، مقلدین، اتباع اور پیرو کے یہاں ہیں، "سنّت" عربی میں راستہ کو کہتے ہیں اور مجازا اصول مقررہ، روش، زندگی اور طرز_عمل کے معنى میں یہ لفظ آتا ہے، جیسا کہ یہ لفظ متعدد دفعہ انہی معنوں میں آیا ہے:
سُنَّةَ اللَّهِ فِى الَّذينَ خَلَوا مِن قَبلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبديلًا {33:62}
جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کے بارے میں بھی خدا کی یہی عادت رہی ہے۔ اور تم خدا کی عادت میں تغیر وتبدل نہ پاؤ گے:

اسی طرح احادیث میں جو سنّت کا لفظ آتا ہے، اس کے معنى حضور انور صلی الله علیہ وسلم کے اصول_مقررہ اور طرز_عمل ہے. اسی لئے اصطلاح_دینی میں حضرت رسول_اکرم صلی الله علیہ وسلم کی طرز_زندگی اور طریقہ_عمل کو "سنّت" کہتے ہیں؛ "جماعت" کے لغوی معنى تو گروہ کے ہیں، لیکن یھاں جماعت سے مرد "جماعت_صحابہ" رضی الله عنھم ہے. اس لفظی تحقی
 سے اہل_سنّت والجماعت کی حقیقت بھی واضح ہوتی ہے. یعنی یہ کہ اس فرقہ کا اطلاق ان اشخاص پر ہوتا ہے، جن کے اعتقادات، اعمال و مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنّت_صحیحہ اور صحابہ_کرام رضی الله عنھم کا اثر_مبارک ہے، یا یوں کہیے کہ جنہوں نے اپنے عقائد اور اصول_حیات، عبادات و اخلاق میں اس راہ کو پسند کیا جس پر رسول_مقبول صلی الله علیہ وسلم ہمیشہ چلتے رہے، اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ اس پر چل کر منزل_مقصود کو پہنچے.

نمبر۱:سنت کی تعریف

الطریقة المسلوکة المرضیة فی الدین ۔دین میں ایسا پسندیدہ طریقہ جو تسلسل سے چلا آ رہا ہو۔

سنت کی تین قسمیں ہیں:

 (١) سنت رسول ﷺ ، (٢) سنت خلفائے راشدین،  (۳) سنت صحابہ۔

حضور ﷺ نے فرمایا:
علم شریعت کی تین قسمیں ہیں:
(١) آیاتِ محکمہ (٢) سنت قائمہ (٣) فریضہ عادلہ۔
[ابوداود:2885، ابنِ ماجہ:54، حاکم:7949، بیھقی:11952]
المحدث : أحمد شاكر | المصدر : عمدة التفسير: 1/467 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

سنت رسول کی دو قسمیں ہیں:

١) سنت قائمہ 
٢) سنت غیر قائمہ

سنت قائمہ: پر عمل کرنا ضروری ہے۔ غیر قائمہ پر نہیں۔


اصول: سنت قائمہ پر عمل ضروری ہے۔اگر عمل حضورﷺ کا ہو اور صحابہ آگے نہ چلائیں تو یہ وہ سنت نہیں جس پر عمل کرنا عوام کے لئے ضروری ہے۔




دلیل:
حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓو عمر ؓقرات الحمد اللہ سے شروع کرتے۔
(بخاری ج۱ص۲۰۱۔۱۰۱)


دلیل:
صحیح بخاری میں امام بخاری نے حدیث نقل کی ہے کہ قرآن مجید کی آیت وما خلق الذکر و الانثے (٩٢/الیل:٣) ہے۔ اور جبکہ اس روایت پر کوئی قاری عمل نہیں کرتا۔اور نہ ہی عوام الناس اس روایت کو پڑہتی ہے۔تو ثابت ہوا کہ کیوں کہ یہ سنت قائمہ نہیں ہے اسلئے اسے اختیار نہیں کیا گیا۔اور (وما خلق الذکر و الانثیٰ) یہ روایت سنت قائمہ ہے اسلئے ہم سب یہی روایت پڑہتے ہیں۔
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2089، - تفاسیر کا بیان : تفسیر سورت واللیل اذا یغشی]


خلفائے راشدین کا ذکر اس لئے کیا کے یہ سنت قائمہ ہے۔ جسے خلفائے راشدین نے قائم کیا ہے۔بتانا مقصود ہے کہ جس سنت کو خلفائے راشدین نے قائم کیا ہے اس سنت کو ہم بھی قائم کریں گے۔ کیونکہ حضور نے فرمایا: من یعش منکم بعدی فسیر اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین (او کما قال ؑ)کہ اے صحابہ تم میں سے جو بھی میرے بعد ہو گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا تو تمہیں چاہئے کہ تم ان اختلافات کو میری اور خلفائے راشدین کی سنت سے حل  کرنا۔ یہ دلیل کہاں سے بنی، حضور ﷺ نے فرمایا : علیکم بسنتی و سنت  الخلفاءالراشدین تمسکو بھا و عزو علیھا بالنواجذ (او کما قال ؑ) حضور نے فرمایا : علیکم بسنتی و سنت الخلفاءالراشدین اور آگے فرمایا : تمسکو بھا و عزو علیھا ضمیر واحد کی لائے لیکن پیچھے سنتیں دو ہیں تو ھما لانا چاہئے تھا ھا اسلئے لائے کہ بظاہر یہ دو ہیں لیکن اصل میں ایک ہی ہے۔ تو ھا اسبات پر دلالت کر رہا ہے کہ جس طرح حضور کی سنت پر عمل کرنا لازمی ہے اسی طرح سنت خلفائے راشدین پر بھی عمل کرنا ضروری ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ میں فاروق اعظم ؓ کی بات نہیں مانتا بلکہ میں حضورﷺ کی بات کرتا ہوں تو یہ بدعت پھیلا رہا ہے۔



إختلاف كا حل :
نبی ﷺ کی سنّت اور خلفاءِ راشدینؓ کی سنّت:



حضرت عرباض بن ساریہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ ﷺ گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ تو آپ ہمارے لیے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تمہارا امیر ہو پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدینؓ میں جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
[أخرجه أحمد:17184 ، وأبو داود:4607، والترمذى (5/44، رقم 2676) وقال: حسن صحيح. وابن ماجه (1/15، رقم 42) ، والحاكم (1/174، رقم 329) وقال: صحيح ليس له علة. والبيهقى (10/114، رقم 20125) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (1/178، رقم 5) ، والدارمى (1/57، رقم 95) .]

تشریح:

حافظ ابنِ رجب حنبلیؒ (المتوفی ٧٩٥ ھ) نے تحریر فرمایا :
سنّت اس راہ کا نام ہے جس راہ پر چلا جاۓ، اور یہ اس (راہ کا) تمسک (مضبوط پکڑنا) ہے جس پر وہ (رسول الله ﷺ) اور آپ کے" خلفاء راشدین عامل تھے، (عام اس سے کہ) وہ (باتیں) اعتقادات ہوں یا اعمال و اقوال، اور یہی سنّتِ کاملہ ہے.
[جامع العلوم والحکم: ١/١٩١]

شاہ عبدالحق محدث دھلویؒ (المتوفی:١٠٥٢ھ) اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
جس چیز کے بارے میں حضراتِ خلفاءِ راشدینؓ نے حکم دیا ہے، اگرچہ وہ ان کے قیاس و اجتہاد سے صادر ہوا ہو، وہ بھی سنّت کے موافق ہے اور اس پر بدعت کا اطلاق ہرگز صحیح نہیں جیسا کہ گمراہ فرقہ کرتا ہے.
[أشعة اللمعات: ١/١٣٠]

شیخ عبد القادر جیلانیؒ (حنبلي) نے فرمایا :
"ہر مومن کو سنت اور جماعت (اہلِ سنّت والجماعت) کی پیروی کرنا واجب ہے، سنّت اس طریقے کو کہتے ہیں جس پر آپ ﷺ چلتے "رہے" اور جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفاءِ راشدینؓ نے اپنے خلافت کے زمانے میں "اتفاق(اجماع)" کیا، یہ لوگ سیدھی راہ دکھانے-والے تھے، کیوں کہ انھیں سیدھی راہ دکھائی گئی تھی."
[غنية الطالبين: صفحة # ١٨٥]

اہل سنّت والجماعت اور اہل البدعت کی پہچان:
اہل سنّت و الجماعت (سنّتِ نبوی اور جماعت_صحابہ کی پیروی کرنے-والوں) کا عقیدہ ہے کہ جو قول و فعل صحابہؓ سے ثابت نہ ہو، وہ بدعت ہے. اس لئے کہ اگر اس میں بہتری(نیکی/بھلائی) ہوتی تو وہ پاک جماعت جو کسی چیز (نیکی) میں پیچھے رہنے والی نہ تھی وہ اسے ترک نہ کرتی.
[تفسیرِ ابن کثیر: سورہ احقاف، آیت # ١١]



*بدعتی-فرقہ پرستوں کی 2 نشانیاں:*
فرمایا:
(1) جن کا قول عمل کے خلاف ہوگا (2)اور جن کا عمل حکم کے خلاف ہوگا۔
[صحیح مسلم:50 (179)، مسند احمد:4379]
یعنی
نیک باتوں کا لوگوں کو تو حکم کریں گے لیکن اپنے آپ کو بھول جائیں گے
[سورۃ البقرہ:44]
دعوے تو کریں گے لیکن وہ کام نہیں کریں گے
[سورۃ الصف:2-3]
اور
جس بات کا انہیں حکم نہیں دیا گیا اسے دین وثواب کا عمل سمجھ کر مضبوطی سے پکڑیں گے۔
[دلائل سورۃ فاطر:8، محمد:14، الاعراف:30، الکھف:104،الزخرف:37]






 :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::




