تمہید:
کفر و ایمان کا اختلاف، حق و باطل کا اختلاف ہے، لیکن اس اختلاف کا مطلب بھی لڑائی اور نفرتیں نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحبِ ایمان اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور اس پر عمل پیرا ہو، لیکن جو غیرمسلم ہے اس سے نفرت نہیں، نفرت کفر سے ہے، کافر کی ذات سے نہیں۔ نفرت فسق سے ہے فاسق کی ذات سے نہیں، لہٰذا غیرمسلموں سے نفرت کرنا اسلام اور ہمارے دین نے نہیں سکھایا۔ جو شخص کفر کی گمراہی میں مبتلا ہے وہ درحقیقت غصے اور نفرت کا مستحق نہیں، بلکہ رحمدلی کا مستحق ہے۔ یعنی یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو غلط راستے سے نکال کر صحیح راستے پر لے آئیں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور آگ کے اندر پروانے آ آکر گِر رہے ہیں اور میں کولیاں بھر بھر کے ان کو آگ سے بچانا اور ہٹانا چاہتا ہوں اور اس فکر میں ہوں کسی طرح یہ بچ جائیں۔
[مسند احمد:14887-15213، مسند ابوداؤد طیالسی:1893، صحیح مسلم:2285]
کافر لوگ آپ سے نفرت کر رہے ہیں اور نفرت ہی نہیں کر رہے، بلکہ گالیاں دے رہے ہیں، پتھر برسا رہے ہیں، لیکن نبی رحمت سرورِ دو عالم ﷺ فرماتے ہیں:
’’اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ‘‘
ترجمہ:
اے رب! ان کو ہدایت عطا فرمادیجیے، ان کو ابھی حقیقت کا پتا نہیں ہے۔
[الأحاديث المختارة-المقدسي:2، تفسير عبد الرزاق:2471]
اگر نفرت ہوتی تو یہ نہ فرماتے کہ یا اللہ! ان کو تباہ نہ کیجیے، ان کو برباد نہ کیجیے، ہوسکتا ہے کہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو حق کے علم بردار ہوں جو لوگ پتھر برسا رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، دشمنی کررہے ہیں، ان کے ساتھ بھی رسول کریم ﷺ کا یہ معاملہ تھا کہ راتوں کو رو رہے ہیں اور جان ہلکان کیے ہوئے کہ کسی طرح یہ راہ راست پر آجائیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا:
’’لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ‘‘
[سورۃ الشعراء: آیت 3]
کہ کیا آپ اپنی جان کو ہلاک کر ڈالیں گے اس بناء پر کہ یہ ایمان نہیں لا رہے۔
آپ نے اپنا فریضہ ادا کردیا، قرآن آپ کو تسلی دینے سے بھرا ہوا ہے تو اگر نفرت ہوتی تو یہ دردمندی نہ ہوتی۔ ایسے ذکر کرتے تھے جیسے کوئی بیماری میں مبتلا ہے کہ بیچارے کو کینسر ہوگیا، بیچارے کو ٹی بی ہوگئی ہے۔ یہ تعلیم ملی تھی کہ کسی کافر کے ساتھ بھی نفرت کا نہیں، بلکہ محبت کا معاملہ کرنا ہے، البتہ محبت کے عنوان مختلف ہوتے ہیں۔ ایک عنوان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اسلام کی ہدایت عطا فرمادیں۔ جب اس محبت کے ساتھ دعوت ہوتی ہے تو دعوت میں اثر اور اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ جب غیرمسلموں کو پتا چلتا ہے کہ یہ ہم سے نفرت نہیں، بلکہ محبت کرتے ہیں، یہ ہمارے بدخواہ نہیں، بلکہ خیرخواہ ہیں تو پھر قرب پیدا ہوتا ہے۔ پھر اگر ایمان کا نور قلب میں موجود ہو تو اس قرب کے نتیجے میں وہ نور دوسرے کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو دیکھیے! ہم میں سے اکثر و بیشتر کیسے مسلمان ہوئے؟ ہم کس کے ممنون واحسان ہیں؟ ہندوستان میں سب سے پہلے ’’مالابار‘‘ کے علاقے میں اسلام آیا۔ وہاں کوئی تبلیغی جماعت یا کوئی جہادی تحریک نہیں پہنچی تھی، بلکہ وہاں صحابہ کرامؓ تجارت کے لیے پہنچے تھے۔ انہوں نے وہاں کوئی تبلیغی مہم نہیں چلائی تھی، بلکہ وہاں کے رہنے والوں کے ساتھ جس محبت، حسن سلوک اور اخلاق فاضلہ کا مظاہرہ کیا، اس نے قرب پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلمان کردیا۔ آج ہم لوگ انہی کی بدولت مسلمان ہیں۔ تو ایک اختلاف کفر و اسلام اور حق و باطل کا اختلاف ہے، مگر اس میں بھی نفرت نہیں، بلکہ محبت، ہمدردی اور خیرخواہی ہے۔ ہم سے اگر پوچھا جائے کہ فلاں شخص حق پر ہے یا باطل پر؟ ہم کہیں گے باطل پر ہے، لیکن ایسے ہی کہیں گے جیسے کسی بیماری کو کہا جاتا ہے کہ اس کو فلاں بیماری لاحق ہے، لیکن اس بیماری کی وجہ سے اس پر غصہ اور اس سے نفرت نہیں کی جاتی، بلکہ محبت اور ہمدردی کی جاتی ہے۔ تو اختلاف کی ایک سطح یہ ہے۔ دوسرا اختلاف فسق و فجور اور اصلاح کا ہے۔ اس میں بھی یہی جذبہ ہونا چاہیے کہ ہم ان کو فسق و فجور سے نکالنے کے لیے جو بہتر راستہ ہو اس کو اختیا کریں۔ تیسرا درجہ اجتہادی اختلاف کا ہے جو قرآن و سنت کی تشریح میں مسائل شریعہ کے تعین میں ہے۔ یہ اختلاف صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی ہوا، لیکن حضرت علامہ ابن قیمؒ(م751ھ) ’’اعلام الموقعین‘‘ میں اور علامہ ابن عبد البرؒ(م463ھ) ’’جامع بیان العلم و فضلہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ تمام اختلافات کے باوجود کسی صحابی کے بارے میں منقول نہیں کہ انہوں نے دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کیا ہو کہ ان کا اجتہاد میرے اجتہاد سے مختلف ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا مسلک کچھ اور ہے، لیکن امام نے اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھائی تو عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی طرح پڑھی، کیونکہ ’’الاختلاف شر‘‘ اختلاف شر ہے۔ اجتہادی اختلاف کے باوجود محبتیں بھی ہیں باہمی تعاون، ایک دوسرے کے ساتھ تناصر اور آپس میں احترام بھی ہے اور اس سے کبھی بھی کسی شقاق نے جنم نہیں لیا۔ اس سے آگے بڑھ کر مزاج و مذاق کا اختلاف ہے۔ سب کچھ متحد ہے، لیکن ایک کا مزاج ایک جیسا ہے، دوسرے کا مزاج دوسرے جیسا ہے۔ ہم نے جو کر رکھا ہے وہ یہ کہ ہم تمام اختلافات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔ اگر کسی سے اختلاف ہوا تو اب وہ ایسا اختلاف ہے کہ میں اس کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتا۔ اس کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوسکتا۔ اس کی دعوت قبول نہیں کرسکتا۔ اگر بیٹھوں گا تو گویا حق کی مخالفت کررہا ہوں گا۔ اس صورت حال نے ہمیں فرقوں میں بانٹ دیا ہے۔ اب نام یہ نہیں کہ ہم مسلمان ہیں، دین کی خدمت کررہے ہیں۔ نام یہ ہے کہ ہم اپنے مسلک کی خدمت کررہے ہیں۔ نام یہ ہے کہ ہم دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور سلفی ہیں، لہٰذا اس کے نتیجے میں اسلام کے جو مشترک مقاصد تھے، وہ پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے۔ رائے میں بھی اختلاف ہوتا ہے، لیکن یہ شقاق کا ذریعہ نہ بنے۔ ’’خلاف‘‘ اور چیز ہے ’’شقاق‘‘ اور چیز ہے۔ ’’خلاف‘‘ برا نہیں، رائے میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن شقاق بُرا ہے جس کے نتیجے میں ہم ایک دوسرے سے جدا ہوکر بیٹھ جائیں۔
اسلام اور راۓ
آج کل جہالت جا دور دورہ ہے، اس لئے دینی الفاظ کا غلط استعمال عام ہو رہا ہے، ان میں سے "رائے" اور ’’اہل الرائے‘‘ کا لفظ بھی ہے.
اقسامِ راۓ
رائے کی تین قسمیں ہیں:
(1) وہ راۓ جو کتاب و سنّت کی تردید کے لئے ہو:
جیسے الله تعالیٰ نے سود کو حرام فرمایا لیکن کافر کہتے تھے : إِنَّمَا ٱلْبَيْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَوٰا۟ [البقرہ :275] کہ جس طرح تجارت میں نفع لینا جائز ہے سود میں بھی زائد رقم لی جاتی ہے، وہ بھی نفع ہی ہے اس لئے جائز ہے. کافروں کی یہ رائے خدا کے حرام کو حلال کرنے والی تھی، اور اس رائے کا مقصد کتاب و سنّت کی تردید ہے. ایسی رائے کو اصطلاح میں ’’الحاد‘‘ کہتے ہیں.
جیسے الله تعالیٰ نے سود کو حرام فرمایا لیکن کافر کہتے تھے : إِنَّمَا ٱلْبَيْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَوٰا۟ [البقرہ :275] کہ جس طرح تجارت میں نفع لینا جائز ہے سود میں بھی زائد رقم لی جاتی ہے، وہ بھی نفع ہی ہے اس لئے جائز ہے. کافروں کی یہ رائے خدا کے حرام کو حلال کرنے والی تھی، اور اس رائے کا مقصد کتاب و سنّت کی تردید ہے. ایسی رائے کو اصطلاح میں ’’الحاد‘‘ کہتے ہیں.
(2) دوسری راۓ کی قسم قرآن و سنّت کی تعبیر و تشریح کے لئے ہوتی ہے:
جیسا کہ حضرت معاذؓ (بن جبل) نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر مسئلہ کتاب و سنّت سے نہ ملا تو ’’أَجْتَهِدُ بِرَأْيِي وَلَا آلُو ۔۔۔۔ میں اپنی رائے سے اجتہاد (پوری جدوجہد) کروں گا‘‘، رسول اللہ ﷺ نے اس بات پر الله کا شکر ادا فرمایا کہ جس نے معاذؓ کو ایسی بات کی توفیق دی، جس سے الله کے رسول ﷺ راضی ہوگئے۔
جیسا کہ حضرت معاذؓ (بن جبل) نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر مسئلہ کتاب و سنّت سے نہ ملا تو ’’أَجْتَهِدُ بِرَأْيِي وَلَا آلُو ۔۔۔۔ میں اپنی رائے سے اجتہاد (پوری جدوجہد) کروں گا‘‘، رسول اللہ ﷺ نے اس بات پر الله کا شکر ادا فرمایا کہ جس نے معاذؓ کو ایسی بات کی توفیق دی، جس سے الله کے رسول ﷺ راضی ہوگئے۔
[سنن ابوداؤد:3592، جامع ترمذی:1327، مسند احمد:22007، مسند ابوداؤد الطیالسی:560، مصنف ابن أبي شيبة:22988، مسند عبد بن حميد:124، سنن الدارمي:170، بیھقی:20339، جامع بيان العلم وفضله:1593، شرح السنة للبغوی:10/116، الحجة في بيان المحجة:410]
اس رائے سے الله اور رسول راضی ہیں اور سب اہلِ سنّت والجماعت بھی راضی ہیں.
تفاسیرِ قرآن:
مجتہد(ہی)کی اجتہادی رائے، اطاعتِ رسول میں شامل ہے۔
[تفسیر امام الشافعي»سورة محمد:33]
مت آگے بڑھو الله اور اسکے رسول کے۔۔۔یعنی۔۔۔اپنے رائے، نظر اور اجتہاد کو قرآن وسنت کے آگے مت رکھو۔
[تفسیر ابن کثیر»سورۃ الحجرات:1]
بعد میں کام میں لاسکتے ہو بشرطیکہ ضرورت ہو۔
اس(اجتہاد)پر عمل کی اجازت صرف مجتہد کو ہے۔
[فتح القدیر،الشوکاني»سورة الاسراء:35]
انبیاء کا اجتہاد اور اختلاف میں دونوں کا حق پر ہونے کی دلیل:
اور داؤد اور سلیمان (کو بھی ہم نے حکمت اور علم عطا کیا تھا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے جھگڑے کا فیصلہ کر رہے تھے، کیونکہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت اس کھیت میں جا گُھسی تھیں۔ اور ان لوگوں کے بارے میں جو فیصلہ ہوا اسے ہم خود دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ اس فیصلے کی ’’سمجھ‘‘ ہم نے سلیمان کو دے دی، اور (ویسے) ہم نے دونوں ہی کو حکمت اور علم عطا کیا تھا۔ اور ہم نے داؤد کے ساتھ پہاڑوں کو تابع دار بنادیا تھا کہ وہ پرندوں کو ساتھ لے کر تسبیح کریں۔ اور یہ سارے کام کرنے والے ہم تھے۔
[سورۃ الانبیاء:78+79]اضواء البیان:4/752
حدیثِ رسول ﷺ:
«إِنِّي إِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِرَأْيِي فِيمَا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيَّ فِيهِ»
ترجمہ:
"ایسے معاملہ جس کے بارے میں مجھ پر کچھ نازل نہیں ہوا اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا۔"
[سنن ابوداؤد:حدیث نمبر 3585 - فیصلوں کا بیان : قاضی کے فیصلہ میں خطا کا بیان]
میمون بن مہرانؒ بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکرؓ کی بارگاہ میں جب کوئی شخص مسئلہ لے کر آتا تو وہ اللہ کی کتاب سے رہنمائی لیتے اگر وہ اللہ کی کتاب میں سے کوئی ایسا حکم پالیتے جس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرسکتے تو اس کے مطابق فیصلہ کردیتے اگر اللہ کی کتاب میں وہ بات موجود نہ ہوتی اور اس معاملے میں اللہ کے رسول کی سنت کا علم ہوتا تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے اگر یہ بھی نہ ہوتا تو پھر وہ مسلمانوں سے اس بارے میں دریافت کرتے اور ارشاد فرماتے میرے پاس فلاں فلاں شخص کو لے آؤ اور ارشاد فرماتے کیا تمہیں علم ہے کہ اللہ کے رسول نے اس بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو بعض اوقات ایسابھی ہوتا کہ آپ کے پاس جو لوگ جمع ہوتے تو وہ اس بات کا ذکر کرتے کہ اس بارے میں نبی اکرم ﷺ کا کیا فیصلہ ہے تو حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہر طرح کی حمد اس اللہ کے لیے مخصوص ہے جس نے ہمارے درمیان ایسے حضرات رکھے ہیں جو ہمارے نبی کے فرامین کا علم رکھتے ہیں لیکن اگر اس بات کا بھی پتہ نہ چلتا کہ اللہ کے رسول کی سنت کا علم نہ ہوتا تو حضرت ابوبکرؓ سمجھدار اور بزرگ لوگوں کو اکٹھا کرکے ان سے مشورے کرتے اور جس معاملے میں ان کی رائے متفق ہوتی اس کا فیصلہ کردیتے۔
[سنن الدارمی:163، السنن الکبریٰ للبیھقی:20341]
شریحؒ بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطابؓ نے انہیں خط میں لکھا اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود ہو تو تم اس کے مطابق فیصلہ کرو اس کے بارے میں لوگوں کی طرف توجہ نہ کرو۔ اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو تو اس بارے میں اللہ کے رسول کی سنت کا جائزہ لو اور اس کے مطابق فیصلہ دو اگر تمہارے پاس ایسا مسئلہ آئے جو اللہ کی کتاب میں موجود نہ ہو اس بارے میں نبی اکرم ﷺ کی سنت موجود نہ ہو تو تم اس بات کا جائزہ لو کہ لوگ جس معاملے پر متفق ہوں اس کے بارے میں فیصلہ دو اگر تمہارے پاس کوئی ایسا مسئلہ آئے اللہ کی کتاب کا حکم موجود نہ ہو اور اس بارے میں سنت موجود نہ ہو اور تم سے پہلے لوگوں نے اس بارے میں کوئی رائے نہ دی ہو تو تم دو میں سے کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتے ہو اگر تم چاہو اجتہاد کر کے اپنی رائے کے ذریعے فیصلہ دے کر آگے آسکتے ہو اور اگر چاہو تو اس مسئلے میں سے پیچھے ہٹ جاؤ میرے خیال میں (احتیاط) تمہارا اس مسئلے سے پیچھے ہٹ جانا زیادہ بہتر ہے۔
[سنن الدارمی:169، نسائی:5399، بیھقی:20313]
بہرحال ضرورتاً اجتہاد مجتہد ہی پر جائز ہے.
علامہ ابن الجوزیؒ(م597ھ) نے صحابہ کرامؓ کا ایک امتیازی وصف یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ وہ حضرات ان مسائل میں اجتہاد کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے جن میں انہیں کوئی واضح نص نہ ملی ہو، اور خود نبی ﷺ نے انہیں اس کی تربیت دی تھی ، چنانچہ حضرت معاذ ؓ کو یمن بھیجتے ہوئے نبیﷺ نے پوچھا کہ اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آجائے جو تمہیں قرآن وحدیث میں نہ ملے تو تم کیا کروگے؟ حضرت معاذ ؓ نے عرض کیا: أجتہد رأیی لاآلو -"میں وہاں اجتہاد سے کام لوں گا اورکسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونے دوں گا"،آپ کے اس جواب سے نبیﷺ خوش ہوئے اورآپ کی تصویب فرمائی، اسی طرح آپﷺ نے چند صحابہؓ کو غزوہ أحزاب کے موقع پر حکم دیا تھا کہ وہ عصر کی نماز بنوقریظہ پہونچ کر پڑھیں ،آپ کے اس حکم کو بعض صحابہؓ نے ظاہر پر محمول کیا اور رات میں جب بنی قریظہ پہونچے تب نماز عصر اداکی، جبکہ دیگرصحابہؓ نے کہا کہ اس حکم کا مقصود یہ تھا کہ ہم جلد بنو قریظہ میں پہونچ جائیں ، لہذا انہوں نے وقت ہونے پر نماز ادا کرلی۔
[اعلام الموقعین :۱/ ۲۰۲-۲۰۴]
[اعلام الموقعین :۱/ ۲۰۲-۲۰۴]
الغرض یہ چند جھلکیاں ہیں ان انفاس عالیہ اور بابرکت شخصیات کی جنہوں نے براہ راست درسگاہ نبویؐ سے سیرابی حاصل کی اوراعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر دین کی ایک ایک بات ہم تک پہونچائی ،ان تمام باتوں سے جہاں صحابہ کرامؓ کی عظمت ومنزلت کا پتہ چلتا ہے، وہیں ان کی دینی سوچ واسلامی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔
چناچہ حضرت ابوبکرؓ نے اہل الراۓ کی ایک کمیٹی بنا رکھی تھی، ان کے مشورہ سے مسائل حل فرماتے تھے۔
[دارمی : ١/٥٤]
حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ نے بھی اسی سنّتِ صدیقی پر عمل فرمایا اور باقاعدہ فقہاءِ کرام ایک مجلس ترتیب دی اور شورائی انداز میں فقہ حنفی کی تدوین فرمائی اور یہ بھی خداوند قدوس کا خاص احسان تھا کہ جس طرح فقہاءِ صحابہ کی اس فقہی مجلس میں حضرت صدیقِ اکبرؓ سب سے بڑے فقیہ، سب سے بڑے زاہد، سب سے زیادہ متقی، سب سے بڑے عابد اور سب سے زیادہ صاحبِ ورع تھے. اسی طرح اس خیر القرون کے فقہاء کی مجلس میں حضرت امام ابو حنیفہؒ(م150ھ) سب سے بڑے فقیہ، سب سے بڑے زاہد، سب سے زیادہ متقی، سب سے بڑے عابد اور سب سے زیادہ صاحبِ ورع تھے. صدیقِ اکبرؓ کی مدینہ منورہ میں کپڑے کی دکان تھی اور امام صاحب کا بھی کپڑے کا کاروبار تھا، آخر وہ صدیقِ اکبرؓ تھے تو یہ یہ امام اعظم تھے۔
[خلاصہ مناقب کردری : ١/١٥٤]
حضرت عمرؓ نے بھی مجتہد قضاة کو سرکلر جاری فرمایا تھا کہ اگر اگر مسئلہ کتاب و سنّت میں نہ ملے تو اگر تو چاہے تو اپنی راۓ سے اجتہاد کر۔
[دارمی : ١/٥٥]
فقہاءِ صحابہ (رضی الله عنھم) کے ہزارہا فتاویٰ کتبِ حدیث مثل : مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الآثار وغیرہ میں موجود ہیں جو اس راۓ پر مبنی ہیں۔ صحابہ کرامؓ میں ایک بھی اس راۓ کا منکر نہیں تھا، اس راۓ کا نام کتاب اللہ [سورۃ التوبہ:122]
اور سنّت میں "فقہ" ہے۔
[بخاری:71،مسلم:1037]
فقہ کتاب و سنّت میں صحیح تعبیر و تشریح کو کہتے ہیں، اس فقہ کو رسول اکرم نے "خیر" فرمایا اور ان فقہاء کو "خیار" فرمایا۔
[بخاری:3353،مسلم:2378]
---- وہ جو زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام کے زمانہ میں بھی بہترین لوگ ہیں جبکہ وہ لوگ (دین کی) فقہ (سمجھ) حاصل کر لیں۔
[بخاری:3353،مسلم:2378]
قیاس کی مثال:
خمر (شراب) کے پینے کی حرمت کے بارے میں قران پاک کی یہ آیت نص_صریح ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ [سورۃ المائدۃ:90]
ترجمہ :
اے ایمان والو یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے سب گندے کام ہیں شیطان کے سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ
قیاس کرنے والے مجتہد نے خمر کی حرمت کی علت (وجہ و سبب) پر غور کیا تو وہ خمر کا نشہ آور ہونا پایا گیا. خمر کے بارے میں تو قرآن میں حکم مذکور ہے، لیکن دیگر منشیات کے بارے میں حکم مذکور نہیں. اب آیا ان دیگر منشیات کا استعمال جائز ہے یا ناجائز ہے؟ مجتہد نے غور کیا تو دیگر منشیات میں بھی نشہ آور ہونے کی وہی علت (وجہ و سبب) پائی تو مجتہد نے دیگر منشیات کے بارے میں بھی حرمت کا حکم لگایا یعنی جو حکم خمر (شراب) کا تھا اس کو دیگر منشیات کی طرف متعدی کیا اور ان میں بھی حرمت کا قول کیا.
تو یھاں خمر "اصل" ہے، دیگر منشیات "فرع" اور حکم حرمت، جو اصل سے فرع کی طرف منتقل کرنے کا قیاس کیا گیا۔
ادبِ اختلاف:
مَذْهَبَنَا صَوَابٌ يَحْتَمِلُ الْخَطَأَ وَمَذْهَبَ مُخَالِفِينَا خَطَأٌ يَحْتَمِلُ الصَّوَابَ۔
ترجمہ:
ہمارا نظریہ درست ہے لیکن غلطی کا احتمال بھی رکھتا ہے اور جو ہم سے اختلاف کرتے ہیں ان کا نظریہ غلط ہے لیکن صحیح ہونے کا احتمال رکھتا ہے۔
[التعريفات-الجرجاني: ص135، الأشباه والنظائر-ابن نجيم: ص330، الفتاوى الفقهية الكبرى-ابن حجر الهيتمي: ج4 / ص313]
لیکن یہ معاملہ ماہرین کے درمیانی اختلافی رائے میں ہے، عوامی (غیرماہر) کی رائے میں غلطی کا امکان غالب ہوتا ہے، لہٰذا اگر کبھی درست بھی ہوجائے تب بھی اسے اپنی رائے دینے کا حق نہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔
جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
[مسند أحمد:2069-2429، سنن الترمذي:2950، السنن الكبرى-النسائي:8030]
حضرت جندب سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللهِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ.»
جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے خطا (یعنی قصور، گٌناہ، جرم، غلطی) کی۔
[سنن أبي داود:3652، سنن الترمذي:2952، السنن الكبرى-النسائي:8032]
بلکہ ایک حدیث میں تو کفر تک کی دھمکی دی گئی ہے (مشكوة) ایسے نااہل کو دورِ حاضر کی اصطلاح میں غیر مقلد کہا جاتا ہے. جو شخص کتاب و سنّت کی اہلیت رکھتا ہو اور پھر کتاب و سنّت سے مسائل نکالے اس کو مجتہد کہتے ہیں اور ان مسائل کے مجموعہ کو "فقہ" کہتے ہیں۔ اور جو اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور کتاب و سنّت سے مسائل نکلنے لگے اس کو غیر مقلد کہتے ہیں۔
(3) بدعت : راۓ کی تیسری قسم کو بدعت کہتے ہیں کہ ایسی راۓ سے دین کے مسئلے گھڑنا جس کی بنیاد نہ کتاب ہو نہ سنّت نہ اجماع:
ایسے اہل الراۓ کو اہلِ بدعت و اہلَ أهواء (یعنی بدعت : نئی باتیں گھڑنے والے اور خواھش پرست) کہا جاتا ہے.آج کل کے لمزھب فقہاء و مجتہدین کو پہلی یا تیسری قسم میں شامل کرتے ہیں، یہ (ان کا طریقہ) يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِۦ [سورۃ النساء:64] یعنی تحریف کرتے (پھیرتے) ہیں کلمات کو ان کے مواقع سے ، کی بدترین مثال ہے اور لفظ راۓ کا بےموقع استعمال ہے ہے کہتے ہیں کہ یہ بھی راۓ ہے، وہ بھی راۓ ہے. لیکن یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے. دیکھو : دودھ کا لفظ گاۓ کے ہلال دودھ پر بھی بولا جاتا ہے اور خنزیرنی کے حرام دودھ پر بھی. اب اس لئے کہ دونوں پر دودھ کا لفظ بولا جاتا ہے حلال دودھ کو بھی حرام کہے یا حرام دودھ کو حلال دودھ کو حرام کہے اور گاۓ کے دودھ کو بھی خنزیرنی کا دودھ قرار دے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے۔
اختلاف اور مخالفت میں فرق:
اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی ایک رائے رکھتا ہے(لیکن دوسروں کو اپنی منواتا بھی نہیں)، اور مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے خلاف راستہ راستہ، گلی گلی لوگوں کو یہ کہتا رہتا ہے کہ فلاں کا حکم نہ مانو۔
[الفاظِ مترادفہ کے درمیان فرق: ص100]
ایسے اہل الراۓ کو اہلِ بدعت و اہلَ أهواء (یعنی بدعت : نئی باتیں گھڑنے والے اور خواھش پرست) کہا جاتا ہے.آج کل کے لمزھب فقہاء و مجتہدین کو پہلی یا تیسری قسم میں شامل کرتے ہیں، یہ (ان کا طریقہ) يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِۦ [سورۃ النساء:64] یعنی تحریف کرتے (پھیرتے) ہیں کلمات کو ان کے مواقع سے ، کی بدترین مثال ہے اور لفظ راۓ کا بےموقع استعمال ہے ہے کہتے ہیں کہ یہ بھی راۓ ہے، وہ بھی راۓ ہے. لیکن یہ ایک بہت بڑا دھوکہ ہے. دیکھو : دودھ کا لفظ گاۓ کے ہلال دودھ پر بھی بولا جاتا ہے اور خنزیرنی کے حرام دودھ پر بھی. اب اس لئے کہ دونوں پر دودھ کا لفظ بولا جاتا ہے حلال دودھ کو بھی حرام کہے یا حرام دودھ کو حلال دودھ کو حرام کہے اور گاۓ کے دودھ کو بھی خنزیرنی کا دودھ قرار دے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے۔
اختلاف اور مخالفت میں فرق:
اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی ایک رائے رکھتا ہے(لیکن دوسروں کو اپنی منواتا بھی نہیں)، اور مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے خلاف راستہ راستہ، گلی گلی لوگوں کو یہ کہتا رہتا ہے کہ فلاں کا حکم نہ مانو۔
[الفاظِ مترادفہ کے درمیان فرق: ص100]
اصلاح یا فساد:
اختلافات پھیلاتے/بڑھاتے ہیں اختلافات مٹانے کرنے کے نام پر۔۔۔نئے نئے فرقے وہ بناتے ہیں فرقے مٹانے کے نام پر۔
رای کا مادہ Route Word (ر-ء-ی) ہے، جس کے معنیٰ دیکھنا، سوچنا، خیال کرنا۔
لہٰذا رائے یعنی نظریہ، خیال، سوچ ہے۔
(1) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا۔
جیسے قرآن میں ہے :
وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [سورۃ الأنفال:50]
اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں۔
(2) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا.
جیسے فرمایا :
إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [سورۃ الأنفال:48]
میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔
(3) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا۔
جیسے فرمایا :
ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [سورۃ النجم:11]
پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا.
م
آزادی اظہار کا غلط استعمال
1. نفرت انگیز تقریر:
نسل، مذہب، جنس، یا دیگر ذاتی خصوصیات کی بنیاد پر افراد یا گروہوں کے خلاف نفرت یا تشدد کو فروغ دینا۔
2. ہتک عزت:
کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے غلط معلومات پھیلانا۔
3. ہراساں کرنا:
دوسروں کو دھمکانے، ڈرانے یا دھمکانے کے لیے اظہار خیال کا استعمال۔
4. اکسانا:
تشدد، دہشت گردی، یا دیگر نقصان دہ رویے کی حوصلہ افزائی کرنا۔
5. امتیازی سلوک:
امتیازی سلوک یا علیحدگی کو فروغ دینے کے لیے اظہار کا استعمال۔
6. فحاشی:
بے ہودہ یا فحش مواد پھیلانے کے لیے اظہار خیال کا استعمال۔
7. سرقہ:
دوسروں کے کام کو اپنا سمجھ کر ترک کرنا۔
8. پروپیگنڈہ:
رائے عامہ میں ہیرا پھیری کے لیے گمراہ کن یا جانبدارانہ معلومات پھیلانا۔
9. بہتان:
دوسروں کے بارے میں غلط اور نقصان دہ بیانات دینا۔
10. تشدد کی تعریف:
دوسروں کے خلاف تشدد یا نقصان کو فروغ دینا یا اس کی تعریف کرنا۔
یاد رکھیں، اظہار رائے کی آزادی ایک حق ہے، لیکن دوسروں کے حقوق کو نقصان پہنچائے یا ان کی خلاف ورزی کیے بغیر اسے ذمہ داری اور اخلاقی طور پر استعمال کرنا ضروری ہے۔
دین کے دائرے میں مذموم تشدد یہ ہے کہ کسی مستحب کام کو واجب قرار دے دیا جائے، یا مکروہ کام کو حرام، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں غُلُو(حد سے تجاوز کرنے) سے بھی خبردار کیا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجہ سختی سے بھی منع فرمایا ہے، یہاں پر غلو اور بلا وجہ سختی سے مراد سنت پر عمل ہر گز نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد شرعی احکامات کو تبدیل کرنا ہے، تاہم کسی واجب کام پر عمل کرنا اور حرام کام سے بچنا کسی صورت میں بھی تشدد یا غلو نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک حدیث: (اپنے آپ پر سختی مت کرو، ورنہ تم پر سختی کی جائے گی؛ کیونکہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی تو اللہ تعالی نے بھی ان پر سختی فرمائی، گرجا گھروں اور معبد خانوں میں انہی کے آثار ہیں) کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اس حدیث میں شرعی دائرے سے باہر نکل کر اپنے آپ پر سختی کرنے کی ممانعت ہے، چنانچہ یہ تشدد بسا اوقات کسی غیر مستحب یا غیر واجب عمل کو مستحب یا واجب قرار دینے کی شکل میں ہوتا ہے، اور بسا اوقات کسی ایسے کام کو حرام یا مکروہ سمجھ لینے سے ہوتا ہے جو حقیقت میں حرام یا مکروہ نہیں ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بیان فرمائی کہ عیسائیوں میں سے جن لوگوں نے اپنے آپ پر تشدد کیا تو اللہ تعالی نے ان پر سختی ڈال دی، یہاں تک کہ معاملہ انکی موجودہ خود ساختہ رہبانیت تک پہنچ گیا۔
اس حدیث میں عیسائیوں کی خود ساختہ رہبانیت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کراہت کا اظہار فرمایا ہے، اگرچہ بہت سے ہمارے عبادت گزار لوگ تاویلیں کرتے ہوئے اس میں مبتلا ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں معذور سمجھا گیا ہے، اور کچھ لوگ بغیر کسی تاویل کے اس میں مبتلا ہیں اور انہیں معذور بھی نہیں سمجھا گیا۔
یہاں اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے آپ پر خود سے تشدد کسی اور تشدد کا بھی سبب بنتا ہے، جو کہ اللہ کی طرف سے شرعی طور پر ڈالا جاتا ہے یا قدری طور پر، شرعی کی مثال جیسے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے میں کسی کام کے واجب یا حرام ہونے کے بارے میں خدشات رکھتے تھے مثلاً: صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز تراویح کیلئے اکٹھے ہوئے تو آپ کو تراویح کے فرض ہونے کا خدشہ لاحق ہوا، اسی طرح صحابہ کرام کی طرف سے ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات جنہیں ابھی حرام نہیں کیا گیا [تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدشات لاحق ہوئے کہ کہیں صحابہ کرام کے سوال کرنے سے یہ چیزیں حرام نہ کر دی جائیں] اسی طرح کوئی شخص کسی نیک کام کے کرنے کی نذر مان لے تو اس پر نذر پوری کرنا واجب ہو جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں نذر ماننے سے روکا گیا ہے، اسی طرح کسی سبب کی بنا پر واجب ہونے والے کفارے بھی اسی میں شامل ہیں۔
اور قدرتی کی مثال یہ ہے کہ: ہمارے مشاہدے اور سننے میں یہ بات کئی بار آئی ہے کہ جو شخص حلال و حرام کے بارے میں تشدد کی راہ اختیار کرے تو اسے ایسے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اسے مزید تشدد میں مبتلا کرنے کا باعث بنتے ہیں؛ مثلاً: وضو اور طہارت کے بارے میں وسوسے رکھنے والے لوگ مقررہ عدد سے زیادہ بار اعضاء دھوئیں تو انہیں بہت سی ایسی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے انہیں سخت نقصان اور مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے" انتہی
" اقتضاء الصراط المستقیم " ( 103 ، 104 )
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ارشادِ نبوی: (اپنے آپ کو دین میں غلو کرنے سے بچاؤ، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہی برباد کیا) نسائی: (3059) ابن ماجہ: (3029) اسے البانی نے "صحیح نسائی" میں صحیح بھی قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو غلو سے خبردار کیا ہے، نیز اس بات کی دلیل بھی پیش کی کہ غلو تباہی کا باعث ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلو شریعت سے متصادم ہوتا ہے؛ اور سابقہ امتوں کی تباہی کا باعث بھی ہے؛ چنانچہ یہاں غلو کی حرمت دو اعتبار سے معلوم ہوتی ہے:
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلو سے [تحذیر]خبردار کیا ہے، اور اس میں کسی کام کی ممانعت سے بھی زیادہ معنی پایا جاتا ہے۔
2- یہ اقوام کی تباہی کا باعث ہے، جیسے کہ غلو نے سابقہ اقوام کو تباہ و برباد کیا، اور کوئی بھی چیز تباہی کا باعث ہو تو وہ حرام ہوتی ہے۔
لوگ عبادات کے معاملے میں دو انتہاؤں کے ساتھ ساتھ اعتدال کی راہ پر بھی ہیں، چنانچہ کچھ انتہائی غلو کرنے والے، کچھ انتہائی سستی کرنے والے، اور کچھ معتدل ہیں۔
تاہم دین الہی غلو اور سستی کا درمیانی حصہ ہے، اس لیے اگر کوئی انسان غلو یا سستی کا شکار نہیں ہوتا تو یہی وہ صورت ہے جو ہر شخص پر واجب ہے، لہذا دین میں ایک انتہا یعنی تشدد یا مبالغہ کرنا یا پھر دوسری انتہا یعنی سستی اور بالکل لا پرواہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ انہی دونوں راہوں کے درمیان اعتدال پسند راہ ہے" انتہی
" مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین " ( 9 / 367 ، 368 )
مستحبات اور مباح اور مكروہات ميں لوگوں كے حالات اور عرف كا خيال ركھنا ممكن ہے، ليكن واجبات اور حرام ميں بالكل كسى بھى طور پر لوگوں كى بنا پر ان كو نہيں چھوڑا جا سكتا كہ واجب كو چھوڑ ديا جائے، اور حرام كا مرتكب ہوا جائے.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک حدیث: (اپنے آپ پر سختی مت کرو، ورنہ تم پر سختی کی جائے گی؛ کیونکہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی تو اللہ تعالی نے بھی ان پر سختی فرمائی، گرجا گھروں اور معبد خانوں میں انہی کے آثار ہیں) کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اس حدیث میں شرعی دائرے سے باہر نکل کر اپنے آپ پر سختی کرنے کی ممانعت ہے، چنانچہ یہ تشدد بسا اوقات کسی غیر مستحب یا غیر واجب عمل کو مستحب یا واجب قرار دینے کی شکل میں ہوتا ہے، اور بسا اوقات کسی ایسے کام کو حرام یا مکروہ سمجھ لینے سے ہوتا ہے جو حقیقت میں حرام یا مکروہ نہیں ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بیان فرمائی کہ عیسائیوں میں سے جن لوگوں نے اپنے آپ پر تشدد کیا تو اللہ تعالی نے ان پر سختی ڈال دی، یہاں تک کہ معاملہ انکی موجودہ خود ساختہ رہبانیت تک پہنچ گیا۔
اس حدیث میں عیسائیوں کی خود ساختہ رہبانیت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کراہت کا اظہار فرمایا ہے، اگرچہ بہت سے ہمارے عبادت گزار لوگ تاویلیں کرتے ہوئے اس میں مبتلا ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں معذور سمجھا گیا ہے، اور کچھ لوگ بغیر کسی تاویل کے اس میں مبتلا ہیں اور انہیں معذور بھی نہیں سمجھا گیا۔
یہاں اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے آپ پر خود سے تشدد کسی اور تشدد کا بھی سبب بنتا ہے، جو کہ اللہ کی طرف سے شرعی طور پر ڈالا جاتا ہے یا قدری طور پر، شرعی کی مثال جیسے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے میں کسی کام کے واجب یا حرام ہونے کے بارے میں خدشات رکھتے تھے مثلاً: صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز تراویح کیلئے اکٹھے ہوئے تو آپ کو تراویح کے فرض ہونے کا خدشہ لاحق ہوا، اسی طرح صحابہ کرام کی طرف سے ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات جنہیں ابھی حرام نہیں کیا گیا [تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدشات لاحق ہوئے کہ کہیں صحابہ کرام کے سوال کرنے سے یہ چیزیں حرام نہ کر دی جائیں] اسی طرح کوئی شخص کسی نیک کام کے کرنے کی نذر مان لے تو اس پر نذر پوری کرنا واجب ہو جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں نذر ماننے سے روکا گیا ہے، اسی طرح کسی سبب کی بنا پر واجب ہونے والے کفارے بھی اسی میں شامل ہیں۔
اور قدرتی کی مثال یہ ہے کہ: ہمارے مشاہدے اور سننے میں یہ بات کئی بار آئی ہے کہ جو شخص حلال و حرام کے بارے میں تشدد کی راہ اختیار کرے تو اسے ایسے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اسے مزید تشدد میں مبتلا کرنے کا باعث بنتے ہیں؛ مثلاً: وضو اور طہارت کے بارے میں وسوسے رکھنے والے لوگ مقررہ عدد سے زیادہ بار اعضاء دھوئیں تو انہیں بہت سی ایسی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے انہیں سخت نقصان اور مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے" انتہی
" اقتضاء الصراط المستقیم " ( 103 ، 104 )
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ارشادِ نبوی: (اپنے آپ کو دین میں غلو کرنے سے بچاؤ، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہی برباد کیا) نسائی: (3059) ابن ماجہ: (3029) اسے البانی نے "صحیح نسائی" میں صحیح بھی قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو غلو سے خبردار کیا ہے، نیز اس بات کی دلیل بھی پیش کی کہ غلو تباہی کا باعث ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلو شریعت سے متصادم ہوتا ہے؛ اور سابقہ امتوں کی تباہی کا باعث بھی ہے؛ چنانچہ یہاں غلو کی حرمت دو اعتبار سے معلوم ہوتی ہے:
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلو سے [تحذیر]خبردار کیا ہے، اور اس میں کسی کام کی ممانعت سے بھی زیادہ معنی پایا جاتا ہے۔
2- یہ اقوام کی تباہی کا باعث ہے، جیسے کہ غلو نے سابقہ اقوام کو تباہ و برباد کیا، اور کوئی بھی چیز تباہی کا باعث ہو تو وہ حرام ہوتی ہے۔
لوگ عبادات کے معاملے میں دو انتہاؤں کے ساتھ ساتھ اعتدال کی راہ پر بھی ہیں، چنانچہ کچھ انتہائی غلو کرنے والے، کچھ انتہائی سستی کرنے والے، اور کچھ معتدل ہیں۔
تاہم دین الہی غلو اور سستی کا درمیانی حصہ ہے، اس لیے اگر کوئی انسان غلو یا سستی کا شکار نہیں ہوتا تو یہی وہ صورت ہے جو ہر شخص پر واجب ہے، لہذا دین میں ایک انتہا یعنی تشدد یا مبالغہ کرنا یا پھر دوسری انتہا یعنی سستی اور بالکل لا پرواہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ انہی دونوں راہوں کے درمیان اعتدال پسند راہ ہے" انتہی
" مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین " ( 9 / 367 ، 368 )
مستحبات اور مباح اور مكروہات ميں لوگوں كے حالات اور عرف كا خيال ركھنا ممكن ہے، ليكن واجبات اور حرام ميں بالكل كسى بھى طور پر لوگوں كى بنا پر ان كو نہيں چھوڑا جا سكتا كہ واجب كو چھوڑ ديا جائے، اور حرام كا مرتكب ہوا جائے.
