Friday, 15 March 2013

زبان سے نیت کا بیان


نیت کہتے ہیں دل کے ارادے اور توجہ کو کہ کونسا عمل کس کیلئے کررہا ہوں۔ یہ توجہ جن کاموں کے کرتے وقت نہ ہو تو وہ کام افعال ہیں، اعمال نہیں۔ اس لیے وہ عادت کہلائیں گے عبادت نہیں۔ لہٰذا دل کے توجہ کو قائم رکھنے کیلئے اپنی زبان کے الفاظ سے نیت کہنے میں مدد لینا تاکہ عمل میں تمیز ہوسکے اور نیت کرنے میں شک وشبہ پیدا نہ ہو، جائز ہے۔ کسی امام نے اسے بدعت نہیں کہا۔

(1) تجدید واصلاحِ نیت کیلئے» الفاظ سے نیت کی ادائیگی جائز ہونا۔
(2) نیت کو یقینی بنانے کیلئے» الفاظ سے نیت کی ادائیگی جائز ہونا۔

حدیث:1
ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میں حج میں شرط لگانے کا ارادہ کرسکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، (کر سکتی ہو)، انہوں نے کہا: تو میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا:
کہو! لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَحِلِّي مِنَ الْأَرْضِ حَيْثُ حَبَسْتَنِي.
حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں، اور میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے۔
[ابوداؤد:1776، نسائی:2766، ترمذی:941]

امام ترمذیؒ (م279ھ) نے تو باب لکھا کہ: حج کے شرائط کی بیان میں۔
[ترمذی:941]
لہٰذا ان کے نزدیک نیت کرنا شرط (لازم) ہے۔






کیسے نیت کہے؟
امام احمدؒ (م241ھ) نے فرمایا: حج کا ارادہ کرنے والا کہے:

اَللّٰهمَّ إِنِّی أُرِيدُ الْحَجَّ يا أُرِيدُ الْعُمْرَة فَيسِّرْه لِیْ يا فَيسِرَها لِی وَتَقَبَّلْه مِنِّی.

’’اے اللہ! میں حج یا عمرہ ک ارادہ کرتا ہوں، پس اس کو میرے لئے آسان کردے اور مجھ سے قبول کر لے۔‘‘
[مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله:757، مسائل الإمام أحمد رواية ابنه أبي الفضل صالح:375، الإقناع لابن المنذر:71]

امام سفیان ثوریؒ (م161ھ) نے فرمایا:
اللَّهُمَّ ‌إِنِّي ‌أُرِيدُ ‌الْحَجَّ ‌فَيَسِّرْهُ وَتَقَبَّلْهُ مِنِّي۔
[مصنف عبد الرزاق:9810]






حدیث:2
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تمہارے پاس(کھانے کی) کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ تو آپ ﷺ نے کہا: میں روزے سے ہوں۔
[النسائی:2328]
باب:
نفلی روزے کی رخصت اگرچہ آدمی نے رات کے وقت روزے کی نیت نہ بھی کی ہو، اور نبی کے فرمان کہ: جس نے رات کے وقت روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔ سے مراد فرض روزہ ہے، نفلی روزہ نہیں۔
[صحیح ابن خزیمہ:2141]
مباح(جائز)ہونے کا تذکرہ کہ رات کے وقت پہلے سے نیت نہ کرے کے باوجود آدمی نفلی روزہ رکھ لے۔
[صحیح ابن حبان:3629]
۔۔۔دن کو نیت زوال سے پہلے کرنا۔
[بیھقی:7914]

تشریح کا حدیث سے ثبوت:
حضرت مجاہد سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میرے پاس رسول اللہ ﷺ آتے اور پوچھتے:  کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ ہم کہتے: نہیں، "تو آپ ﷺ کہتے: میں روزے سے ہوں" ، اور اپنے روزے پر قائم رہتے، پھر کوئی چیز بطور ہدیہ آتی تو روزہ توڑ دیتے، (امی عائشہؓ) کہتی ہیں کہ کبھی روزہ رکھتے، اور کبھی کھول دیتے، میں نے پوچھا: یہ کیسے؟ تو کہا: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی صدقہ نکالے پھر کچھ دے اور کچھ رکھ لے۔
[ابن ماجہ:1701]



حدیث:3
جب رسول اللہ ﷺ نماز شروع  کرتے تو تکبیر کہتے فرماتے:

وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ  حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(سورۃ الانعام:162)، لَاشَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ۔۔۔

[أخرجه الطيالسى (1/22، رقم 152) ، وعبد الرزاق (2/79، رقم 2567) ، وابن أبى شيبة (1/210، رقم 2399) ، وأحمد (1/94، رقم 729) ، ومسلم (1/534، رقم 771) ، وأبو داود (1/201، رقم 760) ، والترمذى (5/485، رقم 3421) ، والنسائى (2/129، رقم 897) ، وابن خزيمة (1/235، رقم 462) ، والطحاوى (1/199) ، وابن الجارود(1/54، رقم 179) ، وابن حبان (5/74، رقم 1774) ، والدارقطنى (1/296، رقم 1) ، والبيهقى (2/32، رقم 2172) .]



**************************

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ عَنْ عُمَرَأَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَلِكُلِّ امْرِءٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللہِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللہِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ۔
ترجمہ:
عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، یحیی بن سعید، محمد بن علقمہ بن وقاص، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (اعمال کے نتیجے) نیت کے موافق ہوتے ہیں اور  ہر  شخص کے لئے وہی ہے جو وہ نیت کرے، لہذا جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہو گی، تو خدا کے ہاں اس کی ہجرت اسی (کام) کے لئے (لکھی جاتی) ہے، جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہو اور جس کی ہجرت دنیا کے لئے ہو کہ اسے مل جائے یا کسی عورت کیلئے ہو جس سے وہ نکاح کرے، تو اس کی ہجرت اس بات کے لئے ہو گی، جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہو۔






توضیح و تنبیہ :

نیت کے لغوی معنیٰ "قصد وارادہ" کے ہیں۔ یہ لفظ ی کی تشدید کے ساتھ بھی آیا ہے اور بغیر تشدید کے بھی۔
[الاشباه والنظائر، لابن نجيم: ص29]

شریعت کی اصطلاح میں نیت کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
قَصْدُ ‌الطَّاعَةِ ‌وَالتَّقَرُّبِ إلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي إيجَادِ الْفِعْلِ.
ترجمہ:
 کوئی بھی نیک کام  کرتے ہوئے اللہ تعالی کی عبادت اور اس کا قرب حاصل کرنے کا قصد (دل میں ارادہ-توجہ) کرنا۔
[الاشباه والنظائر، لابن نجيم: ص24، شرح التلويح:1/ 175، مطالع الدقائق:1/ 243]

اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ "جیسے نیت وجودی اور ایجابی افعال سے متعلق ہوتی ہے، مثلاََ: نماز وزکوٰۃ، اسی طرح نیت کا تعلق بعض اوقات کسی فعل کے ترک سے بھی ہوتا ہے، چنانچہ شریعت کی منہیات(منع کردہ امور)سے بچنا بھی ایک فعل ہے، حالانکہ اس میں کسی فعل کے وجود میں نہیں لایا جاتا" ----- لیکن یہ شبہ نہیں، منہیات کے نہ کرنے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ اس کے کرنے پر قادر نہیں تھا اس لیے اس سے محفوظ رہا، دوسری صورت یہ ہے کہ باوجود قدرت کے آدمی اپنے آپ کو شریعت کی منہیات سے بچائے، یہ شریعت کی اصطلاح میں "کف" ہے، اور اس پر اجر وثواب بھی ہے، پس "کف" بھی منجملہ افعال کے ایک ہے۔
[الاشباه والنظائر، لابن نجيم: ص24]
تاہم پھر بھی یہ شبہ رہتا ہے کہ نیت کا تعلق صرف طاعت (فرمانبرداری) ہی سے نہیں بلکہ معصیت (گناہ) سے بھی ہے، بلکہ بعض اوقات ایک ہی فعل نیت کی وجہ سے معصیت کے دائرے میں آجاتا ہے، اسی لیے حمویؒ نے نیت کی جو تعریف کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
بِتَوَجُّهِ الْقَلْبِ نَحْوَ ‌إيجَادِ ‌فِعْلٍ ‌أَوْ ‌تَرْكِهِ.
دل کا توجہ کرنا کچھ کرنے یا چھوڑنے کی طرف۔
[غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر:1/51]
یہ تعریف فعل و ترک اور طاعت ومعصیت سب کو شامل ہے۔




گناہ کا قصد-ارادہ-توجہ:
حضرت احنف بن قیس سے روایت ہے کہ میں اس آدمی (حضرت علیؓ) کے ارادہ سے گھر سے روانہ ہوا حضرت ابوبکرہؓ مجھ سے ملے تو کہنے لگے اے احنف! کہاں کا ارادہ ہے میں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد یعنی حضرت علیؓ کی نصرت کا ارادہ کرتا ہوں، تو ابوبکرہؓ نے مجھے کہا: اے احنف! واپس لوٹ جا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جب دو مسلمان باہم ایک دوسرے سے اپنی تلواروں سے لڑائی جنگ کریں گے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے میں نے عرض کیا، یا آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یہ تو قاتل ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیونکہ اس نے بھی اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔
[صحیح مسلم - فتنوں کا بیان - دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں - حدیث نمبر 2888 (7252)]
[سنن ابو داؤد - فتنوں کا بیان - دوران فتنہ لڑائی سے ممانعت - حدیث نمبر 4268]
[سنن النسائی - جنگ کے متعلق احادیث مبارکہ - مسلمان کا خون حرام ہونا - حدیث نمبر 4127]





دو قسم کے ارادے:
وَما كانَ لِنَفسٍ أَن تَموتَ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ كِتٰبًا مُؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِد ثَوابَ الدُّنيا نُؤتِهِ مِنها وَمَن يُرِد ثَوابَ الءاخِرَةِ نُؤتِهِ مِنها ۚ وَسَنَجزِى الشّٰكِرينَ {سورۃ آل عمران:145}
ترجمہ:
اور یہ کسی بھی شخص کے اختیار میں نہیں ہے کہ اسے اللہ کے حکم کے بغیر موت آجائے، جس کا ایک معین وقت پر آنا لکھا ہوا ہے۔ اور جو شخص دنیا کا بدلہ چاہے گا ہم اسے اس کا حصہ دے دیں گے، اور جو آخرت کا ثواب چاہے گا ہم اسے اس کا حصہ عطا کردیں گے، اور جو لوگ شکر گزار ہیں ان کو ہم جلد ہی ان کا اجر عطا کریں گے۔


لیکن عباداتِ مقصودہ میں نیت کرنے کا حکم ہے
القرآن:

وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ وَيُقيمُوا الصَّلوٰةَ وَيُؤتُوا الزَّكوٰةَ ۚ وَذٰلِكَ دينُ القَيِّمَةِ [سورۃ البینۃ:5]
ترجمہ:
اور انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یکسو ہو کر صرف اسی کے لیے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی سچی امت کا دین ہے۔



نیت کا مقصود:
نیت کا مقصود بنیادی طور پر دو ہیں:
اول دو عبادتوں کے درمیاں امتیاز پیدا کرنا چنانچہ نیت ہی کے ذریعہ فرض اور نفل میں، ظہر اور عصر میں، اداء وقضاء میں، واجب ونفل روزوں، اور صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ میں فرق وامتیاز قائم ہوتا ہے، ----- دوسرا مقصد عبادت اور عادت میں فرق وامتیاز پیدا کرنا ہے، مثلاََ کھانے کا ترک کرنا، علاج و پرہیز اور بھوک نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے، اور روزہ کی غرض سے بھی، مسجد میں بیٹھنا استراحت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے اور نماز کے انتظار میں بھی، ان مین دوسری صورت عبادت کی ہے، اور پہلی صورت عادت کی قبیل سے ہے، نیت ہی کے ذریعہ ایک عمل کی ان دو حیثیتوں کے درمیان امتیاز قائم ہوتا ہے۔


عبادت کی تعیین:
چونکہ نیت کا مقصود امتیاز پیدا کرنا اور اشتباہ کو دور کرنا ہے، اسی لیے جن عبادتوں میں اشتباہ پیدا ہوسکتا ہے، ان میں عبادت کی تعیین ضروری ہے، اور جہاں اشتباہ نہ ہو، وہاں صرف اس عبادت کی نیت کافی ہوگی، اس کی تعیین ضروری نہیں ----- اس کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ بعض عبادتوں کیلئے ایسا وقت رکھا گیا ہے کہ وہ عبادت پورے وقت کا احاطہ کرلیتی ہے، اس وقت میں وہ عبادت ایک سے زیادہ دفعہ نہیں کی جاسکتی، جیسے: روزہ، کہ طلوعِ صبح سے غروبِ آفتاب تک روزہ کا وقت ہے، روزہ اس پورے وقت کو گھیرے ہوا ہے، اس لئے ایک دن میں دو روزہ رکھنا ممکن نہیں، ایسے وقت کو اصطلاح میں "معیار" کہا جاتا ہے، لہٰذا رمضان المبارک کے مہینہ میں اس ماہ کے روزہ کیلئے صرف روزہ کی نیت کرلینا کافی ہے، روزہ رمضان کی تعیین ضروری نہیں، بلکہ اگر کوئی صحتمند مقیم آدمی رمضان میں کسی اور واجب یا نفل روزہ کی نیت بھی کرلے  تو اس کا اعتبار نہیں، کیونکہ جو چیز خود شارع کی طرف سے متعیین ہو اس میں نیت لغو اور غیر معتبر ہے۔
بخلاف نماز کے، کہ نماز کے وقت میں وسعت ہے، ہر فرض نماز کیلئے شریعت نے اتنا وسیع وقت رکھا ہے کہ اس میں کتنی ہی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں، ایسے وقت کو اصولِ فقہ کی اصطلاح میں "ظرف" کہتے ہیں۔
(جاری ہے)


نیت کہنا ضروری نہیں:
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
نِيَّةُ ‌الْمُؤْمِنِ ‌خَيْرٌ ‌مِنْ ‌عَمَلِهِ۔
مومن کی نیت بہتر ہے اس کے عمل سے۔
[المجالسة وجواهر العلم:1357، المعجم الكبير للطبراني:5942، تنبيه الغافلين:748]
مثلا:
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
(1) جو شخص اپنے بستر پر(سونے کے لیے) آتا ہے اور اس کی نیت ہوتی ہے کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا، پھر اس پر صبح تک نیند غالب آجاتی ہے، اس کے لیے اس کی نیت کے مطابق (پورا ثواب) لکھا جائے گا اور اس کی نیند اس کے رب کی طرف سے اس پر صدقہ ہوگی۔
[سنن ابن ماجہ:1344، مسند البزار:4153، سنن النسائي:1787]