حدیث افتراقِ امت

اور‎‎

اس کی اسناد پرایک نظر



امام ترمذی نے حدیث افتراقِ امت روایت کرنے والوں میں چار صحابہ کا ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر کی روایت تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے اور حضرت سعد اور عوف بن مالک کا صرف حوالہ دے کر چھوڑ دیا ہے۔ پھر اول الذکر صحابی کی حدیث پر صحت کا حکم لگایا ہے اور ثانی الذکر(1)کی حدیث کو غریب قرار دیا ہے۔
ابوہریرہ کی حدیث
عن ابی ہریرة ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال تفرقت الیہود علی احدی و سبعین او اثنین و سبعین فرقة والنصاری مثل ذلک وتفترق امتی علی ثلاث و سبعین فرقة (ترمذی)
ابوہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں منقسم ہوئے اور نصاریٰ بھی اتنے ہی فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں منقسم ہوجائے گی۔
حافظ سخاوی نے بھی مقاصد حسنہ میں اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیاہے اور شیخ محمد طاہر نے تذکرة الموضوعات میں اسے نقل فرماکر کوئی اختلاف رائے ظاہر نہیں کیا۔ امام شاطبی نے کتاب الاعتصام میں ابوہریرہ کی روایت پر کئی جگہ صحت کا حکم لگایا ہے۔(2)
حدیثِ افتراق کے پندرہ راویوں کے نام
شارح سفر السعادة نے امام ترمذی کے پیش کردہ ناموں پر گیارہ صحابہ کا اوراضافہ کیا ہے۔ (۱) انس، (۲) جابر، (۳) ابوامامہ، (۴) ابن مسعود، (۵) علی، (۶) عمروبن عوف، (۷) عویمر، (۸) ابوالدرداء، (۹) ابومعاویہ(3)، (۱۰) ابن عمر، (۱۱) واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ اس طرح اس حدیث کے رُواة کی تعداد پندرہ تک پہنچ جاتی ہے جن میں ابوہریرہ کی روایت کے متعلق جہاں تک ہمیں معلوم ہے کسی نے کوئی قابلِ ذکر رد و قدح نہیں کی۔ بعض دوسرے صحابہ کی روایات میں البتہ کچھ کلام کیاگیا ہے جو مختصراً درج ذیل ہے:
حضرت انس کی روایت
شیخ جلال الدین سیوطی حضرت انس کی روایت عقیلی اور دارقطنی کے حوالہ سے پیش کرکے تحریر فرماتے ہیں والحدیث المعروف، واحدة فی الجنة وہی الجماعة یعنی معروف حدیث کے الفاظ یہ ہیں(ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور وہ مسلمانوں کی جماعت ہوگی) پھر بطریق ابن عدی نقل کرکے کہتے ہیں والمحفوظ فی المتن (یعنی اس متن کے جو الفاظ محفوظ ہیں یہ ہیں) ”تفترق امتی عن ثلاث و سبعین فرقة کلہا فی النار الا واحدة (4)
اہل علم جانتے ہیں کہ معروف و محفوظ، منکر و شاذ کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور شاذ و منکر میں صرف راوی کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے کا فرق ہے گویا پہلے الفاظ کے خلاف روایت کرنے والے راوی ثقہ نہیں ہیں اور دوسرے متن کے خلاف راوی اگرچہ ثقہ ہیں مگر ان کے الفاظ میں شذوذ ہے۔ بہرحال معروف محفوظ کہہ کر حافظ سیوطی نے حضرت انس کی روایت کے متعلق اپنی رائے ظاہر کردی ہے۔
حافظ نورالدین ہیثمی نے اس مقام پر قدرے مبسوط کلام کیا ہے اوراس حدیث کے طرق سنن مشہورہ کے علاوہ مسند ابویعلی، مسند بزار اور طبرانی سے پیش فرماکر ہر صحابی کی روایت پر تنقید کی ہے۔ چنانچہ حضرت انس کی روایت کو بطریق مسند ابویعلیٰ ایک طویل سیاق کے ساتھ نقل فرماکر لکھتے ہیں۔
وبزید الرقاشی ضعفہ الجمہور و فیہ توثیق لین و بقیة رجالہ رجال الصحیح(5)
اس میں ایک راوی یزید رقاشی ہے جس کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے اور ہلکے درجہ پر اس کی توثیق بھی کی گئی ہے بقیہ تمام راوی صحیح کے راوی ہیں۔
ایک جگہ اسی حدیث کا دوسرا طریقہ پیش کرکے اس پر حسب ذیل کلام کرتے ہیں:
رواہ ابو یعلی وفیہ ابو معشر نجیح و فیہ ضعف(6)
اس حدیث کو ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی ابومعشر نجیح ہے اس میں قدرے ضعف ہے۔
حضرت ابواُمامہ کی روایت
حضرت ابوامامہ کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
رواہ ابن ماجہ والترمذی باختصار و رواہ الطبرانی و رجالہ ثقات(7)
اس کو ابن ماجہ اور ترمذی نے مختصراً روایت کیا ہے اور طبرانی نے بھی روایت کیاہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔
ساتویں جلد میں اتنی تفصیل اور مذکور ہے۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط والکبیر بنحوہ وفیہ ابوغالب وثقہ یحیی بن معین وغیرہ وبقیة رجال الاوسط ثقات وکذلک احدی اسناد الکبیر(8)
اس حدیث کو طبرانی نے معجم اوسط میں روایت کیا ہے اور معجم کبیر میں بھی اسی کے قریب قریب الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اس میں ایک راوی ابوغالب(9) ہے۔ یحییٰ بن معین وغیرہ نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے بقیہ معجم اوسط کے سب راوی ثقہ ہیں اور اسی طرح معجم کبیر کی ایک اسناد کا حال ہے۔
حضرت سعد بن وقاص کی روایت
حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت مسند بزار سے نقل کرکے لکھتے ہیں:
رواہ البزار وفیہ موسٰی بن عبیدة الزبدی وہو ضعیف(10)
مسند بزار میں اس کو روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی موسیٰ بن عبیدة زبدی ضعیف ہے۔
حضرت ابن عمر کی روایت
پھر اسی جلد میں حضرت ابن عمر کی روایت کے متعلق حسب ذیل ارشاد ہے:
رواہ ابویعلیٰ وفیہ لیث بن ابی سلیم وہو مدلس وبقیة رجالہ ثقات  (11)
اس کو ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے اس میں ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہے(12)جو مدلس ہے۔ بقیہ راوی ثقہ ہیں۔
حضرت ابوالدرداء وواثلہ کی روایت
پھر حضرت ابوالدرداء، ابواُمامہ، واثلہ اور انس کی روایات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
رواہ الطبرانی وفیہ کثیر بن مروان وہو ضعیف جدًا(13)
اس کو طبرانی نے روایت کیاہے اور اس میں ایک راوی کثیر بن مروان ہے اور وہ بہت ضعیف ہے۔
حضرت عمروبن عوف کی روایت
اس کے بعد حضرت عمرو بن عوف کی روایت بحوالہٴ طبرانی نقل کرکے اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی ہے۔
رواہ الطبرانی وفیہ کثیر بن عبداللہ وہو ضعیف وقد حسن الترمذی لہ حدیثا وبقیة رجالہ ثقات(14)
اس میں ایک راوی کثیر بن عبداللہ ضعیف ہے۔ ترمذی نے اس کی ایک حدیث کی تحسین بھی کی ہے بقیہ تمام راوی ثقہ اور قابلِ اعتبار ہیں۔
بلاشبہ کثیر بن عبداللہ کے بارے میں محدثین کی رائے اچھی نہیں ہے اوراسی وجہ سے امام ترمذی کی تحسین کو بھی قابل اعتراض سمجھا گیا ہے مگر اہلِ علم و تجربہ جانتے ہیں کہ ترمذی اگر ضعیف راویوں کی روایات کی تحسین کرتے ہیں تو بیشتر ایسی جگہ کرتے ہیں جہاں تعامل یا خارجی دلائل سے روایت کی قوت ثابت ہوجاتی ہے صرف اس ضعیف طریقہ ہی پر ان کی نظر نہیں ہوتی۔ بنابریں اگر ابوہریرہ کی روایت کی صحت کے بعد اس طریقہ کی بھی تحسین کردی جائے تو گنجائش نکل سکتی ہے۔
حضرت ابن مسعود کی روایت
باب افتراقِ امت کے خاتمہ پر حافظ نورالدین نے حضرت ابن مسعود کی حدیث تحریر فرماکر لکھا ہے:
رواہ الطبرانی باسنادین ورجال احدہما رجال الصحیح غیر بکیر بن معروف وثقہ احمد وغیرہ وفیہ ضعف
اس حدیث کو طبرانی نے دو سندوں سے روایت کیا ہے جس میں ایک سند کے راوی وہی ہیں جو صحیح کے راوی ہیں سوائے بکیر بن معروف کے کہ وہ صحیح کاراوی نہیں ہے مگر امام احمد وغیرہ نے اس کی توثیق کی ہے اوراس میں کچھ ضعف ہے۔
حضرت عوف بن مالک کی روایت
عوف بن مالک کی روایت مستدرک حاکم میں موجود ہے اوراسکے متعلق حاکم کے الفاظ یہ ہیں:
ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین(15)
یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
حاکم کی تصحیح کو عام طور پر علماء بنظر اعتبار نہیں دیکھتے مگر یہاں حافظ ذہبی نے بھی سکوت کیا ہے اور ان کے خلاف کوئی نکتہ چینی نہیں کی اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ذہبی کو بھی ان سے اتفاق ہے ورنہ وہ حسب عادت یہاں بھی اپنا اختلافِ رائے ظاہر کرتے۔
حضرت علی کی حدیث
علامہ شاطبی نے حضرت علی کی روایت نقل کرکے لکھا ہے لا أضمن عہدة صحتہ ”میں اس کی صحت کی ذمہ داری نہیں لیتا“(16) مگر کوئی خاص جرح بھی نہیں فرمائی۔
حدیث معاویہ
اور ابوہریرہ کی حدیث نقل کرکے حاکم فرماتے ہیں:
ہذہ اسانید تقام بہا الحجة فی تصحیح ہذا الحدیث(17)
یہ اسانید ایسی ہیں کہ ان کی بناپر حدیث کو صحیح کہا جاسکتا ہے۔
اتنی بات کو ذہبی نے بھی تسلیم کیا ہے۔
پندرہ صحابہ میں سے تیرہ صحابہ کی احادیث پر علماء کے یہ خیالات ہیں ان میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو،اَنس،ابواُمامہ، عمروبن عوف، معاویہ، ابن عمر، عوف بن مالک کی روایات صحیح یا حسن کے درجہ پر آسکتی ہیں۔ بقیہ روایات کی اسانید اگرچہ ضعیف ہوں مگر تعددِ طرق کالحاظ رکھتے ہوئے وہ بھی قاطبةً نظر انداز کرنے کے لائق نہیں۔ اب اس مجموعہ روایات کو سامنے رکھ کر انصاف کیجئے کہ جو حدیث اتنے صحابہ سے مختلف صحیح اور حسن طریقوں سے مروی ہو کیا محض چند شبہات کی وجہ سے اس سے صرفِ نظر کرلینا درست ہوگا۔
کسی حدیث پر اجمالی حکم اس کے مجموعہٴ طرق پر حکم نہیں
مذکورہ بالا بیان سے مختصراً یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ایک حدیث کتنے کتنے صحابہ سے روایت کی گئی ہے۔ پھر ایک ایک صحابی کی حدیث کے کتنے کتنے طریقے ہیں۔ اس لئے کسی حدیث کے متعلق ضعف یا صحت کاحکم دیکھ کر پہلے یہ تحقیق کرلینا چاہئے کہ یہ حکم اس کے تمام طریقوں پر حاوی ہے یا کسی خاص صحابی کی حدیث یا اس کے کسی خاص طریقے سے متعلق ہے پھر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک ایک حدیث کے تمام طریقے ہر محدث کے پیش نظر ہو۔
امام ترمذی جیسا جلیل القدر امامِ حدیث یہاں صرف چارصحابہ کاپتہ دیتا ہے حالانکہ ان کے علاوہ گیارہ صحابہ اور بھی ہیں جو اس کو روایت کرنے والے ہیں۔ پس اگر کوئی محدث کسی حدیث پر کوئی اجمالی حکم لگاتا ہے تو یہ صرف اس کے علمی استحضار کے لحاظ سے ہے۔ اب اگر خارجی ذرائع اور تحقیقات سے کسی خاص طریقہ کا ضعف و صحت ثابت ہوجائے تو یہ اس کے مبہم حکم کے ہرگز معارض نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کے علم میں یہ طریق نہ ہو ہاں اگر ان طرق کے علم کے بعد بھی اس کی رائے وہی رہتی ہے تو اب اس کو مخالف یا موافق کہنا درست ہوگا اس کے بعداختلافِ رائے کا مرحلہ پھر زیر بحث رہے گا۔ راویوں اور روایات کے سلسلہ میں تضعیف و توثیق کا معاملہ اہل علم کے نزدیک دن رات کی بات ہے۔ ایک ناواقف ایک محدث کی رائے نقل کرکے اسے سارے طریقے پر حاوی بنادیتا ہے اوراس ایک رائے کو سارے محدثین کی رائے سمجھ بیٹھتا ہے اور واقفِ حال کو تحقیق کے بعد غور کرنا پڑتا ہے کہ دلائل کا پلہ کس طرف بھاری ہے۔ یہی حدیث جس کے متعلق آپ نے یہ تفصیل پڑھی۔ اب آئیے اس کے مخالف آراء کا حال دیکھئے علامہ مجدالدین فروزآبادی ”سفر السعادة“ کے خاتمہ پراس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں۔
لم یثبت فیہ شیٴ اس باب میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہوئی۔
احادیث پر تنقید کی تین تعبیرات اور ان کا فرق
ان الفاظ کو دیکھ کر بعض لوگ تو یہاں تک غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ مصنف کے نزدیک یہ حدیث گویا موضوع ہے۔ کاش ان حضرات نے اگراس کتاب کی ذرا ورق گردانی کی ہوتی تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ مصنف نے احادیث پر حکم لگانے کے لئے مختلف تعبیرات اختیار کی ہیں کہیں ”باطل موضوع“ اور کہیں ”لم یصح فیہ حدیث“ اور کہیں ”لم یثبت“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ان تینوں الفاظ میں بڑا فرق ہے ۔ پہلی تعبیر کا مطلب یہ ہے کہ اس مضمون کو حدیثِ رسول کہناہی غلط ہے اور دوسرا لفظ صرف صحت کی نفی کرتا ہے خواہ کسی درجے میں حدیث ثابت ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ قنوت، جہر بسم اللہ اور وضوء بالنبیذ کی احادیث پر بھی مصنف نے یہی حکم لگایا ہے، کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب حدیثیں بے اصل ہیں۔ اسی طرح ”لم یثبت“ کا لفظ ضعیف طرق کی نفی نہیں کرتا۔ اگر ان تعبیرات کے فروق کی رعایت کی جائے تو پھر بہت سے مواضع پر مصنف کے کلام سے اعتراض اٹھ جائے گا۔ (18)
علاوہ ازیں شارح ”سفر السعادة“ لکھتے ہیں کہ علامہ مجد الدین کا یہ حکم صرف ان الفاظ پر ہے جو جہاں انھوں نے نقل کئے ہیں یعنی ۷۲ فرقوں میں امت کا افتراق۔کوئی شبہ نہیں کہ یہ لفظ تمام طریقوں کے خلاف ہے۔ حافظ سیوطی نے حضرت انس کی روایت کے صرف ایک طریقہ میں یہ لفظ پیش کیاہے بقیہ سب طرق و روایات میں ۷۳ کا لفظ ہے مگرمشکل یہ ہے کہ ”سفرالسعادة“ کے بعض نسخوں میں دو کی بجائے تین کا لفظ بھی موجود ہے اس کے متعلق شارح فرماتے ہیں ”اگر ایں چنیں است محل سخن است“ اگر ۷۳ کی روایت کے متعلق بھی مصنف کی یہی رائے ہے تواس میں کلام ہے۔
ابن حزم بھی زیر عنوان ”الکلام فیمن یکفر و من لایکفر“ اس حدیث کے ساتھ ایک اور حدیث نقل کرکے لکھتے ہیں:
ہذان حدیثان لایصحان اصلا عن طریق الاسناد (19)
یہ دونوں حدیثیں اسنادی لحاظ سے بالکل صحیح نہیں۔
یہاں بھی صحت کی نفی ہے اب ان دونوں حضرات کا یہ مجمل حکم دیکھئے اور اس کے مقابلہ میں وہ ساری تفصیلات سامنے رکھئے جہاں ایک ایک روایت کی پوری چھان بین کی گئی ہے۔
ابن حزم کی رائے فیصلہ کن نہیں ہے
ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ان حفاظِ حدیث کے سامنے وہ سب طرق موجود بھی ہیں یا نہیں اور اگر موجود بھی ہیں تو کیا اصولِ حدیث کا یہ کوئی ضابطہ ہے کہ جس طرف ابن حزم ہوجائیں بس راہِ صواب اسی میں منحصر ہوجائے گی اگر ایک طرف حافظ ابن جوزی کا تشدد امت میں ضرب المثل ہے تواس کے ساتھ ہی ابن حزم کی زبان کا سیف(20)حجاج ہونابھی مشہور ہے۔
بہرحال حدیث کا معاملہ ما و شما کے تابع نہیں ہے۔ حدیث کے اسانید اب بھی موجود ہیں۔ ان مبہم اور مجمل کلمات کو چھوڑ کر اس کے رجال پر تفصیلاً نظر کرلینا چاہئے اس کے بعد بھی اگر رجحان ابن حزم اور علامہ مجدالدین کے ساتھ رہتا ہے توامر دیگرہے۔(21) پھر یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ حافظ ابن حزم اپنی وسعت نظر کے باوجود خود امامِ ترمذی اوران کی کتاب الجامع سے ناواقف ہیں اس لئے ان کا ”لایصح“ کہنا اور بھی بے اثر ہوجاتا ہے۔
حدیث کی صحت پر معنوی قرائن
حنیفیة اور یہودیة و نصرانیة کا تقابل
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی دنیا میں دین حنیف کے حریف صرف دو مذہب ہیں یہودیة اور نصرانیة عہد نبوة میں بھی حریفانہ جنگ ان ہی دو کے درمیان نظر آتی ہے اوراحادیث صحیح بھی ان ہی دو کے درمیان مستقبل میں کشمکش کاپتہ دیتی ہیں۔ آیاتِ ذیل کو بغور پڑھئے اوراس جذبہ کا اندازہ کرلیجئے۔
قَالُوْا کُوْنُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصَارٰی تَہْتَدُوْا قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا
کہتے ہیں کہ یہودی بن جاؤ یا نصرانی بن جاؤ تو راہ یاب ہوگے آپ اُن سے کہہ دیجئے بلکہ میں حضرت ابراہیم کی ملت کا متبع ہوں جو ایک طرف ہوجانے والاتھا۔
مَاکَانَ اِبْرَاہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَلاَ نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا
حضرت ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ایک طرف ہوکر خدا کے فرمانبردار نبی تھے۔
غیر المغضوب علیہم میں اتباع یہود ونصاریٰ کی طرف ایک لطیف اشارہ
غالباً اسی لئے قرآن کریم نے صراطِ مستقیم کی تفسیر کرتے ہوئے اثباتی پہلو میں منعم علیہم کا اور سلبی پہلو میں مغضوب علیہم اور ضالین ہی کا ذکر کیا ہے اوراس اہتمام سے کیاہے گویا جب تک یہ سلبی پہلو ذکر نہ کیاجائے اس وقت تک صرف صراط الذین انعمت علیہم اس کے پورے مفہوم کو ادا ہی نہیں کرتا پھر اس دعاء کے پنجوقتہ تعلیم کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ملت حنفیہ پر سب سے زیادہ خطرہ ہے تو شاید ان مغضوب علیہم اور ضالین کی اتباع کا ہے جس کا دوسرا نام یہودیة و نصرانیة ہے۔