بعض لوگ غلطى سے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى اس حديث سے استدلال كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كعبہ كو گرا كر ابراہيم عليہ السلام كى بنيادوں پر دوبارہ تعمير كرنے كو ترك كر ديا تھا "
وہ اس سے واجب كو ترك كرنے كى دليل ليتے ہيں جو كہ صحيح نہيں بلكہ غلط ہے، اگر يہ واجب ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كبھى بھى اسے تاليف قلب كے ليے ترك نہ كرتے، بلكہ يہ جائز تھا، ہم ذيل ميں مكمل حديث اور اس پر اہل علم كى كلام پيش كرتے ہيں:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے كہنے لگے:
" اے عائشہ! اگر تيرى قوم جاہليت كے دور كے قريب نہ ہوتى تو ميں بيت اللہ كو گرانے كا حكم دوں اور پھر ميں اس ميں وہ حصہ بھى شامل كر دوں جو اس سے نكال ديا گيا ہے، اور اسے زمين كے ساتھ ملا دوں اور اس كے دو دروازے بنا دوں ايك مشرقى جانب اور ايك مغربى جانب تو اس طرح وہ ابراہيم عليہ السلام كى بنيادوں پر آ جائے گا۔ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1509 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1333 ).
اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:
" مجھے خدشہ ہے كہ ان كے دل اسے ناپسند سمجھيں گے۔ "
شيخ الاسلام ابن تيميہ كہتے ہيں:
" يہ معلوم ہے كہ روئے زمين پر سب سے بہتر جگہ كعبہ ہے، اور اگر اسے اس طريقہ ميں بدلنا اور تبديل كرنا واجب ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كبھى بھى اسے ترك نہ كرتے، اس سے يہ معلوم ہوا كہ يہ جائز تھا، اور يہ كہ زيادہ صحيح يہى تھا اگر قريش نئے نئے مسلمان نہ ہوتے، اور اس ميں كعبہ كى تعمير كو پہلى تعمير سے تبديل كرنا پايا جاتا ہے، تو يہ معلوم ہوا كہ بالجملہ يہ جائز تھا، اور ايك تاليف كو دوسرى تاليف سے تبديل كرنا تبديل كرنے كى ايك قسم ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 31 / 244 ).
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ ايك جگہ يہ كہتے ہيں:
چنانچہ اس وقت افضل كو ترك كرنا تا كہ لوگ متنفر نہ ہوں، اور اسى طرح اگر آدمى بسم اللہ اونچى آواز سے پڑھنے كى رائے ركھتا ہو اور كسى ايسى قوم كى امامت كرائے جو بسم اللہ اونچى آواز سے پڑھنا مستحب سمجھتے ہوں، يا اس كے برعكس اور وہ ان كى موافقت كرے تو اس نے بہتر كام كيا "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 268 - 269 ).
اور ايك جگہ كہتے ہيں:
" اور بعض اوقات وہ ـ يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ـ افضل كام سے مفضول كى جانب منتقل ہو جاتے؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں موافقت اور تاليف قلب ہوتى، جيسا كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:
" اگر تيرى قوم عہد جاہليت كے قريب نہ ہوتى تو ميں كعبہ كو گرا كر اس كے دو دروازے بنا ديتا "
تو يہاں موافقت اور تاليف قلب كے ليے ترك اولى ہے، جو كہ اس اولى اور افضل سے بہتر ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 26 / 91 ).
اختلاف رائے اور وحدتِ امت
امت میں اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے، ہر دور میں ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا، حقیقت میں یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ ہے اس کو کوئی مٹانے کے درپے ہوتو بھی مٹ نہیں سکتا، یہ الگ بات ہے کہ ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف محمود ہوسکتا، وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو وہ اختلاف یقینا مذموم ہے، اسی طرح ایسے امور کی بابت اختلاف جن میں اس کی گنجائش نہیں اس بنا پر کہ ہماری عقل کی پرواز وہاں تک نہیں یا اس کو عقل سے زیادہ وحی کے مضبوط ذریعے سے مربوط کرکے رکھا گیا ہے؛ اس بابت اختصار کے ساتھ مندرجہ ذیل سطور میں کچھ معروضات پیش کی جارہی ہیں۔
اختلافات کے مذموم اسباب
قبیح اسباب کی بنا پر جو اختلافات رونما ہوتے ہیں وہ مذموم ہوجاتے ہیں۔ ایسے اسباب تو متعدد ہیں؛ مگر ان کو دو میں منحصر کیا جاسکتا ہے: (۱) وہ اختلاف جو جہل کی بنا پر ہو (۲) وہ اختلاف جو محض تعصب اور نفس پرستی کی بنا پر ہو۔
جہل کی بنا پر اختلاف
اختلاف کے وجوہات پر غور کیاجائے تو ”جہالت“ ایک اہم سبب ہے جس کی بنا پر اختلافات رونما ہوتے ہیں، مذہبیات سے ناواقفیت، احکام کے مابین درجات اور ان کے حدود سے عدم معرفت، جس امر میں گفتگو ہورہی ہے اس میں مہارت کافقدان اوراس کے لوازم ومقتضیات سے جہل ایسا سنگین وخطرناک مرض ہے جس نے امت کو اختلاف وانتشار کا شکار بناکر رکھ دیا ہے، دینی مسائل میں محض عقل سے یافت نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ دین کے اصول کی دریافت کے بعد صحیح راہ ملتی ہے، ہر شخص کی رائے زنی، ہر کس وناکس کی مداخلت، ہمہ وشما کی فتویٰ بازی نے امت کا شیرازہ پارہ پارہ کیاہے۔ حدیث میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:
ان اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعًا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالم اتخذ الناس روٴوسًا جہالاً، فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا وأضلّوا․(بخاری: ۱/۲۰، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم)
(اللہ تعالیٰ بندوں سے یک لخت علم کو سلب نہیں کرے گا؛ بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ اپنا پیشوا جاہلوں کو بنالیں گے، پس ان سے سوال کیا جائے گا وہ بھی بلا علم فتویٰ دیں گے، نتیجتاً خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے)
یہ ایسا ہی ہے کہ ایک انجینئر، ڈاکٹر کے نسخہ میں دخل انداز ہوجائے تو مریض کو اپنی خیر منانی چاہیے، ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر معلوم نہیں ہے تو ”واللہ اعلم“ کہہ کر بات ختم کردے اور اگر اس کے بس میں دوسرے سے معلوم کرنا ہوتو کوشش کرلے، حضرت علی وحضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف سے کسی کو انکارہوسکتا ہے؛ مگر جب مسائل الجھتے تھے تو حضرت علیؓہ سے ہی رجوع کیا جاتا تھا۔ موافقین ومخالفین کسی کو عار محسوس نہیں ہوتی، ایک مقدمہ حضرت معاویہ کی خدمت میں آیاکہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو کسی کے ساتھ زنا میں ملوث پایا، اس نے زانی کو قتل کردیا، اب اس قاتل کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے، قاتل ہونے کا تقاضا ہے کہ قصاصاً شوہر کو قتل کردیا جائے؛ مگر جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا ان جذبات سے چشم پوشی بھی ممکن نہیں؛ بالآخر حضرت معاویہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ فیصلہ کیا ہو؟ انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو لکھا کہ حضرت علی سے مسئلہ دریافت کرکے لکھیں، پھر حضرت علیؓ نے اس کا جواب مرحمت فرمایا۔ (موطا امام مالک: ۳۰۸-۳۰۹، کتاب القضاء، القضاء فیمن وجد مع امرأتہ رجلاً)
تعصب ونفس پرستی کی بنا پر اختلاف
تعصب بھی اختلاف کے باب میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، انسان جانتا ہے، پہچانتا ہے، مگر قومی ہمدردی، لسانی وزبانی ہم آہنگی،مسلکی اتحاد واتفاق، اور سیاسی اشتراک کی وجہ سے اختلاف کرتا ہے، یا پھر ان سب سے قطع نظر محض نفسانی خواہش کی تکمیل کے لیے اور جذبات کی تسکین کے لیے اختلاف کرتا ہے، یہود ونصاریٰ کا اپنے نبیوں سے، اور کفار مکہ کا اسلام ومسلمانوں سے اختلاف وعناد کا بنیادی داعیہ وکلیدی محرک یہی تعصب ہی تو تھا۔ حضرت ابوامامہؓ کی مرفوع حدیث میں اس قبیح داعیہ کی طرف واضح اشارہ موجود ہے:
ما ضلّ قوم بعد ہُدی کانوا علیہ الا أوتوا الجدل، ثم قرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہذہ الآیة: ما ضربوہ لک الا جدلاً، بل ہم قوم خصمون (ترمذی: ۲/۱۶۱، کتاب التفسیر، سورة زخرف، حسن صحیح)
(کہا گیا ہے: مراد یہاں عناد اور قرآن میں بعض کا بعض سے تعارض پیدا کرکے شک پیدا کرنا ہے کہ اپنے مذہب و مشرب اور اپنے مشایخ کے آراء کی ترویج ہو، ان کا مقصود حق کی نصرت کرنا نہیں ہے، اور یہ صورت حرام ہے)
یہ دو اسباب بہت ہی اہم ہیں جو اختلاف کو جنم دیتے ہیں، باقی اور اسباب پر غور کیاجائے تو وہ سب انہی دو کے شاخسانہ ہوں گے۔
ایسے امور کی بابت اختلاف جو محل اختلاف نہیں ہیں
جس طرح بُرے اغراض واسباب کی بنا پر اختلاف مذموم ہوتا ہے اسی طرح ایسے امور کی بابت اختلاف بھی مذموم ہوجاتا ہے جو محل اختلاف نہیں ہیں۔ وہ بھی بنیادی طور پر دو ہیں:
(۱) عقائد میں اختلاف، (۲) آیات متشابہات میں اختلاف۔
عقائد میں اختلاف
عقائد کے سلسلہ میں اللہ پاک نے بالکل واضح ہدایات اپنے انبیاء کو مبعوث کرکے دے دی ہے، ہر زمان ومکان کے لحاظ سے انبیاء کی شریعتیں تو بدلتی رہیں؛ مگر امور اعتقادیہ میں فرق نہیں آیا، قرآن نے واضح کیا: شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحًا (اللہ نے اسی دین کو تمہارے لیے مشروع کیا، جس کی وصیت حضرت نوح ودیگر انبیاء ورسل کو کیا)
البتہ سب کے لیے منہاج اور چلنے کی راہوں کو الگ الگ بنایا، تاکہ چلنا آسان اور عمل کرنا سہل ہوجائے، ان اعتقادی ونظریاتی امور میں جب بھی امت کی طرف سے تھوڑا بھی اختلاف کا شائبہ اللہ کے رسول کو محسوس ہوا، رحمة للعالمین کا چہرہ غصہ سے تمتما گیا اور فوراً تنبیہ فرمادی: ألہذا أُمرتم، ألہذا بعثتم، کیا تمہیں اسی کا حکم دیاگیا ہے، کیا تمہیں دنیا میں اسی کے لیے بھیجا گیا ہے، تمہیں کیا ہوا کہ کتاب اللہ کی بابت اختلاف کرتے ہو، سابقہ قومیں اسی وجہ سے گمراہ وہلاک ہوگئیں کہ انھوں نے اپنی کتابوں میں اختلاف کیا؛ بہتر وتہتر فرقوں کا وجود بھی اسی کی رہین منت ہے، صحابہ کے زمانہ میں ہی اعتقادی فرقے بال وپر نکال چکے تھے، حضرت علی کے دور میں زندیقوں کی جماعت کو امیر المومنین کے حکم سے آگ میں جھونک دیاگیا، یہ سب اعتقادی اختلاف کی پاداش میں ہوا۔
متشابہات میں اختلاف
متشابہات بھی ان امور میں سے ہیں جن میں اختلاف کی گنجائش نہیں؛ اس لیے کہ اختلاف کا مقصد صواب ودرستگی کی تلاش اور اس کا حصول ہے، یہ انسان کی قدرت سے باہر ہے کہ متشابہات کی حقیقی مراد تک رسائی حاصل کرلے کیوں کہ انسان کو اس کا علم دیا ہی نہیں گیا ہے۔ اللہ نے اپنے پاس محفوظ رکھا ہے؛ بلکہ اس سلسلہ میں کلام کرنے کی ممانعت فرمادی گئی، قرآن کریم نے ان لوگوں کو ”اہل زیغ وضلال“ سے تعبیر کیا ہے جو ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔
خلافت فاروقی میں ایسا ہی ایک شخص تھا جو بصرہ میں رہتا تھا اور ہروقت متشابہات کے درپے رہتا، وہ مصر بھی پہنچ گیا، وہاں اس وقت حضرت عمروبن عاص گورنر تھے، انھوں نے اس بابت امیرالمومنین کو عریضہ لکھا، حضرت عمر نے اس شخص کو مدینہ طلب فرمایا، حضرت عمر نے اس سے سوال کیا: تو کون شخص ہے؟ اس نے کہا: اللہ کا بندہ ”صبیغ“ ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ عمر ہوں اور تروتازہ قمچیوں سے مارنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ سارا بدن لہولہان ہوگیا، جب زخم اچھا ہونے لگا، پھر مارنا شروع کیا، اس نے عرض کیا: امیرالمومنین: اگر آپ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو سیدھے طریقے سے قتل کیوں نہیں کروادیتے ہیں اور اگر میرے دماغ کے فتور کی وجہ سے یہ معاملہ کررہے ہیں تو اللہ شاہد ہے کہ وہ نکل چکا ہے۔ حضرت عمر نے اب بصرہ یعنی گھر جانے کی اجازت مرحمت فرمائی، مگر لوگوں کو میل جول سے منع کردیا۔ ابوعثمان نہدی کہتے ہیں: وہ شخص ہم لوگوں کے مجمع میں اگرآجاتا تو ہم سب وہاں سے کھسک لیتے، یہ اس پر بہت شاق گزرتا تھا۔ بالآخر حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے دارالخلافہ عریضہ روانہ کیا کہ اس کی حالت اچھی ہوچکی ہے تب جاکر حضرت عمر نے ملنے جلنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (اسلامی سیاست، مولف شیخ زکریا رحمہ اللہ، ص:۲۱۷ بحوالہ درمنثور)
اختلاف کی یہ ساری انواع مذموم اور قابل اجتناب ہیں؛ کیوں کہ ان میں حق وباطل کا معرکہ ہے اور اللہ نے حق کو واضح کردیا ہے اب کے خلاف جو بھی ہوگا باطل ہوگا۔ علماء نے ہر دور میں باطل کو للکارا ہے، ان کے چیلنج کو قبول کیا ہے اور اس کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے ہیں، کسی بھی قسم کی مداہنت کو برداشت نہیں کیا۔
فروعی واجتہادی اختلاف
لیکن ان سب کے علاوہ ایک نوع فروعی واجتہادی اختلاف کی ہے، یہ اختلاف محمود ہے۔ جس طرح انبیاء کی شریعتیں الگ الگ رہی ہیں، فروعی مسائل میں ہر مجتہد کی رائیں مختلف ہوئی ہیں، کسی کو باطل نہیں کہا جاسکتا، اس قسم کا اختلاف امت کی آسانی کے لیے ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا جملہ بہت ہی وقعت رکھتا ہے:
ما یسرّنی لو أن أصحاب محمد لم یختلفوا؛ لأنہم لو لم یختلفوا لم تکن رخصة (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر:۲/۷۸)
(مجھے اس بات سے مسرت نہ ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا؛ اس لیے کہ ان میں اگر اختلاف نہ ہوتا تو گنجائش ورخصت نہیں رہتی)
حضرت امام مالک سے خلیفہٴ وقت نے درخواست کی کہ آپ موطا کے متعدد نسخے تیار کردیں، ہم اس کو سلطنت کے ہرشہر میں بھیج دیں گے اور سب کو شاہی فرمان کے ذریعہ اس پر متفق کردیں گے، مگر حضرت امام مالک اس کے لیے راضی نہیں ہوئے اور اس ارادے سے باز رہنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا: لوگوں کے پاس مختلف حدیثیں پہنچی ہیں وہ ان روایات کے موافق عمل پیرا ہیں، بعد کے خلیفہ نے بھی اس قسم کا مشورہ دیا مگر حضرت امام مالک نے اس قسم کا مشورہ پسند نہیں فرمایا، کیوں کہ اس کی وجہ سے امت مصیبت میں مبتلا ہوسکتی تھی۔ (مقدمہ اوجز المسالک:۱/۱۹)
صحابہ سے لے کر علمائے امت تک فروعی مسائل میں اختلاف کرتے آئے ہیں، بسا اوقات ایک ہی عالم زمان ومکان کے فرق اور احوال وتقاضے کے بدلنے سے بھی مختلف نظر آتا ہے، امام ابوحنیفہ وصاحبین کے مابین جہاں اختلاف کی اور بھی نوعیتیں ہیں ایک بڑا حصہ اس قسم کے اختلاف کا بھی ہے۔ اصحابہ فقہ ”اختلاف زمان ومکان“ سے تعبیر کرکے اسی کی طرف اشارہ بھی فرماتے ہیں۔ امام شافعی علیہ الرحمہ کے اقوال جدیدہ وقدیمہ میں تنوع اسی کا نتیجہ ہے۔
پھر اجتہادی مسائل میں حق وباطل کا اختلاف نہیں؛ بلکہ صواب واحتمال خطا کا اختلاف ہے، جس میں صواب کو پہنچنے والا گو ایک ہی ہوگا، مگر اجر کے مستحق دونوں ہی ہوتے ہیں اس کی صراحت ووضاحت حدیث میں بھی فرمائی گئی ہے۔ اس لیے ایسے اختلاف کو مذموم نہیں؛ بلکہ محمود کہا جائے گا۔
اختلاف میں حدود سے تجاوز
اختلاف خواہ مذموم ہو یا محمود اس کے حدود سے تجاوز کرنا اور مخالفین کے ساتھ اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط کا معاملہ کرنا جائز نہیں۔ قرآن کریم نے تو بہت ہی واضح انداز میں کہا ہے: ولا یجرمنکم شنآن قوم أن صدوکم عن المسجد الحرام أن تعتدوا (ایسانہ ہو کہ کسی قوم سے اس سبب سے کہ انھوں نے مسجد حرام سے روک دیا ہے وہ بغض تمہارے لیے باعث بن جائے حد سے تجاوز کرنے کا)
آیت میں معاملہ کفار کا ہے ان کی مخالفت میں بھی حد سے تجاوز کو روکا جارہا ہے، تو ان اختلافات کی بابت کیا کہا جائے گا جو کافروں ومسلمانوں کے مابین نہیں؛ بلکہ بظاہر کلمہ گو حضرات کے مابین ہے، صحابہ وائمہ کے طرزِ عمل پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ امر اور بھی واضح ہوگا، صحابہ کے مابین اختلاف کم نہیں ہوئے، محاربات تک کی نوبت آئی، حتیٰ کہ تقریباً بیس ہزار نفوس ان حروب کے شکار ہوئے، یہ جو کچھ ہوا غلط فہمی واجتہاد کی بنا پر ہوا؛ لیکن اس کے باوجود حدود کی رعایت میں اپنی مثال آپ ہیں، بلوائیوں اور سبائیوں نے حضرت عثمان کا گھیرا تنگ کررکھا ہے، گھر سے نکلنے کی اجازت تک نہیں دے رہے ہیں، مسجد نبوی میں ان کا ہی ایک فرد امامت کررہا ہے، جو لوگوں کو ناگوار بھی ہورہا ہے، لوگوں کی شکایت پر خلیفہ کی زبان سے نصیحت بھرا جملہ نکلتا ہے:
الصلاة أحسن ما یعمل الناس، فاذا أحسن الناس فأحسن معہم واذا أساوٴوا فاجتنب اسائتہم․ (بخاری: ۱/۹۶، کتاب الأذان، باب امامة المفتون والمبتدع)
(نماز بہت اچھی چیز ہے جب تک لوگ اس پر عامل ہیں، پس جب لوگ اچھے طریقے کو اختیار کریں تم بھی ان کے ساتھ اس حسنہ میں شریک رہو، اور جب سوء کو اختیار کریں تو ان کے سوء سے اجتناب کرو)
اساء ت سے ان کا خلیفہ کے ساتھ بغاوت کو مراد لیاہے۔ اپنے مخالفین کے سلسلہ میں اس قدر اعتدال کی راہ اختیار کرنا ایک خلیفہٴ راشد وعادل سے ہی ممکن تھا۔
اسی طرح ائمہ کے مابین اختلافات سے کتب فقہ لبریز ہیں،مگر کسی فقیہ نے دوسرے کی شان میں گستاخی نہیں کی، امام شافعی کا مشہور جملہ علمی حلقوں میں زبان زد ہے اور بالکل صحیح ہے کہ لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔
بہرحال ہر امر میں اعتدال مطلوب ہے، اختلاف میں بھی اعتدال مطلوب ہوگا۔
(۱) فروعی احکام کو بیان کرنے میں اعتدال
فقہی مباحث میں جو کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اس کا اکثر حصہ افضلیت و اولیت پر مبنی ہے اِکا دُکا مسئلہ جواز وعدم جواز سے بھی متعلق ہے؛ مگر یہ سارے مسائل مجتہد فیہ ہیں جن میں خطا وصواب دونوں کا احتمال ہے، کسی بھی فریق کومورد الزام ٹھہرانا غلو وتشدد ہوگا، ائمہ کے مسالک ترجیح کی خاطر ہیں اور بلا ضرورت ایک امام کے مسلک سے عدول نہیں کرنا چاہیے؛ لیکن یہ احکام تبلیغی نہیں ہیں لہٰذا دوسروں کو اپنے فکر وخیال کا ہم نوا بنانا اعتدال کے باب کو مجروح کرتا ہے۔ حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی رحمة اللہ علیہ کا ایک پیراگراف جو انھوں نے بزرگوں واسلاف کے خیالات سے کشید کرکے لکھاہے حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے:
”الغرض وہ تمام مسائل جن میں سلف صالحین اور فقہائے امت کا اختلاف ہے، خصوصاً جن مسائل میں اختلاف صرف افضلیت وغیرافضلیت تک محدود ہے ان میں ایسا غلو اور تشدد روا نہیں کہ ایک دوسرے کو توبہ کی دعوتیں دی جانے لگیں، ایسا غلو اور تشدد ابتداع فی الدین ہے جس سے شاہ صاحب کے بقول دین میں تحریف کا دروازہ کھلتا ہے، ایسے لوگوں کا شمار اہل حق میں نہیں اہل بدعت میں ہے، میں اپنے بہادر بھائی اور ان کے دیگر ہم مشرب بزرگوں کی خدمت میں نہایت دردمندی سے گزارش کروں گا کہ آپ کے جذبہ عمل بالحدیث کی دل وجان سے قدر کرتا ہوں، مگر خدارا ان فروعی مسائل میں ایسا غلو اور تشدد روانہ رکھئے جس سے دین کی حدود مٹ جائیں اور فرائض وواجبات اور مستحبات کے درمیان خط امتیاز باقی نہ رہے، اور بے دین طبقہ کو اہل دین کا تمسخر اڑانے کا موقع ملے، آپ جس سنت کو اولیٰ وافضل سمجھتے ہیں بڑے شوق واخلاص کے ساتھ ان پر عمل کیجیے، ان شاء اللہ آپ کو اپنے مخلصانہ عمل کا اجر ضرور ملے گا؛ لیکن دوسرے حضرات کے نزدیک اگر دوسری سنت افضل وراجح ہے تو ان پر طعن نہ کیجیے؛ بلکہ اطمینان رکھئے ان کو بھی بشرط اخلاص اس دوسری سنت پر عمل کرنے سے ان شاء اللہ آپ سے کم اجر نہیں ملے گا۔“ (اختلاف امت اور صراط مستقیم، ص:۲۲۷، مکتبہ تھانوی)
سارے ہی مکاتب فکر قرآن وحدیث، اجماع وقیاس سے ہی استدلال کرتے ہیں، اختلاف نصوص فہمی یا فقہی اصول و شرعی ضوابط سے تخریج وتنقیح کا ہے یا پھر نصوص کی تاویل وتشریح کا ہے۔ سب ہی اللہ کے نزدیک ماجور ہیں کسی کو لعن طعن کرنا کیوں کر جائزہوگا، اور غالباً مدارس کی درسگاہوں میں ایسا ہوتا بھی نہیں ہے، ایک دو فرد سے ایسا اگر ہورہا ہے تو اس کو عمومی رجحان نہیں کہا جاسکتا، مخاطب طلبہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بیان ہورہا ہے وہ ترجیح کی خاطر ہی ہورہا ہے۔ اس کی تبلیغ مقصود نہیں ہے؛ لیکن پھر بھی ایسا طرزِ تدریس اختیار کرنا جس سے کسی دوسرے امام کی تنقیص وتحقیر ہورہی ہے، یا احترام میں کمی اور طلبہ کے ذہن میں نفرت پیدا ہورہی ہے تو بہرحال روانہ ہوگا۔
محتاط رویہ تو یہ ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ ہر ایک کا مسلک واضح کردیا جائے، نیز ہر ایک کی ترجیحات کو ذکر کرکے مخاطب طلبہ جس مسلک کے پیروکار ہوں اس کی ترجیح کو مدلل کردیا جائے، نیز باور کرادیا جائے کہ دوسرے فقہی دبستانوں کا اختلاف کس بنیاد پر ہے، نص فہمی بنیاد ہے یا کسی اصل کل سے تخریج ہے ایسا کرنے سے اعتدال بھی قائم رہے گا اور اتحاد واتفاق کی فضا بھی استوار رہے گی۔ کیرلا کے مدارس جہاں ہر دو فکر وخیال کے طلبہ پڑھتے ہیں، مدارس سے نکلنے کے بعد بھی کوئی ضروری نہیں کہ ان کے مسلک کے مطابق خدمت کا موقع بھی مل جائے؛ لیکن کوئی اختلاف وانتشار نہیں، یہ علماء انہی مدارس سے فاضل ہوتے ہیں، پھر امہات المدارس سے تربیت لیتے ہیں جو خالص حنفی مکتب فکر کے حامل ہیں، اگر کسی کا دماغ ہی بودا ہو اور وہ بیان مسلک وترجیح کو بھی نزاع واختلاف سمجھنے لگے تو اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے۔
(۲) نظریاتی واعتقادی مسائل میں اختلاف اور طرز عمل
یہ بھی حقیقت ہے کہ کلمہ گو حضرات کے مابین بعض اختلافات اعتقادی ہیں، ایمان کی بنیاد صحیح اعتقاد پر ہے، اس کو استوار رکھنا بے حد ضروری ہے، جس کے لیے بحث و مباحثہ ناگزیر ہے، باہمی تبادلہٴ خیال میں نوک جھوک سے مفر بھی نہیں ہے۔ بغیر اس کے اللہ کی راہ کو افراط وتفریط سے محفوظ رکھنا بھی مشکل ہے، نیز لوگوں کو ان مفاسد سے آگاہ کرنا بھی فریضہ ہے، جس میں ان مفاسد پر تنقید سے چارئہ کار نہیں، یہ اختلاف چوں کہ صرف صواب وخطاء کا نہیں ہے اس لیے صحیح نظریہ کی تشریح و تبلیغ ضروری ہے؛ لیکن اتحاد واتفاق کی فضا کو مسموم کرنا بھی حالات وتقاضائے وقت کے خلاف ہے، اس لیے ایسارویہ اختیار کیا جائے کہ نفرت سے زیادہ محبت کا ماحول سازگار ہو، اعتدال بہرحال اس میں بھی مطلوب ہے۔ لہٰذا:
(الف) باہمی مذاکرہ اختلافی ونظریاتی موضوعات پر نہ کیا جائے، اس سے مناظرہ کی صورت پیداہوگی جس سے فی الوقت فائدہ کم محسوس ہورہا ہے۔
(ب)دونوں فریق کے مابین جو امور متفق علیہ ہیں ان سے مذاکرات کی ابتدا کی جائے۔
(ج) عام مجلسوں میں مفاسد پر تنقید تو ہو مگر ان کے حاملین کا نام لے کر نشانہ بنایاجائے؛ بلکہ آمنا سامنا ہونے پر معاملہ حسن خلق کا ہو، اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے بہترین اسوئہ چھوڑا ہے: حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ایک شخص نے حضور علیہ السلام کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو اللہ کے رسول نے اس کے مفاسد پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا: بئس أخوالعشیرة (یہ اپنے قبیلہ کا برا انسان ہے) لیکن جب سامنا ہوا بڑی ہی ملاطفت ونرم مزاجی وحسن کلامی کا مظاہرہ کیا۔ (بخاری:۲/۹۰۵ کتاب الادب، باب المدارة مع الناس)
حضرت ابوالدرداء کا قول بھی بخاری اسی جگہ نقل فرماتے ہیں:
انا لنکشِر فی وجوہ أقوام وان قلوبنا لتلعنہم․ (بخاری: حوالہ بالا)
(ہم لوگوں کے سامنے مسکراتے ہیں حالانکہ ہمارے دل ان پر لعنت کرتے رہتے ہیں)
(د) تنقید برائے تنقید نہ ہو کہ جذبات کو تسکین حاصل ہوجائے اور بس؛ بلکہ ہر ہر لفظ سے خیرخواہی اور صالح جذبات کی ترجمانی ہورہی ہو، خلافتِ راشدہ کا آخری دور خلفشار کا رہا ہے، ایک طرف مسلمانوں کی دو بڑی جماعتیں آپس میں دست وگریباں ہیں دوسری طرف کچھ نئے فرقے جنم لے رہے ہیں، عجیب عجیب شوشے چھوڑے جارہے ہیں، جس سے امت مسلمہ کی سدسکندری میں شگاف ورخنہ آنے لگا، بالآخر نوبت قتال و جہاد تک آگئی، ان ہی فرقوں میں خوارج کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوئی، جو درحقیقت حضرت علی وحضرت معاویہ کے مابین اختلاف میں اتفاق واتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے سامنے آیا تھا، ایسا جذباتی شوشہ چھوڑا کہ بہت سے لوگ ہم نوا بھی ہوگئے، حضرت علی نے راہ راست پر لانے کی بہت کوشش کی؛ مگر کوشش بارآور نہیں ہوئی، بالآخر ان سے قتال بھی ہوا، رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق اس کا سرغنہ مارا بھی گیا،اس موقع پر خلیفہٴ وقت حضرت علی نے جو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا وہ تنقید کے باب میں ہمارے لیے بہت ہی اہم ہے۔ انھوں نے فرمایا:
اخواننا بغوا علینا (بیہقی: ۸/۱۲۳) ہمارے بھائیوں نے ہمارے خلاف خروج کیا ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے شیعوں پر تنقید کرنے کے لیے جو کتاب تصنیف فرمائی اس کا نام کتنا پیارا رکھا ”تحفہٴ اثنا عشریہ“ کتاب کا نام ہی اپیل کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے۔
(۳) تنقید میں نظریات کے تفاوت کا لحاظ
جس طرح امرخیرکی تبلیغ واشاعت میں درجہ بندی آئی ہے۔ پہلے ایمان کی دعوت دینے کا حکم ہے، بعدہ احکام کی تبلیغ کرنے کا حکم ہے (مسلم: ۱/۳۷، باب الدعاء الی الشہادتین)
تدریجی طریقہ ہی دعوت وتبلیغ میں موثر ہوتا ہے، منکر پر نکیر بھی دعوت وتبلیغ کا بنیادی حصہ ہے، منکر پر سکوت ہلاکت وبربادی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ تاریخ وحدیث کی شہادت سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ منکر کی نحوست کا اثر صرف انہی لوگوں تک محدود نہیں ہوتا جو اس میں مبتلا ہیں؛ بلکہ خاموش رہنے والے، ملنے جلنے والے سب ہی خواہی نخواہی اس کی چپیٹ میں آتے ہیں؛ اس لیے منکر پر نکیر وتنقید میں بھی درجات کالحاظ ضروری ہے۔
ایسا نظریہ جو گمراہی کا سبب ہے اس پر تنقید اس فکر وخیال کے حاملین کے مقابلہ میں خفیف ہوگی جو کفر کی سرحد تک پہنچ چکے ہیں، پہلا گروہ اپنی تمام تر گمراہیوں کے باوجود جماعت مسلمین سے خارج نہیں، اس لیے ایسارویہ اختیار نہ کیا جائے کہ خدانخواستہ اسلام کا قلادہ ہی اتار پھینکے اور بالآخر امت تفرق وانتشار کی شکار ہوکر اپنا وزن کھوبیٹھے، بات بات پر تنقید کے بجائے عقل ونقل سے تفہیم کی کوشش کی جائے، گمراہی کے عواقب ونتائج سے آگاہ کیا جائے کیوں کہ گمراہی میں گرفتار عدم آگہی، ونفس پرستی ہی کی وجہ سے راستہ بھٹکے ہوئے ہیں، انہی دونوں قلعوں کو مسمار کردیا جائے تو بات بن جائے گی۔
لیکن جن حضرات کی گمراہی کفر تک پہنچی ہوئی ہے وہ پہلے ہی سے دائرئہ اسلام سے دور ہوچکے ہیں، حتی الامکان ان کو قریب کرنے کی کوشش کی جائے گی اس کے لیے افراط و تفریط کے بجائے اعتدال کی راہ اختیار کی جائے اوران کے کفریہ خیالات کی تردید کی جائے، افہام و تفہیم نیز مذاکرہ وتبادلہٴ خیال سے بات نہیں بنتی ہے تو سخت تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔ حضرت علیؓ نے اپنی ہی جماعت کے اس گروہ کو نذرِ آتش کردیا جس نے حضرت علی کی بابت حلولِ الوہیت کا کفریہ عقیدہ گھڑا تھا۔ حضرت صدیق اکبر نے مرتدین کے استیصال کے لیے جدوجہد واستقامت کی انتہاء ہی کردی تھی اور حضرت عمر جیسے پامرد وباہمت اور باطل کے لیے تلوار برہنہ انسان کو بھی صدیقی صلابت کا اقرار واعتراف کرنا پڑا۔ (مسلم:۱/۳۷، باب الامر بقتال الناس الخ)
حضرت ابوبکر نے اسی موقع پر حضرت عمر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا تھا: جبار في الکفر خوار في الاسلام (کفر میں تو بڑے سورما تھے، اسلام میں اتنا بزدل ہوگئے)
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ گمراہی جو کفر ہو اس کے تئیں کسی قدر سختی کا رویہ اختیار کیا جائے گا۔
(۴) شیعہ وسنی اختلاف کی بھیانک شکل
شیعہ وسنی کے مابین نظریاتی واصولی اختلاف ہے، شیعوں کی جماعت نے اسلام کی بیخ کنی کی کم کوشش نہیں کی ہے، انھوں نے اپنے گمراہ عقیدوں اور جذباتی نظریوں سے امت کو افتراق وانتشار کے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ بڑے بڑے معرکے اسی جماعت کی رہین منت ہیں، ان میں بعض تو ضلالت وگمراہی سے بھی آگے کفر والحاد کی سرحد میں داخل ہوچکے ہیں، ایسے ہی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اپنے ناپاک عزائم کو چھپاکر پوری دنیا پر یا کم از کم مسلم ممالک پر چھاجانا چاہتے ہیں تاکہ ان جراثیم کو امت محمدیہ میں منتقل کرکے پورے سماج کو ایمانی واعتقادی مریض بنانے میں کامیاب ہوسکیں جن کی مخالفت ہر زمانہ کے ہادیانِ اسلام وپاسبانِ سنت کرتے آئے ہیں، اس صورتِ حال کی سنگینی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کے کھلے دشمنوں کی نگاہ میں ان کی حیثیت کچھ بھی ہو مگر ان کو آلہٴ کار کے طورپر استعمال کرنے میں کامیاب ضرور ہیں، اور بظاہر کلمہ گو جماعت کو آپس میں ٹکراکر خود سیادت و قیادت کے بازی گر بنے بیٹھے ہیں، اس سے مسلمانوں کی قوت کمزور ہوتی جارہی ہے۔
نیز جس ملک نے بھی اپنے یہاں اس جماعت کو بسایا ہے اور ان کورہنے کی اجازت دی ہے، اس ملک سے اس گمراہ جماعت کا حکماً ہی سہی مگر معاہدہ ہوچکا ہے، ان کی عزت و آبرو، جان ومال اس وقت تک محفوظ ہوں گے جب تک کہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے بغاوت کو مول نہیں لیتے ہیں۔ اس لیے ناچیز راقم تو یہ سمجھتا ہے کہ ان کو بے دریغ قتل کرنا اس سِرّی معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ البتہ ان کی طرف سے بغاوت کا ظہور ہو تو حکومت کی سرپرستی میں ان کی بغاوت کو کچلنے ودبانے کی ہرممکن سعی کی جائے گی خواہ اس میں خوں ریزی ہی کیوں نہ ہوجائے۔
وقت ومصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان سے اختلاف خواہ عقائد میں ہی ہے مگر ان کو انگیز کیا جائے۔ ان کی حالت منافقوں کی طرح ہے، آخر زمانہ نبوت میں منافقین بھی مدینہ منورہ کے شہری تھے۔ ان کے قلوب تو کفر کی آلودگی سے پلیدہی تھے، طرفہ تماشہ یہ کہ ہر وقت کوشاں رہتے کہ اسلام ومسلمان ذلیل ہوجائیں، کون کون سی سازش انھوں نے نہیں رچی، قطعی ذریعہٴ علم سے ساری خباثتوں کا انکشاف ہونے کے باوجود بھی کسی منافق کو اللہ کے رسول نے قتل کی اجازت نہیں دی، کیوں کہ اس صورت میں غیروں کو پیغام جاتا کہ اسلام میں خود ان کے ماننے والے محفوظ ومامون نہیں ہیں، تو اسلام کا دائرہ وسیع نہیں ہوپاتا۔ جن ملکوں میں خون ریزیاں ہورہی ہیں ان کی صحیح صورتِ حال کیاہے اس کی صحیح تصویر ابھی تک واضح نہیں ہے، انھوں نے اتنا بڑا اقدام اچانک کیوں کرلیا جس کے ردعمل میں دونوں ہی طرف سے قیمتی جانتی چلی گئیں۔ بعض حادثات وواقعات تو ناگہانی نہیں، سوچی وسمجھی تدبیر کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان سے اختلاف کرنا بہترہوگا یا ان کو برداشت کرکے فتنہ کو دبانا مناسب ہوگا، یہ اس وقت کا سنگین مسئلہ ہے۔ اہل دانش واہل سیاست دونوں مل کر اس پر غورکرسکتے ہیں اور لائحہ عمل تیار کرسکتے ہیں۔
پُرامن زندگی
علمی اختلاف خواہ کتنا شدید ہو، مگر دنیا کے امن وامان کو بحال رکھنا ازبس ضروری ہے، جس طرح مسلم وغیرمسلم انسانیت کے اصول پر مل جل کر زندگی گزارتے ہیں اور قوانین ومعاہدے کی رو سے ملک کو پُرامن بنائے رکھتے ہیں، شیعہ وسنی بھی اپنے تمام تر اختلاف کے باوجود امن وامان کے ساتھ ملک کے شہری بن سکتے ہیں، دونوں ہی جماعت کے قائدین و پیشوا کو اس سلسلہ میں پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے، ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی اگر تمام راہیں مسدود بھی ہوں تو کم از کم ”کلمہ“ پر اتحاد واتفاق کیا ہی جاسکتا ہے۔ اعتقادی ونظریاتی موشگافیوں کے لیے مذاکرات ومناظرہ کی محافل کافی ہیں، اس کے لیے اللہ کی زمین کو جنگ کا میدان بنانا اور قتل وخون کرکے امن وامان کو غارت کرنا اور آج کے مسلم معاشرہ کے اندرونی کھوکھلاپن کو آشکارا کرنا دانش مندی نہیں ہے۔ ویسے ہی دشمن تاک میں ہیں، کب مسلمان آپس میں الجھیں اور ہم لقمہ تر بناکر نگل لیں؛ بلکہ ان اختلافات کو وہ بھانپ بھی چکے ہیں اور مجاہد قوم کی بہادری اور جوش وخروش کا اندازہ بھی کرچکے ہیں اب تو وہ آپس میں لڑاکر تالیاں بجارہے ہیں۔