(2) حضرت ابوکبشہ انماری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس امت کی مثال چار لوگوں جیسی ہے: ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال اور علم عطا کیا، تو وہ اپنے علم کے مطابق اپنے مال میں تصرف کرتا ہے، اور اس کو حق کے راستے میں خرچ کرتا ہے، ایک وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا اور مال نہ دیا، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس اس شخص کی طرح مال ہوتا تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسے یہ کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تو یہ دونوں اجر میں برابر ہیں، اور ایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا لیکن علم نہیں، دیا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، ناحق خرچ کرتا ہے، اور ایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ نے نہ علم دیا اور نہ مال، تو وہ کہتا ہے: کاش میرے پاس اس آدمی کے جیسا مال ہوتا تو میں اس (تیسرے) شخص کی طرح کرتا یعنی ناحق خرچ کرتا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تو یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔
[سنن ابنِ ماجہ: كِتَابُ الزُّهْدِ ، نیت کے بیان میں - حدیث نمبر 4228]
نکات:
(1)ذکر کی فضیلت
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي: ‌‌بَابُ فَضْلِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ - حدیث نمبر 999]
(2)کاش/اگر کہنے سے بچو کیونکہ یہ شیطان کا کام کھول دیتا ہے۔
[شرح مشكل الآثار-الطحاوي:263]
(3)حسد کا مسئلہ
[شرح مشكل الآثار-الطحاوي:463]
(4)اہل وعیال(بچوں) پر خرچ کرنا۔
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي:495]
(5)صدقہ کے اسباب
[السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية:7828]
(6)علم وعلماء کی فضیلت
[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت الأعظمي:365]
(7)صبر وشکر کا بیان
[تخريج أحاديث الإحياء-العراقي: ص1731]
(8)تقدیرِ الٰہی اور رزق طلب کرنا۔
[فتاوى الشبكة الإسلامية:12507]
(9)اچھے لوگوں کی پیروی دکھاوے کے عنوان میں داخل نہیں۔
[فتاوى الشبكة الإسلامية:59819]
(10)بغیر قول وعمل کے دل میں بات کا مواخذہ ہوگا
[فتاوى الشبكة الإسلامية:99569]
(11)ضرورت مندوں کی مدد کے لیے چوری کرنے کا حکم۔
[فتاوى الشبكة الإسلامية:28861]
(12)تھوڑے پر راضی رہنا۔
[موسوعة الرقائق والأدب - ياسر الحمداني: ص3005]



حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَيْسَ الْخُلْفُ أَنْ يَعِدَ الرَّجُلُ وَفِي نِيَّتِهِ أَنْ يَفِيَ فَلَا يَفِيَ، وَلَكِنْ أَنْ يَعِدَ الرَّجُلُ وَفِي نِيَّتِهِ أَنْ لَا يَفِيَ فَلَا يَفِيَ»
ترجمہ:
وعدہ خلافی یہ نہیں کہ انسان اپنے بھائی سے وعدہ کرے جبکہ اس کی نیت وعدہ پورا کرنی کی بھی ہو، بلکہ وعدہ خلافی تو یہ ہے کہ انسان اپنے بھائی سے وعدہ تو کرے لیکن اس کی نیت (وعدہ پورا) کرنی کی ‘‘نہ’’ ہو۔
[جامع الاحادیث: 19325]
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة-اللالكائي:1881]



دل کی نیت معتبر ہے یا زبان سے اُس کا تلفظ کرنا بھی ضروری ہے؟

نیت کا تعلق اصل میں دل سے ہے نہ کہ زبان سے، زبان سے محض اس لئے نیت کے الفاظ دہرانے کی اجازت دی گئی ہےکہ استحضار قلبی میں اضافہ ہوجائے؛ لہٰذا اگر دل میں کسی اور نماز کی نیت تھی اور زبان سے کچھ اور نکل گیا ہو تو دل کی نیت کا ہی اعتبار ہوگا اور اس کے مطابق اس کی نماز ادا ہوجائےگی۔

(کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۱،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۷،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۲/۱۴۷، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۱۸۶، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)



کیا زبان سے نیت کرنا بدعت ہے؟

زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں اور بدعتِ ممنوعہ بھی نہیں؛ ادا کرلے گا تو گنہگار نہیں ہوگا؛ نہیں ادا کرے گا تو نماز فاسد نہیں ہوگی، نیت تو مرادِ قلبی کا نام ہے وہ ادائے نماز کے لئے کافی ہے، لوگوں کے قلوب پر عامتاً افکار کا ہجوم رہتا ہے اور وہ پوری یکسوئی کے ساتھ قلب کو حاضر نہیں کرپاتے؛ اس لئے زبان سے بھی الفاظ ادا کرائے جاتے ہیں؛ تاکہ حضورِ قلب میں جس قدر کمی ہے وہ الفاظ کے ذریعہ سے پوری ہوجائے؛ اگر کوئی شخص احضارِ قلب پرقادر نہ ہو تو اس کے لئے الفاظ کا ادا کرلینا بھی کافی ہے۔


(فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۸،مکتبہ شیخ الاسل
ام، دیوبند)



الفقه : عمل کی اصلاح کیسے ہو؟؟؟

کسی حکیم کا قول ہے کہ عمل کی اصلاح کے لئے چار (4) چیزوں کی ضرورت ہے:
(١) شروع کرنے سے پہلے علم کی(کہ یہ عمل الله تعالیٰ  کی عبادات میں شامل ہے)، کیونکہ بسا اوقات بے علمی میں کوئی عمل کرلینا نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

(٢) آغاز میں نیت کی، کیونکہ بغیر نیت کے عمل درست نہیں ہوسکتا. لہذا نماز و روزہ، حج و زكوة اور دوسری تمام قسم کی عبادتیں نیت کے بغیر درست نہیں ہوتیں. بس اصلاحِ عمل  کے لئے آغاز میں نیت ضروری ہے۔

(٣) دورانِ عمل صبر کی، تاکہ عمل سکون و اطمینان سے انجام پاسکے۔

(٤) اخلاص کی، یعنی عمل کا صرف الله کے لئے ہونا. جب عمل اخلاص سے کیا جاۓ گا الله اسے قبول فرماۓ گا اور عام مخلوق کے دلوں کو بھی اس بندہ (عابد) کی طرف پھیردے گا۔

[تنبیہ الغافلین: باب # ١ -اخلاص]







**************************************


روزے میں نیت کا وقت


مسئلہ: روزہ بغیر نیت کے صحیح نہیں ہوتا ، اور نیت کی جگہ دل ہے۔ حوالہ
 عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ ۱)

جو روزے رات سے لیکر آدھے دن سے پہلے پہلے تک نیت کرنےسے صحیح ہوجاتے ہیں وہ یہ ہیں :۔ 
(۱) رمضان کے اداروزے۔ (۲) نذرِ  معین کےروزے۔ (۳) نفل روزے۔

مسئلہ: مطلق نیت اور نفل کی نیت سے رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہے، ایسے ہی مطلق نیت اور نفل کی نیت سے نذرِ معین کے روزے بھی صحیح ہوجاتے ہیں، اور اسی طرح مطلق نیت اور نفل کی نیت سے نفل روزے بھی صحیح ہوجاتے ہیں۔  حوالہ
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَر (البقرة:۱۸۵) عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ كَانَ النَّبِىُّ  صلى الله عليه وسلم  يَأْتِينَا فَيَقُولُ « هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ غَدَاءٍ ». فَإِنْ قُلْنَا نَعَمْ تَغَدَّى وَإِنْ قُلْنَا لاَ قَالَ « إِنِّى صَائِمٌ ». (دارقطني باب الشَّهَادَةِ عَلَى رُؤْيَةِ الْهِلاَلِ ۲۲۵۹ ) عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا يُنَادِي فِي النَّاسِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ إِنَّ مَنْ أَكَلَ فَلْيُتِمَّ أَوْ فَلْيَصُمْ وَمَنْ لَمْ يَأْكُلْ فَلَا يَأْكُلْ (بخاري بَاب إِذَا نَوَى بِالنَّهَارِ صَوْمًا ۱۷۹۰)
ونوع لا يشترط في تبييت النية وتعيينها:وهو ما يتعلق بزمان بعينه، كصوم رمضان، والنذر المعين زمانه، والنفل كله مستحبه ومكروهه، يصح بنية من الليل إلى ما قبل نصف النهار على الأصح، ونصف النهار:من طلوع الفجر إلى وقت الضحوة الكبرى … لا يشترط تعيين النية في الصوم، المتعلق بزمان معين كصوم رمضان ونذر معين زمانه ونفل مطلق، لأن الزمن المخصص له وهو شهر رمضان ونحوه من نذر يوم محدد بذاته وقت مضيق أو معيار، لا يسع إلاصوم رمضان  (الفقه الاسلامي وادلته شروط النية ۵۲،۵۴/۳)

مندرجہ ذیل صورتوں میں نیت کی تعیین اور رات میں نیت کرنا شرط ہے۔

(۱) رمضان کے قضا روزے۔  (۲)  فاسد کردہ نفل روزوں کی قضا میں ۔(۳) کفارے کے روزوں میں ۔ (۴) نذر مطلق کے روزوں میں ۔حوالہ
عَنْ حَفْصَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَمْ يُجْمِعْ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَعْزِمْ مِنْ اللَّيْلِ ۶۶۲)،( وَالشَّرْطُ لِلْبَاقِي ) مِنْ الصِّيَامِ قِرَانُ النِّيَّةِ لِلْفَجْرِ وَلَوْ حُكْمًا وَهُوَ ( تَبْيِيتُ النِّيَّةِ ) لِلضَّرُورَةِ ( وَتَعْيِينُهَا ) لِعَدَمِ تَعَيُّنِ الْوَقْتِ … ( قَوْلُهُ : وَالشَّرْطُ لِلْبَاقِي مِنْ الصِّيَامِ ) أَيْ مِنْ أَنْوَاعِهِ أَيْ الْبَاقِي مِنْهَا بَعْدَ الثَّلَاثَةِ الْمُتَقَدِّمَةِ فِي الْمَتْنِ وَهُوَ قَضَاءُ رَمَضَانَ وَالنَّذْرُ الْمُطْلَقُ ، وَقَضَاءُ النَّذْرِ الْمُعَيَّنِ وَالنَّفَلِ بَعْدَ إفْسَادِهِ وَالْكَفَّارَاتِ السَّبْعِ وَمَا أُلْحِقَ بِهَا مِنْ جَزَاءِ الصَّيْدِ وَالْحَلْقِ وَالْمُتْعَةِ نَهْرٌ … ( قَوْلُهُ : لِعَدَمِ تَعَيُّنِ الْوَقْتِ ) أَيْ لِهَذِهِ الصِِيَامَاتِ بِخِلَافِ أَدَاءِ رَمَضَانَ وَالنَّذْرِ الْمُعَيَّنِ فَإِنَّ الْوَقْتَ فِيهِمَا مُتَعَيِّنٌ وَكَذَا النَّفَلُ ؛ لِأَنَّ جَمِيعَ الْأَيَّامِ سِوَى شَهْرِ رَمَضَانَ وَقْتٌ لَه (الدر المختار مع الرد سَبَبُ صَوْمِ: ۳۴۱۔۳۴۳/۷)۔

روزہ کی نیت کے مسائل
نیت کا مطلب: 
نیت بس اس حد تک کافی ہے کہ دل میں اسے معلوم ہو کہ فلاں روزہ مثلاً رمضان کا یا نذر کا رکھ رہا ہوں بلکہ روزہ کا تذکرہ کیے بغیر صرف سحری کھالے تو یہ بھی نیت کے قائم مقام ہے۔ (البحر الرائق: ۲/۲۵۹) البتہ اگر سحری کھاتے ہوئے نیت کرلی کہ صبح روزہ نہ رکھوں گا تو یہ کھانا روزہ کی نیت کے قائم مقام نہ ہوگا۔ 

نیت کا وقت: 
نیت کا وقت غروب آفتاب کے بعد شروع ہوتاہے، اس سے پہلے یا عین غروب کے وقت کی نیت کا اعتبار نہیں۔ رمضان، نذرِ معین یا نفل روزہ ہو تو نصف النہار تک یہ وقت رہتا ہے، جبکہ ہر قسم کے کفارات اور نذرِ مطلق میں ہر روزہ کے لیے غروبِ آفتاب سے صبح صادق تک وقت رہتا ہے۔ صبحِ صادق کے بعد نیت کا اعتبار نہیں۔





نصف النہار کا مطلب: 
صبحِ صادق سے غروب آفتاب تک کل وقت کے نصف کو نصف النہار شرعی کہا جاتا ہے، مثلاً صبح صادق چھ بجے ہو اور غروب چھ بجے ہو تو نصف النہار بارہ بجے ہوگااوراگر صبح صادق چھ بجے ہو اور غروبِ آفتاب سات بجے ہو تو نصف النہار ساڑھے بارہ بجے ہو گا۔ اس سے پہلے پہلے نیت کی جاسکتی ہے۔ صبح صادق سے غروب آفتاب تک وقت کی مقدار ہر موسم میں اور ہر مقام میں مختلف ہوتی ہے، اس لیے نصف النہار کا ایسا کوئی متعین وقت نہیں بتایا جا سکتا جس وقت ہر جگہ نصف النہار ہو بلکہ ایک مقام میں بھی پورے رمضان کے لیے نصف النہار کا ایک وقت نہیں ہو گا، صبح صادق اور غروبِ آفتاب کا وقت بدلنے سے بدلتا رہے گا،اس لیے ضابطہ مذکورہ کے مطابق عمل کیا جائے۔ (ردالمحتار: ۲/۳۷۷) 



رات سے نیت کرنا افضل ہے: 
اگر کوئی شخص رمضان، نذر معین یا نفل روزہ رکھنا چاہتا ہے تو افضل یہ ہے کہ رات ہی سے ہر ایک کی تعیین کرکے نیت کرلے، لیکن اگر رات سے نیت نہ کی تو نصف النہار (دوپہر) سے پہلے پہلے بھی نیت کرسکتا ہے، جبکہ ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ 



دن میں نیت کرنے کا طریقہ: 
روزہ رکھنے والا (خواہ مسافر ہو یا مقیم، تندرست ہو یا بیمار) اگر دن میں نیت کررہا ہے تو یہ نیت کرے کہ شروع دن (صبحِ صادق) سے میرا روزہ ہے، اس کی بجائے اگر یوں نیت کی کہ اس وقت سے میرا روزہ ہے تو روزہ نہ ہوگا۔ مطلق روزہ یا نفلی روزہ کی نیت کرلی: 
اگر کسی نے رمضان، نذرِ معین یا نفل روزہ میں تعیین کے بغیر مطلق ر وزہ کی نیت کرلی، یعنی صرف یہ نیت کی کہ آج میرا روزہ ہے یا سب میں نفل روزہ کی نیت کی تو بھی جائز ہے۔ یعنی رمضان ہونے کی صورت میں رمضان ہی کا روزہ شمار ہوگا اور نذر معین ہونے کی صورت میں نذر ہی کا روزہ شمار ہوگا۔ 