مشرکین و یہود کے تعلقات
کتب سیرت کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیة ونصرانیة بھی گو آسمانی دین تھے مگر مشرکین کے ساتھ ان کے برادرانہ تعلقات قائم تھے جونہی اسلام نے دنیا میں قدم رکھا سب سے پہلے مشرکین کے ساتھ اس کے مدمقابل یہی یہودی و نصرانی تھے حالانکہ دین سماوی میں اشتراک کا تقاضا یہ تھا کہ ان کو دین حنیفی کے ساتھ پوری ہمدردی ہوتی اور بجائے مشرکین کے ان کا رُخ اسلام کی طرف ہوجاتا لیکن جیسے جیسے اسلام ترقی کرتا رہا اسی قدر یہودیة و نصرانیة بڑھ بڑھ کر اسی کے مقابلہ پرآتی رہی یہاں تک کہ جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو مشرکین عرب نے اسلام کے سامنے سپر ڈالدی اور ان کی طرف سے شریعت مطہرہ کو اتنا اطمینان میسر ہوا کہ صاف لفظوں میں یہ اعلان کردیاگیا۔
ان الشیطان قدأیس ان یعبدہ المصلون فی جزیرة العرب (مشکوٰة شریف)
شیطان اب اس بات سے نامید ہوچکا ہے کہ نمازی مسلمان پھر کبھی جزیرئہ عرب میں اس کی عبادت کریں گے۔
پیغمبر اسلام کا یہود ونصاری کی طرف سے خطرہ کا آخری الارم
لیکن یہودیة و نصرانیة کا عَلَمِ جنگ اسلام کے بالمقابل برابر لہراتا رہا اورکسی وقت بھی اسلام کو ان کی دسیسہ کاریوں سے اطمینان میسر نہ ہوا حتی کہ صاحب شریعت کے آخری لمحاتِ حیات کی وصیتوں میں ایک مہتم بالشان وصیت یہ تھی۔
اخرجوا الیہود والنصاری من جزیرة العرب 
یہود و نصاریٰ کو جزیرئہ عرب کے چپے چپے سے باہر نکال دینا۔
اسی حریفانہ کشمکش کا نتیجہ تھا کہ جب حنیفیة کا زمین پر اقتدار ہوا تو یہودیة ونصرانیة مغلوب ہوگئیں اور جب کبھی یہودیة و نصرانیة کا غلبہ ہوا تو حنیفیة کو مغلوب ہوجانا پڑا۔
یہود ونصاریٰ سے جزیہ قبول کرنے کی وجہ
اس سلسلہ میں واضح رہنا چاہئے کہ یہودیة و نصرانیة کے مسخ ہوجانے کے باوجود اسلام نے محض دین سماوی ہونے کے باعث ان کی بڑی رعایت رکھی ہے۔
موافقت اہل کتاب کی عام سنت فتح مکہ تک تھی
چنانچہ اسلام فتح مکہ سے قبل تک جن امور میں جدید ہدایات نازل نہ ہوتیں بہ نسبت کفار کے ان کی موافقت کو ترجیح دیتا رہا لیکن جب اس سلوک کے بعد بھی ان کا دل نہ پسیجا تو یہ ثابت ہوگیا کہ اب ان کے سینہ پر کینہ سے اسلام کی عداوت نکلنے والی نہیں ہے اس لئے مخالفت کا حکم دیدیاگیا اورآئندہ ان تمام مواقع پر جہاں جہاں سے حنیفیة کو یہودیة و نصرانیة سے خطرہ ہوسکتا تھا امت کو خبردار کردیاگیا۔
مشترکہ حدود کی نگرانی میں اسلام کی خیر مضمر ہے
روزہ، نماز، شکل و شباہت، دعاء و سلام میں غرض جہاں بھی اسلامی حدود اُن کے حدود سے ملتے نظر آتے تھے ملت حنیفیہ کے حلقہ بگوشوں کو تنبیہ کردی گئی کہ اپنے حدود کی نگرانی رکھیں۔ اس کے باوجود صاحب نبوة کی دوربیں نظروں نے تاڑلیا تھا کہ اس حریف کاایک دن پھر غلبہ ہوگا اور پھرپیروانِ ملت حنیفی یہودیة ونصرانیة کے پیچھے چل پڑیں گے۔ اسی عہد نامسعود کا نقشہ صحیح بخاری کی اس حدیث میں کھینچا گیا ہے۔
اس امت میں یہود ونصاری کی اتباع کی پیشگوئی
قال لتتبعن سنن الذین من قبلکم شبرا بِشبرٍ و ذراعاً بذراع حتی لو دخلوا فی حجر ضب لاتبعتموہ قلنا یارسول اللّٰہ الیہود والنصاری قال فمن 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم ضرور گذشتہ لوگوں کے قدم بقدم چل کر رہوگے حتی کہ اگران میں کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہوگا تو تم بھی ضرور داخل ہوگے ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کیاآپ کی مرادیہود و نصاریٰ ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر اورکون۔
دوسرے الفاظ میں اس مجنونانہ اتباع کی غایت یہاں تک بیان کی گئی ہے کہ اگران میں کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زناء کیا ہوگا تو تم میں بھی ایسے افراد ہوں گے جو یہ روسیاہی کرکے رہیں گے۔
بعض نو مسلموں کو مشرکین کی نقالی کی تمنا اور آپ کی سرزنش
جب تک اسلام کا ضعیف دور رہا بعض نومسلموں کے قلوب میں ہرمعمولی اور غیر معمولی امور میں یہ ہی جذبہٴ اتباع اُبھرتا رہا۔
”ابوواقد لیثی فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ خیبر کی سمت آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اُس وقت ہم نو مسلم تھے وہاں مشرکین نے ایک درخت اپنے ہتھیار لٹکانے کے لئے مقرر کررکھا تھا ہم نے اُسے دیکھ کرکہا یا رسول اللہ ہمارے لئے بھی ایک ایسا ہی درخت ہتھیار لٹکانے کے لئے مقرر کردیجئے آپ نے تعجباً تکبیر کہی اور فرمایا یہ تو وہی بات ہوئی جیسا بنی اسرائیل نے (سمندر عبور کرنے کے بعد کچھ بت پرستوں کو پوجا کرتے دیکھ کر کہہ دیاتھا) اے موسیٰ جیسا خدا ان کا ہے ہمارے لئے بھی ایک ایسا ہی خدا بنادیجئے۔ تم ضرور یہود و نصاریٰ کی نقالی کرکے رہوگے۔“
لیکن جتنی اسلام کو قوت حاصل ہوتی گئی اس کے یہ جذبات فنا ہوتے رہے حتی کہ کچھ دن بعد ہی اب ان کا نقشہ یہ تھا کہ
”حضرت مقداد بن الاسود جنگ بدر کی تیاری کے موقعہ پر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں کہتے ہیں یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ہم وہ نہیں ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ کہہ دیں۔اے موسیٰ جا تواور تیرا رب لڑ آ۔ ہم تو آپ کے دائیں بائیں آگے اورپیچھے رہ کر آپ کے ساتھ جنگ کریں گے۔“ (بخاری شریف)
اب ان دونوں جذبات کا موازنہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہی بات یعنی حرصِ اتباع جو دورِ ضعف میں غیر اختیاری طور پر منہ سے نکل رہی تھی اب انتہائی قابل نفرت وعار بن رہی ہے مگر دونوں جگہ نقطئہ تجاذب وہی بنی اسرائیل ہیں۔ اسلامی دورِ انحطاط میں وہی اتباعِ بنی اسرائیل کا جذبہ پھر لوٹ آئے گا۔ اور بنی اسرائیل کی جو مشابہت پہلے انتہائی قابل نفرت وحقارت معلوم ہوتی تھی پھر لائق رغبت بن جائے گی۔ امت محمدیہ کے اسی رجعت قہقریہ کو صحیح بخاری کی حدیث بالا میں بیان کیاگیا ہے یعنی وہی بات جو آپ کے زمانہ میں قابل تعجب تھی آئندہ دور میں ناگزیر طور پر ہونے والی بات ہوگی۔ حتی کہ اگریہود و نصاری میں کسی نے ماں سے زنا کیا ہوگا تواس بے حیائی میں بھی یہ امت ان کی اتباع کرکے رہے گی۔
امت محمدیہ شغفِ اتباع ہی کی بدولت صفتِ افتراق میں بھی اتباع کریگی
اس شغفِ اتباع سے یہ مترشح ہورہا ہے کہ یہ امت جب ہرمعقول اور نامعقول بات میں ان کے نقش قدم پر چلے گی تو یقینا ضلالت اور گمراہی کی وہ سب راہیں جو یہود ونصاریٰ نے اختیار کی تھیں یہ بھی اختیار کرے گی۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جتنے گمراہ فرقے ان میں نمودار ہوئے تھے اس میں بھی نمودار ہوں گے لیکن افسوس یہ ہے کہ بلند تر جب گرتا ہے تو یہاں بھی فروتر رہتا ہے اس لئے امتِ محمدیہ جب دورِ عروج و کمال میں بلند تر تھی تو اپنے دورِ انحطاط میں اُسے فروتر ہی رہنا چاہئے اور اسی لئے وصفِ افتراق میں یہود ونصاری سے آگے آگے نظر آناچاہئے۔ آخر جو مسند اعلیٰ علیین پرجلوہ نما تھا جب ایمان اور عمل صالح سے محروم ہوا تواس کا ٹھکانا اسفل السافلین ہی ٹھہرا۔
شدتِ اتباع اور حدیثِ افتراق کا تناسب
غالباً اسی گہری مناسبت کی وجہ سے صحیح بخاری کی اس حدیث کو جامع ترمذی میں حدیثِ افتراق کے لئے بطور مقدمہ ذکر کیا گیا ہے یا بالفاظِ دیگر اس شدید افتراق کو اس مبالغہ آمیز اتباع کا ثمرہ اور نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔
آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو باتیں بنی اسرائیل میں ہوئیں وہ ٹھیک ٹھیک سب میری امت میں ہوں گی حتیٰ کہ اگر ان میں کسی نے بے محابااپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی کوئی ایسا بدبخت ہوگاجو اس بے حیائی کا ارتکاب کرے گا اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹے تھے (آخر حدیث تک)
اس سیاق کو پڑھئے اور بغور پڑھئے اوراس عمیق ربط کی تہ تک پہنچ جائیے جو اس شدید اتباع اور شدید اختلاف کے مابین مستور ہے اگر آپ اس ربط کو پالیں تو یقینا اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ حدیث افتراق درحقیقت صحیح بخاری کی حدیث اتباع کا ایک تتمہ تھا جو وہاں رہ گیا تھا وہ یہاں ذکر کردیا گیا ہے بہرحال اگر ہمارے پاس صرف صحیح بخاری ہی کی یہی ایک حدیث ہوتی تو افتراقِ امت کی اجمالی داستان پڑھنے کے لئے کافی تھی۔
$ $ $
حواشی
(1)حاکم کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن زیاد افریقی ہے وہ ضعیف ہے۔ (مستدرک، ج:۱، ص: ۱۲۸)
(2) دیکھو ج:۲، ص: ۱۶۳ و ۱۷۰ و ۲۰۶۔ اور الموافقات، ج:۴، ص: ۱۷۷۔ حاکم نے حدیث مذکور کو دو جگہ روایت کیا ہے۔ (مستدرک ، ج:۱، ص: ۶ و ۱۲۸) ذہبی فرماتے ہیں علی شرط مسلم یعنی حدیث مسلم کی شرط پر ہے۔
(3) مشکوٰة شریف میں بحوالہ مسند احمد ابوداؤد صحابی کا نام معاویہ ذکر کیا ہے۔ اگر کتب حدیث میں کہیں ابو معاویہ کی روایت مل جائے تو خیر ورنہ بظاہر یہاں راوی معاویہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ کنزالعمال میں بھی راوی کا نام معاویہ ہے بحوالہ مسند احمد و طبرانی، مستدرک (ج۱، ص: ۵۴) مستدرک میں بھی معاویہ ہے۔ (دیکھو ،ج:۱ ،ص: ۱۲۸)۔
(4) اللآلی ، ص: ۲۴۸ و ۲۴۹۔
(5)مجمع الزوائد، ج:۶، ص: ۲۲۶۔
(6)ایضا، ج:۷، ص: ۲۵۸۔
(7)ایضاً ،ج:۶، ص: ۲۳۴۔
(8)ایضاً، ج:۷، ص: ۱۵۹۔
(9)ابوغالب کے نام میں اختلاف ہے کوئی حزور کوئی سعید بن حزور اور کوئی نافع کہتا ہے۔ تہذیب التہذیب کی بارہویں جلد میں حافظ ابن حجر نے ان کا مفصل تذکرہ کیاہے۔ بعض کتب میں ابوغالب کی بجائے ابن ابی غالب لکھا گیا ہے ہمارے نزدیک اس حدیث کے راوی ابوغالب ہی ہیں اسی طرح کتاب الاعتصام ، ج:۱، ص: ۳۳ میں زاء کی بجائے حرور راء کے ساتھ لکھا ہے وہ بھی کاتب کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔
(10و 11)مجمع الزوائد، ج:۷، ص: ۱۵۹۔
(12) یہ راوی مختلف فیہ ہے بایں ہمہ اس کو ثقہ کہا گیا ہے۔
(13) مجمع الزوائد، ج:۷، ص: ۲۵۹۔
(14)مجمع الزوائد، ج:۷، ص: ۲۶۰ و مستدرک، ج:۱، ص: ۱۲۹۔
(15) مستدرک، ج:۴، ص:۴۳۰۔
(16)الاعتصام،ج:۲، ص: ۲۱۱۔
(17)مستدرک، ج:۱، ص: ۱۲۸۔
(18) مولانا عبدالحئی صاحب نے رسالہ الرفع والتکمیل میں ان فروق کی پوری تشریح فرمادی ہے ملاحظہ ہو:
کثیرا ما یقولون لایصح اولا یثبت ہذا الحدیث ویظن منہ من لا علم لہ انہ موضوع او ضعیف وہو مبنی علی جہلہ بمصطلحاتہم وعدم وقوفہ علی مصرحاتہم فقد قال علی القاری فی تذکرة الموضوعات لایلزم من عدم الثبوت وجود الوضع انتہیٰ وقال الحافظ ابن حجر فی تخریج احادیث الافکار المسمی بنتائج الافکار ثبت عن احمد بن حنبل انہ قال لا اعلم فی التسمیة فی الوضوء حدیثا ثابتا قلت لایلزم من نفی العلم ثبوت العدم وعلی التنزل لا یلزم من نفی الثبوت ثبوت الضعف لاحتمال ان یراد بالثبوت الصحة فلا ینتفی الحسن و علی التنزل لایلزم من نفی الثبوت عن کل فرد نفیہ عن المجموع۔ وقال نورالدین السمہوری قلت لایلزم من قول احمد فی حدیث التوسعة علی العیال یوم عاشوراء لا یصح ان یکون باطلاً فقد یکون غیر صحیح وہو صالح للاحتجاج بہ اذ الحسن رتبة بین الصحیح والضعیف۔اھ۔ وقال الزرکشی فی نکتہ علی ابن الصلاح۔ بین قولنا موضوع وبین قولنا لایصح لون کثیرا فان الاول اثبات الکذب والاختلاق والثانی اخبار عن عدم الثبوت ولا یلزم منہ اثبات العدم وہذا یجئی فی کل حدیث قال فیہ ابن الجوزی لایصح ونحن اھ ۔ وقال علی القاری مع ان قول السخاوی لایصح لایُنَافی الضعف والحسن اہ ۔ قال الزرقانی ونقل القسطلانی عن ابن رجب ان ابن حبان صححہ فیہ رد علی قول ابن دحیہ لم یصح فی لیلة نصف شعبان شیء الا ان یرید نفی الصحة الاصطلاحیة فان حدیث معاذ ہذا حسن لاصحیح اھ ۔
بسا اوقات محدثین لایصح یا لا یثبت کا لفظ فرماتے ہیں۔ ناواقف اس کا مطلب یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک موضوع یا ضعیف ہے یہ خیال ان کی اصطلاح سے جہالت اور ان کی تصریحات سے ناواقفی کا نتیجہ ہے۔ ملا علی قاری تذکرة الموضوعات میں فرماتے ہیں کہ عدم ثبوت کہنے سے اس کا موضوع ہوجانا ضروری نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر نتائج الافکار میں فرماتے ہیں کہ امام احمد فرماتے تھے کہ میرے نزدیک وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں، میں کہتا ہوں کہ پہلے تو کسی شخص کے نہ جاننے سے اس چیز کا فی الواقع نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اور اگر یہ بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر نفی ثبوت سے اس کا ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا اوراگر یہ بھی تسلیم کرلیا جائے تو ہر ہر فرد کے نفی ثبوت سے مجموعہ کا ثبوت نہ ہونا کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ نورالدین سمہوری فرماتے ہیں کہ امام احمد کے عاشوراء کی حدیث کے متعلق (لایصح) فرمانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ باطل ہو، ہوسکتاہے کہ صحیح تو نہ ہو مگر قابل استدلال ہو کیونکہ صحیح اور ضعیف کے درمیان ایک مرتبہ حسن کا بھی ہے۔ زرکشی نکت ابن صلاح میں فرماتے ہیں کہ ہمارے (لایصح) اور (موضوع) کہنے میں بہت بڑا فرق ہے کیونکہ موضوع کہنے کا مطلب یہ ہے کہ راوی کا جھوٹ اور وضع ثابت ہوگیا ہے اور لا یصح میں صرف عدم ثبوت کی خبر ہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ اس کا عدم ثابت مان لیاجائے یہی بات ان تمام حدیثوں کے متعلق کہی جاسکتی ہے جن کے بارے میں ابن جوزی نے لایصح یا اسی طرح کا کوئی اور حکم لگادیا ہے۔ اھ۔ زرقانی کہتے ہیں کہ قسطلانی نے حافظ ابن رجب سے یہ نقل کیا ہے کہ ابن حبان نے شب نصف شعبان کی فضیلت کی حدیث کو صحیح کہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کے متعلق ابن دحیہ کا لم یصح کہنا غلط ہے مگر یہ کہ اس کے کلام میں اصطلاحی صحت کی نفی مراد لی جائے کیونکہ معاذ کی یہ حدیث اصطلاحی طور پر یقینا صحیح نہیں ہے گو حسن ہو۔
(19)کتاب الفصل،ج:۳، ص: ۱۳۸۔
(20) اس کی وجہ حافظ ابن حزم نے اپنی تصنیف مداواة النفوس میں خود تحریر فرمائی ہے۔
ولقد اصابتنی علة شدیدة ولدت علی ربوا فی الطحال شدیدا فولد ذلک علی ومن الفجر وضیق الخلق وقلة الصبر والتزق امرا حاسبت نفسی فیہ فانکرت تبدل خلقی واشتد عجبی من مفارقتی لطبعی  (توجیہ النظر ص:۳۱ تحت استدراک فی الفائدة السابعہ)
میں ایک شدید بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میری تلی بہت بڑھ گئی تھی اس لئے میرے مزاج میں تنگی، تیزی و بداخلاقی جلد بازی پیدا ہوگئی ہے جب میں اپنی پہلی زندگی پر غور کرتا ہوں تو مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میرے عادات و اخلاق کس قدر تبدیل ہوگئے ہیں اور میں اپنی اصلی طبیعت سے کتنا دور ہوگیا ہوں۔
(21)حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ابن حزم اپنی جلالتِ قدر کے باوجود امام ترمذی جیسے شخص سے بالکل نا آشنا ہیں حتی کہ جب ان کے سامنے امام ترمذی کا تذکرہ ہوا تو تعجب سے فرمایا ”ومن محمد بن عیسی بن سورة؟“ یہ محمد بن عیسیٰ کون شخص ہیں۔ (دیکھو الباعث الحثیث الی معرفت علوم الحدیث)
حافظ ابن حجر امام ترمذی کے تذکرہ میں تحریر فرماتے ہیں واما ابو محمد بن حزم فانہ نادی علی نفسہ بعدم الاطلاع فقال فی کتاب الفرائض من الایصال محمد بن عیسی بن سورة مجہول ابن حزم کواس بات کا خود اقرار ہے کہ وہ محمد بن عیسیٰ (ترمذی) سے واقف نہیں ہیں چنانچہ ان کو مجہول لکھتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں ۔ ترمذی کے بارے میں ابن حزم کا قول کہ وہ مجہول شخص ہیں کچھ قابل التفات نہیں ہے کیونکہ ان کو نہ امام ترمذی کی کتاب جامع سے واقفیت ہے اور نہ ان کی کتاب العلل کا علم ہے۔ (میزان الاعتدال)
______________________________





