Thursday 21 March 2013

اسلامی ضابطہ اخبار

مقدمہ :
شرع میں تحریر کا حکم بمنزلہ تقریر کے ہے، اور مطالعہ کا حکم اِسْتِماع(
یعنی سننے) کے مثل ہے، جس چیز کا تلفظ و تکلم اور استماع (یعنی کہنا اور سننا) گناہ ہے اس کا لکھنا، چھاپنا اور مطالعہ کرنا بھی گناہ ہے۔ معلوم کرنا چاہیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دین سے کم واقف یا بعض بلکل ناواقف ہوتے ہیں، اس لئے مختصرا اسلامی ضابطہِ اخبار کے چند اصولی و بنیادی تعلیمات بیان کی جاتی ہیں.


”صحافت“ عربی زبان کا لفظ ہے۔ صاحب معجم الوسیط صفحہ508 پر صحافت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس میں خبروں اور آراء کو جمع کرکے اخبار یا رسائل میں نشر کیا جاتا ہے ۔ اس پیشہ کے ساتھ منسلک شخص کو صحافی کہا جاتا ہے۔

القرآن:
اور جب انہیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان (احکام) پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔
[سورۃ الفرقان، آیت نمبر 73]







القرآن:
اور جب انہیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان (احکام) پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔
[سورۃ الفرقان، آیت نمبر 73]
اجتماعی اصلاح کے ا
سلامی آداب واخلاقیات کا بیان:-
(1)بولنے کہنے، (2)سننے سنانے، (3)پڑھنے پڑھانے، (4)پہنچانے پھیلانے میں۔

اصول#1
افواہوں کی روک تھام کیلئے جھوٹوں کی خبروں کی تحقیق کا حکم:
القرآن :
اے ایمان والو! اگر کوئی بھی گناہگار تمہارے پاس کوئی بھی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تمکو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔
[سورۃ الحجرات:6]

تشریح:
اکثر نزاعات و مناقشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے ۔ اس لئے اول اختلاف و تفریق کے اسی سرچشمہ کو بند کرنے کی تعلیم دی۔ یعنی کسی خبر کو یوں ہی بغیر تحقیق قبول نہ کرو۔ فرض کیجئے ایک بے راہ رو اور تکلیف دہ آدمی نے اپنے کسی خیال اور جذبہ سے بے قابو ہو کر کسی قوم کی شکایت کی۔ تم محض اسکے بیان پر اعتماد کر کے اس قوم پر چڑھ دوڑے، بعد اس کے ظاہر ہوا کہ اس شخص نے غلط کہا تھا، تو خیال کرو۔ اس وقت کس قدر پچتانا پڑے گا۔ اور اپنی جلدبازی پر کیا کچھ ندامت ہو گی اور اس کا نتیجہ جماعت اسلام کے حق میں کیسا خراب ہو گا۔