بے ہوش کو نصف النہار سے پہلے ہوش آگیا: 
اگر رمضان میں کسی پر بے ہوشی طاری ہوگئی یا جنون لاحق ہوا، پھر نصف النہار سے پہلے پہلے ہوش میں آکر روزہ کی نیت کرلی تو روزہ درست ہے۔ (حوالہ ٔ بالا) 



قضا اور روزہ کی بقیہ اقسام کا حکم: 
یہ حکم ان تینوں قسم کے روزوں کی اداء کا تھا، ان کی قضاء اور روزہ کی بقیہ تمام اقسام (کفارات یعنی قسم کا کفارہ، روزہ کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، قتل کا کفارہ اور نذر مطلق) میں ہر روزہ کی متعین طور پر نیت کرنا اور رات سے نیت کرنا ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کسی روزہ کی نیت صبح صادق کے بعد کی یا مطلق روزہ کی نیت کی یا نفل روزہ کی نیت کی تووہ نفل روزہ ہوگا، رمضان کی قضاء کے علاوہ باقی صورتوں میں اسے پورا کرنا مستحب ہے اور توڑنے پر قضاء نہیں، البتہ اگر قضاء رمضان کا روزہ رکھا، مگر نیت صبح صادق کے بعد کی تو یہ روزہ نفل ہوگیا، اگر اسے توڑ دیا اس کی قضاء لازم ہے۔ 



نیت کی پھر ختم کر دی: 
اگر رات کوروزہ کی نیت کرلی، پھرنیت بدل گئی اور صبح صادق سے پہلے پہلے پختہ ارادہ کرلیا کہ روزہ نہیں رکھنا تو روزہ کی نیت باطل ہوگئی، اب تجدید نیت کے بغیر یونہی بھوکا پیاسا دن گذاردیا تو روزہ نہیں ہوا۔ 



روزہ رکھا، پھر توڑنے کی نیت کرلی: 
روزہ رکھنے کے بعد دل میں توڑنے کی نیت کرلی تو روزہ نہ ٹوٹے گا جب تک کہ کوئی بات روزہ کو توڑنے والی صادر نہ ہو۔ 



رات کو نیت کر کے سو گیا: 
اگر رات کو روزہ کی نیت کرکے سوگیا، پھر صبح ہونے سے پہلے اٹھ کر کچھ کھاپی لیا تب بھی نیت میں کوئی خلل نہ آئے گا اور روزہ صحیح ہوجائے گا۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: ۱/۲۵۱ ، ہندیۃ: ۱/۱۵۵) 



رمضان کے ہر روزہ کی الگ نیت ضروری ہے: 

ماہ ِرمضان میں ہر روزہ کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے، اگر شروع رمضان میں ہی نیت کرلی کہ پورے مہینے کے روزے رکھوں گا تو یہ نیت صرف پہلے روزے کی حد تک معتبر ہے۔ في الدر: ’’ ویحتاج صوم کل یوم من رمضان إلی نیۃ۔‘‘ (۲/۳۷۹)



**************************************

((مولانا محمد ادریس کاندھلوی)
اس حدیث میں دو چیزوں کا ذکر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایک اعمال کا ، دوسرے ”نیت“ کا ،پہلے میں نیت کے متعلق عرض کروں گا اوراس کے بعد ان شاء الله اعمال کے متعلق بیان کروں گا۔

اخلاصِ نیت کی برکت
قرآن مجید اور احادیث میں جا بجا ترغیبات موجود ہیں کہ اعمال کی قبولیت کا دار ومدار نیت پر ہے اور نیت کے فضائل اور اس کا ثواب قرآن وحدیث میں اکثرجگہ موجود ہے ۔ چناں چہ قرآن مجید میں ایک جگہ خدا تعالیٰ نے فقرائے مسلمین کے بارے میں آیت نازل فرمائی، جس کا شان نزول یہ ہے کہ مکہ کے سردار اور رؤسا نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ ہم آپ کی بات اس شرط پر سننے کو تیار ہیں کہ جس وقت ہم لوگ آپ کی مجلس میں حاضر ہوا کریں تو آپ ان غریب اور کم درجہ کے لوگوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کریں ، کیوں کہ ہمیں ان کے ہمراہ بیٹھنے میں سخت عار آتی ہے اور ہماری شان کے خلاف ہے کہ ہم اتنے بڑے بڑے لوگ ایسے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں۔ جب ان لوگوں نے آپ سے یہ درخواست کی تو آپ اس سلسلے میں متردد تھے، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿لا تطرد الذین یدعون ربھم بالغداة والعشی یریدون وجھہ﴾ آپ (اپنے پاس سے) ان لوگوں کو الگ نہ کریں جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں، جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ وہ خالص خدا تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔

یعنی ان کی عبادت اور الله کو پکارنا محض اخلاص اور نیک نیتی سے ہے اور کوئی غرض ان کی اس میں شامل نہیں ۔ یہی مطلب ہے لفظ ﴿یریدون وجھہ﴾ کا ، تو خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ان سرداروں اور رؤسا کی خاطر نہ اٹھائیں، خواہ یہ سردار آپ کے پاس آئیں یا نہ آئیں۔

اس آیت میں غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اخلاص اور نیک نیتی کی خدا تعالیٰ کے ہاں کتنی قدر ہے اور اس کا کتنا مرتبہ ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ نعوذ بالله نبی کو امیروں سے ان کی امارت کی بنا پر محبت اورانس ہو اور غریبوں سے ان کے افلاس اور فقر کی وجہ سے نفرت ہو، بلکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جو اس ا مر میں متردد تھے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یہ حرص تھی کہ اگر میں چند منٹ کے لیے ان سردار انِ مکہ کی اس بات کو مان لوں اورتھوڑی دیر کے لیے دعوت اسلام کے خاطران سے تخلیہ میں گفت گو کر لوں تو ممکن ہے کہ یہ اسلام لے آئیں اور اس طرح ان کو ہدایت ہو جائے ، پھر یہ امرا امرا نہیں رہیں گے، بلکہ دل سے ویسے ہی درویش صفت ہو جائیں گے ، جیسے کہ یہ فقرائے مسلمین ہیں تو گویا آپ کا خیال مبارک یہ تھا کہ یہ چند روز کی بات ہے ، پھر جب خدا تعالیٰ ان کو اسلام لانے کی توفیق دے دے گا تو پھر یہ معاملہ ہی نہیں رہے گا۔

غرض آں جناب کو جو اس جانب میلان خاطر تھا وہ اس پر تھا کہ آپ ان امرا کو فقرا صفت بنانا چاہتے تھے اور فقرائے مسلمین چوں کہ سرتاپاجاں نثار اور غلام تھے ، اس لیے ان کو بھی گرانی کے ہونے کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ یہ مصالح تبلیغ ودعوت تھیں، جن کی بنا پر آپ کا خیال مبارک اس بارے میں متردد تھا، مگر چوں کہ خدا تعالیٰ کی شان بے نیازی ہے او راس کی بارگاہ میں کسی کی پروا نہیں ، اس لیے فرمایا کہ خواہ یہ امرا اسلام لائیں یا نہ لائیں، آپ پروانہ کریں ، لیکن ان مسلمانوں کو جو اخلاص او رنیک نیتی سے صبح وشام خدا کو پکارتے ہیں، اپنے دربار سے نہ ہٹائیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ اتنا بڑا اعزاز واکرام ان فقرائے مسلمین کا فرمایا او ران کو ان سرداروں کے مقابلہ میں اتنا بڑا مرتبہ عطا فرمایا، اس کی علت کیا ہے او راس کی وجہ کیا ہے ؟ سو اس کی جو علت خود حق تعالیٰ بیان فرمارہے ہیں ، وہ یہ ہے کہ ﴿یریدون وجھہ﴾ یعنی یہ مرتبہ ان کو اس لیے عطا کیاجارہا ہے کہ یہ خدا تعالی کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو اس کی رضا او رخوش نودی کی تلاش ہے ، کوئی دنیوی غرض یا اپنی ذاتی خواہش نہیں ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے جو اپنی نیتوں کو خدا کی رضا جوئی کے لیے خالص کر لیا تھا اس اخلا ص اور نیک نیتی کی یہ برکت ہے کہ ان کو اس مرتبہ عظمیٰ پر فائر کیا گیا اور فقط اسی پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ یہ حکم دیا ﴿واذا جاء ک الذین یؤمنون بایتنا فقل سلٰم علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمة انہ من عمل منکم﴾ اس میں بھی یہی ذکر ہے کہ جب یہ فقرا آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کو سلام کیجیے اور ہمارا یہ پیغام پہنچا دیجیے کہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں پر رحمت نازل کرنے کو اپنے اوپر لازم فرمالیا ہے۔ تو یہ اعزاز بھی اسی نیک نیتی او راخلاص کی بنا پر ہو رہا ہے کہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس یہ لوگ آئیں تو نبی ان کو سلام کریں اور خدا تعالیٰ کی در گاہ میں حاضر ہوں تو وہ ان پر رحمت فرمائیں اور تیسرا اعزازیہ کہ امراء آئیں یانہ آئیں، کوئی پروا نہیں ، مگر ان لوگوں کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے پا س سے ان رؤسا کی خاطراٹھانا گوارا نہیں۔


اچھی نیت عمل خیر سے بہتر کیوں؟
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ ”نیة المومن خیر من عملہ“ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ، اس حدیث کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے، جو درحقیقت اختلاف نہیں ،بلکہ اس حدیث کی مختلف تفسیریں اور تعبیریں ہیں۔ دراصل بہ ظاہر اس حدیث میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے کہ عمل کرنے سے نیت کا درجہ کیسے بڑھ سکتا ہے ، کیوں کہ نیت تو عمل سے پہلے ہوتی ہے ، پھر اس میں مشقت بھی کچھ نہیں او رعمل میں مشقت ہے ؟ اس لیے بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ انسان کئی قسم کے ہیں ، ایک وہ کہ انسان نیک نیتی کرے اور عمل نہ کرے اور دوسرا وہ جو عمل تو کرتا ہے مگر نیت ٹھیک نہیں ہے ، مثلاً عمل میں ریا کا شائبہ ہے یا کسی دنیوی غرض کو حاصل کرنے کے لیے نیک کام کر رہا ہے تو چوں کہ اس دوسرے شخص کی نیت ٹھیک نہیں ، اس لیے اس کے عمل کا بھی کوئی ثواب نہیں ، بلکہ ریا وغیرہ کا گناہ ہو گا ،بخلاف اس شخص کے کہ جس نے صرف نیت کی تھی ، اس کو نیت کا ثواب تو مل گیا، گووہ عمل نہ کر سکا اور پہلے شخص کو نہ نیت کا ثواب ملا اور نہ عمل کا تو اس صورت میں نیت عمل سے بڑھ گئی ، کیوں کہ بہرحال وہ نیت ثواب کا باعث ہوئی اور یہ عمل کچھ بھی نہ ہوا۔






بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ چوں کہ عمل تو ہوتا ہے محدود اور نیت انسان غیر محدود کی بھی کر سکتا ہے تو اس صورت میں نیت عمل سے بڑھی ہوئی ہے ، مثلاً حدیث میں ہے کہ ایک تو ایسا شخص ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے مال بھی عطا فرمایا ہے اور علم بھی اور وہ اس مال کو اپنے علم کے مطابق صحیح جگہوں میں خرچ کرتا ہے ، یعنی جہاں خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں خرچ کرتا ہے اور جہاں خرچ کرنے کی ممانعت ہے ، وہاں خرچ کرنے سے رک جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ شخص ایسا ہے کہ اس کو اجر اورثواب بہت ملے گا، کیوں کہ جہاں جہاں اس کو خرچ کرنے کی ضرورت ہو گی ، دل کھول کر خدا کی راہ میں خرچ کرے گا او رایک دوسرا شخص ہے کہ اس کے پاس نہ مال ہے او رنہ علم ہے، وہ اس کو دیکھ دیکھ کر حسرت کھاتا اور رشک کرتا ہے کہ کاش! خدا تعالیٰ مجھے بھی اس طرح مال دیتا او رمیں اس کو خدا کی راہ میں اس شخص کی طرح خرچ کرتا ، تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” ھما فی الأجر سواء“ یعنی یہ دونوں اجر اور ثواب میں برابر ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ اس دوسرے کے پا س مال ودولت نہیں ہے، مگر اس کی نیت تو ہے کہ اگر ہوتا تو میں خرچ کرتا ، تو چوں کہ یہاں اس کی نیت شامل ہو گئی ، اس لیے اس کو اجر ثواب میں اس کے برابر کر دیا گیا۔

تیسرا وہ شخص کہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو مال دیا، مگر اس نے علم حاصل نہیں کیا، اس لیے اپنے مال کو اندھا دھند اور عیش پرستیوں اور فضول خرچیوں میں خرچ کر رہا ہے اور کسی مفلس آدمی نے اس کو دیکھ کر کہ یہ شخص تو خوب مزے اڑارہا ہے اور عیش کر رہا ہے ، اس لیے اس نے بھی یہ حسرت کی کہ اگر مجھے مال ملے تو میں بھی یوں ہی عیش اڑاؤں اور دنیا کے مزے لوٹوں، تو فرمایا کہ یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں ، تو یہ برابری محض نیت کی وجہ سے ہوئی ، اس لیے انسان کوچاہیے کہ اگر کسی کو نیک کاموں میں خرچ کرتے دیکھے تو کہے کہ اگر مجھے بھی مال میسر ہوتا تو میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتا او رکسی کو دیکھو کہ وہ اپنے مال کو بے جا خرچ کرکے گناہ میں مبتلا ہے تو یہ کہو کہ خداوند! تیرا احسان ہے او رشکر ہے کہ تونے مجھے دیا ہی نہیں کہ میں اس خرافات میں خرچ کرتا۔

بعض اولیائے کرام کے کلام میں دیکھا کہ دو چیزیں عجیب وغریب ہیں: ایک توبہ اور دوسری نیت ، یہ دونوں عجیب وغریب اس لیے ہیں کہ نیت کا کام ہے کہ معدوم چیز کو موجود بنا دینا، مثلاً ہم نے کوئی عمل نہیں کیا، مگر نیت کر لی تو ثواب ملے گا تو بغیر عمل کے ثواب ملنے کا یہی حاصل ہوا کہ عمل موجود نہیں،مگر نیت نے اس کو موجود کر دیا اور دوسری چیز توبہ ہے جو موجود کو معدوم کر دیتی ہے، کیوں کہ انسان خواہ ستر (70) برس تک گناہ کرتا رہے، بلکہ شرک وکفر میں بھی مبتلا رہے ، جب بارگاہ الہٰی پر ایک سجدہ کیا اور معافی مانگی، سب یک قلم معاف اور گناہوں کا ایک بے شمار ذخیرہ جو موجود تھا اس کو ایک مخلصانہ توبہ نے معدوم کر ڈالا، یہ دونوں نعمتیں خدا تعالیٰ نے اہل ایمان کوعطا کی ہیں ، عجیب نعمتیں ہیں ”فللہ الحمد حمداً کثیراً“․

