اسلامی تعزیرات کی معاشرتی اہمیت
معاشرہ کا سماجی ڈھانچہ پانچ چیزوں پر اُستوار ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک میں خلل آجائے تو اس سے معاشرہ کی بنیادیں متزلزل ہوجاتی ہیں، اس کا امن و سکون غارت ہوجاتا ہے اور معاشرے کا ہر فرد کرب اور بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ پانچ چیزیں یہ ہیں: عقیدے کا تحفظ، نسب کا تحفظ، عزت و آبرو کا تحفظ، جان کا تحفظ اور املاک کا تحفظ۔
چناں چہ ہر عقل مند انسان اپنے دین، اپنے نسب، اپنی جان، اپنی عقل اور اپنے املاک کو عزیز رکھتا ہے اور اُن کے تحفظ کا خواہاں ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کا دین اور عقیدہ محفوظ رہے، اس کی عزت و آبرو اور جان و مال پر کوئی آنچ نہ آئے، اس کا نسب ہر غلط آمیزش سے پاکیزہ ہو، اس کی عقل ہر قسم کے فتور سے محفوظ رہے اور وہ ہر اعتبار سے امن و سکون اور راحت کی زندگی بسر کرے اور اللہ کی ذات کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہو، وہ چاہتا ہے کہ جس معاشرے میں وہ زندگی بسر کررہا ہے وہ امن و سلامتی کا گہوارہ ہو۔ اس میں خیر اور عدل و انصاف کے چرچے ہوں۔ اس میں دینی اور اخلاقی اقدار کی قدر و قیمت کو ٹھیک طور سے محسوس کیا جاتا ہو اور اس سے شر و فساد کے آثار کا خاتمہ ہوجائے، وہ اپنے معاشرے کو ایک پُرامن، باوقار اور ترقی یافتہ مثالی معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جو قوتِ حاکمہ معاشرے کو کنٹرول کررہی ہو، یہ فرض اُس پر عائد ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے ہر فرد کو ان پانچ بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے اور ان سماج دُشمن عناصر کی گو شمالی کرے جو معاشرے کی بنیادوں کو منہدم کرکے پورے معاشرے کو تہ و بالا کردینا چاہتے ہیں۔ اسلامی حدود و قصاص اور شرعی تعزیرات کی مشروعیت کا ایک اہم مقصد یہی ہے۔
اِسلام نے اِنسان کو ساری مخلوق سے بلند مقام بخشا ہے اور اسے دوسری مخلوق پر عزت و فوقیت عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ․“(اسراء :۴۰)
ترجمہ:”اور ہم نے عزت دی آدم کی اولاد کو۔“
اور اس کے عقیدہ، نسب، عقل، جان اور مال کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ دین اور عقیدہ کی حفاظت کے لیے جہاد کو شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ․“(البقرة:۱۹۰)
ترجمہ:”اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کرو بے شک اللہ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو۔“
نسب اور عزت کی حفاظت کے لیے نکاح کو مشروع کیا اور زنا اور تہمت لگانے کو حرام قرار دیا اور ان جرائم کے ارتکاب کرنے والے کے لیے حدود جاری فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
”اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ․ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ․“(النور: ۲)
ترجمہ:”بدکاری کرنے والی عورت اور مرد۔ مارو ہر ایک کو دونوں میں سے سو سو دُرّے اور نہ آوے تم کو اُن پر ترس اللہ کے حکم چلانے میں اگر تم یقین رکھتے ہو۔ اللہ پر اور پچھلے دن پر۔ اور دیکھیں ان کی سزا کچھ لوگ مسلمان۔“
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَھَادَةً اَبَدًا․ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ․“(النور:۴)
ترجمہ:”اور جو لوگ عیب لگاتے ہیں پاک دامنوں کو پھر نہ لائے، چار شہادتوں کو، تو مارو ا ن کو اَسی (۸۰) دُرّے اور نہ مانو ان کی کوئی گواہی کبھی اور وہی لوگ ہیں نافرمان۔“
اسلام عقل کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ اس لیے اس نے شراب اور دیگر منشیات کو حرام قرار دیا اور اس کے پینے پر حد مقرر کی ہے، وہ ہر فرد کی جان کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ اس لیے قتل کو جرم قرار دیا اور اس کے لیے قصاص کو مشروع کیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
”یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی․“(البقرة: ۱۷۸)
ترجمہ:”اے ایمان والو! فرض ہوا تم پر قصاص مقتولوں میں۔“
اور فرمایا:
”وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ․“(البقرة:۱۷۹)
ترجمہ:اورتمہارے واسطے قصاص میں زندگی ہے اے عقل مندو!۔
وہ مال کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ اس لیے اس نے حلال کمانے پر زور دیا ہے اور اس نے تجارت اور دیگر حلال وسائل کو مشروع کیا ہے اور ناحق دوسرے کا مال کھانے کو حرام ٹھہرایا اور چوری کی سزا مقرر کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآءً م بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(المائدة:۳۸)
ترجمہ:اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ، سزا میں ان کی کمائی کی، تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ غالب ہے حکمت والا۔
اسلام کے اقدامات سے ثابت ہوا کہ وہ ان کلیاتِ خمسہ (دِین، نسب، عقل، جان، مال) کے تحفظ کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور ان کی حفاطت کے لیے اسلامی معاشرہ کے ہر فرد کی کیسی صحیح اور حقیقی تربیت کرتاہے۔ وہ اُن کے ضمیر کو زندہ کرتا ہے، ان کی معنوی روح کو بلند کرتا ہے۔ ان میں روحانی و اخلاقی اقدار کی عظمت پیدا کرتا ہے۔ ان میں اُلفت و محبت، اِیثار و قربانی اور باہمی اکرام و احترام کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ تربیت اِسلامی تعلیمات اور صالحین کی مجالست سے حاصل ہوتی ہے اور اس تربیت کے بعد اسلامی معاشرے کا ہر فرد اپنے معاشرے کا ایک مفید رکن بن جاتا ہے۔ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور جس چیز کو اپنے لیے نا پسند کرتا ہے وہ دوسرے کے لیے بھی ناپسند کرتا ہے۔ اور جیسے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاطت کو ضروری سمجھتا ہے اسی طرح دوسرے کی جان، عزت اور مال کی بھی حفاظت کرتا ہے اور اس پر دست درازی کو ایسا ہی بُرا سمجھتا ہے جیسے اپنے اوپر دست درازی کو بُرا سمجھتا ہے۔ اس کے نفس میں ایک ایسی قوت پیدا ہوجاتی ہے جو اسے خیر پر آمادہ کرتی ہے اور شر اور دوسرے پر دست درازی سے روکتی ہے۔ حقیقت میں یہ وہ مثالی معاشرہ ہے جس میں امن و امان ہو اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔ ہماری اسلامی تاریخ کا ابتدائی دور ان مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم پر ایسا دور بھی گزرا ہے جب قاضی صاحب مہینوں عدالت لگائے بیٹھے رہتے تھے اور ایک مقدمہ بھی ان کے یہاں پیش نہیں ہوتا تھا، عورت تنہا سفر کرتی تھی اور اسے اللہ کی ذات کے سوا کسی کا خوف نہ ہوتا تھا، کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کی طرف آنکھ اُٹھاکر بھی دیکھے۔ یہ راحت و سکون، یہ امن اور چین، یہ عدل و انصاف کس چیز کا نتیجہ تھا؟ اسلامی تعزیرات کا، اسلامی تعلیم و تربیت کا اور اسلامی اقدار کا۔ ہر معاشرے میں کچھ مریض نفوس بھی ہوتے ہیں جن پر تربیت و نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ وہ صرف سختی کی زبان جانتے ہیں اور انھیں جرائم سے صرف حدود اور عقوبات ہی روک سکتی ہیں۔ معاشرے میں ایسے افراد کی مثال جسم کے ان مریض اعضاء کی سی ہے جن کے علاج کے لیے ٹیکے لگانے اور آپریشن کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جب کہ اس کے ٹھیک ہونے کی اُمید ہو اور بیماری اپنے ابتدائی مرحلہ میں ہو، لیکن اگر کوئی عضو گل سڑ جائے تو اسے کاٹ کر جسم سے الگ کیے بغیر چارہ نہیں رہتا؛ تاکہ اس کا زہر دوسرے اعضاء تک سرایت کرکے پورے جسم کی ہلاکت کا سبب نہ بنے۔ اسلامی حدود اور تعزیرات کا مقصد بس انہی معاشرتی مریضوں کا علاج ہے؛ تاکہ وہ صحت یاب ہوکر معاشرے کے صحت مند افراد بن سکیں اور ایک صاف ستھرا اسلامی معاشرہ قائم رہے۔
کسی فرد کے عقیدہ، اس کی عزت، اس کی جان، اس کی عقل اوراس کے مال پر کسی قسم کی دست درازی اسلام کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے جس سے معاشرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے؛اس لیے اس پر سخت اقدامات تجویز کیے گئے؛ تاکہ مجرم کو اِرتکابِ جرم سے باز رکھا جائے اور معاشرے سے فساد کا مادہ ختم کردیا جائے۔ اِسلامی معاشرہ میں جب کسی شخص کو اس کا نفس اور شیطان کسی جرم کے اِرتکاب پر آمادہ کرے گا تو وہ اِرتکابِ جرم سے پہلے بار بار پاداشِ عمل کو سوچنے پر مجبور ہوگا اور ہوش میں آکر اس غلط ارادہ کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہے گا۔
اَعداءِ اِسلام جنہیں اللہ تعالیٰ نے نورِ اِیمان سے ہی نہیں؛ بلکہ معاشرتی امن کی حقیقی بنیادوں کو سمجھنے سے بھی محروم رکھا ہے۔ وہ ان شرعی حدود پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور انھیں نَعُوْذُ بِاللّٰہ ”وحشیانہ سزاوٴں“ سے تعبیر کرتے ہیں؛ حالاں کہ بعض دفعہ وہ خود اپنے ملکوں میں معمولی جرائم پر اس سے بھی سخت سزائیں جاری کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب باتیں اسلام سے کینہ و عداوت اور بغض و عناد کی پر بنا پر کہی جاتی ہیں۔ ان دانش مندوں سے کوئی پوچھے کہ کیا ان سنگین جرائم کا اِرتکاب ”وحشی پن“ نہیں؟ اور جس معاشرے میں چند اِنسان نما پھیڑیئے گھناوٴنے جرائم کا اِرتکاب کر کے ”وحشی“ بن جائیں اور اَربابِ اِقتدار معاشرے کو ان ”وحشیوں“ سے نجات دلانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہ کریں۔ کیا چند دنوں میں وہ پورا معاشرہ ”وحشی“ نہیں بن جائے گا؟ کوئی عقل مند انسان ان گھناوٴنے جرائم کی سنگینی اور وحشی پن سے اِنکار نہیں کرسکتا جس کا اِرتکاب یہ مجرم کرتا ہے اور جس کا دِفاع یہ اَعداءِ اِسلام کررہے ہیں۔
ذرا سوچیے کیا بلاوجہ کسی بے گناہ کی جان تلف کردینا ”وحشی پن“ نہیں؟ جسے ایک مجرم معمولی اسباب کی بنا پر قتل کرکے اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو یتیم بنادیتا ہے اور انھیں اپنے والد کے سایہٴ عاطفت سے محروم کردیتا ہے؟
کیا یہ وحشیانہ حرکت نہیں کہ ایک مجرم پل بھر میں ایک مزدور یا ملازم کی مہینوں اور سالوں کی خون پسینے کی کمائی اُڑَا لے جاتا ہے اور اسے اور اس کے اہل و عیال کو ضروریاتِ زِندگی تک سے محروم کردیتا ہے؟
ایک شہر یا ایک محلہ کے باشندے نہایت امن و امان کی زندگی بسر کررہے ہیں، انہیں اپنی عزت، جان اور مال کا کوئی خطرہ نہیں، یکایک ایک مجرم آکر ان سب کی زندگی مکدر کردیتاہے، اور ان کے امن اور سلامتی کو خوف اور پریشانی سے بدل دیتا ہے کیا یہ وحشی پن نہیں ہے؟ اور پھر جو شخص ایسے مجرم کی پشت پناہی کرتاہے اور اس سے تعاون کرتا ہے یا اس پر رحم کھاتا ہے جسے بے گناہ مخلوق کمزوروں اور یتیموں اور بیواوٴں پر ترس نہیں آتا کیا یہ شخص اس مجرم کی مانند ان وحشی جرائم کا اِرتکاب نہیں کررہا؟
”فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ․“(الحج:۴۶)
ترجمہ:”بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں، بلکہ سینوں کے اندر دل اندھے ہیں۔“
نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اَعداءِ اِسلام کے یہ اعتراضات کوئی نئی چیز نہیں جوان کے اذہان کی اختراع ہو بلکہ قدیم زمانے سے اہلِ باطل اس قسم کی باتیں کہتے رہے ہیں اور ہمیشہ اہل حق نے واضح اور مسکت جواب دے کر ان کو خاموش کیا ہے؛ چناں چہ ان ہی اہلِ باطل میں سے ایک نے سرقہ کی سزا قطع ید کے بارے میں اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا:
”ید بخمس مئین عسجد ودیت مابالہا قطعت فی ربع دینار․“
”وہ ہاتھ جس کی دیت پانچ سو دینار ادا کی گئی۔ کیا وجہ ہے کہ اسے ربع دینار کے بدلے کاٹ دیا گیا۔“
اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی کا ہاتھ غلطی سے کسی نے کاٹ دیا تو اس کی دیت پانچ سو دینار ادا کی جاتی ہے؛ لیکن عجیب بات ہے کہ یہی ہاتھ اگر چوتھائی دینار چوری کرے تو اس کے بدلے میں کاٹ دیا جاتا ہے۔ ایک عالم نے اس کا جواب یوں دیا:
”عزّالامانة اغلاھا وارخصہا۔ ذلّ الخیانة فافہم حکمة الباری․“
”امانت کے اعزاز نے اسے قیمتی بنادیا تھا اور خیانت کی ذلت نے اسے بے قیمت بنادیا۔ اللہ کی حکمت کو سمجھ لو۔“
جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ ہاتھ امانت دار تھا کسی کے مال میں تعدی نہیں کرتا تھا تو یہ قیمتی تھا اور جب اس نے دوسرے کے مال پر تعدی کرکے خیانت کی تو بے قیمت اور ذلیل ہوگیا۔
ان اَعداءِ اِسلام کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ شرعی حدود پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر قیاس کرتے ہیں۔ ایسے انسان جو نورِ اِیمان سے محروم ہیں، جو صرف مادی عقل سے سوچتے ہیں اور جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کل کے حالات کیسے ہوں گے، وہ اپنے موجودہ ماحول کے حالات کو دیکھ کر ان ہی کی روشنی میں قوانین وضع کرتے ہیں، اس لیے کل جب حالات بدل جاتے ہیں تو مجبوراً انہیں وہ قوانین بدلنے پڑتے ہیں۔ اَعداءِ اِسلام اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ شرعی حدود انسان کی وضع کردہ حدود نہیں؛ بلکہ وہ آسمانی حدود ہیں، جن کو ایک ایسی ذات نے اُتارا ہے جو خالق بشر ہے اور جو انسان کی خصلت و جبلت اور اس کی طبیعت و مزاج سے واقف ہے جو قیامت تک کے آنے والے حالات سے واقف ہے، جو یہ جانتا ہے کہ فلاں جرم کتنا سنگین ہے، اس کی ٹھیک ٹھیک سزا جو عدل کی ترازو میں تول کردی جائے کتنی ہونی چاہیے اور جسے یہ خبر ہے کہ فلاں جُرم کا اِرتکاب معاشرے پر کیا تباہی لاسکتا ہے اور اس کی روک تھام کیسے ہوسکتی ہے، اس نے جب یہ حدود اُتاری ہیں تو انہیں انسان کی اصلاح کے لیے اتارا ہے اور اس نے انسانی معاشرے کو امن اور چین مہیا کرنے کے لیے یہ تریاق نازل کیا ہے۔
حاصل یہ کہ حق تعالیٰ نے حدود و قصاص کے جو قوانین عطا کیے ہیں وہ انسانی ذہن کی اپج نہیں، جو آئے دن انسانی معاشرے پر قانونِ سزا نافذ کرنے کی مشق کرتے رہتے ہیں اور عطائی کی طرح جب ایک نسخہ فٹ نہیں آتا تو دوسرا بدل دیتے ہیں۔ نہیں! بلکہ یہ خدائی قوانین ہیں، جنہیں اس کے علم محیط اور حکمت کاملہ نے جرائم کی ٹھیک ٹھیک تشخیص کرنے کے بعد تجویز فرمایا ہے اور انہی کے نفاذ میں باعزت اور پُرامن زندگی کی ضمانت ہے لیکن جو عقول کہ حق کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا جو مادیت اور شہوات میں گرفتار ہوکر فاسد ہوچکی ہیں وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتیں، لہٰذا انھیں اسلام کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کرنا چاہیے اگر چمگادڑ سورج کو نہیں دیکھ سکتا تو سورج کا اس میں کیا قصور ہے۔
آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک شبہ کا اِزالہ کیا جائے جو اَعداءِ اِسلام عامة المسلمین میں پھیلاکر حدود کے بارے میں غلط تاثر پیدا کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ وہ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ اگر شرعی حدود جاری ہوں تو ہر طرف ہاتھ کٹے نظر آئیں گے۔ جگہ جگہ سنگساری ہورہی ہوگی۔ کوڑوں کے لیے ٹکٹکی بندھی ہوئی ہوگی۔ گویا یہ لوگ پہلے سے فرض کرلیتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ کی اکثریت ایسی ہے، (حالاں کہ یہ بات مغربی معاشرہ کے بارے میں کہنا صحیح ہوگی۔) اور اَعداءِ اِسلام نے اپنے معاشروں کو دیکھ کر اِسلامی معاشرہ کو بھی اسی پر قیاس کرلیا ہو مگر ہم کہتے ہیں کہ یہ اسلامی معاشرے کے بارے میں صرف بدگمانی نہیں بلکہ تہمت ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نے پھل توڑ لیا یا لکڑی کاٹ دی یا کوئی اور معمولی چیز چُرالی تو فوراً ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس کے بارے میں اتنا سمجھ لیا جائے کہ اسلام نے جہاں جرائم پر حدود جاری کرنے کا حکم دیا وہاں اس کے ساتھ ساتھ قیود اور شرائط بھی لگائے ہیں۔ جب تک وہ سب شروط نہ پائی جائیں گی، اُس وقت تک شرعی حد جاری نہیں ہوتی۔ اور اگر تمام شروط موجود ہوں ایک شرط کی کمی ہو تب بھی حد ساقط ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں کسی قسم کا معقول شبہ پیدا ہوجائے تب بھی حد ساقط ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر چوری کی سزا کو لے لیجیے، اس کے ثبوت کے لیے کچھ شرائط ایسی ہیں جن کا تعلق مسروقہ مال سے ہے اور مسروقہ مال کی بھی ایک قیمت مقرر ہے اس سے کم نہ ہو۔ ان تمام شرائط کے پائے جانے اور شرعی شہادت کے بعد حد جاری ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے کہ صاحب حق اگر چاہے تو سارق کا معاملہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے اسے معاف بھی کرسکتا ہے۔ اس کی تفصیل اسلامی قانون (فقہ) میں موجود ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر کسی شرط کی کمی یا شبہ کی بناء پر حد ساقط ہوجائے تو مجرم بالکل چھوٹ جائے گا یا وہ اس کو بہانہ بناکر دوبارہ اس جرم کا اِرتکاب کرنے لگے۔ ایسی صورت میں عدالت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مجرم کو مناسب سزا دے تاکہ جرائم کا انسداد ہو اور معاشرہ ہر قسم کے فساد سے پاک ہوجائے۔
$$$
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
1۔مقدمہ