اس آیت کے شان نزول میں حافظ ابن جریر اور دوسرے مفسرین نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت ولید بن عقبہ کو حضور اقدس ﷺ نے قبیلہ بنومصطلق کے پاس زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ جب یہ ان کی بستی کے قریب پہنچے تو وہ لوگ آنحضرت ﷺ کے بھیجے ہوئے ایلچی کے استقبال کے لیے بڑی تعداد میں بستی کے باہر جمع ہوگئے۔ ولید بن عقبہ یہ سمجھے کہ یہ لوگ لڑائی کے لیے باہر نکل آئے ہیں۔ بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ ان کے اور بنو مصطلق کے درمیان جاہلیت کے زمانے میں کچھ دشمنی بھی تھی۔ اس لیے حضرت ولید کو یہ خطرہ ہوا کہ وہ لوگ اس پرانی دشمنی کی بناء پر ان سے لڑنے کے لیے نکل آئے ہیں۔ چنانچہ وہ بستی میں داخل ہونے کے بجائے وہیں سے واپس لوٹ گئے، اور جا کر آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ بنو مصطلق کے لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے، اور وہ لڑائی کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو مقرر فرمایا کہ واقعے کی تحقیق کے بعد اگر واقعی ان لوگوں کی سرکشی ثابت ہو تو ان سے جہاد کریں۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ لوگ تو استقبال کے لیے جمع ہوئے تھے، اور انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار نہیں کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان روایات کی بناء پر بعض حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ آیت میں جو فاسق کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس سے مراد ولید بن عقبہ ہیں، پھر اس پر جو اشکال ہوتا ہے کہ ایک صحابی کو فاسق قرار دینا بظاہر عدالت صحابہ کے منافی ہے، اس کا یہ جواب دیا ہے کہ بعض صحابہ سے گناہ سرزد ہوئے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں توبہ کی توفیق عطا فرما دی، اس لیے بحیثیت مجموعی ان کی عدالت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کے بیان میں جو روایتیں آئی ہیں، اول تو وہ سند کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہیں، اور ان میں تعارض و اختلاف بھی پایا جاتا ہے، دوسرے اس واقعے کی بنا پر حضرت ولید کو فاسق قرار دینے کی کوئی معقول وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی، کیونکہ اس واقعے میں انہوں نے جان بوجھ کر کوئی جھوٹ نہیں بولا، بلکہ جو کچھ کیا، غلط فہمی کی وجہ سے کیا جس کی وجہ سے کسی کو فاسق نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ولید بستی کے قریب پہنچے، اور قبیلے کے لوگ بڑی تعداد میں وہاں جمع ہورہے تھے تو کسی شریر آدمی نے ان سے یہ کہا ہوگا کہ یہ لوگ آپ سے لڑنے کے لیے نکلے ہیں۔ اس شریر آدمی کو آیت میں فاسق قرار دیا گیا ہے، اور حضرت ولید کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ تنہا اس شریر آدمی کی خبر پر بھروسہ کر کے کوئی اقدام کرنے کے بجائے پہلے اس خبر کی تحقیق کرنی چاہیے تھی۔ اس خیال کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جو حافظ ابن جریر نے نقل کی ہے، اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ
حَدَّثَهُ ‌الشَّيْطَانُ ‌أَنَّهُمْ ‌يُرِيدُونَ ‌قَتْلَهُ (تفسیر ابن جریر ج : 22 ص 286)
یعنی شیطان نے انہیں یہ بتایا کہ وہ لوگ انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔
[موسوعة التفسير المأثور:71633]
ظاہر یہی ہے کہ شیطان نے کسی انسان کی شکل میں آ کر انہیں یہ جھوٹی خبر دی ہوگی۔ اس لیے آیت کے لفظ فاسق کو خواہ مخواہ ایک صحابی پر چسپاں کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ انہوں نے جو کچھ کیا غلط فہمی میں کیا۔ اس کے بجائے اسے اس مخبر پر چسپاں کرنا چاہیے جس نے حضرت ولید کو یہ غلط خبر دی تھی۔
بہرحال ! واقعہ کچھ بھی ہو، قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ اس کی آیتیں چاہے کسی خاص موقع پر نازل ہوئی ہوں، اکثر ان کے الفاظ عام ہوتے ہیں، تاکہ ان سے ایک اصولی حکم معلوم ہوسکے۔ چنانچہ یہ ایک عام حکم ہے کہ کسی فاسق کی خبر پر بغیر تحقیق کے اعتماد نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر جب اس خبر کے نتیجے میں کسی کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہو۔





فسق کیا ہے؟
امام راغب اصفہانیؒ(م502ھ) لکھتے ہیں:
فِسق فلان کے معنیٰ کسی شخص کے دائرہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فِسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں۔ شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم(زیادہ عام) ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگرچہ عرف میں فِسق بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
[تفسير الراغب الأصفهاني:1 /130، المفردات في غريب القرآن: صفحہ636]

فسق کی ضد ایمان ہے۔

ایمان کیا ہے؟ اور مومن کون ہے؟
ایمان کے ایک معنیٰ شریعت محمدی ﷺ کے (ماننے کے) آتے ہیں۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ ( سورة البقرة 62) اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے۔ اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں۔
(سورة يوسف 106) کو بھی اسی معنیٰ پر محمول کیا ہے۔
[المفردات في غريب القرآن: صفحہ91]