جو حدیث ابتدا میں میں نے ذکر کی اس میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیت ہے ، یعنی اعمال بمنزلہ جسم کے ہیں او رنیت بمنزلہ روح کے ہے ۔ جس درجہ کی نیت ہو گی اسی درجہ کا عمل ہو گا ، اگر نیت ہے تو عمل بھی اچھا ہو گا اور فاسدنیت ہے تو عمل بھی فاسد ہو گا۔ اس سے بھی ”نیة المؤمن خیر من عملہ“ کا نیا مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جب نیت بمنزلہ روح کے ہے او رعمل بمنزلہ جسم کے ہے تو ظاہر ہے کہ روح کا درجہ جسم سے بڑھا ہوا ہے، آج کل کے فلسفیوں کو اور مادہ پرستوں کو اس جگہ یہ اشکال پیش آتا ہے کہ یہ باتیں محض مولویوں کے ڈھکوسلے ہیں او رمحض سنی سنائی باتیں ہیں اور اس کے لیے کوئی عقلی دلیل نہیں ، کیوں کہ عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے منکر ہے کہ عمل کا دارومدار نیت پر ہو ، لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے ، اس کے لیے عقلی دلیل بلکہ مشاہدہ موجود ہے ، دیکھیے ، آپ باپ ہونے کی حیثیت سے اپنے بچے کو طمانچہ ماردیں تو اس سے اس بچے کے دل میں، جو آپ کی محبت ہے، اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا، لیکن اگر آپ کسی محلے کے بچے کے طمانچہ مار دیں تو اس بچے کو بھی ناگوارہو گا اوراس کے والدین اورسرپرستوں کو بھی ناگوار گزرے گا، سوچنا چاہیے کہ آخر یہ فرق کیوں ہوا؟ وہی نیت کا فرق ہے کہ اپنے بچے کو مارنے میں اس کی اصلاح او رتربیت مدنظر ہے اور محلے کے بچے کو مارنے میں یہ چیز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص سے نادانستہ کسی کا نقصان ہو جائے کہ اس کی نیت اور ارادہ اس کا نقصان کرنے کا نہیں تھا ، مگر لاعلمی او رغیراختیاری طور پر وہ نقصان ہو گیا تو اگر یہ دوسرا شخص عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور عدالت میں یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ کام اس نے قصداً نہیں کیا، بلکہ نادانستہ ہو گیا ہے تو عدالت اس کو سزا نہ دے گی اور اگر دے گی تو اس درجہ کی سزا نہ دے گی جیسی کہ قصداً کرنے میں دی جاتی ، تو جب دنیا کے احکام نیت سے بدل جاتے ہیں تو آخرت کے احکام بطریق اولیٰ بدل جائیں گے، حدیث ”نیة المومن خیر من عملہ“ کی ایک توجیہ علماء نے یہ کی ہے کہ نیت ایک ایسا فعل ہے کہ اس میں ریا کا احتمال نہیں ، اس لیے یہ عمل سے بہتر ہے، کیوں کہ عمل میں ریا کا احتمال ہے او رایک توجیہ اس کی امام غزالی  نے لکھی ہے ، وہ یہ کہ عمل کا تعلق تو اعضا ظاہری سے ہے اور نیت کا تعلق باطن سے ہے ، تو اس کی مثال ایسی ہے کہ اطبا جو مریضوں کو دوا دیتے ہیں ان میں بعض تو اوپر لیپ کرنے کی ہوتی ہیں اوربعض دوائیں پلانے کی ہوتی ہیں ، تو ظاہر ہے جو دوا جسم کے اندر پہنچ کر اپنا اثر کرے گی ، وہ زیادہ موثر ہو گی بہ نسبت اس دوا کے جو اوپر سے لیپ کے طور پر لگادی جائے، اس طرح نیت اور عمل کا حال ہے۔

نیت کی لغوی وشرعی تعریفیں:
اب یہ معلوم کرنا چاہیے کہ لفظ ”نیت“ کے معنی کیا ہیں ؟ … نیت کے معنی لغت میں قصد کرنے او رارادہ کرنے کے ہیں ، مگر حقیقت اس کی قصد اور ارادہ کے سوا کچھ اور ہے ۔ یوں سمجھیے کہ نیت کی حقیقت یہ ہے کہ نیت ایک قلبی صفت او رکیفیت کا نام ہے، جو علم اور عمل کے درمیان میں ہے ۔ اس کو مثال سے سمجھیے کہ مثلاً پہلے تو انسان کو علم حاصل ہوتا ہے کہ فلاں کام میں نفع ہے یا نقصان ہے ، جیسے تجارت میں نفع ہونے کا کسی کو علم ہوا کہ اگر تجارت کی جائے تو نفع ہوتا ہے یا کھیتی کرنے سے غلہ پیدا ہوگا۔ یہ تو سب سے پہلا درجہ ہے، جو علم کا درجہ کہلاتا ہے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان عمل ترویج کر دے، جیسے تجارت کا مال خرید کر دکان میں لگا کر بیٹھ جائے یا کھیتی کرنے کے لیے ہل وغیرہ چلانا شروع کر دے ، یہ عمل کا درجہ ہے او ران دونوں کے درمیان جو چیز ہے وہ نیت ہے، جس سے عمل او رکام کرنے کی ایک آمادگی پیدا ہوئی، بس یہی نیت کا درجہ ہے۔


امام غزالی  نے اس کی تعریف او رحقیقت کو دو لفظوں میں بیان فرمایا ہے ، فرماتے ہیں :
” انبعاث القلب إلی مایراہ موافقا بغرضہ من جلب منفعة أو دفع مضرة، حالا أومآلا“
یعنی کسی کام کے لیے دل کا کھڑا ہوجانا اور آمادہ ہو جانا کہ جس کو دل اپنی غرض کے موافق پاتا ہو، خواہ وہ غرض جلبِ منفعت ہو یا دفعِ مضرت ہو ، عام ہے ، اس سے کہ وہ غرض فی الحال ہو یا فی المال ہو۔

اسی لیے فرماتے ہیں کہ اعمال کا دار ومدار دل کے کھڑے ہو جانے پر ہے ۔ اگر دل خدا کے لیے کھڑا ہو گیا تو وہی حکم ہو گا او راگر دنیا کے لیے کھڑا ہو گا تو وہی حکم ہو گا۔ غرض اعمال کی روح نیت ہے ، اگر نیت اچھی ہے تو عمل بھی مقبول ہے ورنہ مردود ، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اعمال کی تین قسمیں ہیں: قسم اول تو وہ اعمال ہیں جو طاعت کہلاتے ہیں ، مثلاً نماز ، روزہ، صدقہ، خیرات وغیرہ اور دوسری قسم وہ کہ جو مباحات کہلاتے ہیں ، یعنی جن کے نہ تو کرنے سے کوئی گناہ ہے اور نہ ان کو ترک کرنے سے کوئی گناہ، جیسے کپڑاپہننا ، کھانا کھانا، خوش بو لگانا وغیرہ اور تیسری قسم اعمال کی معاصی ہیں، یعنی وہ اعمال جن کے کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے اور ان کے کرنے میں گناہ ہے۔




کن اعمال کا مدارنیت پر ہے ؟ 
اب اس حدیث میں جن اعمال کا ذکر ہے اس سے اعمال طاعت او راعمال مباح مراد ہیں۔ معاصی یعنی اعمال معصیت اس سے مراد نہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر طاعات او رمباحات میں نیت اچھی ہوئی تو نیت کے مطابق ان کی فضیلت بڑھ جائے گی، مگر گناہوں میں نیت خواہ کتنی بھی اچھی ہو وہ گناہ ، گناہ ہی رہے گا، مثلاً کوئی شخص چوری اس نیت سے کرے کہ میں اس سے غریبوں کو کھانا کھلاؤں گا یا کوئی رشوت اس نیت سے لے کہ میں مسجد بنواؤں گا تو یہ چوری اور رشوت گناہ ہیں، رہیں گے او راس پر کوئی ثواب مرتب نہ ہو گا، اس لیے معصیت میں حسن نیت کا کوئی اعتبار نہیں، بلکہ عمل معصیت کی بنا پر وہ اچھی نیت بھی فاسد ہو جائے گی۔ طاعت میں نیت خالص الله کے لیے کرنی چاہیے اور اس میں کوئی پابندی نہیں، ایک عمل میں جتنی نیتیں کر لو گے اتنا ہی ثواب ملتا چلا جائے گا، مثلاً مسجد میں حاضر ہونا عبادت ہے، اگر کوئی شخص اس کے ساتھ یہ نیت بھی کر لے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لیے حاضرہو رہا ہوں تو اس کو دو ثواب ملیں گے او راگر کسی نے اس کے ساتھ یہ نیت بھی کر لی کہ مسجد الله کا گھر ہے ، میں اس میں جارہا ہوں او رجوکوئی کسی کے گھر جاتا ہے وہ اس کی زیارت کرنے کو جاتا ہے اس لیے میں الله کی زیارت کرنے کے لیے جارہا ہوں تو ایک اجر اور مل جائے گا او راگر کسی نے اس کے ساتھ یہ نیت بھی کر لی کہ کسی کے گھر جانے سے انسان اس کا مہمان ہوتا ہے تو میں خدا کا مہمان بننے کے لیے او راس کی مہمانی کے مزے لوٹنے کو مسجد میں جارہا ہوں تو ایک اجر اور بڑھ گیا او راگر کسی نے یہ نیت بھی کر لی کہ مسجد میں نیک لوگ اور فرشتے ہوتے ہیں ،لہٰذا ان سے برکت بھی حاصل ہو گی تو اس صورت میں ایک اجر اوربڑھ جائے گا اور اگر کسی نے یہ بھی نیت کر لی کہ میں تو روسیاہ اور گنہگار ہوں اور وہاں پر الله کے مقبول اور برگزیدہ بندے بھی ہوں گے اس لیے میری روسیاہی او رگنہگاری ان کی برکت سے دھل جائے گی تو اس نیت کا ثواب بھی بڑھ جائے گا او راگر یہ نیت بھی ساتھ ملا لے کہ جتنی دیر مسجد میں بیٹھوں گا، گناہوں سے محفوظ رہوں گا تو ایک اور اجر بڑھ جائے گا۔ نیز فقہاء نے لکھا کہ اعتکاف نفل چند گھنٹوں بلکہ چند منٹ کا بھی ہو سکتا ہے تو اگر مسجد میں آتے وقت اعتکاف کی بھی نیت کر لی تو اعتکاف کا ثواب بھی ملا۔

غرض اپنی عقل سے سوچ کر جتنی چیزوں کی نیت کرتے جاؤ گے اتنا ہی اجڑ بڑھتا جائے گا۔ آخرت کی تجارت میں انسان کو اپنی عقل خرچ کرنی چاہیے۔ غرض خدا تعالیٰ کا خزانہ کھلا ہوا ہے، وہاں ایک ہی نیت نہ کرو، بلکہ ایک ایک کام کی نیت کرو،تاکہ اجر بڑھتا چلا جائے، وہاں کوئی کمی نہیں اور نہ ہی دینے میں ان کو کوئی مشقت ہوتی ہے ، جیسے صدقہ وخیرات کرنا ثواب کا کام ہے، مگر فقہاء نے لکھا ہے صدقہ کے مستحق سب سے زیادہ اپنے قریبی عزیز ہیں، تو اگر کوئی صدقہ کرتے وقت اپنے عزیزوں کو دے او رنیت کرے کہ چوں کہ یہ ضرورت مند ہیں ، اس لیے ان کو اپنی حاجت رفع کرنے کے لیے دے رہاہوں، تو دگنا ثواب ملے گا۔





صدقہ دینے میں حضرت عمرؓ کا اصول:
حضرت عمر ضی الله عنہ نے اپنے اعزہ کو صدقہ دینے کے بارے میں ایک اصول اور ضابطہ بنا رکھا تھا، وہ یہ کہ بعض رشتہ دار تو انسان سے کسی وجہ سے ناخوش رہتے ہیں او ربعض خوش اور راضی ہوتے ہیں تو آپ ان رشتہ داروں وکو دینا زیادہ پسند کرتے تھے، جو ناخوش رہتے ہیں اور قرآن مجید میں عباد مخلصین کے متعلق ارشاد ہے کہ ان کا مسلک یہ ہے ﴿ لانرید منکم جزاء ولا شکورا﴾ ہم ( صدقہ دے کر) تم سے بدلہ او رشکر گزار ی کے طلب گار نہیں ہیں ، تو چوں کہ شکریہ کا طلب کرنا بھی ایک طرح کا بدلہ چاہنا ہے اس لیے حضرت عمر نے فرمایا کہ روٹھے ہوئے رشتہ داروں سے شکرگزاری کی توقع نہیں ہوتی ، اس لیے میں ان کو دینا پسند کرتا ہوں ، یا مثلاً کوئی شخص بے نمازی ہے، اس کو اس نیت سے صدقہ دیا کہ جب میں اس کو دوں گا تو یہ مجھ سے مانوس ہو جائے گا او رپھر اس کو نماز کے لیے ترغیب دے دوں گا تو اس کا اجر بھی بڑھ جائے گا ، اسی طرح دکان کھولنا، خوش بو لگانا، مکان بنانا وغیرہ ، یہ سب کام مباح ہیں ، نہ ان کے کرنے میں کچھ گنا ہ ہے ، نہ ثواب، لیکن اگر مثلاً دکان اس نیت سے کھولی کہ اس کے ذریعے سے روپیہ کماؤں گا اور غربا اور مساکین کی مدد کروں گا اور مسلمانوں کو ضروریات مہیا کروں گا، تاکہ ان کو سہولت ہو اور کافروں سے خریدنے کی مسلمانوں کو ضرورت نہ رہے او راس کی وجہ سے مجھے دنیا والوں سے استغنا ہو جائے گا اور روپیہ خدا کی راہ میں اورجہاد میں خرچ کروں گا، تو اب دکان تجارت گاہ نہیں، بلکہ عبادت گاہ بن گئی۔

تو دیکھیے کہ نیت کی برکت سے تجارت بھی عبادت بن گئی ۔ اب اس کا ہر لمحہ گویا عبادت میں گزر رہاہے ، پھر اگر خدا کسی کو تجارت میں نفع دے اور خدانخواستہ اس کے دل میں ٹکراؤ اور علو پیدا ہو جائے تو یہ وبال ہے ، مثلاً آپ اپنی دکان پر بیٹھے ہیں ، سامنے میز بچھی ہے ، بجلی کا پنکھا چل رہا ہے ، سامنے ٹیلی فون رکھا ہے او رسامنے سڑک پر کوئی گدا گر فقیر خستہ حال گزرا تو اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر ناز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کا لاکھ لاکھ احسان اور کرم ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے مجھے اتنا دے رکھا ہے وہ اگر چاہتا تو اس کا برعکس بھی کر سکتا تھا، ایسے وقت میں بجائے تکبر اور فخر کے، شکر کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ میرا فرض ہے کہ ایسے ناداروں کی خبرگیری کروں او رمجھ پر جو خدا کی نعمتیں مبذول ہیں ان کا شکر کروں۔