قانون سے مراد ضابطہ اور نظام ہے۔یہ سنت الہیہ ہے کہ اس کائنات ایک ایک ذرہ کسی ضابطہ اور نظام کاپابند ہے اورایک قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کررہاہے۔سورج ،چاندستارے اور زمین سمیت کل اجسام سماوی ایک طے شدہ اندازے کے مطابق اپنے اپنے فاصلے طے کرتے چلے جارہے ہیں،سمندروں سے ابلنے والا پانی ایک ضابطے کے مطابق بادل بن کر برستاہے اورایک نظام کے تحت بارش سے دریااور ندی نالوں سے ہوتافصلوں کو سیراب کرتاچلاجاتاہے یاپھرمتنوع استعمالات سے بچتابچاتا باردیگرسمندرمیں آن گرتاہے۔چرند،پرند،شجر،حجر،جمادات و نباتات،حشرات الارض اور جانداروبے جان مخلوقات سمیت مظاہرقدرت کے کل اجزاایک قانون کے تحت ،ایک ضابطے میں جکڑے ہوئے اور ایک نظام کاحصہ بن کرکارخانہ قدرت میں موجود و متحرک ہیں۔حضرت انسان بھی اسی نظام اور قانون کا حصہ ہے اور چاہتے و نہ چاہتے ہوئے بھی اسی نظام کے تحت عرصہ حیات گزارنے پر مجبور محض ہے۔انسان چاہے بھی تو اپنے معدے سے سوچنے کاکام نہیں لے سکتا،اپنی آنکھ سے سننے کی صلاحیت کاحصول انسان کے بس سے باہر ہے اورچاہے بھی تو پاؤں اور ہاتھوں کی انگلیوں سے جگراور گردے کے کارمخوصہ اسکی بساط سے کہیں باہراور ناممکنات عالم میں سے ہیں۔تاہم ایک بہت ہی قلیل ومحدوداندازے میں اسے بااختیار بناکر آزادی عمل مرحمت کی گئی ہے کہ چاہے توانسانی قانون کے مطابق زندگی گزارے اورچاہے تو الہامی قانون کے مطابق اس آسمان کے نیچے اور زمین کے سینے پراپنی مہلت عمل تمام کر چکے۔
انسانی قوانین کے مصادرحواس خمسہ سے حاصل ہونے والی عقل،علم اور تجربہ ہیں۔حواس خمسہ بجائے خود انسان کی طرح کمزور اور ناقص ہیں،جبکہ حواس انسانی کو کائنات کے مشاہدے اور انسان خود کے مطالعے کے لیے آلات کامحتاج ہونا پڑتاہے تب بھی ان حواس سے حاصل ہونے والی معلومات قابل تجزیہ وتنقیدہوتی ہیں اور بے پناہ ظن و تخمین وقیاسات کے بعد بھی حاصل شدہ نتائج ایک محدود مدت کے بعد بعض اوقات ناقابل اعتماد ثابت ہو جاتے ہیں،اورپھریہ سب معاملات تومادی زندگی میں ہی مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں جبکہ حواس خمسہ اور ان کے ممدآلات آج تک کوئی ایسا پیمانہ تراش ہی نہیں سکے جس میں سے کسی انسان کے احساسات و جذبات اور غمی وآلام اور خوشی و سرفروشی کاوزن کیاجاسکے کہ یہ توانسان کی بساط سے ہی باہر رکھے گئے ہیں۔پھران سب پر مستزاد یہ کہ ہرہرانسان کا علم،تجربہ اور عقل اسے دوسرے انسان سے جداکرتے ہیں ،دنیابھر میں کوئی ایسے دوانسان عنقا ہیں جو عقل و فہم و فراست و تجربہ کی بنیاد پر معاملات کلی میں مجرد اتفاق کے حامل ہوں۔تب یہ کیونکر ممکن ہے کہ انسانی ساختہ قوانین بین الانسانی معیارات پر پورے اتریں اورقبیلہ بنی آدم میں محبت اخوت،امن و مساوات ،عدل و انصاف اوراتحادویگانگت وباہمی خیرخواہی کے ضامن ہو سکیں۔ماضی و حال شاہد ہیں کہ ہرانسانی قانون میں کسی ایک طبقے ،نسل،زبان یاعلاقے کو مراعات زائدہ سے نوازا گیاہے اور انسانوں پر انسانوں کی حکومت و اقتدارکوروارکھاگیاہے جس کے نتیجے میں ’’زمانہ گواہ ہے کہ انسان ہمیشہ نقصان میں رہاہے‘‘اور بنیادی انسانی اخلاق کابوقت تخلیق قانون ہی گلاگھونٹ دیاجاتارہاہے۔
کتاب اﷲ کے قانون کی بنیاد وحی پر ہے جسے خالق کائنات نے برگزیدہ اور منتخب بندوں پر نازل کیاجنہیں ’’انبیاء علیھم السلام ‘‘کی اصطلاح سے یاد کیاجاتاہے۔کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعدادمیں یہ نفوس قدسیہ اس دنیائے انسانی میں وارد ہوئے جن کے شباب کی سپیدی سورج کی روشنی کو شرماتی ہے اور جن کی کردار کی روشنی چاندکی چمک پر سوا ہے اور جن کے اجلے کردارسے تھنوں سے نکلتا ہوا بے داغ دودھ مستعار ہے۔امانت و دیانت و صداقت وشرافت جیسے اعلی ترین شعائراس گروہ انسانی پر ختم ہیں ۔عقل انگشت بدنداں ہے کہ قرنوں کابعد، صدیوں کا فاصلہ اور براعظموں کی دوریوں کے باوجود تمام انبیاء علیھم السلام نے جو تعلیمات پیش کی ہیں وہ ایک ہی سوتے سے پھوٹنے والے چشمے کی مانند ہیں۔عقل کی یہی بے خودی ومعذری حقانیت تعلیمات الہیہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔
انبیاء علیھم السلام پر آسمان سے وحی کا نزول ہواکرتاتھاجبکہ حواس خمسہ کے لیے تحمیل وحی ممکن ہی نہیں۔جس طرح علم،عقل و تجربے کے فقدان یاقلت کے باوجود خواب،وجدان یاالہام کے ذریعے بعض حقائق عام انسان تک پہنچادیے جاتے ہیں جبکہ خواب،وجدان اور الہام تینوں کاادراک حواس خمسہ سے بالا تر ہے اسی طرح ان برگزیدہ ہستیوں پربحوش و حواس وحی کے نزول کا عمل دہرایاجاتا تھاجس کا کہ ادراک حواس خمسہ کی قلمرو سے بہت باہر ہے پس انسانی عقل اس بات کا احاطہ نہیں کر سکتی کہ وحی کا نزول کیونکر تکمیل پزیر ہوا،چنانچہ کتاب اﷲ تعالی نے اپنے ابتدا میں ہی یہ شرط رکھ چھوڑی ہے کہ ’’یومنون بالغیب‘‘۔وحی کے معیارات عقل کے پیمانوں سے بہت بلند وبرتر ہیں،ممکن ہے عقل ارتقاء کے سفر کے بعد وہاں تک پہنچ پائے اورفی زمانہ کافی حد تک پہنچ بھی پائی ہے لیکن عقل ٹھوکریں کھاتی رہی ہے،کھارہی ہے اور کھاتی رہے گی جبکہ وحی ایک اٹل اور لاریب حقیقت ہے جس کی ابدیت کی انتہاانسانی عقل کی گرفت سے ماورا ہے۔وحی کانزول سات طریقوں سے ہواکرتاتھا:
1۔براہ راست گفتگو: جیسے اﷲ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کوبراہ راست تعلیم دی اور معراج کے موقع پر محسن انسانیت ﷺ سے
براہ راست بغیر کسی واسطے یا ذریعے کے بات چیت کی
2۔پو پردہ گفتگو: جیسے اﷲ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے کوہ طور پر گفتگوفرمائی جبکہ حضرت موسی علیہ السلام درخت سے اﷲ
کی صرف آواز ہی سن سکتے تھے۔
3۔فرشتہ کے ذریعے: جملہ انبیاء علیھم السلام تک یہ وسیلہ اختیارکیاگیااور ایک مخصوص فرشتہ جس کا نام ’’جبریل علیہ السلام‘‘ہے وہ
صرف اسی کام پر مامور تھا کہ اﷲ تعالی کاپیغام بذریعہ وحی انبیاء علیھم السلام تک پہنچائے۔
4۔خواب: انبیاء علیھم السلام کے خواب نہ صرف یہ کہ سچے ہوتے تھے بلکہ وحی الہی ہونے کے باعث ا ﷲ تعالی کی طرف سے
حکم کادرجہ رکھتے تھے جن کو کہ پورا کرنا انبیاء علیھم السلام کے لیے ضروری تھا۔
5۔فرشتہ انسانی شکل میں: حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے انسانی شکل میں آئے اسی طرح کبھی کبھی
جبریل علیہ السلام بھی محسن انسانیت ﷺ کے پاس انسانی شکل میں حاضر ہوتے تھے اوروحی کا پیغام لاتے۔
6۔گھنٹی کی آواز: اس طرح کی وحی کو سلسلۃ الجرس کہتے ہیں،آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مجھے گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے اور میں سمجھ
جاتا ہوں کہ کیا کہا جا رہا ہے۔
7۔القا: انبیاء علیھم السلام کے دلوں میں ڈالی گئی بات بھی وحی الہی ہوتی ہے۔
اس طرح سے آفاقی و حقانی قانون آسمان سے زمین پراترااور انسانوں کے لیے مشعل راہ بنا۔علم عقل اور تجربے سے حاصل ہونے والاقانون مخلوق کابنایاہوقانون ہے جو اس نے اپنے ہی جیسی مخلوق کے لیے بنایاہے،جبکہ وحی سے حاصل ہونے والاقانون خالق کا بنایا ہوا قانون ہے جو اس نے اپنی مخلوق کے لیے بنایاہے۔جس طرح خالق اپنی مخلوق کا جانتاہے اس طرح کوئی مخلوق کافرد نہیں جان سکتا ، جس طرح خالق اپنی مخلوق سے محبت کرتاہے اس طرح کوئی مخلوق کا فردمحبت نہیں کرسکتااور جس طرح خالق اپنی مخلوق کی ضروریات و حاجات کو جانتاہے اس طرح مخلوق کا کوئی فرد قطعا بھی نہیں جان سکتاپس خود عقل اس بات پر دال ہے کہ مخلوق کا کوئی قانون خالق کے بنائے ہوئے قانون کے برابرتو کیااس کے عشر عشیرجتنا بھی نہیں ہو سکتا۔
علم ،عقل اورتجربہ بھی بلآخراپنا طویل ترین سفر طے کرنے کے بعد وحی کی گود میں ہی آن گریں گے ،کہ انبیاء علیھم السلام کا لایا ہوا قانون اس کائنات کے ابدی حقائق کا ترجمان اورانسانیت کی فلاح کا دائمی ضامن ہے۔جس طرح یہ ساری کائنات اپنے بڑے سے بڑے نظاموں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ذرات تک خدائی قانون اور قائدے کی پابند ہونے کے باعث امن و آشتی اور توازن و عدیم المثال عمدہ انتظام کا نمونہ ہے اسی طرح انسانی زندگی میں بھی اگرخدائی قانون کی پابندی وارد ہو جائے تو انسانی معاشرتی حیات بھی کل کائنات کی طرح امن و آشتی اور توازن و عمدہ انتظام کا نمونہ بن سکتی ہے ۔اور اگرانسان خدائی قانون سے فرارحاصل کرتارہااورپیٹ اور پیٹ کی نیچے کی خواہش کا بندہ بن کراپنی نسلوں کومحض علم،عقل اور تجربہ کی بھینٹ چڑھاتارہاتواس کاانجام ’’ان الانسان لفی خسر ‘‘کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
2۔ قرآنی قانون کے ماخذ
جس طرح روشنی کاماخذسقرج ہے،جس طرح پانی کے ماخذدریا،ندی نالے اور سمندر وغیرہ ہیں اور جس طرح خوشبو کے ماخذپھول ہیں اسی طرح دنیاکا ہر قانون اپنے ماخذمتعین کرتاہے ۔جہاں خاندانی یاشخصی نظام ہوتاہے وہاں سربراہ خاندان یاوہ فرد ماخذ قانون ہوتاہے ،جہاں دنیابھرمیں آجکل جمہوریت قائم ہے وہاں اکثریت کی رائے ماخذقانون ہے اور اکثریت کے نمائندے قانون سازی کرتے ہیں۔بعض ممالک میں روایات کی روشنی سے بھی قانون اخذ کیاجاتاہے۔قرآنی قانون کے چار بڑے ماخذہیں اور اس سے کچھ زیادہ ضمنی ماخذبھی ہیں۔
1۔ کتاب اﷲ:
اﷲ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر روانہ کیاتو وعدہ فرمایا کہ میری طرف سے تمہیں ہدایت ملتی رہے گی،اس وعدے کی تکمیل میں اﷲ تعالی نے تین سوسے زائد کتب نازل فرمائیں۔یہ سب کی سب کتاب اﷲ تعالی کہلاتی ہیں۔ان میں سے اکثریت کی زبان اس دنیاسے متروک ہو چکی ہے اور جن زبانوں میں وہ کتب نازل ہوئی تھیں انکے بولنے والے قبائل اس دنیاسے نابود ہو چکے ہیں،ان زبانوں کے رسم الخط اب ناقابل فہم ہیں چنانچہ ان کتب میں سے بیشتر تو پتھروں میں دفن ہو چکیں اورکچھ ناموں کی حد تک ہی زندہ ہیں اور اگر کچھ کے متون باقی بھی ہیں تو قدیم زبانوں سے ترجمہ در ترجمہ ہوتے ہوتے اب وہ آسمانی کتب اپنی اصلیت وحقیقت کھو چکی ہیں،کچھ میں انسانی عنصر داخل ہو چکاہے اور کچھ کاتو تاریخی تواتر ہی مجروح ہے اور تاریخ میں متعدد مواقع پر ان کتب کی گمشدگی کے بعد انہیں حافظے کی بنیاد پر کئی بار تحریر کیاگیا۔پس انسان کے ناتواں کندھے ان کتب کی حفاظت کا بوجھ نہ سہارسکے اور ان میں بہت زیادہ تحریف کے مرتکب ہوئے۔ان کتب میں اب توحید کی جگہ شرک در آیا ہے،مساوات انسانی کی جگہ طبقاتی تفوقات نے لی ہے اور آسمان سے جو قوانین اور انکی ذیلی دفعات نازل ہوئی تھیں ان کو تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں نے اپنے انفرادی و اجتماعی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانے کی خاطر اصل سے بدل دیاہے،نتیجۃ وہ کتب اب اپنی اصلیت کھو چکی ہیں اگر چہ ان کے مطالعے سے اب بھی ان میں ایک الوہی رنگ کو محسوس کیا جاسکتاہے۔
آخر میں اﷲ تعالی نے ایک کتاب’’قرآن مجید‘‘نازل فرمائی اور اسکی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لیا،کم و بیش ڈیڑھ ہزارسالوں کے بعد کے باوجود اس کتاب کی زبان زندہ ہے ،اس کے اولین نسخے اور رائج الوقت نسخوں میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوا،تاریخ میں اس کتاب کا تواتر بھی کبھی مجروح نہیں ہوا،یہ دنیاکی واحد کتاب ہے جو من و عن حفظ کرلی جاتی ہے اسے وہ لوگ بھی پڑھتے،سنتے اور یادرکھتے ہیں جو اس کی زبان تک سے واقف نہیں ہوتے اوراس کتاب کے نزول سے آج دن تک اسکی تاثیروترویج میں اضافہ ہی ہوتاچلاجارہاہے۔یہ کتاب قرآنی قانون کا سب سے اولین منبہ و ماخذ ہے،اسکے قوانین کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا،اسکے احکام اٹل ہیں اور انہیں فرامین خداوندی کا مقام حاصل ہے۔یہ کتاب گزشتہ تمام کتب کی تعلیمات کا تتمہ ہے اور وہ تمام عقائدو تصورات جنہیں حاملین کتب گزشتہ نے گہنا دیاتھا اس کتاب نے انہیں ایک بار پھر نہایت اخلاص و تمیزکے ساتھ انسانوں کے سامنے پیش کردیاہے۔اب تاقیامت اس کتاب میں نازل ہونے والے قوانین کے مطابق افراد سے اقوام اور امم کی قسمت کے فیصلے چکائے جائیں گے اورروز حشر بھی یہی کتاب اتمام حجت کاواحد ذریعہ ووسیلہ ہو گی کیونکہ اس کتاب میں قوانین خداوندی کو تفصیل و تشریح سے بیان کردیاگیاہے اور اس میں اب کسی اضافہ یا کمی کی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن مجید کے چند اصول قانون سازی یہ ہیں:
حاکمیت اعلی:
قرّنی قانون کاسب بڑااصول یہ ہے اس دنیاپر حکومت و اقتدارصرف اﷲ تعالی کا ہی حق ہے اور اس نے خلافت کے عنوان سے یہ حق عارضی طور پر انسانوں کو ودیعت کیاہے چنانچہ دنیاوی حکومت و اقتدار کی حیثیت امانت کے علاوہ کچھ نہیں کہ جس کے بارے میں عنداﷲ تعالی جوابدہی کے سخت مرحلے سے گزرناہوگا۔پس جس انسان کو بھی اس زمین کے کسی قطعے پر یاانسانوں کے کسی گروہ پراختیارواقتدارحاصل ہوگاوہ پابند ہے کہ ان پر اﷲ تعالی کی کتاب کاقانون نافذ کرے اور انہیں اپنی ملکیت یاغلام بنانے کی بجائے اﷲ تعالی کی ملکیت اور اسکی عبادت و اطاعت کی طرف مدعوکرے۔
عدم حرج:
عدم حرج سے مرادانسانوں پر سے تنگی اور سختی کو دور کرناہے۔قرآن مجید نے کہا کہ لااکراہ فی الدین کہ دین میں کچھ تنگی نہیں۔فی زمانہ کوئی ریاست غیرشہری کو برداشت نہیں کرتی اور اپنی مملکت سے نکال باہر کرتی ہے لیکن قرآن نے اپنی ریاست میں ان لوگوں کو بھی برداشت کیاہے جو اس کتاب کوماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ،اس کی یہی وجہ ہے کہ قرآن کے قانون میں سختی اور تنگی نہیں ہے اور اس میں غیروں کے لیے بھی بہت کشادگی اور وسعت ہے ۔سورہ کہف میں اﷲ تعالی نے فرمایا کہ ’’فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر‘‘جو چاہے مسلمان ہو جائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے،کم از کم اس دنیاکی حد تک یہ آزادی ضرور دی گئی ہے تاہم آخرت کاانجام اس موضوع گفتگوسے خارج ہے۔پس قرآن مجید کی قانون سازی کاپہلااصول یہی ہے کہ کسی پر سختی نہ ہواور ہر فرد اپنے نظریے اور اپنی فکر کے مطابق ریاست کی انتظامی حدود وقیودمیں اپنی زندگی گزارسکے۔اس لحاظ سے اکیسویں صدی کی دہلیزپر بھی یہ دنیاکاواحد قانون ہے جو کل انسانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتاہے۔
قلت تکلیف:
قرآن مجید نے جو احکامات دیے ہیں ان میں کم سے کم تکلیف کے اصول کو مدنظر رکھاگیاہے چنانچہ نماز فرض کی لیکن سفر میں کم کر دی،روزہ فرض کیالیکن بیمار و مسافرپراسکی فرضیت موخرکردی،وضو لازم قرار دیالیکن پانی کی عدم دستیابی پرتیمم کی رخصت عنایت کر دی۔عبادات کے ساتھ معاشرتی معاملات میں بھی جہیز،بارات اورغمی خوشی کے دیگرمواقع کو آسان تر کر دیا۔
تد ریج:
قرآن مجید کی قانون سازی میں تدریج کو خاص طور پرپیش نظر رکھاگیاہے،جیسے شراب کوتدریجاحرام کیاگیا،پردے کے احکامات آہستہ آہستہ نازل ہوئے ،پوری مکی زندگی جہاد کے حکم سے خالی رہی بلآخرمدنی زندگی میں جہاد کے احکامات نازل ہوئے اسی طرح سودیاربا کو عمرمبارک کے آخری ایام میں حرام کیاگیاجب کہ مومنین کے اذہان ان پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔فی زمانہ بھی کوئی اسلامی حکومت رائج الوقت بے شمار خرافات کو بیک جنبش قلم ختم نہ کرپائے گی اور اسے قرآن مجید کی منشائے تدریج کو سامنے رکھ کر قانون سازی کرنی ہو گی۔تاہم اس سلسلے میں دو امور قابل ذکر ہیں ایک تو یہ کہ عقائد میں کوئی تدریج نہیں یعنی کسی نو مسلم کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ نماز بھی پڑھ لے اور کچھ دنوں تک اپنی مورتی کی بھی پوجا کر لے اور دوسراقابل ذکر امر یہ ہے کہ جن چیزوں کوقرآن حرام قرار دے چکاہے ان میں بھی کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی جیسے کسی نومسلم کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ذہن سازی تک یاعادت کے اختتام تک شراب پیتارہے۔تاہم میدان ہائے طب و معاش و معاشرت وسیاست کے بے شمار ایسے پہلوہیں جنہیں آہستہ آہستہ اور بڑی دانش وحکمت کے ساتھ اس طرح پٹڑی پر لانا ہوگا کہ ایمان و عمل میں مطابقت برقراررہے،بصورت دیگر ماضی قریب کی اسلامی ریاست کاتجربہ ہمارے سامنے ہے۔
نسخ:
نسخ سے مراد ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم لے آنا ہے۔ نئے حکم کوناسخ اورپرانے احکامات کو منسوخ کہتے ہیں،مثلا حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں سگے بہن بھائیوں کا نکاح ہوتا تھا بعدمیں یہ حکم منسوخ ہوگیا،حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں چور جس کی چوری کرتاتھا پھر اسکی غلامی کرتاتھابعدکی شریعتوں میں یہ حکم منسوخ ہو گیا،بنی اسرائیل پر پانچ نمازیں فرض تھیں،25%زکوۃ فرض تھی اور مال غنیمت کو نذرآتش کردینے کا حکم تھا ،ہماری شریعت میں یہ تمام احکامات کلی یا جزوی طور پر منسوخ ہو گئے۔شریعت محمدی ﷺمیں بھی پہلے شراب جائز تھی پھر حرام ٹہرگئی وغیرہ۔نسخ کا قانون قیامت تک جاری رہے گا جیسے سفر سے احکامات میں نسخ واقع ہو جاتا ہے اور نماز کی رکعات میں تخفیف کردی جاتی ہے وغیرہ۔یہاں ایک بات پھرقابل توجہ ہے کہ نسخ کاقانون صرف عبادات ومعاملات میں ہے روا ہے جبکہ عقائد میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا۔جو عقیدہ پہلے نبی اور اس کی امت کا تھا وہی عقیدہ کل انبیاء علیھم السلام نے اپنی اپنی قوام کو پیش کیااور عقائد کا وہی مجموعہ خاتم الانبیاء ﷺنے پیش کیا۔(یواین این)
3۔سنت رسول اﷲﷺ:
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
