فرقہ واریت دراصل علیحدگی ہے، لیکن یہ علیحدگی اگر باطل(والوں) سے ہو تو یہ فرقہ واریت محمود(پسندیدہ) ومطلوب ہے۔
[حوالہ سورۃ الکافرون:5، الشوریٰ:7، السبا:20، ھود:24، البقرۃ:75]
اور یہ علیحدگی اگر حق(والوں) سے ہو تو یہی فرقہ واریت مذموم وحرام ہے۔
[حوالہ سورۃ آل عمران:103،النساء:115، الانعام:153، الروم:32]
فرقہ واریت یہ نہیں ہے کہ آدمی افضل کے بجائے جائز یا جائز کے بجائے افضل پر چلے، کیونکہ یہ دونوں حق ہیں۔
[حوالہ سورۃ الانبیاء:79، صحیح البخاری:3427]
بلکہ
فرقہ واریت۔۔۔
(1)مذہبی تعصب»
پیغمبر کی ہدایت(یعنی قرآن وسنت) اور مومنین(یعنی پیغمبر کو ماننے والوں (صحابہ،علماء،صلحاء کے اجماع۔اور جماعت) کے راستہ(طریقہ) سے۔
[حوالہ سورۃ النساء:115]
یہود ونصاریٰ کا طریقہ(ومشابہت) اختیار کرنا۔
[حوالہ سنن ترمذی:2641]
دین(یعنی ایمان واعمال) سے علیحدگی اور دین میں نئی نئی باتیں نکالنا۔
[حوالہ سورۃ الروم:32، الشوریٰ:13]
*عوام اپنی رائے سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کریں۔*
[الحاکم:6325، البزار:2755، الطبرانی:90، ابن بطۃ:272]
(2)سیاسی تعصب»
مومنوں سے الفت کے بجائے دشمنی(اختلاف اور مخالفت) رکھنا۔
[حوالہ سورۃ آل عمران:103]
*امت کے(اجتماعی)معاملہ(یعنی حکومت) میں تفریق ڈالے جبکہ وہ(کسی پر حکمران پر)متفق ہوچکی ہو*
[مسلم:1852، نسائي:4022، ابوداؤد:4762]
*لہٰذا کسی توحید والے کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر قرار نہ دینا۔*
[حوالہ»المعجم الكبير-للطبراني:7659، تفسیر الثعلبي:3081، الشريعة للآجري:111، الابانة الكبري-لابن بطة:532]
قرآن مجید کی واضح ادھوری آیتوں سے بھی گمراہی کی دلیل نکالنا ممکن ہے۔
جیسے:
لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ...مت قریب جاؤ نماز کے
اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ...عمل کرو جو چاہو تم
فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ...تو عبادت کرو جس کی چاہو تم
قرآنی گواہی:
۔۔۔اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو ھدایت دیتا ہے اور اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، اور نہیں وہ(الله)گمراہ کرتا اس کے ذریعے سے مگر نافرمانوں ہی کو۔
[سورۃ البقرۃ:26]
گمراہی کی دلیل پکڑنے کا طریقہ:
قرآن مجید کا جو معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر الله کے رسول کے صحابہ سے اماموں نے بیان نہیں کیا، بعد کے کسی شخص نے کیا، تو وہ جدید معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر غلط اور گمراہی کی ہے۔
دلیلِ قرآن:
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت(قرآن) واضح ہونے کے بعد بھی رسول(سنت) کی مخالفت کرے، اور مومنوں(یعنی صحابہ کی جماعت-اجماع) کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
[سورۃ النساء:115]
اسلام میں فرقے کیسے بنائے گئے؟
(1)قرآن مجید کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہوئے، علمِ نبوی کے وارث یعنی صحابہ اور بعد کے ہر زمانہ کے علماء کی متفقہ باتوں/طریقوں کی مخالفت کرکے (2)صرف اپنے خیال وخواہش سے من مانی تشریحات اور نئی نئی باتوں کو پھیلاکر (3)فرقہ واریت کے خاتمہ کے دعوے کے ساتھ اپنے نئے فرقہ کا خود مقرر کیا ہوا علیحدہ نام وپہچان مشہور کرنا۔
بنی اسرائیل میں نجات یافتہ کون؟
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
يا ابن مسعود هل تدرى أى عرى الإيمان أوثق قلت الله ورسوله أعلم قال فإن أوثق عرى الإيمان الولاية فى الله والحب فى الله والبغض فى الله يا ابن مسعود هل تدرى أى المؤمنين أفضل أفضل الناس أحسنهم عملا إذا فقهوا فى دينهم يا ابن مسعود هل تدرى أى المؤمنين أعلم أبصرهم بالحق إذا اختلف الناس وإن كان فى عمله تقصير وإن كان يزحف على استه زحفا يا ابن مسعود هل علمت أن بنى إسرائيل افترقوا على اثنتين وسبعين فرقة لم ينج منها إلا ثلاث فرق وهلك سائرهن فرقة أقامت فى الملوك والجبابرة فدعت إلى دين عيسى فأخذت وقتلت ونشرت بالمناشير وحرقت بالنيران فصبرت حتى لحقت بالله ثم قامت طائفة أخرى لم تكن لهم قوة ولم تطق القيام بالقسط فلحقت بالجبال فتعبدت وترهبت وهم الذين ذكرهم الله فقال {ورهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم إلا ابتغاء رضوان الله فما رعوها حق رعايتها فأتينا الذين آمنوا منهم أجرهم} [الحديد:٢٧] هم الذين آمنوا بى وصدقونى {وكثير منهم فاسقون} الذين لم يؤمنوا بى ولم يصدقونى ولم يرعوها حق رعايتها وهم الذين فسقهم الله۔
ترجمہ:
اے ابن مسعود! تمہیں پتہ ہے کہ ایمان کی کون سی کڑی سب سے مضبوط ہے؟ ایمان کی سب سے وہ کڑی مضبوط ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی خاطر دوستی ہو، اللہ تعالیٰ کے لیے محبت اور بغض ہو۔
ابن مسعود! کیا تمہیں علم ہے کہ کون سا مومن افضل ترین ہے؟ وہ شخص سب سے افضل ہے جس کا عمل سب سے اچھا ہو جب دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں۔
ابن مسعود! جانتے ہو کہ کون سا مومن تمام لوگوں میں سے زیادہ علم والا ہے، وہ جب لوگ اختلاف کریں تو اسے حق سب سے زیادہ سجھائی دے اگرچہ اس کے عمل میں کوتاہی ہو، اگرچہ وہ اپنی سرین کے بل گھسٹتا ہو۔