ایک اشکال اور اس کا جواب:
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ کہ قیامت کے بعد جہنمی جہنم میں اورجنتی جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جس کی کوئی مدت متعین نہیں ، حالاں کہ جن لوگوں کو جہنم میں بھیجا جائے گا ان کے اعمال کفر محدود ہیں اورجن کو جنت میں بھیجا جائے گا ان کے اعمال صالح بھی محدود ہیں تو اس محدود کی جزالا محدود کیوں مقرر کی گئی ؟ حضرت حسن بصری نے اس اشکال کا بھی جواب دیا ہے کہ چوں کہ عمل کرنے والے کی نیت دوام کی تھی ، اس لیے جزا بھی دائمی مقرر ہوئی ، کافر کی نیت یہ تھی کہ اگر ایک کروڑ سال کے عمر ملے تو کفر ہی پر قائم رہوں گا، اسی طرح مومن کی بھی یہی نیت ہے کہ کتنی ہی عمر دراز کیوں نہ ہو ایمان پر قائم رہوں گا، نیت چوں کہ دوام کی ہے، اس لیے جزا بھی دائمی ہے ، آج کل زمانہ ایسا ہے کہ لوگ دین اور عمل کے نام سے گھبرانے لگے ہیں، کہتے ہیں کہ نیت خالص کیسے ہو سکتی ہے؟ سو انسان کو گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ عمل شروع کرنے سے قبل ایک دفعہ اپنی نیت درست کرے، پھر بارہانیت کرنے کی ضرورت نہیں۔

شیخ الہند کا ارشاد:
حضرت شیخ الہند ( مولانا محمودحسن دیوبندی) فرمایا کرتے تھے کہ آدمی کو چاہیے کہ عمل شروع کرنے سے قبل اپنی نیت درست کرلے ، بعد میں اگر نیت میں کچھ خلل آئے تو پروا نہ کرے ، شیطان اگر وسوسہ ڈالے تو التفات نہ کرے ، جواب جاہلان باشد خموشی ۔ ایک بزرگ تھے، انہوں نے اپنے شیخ سے عرض کیا کہ حضرت! عجیب کش مکش میں مبتلا ہوں، نفلیں پڑھنے کو دل چاہتا ہے مگر جب پڑھنے کھڑا ہوتا ہوں تو ریا ہوتی ہے او راگر ریا کی وجہ سے نہ پڑھوں تو نفلوں سے محروم رہتا ہوں ، ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ شیخ نے کہاکہ نفلیں تو ریا سے پڑھ لیا کرو او ربعد میں ریا سے توبہ کر لیا کرو ، سو اس حکایت سے معلوم ہوا کہ انسان کو جو نیک کام کرنا ہو کر گزرے او راگر بعد میں محسوس ہو کہ اس میں ریا ونمود کا شائبہ ہے ، تو اس سے استغفار کر لے۔

شیطان سے بچنے کا راستہ:
نیت کی ایک عجیب فضیلت قرآن مجید سے سمجھ میں آئی ہے، وہ یہ کہ قرآن مجید میں ہے کہ جب شیطان مردود ہوا اور وہاں سے نکالا گیا تو اس نے کہا: ﴿ فبعزتک لا غوینھم اجمعین الاعبادک منھم المخلصین﴾ قسم ہے تیری عزت وجلال کی! میں یقینا ضرور ان کو ( یعنی اولاد آدم کو ) گم راہ کروں گا، مگر جو ان میں سے تیرے مخلص بندے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان سے بچنے کا راستہ سوائے حسنِ نیت اور اخلاص کے اور کوئی نہیں ہے اور اس میں کوئی مشقت نہیں کہ نیت کو کام کرنے کے وقت خالص کر لیا جائے اور اگر اس کے بعد بھی کسی کے دل کو تسلی نہ ہو اور دل اس سے راضی نہ ہو تو سمجھ لے کہ یہ شیطان کا وسوسہ ہے، جو اس طرح مجھے نیک کام کرنے سے روک رہا ہے ، ایسے وقت میں اس سے کہہ دے کہ مجھے تیری کچھ پروا نہیں، تو کتنا ہی مجھے بہکا اور میرے پیچھے پڑ، میں یہ کام کرکے چھوڑوں گا اور اگر پھر بھی دل میں کچھ خلش رہ جائے تو خدا سے دعا کرے کہ اے الله! میں کمزور ہوں ، میری دست گیری فرما۔

ایک بزرگ کا واقعہ یاد آیا کہ ان کو حکومت وقت نے جیل میں بند کر دیا تو جیل میں ان کا معمول تھا کہ جب جمعہ کا دن آتا تو غسل کرتے ، کپڑے بدلتے اور جب اذان کی آواز آتی تو جیل خانے کے دروازے تک تشریف لے جاتے ، پھر لوٹ آتے، لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ فرمایا کہ قرآن مجید میں ہے ﴿ اذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر الله﴾ جب جمعہ کے دن اذان ہو جائے تو تم الله کی یاد کی طرف دوڑو۔ سو میں اس حکم کی تعمیل کرنے کے لیے تیاری کرتا ہوں اور جہاں تک جاسکتا ہوں چلا جاتا ہوں۔ تو اس طرح ان بزرگ کو جمعہ کی نماز پڑھنے کا ثواب مل جاتا تھا، لہٰذا لوگوں کو چاہیے کہ وہ شیطانی وساوس کی پروا نہ کریں اور کہہ دیں کہ میں تو الله کی لیے اس کام کو ضرور کروں گا، تو بلا سے راضی ہو یا نہ ہو۔

الله تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ ہماری نیتوں کو درست فرمائے اور حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین․
==========================

جلد نمبر  ۱  /  پہلا پارہ  /  حدیث نمبر  ۵۴  /  حدیث مرفوع

۵۴ - حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ يَزِيدَ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ۔

۵۴۔حجاج بن منہال، شعبہ، عدی بن ثابت، عبد اللہ بن یزید، ابومسعود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص اپنی بی بی پر ثواب سمجھ کر خرچ کرے، تو وہ اس کے حق میں (صدقہ) کا حکم رکھتا ہے۔
جلد نمبر  ۱  /  پہلا پارہ  /  حدیث نمبر  ۵۵  /  حدیث مرفوع

۵۵ - حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللہِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ۔

۵۵۔حکم بن نافع، شعیب، زہری، عامر بن سعد، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جو کچھ خرچ کرو گے (قلیل یا کثیر) اس کا ثواب ضرور دیا جائیگا، یہاں تک کہ جو (لقمہ) تم اپنی بی بی کے منہ میں رکھو (اس کا بھی ثواب ملے گا) ۔
============================

باب: آزادی اور طلاق وغیرہ میں بھول اور غلطی کرنے کا بیان


بَاب الْخَطَإِ وَالنِّسْيَانِ فِي الْعَتَاقَةِ وَالطَّلَاقِ وَنَحْوِهِ وَلَا عَتَاقَةَ إِلَّا لِوَجْهِ اللہِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِكُلِّ امْرِءٍ مَا نَوَى وَلَا نِيَّةَ لِلنَّاسِي وَالْمُخْطِئِ۔

آزادی اور طلاق وغیرہ میں بھول اور غلطی کرنے کا بیان، غلام کو آزاد کرنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور نبی کریم  نے فرمایا ہے ’’ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملتا ہے اور بھولنے والے اور غلطی سے کام کرنے والے کی کوئی نیت ہی نہیں ہوتی‘‘۔
جلد نمبر ۱ / دسواں پارہ / حدیث نمبر ۲۳۵۷ / حدیث مرفوع

۲۳۵۷۔حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللہَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَکَلَّمْ۔

۲۳۵۷۔حمیدی، سفیان،مسعر ،قتادہ، زرارہ بن اوفی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل کے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک کہ وہ عمل میں نہ لائیں یا گفتگو نہ کریں۔


=======================

باب:اس شخص کا بیان جو لوگوں کا مال اس کے ادا کرنے یا ضائع کرنے کی نیت سے لے

بَاب مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَوْ إِتْلَافَهَا۔

جلد نمبر ۱ / نواں پارہ / حدیث نمبر ۲۲۲۵ / حدیث مرفوع

۲۲۲۵۔حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأُوَيْسِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَائَهَا أَدَّی اللہُ عَنْهُ وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللہُ۔

۲۲۲۵۔عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی، سلیمان بن بلال، ثور بن زید، ابوالغیث ابوہریرہؓ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ جس نے لوگوں کا مال اس کے ادا کرنے کی نیت سے لیا، تو اللہ تعالی اس کی طرف سے ادا کر دیتا ہے اور جو شخص اس کو ضائع کرنے کی نیت سے لے، تو اللہ تعالی اس کو تباہ کر دیتا ہے۔



دوران ِنماز، نماز کی نیت کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟



نماز میں نیت ضروری ہے، یعنی دل میں یہ بات پکی کرلے کہ فلاں وقت کی فرض یا سنت نماز پڑھتا ہوں؛ اگرامام کے پیچھے پڑھے تو اقتدا کی نیت بھی کرے۔

(فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۴،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)




نماز شروع کرنے کے بعد یاد آیا کہ غلط نیت کی ہے تو کیا نماز میں نیت درست کرسکتا ہے؟


بلانیت ہی نماز شروع کردی پھر یاد آیا کہ نیت نہیں کی ہے یا غلط نیت کی مثلاً عصر کی جگہ ظہر کی نیت کرلی تو اب نیت کا وقت جاتا رہا، نماز شروع کرنے کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ازسرِنو نیت کرنے کے بعد تکبیرِتحریمہ کہے۔

(فتاویٰ رحیمیہ:۵/۲۹، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)


اگر نیت میں اطمینان نہ ہو تو نیت کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

ایک صاحب نماز میں نیت کرتے ہیں؛ لیکن ان کو اپنی نیت کے بارے میں اطمینان ہی نہیں ہوتا اور مستقل شک کی کیفیت رہتی ہے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرلے؛ خواہ عربی میں ہو یا اُردو میں مثلاً یوں کہہ لے کہ میں دورکعت فریضئہ فجر کی نیت کرتا ہوں، یہ اس کے لئے کافی ہے۔

(کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۴،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)


نیت عربی میں کریں یا اُردو میں بھی کر سکتے ہیں؟

نیت دل کے ارادہ کا نام ہے نہ کہ زبان کے بول کا، زبان سے جو الفاظ کہے جاتے ہیں، وہ تو محض نیت کو نقل کرنا ہے اور اس سے ذہنی استحضار مقصود ہے، اس لئے اوّل تو عربی یا اُردو میں نیت کے الفاظ کہنا واجب یا مستحب نہیں، دوسرے چونکہ یہ کلمات نماز شروع کرنے سے پہلے کہے جاتے ہیں؛ اس لئے اس کواُردو میں بھی کہا جاسکتا ہے اور عربی میں بھی۔

(کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۱،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۲/۱۴۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)



نماز کی نیت کب کرنا چاہئے؟


نیت کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ وہ عبادت سے پہلے بھی ہو اور اس سے متصل بھی، اور اس سے متصل ہونے کی فقہاء نے دوصورتیں کی ہیں: ایک یہ کہ حقیقی طور پرمتصل ہو اور اس کی صورت یہ ہےکہ تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے نیت کرے، یہ صورت بہتر ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ حقیقتاً تو نیت عبادت سے متصل نہ ہو؛ لیکن حکماً متصل ہو، حکما متصل ہونے کامطلب یہ ہے کہ نیت اور نماز کے درمیان کسی ایسے کام میں نہ لگا ہو جونماز سے گریز کو بتانا ہو؛ چنانچہ وضو اور تیمم کے وقت ہی نماز کی نیت کی ہو؛ پھرنماز پڑھنے گیا اور درمیان میں کسی ایسے کام میں مشغول نہیں ہوا تو اس کی نیت ابھی باقی ہے؛ اگر ایک جگہ نیت کرکے نماز کی جگہ جانے کے بعد بھی وہ نیت باقی رہتی ہے تو چلتے ہوئے جونیت کی جائے ظاہر ہے وہ بدرجہ اولیٰ کافی ہوگی؛ البتہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ نیت کا تعلق قلب سے ہے، نیت کے لئے ایسا قلبی استحضار ضروری ہے کہ اگر نماز شروع کرتے وقت اس سے پوچھا جائے کہ تم کونسی نماز پڑھ رہے ہو تو وہ ادنی غور وتامل کے بغیر بتاسکے کہ میں فلاں نماز پڑھ رہا ہوں، یہ تمام تفصیلات علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب الأشباہ والنظائر میں نیت کی بحث میں لکھی ہے۔
جہاں تک نیت کے بعد گفتگو کی بات ہے تو اگر نیت کے بعد نماز کی طرف جاتے ہوئے یا نماز کا انتظار کرتے ہوئے کچھ گفتگو کرلی جائے تو دوبارہ نیت ضروری نہیں اور اگر نیت کے بعد طویل گفتگو یا مباحثہ میں لگ گیا ہو جو بظاہر نماز سے اعراض اور گریز کو ظاہر کرتا ہو تو دوبارہ نیت کرنی ہوگی، مقتدی کے لئے بہتر ہے کہ جس وقت امام نماز شروع کرے اس وقت اقتداء کی نیت کرے؛ تاہم امام کے نماز شروع کرنے سے پہلے بھی اور نماز کے لئے کھڑے ہونے کے بعد اقتداء کی نیت کرلے تو کافی ہے۔(کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۳،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

حَدَّثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : أنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ ، وَإِنَّمَا لامْرِئٍ مَا نَوَى " ، وَاخْتَلَفُوا فِي الْوَقْتِ الَّذِي يَجِبُ أَنْ يُحْدِثَ فِيهِ النِّيَّةَ ، فَقَالَتْ طَائِفَةٌ : لا تُجْزِئُ النِّيَّةُ إِلا أَنْ تَكُونَ مَعَ التَّكْبِيرِ لا تَقْدُمُ التَّكْبِيرَ وَلا بَعْدَهُ ، هَذَا قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَصْحَابِهِ ، وَحُكِيَ عَنِ النُّعْمَانِ أَنَّهُ قَالَ : إِذَا كَبَّرَ وَلا نِيَّةَ لَهُ إِلا أَنَّ النِّيَّةَ قَدْ تَقَدَّمَتْ ، فَالصَّلاةُ جَائِزَةٌ ، وَلا يَجِبُ عَلَى الرَّجُلِ أَنْ يَنْوِيَ ، ثُمَّ يُكَبِّرَ بِلا فَصْلٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : وَبِقَوْلِ الشَّافِعِيِّ أَقُولُ وَذَلِكَ ؛ لِمُوَافَقَتِهِ السُّنَّةَ الثَّابِتَةَ ، وَهُوَ قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ " .
[الحكم: إسناده حسن رجاله ثقات عدا محمد بن إبراهيم النيسابوري وهو صدوق حسن الحديث]