قرآن مجید میں ﷲ تعالی نے متعدد بار حکم دیاہے کہ سنت رسول اﷲ ﷺ کو مضبوطی سے تھامو۔جس طرح اﷲ تعالی کی عبادت ممکن ہی نہیں جب تک کہ نبی ﷺکی اطاعت نہ کی جائے اسی طرح قرآن مجید کی قانون سازی ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ سنت رسول اﷲ ﷺ کے طرق اختیار نہ کیے جائیں اطاعت کے لحاظ سے نبی ﷺکی دو حیثیتیں ہیں،ایک ذاتی حیثیت جس میں وہ محمد ﷺبن عبداﷲ العربی ہیں ،اس حیثیت کی اطاعت باعث ثواب واجرتوہے لیکن لازمی نہیں مثلا آپ ﷺ اپنامقامی لباس پہنتے تھے مسلمانوں کے لیے ویسا ہی لباس پہنناضروری نہیں،آپ ﷺ اپنے مقامی کھانے تناول فرماتے تھے وہی کھانے امت کے لیے فرض یا واجب یا سنت موکدہ نہیں ٹہرائے گئے وغیرہ ۔ دوسری حیثیت نبوی حیثیت ہے ،اس حیثیت کے پھر دو حصے ہیں پہلا حصہ خصوصی حیثیت کا ہے جس میں آپ ﷺ کی عدم اطاعت لازم ہے اور جواس حیثیت کی اطاعت کرے گاوہ گنہگار ہوگا،اس حیثیت میں آپ ﷺ کو اﷲ تعالی کی طرف سے خصوصی مراعات دی گئی تھیں جو امتی کو حاصل نہیں مثلا آپ ﷺ نے چار سے زائد نکاح کیے جس کی کسی امتی کو اجازت نہیں،آپ ﷺ غوروفکر کی خاطر غاروں اور تنہائیوں میں طویل مدت تک جاکر بیٹھے جبکہ امت کواس سے منع کردیاگیاہے وغیرہ جب کہ اس نبوی حیثیت کا دوسرا حصہ قانونی حیثیت کا ہے اور یہ وہ حیثیت ہے جس کا کلمہ پڑھ کر ہر مسلمان نے نبی ﷺ کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں باندھاہے جس کے کہ انکار سے وہ دائرہ اسلام سے مطلقا خارج ہو جائے گا،اس حیثیت کوماننے کے لیے لازم ہے کہ نبیﷺ کا ادب و احترام کیاجائے ،ان کے ہر حکم کوبلاچوں و چراقانون مان لیاجائے اور قول و فعل و سکوت نبوی ﷺکو اپنی عقل و خرداور علم و تجربہ اورظن و تخمین و قیاس کے میزان ناقص پر پرکھ کر رد کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
کتاب اﷲ تعالی اور سنت رسول اﷲﷺ کے درمیان قانونی طور پر تین تعلق ہیں:
متوازی قانون سازی:
یہ کتاب اﷲ تعالی اورسنت رسول اﷲ ﷺکا پہلا تعلق ہے جس میں جو کتاب اﷲ تعالی کہتی ہے وہی سنت رسول اﷲﷺ بھی کہتی ہے،جیسے نماز کی فرضیت،والدین کی اطاعت اورجہادکے بنیادی احکامات وغیرہ۔
تشریحی قانون سازی:
یہ کتاب اﷲ تعالی اورسنت رسول اﷲ ﷺکے درمیان دوسراتعلق ہے جس میں کتاب اﷲتعالی ایک حکم دیتی ہے لیکن وضاحت نہیں کرتی جبکہ سنت رسول اﷲ ﷺاس حکم کی وضاحت کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔مثلا قرآن مجید نے سات سے زائد مرتبہ نماز کاحکم دیالیکن نماز کی رکعات،مندرجات اور دیگر تفصیلات نہیں بتائیں یا بہت ہی اجمالا بیان کیں ،کتاب اﷲ تعالی کے اس حکم کو سنت رسول اﷲ ﷺ نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔اسی طرح زکوۃ اور وراثت کی تفصیلات وغیرہ ہیں۔
تشریعی قانون سازی:
کتاب اﷲ تعالی اور سنت رسول اﷲ ﷺکے اس تیسرے تعلق میں میں سنت رسول اﷲ ﷺ وہاں پر قانون سازی کرتی نظر آتی ہے جہاں کتاب اﷲ خاموشی اختیار کرتی ہیں۔مثلا قرآنی قانون میں تین افراد بموجب قتل ہیں،قاتل یاڈاکو،محصن زانی اور مرتد،ان میں سے مرتد کی سزا کے بارے میں کتاب اﷲ خاموش ہے جب کہ سنت رسول اﷲ ﷺ اس بارے میں مکمل قانون سازی فراہم کرتی ہے۔اسی طرح بعض محرمات نکاح کے بارے میں بھی کتاب اﷲ تعالی مطلقا خاموش ہے اور سنت رسول اﷲ ﷺ مکمل اور تفصیلی مجموعہ قوانین فراہم کرتی ہے۔
محسن انسانیت ﷺنے کم و بیش تریسٹھ برس کی عمرمبارک پائی،جن میں سے اگرچہ چالیس سال قبل از نبوت کے ہیں لیکن یہ عرصہ بھی اسی طرح ماخذ قانون کی حیثیت رکھتاہے جس طرح بعداز نزول وحی کاعرصہ،جیسے آپ ﷺ نے پچیس برس کی عمر مبارک میں عقد نکاح فرمایاتو اگرچہ یہ عمل نزول وحی سے قبل کا ہے لیکن بحیثیت سنت یہ عمل مستندسنت و واجب الاتباع ہے۔ اسی لیے کہ نبی ہمیشہ سے پیدائشی طور پرہی نبی ہوتاہے اور اسلامی قانون کی اصطلاح میں نبی کو’’مطاع‘‘کہاجاتاہے ،یہ لفظ ’’مطیع‘‘کا متضاد ہے ،’’مطاع‘‘کامطلب ہے جس کی اطاعت کی جائے اور ’’مطیع‘‘اطاعت وفرمانبرداری کرنے والے کو کہتے ہیں۔سو ختمی المرتبت نبی علیہ السلام کی حیات طیبہ کاایک ایک لمحہ جسے مشیعت ایزدی نے محفوظ و مامون کر کے ’’سراجا مینرا‘‘چمکتاہواسورج بنادیاہے ،قرآنی قانون واسلامی شریعت کے ماخذو منبہ کی حیثیت رکھتاہے۔حتی کہ آپ ﷺ نے جس عمل کو دیکھ کر خاموشی اختیار کی اسے بھی قرآنی قانون میں سند کا درجہ حاصل ہے ۔
اسوۃ حسنہ ﷺ کے دوران قانون سازی کے چند طرق یہ ہیں:
وحی کا انتظار:
آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ ظن و تخمین سے اورقیاس آرائیوں سے رائے نہیں دیاکرتے تھے بلکہ جب کسی بات کاعلم نہ ہوتا تو فرمادیتے تھے کہ وحی کی آمدپر جواب ملے گا۔چنانچہ ایک بار جب ایک یہودی عالم مکہ آیا تو اہل مکہ نے اس سے کہا ہمارے ہاں ایک شخص نے نبوت کادعوی کیا ہے تم آسمانی کتب کے عالم ہو بتاؤ تواس سے کیاپوچھیں ؟؟اس یہودی عالم نے کہاکہ اس سے پوچھو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیاکیا بیتا تھا۔اس سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے وحی کے انتظار کا عندیہ دیا جس کے نتیجے میں سورہ یوسف یک بارگی نازل ہوئی۔
مشاورت:
آپ چاہتے تو ہر فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکتے تھے اور وہ فیصلہ باالیقین مستندہی ہوتالیکن اﷲ تعالی نے آپ کو حکم دیاتھا ’’وامرہم شوری بینھم‘‘چنانچہ متعدد مواقع پر آپ ﷺ نے اپنے مقدس ساتھیوں سے مشورہ کیااور بعض مواقع پر تواپنے رائے کی قربانی دیتے ہوئے اکثریت کی رائے کو قبول فرمایا۔متعدد غزوات کے دوران مشاورت کی امثال مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔
اختلاف رائے:
محسن انسانیت ﷺکو اندازہ تھا کہ اس امت میں قانون سازی کے دوران اختلافات کا ظہور ہوگاچنانچہ حیات طیبہ کے دوران ہی اختلاف کا طریقہ سمجھا دیا۔یہاں تک کہ خود سے بھی اختلاف کرنا سکھایاجیسے غزوہ بدر کے موقع ہر ایک جگہ پڑاؤ فرمایاتوایک انصاری سردارصحابی نے عرض کی کہ اس جگہ حکم ربی سے پڑاؤ کیا ہے یا آنجناب ﷺکی اپنے رائے سے؟؟فرمایا اپنی رائے سے،اس پر اس انصاری سردار صحابی نے اس سے بہتر جگہ کی نشاندہی کی جسے رحمۃ اللعالمینﷺ نے بخوشی قبول فرمالیااور بعد کے نتائج نے ثابت کیا کہ دوسری رائے صائب واقع ہوئی۔غزوہ احزاب کے اختتام پر حکم دیا کہ عصر کی نماز بنی قریظہ کی گڑھی میں پہنچ کراداکرو،اصحاب رسول ﷺ پروانہ وار چل دیے اوردوران سفرجب عصرفوت ہونے لگی توایک گروہ نے راستے میں ہی پڑھ لی کہ منشاء نبوی یہ تھا کہ پہنچ کربروقت اداکرواب تاخیر کے باعث نماز قضا نہیں کی جاسکتی جبکہ دوسرے گروہ نے مغرب تو راستے میں اداکی اور عصر بنی قریظہ پہنچ کر اداکی ۔یہ اختلاف جب خدمت اقدسﷺ میں پیش کیاگیاتو آپ ﷺ نے دونوں گروہوں کے عمل کو قبول فرمالیا۔
مجموعہ کتب احادیث:
امت کے درمیان احادیث کی دس کتب رائج ہیں،صحاح ستہ اور اصول اربعہ جنہیں کتب اربعہ بھی کہاجاتاہے۔یہ کتب قرآنی قانون سازی کے اصول ہائے نبوی کا مجموعہ ہیں جو امت کو تاقیامت راہنمائی فراہم کرتی رہیں گی۔ان کتب کی تدوین ہوئے ہزار سال سے زائد کاعرصہ بیت چکاہے لیکن عمائدین امت میں ان کتب کے استناد پراجماع پایا جاتاہے۔ان کتب میں موجود مندرجات کو’’وحی غیرمتلو‘‘کی اصطلاح سے یاد کیاجاتاہے کیونکہ نبی علیہ السلام کے بارے میں قرآن نے گواہی دی کہ آپ ﷺ اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے بلکہ جو بھی فرماتے ہیں وہ من جانب اﷲ ہی ہوتاہے۔کم و بیش پانچ لاکھ راویان احادیث نبوی کے حالات زندگی کتب میں موجود ہیں جنہیں فن حدیث کی اصطلاح میں ’’اسماء الرجال‘‘کہاجاتاہے اور اب ان تفصیلات کو کمپیوٹر کی ڈیٹا بیس میں ڈال دیاگیاہے ،اسلامی تاریخ کے اتنے بڑے کارنامے سے دوسری دنیاؤں کا دامن کلیۃ خالی ہے،انہوں نے اپنی بنیادی آسمانی کتب کی حفاظت بھی اس طرح نہیں کی جس طرح امت مسلمہ کے سپوتوں نے فرامین نبویﷺ کی حفاظت کا حق ادا کیا۔
4۔اجماع امت وقیاس شرعی
اجماع امت تیسرابڑامصدر قانون قرآنی ہے۔اگر کتاب اﷲ تعالی اور سنت رسول اﷲﷺ دونوں کسی جگہ سکوت اختیار کریں توامت کے علمائے حق جس طرف راغب ہوں گے اس مسلک کوگویا قرآن و سنت کی حمایت وآشیربادحاصل ہوگی،اس کو اجماع امت کہتے ہیں۔اس کی مثال خود قرآن مجید ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول اﷲ ﷺ نے کہیں بھی قرآن کو جمع کرنے کا حکم نہیں دیاتھا لیکن امت کی سہولت کے لیے اورقرآن مجید کو ضائع ہونے سے بچانے لیے اصحاب رسول ﷺنے جمع وتدوین قرآن کاتاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیااور اس کی ایک قرات پر اجماع فرمایا۔اجماع کا مقام چونکہ قرآن و سنت کے بعد ہے اس لیے قرآن و سنت کے کسی فیصلے کے خلاف اجماع نہیں ہو سکتااورتاریخ اسلامی میں ایسا کبھی ہوا بھی نہیں ہے۔
اجماع میں سب سے پہلا مقام اجماع صحابہ کا ہے جس کی حیثیت قرآن کے برابر ہے ،اس لیے کہ اگر ایک گروہ حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفۃ الرسول بنانے کے اپنے اجماعی فیصلے میں غلطی کر سکتاہے تووہی گروہ قرآن مجید کی جمع و تدوین کے اجماعی فیصلے میں بھی تو غلطی کرسکتاہے؟؟۔چنانچہ اجماع صحابہ کو چیلنج کرنے سے قرآن مجید کااستناد مشکوک ہوتا ہے پس قرآن مجیدکی ’’لاریب‘‘حیثیت پر ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس گروہ کی حیثیت کو مسلم وثابت وثقہ جانا جائے جس کے مقدس ہاتھوں سے بتائیدایزدی جمع و تدوین واجماع قرات کا کارنامہ وقوع پزیر ہوا۔
اجماع امت میں دوسرا درجہ کسی صحابی کے قول پر بعد والوں کا اجماع ہے۔جیسے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بیس تراویح کا فتوی دیالیکن صحابہ کرام نے اس پر اجماع نہیں کیاتھاجبکہ دو صدیوں بعد کے علمائے امت نے اس پر اجماع کیاجس پر تواتر عمل آج تک رائج ہے۔اجماع امت کاتیسرا درجہ سلف صالحین کااجماع ہے جیسے امت کے اندر کم و بیش بارہ مسالک فقہ رائج رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پانچ کے عمل پر امت نے اجماع کیا اور باقی رفتہ رفتہ متروک ہو گئے۔اب صدیوں سے ان پانچ مسالک فقہ جعفری،فقہ حنفی،فقہ مالکی،فقہ حنبلی اور فقہ شافعی پر عمل واقع ہورہاہے جس پر کل امت کا اجماع ہے۔اور اجماع کا چوتھااور آخری درجہ وقت کے علماء حق کا اجماع ہے،اسے اجماع سکوتی بھی کہاجاسکتاہے جیسے کوئی ایک عالم اپنی اجتہادی رائے دے اور دوسرے تمام علماء اس کی مخالفت سے ہاتھ کھینچ لیں اور سکوت اختیار کریں،کچھ مدت کے بعداس رائے کوگویااجماع سکوتی کا مقام حاصل ہو جائے گاجیسے ایک صدی قبل تک مرزائیت کے کفر پر اجماع سکوتی تھالیکن قیام پاکستان کے بعد یہ اجماع سکوتی قانون کی شکل اختیار کرگیا۔1924ء میں خلافت عثمانیہ جب کچھ دنوں کے لیے باردیگر بحال ہوئی تھی توپوری دنیا کے علما نے آنے والے جمعہ میں خلیفہ عثمانی کانام لے کر خطبہ پڑھاتھااور خلافت کی بحالی پر اجماع قولی کیا تھا۔ اسی طرح رائج الوقت سیاسی نظام جمہوریت پر علمائے حق کا اجماع سکوتی واقع ہواہے یعنی اس نظام کے حق میں اگرچہ کوئی دلائل و کتب و تقاریرتو نہیں کی گئیں لیکن جو علماء حق اس نظام کا حصہ بنے دوسروں نے ان کی مخالفت نہیں کی بلکہ خاموش رہ ان کے اس عمل کی حمایت کی۔
4:قیاس یااجتہاد
قیاس یا اجتہاد ان مسائل میں کیا جاتاہے جن میں کتاب اﷲتعالی ،سنت رسول اﷲ ﷺاور اجماع امت خاموش ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کااجتہاد درست ہوااس کو دو نیکیاں ملیں گی اور جس کا اجتہاد غلط ہوااس کو ایک نیکی ملے گی۔اجماع کے برعکس قیاس کسی ایک شخص کی کاوش کانتیجہ ہوتاہے ،ہاں بعد میں اس سے اختلاف بھی کیاجاسکتاہے اور اتفاق کی صورت میں وہی قیاس اجماع کی شکل اختیار کر لیتاہے۔قیاس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی میں کسی حل شدہ مسئلہ کے مطابق نو پیش آمدہ مسئلہ کوحل کیاجائے،اس صورت میں دونوں مسائل کے درمیان کسی مشترکہ وجہ کوجواز بناکر حل شدہ مسئلے کے مطابق نئے مسئلہ کے حل کو پیش کر دیاجاتاہے۔اس کے لیے بنیادی شرط وہی ہے کہ مسئلے کاحل کسی مسلمہ اصول شرعی سے ٹکراتانہ ہو،بصورت دیگر اس حل کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہو گی۔
جب ماضی میں بھی کسی حل شدہ مسئلے کی نظیرمیسر نہ آئے تو پھر کتاب اﷲ تعالی اور سنت رسول اﷲ ﷺ کی روشنی میں عقل سلیم سے کام لیاجاتاہے اور اس عمل کو اجتہاد کانام دیاجاتاہے۔اجتہاداگرچہ آسان کام نہیں ہے لیکن شجر ممنوعہ بھی نہیں ہے۔ایک اجتہاد بہت چھوٹی اورفوری سطح کاہے ،مثلانماز کے لیے ایک فرد کوقبلے کے تعین کی ضرورت ہے،اگر کوئی واضع قرینہ موجود نہ ہو تو اسے اجتہادسے کام لینا ہوگاعلماء سے رجوع کرنے کے نتیجے میں نماز کے فوت ہوجانے سے بہتر ہے کہ وہ صحیح یاغلط اجتہاد کرے اور فریضہ کی اادائگی سے سبکدوش ہو،اجتہاد کے صحیح یا غلط دونوں صورتوں میں وہ عنداﷲ ماجور ہوگا۔جبکہ ایک وہ اجتہاد ہے جس کے نتیجے میں اجتماعیت کے مجموعی کردار کی ذمہ داری مجتہد کے کاندھوں پر آن پڑتی ہے،اس صورت میں ہر شخص کی رائے کو قبول نہیں کیاجاسکتااور نہ ہی شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو اس کامکلف کیاہے،اس قبیل کے اجتہاد کے لیے مجتہد میں کچھ شرائط کاہوناضروری ہے۔
اجتہادکے لیے ضروری شرائط:
۱۔اجتہاد قرآن و سنت کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتا نہ ہو۔
۲۔اجتہاد محض خیالی وعقلی مسائل پر مبنی نہ ہو۔
۳۔اجتہاد کرنے والا درج ذیل علوم کا ماہر ہو
عربی زبان و ادب تفسیر و اصول تفسیر
حدیث و اصول حدیث فقہ و اصول فقہ
ادیان سابقہ تاریخ اسلام و مسلمین
حالات حاضرہ متعلقہ مسئلہ کے بارے میں مروجہ علوم وغیرہ
۴۔اجتہاد کا عمل ذاتی،گروہی،علاقائی یا مسلکی مفادات سے پاک اور بالاترہو۔
۵۔اجتہاد کرنے والا(مجتہد) تقوی کے اعلی معیار پر فائز ہو۔
۶۔اجتہاد کرنے والا مجتہد ہی ہو۔
۷۔اجتہادصرف شرعی احکامات کے حصول کے لیے ہی کیاجاسکتاہے۔
قرآن و حدیث کے محض تراجم پڑھ کر اوردیگرزبانوں کے چند مروجہ علوم میں دسترس حاصل کرکے اپنے ظن و تخمین و قیاس آرائیوں پر مبنی اجتہادی آراء دیناگویاجہالت کا بین ثبوت دینا ہے،جس طرح بیماریوں کے بارے میں کسی مستبد طبیب کی رائے ہی قبول کی جاتی ہے،جس طرح عدالتی و قانونی معاملات میں کسی سکہ بند ماہر قانون کی رائے سے ہی اتفاق کیاجا تاہے حتی کہ گاڑی سے آنے والی آوازوں کے بارے میں بھی کسی ماہر مستری سے ہی رجوع کیا جاتا ہے تب لازم ہے کہ دین و شریعت کے معاملات میں بھی انہیں کے علوم کے قابل علماء کی رائے ہی لی جائے ۔دورغلامی سے مستعار یہ رویہ آج بھی معاشرے میں موجود ہے کہ علوم شریعہ کے ماہرین کو برے برے القابات سے نواز کرتوبیک جنبش زبان مستردکردیاجاتاہے جس کے نتیجے میں آج تک ہمارامعاشرہ صالح ،مخلص اور دیندارقیادت سے محروم ہے اور وہ لوگ مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط ہیں جنہیں اپنی ناک کے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔
اجتہاد کے باب میں بہت ساکام ہوناابھی باقی ہے ،علامہ محمداقبال ؒ نے اپنے خطبات میں بہت سے گوشہ ہائے گم گشتہ سے گرد صاف کی ہے ۔بلاشبہ تین سو سال کی طویل غلامی کے نتیجے میں اجتہاد کے سوتے خشک سے ہو گئے ہیں اورآفاقی وعالمی و بین الانسانی فکرامروزوفرداکی بجائے مسلمان انتہائی نجی و فروعی مباحث میں الجھ کر رہ گیاہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ڈیڑھ ہزارسالہ مروجہ اصول ہائے دین و شریعت کوجڑ سے ہی اکھیڑ دیاجائے اور ان کتب ماضی کے ذخیرے کو دریابرد کرنے کے قابل سمجھ کران سے بے اعتنائی برت لی جائے۔ایک طرف قدامت پرستوں کی نام نہاد سیکولرتہذیب نوی کے پروردہ وہ اذہان ہیں جنہیں اپنے ماضی سے منہ چھپائے نہیں بنتی تو دوسری طرف طرزکہن پراڑے رہنے والے ناقابل فہم رویے ہیں ۔اﷲ کرے کہ امت مسلمہ کو قرون اولی و قرون وسطی جیسی بالغ ذہن و تعلیم یافتہ ایسی قیادت میسر آئے تو تقوی ودینداری کے ساتھ ساتھ اجتہاد کے عنوان سے معاملہ فہمی و بیدار مغزی کاجیتاجاگتا نمونہ ہو۔
5۔ عناصر قانون (بنیادی ڈھانچہ)
کتاب اﷲ کے قانونی نظام میں مرکزیت و اقتداراعلی صرف اﷲ تعالی کو حاصل ہے۔اس کائنات کااول وآخر حکمران اور مالک الملک وہی ذات الہ ہے جس کاکوئی ساجھی و شریک نہیں۔قانون سازی کے کل اختیارات کا منبہ وذریعہ وہی ذات واحد ہی ہے جس کے قوانین اٹل اور ناقابل ترمیم وناقابل اصلاح و ناقابل تنقید ہیں۔قرآنی قانون کی دوسری اہم اساس ذات نبوی ﷺ ہے جن کے متبرک وسیلہ سے کتاب اﷲ کاقانونی نظام عالم انسانیت کو میسر آیا،اس نظام میں نبی علیہ السلام کی ذات امامت کے منصب بالاپر فائزہے اورعقیدتوں واطاعتوں و فرمانبرداریوں کا کل مجموعہ اسی ایک ذات کی اقتداکے ساتھ مشروط محض ہے۔
کتاب اﷲ کے قانون کی عملی شکل کچھ اس طرح سے امکان پزیر ہو سکتی ہے:
خلافت :
اس الہامی قانون میں بادشاہت،اقتداراور حکومت کے مفہوم کوامانت الہی کے تصورکے ساتھ ’’خلافت‘‘کہاجاتاہے۔’’خلافت‘‘کے تصورکاخلاصہ خود قرآن نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کردیاہے کہ اقتدارخالصتااﷲ تعالی کی عطا ہے جسے چاہے دے دے اور جس سے چاہے چھین لے،روزمحشراس امانت کی جوابدہی اس پر مستزادہے۔انفرادی معاملات میں ایک فرد بھی خلیفہ ہے جسے اس کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پراقتدار بخشاگیاہے اورانسانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار بھی خلیفہ ہے خواہ وہ معاملات ایک گھر کے ہوں،خاندان یاقبیلہ کے ہوں یاپھر ریاست و عالمی سیاست کے ہی کیوں نہ ہوں،یہ مفہوم ایک حدیث نبوی ﷺ سے اخذ کردہ ہے جس کے مطابق ’’ہر شخص حکمران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔‘‘
خلیفہ کس طرح چناجائے گا؟؟اس کے تین طریقے خلافت راشدہ سے ثابت ہیں،ؑ خواص کے انتخاب پر عوام کی تائید،خلیفہ اول کا انتخاب اس طریقے سے ہوا،مشاورت سے نامزدگی،خلیفہ دوم اس طریقے سے اقتدار کے ایوان میں داخل ہوئے اورعمائدین ریاست کی ایک مختصر ترین کمیٹی کی سفارشات کے نتیجے میں جوترجیحات طے ہوئیں ان کے مطابق خلیفہ سوم و چہارم نے اپنی اپنی باری پرزمام اقتدار سنبھالی۔خود خلافت راشدہ کانظام ہی بتاتاہے کہ کوئی طریقہ حرف آخر نہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ اجتہاد کی تازہ ہوا انتخاب دان میں درس تازگی کی تجدید کرتی رہے گی۔فی زمانہ جمہوریت کو علماء کااجماع سکوتی حاصل ہے۔ایران کے اسلامی انقلاب کے بعدوہاں کی مذہبی قیادت نے چند اصلاحات کے ساتھ اس نظام کو قبول کر سند اعتماد عطا کی ہے تاہم چند مزید ترمیمات سے یہ نظام کتاب اﷲ کے قانونی نظام سے قریب تر ہو سکتاہے۔