ابن مسعود! جانتے ہو کہ بنی اسرائیل میں (72) فرقے بنے، صرف تین فرقوں نے نجات پائی، باقی ہلاک ہوگئے۔ ایک فرقہ بادشاہوں اور طاقت وروں میں ٹھہرا جس نے انھیں دین عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت دی، انھیں پکڑ کر قتل کیا گیا، آروں سے چیرا گیا، آگ میں جلایا گیا انھوں نے صبر کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے پھر دوسرا گروہ اٹھا ان میں قوت و طاقت نہ تھی اور نہ وہ عدل و انصاف قائم رکھ سکتے تھے وہ پہاڑوں میں جا بسے وہاں عبادت و رہبانیت میں مشگول ہوگئے انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا اور وہ رہبانیت جسے انھوں نے ایجاد کرلیا ہم نے ان پر فرض نہیں کی، رہبانیت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے ایجاد کی، پھر انھوں نے اس کی حفاظت نہ کی تو ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اجر دیا[الحديد:٢٧]، یہ وہی لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی، اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں، جو مجھ پر ایمان لائے اور نہ میری تصدیق کی، تو انھوں نے جیسا رہبانیت کا حق تھا اس کی رعایت نہیں کی، انہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے فاسق قرار دیا۔
[المعجم الکبیر للطبرانی:10357، جامع الاحادیث-السیوطی:25586، کنزالعمال:43525(43538)]
فرقہ کے معنیٰ جماعت یا گروہ کے ہیں. یہ لفظ "فرق" سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ الگ کرنا، جدا ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں فرقہ کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ کسی بھی مذہب ، جماعت (سیاسی یا قومی) یا گروپ کا ذیلی حصہ ہوتا ہے جو اپنے الگ خیالات و نظریات کی وجہ سے الگ جانا جاتا ہے۔
[آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا]
ٰ
اب کیا تم (اے مومنو!) توقع رکھتے ہو کہ وہ مانیں تمہاری بات اور ان میں ایک فرقہ تھا کہ سنتا تھا اللہ کا کلام پھر بدل ڈالتے تھے اس کو جان بوجھ کر اور وہ جانتے تھے۔
بےشک دین جو ہے الله کے ہاں سو یہی اسلام (یعنی حکم برداری) ہے۔
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
[سورۃ آل عمران:85]
اور جو کوئی چاہے سوائے اسلام(یعنی فرمان برداری) کے اور کوئی دین سو اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا اور وه آخرت میں خراب ہے۔
امام حسن نے بیعت کے بعد امیر معاویہ کے بھرے دربار میں اپنے بنوہاشم اور اہل بیت کو سناتے ہوئے فرمایا: ”یقینا مسلمانوں کا دین کی بہت سی باتوں پر اتفاق ہے اور ان میں کوئی جھگڑا، اختلاف اور فرقہ بندی نہیں ہے۔ ان متفق علیہ چیزوں میں سے کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کا اقرار اور آپ کو خدا کا بندہ ماننا ہے۔ پانچ وقت کی نمازیں، زکوٰة، رمضان کے روزے اور حج بیت اللہ (اسلام کے ارکان خمسہ) ہیں۔ خدا کی تابعداری میں ان کے علاوہ اور بھی متفق علیہ چیزیں ہیں جن کا شمار اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ نیز مسلمان زنا، چوری، جھوٹ، خیانت اور بہت سے گناہوں کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ جن کو خدا ہی گن سکتا ہے۔ مسلمانوں کا اختلاف اگرہے تو چند سنتوں کی بابت ہے، جن میں وہ باہم لڑائی کرکے فرقے بن گئے ہیں۔ کہ ایک دوسرے کوبرا کہتے ہیں۔ اور یہ اختلافی مسئلہ ”ولایت اورحکومت کرنے کا ہے“ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے تبرا کرتے ہیں۔ اور قتل کرتے ہیں۔ ہرایک کہتا ہے کہ ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں صرف ایک فرقہ اس اختلاف سے بچا ہے جو کتاب اللہ اور سنت نبوی کا پیروکار ہے۔ پس جو شخص ان باتوں کو اپنائے، جن میں تمام اہل قبلہ کا اتفاق ہے کسی کا اختلاف نہیں اورجن باتوں میں اہل قبلہ کا اختلاف ہے ان کا علم اللہ کے حوالے کردے۔ (کسی پر کافر منافق اور غیر مومن ہونے کافتویٰ نہ لگائے کیونکہ صرف خود کو مومن جاننا دوسرے کو کافر کہنا ہے خدا فرماتا ہے: ”ہو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن“ (پارہ ۲۸ ، رکوع ۱۵) وہ دوزخ سے بچ جائیگا۔ اور جنتی ہوگا)
(احتجاج طبری صفحہ ۱۴۷ طبع لکھنوٴ جلد نمبر ۲ صفحہ ۶ طبع ایران)
ہمیں یقین ہے کہ اگر خاص مومن اپنے امام دوم کا یہ عقیدہ و عمل اپنالیں انتظامیہ قانون بنائے ذرائع ابلاغ ان کی اشاعت کریں تو سب فرقے ختم ہوکر مسلمان ایک قوم بن جائیں (آمین) منہ
- عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قرأ: {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه}، قال: « تبيض وجوه أهل الجماعات والسنة، وتسود وجوه أهل البدع والأهواء»
[دلائلِ قرآن:سورۃ لقمان:15،الطور:21]
(2) اس راستہ پر جو معصوم نبی کی اس ’’السنۃ‘‘(قائمہ) پر ہوں۔
[الحج:52،النساء:64،النجم:2،المائدۃ:67]
(3)جس پر نبی کے صحابہ کی ’’الجماعۃ‘‘ چلتی رہی۔
[سورۃ التوبہ:100،النساء:115]
باقی جو لوگ ’’صرف‘‘ اپنی رائے[النجم:28] اور خواہشوں[الجاثیۃ:23] کے پیچھے چلتے ہوئے
[البقرة:61، آل عمران:112، الفتح: 6]
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار:2/ 340]عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ
[ابوداود:2885، ابنِ ماجہ:54، حاکم:7949، بیھقی:11952]
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2089، - تفاسیر کا بیان : تفسیر سورت واللیل اذا یغشی]
[أخرجه أحمد:17184 ، وأبو داود:4607، والترمذى (5/44، رقم 2676) وقال: حسن صحيح. وابن ماجه (1/15، رقم 42) ، والحاكم (1/174، رقم 329) وقال: صحيح ليس له علة. والبيهقى (10/114، رقم 20125) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (1/178، رقم 5) ، والدارمى (1/57، رقم 95) .]
سنّت اس راہ کا نام ہے جس راہ پر چلا جاۓ، اور یہ اس (راہ کا) تمسک (مضبوط پکڑنا) ہے جس پر وہ (رسول الله ﷺ) اور آپ کے" خلفاء راشدین عامل تھے، (عام اس سے کہ) وہ (باتیں) اعتقادات ہوں یا اعمال و اقوال، اور یہی سنّتِ کاملہ ہے.
"ہر مومن کو سنت اور جماعت (اہلِ سنّت والجماعت) کی پیروی کرنا واجب ہے، سنّت اس طریقے کو کہتے ہیں جس پر آپ ﷺ چلتے "رہے" اور جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفاءِ راشدینؓ نے اپنے خلافت کے زمانے میں "اتفاق(اجماع)" کیا، یہ لوگ سیدھی راہ دکھانے-والے تھے، کیوں کہ انھیں سیدھی راہ دکھائی گئی تھی."