فرقہ وارانہ تاریکی

قرآن کی روشنی سے ختم کیجئے

از: مولانا حافظ مہر محمد صاحب

 

”اے ایمان والو خدا سے کما حقہ ڈرو اور مرتے دم تک مسلمان رہو اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامو اور فرقے فرقے نہ بنو“ (پ:۴،ع:۲)

جس نے دین میں نئی بات ایجاد کی وہ مردود ہے۔( ارشاد نبوی)

جس نے میری سنت کو چھوڑا وہ مجھ سے نہیں۔ (مشکوٰة،ص:۲۷)

خدائے وحدہ لاشریک لہ اور خاتم المرسلین علیہ الصلاة والسلام کے حقوق و صفات میں دوسروں کو شریک کرنا شخصیات اسلام کی محبت یا دشمنی میں حد سے بڑھنا اور خود ساختہ رسموں یا نظریات کو دین بنالینا فرقہ پرستی ہے۔ ان سے روکنا فرقہ واریت نہیں بلکہ قرآن وسنت اور خیرامت کے خلاف چلنے والوں کو پالنا اور برٹش لاء سے سند جواز مہیا کرنا بڑا گناہ ہے۔

خدا فرماتا ہے:

(۱) ”واتقوہ“ اس سے ڈرو اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں سے نہ ہو ان میں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہوگئے گروہ گروہ۔ ہر گروہ اسی پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھرجب وہ انہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے جبھی ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتاہے کہ ہمارے دینے کی ناشکری کریں۔ (پ:۲۱، ح:۷ کنز الایمان)

اس ترجمہ سے پتہ چلا کہ غیرخدا کو غائبانہ، فوق الاسباب پکارنا شرک ہے۔

(۲) وہ جنھوں نے اپنے دین میں جدا جدا راہیں نکالیں ”وکانو شیعا“ اور کئی گروہ ہوگئے اے محبوب تمہیں ان سے کوئی علاقہ نہیں ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالہ ہے۔ (پ:۸،ع:۷ کنز)

(۳) پھر ہم ہرگروہ سے نکالیں گے جو ان میں رحمن پر سب سے زیادہ بے باک ہوگا۔ (پ:۱۶،ع:۸ کنز)

یہی قرآن مکمل اور راہ ہدایت ہے۔

(۱) اس قرآن میں کوئی شک نہیں متقین کا راہنما ہے جو ان دیکھے حقائق پر ایمان لاتے نماز کی پابندی کرتے اور ہمارے رزق میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں آپ پر اور آپ سے پہلی اتاری ہوئی وحی پر ایمان لاتے اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ اور کامیاب ہیں۔(پ:۱،ع:۱)

(۲) بیشک یہ قرآن سیدھی پختہ راہ پر چلاتا ہے۔ (پ:۱۵،ع:۲)

(۳) یہ قرآن ہم نے ہی اتارا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (پ:۱۴،ع:۱)

(۴) اس معزز کتاب میں باطل آگے اور پیچھے سے آہی نہیں سکتا یہ حکمت والے قابل تعریف خدا کا اتارا ہوا ہے۔ (پ:۲۴،ع:۱۸)

(۵) یہ ہے بابرکت کتاب جو ہم نے اتاری تو تم اس کے پیچھے چلو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (پ:۸،ع:۷)

(۶) اہل کتاب اور عربوں میں سے کچھ لوگ قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار کافر ہی کرتے ہیں۔ (پ:۲۱،ع:۱)

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کی ہر آیت کو ماننا ایمان ہے اپنی مرضی اورنظریہ کے خلاف کسی آیت کا انکار کفر ہے۔

جامعین و ناشرین قرآن خلفاء راشدین نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جو کوئی اسے کم و بیش اور تحریف شدہ مانے اور اپنی ایسی سینکڑوں روایات کو سچ بتائے وہ مسلمان نہیں۔

آئیے اس صحیح قرآن کریم سے اپنے عقائد واعمال کا موازنہ کریں ۔ پہلے کلمہ طیبہ پڑھیں لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ (پ:۲۶) اس میں کمی بیشی نہ کریں پھر شرک سے پاک توحید الٰہی۔ بدعت سے پاک سنت نبوی (علی صاحبہا السلام) نفرت سے پاک تمام صحابہ واہل بیت ائمہ مجتہدین اور اولیاء کرام سے محبت قرآن پاک سے حاصل کریں تو ہم سب مسلمان ایک قوم کفار پر سخت باہم مہربان اور ایک دوسرے کے مجبوب بن جائیں گے، اور اس آیت کا مصداق ہوں گے ”اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت اسلام کو یاد کرو جبکہ تم دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی تو اس نعمت کے صدقے بھائی بھائی ہوگئے ہو۔ (پ:۴،ع:۲)

اور اس آیت کی زد میں نہ آئیں گے ۔ وما یوٴمن اکثرہم باللّٰہ الا وہم مشرکون بہت سے لوگ خدا پر ایمان لاتے ہیں مگراس کے ساتھ شرک بھی کرتے رہتے ہیں۔ (پ:۱۳،ع:۶)

اللہ کی شان وصفات

(۱) سبھی تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے بہت بڑا مہربان انتہائی رحم والا بدلے کے دن کا مالک ہے ہم (مسلمان) صرف تجھی کو پوجتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں ہمیں سیدھی راہ پر چلا جوان لوگوں (انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین) کی راہ ہے جن پر تونے انعام فرمایا ان لوگوں کی راہ نہیں جن پر غضب ہوا ، اور وہ گمراہ ہوگئے (یہود و نصاریٰ جن کی ہم نقالی کرتے ہیں) (فاتحہ)

(۲) وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہر نہاں و عیاں کا جاننے والا۔ وہی ہے بڑا مہربان رحمت والا۔ وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں بادشاہ نہایت پاک سلامتی دینے والا امان بخشنے والا حفاظت فرمانے والا عزت والا عظمت والا تکبر والا اللہ کو پاکی ہے ان کے شرک سے۔ وہی ہے اللہ بنانے والا پیدا کرنے والا ہر ایک کو صورت دینے والا اسی کے ہیں سب اچھے نام اس کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی عزت و حکمت والا ہے۔ (پ:۲۸،ع:۶ کنز)

(۳) کیا اللہ بہتر ہے یا ان کے خود ساختہ شریک۔ یا وہ جس نے آسمان و زمین بنائے اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا تو ہم نے اس سے باغ اگائے رونق والے تمہاری طاقت نہ تھی کہ ان کے پیڑ اگاتے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ بلکہ یہ لوگ راہ سے کتراتے ہیں یا جس نے زمین بسنے کو بنائی اوراس کے بیچ میں نہریں نکالیں اوراس کے لئے لنگربنائے اور دونوں سمندروں میں آڑ رکھی۔ کیا اللہ کے ساتھ اور خدا ہے بلکہ ان میں اکثر جاہل ہیں۔

یا وہ جو لاچار کی سنتا ہے جب اسے پکارے اور دور کرتا ہے برائی اور تمہیں زمین کا وارث کرتا ہے کیا اللہ کے ساتھ اور خدا ہے؟ بہت ہی کم دھیان کرتے ہو۔(پ:۲۰،ع:۱ کنز)

(۴) اور تم طور کی جانب مغرب میں نہ تھے جبکہ ہم نے موسیٰ کو رسالت کا حکم بھیجا اوراس وقت تم حاضر نہ تھے ․․․․ اور نہ تم اہل مدین میں مقیم تھے ان پر ہماری آیتیں پڑھتے ہوئے ہاں ہم رسول بنانے والے ہوئے (تو ہم نے آپ کو علم دیا) (پ:۲۰ ع:۸ کنز)

غیب کی پانچ خاص باتیں

بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے وہی مینھ برساتا ہے اور وہی یہ جانتا ہے کہ حمل میں کیا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ کل اس کے نصیب میں کیا ہے اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ وہ کس سرزمین میں رہے گا بیشک اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا اور باخبر ہے۔ (پ:۲۱،ع:۱۳)

مقبول دہلوی ترجمہ کے بعد حاشیہ میں لکھتے ہیں:

”کہ یہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن پر سوائے خدائے تعالیٰ کے نہ کوئی مقرب فرشتہ مطلع ہے اور نہ کوئی رسول ونبی“ (از جعفر صادق)

نہج البلاغہ میں ہے کہ وہ علم غیب جس کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا یہی چیزیں ہیں (ص:۴۹۷) یہاں کنز الایمان کے حاشیہ میں ہے ”خلاصہ یہ کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اورانبیاء و اولیاء کو (جزوی) علم غیب اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے بطریق معجزہ و کرامت عطاہوتا ہے(ص:۴۹۲) یہ تو سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ معجزات و کرامات برحق ہیں مگر وہ خدا کا فعل ہیں ہر وقت ہر کسی پر ہر معاملہ میں ظاہر نہیں ہوتے اللہ جب چاہیں کسی شریعت کے پابند بندے پر ظاہر کرکے اسکی بزرگی بڑھا دیتے ہیں۔

(۶) پھر جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں اللہ کو پکارتے ہیں ایک اسی پر عقیدہ لاکر پھر وہ جب انہیں خشکی کی طرف بچالاتا ہے جبھی شرک کرنے لگ جاتے ہیں کہ ناشکری کریں ہماری دی ہوئی نعمت کی۔ (پ:۲۱، ع:۳ کنز)

(۷) اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ (پ:۲۴،ع:۱۱ کنز)

(۸) یہ اس لئے کہ جب تنہا خدا کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کردیتے تھے اوراگر اس کے ساتھ شریک کیاجاتا تھا تو تسلیم کرلیتے تھے ․․․ تو خدا کی عبادت خالص کرو اسی کو پکارو اگرچہ کافر برا ہی جانیں۔ ((پ:۲۴،ع:۷ کنز)

(۹) اسی کے ہاتھ ہے پیدا کرنا اور حکم دینا بڑی برکت والا ہے اللہ رب سارے جہان کا اپنے رب سے دعا کرو، گڑگڑاکے اور آہستہ۔ بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اس کے سنورنے کے بعد اور اس سے دعا کرو ڈرتے اور طمع کرتے بیشک اللہ کی رحمت نیکوں کے قریب ہے۔ (پ:۸،ع:۱۴ کنز)

شرک کی مذمت

(۱۰) اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔ (پ:۲،ع:۳ کنز)

(۱۱) بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنھوں نے کہا کہ اللہ وہی مسیح بن مریم ہے حالانکہ مسیح نے یہ کہا کہ اَے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے بیشک جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کریگا اس پر اللہ نے جنت کو حرام کردیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (پ:۶، ع:۱۴ مقبول)

(۱۲) کہہ دو کیا تم خدا کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نفع اور ضرر پر قادر نہیں حالانکہ اللہ سننے جاننے والا ہے (ایضاً)

(۱۳) تم کہہ دو میں تم سے یہ تو نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب دان ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے تم کہہ دو کیا اندھااورآنکھوں والا برابر ہے۔ (پ:۷،ع:۱۱ مقبول)

(۱۴) اے کتابیو! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے یہ کہ عبادت نہ کریں مگر خدا کی اور اس کا شریک کسی کو نہ کریں اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو رب نہ بنائے اللہ کے سوا۔ (پ:۳،ع:۱۵)

(۱۵) کسی بشر کا یہ حوصلہ نہیں کہ خدا تو اسے کتاب اور حکمت اور نبوت دے پھر وہ سب آدمیوں سے یہ کہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ (البتہ یہ کہہ سکتا ہے) کہ جیسے تم کتاب کی تعلیم و تدریس کرتے ہو ایسے تم خود اللہ والے بن جاؤ اور اللہ تم کو یہ حکم نہیں دیتا کہ تم فرشتوں کو اور پیغمبروں کو خدا بناؤ کیا وہ تم کو کفر کا حکم دے گا بعد اس کے کہ تم مسلمان ہوچکے ہو۔ (پ:۳،ع:۱۶، مقبول)

(۱۶) اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جوچاہے۔ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملاکر دے اورجسے چاہے بانجھ کردے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔ (پ:۲۵،ع:۶ کنز)

(۱۷) سنو اولیاء اللہ پر کوئی ڈر اور غم نہیں یہ وہ ہیں جو خدا پر ایمان لائے اور گناہوں سے بچتے ہیں۔ (پ:۱۱،ع:۱۲)

(۱۸) خالص خدا پر یقین کرکے اسے پکارو اگرچہ کافر برا منائیں۔ (پ:۲۲،ع:۷)

(۱۹) اللہ ایمان والوں کو کلمہ توحید کے ساتھ دنیا اور قبر میں ثابت قدم رکھے گا۔ (پ:۱۳)

(۲۰) قوم فرعون پر صبح شام آگ پڑتی ہے۔ قیامت کے دن اس سے بدترین عذاب میں ہوں گے۔(پ:۲۴،ع:۲۰)

خلاصہ آیات

خلاصہ یہ ہے کہ سب کائنات کا اللہ ہی خالق ، مالک، رازق،مشکل کشا،مستعان غیب دان ہر جگہ موجود و ناظر قادر و مختار کل منافع و ضار اولاد دینے والا فتح اور شفا دینے والا نذر ومنت کا مستحق غوث اعظم ہردم ذکر و ورد کے قابل وہاب داتا مصائب ٹالنے والا اور دست گیر ہے ہم سب مسلمان اسی کو پکاریں حاجت برآری کیلئے اسی کے نام کی ندر و منت اور جانوروں کی قربانی دیں اسے ہی اپنا رازداں قادر جانیں عذاب قبر بھی برحق ہے جو اسی زمین پر ہوتا ہے جہاں مردہ دفن ہوا یا ڈوبا ہے۔

صحابہ کے موحد اعظم حضرت علی المرتضیٰ نے اپنے ان ۷۰ غالی حبداروں کو زندہ جلادیا تھا جو آپ کو رب کارساز اور مشکل کشا کہہ کر مددیں مانگتے تھے۔ (مشکوٰة رجال کشی اصول الشریعہ وغیرہ ص:۲۷)

قطب ربانی محبوب سبحانی حضرت شیخ الاولیاء عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے غنیة الطالبین فرق باطلہ کے رد میں یہ مرتدوں کا عقیدہ بتایا ہے۔

صبر و عزا قرآن و سنت میں

غزوہٴ احد میں ۷۰ شہداء پر ماتم سے اللہ نے منع فرمایا ”اور صبر کریں تو صبر کرنے والوں کیلئے یہی بہتر ہے۔ اور صبر ہی کیجئے اور صبر اللہ کی توفیق سے ہوگا اور ان پر غم نہ کیجئے“(پ:۱۴،ع:۲۲)

حضور علیہ السلام نے ولا یعصینک فی معروف پ:۲۸ ع۸ کی تفسیر میں فرمایا:

اے عورتو! بین نہ کرنا منھ سینہ نہ پیٹنا کالے کپڑے نہ پہننا مجلس قائم نہ کرنا۔

حضرت علی فرماتے ہیں:

اگر آپ نے صبر کا حکم اور پیٹنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم سرکا پانی خشک کردیتے(نہج البلاغہ)

حضور علیہ السلام نے خاتون جنت کو وصیت فرمائی:

اے فاطمہ! میری وفات پر گریبان چاک نہ کرنا بال نہ نوچنا منھ سینہ نہ پیٹنا کالا لباس نہ پہننا ماتمی عورتوں کو نہ بلانا (فروع کافی وغیرہ)