فاسق کی خبر کی تحقیق ضروری ہے، عادل کی نہیں۔

امام ابو البرکات النسفیؒ(م710ھ) لکھتے ہیں:
فاسق کی خبر کا حکم:
پس اس میں توقف کرو اور معاملے کی وضاحت اور حقیقت کا انکشاف تلاش کرو۔ فاسق کی بات پر اعتماد مت کرو کیونکہ جو فسق سے نہیں بچتا وہ کذب سے کیونکر محفوظ ہوگا جو اسی کی قسم ہے۔
عادل کی خبر کا حکم:
اس آیت میں دلالت پائی جاتی ہے کہ ایک عادل کی خبر قبول کرلی جائے گی کیونکہ اگر ہم اس کی خبر پر بھی توقف کریں گے تو ہم فاسق و عادل کو برابر ٹھہرانے والے بن جائیں گے۔ اور یہاں فاسق کی تخصیص بلا فائدہ ہوجائے گی۔ الفسوق : کسی چیز سے نکلنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ لفظ (فسق) کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کے ساتھ میانہ روی سے نکلنے کے لئے استعمال ہونے لگا۔
تحقیق:
وضاحت اور پہچان طلب کرنا۔ خود معاینہ ومشاہدہ کرکے یا کسی ثبوت، گواہ، حلف وقسم سے۔
ندامت:
یہ غم کی ایک قسم ہے۔ کہ آدمی اپنے کیے پر پشیمان ہو۔ اور تمنا کرے کہ وہ کام اس سے سرزد نہ ہوتا۔ یہ ایسا غم ہے جو ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے۔
[تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل: 3 / 350]

تحقیق اور حقِ تحقیق۔۔۔۔۔ محلِ تحقیق، ضرورتِ تحقیق اور اہلِ تحقیق



حق بات تو شیطان بھی بتادیتا ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے (کھجوریں) سمیٹنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر انہوں نے یہ پورا قصہ بیان کیا (جو صدقہ فطر چرانے آیا تھا) اس نے کہا کہ جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، پھر صبح تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے پاس بھی نہ آ سکے گا۔ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ سے بیان کی تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے تمہیں یہ ٹھیک بات بتائی ہے اگرچہ وہ بڑا جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔

[صحيح البخاري:3275+5010]

نوٹ:
حق قبول کرنا چاہئے، لیکن حق کے علاوہ جھوٹے کی باتیں بغیر تحقیق قبول کرنا جائز نہیں.


تفصیلی واقعہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔

[صحيح البخاري:2311]



ادھوری بات غلط فہمی کا سبب بنتی ہے

امام ابو جعفر طحاویؒ نے ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک صاحب نے کہا ’’من يطع الله ورسوله فقد رشد ومن يعصهما‘‘ (جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت یاب ہوا اور جس نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی) ۔ یہ کہہ کر اس نے بات موقوف کر دی اور جملہ مکمل نہیں کیا۔ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ فرما کر ڈانٹ دیا کہ ’’ئس الخطيب انت، قم‘‘ تم برے خطیب ہو، اٹھ جاؤ۔
[سنن أبي داود:4981+1099]

اس پر امام طحاویؒ نے لکھا ہے کہ ادھوری بات نہیں کہنی چاہیے کیونکہ مطلب بدل جاتا ہے۔ اب یہاں اگر ’’ومن عصاھما فقد رشد‘‘ کہہ کر جملہ مکمل نہیں کیا تو آخری جملہ پہلے کے ساتھ شمار ہو گا اور معنی یہ بنے گا کہ جس نے اللہ اور رسول اکرمؐ کی نافرمانی کی تو وہ بھی ’’فقد رشد‘‘ کے زمرہ میں شمال ہو جائے گا، یعنی جس نے فرمانبرداری کی وہ ہدایت پا گیا اور جس نے نافرمانی کی وہ بھی (نعوذ باللہ) ہدایت پر ہے۔

اس حوالے سے ایک بات میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں بعض دانشوروں اور مفکرین کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ بات مکمل نہیں کرتے، ادھوری اور صرف اپنے مطلب کی بات کر دیتے ہیں جس سے کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب ان سے وضاحت کا کہا جاتا ہے تو وہ کسی اور تحریر کا حوالہ دے دیتے ہیں کہ باقی بات وہاں دیکھ لیں۔ کسی مسئلہ پر مکمل بات نہ کرنا اور صرف اپنے مطلب کا پہلو ذکر کر کے آگے بڑھ جانا الجھن اور کنفیوژن کا باعث بنتا ہے، تقریر اور تحریر دونوں میں اس سے گریز کرنا چاہیے اور جو مسئلہ بھی بیان کیا جا رہا ہو اس کے ضروری پہلو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے، یہی بات ہمارے درس و تدریس میں ’’دفع دخل مقدر‘‘ کہلاتی ہے۔