[غنية الطالبين: صفحة # ١٨٥]
*بدعتی-فرقہ پرستوں کی 2 نشانیاں:*
فرمایا:
(1) جن کا قول عمل کے خلاف ہوگا (2)اور جن کا عمل حکم کے خلاف ہوگا۔
[صحیح مسلم:50 (179)، مسند احمد:4379]
یعنی
نیک باتوں کا لوگوں کو تو حکم کریں گے لیکن اپنے آپ کو بھول جائیں گے
[سورۃ البقرہ:44]
دعوے تو کریں گے لیکن وہ کام نہیں کریں گے
[سورۃ الصف:2-3]
اور
جس بات کا انہیں حکم نہیں دیا گیا اسے دین وثواب کا عمل سمجھ کر مضبوطی سے پکڑیں گے۔
[دلائل سورۃ فاطر:8، محمد:14، الاعراف:30، الکھف:104،الزخرف:37]
حدیث افتراقِ امت
اس کی اسناد پرایک نظر
فرقہ وارانہ تاریکی
قرآن کی روشنی سے ختم کیجئے
از: مولانا حافظ مہر محمد صاحب
”اے ایمان والو خدا سے کما حقہ ڈرو اور مرتے دم تک مسلمان رہو اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامو اور فرقے فرقے نہ بنو“ (پ:۴،ع:۲)
جس نے دین میں نئی بات ایجاد کی وہ مردود ہے۔( ارشاد نبوی)
جس نے میری سنت کو چھوڑا وہ مجھ سے نہیں۔ (مشکوٰة،ص:۲۷)
خدائے وحدہ لاشریک لہ اور خاتم المرسلین علیہ الصلاة والسلام کے حقوق و صفات میں دوسروں کو شریک کرنا شخصیات اسلام کی محبت یا دشمنی میں حد سے بڑھنا اور خود ساختہ رسموں یا نظریات کو دین بنالینا فرقہ پرستی ہے۔ ان سے روکنا فرقہ واریت نہیں بلکہ قرآن وسنت اور خیرامت کے خلاف چلنے والوں کو پالنا اور برٹش لاء سے سند جواز مہیا کرنا بڑا گناہ ہے۔
خدا فرماتا ہے:
(۱) ”واتقوہ“ اس سے ڈرو اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں سے نہ ہو ان میں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہوگئے گروہ گروہ۔ ہر گروہ اسی پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھرجب وہ انہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے جبھی ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتاہے کہ ہمارے دینے کی ناشکری کریں۔ (پ:۲۱، ح:۷ کنز الایمان)
اس ترجمہ سے پتہ چلا کہ غیرخدا کو غائبانہ، فوق الاسباب پکارنا شرک ہے۔
(۲) وہ جنھوں نے اپنے دین میں جدا جدا راہیں نکالیں ”وکانو شیعا“ اور کئی گروہ ہوگئے اے محبوب تمہیں ان سے کوئی علاقہ نہیں ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالہ ہے۔ (پ:۸،ع:۷ کنز)
(۳) پھر ہم ہرگروہ سے نکالیں گے جو ان میں رحمن پر سب سے زیادہ بے باک ہوگا۔ (پ:۱۶،ع:۸ کنز)
یہی قرآن مکمل اور راہ ہدایت ہے۔
(۱) اس قرآن میں کوئی شک نہیں متقین کا راہنما ہے جو ان دیکھے حقائق پر ایمان لاتے نماز کی پابندی کرتے اور ہمارے رزق میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں آپ پر اور آپ سے پہلی اتاری ہوئی وحی پر ایمان لاتے اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ اور کامیاب ہیں۔(پ:۱،ع:۱)
(۲) بیشک یہ قرآن سیدھی پختہ راہ پر چلاتا ہے۔ (پ:۱۵،ع:۲)
(۳) یہ قرآن ہم نے ہی اتارا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (پ:۱۴،ع:۱)
(۴) اس معزز کتاب میں باطل آگے اور پیچھے سے آہی نہیں سکتا یہ حکمت والے قابل تعریف خدا کا اتارا ہوا ہے۔ (پ:۲۴،ع:۱۸)
(۵) یہ ہے بابرکت کتاب جو ہم نے اتاری تو تم اس کے پیچھے چلو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (پ:۸،ع:۷)
(۶) اہل کتاب اور عربوں میں سے کچھ لوگ قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار کافر ہی کرتے ہیں۔ (پ:۲۱،ع:۱)
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کی ہر آیت کو ماننا ایمان ہے اپنی مرضی اورنظریہ کے خلاف کسی آیت کا انکار کفر ہے۔
جامعین و ناشرین قرآن خلفاء راشدین نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جو کوئی اسے کم و بیش اور تحریف شدہ مانے اور اپنی ایسی سینکڑوں روایات کو سچ بتائے وہ مسلمان نہیں۔
آئیے اس صحیح قرآن کریم سے اپنے عقائد واعمال کا موازنہ کریں ۔ پہلے کلمہ طیبہ پڑھیں لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ (پ:۲۶) اس میں کمی بیشی نہ کریں پھر شرک سے پاک توحید الٰہی۔ بدعت سے پاک سنت نبوی (علی صاحبہا السلام) نفرت سے پاک تمام صحابہ واہل بیت ائمہ مجتہدین اور اولیاء کرام سے محبت قرآن پاک سے حاصل کریں تو ہم سب مسلمان ایک قوم کفار پر سخت باہم مہربان اور ایک دوسرے کے مجبوب بن جائیں گے، اور اس آیت کا مصداق ہوں گے ”اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت اسلام کو یاد کرو جبکہ تم دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی تو اس نعمت کے صدقے بھائی بھائی ہوگئے ہو۔ (پ:۴،ع:۲)
اور اس آیت کی زد میں نہ آئیں گے ۔ وما یوٴمن اکثرہم باللّٰہ الا وہم مشرکون بہت سے لوگ خدا پر ایمان لاتے ہیں مگراس کے ساتھ شرک بھی کرتے رہتے ہیں۔ (پ:۱۳،ع:۶)
اللہ کی شان وصفات
(۱) سبھی تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے بہت بڑا مہربان انتہائی رحم والا بدلے کے دن کا مالک ہے ہم (مسلمان) صرف تجھی کو پوجتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں ہمیں سیدھی راہ پر چلا جوان لوگوں (انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین) کی راہ ہے جن پر تونے انعام فرمایا ان لوگوں کی راہ نہیں جن پر غضب ہوا ، اور وہ گمراہ ہوگئے (یہود و نصاریٰ جن کی ہم نقالی کرتے ہیں) (فاتحہ)
(۲) وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہر نہاں و عیاں کا جاننے والا۔ وہی ہے بڑا مہربان رحمت والا۔ وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں بادشاہ نہایت پاک سلامتی دینے والا امان بخشنے والا حفاظت فرمانے والا عزت والا عظمت والا تکبر والا اللہ کو پاکی ہے ان کے شرک سے۔ وہی ہے اللہ بنانے والا پیدا کرنے والا ہر ایک کو صورت دینے والا اسی کے ہیں سب اچھے نام اس کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی عزت و حکمت والا ہے۔ (پ:۲۸،ع:۶ کنز)
(۳) کیا اللہ بہتر ہے یا ان کے خود ساختہ شریک۔ یا وہ جس نے آسمان و زمین بنائے اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا تو ہم نے اس سے باغ اگائے رونق والے تمہاری طاقت نہ تھی کہ ان کے پیڑ اگاتے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ بلکہ یہ لوگ راہ سے کتراتے ہیں یا جس نے زمین بسنے کو بنائی اوراس کے بیچ میں نہریں نکالیں اوراس کے لئے لنگربنائے اور دونوں سمندروں میں آڑ رکھی۔ کیا اللہ کے ساتھ اور خدا ہے بلکہ ان میں اکثر جاہل ہیں۔
یا وہ جو لاچار کی سنتا ہے جب اسے پکارے اور دور کرتا ہے برائی اور تمہیں زمین کا وارث کرتا ہے کیا اللہ کے ساتھ اور خدا ہے؟ بہت ہی کم دھیان کرتے ہو۔(پ:۲۰،ع:۱ کنز)
(۴) اور تم طور کی جانب مغرب میں نہ تھے جبکہ ہم نے موسیٰ کو رسالت کا حکم بھیجا اوراس وقت تم حاضر نہ تھے ․․․․ اور نہ تم اہل مدین میں مقیم تھے ان پر ہماری آیتیں پڑھتے ہوئے ہاں ہم رسول بنانے والے ہوئے (تو ہم نے آپ کو علم دیا) (پ:۲۰ ع:۸ کنز)
غیب کی پانچ خاص باتیں
بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے وہی مینھ برساتا ہے اور وہی یہ جانتا ہے کہ حمل میں کیا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ کل اس کے نصیب میں کیا ہے اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ وہ کس سرزمین میں رہے گا بیشک اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا اور باخبر ہے۔ (پ:۲۱،ع:۱۳)
مقبول دہلوی ترجمہ کے بعد حاشیہ میں لکھتے ہیں:
”کہ یہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن پر سوائے خدائے تعالیٰ کے نہ کوئی مقرب فرشتہ مطلع ہے اور نہ کوئی رسول ونبی“ (از جعفر صادق)
نہج البلاغہ میں ہے کہ وہ علم غیب جس کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا یہی چیزیں ہیں (ص:۴۹۷) یہاں کنز الایمان کے حاشیہ میں ہے ”خلاصہ یہ کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اورانبیاء و اولیاء کو (جزوی) علم غیب اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے بطریق معجزہ و کرامت عطاہوتا ہے(ص:۴۹۲) یہ تو سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ معجزات و کرامات برحق ہیں مگر وہ خدا کا فعل ہیں ہر وقت ہر کسی پر ہر معاملہ میں ظاہر نہیں ہوتے اللہ جب چاہیں کسی شریعت کے پابند بندے پر ظاہر کرکے اسکی بزرگی بڑھا دیتے ہیں۔
(۶) پھر جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں اللہ کو پکارتے ہیں ایک اسی پر عقیدہ لاکر پھر وہ جب انہیں خشکی کی طرف بچالاتا ہے جبھی شرک کرنے لگ جاتے ہیں کہ ناشکری کریں ہماری دی ہوئی نعمت کی۔ (پ:۲۱، ع:۳ کنز)
(۷) اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ (پ:۲۴،ع:۱۱ کنز)
(۸) یہ اس لئے کہ جب تنہا خدا کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کردیتے تھے اوراگر اس کے ساتھ شریک کیاجاتا تھا تو تسلیم کرلیتے تھے ․․․ تو خدا کی عبادت خالص کرو اسی کو پکارو اگرچہ کافر برا ہی جانیں۔ ((پ:۲۴،ع:۷ کنز)
(۹) اسی کے ہاتھ ہے پیدا کرنا اور حکم دینا بڑی برکت والا ہے اللہ رب سارے جہان کا اپنے رب سے دعا کرو، گڑگڑاکے اور آہستہ۔ بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اس کے سنورنے کے بعد اور اس سے دعا کرو ڈرتے اور طمع کرتے بیشک اللہ کی رحمت نیکوں کے قریب ہے۔ (پ:۸،ع:۱۴ کنز)
شرک کی مذمت
(۱۰) اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔ (پ:۲،ع:۳ کنز)
(۱۱) بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنھوں نے کہا کہ اللہ وہی مسیح بن مریم ہے حالانکہ مسیح نے یہ کہا کہ اَے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے بیشک جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کریگا اس پر اللہ نے جنت کو حرام کردیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (پ:۶، ع:۱۴ مقبول)
(۱۲) کہہ دو کیا تم خدا کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نفع اور ضرر پر قادر نہیں حالانکہ اللہ سننے جاننے والا ہے (ایضاً)
(۱۳) تم کہہ دو میں تم سے یہ تو نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب دان ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے تم کہہ دو کیا اندھااورآنکھوں والا برابر ہے۔ (پ:۷،ع:۱۱ مقبول)
(۱۴) اے کتابیو! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے یہ کہ عبادت نہ کریں مگر خدا کی اور اس کا شریک کسی کو نہ کریں اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو رب نہ بنائے اللہ کے سوا۔ (پ:۳،ع:۱۵)
(۱۵) کسی بشر کا یہ حوصلہ نہیں کہ خدا تو اسے کتاب اور حکمت اور نبوت دے پھر وہ سب آدمیوں سے یہ کہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ (البتہ یہ کہہ سکتا ہے) کہ جیسے تم کتاب کی تعلیم و تدریس کرتے ہو ایسے تم خود اللہ والے بن جاؤ اور اللہ تم کو یہ حکم نہیں دیتا کہ تم فرشتوں کو اور پیغمبروں کو خدا بناؤ کیا وہ تم کو کفر کا حکم دے گا بعد اس کے کہ تم مسلمان ہوچکے ہو۔ (پ:۳،ع:۱۶، مقبول)
(۱۶) اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جوچاہے۔ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملاکر دے اورجسے چاہے بانجھ کردے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔ (پ:۲۵،ع:۶ کنز)
(۱۷) سنو اولیاء اللہ پر کوئی ڈر اور غم نہیں یہ وہ ہیں جو خدا پر ایمان لائے اور گناہوں سے بچتے ہیں۔ (پ:۱۱،ع:۱۲)
(۱۸) خالص خدا پر یقین کرکے اسے پکارو اگرچہ کافر برا منائیں۔ (پ:۲۲،ع:۷)
(۱۹) اللہ ایمان والوں کو کلمہ توحید کے ساتھ دنیا اور قبر میں ثابت قدم رکھے گا۔ (پ:۱۳)
(۲۰) قوم فرعون پر صبح شام آگ پڑتی ہے۔ قیامت کے دن اس سے بدترین عذاب میں ہوں گے۔(پ:۲۴،ع:۲۰)
خلاصہ آیات
خلاصہ یہ ہے کہ سب کائنات کا اللہ ہی خالق ، مالک، رازق،مشکل کشا،مستعان غیب دان ہر جگہ موجود و ناظر قادر و مختار کل منافع و ضار اولاد دینے والا فتح اور شفا دینے والا نذر ومنت کا مستحق غوث اعظم ہردم ذکر و ورد کے قابل وہاب داتا مصائب ٹالنے والا اور دست گیر ہے ہم سب مسلمان اسی کو پکاریں حاجت برآری کیلئے اسی کے نام کی ندر و منت اور جانوروں کی قربانی دیں اسے ہی اپنا رازداں قادر جانیں عذاب قبر بھی برحق ہے جو اسی زمین پر ہوتا ہے جہاں مردہ دفن ہوا یا ڈوبا ہے۔
صحابہ کے موحد اعظم حضرت علی المرتضیٰ نے اپنے ان ۷۰ غالی حبداروں کو زندہ جلادیا تھا جو آپ کو رب کارساز اور مشکل کشا کہہ کر مددیں مانگتے تھے۔ (مشکوٰة رجال کشی اصول الشریعہ وغیرہ ص:۲۷)
قطب ربانی محبوب سبحانی حضرت شیخ الاولیاء عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے غنیة الطالبین فرق باطلہ کے رد میں یہ مرتدوں کا عقیدہ بتایا ہے۔
صبر و عزا قرآن و سنت میں
غزوہٴ احد میں ۷۰ شہداء پر ماتم سے اللہ نے منع فرمایا ”اور صبر کریں تو صبر کرنے والوں کیلئے یہی بہتر ہے۔ اور صبر ہی کیجئے اور صبر اللہ کی توفیق سے ہوگا اور ان پر غم نہ کیجئے“(پ:۱۴،ع:۲۲)
حضور علیہ السلام نے ولا یعصینک فی معروف پ:۲۸ ع۸ کی تفسیر میں فرمایا:
اے عورتو! بین نہ کرنا منھ سینہ نہ پیٹنا کالے کپڑے نہ پہننا مجلس قائم نہ کرنا۔
حضرت علی فرماتے ہیں:
اگر آپ نے صبر کا حکم اور پیٹنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم سرکا پانی خشک کردیتے(نہج البلاغہ)
حضور علیہ السلام نے خاتون جنت کو وصیت فرمائی:
اے فاطمہ! میری وفات پر گریبان چاک نہ کرنا بال نہ نوچنا منھ سینہ نہ پیٹنا کالا لباس نہ پہننا ماتمی عورتوں کو نہ بلانا (فروع کافی وغیرہ)
حضرت امام حسین نے میدان کربلا میں اپنی بہن زینب کو یہی وصیت کی تھی۔ (تاریخ)
نوٹ: ہم مسلمان ان احکام پر عمل کریں گناہ چھوڑ دیں تو ایک مسلم قوم بن جائیں۔
قرآن وسنت اوراجماع امت کی اتباع سے ہم ایک امت بنیں گے
(۱) جو شخص راہ حق کھل جانے کے بعد رسول اللہ کی مخالفت کرے گا اور مومنین کے راستہ کے خلاف اور راہ پر چلے گا، تو وہ جدھر جائے ہم جانے دیں گے پھر اسے جہنم میں ڈالیں گے جو برا ٹھکانہ ہے۔ (پ:۵،ع:۱۴ ، نساء)
(۲) مہاجرین و انصار ۔ ایمان واسلام میں آگے بڑھنے والے اور جوان کے نیکی میں پیروکار ہیں۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ان کے لئے جنت تیار ہے۔ ہمیشہ اس میں رہیں گے یہی تو بڑی کامیابی ہے۔ (پ:۱۱،ع:۲ ،توبہ)