اسلام نے تو ذمیوں کے حقوق کی بھی رعایت کی ہے۔ ان کو امن وامان سے رہنے کی اجازت دی، یہ محض اس لیے کہ وہ بھی شہری ہیں، ایک شہری ہونے کا تقاضا ہے کہ ان کے حقوق کی رعایت ہر طرح کی جائے، یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ صرف سنی حضرات ہی مورِد الزام ہیں؛ بلکہ دونوں ہی گروہ کے لوگ حد اعتدال سے تجاوز کرجاتے ہیں، اس لیے دونوں ہی جانب سے مذہبی پیشوا وقائدین کو اس بابت ٹھوس پیش قدمی کرنی چاہیے۔ اپنی اپنی جماعت کو امن کا سبق یاد دلانا چاہیے، ہر ایسے طریقہ کے اظہار سے احتراز کی ترغیب دینی چاہیے کہ جس سے ملک کے قوانین کی مخالفت ہورہی ہو اور حکمراں طبقہ کی دل آزاری ہوتی ہو، جو طبقہ محکوم ہے ان کی بھی دل آزاری سے گریز کرنا چاہیے۔ اس طرح اگر مذہبی قائدین اپنے لوگوں کو باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ملک میں امن وامان کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ واللہ اعلم
$ $ $
=============================
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 11)
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں”
طنزاور بد القابی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
“آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں”۔
بد گمانی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (سورہ احجرات: 12)
“اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں”۔ تجس سے منع کرتے ہوئے فرمایا: وَلَا تَجَسَّسُوا ۖ اور ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو”۔
اور غیبت جو اتحاد ملت کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (سورہ احجرات: 12)
“اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے”۔
اتحاد و اتفاق کی اہمیت کے پیش نظر ہی پیارے نبی ﷺ نے کبھی ملت اسلامیہ کے جملہ افراد کو بدن کے اعضاء کے مانند قرار دیا کہ اگر کسی ایک عضو میں درد ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم مضطرب اور پریشان رہتا ہے، چنانچہ فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے باہمی ہمدردی اور شفقت میں ایک جسم کی مانند ہے، کہ جب اس کے کسی ایک عضو میں کسی طرح کا درد ہوتا ہے تو سارا جسم بے خوابی سے پریشان رہتا ہے۔
کہیں آپ ﷺ نے مسلمانوں کے اتحاد کو عمارت سے تشبیہ دی چنانچہ فرمایا: ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے، پھر آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ملا کر اس کی وضاحت فرمائی۔
کہیں فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہو۔
عزیز قاری! آج امت مسلمہ مختلف جماعتوں، گروہوں، اور ٹولیوں میں بٹی ہوئی ہے، اس ختلاف کے اسباب کیا ہیں؟ اور ان کے ازالے کی کیا صورت ہو سکتی ہے، آئیے اس اہم نکتے کی بھی وضاحت کردی جائے، آج ہم جن اسباب کی بنیاد پر الگ الگ گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں انہیں ہم چار بنیادی باتوں میں محصور کر سکتے ہیں، تعلق باللہ کی کمی، مقام نبوت سے نا آشنائی، مقصدیت کا فقدان اور مسلکی اختلافات کی حقیقت کو نہ جاننا، سب سے پہلے تعلق باللہ کی کمی پر غور کر لیجئے آج ہمارا تعلق اپنے خالق و مالک سے کمزور ہو چکا ہے، بلکہ رسمی بن کر رہ گیا ہے، اللہ تعالی سے تعلق کی بنیاد پر ہی دل باہم جڑتے ہیں، آخر صحابہ کرام کے اندر اتحاد کس بنیاد پر پیدا ہوا تھا؟ ظاہر ہے توحید کی بنیاد پر، اسی کی بنیاد پر انصار نے اپنے گھر بار، مال و دولت اور زمین و جائیداد میں سے آدھا آدھا کرکے مہاجرین کے حوالے کر دیا تھا، اسی تعلق کی بنیاد پر وہ باہم شیر و شکر ہوگئے تھے اور آج اسی تعلق میں کمی آنے کی وجہ سے ہم اپنے ہی بھائی کے خون کے پیاسے بنے ہیں۔
امت کے اختلاف کی دوسری وجہ مقام نبوت سے نا آشنائی ہے، کتنے لوگ ہیں جو اللہ کے نبی ﷺ سے محبت کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن ان کی محبت میں خشکی پائی جاتی ہے بلکہ ان کا عمل بھی آپ کی سنت کے خلاف ہوتا ہے، یاد رکھیں صحابہ کرام میں جو اتحاد پیدا ہوا تھا اس میں حب رسول کا بھی دخل تھا لیکن یہ خالی خولی محبت نہ تھی بلکہ انہوں نے آپ کو اپنی زندگی کا آئیڈیل اور نمونہ بنا لیا تھا، دوسری جانب کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی محبت میں ایسا غلو کیا کہ خالق و مخلوق کا رشتہ بھی گڈمڈ ہونے لگا۔
ہم مانتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ ساری انسانیت میں سب سے افضل ہیں، ان کے جیسا انسان اس دنیا میں پیدا بھی نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے، ان کی محبت نجات کا ذریعہ ہے لیکن پھر بھی ہم حد کو پار نہیں کر سکتے، اللہ اللہ ہے اور نبی نبی، یہی وہ اندھی محبت تھی جس نے عیسائیوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مان لیں اور اسی خدشہ کا اظہار اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے اخیر وقت میں کیا تھا:
لا تُطْروني كما أطْرَتِ النصارى ابنَ مريمَ ، فإنما أنا عبدُه ، فقولوا : عبدُ اللهِ ورسولُه (صحيح البخاري 3445)
“میری شان میں غلو مت کرنا جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کیا میں محض ایک بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو”۔
اس لیے اگر ہمیں اتحاد امت مطلوب ہے اور ضرور ہونا چاہئے تو ہمیں اللہ تعالی سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا، پیارے نبی ﷺ کی رسالت کو اپنی اصلی شکل میں ماننا ہوگا، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بیچ فرق کو سمجھنا ہوگا اور کتاب و سنت کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانا ہوگا کیوں کہ اسی بنیاد پر امت متحد ہوئی تھی اور آج بھی اسی کی بنیاد پر متحد ہو سکتی ہے۔
امت کے اختلاف کی تیسری وجہ مقصدیت کا فقدان ہے، مقصد کی یکجہتی ایسی چیز ہے جو مختلف لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیتی ہے، معبودوں کے اختلاف کے باوجود لوگ ایک مقصد کے حصول کے لیے متحد ہو جاتے ہیں، جس کی مثالیں پہلے بھی پائی جاتی تھیں اور آج بھی پائی جا رہی ہیں، کیا دیکھتے نہیں کہ اسلام کے خلاف میں کفر کی ساری طاقتیں متحد ہو جاتی ہیں، کیوں ؟ اس لیے کہ ان کے سامنے ایک مقصد کا حصول ہوتا ہے، آج ہم بھی اگر اپنے مقصد حیات کو سمجھ لیں اور خیر امت کی ذمہ داری کو نبھانا شروع کردیں، جو ہمارا مقصود، ہمارا ہدف اور ہماری منزل ہے، تو ہماری صفوں میں اتحاد ضرور پیدا ہوگا، ذرا دیکھئے سورہ آل عمران میں اللہ تعالی نے دعوت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے اندر ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی طرف بلائے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے اس کے فورا بعد اللہ تعالی نے فرقہ بندی سے روکا،
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٠٤﴾وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (سورہ آل عمران:104-105)
“تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے (104) کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روزسخت سزا پائیں گے”۔
الحمد للہ آج ہم دعوت کا کام کر رہے ہیں، تبلیغ واصلاح میں لگے ہوئے ہیں لیکن اختلاف وہاں ہو جاتا ہے جب کہ ہر شخص اپنے آپ کو سپر ماننے لگتا اور دوسروں کی دعوتی کو ششوں کو حقارت بھری نظروں سے دیکھنے لگتا ہے، چنانچہ اختلاف فات یہیں سے شروع ہوتے ہیں، میری ناقص رائے میں طریقہ کار کے اختلاف کو مخالفت نہ تصور کیا جائے، شریعت اسلامیہ کی آفاقیت کے پیش نظر تقسیم کار کا ہونا کوئی عیب نہیں آپ اپنی کمپنی یا کارخانہ جس میں آپ کام کرتے ہیں ذرا اسی پر غور کرکے دیکھ لیجئے، اس میں مختلف شعبے ہوتے ہیں، ہرشعبے میں کام کرنے والا الگ الگ صلاحیت کا مالک ہوتا ہے، ہر ایک کو اپنی اپنی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسروں کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہیں تب جاکر کمپنی اپنے ہدف کو پانے میں کامیاب ہوتی ہے، اسی طرح مسلمانوں کے اندر بھی کام کرنے والی مختلف جماعتیں ہو سکتی ہیں، برادران وطن میں کام کے لیے ایک جماعت، اصلاح عقیدہ کے لیے ایک جماعت، اصلاح و تربیت کے لیے ایک جماعت، حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے ایک جماعت، ہر میدان میں الگ الگ جماعتیں ہو سکتی ہیں، نمونہ کے طور پر ہم صحابہ کرام کی مختلف جماعتوں کو مختلف میدانوں میں دیکھ سکتے ہیں، زہدوعبادت میں سر فہرست حضرت ابو ہریرہ اور ابو ذر غفاری ہیں، تو بساط سیاست میں حضرت عمر اور امیر معاویہ نامور ہیں، میدان جنگ میں حضرت حمزہ اور حضرت خالد بن ولید ہیں تو فقہائے صحابہ میں عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر ہیں، اسی طرح تجارت میں عبدالرحمان بن عوف اور صہیب رومی کو شہرت حاصل ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
عزیز قاری ! امت کے انتشار کی ایک چوتھی وجہ جسے شاید مرکزی حیثیت حاصل ہے امت کے اندر پائے جانے والے مسلکی اختلافات کی حقیقت کو نہ جا ننا ہے، بالعموم یہ اختلافات اجتہادی اور علمی ہوتے ہیں، اس طرح کے اختلافات آج سے نہیں بلکہ شروع سے ہی چلے آرہے ہیں، خود صحابہ کرام کے بیچ اختلافات پائے جاتے تھے لیکن ان کے اختلافات نے کبھی عداوت کی شکل اختیار نہ کی، بطور مثال دیکھئے حضرت عثمانؓ منی میں اتمام کے قائل تھے یعنی موسم حج میں حضرت عثمانؓ لوگوں کو مکمل نماز پڑھاتے، قصر نہیں کرتے تھے، لیکن حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو صحابہ کرام میں فقیہ تھے منی میں قصر کے قائل تھے، پھر بھی وہ حضرت عثمانؓ کے ساتھ نماز پڑھتے اور اتمام کرتے تھے، جب آپ سے اس سلسلے میں بات کی گئی تو آپ نے فرمایا: (إن الاختلاف شر) اختلاف کرنا شر و فساد کا باعث ہے۔ اس طرح آپ اور دیگر صحابہ حضرت عثمانؓ کے پیچھے نماز کا اتمام کرتے رہے، اس اندیشہ سے کہ امت میں جماعت بندی اور گروہ بندی نہ آجائے۔
صحابہ کرام کے بیچ فروعی مسائل میں اختلافات پائے جاتے تھے، لیکن یہ اختلافات کبھی انتشار و افتراق کا سبب نہ بنے، وجہ صرف یہ تھی کہ سب حق کے متلاشی تھے، قرآن و حدیث ان کا مطمح نظر تھا، یہی صفات ائمہ عظام کے اندر بھی پائے جاتے تھے، ائمہ اربعہ کے بیچ اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان کا دل ایک دوسرے کے تئیں بالکل صاف تھا، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کبھی رنجش پیدا نہ ہوئی امام ذہبی نے سیراعلام النبلاء ( 10/16) میں لکھا ہے، یو نس الصدفی کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے زیادہ دانا کسی کو نہیں دیکھا، ایک دن میں نے کسی مسئلہ میں ان سے مناظرہ کیا پھر جب ہم لوگ جدا ہونے لگے تو وہ ہم سے ملے، میرا ہاتھ تھاما اور فرمایا:
يا أبا موسى ، ألا يستقيم أن نكون إخوانا وإن لم نتفق في مسألة .
“کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم سب بھائی بھائی رہیں گو کہ کسی مسئلے میں متفق نہ ہو سکیں” ۔
امام شافعی رحمہ اللہ سے متعلق ایک دوسرا واقعہ سنئے شاید آپ جانتے ہوں گے کہ نماز فجر میں امام صاحب کے نزدیک قنوت کا اہتمام ضروری ہے اگر کوئی بھول جائے تو سجدہ سہو لازم آتا ہے، لیکن خود امام شافعی رحمہ اللہ بغداد جاتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں تو قنوت کا اہتمام نہیں کرتے، جب لوگوں نے آپ سے ترک قنوت کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا: تأدبا لھذا الامام یعنی اس امام کے ادب و احترام میں قنوت نازلہ ترک کر دیا۔
ایسے ہی وہ لوگ تھے کہ اختلاف کے باوجود ان کے بیچ محبت قائم رہتی تھی اور آج بھی امت مسلمہ کو اسی آپسی محبت کی ضرورت ہے، ظاہر ہے اس کے لیے وسعت نظری کی ضرورت ہے اور وسعت قلبی کی بھی۔ تنگ دلی اور تنگ نظری سے ہمیں نقصان ہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے بلکہ ہمیں کہنے دیا جائے کہ ہمارے اختلاف کی وجہ سے غیر قومیں اسلام سے بدظن ہو رہی ہیں، اسلام پر سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے۔
ابھی چند دنوں کی بات ہے تعارف اسلام سے متعلق کچھ باتیں میں نے اپنے بلوگ پر لکھی تھی جس میں ذاکر نائک کا حوالہ بھی موجود تھا، کئی ایک لوگوں نے اس پر اپنا ریویو ڈالا تم اسی ذاکر نائک کی بات کر رہے ہو نا جس کا فلاں جگہ پر پروگرام تھا، تو مسلمانوں نے اسے رکوا دیا، فلاں جگہ پر آنا طے تھا، تو مسلمانوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا، دیکھا! کیسا تبصرہ ہو رہا ہے؟ آخر ہم اسلام کی آفاقیت کو لوگوں کے سامنے کیسے پیش کر سکیں گے ؟ کیسے ہم خیر امت کی ذمہ داری نبھا سکیں گے ؟
میرے بھائیو! اختلافات بہت ہو گئے، بیان بازیاں بہت ہو چکیں، اب ضرورت ہے متحد ہونے کی، سب سے پہلے ہم اپنی نیتوں میں اخلاص پیدا کریں، ہمارا کام محض اللہ کے لیے ہو، ہمارے ایک ایک عمل میں اللہ کی خوشنودی مطلوب ہو، اخلاص اور خیر خواہی کی نیت سے دوسروں کے اجتماعات میں شریک ہوں، اچھائیوں کو سراہیں اور کوئی غلطی ہے تو نیک نیتی کے ساتھ اور خیر خواہانہ انداز میں اسے دور کرنے کی کوشش کریں جب تک ایک دوسرے سے قریب نہ ہوں گے تلخیاں دور نہیں ہو سکتیں ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری صفوں میں اتحاد پیدا کرے۔ آمین
=========================
فلسفہ وحدت ادیان کی حقیقت
بعض لوگوں نے قرآن کریم کی اسی آیت﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَالَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالنَّصَارَی وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون﴾․(البقرہ، آیت:62) سے وحدت ادیان کا فلسفہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یعنی جو شخص بھی الله تعالیٰ کی ذات وصفات پر اور آخرت پر ایمان ویقین رکھنے کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کی جستجو میں لگا رہا ،وہ نجات اخروی کا مستحق ہو گا، اگرچہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ محبوب کبریا حضور اکرم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری نہیں، وحدت ادیان کے علم برداروں سے اس آیت کریمہ کے سمجھنے میں بنیادی طور پر دو غلطیاں صادر ہوئیں۔
1...انہوں نے آیت کریمہ کا معنی ومفہوم سمجھنے کے لیے فقط لغت کو پیش نظر رکھ کر اس کے لغوی معنی مراد لیے، حالاں کہ یہاں ایمان بالله کے اصطلاحی معنی مراد ہیں۔
2...قرآنی آیت کی تفسیر سمجھنے میں کسی دوسری آیت یا حدیث رسول ﷺ سے مدد نہیں لی، حالاں کہ قرآن فہمی کے سلسلے میں یہ دونوں چیزیں مسلمہ اصول کی حیثیت رکھتی ہیں ، آیت کریمہ سے وحدت ادیان کا استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے:
1...قرآن کریم میں لفظ ، ایمان کا استعمال پورے اسلام کے عنوان کے طور پر ہوا ہے، اس کا لغوی معنی مراد نہیں، بلکہ اصطلاحی معنی مراد ہے، اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں آں حضرت ﷺ کی رسالت کا اقرار کرنے کے بعد، ان کی تعلیمات کی روشنی میں الله تعالیٰ کی ذات وصفات اور قیامت کے احوال وواقعات پر صدق دل سے ایمان لانااوراخروی زندگی سدھارنے کے لیے شریعت محمدی کے موافق زندگی بسر کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے﴿ من آمن بالله﴾ کی تفسیر ”بالدخول فی ملة الاسلام“( دخول اسلام) سے فرمائی۔ ( روح المعانی، البقرہ، تحت آیہ رقم:62)
علاوہ ازیں قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے بعض ایسے مدعیان ایمان سے ”ایمان“ کی نفی فرمائی ہے جو ذات الہی اور آخرت پر صدق دل سے ایمان رکھتے تھے، لیکن آنحضرت ﷺکی رسالت کے منکر تھے۔ یعنی ان کا ایمان لغوی (آمنا بالله والیوم الآخر) موجود تھا، لیکن ایمان اصطلاحی نہ تھا، بنا بریں ان کے بارے میں فرمایا گیا ۔
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللّہِ وَبِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾․(روح المعانی، البقرة، تحت آیہ رقم:8)
ترجمہ:”اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے الله پر او ردن قیامت پر اور وہ ہر گز مؤمن نہیں۔“
( المشہور کانوا یھوداً وھم مخلصون فی اصل الإیمان بالله والیوم… أنھم قصدوا بتخصیص الإیمان بھما التعرض بعدم الإیمان بخاتم الرسل ا وما بلغہ ففي ذلک بیان لمزید خبثھم․)
2...قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے واضح اعلان فرما دیا ہے کہ الله کے ہاں دین اسلام ہی مقبول ہے ﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَم﴾․ (آل عمران:19)
ترجمہ:” اور بارگاہِ الہٰی میں فقط دین اسلام کو سند قبولیت حاصل ہے۔“
﴿وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہ﴾․(آل عمران:85)
ترجمہ:” او رجو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین، سو اس سے ہر گز قبول نہ ہو گا۔“
علاوہ ازیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! میری اس امت میں سے جو شخص بھی میری بات سن لے وہ یہودی ہو یا عیسائی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ صحیح مسلم میں اس حدیث مبارکہ کے لیے عنوان ہی یہی باندھا گیا ہے،ہمارے نبی محمد ﷺ کی رسالت پر وجوب ایمان کا بیان․“ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالة نبینا محمد ﷺ، رقم الحدیث:386)
اس سے پتہ چلا کہ وحدت ادیان کی گم راہی درحقیقت قرآنی آیات اورحدیث رسول ﷺ کو نظر انداز کرکے عقلی گھوڑے دوڑانے کا نتیجہ ہے۔
3...اس نظریہ کی رو سے آپ ﷺ کی رسالت انسانیت کے کسی ایک طبقے کے ساتھ مخصوص ہو جائے گی، حالاں کہ آپ ﷺ کی رسالت کا ئنات کے ہر انسان کے لیے ہے: ﴿قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً﴾․ (الاعراف:158)
ترجمہ:” تو کہہ اے لوگو !میں رسول ہوں الله کا تم سب کی طرف“․
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْرا﴾․ (السبا:28)
ترجمہ:” اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے، خوشی اور ڈر سنانے کو۔“
4...اس نظریہ کی رو سے وہ تمام ادیان، جو الله تعالیٰ کی ذات گرامی اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہوں،برحق ہیں ، حالاں کہ الله تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ قیامت کے دن میں ان کے مابین فیصلہ کروں گا کہ کون حق پر تھا؟ اگر سب برحق ہیں تو پھر روز محشر کے اس فیصلے کا کیا مطلب ہے؟
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَالَّذِیْنَ ہَادُوا وَالصَّابِئِیْنَ وَالنَّصَارَی وَالْمَجُوسَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوا إِنَّ اللَّہَ یَفْصِلُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ شَہِیْد﴾․( الحج:17)
ترجمہ:”جولوگ مسلمان ہیں اور جویہود ہیں اور صابئین اور نصاریٰ اور مجوس اور جو شرک کرتے ہیں، مقرر الله فیصلہ کرے گا ان میں قیامت کے دن، الله کے سامنے ہے ہرچیز۔“
﴿وَقَالَتِ الْیَہُودُ لَیْْسَتِ النَّصَارَی عَلَیَ شَیْْء ٍ وَقَالَتِ النَّصَارَی لَیْْسَتِ الْیَہُودُ عَلَی شَیْْء ٍ وَہُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ فَاللّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْمَا کَانُواْ فِیْہِ یَخْتَلِفُون﴾․ (البقرة:113)
ترجمہ:” اور یہود تو کہتے ہیں کہ نصاری نہیں کسی راہ پر اور نصاری کہتے ہیں کہ یہود نہیں کسی راہ پر، باوجود یہ کہ وہ سب پڑھتے ہیں کتاب، اسی طرح کہا ان لوگوں نے جو جاہل ہیں، ان ہی کی سی بات، اب الله حکم کرے گا ان میں قیامت کے دن، جس بات میں جھگڑتے تھے۔“
﴿لِکُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً ہُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِیْ الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَی رَبِّکَ إِنَّکَ لَعَلَی ہُدًی مُّسْتَقِیْمٍ، وَإِن جَادَلُوکَ فَقُلِ اللَّہُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ،اللَّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْمَا کُنتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُون﴾․(سورہ الحج:67۔69)
ترجمہ:”ہر امت کے لیے ہم نے مقرر کر دی ایک راہ بندگی کی کہ وہ اسی طرح کرتے ہیں بندگی ، سو چاہیے تجھ سے جھگڑا نہ کریں اس کام میں اور تو بلائے جا اپنے رب کی طرف، بے شک تو ہے سیدھی راہ پر، سوجھ والا اور اگر تجھ سے جھگڑنے لگیں تو تو کہہ! الله بہتر جانتا ہے جو تم کرتے ہو، الله فیصلہ کرے گا قیامت کے دن جس چیز میں تمہاری راہ جدا جدا تھی۔“
اس نظریے کی رو سے اسلامی بنیادوں پر حکومت کا قیام، کافروں سے جزیہ کی وصول یابی ، اسلامی حدود وتعزیرات کا نفاذ ، اعلائے کلمة الله کے لیے جہادو وقتال کی تمام تر کوششیں بے معنی مقاصد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بلکہ اس فلسفے کی اٹھان اسلام کے سیاسی نظریات کے انہدام پر ہی قائم ہے، برصغیر میں برطانیہ کے استعماری دور میں یہ فلسفہ بڑے زور وشور سے پھیلایا گیا تھا، تقسیم ہند کے بعد گواس کا زور ٹوٹ گیا ،لیکن اب یہی صدا مغرب کی فضا سے ”مکالمہ بین المذاہب“ کے عنوان سے سنائی دے رہی ہے، الله تعالیٰ اس کے شر سے اہل ایمان کو محفوظ رکھے۔ ( آمین)
بعض لوگوں نے قرآن کریم کی اسی آیت﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَالَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالنَّصَارَی وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون﴾․(البقرہ، آیت:62) سے وحدت ادیان کا فلسفہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یعنی جو شخص بھی الله تعالیٰ کی ذات وصفات پر اور آخرت پر ایمان ویقین رکھنے کے ساتھ ساتھ نیک اعمال کی جستجو میں لگا رہا ،وہ نجات اخروی کا مستحق ہو گا، اگرچہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ محبوب کبریا حضور اکرم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری نہیں، وحدت ادیان کے علم برداروں سے اس آیت کریمہ کے سمجھنے میں بنیادی طور پر دو غلطیاں صادر ہوئیں۔
1...انہوں نے آیت کریمہ کا معنی ومفہوم سمجھنے کے لیے فقط لغت کو پیش نظر رکھ کر اس کے لغوی معنی مراد لیے، حالاں کہ یہاں ایمان بالله کے اصطلاحی معنی مراد ہیں۔
2...قرآنی آیت کی تفسیر سمجھنے میں کسی دوسری آیت یا حدیث رسول ﷺ سے مدد نہیں لی، حالاں کہ قرآن فہمی کے سلسلے میں یہ دونوں چیزیں مسلمہ اصول کی حیثیت رکھتی ہیں ، آیت کریمہ سے وحدت ادیان کا استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے:
1...قرآن کریم میں لفظ ، ایمان کا استعمال پورے اسلام کے عنوان کے طور پر ہوا ہے، اس کا لغوی معنی مراد نہیں، بلکہ اصطلاحی معنی مراد ہے، اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں آں حضرت ﷺ کی رسالت کا اقرار کرنے کے بعد، ان کی تعلیمات کی روشنی میں الله تعالیٰ کی ذات وصفات اور قیامت کے احوال وواقعات پر صدق دل سے ایمان لانااوراخروی زندگی سدھارنے کے لیے شریعت محمدی کے موافق زندگی بسر کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے﴿ من آمن بالله﴾ کی تفسیر ”بالدخول فی ملة الاسلام“( دخول اسلام) سے فرمائی۔ ( روح المعانی، البقرہ، تحت آیہ رقم:62)
علاوہ ازیں قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے بعض ایسے مدعیان ایمان سے ”ایمان“ کی نفی فرمائی ہے جو ذات الہی اور آخرت پر صدق دل سے ایمان رکھتے تھے، لیکن آنحضرت ﷺکی رسالت کے منکر تھے۔ یعنی ان کا ایمان لغوی (آمنا بالله والیوم الآخر) موجود تھا، لیکن ایمان اصطلاحی نہ تھا، بنا بریں ان کے بارے میں فرمایا گیا ۔
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللّہِ وَبِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾․(روح المعانی، البقرة، تحت آیہ رقم:8)
ترجمہ:”اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے الله پر او ردن قیامت پر اور وہ ہر گز مؤمن نہیں۔“
( المشہور کانوا یھوداً وھم مخلصون فی اصل الإیمان بالله والیوم… أنھم قصدوا بتخصیص الإیمان بھما التعرض بعدم الإیمان بخاتم الرسل ا وما بلغہ ففي ذلک بیان لمزید خبثھم․)
2...قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے واضح اعلان فرما دیا ہے کہ الله کے ہاں دین اسلام ہی مقبول ہے ﴿إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَم﴾․ (آل عمران:19)
ترجمہ:” اور بارگاہِ الہٰی میں فقط دین اسلام کو سند قبولیت حاصل ہے۔“
﴿وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہ﴾․(آل عمران:85)
ترجمہ:” او رجو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین، سو اس سے ہر گز قبول نہ ہو گا۔“
علاوہ ازیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! میری اس امت میں سے جو شخص بھی میری بات سن لے وہ یہودی ہو یا عیسائی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ صحیح مسلم میں اس حدیث مبارکہ کے لیے عنوان ہی یہی باندھا گیا ہے،ہمارے نبی محمد ﷺ کی رسالت پر وجوب ایمان کا بیان․“ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالة نبینا محمد ﷺ، رقم الحدیث:386)
اس سے پتہ چلا کہ وحدت ادیان کی گم راہی درحقیقت قرآنی آیات اورحدیث رسول ﷺ کو نظر انداز کرکے عقلی گھوڑے دوڑانے کا نتیجہ ہے۔
3...اس نظریہ کی رو سے آپ ﷺ کی رسالت انسانیت کے کسی ایک طبقے کے ساتھ مخصوص ہو جائے گی، حالاں کہ آپ ﷺ کی رسالت کا ئنات کے ہر انسان کے لیے ہے: ﴿قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً﴾․ (الاعراف:158)
ترجمہ:” تو کہہ اے لوگو !میں رسول ہوں الله کا تم سب کی طرف“․
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْرا﴾․ (السبا:28)
ترجمہ:” اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے، خوشی اور ڈر سنانے کو۔“
4...اس نظریہ کی رو سے وہ تمام ادیان، جو الله تعالیٰ کی ذات گرامی اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہوں،برحق ہیں ، حالاں کہ الله تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ قیامت کے دن میں ان کے مابین فیصلہ کروں گا کہ کون حق پر تھا؟ اگر سب برحق ہیں تو پھر روز محشر کے اس فیصلے کا کیا مطلب ہے؟
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَالَّذِیْنَ ہَادُوا وَالصَّابِئِیْنَ وَالنَّصَارَی وَالْمَجُوسَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوا إِنَّ اللَّہَ یَفْصِلُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ شَہِیْد﴾․( الحج:17)
ترجمہ:”جولوگ مسلمان ہیں اور جویہود ہیں اور صابئین اور نصاریٰ اور مجوس اور جو شرک کرتے ہیں، مقرر الله فیصلہ کرے گا ان میں قیامت کے دن، الله کے سامنے ہے ہرچیز۔“
﴿وَقَالَتِ الْیَہُودُ لَیْْسَتِ النَّصَارَی عَلَیَ شَیْْء ٍ وَقَالَتِ النَّصَارَی لَیْْسَتِ الْیَہُودُ عَلَی شَیْْء ٍ وَہُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ فَاللّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْمَا کَانُواْ فِیْہِ یَخْتَلِفُون﴾․ (البقرة:113)
ترجمہ:” اور یہود تو کہتے ہیں کہ نصاری نہیں کسی راہ پر اور نصاری کہتے ہیں کہ یہود نہیں کسی راہ پر، باوجود یہ کہ وہ سب پڑھتے ہیں کتاب، اسی طرح کہا ان لوگوں نے جو جاہل ہیں، ان ہی کی سی بات، اب الله حکم کرے گا ان میں قیامت کے دن، جس بات میں جھگڑتے تھے۔“
﴿لِکُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً ہُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِیْ الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَی رَبِّکَ إِنَّکَ لَعَلَی ہُدًی مُّسْتَقِیْمٍ، وَإِن جَادَلُوکَ فَقُلِ اللَّہُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ،اللَّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْمَا کُنتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُون﴾․(سورہ الحج:67۔69)
ترجمہ:”ہر امت کے لیے ہم نے مقرر کر دی ایک راہ بندگی کی کہ وہ اسی طرح کرتے ہیں بندگی ، سو چاہیے تجھ سے جھگڑا نہ کریں اس کام میں اور تو بلائے جا اپنے رب کی طرف، بے شک تو ہے سیدھی راہ پر، سوجھ والا اور اگر تجھ سے جھگڑنے لگیں تو تو کہہ! الله بہتر جانتا ہے جو تم کرتے ہو، الله فیصلہ کرے گا قیامت کے دن جس چیز میں تمہاری راہ جدا جدا تھی۔“
اس نظریے کی رو سے اسلامی بنیادوں پر حکومت کا قیام، کافروں سے جزیہ کی وصول یابی ، اسلامی حدود وتعزیرات کا نفاذ ، اعلائے کلمة الله کے لیے جہادو وقتال کی تمام تر کوششیں بے معنی مقاصد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بلکہ اس فلسفے کی اٹھان اسلام کے سیاسی نظریات کے انہدام پر ہی قائم ہے، برصغیر میں برطانیہ کے استعماری دور میں یہ فلسفہ بڑے زور وشور سے پھیلایا گیا تھا، تقسیم ہند کے بعد گواس کا زور ٹوٹ گیا ،لیکن اب یہی صدا مغرب کی فضا سے ”مکالمہ بین المذاہب“ کے عنوان سے سنائی دے رہی ہے، الله تعالیٰ اس کے شر سے اہل ایمان کو محفوظ رکھے۔ ( آمین)
====================================================================
کیا فقہی اختلاف، مخالفت_حدیث ہے؟؟؟
قرآن و سنّت کے کسی حکم میں دو معنوں (ظاہری و باطنی) کا احتمال ہو تو اس حکم میں اہل علم کا اختلاف_معنوی(فقہی) ناجائز اور قابل_اعترض نہیں. نہ ہی یہ انکار_حدیث ہے.
(الف) امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں ایک روایت ذکر کی ہے "لاَ يُصَلِّيَنَّ اَحَدٌ العَصْرَ إلاَّ فِيْ بَنِيْ قُرَيْظَةَ " (بخاری ،محمد بن اسماعیل البخاری ؛ کتاب المغازی، ج:۲،ص:۵۱۹) تم ميں سے هر آدمي نماز عصر بنوقريظه هي ميں پڑھے!مگر ہوا کچھ یوں کہ بعض صحابهٔ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بنی قریظہ پہنچنے سے قبل ہی نماز عصر اس وجہ سے پڑھ لی کہ وقت بالکل ختم ہونے والا تھا اور ان کو یہ خوف دامن گیر ہوا كه کہیں نماز کا وقت ہی ختم نہ ہوجائے اورقضا ء نہ ہوجائے، ان حضرات نے فرمان نبوی لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ میں یہ اجتہاد کیا کہ جلدی پہنچنا ہے یعنی نماز عصر تک وہاں ضرور پہنچنا ہے ۔اس حکم کا تعلق ادائے صلوۃ سے نہیں؛ بلکہ جلد پہنچنے سے ہے، اب چونکہ وقت ختم ہورہا ہے اور نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا بھی ضروری ہے؛ اس لیے نماز کو ادا کر لیا؛ جبکہ دوسرے فریق نے الفاظِ حدیث سے یہی سمجھا کہ اس کے ظاہر پر عمل ضروری ہے؛ چنانچہ انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی نماز عصر ادا فرمائی ۔اس امر کی اطلاع جب پیغمبر دوجہاں ﷺ کو دی گئی تو آپ نے کسي کو غلط قرار نہیں دیا ۔
اس واقعہ کوبیان کرنے کے بعد حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں:
"دوسراگروہ فقیہ تھا اور وہ دوہرے اجرکا مستحق ہوا، پہلا گروہ معذور؛ بلکہ ماجور تھا اور ایک اجر کا مستحق ہوا۔ [زادالمعاد:۲/۱۳۱]
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اپنی شرح بخاری میں لکھتے ہیں:
"قال السھیلی وغیرہ فی ھذا الحدیث من الفقہ انہ لایعاب علی من اخذ بظاھر حدیث اوآیۃ وعلی من استنبط من النص معنی یخصصہ"۴؎۔
علامہ سہیلیؒ وغیرہ کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جوکسی حدیث یاآیت کے ظاہر پر عمل کرے، اس پر نکتہ چینی نہیں کی جاسکتی اور نہ الزام ہی لگایا جاسکتا ہے؛ اسی طرح جونص کے مخصوص مفہوم پر عمل کرے (اگرچہ وہ ظاہر الفاظ حدیث کے خلاف ہو)۔
[فتح الباری:۷/۵۲۰]
القرآن : اور یہ مثالیں بتلاتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے، اور ان کو "سمجھتے" وہی ہیں جن کو علم (سمجھ) ہے.
