فرض عبادات کی قبولیت(ثواب)کیلئے، نیت کرنا"فرض"ہے۔
القرآن:
وَمَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِيَعۡبُدُوا اللّٰهَ مُخۡلِصِيۡنَ لَـهُ الدِّيۡنَ ۙ حُنَفَآءَ وَيُقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِيۡنُ الۡقَيِّمَةِ ۞
ترجمہ:
*اور انہیں اس کے سوا کوئی اور (لازمی)حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اس طرح کریں کہ دین(بندگی) کو بالکل یکسو ہوکر صرف اسی کیلیے خالص(خاص) رکھیں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھی سچی امت کا دین ہے۔*
[سورۃ البینۃ:5]
نوٹ:
*نیت کا مقصد:-* (1) عمل میں "اخلاص" پیدا کرنا۔۔۔کہ کس کیلئے عمل کیا جارہا ہے۔ (2)عمل میں تمیز اور فرق کرنا۔۔۔۔کہ کونسا عمل کیا جارہا ہے، جیسے: نماز ہے یا زکوٰۃ۔ تاکہ یکسو ہو جائے۔ اور عمل کی تفصیل زبان سے کہنا جائز ہے تاکہ یکسوئی کے بجائے تشویش اور وساوس میں مبتلا نہ رہے۔ (3)عمل کرنے سے پہلے توجہ/ارادہ کرنا۔۔۔۔تاکہ عمل صرف عادت نہ رہے بلکہ "عبادت" بن جائے۔
دیگر اعمال(مثلاً: وضو، نماز کیلئے پیدل"جانا"، تہجد کت ارادے سے جلد سونا وغیرہ) کی نیت کرنا نفل ہے، فرض نہیں۔ لہٰذا ان تمام اعمال کی علیحدہ علیحدہ نیتیں نہ کرنے سے ان کے ثواب سے محروم رہے گا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(1) إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ...
*بےشک* (تمام جائز) *اعمال*(کی قبولیت/ثواب) *کا دارومدار تو بس* (کئی) *نیتوں پر ہے۔۔۔۔*
(١) شروع کرنے سے پہلے علم کی(کہ یہ عمل الله تعالیٰ کی عبادات میں شامل ہے یا نافرمانی میں)، کیونکہ بسا اوقات بے علمی میں کوئی عمل کرلینا نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
(٢) آغاز میں نیت کی، کیونکہ بغیر نیت کے عمل درست نہیں ہوسکتا. لہذا نماز و روزہ، حج و زكوة اور دوسری تمام قسم کی عبادتیں نیت کے بغیر درست نہیں ہوتیں. بس اصلاحِ عمل کے لئے آغاز میں نیت ضروری ہے۔
(٣) دورانِ عمل صبر کی، تاکہ عمل سکون و اطمینان سے انجام پاسکے۔
(٤) اخلاص کی، یعنی عمل کا صرف الله کے لئے ہونا. جب عمل اخلاص سے کیا جاۓ گا الله اسے قبول فرماۓ گا اور عام مخلوق کے دلوں کو بھی اس بندہ (عابد) کی طرف پھیردے گا۔

*نیت کی فضیلت:*
(1)حضرت انس، (2)حضرت سہل بن سعد ساعدی، (3)حضرت ابوموسیٰ، اور (4)حضرت نواس بن سمعان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(1)نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ۔
ترجمہ:
*مومن کی نیت بہتر ہے اس کے عمل سے۔*
[مسند الشهاب-القضاعى:147، جامع الاحادیث-للسیوطی:24902]
(2)«نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ، وَعَمَلُ الْمُنَافِقِ خَيْرٌ مِنْ نِيَّتِهِ، وَكُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى نِيَّتِهِ، فَإِذَا عَمِلَ الْمُؤْمِنُ عَمَلًا نَارَ فِي قَلْبِهِ نُورٌ»
ترجمہ:
مومن کی نیت اس کے عمل سے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہوتا، ہر ایک اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا ہے، مومن جب کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے قلب میں ایک نور پیدا ہوجاتا ہے۔
[طبراني:5942، جامع الاحادیث-للسیوطی:24904][المجالسة وجواهر العلم:1357، تنبيه الغافلين:748]
تشریح:
منافق عمل تو مجبوری سے کررہا ہے لہٰذا نیت میں فساد ہے۔
نية المؤمن خير من عمله وإن الله ليعطى العبد على نيته ما يعطيه على عمله وذلك أن النية لا رياء فيها والعمل يخالطه الرياء
ترجمہ:
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ (بسا اوقات) بندے کو نیت پر (اتنا) اجر دیتے ہیں کہ عمل پر نہیں دیتے، یہ اس واسطے کہ نیت میں ریا نہیں ہوتی، اور عمل میں ریا کے مل جانے کا (خدشہ) ہے۔
[الديلمي:6843، جامع الاحادیث-للسیوطی:24903]
نية المؤمن خير من عمله، ونية الفاجر شر من عمله.