تیمم  کے لئے نیت :
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَهُ , أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ ، وَإِنَّمَا لامْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ , فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا ، أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ " . وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ تَوَضَّأَ وَهُوَ لا يَنْوِي بَوُضُوئِهِ الطَّهَارَةَ ، فَقَالَتْ طَائِفَةٌ لا يُجْزِيهِ ، كَذَلِكَ قَالَ الشَّافِعِيُّ ، وَرَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَمَالِكٌ ، وَأَحْمَدُ ، وَإِسْحَاقُ ، وَأَبُو عُبَيْدٍ ، وَأَبُو ثَوْرٍ ، وَلَيْسَ بَيْنَ الْوُضُوءِ وَالتَّيَمُّمِ عِنْدَهُمْ فِي ذَلِكَ فَرْقٌ ، وَفَرَّقَتْ طَائِفَةٌ بَيْنَ الْوُضُوءِ وَالتَّيَمُّمِ ، فَقَالَتْ : يَجْزِي الْوُضُوءُ بِغَيْرِ نِيَّةٍ ، وَلا يُجْزِي التَّيَمُّمُ إِلا بِنِيَّةٍ ، هَذَا قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، وَأَصْحَابِ الرَّأْيِ ، قَالَ الثَّوْرِيُّ : إِذَا عَلَّمْتَ رَجُلا التَّيَمُّمَ ، فَلا يُجْزِيكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِذَلِكَ التَّيَمُّمِ إِلا أَنْ تَكُونَ نَوَيْتَ أَنَّكَ تَتَيَمَّمُ لِنَفْسِكَ ، فَإِذَا عَلَّمْتَهُ الْوُضُوءَ أَجْزَأَكَ ، وَفِيهِ قَوْلٌ ثَالِثٌ حُكِيَ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ فِي الرَّجُلِ يُعَلِّمُ الرَّجُلَ التَّيَمُّمَ وَهُوَ لا يَنْوِي أَنْ يَتَيَمَّمَ لِنَفْسِهِ : إِنَّمَا عَلَّمَهُ ثُمَّ حَضَرِتِ الصَّلاةُ ، قَالَ : يُصَلِّي عَلَى تَيَمُّمِهِ كَمَا أَنَّهُ تَوَضَّأَ وَهُوَ لا يَنْوِي الصَّلاةَ كَانَ طَاهِرًا ، هَذِهِ حِكَايَةُ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْهُ ، وَبِهِ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ ، وَحَكَى الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ : لا يُجْزِيهِ فِي التَّيَمُّمِ ، وَيُجْزِيهِ فِي الْوُضُوءِ ، وَحَكَى الْوَلِيدُ مِثْلَهُ ، عَنْ مَالِكٍ ، وَالثَّوْرِيِّ . قَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَمَّا حِكَايَتُهُ عَنِ الثَّوْرِيِّ فَكَمَا حَكَى لِمُوَافَقَتِهِ حِكَايَةَ الأَشْجَعِيِّ ، وَالْعَدَنِيِّ ، وَعَبْدِ الرَّزَّاقِ ، وَالْفَارِيَابِيِّ عَنْهُ ، وَأَمَّا مَا حَكَاهُ عَنْ مَالِكٍ ، فَمَا رَوَاهُ أَصْحَابُ مَالِكٍ عَنْهُ ابْنُ وَهْبٍ ، وَابْنُ الْقَاسِمِ أَصَحُّ ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ . قَالَ أَبُو بَكْرٍ : دَلَّ قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ " لَمَّا عَمَّ جَمِيعَ الأَعْمَالِ ، وَلَمْ يَخُصَّ مِنْهَا شَيْئًا أَنَّ ذَلِكَ فِي الْفَرَائِضِ وَالنَّوَافِلِ ، ثُمَّ بَيَّنَ تَصَرُّفَ الإِرَادَاتِ ، فَقَالَ : " مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا ، أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ " . جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ مُؤَدِّيًا إِلَى اللَّهِ مَا فَرَضَ عَلَيْهِ ، مَنْ دَخَلَ الْمَاءَ يُعَلِّمُ آخَرَ السَّبَّاحَةَ بِدِرْهَمٍ أَخَذَهُ ، أَوْ مَرِيدًا لِلتَّبْرِيدِ وَالتَّلَذُّذِ ، غَيْرَ مَرِيدًا لِتَأْدِيَةِ فَرْضٍ ؛ لأَنَّهُ لَمْ يُرِدِ اللَّهَ قَطُّ بِعَمَلِهِ قَالَ اللَّهُ : وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا سورة الشورى آية 20 قَالَ قَائِلٌ : إِنَّ مَنْ قَصَدَ دِرْهَمًا أَوْ دِينَارًا يأخذه لِيُعَلِّمَ آخَرَ السَّبَّاحَةَ لا يَقْصِدُ غير ذَلِكَ مُؤْدِيًا فَرْضًا لِلَّهِ عَلَيْهِ فِي الطَّهَارَةِ يُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ ، وَسُنَّةَ رَسُولِهِ مَعَ أَنَّ الْمُنَاقَضَةَ لا تُفَارِقُهُ حَيْثُ أَوْجَبَ النِّيَّةَ فِي التَّيَمُّمِ ، وَأَبْطَلَهَا فِي الْوُضُوءِ ، وَالْخَبَرُ الَّذِي بِهِ يُوجِبُ النِّيَّةَ فِي التَّيَمُّمِ هُوَ الَّذِي أَوْجَبَ النِّيَّةَ فِي الْوُضُوءِ ، وَالصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ ، وَالْحَجِّ وَالصَّوْمِ ، وَسَائِرِ الأَعْمَالِ ، وَقَدْ ذَكَرْتُ بَاقِي الْحُجَجِ فِي هَذَا الْبَابِ فِي غَيْرِ هَذَا الْكِتَابِ . مَسْأَلَةٌ : وَإِذَا تَوَضَّأَ يَنْوِي طَهَارَةً مِنْ حَدَثٍ ، أَوْ طَهَارَةً لِصَلاةِ فَرِيضَةٍ أَوْ نَافِلَةٍ أَوْ قِرَاءَةٍ أَوْ صَلاةٍ عَلَى جَنَازَةٍ فَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِ الْمَكْتُوبَةَ فِي قَوْلِ الشَّافِعِيِّ ، وَأَبِي عُبَيْدٍ , وَإِسْحَاقَ , وَأَبِي ثَوْرٍ ، وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَصْحَابِنَا ، وَكَذَلِكَ نَقُولُ .



کیا نماز کےصحیح ہونے کے لئے رکعتوں کی بھی تعیین کرنا ضروری ہے؟ یا صرف نماز کی نیت کافی ہے؟



نیت تو دل ہی سے ہوتی ہے؛ اگر دل کی نیت کا استحضار کرنے کے لئے زبان سے بھی کہہ لے فلاں نماز پڑھتا ہوں تو جائز ہے، رکعتوں کی تعداد گننے کی ضرورت نہیں۔

(آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۱۸۸، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)




امام کے ساتھ اقتدا ءکی نیت کا کیا طریقہ ہے؟


جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے وقت اس طرح نیت کی جائے کہ فلاں وقت کی نماز امام کے پیچھے پڑھتا ہوں۔

(فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۵،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)




امام سے پہلے اگر مقتدی نیت کرلے تو اُس کی نیت کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟


نیت نماز شروع کرنے سے پہلے کا عمل ہے، اس لئے اگر مقتدی کی نیت امام سے پہلے ہوجائے تو کچھ حرج نہیں، جو افعال نماز میں کئے جاتے ہیں، ان میں مقتدی کا عمل امام سے پہلے نہ ہونا چاہئے، جیسے امام کے تکبیرِتحریمہ کہنے سے پہلے ہی مقتدی نے تکبیرِتحریمہ کہہ دیا تو یہ درست نہیں، نہ اقتداء صحیح ہوگی اور نہ مقتدی کی نماز، نیت چونکہ نماز سے باہر اور نماز سے پہلے کا فعل ہے، اس لئے نیت میں اگر مقتدی امام سے سبقت کرجائے تو کوئی قباحت نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے مقتدی امام سے پہلے وضو کرلے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر گھر سے چلتے ہوئے نماز میں شرکت کا ارادہ کرلیا تھا تو یہی نیت ہوگی اور یہ نماز کے لئے کافی ہوگی۔

(کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۶،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)




امام رکوع میں ہو تو کیا نماز کی نیت کرنا ضروری ہے؟ کیا بغیر نیت کے نماز نہیں ہوتی؟

نماز کے لئے نیت کا پایا جانا شرط ہے؛ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا کہ:

إِنَّمَا الْأَعْمَالُ     بِالنِّيَّاتِ۔

(بخاری، بدْءِ الْوحْيِ،حدیث نمبر:۱، شاملہ، موقع الإسلام)

البتہ نیت دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا، جب ایک شخص وضوء کرکے مسجد میں آتا ہے تو اسی ارادہ سے آتا ہے کہ اسے نماز ادا کرنی ہے؛ یہی نیت ہے، اس لئے اس صورت میں نیت پائی جاتی ہے؛ بشرطیکہ درمیان میں کسی غیرمتعلق کام میں مشغول نہ ہوا ہو، زبان سے نیت کے الفاظ کہنا ضروری نہیں؛ بلکہ اگر زبان سے نیت کرنے کی صورت میں مقتدی کی ایک رکعت کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو بہتر ہے کہ زبان سے نیت کے کلمات کہے بغیر امام کے ساتھ شریک ہوجائے۔

(کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۲،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)


باب: اگر امام نے امامت کی نیت نہ کی ہو پھر کچھ لوگ آجائیں اور وہ ان کی امامت کرے


جلد نمبر  ۱  /  تیسرا پارہ  /  حدیث نمبر  ۶۶۳  /  حدیث مرفوع

۶۶۳۔حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ فَقُمْتُ أُصَلِّي مَعَهُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِرَأْسِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ۔


۶۶۳۔مسدد، اسمعیل بن ابراہیم، ایوب، عبداللہ بن سعید بن جبیر، ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ میں ایک شب اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں سویا تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز شب پڑھنے کھڑے ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ بائیں جانب کھڑا ہو گیا آپ نے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنی داہنی جانب کرلیا۔

کیا امام کو عورتوں کے امامت کی نیت کرنا بھی ضروری ہے؟

ایک عورت جماعت میں شریک ہوکر نماز پڑھے اور اگر مرد کے برابر نہ کھڑی ہو تو امام کو اس کی امامت کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔

(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۲/۱۴۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)

نماز شروع کرنے کے بعد یاد آیا کہ غلط نیت کی ہے تو کیا نماز میں نیت درست کرسکتا ہے؟


بلانیت ہی نماز شروع کردی پھر یاد آیا کہ نیت نہیں کی ہے یا غلط نیت کی مثلاً عصر کی جگہ ظہر کی نیت کرلی تو اب نیت کا وقت جاتا رہا، نماز شروع کرنے کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ازسرِنو نیت کرنے کے بعد تکبیرِتحریمہ کہے۔

(فتاویٰ رحیمیہ:۵/۲۹، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)




نماز شروع کرنے کے بعد کیا تبدیلِ نیت کا اعتبارہوگا؟


روزہ کے سوا تمام افعال میں یہ بات ضروری ہے کہ اس فعل کے کرنے سے پہلے ہی نیت کرلی جائے اس لئے کہ فعل کے آغاز کا وقت ہی اصل میں نیت کا محل ہے اور اسی وقت کی نیت معتبر ہوگی، جب کوئی شخص نماز ایک نیت سے شروع کرچکا تو درمیانِ نماز نیت کرنے کا کوئی موقع ومحل باقی نہیں رہا، اس لئے دوران ِنماز تبدیلِ نیت کا اعتبار نہ ہوگا۔

(کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۵،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)


جمعہ میں فرض وسنت کی نیت كيسے كریں؟


پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ نیت اصل میں دل کے پختہ ارادہ کا نام ہے، نیت کے لیے زبان سے اظہار ضروری نہیں، جب آپ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد گئے اور نماز پڑھنے کی غرض سے کھڑے ہوئے اور آپ کی ایسی کیفیت ہے کہ کوئی شخص آپ سے پوچھ لے کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ تو آپ بلاتامل جواب دے سکیں کہ میں نمازِ جمعہ ادا کررہا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازِ جمعہ کی نیت آپ کے دل میں موجود ہے، بس اسی قدر کافی ہے؛ بہرِحال جمعہ کے لیے جمعہ ہی کی نیت کرنا ضروری ہے، مشہور حنفی فقیہ علامہ حلبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

کَذَا یَنْوِیْ صَلَاۃَ الْجُمْعَۃِ وَصَلَاۃَ الْعِیْدِ أَیْ  یَشْتَرِطُ فِیْھَا التَّعِیِّینِ۔


(کبیری:۲۴۷)


سنتوں کے سلسلہ میں اُصول یہ ہے کہ اس کے دُرست ہونے کے لیے متعین طور پر اس کی نیت کرنا ضروری نہیں، آپ جمعہ کی سنت کی نیت کرلیں، نفل کی نیت سے پڑھ لیں، یاصرف نماز کی نیت کرلیں، کافی ہے، علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وَالصَّحِيحُ الْمُعْتَمَدُ عَدَمُ الِاشْتِرَاطِ  وَعِنْدَنَا تَصِحُّ بِنِيَّةِ النَّفْلِ وَبِمُطْلَقِ النِّيَّةِ ۔


(الأشباہ والنظائر مع الحموی:۱/۱۲۰، کراچی)


البتہ سنت ظہر کی نیت نہ کرے، یہ بہتر ہے، نفل نمازوں کے بارے میں اتفاق ہے کہ محض نماز کی نیت کرلینا ہی کافی ہے۔

 (کتاب الفتاویٰ:۳/۶۴،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

تنبیہ : فقہاء کی اصطلاح  میں نفل (یعنی زائد) فرائض کے سوا (سنّت) کو کہا جاتا ہے.
===================================



صحیح بخاری » روزہ کا بیان(کتاب الصوم) » باب:اس شخص کا بیان جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے نیت کر کے رمضان کے روزے رکھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم  کے حوالہ سے فرمایا کہ لوگوں کو ان کی نیتوں کے مطابق (قیامت میں)اٹھایا جائے گا۔

جلد نمبر  ۱  /  ساتواں پارہ  /  حدیث نمبر  ۱۷۸۰  /  حدیث مرفوع

۱۷۸۰۔حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔

۱۷۸۰۔مسلم بن ابراہیم، ہشام، یحیی بن ابی سلمہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کھڑا ہو، اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں، اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔


بَاب إِذَا نَوَى بِالنَّهَارِ صَوْمًا وَقَالَتْ أُمَّ الدَّرْدَاءِ كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُولُ عِنْدَكُمْ طَعَامٌ فَإِنْ قُلْنَا لَا قَالَ فَإِنِّي صَائِمٌ يَوْمِي هَذَا وَفَعَلَهُ أَبُو طَلْحَةَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَحُذَيْفَةُ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمْ۔