[سورۃ العنکبوت :٤٣]
(ب) آنحضرت ﷺ کی لونڈی حضرت ماریہؓ کو منافقین کے ایک گروہ نے ان کے چچازاد بھائی حضرت مابورؓ سے مُتَّہَم (ملزم وبدنام) کردیا اور یہ خبر اس انداز سے پھیلی کہ خود آنحضرت ﷺ کوبھی اس خبرکا یقین ہوگیا اور کچھ قرائن وشواہد بھی ایسے تھے، جن کی وجہ سے آپ کا یہ یقین بے جا نہ تھا، آپ نے غیرت میں آکر حضرت علیؓ سے فرمایا کہ مابورؓ کو جہاں ملے، جاکر قتل کردو، حضرت علیؓ گئے تو دیکھا کہ وہ ایک کنوئیں میں پاؤں لٹکائے ہوئے بیٹھے ہیں، حضرت علیؓ نے جب ان کو وہاں سے کھینچا تو اس کی وجہ سے ان کا تہ بند کھل گیا، حضرت علیؓ کی نگاہ جب ان کی شرمگاہ پر پڑی تو دیکھا کہ وہ مجبوب ونامرد ہیں؛ انھیں سرے سے ذَکَر (یعنی نر کا آلۂ تناسل) ہی نہ تھا۔
[صحيح مسلم: كتاب التوبة، باب براءة حرم النبي صلى الله عليه وسلم من الريبة، حدیث نمبر 2771(7023)]
[حاكم:6824]
یہ دیکھ کر حضرت علیؓ نے یہ محسوس کیا کہ اس شخص میں قتل کرنے کی وہ عِلَت(سبب، وجہ) ہی نہیں پائی جاتی جس کی بناء پر مجھے دربارِ رسالت سے حکم ملا تھا تو انھوں نے آنحضرت ﷺ کے اس ظاہری حکم کی تعمیل نہ کی اور واپس جاکر آپ سے یہ ماجرا بیان کیا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"أحسَنتَ، الشَّاهِدُ يَرَى مَا لَا يَرَى الْغَائِبُ"۔
بہت اچھا کیا، حاضر وہ کچھ دیکھ سکتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا۔
[جامع الأصول-ابن الأثير:1830 (3/ 513)][الاستيعاب في معرفة الأصحاب-ابن عبد البر:4091]
[صحيح الكتب التسعة وزوائده:4184]
آپ جانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا صریح اور بالمشافہ حکم اور وہ بھی تعزیر وحد کی مد کا، جس میں بحکم خداوندی کسی نرمی اور رافت کی کوئی گنجائش ہی نہیں، کیا درجہ رکھتی ہے؟ مگر حضرت علیؓ اس حکم کی تعمیل کرنے سے اپنے آپ کو قاصر پاتے ہیں اور دربارِ نبوت سے بجائے ملامت وسرزنش کے وہ اس ترک حکم پر دادِ تحسین حاصل کرتے ہیں، اب کیا کہا جائے کہ حضرت علیؓ آپ کے اس حکم اور حدیث کی مخالفت کی وجہ سے منکر اور مخالف حدیث ہیں؟ حاشا وکلا! کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
(ج) حضرت علیؓ ہی کی ایک روایت میں ہے، وہ فرماتے ہیں: اے لوگو! اپنے غلاموں پر حد قائم کرو جوان میں سے محصن ہیں؛ کیونکہ آپﷺ کی ایک نوکرانی نے زنا کیا، مجھے آپﷺ نے فرمایا کہ جاکر اس کوکوڑے لگادو، میں گیا تودیکھا کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے، مجھے یہ خوف ہوا کہ اگر میں نے اس کوسزادی تو کہیں وہ مرہی نہ جائے، میں بغیر سزادیئے واپس آپ کی خدمت میں پہنچا اور سارا قصہ سنادیا توآپﷺ نے فرمایا تو نے اچھا کیا ہے۔
(مسلم، كِتَاب الْحُدُودِ، بَاب تَأْخِيرِ الْحَدِّ عَنْ النُّفَسَاءِ، حدیث نمبر:۳۲۱۷، شاملہ، موقع الإسلام)
غور فرمائیے کہ آپ کا ظاہری حکم مقید اور مشروط نہ تھا؛ لیکن حضرت علیؓ نے جو فقہاء صحابہؓ میں شمار ہوتے ہیں، اپنے تفقہ اور اجتہاد سے سمجھا کہ آپ کا حکم درحقیقت مشروط و مقید ہے، بایں شرط کہ وہ لونڈی ہلاک نہ ہوجائے اور زچگی کی حالت میں سزا دینا ہوسکتا ہے کہ اس کی موت پرمنج ہو؛ اس لیے انھوں نے کوئی سزا نہ دی اور واپس چلے آئے، آپ نے یہ سن کر بجائے اس کے کہ ان کوعصیان اور روگردانی کے داغ سے داغدار کرتے، الٹا ان کی تائید اور تصویب اور تحسین فرمائی؛ لیکن اس کے برعکس اگر اس حالت میں حضرت علیؓ اس کو کوڑے لگادیتے تو آپ کے ظاہری حکم کی تعمیل کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ وہ معتوب ٹھہرتے۔
(د) حضرت براء بن عازبؓ (المتوفی: سنہ۷۱ھ) نے ایک طویل حدیث میں صلح حدیبیہ کے پورے حالات کا نقشہ کھینچا ہے، اس میں یہ مضمون بھی ہے کہ جب آنحضرتﷺ اور قریشِ مکہ کے درمیان معاہدہ طے ہوا توآپ نے عہد نامہ پر اپنے کاتب حضرت علیؓ سے یہ الفاظ بھی لکھوائے:
"ھَذَا مَاقَضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدْ رَسُوْلُ اللہ، الخ"۔
یہ وہ عہد نامہ جوآنحضرتﷺ نے فریق ثانی سے طے کیا ہے۔
مشرکین کے نمائندہ (سہیل بن عمروؓ جوبعد میں کومسلمان ہوگئے تھے) نے اس پر صدائے احتجاج بلند کی اورکہنے لگا کہ اگرہم آپ کو اللہ تعالیٰ کا رسول تسلیم کرلیں تو پھر ہمارا آپ سے اختلاف ہی نہ ہو؟ اس لیے "رسول اللہ" کے الفاظ آپ صلح نامہ سے نکال دیجئے اور محمد بن عبداللہ کے الفاظ لکھوائیے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں؛ مگر مشرکین نہ مانے تو حالات کی انتہائی نزاکت کے پیش نظر آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا:
"امْحُ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ لَاوَاللَّهِ لَاأَمْحُوكَ أَبَدًا"۔
(بخاری، كِتَاب الصُّلْحِ،بَاب كَيْفَ يُكْتَبُ هَذَا مَاصَالَحَ فُلَانُ بْن فُلَانٍ وَفُلَانُ بْن فُلَانٍ وَإِنْ،حدیث نمبر:۲۵۰۱، شاملہ، موقع الإسلام)
رسول اللہ کے الفاظ مٹادو، حضرت علیؓ نے فرمایا: خدا کی قسم میں تو کبھی نہ مٹاؤں گا۔
اور ایک روایت میں یوں آتا ہے:
"فَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يَمْحَاهَا فَقَالَ عَلِيٌّ لَاوَاللَّهِ لَاأَمْحَاهَا"۔
(مسلم،كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ،بَاب صُلْحِ الْحُدَيْبِيَةِ فِي الْحُدَيْبِيَةِ،حدیث نمبر:۳۳۳۶، شاملہ، موقع الإسلام)
آپ نے حضرت علیؓ کوحکم دیا کہ یہ الفاظ مٹادیں؛ مگر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ بخدا میں ان کونہیں مٹاؤں گا۔
بڑا ہی عجیب معاملہ ہے کہ جناب رسول اللہﷺ تو حضرت علیؓ کو نام لے کر امر اور حکم دے رہے ہیں کہ اے علی! یہ لفظ مٹادو؛ مگرحضرت علیؓ ہیں کہ آپ کے اس صریح حکم کی تعمیل کرنے کے بجائے حلفیہ طور پر یہ فرماتے ہیں کہ بخدا میں تو کبھی نہ مٹاؤں گا، انصاف سے فرمائیے کہ حضرت علیؓ پر کیا فتویٰ لگانا چاہئے؟ فتویٰ نہ لگانے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جناب رسول اللہﷺ کا حکم اور نام لے کر ہو؛ لیکن اس کے جواب میں حضرت علیؓ خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر عدم تعمیل پر مصر اور کمربستہ ہیں تو پھر وہ فتویٰ بازی سے کیونکر بچ سکتے ہیں؟ اور کب بچ سکتے ہیں؟ (معاذ اللہ) ظاہر بیں جانیں اور ان کی فتویٰ بازی، ہاں البتہ دیدۂ بصیرت رکھنے والے اور بات کی تہ اور حقیقت کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ قریش مکہ کے نمائندوں کی موجودگی میں حضرت علیؓ کے اس ظاہری انکار میں بھی ادب و عشق محمدیﷺ سمندر کی اندرونی موجوں کی طرح ابل رہا تھا اور زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ جس رسول کی محبت اور فدائیت نے دنیا کے تمام لذائذ ومسرتوں سے بے نیاز کردیا ہے، اس کے نقشِ پا کو دل کے آئینہ سے مٹانا توالگ رہا، بخدا ان کے اس پارے نام کو سطح کاغذ سے مٹانے پر بھی دل آمادہ نہیں، حضرت امام نووی الشافعیؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"وهذا الذي فعله علي رضي الله عنه من باب الأدب المستحب لأنه لم يفهم من النبي صلى الله عليه وسلم تحتيم محو علي بنفسه ولهذا لم ينكر ولوحتم محوه بنفسه لم يجز لعلي تركه ولما أقره النبي صلى الله عليه و سلم على المخالفة"۔
(نووی شرح مسلم:۲/۱۰۴)
یہ انداز جو حضرت علیؓ نے اختیار کیا وہ حسن ادب کے باب سے ہے؛ کیونکہ وہ آپ کے قول سے ہی سمجھتے تھے کہ اس نوشت کا مٹانا خود علیؓ پر لازم نہیں اور اسی لیے آپﷺ نے حضرت علیؓ پر کوئی گرفت نہیں کی؛ اگر ان کے لیے بدست خود مٹانا ضروری ہوتا تو نہ حضرت علیؓ کے لیے اس حکم کا ترک جائز ہوتا اور نہ آپ ان کو اس مخالفت پر برقرار رہنے دیتے۔
آنحضرتﷺ کے ظاہری الفاظ بھی ملاحظہ کیجئے اور ان کی تہ میں ادب مستحب کا جو معنی خفیہ و پنہاں ہے، جس کو حضرت علیؓ کی دور رس اور فقیہانہ نگاہ نے تاڑلیا تھا، وہ بھی پیش نظر رکھئے اور فیصلہ کیجئے کہ حدیث کے الفاظ میں اس کا کہیں نام ونشان بھی ہے، آج تک امت مرحومہ میں سے کسی کو یہ بات نہ سوجھی کہ وہ حضرت علیؓ کو منکر یا مخالف حدیث بتاکر کوستا ہو اور منظم طور پرمخالف حدیث ہونے کا مکروہ پروپگنڈہ ان کے خلاف شروع کرتا ہو۔
(ھ) آنحضرتﷺ نے خصال فطرت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"وَنَتْفُ الْإِبْطِ"۔
زیرِ بغل بال اکھاڑنا بھی امورِ فطرت میں سے ہے۔
(بخاری،كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ،بَاب الْخِتَانِ بَعْدَ الْكِبَرِ وَنَتْفِ الْإِبْطِ،حدیث نمبر:۵۸۲۳، شاملہ، موقع الإسلام۔ مسلم، حدیث نمبر، حدیث نمبر:۳۷۷)
لغت میں "نتف" کے معنی نوچ کر بال کو صاف کرنے کے آتے ہیں، کسی صحیح و مرفوع روایت میں "حلق الابط" یعنی (استرے سے زیرِ بغل بالوں کا منڈانا) نہیں آتا؛ مگرجمہور "نتف" پر عمل نہیں کرتے؛ بلکہ خود غیرمقلدین (عرف اہلحدیث) حضرات بھی جوعمل بالحدیث کے بزعم خویش مدعی ہیں "نتف" پرعمل نہیں کرتے تو کیا اب سب کواس حدیث کا تارک اور مخالف قرار دے کر ان پر برسنا شروع کردیا جائے گا، امام نوویؒ اور قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ "نتف الابط" کی شرح میں لکھتے ہیں:
"زیر بغل بالوں کا اکھاڑنا بالاتفاق سنت ہے اور جسے قدرت ہو، اسے ان بالوں کا اکھاڑنا ہی بہتر ہے اور منڈوانے اور چونہ سے زائل کرنے سے بھی یہ مقصود حاصل ہوجاتا ہے"۔
حضرت یونس بن عبدالاعلیٰ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: میں امام شافعیؒ کے پاس گیا تو حجام ان کے بغلوں کے بال استرے سے صاف کررہا تھا، حضرت امام شافعیؒ نے ازخود ہی یہ فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ سنت ان بالوں کا اکھاڑنا ہی ہے؛ مگر میں تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا۔ (نووی شرح مسلم:۱/۱۲۹)
جب کہ جناب رسول اللہﷺ سے اس حدیث میں بصراحت کوئی ایسی قید ثابت نہیں کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکھاڑنے پر قوی ہے مگرشراح حدیث "لمن قوی علیہ" کی قید سے اس کو مقید کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ استرے اور چونہ سے بھی مقصود حاصل ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت امام شافعیؒ "نتف ابط" کو سنت کہنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرسکے اور معذرت کرگئے، اب کیا جمہور امت کو "نتف ابط" کی حدیث کے ظاہر الفاظ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے منکر یا تارک حدیث کہہ دیں گے؟ اصل بات یہ ہے کہ جو حضرات روح شریعت سے واقف ہیں اور صرف پوست پر ہی اکتفا نہیں کرتے وہ ازروئے تفقہ یہ سمجھتے ہیں کہ مقصود بالذات تو بالوں کا دور کرنا ہے؛ خواہ وہ کسی بھی صورت سے حاصل ہوجائے؛ لہٰذا یہ مقام طعن وتشنیع کا نہیں ہے۔
(و) حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کتنے عرصے میں قرآن کریم ختم کرتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہر رات میں ایک قرآن مکمل کرلیتا ہوں، آپ نے ارشاد فرمایا: "وَاقْرَأْ فِي كُلِّ سَبْعِ لَيَالٍ مَرَّةً"۔ یعنی ہفتہ میں صرف ایک مرتبہ قرآن ختم کرو۔(بخاری، كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ، بَاب فِي كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ، حدیث نمبر:۴۶۶۴، شاملہ، موقع الإسلام)
اور ایک روایت میں اس طرح آتا ہے:
"فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلَاتَزِدْ عَلَى ذَلِكَ"۔ یعنی ہفتہ میں صرف ایک بار پڑھو اور اس سے زیادہ مت کرو۔(بخاری، كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ،بَاب فِي كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ،حدیث نمبر:۴۶۶۶، شاملہ، موقع الإسلام)
حضرت امام بخاریؒ اختلاف روایات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: "قَالَ بَعْضُھُمْ فِیْ ثَلَاثِ وَفِیْ خَمْسٍ وَاکْثَرَھُنَّ عَلَی سَبْعٍ"۔ یعنی بعض نے تین راتوں میں اور بعض نے پانچ میں اور اکثر نے سات راتوں میں صرف ایک بار قرآن پاک مکمل کرنے کو کہا۔ (طبقات الکبری لابن سعد:۳/۷۵)
گویا روایت کی رو سے بقول حضرت امام بخاریؒ اکثر روایات سات راتوں میں قرآن کریم ختم کرنے کا ہے اور بظاہر انھوں نے اسی کو ترجیح دی ہے؛ لیکن اگرتین ہی راتوں میں قرآن کریم کے مکمل کرنے کی روایت کولے لیا جائے، تب بھی روایت و حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تین سے کم راتوں میں قرآن کریم کا مکمل کرنا حضرت امام بخاریؒ کے یہاں درست نہیں ہے؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امتِ مرحومہ میں بہت سے ایسے حضرات بھی ہوئے ہیں جوایک ہی رات میں قرآنِ کریم مکمل کرلیتے تھے، حضرات صحابہ کرامؓ میں حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت تمیم داریؓ (تذکرۃ الحفاظ:۲/۴۴۵) اور حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں اور ائمہ دین میں حضرت امام شافعیؒ صرف رمضا ن المبارک میں ساٹھ مرتبہ قرآن کریم مکمل کرلیتے تھے (مفتاح الجنۃ:۲۹) اور ایک مرتبہ انھوں نے ایک مسئلہ کی تلاش میں روزانہ تین مرتبہ اور تین دنوں میں نو دفعہ قرآن کریم مکمل کرلیا تھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰۷) اور حضرت وکیع بن الجراحؒ ایک رات میں ایک قرآن کریم مکمل کرلیا کرتے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۹) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان چوبیس گھنٹوں میں ایک مرتبہ قرآن کریم مکمل کرلیا کرتے تھے۔(حاشیہ بخاری:۲/۷۵۶)
ایک دو نہیں ، سینکڑوں مثالیں باحوالہ تاریخی طور پر اس کی پیش کی جاسکتی ہیں؛ مگرہمارا مقصد دلائل وحوالہ جات کا استیعاب نہیں؛ بلکہ محض واقعات کا بیان کرنا ہے؛ اگرحدیث مذکور کے ظاہری الفاظ کودیکھا جائے تو بعض اہلِ ظاہر کی طرح یہ نظریہ قائم کرنا پڑے گا کہ مذکورہ دنوں سے کم میں قرآنِ پاک کو ختم کرنا مکروہِ تحریمی ہے (مقام ابی حنیفہ:۲۴۳) اور ان اکابر کومعاذ اللہ مکروہِ تحریمی کا مرتکب کہنا پڑے گا؛ اگر حدیث کے ظاہر الفاظ کی مخالفت ہی سچ مچ مخالفت حدیث ہوتی اور اس کی تہ میں کسی پنہاں معنی اور مضمر حقیقت کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تو یقین جانئے کہ ان اکابر کو مخالف حدیث کا لقب دیا جاتا اور کوئی معقول وجہ نطر نہیں آتی، جس سے ان کی رستگاری ہوسکے مگر معاذ اللہ کہ کسی اہلِ علم کا ضمیر اور دل اس کو گوارا کرتا ہو کہ یہ اکابر مخالف حدیث تھے؛ بلکہ اس حدیث کے دیگربیان کردہ مطالب کے علاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کا یہ ارشاد امت پرشفقت اور ترحم کے طور پر تھا؛ تاکہ غوروفکر سے قرآن کریم پڑھا جاسکے اور اس کے معنی کوسمجھا جاسکے؛ کیونکہ ہرآدمی تو امام شافعی رح جیسا نہیں ہوسکتا کہ مسئلہ کے سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآن کریم ختم کرلے اور منتہائے نظریہ ہو کہ مسئلہ مستنبط کرنا ہے؛ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں سے نصیب ہوسکتا ہے۔ (بخاری:۱/۱۰۷)
(ز) کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہﷺ کسی چیز سے نہی فرماتے ہیں؛ لیکن الفاظ اس تفصیل اور تشریح سے خاموش ہوتے ہیں کہ اس میں نہیں کا درجہ کیا ہے؟ حرام ہے یا خلافِ اولیٰ؟ مگرتاڑنے والی نگاہیں اپنی خداداد فراست وبصیرت سے اس کا مقام متعین کرلیتی ہیں، مثلاً حضرت ام عطیہؓ کی حدیث میں آتا ہے:
"نُهِينَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا"۔ یعنی ہم عورتوں کوجنازوں میں شریک ہونے سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن ہم پر اس کی تاکید نہیں کی گئی۔
(بخاری، كِتَاب الْجَنَائِزِ،بَاب اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الْجَنَائِزَ،حدیث نمبر۱۱۹۹، شاملہ، موقع الإسلام)
امام نوویؒ اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"معناہ نہانا رسول اللہﷺ عن ذلک نہی کراہۃ تنزیہ لانہی عزیمۃ وتحریم"۔ یعنی ہمیں جناب رسول اللہﷺ نے جنازوں میں شریک ہونے سے کراہتِ تنزیہی کے طور پر منع کیا ہے، یہ نہیں تحریم وعزیمت کے قبیل سے نہیں تھی۔ (نووی:۱/۳۰۴)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ام عطیہ نے اپنی بصیرت اور تفقہ سے آپ کی اس نہی کا درجہ قائم کرلیا کہ یہ نہی تحریم کے درجہ کی نہیں؛ بلکہ خلافِ اولیٰ اور مکروہ تنزیہی کے مرتبہ کی ہے؛ حالانکہ حدیث میں صرف نہیں کے الفاظ ہیں اور اس میں یہ تقسیم مذکور موجود نہیں ہے؛ مگر اس کی تہ تک حضرت امِ عطیہؓ پہونچ گئیں؛ اسی کا نام "تفقہ" ہے۔
(ح) بعض دفعہ ایسا بھی ہواہے کہ آنحضرتﷺ کوئی حکم صادر فرماتے ہیں؛ مگر وہ حکم صرف مشورہ کی حد تک ہوتا ہے اور اس کا ماننا اور نہ ماننا دونوں جائز ہوتے ہیں اور آپ کے ایسے حکم کا انکار (معاذ اللہ) آپ کی نافرمانی متصور نہیں ہوتی، مثلاً: جب بریرہؓ کو آزادی حاصل ہوئی توشرعی مسئلہ کے تحت ان کو اپنے خاوند حضرت مغیثؓ کے ساتھ رہنے یا نکاح فسخ کردینے کی اجازت ملی؛ انھوں نے حضرت مغیثؓ سے رستگاری کو ترجیح دی اور وہ بے چارے گلیوں میں حضرت بریرہؓ کے پیچھے رو روکر یہ التجا کرتے رہے کہ تو مجھ سے الگ نہ ہو؛ مگر وہ نہ مانیں؛ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بریرہؓ تو مغیث کے پاس ہی رہتی تو بہتر ہوتا، وہ کہنے لگی:
"يَارَسُولَ اللَّهِ تَأْمُرُنِي قَالَ إِنَّمَاأَنَاأَشْفَعُ قَالَتْ لَاحَاجَةَ لِي فِيهِ"۔ یعنی یارسول اللہﷺ ! کیا آپ مجھ کواس کا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ حکم تونہیں دیتا؛ البتہ سفارش کرتا ہوں؛ توحضرت بریرہؓ نے عرض کیا: پھر مجھے مغیث کی ضرورت نہیں ہے۔ (بخاری،كِتَاب الطَّلَاقِ،بَاب شَفَاعَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زَوْجِ بَرِيرَةَ،حدیث نمبر:۴۸۷۵، شاملہ، موقع الإسلام)
دیکھئے کہ حضرت بریرہؓ اپنے تفقہ فی الدین کی وجہ سے آپ کے حکم و ارشاد کا درجہ خود آپ ہی سے متعین کرانا چاہتی ہیں کہ اگر یہ حکم اور امر ہے تو مجھے اس کے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور اگر صرف مشورہ ہے تو مجھے قبول کرنے یا نہ کرنے کا حق حاصل ہے؛ چنانچہ آپ کے ارشاد کے بعد حضرت بریرہؓ نے وہی کیا، جو ان کو پسند تھا اور حضرت مغیثؓ سے رہائی حاصل کی۔
(ط) بعض مواقع ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ ان میں جناب رسول اللہﷺ کے صریح الفاظ کی مخالف ہی مرادِ رسالت اور منشائے نبوت کی تعمیل ہوسکتی ہے اور ظاہری الفاظ پر عمل کرنا جرم اور رضائے مصطفی ﷺ کے خلاف ہوگا، یقین نہ آئے تو حضرت ایوب انصاریؓ کی روایت ملاحظہ فرمائیے: آنحضرتﷺ نے قضائے حاجت کے مسائل و احکام بتاتے ہوئے یہ فرمایا کہ تم نہ تو کعبہ کی طرف پیٹھ کرو اور نہ منھ، آگے فرمایا: "وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْغَرِّبُوا"۔ یعنی اور لیکن مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو۔ (مسلم، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب الِاسْتِطَابَةِ،حدیث نمبر:۳۸۸، شاملہ، موقع الإسلام)
حضرت امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حکم اہلِ مدینہ اور ان کی سمت والوں کو ہے، جن کا قبلہ شمال یا جنوب میں واقع ہے۔ (نووی مع مسلم:۱/۱۳۰)
اب اگر ہم لوگ ہندوستان میں مشرق یا مغرب کی طرف منہ کریں گے تو توہین قبلہ کا ارتکاب لازم آئے گا اور یہ بات منشائے نبوت کے خلاف ہوگی؛ کیونکہ ہمارے ملک کا محل وقوع ہی ایسا ہے؛ لہٰذا ہمیں آنحضرتﷺ کے ان صریح الفاظ کی مخالفت کرنا لازم ہے؛ تاکہ ہمارے ملک میں اس حکم کی تہ میں جو مراد نبوت مضمر ہے اس پر عمل ہوسکے اور قبلہ کی تعظیم اور احترام ملحوظ ہے۔
یہ چند مثالیں آپ کے سامنے بیان کی گئیں؛ ورنہ اگرکتب حدیث وآثار کا تتبع کیا جائے تواس طرح کی سینکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں، جن میں ظاہر الفاظ حدیث کو چھوڑ کر وہ معنی لیا گیا ہے جو منشائے شریعت اور حکم الہٰی کے موافق ہے اور یہ بات صحابہ اور مجتہدین امت کے درمیان عام ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایسا کرنے والا تارک حدیث اور مخالف سنت ہے، اس طرح کا الزام لگانے والا درحقیقت وہی شخص ہوسکتا ہے جو حقیقت سے ناواقف اور نابلد ہو؛ لہٰذا احناف نے اگر کسی ظاہر حدیث کے خلاف کوئی بات خداداد تفقہ کی بنیاد پر کہی ہے تو اس کی وجہ سے ان پر یہ الزام عائد نہیں کیا جاسکتا کہ معاذ اللہ وہ تارک حدیث اور مخالف سنت ہیں۔
اللہ رب العزت ہم تمام لوگوں کوصحیح فہم سے نوازے اور منشائے شریعت کے موافق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
کیا اختلافی مسائل میں کوئی کسی کی تردید نہ کرے ؟
کچھ لوگوں کی زبانوں پر عام طور پرکہا جانے والا یہ اصول کہ: " اختلافی مسائل میں کوئی کسی کی تردید نہ کرے " صحیح نہیں ہے،بلکہ درست یہ ہے کہ: " اجتہادی مسائل میں کوئی کسی کی تردید نہ کرے " اس کی تفصیل درج ذیل ہے:علمائے کرام کا جن مسائل میں اختلاف ہے، یہ دو قسم کے ہیں:
اول: ایسے مسائل جن کا حکم قرآن کریم یا صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہے، اور اس حکم کے مخالف کوئی دلیل نہیں ہے، یا کسی حکم کے بارے میں اجماع نقل کیا گیا تھا لیکن کچھ متاخرین نے اس اجماع کی مخالفت کی، یا اس حکم کی دلیل قیاس جلی ہے ، تو ایسے مسائل کی مخالفت کرنے والے کی تردید کی جائے گی، اور اس قسم کے مسائل کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، مثلا:
1- اللہ تعالی کی ان صفات کا انکار کرنا جنہیں اللہ تعالی نے اپنی مدح و تعریف کرتے ہوئے بیان کیا ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ صفاتِ الہیہ کو "تاویل" کے نام پر مسترد کرنا، حالانکہ درحقیقت یہ "تاویل"نہیں بلکہ کتاب و سنت کی نصوص کی تحریف ہے۔
2- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کردہ روزِ قیامت کو رونما ہونے والے کچھ امور کو مسترد کرنا، مثلا: میزان، اور پل صراط۔
3- کچھ معاصرین کی جانب سے بینکوں میں جمع شدہ مال پر فائدہ وصول کرنا، حالانکہ یہی وہ سود ہے جسے اللہ اور اسکے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔
4- نکاحِ حلالہ کو جائز قرار دینا، حالانکہ یہ باطل موقف ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کرنےاور کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
5- موسیقی، اور گانے باجے کو جائز سمجھنا، یہ موقف بدترین موقف ہے، اس موقف کے باطل ہونے کیلئے قرآن و سنت کے متعدد دلائل، اور سلف صالحین کا فہم موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ ان تمام امور کے حرام ہونے کے متعلق متفق ہیں۔
6- یہ کہنا کہ جمعہ کے دن امام صاحب کے خطبہ کے دوران مسجد میں داخل ہونے والا شخص خطبہ سننے کیلئے بیٹھ جائے، اور تحیۃ المسجد ادا نہ کرے۔
7- نماز میں رکوع جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت، اور تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کو مستحب نہ سمجھنا۔
8- نماز استسقاء کو مستحب نہ سمجھنا، حالانکہ بخاری و مسلم وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور صحابہ کرام سے عملا نماز استسقاء ثابت ہے۔
9- رمضان کے بعد شوال کے چھ روزوں کو مستحب نہ سمجھنا۔
مذکورہ بالا مسائل ، اور اسی طرح اور بھی بہت سے مسائل ایسےہیں جن کے حکم کے بارے میں واضح نصوص موجود ہیں ، ان مسائل کے حکم میں کتاب و سنت کی مخالفت کرنے والے کی تردید کی جائے گی، اور صحابہ کرام سمیت انکے بعد آنے والے ائمہ کرام صحیح دلائل کی مخالفت کرنے والوں کی تردید کرتے چلے آئے ہیں، چاہے مخالفت کرنے والا مجتہد ہی کیوں نہ ہو۔
دوم: ایسے مسائل جن کا حکم بیان کرنے کیلئے کتا ب وسنت، اجماع یا قیاسِ جلی موجود نہیں ہے، یا حدیث سے حکم تو ملتا ہے لیکن اس حدیث کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے، یا حدیث تو صحیح ثابت ہے لیکن بیان کردہ حکم کیلئے واضح صراحت نہیں ہے، بلکہ احتمال پایا جاتا ہے، یا اس مسئلے کے حکم کے متعلق وارد شدہ دلائل میں ظاہری طور پر تعارض ہے۔
چنانچہ اس قسم کے مسائل کا حکم جاننے کیلئے اجتہاد اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس قسم کے تحت درج ذیل مسائل بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں:
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیاوی زندگی میں اللہ تعالی کو دیکھنے کے متعلق اختلاف۔
2- مُردوں کی زندہ افراد کی باتیں سننے کے بارے میں اختلاف۔
3- آلہ تناسل کو چھونےسے ، عورت کو ہاتھ لگانےسے، اور اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹنے کے متعلق اختلاف۔
4- فجر کی نماز میں روزانہ قنوت کرنا۔
5- وتر کی نماز میں قنوت کرنا، اور کیا قنوت رکوع کے بعد ہوگی یا پہلے۔
یہ اور اسی قسم کے دیگر مسائل کے حکم کے بارے میں واضح نصوص موجود نہیں ہیں، لہذا یہ ایسے مسائل ہیں جن میں مخالف رائے رکھنے والے کی تردید نہیں کی جاسکتی، بشرطیکہ وہ کسی معتبر امام کی رائے پر چلے، اور یہ سمجھے کہ ان کا موقف ہی اس مسئلہ کے بارے میں درست ہے، تا ہم یہ جائز نہیں ہے کہ ائمہ کی آراء میں سے اپنی خواہش سے موافقت رکھنے والا موقف اپنا لے ، کیونکہ اس طرح تو ایسے شخص میں ساری برائیاں جمع ہو جائیں گی۔
نیز ان مسائل میں یا اس جیسے دیگر مسائل میں مخالف کی تردید نہ کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان مسائل کے بارے میں تحقیق بھی نہ کی جائے، یا دلیل کے مطابق راجح موقف کو تلاش نہ کیا جائے، بلکہ علمائے کرام شروع سے لیکر اب تک اس قسم کے مسائل کا حکم تلاش کرنے کیلئے گفتگو، اور بات چیت کرتے آئے ہیں، لہذا جس کے لئے حق بات واضح ہو گئی تو اس پر حق کی طرف رجوع واجب ہو گیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"۔۔۔ اس قسم کے اجتہادی مسائل کی تردید طاقت کے ذریعے نہیں کی جاسکتی، اور کوئی بھی شخص لوگوں کو ان مسائل میں اپنے نقش قدم پر چلنے کیلئے مجبور نہیں کر سکتا، تا ہم دلائل کی روشنی میں گفتگو کر سکتا ہے، چنانچہ جس عالم کو دو اقوال میں سے ایک قول کی درستگی محسوس ہو تو اسی کو اپنا لے، اور جو دوسرے قول کے قائلین کی تقلید کرے تو اس کی تردید نہیں کی جاسکتی" انتہی
"مجموع الفتاوى" (30/80)
درج ذیل میں چند علمائے کرام کے اقوال ہیں جو مذکورہ بالا تقسیم کی تائید کرتے ہیں:
1- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ : "اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کی جاسکتی" یہ بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ اختلافی مسائل میں تردید یا تو کسی حکم سے متعلق ہوگی، یا عمل سے۔
اگر پہلی بات [یعنی: کسی حکم سے متعلق ہے ]، تواگر کوئی حکم احادیث یا اجماعِ قدیم کےمخالف ہوتو اس حکم کی تردید متفقہ طور پر کی جائے گی، اور ایسی صورت میں تردید کرنا واجب ہے، اور اگر احادیث یا اجماعِ قدیم کی مخالفت نہ ہو تو ایسی صورت میں بھی اس حکم کی کمزوری ]اگر ہے تو[بیان کر کے اسکی تردید کی جائے گی، یہ ان لوگوں کا موقف ہے جن کا کہنا ہے کہ :"حق ایک ہوتا ہے" اور یہ موقف اکثر سلف اور فقہائے کرام کا ہے۔
اور اگر عمل کی تردید مقصود ہو، تو احادیث یا اجماع کے مخالف ہونے کی بنا پر تردید کے درجات کے مطابق تردید کی جائے گی۔
لیکن ان صورتوں سے ہٹ کر اگر کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی حدیث یا اجماع نہ ہو، اور اس کے بارے میں اجتہاد کی گنجائش ہو تو ایسی صورت میں اجتہاد یا تقلید کی بنا پر عمل کرنے والے کی تردید نہیں ہوگی۔
اصل میں ان صورتوں میں التباس کا شبہ تب پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو "مسائل پر انکار نہیں ہوتا "کے نظریے کا قائل ہے ، جب وہ یہ اعتقاد رکھنے لگتا ہے کہ اختلافی مسائل اور اجتہادی مسائل ایک ہی ہیں،جیسا کہ بہت سے لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں، [حالانکہ یہ درست نہیں ہے، بلکہ] پوری امت کے ہاں درست یہ ہے کہ : اجتہادی مسائل وہ مسائل ہوتے ہیں جن میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہوتی جس پر عمل کرنا واضح طور پر واجب ہوجاتا ہے ، مثلا کوئی ایسی صحیح حدیث، جس کے مقابلے میں اسی موضوع پر اسکے ہم پلہ کوئی اور حدیث موجود نہ ہو ، پس اگر ایسی واضح حدیث موجود نہ ہوتو اجتہاد کی گنجائش نکلتی ہے، کیونکہ اس طرح سے دونوں طرف کے دلائل متعارض ہوجاتے ہیں، یایہ کہ انکی دلالت واضح نہیں رہتی" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا
"بيان الدليل على بطلان التحليل" (ص 210-211)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
"اجتہادی مسائل میں جس شخص نے چند علمائے کرام کی رائے پر عمل کیا تو اس کا یہ عمل مسترد نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی ایسے شخص سے قطع تعلقی کی جائے گی، اور اگر اجتہادی مسئلہ کے متعلق دو رائے ہیں تو ان میں سے کسی ایک رائے پر عمل کرنے سےاس کا عمل مسترد نہیں ہوگا" انتہی
"مجموع الفتاوى" (20/207)
2- ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور لوگوں کا یہ کہناکہ : "اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کی جاسکتی" یہ درست نہیں ہے۔۔۔ "اس کے بعد انہوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گذشتہ بات نقل کی، اور پھر کہا: "ایک فقیہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ : "اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کی جائے گی" حالانکہ تمام کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے فقہائے کرام نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ: "قاضی کا فیصلہ اگر کتاب و سنت سے متصادم ہو چاہے اس کے فیصلے کو چند علمائے کرام کی تائید حاصل ہو تو قاضی کا فیصلہ کالعدم ہوگا"!؟تاہم اگر کسی مسئلہ کے بارے میں حدیث یا اجماع موجود نہ ہو اور اجتہاد کرنے کی اس میں گنجائش ہو تو ایسی صورت میں جو کوئی اجتہاد یا تقلید کی بنا پر عمل کر لے تو کسی پر کوئی قد غن نہیں ہوگی۔۔۔
اور بہت سے مسائل ہیں کہ جن میں سلف اور خلف کا اختلاف رہا ہے، لیکن اس کے باجود ہمیں دو میں سے ایک قول کے صحیح ہونے کا یقین ہے]یعنی ان میں مخالف کی تردید کرنا جائز ہے[، مثلاً: حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، تین طلاقوں والی عورت کیساتھ دوسرے خاوند کا مباشرت کرنا پہلے خاوند سے شادی کرنے کیلئے شرط ہے، آلہ تناسل اندام نہانی میں داخل کرنے سے غسل واجب ہوجائے گا، چاہے انزال نہ بھی ہو، سودی اضافہ حرام ہے، متعہ کرنا حرام ہے، نشہ آور نبیذ حرام ہے، کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، موزوں پر مسح سفر و حضر ہر حالت میں جائز ہے، رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھنا سنت ہے، گھٹنوں کے درمیان میں لینا درست نہیں ہے، رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنا مسنون ہے، زمین اور مکان میں شفعہ ثابت ہے، وقف کرنا صحیح ہے، اور مرنے کے بعد تک جاری رہتا ہے، سب انگلیوں کی دیت برابر ہے، تین درہموں کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا، لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر بن سکتی ہے، تیمم ہتھیلی اور کلائی کے جوڑ تک ایک ضرب سے کرنا جائز ہے، میت کی طرف سے اسکا ولی روزے رکھ سکتا ہے، حجاج کرام جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پڑھتا رہے گا، محرم نے احرام سے پہلے خوشبو لگائی ہو تو احرام کے بعد جسم سے اِ س خوشبو کا آنا مضر نہیں ہے، البتہ احرام کے بعد مزید خوشبو نہیں لگا سکتا، نماز میں سنت یہی ہے کہ دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرے، اور کہے: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ، خرید و فروخت میں خیارِ مجلس ثابت ہے، دودھ تھنوں میں روکا ہوا جانور واپس کیا جائے گا، اور اس کے دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجوریں دی جائیں گی، نماز کسوف کی ہر رکعت میں دو دو رکوع کیے جائیں گے، ایک گواہ اور مدعی کی قسم پر فیصلہ کرنا جائز ہے، اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں ، اسی لئے مذکورہ مسائل کا حکم بیان کرتے ہوئے انکے صحیح حکم سے ہٹ کر غلط حکم لگانے پر ائمہ کرام نے ان کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ فیصلہ کرنے والوں کی ذات پر کیچڑ نہیں اچھالا جائے گا۔
بہر حال مسائل سے متعلقہ احادیث ]جن کی ہم پلہ کوئی مخالفت نہ ہو[اور آثار مل جانے کے بعد بھی انہیں اہمیت نہ دینا، اور پس پشت ڈالنے والوں کے پاس کل اللہ کے ہاں روزِ قیامت کو کوئی عذر نہیں ہوگا" انتہی
"إعلام الموقعين" (3/ 300-301)
3- ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ (المتوفى : 620هـ) کہتے ہیں:
"کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اپنے فقہی مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے طعن و تشنیع کا نشانہ بنائے، کیونکہ اجتہادی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کی جاسکتی" انتہی
"الآداب الشرعية" لابن مفلح (1/186)
4- امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا کہنا ہے کہ : کسی مفتی یا قاضی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ان [مفتی یا قاضی صاحبان] کی مخالفت کرنے والوں پر اعتراض کریں، بشرطیکہ معترض واضح نص، اجماع یا قیاسِ جلی کی مخالفت نہ کرے" انتہی
5- شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر" اختلافی مسائل میں کوئی کسی کی تردید نہ کرے"کے قائل کی مراد اختلافی مسائل ہیں تو یہ باطل موقف ہے، جو کہ اجماعِ امت سے متصادم ہے، صحابہ کرام سے لیکر انکے بعد آنے والے سب کے سب لوگ مخالفت اور غلطی کرنے والوں کی تردید کرتے چلے آئے ہیں چاہے غلطی اور مخالفت کرنے والا کوئی بھی ہو، چاہے مخالفت کرنے والا لوگوں میں سب سے بڑا عالم اور متقی ہی کیوں نہ ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق دیکر مبعوث فرمایا، اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ، اور آپکی سنت سے متصادم ہر چیز ترک کرنے کا حکم دیا؛ تو اسی حکم کی تعمیل میں یہ بھی شامل ہے کہ علمائے کرام میں سے کسی سے غلطی ہو تو انہیں انکی غلطی کی نشاندہی کی جائے، اور غلطی کو مسترد کیا جائے۔
اور اگر اس سے مراد اجتہادی مسائل ہیں : یعنی ایسے مسائل جن کے بارے میں غلط اور صحیح کا تعین کرنا واضح نہیں ہے، تو پھر یہ بات درست ہے، چنانچہ صرف اس بنیاد پر کسی کی تردید شروع کر دینا کہ وہ تمہارے مذہب پر نہیں ہے، یا لوگوں کی عادات سے متصادم ہے ، یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، اور اسی طرح ہر انسان کسی کو کسی کام کے کرنے کا حکم دے تو دلیل کی بنیاد پر دے، بعینہ اگر کسی کام سے روکے تو دلیل کی بنیاد پر روکے، یہ سب باتیں اللہ تعالی کے فرمان: {وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ} اور جس کے بارے میں آپکو علم نہیں ہے، اس کے پیچھے مت چلیں [الإسراء : 36] کے تحت آتی ہیں" انتہی
"الدرر السنیۃ" (4/8)
6- علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ جملہ [یعنی: اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کر سکتے] اس وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دروازہ بند کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے، حالانکہ اسکا مقام پچھلی سطور میں ہم آپکو بیان کرچکے ہیں کہ کتنا عظیم ہے، بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اللہ نے اس امت پر واجب قرار دیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے واجب قرار دیا ہے، یعنی: شرعی احکام کا حکم دیا جائے، اور شرعی برائیوں سے روکا جائے، اور ان دونوں عملی اقدامات کیلئے معیار کتاب و سنت ہے، چنانچہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ کتاب سنت میں یا ان دونوں میں سے کسی ایک میں بھی جس کام کے کرنے کا حکم ملے اس کے کرنے کا حکم دے، بالکل اسی طرح جو کام کتاب و سنت میں یا ان دونوں میں سے کسی ایک میں کرنا منع ہو اس کام سے روکے۔
چنانچہ اگر کسی اہل علم کا کوئی موقف کتاب و سنت سے متصادم ہو تو اس کا موقف غلط ہے، جس کی تردید کرنا واجب ہے، اور پھر اس شخص کی تردید کرنا بھی واجب ہے جو اس موقف پر عمل کر رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شریعت کے احکامات پر عمل اور ممنوعات سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہ شریعت کتاب و سنت میں موجود ہے"انتہی
"السيل الجرّار" (4/588)
7- شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کرسکتے"یہ جملہ زبان زد عام کرنے والوں کے بارے میں کہتے ہیں:
"اگر ہم یہ مان لیں کہ: " اختلافی مسائل میں کسی کی تردید نہیں کرسکتے " تو دین سارے کا سارا ہی ختم ہوجاتاہے، کیونکہ لوگ رخصتوں کو تلاش کرنا شروع کر دینگے، اور کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں لوگوں کا اختلاف نہیں ہے۔۔۔
اختلافی مسائل کی دو قسمیں ہیں: ایک ایسی قسم ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، یعنی: واقعی اس مسئلہ میں اختلاف ہے، تو ایسی صورت حال میں مجتہد کی تردید نہیں کی جاسکتی، جبکہ عوام الناس کو اس علاقے کے اہل علم کی بات ماننے پر مجبور کیا جائے گا، صرف اس لئے کہ لوگوں میں انتشار پیدا نہ ہو؛ کیونکہ اگر ہم نے عوام الناس کو کہہ دیا کہ : "جو موقف آپکو اچھا لگے اسی پر عمل کرلو" تو پوری قوم ایک امت کی شکل اختیار نہیں کر سکے گی، یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ محترم عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: "عوام اپنے علمائے کرام کے مذہب پر ہوتی ہے"
اختلافی مسائل کی دوسری قسم یہ ہے کہ: جن میں اجتہاد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تو ان میں مخالف رائے رکھنے والے کی تردید کی جائے گی، کیونکہ اس صورت میں اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہے" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہو
"لقاء الباب المفتوح" (49/192-193)
واللہ اعلم
مزید کیلئے دیکھیں: "حكم الإنكار في مسائل الخلاف" از: ڈاکٹر فضل الہی.