(۳) ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولوالامر (حکم شرع دینے والے امراء اور مجتہدین) کی بھی۔ (پ:۵،ع:۵)
(۴) اوراگر وہ رسول اللہ اور اولوالامر کی طرف یہ مسئلہ لوٹائے تو ان میں سے گہرائی کے ساتھ (اجتہاد سے) مسئلہ نکالنے والے جان لیتے۔ (پ:۵،ع:۸)
(۵) اے اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلا ان لوگوں کی راہ پر جن پر تونے انعام فرمایا (انبیاء صدیقین شہدا صالحین جو بہت اچھے رفیق ہیں) (فاتحہ ونساء،پ:۵)
(۶) تم جاننے والوں سے پوچھو اگر خود نہیں جانتے۔(پ:۱۷،ع:۱)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ صحابہ مہاجرین و انصار خلفاء راشدین نیکیوں میں ان کے تابعدار مومنین برحق اور واجب الاتباع جنتی ہیں قرآن و سنت کی جرنیلی سڑک ان کی اتباع اور تقلید سے ملے گی ورنہ اجماع امت سے علیحدگی راہ جہنم ہے۔ ان پراعتماد نہ کرنا۔ اپنی مرضی سے چند آیات و احادیث کا نیا معنی کرکے الگ فرقہ بنالینا۔ اور پوری امت یا اکثر امت کے مجتہدین کو برغلط اور گمراہ کہنا خود گمراہی ہے جو ہر فرقہ کی نشانی ہے۔
قرآن وسنت اوراجماع امت کے متفقہ مسائل
(۱) قبریں کچی بالشت بھر ہوں پختہ نہ بنائیں ان پر سلام و دعا کریں مگر مدد خداسے مانگیں۔
(۲) ماں باپ یا بزرگوں کو ایصال ثواب درست ہے مگر ان سے حاجت برآری کی نیت نہ ہو۔
(۳) حاجت طلبی کے لئے نذر قربانی اور دیگ پکانا صرف اللہ کاحق اور خاصہ ہے۔
(۴) اولیاء اللہ کو پکارے بغیر ان کے توسل سے صرف خدا سے دعا مانگنا جمہور مسلمانوں کے ہاں درست ہے۔
(۵) خیر القرون میں ہر شہر کے بڑے صحابی تابعی مجتہد مفتی کی عام لوگ تقلید کرتے تھے پھر بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اختلافات کو سمیٹنے کے لئے پوری امت نے صرف ۴ ائمہ مجتہدین: امام اعظم ابوحنیفہ،مالک ،شافعی،احمد کی فقہ پر اتفاق کرلیا کہ دیانتہً کوئی شخص کسی امام کو قرآن وحدیث کے قریب سمجھ کر تمام مسائل میں اس کی تقلید کرے تاکہ اس پر تن آسانی اور خودغرضی کا داغ نہ لگے ۔ اسی طرح امت نے چھ محدثین کی صحاح ستہ پر اور سات قاریوں کی قرأت پر اتفاق کرلیا اب ائمہ فقہ کی شخصی تقلید پر اعتراض ایسا ہی ہے جیسے کوئی محدثین اور قاریوں کا انکار کرکے قرآن و حدیث کا منکر ہوجائے۔
حلال وحرام کے خدائی احکام
آؤ تمہیں میں سنادوں جو حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے کہ شریک نہ کرو اسکے ساتھ کسی چیز کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور مار نہ ڈالو اپنی اولاد کو مفلسی سے ہم رزق دیتے ہیں تم کو اور ان کو اورپاس نہ جاؤ بے حیائی کے کام کے جو ظاہر اس میں سے اورجو پوشیدہ ہو اور مار نہ ڈالو اس جان کوجس کو حرام کیا ہے اللہ نے مگر حق پر۔ تم کو یہ حکم کیا ہے تاکہ تم سمجھو۔ اور پاس نہ جاؤ یتیم کے مال کے مگراس طرح سے کہ بہتر ہو یہاں تک کہ پہنچ جائے اپنی جوانی کو اورپورا کرو ناپ اور تول کو انصاف سے ہم کسی کے ذمہ وہی چیز لازم کرتے ہیں جس کی اس کو طاقت ہو اورجب بات کہو تو حق کی کہو اگر چہ وہ اپنا قریب ہی ہو اور اللہ کا عہد پورا کرو۔ تم کو یہ حکم دیا ہے تاکہ نصیحت پکڑو اور حکم کیا کہ یہ راہ ہے میری سیدھی سو اس پر چلو اور مت چلو اور راستوں پر کہ وہ تم کو جدا کردیں گے اللہ کے راستے سے۔ (پ:۸،ع:۶، از شیخ الہند)
جنت کے وارث کون ہیں
بیشک ان مومنوں نے فلاح پائی جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں اور جو بے ہودہ باتوں سے منھ پھرانے والے ہیں اور جو زکوٰة ادا کرنے والے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی ازواج کے یا اپنے ہاتھ کے مال (لونڈیوں) کے کہ اس صورت میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں پس جو اس کے سوا خواہش کرے پس وہی تو زیادتی کرنے والے ہیں (نفع کے نام سے بلا ولی و گواہ مقررہ وقت و فیس کے ساتھ جنسی تعلق حرام ہوا) اور وہ جو اپنی امانتوں کی اور عہدوپیمان کی حفاظت کرتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں یہی لوگ تو وارث ہیں جو جنت فردوس میں میراث لے لیں گے اور وہ ہمیشہ اُسی میں رہنے والے ہوں گے۔ (پ:۱۸،ع:۱، مقبول)
پانچ نمازیں اپنے وقت پر پڑھو
(۱) بیشک نماز اپنے اپنے مقررہ وقت پر پڑھنا مومنوں پر فرض ہے۔(پ:۵،ع:۱۲)
(۲) پس تم اللہ کی پاکی بیان کرو (نماز پڑھو) شام (عصر و مغرب) اور صبح کے وقت۔ اوراسی کی خوبی ہے آسمان اور زمین میں (نماز پڑھو) عشا کی اور ظہر کی۔ (پ:۲۱،ع:۶ روم)
ہر مسلمان سپیکر پر بھی (بغیر کمی بیشی کے) وہی بلالی اذان دے جو وہ خطبہ جمعہ پر پڑھتا ہے (اذا نودی للصلوة من یوم الجمعة) (پ:۲۸،ع:۱۲)
خاتم المرسلین (علیہ الصلوٰة والسلام) کی شان و صفات
(۱) قسم ہے پکے قرآن کی تو تحقیق ہے بھیجے ہوؤں سے اوپر سیدھی راہ کے (یٰسین پہلی آیت)
ان آیات کا ترجمہ شیخ الہند کا ہے۔
(۲) یہ آیتیں اللہ کی ہیں ہم آپ کو سناتے ہیں اور تو بے شک رسولوں میں سے ہے۔ (بقرہ:۲۵۲)
(۳) اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے خوشخبری اور ڈر سنانے کو لیکن بہت لوگ نہیں سمجھتے۔ (پ:۲۲،ع:۹)
(۴) بڑی برکت ہے اس کی جس نے اتاری فیصلہ کی کتاب اپنے بندہ پر تاکہ رہے جہان والوں کے لئے ڈرسنانے والا۔ (پ:۱۸،ع:۱۶)
(۵) سوجولوگ اس پر ایمان لائے اوراس کی رفاقت کی اور اس کی مدد کی اور تابع ہوئے اس نور کے جو اس کے ساتھ اترا ہے وہی لوگ پہنچے اپنی مراد کو۔ تو کہہ اے لوگو میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔ (پ:۹،ع:۹)
(۶) اوراللہ نے اتاری تجھ پر کتاب اورحکمت اور تجھ کو سکھائیں وہ باتیں جو تو نہ جانتا تھا۔ (پ:۵،ع:۱۴)
(۷) کفار نے کہا ہم تیرے آسمان پر چڑھنے کو بھی نہ مانیں گے یہاں تک کہ توایک کتاب ہم پراتار لائے کہ ہم اسے پڑھیں تو کہہ سبحان اللہ میں کون ہوں مگرآدمی بھیجا ہوا۔ اور لوگوں کو روکا نہیں ایمان لانے سے جب پہنچی ان تک ہدایت مگر اس بات نے کہ کہنے لگے کیا اللہ نے بھیجا آدمی کو پیغام دے کر۔؟ آپ کہیں اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے چلتے پھرتے اطمینان سے تو ہم ان پر رسول بھی فرشتہ آسمان سے اتارتے۔ (پ:۱۵،ع:۱۱)
(۸) (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی) اے پروردگار ہمارے بھیج ان میں ایک رسول انہی میں سے کہ پڑھے ان پر تیری آیات اور سکھائے ان کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور پاک کرے ان کو۔ (پ:۱،ع:۱۵)
ف: پتہ چلا کہ آ پ خاتم النّبیین ہیں تاقیامت سب لوگ آپ سے ایمان و ہدایت پانے کے محتاج ہیں۔ جو لوگ نیا نبی اور معصوم مانیں کہ ہمارے ہادی وامام تو پیدائشی مومن اور عالم لدنی تھے سب لوگ ان سے ہی دین حاصل کریں وہ نبوت اور ختم نبوت کے منکر ہیں۔
صحابہ کرام کی شان وصفات (رضی اللہ عنہم)
(۱) جو لوگ ایمان لائے اورانھوں نے نیک عمل کئے اورجوکچھ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیاگیا اور وہ انکے پروردگار کی طرف سے حق ہے اس پر بھی ایمان لائے۔ ان سے ان کی بدیاں دور کردیں اوران کی حالت درست فرمادیں۔(تاریخی جھوٹ ہے اگران پر عیب لگائے) (پ:۲۶،ع:۱، سورہ محمد) مقبول