حضرت امام حسین نے میدان کربلا میں اپنی بہن زینب کو یہی وصیت کی تھی۔ (تاریخ)

نوٹ: ہم مسلمان ان احکام پر عمل کریں گناہ چھوڑ دیں تو ایک مسلم قوم بن جائیں۔

قرآن وسنت اوراجماع امت کی اتباع سے ہم ایک امت بنیں گے

(۱) جو شخص راہ حق کھل جانے کے بعد رسول اللہ کی مخالفت کرے گا اور مومنین کے راستہ کے خلاف اور راہ پر چلے گا، تو وہ جدھر جائے ہم جانے دیں گے پھر اسے جہنم میں ڈالیں گے جو برا ٹھکانہ ہے۔ (پ:۵،ع:۱۴ ، نساء)

(۲) مہاجرین و انصار ۔ ایمان واسلام میں آگے بڑھنے والے اور جوان کے نیکی میں پیروکار ہیں۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ان کے لئے جنت تیار ہے۔ ہمیشہ اس میں رہیں گے یہی تو بڑی کامیابی ہے۔ (پ:۱۱،ع:۲ ،توبہ)

(۳) ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولوالامر (حکم شرع دینے والے امراء اور مجتہدین) کی بھی۔ (پ:۵،ع:۵)

(۴) اوراگر وہ رسول اللہ اور اولوالامر کی طرف یہ مسئلہ لوٹائے تو ان میں سے گہرائی کے ساتھ (اجتہاد سے) مسئلہ نکالنے والے جان لیتے۔ (پ:۵،ع:۸)

(۵) اے اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلا ان لوگوں کی راہ پر جن پر تونے انعام فرمایا (انبیاء صدیقین شہدا صالحین جو بہت اچھے رفیق ہیں) (فاتحہ ونساء،پ:۵)

(۶) تم جاننے والوں سے پوچھو اگر خود نہیں جانتے۔(پ:۱۷،ع:۱)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ صحابہ مہاجرین و انصار خلفاء راشدین نیکیوں میں ان کے تابعدار مومنین برحق اور واجب الاتباع جنتی ہیں قرآن و سنت کی جرنیلی سڑک ان کی اتباع اور تقلید سے ملے گی ورنہ اجماع امت سے علیحدگی راہ جہنم ہے۔ ان پراعتماد نہ کرنا۔ اپنی مرضی سے چند آیات و احادیث کا نیا معنی کرکے الگ فرقہ بنالینا۔ اور پوری امت یا اکثر امت کے مجتہدین کو برغلط اور گمراہ کہنا خود گمراہی ہے جو ہر فرقہ کی نشانی ہے۔

قرآن وسنت اوراجماع امت کے متفقہ مسائل

(۱) قبریں کچی بالشت بھر ہوں پختہ نہ بنائیں ان پر سلام و دعا کریں مگر مدد خداسے مانگیں۔

(۲) ماں باپ یا بزرگوں کو ایصال ثواب درست ہے مگر ان سے حاجت برآری کی نیت نہ ہو۔

(۳) حاجت طلبی کے لئے نذر قربانی اور دیگ پکانا صرف اللہ کاحق اور خاصہ ہے۔

(۴) اولیاء اللہ کو پکارے بغیر ان کے توسل سے صرف خدا سے دعا مانگنا جمہور مسلمانوں کے ہاں درست ہے۔

(۵) خیر القرون میں ہر شہر کے بڑے صحابی تابعی مجتہد مفتی کی عام لوگ تقلید کرتے تھے پھر بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اختلافات کو سمیٹنے کے لئے پوری امت نے صرف ۴ ائمہ مجتہدین: امام اعظم ابوحنیفہ،مالک ،شافعی،احمد کی فقہ پر اتفاق کرلیا کہ دیانتہً کوئی شخص کسی امام کو قرآن وحدیث کے قریب سمجھ کر تمام مسائل میں اس کی تقلید کرے تاکہ اس پر تن آسانی اور خودغرضی کا داغ نہ لگے ۔ اسی طرح امت نے چھ محدثین کی صحاح ستہ پر اور سات قاریوں کی قرأت پر اتفاق کرلیا اب ائمہ فقہ کی شخصی تقلید پر اعتراض ایسا ہی ہے جیسے کوئی محدثین اور قاریوں کا انکار کرکے قرآن و حدیث کا منکر ہوجائے۔

حلال وحرام کے خدائی احکام

آؤ تمہیں میں سنادوں جو حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے کہ شریک نہ کرو اسکے ساتھ کسی چیز کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور مار نہ ڈالو اپنی اولاد کو مفلسی سے ہم رزق دیتے ہیں تم کو اور ان کو اورپاس نہ جاؤ بے حیائی کے کام کے جو ظاہر اس میں سے اورجو پوشیدہ ہو اور مار نہ ڈالو اس جان کوجس کو حرام کیا ہے اللہ نے مگر حق پر۔ تم کو یہ حکم کیا ہے تاکہ تم سمجھو۔ اور پاس نہ جاؤ یتیم کے مال کے مگراس طرح سے کہ بہتر ہو یہاں تک کہ پہنچ جائے اپنی جوانی کو اورپورا کرو ناپ اور تول کو انصاف سے ہم کسی کے ذمہ وہی چیز لازم کرتے ہیں جس کی اس کو طاقت ہو اورجب بات کہو تو حق کی کہو اگر چہ وہ اپنا قریب ہی ہو اور اللہ کا عہد پورا کرو۔ تم کو یہ حکم دیا ہے تاکہ نصیحت پکڑو اور حکم کیا کہ یہ راہ ہے میری سیدھی سو اس پر چلو اور مت چلو اور راستوں پر کہ وہ تم کو جدا کردیں گے اللہ کے راستے سے۔ (پ:۸،ع:۶، از شیخ الہند)

جنت کے وارث کون ہیں

بیشک ان مومنوں نے فلاح پائی جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں اور جو بے ہودہ باتوں سے منھ پھرانے والے ہیں اور جو زکوٰة ادا کرنے والے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی ازواج کے یا اپنے ہاتھ کے مال (لونڈیوں) کے کہ اس صورت میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں پس جو اس کے سوا خواہش کرے پس وہی تو زیادتی کرنے والے ہیں (نفع کے نام سے بلا ولی و گواہ مقررہ وقت و فیس کے ساتھ جنسی تعلق حرام ہوا) اور وہ جو اپنی امانتوں کی اور عہدوپیمان کی حفاظت کرتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں یہی لوگ تو وارث ہیں جو جنت فردوس میں میراث لے لیں گے اور وہ ہمیشہ اُسی میں رہنے والے ہوں گے۔ (پ:۱۸،ع:۱، مقبول)

پانچ نمازیں اپنے وقت پر پڑھو

(۱) بیشک نماز اپنے اپنے مقررہ وقت پر پڑھنا مومنوں پر فرض ہے۔(پ:۵،ع:۱۲)

(۲) پس تم اللہ کی پاکی بیان کرو (نماز پڑھو) شام (عصر و مغرب) اور صبح کے وقت۔ اوراسی کی خوبی ہے آسمان اور زمین میں (نماز پڑھو) عشا کی اور ظہر کی۔ (پ:۲۱،ع:۶ روم)

ہر مسلمان سپیکر پر بھی (بغیر کمی بیشی کے) وہی بلالی اذان دے جو وہ خطبہ جمعہ پر پڑھتا ہے (اذا نودی للصلوة من یوم الجمعة) (پ:۲۸،ع:۱۲)

خاتم المرسلین (علیہ الصلوٰة والسلام) کی شان و صفات

(۱) قسم ہے پکے قرآن کی تو تحقیق ہے بھیجے ہوؤں سے اوپر سیدھی راہ کے (یٰسین پہلی آیت)

 ان آیات کا ترجمہ شیخ الہند کا ہے۔

(۲) یہ آیتیں اللہ کی ہیں ہم آپ کو سناتے ہیں اور تو بے شک رسولوں میں سے ہے۔ (بقرہ:۲۵۲)

(۳) اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے خوشخبری اور ڈر سنانے کو لیکن بہت لوگ نہیں سمجھتے۔ (پ:۲۲،ع:۹)

(۴) بڑی برکت ہے اس کی جس نے اتاری فیصلہ کی کتاب اپنے بندہ پر تاکہ رہے جہان والوں کے لئے ڈرسنانے والا۔ (پ:۱۸،ع:۱۶)

(۵) سوجولوگ اس پر ایمان لائے اوراس کی رفاقت کی اور اس کی مدد کی اور تابع ہوئے اس نور کے جو اس کے ساتھ اترا ہے وہی لوگ پہنچے اپنی مراد کو۔ تو کہہ اے لوگو میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔ (پ:۹،ع:۹)

(۶) اوراللہ نے اتاری تجھ پر کتاب اورحکمت اور تجھ کو سکھائیں وہ باتیں جو تو نہ جانتا تھا۔ (پ:۵،ع:۱۴)

(۷) کفار نے کہا ہم تیرے آسمان پر چڑھنے کو بھی نہ مانیں گے یہاں تک کہ توایک کتاب ہم پراتار لائے کہ ہم اسے پڑھیں تو کہہ سبحان اللہ میں کون ہوں مگرآدمی بھیجا ہوا۔ اور لوگوں کو روکا نہیں ایمان لانے سے جب پہنچی ان تک ہدایت مگر اس بات نے کہ کہنے لگے کیا اللہ نے بھیجا آدمی کو پیغام دے کر۔؟ آپ کہیں اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے چلتے پھرتے اطمینان سے تو ہم ان پر رسول بھی فرشتہ آسمان سے اتارتے۔ (پ:۱۵،ع:۱۱)

(۸)   (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی) اے پروردگار ہمارے بھیج ان میں ایک رسول انہی میں سے کہ پڑھے ان پر تیری آیات اور سکھائے ان کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور پاک کرے ان کو۔ (پ:۱،ع:۱۵)

ف: پتہ چلا کہ آ پ خاتم النّبیین ہیں تاقیامت سب لوگ آپ سے ایمان و ہدایت پانے کے محتاج ہیں۔ جو لوگ نیا نبی اور معصوم مانیں کہ ہمارے ہادی وامام تو پیدائشی مومن اور عالم لدنی تھے سب لوگ ان سے ہی دین حاصل کریں وہ نبوت اور ختم نبوت کے منکر ہیں۔

صحابہ کرام کی شان وصفات (رضی اللہ عنہم)

(۱) جو لوگ ایمان لائے اورانھوں نے نیک عمل کئے اورجوکچھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیاگیا اور وہ انکے پروردگار کی طرف سے حق ہے اس پر بھی ایمان لائے۔ ان سے ان کی بدیاں دور کردیں اوران کی حالت درست فرمادیں۔(تاریخی جھوٹ ہے اگران پر عیب لگائے) (پ:۲۶،ع:۱، سورہ محمد) مقبول

(۲) (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) رسول ہے اللہ کا اور جولوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر نرم دل ہیں آپس میں تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اوراس کی خوشی، نشانی ان کے منھ پر ہے سجدہ کے اثر سے یہ شان ہے ان کی تورات میں اور مثال ان کی انجیل میں جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا پھر اس کی کمر مضبوط کی پھر موٹا ہوا پھر کھڑاہوگیا اپنی نال پر۔ خوش لگتا ہے کھیتی والوں کو۔ تاکہ جلائے ان سے جی کافروں کا۔ وعدہ کیا ہے اللہ نے ان سے جو یقین لائے ہیں اور کیئے ہیں بھلے کام معافی کا اور بڑے ثواب کا۔ (آخری آیت سورہ فتح،پ:۲۶، از شیخ الہند)

(۳) پر اللہ نے محبت ڈال دی تمہارے دلوں میں ایمان کی اور کھبا دیا اس کو تمہارے دلوں میں اورنفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر گناہ اور نافرمانی کی وہ لوگ وہی ہیں نیک راہ پر اللہ کے فضل سے اور احسان سے۔ (پ:۲۶،ع:۱۳)

(۴) جب آئی اللہ کی مدد اور فتح (ہوگیا مکہ) اور دیکھا تم نے لوگوں کو کہ خدا کے دین میں گروہ کے گروہ داخل ہورہے ہیں تو اب تم اپنے رب کی حمد کی تسبیح پڑھو اور اس سے مغفرت طلب کرو۔ (پ:۳۰، سوہ نصر) مقبول

(۵) اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی اور جہاد کیلئے اور جنھوں نے (ان کو) جگہ دی اور نصرت کی برحق مومن وہی ہیں بخشش اور عزت کی روزی انہی کے لئے ہے اور جولوگ بعد میں ایمان لائے اورانھوں نے ہجرت کی اور تمہارے ہوکر جہاد کئے وہ بھی تمہیں میں محبوب ہیں۔ (پ:۱۰، انفال آخری آیت) مقبول

خلفائے راشدین مہاجرین وعدئہ الٰہی اور واجب الاتباع ہیں

(۱) ان سب لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اورجنھوں نے نیک عمل کئے اللہ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ضرور ان کو اس زمین میں (پیغمبر کا) جانشین بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو جانشین بنایا تھا اور ضرور ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کرلیا ہے ان کی خاطر سے پائیدار کردے گا اور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا اس وقت وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں گے اورجواس کے بعد (ان کی) ناشکری کرے گا پس نافرمان وہی ہیں۔ (پ:۱۸،ع:۱۳ مقبول)

(۲) (مہاجرین) وہ لوگ ہیں جن کواگر ہم زمین میں تمکن (اقتدار) دیں گے تو وہ (باقاعدہ) نماز پڑھیں گے اور زکوٰة دیں گے اور نیک کاموں کا حکم کریں گے اور بدی سے مانع ہوں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔ (پ:۱۷،ع:۱۳ مقبول)

(۳) اور مہاجرین وانصار میں سب سے پہلے (ایمان کی طرف) سبقت کرنے والے اور وہ لوگ جنھوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی خدائے تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہوگئے اور ان کے لئے ایسے باغ تیار کئے ہیں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ (پ:۱۱،ع:۲)

(۴) اور وہ لوگ جنھوں نے بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیاگیا خدا کی خوشنودی کیلئے ہجرت کی ہم ضرور بالضرور ان کو دنیا میں رہنے کی اچھی جگہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت ہی بڑا ہوگا۔ (پ:۱۴،ع:۱۲)

تاریخ و سیرت کا ہر دن گواہ ہے کہ یہ وعدئہ الٰہی جن مہاجرین سے پورا ہوا وہ خلفاء راشدین ہیں ان کی پیروی سے جنت ملے گی۔ بقول ظفرعلی خاں ۔

ہیں کرنیں  ایک  ہی مشعل  کی  ابوبکر و عمر عثمان وعلی

ہم مسلک ہیں یاران نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں

علامہ اقبال مرحوم بھی ان کی عالمی خلافت راشدہ پر ابھارتے ہیں:

سبق پڑھ پھر صداقت کا شجاعت کا عدالت کا

لیا جائے گا تجھ  سے  کام  دنیا  کی  اما مت  کا

نبی کا گھرانہ واہل بیت موٴمنین کو پیارے ہیں

(۱) نبی مومنین کی جانوں کا خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور رشتہ دار مومنین و مہاجرین میں سے (اپنوں کی) میراث کے زیادہ مستحق ہیں۔ (احزاب:۱)

(۲) (اے نبی کی عورتو!) اپنے گھروں میں (عزت ووقار) سے بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کا بناؤ سنگار کرکے باہر نہ نکلا کرو اور نماز پڑھ کر اور زکوٰة دیا کرو اور (برابر) اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتی رہو اے اہل بیت سوائے اس کے نہیں ہے کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ تم سے ہرقسم کے رجس کو دور کردے اور تم کو ایسا پاک کردے جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے۔ اور تمہارے گھروں میں خدا کی آیتیں اور حکمت کی باتیں جو پڑھی جاتی ہیں انہیں یاد رکھو بیشک خدائے تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔ (احزاب،پ:۲۲،ع:۱)

(۳) اے نبی تم اپنی ازواج سے اوراپنی بیٹیوں سے اور اہل ایمان کی عورتو ں سے یہ کہہ دو کہ وہ اپنی چادروں سے گھونگھٹ نکال لیا کریں۔(پ:۲۲،ع:۵)

(۴) (ازواج مطہرات کی) یہ خصوصیت اس سے قریب تر ہے کہ ان سب کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ رنجیدہ نہ رہیں․․․․ اس کے بعد نہ تمہارے لئے اور عورتیں حلال ہیں اور نہ یہ بات کہ تم موجودہ (۱۱) ازواج کے بدلے اور ازواج کرلو۔(پ:۲۲،ع:۳)