خبر کی تحقیق کیسے کریں؟
خبریں جاننے پھیلانے سے پہلے 3 باتوں کی تحقیق کریں؟
خبر دینے والے سے پوچھا کریں کہ۔۔۔
(1)کیا آپ کو (آنکھوں دیکھا) یقین ہے کہ وہ بات سچ ہے؟
(2)کیا وہ بات خیر کی ہے؟
(3)کیا مجھے یا کسی اور کو اس بات سے فائدہ ہوگا؟
جب کوئی خبر (1)سچی، (2)اچھی یا (3)فائدہ مند نہیں تو سننے کی کیا ضرورت؟؟؟
جھوٹی، بری یا نقصان پہنچانے والی خبر عوام میں پھیلانا صرف گناہِ جاریہ جیسے عظیم عذاب ہی کا سبب نہیں، بلکہ ملک وقوم کے اجتماعی اختلاف وبگاڑ کا بھی سبب ہے۔
https://youtu.be/Hw-79y9ef0I



افواہوں propaganda کا فساد:
جوزف گوئبلز (ماسٹر آف پروپیگنڈہ) نے کہا:
"اگر آپ کافی بڑا جھوٹ بولتے ہیں اور اسے دہراتے رہتے ہیں تو لوگ آخرکار اس پر یقین کریں گے"۔

Joseph Goebbels (master of propaganda) said:
"If you tell a lie big enough and keep repeating it, people will eventually come to believe it".





”یہودی پروٹوکولز“ کے بارہویں باب میں درج ہے کہ ”ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنی سے ادنی خبر کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی ، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہم یہودیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو ،اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کرسکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو“۔



عربی کے علمِ معانی میں خبر کی تعریف یہ ہے:
’’خبر وہ ہے جو صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھے‘‘
یعنی جب تک اس کی تصدیق یا تردید شواہد سے نہ ہوجائے ، اس کی حیثیت کا تعیّن نہیں ہوسکتا، اسی لیے خبر اور شہادت میں فرق ہے کہ شاہد حلفیہ کہتا ہے:
’’میں نے اس واقعے کو اپنے سامنے رونما ہوتے ہوئے دیکھا‘‘،اسے ’’عینی شہادت‘‘ کہتے ہیں یا وہ کہتا ہے:
’’میں نے فلاں سے یہ واقعہ سنا ہے‘‘،اسے ’’سن کر شہادت دینا یا سمعی شہادت کہتے ہیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے سنی سنائی بات کو تحقیق وثبوت کے بغیر پھیلانے سے منع فرمایا ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا پھرے،(ابوداوٗد:4992)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور جب اُن کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر آتی ہے تو وہ اُسے پھیلادیتے ہیں اور اگر وہ اس خبر کو رسول یا اپنے میں سے صاحبانِ اختیار کوپیش کرتے تو ان میں سے خبر کی تہہ تک پہنچنے والے ضرور اس کی (حقیقت )جان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند لوگوں کے سواضرور تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے،(النسآء:83)‘‘،یعنی حربی حکمتِ عملی کے ماہرین ایسی خبروں کا تجزیہ بہتر طور پر کرسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں احتیاطی تدبیریں اختیار کی جاسکتی ہیں، ہمارے ہاں بعض معاملات پسِ پردہ چل رہے ہوتے ہیں، داغ دہلوی نے کہاہے:

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں

آج کل بین الاقوامی سیاست میں بھی یہ شعار رائج ہے ، اسے ’’بیک ڈور ڈپلومیسی ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے، اب مشکل یہ ہے کہ اصحابِ معاملہ جن معاملات کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں یا پوشیدہ سمجھتے ہیں، وہ پوشیدہ رہ نہیں پاتے، کہیں نہ کہیں سے خبر چھَن کر باہر آجاتی ہے ، آج کل اسے خبر کا لیک ہونا کہتے ہیں، پھر اس میں ظنّ وتخمین ، قیاسات اور خواہشات کا اضافہ ہوتارہتا ہے اور اس کا تدارک مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ جب کسی بات کی قطعی تردید کی جائے ، لیکن اس کے کوئی نہ کوئی شواہد کسی کے پاس ہوں ، اگرچہ خوف کی بنا پر وہ پیش نہ کرسکتا ہوتو پوری تردید بے اثر ہوجاتی ہے، جس طرح مقتدر طبقات کے سیاسی امور سے لا تعلقی کا دعویٰ کسی ذی شعور کو ہضم نہیں ہوتا، یہ الگ بات ہے کہ خوف کے سبب سانسیں رکی ہوئی ہوں ، امیر مینائی نے کہا ہے:

قریب ہے یارو روزِ محشر، چھُپے گا کُشتوں کا خون کیوں کر

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

سو 2018کے عام انتخابات کے کُشتگان میدانِ سیاست میں بہت ہیں، مگر ثبوت مانگا جائے تو ندارد،اگر قتل کا ثبوت نہ ملے تو بھی مقتول تو موجود ہے، سو وارداتِ قتل کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی پر ایسی بیتی ہو جو کلیم عاجز پر بیت گئی:

دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو ،کہ کرامات کرو ہو

پس کلیم عاجز کے بقول کرامات کا زمانہ ہے،واردات بھی ہوجاتی ہے اور پیچھے نشان بھی نہیں چھوڑا جاتا، نظر آجائے تو پہلو بچا کے چلنا پڑتا ہے ،آنکھیں بند رکھنی پڑتی ہیں، کون ہے جو کچھار کے خوابیدہ شیر کو جگاکر زندگی کا خطرہ مول لے، فارسی شاعر نے کہا ہے:

ہر بیشہ گماں مبرکہ خالی ست

شاید کہ پلنگ خفتہ باشد

ترجمہ:’’ہر جنگل کو خالی مت سمجھو ،شاید کہ وہاں کوئی شیر سورہا ہو‘‘۔


الیقین
کے معنیٰ کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت(جان پہچان) اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوتا ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے:-
إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ
[سورۃ الجاثية:32]
ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا۔
وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ
[سورۃ الذاریات:20]
اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔
لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
[سورۃ البقرة:118]
یقین کرنے والوں کیلئے۔
 اور آیت کریمہ : 
وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [سورۃ النساء:157]
اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا قتل نہیں کیا ۔
کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں۔



صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو کفارِ مکہ سے ایک معاہدہ کرنا پڑا، معاہدے کی بظاہر ناگوار شرائط میں سے ایک یہ تھی : ’’مکۂ مکرمہ سے جو شخص اسلام قبول کر کے مدینۂ منورہ جائے گا، اسے ریاستِ مدینہ میں پناہ نہیں دی جائے گی ، بلکہ اُسے واپس بھیج دیا جائے گا، اس کے برعکس جو مدینہ منورہ سے مرتد ہوکر مکۂ مکرمہ آئے گا، اُسے جبراً واپس نہیں لوٹایا جائے گا‘‘۔ یہ شرط بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھی، یک طرفہ تھی، حالات کے جبر کا نتیجہ تھی، اس لیے صحابۂ کرام کو اس پر اضطراب ہوا، لیکن دین کی وسیع تر اور دیرپا حکمت کے تحت رسول اللہ ﷺ نے اسے ناگواری کے ساتھ قبول فرمایا اور اس پر عمل بھی فرمایا، چنانچہ ابھی اس معاہدے کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ ابوجندل بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آئے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا ،انھیں اسلام قبول کرنے کے جرم میں ان کے والد سہیل نے بیڑیاں پہنا رکھی تھیں۔ مسلمان انھیں مرحبا کہنے اور مبارک باد دینے کے لیے اٹھے، اس اثناء میں اس کے والد اُسے مارنے لگے اور کہا: ’’اے محمد! یہ ہمارا پہلا دعویٰ ہے کہ آپ اسے لوٹادیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ہم عہد شکنی نہیں کریں گے، چنانچہ ابوجندل کو لوٹادیا گیا ، اس نے کہا: مسلمانو! میں اسلام قبول کرنے آیا ہوں اور آپ لوگ مجھے مشرکوں کی جانب لوٹارہے ہیں، آپ دیکھ نہیں رہے کہ مجھ پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بلند آواز سے فرمایا: ابوجندل ! صبر کرو اور اللہ سے اجر کی امید رکھو،بے شک اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ دیگر کمزور مسلمانوں کے لیے کشادگی اورنَجات کی سبیل مقدر فرمائے گا ، ہم نے مکے والوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور پیمان باندھا ہے ، سو ہم وعدہ شکنی نہیں کرسکتے۔
[سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد فِیْ سِیْرَۃِ خَیْرِ الْعِبَاد، ج:5،ص:52]