جب کوئی روزے کی نیت دن کے وقت کرے، حضرت امِّ درداء رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ پوچھتے کہ کیا کچھ کھانا تمہارے پاس ہے؟ اگر ہم جواب نفی میں دیتے تو فرماتے کہ پھر آج میرا روزہ رہے گا، اسی طرح ابو طلحہ، ابوہریرہ، ابن عباس اور حذیفہ رضی اللہ عنہم نے بھی کیا۔
جلد نمبر  ۱  /  ساتواں پارہ  /  حدیث نمبر  ۱۸۰۲  /  حدیث متواتر : مرفوع

۱۸۰۲۔حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا يُنَادِي فِي النَّاسِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ إِنَّ مَنْ أَکَلَ فَلْيُتِمَّ أَوْ فَلْيَصُمْ وَمَنْ لَمْ يَأْکُلْ فَلَا يَأْکُلْ۔

۱۸۰۲۔ابوعاصم، یزید بن عبید، سلمہ بنت اکوع سے روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کے دن ایک شخص کو بھیجا تاکہ اعلان کردے کہ جس نے کھانا کھالیا ہے وہ شام تک نہ کھائے یا روزہ رکھ لے اور جس نے نہیں کھایا وہ اب نہ کھائے۔
========================================

باب:اس شخص کی فضیلت بیان جو رمضان (کی راتوں)میں کھڑا ہو

بَاب صَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَإِذَا أَصْبَحَ صَائِمًا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَعَلَيْهِ أَنْ يُفْطِرَ يَعْنِي إِذَا لَمْ يَصُمْ قَبْلَهُ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَصُومَ بَعْدَهُ

جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا، اگر جمعہ کے دن کسی نے روزہ کی نیت کرلی تو اُسے توڑنا ضروری ہے، یعنی جبکہ اس دن سے پہلے روزہ نہیں رکھا اور اس دن کے بعد روزہ کا ارادہ نہ ہو۔
جلد نمبر  ۱  /  آٹھواں پارہ  /  حدیث نمبر  ۱۸۶۲  /  حدیث مرفوع

۱۸۶۲۔حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ شُعْبَةَ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ جُوَيْرِيَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهِيَ صَائِمَةٌ فَقَالَ أَصُمْتِ أَمْسِ قَالَتْ لَا قَالَ تُرِيدِينَ أَنْ تَصُومِي غَدًا قَالَتْ لَا قَالَ فَأَفْطِرِي وَقَالَ حَمَّادُ بْنُ الْجَعْدِ سَمِعَ قَتَادَةَ حَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ أَنَّ جُوَيْرِيَةَ حَدَّثَتْهُ فَأَمَرَهَا فَأَفْطَرَتْ۔

۱۸۶۲۔مسدد، یحیی، شعبہ، ح، محمد، غندر، شعبہ، قتادہ، ابوایوب، جویریہ بنت حارث سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جویریہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمعہ کے دن تشریف لائے اور وہ روزہ سے تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ کل تم نے روزہ رکھا تھا، انہوں نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا کیا کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیاکہ نہیں آپ نے فرمایا پھر افطار کر لو، اور حماد بن جعد نے بیان کیا کہ انہوں نے قتادہ سے سنا کہ ان سے ابوایوب نے بیان کیا۔ جویریہ نے بیان کیا کہ آپ نے ان کو روزہ کھولنے کا حکم دیا تو انہوں نے افطار کر لیا۔


===========================

جلد نمبر ۱ / گیارہواں پارہ / حدیث نمبر ۲۶۲۹ / حدیث متواتر : مرفوع

۲۶۲۹۔حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاؤُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَکِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا۔

۲۶۲۹۔عمرو بن علی، یحیی ، سفیان، منصور، مجاہد، طاؤس ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن فرمایا، کہ بعد فتح مکہ کے ہجرت باقی نہیں رہی، مگر جہاد اور نیت کا ثواب باقی ہے، اور جب جہاد کےلئے حاکم شریعت کی طرف بلائے جاؤ تو فورا حاضر ہو جاؤ۔




صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۲۷۰۴/ حدیث مرفوع

۲۷۰۴۔ و حَدَّثَنَا أَبُو کَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَی بْنِ عُبَيْدِ اللہِ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ يَا عَائِشَةُ هَلْ عِنْدَکُمْ شَيْئٌ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ مَا عِنْدَنَا شَيْئٌ قَالَ فَإِنِّي صَائِمٌ قَالَتْ فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ أَوْ جَآءَنَا زَوْرٌ قَالَتْ فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ أَوْ جَآءَنَا زَوْرٌ وَقَدْ خَبَأْتُ لَکَ شَيْئًا قَالَ مَا هُوَ قُلْتُ حَيْسٌ قَالَ هَاتِيهِ فَجِئْتُ بِهٖ فَأَکَلَ ثُمَّ قَالَ قَدْ کُنْتُ أَصْبَحْتُ صَائِمًا قَالَ طَلْحَةُ فَحَدَّثْتُ مُجَاهِدًا بِهٰذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ ذَاکَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يُخْرِجُ الصَّدَقَةَ مِنْ مَالِهٖ فَإِنْ شَآءَ أَمْضَاهَا وَإِنْ شَآءَ أَمْسَکَهَا۔

۲۷۰۴۔ ابوکامل، فضیل بن حسین، عبدالواحد بن زیاد، طلحہ بن یحیی بن عبید اللہ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے! آپؐ نے فرمایا: تو میں پھر روزہ رکھ لیتا ہوں، پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے گئے تو ہمارے پاس کچھ ہدیہ لایا گیا اور کچھ مہمان بھی آگئے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسولؐ! ہمارے پاس کچھ ہدیہ لایا گیا ہے اور کچھ مہمان بھی آئے ہیں اور میں نے آپؐ کے لئے کچھ چھپا کر رکھا ہے، آپؐ نے فرمایا وہ کیا ہے؟میں نے عرض کیا وہ حسیس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے لے آؤ! میں اسے لے آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کھایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے صبح روزہ رکھا تھا، طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی سند کے ساتھ مجاہد سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ یہ اس آدمی کی طرح ہے کہ جو اپنے مال سے صدقہ نکالے تو اب اس کے اختیار میں ہے چاہے تو دے دے اور اگر چاہے تو اسے روک لے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۲۷۰۵/ حدیث مرفوع

۲۷۰۵۔ و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيٰی عَنْ عَمَّتِهٖ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ هَلْ عِنْدَکُمْ شَيْئٌ فَقُلْنَا لَا قَالَ فَإِنِّي إِذَنْ صَائِمٌ ثُمَّ أَتَانَا يَوْمًا آخَرَ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ فَقَالَ أَرِينِيهِ فَلَقَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا فَأَکَلَ۔

۲۷۰۵۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، طلحہ بن یحیی، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری طرف تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ ہم نے عرض کیا نہیں! آپ نے فرمایا تو پھر میں روزہ رکھ لیتا ہوں، پھر دوسرے دن تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہمارے لئے حسیس کا ہدیہ لایا گیا ہے، آپؐ نے فرمایا وہ مجھے دکھاؤ! میں نے صبح روزے کی نیت کی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کھالیا۔




کیا دل سے روزہ کی نیت کرنا ضروری ہے، صرف سحری کھانا نیت کے لیے کافی نہیں ہے؟

سحری کس نیت سے کھائیں گے ظاہر ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت سے کھائیں گے تو اس قدر نیت ہوجانا کافی ہے، البتہ زبان سے کہہ لیں تو بہتر ہے:

’’قال فی المراقي علی نور الإیضاح وحقیقة النیة مقصدہ عازمًا بقلبہ صوم غد ولا یخلو مسلم عن ھذا في لیالي شہر رمضان إلا ما ندر ولیس النطق باللسان شرطًا قال الطحطاوي وقالوا التسحر في رمضان نیةٌ‘‘

(طحطاوی علی المراقي: ۶۴۲)۔

=========================

باب:اللہ تعالی کا قول کہ اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو

بَاب قَوْلِ اللہِ تَعَالَى { أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ }۔

جلد نمبر ۱ / آٹھواں پارہ / حدیث نمبر ۱۹۳۳ / حدیث مرفوع

۱۹۳۳۔حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَنْفَقَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ کَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ وَلِزَوْجِهَا بِمَا کَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِکَ لَا يَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَيْئًا۔

۱۹۳۳۔عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابووائل، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب عورت اپنے گھر کا اناج خیرات کرے بشرطیکہ گھر کو نقصان پہنچانے کی نیت نہ ہو تو اس عورت کو اس کا اجر ملے گا اس لئے کہ اس نے خرچ کیا، اور اس کے شوہر کو بھی اجر ملے گا اس لئے کہ اس نے کمایا، اور خزانچی کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا، ایک کااجر دوسرے کے اجر کو کچھ بھی کم نہ کرے گا۔

===================

باب:خادم کے اجر کا بیان جب وہ اپنے مالک کے حکم سے خیرات کرےاور کوئی بری نیت نہ ہو


بَاب أَجْرِ الْخَادِمِ إِذَا تَصَدَّقَ بِأَمْرِ صَاحِبِهِ غَيْرَ مُفْسِدٍ۔

جلد نمبر  ۱  /  چھٹا پارہ  /  حدیث نمبر  ۱۳۵۱  /  حدیث مرفوع

۱۳۵۱۔حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَصَدَّقَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ کَانَ لَهَا أَجْرُهَا وَلِزَوْجِهَا بِمَا کَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِک۔

۱۳۵۱۔قتیبہ بن سعید، جریر، اعمش، ابووائل، مسروق عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب عورت اپنے شوہر کے کھانے میں سے خیرات کرے، بشرطیکہ گھر خراب کرنے کی نیت نہ ہو تو اس کو اس صدقہ کے سبب سےاوراس کے شوہر کو اس کمائی کے سبب سے اجر ملے گا اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔

باب: لاعلمی میں جب اپنے بیٹے کو صدقہ دے دے

بَاب إِذَا تَصَدَّقَ عَلَى ابْنِهِ وَهُوَ لَا يَشْعُرُ۔

جلد نمبر  ۱  /  چھٹا پارہ  /  حدیث نمبر  ۱۳۳۶  /  حدیث مرفوع

۱۳۳۶۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا أَبُو الْجُوَيْرِيَةِ أَنَّ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ حَدَّثَهُ قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَبِي وَجَدِّي وَخَطَبَ عَلَيَّ فَأَنْکَحَنِي وَخَاصَمْتُ إِلَيْهِ وَکَانَ أَبِي يَزِيدُ أَخْرَجَ دَنَانِيرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ فَجِئْتُ فَأَخَذْتُهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَالَ وَاللہِ مَا إِيَّاکَ أَرَدْتُ فَخَاصَمْتُهُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَکَ مَا نَوَيْتَ يَا يَزِيدُ وَلَکَ مَا أَخَذْتَ يَا مَعْنُ۔

۱۳۳۶۔محمد بن یوسف، اسرائیل، ابوالجویریہ، معن بن یزید سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں میرے والد اور میرے دادا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری منگنی کرائی اور نکاح پڑھایا اور میں ایک جھگڑا لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے والد یزید نے چند دینار صدقہ کے لئے نکالے تو اس کو مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیا، میں آیا تو اس کو لے لیا پھر میں اسکو لے کر اپنے والد کے پاس آیا تو میرے والد نے کہا خدا کی قسم تجھ کو دینے کا ارادہ نہ تھا، چنانچہ میں یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اے یزید تجھے وہ ملے گا جس کی تو نے نیت کی، اور اے معن وہ تیرا ہے جو تو نے لے لیا۔

====================
جلد نمبر ۱ / دسواں پارہ / حدیث نمبر ۲۳۶۱ / حدیث مرفوع

۲۳۶۱۔حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ قَالَ لَمَّا أَقْبَلَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ وَمَعَهُ غُلَامُهُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْإِسْلَامَ فَضَلَّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ بِهَذَا وَقَالَ أَمَا إِنِّي أُشْهِدُکَ أَنَّهُ لِلَّهِ۔

۲۳۶۱۔شہاب بن عبّاد، ابراہیم بن حمید، اسمٰعیل، قیس سے روایت ہے کہ جب ابوہریرہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے لئے آرہے تھے تو ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا، راستہ بھول کر ایک دوسرے سے جدا ہو گئے، پھر اسی طرح بیان کیا جب غلام آ گیا تو کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گواہ بناتا ہوں کہ وہ  اللہ کے لئے ہے۔


=============================

باب: قسم اٹھانے والے کی قسم کا دار و مدار قسم دلانے والے کی نیت پر ہونے کا بیان

صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۴۲۷۳/ حدیث مرفوع

۴۲۷۳۔ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيٰی وَعَمْرٌو النَّاقِدُ قَالَ يَحْيٰی أَخْبَرَنَا هُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ و قَالَ عَمْرٌو حَدَّثَنَا هُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينُکَ عَلٰی مَا يُصَدِّقُکَ عَلَيْهِ صَاحِبُکَ و قَالَ عَمْرٌو يُصَدِّقُکَ بِهٖ صَاحِبُکَ۔

۴۲۷۳۔ یحیی بن یحیی، عمروناقد، ہشیم بن بشیر، عبد اللہ بن ابی صالح، بواسطہ اپنے والد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تیری قسم وہی معبتر ہوگی جس پر تیرا ساتھی تیری تصدیق کرے اور عمرو کی روایت میںيُصَدِّقُکَ بِهٖ صَاحِبُکَ کے الفاظ ہیں۔
صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۴۲۷۴/ حدیث مرفوع

۴۲۷۴۔ و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ هُشَيْمٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَمِينُ عَلٰی نِيَّةِ الْمُسْتَحْلِفِ۔

۴۲۷۴۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہشیم، عبادہ بن ابی صالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا قسم کا دارومدار قسم دلانے والے کی نیت پر ہے۔
=================


احرام باندھتے وقت دل میں ایک نیت ہے لیکن زبان سے کچھ اور نکل گیا تو کس کا اعتبار ہوگا؟


اگر بوقت احرام کسی ایک کی نیت مثلاً عمرہ کی نیت ہے اور اس کی زبان سے نکلا انی اُریدُ الحجَّ ۔میں حج کا ارادہ کرتا ہوں، اسی طرح کسی کی نیت حج کا احرام باندھنے کی ہے اور اس نے بوقتِ احرام زبان سے کہا انی اُریدُ العمرۃ۔میں عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں، اور اسی کے ساتھ تلبیہ بھی پڑھ لیا ، تو ایسی صورت میں نیتِ قلب کا اعتبار ہوگا اور اس کے مقابلہ میں زبانی تلفظ کا اعتبار نہ ہوگا، لہٰذا اگر عمرہ کی نیت ہے اور زبان سے حج نکلا ہے تو عمرہ ہی کا احرام شمار ہوگا حج کا نہیں، اسی طرح اگر حج کی نیت ہے اور زبان سے عمرہ نکلا تو حج ہی کا احرام شمار ہوگا، اسی طرح اگر دونوں میں سے ایک کی نیت ہے اور زبان سے حج و عمرہ دونوں کا تلفظ ہوجائے تو نیتِ قلب کا ہی اعتبار ہوگا اور حج و عمرہ میں سے جس کی نیت کی تھی اس کا احرام شمار ہوگا۔