(۵) بالفرض اگر وہ تم کو طلاق دیدے تو قریب ہے کہ اس کا پروردگار بدلے میں اس کو ایسی ازواج دیدے جو تم سے بہتر ہوں فرمانبرداری کرنے والیاں ایمان والیاں اطاعت کرنے والیاں توبہ کرنے والیاں عبادت کرنے والیاں روزہ رکھنے والیاں شوہردیدہ اور کنواریاں۔ (پ:۲۸،ع:۱۹ مقبول)

ازواج مطہرات ان ہی صفات والی تھیں۔

(۶) پاک بیویاں پاک مردوں کے لئے اور پاک مرد پاک بیویوں کے لائق ہیں یہ لوگ تہمت سے پاک ہیں۔ (نور،پ:۱۸،ع:۹)

(۷) تم فرماؤ میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت (رشتہ داری کی محبت) (کنز)

نوٹ: ان تمام آیات میں اہل بیت نبوت ازواج مطہرات کی پاکی اور شان بیان ہوئی ہے، احادیث میں حضرت علی و فاطمہ اور حسین کو بھی اہل بیت فرمایا ہے۔ (مسلم)

پھر بنوہاشم میں سے مومنین آل علی، آل جعفر،آل عقیل،آل عباس اور آل حارث بن عبدالمطلب کو بھی آل رسول فرمایا ہے جن پر صدقات واجبہ حرام ہیں۔ مومنین مسلمان ان تمام اہل بیت محمد سے محبت کرتے اور تحفہ درود بھیجتے ہیں کسی سے عناد و دشمنی کفر جانتے ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے علماء دین یہ قرآنی عقائد سناکر مسلمانوں کو ایک بنائیں۔ انتظامیہ قانون لاگو کردے، بقول اقبال:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کی وادی سے لے کر تا بخاک کاشغر

اللّٰہم صل علی محمد وآلہ

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 90 ‏،رمضان المبارک1427 ہجری مطابق اکتوبر2006ء




==========================================
ہدایت-یافتہ خلفاء کی سنّت 

(١) حضرت عمر کے مشورے سے حضرت ابو بکر کا حضرت زید بن ثابت (رضی الله عنہم) کو حکم دیکر قرآن مجید کا جمع کرنا اور اس کی سورتوں کو (موجودہ ترتیب کے ساتھ) مرتب کرنا،

(٢) حضرت عمر (رضی الله عنہ) کا "پورا" رمضان "مسجد" میں ٢٠ رکعت تراویح کی جماعت"ایک امام" کی اقتدا میں جاری کرانا، ایک مجلس میں دی گئی طلاق_بتہ(جس کا مانا ایک یا تین ہیں) کو تین (٣) قرار دینا۔

(٣) حضرت عثمان کا نماز_جمعہ کے واسطے پہلی اذاں مقرر کرنا جو آج بھی مکّہ و مدینہ بلکہ دنیا کی لاکھوں مسجدوں میں ہوتی ہے.

(٤) حضرت علی رضی الله عنہ (اس امت کے قاضی یعنی جج) کا (اور بقیہ صحابہ_کرام رضی الله عنہم کا) ان سے پہلے کے خلفاء کے اجتہادی فیصلوں اور طریقوں پر اتفاق کرتے جاری و ساری رکھنا یعنی ان فیصلوں پر ان کا اتفاق و اجماع قائم رہنا. جس پر چاروں (٤) ائمہ_کرام رحمہم الله کا بھی اتفاق و اجماع ہے.
حدیث کی کتابوں کو لکھنا.وغیرہ



الجماعت:
اسکے دو معنی ہو سکتے ہیں نمبر۱۔صحابہ کی جماعت نمبر۲۔سنت کے ماہر

تو ان معنی کو سامنے رکھتے ہوے اہل سنت و الجماعت کا معنی ہو گا کہ ایسی جماعت جو سنت پر عمل کرتی ہے اور صحابہ سے پوچھ پوچھ کر کرتی ہے۔اسلئے کہ صحابہ ہی وہ جماعت ہے جس نے حضور ﷺ سے عمل لیا اور اسے اسی طرح کیا جس طرح سے حضور نے کیا۔

ہم کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی سنت پر عمل کرو لیکن صحابہ سے پوچھ کر۔کیوں:حضرت امام ابو داود نے اصول ذکر کیا ہے (باب لحم الصید للمحرم میں اور باب من لا یقطع الصلوة شیئ)کتاب میں فرمایا(اذا تنازع الخبران عن النبی ﷺ نظر الیٰ ما عمل اصحابہ بعدہ)

اور امام بخاری اپنے ذوق کے مطابق اصول بیان کرتے ہیں (جلد ۱،ص۵۹ ) پر باب باندھا (انما جعل الامام لیوتم)

اور آگے دو قسم کی احادیث لائے ہیں۔نمبر۱۔حضور ﷺ نے کسی بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھی اور صحابہ نے بھی بیٹھ کر نماز پڑھی نمبر۲۔حضور ﷺ نے کسی بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھی اور صحابہ کو کہا کہ تم کھڑے ہو کر پڑہو

امام بخاری نے اپنے استاد سے اصول ذکر کیا کہ امام ہمیدی نے ذکر فرمایا کہ ہم دیکھیں گے کہ حضور ﷺ کا آخری عمل کیا تھا تو ہم حضور ﷺ کے آخری عمل کو لے لیں گے۔ (جلد ۱،ص۶۹ )


اہل سنت و الجماعت کا مطلب


سنت: سے مراد ہے قانونِ شریعت
جماعت: سے مراد ہے ماہرینِ قانونِ شریعت
اہلِ سنت والجماعت: تو اہلِ سنت والجماعت کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی جماعت جو سنت پر عمل کرے ماہرین قانونِ شریعت سے پوچھ کر۔اور جو شخص اپنی رائے پر عمل کرے یا قانون شریعت پر عمل ہی نہ کرے وہ اہل بدعت ہے۔

ماہرینِ قانونِ شریعت کون ہیں:
۱۔ خلفائے راشدین ۲۔ صحابہ کرام ۳۔ مجتہدین

آخری اور پہلا عمل صحابی بتائے گا۔ لہٰذا ہم کسی بھی عمل کے بارے میں پہلے صحابی سے پوچھیں گے کہ حضور سے اس عمل کے بارے میں دو احادیث ہیں تو آخری عمل کونسا ہے۔

(جاری ہے)
=========================================

جو دین/نیکی کا کام/طریقہ/حالت، نبوی سنّت اور جماعتِ صحابہ سے ثابت نہ ہو تو وہ بدعت(دین میں نئی بات)ہے.

بدعت کا لغوی معنی


مشہور امامِ لغت ابو الفتح ناصر بن عبد السید المطرازی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 616 ھ )لکھتے ہیں کہ :

بدعت ابتداع کا اسم ہے جس کے معنی یہ ہے کہ کوئی نئی چیز ایجاد کی جائے ،رفعت ارتفاع کا اور خلفت اختلاف کا اسم ہے ۔لیکن پھر بدعت کا لفظ ایسی چیز پر غالب آگیا جو دین میں زیادہ یا کم کردی جائے"(مغرب ج 1 ص 30)

علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 503 ھ) لکھتے ہیں کہ " مذہب میں بدعت کا اطلاق ایسے قول پر ہوتا ہے جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کے نقش قدم پر نہ چلا ہو ۔اور شریعت کی سابق مثالوں اور اس کے محکم اصولوں پر وہ گامزن نہ ہوا ہو"(مفرادت القرآن ص 37)

بدعت کا شرعی معنی 

حافظ بدرالدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 855 ھ) لکھتے ہیں کہ " بدعت اصل میں ایسی نو ایجاد چیز کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھی (عمدۃ القاری ج 5 ص 356)

حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت اصل میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے ایجاد کی گئی ہو ۔اور شریعت میں بدعت کا اطلاق سنت کے مقابلہ میں ہوتا ہے لہذا مذموم ہی ہوگی "(فتح الباری ج 4 ص 219)

حافظ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت سے مراد وہ چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے ،اور بہرحال وہ چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دال ہے تو شرعا بدعت نہیں ہے اگر چہ لغۃ بدعت ہوگی"(جامع العلوم و الحکم ص 193)

اور بعینہ ان الفاظ سے بدعت کی تعریف علامہ معین بن صفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 889 ھ ) نے شرح اربعین نووی میں کی ہے (الجنہ ص 159

نیز حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدیع السمٰوت " کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔اور لغت میں ہر نئی چیز کو بدعت کہا جاتا ہے اور بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔(اول)بدعت شرعی جس کے متعلق جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ"کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ۔۔۔(دوم)کبھی بدعت لغوی ہوئی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے مل کے تراویح پڑھنے کے متعلق فرمایا "نعمت البدعۃ ھٰذا"یہ کیا ہی اچھی نو ایجاد ہے"۔۔۔۔پھر آگے لکھتے ہیں کہ اور اسی طرح ہر وہ قول جس کو پہلے کسی نے نہ کیا ہو ،اہل عرب ایسے کام کو بدعت کہتے ہیں "(تفیسر ابن کثیر ج 1 ص 161)



اس سے قبل کے ہم بعت سیئہ اور بدعت حسنہ کی وضاحت کریں مناسب ہے کہ ایک اہم نکتہ کی وضاحت آپ حضرات کے سامنے پیش کردی جائے۔



اہل بدعت کا یہ کہنا کہ جس چیز کی نہیں کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اس کا نکالنا اور کرنا برا نہیں ۔۔۔۔ سراسر باطل اور قطعا مردود ہے اور محدثین عظام اور فقہائے کرام کے صریح ضوابط کے خلاف ہے ۔۔علماء اسلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ جیسے عزائم سے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت و خشنودی کی جاتی ہے اسی طرح رخصتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی متعلق ہے اور جس طرح جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو کرنا سنت ہی طرح کسی کام کا چھوڑنا بھی سنت ہے ۔ لہذا آپ کے ترک فعل کی اتباع بھی سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے ۔۔۔چناچہ ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ایک حدیث شریف یوں پیش فرماتے ہیں :

"اللہ تعالیٰ جیسے عزائم کی ادائیگی کو پسند کرتا ہے اسی طرح وہ اس کو بھی پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر بھی عمل کیا جائے (مرقات ج 2 ص 15)(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 12

نیز حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث "انما الاعمال بالنیات"کی شرح میں یہ نقل کرتے ہیں کہ "متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی متابعت ہوتی ہے ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے"(مرقات ج 1 ص 41)

اور اسی موقع پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " اتباع جیسے فعل میں واجب ہے اسی طرح ترک میں بھی اتباع ہوگی ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا وہ بدعتی ہوگا ۔اسی طرح محدثین کرام نے فرمایا ہے "(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 20)

شرح مسند امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ میں ہے "اتباع جیسے فعل میں ہے اسی طرح ترک میں بھی ہے سو جس نے ایسے فعل پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ مبتدع ہوگا ۔کیوں کہ اس کو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ قول شامل ہے کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا ثبوت نہیں تو وہ مردود ہوگا"(انتہی)(مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ بحث تلفظ بالنیۃ)



ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ باوجود محرک اور سبب کے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو نہ کرنا ایسا ہی سنت ہے جیسا کہ آپ کو کسی کام کو کرنا سنّت ہے ۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص آپ کی اس سنت پر عمل نہیں کرتا ،وہ محدثین کرام کی تصریح کے مطابق بدعتی ہوگا۔۔اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ وہ تمام کام جو اہل بدعت کرتے ہیں اس کے داعی اور محرکات آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی موجود تھے مگر آپ نے ان کو ترک فرمایا اور آپ کا ان کو ترک فرمانا سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے۔
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : " إِنَّ رَفْعَكُمْ أَيْدِيَكُمْ بِدْعَةٌ ، مَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا " ، يَعْنِي : إِلَى الصَّدْرِ .


حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ " تمہارے (اس طرح ) ہاتھ اٹھانے بدعت ہیں کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سینہ مبارک سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھائے "(مسند احمد ج 2 ص 61)

المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 7/163 / خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن



تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1إن رفعكم أيديكم بدعة ما زاد رسول الله على هذاعبد الله بن عمرمسند أحمد بن حنبل51145242أحمد بن حنبل241
2إن رفعكم أيديكم في الصلاة لبدعة والله ما زاد رسول الله على هكذا يعني بإصبعهعبد الله بن عمرالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر541540ابن حجر العسقلاني852
3رفعكم أيديكم في الصلاة لبدعة والله ما زاد رسول الله على هكذا يعني بأصبعهعبد الله بن عمرإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة14942 : 368البوصيري840
4رفعكم أيديكم بدعة ما زاد رسول الله على هذا يعني الصدرعبد الله بن عمرإتحاف المهرة8973---ابن حجر العسقلاني852



وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ رُؤَيْبَةَ ، قَالَ : رَأَى بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ رَافِعًا يَدَيْهِ ، فَقَالَ قَبَّحَ اللَّهُ هَاتَيْنِ الْيَدَيْنِ ، " لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَزِيدُ عَلَى أَنْ يَقُولَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الْمُسَبِّحَةِ " . وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : " رَأَيْتُ بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ يَوْمَ جُمُعَةٍ يَرْفَعُ يَدَيْهِ " ، فَقَالَ عُمَارَةُ بْنُ رُؤَيْبَةَ : فَذَكَرَ نَحْوَهُ .

حضرت عمارہ بن رویبہ نے بشر بن مروان کو منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو سخت لہجہ میں یوں ارشاد فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کا ناس کرے میں نے تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کی انگلی سے زیادہ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا(اور یہ دونوں ہاتھ اٹھا رہے ہیں) )(مسلم ج 1 ص 287)