ترجمہ:
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے، اور فاجر کی نیت اس کے عمل سے زیادہ بری ہے۔
[الحكيم (٤/٨٣) ، مسند الشهاب-القضاعى:148، جامع الاحادیث-للسیوطی:24905]
مثلاً:
جو شخص اپنے بستر پر(سونے کے لیے) آتا ہے اور اس کی نیت ہوتی ہے کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا، پھر اس پر صبح تک نیند غالب آجاتی ہے، اس کے لیے اس کی نیت کے مطابق (پورا ثواب) لکھا جائے گا اور اس کی نیند اس کے رب کی طرف سے اس پر صدقہ ہوگی۔
[سنن ابن ماجہ:1344، مسند البزار:4153، سنن النسائي:1787]
https://youtu.be/7jpZ5xJuY_E?si=3nt8Rj-e0sL30fMz
*نیت زبان سے کہنا۔*
*نبی(ﷺ)جب نماز ﴿وقربانی﴾*(کا ارادہ) *کرتے،تو کہتے:*
میں نے تو پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اور میں شرک کرنے والوں مجب نیت کرے دن میں روزے کی یں سے نہیں ہوں.(سورۃ الانعام:79) ، بیشک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والا ہوں.(سورۃ الانعام:162-163)
[مسلم:771، ابوداؤد:760، ترمذي:3421، بغوي:572، بيهقي:2343]
﴿اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی عطا ہے، اور خاص تیری رضا کے لیے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول کر، (بسم اللہ واللہ اکبر) اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ بہت بڑا ہے۔﴾
پھر آپ نے ذبح کیا۔
﴿دارمي:1967، احمد:15022، ابوداؤد:2795، ابن ماجة:3121، ابن خزيمة:2899، بيهقي:19183، حاكم:1734﴾
[مسلم:2715(1154)، ابوداؤد:2455، ترمذی:734، ابن ماجہ:1701 ﴿الاحادیث المختارۃ:2587، نسائی:2327(2326)﴾]
نوٹ:
اس حدیث سے ائمہ نے یہ دلیل پکڑی ہے کہ
(1)نفل روزہ توڑنا جائز(اختیار) ہے۔
[ترمذی:734، ابن ماجہ:1701]
(2)رات سے روزہ کی نیت کرنا ضروری نہیں۔
[ابوداؤد:2455]
(3)نیت کا وقت زوال سے پہلے تک ہے۔
[مسلم:2715(1154)، الاحادیث المختارۃ:2587، بیھقی:7914]
بشرطیکہ صبح سے کچھ کھایا پیا وغیرہ نہ ہو۔
اور صحیح بخاری میں باب ہے کہ:
بَابٌ: إِذَا نَوَى بِالنَّهَارِ صَوْمًا وَقَالَتْ أُمُّ الدَّرْدَاءِ كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُولُ عِنْدَكُمْ طَعَامٌ فَإِنْ قُلْنَا لَا قَالَ فَإِنِّي صَائِمٌ يَوْمِي هَذَا وَفَعَلَهُ أَبُو طَلْحَةَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَحُذَيْفَةُ رضي الله عنهم
ترجمہ:
جب نیت کی جائے دن میں روزے کی۔ اور ام درداء نے کہا کہ حضرت ابودرداء کہتے تھے کہ کیا تم لوگوں کے پاس کھانا ہے تو جب ہم کہتے کہ نہیں ہے تو کہتے کہ پھر میں روزہ رکھتا ہوں اس دن کا۔ اور یہ کرتے تھے حضرت ابوطلحہ، اور حضرت ابوھریرہ ، اور حضرت ابن عباس ، اور حضرت حذیفہ، راضی ہو اللہ ان سب سے۔
[صحیح بخاری:1924 ﴿بغوی:1745﴾]
نفلی روزے کی رخصت اگرچہ آدمی نے رات کے وقت روزے کی نیت نہ بھی کی ہو، اور نبی کے فرمان کہ: جس نے رات کے وقت روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔ سے مراد فرض روزہ ہے، نفلی روزہ نہیں۔