1۔رائے دہندہ کی عمر چالیس سال کردی جائے کیونکہ بعثت نبوی سے قبل مکہ کی دارالندوہ میں یہی واحد معیار رکنیت تھا۔چالیس سال کی عمر مبارک میں وحی کے نزول نے اس فیصلہ پر مہر تصدیق ثبت کی اور قرآن مجید کی سورۃ احقاف کی پندرویں آیت میں اﷲ تعالی نے چالیس سالہ انسان سے یہ توقع کی ہے کہ وہ شکرگزاراور اطاعت گزار بندہ بنے۔عمر کی اس حد سے انتخابات پر اٹھنے والے بے پناہ اخراجات بہت حد تک تخفیف پزیر ہو جائیں گے کیونکہ ایک گھر کے سب ہی رائے دہندگان ایک طرف ہی رائے دیتے ہیں اور اب ان کے ایک نمائندہ کے پاؤں میں سب کا پاؤں داخل ہوجائیگا۔
2۔افراد کی بجائے سیاسی جماعتوں کورائے دی جائے اور قرطاس رائے پر جماعتوں کے نام تحریر ہوں اور ہررائے دہندہ اپنی مرضی کی جماعت کو نشان زد کرے پس جو جماعت جس شرح سے رائے حاصل کرے اتنی شرح سے اسے پارلیمان میں نمائندگی فراہم کر دی جائے،جبکہ سیاسی جماعت اس بات کی پابند رہے کہ اس کی بھیجی ہوئی فہرست نامزدگان میں شامل ہونے والے افرادقومی و دینی شعور کے مالک اورملک و ملت کی راہنمائی کے اہل ہوں۔اس طرح سے جاگیرداری وسرمایاداری نظام کی قباحتوں سے سیاسی نظام پاک ہو سکے گا۔
3۔جو جماعت ملک کے تمام اضلاع سے کم از کم طے کی گئی حدتک رائے دہندگان کی حمائت حاصل نہ کر سکے اسے قومی دھارے سے خارج کر دیاجائے۔اس طرح علاقائی و لسانی امتیازات کے دعوے داروں کی بیخ کنی ہو جائے گی۔
یہ اوراس طرح کے دیگراقدامات جہاں سیاسی نظام کوقرآنی قانون شریعت کے مطابق تر کر سکیں گے وہاں قوم کی سیاسی تربیت کا باعث ہوں گے اور ایک صالح ،نیک اور محب وطن و غم خوار ملت قیادت کی برآمدگی کاباعث بھی ثابت ہوں گے۔
شورائیت(مقننہ):
نظام خلافت راشدہ سے عیاں ہے کہ شوری کاادارہ امیرالمومنین کی خلافت سے زیادہ طاقتور ثابت ہواہے۔انتخابات کے نتیجے میں ابھرنے والے نمائندے اپنے میں سے چنے جانے والے میرکارواں کے وزیرومشیر ہوں گے اور دستورکے مطابق انہیں اختیارہوگا کہ وہ کسی شرعی عذرکی بناپرایک امیرکو برخواست کر کے دوسرے کو اختیارات سونپ سکیں۔علامہ محمد اقبال کے نزدیک اس نوعیت کی پارلیمان کو اجتہاد کے اختیارات بھی حاصل ہو ں گے ،اس رائے سے اختلاف سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گاتاہم یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب اراکین شوری مجتہدکی مذکورہ صفات کے حامل ہوں ۔
عدلیہ:
کتاب اﷲکے قانونی نظام میں عدلیہ کی طاقت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وقت کا حکمران عدلیہ کے سامنے ذاتی و منصبی دونوں حیثیتوں میں جوابدہ ہے ،قاضی وقت ریاست کا سب سے طاقتورترین فردہے ۔تاریخ اسلام میں قاضی عساکر کانام بھی ملتاہے جو افواج کے ساتھ متحرک رہتاتھااورمیدان جنگ میں اور مفتوحہ علاقوں میں افواج کا بھرپوراحتساب کرتاتھاتاکہ کسی غیرمسلم پر دست ناجائز دراز نہ ہو سکے۔کتاب اﷲ کے قانونی نظام میں صیغہ قضا کے ذمہ دو اہم امورریاست ہیں ،ایک تو قرآن و سنت کی روشنی میں نزاعات کا فیصلہ جس کا نگران ’’قاضی‘‘کہلاتاہے اور دوسرے فوری نوعیت کے معاملات کا فیصلہ اور ان کی نگرانی جس کا ذمہ دار’’محتسب‘‘کہلاتاہے۔محتسب عموما بازار میں گشت کرتاہے،لین دین کے فیصلے اور ناپ تول کے اوزان و پیمانوں کی نگرانی کرتاہے اور فیصلوں کی فوری نٖفاذکا ذمہ دار ہوتا ہے جس کے لیے اس کے ساتھ مختصرعساکرکی قوت بھی موجود رہتی ہے۔عدلیہ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ حکمرانوں نے عوام کے جائز حقوق تو غصب نہیں کر رکھے۔
مالیہ:
ریاست کے جملہ اخراجات اس محکمے سے پورے کیے جائیں گے،کتاب اﷲ کے قانونی نظام میں ان تمام مدات کی تفصیل موجود ہے جن میں آمدن جمع ہو گی اور ریاست اس آمدن کو خرچ کر سکے گی۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کے زمانے میں کم و بیش بائیس مدات ایسی تھیں جن میں ریاست کی آمدن جمع کی جاتی تھی۔کتاب اﷲ کے قانون کے مطابق مالیہ کی آمدن حکمران کے پاس خالصتاامانت کی حیثیت میں ہوگی اور وہ ایک ضابطے کے تحت ہی اسے خرچ کرنے کا پابند ہوگا۔
عساکر اسلامیہ:
کتاب اﷲ کے قانونی نظام میں عساکر اسلامیہ کی دو اہم ذمہ داریاں ہیں،شہروں میں امن و امان کا قیام اور ریاست کی سرحدوں کی حفاظت۔حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کے دور سے آج تک شہروں میں اپنی ذمہ داریاں اداکرنے والی عساکر کو ’’شرطہ‘‘(پولیس)کہاجاتاہے جبکہ بقیہ افواج سرحدوں پر دشمن سے نبردآاما رہتی ہیں اور جب بھی کوئی نیاعلاقہ فتح ہوتواس کے نظم و نسق اورانتظامی و عدالتی فیصلوں کی تنفیذکے لیے شرطہ کو تعینات کیاجاتاہے۔
کتاب اﷲ کے اس قانونی نظام پر چندبہت دقیق امورکے علاوہ کل امت کا صدیوں سے اجماع و اتفاق رہاہے،ائمہ اربعہ ہوں یا ائمہ اثنا عشریہ اسی نظام کی ترویج واشاعت وتنفیذپرمتفق ہیں۔یہی نظام جہاں امت مسلمہ کو متحد و یک جان کرسکتاہے وہاں کل انسانیت کی فلاح کی ضمانت بھی اسی نظام میں ہے۔اس نظام پر عمل کے نتیجے میں جہاں اس دنیا کی تاریکیاں دور ہو سکیں گی اور گھرگھر،قریہ قریہ اور بستی بستی خوشحالی کا دوردورہ ہوگا وہاں دارآخرت میں بھی کامیابی کاتیقن اسی نظام میں ہی پنہاں ہے۔اﷲ کرے وہ دن قریب آ لگیں جب انسان پر انسان کی غلامی کادور ختم ہو اور مخلوق اپنے خالق کے دائرہ عبادت و اطاعت میں آسودگی و راحت کے دیکھ پائے،آمین۔(یو این این)
کتاب ﷲ کا قانون نسخ
ایک حدیث نبوی ﷺ کے مطابق اﷲ تعالی نے تین سو سے زائد کتب نازل کی ہیں۔اتنی کتب نازل کرنے کے متعدد مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی مقصداحکامات میں تبدیلی ہی ہواکرتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات و حاجات اور عملی وعمرانی تقاضوں میں تبدیلی کے باعث اﷲ تعالی اپنی بھیجی ہوئی شریعتوں میں بھی تبدیلی کر دیتاتاکہ انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتی رہیں ۔اس تبدیلی کو اصطلاح میں نسخ کہتے ہیں۔اسکے دو حصے ہیں پہلا حصہ ناسخ اور دوسرا منسوخ۔پہلے نازل ہونے والا حکم منسوخ کہلاتا ہے اور بعد میں نازل ہونے والا ناسخ۔کتاب اﷲ سے مراد آسمان سے نازل ہونے والی کل کتب ہیں چنانچہ کتاب اﷲ میں عقائدواخلاقیات،واقعات اور قصص اور اخبارات و اطلاعات میں نسخ واقع نہیں ہواچنانچہ توحید رسالت آخرت اورحسن سلوک اور صلہ رحمی وغیرہ ہرشریعت میں جوں کے توں ہی رہے،ناسخ و منسوخ صرف احکامات میں واقع ہوا ہے جیسے ایک شریعت میں کچھ احکامات تھے تو جب آنے والا رسول نئی کتاب لے کر پہنچا تو اﷲ تعالی نے بعض احکامات بالکل ختم کر دیے ،بعض مکمل طور پر تبدیل کر دیے اور بعض میں جزوی تبدیلی کر دی جبکہ بعض احکاما ت گزشتہ شریعت کی طرح نئی کتاب میں بھی باقی رکھے گئے اس لیے کہ اﷲ تعالی جو چاہے کر سکتاہے۔
بعض اوقات دو شریعتوں کے درمیان نسخ واقع ہوتا تھا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں سگے بہن بھائیوں کانکاح ہوتا تھا،گزشتہ امتوں پر اجتماعی عذاب آتاتھاجس میں کل امت تباہ ہوجاتی تھی،حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت میں ہر چلنے والا جانور حلال تھا،حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں ایک نکاح میں دو بہنیں جمع ہو سکتی تھیں اور انسان کو سجدہ کرنا جائز تھا،حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں چور جس کی چوری کرتا تھا پھر بطور سزا اسکی غلامی کرتا تھا،بنی اسرائیل پر تین نمازیں فرض تھیں اور انکی نمازمیں رکوع بھی نہیں ہوتاتھا،انکاروزہ غروب آفتاب سے غروب آفتاب تک ہوتا تھازکوۃ 25%فرض تھی،اور طلاق کی عام اجازت تھی جبکہ حضرت عیسی کی شریعت میں صرف زانیہ کو ہی طلاق دی جاسکتی تھی اور گزشتہ امتوں میں عبادت کسی ایک مخصوص جگہ پر ہی ہوسکتی تھی،قربانی کاگوشت کھانا ممنوع تھا اور آسمان سے ایک آگ آکر قربانی جلا جاتی تھی اور اگر ایسا نہ ہو تو اسکا مطلب تھا کہ قربانی قبول نہیں ہوئی،دشمن سے پکڑا جانے والا مال غنیمت بھی نذر آتش کر دیاجاتا تھا وغیرہ لیکن اب ان تمام احکامات میں سے بعض تو مکمل طور پر ختم کر دیے گئے ہیں اور بعض میں جزوی ترمیم سے دوبارہ جاری کیاگیاہے۔
بعض اوقات ایک ہی شریعت میں پہلے ایک حکم آتا ہے اور پھردوسرے حکم کے ذریعے پہلے حکم کومنسوخ کر دیا جاتا ہے۔حضرت موسی علیہ السلام نے اﷲ تعالی سے پوچھا کہ ہم کدھر منہ کر کے عبادت کریں ؟؟تو اﷲ تعالی نے مصر کے قیام کے دوران حضرت موسی علیہ السلام کے گھر کو ہی قبلہ بنادیالیکن بعد میں اسی شریعت موسوی میں بیت المقدس کو قبلہ بنادیاگیا۔اسی طرح بنی اسرائیل میں تین کتابیں اور کم و بیش چار ہزار انبیاء علیھم السلام تشریف لائے اور ظاہر ہے ہر کتاب اور ہر نبی کے ہاتھوں کچھ نہ کچھ نسخ تو ضرور ہی واقع ہوا ہوگا کیونکہ احکامات کی تبدیلی بھی نئی کتب اور نئے نبی کی آمد کا ایک اہم سبب ہوا کرتی تھی تب یہ سبھی نسائخ ایک شریعت میں واقع ہوئے یعنی شریعت موسوی میں تاآنکہ حضرت عیسی علیہ السلام جو بنی اسرائیل میں اﷲ تعالی کے آخری نبی تھے اور انہوں نے شریعت موسوی میں آخری نسخ قائم کیا اور متعدد سابقہ احکامات کی جگہ نئے احکامات صادر فرمائے۔لیکن ایسے احکامات کی بھی متعدد مثالیں ہیں جنہیں کسی بھی شریعت میں منسوخ نہیں کیاگیاجیسے فرائض کی ادائگی اور کبائر سے اجتناب ہر شریعت میں موجود رہا اور نکاح جیسی سنت انبیاء علیھم السلام سبھی امتوں میں موجود رہی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب دس سنتیں ،مہمان نوازی،ختنہ،زیرناف اور زیر بغل بال کاٹنا،استنجہ،غسل،ناخن کاٹنا وغیرہ کا پتہ ہرشریعت میں ملتا ہے اور سب نبیوں نے اپنی امتوں کو ان احکامات کی تعلیم دی ہے۔
آخری نبی ﷺ اور آخری کتاب کے ساتھ ہی گزشتہ تمام اطاعتیں منسوخ کر دی گئیں،ایک بار حضرت عمر رضی اﷲ عنہ توریت کی تلاوت کر رہے تھے کہ آپ ﷺ نے یہ کتاب انکے ہاتھوں سے اچک لی اور ارشاد فرمایا کہ اگرحضرت موسی علیہ السلام بھی موجود ہوتے تو انہیں میری ہی اطاعت کرنی ہوتی۔ایک اصولی بات یہ ہے جب تک نئی شریعت میں نسخ واقع نہیں ہوجاتا گزشتہ حکم برقرار رہتا ہے اورنیا نبی اوراسکی امت اسی گزشتہ حکم کے مطابق ہی احکامات بجا لاتے ہیں۔جیسے معراج سے پہلے بنی اسرائیل کی طرح تین نمازیں اداکی جاتی تھیں اورقبلہ بھی بنی اسرائیل والا یعنی بیت المقدس ہی تھا،روزے کے بارے میں نیاحکم آنے سے پہلے تک شریعت موسوی کے مطابق ہی روزے رکھے جاتے رہے وغیرہ۔لیکن جیسے جیسے نئے احکامات آتے گئے پرانے منسوخ ہوتے لے گئے۔
آخری شریعت میں بھی کثرت سے نسخ واقع ہوا،جیسے شروع میں روزہ کی جگہ فدیہ دینے کی اجازت تھی اور امیر لوگ روزہ نہیں رکھتے تھے اورروزے کی جگہ فدیہ ادا کر دیتے تھے لیکن بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا اور نیاحکم نازل ہوگیا کہ جو بھی رمضان پائے وہ لازما روزے رکھے۔جب منافقین نے آپ ﷺ سے انفرادی ملاقاتوں کے دوران بہت پریشان کرنا شروع کر دیا تو اﷲ تعالی نے حکم نازل کیا کہ جو بھی تنہائی میں نبی ﷺ سے ملنا چاہے پہلے کچھ فدیہ ادا کر کے آئے،اس سے جہاں منافقین کی شرارتیں ماند پڑ گئیں وہاں مخلص اور غریب مسلمان بھی نبی علیہ السلام کی انفرادی ملاقات سے محروم ہو گئے تب کچھ عرصے بعد ایک اور آیت کے نزول سے یہ پابندی اٹھا لی گئی وغیرہ۔یہ تمام منسوخ آیات اگرچہ آج بھی قرآن میں موجود ہیں اور انکی تلاوت بھی کی جاتی ہے لیکن ان پر عمل کرنا منسوخ ہو چکا ہے۔شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نے اس طرح کی پانچ منسوخ آیات گنوائی ہیں۔
شریعت محمدی کا یہ جداگانہ اسلوب ہے کہ یہاں تدریجی نسخ بھی واقع ہوا ہے،یعنی ایک حکم آہستہ آہستہ اور تھوڑا تھوڑا کر کے لاگو کیاگیا ہے،جیسے شراب جائز تھی اسے تین اور بعض مفسرین کے نزدیک چار مرحلوں میں حرام کیا گیا۔اسی طرح نماز کی فرضیت،روزہ کی فرضیت اورحج اور جہاد کی فرضیت بھی ایک دم نہیں کی گئی،مکی زندگی میں بعض نوجوان صحابہ نے جہاد کی اجازت مانگی کیونکہ کفار کے تشدد سے وہ تنگ آچکے تھے لیکن انہیں اجازت نہ دی گئی بعد میں مدنی زندگی کے دوران نازل ہونے والے احکامات میں جہاد کی فرضیت بھی نازل ہوگئی۔پہلے کچھ احکامات نہیں تھے بعد میں تھوڑے ٹھوڑے کر کے لاگو ہوتے گئے اور اسی طرح عورتوں کے لیے حجاب کے احکامات اور سود کی حرمت بھی نبی ﷺ کے آخری زمانے میں واقع ہوئی ۔حدوداﷲ کا تعلق بھی اسی قبیل سے ہے۔شریعت محمدی میں گزشتہ کتب کے بعض احکامات ابھی تک باقی ہیں اور ان میں نسخ واقع نہیں ہوا۔اسکی سب سے عمدہ مثال شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا ہے۔مدینہ میں جب ایک یہودیوں کے اشرافیہ جوڑے نے زنا کیا اوراسے نبی ﷺ کے سامنے لایا گیا،اسکی خلاصی کے لیے سفارشیں بھی آئیں توآپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ جب انکے بڑے جرم کرتے تو انہیں معاف کر دیاجاتااور جب انکے چھوٹے لوگ جرم کرت تو انہیں سزا دی جاتی۔تب آپﷺ نے توریت منگوای اور اس میں سے آیت رجم کے مطابق اس یہودی جوڑے پر رجم کی سزا نافذ کی۔ایک نبی کا گزشتہ کتاب میں سے ایک حکم کی تلاوت کے بعد پھر اس حکم کوجاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم اس نبی کی امت اور شریعت میں بھی جاری رہے گا اور اس میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوگا۔
وقتی نسخ،قانون نسخ کی ایک اور قسم ہے۔حالات کے ساتھ ساتھ انسانوں کی سہولت کے لیے شریعت نے احکامات بھی تبدیل کر دیے ہیں جیسے سفریابیماری کے دوران روزے کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور حالات موافق ہونے پر یہ فرضیت پھر لوٹ آتی ہے۔اسی طرح پانی نہ مل سکنے پر وضو یا غسل کی جگہ تیمم کر لینا ’’وقتی نسخ‘‘ہے جو کسی خاص وقت کی مجبوری کے باعث واقع ہوا۔اﷲ تعالی نے مسافر کے لیے نماز میں وقتی اختصار کر دیا ہے اور ایک خاص فاصلے اورخاص مدت کا مسافر صرف دو فرض ہی اداکرے گا اوربعض مسالگ تو سفر کے دوران جمع بین الصلاتین کی اجازت بھی دے دیتے ہیں۔قرآن نے اس بات کی بھی وقتی اجازت دی ہے کہ اگر جان لبوں تک آن پہنے تو بقدر ضرورت حرام بھی کھایا جاسکتا ہے۔نسخ کی اس قسم کو’’تعطل‘‘بھی کہتے ہیں،یعنی وقتی طور پر کچھ احکامات معطل ہوگئے۔
اجتہاد کا دورازہ قیامت تک کھلا رہے گااور علمائے حق اجتہاد کر کے تو اسلامی شریعت کے احکامات کو تازہ کرتے رہیں گے اور کہیں کہیں ان میں نسخ بھی واقع ہوتا رہے گا۔جیسے قرآن وسنت نے غلامی کو جائز رکھا ہے لیکن آج کے علماء نے غلامی کے خاتمے پر اجماع کیا ہے اوریوں اجتہاد اور اجماع کے ذریعے نسخ کا سلسلہ جاری ہے۔اسکی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں اور مختصرا کہا جا سکتا ہے کہ نسخ کے ذریعے ماضی میں اور اجتہاد اور اجماع کے ذریعے حال کی آخری شریعت میں نیاخون اور روشن دان کے ذریعے تازہ ہوا داخل ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی داخل ہوتی رہے گی اور انسانوں کی سہولت،آسانی،آسودگی اور راحت کا سامان اس دین میں ہمیشہ کی طرح جاری رہے گا۔(یو این این)
اسلامی قانون میں بدکاری کی سزا:حدزنا
’’حد‘‘اس سزاکو کہتے ہیں جوبطور حق اﷲ تعالی مقرر کی گئی ہو یاپھر وہ سزاجو کسی انسان کی حق تلفی یا ایزا دہی کی پاداش میں مجرم کو دی جائے۔ایسی سزاؤں کو’’حد‘‘ یا ’’حدود‘‘اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے خود سے ایسے جرائم اور انکی سزائیں متعین کردیں ہیںیہ ’’حدود‘‘اﷲ تعالی کی مقرر کردہ ہیں اور ان کو عبور کرجانا گناہ کبیرہ ہے۔قرآن و سنت میں کم و بیش دس ایسے جرائم گنوائے گئے ہیں جو ’’حدوداﷲ‘‘کے زمرے میں آتے ہیں اورشریعت اسلامیہ نے انکی سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔چوری،ڈکیتی،زنا،قذف،شراب خوری،ارتداداور بغاوت ان میں سے کچھ ہیں۔حدوداﷲمیں کمی بیشی کااختیار کسی کو نہیں۔اگر کوئی حاکم ایک کوڑا زیادہ لگائے گاتو اﷲٰتعالی اس سے پوچھے گا کہ کیاتو میرے سے زیادہ انصاف کرنے والاتھااور اگر کوئی حاکم ایک کوڑا کم لگائے گاتو اﷲٰتعالی اس سے بھی پوچھے گاکہ کیاتو میرے سے زیادہ رحم کرنے والا تھا۔
بدکاری ہر امت میں قابل سزاجرم رہا ہے اور ہر نبی اور ہر شریعت نے اس جرم پر سزا کا تعین کیاہے۔قدرت نے انسان کو یہ صلاحیت نسل بڑھانے کے لیے عطا کی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی لذت اور مزاقدرت ایک تحفہ خاص ہے جوانسان کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ہونے والے ذہنی تناؤ کے خاتمے کاباعث بنتی ہے اور انسان کوذہنی طور پر ان ذمہ داریوں کے نبھانے کے لیے تیار رہنے پر آمادہ رکھتی ہے۔اگر یہ لذت نہ ہوتی تو ممکن ہے کوئی انسان بھی عملی زندگی کے اتنے بڑے تقاضے پورے کرنے پر تیار نہ ہوتا۔اس لذت کو محض ہوس نفس کے لیے استعمال کرنا اور اسے اپنا خدابنالینا اور اس کے عوض ذمہ داریوں کی ادائگی سے فرار حاصل کرناکسی طور بھی درست اور جائز نہیں ہے ایسے افراد انسانی معاشروں کے نہیں انسانی نسلوں کے دشمن ہیں اور کل انسانیت کے غدار ہیں جنہوں نے اس اجتماعی صلاحیت کو محض لذت نفسانی کے لیے استعمال کر کے ضائع کر دیا۔