تخريج الحديث

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ما يزيد على أن يقول بيده هكذا وأشار بإصبعه المسبحةعمارة بن رويبةصحيح مسلم1449875مسلم بن الحجاج261
2ما يزيد على أن يقول هكذا وأشار بالسبابةعمارة بن رويبةجامع الترمذي473515محمد بن عيسى الترمذي256
3ما يزيد على هذه يعني السبابة التي تلي الإبهامعمارة بن رويبةسنن أبي داود9321104أبو داود السجستاني275
4على المنبر وما يشير إلا بإصبعهعمارة بن رويبةسنن الدارمي15291560عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي255
5على المنبر وما يقول بأصبعه إلا هكذاعمارة بن رويبةسنن الدارمي15301561عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي255
6أشار بإصبعه السبابةعمارة بن رويبةمسند أحمد بن حنبل1688516768أحمد بن حنبل241
7أشار بإصبعه السبابةعمارة بن رويبةمسند أحمد بن حنبل1688716770أحمد بن حنبل241
8ورفع السبابة وحدهاعمارة بن رويبةمسند أحمد بن حنبل1688916773أحمد بن حنبل241
9على المنبر يدعو وهو يشير بإصبععمارة بن رويبةمسند أحمد بن حنبل1792917835أحمد بن حنبل241
10لا يزيد على أن يشير بأصبعهعمارة بن رويبةصحيح ابن خزيمة13731370ابن خزيمة311
11على المنبر وما يقول إلا هكذا يشير بإصبعهعمارة بن رويبةصحيح ابن خزيمة16971691ابن خزيمة311
12يزيد على أن يقول بيده كذا وأشار بأصبعه للسبحةعمارة بن رويبةصحيح ابن حبان889882أبو حاتم بن حبان354
13ما يزيد أن يقول هكذا بيده وأشار بأصبعه المسبحةعمارة بن رويبةالمسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم17721961أبو نعيم الأصبهاني430
14ما يزيد على أن يقول هكذا وأشار بأصبعهعمارة بن رويبةالمسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم17731962أبو نعيم الأصبهاني430
15رأيت بشر بن مروان يوم الجمعة يرفع يديه فقال عمارة بن رويبة قبح الله هاتين اليدين لقد رأيت رسول الله ما يزيد على هذا وأشار بأصبعه السبابةعمارة بن رويبةالسنن الكبرى للنسائي17012 : 278النسائي303
16ما زاد رسول الله على هذا وأشار بأصبعه السبابةعمارة بن رويبةالسنن الكبرى للنسائي17021727النسائي303
17ما يزيد على أن يقول بيده هكذا وأشار بأصبعه المسبحةعمارة بن رويبةالسنن الكبرى للبيهقي53253 : 209البيهقي458
18رأيت رسول الله وما يزيد على هذا وأشار بأصبعه السبابةعمارة بن رويبةالسنن الكبرى للبيهقي53263 : 210البيهقي458
19ما زاد رسول الله على هكذا وأشار بالسبابةعمارة بن رويبةمسند أبي داود الطيالسي13531365أبو داود الطياليسي204
20وما يشير إلا بأصابعهعمارة بن رويبةإتحاف المهرة14227---ابن حجر العسقلاني852
21يقول إلا هكذا وأشار بإصبعه السبابةعمارة بن رويبةمصنف عبد الرزاق51335279عبد الرزاق الصنعاني211
22ما يزيد على أن يقول بيده هكذا وأشار بإصبعه المسبحةعمارة بن رويبةمصنف ابن أبي شيبة50725249ابن ابي شيبة235
23ما يزيد على أن يقول بيديه هكذا وأشار بإصبعه المسبحةعمارة بن رويبةمصنف ابن أبي شيبة53535536ابن ابي شيبة235
24على المنبر يشير بيدهعمارة بن رويبةمعجم الصحابة لابن قانع11781321ابن قانع البغدادي351
25ما يزيد على هكذا وأشار بالسبابةعمارة بن رويبةالمعجم المختص بالمحدثين الذهبي43---الذهبي748
26على المنبر فما يزيد على أن يشير بإصبعهعمارة بن رويبةالجزء الرابع من حديث ابن البختري93336أبو جعفر بن البختري339
27يخطب وهو رافع يديه على المنبر يخطب وما يزيد على أن يشير بإصبعهعمارة بن رويبةغوامض الأسماء المبهمة لابن بشكوال351---ابن بشكوال578
28ما يزيد أن يقول هكذا وأشار بالسبابةعمارة بن رويبةغوامض الأسماء المبهمة لابن بشكوال352---ابن بشكوال578
29على المنبر فما يزيد على أن يشير بأصبعهعمارة بن رويبةذم الكلام وأهله لعبد الله الأنصاري411432عبد الله بن محمد الأنصاري481
30ما يزيد على أن يقول هكذا وأشار بالسبابةعمارة بن رويبةشرح السنة10691079الحسين بن مسعود البغوي516
31ما يزيد على أن يقول بيده هكذا وأشار بالمسبحةعمارة بن رويبةالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم14151581ابن أبي عاصم287
32يدعو ما يزيد على أن يشير بإصبعيهعمارة بن رويبةتاريخ واسط لأسلم بن سهل الرزاز2441 : 98أسلم بن سهل الرزاز292
33يدعو ويشير بأصبعه السبابةعمارة بن رويبةالثقات لابن حبان681 : 396أبو حاتم بن حبان354
34ما زاد رسول الله على هكذا وأشار بالسبابةعمارة بن رويبةمعرفة الصحابة لأبي نعيم47765245أبو نعيم الأصبهاني430
35رأيت رسول الله وما يزيد أن يقول هكذاعمارة بن رويبةتاريخ دمشق لابن عساكر8355---ابن عساكر الدمشقي571
36رأيت رسول الله على المنبر يدعو وهو يشير بأصبععمارة بن رويبةتاريخ دمشق لابن عساكر835610 : 259ابن عساكر الدمشقي571
37ما يزيد أن يشير بأصبعهعمارة بن رويبةتاريخ دمشق لابن عساكر835710 : 260ابن عساكر الدمشقي571
38يدعو على المنبر يشير بأصابعهعمارة بن رويبةتاريخ ابن أبي خيثمة6793713ابن أبي خيثمة279
39ما يزيد على أن يقول هكذا أشار بالسبابةعمارة بن رويبةأسد الغابة1175---علي بن الأثير630



حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ 
فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَاجْتَنِبْهُ ، فَإِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ " ، يَعْنِي لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ الِاجْتِنَابَ.


دعا میں سجع (قافیہ آرائی) سے بچو کیوں کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام دعا میں سجع نہیں کیا کرتےتھے


 (صحیح بخاری ج 2 ص 93)



الراوي : عائشة أم المؤمنين / المحدث : الهيثمي / المصدر : مجمع الزوائد

الصفحة أو الرقم: 1/196 / خلاصة حكم المحدث : رجاله رجال الصحيح


الشواهد
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1اجتنب السجع من الدعاءعائشة بنت عبد اللهمسند أحمد بن حنبل2524625291أحمد بن حنبل241
2قص في الجمعة مرة فإن أبيت فمرتين فإن أبيت فثلاثا لا ألفينك تأتي القوم وهم في حديثهم فتقطعه عليهم ولكن إن استمعوا حديثك فحدثهم اجتنب السجع في الدعاءعائشة بنت عبد اللهصحيح ابن حبان990978أبو حاتم بن حبان354
3اجتنب السجع من الدعاءعائشة بنت عبد اللهمسند إسحاق بن راهويه14541634إسحاق بن راهويه238
4لا يسجعونعائشة بنت عبد اللهالمقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء15251710الهيثمي807
5انظر السجع من الدعاء فاجتنبهعبد الله بن عباسالمعجم الكبير للطبراني1178211943سليمان بن أحمد الطبراني360
6انظر السجع من الدعاء فاجتنبهعبد الله بن عباسموضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب2221 : 189الخطيب البغدادي463
7إياك والسجع في الدعاء قص على الناس في كل جمعة مرة فإن أبيت فمرتين فإن أكثرت فثلاث ولا تمل الناس لا ألفينك تأتي القوم وهم في حديث من حديثهم فتقطع عليهم فتغمهم ولكن أنصت فإذا حدوك عليه وأمروك به فحدثهمعائشة بنت عبد اللهتاريخ المدينة لابن شبة2729ابن شبة النميري262
8لم يكونوا يسجعونعائشة بنت عبد اللهالدعاء للطبراني4854سليمان بن أحمد الطبراني360


آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمارہ رضی اللہ عنہ تینوں جلیل القدر صحابی ہیں اور وہ ایسے امور کا سختی سے رد فرمارہے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔۔۔۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دعا میں سجع کرنے سے صرف اس لئے منع کرتے ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا۔

علامہ سدید الدین کاشغری الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "رات کے وقت آٹھ رکعت سے زیادہ اور دن کے وقت چار رکعت سے زیادہ ایک سلام کے ساتھ نفلی نماز پڑھنا آئمہ احناف کے اجماع سے مکروہ ہے"(منیۃ المصلیٰ ص 102)

اور نہرالفائق میں اس کی تصریح موجود ہے کہ مکروہ تحریمی ہے ۔۔۔حضرات فقہائے احناف نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے "لعدم وردود الاثربہاس لئے مکروہ ہے کہ اس کے لئے کوئی اثر اور دلیل موجود نہیں ہے

اور علامہ علاوالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 587ھ) بعض فقہائے کرام سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "اس لئے مکروہ ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے اس سے زیادہ مروی نہیں ہے"(البدائع والصنائع ج 1 ص 295)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ حضرات فقہائے کرام نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کے عدم فعل کو ایک مستقل قاعدہ اور ضابطہ سمجھ کر متعدد مقامات میں اس سے استدلال کیا ہے

صاحب ہدایہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ "اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے ایسا نہیں کیا پھر اس میں اختلاف ہے کہ یہ کراہت عیدہ گاہ کے ساتھ خاص ہے ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں کراہت ہوگی کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں نماز نہیں پڑھی"(ہدایہ ج 1 ص 153)

آپ نے ملاحظ فرمایا کہ صاحب ہدایہ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عدم فعل کو حجت اور دلیل کو طور پر پیش کیا حالانکہ صراحتہ مرفوع حدیث سے نہی اس پر پیش کرنا ایک دشوار امر ہے کہ آپ نے عید گاہ میں یا عید کے دن کسی دوسری جگہ نفل پڑھنے سے علی الخصوص منع کیا ہے ۔۔۔ تو پھر اہل بدعت کے نزدیک اس فعل کو برا اور مکروہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی نہی اس پر موجود نہیں 

علامہ ابراہیم حلبی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 956ھ) نے صلوۃ رغائب(جو رجب میں پڑھی جاتی ہے)وغیرہ کے بدعت اور مکروہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے "حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام اور بعد کے آئمہ مجتہدین سے یہ منقول نہیں ہے"(کبیری ص 433)

اور مشہور حنفی امام احمد بن محمد رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 446ھ ) ایک مسئلہ کی تحقیق میں یوں ارقام ہیں "یہ بدعت ہے حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام سے منقول نہیں ہے"(الواقعات)

بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔لغوی بدعت اور شرعی بدعت

لغوی بدعت ہر اُس نو ایجاد کا نام ہے جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہوئی ۔۔عام اس سے وہ عبادت ہو یا عادت ۔۔۔۔ اور اس کی پانچ قسمیں ہیں ۔واجب ،مندوب ،حرام ،مکروہ ،مباح ۔۔۔۔ اور شرعی بدعت وہ ہے جو قرون ثلاثہ کے بعد پیدا ہوئی اور اُس پر قولا” فعلا”،صراحۃ” اور اشارۃ” کسی طرح بھی شارع کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو ۔۔یہی وہ بدعت ہے جس کو بدعت ضلالۃ اور بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔۔ملاحظہ فرمائیں:

بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔ایک لغوی بدعت ،اور دوسری شرعی بدعت ۔۔لغوی بدعت ہر نو ایجاد کا نام ہے جو عبادت یا عادت ،اور اسی بدعت کی پانچ قسمیں کی جاتیں ہیں ۔اور دوسری وہ بدعت ہے جو طاعت کی مد میں کسی مشروع امر پر زیادت (یا کمی) کی جائے مگر ہو قرون ثلاثہ کے ختم ہونے کے بعد اور یہ زیادتی شارع کے اذن سے نہ ہو ،اس پر شارع کا قول موجود ہو اور نہ فعل نہ صراحت اور نہ اشارہ اور بدعت ضلالہ سے یہی مراد ہے"(ترویج الجنان ۔۔والجنہ ص 161)

حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :

"والتحقیق انھا ان کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرح فھی مستقبحۃ والافھی من قسم المباح وقد تنقسم الی الاحکام الخمسۃ(فتح الباری ج 4 ص 219)

یعنی تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت ،شریعت کی کسی پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی اور اگر وہ شریعت کی کسی غیر پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی ،ورنہ مباح ہوگی اور بدعت پانچ اقسام کی طرف منسقم ہے

اس کے قریب قریب عبارت علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے (ملاحظہ ہو عمدۃالقاری ج 5 ص 356)

اب اس بات پر غور کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ "مستحسن فی الشرع" کیا ہے اور "مستقبح فی الشرع" کیا ہے?

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 204 ھ )فرماتے ہیں کہ
"بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ بدعت جو کتاب سنت یا اجماع یا کسی صحابی کے اثر کے مخالف ہو ایسی بدعت گمراہی ہے اور دوسری وہ بدعت ہے جو ان میں سے کسی ایک کے مخالف نہ ہو تو ایسی بدعت کبھی اچھی ہوتی ہے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا ہی اچھی نو ایجاد اور بدعت ہے"(موافقہ صریح المعقول الصحیح المنقول لابن تیمیہ علیٰ منہاج السنۃ ج 2 ص 12
اس کی پوری تحقیق آپ حضرات ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ مخالفت جیسے قول میں ہوتی ہے اسی طرح فعل میں بھی مخالفت ہوتی ہے۔۔۔جو کام آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود داعی و اسباب کے ترک کیا اور خیرالقرون نے بھی اُسے ترک کیا تو وہ یقینا بدعت اور ضلالت ہوگا۔۔۔کیوں کہ وہ کتاب و سنت اور اجماع خیر القرون اور قیاس صحیح کے مخالف ہے۔۔۔ اور جو ان میں سے کسی دلیل میں داخل ہو تو وہ کبھی اچھا ہوگا جس پر ثواب ملے گا اور کبھی مباح ہوگا جس پر نہ ثواب ہوگا یا عقاب۔
اس بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے بدعت حسنہ اور سیئہ کی تعریف یوں ہوگی ۔۔۔بدعت حسنہ وہ دینی کام جس کا مانع آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد زائل ہوگیا ہو ۔۔۔یا اس کا داعیہ یا محرک اور سبب بعد کو پیش آیا ہو اور کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے اس پر روشنی پڑتی ہو اور ان میں سے کسی دلیل سے اس کا ثبوت ملتا ہو تو وہ بدعت حسنہ اور باالفاظ دیگر لغوی بدعت ہوگی جو مذموم نہیں ہے علامہ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کی عبارتیں بھی پیش کی جاچکیں ہیں جو اس پر صراحت سے دلالت کرتیں ہیں ۔۔۔۔اور جس چیز کا محرک اور داعیہ اور سبب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں موجود تھا مگر وہ دینی کام آپ نے نہیں کیا اور حضرات صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کرام نے بھی باوجود کمال عشق و محبت اور محرکات و اسباب کے نہیں کیا تو وہ کام بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ اور بدعت شرعیہ کہلائے گا جو ہر حالت میں مذموم اور ضلالت و گمراہی ہوگا۔۔۔باقی غیر مجتہد کا اجتہاد خصوصا اس زمانہ میں ہرگز کسی بدعت کا حسنہ نہیں قرار دے سکتا ۔۔۔چناچہ حضرات فقہائے کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ "نصاب الفقہ میں ہے کہ بدعت حسنہ وہ ہے جس کو حضرات مجتہدین نے بدعت حسنہ قرار دیا ہو ۔۔۔اور اگر کوئی شخص اس زمانہ میں کسی چیز کو بدعت حسنہ قرار دے گا تو وہ حق کے خلاف ہے کیوں کہ مصفی میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں ہر بدعت گمراہی ہے"(انتہی)(فتاوی جامع الروایات)(والجنہ ص 60)

اسی عبارت سے صراحت کے ساتھ یہ بات واضح ہوگئی کہ بدعت حسنہ صرف وہی ہوگی جس میں حضرات مجتہدین کا اجتہاد کا فرما ہوگا ،اور اجتہاد اور قیاس صرف اُن احکام و مسائل میں ہی ہوسکتا ہے جو غیر منصوص ہوں اور ان کے دواعی اور اسباب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور خیرالقرون میں موجود نہ ہوں بلکہ بعد میں ظہور پذیر ہوئے ہوں ۔۔۔اس نئی تہذیب کے زمانے میں جو شخص بدعت کو حسنہ قرار دیتا ہے اس کا قول سراسر باطل اور مردود ہے۔









































































بدعت غیر-ضروری کیوں؟

ما تركت من شيءٍ يقربُكم إلى الجنةِ إلا وقد حدثتكم به ، ولا تركتُ من شيءٍ يبعدُكم عن النارِ إلا وقد حدثتكم به
الراوي : - المحدث : الألباني
المصدر : النصيحة الصفحة أو الرقم: 232 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

ترجمہ : نہیں چھوڑی میں نے کوئی (خیر کی) شئی جو قریب کرے تمہیں جنّت کے مگر وہ کرچکا میں بیان تمہیں، اور نہیں چھوڑی میں نے کوئی (شر کی) شئی جو قریب کرے تمہیں (جہنم کی) آگ کے مگر وہ بھی کرچکا میں بیان تمہیں.



ما تركتُ شيئًا مما أمركم اللهُ به إلا قد أمرتُكم به ، وما تركتُ شيئًا مما نهاكم عنه إلا قد نهيتُكم به
الراوي : المطلب بن عبدالله بن حنطب المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 4/417 خلاصة حكم المحدث :إسناده مرسل حسن

المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 2866 خلاصة حكم المحدث :حسن على أقل الأحوال
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 1700 خلاصة حكم المحدث : صحيح لغيره
المصدر : الترغيب والترهيب الصفحة أو الرقم: 3/9 خلاصة حكم المحدث : [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
المصدر : إتحاف الخيرة المهرة الصفحة أو الرقم: 3/271 خلاصة حكم المحدث :له شاهد


کیا ہر نئی چیز بدعت ہے؟

احادیث میں جس بدعت کی مذمت آئی ہے اس سے وہ بدعت مراد ہے جسے شرعی اعتبار سے بدعت کہا جائے، اس لئے ہر نئی بات کو بدعت ممنوعہ نہیں کہا جاسکتا، بلکہ جو عمل "فی الدین"یعنی دین (میں) کے اندر بطور اضافہ اور کمی بیشی کے ہو اور اسے دین قرار دے کر اور عبادات وغیرہ دینی امور کی طرح ثواب اور رضائے الہی کا ذریعہ سمجھ کر کیا جائے ، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو ، نہ قرآن و سنت (نبوی و خلفاء_راشدین) سے، اور نہ قیاس و اجتہاد سے (دینی ضرورت کے سبب جیسے عربی علوم الصرف و النحو کا سیکھنا وغیرہ)؛  تو  (وہ دین میں) بدعت ہے۔ جیسے عیدین کی نماز میں اذان اور اقامت کا اضافہ وغیرہ وغیرہ (کیونکہ اس کا نہ تو حکم ہے اور نہ ہی کوئی دین کا کوئی نقصان اس پر موقوف ہے جو ضرورت ہو).