(انوارِ مناسک:۲۰۲)


باب: نبی کریم ﷺ کے احرام اور آپؐ کی ہدِی کا بیان

بَاب إِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَدْيِهِ

 صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۰۱۶/ حدیث مرفوع

۳۰۱۶۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنِي سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ عَنْ مَرْوَانَ الْأَصْفَرِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ أَنَّ عَلِيًّا قَدِمَ مِنَ الْيَمَنِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَ أَهْلَلْتَ فَقَالَ أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لَأَحْلَلْتُ۔

۳۰۱۶۔ محمد بن حاتم، ابن مہدی، سلیم بن حبان، مروان اصغر، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے واپس آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تو نے احرام باندھتے وقت کس کی نیت کی تھی؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احرام باندھنے کے ساتھ احرام باندھا یعنی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیت تھی ویسی ہی میری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں حلال ہو جاتا۔

سیر و تفریح کی نیت سے حج کرنا کیسا ہے؟


حج ایک عشقیہ عبادت ہے جس کے لئے اللہ کی عبادت کا عاشق، دنیا کی ہر چیز کو خیرباد کہہ کر مستانہ وار نکل کھڑا ہوتا ہے اور تکالیف اور مصائب کی پرواہ نہیں کرتا، اس لئے محض اللہ کی خوشنودی اور ادائے فرض اور تعمیلِ ارشاد کی نیت سے حج کریں، نام و نمود یا سیر و تفریح ، تبدیلئ آب وہوا اور حاجی کا لقب حاصل کرنے کے لئے ہرگز حج نہ کیا جائے، اس سے اگرچہ حج کی فرضیت تو ادا ہوجائی گی مگر ثواب سے محرومی ہوگی۔
بعض لوگ حرم مکی اور حرم مدنی میں نماز کے بعد بازار پہنچ جاتے ہیں اور خریداری اور سیر و تفریح میں پورا وقت ختم کردیتے ہیں، یہ نہایت محرومی کی بات ہے، بلکہ یہ وقت ذکرِ الٰہی اور دعاء و درود میں گذارنے کا ہے، صرف ایک دن ضروریات کی چیزیں خریدنے کے لئے متعین کرلیا جائے، اس کے علاوہ پورا سفر عبادت میں گذارنا چاہئے۔

(انوارِ مناسک:۵۶۴)

مرحوم والدین کی طرف سے حج بدل کی نیت کی ، پھر سفر کے قابل نہ رہا تو وہ شخص کیا کرے؟

کسی نے والدہ مرحومہ کی طرف سے حج بدل کرنے کی نیت کی تھی، مگر اس وقت مرض کی وجہ سے خود نہیں جاسکتا، تو کسی ایسے نیک صالح شخص کو ان کی طرف سے حج بدل کے لئے بھیج دیا جائے جو اپنا حج کرچکا ہو ، اگر والدہ مرحومہ پر حج فرض تھا اور وہ ادا نہ کرسکیں تو اللہ سے امید ہے کہ ان کا حج ادا ہوجائے گا اور مرحوم والدین کی طرف سے حج بدل کرانے کی بڑی فضیلت ہے، شامی میں حدیث نقل کی ہے:کہ دار قطنی نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ  نے اس شخص کے متعلق فرمایا جو اپنے والدین کی طرف سے حج کرے یا قرض ادا کرے تو قیامت کے دن صلحاء کے ساتھ اٹھایا جائے گا، حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ حضور  نے فرمایا:جس شخص نے اپنے والد اور والدہ کی طرف سے حج کیا تو اس نے ان کی طرف سے حج ادا کردیا اور اس کو اس زائد حج کا ثواب ملے گا، حضرت زیدبن ارقمؓ سے روایت ہے رسو ل اللہ نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنے والدین کی طرف سے حج ادا کرے گا تو اس کی طرف سے اور اس کے والدین کی طرف سے قبول کیا جاتا ہے اور ان کی ارواح کو بشارت دی جائے گی اور اللہ کے پاس یہ شخص سعید لکھا جائے گا۔

(فتاویٰ رحیمیہ:۸/۱۲۷، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)


طواف کرانے والا اپنے طواف کی نیت کرلے تو طواف ادا ہوگا یا نہیں؟


جو لوگ دوسروں کو گاڑی پر بیٹھا کر طواف کراتے ہیں یا اپنے کندھے پر اُٹھاکر طواف کراتے ہیں یا چار پائی یا کرسی پر طواف کراتے ہیں وہ لوگ اگر اپنے طواف کی بھی نیت کریں گے تو ان کا طواف بھی صحیح ہوجائے گا۔

(انوارِ مناسک:۳۶۲)


باب: اپنی بیوی کو اختیار دینے کا بیان، اور یہ کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک کہ نیت نہ ہو

بَاب بَيَانِ أَنَّ تَخْيِيرَ امْرَأَتِهٖ لَا يَكُونُ طَلَاقًا إِلَّا بِالنِّيَّةِ

صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۶۷۱/ حدیث مرفوع

۳۶۷۱۔ و حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ح و حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيٰی التُّجِيبِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهٖ بَدَأَ بِي فَقَالَ إِنِّي ذَاکِرٌ لَکِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْکِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتّٰی تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْکِ قَالَتْ قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَکُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهٖ قَالَتْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَرَسُولَهٗ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللہَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا قَالَتْ فَقُلْتُ فِي أَيِّ هٰذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللہَ وَرَسُولَهٗ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ قَالَتْ ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ۔

۳۶۷۱۔ ابوطاہر، ابن وہب، حرملہ بن یحیی، عبد اللہ بن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی ازواج کے بارے میں اختیار دینے کا حکم دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے شروع کیا اور فرمایا کہ میں تجھے ایک معاملہ ذکر کرنے والا ہوں، پس تم پر لازم ہے کہ جلدی نہ کرو یہاں تک کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کر لو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ میرے والدین مجھے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدائی کا مشورہ نہیں دیں گے، کہتی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے فرمایا اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش کا اردہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمہیں آرام کی چیزیں اور عمدہ سامان دی دوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قیامت کی عافیت کی طلبگار ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک عورتوں کے لئے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے، میں نے عرض کیا کہ اس میں کونسی بات ہے جس کے بارے میں میں اپنے والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آخرت کے گھر کی عافیت کی طلبگار ہوں! فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقی ازواج نے بھی اسی طرح کہا جو میں نے کہا تھا ۔

صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۶۷۴/ حدیث مرفوع

۳۶۷۴۔ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيٰی التَّمِيمِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْثَرٌ عَنْ إِسْمٰعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ قَدْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَعُدَّهٗ طَلَاقًا۔

۳۶۷۴۔ یحیی بن یحیی تمیمی، عبثر، اسماعیل بن ابی خالد، شعبی، مسروق، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اختیار دیا تو ہم نے اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا۔


======================

باب: اس آدمی پر کفارہ کے وجوب کا بیان جس نے اپنے اوپر اپنی بیوی کو حرام کرلیا اور طلاق کی نیت نہیں کی


صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۶۶۷/ حدیث مرفوع

۳۶۶۷۔ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بِشْرٍ الْحَرِيرِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ عَنْ يَحْيٰی بْنِ أَبِي کَثِيرٍ أَنَّ يَعْلَی بْنَ حَکِيمٍ أَخْبَرَهٗ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ أَخْبَرَهٗ أَنَّهٗ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ إِذَا حَرَّمَ الرَّجُلُ عَلَيْهِ امْرَأَتَهٗ فَهِيَ يَمِينٌ يُکَفِّرُهَا وَقَالَ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔

۳۶۶۷۔ یحیی بن بشرالحریری، معاویہ بن سلام، یحیی بن ابی کثیر، یعلی بن حکیم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرے تو یہ قسم ہے اور اس کا کفارہ لازم ہوگا اور کہا (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)

======================

باب:مشرک کو آزاد کرنے کا بیان


بَاب عِتْقِ الْمُشْرِكِ۔

جلد نمبر ۱ / دسواں پارہ / حدیث نمبر ۲۳۶۷ / حدیث مرفوع

۲۳۶۷۔حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ أَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّ حَکِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ أَعْتَقَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِائَةَ رَقَبَةٍ وَحَمَلَ عَلَی مِائَةِ بَعِيرٍ فَلَمَّا أَسْلَمَ حَمَلَ عَلَی مِائَةِ بَعِيرٍ وَأَعْتَقَ مِائَةَ رَقَبَةٍ قَالَ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ کُنْتُ أَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ کُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا يَعْنِي أَتَبَرَّرُ بِهَا قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْلَمْتَ عَلَی مَا سَلَفَ لَکَ مِنْ خَيْرٍ۔

۲۳۶۷۔عبید بن اسمعٰیل، ابواسامہ، ہشام، عروہ، روایت کرتے ہیں کہ حکیم بن حزامؓ نےزمانۂ جاہلیت میں سو غلام آزاد کےہ تھے، اور سو اونٹ سواری کے لئے دئے تھے، جب مسلمان ہوئے تو سو اونٹ سواری کے لئے دئیے اور سو غلام آزاد کے ،حکیم بن حزامؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان چیزوں کے متعلق بتائیں جو ہم جاہلیت میں ثواب کی نیت سے کیا کرتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسلام لے آئے تو جتنے نیک کام کر چکے ہو قائم رہیں گے۔




باب: وہ شخص جھوٹا نہیں (کہا جائے گا) جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولے


بَاب لَيْسَ الْكَاذِبُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ۔

جلد نمبر ۱ / دسواں پارہ / حدیث نمبر ۲۵۰۹ / حدیث مرفوع

۲۵۰۹۔حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّهُ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عُقْبَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْسَ الْکَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَنْمِي خَيْرًا أَوْ يَقُولُ خَيْرًا۔

۲۵۰۹۔عبدالعزیز بن عبداللہ، ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، ام کلثوم بنت عقبہؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو جھوٹی بات صلح کرانے کے لئے کہہ دے بشرطیکہ نیت اچھی ہو۔


باب:اس شخص کی فضیلت کا بیان جس کا بچہ مرجائے

بَاب فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { وَبَشِّرْ الصَّابِرِينَ }۔

اس شخص کی فضیلت کا بیان جس کی کوئی اولاد مرجائے اور وہ اجر کی نیت سے صبر کرے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیجئے‘‘۔
جلد نمبر  ۱  /  پانچواں پارہ  /  حدیث نمبر  ۱۱۷۴  /  حدیث متواتر : مرفوع

۱۱۷۴۔حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ عَنْ ذَکْوَانَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النِّسَاءَ قُلْنَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اجْعَلْ لَنَا يَوْمًا فَوَعَظَهُنَّ وَقَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَ لَهَا ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ کَانُوا حِجَابًا مِنْ النَّارِ قَالَتْ امْرَأَةٌ وَاثْنَانِ قَالَ وَاثْنَانِ وَقَالَ شَرِيکٌ عَنْ ابْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ۔

۱۱۷۴۔مسلم، شعبہ، عبدالرحمن بن اصبھانی، ذکوان، ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم لوگوں کے لئے ایک دن(نصیحت کے واسطے) مقرر فرمادیجئے۔ آپ نے ان عورتوں کو نصیحت کی اور کہا کہ جس عورت کے تین بچے مر گئے ہوں گے تو وہ جہنم کی آگ سے حجاب ہوں گے، ایک عورت نے کہا اور دو بچوں کے بارے میں یہی بات ہے، آپ نے فرمایا کہ ہاں دو بچوں کے بارے میں بھی یہی بات ہے، اور شریک نے ابن اصبہانی سے انہوں نے ابوصالح سے انہوں نے ابوسعیداور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں۔

=======================


باب:مکاتب سے کونسی شرطیں جائز ہے؟


بَاب مَا يَجُوزُ مِنْ شُرُوطِ الْمُكَاتَبِ وَمَنْ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللہِ فِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

مکاتب سے کونسی شرطیں جائز ہے؟ اور جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جس کی اصل کتاب اللہ میں موجود نہ ہو، اس سلسلہ میں حضرت ابن عمرؓ کی بھی ایک روایت نبی کریم  سے مروی ہے۔
جلد نمبر ۱ / دسواں پارہ / حدیث نمبر ۲۳۸۷ / حدیث متواتر : مرفوع

۲۳۸۷۔حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ بَرِيرَةَ جَائَتْ تَسْتَعِينُهَا فِي کِتَابَتِهَا وَلَمْ تَکُنْ قَضَتْ مِنْ کِتَابَتِهَا شَيْئًا قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ ارْجِعِي إِلَی أَهْلِکِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْکِ کِتَابَتَکِ وَيَکُونَ وَلَاؤُکِ لِي فَعَلْتُ فَذَکَرَتْ ذَلِکَ بَرِيرَةُ لِأَهْلِهَا فَأَبَوْا وَقَالُوا إِنْ شَائَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْکِ فَلْتَفْعَلْ وَيَکُونَ وَلَاؤُکِ لَنَا فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ قَالَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا بَالُ أُنَاسٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي کِتَابِ اللہِ مَنْ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي کِتَابِ اللہِ فَلَيْسَ لَهُ وَإِنْ شَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ شَرْطُ اللہِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ۔

۲۳۸۷۔قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروہ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ بریرہؓ ان کے پاس اپنی کتابت (کی رقم کی ادائیگی) کے لئے مدد مانگنے آئیں اور اپنی کتابت کی رقم سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اپنے مالکوں کے پاس جاؤ اگر وہ اس بات کو پسند کریں کہ میں تمہاری طرف سے کتابت کی رقم ادا کردوں اور تمہاری ولاء میرے لئے ہو تو میں ایسا کروں، چنانچہ بریرہؓ نے یہ بات اپنے مالکوں سے کہی تو  وہ لوگ نہ مانے اور کہا کہ اگر وہ ثواب کی نیت سے ایسا کرنا چاہتی ہیں تو کریں لیکن تیری ولاء کے مالک ہم ہوں گے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خرید لو اور آزاد کردو اس لئے کہ حق ولاء تو اسی کو حاصل ہوتا ہے جو آزاد کرے،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگوں کا کیا حال ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں جو شخص ایسی شرط لگائے جو کتاب اللہ میں نہیں ہے تو اس کو کوئی حق نہیں اگرچہ سیکڑوں بار شرط لگائے، اور اللہ کی شرط زیادہ مستحق اور مضبوط ہے۔

No comments:

Post a Comment