ایک انسان کو پورامعاشرہ پال پوس کر ،اسکی پرورش کر کے اور اسکو کھلا پلا کراور پیار محبت سے اتنا بڑا کرتاہے کہ وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسان پیدا کرنے کے قابل ہو سکے۔کوئی اس کے لیے گندم اگاتاہے،کوئی آٹا پیستاہے،کوئی روٹی پکاتاہے اور کوئی محنت کر کے تو وہ روٹی خریدکراسکے منہ میں ڈالتاہے۔کوئی اس کے لیے کپاس اگاتاہے،کوئی اس کپاس سے دھاگابنتاہے،کوئی کپڑا بناتاہے،کوئی سوٹ سیتاہے اور کوئی استری کر کے تواسے پہنا نے کاانتظام کرتاہے۔کوئی اسکے لیے جوتے بناتاہے،کوئی اسکے لیے سواری کاانتظام کرتاہے تو کوئی اسکی تعلیم کا بندوبست کرتاہے وغیرہ۔المختصر یہ کہ کم و بیش اٹھارہ سال تک پورامعاشرہ ایک انسان کو اس قابل بنانے میں لگارہتاہے کہ اس میں اتنی صلاحیت پیداہوجائے کہ وہ اپنے جیسے دیگر انسان پیداکرسکے۔اب اس نوجوان مردیاعورت کے پاس یہ صلاحیت پورے معاشرے کی امانت ہے اور وہ اکیلااس کامالک نہیں ہے۔اگر وہ اس امانت میں خیانت کرے گاتو پورامعاشرہ اس سے اس بددیانتی کا بدلہ لے گا اور ایسے فرد کے لیے شریعت نے پورے معاشرے کو حکم دیاکہ اسکو پتھر مارے جائیں کیونکہ وہ پورے معاشرے کامجرم ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اس لیے اس دین کے تمام احکامات انسان کافطری تقاضاہیں۔زنا جیساقبیح فعل کسی بھی نیک فطرت انسان کو زیب نہیں دیتااور ہر پاک طینت فرد اس سے نفرین ہے۔اسلام کے جملہ احکامات میں عمل تدریج شامل ہے یعنی انسانی فطرت کے عین مطابق تھوڑے تھوڑے کر کے یہ احکامات قسطوں میں نازل ہوتے رہے چنانچہ بدکاری سے بچنے کے بارے میں سب سے پہلے تومحسن انسانیت ﷺ نے مسلمانوں سے وعدے لیے۔جو بھی مسلمان ہونے کی بیعت کرتا آپ ﷺ اس سے جہاں اور وعدے لیتے وہاں یہ وعدہ بھی لیتے کہ زنا نہیں کریں گے۔خاص طور پر خواتین سے یہ وعدہ ضرور لیتے کیونکہ بدکاری ایسا فعل ہے جوخواتین کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں،مرد کتنی ہی کوشش کر لے یہ گناہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک کہ عورت نہ صرف یہ اسکے لیے تیار نہ ہو بلکہ اسکے جملہ تقاضے بھی اولین سطح پر خاتون کی طرف سے ہی پورے کیے جاتے ہیں۔یاد رہے کہ زنا بالجبرکاشمار حد زنا میں نہیں ہوتا بلکہ یہ حد حرابہ کے ذیل میں آتاہے۔ایک زناکارانہ معاشرے میں حرمت زنا کے بارے میں مسلمانوں کی ذہنی تیاری گویا یہ ابتدائی اقدامات تھے جن کاآغاز مکی زندگی میں ہی ہوگیاتھا۔
بدکاری کے بارے میں دوسرا حکم شریعت اور قرآن مجید کاپہلا حکم مدنی زندگی میں سورۃ نساء آیت15،16میں نازل ہوا اﷲٰتعالی نے فرمایا
’’تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کاکام کریں ان پراپنے میں سے چار گواہ طلب کرو،اگروہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قیدرکھو،یہاں تک کہ مو ت انکی عمریں پوری کردے یا اﷲٰتعالی ان کے لیے کوئی اورراستہ نکالے۔تم میں سے جو دوافراد ایساکام کرلیں انہیں ایذادواگروہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو ان سے منہ پھیرلوبے شک اﷲ ٰتعالی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘اس ابتدائی حکم کے بعد معاشرے میں سزاکے خوف سے اس جرم کی تعداد میں واضع کمی ہوگئی۔اسلام کے اصول نسخ کے مطابق بعد میں نازل ہونے والی آیات نے اس حکم کو منسوخ کردیااور باقائدہ سے حد زنا کاقانون اﷲٰ تعالی نے نازل فرمادیا جس کا کہ وعدہ اس آیت میں کیاگیاتھا۔اب اگرچہ ان آیات کی تلاوت کی جاتی ہے لیکن ان پر عمل کرنا منسوخ ہوگیاہے۔اور اﷲٰتعالی نے اٹھارویں سپارے میں سورۃ نور کی ابتدائی آیات کے اندر حد زنا کا باقائدہ قانون نازل فرمادیا۔’’یہ ایک سورۃ ہے جس کو ہم نے نازل کیاہے اورفرض کیاہے اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں شاید کہ تم سبق لو۔زانیہ عورت اور زانیہ مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو،اور ان پر ترس کھانے کاجذبہ اﷲٰتعالی کے دین میں تم کو دامن گیر نہ ہواگرتم اﷲٰتعالی اور روزآخرپرایمان رکھتے ہواور انکو سزا دیتے وقت اہل ایمان کاایک گروہ موجود رہے۔‘‘
زناکا ثبوت تین طریقوں سے ممکن ہو گا:اقرارجرم ثبوت کاپہلاطریقہ ہے،اقرار کے لیے ضروری ہے کہ مجرم بغیرکسی دباؤ کے اپنی مرضی سے بقائم ہوش و حواس خود سے اقراکرے،نشہ کی حالت میں اقرار جرم کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔امام ابوحنیفہ کے نزدیک چار بار اقرار کرنا ضروری ہے اور یہ چار بار چار مختلف مجالس میں ہو اور ان مجالس کے درمیان کچھ دنوں کاوقفہ ہونا بھی ضروری ہے۔اقرارجرم کرنے والے سے مزید بازپرس نہیں کی جائے گی اس سے یہ نہیں پوچھاجائے گاکہ کس کے ساتھ اس نے بدکاری کی ہے؟کس حال میں کی ہے؟کس جگہ کی ہے؟کس وقت کی ہے؟ وغیرہ ۔اقرارکرنے والا اگر بعد میں مکر جائے تو فقہا کی اکثریت کہتی ہے کہ اسے چھوڑ دیاجائے گا اور اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔ایک خاتون آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور اس نے اقرارجرم کے بعد کہاکہ اس پر حد جاری کر کے تو اسے پاک کیاجائے،آپ ﷺ نے فرمایابچہ پیدا کرنے کے بعد آنا،کچھ عرصہ بعدوہ بچہ گود میں لیے آئی آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارے دودھ پر اس بچے کا حق ہے،وہ پھر کچھ عرصے بعد آئی اور بچے کے ہاتھ میں روٹی کاٹکڑا تھا تب آپ ﷺ نے اس پر حد زنا جاری فرمائی۔
زنا کے ثبوت کا دوسراطریقہ گو اہوں کے بیانات سے اثبات جرم ہے۔زنا سمیت حدود کے مقدمات کے لیے گواہ مردہی ہونے چاہیں،اس حکم کو ماننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اﷲٰتعالی کا حکم ہے لیکن اس میں بہت ساری حکمتوں کے ساتھ یہ حکمت بھی ہے کہ اسلامی شریعت عورتوں کو گھروں سے نکال کر کچہریوں کے آلودہ ماحول میں میلا نہیں کرنا چاہتی،پھرزنا کی تفصیلات عدالت کے روبرو بتانا ضروری ہوگا توعورت کی فطری حیا و شرم اس میں مانع رہے گی کہ مردوں کے درمیان زنا کی تفصیلات وہ کس طرح بیان کرے؟اور شہادت کا حق ادا نہیں ہوسکے گا۔چار مرد گواہ اس صفائی کے ساتھ گواہی دیں گے کہ انہوں نے اس عمل کو اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھاہے کہ جس طرح سرمہ دانی میں سرمچو داخل ہوتے دیکھاجاتا ہے۔گواہوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہوں ،عادل ہوں اور صریح الفاظ میں گواہی کا بیان دیں،کنایہ کے الفاظ سے شہادت مشکوک ہو جائے گی اور چاروں گواہوں کے بیانات میں زمان و مکان کا تضاد بھی نہیں ہونا چاہیے ،اسلامی شریعت کی تاسیس سے آج تک ان چار گواہوں کی بنیاد پر ایک دفعہ بھی حد جاری نہیں کی گئی۔
زنا کے ثبوت کا تیسرا اور آخری طریقہ ظہور حمل ہے ۔غیرشادی شدہ عورت اگر حمل سے ہو جائے تو یہ زنا کاکافی ثبوت ہے۔اگر عورت جبرکا دعوی کرتی ہے تواس سے ثبوت مانگاجائے گا ،ثبوت پیش کرنے پراسے کچھ نہیں کہاجائے گا۔دورفاروقی میں ایک مہمان نے اپنے میزبان کی لونڈی پر زبردستی کرنا چاہی ،لونڈی نے اسے پتھر دے مارا اور وہ مہمان مر گیا،حضرت عمرؓ کی عدالت میں لونڈی نے جبر ثابت کر دیا تو حضرت عمرؓنے اس مقتول کا قصاص و دیت بھی ساقط کر دیا اور اس لونڈی کو باعزت بری کر دیا۔ اورظہور حمل کے بعد اگر عورت نکاح کا دعوی کرتی ہے تو بھی اس سے نکاح کے گواہ مانگے جائیں گے کیونکہ نکاح صحیح کے لیے گواہ شرط ہیں،تاہم اگر کوئی عورت اپنے وطن سے دور ہے تب اس سے نکاح کا ثبوت نہیں مانگاجائے گا اور اس کے دعوے نکاح کو درست مان لیاجائے گا۔
حصہ دوم
(اجرائے حدو کیفیات)
’’احصان ‘‘سے مراد وہ شرائط ہیں جن کے پوراہونے پرزناکی سزادی جائے گی۔اور جو شخص ان شرائط کوپوراکرے گا اسے ’’محصن‘‘کہیں گے۔’’محصن‘‘ کے لیے سب سے پہلی شرط اسلام ہے کیونکہ غیرمسلم پر حد جاری نہیں کی جائے گی،دوسری شرط عقل و بلوغ ہے کیونکہ جملہ احکامات شریعت عاقل اور بالغ شخص پر ہی عائد ہوتے ہیں،آزادی بھی ایک شرط تھی لیکن اب چونکہ دورغلامی گزرچکااس لیے یہ شرط اپنی عمر پوری کر چکی۔رجم کی سزا کے لیے شادی شدہ ہونا بھی شرط ہے اورضروری ہے ’’محصن‘‘اپنے زوج سے بطریق مباح مجامعت کر چکا ہو۔جو زانی شادی شدہ نہ ہو اسے سو کوڑے لگائے جائیں گے۔’’احصان‘‘ کی پہلی شرط مسلمان ہونے میں اکثر علماء کا اختلاف واقع ہوا ہے کیونکہ محسن انسانیت ﷺ نے ایک یہودی جوڑے پر بھی حد زنا جاری فرمائی تھی تاہم یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ غیر مسلم چونکہ اسلامی احکامات کے مکلف نہیں ہیں اس لیے ان پر حدوداﷲٰ نافذ نہیں ہوں گی،جہاں تک یہودی جوڑے پر حد جاری کرنے کا تعلق ہے تو وہ آپ ﷺ نے توریت کے حکم کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا تھا۔
سنت رسول اﷲٰ ﷺنے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر فرمائی ہے ۔ایک حدیث نبویﷺکے مطابق کسی مسلمان کاخون تین صورتوں کے علاوہ جائزنہیں،قتل ،ارتداداور محصن (شادی شدہ)زانی۔متعددواقعات بھی سنت رسول اﷲ ﷺ سے ثابت ہیں جن میں آپ ﷺ نے محصن زانی کو رجم کرنے کا حکم دیا اور مسلمانوں نے اسکو رجم کیا،ماعذ،غامدیہ اور یہودیوں کاجوڑا اسکی بہت مشہور مثالیں ہیں۔دورخلافت راشدہ میں بھی اسی پر تعامل رہا۔اگرچہ کچھ علماء صرف اتنی سختی کرتے ہیں کہ وہ محصن جو عادی زانی بن چکاہو اور کسی صورت باز نہ آتا ہو صرف اسی کو ہی رجم کیاجائے گالیکن یہ موقف جمہورعلماء کی رائے سے متصادم ہے اس لیے کہ تب تو کوئی ایسا پیمانہ نہیں رہے گا کہ کوئی کتنی دفعہ بدکاری کرے اور تب ہی اس کو عادی بدکار تصور کیاجائے۔کچھ علماء کرام نے رجم کی سزاکوسورۃ مائدہ کی آیت حرابہ سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ محض تکلف بے جا ہے۔جب شریعت اسلامیہ میں خود کتاب اﷲ اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اﷲ تعا لی کے رسول ﷺ قانون سازی کر سکتے ہیں تو پھرنبوی فیصلوں کو ماننے میں کیامر مانع ہے؟؟اور منکرین حدیث کے پیچھے چلنے کی کیاضرورت ہے؟؟ایک حدیث مبارکہ میں غیرشادی شدہ زانی کے لیے سوکوڑوں کے ساتھ ایک سال کی جلاوطنی کی سزا بھی مذکور ہے لیکن علماء نے جلاوطنی کی سزاکو تعذیر کے ضمرے میں رکھاہے اس لیے کہ زانیہ کو جلاوطنی کی سزا دینے میں کئی شرعی امور مانع ہیں۔
حدود کے معاملات کے لیے عدالت کاہونا ضروری ہے۔پنچائت،جرگہ،مسجدیا گلی محلے میں حدودکے فیصلے نہیں ہوسکتے۔عدالت میں جب بدکاری ثابت ہوجائے گی تو اسکی سزاکے انتظامات کیے جائیں گے۔سب سے پہلاانتظام جس کاقرآن نے حکم بھی دیا کہ سزاسرعام دی جائے گی۔چھپ کر کال کوٹھڑی میں سزائیں دینا انگریزکاقانون ہے۔سزاکاایک مقصد جہاں مجرم کو تکلیف پہچاناہے وہاں اس سے بڑا مقصددوسروں کو اس فعل بد کے عبرت انگیزانجام سے آگاہ کرنا بھی ہے۔سزادینے کاسب سے بڑامقصد اس قبیل کے جرائم کی بیخ کنی ہوتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک زمانہ دیکھے اور اس مجرم کے انجام سے عبرت حاصل کرے اور آئندہ جس کسی کے دل میں اس جرم کے کرنے کاخیال بھی پیداہو تو اپنے پیش رو مجرم کا آنکھوں دیکھاحال اسے اس جرم سے بزورروک دے۔حدزنا سمیت شریعت اسلامیہ نے جتنی بھی سزائیں مقررکی ہیں ان کے لیے مسلمانو کی ایک تعداد کے سامنے اس سزاکادینا لازم ٹہرایاہے۔کوڑوں کی سزا کی کیفیت اس طرح ہوگی:
1۔ گرمیوں میں ٹھنڈے وقت میں اور سردیوں میں گرم وقت ،سرعام درے لگائے جائیں گے۔
2۔سر ،منہ۔چہرہ اور نازک اعضا پر درے نہیں لگائے جائیں گے،اسے باندھا نہیں جا ئے گا۔
3۔درے اس طرح لگائے جائیں گے کہ انکے اثرات صرف جلد تک رہیں گے،گوشت تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
4۔درہ ہلکی ضرب والا ہوگا،قرین قیاس ہے کہ ٹانگے والے جوچھانٹا استعمال کرتے ہیں وہ کافی ہے۔
5۔اگر جرم کا اثبات گواہوں سے ہوا ہے تو دروں کا آغاز گواہ کریں گے پھر قاضی یاحاکم اور پھر جلاد سزا کی تکمیل کرے گا۔
6۔اگرجرم کا اثبات اقرارجرم یا ظہور حمل سے ہوا ہے توسزاکاآغازقاضی یاحاکم کرے گا، پھر جلاد اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
7۔کوڑے لگاتے وقت جلاد کا ہاتھ کندھے سے اوپر نہیں جائے گااور اسکی بغل بھی نظر نہیں آئے گی۔
8۔مریض کی صورت میں شفاکاانتظارکیاجائے گا۔
9۔حالت حمل میں سزا نہیں دی جائے گی۔
رجم کی سزا کی کیفیات اس طرح ہوں گی:
1۔اقرار کی صورت میں سزاکاآغاز قاضی یاحاکم کرے گااور پھر عوام۔
2۔گواہوں سے جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزاکاآغاز گواہ پھر قاضی یاحاکم اور پھر عوام بھی شریک سزا ہوجائیں گے۔
3۔اوسط درجے کے پتھروں سے ماراجائے گااورچہرے پر پتھر نہیں مارے جائیں گے۔
4۔حاملہ کے لیے وضع حمل اور مدت رضاعت تک انتظار کیاجائے گا۔
5۔مجرم اگر بھاگنے لگے تو اسے گڑھے میں دبایا جاسکتاہے۔
حد جاری ہوچکنے کے بعد مقتول کوپورے ادب و احترام کے ساتھ غسل اور کفن دیاجائے گااور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیاجائے گا۔ایک عورت کو رجم کرنے کے بعدکسی مسلمان نے اس عورت کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے،اس پر آپ ﷺ ناراض ہوگئے اور ارشاد فرمایا کہ اس عورت کی توبہ اگر اہل مدینہ پرتقسیم کی جائے تو سب ہی معاف کردیے جائیں۔کیونکہ جسے کسی گناہ کی سزااس دنیامیں مل جائے تو روز قیامت اس سے بازپرس نہیں ہوگی اور جو گناہ کرنے کے باوجود اس دنیامیں سزاسے بچ گیااب اﷲ تعالی کی مرضی ہے کہ روزقیامت اسے سزادے یامعاف کردے۔
حد جاری کرنے کے دوران کسی طرح کاترس کھانادرست نہیں۔ظالم پر ترس کھانا مظلوم کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے،اور اس جرم کا مظلوم پورامعاشرہ ہے بلکہ انسانی نسل بھی ہے اس لیے کہ جس کے گھر میں پناہ گاہ موجود ہے اور پھر بھی وہ لوگوں کی عزتوں سے کھیلتاہے اورنسلوں کے نسب مشکوک کرتا ہے تو وہ صحیح معنوں میں اسی سزاکاہی مستحق ہے کہ اسکے ناپاک وجود سے اس دھرتی کو پاک کردیاجائے۔یہ بھی درست کہ زنا کی یہ سزا بہت شدید ہے اس لیے کہ یہ جرم بھی اتنا ہی یا شاید اس سے بھی زیادہ شدیدہے۔صرف زنا کی تہمت لگا دینے سے ہی حد قذف کے اسی کوڑے انسان کی کمر پر لگنا ضروری ہو جاتے ہیں تو عملا یہ جرم کتناقبیح اور کتنا غلیظ ہوگا؟؟۔حضرت مریم علیہ السلام کو جب جبریل بیٹے کی خوشخبری دی اور انہوں نے پاکدامنی سے محض حکم ربی کی بناپر بچہ جناتو صرف بدکاری کی تہمت کے خوف سے انہوں نے فرمایا جس کو قرآن نے سورہ مریم آیت23میں نقل کیاہے کہ کاش میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور میرانام و نشان تک نہ رہتا،حالانکہ وہ خود اپنی پاکدامنی سے آگاہ تھیں اورجبریل انہیں تسلی دے رہاتھااور اﷲ تعالی ان کی معصومیت پر گواہ تھا۔
زنا کی سزا سے پہلے دوائی زنا کو روکنا ضروری ہے،دوائی زنا سے مراد وہ راستے ہیں جہاں سے زناکے دروازے کھلتے ہیں۔ معاشرے میں زناکارانہ ماحول ختم ہو اور آزادانہ آشنائیاں بندکردی جائیں،مخلوط تعلیم اور مخلوط محفلوں سے احتراز کیاجائے ،معاشرے میں حجاب اور نقاب کارواج عام کیاجائے،نوجوانوں کو سخت کوشی کاعادی بنایاجائے اور انہیں فوجی اور نیم فوجی زندگی کاعادی بناکر عورتوں سے دوررکھنے کاانتظام کیاجائے اور سب سے زیادہ یہ کہ تقوی اور دینداری کو لوگوں کی عادات میں شامل کیاجائے تب ہی اس قباحت اور حرام کاری سے معاشرے کا بچناممکن ہے۔حکومت وقت اورمعاشرہ پہلے ایسے انتظامات کرے کہ زنا کے دروازے بند ہوتے چلے جائیں،لوگوں کی عزت و ناموس محفوظ ہوتی چلی جائے اور خواتین اپنے فطری امورجن میں امور خانہ داری اور بچوں کی پیدائش و نگہداشت ہے اس میں مصروف رہیں ۔ جیسے جانوروں اور پرندوں کے بالغ ہوتے ہی فطرت انہیں جوڑاجوڑاکر دیتی ہے اسی طرح نوجوانوں کی بروقت شادیاں کردی جائیں تو اس جرم سے بہت کچھ بچت ہو سکتی ہے۔اسلامی شریعت قطعانہیں چاہتی کہ معاشرے سے بدکاری کے دروازے بند کیے بغیرلوگوں پر کوڑے اور پتھر برسانے شروع کر دیے جائیں لیکن جب دوائی زنامسدود ہ ہوجائیں تو پھر کسی زانی کو معاف نہ کیاجائے کہ یہی منشائے خدا ہے اور اسی میں انسانیت کا بھلاہے۔(یو این این)
حد قذف
عربی لغت میں ’’قذف‘‘کا مطلب تیر پھینکناہے۔شریعت اسلامیہ میں ’’قذف‘‘سے مرادہے کسی پاک دامن مومن مرد یا مومن عورت پر واضع الفاظ میں زنا کی تہمت لگانا یااسکے بارے میں ایسی بات کہنا جس کامطلب یہ ہوکہ وہ زناکار ہے۔’’حد‘‘اس سزاکو کہتے ہیں جوبطور حق اﷲ تعالی مقرر کی گئی ہو یاپھر وہ سزاجو کسی انسان کی حق تلفی یا ایزا دہی کی پاداش میں مجرم کو دی جائے۔ایسی سزاؤں کو’’حد‘‘ یا ’’حدود‘‘اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے خود سے ایسے جرائم اور انکی سزائیں متعین کردیں ہیں اور کسی کو ان میں کمی بیشی یاتجاوزکااختیارحاصل نہیں ،چنانچہ یہ ’’حدود‘‘اﷲ تعالی کی مقرر کردہ ہیں اور ان کو عبور کرجانا گناہ کبیرہ ہے۔قرآن س سنت میں کم و بیش دس ایسے جرائم گنوائے گئے ہیں جو ’’حدوداﷲ‘‘کے زمرے میں آتے ہیں اورشریعت اسلامیہ نے انکی سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔
قرآن مجید کے اٹھارویں سپارے کی سورہ نور میں احکامات قذف صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں:
’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھرچارگواہ لے کر نہ آئیں ان کو اسی(80)کوڑے مارو اور انکی شہادت کبھی قبول نہ کرواور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے ان لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہوجائیں اور اصلاح کرلیں کہ اﷲ تعالی ضرور(انکے حق میں )غفورالرحیم ہے۔‘‘(سورۃنورآیات4,5)
’’بے شک جو لوگ پاک دامن ،بے خبر،مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیااورآخرت میں لعنت کی گئی اورانکے لیے بڑاعذاب ہے ۔وہ اس دن کو بھول جائیں جبکہ انکی اپنی زبانیں اورانکے ہاتھ پاؤں انکے اپنے کرتوتوں کی گواہی دیں گے ۔اس دن اﷲ تعالی وہ بدلہ انہیں بھرپور دے دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اﷲ تعالی ہی حق ہے اور سچ کو سچ کر دکھانے والا ہے۔‘‘(سورۃ نور آیات23-25)
قرآن مجید کے لیے ’’قذف‘‘کے لیے ’’رمی ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ قذف کے مترادفات میں سے ہے۔لفظ ’’رمی‘‘کا مطلب نشانہ لگانا یا تیر چلانا ہے۔حج کے موقع پر شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ان آیات سے پہلے حد زنا کا حکم ہے اور بعد میں قانون لعان کی وضاحت کی گئی ہے۔قانون لعان سے مراد میاں اور بیوی کا ایک دوسرے پرزناکا الزام دھرنا ہے۔آیت کے سیاق و سباق سے یہ پختہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ یہاں تہمت سے مراد ’’زناکاری‘‘کی تہمت مراد ہے۔