اور جو نیا کام "للدین"ہو یعنی دین کے (استحکام و مضبوطی اور دینی مقاصد کی تکمیل و تحصیل کے) لئے ہو اسے بدعت ممنوعہ نہیں کہا جاسکتا جیسے جمع قرآن کا مسئلہ، قرآن میں اعراب لگانا،کتب احادیث کی تالیف اور ان کی شرحیں لکھنا اور ان کتابوں کا صحیح بخاری ،صحیح مسلم وغیرہ نام رکھنا، (اور حفاظت کے لیے محدثین کا اپنے اجتہاد سے اصول_حدیث بنانا) اور اسی طرح احکام فقہ کا مدون کرنا اور ان کو مرتب کرنا اور مذاہب اربعہ کی تعیین اور ان کا حنفی ، شافعی ،مالکی اور حنبلی نام رکھنا ، مدارس مکاتب اور خانقاہیں بنانا،ان تمام امور کو بدعت نہیں کہا جاسکتا،اسی طرح آج کل کی نو ایجاد چیزیں ،سفر کے جدید ذرائع ، ریل موٹر ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ ،ان چیزوں کو بھی بدعت نہیں کہا جائےگا ،اس لئے کہ ان کو دین اور ثواب اور رضائے الہی کا کام سمجھ کر استعمال نہیں کیا جاتا، لہٰذا جو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ہر نئی چیز بدعت ہے تو یہ تمام نو ایجاد اشیاء بھی بدعت ہونا چاہئے اور ان کو استعمال نہ کرنا چاہئےیہ صریح جہالت ہے یا عوام کو دھوکہ دینا ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۱۹۰/۲)





بدعت کی برائی:
غیر-دین کو دین بنانا ، کسی کام کو اچھا یا برا خود قرار دینا ایک طرح سے خود کو خدا بنانا ہے. دین کو نامکمل اور نبی پر پورا دین نہ پہنچانے یا چھپانے کا الزام لگانا اور خود کو خدا کا پیغام(دین) پہنچانے والا نبی ہونے کا خفیہ دعوا کرنا بدعت کی سب سے خطرناک برائی اور تلبیس ابلیس ہے ہے.

قرآن :
أَم لَهُم شُرَكٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم ۗ وَإِنَّ الظّٰلِمينَ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ {42:21} 

کیا ان کے لئے اور شریک ہیں کہ راہ ڈالی ہے انہوں نے انکے واسطے دین کی کہ جس کا حکم نہیں دیا اللہ نے [۳۰] اور اگر نہ مقرر ہو چکی ہوتی ایک بات فیصلہ کی تو فیصلہ ہو جاتا ان میں اور بیشک جو گنہگار ہیں انکو عذاب ہے دردناک [۳۱] 
[۳۰] یعنی اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی زبانی آخرت کا اور دین حق کا راستہ بتلاد یا۔ کیا اسکے سوا کوئی اور ہستی ایسی ہے جسے کوئی دوسرا راستہ مقرر کرنے کا حق اور اختیار حاصل ہو کہ وہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہو ئی چیزوں کو حرام ٹھہرا دے۔ پھر آخر ان مشرکین نے اللہ کی وہ راہ چھوڑ کر جو انبیاء علیہم السلام نے بتلائی تھی دوسری راہیں کہاں سے نکال لیں۔
[۳۱] یعنی فیصلہ کا وعدہ ہے اپنے وقت پر۔



أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23} 
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب خدا کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟ 

... قُل إِنَّ الأَمرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ... {3:154}
... تم کہہ دو کہ بےشک سب باتیں خدا ہی کے اختیار میں ہیں ...

أَلا يَعلَمُ مَن خَلَقَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ {67:14} 
بھلا وہ نہ جانے جس نے بنایا اور وہی ہے بھید جاننے والا خبردار 
====================
وَما هُوَ عَلَى الغَيبِ بِضَنينٍ {81:24} 
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں 
یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے۔ یا اللہ کے اسماء و صفات سے یا احکام شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بطلان سے یا جنت ودوزخ کے احوال سے یا واقعات بعدالموت سے اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا نہ اُجرت مانگتا ہے۔ نہ نذرانہ، نہ بخشش، پھر کاہن کا لقب اُس پر کیسے چسپاں ہو سکتا ہے، کاہن محض ایک جزئی اور نامکمل بات غیب کی سو جھوٹ ملا کربیان کرتا ہے اور اُس کے بتلانے میں بھی اس قدر بخیل ہے کہ بدون مٹھائی یا نذرانہ وغیرہ وصول کیے ایک حرف زبان سے نہیں نکالتا۔ پیغمبروں کی سیرت سے کاہنوں کی پوزیشن کو کیا نسبت۔ 

... اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلٰمَ دينًا ۚ ... {5:3}
...  آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.


مِنَ الَّذينَ فَرَّقوا دينَهُم وَكانوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزبٍ بِما لَدَيهِم فَرِحونَ {30:32}
جنہوں نے کہ پھوٹ ڈالی اپنے دین میں اور ہو گئے ان میں بہت فرقے ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر فریفتہ ہے [۳۸]
(اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے
یعنی دین فطرت کے اصول سے علیحدہ ہو کر ان لوگوں نے اپنے مذہب میں پھوٹ ڈالی، بہت سے فرقے بن گئے۔ ہر ایک کا عقیدہ الگ، مذہب و مشرب جدا، جس کسی نے غلط کاری یا ہوا پرستی سے کوئی عقیدہ قائم کر دیا یا کوئی طریقہ ایجاد کر لیا۔ ایک جماعت اسی کے پیچھے ہو گئ، تھوڑے دن بعد وہ ایک فرقہ بن گیا۔ پھر ہر فرقہ اپنے ٹھہراے ہوئے اصول و عقائد پر خواہ وہ کتنے ہی مہمل کیوں نہ ہوں ایسا فریفتہ اور مفتون ہے کہ اپنی غلطی کا امکان بھی اس کے تصور میں نہیں آتا۔

ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّۦنَ ۗ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمًا {33:40} 
محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے.




شرک کے بعد سب سے زیادہ برائی بدعت کی آئی ہے 
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ الله فرماتے ہیں: ”آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بدعت کی جتنی مذمت فرمائی ہے شاید کفر وشرک کے بعد کسی او رچیز کی اتنی برائی نہیں کی ۔“ (اختلاف امت اور صراطِ مستقیم :74)

دین میں اضافہ الله تعالیٰ کے ہاں ناقابل قبول ہے
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات نکالی تو وہ مردود ہو گی ۔“( بخاری:371/1)

بدعت کی نحوست کی وجہ سے سنت کے نور سے محرومی ہو جاتی ہے 
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت گھڑ لیتی ہے تو الله تعالیٰ اسی کے بقدر سنت اس سے چھین لیتے ہیں او رپھر قیامت تک ان کی طرف واپس نہیں لوٹاتے۔“ ( مشکوٰة:31/1)

نیز فرمایا:” جب کوئی قوم کوئی بدعت ایجاد کر لیتی ہے تو اس کی مثل سنت اس سے اٹھالی جاتی ہے ، اس لیے چھوٹی سے چھوٹی سنت پر عمل کرنا بظاہر اچھی سے اچھی بدعت ایجاد کرنے سے بہتر ہے ۔“ (ایضا)

بدعت شیطان کا جال ہے
حضرت صدیق اکبر رضی الله تعالی عنہ نقل فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” ابلیس نے کہا میں نے انہیں گناہوں کے ذریعہ ہلاک کیا اور لوگوں نے مجھے استغفار کرکے ہلاک کیا، جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے انہیں خواہشات نفسانی ( بدعات) سے ہلاک کیا، تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں اور استغفار نہیں کرتے۔“ ( الترغیب والترہیب:46/1)

پل صراط پر دیر نہ لگنے کا طریقہ
حضرت حسن بصری رحمہ الله فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ پل صراط پر تمہیں دیر نہ لگے اور سیدھے جنت میں جاؤ تو الله تعالیٰ کے دین میں اپنی رائے سے کوئی نیا طریقہ پیدا نہ کرو۔ (سنت و بدعت بحوالہ اعتصام)

بدعت کی وجہ سے حوض کوثر کا پانی نصیب نہ ہو گا
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” میں حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود ہوں گا، جو شخص میرے پاس آئے گا وہ اس کا پانی پئے گا او رجو ایک بارپی لے گا ،پھر اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی ، کچھ لوگ میرے پاس وہاں آئیں گے ، جن کو میں پہچانتا ہوں گا او روہ مجھے پہچانتے ہوں گے، مگر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ پیدا کردی جائے گی ، میں کہوں گا کہ یہ تو میرے آدمی ہیں۔ مجھے جواب ملے گا کہ آپ نہیں جانتے، انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ یہ جواب سن کر میں کہوں گا:” پھٹکار، پھٹکار ان لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے بعد میرا طریقہ بدل ڈالا۔“ (مشکوٰة:488)

بدعتیں کس قدر عام ہوں گی؟
حضرت حذیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا، خدا کی قسم! آئندہ زمانے میں بدعتیں اس طرح پھیل جائیں گی کہ اگر کوئی شخص اس بدعت کو چھوڑ دے گا تو لوگ کہیں گے کہ تم نے سنت چھوڑ دی۔ ( سنت وبدعت)

ہر سال بدعتوں میں اضافہ ہو گا
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ آئندہ لوگوں پر کوئی نیا سال نہیں آئے گا جس میں وہ بدعت ایجاد نہیں کریں گے اور کسی سنت کو مردہ نہیں کریں گے ، یہاں تک کہ بدعتیں زندہ اور سنتیں مردہ ہو جائیں گی۔ (ایضا)

اتباعِ سنت کیا ہے ؟
حضرت ابوعلی جوزانی رحمہ الله سے پوچھا گیا اتباع سنت کیا ہے ؟ فرمایاکہ بدعات سے اجتناب او ران عقائد واحکام کا اتباع جن پر پچھلے علمائے اسلام کا اتفاق ہے او ران کی پیروی کو لازم سمجھنا ۔ ( ایضا)

بدعتی کا کوئی عمل مقبول نہیں
رسول کریم ا نے فرمایا: ”الله تعالیٰ بدعتی کا نہ روزہ قبول کرتا ہے ، نہ نماز، نہ حج ، نہ عمرہ، نہ جہاد، نہ نفل، نہ فرض ، وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح آٹے سے بال نکل جاتا ہے ۔“ (الترغیب والترہیب:46/1)

بدعتی کی تعظیم کرنا ممنوع ہے
حضرت ابراہیم بن میسرة رضی الله تعالی عنہ نقل فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم کی تو اس نے اسلام کو گرانے میں مدد دی ۔“

بدعتی آں حضرت ا پر خیانت کا الزام لگاتا ہے
امام مالک رحمہ الله نے فرمایا جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرتا ہے تو وہ گویا یہ دعوی کرتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ( معاذ الله) رسالت میں خیانت کی کہ پوری بات نہیں بتائی ( اور میں بتا رہا ہوں )۔ نیز فرمایا جو کام اس زمانے میں دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں کہا جاسکتا ۔ ( سنت و بدعت)

بدعتی سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ہے
الله تعالیٰ فرماتے ہیں :”آپ فرمائیے! کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ کون لوگ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں، وہ لوگ جن کی کوشش عمل دنیا کی زندگی میں ضائع اور بے کار ہو گئی او روہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہم اچھا عمل کر رہے ہیں۔ “( سورة الکہف:104,103)

بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” الله تعالیٰ نے ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کر دیا ہے ۔ ( مجمع)

بدعتی کی نماز اسے الله تعالیٰ کے قریب نہیں کرتی
حضرت حسن رحمہ الله نے فرمایا:” بدعتی جتنا زیادہ روزہ او رنماز میں مجاہدہ کرتا ہے اتنا ہی الله تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے۔“ نیز فرمایا: ” بدعتی کے پاس نہ بیٹھو ، وہ تمہارے دل کو بیمار کر دے گا۔“ ( سنت و بدعت)

بدعتی کو توبہ نصیب نہیں ہوتی
حضرت ابو عمر وشیبانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ بدعتی کو توبہ نصیب نہیں ہوتی۔

بدعتوں کے پھیلنے پر علمائے کرام کی ذمہ داری
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” جب میری امت میں بدعتیں پیدا ہو جائیں اور میرے صحابہ کو برا کہا جائے تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے گا تو اس پر الله تعالیٰ اور فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہے۔“

بدعت کیا ہے ؟
جو چیز آں حضرت صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنہم، تابعین او رتبع تابعین رحمہم الله کے دور میں معمول ومروج نہ رہی ہو اسے دین کی بات سمجھ کر کرنا، بدعت کہلاتا ہے۔ (اختلاف امت:72)

لوگ بدعتوں میں کیوں مبتلا رہتے ہیں؟
اس کی پہلی وجہ جہالت ہے ، کہ اصل سنت ودین کا بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں او رنہ سیکھنے کی طلب ہے۔

دوسری وجہ شیطان کا بہکانا ہے ، کہ شیطان بنی آدم کا بھلا کبھی نہیں چاہ سکتا ، وہ لوگوں کو بدعت کے نت نئے راستوں پر چلاتا ہے۔

تیسری وجہ شہرت پسندی کامرض ہے کہ چھپ کر صدقہ کرنے میں وہ دکھاوا کہاں ہو سکتا ہے۔ جو مسجدوں، گھروں اور سڑکوں کو سجانے میں ہوتا ہے۔

چوتھی وجہ غیر قوموں کی تقلید ہے کہ انہوں نے اہم شخصیات کے دن منائے تو مسلمان بھی ان کی دیکھا دیکھی دن منانے میں لگ جاتے ہیں۔( ملخص از اختلاف امت)

سنت اور بدعت کی پہچان
جس طرح اصلی نوٹ پورے پاکستان میں ایک ہوتا ہے ، جب کہ جعلی کئی طرح کے ، کمپنیوں کی مصنوعات اصلی ایک سی اور جعلی کئی طرح کی ہوتی ہیں، اسی طرح سنت او راس کا رنگ پوری دنیا میں ایک جیسا ہو گا جب کہ بدعات او ررسم ورواج ہر جگہ کے الگ ہوں گے ۔

رسول کریم صلی الله علیہ وسلم، صحابہ رضی الله عنہم، تابعین وتبع تابعین رحمہم الله کے مبارک زمانوں میں 12 ربیع الاول کی بدعات، محرم کی بدعات، صفر کو منحوس سمجھنا، رجب کے کونڈے، سوئم، چہلم، عرس، جنازہ کے بعد دعا ،قبر پر اذان اور عہد نامہ رکھنے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔

قارئین کرام! حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے بہشتی زیور او راغلاط العوام میں ، مفتی محمد شفیع رحمہ الله نے ” سنت وبدعت “ نامی رسالے میں ، حضرت لدھیانوی رحمہ الله نے ” اختلاف امت اور صراطِ مستقیم“ میں ،مولانا سرفراز خان صاحب صفدر نے ” راہِ سنت“ میں بدعات جمع فرمائی ہیں ، مگر دین دار سے دین دار گھرانے کے حضرات ذرا اپنی خوشی او رغمی کے مواقع پر گھر کی خواتین کے معمولات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ آج بھی ہم کس قدر بدعات او ررسم ورواج کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

بہرحال حکمت وبصیرت سے، اگر ابھی سے ہم نے گھر کے افراد، بالخصوص خواتین کی ” ذہن سازی‘ نہ کی تو عین موقع پر ہمارا ان کو سمجھا نا فائدہ مند نہ ہو گا۔ الله کریم ہمیں سنتوں کو عام کرنے اور بدعات او ررسوم ورواج کو ختم کرنے کا ذریعہ بنائے!

وصلی الله علی سیدنا محمد والہ وصحبہ اجمعین






No comments:

Post a Comment