اختلاف میں اعتدال
|
اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں مسلمان ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں ، اشتراکی نظام کی تباہی کے بعد پوری دنیا نے اسلام کے خلاف کمر کس لی ہے او راس مقصد کے لیے مشرق ومغرب کے روایتی حریف ورقیب بھی ایک دوسرے سے ہاتھ ملا چکے ہیں ، خود ہمارے ملک میں جن لوگوں کو دریا کے دو کنارے کہا جاتا تھا انہوں نے بھی اسلام او رمسلمانوں کے مقابلہ میں اپنے فاصلے ختم کر لیے ہیں ، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے دو باتیں نہایت ضروری ہیں ، ایک اتحاد واتفاق ، دوسری حکمت وتدبیر۔
اتحاد واتفاق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امت میں کوئی اختلاف ہی باقی نہ رہے، اختلاف رائے پہلے بھی رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور اس کے باقی رہنے ہی میں خیر ہے ، لیکن اختلافِ فکر نہ اتحاد عمل میں مانع ہے، نہ باہمی توقیر واحترام میں ، اگر ہم نے اس بات کو نہیں سمجھا تو یہ ایسی بدبختی کی بات ہو گی کہ شاید اس کی تلافی ممکن نہ ہو اور تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی مسلمانوں کے باہمی اختلاف کچھ تو عقائد میں ہیں اور زیادہ تر عملی احکام میں ، عقائد میں بعض اختلاف یقینا گمراہی کے قبیل سے ہیں ، لیکن جو لوگ اہلِ سنت والجماعت کی راہسے منحرف ہوں ان کو بھی کافر کہنے میں سلف صالحین نے بہت احتیاط کا ثبوت دیا ہے ، چناں چہ حضرت علی رضی الله عنہ نے خوارج کو باوجود ان کے فساد فکر وعمل کے کافر قرار دینے سے اجتناب فرمایا، معتزلہ سے دسیوں اعتقادی مسائل میں اختلاف کے باوجود اہل علم نے ان کی تکفیر سے گریز کیا اور قدریہ وجبریہ وغیرہ کا شمار تقدیر کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت سے سخت اختلاف کے باوجود بھی مسلمان فرقوں میں کیا گیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سلف کے اختلاف رائے میں کس قدر اعتدال تھا!
خود اہلِ سنت والجماعت کے درمیان بھی بعض اعتقادی مسائل میں اختلاف رہا ہے اور یہ عہدِ صحابہ سے ہے ، حضرت عبدالله بن عباس شب معراج میں رسول الله ﷺ کے باری تعالیٰ کو دیکھنے کے قائل تھے ، حضرت عائشہ کو اس سے انکار تھا، بعض صحابہ اس کے قائل تھے کہ مردہ پر اس کے اہل وعیال کے رونے سے عذاب ہوتا ہے ، حضرت عائشہ اس کی تردید کرتی تھیں، بعض صحابہ کی رائے تھی کہ مردے سنتے ہیں او ربعض صحابہ اس کے قائل نہیں تھے ، یہ اختلاف صحابہ کے بعد بھی صدیوں اہلِ علم، بلکہ عوام کے درمیان بھی زیرِ بحث رہا۔
بعد کے ادوار میں جب اسلام کے اعتقادی تصورات علم کلام کے نام سے مرتب کیے گئے تو اصولی مسائل میں اتحاد کے باوجود ان عقائد کی تشریح وتوضیح اور تعبیر وتفہیم میں خاصا اختلاف پیدا ہوا اور اشعری، ماتریدی او رحنبلی دبستان فکر ابھرے ، لیکن اس اختلاف نے کبھی جھگڑے اور نزاع کی صورت اختیار نہیں کی، لوگ ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرتے، ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ، ان کے علم وفضل، ورع اور تقویٰ کا برملا اعتراف کرتے، علامہ ابن تیمیہ نے اس طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلف اس بات پر متفق تھے کہ اس کی وجہ سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔”اتفقوا علی عدم التکفیر بذلک“․ (مجموعة الفتاوی:495/12)
دوسری قسم کا اختلاف وہ ہے جو فقہی مسائل میں پیدا ہوا ہے ، یہ اختلاف عہدِ صحابہ سے ہے اور جواختلاف صحابہ کے دور میں رہا ہے اس کے باقی رہنے میں خیر ہی ہے نہ کہ شر، غور کیا جائے تو اس اختلاف کو باقی رکھنا خود الله اور اس کے رسول ﷺ کا منشا ہے اور یہ بات ادنیٰ غور وتامل سے معلوم ہو سکتی ہے، مثلاً الله تعالیٰ نے وضو میں سر کا مسح کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے ﴿وامسحوا برؤسکم﴾ یہاں لفظ ”ب“ استعمال کیا گیا ہے، ”ب“ کے معنی عربی زبان میں بعض یعنی کچھ حصہ کے بھی ہوتے ہیں اور ”ب“ زائد بھی ہوتی ہے ، پہلی صورت میں معنی ہو گا سر کے بعض حصہ کا مسح کر لو اور دوسری صورت میں معنی ہو گا کہ پورے سرکا مسح کرو، چناں چہ بعض فقہاء پورے سر کے مسح کو ضروری قرارا دیتے ہیں اور دوسری رائے کے مطابق سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہو گا، ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کے علم میں”ب“ کے یہ دونوں معنی پہلے سے موجود ہیں ، اگر الله چاہتے تو بعض کا لفظ استعمال فرماتے اورمتعین ہو جاتا کہ پورے سر کا مسح ضروری نہیں ، یا ”کل“ کا لفظ ارشاد فرماتے اور یہ بات پوری طرح بے غبار ہو جاتی کہ پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے، لیکن خدائے علیم وخبیر نے اس صراحت کے بجائے اپنی کتاب میں ایک ایسا لفظ ذکر فرمایا جس میں دو معنوں کا احتمال ہے ، اس سے ظاہر ہے کہ ایسے مسائل میں اختلاف رائے کا باقی رہنا خود منشائے ربانی ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں عورت کی عدت کے لیے تین”قرء“ گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ،” قرء“ کے معنی حیض کے بھی ہیں او رزمانہ پاکی کے بھی ، اسی لیے بعض فقہاء نے تین حیض مدت قراردی ہے او ربعض نے تین پاکی ، ظاہر ہے کہ ” قرء“ کے دونوں معانی الله تعالی کے علم محکم میں پہلے سے تھے ، اگر الله تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو تو قرآن میں بجائے ” قرء“ کے صریحاً حیض یا طہر کا لفظ استعمال کیا جاتا، یہی صورت حال احادیث نبویہ میں بھی ہے ، مثلا آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ حالت اغلاق کی طلاق واقع نہیں ہوتی ، اغلاق کے معنی جنون وپاگل پن کے بھی ہیں اور اکراہ ومجبور کے بھی ، چناں چہ اپنے اپنے فہم کے مطابق بعضوں نے ایک معنی کو ترجیح دی ہے او ربعضوں نے دوسرے معنی کو ، حالاں کہ رسول الله ﷺ افصح العرب یعنی عرب کے سب سے زیادہ فصیح شخص تھے ، اگر آپ ﷺ چاہتے تو ایسی واضح تعبیر اختیار فرماتے کہ ایک ہی معنی متعین ہو جاتا، دوسرے معنی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ایک ہی واقعہ میں مختلف مواقع پر رسول الله ﷺ سے مختلف عمل ثابت ہے ، جیسے نماز ہی کو لے لیجیے کہ تکبیر تحریمہ میں کبھی آپ ﷺ نے کانوں تک ہاتھ اٹھایا، کبھی مونڈھوں تک اور کبھی ان دونوں کے درمیان، دونوں ہاتھ کبھی آپ ﷺ نے ابتدا نماز ہی میں اٹھائے ہیں ، کبھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی، کبھی دو سجدوں کے درمیان اور دوسرے مواقع پر بھی، ہاتھ آپ ﷺ نے کبھی ناف کے نیچے باندھے ہیں اور کبھی ناف سے اوپر ، آمین کبھی آہستہ کہی ہے اور کبھی زور سے، قعدہ میں کبھی پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے ہیں اور کبھی کولھوں پر ، عیدین میں کبھی چھ تکبیرات زوائد کہی ہیں کبھی اس سے زیادہ ، یہ خدا نخواستہ تناقض اور تضاد نہیں، بلکہ اس کا مقصد توسع اور فراخی ہے۔
یہ اختلاف رائے چنداں بُرا نہیں، اسی لیے علامہ ابن قدامہؒ(المتوفى : 620هـ) نے اپنی شہرہ آفاق تالیف ”المغنی“ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ فقہاء کا اتفاق حجت قاطعہ ہے او راختلاف ”رحمت واسعہ“ ہے۔ ”اتِّفَاقُهُمْ حُجَّةٌ قَاطِعَةٌ، وَاخْتِلَافُهُمْ رَحْمَةٌ وَاسِعَةٌ“۔
[المغني لابن قدامة: ج1 ص4 الناشر: مكتبة القاهرة]
حضرت ابوبکرؓ کے پوتے مشہور فقیہ قاسم بن محمدؒ(م163ھ) فرمایا کرتے تھے کہ الله تعالیٰ نے صحابہ کے اختلاف سے فائدہ پہنچایا ہے کہ انسان ان میں سے کسی کی رائے پر عمل کر لے تو اسے خیال ہو گا کہ اس میں گنجائش ہے اور اس سے بہتر شخص نے اس پر عمل کیا ہے ۔
[جامع بیان العلم: لابن عبدالبر:2/ 900، ح1686 الناشر: دار ابن الجوزي، المملكة العربية السعودية]
یہی وجہ ہے کہ فقہاء کے درمیان یہ اختلاف کبھی باہمی توقیر واحترام اور ان کے مرتبہ ومقام کے اقرار واعتراف میں مانع نہیں ہوتا تھا، امام اوزاعی شام کے مشہور فقیہ ہیں ، امام ابوحنیفہ کے بارے میں انہیں بعض غلط فہمیاں تھیں، چناں چہ اس سلسلہ میں امام صاحب کے شاگرد امام عبدالله بن مبارک سے انہوں نے کچھ دریافت کیا ، ابن مبارک نے حکمت سے کام لیتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور اگلے روز امام صاحب سے سنے ہوئے کچھ مسائل کو تحریرکرکے اس پر شیخ ثابت بن نعمان ،جو امام صاحب کا اصل نام تھا اور جس سے عام طور پر لوگ واقف نہیں تھے، تحریر فرما کرامام اوزاعی کو پیش کیے ، امام اوزاعی پڑھ کر بہت متاثر ہوئے او رابن مبارک سے ان مضامین کی بہت تعریف کی ، ابن مبارک نے بتایا کہ یہی اصل میں امام ابوحنیفہ ہیں، پھر جب حج کے موقع پر امام ابوحنیفہ او رامام اوزاعی دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی اورامام صاحب سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو امام اوزاعی نے برملا اعتراف فرمایا کہ مجھے اس شخص پر ان کی کثرت علم او ر وفور عقل کی وجہ سے رشک آیا، میں الله سے مغفرت کا طلب گار ہوں ، میں ان کے بارے میں نہایت واضح غلط فہمی میں مبتلا تھا، مجھے ان کے بارے میں جو کچھ بات پہنچی ہے ، یہ تو اس کے بالکل برخلاف ہیں اور ابن مبارک کو ہدایت فرمائی کہ ان کا ساتھ نہ چھوڑو۔ (مناقب ابیحنیفہ: للکردری،45)
اس سلسلہ میں امام مالک اور امام لیث کی باہمی مراسلت اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کی رعایت کے بارے میں خاص کر، اس دور کے اہلِ علم کے لیے پڑھنے کی چیز ہے ، جس سے غور وفکر کا ایک نیا منہج سامنے آتا ہے، امام شافعی کے ایک شاگرد یونس بن عبدالاعلیٰ صدفی ہیں، ان کا ایک بار اپنے استاذ امام شافعی سے ایک مسئلہ میں بھی مباحثہ ہو گیا اور دونوں کسی ایک رائے پر متفق نہ ہو سکے ، پھر جب امام شافعی کی ان سے ملاقات ہوئی تو امام صاحب نے ہاتھ تھاما اور فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہیں کہ گوایک مسئلہ میں بھی ہمارا اتفاق نہ ہو، لیکن پھر بھی ہم بھائی بھائی بن کر رہیں؟”ألا یستقیم أن نکون إخوانا وإن لم نتفق فی مسئلة؟“ ( سیر اعلام النبلاء16/100)یہ تھا ہمارے سلف صالحین کا طرز اختلاف!
یوں تو صحابہ اور بعد کے ادوار میں سینکڑوں فقہاء مقام اجتہاد پر فائز تھے، لیکن ان میں سے ائمہ اربعہ کو ایسے شاگرد ملے کہ انہوں نے اپنے تمام اساتذہ کی آراء کو جمع کر دیا، ان ائمہ اربعہ کی فقہ کتاب وسنت کا نچوڑ او رصحابہ کے فتاوی کا خلاصہ ہے ، اس نے قرآن وحدیث کے دائرہ میں آنے والے تمام مفاہیم اور رسول الله ﷺ کی تمام سنتوں کو نہایت ہی خوبی کے ساتھ جمع کر لیا ہے، چناں چہ کم سے کم گیارہ سو سال سے امت ان مکاتب فقہ پر متفق ہے او ررسول الله ﷺ کے ارشاد کے مطابق یہ امت کبھی غلط بات پر اکٹھی نہیں ہو سکتی او ران کو دین کا شارح مان کر ان کی تشریحات کو قبول کیا گیا ہے ، نہ یہ کہ ان کو شارع کا درجہ دیا گیا ہے۔ چوں کہ یہ دور فتنہ اورخواہش نفس کی اتباع کا ہے، اس لیے اہلِ علم نے ان میں سے کسی ایک فقیہ کی تشریحات کو مشعلِ راہ بنانے کا حکم ضرور دیا ہے ، لیکن کبھی کسی نے حق وصواب کو ان میں محدودو محصور نہیں سمجھا، اسی لیے خو داحناف نے کئی مسائل میں امام ابوحنیفہ کی آراء او رشوافع نے امام شافعی کی آرا کے خلاف فتاوی دیے ہیں اور ان مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان کبھی کوئی نزاع، جنگ وجدال اور ایک دوسرے کی مذمت واہانت کی نوبت نہیں آئی ، اس ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ میں مختلف قومیں دامن اسلام میں آئیں ، لیکن ان کو کبھی یہ فیصلہ کرنے میں دقت پیش نہیں آئی کہ وہ کس فقہ پر عمل کریں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امت میں دین کے مزاج ومذاق کے بارے میں صحیح فہم تھا، وہ جانتے تھے کہ یہ دین کے اصول وبنیاد او راساس نہیں ہے ، بلکہ ایسے مسائل ہیں جن میں ایک سے زیادہ رائے کی گنجائش ہے، ان میں ایک رائے پر اصرار اور دوسری رائے کے بارے میں عناد کا رویہ رکھنا صحیح نہیں ، اس لیے انہوں نے اس اختلاف کو کبھی اہمیت نہیں دی ، علماء کاتو کیا سربراہان مملکت، جن کا اصل میدان سیاست ہے، نہ کہ علم وتحقیق، ان کا ذہن بھی اس بارے میں بہت واضح تھا، علامہ ابن قتیبہ نے اس سلسلہ میں مامون الرشید کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے ، مامون کے زمانہ میں ایک شخص عیسائیت کی طرف مُرتد ہو گیا، مامون نے اس پر سزا جاری کرنے سے پہلے اس کو مطمئن کرنے کی غرض سے دریافت کیا کہ تمہارے مُرتد ہونے کا کیا باعث ہوا؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کا اختلاف، مامون نے کہا کہ ہمارے اختلاف دو طرح کے ہیں ، ایک تو جیسے اذان کے کلمات ، جنازہ کی تکبیرات اور تشہد وغیرہ کے بارے میں تویہ اختلاف نہیں، بلکہ تنگی کے بجائے توسع اور تخفیف ہے، اس لیے جو اذان واقامت کے دہرے کلمات کہتا ہے وہ اس شخص کو غلط قرار نہیں دیتا جواقامت کے اکہرے کلمات کہتا ہے ، ان فقہی اختلافات کی وجہ سے نہ ہم ایک دوسرے کو حقیر سمجھتے ہیں اور نہ برُا بھلا کہتے ہیں”لا یتعایرون بذالک ولا یتعاتبون“ دوسرا اختلاف وہ ہے جو کسی آیت یا حدیث کی تشریح میں ہوتا ہے ، اگر تم کو اس سے وحشت ہے تو تورات وانجیل کی تشریح میں بھی علمائے یہود ونصاری متفق نہیں ہیں ، کیوں کہ جب کوئی بات تفصیل طلب ہو گی تو اس کی تشریح میں یقینا اختلاف کا امکان ہو گا، اگر الله کو یہ بات منظور ہوتی کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہ ہو تو الله نے اپنی کتاب میں کوئی ایسی بات نازل نہ کی ہوتی جو تفسیر وتشریح کی محتاج ہو ، مامون کی اس بات نے اس شخص کے ذہن کی گتھی کھول دی اور وہ فوراً ارتداد سے تائب ہو گیا۔ ( عیون الاخبار:154/2، الرد علی الملحدین)
غرض کہ کچھ مسائل میں اختلاف رائے عہدِ صحابہ سے ہے ، یہ اختلاف امت کے لیے رحمت ہے اور یہ الله اور اس کے رسول ﷺ کے منشا کے عین مطابق ہے ، اس اختلاف کو مذموم سمجھنا سلف کے طریقہ کے بھی خلاف ہے او رعقل سلیم کے بھی مغائر، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اختلافات کے معاملہ میں انسان کا قلب وقیع ہو ، تمام سلفِ صالحین کے بارے میں اس کی زبان محفوظ او راس کا قلم محتاط ہو ، وہ صلحائے امت کے اختلاف کے بارے میں حسنِ ظن رکھے اور اختلافِ رائے کو برداشت کرے، یہ وہ مسائل نہیں ہیں جن کی امت پر تبلیغ کی جائے او راس کو اپنی دعوت کا موضوع بنایا جائے ، اسی طرح اعتقادی احکام کی تشریح میں اہل سنت والجماعت کے درمیان جو معمولی سا اختلاف ہے او راکثر یہ اختلاف محض تعبیر کا ہوتا ہے ان میں غُلو او ران کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ قرار دینا نہایت ہی مذموم او رناشائستہ بات ہے۔
جیسا کہ ایک زمانہ میں مغرب کی استعماری طاقتوں نے ان غیر اہم مسائل کو مسلمانوں میں اختلاف بھڑکانے او ران کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا ذریعہ بنایا تھا ، اسی طرح اس وقت بھی اسلام کے مخالفین اس قسم کے مسائل میں امت کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس قدر مسلمانوں کا شیرازہ منتشر ہو گا ان کی راہ آسان ہو گی ، وقت کی لکیر کو نہ پڑھنا اور غیر اہم باتوں میں اپنے آپ کو الجھا کر رکھنا کسی قوم کے انحطاط کی علامت ہوتی ہے ، ہمیں تاریخ کا وہ واقعہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب مسلمان فوجیں صلیبیوں کو شکست دے رہی تھیں تو عیسائیوں کے درمیان اس موضوع پر مناظرہ کا بازار گرم تھا کہ زمین افضل ہے یا آسمان؟ کہیں ہم اسی تاریخ کو دھرا تو نہیں رہے ہیں؟؟
اتحاد واتفاق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امت میں کوئی اختلاف ہی باقی نہ رہے، اختلاف رائے پہلے بھی رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور اس کے باقی رہنے ہی میں خیر ہے ، لیکن اختلافِ فکر نہ اتحاد عمل میں مانع ہے، نہ باہمی توقیر واحترام میں ، اگر ہم نے اس بات کو نہیں سمجھا تو یہ ایسی بدبختی کی بات ہو گی کہ شاید اس کی تلافی ممکن نہ ہو اور تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی مسلمانوں کے باہمی اختلاف کچھ تو عقائد میں ہیں اور زیادہ تر عملی احکام میں ، عقائد میں بعض اختلاف یقینا گمراہی کے قبیل سے ہیں ، لیکن جو لوگ اہلِ سنت والجماعت کی راہسے منحرف ہوں ان کو بھی کافر کہنے میں سلف صالحین نے بہت احتیاط کا ثبوت دیا ہے ، چناں چہ حضرت علی رضی الله عنہ نے خوارج کو باوجود ان کے فساد فکر وعمل کے کافر قرار دینے سے اجتناب فرمایا، معتزلہ سے دسیوں اعتقادی مسائل میں اختلاف کے باوجود اہل علم نے ان کی تکفیر سے گریز کیا اور قدریہ وجبریہ وغیرہ کا شمار تقدیر کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت سے سخت اختلاف کے باوجود بھی مسلمان فرقوں میں کیا گیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سلف کے اختلاف رائے میں کس قدر اعتدال تھا!
خود اہلِ سنت والجماعت کے درمیان بھی بعض اعتقادی مسائل میں اختلاف رہا ہے اور یہ عہدِ صحابہ سے ہے ، حضرت عبدالله بن عباس شب معراج میں رسول الله ﷺ کے باری تعالیٰ کو دیکھنے کے قائل تھے ، حضرت عائشہ کو اس سے انکار تھا، بعض صحابہ اس کے قائل تھے کہ مردہ پر اس کے اہل وعیال کے رونے سے عذاب ہوتا ہے ، حضرت عائشہ اس کی تردید کرتی تھیں، بعض صحابہ کی رائے تھی کہ مردے سنتے ہیں او ربعض صحابہ اس کے قائل نہیں تھے ، یہ اختلاف صحابہ کے بعد بھی صدیوں اہلِ علم، بلکہ عوام کے درمیان بھی زیرِ بحث رہا۔
بعد کے ادوار میں جب اسلام کے اعتقادی تصورات علم کلام کے نام سے مرتب کیے گئے تو اصولی مسائل میں اتحاد کے باوجود ان عقائد کی تشریح وتوضیح اور تعبیر وتفہیم میں خاصا اختلاف پیدا ہوا اور اشعری، ماتریدی او رحنبلی دبستان فکر ابھرے ، لیکن اس اختلاف نے کبھی جھگڑے اور نزاع کی صورت اختیار نہیں کی، لوگ ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرتے، ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ، ان کے علم وفضل، ورع اور تقویٰ کا برملا اعتراف کرتے، علامہ ابن تیمیہ نے اس طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلف اس بات پر متفق تھے کہ اس کی وجہ سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔”اتفقوا علی عدم التکفیر بذلک“․ (مجموعة الفتاوی:495/12)
دوسری قسم کا اختلاف وہ ہے جو فقہی مسائل میں پیدا ہوا ہے ، یہ اختلاف عہدِ صحابہ سے ہے اور جواختلاف صحابہ کے دور میں رہا ہے اس کے باقی رہنے میں خیر ہی ہے نہ کہ شر، غور کیا جائے تو اس اختلاف کو باقی رکھنا خود الله اور اس کے رسول ﷺ کا منشا ہے اور یہ بات ادنیٰ غور وتامل سے معلوم ہو سکتی ہے، مثلاً الله تعالیٰ نے وضو میں سر کا مسح کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے ﴿وامسحوا برؤسکم﴾ یہاں لفظ ”ب“ استعمال کیا گیا ہے، ”ب“ کے معنی عربی زبان میں بعض یعنی کچھ حصہ کے بھی ہوتے ہیں اور ”ب“ زائد بھی ہوتی ہے ، پہلی صورت میں معنی ہو گا سر کے بعض حصہ کا مسح کر لو اور دوسری صورت میں معنی ہو گا کہ پورے سرکا مسح کرو، چناں چہ بعض فقہاء پورے سر کے مسح کو ضروری قرارا دیتے ہیں اور دوسری رائے کے مطابق سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہو گا، ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کے علم میں”ب“ کے یہ دونوں معنی پہلے سے موجود ہیں ، اگر الله چاہتے تو بعض کا لفظ استعمال فرماتے اورمتعین ہو جاتا کہ پورے سر کا مسح ضروری نہیں ، یا ”کل“ کا لفظ ارشاد فرماتے اور یہ بات پوری طرح بے غبار ہو جاتی کہ پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے، لیکن خدائے علیم وخبیر نے اس صراحت کے بجائے اپنی کتاب میں ایک ایسا لفظ ذکر فرمایا جس میں دو معنوں کا احتمال ہے ، اس سے ظاہر ہے کہ ایسے مسائل میں اختلاف رائے کا باقی رہنا خود منشائے ربانی ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں عورت کی عدت کے لیے تین”قرء“ گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ،” قرء“ کے معنی حیض کے بھی ہیں او رزمانہ پاکی کے بھی ، اسی لیے بعض فقہاء نے تین حیض مدت قراردی ہے او ربعض نے تین پاکی ، ظاہر ہے کہ ” قرء“ کے دونوں معانی الله تعالی کے علم محکم میں پہلے سے تھے ، اگر الله تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو تو قرآن میں بجائے ” قرء“ کے صریحاً حیض یا طہر کا لفظ استعمال کیا جاتا، یہی صورت حال احادیث نبویہ میں بھی ہے ، مثلا آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ حالت اغلاق کی طلاق واقع نہیں ہوتی ، اغلاق کے معنی جنون وپاگل پن کے بھی ہیں اور اکراہ ومجبور کے بھی ، چناں چہ اپنے اپنے فہم کے مطابق بعضوں نے ایک معنی کو ترجیح دی ہے او ربعضوں نے دوسرے معنی کو ، حالاں کہ رسول الله ﷺ افصح العرب یعنی عرب کے سب سے زیادہ فصیح شخص تھے ، اگر آپ ﷺ چاہتے تو ایسی واضح تعبیر اختیار فرماتے کہ ایک ہی معنی متعین ہو جاتا، دوسرے معنی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ایک ہی واقعہ میں مختلف مواقع پر رسول الله ﷺ سے مختلف عمل ثابت ہے ، جیسے نماز ہی کو لے لیجیے کہ تکبیر تحریمہ میں کبھی آپ ﷺ نے کانوں تک ہاتھ اٹھایا، کبھی مونڈھوں تک اور کبھی ان دونوں کے درمیان، دونوں ہاتھ کبھی آپ ﷺ نے ابتدا نماز ہی میں اٹھائے ہیں ، کبھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی، کبھی دو سجدوں کے درمیان اور دوسرے مواقع پر بھی، ہاتھ آپ ﷺ نے کبھی ناف کے نیچے باندھے ہیں اور کبھی ناف سے اوپر ، آمین کبھی آہستہ کہی ہے اور کبھی زور سے، قعدہ میں کبھی پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے ہیں اور کبھی کولھوں پر ، عیدین میں کبھی چھ تکبیرات زوائد کہی ہیں کبھی اس سے زیادہ ، یہ خدا نخواستہ تناقض اور تضاد نہیں، بلکہ اس کا مقصد توسع اور فراخی ہے۔
یہ اختلاف رائے چنداں بُرا نہیں، اسی لیے علامہ ابن قدامہؒ(المتوفى : 620هـ) نے اپنی شہرہ آفاق تالیف ”المغنی“ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ فقہاء کا اتفاق حجت قاطعہ ہے او راختلاف ”رحمت واسعہ“ ہے۔ ”اتِّفَاقُهُمْ حُجَّةٌ قَاطِعَةٌ، وَاخْتِلَافُهُمْ رَحْمَةٌ وَاسِعَةٌ“۔
[المغني لابن قدامة: ج1 ص4 الناشر: مكتبة القاهرة]
حضرت ابوبکرؓ کے پوتے مشہور فقیہ قاسم بن محمدؒ(م163ھ) فرمایا کرتے تھے کہ الله تعالیٰ نے صحابہ کے اختلاف سے فائدہ پہنچایا ہے کہ انسان ان میں سے کسی کی رائے پر عمل کر لے تو اسے خیال ہو گا کہ اس میں گنجائش ہے اور اس سے بہتر شخص نے اس پر عمل کیا ہے ۔
[جامع بیان العلم: لابن عبدالبر:2/ 900، ح1686 الناشر: دار ابن الجوزي، المملكة العربية السعودية]
طلحہ بن مصرفؒ(م112ھ) کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان کے سامنے فقہاء کے اختلاف کا ذکر کیا جاتا تو فرماتے، اسے اختلاف کا نام نہ دو، بلکہ اسے فراخی او رگنجائش کہو ، لاتقولوا الاختلاف، ولکن قولوا: السعة․“
[الإبانة الكبرى لابن بطة(المتوفى:387هـ) :2/ 566، الناشر: دار الراية للنشر والتوزيع، الرياض]حلية الأولياء:5/ 19]
علامہ ابن تیمیہؒ نے نقل کیا ہے کہ ایک صاحب نے فقہاء کے اختلاف کی بابت ایک کتاب تالیف کی۔ تو امام احمد نے فرمایا کہ اس کو ”کتاب ِ اختلاف“ کا نام نہ دو بلکہ اسے وسعت وفراخی کی کتاب کہو ۔ ”لا تسمہ کتاب الاختلاف، ولکن سمہ کتاب السعة۔“
[مجموعة الفتاوی:79/30، شرح العمدة لشيخ الإسلام ابن تيمية ص567: الناشر: دار العاصمة]علامہ ابن تیمیہؒ نے نقل کیا ہے کہ ایک صاحب نے فقہاء کے اختلاف کی بابت ایک کتاب تالیف کی۔ تو امام احمد نے فرمایا کہ اس کو ”کتاب ِ اختلاف“ کا نام نہ دو بلکہ اسے وسعت وفراخی کی کتاب کہو ۔ ”لا تسمہ کتاب الاختلاف، ولکن سمہ کتاب السعة۔“
یہی وجہ ہے کہ فقہاء کے درمیان یہ اختلاف کبھی باہمی توقیر واحترام اور ان کے مرتبہ ومقام کے اقرار واعتراف میں مانع نہیں ہوتا تھا، امام اوزاعی شام کے مشہور فقیہ ہیں ، امام ابوحنیفہ کے بارے میں انہیں بعض غلط فہمیاں تھیں، چناں چہ اس سلسلہ میں امام صاحب کے شاگرد امام عبدالله بن مبارک سے انہوں نے کچھ دریافت کیا ، ابن مبارک نے حکمت سے کام لیتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور اگلے روز امام صاحب سے سنے ہوئے کچھ مسائل کو تحریرکرکے اس پر شیخ ثابت بن نعمان ،جو امام صاحب کا اصل نام تھا اور جس سے عام طور پر لوگ واقف نہیں تھے، تحریر فرما کرامام اوزاعی کو پیش کیے ، امام اوزاعی پڑھ کر بہت متاثر ہوئے او رابن مبارک سے ان مضامین کی بہت تعریف کی ، ابن مبارک نے بتایا کہ یہی اصل میں امام ابوحنیفہ ہیں، پھر جب حج کے موقع پر امام ابوحنیفہ او رامام اوزاعی دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی اورامام صاحب سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو امام اوزاعی نے برملا اعتراف فرمایا کہ مجھے اس شخص پر ان کی کثرت علم او ر وفور عقل کی وجہ سے رشک آیا، میں الله سے مغفرت کا طلب گار ہوں ، میں ان کے بارے میں نہایت واضح غلط فہمی میں مبتلا تھا، مجھے ان کے بارے میں جو کچھ بات پہنچی ہے ، یہ تو اس کے بالکل برخلاف ہیں اور ابن مبارک کو ہدایت فرمائی کہ ان کا ساتھ نہ چھوڑو۔ (مناقب ابیحنیفہ: للکردری،45)
اس سلسلہ میں امام مالک اور امام لیث کی باہمی مراسلت اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کی رعایت کے بارے میں خاص کر، اس دور کے اہلِ علم کے لیے پڑھنے کی چیز ہے ، جس سے غور وفکر کا ایک نیا منہج سامنے آتا ہے، امام شافعی کے ایک شاگرد یونس بن عبدالاعلیٰ صدفی ہیں، ان کا ایک بار اپنے استاذ امام شافعی سے ایک مسئلہ میں بھی مباحثہ ہو گیا اور دونوں کسی ایک رائے پر متفق نہ ہو سکے ، پھر جب امام شافعی کی ان سے ملاقات ہوئی تو امام صاحب نے ہاتھ تھاما اور فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہیں کہ گوایک مسئلہ میں بھی ہمارا اتفاق نہ ہو، لیکن پھر بھی ہم بھائی بھائی بن کر رہیں؟”ألا یستقیم أن نکون إخوانا وإن لم نتفق فی مسئلة؟“ ( سیر اعلام النبلاء16/100)یہ تھا ہمارے سلف صالحین کا طرز اختلاف!