قاذف یعنی بدکاری کا الزام لگانے والا کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتاہو اس پر بہرصورت حد جاری کی جائے گی،تاہم فقہا نے یعنی اسلامی قوانین کے ماہرین نے تین عمومی شرائط بتائی ہیں جو قاذف میں ہونا ضروری ہیں
1۔عقل و بلوغ:یہ بنیادی شرط ہے ہر اس فرد کے لیے جس پر کسی بھی قانون کا اطلاق کیاجاناہو۔
2۔آزادی رائے:قاذف نے بحوش و حواس اپنی مرضی سے اور آزادی سے یہ الزام دھرا ہو۔
3۔صریح الفاظ:قاذف کے الفاظ صریح اورواضع ہونے چاہییں،ذو معنی الفاظ یا شکوک و شبہات حدود کو ساقط کر دیتے ہیں۔
ان کے علاوہ قاذف کے لیے کوئی شرط مقرر نہیں کی گئی،وہ آزاد ہو ،غلام ہو،مسلمان ہو کافر ہو،عورت ہو مرد ہویامعاشرے کے کسی بھی طبقے یا رنگ نسل یا کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہو اس پر حد جاری کی جائے گی۔
مقذوف یعنی جس پر بدکاری کاالزام دھراگیاہواسکے لیے قرآن مجید نے جو اولین شرط رکھی ہے کہ وہ’’محصن‘‘ہو۔’’محصن‘‘ وہ ہوتا ہے جو ’’احصان‘‘کی شرائط پوری کرتاہویا’’احصان‘‘کے معیارپر پورااترے۔’’احصان‘‘کالفظی مطلب قلعے کی دیوار ہے جوآبادی کی حفاظت کرتی ہے۔یہاں ’’احصان‘‘سے مراد شخصیت کے گرد پاکدامی کا حصار ہے جسے قاذف نے چھلنی کیا اور ’’محصن‘‘کی شخصیت اور عزت نفس مجروح ہوئی۔یہ قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کا اعجاز ہے کہ اس کتاب میں کس کس طرح کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں کہ گویا دریاکو کوزے میں سما دیا گیاہو۔
شریعت اسلامیہ نے ’’احصان فی القذف‘‘کی پانچ شرائط مقرر کی ہیں ،یعنی جس میں یہ پانچ شرائط پائی جائیں گی وہ ’’محصن‘‘شمار ہوگا اور اسکے قاذف پر حد جاری کی جائے گی :
1۔عقل و بلوغ:یہ جملہ احکامات شریعت کے عائد ہونے کی بنیادی شرط ہے،آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین افراد پر سے قلم اٹھالیاگیا ہے بچہ،مجنون اور سویاہواشخص۔چنانچہ ایسے افراد’’محصن‘‘نہیں ہوسکتے۔
2۔پاکدامنی:یہ بنیادی شرط ہے۔ایسے افرادجوپہلے سے زناکار مشہور ہوں یازناکی سزاپاچکے ہوںیااس معاملے میں بری شہرت رکھتے ہوں تو وہ ’’محصن‘‘ شمار نہ کیے جائیں گے۔
3حریت:لونڈی غلام ’’محصن‘‘نہیں ہوتے اس کے لیے آزادی ایک اور شرط ہے،قرآن مجید نے’’ محصنات ‘‘اور لونڈیوں کو الگ الگ بتایاہے۔
4۔اسلام:آپﷺ کاارشاد ہے کہ جو شخص اﷲ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ’’محصن‘‘نہیں چنانچہ غیرمسلم ’’محصن‘‘نہیں ہوتا۔
5۔’’احصان‘‘کے لیے قابل وطی ہونا بھی ضروری ہے یعنی جس پر زناکاالزام لگایا جارہا ہے وہ اس الزام کے قابل بھی ہے،بصورت دیگر یہ الزام لغو ہوگا۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ ’’ہم نے بنی آدام کو عزت والا بنایاہے‘‘۔اس آیت کے مصداق ہر وہ شخص جو ’’محصن‘‘نہیں بھی ہے تب بھی وہ عزت والاہے۔تب شریعت اسلامیہ حاکم کو پابند کرتی ہے کہ غیر محصن پر بھی اگرکوئی زناکا الزام لگائے تواس کوبہرصورت سزا دی جائے،لیکن یہ سزا’’ حد ‘‘نہیں ہو گی بلکہ تعزیر ہوگی۔تعزیر اس سزا کو کہتے ہیں جس کی کمیت اور حجم حاکم پر چھوڑدیے گئے ہوں۔’’حدوداﷲ‘‘کے قوانین چونکہ مقررومتعین ہیں اور ان میں کسی کمی بیشی یا تغیروتبدل کا کسی کو اختیار نہیں اس لیے ’’غیرمحصن ‘‘کے قاذف پر ’’حد‘‘جاری نہ ہوگی۔
’’محصن‘‘کے لیے ضروری ہے کہ ’’احصان‘‘ کی تمام شرائط پوری کرتاہو،کسی ایک شرط کے ساقط ہونے سے ’’حد‘‘بھی ساقط ہوجائے گی ۔اگر کسی ’’محصن‘‘پر ایسے وقت میں الزام لگایاگیا جب وہ ’’محصن‘‘نہیں تھایعنی اس وقت وہ حالت کفر میں تھا ،یا غلام تھاوغیرہ توبھی قاذف پر حد جاری نہ ہوگی ۔تاہم ’’محصن‘‘کے فوت ہو جانے کے بعد اسکے قاذف پر حد جاری ہوگی کیونکہ ’’احصان‘‘ کی شرائط میں ’’زندگی‘‘شامل نہیں ۔’’محصن‘‘ مرنے کے بعد بھی ’’محصن‘‘رہتاہے تاہم کچھ فقہا کے نزدیک ورثاکودعوی قذف کا حق حاصل ہے جبکہ بعض اس موقف کی تردیدکرتے ہیں۔گونگے کے اشاروں سے اس پرحد جاری نہ ہو گی کیونکہ اشاروں میں شک کی گنجائش موجود رہتی ہے اور شک سے حد ساقط ہوجاتی ہے۔تاہم اشارہ اتنا واضع ہوکہ شک کی گنجائش نہ رہے تو حد جاری ہوگی۔
حد قذف کے لیے ضروری ہے کہ الزام کے الفاظ صریحا’’عمل زنا‘‘ کی نشاندہی کرتے ہوں۔اشارۃ یا کنایۃ یا شبھۃ لگنے والے ’’الزام زنا‘‘کے باعث حد جاری نہ ہوگی۔باپ دادا یا ماں نانی وغیرہ اپنی اولاد پر قذف کے مرتکب ہوں تو ان پر حد جاری نہ ہوگی کیونکہ قرآن مجید نے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔الزام کا مرتکب اس وقت حد کا مستوجب ہوگا جب وہ خود قاذف کی شرائط پوری کرتا ہو اور اس نے جس پر ’’الزام زنا‘‘چسپاں کیا ہے وہ ’’محصن‘‘ کی شرائط پوری کرتا ہواور’’الزام زنا‘‘میں صراحۃ ’’عمل زنا‘‘کاذکرہو،تاہم ایک بات پیش نظر رہے کہ جھگڑے کے دوران گالم گلوچ پر ان معاملات کا اطلاق نہ ہوگا۔
قاذف حد کی سزاسے بچ سکتا ہے مگر تین صورتوں میں:
1۔مقذوف اسے معاف کر دے ،مگر یہ معافی عدالت پہنچنے سے پہلے ہونی چاہیے ۔ عدالت میں پہنچ جانے کے بعد یہ معاملہ حقوق العبادکی بجائے حقوق اﷲکی طرف مڑ جائے گا اور حقوق اﷲ میں معافی یاکمی بیشی کا اختیار کسی کو نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا’’حدودکو آپس میں معاف کر دیا کرو مگر جب معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا تو حد ضرور جاری ہو گی‘‘۔
2۔قاذف اگر اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ پیش کر دے تو بھی اس پر سے حد ساقط ہو جائے گی کیونکہ قرآن مجید نے خود اس کی صراحت کی ہے۔اس صورت میں الزام سچا ثابت ہو جائے گااور قاذف کی بجائے زانی پر حد جاری ہوگی۔
3۔قاذف کی معافی کی تیسری صورت یہ ہے کہ مقذوف اقرار جرم کر لے،اس صورت میں بھی الزام ثابت ہو جائے گااور قاذف کی کمر بچ جائے گی۔
قرآن مجید نے جرم قذف کی درج ذیل سزائیں گنوائیں ہیں:
1۔قذف کے مجرم کو اسی(80)درے لگائے جائیں۔ 2۔اسکی گواہی کبھی قبول نہ کی جائے۔
3۔اسکا شمار فاسقوں،مجرموں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگوں میں کیاجائے۔
4۔اﷲ تعالی کے بزدیک وہ دروغ گو یعنی بلاکاجھوٹا شخص ہے۔
5۔دنیا و آخرت میں اس پر لعنت ہے۔ 6۔قیامت میں دوزخ کاعذاب
7۔روزمحشر اسکے اپنے اعضا اسکے خلاف شہادت دیں گے۔
قاذف کو اس طرح سزا دی جائے گی:
1۔قاذف کو گرمیوں میں ٹھنڈے وقت میں اور سردیوں میں گرم وقت ،سرعام درے لگائے جائیں گے۔
2۔سر ،منہ۔چہرہ اور نازک اعضا پر درے نہیں لگائے جائیں گے،اسے باندھا نہیں جائیگا۔
3۔درے اس طرح لگائے جائیں گے کہ انکے اثرات صرف جلد تک رہیں گے،گوشت تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
4۔درہ ہلکی ضرب والا ہوگا،قرین قیاس ہے کہ ٹانگے والے جوچھانٹا استعمال کرتے ہیں وہ کافی ہے۔
5۔اگر جرم کا اثبات گواہوں سے ہوا ہے تو دروں کا آغاز گواہ کریں گے پھر قاضی اور پھر جلاد سزا کی تکمیل کرے گا۔
6۔اگرجرم کا اثبات اقرارجرم سے ہوا ہے توسزاکاآغازقاضی کرے گا اور پھر جلاد اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
7۔قاذف کی شہادت کسی معاملے بھی کبھی قبول نہ کی جائے گی لیکن بعض فقہا کے نزدیک توبہ کر چکنے کے بعد یہ سزا ختم ہوجائے گی۔
حد قذف جاری ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اﷲ تعالی کی حدود اور اسکے قوانین اس مملکت میں جاری و ساری ہوں گے،جو کہ پاکستان کے قیام کا مقصد تھا۔جب زمین اﷲ تعالی کی ہے،مخلوق اﷲ تعالی کی ہے اور جب حکم صرف اﷲ تعالی کاہی ہے تو قوانین بھی اﷲ تعالی کے ہی ہونے چاہییں۔خود کش حملوں پر اسلام سے رائے لینا،خواتین کی تعلیم پر اسلام سے رائے لینا،تفریحی سرگرمیوں پر اسلام سے رائے لینا اور یہودی و عیسائی خواتین سے نکاح کے بارے میں اسلام سے رائے لینا اور جب اپنی مرضی کے خلاف قوانین آنے لگیں تو اسلام سے روگردانی کر جانا اور غیراسلام پر چلنا شروع کر دیناگویایہودوالی روش ہے جس پر قرآن نے یوں تبصرہ کیاہے کہ ’’تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہواور ایک حصے کا انکار کرتے ہو؟‘‘
ایک روایت کے مطابق کوئی ایک حد جاری ہونے سے اتنی برکت ہوجاتی ہے جتنی چالیس سال کی بارشوں سے بھی نہیں ہوتی،یہ حدود کے نفاذ کا دوسرا فائدہ ہوگا۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے میں ایک شخص میلوں دور سے زکوۃ لے کر امیرالمومنین کے پاس آیا،حضرت نے فرمایاراستے میں بانٹ دی ہوتی ،اس نے جواب دیا اے امیر محترم سارے راستے آواز لگاتا آیا ہوں کہ زکوۃ کی رقم ہے کوئی تو لے لوخدا کی قسم کوئی زکوۃ لینے والا نہ تھا۔جس زمین پر اﷲ تعالی کی حدود نافذ ہونگی وہ زمین آسمانی آفات و بلیات اوربدامنی و بے چارگی سے محفوظ کر دی جائے گی اور اﷲ تعالی وہاں ایسے ایسے ذرائع سے فراوانی رزق عطا کرے گا کہ انسان حیران رہ جائے گا۔
خصوصا حد قذف کے نفاذ سے معاشرہ زناکارانہ ماحول سے پاک ہوجائے گا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے برائی ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ ابلیس کو قیامت تک کی مہلت میسر ہے ،تب صرف یہ ممکن ہے کہ برائی کو دبا دیاجائے اور اسکے پھیلنے کے ذرائع مسدودکر دیے جائیں۔حد قذف اسی طرح کا ایک انتظام ہے۔فرض کریں ایک شخص نے اپنی آنکھوں سے زنا ہوتے دیکھ بھی لیا ہے تب بھی اگر وہ زبان کھولتا ہے تو چار گواہ کہاں سے لائے؟اور اگر چار گواہ میسر نہیں آتے تو اسکی دروں سے مرمت کی جائے گی اور بدنامی الگ گلے پڑے گی تب اس عینی گواہ کی خیریت اسی میں ہے کہ چپ رہے جو حدقذف کا ایک اہم مقصد ہے۔
کوئی بھی معاشرہ ناجائز آشنائیوں سے خالی نہیں ہوسکتاکیونکہ شراور حق کا مقابلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔عورت اور مرد کے درمیان جو فطری کشش ہے وہ ہمیشہ نئے نئے چاند چڑھاتی رہے گی اور بات کا بتنگڑبننے میں اور انڈے کا جھنڈ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔تب کیا ان آشنائیوں کے چرچوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے ؟تاکہ برائی کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آتے رہیں۔اس طرح تو وہ لوگ بھی آلودہ ہو جائیں گے جو اس گندگی سے بچنا چاہتے ہوں کیونکہ برائی کامادہ تو ہر نفس میں رکھ دیاگیاہے۔حد قذف کے ذریعے سے برائی کا اس محاذ پر سختی سے مقابلہ کیاجائے گا اور جنس مخالف کے حوالے سے لوگوں کی سوچ صرف نکاح تک ہی محدود رہ جائے گی۔
حدقذف شہریوں کی عزت و ناموس کی محافظ رہے گی،ایسا نہیں ہوگاکہ مجبوری کے تحت گھر سے نکلنے والی خاتون اور دکاندار سے یاسواری والے سے بات کرتی ہوئی خاتون کو گردونواح کی فکر کھائے جا رہی ہو کہ لوگ کیاکہیں گے؟زمانہ کیا سوچے گا؟ہائے کسی نے دیکھ لیاتوجیناعذاب ہو جائے گا اور فلاں کو پتہ چل گیاتوقیامت آجائے گی۔حدقذف کے نفاذ سے خواتین کو آسمانی تحفظ میسر رہے گاخواتین کی آزادی کو حفاظت میسر آجائے گی اوروہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر پائیں گی کیونکہ انہیں پختہ یقین ہوگا کہ کسی نے بھی ان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی تووہ کیچڑخود اسی اچھالنے والے پر ہی اس شدت سے گرے گا کہ الامان و الحفیظ۔
غلط افواہیں آج کے معاشرے کا کلچر بن چکی ہیں ،یہ افواہیں سیاست،حکومت اور بین الاقوامی معاملات سے لے کر ذاتیات تک میں دخیل ہو گئی ہیں۔حدقذف اگرچہ صرف بدکاری کی افواہیں روکنے کاباعث بنے گی لیکن یہ قوم کی تربیت ہوگی جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آہستہ آہستہ قوم کے افراد میں ذمہ داری کا عنصر آنا شروع ہو جائے گا اور غلط افواہیں جو معاشرے کی نفسیاتی توجہ اپنی طرف مبذول کر کے توبعض اوقات بہت خطرناک نتائج کاباعث بن جاتی ہیں ان کاتدارک ہو سکے گا۔
بعض جرائم صرف جنسی محرومیوں سے اورجنسی تشدد سے ہی جنم لیتے ہیں۔یہ جنسی محرومیاں اور جنسی تشدددراصل کسی غلط کاراور بدکار کے بارے میں مسلسل سن سن کر یااسے دیکھ دیکھ کریااس سے باتیں کرکرکے نوجوانوں میں پیداہوتارہتاہے اورپھر جب کبھی انہیں موقع ملتا ہے تو وہ اس شدت سے اپنی محرومیاں پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جنسی عمل اپنی کمیت و حجم میں ایک جرم بن جاتا ہے جس سے فردکی عزت تارتارہوتی ہے اورانسانی معاشرہ آلودہ ہوتارہتا ہے۔آج کل کی بننے والی فلمیں اسی طرح کی بے شمارکہانیاں لیے ہوئے پردہ سکرین پر موجود ہیں جہاں ہر لڑائی اورہر نزاع کے پیچھے ناجائزجنسیت سے بھرے ہوئے جذبات موجود ہوتے ہیں ،حدقذف ایسے ماحول میں اﷲ تعالی کی رحمت بے پایاں کے سوا کچھ نہیں کہ جس کے قدآور پیڑ کے نیچے انسانیت کو عام طور پر اور نسوانیت خاص طور پر آسودگی،راحت اور امن و سکون و آشتی میسر آئے۔(یو این این)
اسلام کے فوجداری قانون میں سزائیں تین قسم کی رکھی گئی ہیں،حدود،قصاص اور تعزیرات۔اس کے برعکس پوری دنیاکے قوانین میں سزاؤں کوصرف’’تعزیرات‘‘کہا جاتا ہے۔اس بنیادی فرق کی وجہ اس بنیادی تصورمیں اختلاف ہے جو وحی کے قوانین اورانسانی کاوش کے درمیان تفاوت پر بنیاد کرتا ہے ۔انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں صرف انسانوں کی حق تلفی کی جاتی ہے جب کہ اﷲ تعالی نے جو قوانین نازل کیے ہیں ان کی خلاف ورزی میں خالق کی نافرمانی بھی شامل ہے جس کی سزااس دنیامیں اور آخرت میں بھی ہے۔اس فرق کی بنیاد پراسلامی شریعت کی نافذ کردہ سزاؤں میں’’حدود‘‘ایسی سزائیں ہیں جو خصوصی طورپر بطور حق اﷲ تعالی نافذ کی جاتی ہیں اور ان میں کمی وبیشی یامعافی کا اختیار کسی حاکم کو حاصل نہیں ہے کیونکہ ان کا مدعی خود اﷲ تعالی ہے اور اس نے اپنا یہ اختیار کسی کو تفویض نہیں کیا۔’’قصاص‘‘وہ سزائیں ہیں جو بطور حقوق العبادکے نافذ کی جاتی ہیں اور مدعی ان سزاؤں کو معاف بھی کر سکتاہے،ان میں کمی بھی کرسکتاہے اور ان کی جگہ دیت بھی وصول کر سکتاہے۔جبکہ ’’تعزیرات‘‘وہ سزائیں ہیں جو حاکم کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہیں چاہے تو معاف کردے اور چاہے تو عبرت کا نشان بنادے۔
حد حرابہ قرآن مجید میں سورۃ المائدہ کی آیت 33,34سے ماخوذ ہے ’’جولوگ اﷲ تعالی اوراس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپاکریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں یاسولی پر چڑھائے جائیںیاان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ ڈالے جائیں یاوہ جلاوطن کر دئے جائیں۔یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیامیں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے ۔مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ،تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ تعالی معاف کرنے والااور رحم کرنے والا ہے۔‘‘قرآن مجید نے لفظ ’’حرابہ‘‘استعمال کیاہے جو’’حرب‘‘سے ماخوذ ہے اور اس کا اصل مطلب چھین لینااور سلب کرلینا کے ہیں اور یہ لفظ ’’سلم‘‘یعنی امن و سلامتی کے متضاد کے طورپر استعمال ہوتاہے۔قرآن مجید کی اس آیت میں نازل کیے گئے حکم کا اطلاق کسی فرد پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے مخاطب وہ گروہ اورجماعتیں ہیں جو اجتماعی شکل میں رہزنی اور قتل و غارت گری پر کھڑی ہو ں اور اسلامی ریاست کا امن سکون برباد کرنے کے درپے ہو جائیں۔بغاوت اور مسلح کشاکش بھی اسی قانون کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ ملک میں اسلامی قوانین نافذ ہوں اور حکمران خلافت راشدہ کی طرز پرشورائیت کے نظام کے تحت نظام مصطفی رائج کیے ہوئے ہوں۔اسلامی قوانین کے ماہرین جنہیں اصطلاح میں ’’فقہائے کرام‘‘کہاجاتا ہے ان کا اس بات پر اجماع ہے کسی ایک فرد کے جرم ڈکیتی یا چوری یا جیب کتری وغیرہ پر اس حد کا اطلاق نہ ہوگا۔دوسری حدود اور حد حرابہ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اس حد کااطلاق اسلامی ریاست میں بسنے والے غیر مسلموں پر بھی ہوتا ہے جنہیں اصطلاح میں ’’ذمی‘‘کہاجاتاہے۔
جب کبھی بھی اسلامی ریاست میں انسانوں کاکوئی گروہ یاجماعت درج ذیل جرائم کا مرتکب ہو گاتو اس پر حد حرابہ جاری کی جائے گی:
۔راستہ روک کر مسافروں کالوٹنا۔
۲۔عزت وآبرو پر حملہ کرنا۔
۳۔قتل و غارت گری و خونریزی۔
۴۔حکومت وریاست کے خلاف بغاوت۔
۔کسی بھی اور ذریعے سے بدامنی پھیلانا۔
قرآن مجید نے حد حرابہ کی ذیل میں چار سزائیں بتلائی ہیں
۳۔ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا
۴۔ان کو جلاوطن کردیاجائے۔
ایک بار پھر یہ بات واضح رہے یہ سزائیں پوری جماعت کے لیے یااس پورے گروہ کے لیے تجویز کی گئی ہیں جو درج بالا جرائم کا مرتکب پایا جائے گا۔تاہم ان میں سے کوئی ایک سزا ہی جاری کی جاسکے گی کیونکہ قرآن مجید نے ’’یا‘‘کے لفظ کے ساتھ حاکم کو اختیاردے دیاہے کہ وہ ان میں سے کوئی ایک سزادے کر باقی سزائیں ساقط کرسکتاہے۔حاکم چاہے تو پورے گروہ کوکوئی ایک سزادے دے اور یہ اختیار بھی حاکم کے پاس موجود ہے کہ پورے گروہ میں سے فردا فردامختلف سزائیں دے ۔آپ ﷺ نے ایک واقعہ میں اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ سے منقول ہے آپ ﷺ بے ابوبردہ اسلمی سے صلح کا معاہدہ فرمایالیکن اس نے عہد شکنی کی اور کچھ لوگ جو مسلمان ہوکر مدینہ آرہے تھے ان پر ڈاکہ زنی کی،اس پر جبریل یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ
۱۔جنہوں نے قتل کیااور مال بھی لوٹا ان کو سولی چڑھایاجائے۔
۲۔جنہوں نے صرف قتل کیااور مال نہیں لوٹا ان کو قتل کیاجائے۔
۳۔جنہوں نے صرف مال لوٹا اور قتل نہیں کیا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹے جائیں۔