[صحیح ابن خزیمہ:2141]
مباح(جائز)ہونے کا تذکرہ کہ رات کے وقت پہلے سے نیت نہ کرنے کے باوجود آدمی نفلی روزہ رکھ لے۔
[صحیح ابن حبان:3629]
حج کی نیت کیسے کہے؟
صحابیہ حضرت ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میں حج میں شرط لگانے کا *"ارادہ"* کرسکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، (کر سکتی ہو)، انہوں نے کہا: تو میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: کہو!
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، وَمَحِلِّي مِنَ الْأَرْضِ حَيْثُ حَبَسْتَنِي.
*حاضر ہوں میرے اللہ حاضر ہوں، اور میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے۔*
[ابوداؤد:1776، نسائی:2766، ترمذی:941]
*مسئلہ(1):ایک سے زائد اعمال کیلئے ایک سے زائد نیتیں کرنا۔*
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ...
*بےشک(کئی)اعمال کا دارومدار تو (کئی)نیتوں پر ہی ہے۔*
[صحیح بخاری:1، صحیح ابن حبان:388-4868]
نوٹ:
ہر عمل کیلئے علیحدہ نیت کرنا چاہئے۔
*مسئلہ(2): ایک عمل(نماز) میں کئی نیتیں بھی جمع کی جاسکتی ہیں۔*
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص تھا، میں کوئی شخص نہیں جانتا جو اس سے زیادہ مسجد سے دور رہتا ہو، اور اس کی کوئی نماز قضا نہ ہوتی تھی۔ میں نے اس سے کہا: "اگر تم ایک گدھا خرید لو تو اندھیرے میں اور تپتی ہوئی زمین پر اس پر سوار ہو سکتے، اور یہ تمہیں زمین کے کیڑوں سے بچاتا۔
[صحیح مسلم:663، مسند احمد:21255]
اور ٹھوکر سے بچاتا۔" اس نے کہا: "اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند نہیں۔
[سنن ابن ماجہ:783]
کہ میرا گھر مسجد کے پاس ہو ۔"
[سنن ابوداؤد:557، صحیح مسلم:663]
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "میں نے اس سے کوئی بات اس سے زیادہ ناپسندیدہ نہیں سنی۔
[مسند احمد:21250 الارناؤط]
پھر میں اسے لے کر نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی تو آپ نے اسے بلایا۔
[صحیح مسلم:663، سنن ابن ماجہ:783]
آپ نے فرمایا:
کیا ارادہ کیا تھا تم نے اپنے قول سے؟
تم نے یہ کیوں کہا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد کے پاس ہو؟'"
[مسند احمد:21252 الارناؤط]
اس نے کہا: "میں نے ارادہ کیا کہ میرا مسجد تک چلنا اور جب میں واپس اپنے گھر لوٹوں تو میری واپسی کا بھی ثواب لکھا جائے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَدْ جَمَعَ اللهُ لَكَ ذَلِكَ كُلَّهُ.
یقیناً جمع کردیا اللہ نے تمہارے لئے وہ سب کا سب۔
[صحیح مسلم:663]
إِنَّ لَكَ مَا احْتَسَبْتَ
"بےشک تمہارے لئے وہی ہے جو کچھ تم نے گمان کیا۔"
[صحیح مسلم:663، سنن ابن ماجہ:783، صحیح ابن خزیمہ:450-1500، مسند احمد:21217-21213]
لَكَ أَجْرُ مَا نَوَيْتَ.