(۲) (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) رسول ہے اللہ کا اور جولوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر نرم دل ہیں آپس میں تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اوراس کی خوشی، نشانی ان کے منھ پر ہے سجدہ کے اثر سے یہ شان ہے ان کی تورات میں اور مثال ان کی انجیل میں جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا پھر اس کی کمر مضبوط کی پھر موٹا ہوا پھر کھڑاہوگیا اپنی نال پر۔ خوش لگتا ہے کھیتی والوں کو۔ تاکہ جلائے ان سے جی کافروں کا۔ وعدہ کیا ہے اللہ نے ان سے جو یقین لائے ہیں اور کیئے ہیں بھلے کام معافی کا اور بڑے ثواب کا۔ (آخری آیت سورہ فتح،پ:۲۶، از شیخ الہند)
(۳) پر اللہ نے محبت ڈال دی تمہارے دلوں میں ایمان کی اور کھبا دیا اس کو تمہارے دلوں میں اورنفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر گناہ اور نافرمانی کی وہ لوگ وہی ہیں نیک راہ پر اللہ کے فضل سے اور احسان سے۔ (پ:۲۶،ع:۱۳)
(۴) جب آئی اللہ کی مدد اور فتح (ہوگیا مکہ) اور دیکھا تم نے لوگوں کو کہ خدا کے دین میں گروہ کے گروہ داخل ہورہے ہیں تو اب تم اپنے رب کی حمد کی تسبیح پڑھو اور اس سے مغفرت طلب کرو۔ (پ:۳۰، سوہ نصر) مقبول
(۵) اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی اور جہاد کیلئے اور جنھوں نے (ان کو) جگہ دی اور نصرت کی برحق مومن وہی ہیں بخشش اور عزت کی روزی انہی کے لئے ہے اور جولوگ بعد میں ایمان لائے اورانھوں نے ہجرت کی اور تمہارے ہوکر جہاد کئے وہ بھی تمہیں میں محبوب ہیں۔ (پ:۱۰، انفال آخری آیت) مقبول
خلفائے راشدین مہاجرین وعدئہ الٰہی اور واجب الاتباع ہیں
(۱) ان سب لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اورجنھوں نے نیک عمل کئے اللہ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ضرور ان کو اس زمین میں (پیغمبر کا) جانشین بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو جانشین بنایا تھا اور ضرور ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کرلیا ہے ان کی خاطر سے پائیدار کردے گا اور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا اس وقت وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں گے اورجواس کے بعد (ان کی) ناشکری کرے گا پس نافرمان وہی ہیں۔ (پ:۱۸،ع:۱۳ مقبول)
(۲) (مہاجرین) وہ لوگ ہیں جن کواگر ہم زمین میں تمکن (اقتدار) دیں گے تو وہ (باقاعدہ) نماز پڑھیں گے اور زکوٰة دیں گے اور نیک کاموں کا حکم کریں گے اور بدی سے مانع ہوں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔ (پ:۱۷،ع:۱۳ مقبول)
(۳) اور مہاجرین وانصار میں سب سے پہلے (ایمان کی طرف) سبقت کرنے والے اور وہ لوگ جنھوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی خدائے تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہوگئے اور ان کے لئے ایسے باغ تیار کئے ہیں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ (پ:۱۱،ع:۲)
(۴) اور وہ لوگ جنھوں نے بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیاگیا خدا کی خوشنودی کیلئے ہجرت کی ہم ضرور بالضرور ان کو دنیا میں رہنے کی اچھی جگہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت ہی بڑا ہوگا۔ (پ:۱۴،ع:۱۲)
تاریخ و سیرت کا ہر دن گواہ ہے کہ یہ وعدئہ الٰہی جن مہاجرین سے پورا ہوا وہ خلفاء راشدین ہیں ان کی پیروی سے جنت ملے گی۔ بقول ظفرعلی خاں ۔
ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی ابوبکر و عمر عثمان وعلی
ہم مسلک ہیں یاران نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں
علامہ اقبال مرحوم بھی ان کی عالمی خلافت راشدہ پر ابھارتے ہیں:
سبق پڑھ پھر صداقت کا شجاعت کا عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی اما مت کا
نبی کا گھرانہ واہل بیت موٴمنین کو پیارے ہیں
(۱) نبی مومنین کی جانوں کا خود ان سے زیادہ اختیار رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور رشتہ دار مومنین و مہاجرین میں سے (اپنوں کی) میراث کے زیادہ مستحق ہیں۔ (احزاب:۱)
(۲) (اے نبی کی عورتو!) اپنے گھروں میں (عزت ووقار) سے بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کا بناؤ سنگار کرکے باہر نہ نکلا کرو اور نماز پڑھ کر اور زکوٰة دیا کرو اور (برابر) اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتی رہو اے اہل بیت سوائے اس کے نہیں ہے کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ تم سے ہرقسم کے رجس کو دور کردے اور تم کو ایسا پاک کردے جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے۔ اور تمہارے گھروں میں خدا کی آیتیں اور حکمت کی باتیں جو پڑھی جاتی ہیں انہیں یاد رکھو بیشک خدائے تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔ (احزاب،پ:۲۲،ع:۱)
(۳) اے نبی تم اپنی ازواج سے اوراپنی بیٹیوں سے اور اہل ایمان کی عورتو ں سے یہ کہہ دو کہ وہ اپنی چادروں سے گھونگھٹ نکال لیا کریں۔(پ:۲۲،ع:۵)
(۴) (ازواج مطہرات کی) یہ خصوصیت اس سے قریب تر ہے کہ ان سب کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ رنجیدہ نہ رہیں․․․․ اس کے بعد نہ تمہارے لئے اور عورتیں حلال ہیں اور نہ یہ بات کہ تم موجودہ (۱۱) ازواج کے بدلے اور ازواج کرلو۔(پ:۲۲،ع:۳)
(۵) بالفرض اگر وہ تم کو طلاق دیدے تو قریب ہے کہ اس کا پروردگار بدلے میں اس کو ایسی ازواج دیدے جو تم سے بہتر ہوں فرمانبرداری کرنے والیاں ایمان والیاں اطاعت کرنے والیاں توبہ کرنے والیاں عبادت کرنے والیاں روزہ رکھنے والیاں شوہردیدہ اور کنواریاں۔ (پ:۲۸،ع:۱۹ مقبول)
ازواج مطہرات ان ہی صفات والی تھیں۔
(۶) پاک بیویاں پاک مردوں کے لئے اور پاک مرد پاک بیویوں کے لائق ہیں یہ لوگ تہمت سے پاک ہیں۔ (نور،پ:۱۸،ع:۹)
(۷) تم فرماؤ میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت (رشتہ داری کی محبت) (کنز)
نوٹ: ان تمام آیات میں اہل بیت نبوت ازواج مطہرات کی پاکی اور شان بیان ہوئی ہے، احادیث میں حضرت علی و فاطمہ اور حسین کو بھی اہل بیت فرمایا ہے۔ (مسلم)
پھر بنوہاشم میں سے مومنین آل علی، آل جعفر،آل عقیل،آل عباس اور آل حارث بن عبدالمطلب کو بھی آل رسول فرمایا ہے جن پر صدقات واجبہ حرام ہیں۔ مومنین مسلمان ان تمام اہل بیت محمد سے محبت کرتے اور تحفہ درود بھیجتے ہیں کسی سے عناد و دشمنی کفر جانتے ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے علماء دین یہ قرآنی عقائد سناکر مسلمانوں کو ایک بنائیں۔ انتظامیہ قانون لاگو کردے، بقول اقبال:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کی وادی سے لے کر تا بخاک کاشغر
اللّٰہم صل علی محمد وآلہ․
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10، جلد: 90 ،رمضان المبارک1427 ہجری مطابق اکتوبر2006ء
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : " إِنَّ رَفْعَكُمْ أَيْدِيَكُمْ بِدْعَةٌ ، مَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا " ، يَعْنِي : إِلَى الصَّدْرِ .