۴۔جنہوں نے صرف لوگوں کو ڈرایااور امن عامہ میں مخل ہوا ان کوجلاوطن کیاجائے(یاوہ قیدخانے میں ڈال دئے جائیں)۔
دور نبوت میں کچھ لوگ مدینہ آئے اور بوجوہ انہیں طویل قیام کرناپڑالیکن جب جانے لگے تو لوٹ ماراور خون خرابہ کرکے چلتے بنے،آپ ﷺ نے انہیں گرفتارکرایااور ان پر حد حرابہ جاری فرمائی۔
مذکورہ قرآنی آیت کا آخری حصہ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ قابو پانے سے پہلے اگر یہ گروہ توبہ کرلے تو اس پر حد حرابہ ساقط ہوجائے گی یعنی تب ان کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔قبیلہ مراد کاایک فرد حضرت ابوموسی اشعری کے پاس آیاجب وہ کوفہ کے گورنر تھے اورمسجد میں تشریف رکھتے تھے،اس نے کہااے امیر میں فلاں ابن فلاں ہوں،میں نے اﷲ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے خلاف لڑائی لڑی اورزمین میں فساد کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے آپ مجھے گرفتارکرتے میں تائب ہوکر آ چکاہوں ۔حضرت ابوموسی اشعری نے کھڑے ہوکراس کی معافی اعلان کردیا۔اسی طرح علی اسدی نامی ایک شخص جس نے خوب لوٹ ماراور قتل و غارت گری کی اور گرفتارنہ ہوا پھر توفیق ایزدی سے قرآنی آیات سن کر توبہ کرتاہوا ایک رات مدینہ میں مسجد نبوی میں آن بیٹھا،اجالاہواتو لوگوں نے پہچان لیااور اسے قتل کرنے پر آمادہ ہوئے ۔دور نبوت و دور خلافدت راشدہ بیت چکاتھاچنانچہ وہاں موجود اصحاب رسول ﷺ نے اس شخص کی توبہ کو قابل معافی گردانااور اسے چھوڑ دیاگیابعد میں اس شخص نے رومیوں کے ساتھ جہاد کیااور شہادت کا اعلی مقام بھی حاصل کیا۔تاہم اس حکم میں یہ بات پیش نظر رہے کہ توبہ کے بعد صرف حقوق اﷲ ہی اس پر سے ساقط ہوں گے اور جن جرائم کا مدعی اﷲ تعالی تھا ان کے بارے میں اس سے باز پرس یا سزا نہیں دی جائے گی جبکہ اگراس نے کسی بندے کا حق مارا ہوگا تو اس کی معافی اسے نہیں مل سکے گی یہاں تک کہ مدعی اسے معاف کرنے پر رضامند ہو جائے۔
مغربی تہذیب نے اسلام کی لائی ہوئی سزاؤں کو غیرانسانی قرار دیااور نام نہادانسان دوست قوانین جاری کیے لیکن اب ان ممالک میں امن عامہ کا معاملہ اس حد تک خراب ہوچکاہے کہ وہاں کی حکومتیں مجبور ہیں کہ پریس،میڈیا،عوام اوردوسری دنیاؤں سے چھپ کر ایسے فسادی گروہوں کو ماورائے عدالت ہی ان کے وجود سے زمین کو پاک کردیاجاتاہے اور کسی کو کانوں کان خبر ہی نہیں ہوتی۔یہودیوں کے ساتھ ہولو کاسٹ کا برتاؤ اسی رویے کی ایک عمدہ مثال ہے کہ یورپی حکومتوں نے اس نسل کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن ایک وقت کے بعد وہ حقائق منظر عام پر آ گئے اور دنیاکو اس سے آگاہی ہو گئی،اورپھر بوسینیا ہرزگوینیاکے اندر مسلمانوں سے کیا جانے والا سلوک آخر کس انسان دوست قانون کے تحت تھا؟؟جبکہ کتنے ہی جرائم پیشہ گروہ ہیں جو خفیہ ایجنسیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں کیونکہ عدالتوں میں پیش کرنے کے بعد ملکی قوانین جو’’انسانیت دوست‘‘قوانین ہیں ان کے جرائم کی کما حقہ سزادینے کے قابل نہیں ہوتے اور کم تر سزا پاچکنے کے بعد ان گروہوں کے عزائم اور ارادے مزید بلند ہوجاتے ہیں اور امن و امان قائم کرنے والی مشینری ان کے ہاتھوں مفلوج اور بے بس ہو جاتی ہے۔پس اسلام نے جو سزائیں مقررکی ہیں وہ نہ صرف یہ کہ انسانیت سے قریب تر ین ہیں بلکہ ان سزاؤں کے نفاذ کے بعد امن عامہ کی ضمانت بھی یقینی ہے اور جب تک عالم انسانیت رحمۃ اللعالمین ﷺ کے لائے ہوئے قوانین کی طرف پلٹ کر نہیں آئے گی اس کرہ ارض پر امن و پیارومحب و آشتی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔(یو این این)
|
Add caption |
حد سرقہ(شریعت اسلامیہ میں چوری کی سزا)
دولت کی حرص و حوس ابتداسے ہی انسانی معاشرے کا حصہ ہے ،اس کے لیے انسان جائزوناجائزتمام وسائل اختیارکرنے کی کوشش کرتاہے شایداسی لیے دولت جمع کرنے کی مذمت میں قرآن مجید نے بہت سی آیات میں سخت تنبیہات فرمائی ہیں۔دولت کے حصول کی خواہش بعض اوقات انسان کوایسے راستوں پر ڈال دیتی ہے جہاں وہ اپنی حیثیت اور اپنے مقام سے بڑھ کرایسے کام کر بیٹھتاہے جوقانون واخلاقیات میں جرم کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔انسان سوچتاہے کہ دولت جمع ہوجانے سے اس کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے،کل مشکلات آسان ہو جائیں گی اور ہرقسم کی پریشانیوں کا مداوا ممکن ہوسکے گا،دنیاکے پیمانوں میں اگرچہ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے دولت بہت سی قباحتیں بھی اپنے ہمراہ لاتی ہے اوربعض اوقات تو دولت کی دراندازی سے انسان کا کل امن و سکون غارت ہو جاتاہے اورانسانی معاشرہ دولت کی پوجا میں ایسی دوڑ کے اندرشریک ہو جاتاہے جو انسان کی موت کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی اوربالآخر جہنم کا گڑھااس کامقدر بنتاہے ۔دولت کی پیاس ختم کرنے کاایک ناجائز ذریعہ ’’چوری‘‘ بھی ہے جس میں انسان دوسرے کے مال کو اپنی ملکیت میں لینے کی قبیح حرکت کرتاہے،اس عمل کو کل آسمانی مذاہب نے جرم گرداناہے ۔
شریعت اسلامیہ میں چوری کے عمل کو’’سرقہ‘‘کانام دیاگیاہے اوراسکی سزاخود قرآن مجید نے مقررکی ہے جو بطور حق اﷲ تعالی نافذکی جاتی ہے جبکہ ایسی سزاؤں کو ’’حدوداﷲ ‘‘کی اصطلاح سے یاد کیا جاتاہے۔اﷲ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ المائدہ آیت نمبر38,39میں فرمایاکہ’’اور چور خواہ مرد ہویاعورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو،یہ ا ن کی کمائی کا بدلہ ہے اوراﷲتعالی کی طرف سے عبرت ناک سزا۔اﷲ تعالی کی قدرت سب پر غالب ہے اوروہ دانا و بیناہے۔پھرجو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تواﷲ تعالی کی نظر عنایت پھراس پر مائل ہو جائے گی،اﷲ تعالی بہت درگزرکرنے والااور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ان آیات میں اﷲ تعالی نے جہاں چوری کے خلاف اپنے شدید غصے کا اور غضب کااظہار کیا ہے وہاں چوراور چورنی کے لیے سزاکابھی اعلان کیاہے۔اس کے علاوہ بھی سورۃ ممتحنہ آیت 12میں اﷲ تعالی نے فرمایا کہ’’اے نبی ﷺ جب آپ کے پاس مومن عورتیں بیعت کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اﷲ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی۔چوری نہ کریں گی،زنانہ کریں گی،اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی ،اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کرنہ لائیں گی اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی،توان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرویقینا اﷲ تعالی درگزرفرمانے والااور رحم کرنے والا ہے‘‘۔گزشتہ شریعتوں میں بھی چوری قابل سزا جرم رہاہے چنانچہ سورۃ یوسف میں اﷲ تعالی نے بتایاکہ حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں چور جس کی چوری کرتاتھاپھراسکی غلامی کرتاتھا۔
اسلامی شریعت میں ’’کسی کاقیمتی مال حرز سے نکال کر لے جانا بغیر کسی حق ملکیت یا اسکے شبہ کے سرقہ کہلاتاہے‘‘اور سرقہ کرنے والے کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔چوری کے مال کی کم سے کم مالیت ’’نصاب‘‘کہلاتی ہے،چنانچہ نصاب کے بقدر یااس سے زائد مال کی چوری ہو گی تو حد سرقہ کی پہلی شرط پوری ہو جائے گی۔چوری کے مال کا قیمتی ہونا ضروری ہے مختلف فقہاء کے ہاں اس کی مختلف قیمتیں متعین کی گئیں ہیں تاہم کم از کم دس درہم پر جمہور علماء کااتفاق ہے۔حضرت عمر سے ایک قول مروی ہے کہ اگر چوری چوتھائی دینار کے برابر ہو تو اس پر حد جاری ہو گی،دوسری روایت میں پانچ درہم کی قیمت بھی بیان کی گئی ہے۔حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اﷲﷺ اور حضرات ابوبکروعمرکے زمانے میں ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹاجاتاتھا،پوچھاکہ ڈھال کی کیاقیمت ہواکرتی تھی تو حضرت انس رضی اﷲ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ پانچ درہم۔ایک اورروایت ہے کہ ایک چور نے کپڑاچرایاتوامیرالمومنین حضرت عمر نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیاجس پر اعتراض کیا گیاکہ اس کپڑے کی مالیت دس درہم سے کم ہے چنانچہ حضرت عثمان سے کہاگیاکہ اس کپڑے کی مالیت کااندازہ لگائیں جوآٹھ درہم بتایاگیا،اس پر حضرت عمر نے ہاتھ کاٹنے کاحکم واپس لے لیا۔اسلامی شریعت کاایک مصدقہ اصول ہے کہ بعد والا حکم ناسخ ہوتاہے اور پہلے والے فیصلے کو منسوخ کردیتاہے چنانچہ نصاب کے بارے میں اگر چہ بہت سے اقوال ہیں لیکن دس درہم پر اکثریت کااتفاق ہے کیونکہ خلافت راشدہ کے آخری زمانے میں اسی پر تعامل رہا۔دس درہم کی فی زمانہ جو قیمت ہو گی وہ وقت کے لحاظ سے اس زمانے میں چوری کا نصاب ہواکرے گی۔
’’حرز‘‘حد سرقہ کی دوسری شرط ہے۔’’حرز‘‘سے مراد وہ کم سے کم انتظامات ہیں جو مال کی حفاظت کے لیے کیے گئے ہوں۔بغیر کسی حفاظتی تحویل کے موجود مال یا سازوسامان کے ہتھیالینے پر حدسرقہ جاری نہیں کی جائے گی۔حرزکاتعین عرف و رواج کے مطابق ہوگاکیونکہ دیہاتوں میں معمولی اور چھوٹی دیوار کوبھی ملکیت کے ثبوت کے لیے کافی سمجھاجاتاہے جبکہ شہروں میں اس سے زیادہ انتظام کی ضرورت ہوتی ہے،جانور کو باندھنا اور دیگر سواریوں کو تالا لگاناحرز ہوتاہے، بصورت دیگر سازوسامان اور مال کو لاوارث سمجھ لیاجاتاہے۔مکان کی چار دیواری حرز ہے اور اس سے مال نکال کر لے جانا سرقہ کی ذیل میں آتاہے،کھونٹے سے بندھی ہوئی کشتی اور جانوراورتالالگی سواری بھی حرز کے اندر شمار ہوں گے اور انہیں کھول کر لے جانے والا سرقہ کا مرتکب سمجھا جائے گا۔مالک کی نظر میں موجود شے بھی حرز میں سمجھی جاتی ہے جیسے ایک شخص کی سواری گھاس چررہی ہواور کسی کھونٹے سے بندھی نہ ہولیکن مالک نے اس پر نظر رکھی ہوتواس سواری کو لے جانے والا حد سرقہ کامرتکب سمجھاجائے گا۔سونے والے کے نیچے دبی ہوئی چیز بھی حرز میں ہوگی لیکن قبر حرز نہیں ہو گی اور کفن نکالنے والا حد سرقہ کی ذیل میں نہیں آئے گاکیونکہ مردہ مالک بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔پس یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کھلے ہوئے جانور،کھلی ہوئی سواریاں اورعام سڑکوں،چوراہوں اورویرانوں پر موجود سازوسامان و مال و اسباب پرناجائزقبضہ کرنے والے حد سرقہ کے اگرچہ مرتکب نہیں ہوں گے تاہم انہیں کوئی تعزیر دی جا سکے گی جوحد سرقہ یعنی ہاتھ کاٹنے سے شدید تر بھی ہو سکتی ہے۔
شور مچانے پراگرچورسامان چھوڑ کر بھاگ جائے توفبہااور اگر مزاحمت کرے تواس کے خلاف جوابی کاروائی کرنا جائز ہے ۔حضرت عمر سے ایک قول منقول ہے کہ چور کو خوفزدہ کرو مگرپکڑو نہیں۔حضرت عمرہی کے زمانے میں حاطب بن ابی بلتعہؓ اپنے غلاموں کو کھانے کو نہیں دیتے تھے جس پر ان غلاموں نے ایک شخص کی اونٹنی ذبح کر کے کھالی،حضرت عمر نے غلاموں کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے ان کے آقاحاطب بن ابی بلتعہؓ سے اونٹنی کی قیمت سے دوگناتاوان وصول کیا۔قحط کے زمانے میں ایک شخص حضرت عمر کے پاس اونٹنی کی چوری کی شکایت لایاکہ اس کی اونٹنی چوری کر کے ذبح کر لی گئی تھی،حضرت عمر نے اسے دو اونٹنیاں دے دیں اور ساتھ کہا کہ ہم قحط کے زمانے میں حد سرقہ جاری نہیں کیا کرتے۔شبہ کے مال سے چوری کرنے پر بھی حد جاری نہیں ہو گی جیسے دس آدمی کچھ مال کے مشترک مالک ہیں اور ان میں ایک آدمی اس مال کا کچھ حصہ چوری کرلیتاہے تواس پر حد سرقہ جاری نہیں کی جا سکے گی کیونکہ اس مال میں اس کے حصے کا بھی حق شبہ تھا۔مال چھیننے والے پر حد سرقہ جاری نہیں ہو گی کیونکہ وہ چوری نہیں ہے اور اگر راستہ روک کر مال چھیناگیاہے تو حد حرابہ جاری ہو گی،اسی طرح امانت میں خیانت کرنے والے پراور عاریتاچیزلے کر واپس نہ کرنے والے پر بھی حد سرقہ جاری نہیں ہو سکے گی اور یہ لوگ تعزیر کے مستحق ہوں گے۔بعض فقہاسبزیوں اور پھلوں کے کھالینے کو اور جانوروں کے دودھ دوہ کر پی لینے کوبھی چوری نہیں سمجھتے لیکن یہ کہ صرف کھانے پینے کے بقدر ہی لیے گئے ہوں یعنی مسافر دوران سفر کسی باغ سے بغیراجازت پھل توڑ کر کھالے یابغیراجازت جانورکادودھ دوہ کر پی لے تو حد سرقہ جاری نہیں کی جائے گی لیکن اگر کپڑے اوربرتن بھربھرکر لے جانے لگیں تو پھر جملہ شرائط پوری ہونے پر پھلوں اور سبزیوں اور جانوروں کے دودھ چوروں پر بھی حد جاری ہو گی۔چور کے پاس سے چوری کاسامان برآمد ہوجائے تواسے مالک کو واپس کردینالازم ہے۔سامان کی برآمدگی،اقرارجرم اور گواہان چور کا جرم ثابت کرنے کے طریقے ہیں۔
یورپی تہذیب کی نارواتقلید میں اسلامی شریعت کی سزائیں نافذنہ ہونے کے باعث آج چوری ایک فن اور پیشہ بن چکاہے،افراد سے کر ادارے تک اس گھناونے جرم میں ملوث ہیں اور چوروں کے منظم گروہ ہیں جو مقامی سطح سے بین الاقوامی سطح تک باہم مربوط ہیں اور بعض مقامات پر تو اس قدر طاقتورہیں کہ وہاں کی حکومتیں بھی بے بس ہیں اور ے بس کیوں نہ ہوں کہ مغربی جمہورہت کی بہت ساری قباحتوں میں ایک قباحت یہ بھی ہے تیسری دنیامیں جرائم پیشہ لوگ اس یورپی تہذیب کے مکروہ تحفے کے باعث بڑی آسانی اقتدارکے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر اپنے ہم پیشہ افراد کے لیے تحفظ کاسامان فراہم کرتے ہیں اور اقوام کی اقوام اوربھری آبادیوں کے شہر کے شہر ہیں جو اس طرح کے جرائم پیشہ چوروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور انہوں ے انسانیت کا جینا محال کررکھاہے اور ’’انسانی حقوق‘‘کے دعوے دار انہیں اس طرح کی سزاؤں سے بچانے کے ذمہ دار ہیں۔ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلامی شریعت کی تجویزکردہ سزائیں ہی انسانیت کوجرائم کی اس دلدل سے نکالنے کی ضامن ہیں اور آفاقی قوانین ہی انسانیت کے بہترین خیرخواہ ہو سکتے ہیں جن میں تمام طبقات کے لیے فوزوفلاح کی ضمانت موجود ہے۔(یو این این)
حد خمر(نشہ کرنے کی سزا)
شراب نوشی کو اسلامی قانون میں جرم گرداناگیاہے اور اسکی سزا بھی مقررکی گئی ہے جس کاشمار ’’حدوداﷲ‘‘میں ہوتاہے۔’’حدوداﷲ‘‘ وہ سزائیں ہیں جنہیں اسلامی ریاست کی طرف سے بطور حق اﷲتعالی نافذکیاجاتاہے۔شراب کے لیے اسلامی تعلیمات میں ’’خمر‘‘کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔حضر ت عمر نے خمر کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’الخمر ماخامر العقل‘‘کہ خمر وہ ہے جو عقل پر پردہ ڈال دے۔عرب معاشرے میں پانچ چیزوں کو مختلف مراحل سے گزارکر ان میں نشہ پیدا کیاجاتا تھا،یہ پانچ اشیا انگورکارس،کھجور کا خیساندہ،شہد میں پانی ملاکر اور گندم اور جو کو پانی میں بھگو کرہیں ۔آپ ﷺ کاارشاد مبارک ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے نیزمحسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ جس شے کی کثیرمقدار نشہ دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے ۔
قرآن مجیدکی اصول قانون سازی میں ایک اصول ’’تدریج‘‘بھی ہے ۔اس اصول کے مطابق کتاب اﷲ تعالی نے بعض امور کو ایک دم نافذ کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ اور تھوڑاتھوڑاکر کے اہل ایمان پر عائد کیا۔تدریج کی ایک عمدہ مثال حرمت خمر بھی ہے یعنی حرمت شراب بھی یک بارگی نازل نہیں کی گئی بلکہ اس کا حکم تدریجا نازل ہوا۔مے خوری عربوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی عادت تھی ان کی محفلیں اور انکی راتیں مے خوری سے عبارت ہواکرتی تھیں،شراب کے وہ اس قدر رسیاتھے کہ ان کی جنگیں بھی حالت نشہ میں لڑی جاتی تھیں چنانچہ جنگ احد میں قریش کا لشکر شراب کے مٹکے بھر بھرکے ہمراہ لایاتھا۔عرب کے بڑے بڑے شعرا اپنی عادت شراب خوری کو فخرا بیان کیاکرتے تھے ان حالات میں قرآن مجید نے تین یا چارمراحل میں شراب کی قطعی حرمت کے احکامات نازل فرمائے۔پہلے اطلاع کے طور پر فرمایا کہ ’’اور اسی طرح کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم تمہیں ایک چیز پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہواور پاک رزق بھی‘‘( سورۃ نحل کی آیت نمبر67)۔اس آیت میں مسلمانوں کو محض مطلع کیاگیا کہ نشہ آور چیز پاک نہیں ہے ۔دوسرا حکم پوچھنے پر ارشادہوا ’’پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کاکیاحکم ہے؟کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے‘‘(سورۃ بقرہ آیت219)اس آیت کے نزول کے بعد اکثر اہل ایمان نے شراب نوشی ترک کر دی،بعض علماء کے نزدیک یہی پہلا حکم تھا۔اس آیت کے نزول کے بعدایک بار مدینہ طیبہ میں ایک مسلمان نے حالت نشہ میں نماز پڑھائی اور مقررہ رکعتوں سے زائد پڑھادیں،اس پر اﷲ تعالی نے یہ حکم نازل کیا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہوجب تم نشہ کی حالت میں ہوتونماز کے قریب نہ جاؤ،نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہ رہے ہو‘‘(سورۃ نساء آیت43)۔اس آیت کے بعد مسلمانان مدینہ طیبہ میں سے جو ابھی بھی مے نوشی کے عادی تھے انہوں نے ایسے اوقات مقرر کر لیے کہ نماز کا وقت آنے تک نشہ ہرن ہو چکا ہوتا۔
آخری حکم اس وقت نازل ہوا جب مسلمانوں کے ایک گروہ نے مے نوشی کی اور پھر خوب غل غپاڑہ مچایاجس کے نتیجے میں بعض افراد زخمی بھی ہو گئے،اس پر روایات میں منقول ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے خدمت اقدس ﷺ میں عرض کی کہ اﷲ تعالی سے دعافرمائیں کہ شراب کے بارے میں کوئی فیصلہ کن حکم نازل فرمائے،اس وقت غالبا حضرت عمر مدینہ میں منصب قضاپر بھی فائز تھے اور اس طرح کے مقدمات ان کے پاس لائے جاتے تھے۔چنانچہ اس وقوعہ کے بعد محسن انسانیت ﷺنے ایک خطبہ میں لوگوں کومتنبہ فرمایا کہ اﷲ تعالی کو شراب خوری سخت ناپسند ہے چنانچہ بعید نہیں کہ اس کی حرمت کا حکم آ جائے ۔پس قرآن مجید نے حرمت شراب کی بابت وہ آخری آیت نازل کی جس کے بعد تاقیامت شراب حرام قرار دے دی گئی،اﷲ تعالی نے قرآن میں حکم دیا کہ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہویہ شراب اوریہ جوااور یہ آستانے اور یہ پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیزکروامید ہے تمہیں فلاح نصیب ہو گی‘‘(سورۃ المائدہ،آیت90)۔اس آیت کے بعد شراب پینا،پلانا،بنانا،بیچناوغیرہ اور اسکے جملہ استعمال ممنوع و حرام کردیے گئے۔کسی نے محسن انسانیت ﷺ سے پوچھا کہ کیا شراب کو دوائی کے طور پر بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے ؟آپ ﷺ نے اس کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیااور فرمایا کہ شراب میں بیماری ہے۔