یوں تو صحابہ اور بعد کے ادوار میں سینکڑوں فقہاء مقام اجتہاد پر فائز تھے، لیکن ان میں سے ائمہ اربعہ کو ایسے شاگرد ملے کہ انہوں نے اپنے تمام اساتذہ کی آراء کو جمع کر دیا، ان ائمہ اربعہ کی فقہ کتاب وسنت کا نچوڑ او رصحابہ کے فتاوی کا خلاصہ ہے ، اس نے قرآن وحدیث کے دائرہ میں آنے والے تمام مفاہیم اور رسول الله ﷺ کی تمام سنتوں کو نہایت ہی خوبی کے ساتھ جمع کر لیا ہے، چناں چہ کم سے کم گیارہ سو سال سے امت ان مکاتب فقہ پر متفق ہے او ررسول الله ﷺ کے ارشاد کے مطابق یہ امت کبھی غلط بات پر اکٹھی نہیں ہو سکتی او ران کو دین کا شارح مان کر ان کی تشریحات کو قبول کیا گیا ہے ، نہ یہ کہ ان کو شارع کا درجہ دیا گیا ہے۔ چوں کہ یہ دور فتنہ اورخواہش نفس کی اتباع کا ہے، اس لیے اہلِ علم نے ان میں سے کسی ایک فقیہ کی تشریحات کو مشعلِ راہ بنانے کا حکم ضرور دیا ہے ، لیکن کبھی کسی نے حق وصواب کو ان میں محدودو محصور نہیں سمجھا، اسی لیے خو داحناف نے کئی مسائل میں امام ابوحنیفہ کی آراء او رشوافع نے امام شافعی کی آرا کے خلاف فتاوی دیے ہیں اور ان مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان کبھی کوئی نزاع، جنگ وجدال اور ایک دوسرے کی مذمت واہانت کی نوبت نہیں آئی ، اس ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ میں مختلف قومیں دامن اسلام میں آئیں ، لیکن ان کو کبھی یہ فیصلہ کرنے میں دقت پیش نہیں آئی کہ وہ کس فقہ پر عمل کریں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امت میں دین کے مزاج ومذاق کے بارے میں صحیح فہم تھا، وہ جانتے تھے کہ یہ دین کے اصول وبنیاد او راساس نہیں ہے ، بلکہ ایسے مسائل ہیں جن میں ایک سے زیادہ رائے کی گنجائش ہے، ان میں ایک رائے پر اصرار اور دوسری رائے کے بارے میں عناد کا رویہ رکھنا صحیح نہیں ، اس لیے انہوں نے اس اختلاف کو کبھی اہمیت نہیں دی ، علماء کاتو کیا سربراہان مملکت، جن کا اصل میدان سیاست ہے، نہ کہ علم وتحقیق، ان کا ذہن بھی اس بارے میں بہت واضح تھا، علامہ ابن قتیبہ نے اس سلسلہ میں مامون الرشید کا ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے ، مامون کے زمانہ میں ایک شخص عیسائیت کی طرف مُرتد ہو گیا، مامون نے اس پر سزا جاری کرنے سے پہلے اس کو مطمئن کرنے کی غرض سے دریافت کیا کہ تمہارے مُرتد ہونے کا کیا باعث ہوا؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کا اختلاف، مامون نے کہا کہ ہمارے اختلاف دو طرح کے ہیں ، ایک تو جیسے اذان کے کلمات ، جنازہ کی تکبیرات اور تشہد وغیرہ کے بارے میں تویہ اختلاف نہیں، بلکہ تنگی کے بجائے توسع اور تخفیف ہے، اس لیے جو اذان واقامت کے دہرے کلمات کہتا ہے وہ اس شخص کو غلط قرار نہیں دیتا جواقامت کے اکہرے کلمات کہتا ہے ، ان فقہی اختلافات کی وجہ سے نہ ہم ایک دوسرے کو حقیر سمجھتے ہیں اور نہ برُا بھلا کہتے ہیں”لا یتعایرون بذالک ولا یتعاتبون“ دوسرا اختلاف وہ ہے جو کسی آیت یا حدیث کی تشریح میں ہوتا ہے ، اگر تم کو اس سے وحشت ہے تو تورات وانجیل کی تشریح میں بھی علمائے یہود ونصاری متفق نہیں ہیں ، کیوں کہ جب کوئی بات تفصیل طلب ہو گی تو اس کی تشریح میں یقینا اختلاف کا امکان ہو گا، اگر الله کو یہ بات منظور ہوتی کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہ ہو تو الله نے اپنی کتاب میں کوئی ایسی بات نازل نہ کی ہوتی جو تفسیر وتشریح کی محتاج ہو ، مامون کی اس بات نے اس شخص کے ذہن کی گتھی کھول دی اور وہ فوراً ارتداد سے تائب ہو گیا۔ ( عیون الاخبار:154/2، الرد علی الملحدین)
غرض کہ کچھ مسائل میں اختلاف رائے عہدِ صحابہ سے ہے ، یہ اختلاف امت کے لیے رحمت ہے اور یہ الله اور اس کے رسول ﷺ کے منشا کے عین مطابق ہے ، اس اختلاف کو مذموم سمجھنا سلف کے طریقہ کے بھی خلاف ہے او رعقل سلیم کے بھی مغائر، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اختلافات کے معاملہ میں انسان کا قلب وقیع ہو ، تمام سلفِ صالحین کے بارے میں اس کی زبان محفوظ او راس کا قلم محتاط ہو ، وہ صلحائے امت کے اختلاف کے بارے میں حسنِ ظن رکھے اور اختلافِ رائے کو برداشت کرے، یہ وہ مسائل نہیں ہیں جن کی امت پر تبلیغ کی جائے او راس کو اپنی دعوت کا موضوع بنایا جائے ، اسی طرح اعتقادی احکام کی تشریح میں اہل سنت والجماعت کے درمیان جو معمولی سا اختلاف ہے او راکثر یہ اختلاف محض تعبیر کا ہوتا ہے ان میں غُلو او ران کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ قرار دینا نہایت ہی مذموم او رناشائستہ بات ہے۔
جیسا کہ ایک زمانہ میں مغرب کی استعماری طاقتوں نے ان غیر اہم مسائل کو مسلمانوں میں اختلاف بھڑکانے او ران کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا ذریعہ بنایا تھا ، اسی طرح اس وقت بھی اسلام کے مخالفین اس قسم کے مسائل میں امت کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس قدر مسلمانوں کا شیرازہ منتشر ہو گا ان کی راہ آسان ہو گی ، وقت کی لکیر کو نہ پڑھنا اور غیر اہم باتوں میں اپنے آپ کو الجھا کر رکھنا کسی قوم کے انحطاط کی علامت ہوتی ہے ، ہمیں تاریخ کا وہ واقعہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب مسلمان فوجیں صلیبیوں کو شکست دے رہی تھیں تو عیسائیوں کے درمیان اس موضوع پر مناظرہ کا بازار گرم تھا کہ زمین افضل ہے یا آسمان؟ کہیں ہم اسی تاریخ کو دھرا تو نہیں رہے ہیں؟؟
یونس مدنی کہتے ہیں "میں نے امام شافعی سے زیادہ سمجھ دار اورعقل مند انسان نہیں دیکھا" ایک دن میں نے ان سے کسی مسئلہ کے بارے میں مناظرہ کیا پھر ہم اپنی مصروفیات میں مشغول ہوگئے،چند دن کے بعد مجھ سے ملے،میرا ہاتھ پکڑا اورفرمایا:
((یا ابو موسیٰ! الا یستقیم ان نکون اخوانا وان لم نتفق فی مسالۃ))
"اے ابو موسی! کیا یہ درست روشن نہیں ہے کہ ہم کسی مسئلہ میں اختلاف کے باوجود آپس میں بھائیوں کی طرح رہیں"
(سیر اعلام النبلاء:۱۰/۱۷)
اجتہاد و اختلاف کی حدود
|
فقہ حنفی فقہ مالکی فقہ شافعی فقہ حنبلی۔
جمہور علماء متفقہ طور پر ” اجتہاد شرعی“ کی اجازت کے قائل ہیں، لیکن اجتہاد شرعی اس وقت ہو گا جب چند شرائط پائی جائیں۔
شرائط اجتہاد
یہ چھے شرائط ہیں ،ان کا مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے ، ان میں سے ایک شرط کے بھی معدوم ہونے سے دعویٰ اجتہاد باطل ہو گا۔
عربی لغت سے اتنی واقفیت ہو کہ کسی بھی عربی کلام کے معنی بخوبی سمجھ سکے۔
قرآن وحدیث سے ماخوذ اُن علوم سے واقفیت ہو جن کے بغیر عربی کلام کے معنی سمجھ نہیں آسکتے۔
ان آیات وروایات کا علم ہو جن میں احکام کا بیان ہے، یہ پانچ سو آیات اور تین ہزار احادیث ہیں۔
امت کے اجماعی واجتہادی مسائل ،جو پہلے سے طے کیے جاچکے ہیں ان کا علم ہو۔
اجتہاد کے اصول وقواعد، احکامِ شرع کے مصالح ومقاصد، ماحول ومعاشرے اور زمانے کے حالات وضروریات کا علم ہو۔
جب یہ کسبی شرائط کوئی پالے تو ایک چھٹی شرط کا پایا جانا ضروری ہے۔ جو خالصتاً عطیہ خدا وندی ہوتی ہے۔
دلائل پر غور وفکر کرکے احکام کے استنباط کا ملکہ بھی ہو، اسے ”فقہ النفس“ بھی کہا جاتا ہے۔( فواتح الرحموت، التوضیح والتلویح، نورالانوار، عقد الجید)
اجتہاد کی حدود
اجتہاد کے بارے میں ہمارے تجدد پسند طبقہ نے کئی قسم کی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں ۔ ہمارے پراگندہ ذہن دانش ور سمجھتے ہیں کہ لفظ ” اجتہاد“ کے معنی کوشش کرنا او رمفہوم آزادرائے دینا ہے۔ یہیں سے غلطی کا آغاز ہوتا ہے ا وراس بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہوتی ہے ، وہ بھی غلطیوں کا مجموعہ ہوتی ہے ، حالاں کہ اس سوچ وفکر اور نظریے کا ”اجتہاد“ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، کیوں کہ شرعی اجتہاد محض رائے زنی کا نام نہیں، بلکہ درپیش مسئلہ، جس کے بارے میں واضح حکم شرعی کتاب وسنت میں موجود نہیں، اس کا حل مآخذ شریعت کی چھان پھٹک کرکے، نظائر وامثال پر غور وفکر کے بعد پیش کرنا ” شرعی اجتہاد“ کہلاتا ہے۔
اجتہاد کے ضمن میں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ شاید آزادانہ اجتہاد کی حدود میں تمام مسلمات شریعت بھی داخل ہیں ، کتاب وسنت کے قطعی احکام، جو چودہ صدیوں سے امت کا متفقہ معمول چلے آتے ہیں ، آج کے کج فہموں ، کوتاہ بینوں کو فرسودہ یامشکل نظر آتے ہیں او ران میں تبدیلی کے لیے اجتہادی قوتیں صرف کی جاتی ہیں۔ حالاں کہ علماء نے لکھا ہے کہ تین مقامات ایسے ہیں جہاں اجتہاد ممکن نہیں:
قرآن وسنت کے قطعی اور واضح احکام، جیسے سود کی حرمت۔
وہ مسائل جن کے متعلق قطعی قرآنی واحکام موجود ہیں، مگر ان کی تفسیر سنت سے ہو گئی، جیسے نماز پنجگانہ۔
حدود الله کہ ان کے متعلق کتاب الله میں واضح اور قطعی احکام موجود ہیں۔
یہ وہ مقامات ہیں جہاں کسی قسم کے اجتہاد کی اجازت نہیں، مگر ہمارے مجتہدیں ان میں بھی اجتہادی زورآزمائیوں میں مصروف ہیں۔
اجتہای صلاحیت کے حاملین کو جب کڑی شرائط کے ساتھ اجتہاد کی اجازت دی گئی تو ان میں اختلاف پیدا ہونا ضروری ہے ، کیوں کہ اس کا تعلق رائے وعقل سے ہے اور دو اشخاص کی رائے وعقل برابر نہیں ہو سکتیں۔
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، رئیس جامعہ دارالعلوم کراچی فرماتے ہیں : ” میرے والد ماجد ایک عجیب بات فرماتے تھے، وہ یہ کہ جہاں بھی کوئی قطعی بات نہیں ہو گی، بلکہ مختلف طرح کے احتمالات ہوں گے او رکئی آدمی اس پر غور وخوض کر رہے ہوں گے تو وہاں اختلاف رائے کا ہونا ناگزیر ہے۔“
آگے چل کر فرماتے ہیں ” ایسے اختلاف کو کہیں برا نہیں سمجھا جاتا، اسی طرح قرآن وسنت کی تشریح میں صحابہ کرام کا اختلاف ہوا اور ائمہ مجتہدین کا بھی، لیکن یہ اختلاف ہے، ” تفرق“ نہیں ہے ، فرقہ بندی نہیں ہے ۔ اختلاف جائز ہے ، تفرق یعنی پھوٹ ڈالنا جائز نہیں۔“ (اختلاف رحمت ہے فرقہ بندی حرام ہے ، ص:23)
اختلاف حدود میں ہو تو مذموم نہیں، بلکہ صلاحیت اجتہاد کے حامل مجتہدین جب کسی مسئلے میں اختلاف کرتے ہیں تو یہ امت کے لیے رحمت بن جاتا ہے، چناں چہ رسول الله ﷺ کا ارشاد ہے ”اختلاف امتی رحمة“۔ ( کشف الخفاء، 66/1، رقم الحدیث:153)
اختلاف کی حدود
علماء نے اختلاف کی حدود بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :
اولاً: اختلاف کرنے والے قرآن وسنت کی تشریح کی اہلیت رکھتے ہوں۔
ثانیاً: زیر بحث مسئلہ سے متعلق تمام احادیث ان کے علم میں ہوں۔
ثالثاً: ایسے مسائل میں اختلاف ہو جس میں واقعی اختلافِ رائے ہو سکتا ہے۔
رابعاً: اختلاف کا اظہار عمومی مجامع، عمومی رسائل میں نہ ہو۔
خامساً: یہ اختلاف ذاتی تعصب سے خالی ہو۔
ان حدود کی رعایت ہو تو بلاشبہ ایسا اختلاف رحمت ہی رحمت ہے۔ برکة العصر، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس الله تعالیٰ سرہ نے اس موضوع پر ایک جامع اور لائق مطالعہ کتاب ” الاعتدال فی مراتب الرجال“ تحریر فرمائی ہے، اس میں فرماتے ہیں:
”علاوہ ازیں ایک چیز او ربھی نہایت قابل اہتمام ہے ، غور سے سنوکہ! اختلاف رائے، خواہ مذموم ہو یا ممدوح ، کسی اختلاف میں بھی حدود سے تجاوز کرنا اور مخالفین کے ساتھ اعتدال سے بڑھ کر معاملہ کرنا اسلامی تعلیم کے منافی ہے…“ ( الاعتدال، ص:239، اتحاد بیک ڈپو، دیوبند، انڈیا)
چناں چہ ماضی قریب میں اکابر دیوبند او رماضی بعید میں ہمارے اسلاف اس کانمونہ پیش کر چکے ہیں، کہ اختلاف کے باوجود باہمی رنجش اور دلی کدورت کا شائبہ بھی نہ تھا، مگر آج ہمارے ہاں اختلاف کا مقصد بدل گیا ہے #
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
(اقبال)
کاش! جن اسلاف کے ہم نام لیوا ہیں او ران سے انتساب پر فخر کرتے ہیں اس میں بھی ان کی اتباع کرتے تو #
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، الله بھی، قرآن بھی ایک
کیا بری بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
(اقبال)
اتحاد کی ضرورت اور اختلاف سے بچنے کا راستہ
|
پس جب کہ ان کے مقصد میں اختلاف ہے تو ان میں بھی اختلاف لازم ہے ، اس کا حل تو یہی ہے کہ علمائے سوء کی تفرقہ بازیوں(نئی نئی باتوں) کی حوصلہ شکنی کی جا ئے اوران کو بدعت چھوڑ کر اہل ِحق کے ساتھ اتفاق پر آمادہ کیا جائے اور یہ اتفاق بظاہر تو اہل حق کے ساتھ ہو گا، لیکن درحقیقت بدعت چھوڑ کر سنت کے ساتھ اتفاق ہو گا اور یہ بات ظاہر ہے کہ سنت کسی فریق کے گھر کی چیز نہیں، بلکہ ایسی شخصیت کی طرف منسوب ہے جس پر کسی مسلمان کو اختلاف نہیں ، یعنی نبی کریم ﷺ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے : ”ترجمہ بے شک لوگوں نے اپنے دین میں (مختلف) راستے نکالے اور (مختلف) گروہ بن گئے ، آپ ﷺ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ، بس ان کا معاملہ الله کے حوالے ہے ، پھر ( قیامتمیں الله تعالیٰ) ان کوان کے کرتوت جتلا دیں گے۔“ ( سورة انعام آیت:159)
اس آیت میں غلط راستوں پر پڑنے او رمختلف فرقے بن جانے والوں کے متعلق اول تو یہ بتلا دیا کہ الله کا رسول ﷺ ان سے بری ہے اور الله کے رسول الله ﷺ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ، پھر ان کو یہ سخت و عید اور تنبیہ سنائی کہ ان کا معاملہ بس الله تعالیٰ کے حوالے ہے ، وہی ان کو قیامت کے روز سزا دیں گے ۔ اس جگہ دین میں تفریق ڈالنے اور فرقے بن جانے سے مراد یہ ہے کہ دین کے اصول کی اتباع چھوڑ کر اپنے خیالات اورخواہشات کے مطابق یا شیطانی چالبازیوں میں مبتلا ہو کر دین میں کچھ نئی چیزیں بڑھا یا گھٹا دی جائیں او ر دین میں بدعات شامل کر لی جائیں ۔ طبرانی نے معتبر سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کیا ہے کہ اس آیت میں جن فرقوں کا ذکر ہے وہ اہل بدعت او راپنی خواہشات وخیالات کے مطابق نئے طریقے ایجاد کرنے والے ہیں ، یہی مضمون حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی صحیح سند کے ساتھ منقول ہے۔ اس آیت سے دین میں بدعت پیدا کرنے والوں کی سخت برائی اور الله اور اس کے رسول کی ناراضگی ظاہر ہوتی ہے ۔ ( معارف القرآن ج2 ص502 بتغیر)
حضور ﷺ فرماتے ہیں:” بلاشبہ جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ بہت اختلافات دیکھے گا ، پس تم پر ( ایسے وقت) میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے ۔ جو ہدایت یافتہ ہیں ، اس کو تم مضبوطی سے پکڑے رکھنا اور اس کو اپنی داڑھوں کے نیچے خوب دبالینا اور تم ( دین میں ) نئی نئی باتوں کے( پیدا کرنے) سے بچنا، کیوں کہ ( دین میں) جو بھی نئی چیز نکالی جائے وہ بدعت ہے۔ او رہر بدعت گمراہی ہے۔“ (مسند احمد، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ، مسند دارمی، مشکوة شریف، موارد الظمآن، مستدرک حاکم)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ:” میر ی“ا مت کو بھی وہی حالات پیش آئیں گے جو بنی اسرائیل کو پیش آئے ، جس طرح بد اعمالیوں میں وہ مبتلا ہوئے میری امت کے لوگ بھی مبتلا ہوں گے ، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے ، میری امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے، جن میں سے ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخ میں جائیں گئے۔صحابہ کرام نے عرض کیا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟ فرمایا” وہ جماعت جو میرے طریقہ پر اورمیرے صحابہ کے طریقہ پر چلے وہ نجات پائے گی۔“ ( ترمذی، ابوداؤد)
اس حدیث سے جنت میں جانے والی جماعت کی یہ پہچان اور معیار معلوم ہوا کہ جو سنت اور صحابہ کے طریقہ پر کار بند ہو ۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر تمام باطل فرقوں کو بآسانی پہچانا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ جو کام حضور ﷺ اور صحابہٴ کرام کے قولی وفعلی اصولوں سے ثابت نہیں ( جیسا کہ آج کل کی مروجہ عام بدعات) ان کو انجام دینے والے فرقے نجات پانے والی جماعت میں شامل نہیں، خواہ وہ تعداد ومقدار میں کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ (معارف القرآن ج3 ص:503 بتغیر)
ایک حدیث میں ہے کہ”جو کوئی ہمارے اس کام ( دین) میں وہ بات نکالے جو اس میں نہیں ہے تو وہ بات رد ہے ( یعنی وہ مردود ہے)۔“ (بخاری)
حضرت حکیم الامت رحمہ الله فرماتے ہیں، یہ اہل بدعت ہمیشہ اہل حق کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور یونہی اڑنگ بڑنگ ہانکتے رہتے ہیں۔ ایک سب انسپکٹر میرے ایک وعظ میں شریک تھے ۔ وعظ کے بعد انہوں نے مجھ سے گیارہویں کے متعلق سوال کیا، میں نے کہا کہ بدعت ہے۔ کہنے لگے آپ اس کو بدعت کہتے ہیں اور فلاں مولوی صاحب اس کو اچھا بتلاتے ہیں،تو ہم کیا کریں ؟ میں نے کہا کہ جیسے ہم سے سوال کیا جاتا ہے کبھی ان سے بھی تو یہ سوال کیا ہوتا کہ تم اچھا کہتے ہو اور فلاں اس کو بدعت کہتے ہیں، ہم کیا کریں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل میں ( گیارہویں) کرنے کی خواہش ہے ( اس لیے گیارہویں کرنے والوں پر اعتراض نہیں کرتے) اور دوسروں کو آڑ بناتے ہو۔ پھر کچھ نہیں بولے۔ ( الافاضات الیومیہ ج4 ص40)
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ، ایک بار میرا اتفاق کانپور جانے کا ربیع الثانی میں ہوا ۔ میں نے وعظ میں گیارہویں کا بدعت ہونا بیان کیا، بعد وعظ ایک سب انسپکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ ایسے مسائل وعظ میں بیان نہیں کرنے چاہئیں، اس سے مسلمانوں میں تفریق ہوتی ہے ۔ میں نے کہا کہ بانی تفریق ( یعنی تفریق کی بنیاد ڈالنے والے) تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ بدعت ایجاد کی۔ کیوں کہ یہ تو ظاہر ہے کہ اس ( گیارہویں کی رسم) کی اصل کتاب وسنت سے ثابت نہیں۔ یہ فعل بعد ہی کو ایجاد ہوا ہے ۔ تو جنہوں نے اس کوشروع کیا، انہوں نے دراصل تفریق ڈالی ، وہی لوگ ذمہ دار اس تفریق کے ہیں ، نہ کہ منع کرنے والے ۔ نہ آپ اس رسم کو نکالتے، نہ ہم منع کرتے۔ اب آپ لوگ اس کو کرنا چھوڑ دیجیے ، ہم لوگ منع کرنا چھوڑ دیں گے۔ یہ سن کر وہ چپ رہ گئے ، کچھ جواب نہ بن پڑا، بہت پوچھنے کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ آپ ہی جیسے مولوی یہ بھی کہتے ہیں کہ گیارہویں سے یوں برکت ہوتی ہے ، یوں ثواب ہوتا ہے۔ الله تعالیٰ نے میرے دل میں ایک نہایت لطیف جواب ڈالا۔ میں نے کہاکہ میں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کبھی یہ سوال آپ نے ان مولویوں سے بھی کیا( جو گیارہویں کوبرکت کا باعث کہتے ہیں) کہ آپ ہی جیسے مولوی وہ لوگ بھی تو ہیں جو اس فعل سے منع کرتے ہیں، پھر آپ( کیسے) جائز کہتے ہیں ؟ کیا سارے جواب ہمارے ہی ذمہ ہیں ، ان کے ذمہ کوئی بھی جواب نہیں (حالاں کہ گیارہویں کے مدعی تو اس رسم کو کرنے والے ہیں، نہ کہ منع کرنے والے ہیں اور دلیل مدعی کے ذمہ لازم ہوا کرتی ہے) بس اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ آپ نے خود ہی پیشتر ( پہلے) سے اس کا کرنا تجویز کیا ہے ، ورنہ اگر تردد ( شک) ہوتا تو جس طرح ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ مولوی ہی لوگ اس کو برکت اور ثواب کا فعل کہتے ہیں ۔ اسی طرح ان سے بھی تو کبھی یہ سوال کیا جاتا کہ صاحب وہ بھی تو آخر مولوی ہی ہیں، جو اس کو بدعت کہتے ہیں او رمنع کرتے ہیں؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمیں سے سب پوچھا جاتا ہے ( اور ہم سے ہی ان کے عمل کے غلط ہونے کی دلیل مانگی جاتی ہے، حالاں کہ بدعت کے ناجائز ہونے کی دلیل صرف یہی کافی ہوا کرتی ہے کہ وہ عمل شریعت سے ثابت نہیں او رجو عمل کر رہا ہے اس کے ذمہ اس عمل کے ثبوت کی دلیل لازم ہوتی ہے ) پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے اس اصول پر کہ ”تفریق نہ ڈالنی چاہیے“ خود بہت آسانی کے ساتھ عمل کر سکتے ہیں ، کیوں کہ اس ( گیارہویں کے) فعل کو آپ فرض اور واجب تو سمجھتے ہی نہیں ، محض برکت اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں اور منع کرنے والے اس کو بدعت سمجھ کر روکتے ہیں ، اس صورت میں آپ تو مستحب کو چھوڑ سکتے ہیں(کیوں کہ مستحب کو چھوڑنا گناہ نہیں ) اور (ہم) واجب یعنی منع کرنے کو نہیں چھوڑ سکتے (کیوں کہ بدعت سے رکنا اور بدعت سے منع کرنا واجب ہے) ہاں! جب آپ ( اس بدعت کو) ترک کر دیں گے، پھر ( ہمیں) منع ( کرنے) کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ ( حسن العزیز ج ملفوظ نمبر58)
ایک مقام پر فرماتے ہیں، بعض لوگ اس اختلاف کو دیکھ کر علماء کو رائے دیتے ہیں کہ سب مولویوں کو متفق ہو جانا چاہیے، نااتفاقی بری چیز ہے۔ تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا نااتفاقی علی الاطلاق ( یعنی ہر قسم کی نااتفاقی ) جرم ہے؟ یا اس کے لیے کوئی قید بھی ہے؟ اگرنا اتفاقی علی الاطلاق ( بغیر کسی قید اور شرط کے) جرم ہے او را س کی وجہ سے ہر فریق مجرم ہو جاتا ہے تو عدالت کو چاہیے کہ جب اس کے پاس ایک فریق ایک چیز کا دعوی کر رہا ہے اور دوسرا فریق اس کا انکار کر رہا ہے اور دونوں کے بیان ایک دوسرے سے مختلف ہیں) اور (آپ کے نزدیک) نااتفاقی علی الاطلاق( بغیرکسی قید اور شرط کے جرم ہے، تو مدعی اور مدعا علیہ دونوں مجرم ہوئے ۔ اگر عدالت ایسا کرے تو سب سے پہلے آپ ہی ( اس فیصلہ کے ) مخالف ہوں گے اور دنیا بھر میں شوروغل مچادیں گے کہ یہ کون سا انصاف ہے کہ تحقیق مقدمہ سے پہلے ہی دونوں کو مجرم بنا دیا گیا؟ اب اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ پھر کیا کرنا چاہیے تھا ؟ تو آپ عاقل بن کر یہ رائے دیں گے کہ عدالت کو تحقیق کرنی چاہیے تھی ، کہ مدعی او رمدعا علیہ میں جو باہم مخالفت ونااتفاقی ہے، تو ان میں سے حق پر کون ہے اور ناحق پر کون ہے ؟ جو حق پر ہوتا اس کی حمایت کی جاتی اور جو ناحق پر ہوتا اس کو سزا دی جاتی۔ لیجیے آپ ہی کے فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ نااتفاقی علی الاطلاق( یعنی ہر حال میں) جرم نہیں اور اگر کسی معاملہ میں دو فریق ہو جائیں تو ہر فریق مجرم نہیں کہا جاسکتا، بلکہ جس کی مخالفت ناحق ہو وہ مجرم ہے اور جو بحق ( حق کی وجہ سے) ہو وہ مجرم نہیں۔ پس علماء کی باہم نااتفاقی اور اختلاف سے آپ کا سب ( علماء) کو مجرم بنانا اور ہر فریق سے یہ کہنا کہ دوسرے سے اتفاق کر لو۔ غلط رائے ہے ، بلکہ اول آپ کو تحقیق کرنی چاہیے کہ حق پر کون ہے ، ناحق پر کون ہے ؟ پھر جو ناحق پر ہو ، اسے مجرم بنائیے اور اس کو اہل حق کے ساتھ اتفاق کرنے پر مجبور کیجیے، ورنہ اہل حق کو دوسروں کے ساتھ اتفاق پر مجبو رکرنے کے تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ حق کو چھوڑ کر، ناحق طریق ( غلط راستہ) اختیار کر لیں اور اس کو کوئی عاقل تسلیم نہیں کرسکتا تو اتنی شکایت آپ کی رہ گئی کہ آپ قبل از تحقیق ( یعنی تحقیق کرنے سے پہلے) ہی سب کو متفق ہو جانے کی رائے دیتے ہیں اور مولویوں کی شکایت ہم کو بھی ہے، مگر صرف ان کی جوناحق پر ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ صاحب دوسرا فریق بھی اتفاق سے مجبور ہے، کیوں کہ ان کی سمجھ میں یوں ہی آیا، وہ اسی کو حق سمجھتے ہیں، جو ان کی سمجھ میں آیا ہے ، تو جناب ائمہ اربعہ (چاروں فقہ کے اماموں ) میں سمجھ ہی کا تو اختلاف ہے ، مگر اس کے ساتھ پھر سب متفق ہیں ۔ کوئی ایک دوسرے پر ملامت وطعن نہیں کرتا ، بلکہ ہر ایک کو حق پر سمجھتا ہے ( لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سنت وبدعت کا اختلاف) اگر ایسا اختلاف ہوتا (جیسا کہ چاروں فقہاء کے درمیان ہے او روہ حق ہے ) تو مسلمانوں کو آج یہ پریشانی نہ ہوتی جو آنکھوں سے نظر آرہی ہے، بلکہ یہ (سنت وبدعت کا) اختلاف تو روٹیوں کا ہے ( یہی وجہ ہے کہ دونوں فریق فقہ حنفی کے مدعی ہیں ، لیکن یہ بدعات فقہ حنفی سے ثابت نہیں بلکہ ان کا بدعت ہونا ثابت ہے) میں کہا کرتا ہوں کہ اگر اہل حق کے پاس کافی روپیہ ہو اور وہ ان سب فرقوں کی تنخواہیں مقرر کر دیں تو سارا اختلاف ایک دن میں مٹ جائے ۔ یہ سارا اختلاف پیٹ کی وجہ سے ہے کہ کوئی مولود (میلاد النبی) پر زو ردیتا ہے، کوئی ( مروجہ) فاتحہ ودرود پر، کوئی ( مرنے کے بعد تیجے، دسویں پر۔ ایک عالم صاحب سے، جو بدعات کے بڑے حامی ہیں، کسی نے سوال کیا کہ تم مولود (میلاد النبی ) و ( مروجہ) فاتحہ کو سنت کہتے ہو اور ان پر بہت زور دیتے ہو اور جو ان سے منع کرے اس کو بُرا بھلا کہتے ہو ، پھر یہ کیا وجہ ہے کہ تمہاری مستورات (خواتین) بہشتی زیور پڑھتی ہیں؟ ( جو کہ ہمار ی کتاب ہے اور اس میں اس قسم کی بدعات پر رد بھی ہے ) تو انہوں نے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ” یہ سارا اختلاف تو اس کی خرابی ہے ورنہ حق وہی ہے جو بہشتی زیورمیں لکھا ہے۔“ میں نے ایک دفعہ لکھنو(شہر) میں دیکھا کہ ہر کھانے پر الگ الگ فاتحہ دی جارہی ہے۔ پھر وہاں بیان کی فرمائش ہوئی تو میں نے اس بیان میں کہا کہ فاتحہ ومولود کے سنت اور بدعت ہونے کا امتحان بہت آسانی سے اس طرح ہو سکتا ہے کہ جو مولوی صاحب مولود پڑھیں یا فاتحہ دیں ان کو (اس پر) کچھ نہ دیا جائے، ان سے خوب مولود پڑھواؤ اور الگ الگ ہر رکابی (وبرتن) پر فاتحہ دلواؤ، مگر ( اس کا )نذرانہ کچھ نہ دو ، نہ مٹھائی کا دوہرا حصہ دو ۔ پھر دیکھنا وہ خود ہی اس کو فضول اور بدعت کہنے لگیں گے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسی روز شام کو آکر ایک فاتحہ خواں صاحب کہنے لگے کہ ” واقعی یہ تو ایک فضول سا قصہ معلوم ہوتا ہے کہ الگ الگ فاتحہ ہو، ایک ہی کافی ہے“ ۔میں نے جی میں کہا کہ اب تو معلوم ہو ہی جائے گا۔ صاحبو! میں سچ کہتا ہوں کہ ان کی (ان رسموں اور بدعتوں کی ) آمدنی بند کر دو ، تو وہ خود ہی کہنے لگیں گے کہ یہ سب فضول قصہ ہے ۔ یہ ساری باتیں روٹیاں کھانے کی ہیں۔ ( اشرف الجواب ص:242 تا244 واسباب الفتنہ)
ایک اور موقع پر فرماتے ہیں، لوگ آج کل اتفاق اتفاق تو پکارتے ہیں مگر اس کی حدود کی رعایت نہیں کرتے ، بس اتنا یاد کر لیا ہے کہ قرآن میں حکم ہے” افتراق نہ کرو“۔ مگر اس سے پہلا جملہ نہیں دیکھتے” کہ اس میں الله کے راستہ پر قائم رہنے کا پہلے حکم ہے “ اس کے بعد ارشاد ہے کہ ” (الله کی رسی) پر متفق ہو کر اس سے تفرق (علیحدگی) نہ کرو ، تو اب مجرم وہ ہے جو حبل الله ( ا لله کی رسی) سے الگ ہو اور جو حبل الله (الله کی رسی) پر قائم ہے ۔ وہ ہر گز مجرم نہیں ، گو اہل باطل سے اس کو ضرو راختلاف ہو گا۔ پس یادر کھو کہ نہ اختلاف مطلقاً مذموم ( یعنی ہر حال میں برا) ہے، جیسا کہ ابھی ثابت کیا گیااور نہ اتفاق مطلقا ً محمود ( ہرحال میں اچھا) ہے ، بلکہ اتفاق محمود ( اچھا اتفاق) وہ ہے جوحبل الله کے اعتصام( یعنی الله کی رسی کو مضبوط پکڑنے) پر ہو ( جیسا کہ ائمہ اربعہ کا ہے)۔ ( وعظ” اصلاح ذات البین“ خطباتِ حکیم الامت ج11,19 المسمیٰ ”آداب انسانیت“ ص:334 و335)
خلاصہ یہ کہ اختلاف سے بچنے کا راستہ سنت اور صحابہ کے طریقہ پر عمل کرنا اور بدعت سے بچنا ہے۔
اصولِ شریعت (اور جھگڑوں و تنازعات کا حل)
القرآن: اے ایمان والو! حکم مانو الله کا اور حکم مانو رسولﷺ کا اور أُولِي الْأَمْرِ (علماء و فقہاء) کا جو تم (مومنوں) میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔ (النساء:۵۹)
اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ" کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے: "أُولِي الْأَمْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "أُولِي الْأَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔
ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:
"أُولِي الْأَمْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)
ترجمہ: "أُولِي الْأَمْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔
قرآن و سنّت کی طرف لوٹانے کا اہل کون؟
مفسر امام ابو بکر جصاص رح اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ: "اولو الامر" کی اطاعت کا حکم دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعالیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع ہو، وہ بھی قرآن و سنّت کی بعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم "علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کتونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن : 2/257]
تحقیق کا حق: "رسول" کے بعد "أولي الأمر" کو ہے-قرآن=٤:٨٣ ، عوام کو نہیں۔
=======================
مفھوم_آیت_اجماع و اتفاق:
القرآن : تم اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو "سب ملکر" اور (اس سے علیحدہ ہوکر) آپس میں تفرقہ (پارٹیاں / گروہ بندیاں) نہ ڈالو {٣/١٠٣}
فرمایا "ولا تفرقوا" یہ نہیں فرمایا "ولا تختلفوا" (آپس میں اختلاف نہ کرو)، کیونکہ
١. اختلاف_راۓ اگر قرآن و سنّت کی تعبیر و تشریح (فہم و فقہ) میں ہو،
٢. اخلاص، للہیت و تقویٰ کے ساتھ ہو،
٣. اپنی بڑائی جتانے اور دوسروں کو ذلیل کرنے کی نیت سے نہ ہو،
٤. اور اختلاف کرنے والی قرآن و سنّت کی تشریح کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں (یعنی اہل_علم ہوں،
٥. اور ایسے مسائل میں اختلاف ہو جن میں واقعی اختلاف_راۓ ہو سکتا ہے (جنھیں اہل_علم کی اصطلاح میں "مسائل_اجتہادیہ" یا "مختلف فیہ مسائل" کہا جاتا ہے یعنی جن کے بارے میں قرآن و سنّت نے کوئی واضح حکم نہیں دیا) تو وہ اختلاف کوئی مذموم نہیں.