تمہارا وہی اجر ہے جو نیت کی تم نے۔
[مسند احمد:21216]
إِنَّ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ دَرَجَةً۔
"بے شک تمہارے لیے ہر قدم پر ایک درجہ ہے۔"
[صحیح مسلم:664، مسند احمد:21212]
مثالیں:
اگر جنابت کے "سبب" غسل فرض ہوجائے اور "وقت" بھی جمعہ کا پایا جائے تو ایک ہی غسل(عمل) میں دونوں(فرض اور سنت غسل)کی نیت(ارادہ)کرکے دونوں کا ثواب پایا جاسکتا ہے۔
یا
وضو کرکے جوں ہی مسجد میں داخل ہونے والا ہو تو بیٹھنے سے پہلے ایک عمل یعنی دو رکعت نفل نماز پڑھے، اور اس میں کئی نیتیں کرے جیسے: نماز توبہ پڑھتا ہوں، نمازِ حاجت، تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد پڑھتا ہوں اور اگر اشراق کا وقت ہو تو نمازِ اشراق کی بھی نیت کرکے ایک ہی نفل میں تمام نمازوں کا ثواب پانے کی نیت کرسکتا ہے۔
نیت کے لغوی معنیٰ "قصد وارادہ" کے ہیں۔ یہ لفظ ی کی تشدید کے ساتھ بھی آیا ہے اور بغیر تشدید کے بھی۔
شریعت کی اصطلاح میں نیت کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
قَصْدُ الطَّاعَةِ وَالتَّقَرُّبِ إلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي إيجَادِ الْفِعْلِ.
اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ "جیسے نیت وجودی اور ایجابی افعال سے متعلق ہوتی ہے، مثلاََ: نماز وزکوٰۃ، اسی طرح نیت کا تعلق بعض اوقات کسی فعل کے ترک سے بھی ہوتا ہے، چنانچہ شریعت کی منہیات(منع کردہ امور)سے بچنا بھی ایک فعل ہے، حالانکہ اس میں کسی فعل کے وجود میں نہیں لایا جاتا" ----- لیکن یہ شبہ نہیں، منہیات کے نہ کرنے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ اس کے کرنے پر قادر نہیں تھا اس لیے اس سے محفوظ رہا، دوسری صورت یہ ہے کہ باوجود قدرت کے آدمی اپنے آپ کو شریعت کی منہیات سے بچائے، یہ شریعت کی اصطلاح میں "کف" ہے، اور اس پر اجر وثواب بھی ہے، پس "کف" بھی منجملہ افعال کے ایک ہے۔
[الاشباه والنظائر، لابن نجيم: ص24]
بِتَوَجُّهِ الْقَلْبِ نَحْوَ إيجَادِ فِعْلٍ أَوْ تَرْكِهِ.