شراب خوری کاجرم ثابت ہونے کے چار طریقے ہیں،پہلا طریقہ اقرار جرم ہے لیکن شرط ہے کہ اس طریقے میں مجرم بقائم ہوش وحواس ہو اور اسے اس حدکی کیفیت و کمیت کا بھی اندازہ ہو اور وہ بغیر کسی جبرواکراہ کے یہ اقرارکررہاہو،بعض فقہاکاکہناہے کہ اس سے ایک سے زائد بار کی مجالس میں اقرار کرایا جائے گا اور تب اس پر حد جاری کی جائے گی۔شراب خوری کے جرام کے اثبات کا دوسرا ذریعہ گواہان ہیں،دو عادل ،مسلمان اور آزادگواہوں کی گواہی سے یہ جرم ثابت ہو سکے گا جب کہ وہ عدالت کے روبروبیان دیں کہ انہوں بنظر خود مجرم کو شراب نوشی کرتے دیکھاہے۔اس جرم کے اثبات کا تیسراطریقہ شرابی کے منہ سے بدبو کا پھوٹنا ہے ،لیکن بعض فقہاصرف بو کے قرینے سے حد جاری کرنے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ کسی اور چیز کی بو شراب کے مشابہ ہو سکتی ہے،اور ایک حدیث نبویﷺ کی رو سے شبہ سے حدود ساقط ہو جاتی ہیں۔آخری ذریعہ جس سے شراب خوری کا جرم ثابت ہوسکتاہے وہ نشہ کی حالت مخمورمیں رنگے ہاتھوں پکڑے جانا ہے لیکن اس صورت میں عدالت میں اجرائے حد کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ شراب نوشی میں اس فرد کی کتنی رضا شامل تھی،اگر اس شخص نے یہ ثابت کر دیا کہ اسے زبردستی شراب پلائی گئی ہے توپھر بھی حد جاری نہیں کی جا سکے گی۔
جرم ثابت ہو جانے پر حد جاری کی جائے گی یعنی مجرم کو سزا دی جائے گی لیکن نشہ کی حالت میں سزا نہیں دی جائے گی اور نشہ کے اترنے کا انتظار کیاجائے گا۔نشہ اترنے کے بعد گرمیوں میں ٹھنڈے وقت اور سردیوں میں گرم وقت کا انتخاب کیاجائے اور مریض اگر بیمار ہے تو اس کے صحت مند ہونے تک بھی حد موخر کی جائے گی۔حد کا آغازقاضی کرے گااور اگر گواہوں سے جرم ثابت ہواہے تو گواہ بھی حد کے اجرامیں شریک کارہوں گے جبکہ باقی ماندہ سزا جلاد سے پوری کرائی جائے گی۔مسجد میں حدودجاری کرنے کی اجازت نہیں اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ کھلے عام جگہ پر ہواورعوام الناس اس کیفیت کا نظارہ کریں تاکہ سزااور بدنامی کاخوف لوگوں کو اس جرم سے باز رکھنے میں اپنا کردار اداکرسکے۔دورنبوت میں کوڑوں کی کوئی خاص تعدادمقررنہ تھی اور شرابی کو جوتوں ،ڈنڈوں اور سخت کپڑوں سے ماراپیٹاکرتے تھے۔
حضرت عمر اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں نشے کی حالت میں پائے جانے والے شخص کو جسے کسی بھی چیز سے نشہ ہواہو اسے چالیس کوڑے مارتے تھے،لیکن اپنی خلافت کے آخری ایام میں حضرت عمر نے ایک خاص واقعہ کے بعد صحابہ کرام کے مشورے سے اس جرم کی سزااسی کوڑے جاری کردی۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے ابوابرہ کلبی کوحضرت عمر کے پاس بھیجا ،اس وقت حضرت عمر مسجد میں تھے اور ان کے پاس حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت زبیر بن عوام،حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت طلحہ بھی موجود تھے۔ابوابرہ کلبی نے حضرت عمر سے کہا کہ حضرت خالد بن ولید کہتے ہیں کہ لوگ بکثرت مے نوشی اختیار کرتے جارہے ہیں اور سزاکوکم سمجھ رہے ہیں۔حضرت عمر نے فرمایا کہ سب بیٹھے ہیں ان سے دریافت کرلو،حضرت علی نے فرمایاکہ ہماری رائے یہ ہے کہ آپ شراب نوشی کی سزا اسی(۸۰)کوڑے مقرر کردیں کیونکہ جب کوئی آدمی شراب پیتاہے تو اسے نشہ ہوتاہے اور نشہ میں ہذیان بکتاہے اور لوگوں پر تہمت لگاتاہے اسی لیے تہمت کی سزا ہی شراب نوشی کی سزا مقرر کردیں جو کہ ۸۰کوڑے ہے۔چنانچہ اس رائے کے مطابق حضرت عمر نے شراب نوشی کی سزا ۸۰ کوڑے مقرر کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔حضرت عمر نے اس لیے بھی ۸۰ کوڑے مقرر کی کہ حضرت ابوسعید خزری سے مروی ہے کہ شراب نوش کو آپ ﷺ نے جوتیوں کے چالیس جوڑے مروائے ،اور حضرت عمر نے ہر جوتی کی جگہ ایک کوڑا مقرر کیا۔شراب نوشی کے ساتھ اگر کوئی اورجرم بھی جمع ہوجاتا تو حضرت عمر اسکی سزا بھی حد کے ساتھ جمع کر دیتے،جیسے انہوں نے اپنے بیٹے عبدالرحمن پر حد کے ساتھ تعزیر بھی جمع کی۔ایک مرتبہ حضرت عمر نے رمضان کے دوران مے نوشی پر ایک شخص کو اسی درے شراب نوشی کے اور بیش کوڑے رمضان کی بے حرمتی کے بھی لگائے۔جو شخص جتنی مرتبہ شراب پئے گا اتنی مرتبہ ہی اس پر حد جاری کی جائے گی چنانچہ ابومحجن ثقفی نے آٹھ مرتبہ شراب پی اور حضرت عمر نے اس پر آٹھ مرتبہ ہی حد جاری فرمائی۔
شرابی پر اس وقت حدجاری ہوگی جب اسکا نشہ اتر جائے گااور کوڑے جومارے جائیں گے وہ زیادہ شدید نہیں ہونے چاہییں بلکہ ہلکے لیکن درد پہنچانے والے ہوں۔چنانچہ حضرت عمر کے پاس ایک شخص لایا گیاجس نے شراب چڑھائی ہوئی تھی آپ نے فرمایا کہ میں تجھے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجتاہوں جوتیرے ساتھ کوئی نرمی نہیں کرے گا۔چنانچہ اسے مطیع بن اسود عدوی کے پاس بھیج دیا گیا اور ان سے کہا کہ اگلے دن صبح اس پر مے نوشی کی حد جاری کر دینا چنانچہ اگلے دن حضرت عمر خود گئے تو دیکھاکہ وہ اس مے نوش کو سخت قسم کے کوڑے ماررہے ہیں،حضرت عمر نے پوچھا کتنے مارے جا چکے ہیں جواب دیاکہ ساٹھ،حضرت عمر نے حکم دیا اس کوڑے کی شدت کے سبب باقی بیس چھوڑ دو۔شراب نوشی کی حد میں چالیس کی بجائے اسی کوڑوں کا تقررچونکہ حضرت عمر کے دور میں ہوااس لیے بعض فقہا ان اضافی چالیس دروں کو تعزیر کامقام دیتے ہیں تاہم جمہور علمائے امت کل اسی کی تعداد کو ہی حد گردانتے ہیں کیونکہ اس تعداد پر صحابہ کرام کا اجماع واقع ہوا ہے اور جس مقدس گروہ سے جمع و تدوین قرآن میں کسی غلطی کا احتمال نہیں ہوا اس گروہ سے دیگر معاملات میں غلطی کے احتمال کے امکان سے قرآن مجید کی صحت مشکوک ہو سکتی ہے۔
شراب کی حرمت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی وجہ جو فوری طور پرانسانی ذہن میں وارد ہوتی ہے وہ جملہ امور سے غفلت ہے کہ ایک شخص کے نشہ میں آتے ہی اس پر اس حد تک غفلت سوار ہو جاتی ہے کہ وہ امور دینی و اموردنیاوی سے یکسر غافل ہو جاتا ہے اور یہ امر شریعت کو کسی طور بھی قبول نہیں۔اسی طرح جس جس کام سے بھی انسان غفلت میں جاگرے اس سے شریعت نے کراہت کا اظہار کیا ہے اسے ’’لہوالحدیث ‘‘کہاگیاہے کہ جس کام کا کوئی مقصد نہ ہو اور جو کام عادت ثانیہ بن جائے اور اس کے بغیر انسا ن کا گزارہ نہ چل سکے اور وہ نشہ کی حد تک جا پہنچے اس سے علمائے حق سختی سے منع کرتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔اور جس چیز کی کثیر مقدار نشہ دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام کر دی گئی ہے تاکہ اس طرف جانے والے دروازے ہر طرح سے بند کر دیے جائیں اور انسانوں کو ذمہ دار کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی تعلیم و ترغیب دی جائے ۔موسیقی،چیٹنگ،ٹیلی ویژن بینی،ہروقت کی دوستیاں،فضول اور بے مقصد گپ شپ ،کیرم،تاش،شطرنج اور اس طرح کے دیگر مشاغل جووقت کے ساتھ ساتھ انسانی معاشروں میں در آئیں گے اور براہ راست یا بالواسطہ نشہ کا باعث بنیں گے ان کے جائز یا ناجائز ہونے میں تو کلام ہو سکتاہے لیکن اگر یہ اس حد تک بڑھ جائیں کہ نشے کی حدود کو چھونے لگیں اور ان کے بغیر زندگی کا تصور محال ہو جائے اوران میں بہت زیادہ مشغولیت دیگر حقوق و فرائض سے غفلت کا موجب ہو نے لگے تو یہ بھی قیاسا نشے کے زمرے میں آ جائیں گے اور ان سے بچنا اور بچنے کی ترغیب دینااور اپنی اولا د پر اس معاملے میں سختی کرناعین فرائض دینیہ میں داخل ہو جائے گا۔(یو این این)
حدارتداد(اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جانے کی سزا)
دین اسلام قبول کرنا اور پھر روگردانی کرتے ہوئے کفر کی طرف لوٹ جانا ’’ارتدادکہلاتاہے۔جو مسلمان ہواور پھر اﷲ تعالی کی توحید یا ختم نبوت کا انکارکردے یا دیگر ان اسلامی شعائر سے قولی و عملی واعلانیہ روگردانی کرے جواسلامی عقائدو احکامات ومحرمات کاجزولاینفک ہیں،ایسے شخص کو شریعت اسلامیہ میں ’’مرتد‘‘کہاجائے گا۔اسلام نے مذہبی آزادی کی ضمانت دی ہے لیکن عقائد اسلامیہ کے ساتھ مذاق و استہزاکی اجازت نہیں دی۔گزشتہ اقوام جنہیں عدالت خداوندی سے بالکلیہ عذاب کافیصلہ سنایاگیااورآج بھی ان کی باقیات گواہ ہیں کہ انہیں اس کرہ ارض سے نیست و نابود کردیاگیاان سب کاایک مشترکہ جرم یہ بھی تھاکہ وہ انبیاء علیھم السلام کے ساتھ اور ان کی پیش کردہ تعلیمات کے ساتھ مذاق و استہزا کیا کرتے تھے،اور اﷲ تعالی کی سنت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔اسلامی ریاست کے اندر جوبھی شخص مسلمان ہوتاہے وہ دراصل مسلمان فوج میں شمولیت اختیارکرلیتاہے،اس لیے کہ جس طرح کہاگیا کتب علیکم الصیام (تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں۔)اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کتب علیکم القتال(تم پر لڑنافرض کردیاگیاہے)۔اسلامی ریاست کا فوجی بننے کے بعد دشمن سے ملنے پریعنی مرتدہوجانے پراس سپاہی کے ساتھ بھی وہی سلوک کیاجاتاہے جوپوری دنیاکی ریاستیں اور افواج کل انسانی تاریخ میںاپنے باغیوں کے ساتھ کرتی ہیں۔اسلامی قوانین میں ایسے شخص کی جان ومال وعزت و آبروکا بھرپورتحفظ ہے جو اسلامی ریاست میں غیرمسلم بن کررہتاہے لیکن مسلمان بن کرگویااسلامی ریاست کے دفاعی و حساس نوعیت کے رازوں سے آگاہی حاصل کرکے پھر کفرکی طرف لوٹ جانے والے یعنی دشمن سے مل جانے والے کے لیے اسلامی شرعی و فقہی قوانین میں کوئی رعایت موجود نہیں ہے۔
مرتد کی دواقسام ہیں،ایک ’’فطری مرتد‘‘ اوردوسرا’’ ملی مرتد‘‘۔فطری مرتد وہ ہوتاہے جوپیدائشی طورپر مسلمان ہویعنی اسکے والدین یا ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہو۔’’ملی مرتد ‘‘جوکلمہ پڑھ کرمسلمان ہوااور پھرکفر کی طرف لوٹ گیا۔مرتدکے لیے محسن انسانیت ﷺ نے فرمایاکہ ’’جومذہب تبدیل کرے اسے قتل کردو‘‘۔چنانچہ اسلامی قانون کی رو سے مرتد کو تین دن کی مہلت دی جائے گی اور اسے موقع اور ترغیب و ترہیب دی جائے گی کہ اسلام کی طرف واپس پلٹ آؤ،اگر وہ دوبارہ اسلام قبول کر لے اور توحیدو ختم نبوت پر ایمان لے آئے تو اسے چھوڑ دیاجائے گا لیکن مرتد رہ جانے کی صورت میں چوتھے دن غروب آفتاب سے قبل اس کی گردن اڑا دی جائے گی اس طرح ایک غدار کی قربانی سے اسلامی ریاست کے رازدشمن کے پاس جانے سے رک جائیں گے اور ریاست کی پوری آبادی محفوظ و مامون ہو جائے گی۔بچے،نشائی اور ذہنی مریض اس سے مستسنی ہیں کیونکہ قانون ان کے قول کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔مرتد پراتمام حجت کے لیے عدالتی کاروائی کی تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے،قاضی کے سامنے دو عاقل بالغ مسلمان گواہی دیں گے ان کے سامنے اس مرتد نے اس اس طرح کے الفاظ کہے تھے یااس اس طرح کے اعمال صادرکیے تھے۔اس کے بعد بھی اگر کہیں شک رہ جائے توقاضی خود اس کے عقائد کی بابت اس سے سوالات کرے گا۔اگرمرتد عدالت میں بھی اپنے کفر پرقائم رہے تو فقہا کہتے ہیں اس سے عمدہ بحث کے ذریعے اس کے اشکالات دور کیے جائیں گے اور اس مقصد کے لیے جہاں علماء کی مدد لی جاسکتی ہے وہاں شریعت نے تین دن کی مہلت بھی مرتد کو مرحمت کی ہے،لیکن ان تین دنوں میں مرتد قانون کی تحویل میں رہے گاتاہم اس پر کسی طرح کے جسمانی تشدد کی ممانعت ہے۔ اس کے بعداگرمرتد تائب ہوجائے تواسے چھوڑ دیاجائے گااور اسلامی ریاست کے آزاد شہری کے تمام حقوق اسے ایک بار پھر میسر آجائیں گے لیکن اگر تب بھی اگروہ تائب نہ ہوتواسے سزا کی کمیت و حجم کے بارے میں قاضی خود آگاہ کرے گاپس ان سب کے بعد بھی اگر مرتداپنے ارتدادسے رجوع نہیں کرتا تو اسے تین وجوہات سے پھانسی دے دی جائے گی:
1۔وہ ایسا غیر مسلم نہیں کہ غیر ریاست کے شہری ہونے کے ناطے اسلامی ریاست نے اسے سیاسی پناہ دی ہو۔
2۔اسلام سے روگردانی کے بعد وہ ریاست کے مسلمان شہری ہونے کے حق سے محروم ہوجائے گااوراگر دوسری ریاستوں سے سیاسی پناہ لیتا
ہے یاملک بدر کیاجاتاہے تو وہ ریاستیں اپنے خلاف اسلام عزائم کی تکمیل کے لیے اس سے مستنددفاعی معلومات حاصل کریں گی۔
3۔وہ ذمی شہری بھی نہیں ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں کفر سے اسلام کی طرف تو آیاجاسکتاہے اسلام سے کفر کی جانے کی گنجائش نہیں۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس حضرت ابوموسی اشعری کابھیجاہواایک قاصدآیا،اس نے بتایا کہ ایک شخص نے اسلام قبول کیااور پھرمرتد ہو گیا،امیرالمومنین نے دریافت فرمایا کہ پھر؟؟اس قاصد نے بتایاہم نے اس کی گردن مار دی، حضرت عمر نے کہاتم نے ایسا کیوں نہ کیا کہ اسے تین دن قید رکھتے،اسے روزانہ کھانا کھلاتے اور اسے اسلام کی طرف واپس آنے کی تبلیغ کرتے ممکن تھاکہ توبہ کرلیتا۔پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ اے اﷲ میں وہاں موجود نہ تھا ،نہ ہی میں نے اس کا حکم دیاتھااورنہ ہی میں اس خبر پر خوش ہوا ہوں۔چنانچہ مرتد کو قید کے دوران کھانے پینے کی سہولیات فراہم کی جائیں گی،یہ سہولیات اس کے اپنے اخراجات سے بھی ہو سکتی ہیں اور ایسا ممکن نہ ہو تو ریاست اس مرتد کے تین دن کے اخراجات برداشت کرے گی ۔تین دنوں کے بعد اس سے دریافت کیاجائے گا،رجوع کی صورت میں اسے قیدخانے سے رہا کردیاجائے گا بصورت دیگر اسے موت کے گھاٹ اتاردیاجائے گا لیکن اس کی لاش کو غسل اور کفن نہیں دیاجائے گااورنہ ہی اس کا جنازہ پڑھا جائے گااور مسلمانوں کے قبرستان میں بھی اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی اس لیے کہ وہ مرتے وقت مسلمان نہیں تھا۔
خواتین میں سے اگرکوئی مرتد ہو جائے تواسے قتل نہیں کیاجائے گا کونکہ محسن نسوانیتﷺنے خواتین کے قتل سے منع کیا ہے۔بہتر ہے کہ اس کی سزا کو روزآخرت پر اٹھارکھاجائے۔اس حکم کی علت بھی وہی ہے جو مردکی سزا کی علت ہے۔عورت پر اگرچہ قتال اسی طرح فرض ہے جس طرح مرد پرفرض ہے لیکن شریعت و فطرت کی مقررکردہ اس کی خانگی وخاندانی ذمہ داریاں اسے اتنی فرصت فراہم نہیں کرتیں کہ وہ بہت حساس رازوں تک پہنچ پائے اور کھل کردفاعی امور میں کوئی کرداراداکرسکے،چنانچہ وہ دشمن سے مل کر ریاست کوکوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچاسکتی اس لیے شریعت نے اس جرم کے بعد اس کی جان بخشی کردی ہے۔ایسی خاتون جو مرتد ہوگئی ہو اسے اس خاتون کی طرح فرض کر لیاجائے گا جو ابھی مسلمان ہوئی بھی نہیں تھی۔ایک حدیث مبارکہ میں بھی آپ ﷺ نے فرمایا’’ اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تواسے دوبارہ اسلام پیش کرواگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکارکردے تواسے ایک موقع اور دے دو‘‘۔تاہم بعض فقہاایسی خواتین کو قیدرکھنے کاحکم دیتے ہیں تآنکہ وہ اسلام قبول کر لیں یا قید میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام پورے کریں۔پس اگرکبھی کبھی ایسے مواقع پیداہوں توپہلے قول پر عمل کرناچاہیے اور اگر معاشرے میں خواتین کثرت سے ارتداد کی طرف مائل ہو رہی ہوں تو دوسرے قول پر بھی عمل کیاجا سکتاہے۔
ارتدادکے بعد درج ذیل احکامات مرتب ہوں گے:
1۔شوہریا بیوی میں سے کسی ایک کے مرتد ہوجانے سے نکاح باطل ہو جائے گا اورجدائی واقع ہو جائے گی۔
2۔زوجین مرتد ہوجائیں تو بحیثیت میاں بیوی کے رہ سکتے ہیں۔
3۔نابالغ اگرکفریہ کلمات کہے تواسے تحویل میں لے لیاجائے گا،بلوغت کے بعد اس پرقانونی گرفت کی جائے گی۔
4۔مرتد اسلامی ریاست کے شہری کے حقوق سے محروم کردیاجائے گا۔
5۔اگرکوئی گروہ مرتد ہوجائے تواسلامی ریاست اس کے خلاف قتال کرے گی جیسے حضرت ابوبکر نے مانعین زکوۃ سے کیا۔
6۔مالکی،شافعی اور حنبلی فقہا نے مرتدعورت کے لیے بھی قتل کی سزا تجویز کی ہے۔
7۔فقہ جعفری کے فقہا غیرمسلم ممالک کے مرتدین کو بھی قتل کرنے کے قائل ہیں۔
8۔ارتدادکے بعد حالت ایمان میں کیے گئے احسن اعمال بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔
9۔مرتد کسی مسلمان کااور کوئی مسلمان کسی مرتد کاوارث نہیں بن سکتا۔
10۔مرتد کے مرنے کے بعد اس سے مسلمانوں جیسا سلوک ہرگزنہیں کیا جائے گا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلامی قانون میں بھی غدارکی وہی سزا ہے جودنیابھر کے دیگر قوانین میں باغیوں کے لیے رکھی گئی ہے بلکہ ہمارا دعوی ہے کہ دنیا بھر کے قوانین میں باغی کی وہی سزا ہے جو اسلامی شریعت نے مقرر کی ہے۔کیونکہ دنیا بھر کی اورانسانی تاریخ کی کوئی ریاست اور کوئی فوج اپنے باغی کو حق زندگی دینے کے لیے تیارنہیں ہے۔اور عدالتی کاروائی کا حق بھی صرف اسلام نے دیاہے کیونکہ اسلام ہی انسانیت کا دین ہے جبکہ بقیہ ادیان و نظام ہائے دنیا تو صرف کورٹ مارشل پر ہی اکتفا کرتے ہیں یا بعض اوقات اسکی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور باغی کوموت کے گھاٹ اتار دیاجاتاہے۔اﷲ تعالی ہمیں اس بہت بڑے گناہ سے محفوظ رکھے اور ہم اپنے رب کے ہاں ایک مسلمان کی حیثیت سے اور اسکے آخری رسول ﷺ کے پیروکار کی حیثیت سے پیش ہوں۔
good collection
ReplyDeletetell me all refrence?
Jazak Allah good information
ReplyDeleteجزاک اللہ بہت زبردست ، بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے
ReplyDeleteماشا اللہ
ReplyDelete