=================================
ایک معاشرہ اور سوسائٹی میں رہتے ہوئے آپس میں اختلاف کا پیدا ہونا یقینی ہوتا ہے، کیونکہ انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہیں، ان کا سو چنے کا انداز الگ الگ ہے ، ایک دوسرے کو برتنے اور سمجھنے کے زاویے علیحدہ ہیں،اس لیے سماجی زندگی میں بھی رایوں کا اختلاف سامنے آتا رہتا ہے اور مذہبی و عملی زندگی میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ ایسے موقع پر اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ فطری تقاضے کے مطابق اختلاف تو ہوگا، مگر اس اختلاف سےنمٹنے کا راستہ اچھا ، معتدل اور متوازن ہونا چاہئے، کسی کی دل آزاری نہ ہو، سامنے والے کو برا بھلا نہ کہیں، گالی گلوچ نہ کریں، طعنہ تشنیع نہ کریں اور اگر کسی مسئلے میں آپس میں اختلاف ہوجائے تو اپنا موقف اور رائے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فریق مقابل کی رائے کو بھی سنیں، سمجھیں اور اگر چہ وہ رائے ہمارے خلاف ہو، کسی خانگی مسئلے میں بھی ، کہیں کام کررہے ہوں ، تو ساتھی کےساتھ ، باس ہیں، تو ملازم کے ساتھ، ملازم ہیں تو اپنے باس کے ساتھ اختلاف ہوسکتا ہے، مگر اس قسم کے مواقع پر ہر انسان کو اپنے ذہن اور دماغ پر قابو رکھنا چاہئے اور اختلاف کوکسی خطرناک نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور باہم صلح و مصالحت کی کوشش کرنی چاہئے۔اسی طرح مذہبی مسائل جن میں مسلمانوں کے مختلف مسالک و مکاتب فکر میں اختلافات ہیں اور ان کا تعلق فردعیات سے ہے، ان اختلافات میں بھی تشدد اور تعصب سے حد درجہ احتراز کریں اور اگر اختلاف ا ولیٰ و غیر اولیٰ کے بارے میں ہے ، تو اس کو کسی کے اسلام و کفر کا مسئلہ نہ بنائیں ، بلکہ سنجیدہ ماحول میں خالص علمی مذاکرہ اور بات چیت کے ماحول میں اپنا اپنا موقف رکھیں، اس طرح مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کا بھی موقع فرقوں اور مکاتب فکر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کا بھی موقع ملے گا اور امت کے لیے مسلمات عقائد پر اتحاد کے ساتھ مشترکہ دشمنوں سے مقابلہ آرائی بھی آسان ہوجائے گی۔ اسلام نے اولاً تو بے جا اختلاف و انتشار کی ممانعت کی ہے اور اگر کسی مسئلے پر اختلاف ہوہی جائے، تو پھر بہتر طریقے سے مدافعت کی تلقین و ہدایت کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ‘‘ اور آپس میں مت جھگڑو کہ تم ناکام ہوجاؤ اور تمہاری ہوا نکل جائے اور اللہ کے راستے میں جمے رہو، بلا شبہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے’’۔ ( الانفال :46) دوسری جگہ فرمایا : ‘‘ تم اپنی خواہشات کی پیروی کرو کہ راہ راست سے تجاوز کر جاؤ ’’ ۔ ( النسا ء: 135) تیسری جگہ فرمایا : ‘‘ساری دنیا کے لوگ ایک ہی امت تھے ، پھر اللہ نے ان کے درمیان نبیوں کو مبعوث فرمایا، جو بخشش و مغفرت کی بشارت دینےو الے اور اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے تھے اور ان کےساتھ کتاب حق نازل فرمائی تاکہ اس کتاب کے ذریعے ان کے اختلافی مسائل میں فیصلہ کیا جائے اور اس کتاب کے سلسلے میں اختلاف نہیں کیا، مگر ان ہی لوگوں نے جنہیں وہ کتاب دی گئی تھی واضح دلیلیں آجانے کے بعد آپس میں ظلم و زیادتی کی وجہ سے ’’( (البقرہ :213) احادیث میں بھی متعدد موقع پرآپ ﷺ نے امت کو اختلاف و انتشار اور اس کے نقصانات سے باخبر کیاہے، عام طور پر لوگوں کے مابین اختلاف اس لیےہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی بات نہیں مانتے اور اس کو اپنی ناک کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، یعنی تکبر کی وجہ سے اختلاف کو ہوا ملتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : ‘‘تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ’’ ۔ (صحیح مسلم ، ح : 93) حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ‘‘ اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ انسان وہ ہے ، جو جھگڑ الو او رناحق پر جم جانے والا ہو’’۔ (متفق علیہ ) عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ : ‘‘ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ‘‘ جس شخص نے کسی ناحق معاملے میں جھگڑا کیا، حالانکہ وہ اس کے ناحق ہونے کو جانتا بھی ہے، تو وہ اس وقت تک اللہ کے غیظ و غضب کا شکار رہتا ہے، جب تک کہ وہ اس معاملے میں نکل نہ جائے ’’ ۔(سنن ابوداؤد، ح: 3597)
بہر کیف وہ اختلاف رائے ، جس کی بنیاد مرادِ خداوندی کی تعیین ، حق تک رسائی اور معاشرے کو نفع پہنچانا ہو اور جس کا سبب علوم و افکار او رتجربات و سمجھ میں تفاوت ہوتا ہے، وہ ایک درست اور فطری صورت حال ہے، کیونکہ اس سے فکری تنوع کا پتا چلتا ہے اور اس صورت میں ایک مسئلے کے مختلف حل اور ایک منزل تک پہنچنے کے مختلف ذرائع و وسائل اور ایک مسئلے کو مختلف نظری و فکر ی ابعاد اور زاویوں سے دیکھنے کے راستے نکلتے ہیں ، اختلاف کی وجہ سے متعدد و متنوع عقلی و فکری نتائج ایک گلدستے میں جمع ہوجاتےہیں اور اس طرح اذہان کھلتے اور علوم میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور اس قسم کا اختلاف ہی نفع بخش ہوتا ہے۔
نفع بخش اختلاف ہی کی قسم میں فقہائے امت کے اختلافات بھی شامل ہیں، کیونکہ یہ قرآن و حدیث کو سمجھنے میں ان کی الگ الگ اجتہادی کوششوں کا نتیجہ ہیں، ان کے اختلافات امت کے لیے باعثِ رحمت اور شرعی مسائل و احکام میں گنجائش و کشادگی کی راہ نکالنے میں معین و مددگار ہیں۔
البتہ لوگوں کے مابین پیدا ہونے والے وہ اختلافات ، جو نفسیاتی خواہشات اور قبول حق سے روکنے والے کبر او راس عجیب پرمبنی ہو، جس کی وجہ سے انسان کسی ایک رائے پرجم جاتاہے، اس قسم کے اختلافات کا غلط ہونا واضح او ربیّن ہے ، اسی طرح دوسروں کو تکلیف پہنچا کر اپنے محدود ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اختلاف کرنا بھی غلط ہے اور شرعاً یہ ایک قابل مذمت اختلاف ہے، کیونکہ اس سے بھائی چارہ اور دوستی کا بندھن ٹوٹتا ہے اور نوبت باہمی جدال اور دشمنی تک پہنچ جاتی ہے۔
کسی بھی مسئلے میں اختلاف کرنے کے شرعاً کچھ آداب ہیں، جن کی رعایت کرنا واجب ہے، ان میں چند کا ذکر کیا جاتا ہے:
(1) ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ جب اس پر حق واضح ہوجائے، تو وہ خندہ پیشانی کے ساتھ اسے قبول کرلے اور عناصر اور کبر میں حد سے تجاوز نہ کرے ، تاکہ وہ نبی اکرم ﷺ کی اس وعید سے محفوظ رہے، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے:
‘‘ جس شخص نے کسی باطل مسئلے میں اختلاف کیا، حالانکہ وہ اس کے بطلان سے واقف ہے، تو وہ اس وقت تک اللہ کے غیظ و غضب کا شکار رہتا ہے ، جب تک کہ اس معاملے سے نکل نہ جائے ’’۔ ( سنن ابوداؤد، ح : 3597)
(2) مختلف فیہ مسئلے میں ماہرین سے رجوع کرے، اگر مسئلہ شریعت سے تعلق رکھتا ہو، تو اہل علم اور فقہاء سے رجوع کرے، اگر طب سے تعلق رکھتا ہو، تو ماہر ڈاکٹروں سےرجوع کرے و علی ہذا القیاس۔
(3) اپنے مخالف کا احترام کرے، اثنائے بحث اس کی رائے کا استخفاف یا تحقیر نہ کرے اور زبردستی اس کی کمی کوتاہی کو نہ ڈھونڈے۔
(4) ایک مسلمان کا وطیرہ یہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی معاملے میں اختلاف سےاس کا مقصد حقیقت تک رسائی ہو، محض کسی کو نیچا دکھانا یا اپنی برتری ثابت کرنا نہ ہو۔
(5) بحث کے دوران گفتگو میں اچھے الفاظ استعمال کرے، جارحانہ فقروں اور جملوں کے استعمال سے احتیاط برتیں۔
(6) فریق مقابل کی بات اچھی طرح سنے اور بیچ ہی میں اس کی بات نہ کاٹیں۔ موجودہ عہد میں جب کہ ہر انسان اپنے آپ میں مگن ہے اور اسے صرف اور صرف اپنی فکر رہتی ہے، ایسے میں اس سے اگر کہا جائے کہ کسی سے اختلاف ہوتو نرمی برتواور سنجیدگی و ٹھنڈے پن کے ساتھ بات کرو، تو شاید ہی اس کے دل میں بات اترے، یہی وجہ ہے کہ آئے دن جھگڑوں بلکہ قتل و خوں ریزی تک کےمعاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مختلف طبقات اور مذاہب کے ماننے والے رہتےہیں اور بعض شہروں یا محلوں میں مخلوط آبادی ہوتی ہے، وہاں پربسا اوقات بہت معمولی معمولی بات کو لے کر فرقہ وارانہ فساد تک کی نوبت آجاتی ہے اور پھر مسلمانوں کو جان و مال کا بے تحاشہ نقصان سہنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح خود مسلمانوں میں بھی آپس میں اس قدر اختلافات ہیں کہ پناہ بخدا ! ہر شخص دوسرے سے دست وگریباں ہے،کسی کو کسی پر اعتماد نہیں ، کوئی کسی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، معمولی معمولی باتوں پر گولی بندوق تک کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسے میں ہمیں اختلافات کے تعلق سے اسلام کی مذکورہ تعلیمات و ہدایات کو پڑھنا اور سمجھنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ توجہ اختلافات کو ختم اور کم کرنے پر زور دینی چاہیے ،امت کو فی الوقت اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے اور انتشار اس کے لیے سب سےبڑا ناسور ہے۔
فروعی مسائل میں وقوعِ اختلاف کا تاریخی پس منظر
ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں، اس میں عداوت اسلام اور دین بیزاری کی اس قدر سرانڈ ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے ۔ اسلام کے نام پر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں پھیلی زہر ہلاہل ہے جسے چند ناعاقبت اندیش قند کہنے پر به ضد ہیں ۔مذہبی اسکالرز کے بہروپ میں کچھ نام نہاد دانشور ہیں، جو اسلام کے شجر سایہ دار کو بالکل جڑ سے اکھاڑ پھنکنے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل سے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے کہ کس کس کا جواب دیا جائے۔ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’فتنوں کا ایک سیلاب ہے کہ امنڈا چلا آرہا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں جاکر رکے گا؟ رسائل ہیں ،اخبارات ہیں ،ریسرچ کے انسٹی ٹیوٹ ہیں ،ثقافت کے ادارے ہیں۔ کہیں تعمیر نو کے نام پر تخریبِ دین ہے، کہیں عقائد اسلامیہ پر حملے ہیں، کہیں احکامِ شرعیہ سے انکار ہے، کہیں انکارِ سنت کا زور ہے، کہیں تحریفِ قرآن کا فتنہ ہے، کہیں جوازِ سود وتحلیلِ خمر کے فتوے ہیں، کہیں رقص وسرود کو جائز کرنے کے لیے تحقیقات ہو رہی ہیں، کہیں تعزیرات وحدود پر ہاتھ صاف کیا جارہا ہے، کہیں سلفِ صالحین سے بدظن کرنے کی مذموم کوشش ہورہی ہے، کہیں اسلامی نظام کی ناکامی کے دلائل پیش کیے جارہے ہیں۔ الغرض کہیں مستشرقین مصروفِ عمل ہیں تو کہیں ملاحدہ وزنادقہ اسلام سے بر سر پیکار ہیں ۔‘‘ "(دورِ حاضر کے تجدد پسندوں کے افکار ۔۔۔از مولانا یوسف لدھیانوی شہید، ص:۳۷۳)؛
بعض مغربیت زدہ" ’’محقق"‘‘ ہیں جو اصل معاملے کي تہہ تک جائے بغیر ہی فقہی اور فروعی "’’اختلاف‘‘ "کو "’’افتراق‘‘ "کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اور مذکورہ اختلاف کو امت میں تفرقہ بازی اور فرقہ واریت کے نام سے اچھالتے ہیں۔ راقم کے خیال میں امت مرحومہ میں فرقہ واریت اور زوال وانحطاط کی عظیم داستانِ اَلَمْ انہی کے افکار فاسدہ ونظریات باطلہ سے مربوط ہے ۔
حضور ﷺ کا مبارک ارشاد ہے کہ:’’بنی اسرائیل ۷۲ فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، سوائے ایک کے سب کے سب جہنم میں جائیں گے ،عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ! وہ کون لوگ ہوں گے جو نجات پائیں گے ؟ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جو لوگ اس راستے پر قائم رہیں گے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں ۔‘‘( ترمذی،ج:۲، ص:۹۳بابُ افتراقِ هذہ الأمۃ)؛
یہ تو سرورِ کائنات ﷺ کا فرمان ذی وقار ہے کہ مسائل کا حل میرے راستے اور میرے صحابہ کے راستے پر چلنے میں ہے؛ لیکن ایک نظر ادھر بھی فرمائیے، سرسید احمد خان رقم طراز ہیں: ’’یہ مسئلہ اسلام کا نہیں ہے کہ مذہب اسلام میں تہتر فرقے ہیں اور ناجی ان میں سے ایک ہی ہے یہ تو ایک موضوع روایت ہے جس کو اس زمانے کے لوگوں نے؛ جب كه مسلمانوں میں باہم مسائل فروعی میں اختلاف پڑا، اپنی تائید کے لیے بنالی۔ اس روایت کا موضوع ہونا روایتاً اور درایتاً محققین کے نزدیک ثابت ہے ۔‘‘(تہذیب الاخلاق از سرسید احمد خان،ص:۳۹۲ بحوالہ خود نوشت افکارِ سرسید احمد)؛
راقم پہلے عرض کر چکا ہے کہ بعض لوگ اپنی کم فہمی اور کم علمی کی بنیاد پر آیت کریمہ ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لاَ تَفَرَّقُوْا ‘‘(پ:۴،سورۃآل عمران آیت نمبر۱۰۳) وغیرہ کو مذکورہ فقہی اختلاف پر چسپاں کرتے ہیں جو سراسر عقل ودیانت کے خلاف ہونے کے ساتھ دین اسلام اور روحِ اسلام کے بھی بالکل منافی اور متصادم ہے۔ ذیل میں ہم چند نظائر بیان کرتے ہیں کہ باہم جزوی اور فروعی مسائل میں عہدِ نبوی میں بھی اختلاف رہا اور عہدِ صحابہ میں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں حضراتِ تابعینؒ اور ائمۂ متبوعینؒ تک چلتی رہیں ۔
امام بخاریؒ نے کتاب المغازی میں ایک روایت ذکر کی ہے "لاَ يُصَلِّيَنَّ اَحَدٌ العَصْرَ إلاَّ فِيْ بَنِيْ قُرَيْظَةَ " (بخاری ،محمد بن اسماعیل البخاری ؛ کتاب المغازی، ج:۲،ص:۵۱۹) تم ميں سے هر آدمی نماز عصر بنوقريظه هي ميں پڑھے! مگر ہوا کچھ یوں کہ بعض صحابهٔ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بنی قریظہ پہنچنے سے قبل ہی نماز عصر اس وجہ سے پڑھ لی کہ وقت بالکل ختم ہونے والا تھا اور ان کو یہ خوف دامن گیر ہوا كه کہیں نماز کا وقت ہی ختم نہ ہوجائے اورقضا ء نہ ہوجائے، ان حضرات نے فرمان نبوی لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ میں یہ اجتہاد کیا کہ جلدی پہنچنا ہے یعنی نماز عصر تک وہاں ضرور پہنچنا ہے ۔اس حکم کا تعلق ادائے صلوۃ سے نہیں؛ بلکہ جلد پہنچنے سے ہے، اب چونکہ وقت ختم ہورہا ہے اور نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا بھی ضروری ہے؛ اس لیے نماز کو ادا کر لیا؛ جبکہ دوسرے فریق نے الفاظِ حدیث سے یہی سمجھا کہ اس کے ظاہر پر عمل ضروری ہے؛ چنانچہ انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی نماز عصر ادا فرمائی ۔اس امر کی اطلاع جب پیغمبر دوجہاں ﷺ کو دی گئی تو آپ نے کسي کو غلط قرار نہیں دیا ۔
بدر کا معرکہ بپا ہوا۱۴ شیر دل جوان اسلام کے گلشن کو اپنے خون سے سینچ کر قاضی اجل کے فیصلے پر لبیک کہہ گئے ،ادھر کفار کو بھی سخت ہزیمت کا سامنا ہوا۷۰دشمنان اسلام کے خون سے زمین نے اپنے غصے کی آگ بجھائی،کفار کے تقریبا۷۰ افراد کو جنگی قیدی بنالیا گیا ۔اب معاملہ پیش آیا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ اس وقت صحابۂ کرام کی مختلف آرا سامنے آئیں ۔سیدنا عمر فاروقؓ اور حضرت سعد بن معاذؓ اس جانب کو ترجیح دیتے تھے کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے؛ جبکہ سیدنا صدیق اکبرؓکی رائے یہ تھی کہ ان سے فدیہ لے کر انھيں چھوڑ دیا جائے ۔ (التفسیر الکبیر للرازی،ج:۱۵،ص:۱۹۷)
یہ اختلاف رائے چنداں بُرا نہیں، اسی لیے علامہ ابن قدامہ نے اپنی شہرہ آفاق تالیف” المغنی“ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ فقہاء کا اتفاق حجت قاطعہ ہے اور اختلاف ”رحمت واسعہ، ”اتفافھم حجة قاطعة اختلافھم رحمة واسعة“۔
حضرت ابوبکرؓ کے پوتے مشہور فقیہ قاسم بن محمدؒ(م163ھ) فرمایا کرتے تھے کہ الله تعالیٰ نے صحابہؓ کے اختلاف سے فائدہ پہنچایا ہے کہ انسان ان میں سے کسی کی رائے پر عمل کرلے تو اسے خیال ہوگا کہ اس میں گنجائش ہے اور اس سے بہتر شخص (یعنی صحابی) نے اس پر عمل کیا ہے۔
چونکہ اس وقت ہمارے پیش نظر فقط باہم فروعی اور جزوی مسائل میں وقوعِ اختلاف کا پس منظر بیان کرنا ہے؛ اس لیے ہم صرف اپنے استشہادات ہی نقل کریں گے ۔
زمانۂ نبوی ﷺ میں صحابۂ کرام کے باہمی اختلافات کتبِ حدیث اورکتبِ سیر وتاریخ میں به کثرت ملتے ہیں ؛حتی کہ صحابۂ کرامؓ کا بعض امور میں نبیِ کریم ﷺ کی رائے کے موافق رائے نہ دینا بھی آیات وآثار سے مفہوم ہوتا ہے۔ مثلاً :منافق کے جنازہ نہ پڑھانے پر حضرت عمرؓ کا یہ عرض کرنا کہ یارسول اللہ ﷺ اس منافق کا جنازہ مت پڑھائیے۔ (التفسیر الکبیر،ج:۱۶،ص:۱۵۲تحت آیۃ لاتقم علی قبرہ)؛
قارئین! یقین جانیے جب دل میں خوفِ خدا ہو معاملہ نیک نیتی پر مبنی ہو، اختلاف کا سبب امرِ اجتہادی ہو اور اختلاف کرنے والے ماہرینِ شریعت ہوں تو ان سے صادر شدہ اختلاف کو رحمت کہا جائيگا، ہاں! اگر شرائط ِمذکورہ کا فقدان ہو تو پھر یہی اختلاف؛ افتراق کا زینہ بن جاتا ہے۔
آمدم برسر مطلب : سرورِ کائنات ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرما ہونے کے بعد آپ ﷺ مقامِ دفن پر بھی صحابۂ کرامؓ کی آراء میں اختلاف ہوا، الطبقات الکبری میں امام ابن سعد نے اس مقام کو بڑے هي بسط وتفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔(الطبقات الکبری لابن سعد،ج:۲،ص:۲۹۲)
اس کے بعد خلیفۃ المسلمین اور جانشینِ پیغمبر کے انتخاب کا وقت آیا تو اب کی بار بھی صحابہ میں اختلاف رائے ہوا، کافی بحث وتمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہوں گے ۔(تاریخ الخلفاء للسیوطیؒ،ص:۵۲)
اسی اثنا میں فتنۂ مانعین زکوۃ رونما ہوا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کي رائے یہ تھی کہ مانعینِ زکوۃ سے قتال کیا جائے؛ جبکہ حضرت فاروق اعظمؓ نے اپنی رائے کا اظہار کیاجو سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی رائے سے مختلف تھی ۔فتنۂ مانعینِ زکوۃ اور صحابۂ کرام کے علمی اختلاف کی وجوہات کو امام ابن کثیر نے البدایہ والنهایہ میں بالتفصیل لکھ دیا ہے ۔
(البدایہ والنهایہ لابن کثیرؒ،ج:۶،ص:۳۱۵)
فتنۂ مانعینِ زکوۃ کا سر سیدنا صدیق اکبر کی دلیری اور جواںمردی نے دیگر صحابۂ کرام کے تعاون سے جب کچل ڈالا، تو حضرت عمرؓ نے خلیفۃ المسلمین سیدنا صدیق اکبرؓ سے بصد احترام التماس کیا کہ اسلام روز افزوں ترقی کی شاه راہ پر گامزن ہے؛ اس لیے بلاد عرب سے نکل کر سارے عالم میں جانے لگا ہے، میری تجویز یہ ہے کہ قرآن کریم کو یکجا جمع کردیا جائے۔ اولاً جناب صدیق اکبر نے یہ کہا کہ: جوکام نبی نے نہیں کیا، ابو بکر اُسے كيسے كرسكتا هے؟ لیکن حضرت عمرؓ کے بار بار اصرار پر جناب صدیق اکبر کو اس معاملے میں انشراح ہو گیا۔
(صحیح البخاری،ج:۲،ص:۷۴۵باب جمع القرآن)
فقہی اختلاف کی قرآنی شہادت : قرآنِ کریم میں دو جلیل القدر انبیاء حضرت داود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا تذکرہ موجود ہے، جن کے مابین فروعی اختلاف ہوا، جسےاوراقِ قرآنیہ نے آج تلک اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔(پ۱۷،سورۃ الانبیاءآیت۷۸)
لسانِ نبوت سے ماجور ہونے کی شہادت : اس میں کوئی سچا اور کوئی جھوٹا والا معاملہ نہیں ہوتا؛ بلکہ به موجبِ حدیث اگر مجتہد صحیح اور درست بات تک رسائی حاصل کر لے تو ’’فَلَہ أجْرَانِ‘‘ اور اگر اس میں اس کو خطا بھی ہوجائے تب بھی اس مخطی کو گناہ وعقاب وعتاب نہیں؛ بلکہ فلہ اجر کا وعدہ اوراعزاز بخشا گیا ہے۔(صحیح البخاری،ج:۲،ص:۱۰۹۲، صحیح مسلم،ج:۲،ص:۷۶)؛
مذکورہ بالا حقائق جاننے کے بعد قارئین پر یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہوگی کہ ہراختلاف مذموم نہیں؛ بلکہ اختلاف محمود بھی ہوتا ہے ۔ امام عبدالقادر بن طاہر البغدادیؒ نے فرمایا كه اس وجہ سے آپ ﷺ نے فقہاء کے اختلاف کو مذموم نہیں کہا؛ کیونکہ یہ اصولِ دین میں متفق ہیں۔(الفرق بین الفرق،ص:۶)
بلکہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے ’الاعتصام ‘‘میں لکھا ہے کہ فَاِخْتِلَافُهُمْ فِي الْفُرُوْعِ كَاِتِّفَاقِهِمْ فِيْهَا، ان کا اختلاف ان کے اتفاق کے مثل ہے ۔(الاعتصام،ج:۲،ص:۱۶۹)
قارئینِ کرام: مقصد ان واقعات کا مکمل احصاء نہیں؛ بلکہ ایسے چند نظائر کو سامنے لانا تھا، جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ اختلاف عہدِ نبوی سے موجود ہے؛ بلکہ اس اختلاف پر عہدِ نبوی ہی سے ماجور ہونے کا سہرا سجا ہوا ہے؛ اس لیے فقہاء کرام امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا باہم دلائل کی بنیاد پر کسی بھی جزوی اور فروعی مسئلے میں مختلف رائے رکھنا ہر گز فرقہ واریت نہیں؛ بلکہ انہی ائمہ اربعہ میں منحصر رہنے سےہی فتنوں سے بچا جا سکتا ہے ۔(عقدالجید، از: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی )
اگر ہر شخص کو اختیار ہو کہ مسائلِ غیر منصوصہ میں جو چاہےاپنی رائے قائم کر لے تو بتلائیےیہ دینِ متین کھلونا بنے گا یا نہیں؟ ہر فردِ بشر اپنی عقلِ نارسا کو حرفِ آخر گرداننے لگے گا اور اسی کے مطابق عمل کرے گا، اس مضحکہ خیز صورتِ حال پر سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کیا ہوگا ؟
اس حقیقت کو تسلیم کرلینے سے مسلمانوں کا باہمی جدل وانتشار اور غلط فہمیاں بجائے خود دم توڑ دیتی ہیں؛ بلکہ شکوک وشبہات اور وساوس وتحفظات کا بھی ازالہ ہوجاتا ہے؛ لیکن جب حقائق سے منہ موڑ لیا جائے اور اپنی تمام تر توانیاں اس بات پر صرف کرنے کی کوشش کی جائے کہ اختلاف۔۔۔۔۔حتی کہ ماہرین شریعت فقہاء کا باہم فروعی اورجزوی اختلاف ۔۔۔۔۔امت میں افتراق کا سبب ہے تو ایسی سرگرمیوں کے نتائج اس سے مختلف نہیں ہوسکتے، جن کا آج ہم کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں ۔
اهلِ ھوٰی کا ہر دور میں یہ وسوسہ رہا ہے، اجتہاد کی کوئی ضرورت اور اہمیت نہیں؛ بلکہ فقہ من گھڑت اورفرضی دین ہے ۔آخر یہ نادان لوگ کیوں نہیں سمجھ پا رہے هيں کہ معاشرے میں انتشار، انارکی، فساد ،فرقہ واریت ،دین بیزاری کے مہلک جُرثومے اسی مسموم چشمے کی پیداوار ہیں۔ آج بھی اگر اس کی جگہ محبت وخلوص کا چشمۂ صافی چل پڑے تو ان کے قلوب میں رچی بسی فریب خوردگی کے خس وخاشاک کو بہا کر لے جائے ۔
***
====================================
أهل_السنة والجماعة (حنفی-مالکی-شافعی-حنبلی) کا اختلاف فقہ (سمجھنے) میں ہی ہے، اصول (عقائد) میں ان کا اختلاف نہیں:
مذاہب أربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین اختلافات کے اسباب ، اور کیا آئمہ مجتہدین کا فروعی مسائل میں اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟
مذکوره بالا عنوان کے تحت انتہائ اختصار کے ساتهہ چند اہم باتیں ذکر کروں گا تاکہ ایک عام مسلمان جان سکے کہ مذاہب اربعه (چار اماموں کی مختلف آراء) اور آئمہ مجتہدین اور فقہاء اسلام کے مابین مسائل میں اختلاف (راۓ) کی وجوہات کیا ہیں اور کیا یہ اختلاف (راۓ) تفرقہ بازی ہے اور آپس میں جنگ و جدل اور حسد و بغض کی وجہ سے ہے یا کسی اور جائز و مقبول و معقول امور کی وجہ سے ہے ؟؟
مذاهب(آراء) اسلاميه و مذاهب أربعه (چار اماموں کی مختلف آراء) کا فروعی مسائل میں اختلاف (راۓ) امت کے لیئے رحمت و یُسر و آسانی ہے اور یہ الله تعالى کا فضل و کرم ہے کہ مذاهب (آراء) مُعتبره مذاهب أربعه (یعنی مالكيه و حنفيه وشافعيه و حنابله کی مختلف آراء) کے مابین عقائد و أصول الدين میں کوئ اختلاف نہیں ہے بلکہ فروعی مسائل میں ایک جُزئي اور غیر مُضر اختلاف (راۓ) ہے اور یہ اختلاف (راۓ) بهی شرعی دلائل و براہین کی بنیاد پر ہے اور تاريخ الإسلام میں کبهی یہ نہیں سنا گیا کہ مذاهب أربعه (چار اماموں کی مختلف آراء) کا اختلاف محض جهگڑا و نزاع و فساد ہے ، معاذالله
إمام السيوطي رحمه الله نے اپنے رسالہ "جزيل المواهب في اختلاف المذاهب" میں بڑی بہترین بات لکهی ہے فرمایا: خوب جان لو کہ مذاهب (أربعه ) کا اختلاف ملت اسلام میں ایک بڑی نعمت ہے اور ایک عظيم فضیلت ہے اور اس اختلاف کا ایک لطيف و باریک راز ہے جس کا ادراک علماء کو ہے جُہلاء اس لطيف و باریک راز کے ادراک و سجهہ سے اندهے ہیں حتی کہ میں نے بعض جُهال سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبي صلى الله عليه و على آله وسلم ایک شریعت لے کر آئے تو یہ مذاهب أربعه (چار اماموں کی مختلف آراء) کہاں سے آگئیں ؟؟ . الإمام السيوطي رحمه الله کی طرح دیگر بے شمار علماء امت نے بهی اسی طرح کا کلام کیا ہے اورالإمام السيوطي رحمه الله کی تصریح کے مطابق جو لوگ مذاهب(چار اماموں کی مختلف آراء) أربعه اور ان کے علماء و فقہاء کو برا و غلط کہتے ہیں ایسے لوگ جاہل اور کوڑ مغز ہیں شریعت کے اسرار و لطائف سے بے خبر ہیں ، جیسا کہ معلوم ہے کہ فی زمانہ کچهہ جاہل لوگ عوام الناس کو دین میں آزاد و بے باک بنانے کے لیئے مختلف قسم کے وساوس پهیلا کر لوگوں کو بے راه کرتے ہیں من جملہ ان وساوس کے ایک وسوسہ یہ بهی پهیلایا جاتا ہے کہ مذاہب اربعه(چار اماموں کی مختلف آراء) اور آئمہ اربعه کے درمیان بڑا اختلاف و جهگڑا پایا جاتا ہے لہذا دین کے معاملہ میں ان چاروں مذاهب(چار اماموں کی مختلف آراء) کو چهوڑنا ازحد ضروری ہے ، یاد رہے کہ نصوص کی سمجهہ و فہم میں اختلاف (یعنی مختلف آراء) صحابة کرام رضي الله عنهم کے مابین اور پهر ان کے بعد علماء امت کے مابین موجود چلا آرہا ہے اور اس بات کا انکار کوئ بڑا جاہل اور عقل و علم و حس سے محروم شخص ہی کرے گا ، اور پهر فروعی مسائل میں آئمہ مجتہدین کے مابین اختلاف جنگ و فساد نہیں (معاذ الله ) بلکہ امت کے لیئے رحمت ہے اور اس امت مرحُومہ پر الله تعالی کی بے شمار احسانات میں سے ایک اہم احسان یہ بهی ہے کہ اس امت کے علماء کے اتفاق کو الله تعالی نے حُجة قاطعه بنایا ہے اور ان کے اختلاف کو رحمت و وسعت بنایا ہے، اور پهر فروعی مسائل میں اختلاف صرف مذاہب(آراء) اربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بهی موجود تها اورصحابہ کرام جو دین اسلام اور قرآن و سنت کے اولین راوی و ناقل و حامل جماعت ہے, ہم تک سارا دین انهی مقدس و محترم شخصیات کے واسطے سے پہنچا ہے لہذا جب ان کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف موجود تها تو لازم ہے کہ ان کے بعد آنے والے تابعین و تبع تابعین و علماء امت کے درمیان بهی یہ اختلاف موجود ہو اور ایسا ہی ہوا کہ بعد کے آئمہ مجتہدین و علماء اسلام کے مابین یہ اختلاف موجود چلا آرہا ہے
*********************
اختلاف کی تعریف و اقسام
خلاف کی لغوی تعریف ہے : الاختلاف و المخالفة ، یعنی ایک شخص حال یا قول میں دوسرے کے مخالف رائے و مَنہج اختیار کرے
اور خلاف کی اصطلاحی تعریف ہے ، کہ کسی کے ساتهہ قول یا رأي یا حالت یا هيئت یا مُوقف میں مخالف کرنا
یعنی خلاف یہ ہے کہ طرفين میں سے ہر ایک دوسرے کے مخالف ہو
اختلاف کے اقسام:
علماء کرام نے اسلام میں رد و قبول کے اعتبار سے اختلاف کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں : پہلی قسم ہے اختلاف تـَنـَوُّع ، دوسری قسم ہے اختلاف تـَضـَاد
١) اختلاف تـَنـَوُّع : تـَنـَوُّع کا مطلب یہ ہے کہ کوئ چیز متعدد ہو لیکن حقیقت میں متفق ہو، یعنی ہر وه اختلاف جس میں کئ وجوہات جائز ہوں ، اور اس اختلاف میں مُنافات نہیں ہوتا یعنی ایک قول دوسرے کی نفي و إبطال نہیں کرتا بلکہ ہر قول دوسرے کا ایک نوع ہوتا ہے ضد نہیں ہوتا ، اور اس میں تمام اقوال صحیح ہوتے ہیں ، اور پهر یہ کئ قسم پر ہوتا ہے مثلا ایک یہ کہ دونوں فعل اور دونوں قول جائز و حق ہوں جیسا کہ قرآن کی قراأت کہ صحابہ کے مابین ان میں اختلاف ہوا;
وعن ابن مسعود قال : سمعت رجلا قرأ ، وسمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ خلافها فجئت به النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته ، فعرفت في وجهه الكراهة ، فقال : كلاكما محسن فلا تختلفوا الخ (رواه البخاري)
ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قراءت کرتے ہوئے سنا حالانکہ میں نے نبی صلى الله عليه وسلم سے اس کے برخلاف پڑهتے ہوئے سنا تها یعنی جو قراءت یہ آدمی پڑهہ رہا تها نبی صلى الله عليه وسلم سے میں نے اس طرح نہیں سنا لہذا میں نے اس کو نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر کیا اور میں نے نبی صلى الله عليه وسلم کو اس اختلاف کی خبردی، پس میں نے نبی صلى الله عليه وسلم کے چہره ( مبارک ) پر ناپسندیدگی کے آثار دیکهے، اور نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "تم دونوں درست ہو" یعنی قراءت کی روایت میں.
علامہ طيبي رحمه الله فرماتے ہیں کہ وه آدمی اپنی قراءت میں درست ہے اور ابن مسعود رضی الله عنہ نے جو نبی صلى الله عليه وسلم سے سنا وه اس میں درست ہے
اسی طرح دو مختلف معانی کسی قول سے لیئے جائیں لیکن دونوں متضاد نہ ہوں بلکہ دونوں قول باوجود مختلف ہونے کے صحیح ہوں اور یہ اکثر اختلافی مسائل میں موجود ہے اور اس طرح کا اختلاف خود رسول الله صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں واقع ہوا ہے اور آپ نے دونوں اقوال کو درست قراردیا، مثال اس کی یہ ہے : غزوة الأحزاب کے بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يصلين العصر إلا في بني قريظة" (رواه البخاري ومسلم وغيرهما). یعنی جو شخص الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکهتا ہے وه عصرکی نماز نہ پڑهے مگر بَنی قریظہ میں، اب جب غروب کا وقت قریب ہوگیا تو رسول الله صلى الله عليه وسلم کے اس قول مبارک کے سمجهنے میں صحابہ کرام کے مابین اختلاف واقع ہوگیا، اب بعض صحابہ نے یہ سمجها کہ مراد اس قول سے سرعت اور جلدی ہے اور اگر نماز کا وقت راستے میں آجائے تو راستے میں پڑهہ لی جائے لہذا انهوں نے عصر کی نماز راستے میں ہی پڑهہ لی ، لیکن بعض صحابہ نے راستے میں نماز نہیں پڑهی اور اس قول کا مطلب یہ سمجها کہ ہم عصر کی نماز بني قريظة میں ہی پڑهیں گے اگرچہ غروب کے بعد ہی کیوں نہ ہو ، رسولُ الله صلى الله عليه وسلم نے کسی ایک پر بهی انکار نہیں فرمایا بلکہ دونوں کو صحیح قرار دیا ، اوراس طرح کے اختلاف میں دونوں فریق بلاشک مُصیب اور درست ہیں.
اور یاد رہے کہ اسی قسم کا اختلاف مذاہب(آراء) اربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین بهی بکثرت موجود ہے، کیا کوئ عقل مند شخص مذکوره بالا حدیث پڑهنے کے بعد یہ کہ سکتا ہے کہ معاذالله یہ اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟ یقینا نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ یہ بات تو ایک جاہل و مجہول علم و عقل سے کوسوں دور شخص ہی کرے گا،
یادرہے کہ تمام فروعی اختلافی مسائل اسی قسم کے تحت آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اختلاف جائز و مقبول و محمود ہے اور ائمہ اربعہ کا اختلاف اذان و اقامت، و استفتاح ، و تشهد وغیره کے الفاظ میں اسی طرح صلاة الخوف و تكبيرات العيد، و تكبيرات الجنازة ، و فاتحة خلف الامام ، رفع یدین و عدم رفع یدین ، و آمین بالجهر وغیره مسائل میں اختلاف اسی قبیل سے ہیں الخ
میں پهر عرض کرتا ہوں کہ یہ اختلاف معاذالله ضد و فساد و تفرقہ بازی و بائیکاٹ نہیں ہے بلکہ اس فروعی اختلاف کے باوجود سلف صالحین و علماء اسلام آپس میں انتہاء درجہ محبت و عقیدت رکهتے تهے اور ایک دوسرے کو گمراه اور غلط و باطل نہیں کہتے تهے اس بارے میں سلف صالحین کی سیرتوں میں بے شمار واقعات و مثالیں موجود ہیں، میں صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں: إمام دار الهجرة إمام مالك بن أنس رحمه الله نے أهل المدينه یعنی أولاد صحابه سے علم حاصل کیا اور اسی علم کو اپنی کتاب مُوطأ میں جمع کیا ، إمام الشافعي رحمه الله نے إمام مالك بن أنس رحمه الله سے شرف تلمذ حاصل کیا اوران سے علم حاصل کیا اور ان کی احادیث کو روایت کیا ، لیکن اس سب کچهہ کے باوجود إمام الشافعي رحمه الله نے بہت سارے اجتہادی مسائل میں إمام مالك بن أنس رحمه الله کی مخالفت کی، لیکن کبهی بهی إمام مالك رحمه الله کے اجتہاد کو غلط نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ: "أنا مجتهد وهو مجتهد ولكل مجتهد نصيب" ، یعنی میں بهی مجتہد ہوں اور وہ (إمام مالك) بهی مجتهد ہے اور ہر مجتهد کا اپنا نصیب و حصہ ہے.