یہ تعریف فعل و ترک اور طاعت ومعصیت سب کو شامل ہے۔
[صحیح مسلم - فتنوں کا بیان - دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں - حدیث نمبر 2888 (7252)]
وَما كانَ لِنَفسٍ أَن تَموتَ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ كِتٰبًا مُؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِد ثَوابَ الدُّنيا نُؤتِهِ مِنها وَمَن يُرِد ثَوابَ الءاخِرَةِ نُؤتِهِ مِنها ۚ وَسَنَجزِى الشّٰكِرينَ {سورۃ آل عمران:145} | |
|
وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ وَيُقيمُوا الصَّلوٰةَ وَيُؤتُوا الزَّكوٰةَ ۚ وَذٰلِكَ دينُ القَيِّمَةِ |
ترجمہ: |
نیت کا مقصود بنیادی طور پر دو ہیں:
اول دو عبادتوں کے درمیاں امتیاز پیدا کرنا چنانچہ نیت ہی کے ذریعہ فرض اور نفل میں، ظہر اور عصر میں، اداء وقضاء میں، واجب ونفل روزوں، اور صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ میں فرق وامتیاز قائم ہوتا ہے، ----- دوسرا مقصد عبادت اور عادت میں فرق وامتیاز پیدا کرنا ہے، مثلاََ کھانے کا ترک کرنا، علاج و پرہیز اور بھوک نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے، اور روزہ کی غرض سے بھی، مسجد میں بیٹھنا استراحت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے اور نماز کے انتظار میں بھی، ان مین دوسری صورت عبادت کی ہے، اور پہلی صورت عادت کی قبیل سے ہے، نیت ہی کے ذریعہ ایک عمل کی ان دو حیثیتوں کے درمیان امتیاز قائم ہوتا ہے۔
عبادت کی تعیین:
چونکہ نیت کا مقصود امتیاز پیدا کرنا اور اشتباہ کو دور کرنا ہے، اسی لیے جن عبادتوں میں اشتباہ پیدا ہوسکتا ہے، ان میں عبادت کی تعیین ضروری ہے، اور جہاں اشتباہ نہ ہو، وہاں صرف اس عبادت کی نیت کافی ہوگی، اس کی تعیین ضروری نہیں ----- اس کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ بعض عبادتوں کیلئے ایسا وقت رکھا گیا ہے کہ وہ عبادت پورے وقت کا احاطہ کرلیتی ہے، اس وقت میں وہ عبادت ایک سے زیادہ دفعہ نہیں کی جاسکتی، جیسے: روزہ، کہ طلوعِ صبح سے غروبِ آفتاب تک روزہ کا وقت ہے، روزہ اس پورے وقت کو گھیرے ہوا ہے، اس لئے ایک دن میں دو روزہ رکھنا ممکن نہیں، ایسے وقت کو اصطلاح میں "معیار" کہا جاتا ہے، لہٰذا رمضان المبارک کے مہینہ میں اس ماہ کے روزہ کیلئے صرف روزہ کی نیت کرلینا کافی ہے، روزہ رمضان کی تعیین ضروری نہیں، بلکہ اگر کوئی صحتمند مقیم آدمی رمضان میں کسی اور واجب یا نفل روزہ کی نیت بھی کرلے تو اس کا اعتبار نہیں، کیونکہ جو چیز خود شارع کی طرف سے متعیین ہو اس میں نیت لغو اور غیر معتبر ہے۔
بخلاف نماز کے، کہ نماز کے وقت میں وسعت ہے، ہر فرض نماز کیلئے شریعت نے اتنا وسیع وقت رکھا ہے کہ اس میں کتنی ہی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں، ایسے وقت کو اصولِ فقہ کی اصطلاح میں "ظرف" کہتے ہیں۔
حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
دل کی نیت معتبر ہے یا زبان سے اُس کا تلفظ کرنا بھی ضروری ہے؟
(کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۱،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۷،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۲/۱۴۷، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی۔ آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۲/۱۸۶، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
کیا زبان سے نیت کرنا بدعت ہے؟
(فتاویٰ محمودیہ:۵/۵۰۸،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)
روزے میں نیت کا وقت
جو روزے رات سے لیکر آدھے دن سے پہلے پہلے تک نیت کرنےسے صحیح ہوجاتے ہیں وہ یہ ہیں :۔
مسئلہ: مطلق نیت اور نفل کی نیت سے رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہے، ایسے ہی مطلق نیت اور نفل کی نیت سے نذرِ معین کے روزے بھی صحیح ہوجاتے ہیں، اور اسی طرح مطلق نیت اور نفل کی نیت سے نفل روزے بھی صحیح ہوجاتے ہیں۔ حوالہ
مندرجہ ذیل صورتوں میں نیت کی تعیین اور رات میں نیت کرنا شرط ہے۔
(۱) رمضان کے قضا روزے۔ (۲) فاسد کردہ نفل روزوں کی قضا میں ۔(۳) کفارے کے روزوں میں ۔ (۴) نذر مطلق کے روزوں میں ۔حوالہ
*مومن کی نیت بہتر ہے اس کے عمل سے۔*
No comments:
Post a Comment