|
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ رُؤَيْبَةَ ، قَالَ : رَأَى بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ رَافِعًا يَدَيْهِ ، فَقَالَ قَبَّحَ اللَّهُ هَاتَيْنِ الْيَدَيْنِ ، " لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَزِيدُ عَلَى أَنْ يَقُولَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الْمُسَبِّحَةِ " . وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : " رَأَيْتُ بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ يَوْمَ جُمُعَةٍ يَرْفَعُ يَدَيْهِ " ، فَقَالَ عُمَارَةُ بْنُ رُؤَيْبَةَ : فَذَكَرَ نَحْوَهُ .
|
|
آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمارہ رضی اللہ عنہ تینوں جلیل القدر صحابی ہیں اور وہ ایسے امور کا سختی سے رد فرمارہے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔۔۔۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دعا میں سجع کرنے سے صرف اس لئے منع کرتے ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا۔
ما تركت من شيءٍ يقربُكم إلى الجنةِ إلا وقد حدثتكم به ، ولا تركتُ من شيءٍ يبعدُكم عن النارِ إلا وقد حدثتكم به
الراوي : - المحدث : الألباني
المصدر : النصيحة الصفحة أو الرقم: 232 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
ترجمہ : نہیں چھوڑی میں نے کوئی (خیر کی) شئی جو قریب کرے تمہیں جنّت کے مگر وہ کرچکا میں بیان تمہیں، اور نہیں چھوڑی میں نے کوئی (شر کی) شئی جو قریب کرے تمہیں (جہنم کی) آگ کے مگر وہ بھی کرچکا میں بیان تمہیں.
ما تركتُ شيئًا مما أمركم اللهُ به إلا قد أمرتُكم به ، وما تركتُ شيئًا مما نهاكم عنه إلا قد نهيتُكم به
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 2866 خلاصة حكم المحدث :حسن على أقل الأحوال
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 1700 خلاصة حكم المحدث : صحيح لغيره
المصدر : الترغيب والترهيب الصفحة أو الرقم: 3/9 خلاصة حكم المحدث : [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
المصدر : إتحاف الخيرة المهرة الصفحة أو الرقم: 3/271 خلاصة حكم المحدث :له شاهد
کیا ہر نئی چیز بدعت ہے؟
بدعت کی برائی:
غیر-دین کو دین بنانا ، کسی کام کو اچھا یا برا خود قرار دینا ایک طرح سے خود کو خدا بنانا ہے. دین کو نامکمل اور نبی پر پورا دین نہ پہنچانے یا چھپانے کا الزام لگانا اور خود کو خدا کا پیغام(دین) پہنچانے والا نبی ہونے کا خفیہ دعوا کرنا بدعت کی سب سے خطرناک برائی اور تلبیس ابلیس ہے ہے.
قرآن :
أَم لَهُم شُرَكٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم ۗ وَإِنَّ الظّٰلِمينَ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ {42:21}
کیا ان کے لئے اور شریک ہیں کہ راہ ڈالی ہے انہوں نے انکے واسطے دین کی کہ جس کا حکم نہیں دیا اللہ نے [۳۰] اور اگر نہ مقرر ہو چکی ہوتی ایک بات فیصلہ کی تو فیصلہ ہو جاتا ان میں اور بیشک جو گنہگار ہیں انکو عذاب ہے دردناک [۳۱]
أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23}
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب خدا کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
... قُل إِنَّ الأَمرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ... {3:154}
... تم کہہ دو کہ بےشک سب باتیں خدا ہی کے اختیار میں ہیں ...
أَلا يَعلَمُ مَن خَلَقَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ {67:14}
بھلا وہ نہ جانے جس نے بنایا اور وہی ہے بھید جاننے والا خبردار
====================
وَما هُوَ عَلَى الغَيبِ بِضَنينٍ {81:24}
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں
یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے۔ یا اللہ کے اسماء و صفات سے یا احکام شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بطلان سے یا جنت ودوزخ کے احوال سے یا واقعات بعدالموت سے اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا نہ اُجرت مانگتا ہے۔ نہ نذرانہ، نہ بخشش، پھر کاہن کا لقب اُس پر کیسے چسپاں ہو سکتا ہے، کاہن محض ایک جزئی اور نامکمل بات غیب کی سو جھوٹ ملا کربیان کرتا ہے اور اُس کے بتلانے میں بھی اس قدر بخیل ہے کہ بدون مٹھائی یا نذرانہ وغیرہ وصول کیے ایک حرف زبان سے نہیں نکالتا۔ پیغمبروں کی سیرت سے کاہنوں کی پوزیشن کو کیا نسبت۔
... اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلٰمَ دينًا ۚ ... {5:3}
... آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.
مِنَ الَّذينَ فَرَّقوا دينَهُم وَكانوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزبٍ بِما لَدَيهِم فَرِحونَ {30:32} |
جنہوں نے کہ پھوٹ ڈالی اپنے دین میں اور ہو گئے ان میں بہت فرقے ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر فریفتہ ہے [۳۸] |
(اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے |
یعنی دین فطرت کے اصول سے علیحدہ ہو کر ان لوگوں نے اپنے مذہب میں پھوٹ ڈالی، بہت سے فرقے بن گئے۔ ہر ایک کا عقیدہ الگ، مذہب و مشرب جدا، جس کسی نے غلط کاری یا ہوا پرستی سے کوئی عقیدہ قائم کر دیا یا کوئی طریقہ ایجاد کر لیا۔ ایک جماعت اسی کے پیچھے ہو گئ، تھوڑے دن بعد وہ ایک فرقہ بن گیا۔ پھر ہر فرقہ اپنے ٹھہراے ہوئے اصول و عقائد پر خواہ وہ کتنے ہی مہمل کیوں نہ ہوں ایسا فریفتہ اور مفتون ہے کہ اپنی غلطی کا امکان بھی اس کے تصور میں نہیں آتا۔ |
ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّۦنَ ۗ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمًا {33:40}
محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے.