اور جب إمام الشافعي رحمه الله سے یہ کہا گیا کہ کیا ہم إمام مالك کے مُقلد کے پیچهے نماز پڑهہ سکتے ہیں ؟؟ تو إمام الشافعي رحمه الله غصہ ہوئے اور فرمایا کہ: "ألستُ أصلي خلف مالك ؟", کیا میں إمام مالك کے پیچهے نماز نہیں پڑهتا ؟
یعنی إمام مالك تو میرا شیخ و استاذ ہے لہذا میں ان کے پیچهے نماز پڑهتا ہوں اگرچہ میں نے بعض أمور اجتهاديه میں ان کی مخالفت کی ہے. مثلا: إمام مالك رحمه الله فاتحه اور سورت میں بسم الله جهرا (اونچی آواز سے ) پڑهنے کے قائل نہیں ہیں، لیکن إمام الشافعي رحمه الله بسم الله جهرا پڑهنے کے قائل ہیں وغیره ذالک اور یہی حال دیگر تمام ائمہ مجتهدین کا ہے ، رحمهم الله تعالی
حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله اپنی کتاب "حجة الله البالغة" میں اختلاف الصحابة في الأحكام كثير عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ صحابہ تابعین اور ان کے بعد کے علماء میں بعض بسم الله پڑهتے تهے اور بعض نہیں پڑهتے تهے ، اور بعض بسم الله (نماز میں) جهرا (اونچی آواز سے ) پڑهتے تهے اور بعض جهرا نہیں پڑهتے تهے ، اور بعض فجر کی نماز میں قنوت پڑهتے تهے اور بعض نہیں پڑهتے تهے، اور بعض حجامت (سینگی لگانے ) اور نکسیر اور قيء کے بعد وضوء کرتے تهے اور بعض نہیں کرتے تهے ، اور بعض مَس ذكر اور عورت کو شہوت کے ساتهہ چهونے کے بعد وضوء کرتے اور بعض نہیں کرتے تهے ، اور بعض آگ سے پکی ہوئ چیز کهانے کے بعد وضوء کرتے تهے اور بعض نہیں کرتے تهے، اور بعض اونٹ کا گوشت کهانے کے بعد وضوء کرتے تهے اور بعض نہیں کرتے تهے....، پهر حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله نے فرمایا کہ: "ائمہ کا یہ اختلاف اندهی تعصب کی وجہ سے نہیں تها ( بلکہ شرعی دلیل کی بنیاد پر تها ) لہذا باوجود اس اختلاف کے وه ایک دوسرے کے پیچهے نماز پڑهتے تهے, جیسے امام أبو حنيفة اور ان کے أصحاب اور امام شافعي وغيرهم رضي الله عنهم مدینہ کے مالكي مذهب کے ائمہ کے پیچهے نماز پڑهتے تهے, اگرچہ وه نماز میں بسم الله سراً اور جهراً نہیں پڑهتے. اور هارون الرشید نے سینگی لگانے کے بعد نماز پڑهائ اور الإمام أبو يوسف حنفی نے ان کی امامت نماز پڑهی اور نماز کا اعاده نہیں کیا، الإمام أحمد بن حنبل سینگی اور نکسیر آنے کے بعد وضوء کے قائل تهے، ان سے کہا گیا کہ اگر امام کا خون نکل گیا اور وضوء نہیں کیا تو آپ اس کے پیچهے نماز پڑهتے ہیں ؟؟ تو فرمایا کیوں نہیں میں الإمام مالك و سعيد بن المسيب کے پیچهے نماز پڑهتا ہوں، اور روایت کیا گیا ہے کہ امام أبو يوسف و امام محمد عیدین میں ابن عباس رضی الله عنهما کی تکبیر کہتے تهے کیونکہ هارون الرشيد اس تکبیر کو پسند کرتے تهے، اور امام الشافعي رحمه الله نے امام أبي حنيفة رحمه الله کی مقبره کے قریب صبح کی نماز پڑهی تو امام أبي حنيفة رحمه الله کی ادب کی وجہ سے نماز میں قنوت نہیں پڑها، اور امام الشافعي رحمه الله نے یہ بهی فرمایا کہ کئ دفعہ ہم أهلُ العراق کے مذهب کو بهی لیتے ہیں الخ
یاد رہے کہ حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله نے اس باب میں ایک مستقل کتاب بنام "ألانصاف في بيان أسباب الاختلاف" لکهی ہے ، یہ کتاب حجم میں تو اتنی بڑی نہیں ہے لیکن معارف و حقائق سے بهرپور ہے اور تاريخ التشريع اور فقهی اختلافات کے اسباب و علل وغیره مسائل پر مشتمل انتہائ اہم کتاب ہے, اهل علم اس کتاب سے استفاده کرسکتے ہیں، اسی طرح الإمام السيوطي رحمه اللَّه نے اس باب میں "جزيلُ المَواهِب في اختلاف المَذاهب" کے نام سے ایک رسالہ لکها ہے ، اور بہت سارے علماء امت نے اس باب میں کتب و رسائل و مستقل ابحاث لکهی ہیں.
وقال الشيخ شاه ولي الله الدهلوي تحت عنوان اختلاف الصحابة في الأحكام كثير ، ما نصه :[ وقد كان في الصحابة والتابعين ومن بعدهم من يقرأ البسملة ومنهم من لا يقرؤها ومنهم من يجهر بها ومنهم من لا يجهر بها وكان منهم من يقنت في الفجر ومنهم من لا يقنت في الفجر ومنهم من يتوضأ من الحجامة والرعاف والقيء ومنهم من لا يتوضأ من ذلك ومنهم من يتوضأ من مس الذكر ومس النساء بشهوة ومنهم من لا يتوضأ من ذلك ومنهم من يتوضأ مما مسته النار ومنهم من لا يتوضأ من ذلك ومنهم من يتوضأ من أكل لحم الإبل ومنهم من لا يتوضأ من ذلك .ثم قال الشيخ الدهلوي : ما كان خلاف الأئمة تعصباً أعمى : ومع هذا فكان بعضهم يصلي خلف بعض مثل ما كان أبو حنيفة وأصحابه والشافعي وغيرهم رضي الله عنهم يصلون خلف أئمة المدينة من المالكية وغيرهم وإن كانوا لا يقرؤون البسملة لا سراً ولا جهراً . وصلى الرشيد إماماً وقد احتجم فصلى الإمام أبو يوسف خلفه ولم يعد . وكان الإمام أحمد بن حنبل يرى الوضوء من الرعاف والحجامة فقيل له : فإن كان الإمام قد خرج منه الدم ولم يتوضأ هل تصلي خلفه ؟ فقال : كيف لا أصلي خلف الإمام مالك وسعيد بن المسيب . وروي أن أبا يوسف ومحمداً كانا يكبران في العيدين تكبير ابن عباس لأن هارون الرشيد كان يحب تكبير جده . وصلى الشافعي رحمه الله الصبح قريباً من مقبرة أبي حنيفة رحمه الله فلم يقنت تأدباً معه وقال أيضاً : ربما انحدرنا إلى مذهب أهل العراق … وفي البزازية عن الإمام الثاني وهو أبو يوسف رحمه الله أنه صلى يوم الجمعة مغتسلاً من الحمام وصلى بالناس وتفرقوا ثم أخبر بوجود فأرة ميتة في بئر الحمام فقال : إذاً نأخذ بقول إخواننا من أهل المدينة إذا بلغ الماء قلتين لم يحمل خبثاً [حجة الله البالغة 1/295،296]
حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله کا یہ کلام پڑهنے کے بعد یہ بات کتنی واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ ائمہ مجتهدین و سلف صالحین کے مابین فروعی و اجتہادی مسائل میں اختلاف شرعی دلیل و برہان کی بناء پر تها ضد و تعصب و حسد و نفرت کی بنیاد پر نہیں تها ، اور پهر اس اختلاف کے باوجود وه ایک دوسرے پر غلط و باطل ہونے کا فتوی نہیں لگاتے بلکہ آپس میں باہم شیر و شکر تهے اور ایک دوسرے کے اجتہادات کا احترام کرتے تهے اور آپس میں حد درجہ احترام و عقیدت کا رشتہ رکهتے تهے اور ادب و احترام کے اتنے اونچے مقام پر فائز تهے کہ بعض دفعہ دوسرے کسی مجتهد کے قول کے خاطر اپنے اجتہادی قول پر عمل بهی چهوڑ دیتے جیسا اوپر امام الشافعي رحمه الله کی بات ذکر ہوئ کہ انهوں نے امام اعظم أبي حنيفة رحمه الله کی ادب کی وجہ سے صبح کی نماز میں قنوت نہیں پڑها حالانکہ ان کا قول و اجتہاد قنوت پڑهنے کا ہے.
حاصل یہ کہ ان اکابر اعلام و اسلاف امت کے اس طرح واقعات و احوال بکثرت موجود ہیں ، لیکن بدقسمتی سے ہمارے اس دور میں کچهہ ایسے جاہل لوگ بهی پیدا ہوئے جن کا مقصد عوام ُالناس کو دین میں آزاد و شتر بے مہار کرنا ہے ایسے جاہل لوگوں نے عوام ُالناس کو بے راه کرنے کے لیئے بڑے خوبصورت حیلے بہانے اور وساوس تیار کر رکهے ہیں ، ان وساوس میں سے ایک وسوسہ یہ بهی تیار کیا کہ ائمہ مجتهدین اور مذاهب اربعه کے مابین اختلاف ہے اور فتنہ و فساد ہے لہذا ان کو خیرباد کہنا ضروری ہے اور اس طرح ایک عامی شخص یہ وسوسہ اگر قبول کرلیتا ہے اور ائمہ مجتهدین سے بدظن و متنفر ہوجاتا ہے اور ان کی برائ و تحقیر شروع کردیتا ہے تو یہ شخص گمراہی کی وادی میں قدم رکهہ لیتا ہے اور پهر جتنا آگے بڑهتا ہے علم و هدایت سے دور چلا جاتا ہے ، معاذالله
٢) اختلاف تـَضـَاد : تـَضـَاد لغت میں ضد کو کہتے ہیں جمع اس کی أضداد آتی ہے اور لغت میں "ضِدُّ الشَيء" کسی چیز کے مخالف و مُبائن اور الٹ چیز کو کہا جاتا ہے اور دو مَتضَاد چیزیں وه ہوتی ہیں جو آپس میں جمع نہیں ہوسکے. جیسے دن اور رات یعنی دو چیزوں میں اختلاف تـَضـَاد کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا اجتماع ناممکن ہو ، بعض علماء نے اختلاف تـَضـَاد کی تعریف "ألقـَولان المُتنـَافِيَـان" سے کی ہے ، اور پهر یہ اختلاف اصول میں ہوتا ہے اور یقینا اهل سنت کے مابین اصول دین میں کوئ اختلاف نہیں ہے لہذا یہ اختلاف مذموم و ناجائز ہے، مثال اس کی جیسا کہ أهل حق أهل سنت والجماعت کا اختلاف فِرَق باطلہ وضالہ و أهل البدع کے ساتهہ اصول دین میں:
كمـا قـال تعـالى : فَذَلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمُ الحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ[يونس:32]؛
وقـال تعـالى : وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ [يونس:36]؛
=========================================
اسبابِ اختلافِ ائمہؒ پر مشتمل یہ معركة الآراء رسالہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رح کا ہے جو نامکمل ہونے کے باوجود اتنا مقبول و نافع ہوا کہ احباب کے اصرار پر حصہ اول کرکے طبع کرلیا گیا. ارادہ تو مزید تفصیلی مضامین لکھنے کا تھا، لیکن مشاغل علمی و تالیفی بڑھتے ہی گئے اور تکمیل کی نوبت نہیں آسکی.
عرصہ سے یہ اشکال قلوب سے زبانوں تک پر آرہے ہیں کہ جب ائمہ_مجتہدین الله کے رسول ﷺ کے اقوال و افعال سے استدلال فرماتے ہیں تو ان کے مابین اختلاف کیوں ہے، بالخصوص مناظروں کی گرم بازاری اور اختلافی مسائل پر عام رسائل کے شیوع نے اس اشکال کی اور بھی بہت بری صورت بندی ہے. اس لئے نہایت ضروری ہوا کہ اصل اختلافات کا مبنیٰ ظاھر کیا جاۓ اور ابتداۓ زمانہ سے اختلاف کی وجوہ بتلاکر اس پر متنبہ کیا جاۓ کہ نہ صرف روایات کا اختلاف ایسا ہے جس کی
وجہ سے نبی اکرم ﷺ کی عالی بارگاہ میں شبہہ کی گنجائش ہو نہ اس کے بعد صحابہ، تابعین اور ائمہ مجتہدین کی شان میں گستاخی کی گنجائش ملے بلکہ حقیقتاً جملہ مجتہدین صراط_مستقیم ہی کے پیش رو تھے اور اسی کی طرف داعی و ہادی تھے، ان کی شان میں گستاخی حرمان کی علامت ہے. العياذ بالله
چونکہ اس اختلاف کے حقیقتاً تین (٣) دور ہیں:
١) اختلاف_روایات : یعنی نبی کفر و ایمان کا اختلاف، حق و باطل کا اختلاف ہے، لیکن اس اختلاف کا مطلب بھی لڑائی اور نفرتیں نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحبِ ایمان اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور اس پر عمل پیرا ہو، لیکن جو غیرمسلم ہے اس سے نفرت نہیں، نفرت کفرت سے ہے، کافر کی ذات سے نہیں۔ نفرت فسق سے ہے فاسق کی ذات سے نہیں، لہٰذا غیرمسلموں سے نفرت کرنا اسلام اور ہمارے دین نے نہیں سکھایا۔ جو شخص کفر کی گمراہی میں مبتلا ہے وہ درحقیقت غصے اور نفرت کا مستحق نہیں، بلکہ رحمدلی کا مستحق ہے۔ یعنی یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو غلط راستے سے نکال کر صحیح راستے پر لے آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور آگ کے اندر پروانے آآکر گررہے ہیں اور میں کولیاں بھر بھرکے ان کو آگ سے بچانا اور ہٹانا چاہتا ہوں اور اس فکر میں ہوں کسی طرح یہ بچ جائیں۔ کافر لوگ نفرت کررہے ہیں اور نفرت ہی نہیں کررہے، بلکہ گالیاں دے رہے ہیں، پتھر برسارہے ہیں، لیکن نبی رحمت سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِی فَاِنَّھُمَّ لَایَعْلَمُوْن‘‘ اے رب! ان کو ہدایت عطا فرمادیجیے، ان کو ابھی حقیقت کا پتا نہیں ہے۔ اگر نفرت ہوتی تویہ نہ فرماتے کہ یااللہ! ان کو تباہ نہ کیجیے، ان کو برباد نہ کیجیے، ہوسکتا ہے کہ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو حق کے علم بردار ہوں جو لوگ پتھر برسارہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، دشمنی کررہے ہیں، ان کے ساتھ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ تھا کہ راتوں کو رو رہے ہیں اور جان ہلکان کیے ہوئے کہ کسی طرح یہ راہ راست پر آجائیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا ’’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن‘‘ (الشعرائ: آیت 3) کہ کیا آپ اپنی جان کو ہلاک کر ڈالیں گے اس بناء پر کہ یہ ایمان نہیں لارہے، آپ نے اپنا فریضہ ادا کردیا، قرآن آپ کو تسلی دینے سے بھرا ہوا ہے تو اگر نفرت ہوتی تو یہ دردمندی نہ ہوتی۔
کے اقوال و افعال میں جو "بظاھر" اختلاف معلوم ہوتا ہے،
٢) اختلاف_آثار : صحابہ و تابعین رضوان الله علیھم اجمعین کے دور میں آکر کسی مجتہد کا قول مختار ہونے کی وجہ سے اس کے متبعین و مقلدین کے لئے ہمیشہ کا معمول بن گیا، اس لئے اس رسالہ میں علیحدہ علیحدہ اجمالی گفتگو کی گئی ہے اور دوسرا و تیسرا اختلاف حقیقتاً پہلے ہی اختلاف کی فرع (شاخ) ہے اسی لئے اسی ترتیب سے اس تحریر کو پیش کیا گیا ہے.
الله تعالیٰ اس قابل_قدر سعی کو قبول و منظور فرماکر لوگوں کے لئے منتفع فرماۓ. آمین
===============================
Online Read OR Download Free : HERE
If the Imams of the four schools [madhahib] established all of their rulings from the Qurâan and the Sunnah, why have they differed on so many points? How can two authentic narrations from the Messenger of Allah appear to contradict one another? When is it acceptable for Muslims to differ over religious matters? What did the Messenger mean when he said, The differences of my Ummah are a source of mercy?
Using examples from the Messenger of Allah , his Companions, and their Followers, The Differences of the Imams answers these puzzling questions in a thorough and concise manner. In a clear and lucid style, the author illustrates the various ways in which different narrations seem to contradict one another and how the Companions and the Imams of jurisprudence have reconciled these apparent differences. This work is an excellent resource for anyone seeking to better understand some of the deeper issues of hadith and jurisprudence: how these two disciplines come together to form the basis of Islamic law [Shari'a], why it is necessary to follow a school of Islamic law, and what the basic principles of hadith scholarship are
=========================================
وقد اتفقت كلمة علماء الأمة على أن أحكام الشريعة كلها معللة بمصالح العباد، ولأجلها شرعت، سواء منها ما هدانا الله لمعرفته بالنص عليه أو بالإيماء إليه؛ وما لم نهتد اليه فلحكمة يعلمها الله جل شأنه، ولذلك فإن كثيرا من الأحكام الاجتهادية تتغير بتغير الأزمنة، وقد تختلف باختلاف الأشخاص وطاقاتهم وقدراتهم وظروفهم.
كذلك ينبغي أن نصوص الكتاب والسنة، منها ما هو قطعي في ثبوته، وهو القرآن العظيم والمتواتر من السنة.. وأن من السنة ما هو ظني في ثبوته، مثل: أخبار الآحاد. ودلالة النص قد تكون ظنية، قد تكون قطعية كذلك، ومعرفة كل ذلك له أثره في الاستنباط والاجتهاد والفهم من النص، فليس لأحد أن ينكر على الآخرين ما قد يفهمونه من النص من فهم مخالف لفهمه، ما دام اللفظ يحتمله، والدليل يتسع له، ونصوص الشرع الأخرى لا تناقضه أو تعارضه، ومعظم الأحكام المتعلقة بالفروع والمتناولة للنواحي العملية هي من النوع الذي يثبت بالطرق الظنية رحمة من الله تعالى بعباده، ليتسع للناس مجال الاجتهاد فيها، وما دام الشارع الحكيم قد فتح باب اليسر للعباد، وجعل مصلحة الناس معتبرة فلا يليق بأحد أن ينسب مخالفا له في أمر من هذه الأمور إلى كفر أو فسق أو بدعة، بل عليه أن يلتمس لمخالفه من الأعذار ما يجعل حبل الود موصولا بينهما، فيحظى بحبه وتقديره .
روي في الحِلْية، والمدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي، عن القاسم بن محمد أنه قال: كان اختلاف أصحاب محمد رحمة لهؤلاء الناس (وجاء التعبير بالرحمة في قول الإمام مالك للرشيد) وأن اختلاف العلماء رحمة من اللَّه على هذه الأمة، وقد ورد القول على ألسنة علماء ومحدثين قولهم: "إن اختلاف هذه الأمة رحمة من اللَّه لها، كما أن اختلاف الأمم السابقة كان لها عذاباً وهلاكاً، ولأئمة الشريعة الإسلامية وفقهائها أقوال كثيرة حول الاختلاف. ويرى العلامة القسطلاني المتوفى سنة 923 هـ في "المواهب اللدنية" أن الاختلاف من خصائص هذه الأمة المحمدية: حيث يقول: >إجماعهم حجة، واختلافهم رحمة<، وحكى الشيخ ابن تيمية، رحمه اللَّه، في مجموع الفتاوي عن أحد العلماء ولم يُسَمّه أنه كان يقول: "إجماعهم حجة قاطعة، واختلافهم رحمة واسعة". وقد وجدت هذه المقولة الطيبة الصادقة في كلام ابن قدامة في مقدمة كتابه: >المغني<، وكان عظماء رجالات السلف ينظرون إلى اختلاف الأئمة أنه توسعة من اللَّه تعالى ورحمة منه بعباده المكلفين غير القادرين بأنفسهم على استنباط الأحكام الشرعية من مصادرها الأساس . ويقول القاسم بن محمد بن أبي بكر، أيضاً: لقد نفع اللَّه باختلاف المسلمين أصحاب النبي عليه الصلاة والسلام ، في أعمالهم، لايعمل العالم بعمل رجل منهم إلا رأى أنه في سَعَةٍ، ورأى أن أخاً خيراًً منه قد عمله، وروى ابن عبد البر: ماذكر مسنداً أن عمر بن عبد العزيز، قال: >ما أحب أن أصحاب رسول اللَّه عليه الصلاة والسلام ، لم يختلفوا، لأنه لو كانوا قولاً واحداً كان الناس في ضيق، وإنهم أئمة يقتدى بهم، فلو أخذ رجل بقول أحدهم كان سَعَةً< . وقال الإمام السيوطي، رحمه اللَّه، في أوائل رسالته: >جزيل المواهب في اختلاف المذاهب<: فصل (اعلم أن اختلاف المذاهب في هذه الملة نعمة كبيرة وفضيلة عظيمة، وله سر لطيف أدركه العالمون، وعَمِِيَ عنه الجاهلون، حتى سمعت بعض الجهال يقول: النبي عليه الصلاة والسلام ، جاء بشرع واحد، فمن أين مذاهب أربعة ؟! ، إلى أن قال: فعرف بذلك أن اختلاف المذاهب في هذه المِلة خصيصة فاضلة لهذه الأمة، وتوسيع في هذه الشريعة السمحة السهلة، ومن سَعَتِها أنه وقع فيها التخيير بين أمرين، شرع كل منهما في ملة كالقصاص والدية، فكأنما جمعت الشرعين معاً، وزادت حسناً بشرع ثالث: وهو التخيير الذي لم يكن في إحدى الشريعتين. ومن ذلك مشروعية الاختلاف بينهم في الفروع، فكانت المذاهب على اختلافها كشرائع متعددة كل مأمور به في هذه الشريعة، فصارت هذه الشريعة كأنها عدة شرائع بعث بها النبي عليه الصلاة والسلام ، بجميعها، وفي ذلك توسعة زائدة لها، وفخامة عظيمة لقدر النبي عليه الصلاة والسلام ، وخصوصية له على سائر الأنبياء، حيث بعث كل منهم بحكم واحد، وهو بعث عليه الصلاة والسلام ، في الأمر الواحد بأحكام متنوعة يحكم بكل منها، وينفذ، ويصوب قائله، ويؤجر عليه، ويُقتدى به، ويؤكد علماء سابقون أن الاختلاف يفتح الآفاق ويُعمل العقل، ويُثري الفكر ويزيد في محصلات العالم والمتعلم على السواء. اهــ
وقد ذكر الحافظ ابن عبد البر عن جماعة من فقهاء السلف أن الاختلاف في الفروع فيه سعة فروى عن القاسم بن محمد بن أبي بكر قال :[ لقد نفع الله باختلاف أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في أعمالهم لا يعمل العامل بعمل رجل منهم إلا رأى أنه في سعة ورأى أنه خير منه قد عمله … وعن القاسم بن محمد قـال : لقد أوسع الله على الناس باختلاف أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم أي ذلك أخذت به لم يكن في نفسك منه شيء … وعن رجاء بن جميل قال : اجتمع عمر بن عبد العزيز والقاسم بن محمد فجعلا يتذاكران الحديث قال فجعل عمر يجيء بالشيء مخالفاً فيه القاسم قال وجعل ذلك يشق على القاسم حتى تبين فيه فقال له عمر لا تفعل فما يسرني أن لي باختلافهم حمر النعم … وعن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه أنه قال : لقد أعجبني قول عمر بن عبد العزيز ما أحب أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يختلفوا لأنه لو كانوا قولاً واحداً كان الناس في ضيق وأنهم أئمة يقتدى بهم فلو أخذ رجل بقول أحدهم كان في سعة . قال أبو عمر هذا فيما كان طريقه الاجتهاد … وعن أسامة بن زيد قال سألت القاسم بن محمد عن القراءة خلف الإمام فيما لم يجهر فيه فقال إن قرأت فلك في رجال من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة وإذا لم تقرأ فلك في رجال من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة … وعن يحيى بن سعيد قال ما برح أولو الفتوى يفتون فيحل هذا ويحرم هذا فلا يرى المحرم أن المحل هلك لتحليله ولا يرى المحل أن المحرم هلك لتحريمه جامع بيان العلم وفضله 2/80 ،
وقال الشيخ ابن قدامة المقدسي في مقدمة كتابه العظيم المغني ما نصه :[ أما بعد : فإن الله برحمته وطَوْله وقوته وحوله ضمن بقاء طائفة من هذه الأمة على الحق لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك وجعل السبب في بقائهم بقاء علمائهم واقتدائهم بأئمتهم وفقهائهم وجعل هذه الأمة مع علمائها كالأمم الخالية مع أنبيائها وأظهر في كل طبقة من فقهائها أئمة يقتدى بها وينتهى إلى رأيها وجعل في سلف هذه الأمة أئمة من الأعلام مهد بهم قواعد الإسلام . وأوضح بهم مشكلات الأحكام اتفاقهم حجة قاطعة واختلافهم رحمة واسعة . تحيا القلوب بأخبارهم وتحصل السعادة باقتفاء آثارهم ثم اختص منهم نفراً أعلى قدرهم ومناصبهم وأبقى ذكرهم ومذاهبهم فعلى أقوالهم مدار الأحكام وبمذاهبهم يفتي فقهاء الإسلام ] المغني 1/3ء4 .
وقال الإمام السيوطي رحمه الله في رسالته المسماة: "جزيل المواهب في اختلاف المذاهب" : ( اعلم أنَّّ اختلاف المذاهب في الملة نعمة كبيرة، وفضيلة عظيمة، وله سر لطيف أدركه العالمون، وعمي عنه الجاهلون، حتى سمعت بعض الجهال يقول: النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم جاء بشرع واحد، فمن أين مذاهب أربعة).
وقال الإمام الشاطبي المالكي رحمه الله في الاعتصام: (فإنَّ الله تعالى حكم بحكمته أن تكون فروع هذه الملة قابلة للأنظار ومجالا للظنون، وقد ثبت عند النظار أن النظريات لا يمكن الاتفاق فيها عادة، فالظنيات عريقة في إمكان الاختلاف، لكن في الفروع دون الأصول، وفي الجزئيات دون الكليات، فلذلك لا يضر هذا الاختلاف).
وقال الإمام بدر الدين الزركشي الشافعي رحمه الله: (اعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لم يُنَصِّبْ على جَمِيعِ الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ أَدِلَّةً قَاطِعَةً بَلْ جَعَلَهَا ظَنِّيَّةً قَصْدًا لِلتَّوْسِيعِ على الْمُكَلَّفِينَ لِئَلَّا يَنْحَصِرُوا في مَذْهَبٍ وَاحِدٍ)
وقال الإمام المناوي في فيض القدير شرح الجامع الصغير: (ويجب علينا أن نعتقد أن الأئمة الأربعة والسفيانين والأوزاعي وداود الظاهري وإسحاق بن راهويه وسائر الأئمة على هدى ولا التفات لمن تكلم فيهم بما هم بريئون منه).
وصنف رجل كتاباً في الاختلاف فقال الإمام أحمد بن حنبل: (لا تسمه كتاب الاختلاف، ولكن سمه كتاب السعة)؛
وفى هذا القدر كفاية لمن أراد الهداية
==============================
مدینہ منورہ کے مشہور و متبحر عالم و محدث فضيلة الشيخ محمد عوامہ مدظلہ کی تالیف عربی کتاب "أثرالحديث الشريف في إختلاف الأئمة الفقهاء" کا یہ اردو ترجمہ ہے. جس میں: ائمہ_کرام کے یھاں حدیث_نبوی کا مقام، حدیث کب قابل_عمل ہوتی ہے؟ حدیث شریف کے صحیح ہونے کی شرائط میں اختلاف، عربیت کے لحاظ سے اور فہم_حدیث میں اختلاف کا بیان، بظاھر متعارض (ٹکرانے والی) والی احادیث کی بناء پر ائمہ کا اختلاف میں راجح (افضل) و مرجوح (مفضول) کا بیان، اور بقیہ گہری علمی اسباب_اختلاف مدلل بیان کے گئی ہیں؛
عربی اور اردو میں مفت ڈاون-لوڈ کرنے یا آن-لائن مطالعہ کے لئے:
================================
تأليف: صدر الدين ابو عبد الله محمد بن عبد الرحمن الشافعي الدمشقي العثماني-ابراهيم امين محمدترجمة، تحقيق: علي الشربجي - قاسم النوري (832 - 905 هـ = 1429 - 1500 م)
النيل والفرات:
هذا هو الكتاب "رحمة الأمة في اختلاف الأئمة" اسم على مسمى، في فروع الفقه الشافعي، بل هو في الفقه المقارن. جاء بإيجاز غير مخل للمقصد، بأداء حسن، وعبارة واضحة، بعيداً عن الصيغ المعقدة، والألفاظ الصعبة، وقد حوى جميع أبواب الفقه، على أنه لم يذكر في الباب الفقهي كل فروع الباب، وإنما اختار جملة من الأحكام بين فيها أقوال العلماء... ولم يثتصر على المذاهب الأربعة المتبعة، بل ذكر أقوالاً للصحابة والتابعين وما يذكر عن داود الظاهري.
وهو إذ ينقل الأحكام ينقلها بإيجاز، وكأنه يقدم مادة أولية لأرباب الاختصاص، وللراغبين في الشروح الطويلة مع مقارعة الأدلة، ولذا كان الكتاقب مختصراً في بعض أبوابه، وأياً كان الأمر فالكتاب مادة فقهية غنية، وهو لما سمي فيما بعد بالفقه المقارن. ثم إنه يظهر لك رفع الحرج عن الأمة في تعدد الحلول والأحكام التي يمكن للمكلف أن يعمل بها، ويأخذ ما يراه محققاً لمصلحته الدينية والدنيوية فيها. ضبط متن الكتاب وذلك من خلال تفصيل النص، وشكل مواضع الليس واستأنست بطبعة مؤسسة الرسالة المشار إليها في ترجمة المؤلف، كما ترجم لبعض الأعلام، وما كان من حديث فذكرت تخريخه عقب الحديث بين معقوفتين، وشرحت الألفاظ التي تحتاج إلى توضيح... وفي آخر الكتاب فهرسة بأسماء الفصول. كما صدر الكتاب بنصوص من كتاب "الحجة البالغة" لولي الدين الدهلوي، ومن كتاب "الجوهر والدرر" للعارف الشعراني، كل ذلك في بيان أسباب اختلاف الصحابة والتابعين في الفروع، وفي بيان أسباب اختلاف مذاهب الفقهاء، وأن جميعهم على هدى من ربهم، ليعلم المرء أن اختلاف الأئمة رحمة ومؤشر عافية.
================================
اور
================================
اور
================================
اور
=================================
اور
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَّ : " مَهْمَا أُوتِيتُمْ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى ، فَالْعَمَلُ بِهِ لا عُذْرَ لأَحَدِكُمْ فِي تَرْكِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَسُنَّةٌ مِنِّي مَاضِيَةٌ ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ سَنَةٌ مِنِّي مَاضِيَةٌ فَمَا قَالَ أَصْحَابِي ، إِنَّ أَصْحَابِي بِمَنْزِلَةِ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ ، فَأَيُّهَا أَخَذْتُمْ بِهِ اهْتَدَيْتُمْ ، وَاخْتِلافُ أَصْحَابِي لَكُمْ رَحْمَةٌ " .عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَّ : " مَهْمَا أُوتِيتُمْ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى ، فَالْعَمَلُ بِهِ لا عُذْرَ لأَحَدِكُمْ فِي تَرْكِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَسُنَّةٌ مِنِّي مَاضِيَةٌ ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ سَنَةٌ مِنِّي مَاضِيَةٌ فَمَا قَالَ أَصْحَابِي ، إِنَّ أَصْحَابِي بِمَنْزِلَةِ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ ، فَأَيُّهَا أَخَذْتُمْ بِهِ اهْتَدَيْتُمْ ، وَاخْتِلافُ أَصْحَابِي لَكُمْ رَحْمَةٌ " .
(رزین) مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 624 (42363)- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان : صحابہ کی اقتداء ہدایت کا ذریعہ ہے]
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میں نے اپنے پروردگار سے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف کے بارے میں پوچھا جو (شریعت کے فروعی مسائل میں ) میرے بعد واقع ہوگا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مجھ کو آگاہ کیا کہ اے محمد ﷺ! حقیقت یہ ہے کہ تمہارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے آسمان پر ستارے، (جس طرح) ان ستاروں میں سے اگرچہ بعض زیادہ قوی یعنی زیادہ روشن ہیں لیکن نور (روشنی ) ان میں سے ہر ایک میں ہے (اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین میں سے ہر ایک اپنے اپنے مرتبہ اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق نور ہدایت رکھتا ہے ) پس جس شخص نے (علمی وفقہی مسائل میں ) ان اختلاف میں سے جس چیز کو بھی اختیار کر لیا میرے نزدیک وہ ہدایت پر ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ " میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں (پس تم ان کی پیروی کرو) ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے ۔ (رزین)
[مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 624 (42363)- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان : صحابہ کی اقتداء ہدایت کا ذریعہ ہے]
اور اصول_حدیث کے تحت ضعیف روایت مقبول ہوتی ہے: فضائل میں ، شواہد ملنے پر اور تلقی بالقبول (علماۓ امّت کا اس حدیث کے متن و مضمون کو قبول کرنے) کے سبب.
دیکھئے: ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط
الشواهد
|
المحدث : ابن حجر العسقلاني
المصدر : موافقة الخبر الخبر الصفحة أو الرقم: 1/147 خلاصة حكم المحدث : غريب
اور اصول_حدیث کے تحت ضعیف روایت مقبول ہوتی ہے: فضائل میں ، شواہد ملنے پر اور تلقی بالقبول (علماۓ امّت کا اس حدیث کے متن و مضمون کو قبول کرنے) کے سبب.
دیکھئے: ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط
إِخْتِلَافُ أُمَّتِىْ رَحْمَةٌ۔
(جمع الجوامع أو الجامع الكبير للسيوطي:۱/۱۱۶۴، حدیث نمبر:۸۲۲، شاملہ،موقع ملتقى أهل الحديث)
وَدَلَّ عَلَيْهِ مَا بَعْدَهُ وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى:" وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْواناً". وَلَيْسَ فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى تَحْرِيمِ الِاخْتِلَافِ فِي الْفُرُوعِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ اخْتِلَافًا إِذِ الِاخْتِلَافُ مَا يَتَعَذَّرُ مَعَهُ الِائْتِلَافُ وَالْجَمْعُ، وَأَمَّا حُكْمُ مَسَائِلِ الِاجْتِهَادِ فَإِنَّ الِاخْتِلَافَ فِيهَا بِسَبَبِ «6» اسْتِخْرَاجِ الْفَرَائِضِ وَدَقَائِقِ مَعَانِي الشَّرْعِ، وَمَا زَالَتِ الصَّحَابَةُ يَخْتَلِفُونَ فِي أَحْكَامِ الْحَوَادِثِ، وَهُمْ مَعَ ذَلِكَ مُتَآلِفُونَ «7» . وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ)[تفسير القرطبي:4/159] البيضاوي:2/32، النيسابوري:6/69، أبي السعود:2/68، أحكام القرآن، الجصاص:2/314، روح المعاني:2/240]
حَدِيثُ : " اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ " ، زَعَمَ كَثِيرٌ مِنَ الْأَئِمَّةِ أَنَّهُ لَا أَصْلَ لَهُ ، لَكِنْ ذَكَرَهُ الْخَطَّابِيُّ فِي غَرِيبِ الْحَدِيثِ مُسْتَطْرِدًا ، وَأَشْعُرُ بِأَنَّ لَهُ أَصَلًا عِنْدَهُ ، وَقَالَ السُّيُوطِيُّ : أَخْرَجَهُ نَصْرُ الْمَقْدِسِيُّ فِي الْحُجَّةِ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الرِّسَالَةِ الْأَشْعَرِيَّةِ بِغَيْرِ سَنَدٍ ، وَأَوْرَدَهُ الْحَلِيمِيُّ ، وَالْقَاضِي حُسَيْنٌ ، وَإِمَامُ الْحَرَمَيْنِ ، وَغَيْرُهُمْ ، وَلَعَلَّهُ خُرِّجَ فِي بَعْضِ كُتُبِ الْحُفَّاظِ الَّتِي لَمْ تَصِلْ إِلَيْنَا ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ ، انْتَهَى ، وَقَالَ الزَّرْكَشِيُّ : أَخْرَجَهُ نَصْرُ الْمَقْدِسِيُّ فِي كِتَابِ الْحُجَّةِ مَرْفُوعًا وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَدْخَلِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَوْلُهُ ، وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ : مَا سَرَّنِي لَوْ أَنَّ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ لَمْ يَخْتَلِفُوا ، لِأَنَّهُمْ لَوْ لَمْ يَخْتَلِفُوا لَمْ يَكُنْ رُخْصَةً ، قَالَ السُّيُوطِيُّ : وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْأَحْكَامِ ، وَقِيلَ : الْمُرَادُ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْحِرَفِ وَالصَّنَائِعِ ، ذَكَرَهُ جَمَاعَةٌ ، فَسُبْحَانَ مَنْ أَقَامَ الْعِبَادَ فِيمَا أَرَادَ . وَفِي مُسْنَدِ الْفُرْدَوْسِ مِنْ طَرِيقِ جُوَيْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاكِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍمَرْفُوعًا : " اخْتِلَافُ أَصْحَابِي لَكُمْ رَحْمَةٌ " ، وَذَكَرَ ابْنُ سَعْدٍ فِي طَبَقَاتِهِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَّمَدٍ قَالَ : كَانَ اخْتِلَافُ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحْمَةٌ لِلنَّاسِ قُلْتُ : وَمَفْهُومُهُ أَنَّ اخْتِلَافَ غَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ زَحْمَةٌ وَنِقْمَةٌ ، وَمِمَّا يُؤَيِّدُهُ مَعْنًى وَإِنِ اخْتَلَفَ مَبْنًى حَدِيثُ : " لَا تَجْتَمِعُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ " ، رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ فِي السُّنَّةِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ ، وَرَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ بِلَفْظِ " لَا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا " ، وَفِي مُسْتَدْرَكِ الْحَاكِمِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَفَعَهُ : " لَا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَلَى ضَلَالَةٍ ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ " ، وَرَوَاهُ أَحْمَدُ فِي مُسْنَدِهِ ، وَالطَّبَرَانِيُّ فِيالْكَبِيرِ عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ مَرْفُوعًا فِي حَدِيث فِيهِ : " سَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ فَأَعْطَانِيهَا " .
No comments:
Post a Comment