شرک کے بعد سب سے زیادہ برائی بدعت کی آئی ہے
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ الله فرماتے ہیں: ”آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بدعت کی جتنی مذمت فرمائی ہے شاید کفر وشرک کے بعد کسی او رچیز کی اتنی برائی نہیں کی ۔“ (اختلاف امت اور صراطِ مستقیم :74)
دین میں اضافہ الله تعالیٰ کے ہاں ناقابل قبول ہے
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات نکالی تو وہ مردود ہو گی ۔“( بخاری:371/1)
بدعت کی نحوست کی وجہ سے سنت کے نور سے محرومی ہو جاتی ہے
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت گھڑ لیتی ہے تو الله تعالیٰ اسی کے بقدر سنت اس سے چھین لیتے ہیں او رپھر قیامت تک ان کی طرف واپس نہیں لوٹاتے۔“ ( مشکوٰة:31/1)
نیز فرمایا:” جب کوئی قوم کوئی بدعت ایجاد کر لیتی ہے تو اس کی مثل سنت اس سے اٹھالی جاتی ہے ، اس لیے چھوٹی سے چھوٹی سنت پر عمل کرنا بظاہر اچھی سے اچھی بدعت ایجاد کرنے سے بہتر ہے ۔“ (ایضا)
بدعت شیطان کا جال ہے
حضرت صدیق اکبر رضی الله تعالی عنہ نقل فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” ابلیس نے کہا میں نے انہیں گناہوں کے ذریعہ ہلاک کیا اور لوگوں نے مجھے استغفار کرکے ہلاک کیا، جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے انہیں خواہشات نفسانی ( بدعات) سے ہلاک کیا، تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں اور استغفار نہیں کرتے۔“ ( الترغیب والترہیب:46/1)
پل صراط پر دیر نہ لگنے کا طریقہ
حضرت حسن بصری رحمہ الله فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ پل صراط پر تمہیں دیر نہ لگے اور سیدھے جنت میں جاؤ تو الله تعالیٰ کے دین میں اپنی رائے سے کوئی نیا طریقہ پیدا نہ کرو۔ (سنت و بدعت بحوالہ اعتصام)
بدعت کی وجہ سے حوض کوثر کا پانی نصیب نہ ہو گا
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” میں حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود ہوں گا، جو شخص میرے پاس آئے گا وہ اس کا پانی پئے گا او رجو ایک بارپی لے گا ،پھر اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی ، کچھ لوگ میرے پاس وہاں آئیں گے ، جن کو میں پہچانتا ہوں گا او روہ مجھے پہچانتے ہوں گے، مگر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ پیدا کردی جائے گی ، میں کہوں گا کہ یہ تو میرے آدمی ہیں۔ مجھے جواب ملے گا کہ آپ نہیں جانتے، انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ یہ جواب سن کر میں کہوں گا:” پھٹکار، پھٹکار ان لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے بعد میرا طریقہ بدل ڈالا۔“ (مشکوٰة:488)
بدعتیں کس قدر عام ہوں گی؟
حضرت حذیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا، خدا کی قسم! آئندہ زمانے میں بدعتیں اس طرح پھیل جائیں گی کہ اگر کوئی شخص اس بدعت کو چھوڑ دے گا تو لوگ کہیں گے کہ تم نے سنت چھوڑ دی۔ ( سنت وبدعت)
ہر سال بدعتوں میں اضافہ ہو گا
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ آئندہ لوگوں پر کوئی نیا سال نہیں آئے گا جس میں وہ بدعت ایجاد نہیں کریں گے اور کسی سنت کو مردہ نہیں کریں گے ، یہاں تک کہ بدعتیں زندہ اور سنتیں مردہ ہو جائیں گی۔ (ایضا)
اتباعِ سنت کیا ہے ؟
حضرت ابوعلی جوزانی رحمہ الله سے پوچھا گیا اتباع سنت کیا ہے ؟ فرمایاکہ بدعات سے اجتناب او ران عقائد واحکام کا اتباع جن پر پچھلے علمائے اسلام کا اتفاق ہے او ران کی پیروی کو لازم سمجھنا ۔ ( ایضا)
بدعتی کا کوئی عمل مقبول نہیں
رسول کریم ا نے فرمایا: ”الله تعالیٰ بدعتی کا نہ روزہ قبول کرتا ہے ، نہ نماز، نہ حج ، نہ عمرہ، نہ جہاد، نہ نفل، نہ فرض ، وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح آٹے سے بال نکل جاتا ہے ۔“ (الترغیب والترہیب:46/1)
بدعتی کی تعظیم کرنا ممنوع ہے
حضرت ابراہیم بن میسرة رضی الله تعالی عنہ نقل فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم کی تو اس نے اسلام کو گرانے میں مدد دی ۔“
بدعتی آں حضرت ا پر خیانت کا الزام لگاتا ہے
امام مالک رحمہ الله نے فرمایا جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرتا ہے تو وہ گویا یہ دعوی کرتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ( معاذ الله) رسالت میں خیانت کی کہ پوری بات نہیں بتائی ( اور میں بتا رہا ہوں )۔ نیز فرمایا جو کام اس زمانے میں دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں کہا جاسکتا ۔ ( سنت و بدعت)
بدعتی سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ہے
الله تعالیٰ فرماتے ہیں :”آپ فرمائیے! کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ کون لوگ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں، وہ لوگ جن کی کوشش عمل دنیا کی زندگی میں ضائع اور بے کار ہو گئی او روہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہم اچھا عمل کر رہے ہیں۔ “( سورة الکہف:104,103)
بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” الله تعالیٰ نے ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کر دیا ہے ۔ ( مجمع)
بدعتی کی نماز اسے الله تعالیٰ کے قریب نہیں کرتی
حضرت حسن رحمہ الله نے فرمایا:” بدعتی جتنا زیادہ روزہ او رنماز میں مجاہدہ کرتا ہے اتنا ہی الله تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے۔“ نیز فرمایا: ” بدعتی کے پاس نہ بیٹھو ، وہ تمہارے دل کو بیمار کر دے گا۔“ ( سنت و بدعت)
بدعتی کو توبہ نصیب نہیں ہوتی
حضرت ابو عمر وشیبانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ بدعتی کو توبہ نصیب نہیں ہوتی۔
بدعتوں کے پھیلنے پر علمائے کرام کی ذمہ داری
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” جب میری امت میں بدعتیں پیدا ہو جائیں اور میرے صحابہ کو برا کہا جائے تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے گا تو اس پر الله تعالیٰ اور فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہے۔“
بدعت کیا ہے ؟
جو چیز آں حضرت صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنہم، تابعین او رتبع تابعین رحمہم الله کے دور میں معمول ومروج نہ رہی ہو اسے دین کی بات سمجھ کر کرنا، بدعت کہلاتا ہے۔ (اختلاف امت:72)
لوگ بدعتوں میں کیوں مبتلا رہتے ہیں؟
اس کی پہلی وجہ جہالت ہے ، کہ اصل سنت ودین کا بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں او رنہ سیکھنے کی طلب ہے۔
دوسری وجہ شیطان کا بہکانا ہے ، کہ شیطان بنی آدم کا بھلا کبھی نہیں چاہ سکتا ، وہ لوگوں کو بدعت کے نت نئے راستوں پر چلاتا ہے۔
تیسری وجہ شہرت پسندی کامرض ہے کہ چھپ کر صدقہ کرنے میں وہ دکھاوا کہاں ہو سکتا ہے۔ جو مسجدوں، گھروں اور سڑکوں کو سجانے میں ہوتا ہے۔
چوتھی وجہ غیر قوموں کی تقلید ہے کہ انہوں نے اہم شخصیات کے دن منائے تو مسلمان بھی ان کی دیکھا دیکھی دن منانے میں لگ جاتے ہیں۔( ملخص از اختلاف امت)
سنت اور بدعت کی پہچان
جس طرح اصلی نوٹ پورے پاکستان میں ایک ہوتا ہے ، جب کہ جعلی کئی طرح کے ، کمپنیوں کی مصنوعات اصلی ایک سی اور جعلی کئی طرح کی ہوتی ہیں، اسی طرح سنت او راس کا رنگ پوری دنیا میں ایک جیسا ہو گا جب کہ بدعات او ررسم ورواج ہر جگہ کے الگ ہوں گے ۔
رسول کریم صلی الله علیہ وسلم، صحابہ رضی الله عنہم، تابعین وتبع تابعین رحمہم الله کے مبارک زمانوں میں 12 ربیع الاول کی بدعات، محرم کی بدعات، صفر کو منحوس سمجھنا، رجب کے کونڈے، سوئم، چہلم، عرس، جنازہ کے بعد دعا ،قبر پر اذان اور عہد نامہ رکھنے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔
قارئین کرام! حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے بہشتی زیور او راغلاط العوام میں ، مفتی محمد شفیع رحمہ الله نے ” سنت وبدعت “ نامی رسالے میں ، حضرت لدھیانوی رحمہ الله نے ” اختلاف امت اور صراطِ مستقیم“ میں ،مولانا سرفراز خان صاحب صفدر نے ” راہِ سنت“ میں بدعات جمع فرمائی ہیں ، مگر دین دار سے دین دار گھرانے کے حضرات ذرا اپنی خوشی او رغمی کے مواقع پر گھر کی خواتین کے معمولات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ آج بھی ہم کس قدر بدعات او ررسم ورواج کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بہرحال حکمت وبصیرت سے، اگر ابھی سے ہم نے گھر کے افراد، بالخصوص خواتین کی ” ذہن سازی‘ نہ کی تو عین موقع پر ہمارا ان کو سمجھا نا فائدہ مند نہ ہو گا۔ الله کریم ہمیں سنتوں کو عام کرنے اور بدعات او ررسوم ورواج کو ختم کرنے کا ذریعہ بنائے!
وصلی الله علی سیدنا محمد والہ وصحبہ اجمعین
No comments:
Post a Comment