الغرض معاہدۂ حدیبیہ کی وہ شرط جو کفار نے اپنے مفاد میں لگائی تھی اور بظاہر مسلمانوں کے لیے نقصان اور تکلیف کا باعث تھی، آخرِ کار وہ ان کے لیے بیک فائر ثابت ہوئی اور پھر انھوں نے یک طرفہ طور پر رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں جاکر اس شرط کو واپس لینے کی درخواست کی، اسی کو کہتے ہیں: ’’عَدُوّ شرے برانگیزد کہ خیرِ مادراںباشد‘‘، یعنی دشمن شر برپا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اس میں سے ہمارے لیے خیر کی صورت برآمد فرمادیتا ہے، اسی کو انگریزی میں ’’Blessing in Disguise‘‘ کہتے ہیں۔






فاسق ہونے کیلئے کونسی ایک برائی کافی ہے؟
سنی سنائی بات پھیلانا۔
افواہ پھیلانے کی حوصلہ شکنی:
حضرت ابوہریرہؓ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا ، أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ۔
ترجمہ:
کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی (ایک برائی) کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو(بلا تحقیق آگے) بیان کردے ۔
[صحيح مسلم » بَاب النَّهْيِ عَنِ الْحَدِيثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ... رقم الحديث: 6]
«كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ ‌يُحَدِّثَ ‌بِكُلِّ ‌مَا ‌سَمِعَ»
ترجمہ:
آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے
 یہی (ایک برائی) کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بلا تحقیق) بیان کرے۔
[سنن أبي داود » كِتَابِ الْأَدَبِ » بَابُ التَّشْدِيدِ فِي الْكَذِبِ » رقم الحديث: 4992]

تشریح:
کیونکہ وہ عادتا سچ اور جھوٹ سب سنتا ہے، پھر جب ہر سنی سنائی بات (بغیرتحقیق) آگے بیان کرے گا تو یقینا وہ جھوٹی خبریں بھی کہے گا، ایسی خبریں بتائے گا جو (آنکھون دیکھی کانوں سنی - یقینی) نہیں۔ اہل حق کا نظریہ ہے کہ جو کچھ ہے اس کے خلاف بتانا(جو حقیقت کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی ہو) جھوٹ ہے۔ اور اس کا عمداً (جان بوجھ کر) کرنا شرط (یعنی ضروری) نہیں ہے
[شرح النووي على مسلم-النووي(م676ھ): 1 /75]
جو ہر سنی سنائی بات بیان کرتا ہے وہ امام ورہنما (ہونے کے قابل) نہیں۔
[إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام-إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام(م702ھ): 1 / 322]
کیونکہ آدمی جو کچھ بھی سنتا ہے وہ سچ نہیں ہوتا، بلکہ اس میں سے کچھ جھوٹ ہوتا ہے، اور یہ اس بات کی ڈانٹ ڈپٹ ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کے بارے میں کہتا ہے جو وہ سچ نہیں جانتا، بلکہ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر کہانی اور خبر کی تحقیق کرے۔ خاص کر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے- لہٰذا ان کی صداقت کا علم ہو تو بیان کرو، ورنہ بیان نہ کرو۔
[المفاتيح في شرح المصابيح-مظهر الدين الزيداني(م727ھ) : 118]
آدمی جو کچھ سنتا ہے اس کے بارے میں بات کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اسے راوی (خبر پنچانے والے) کی حالت کی تحقیق کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو۔
[المفاتيح في شرح المصابيح-مظهر الدين الزيداني(م727ھ) : 3765]
بظاہر اس سے مراد مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی کے بارے میں تنبیہ ہے
[تحفة الأحوذي: 6 / 106]



فقہی نکتے:

(1)زبان کی باتوں سے کا بیان

[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:379]

(2)جو شخص اپنی بات میں جھوٹ بولتا ہے تاکہ لوگوں کو اس پر ہنسایا جائے۔

[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:735]

(3)(‌‌‌‌زیادہ بولنے والوں سے) عزلت وتنہائی (اختیار کرنے) کا بیان

[الجامع - ابن وهب - ت مصطفى أبو الخير:523]

(4)اشارے کنائے سے بات کرنا(جھوٹ سے کافی ہے

[الأدب المفرد-البخاري:884]

(5)سنی سنائی(بےتحقیق)حدیث بیان کرنے سے روکنے کا بیان۔

[صحيح مسلم:5]

(6)جھوٹ کے بارے میں بیان

[سنن أبي داود:4992]

(7)زبان کی حفاظت، خاموشی اور تنہائی اختیار کرنے کا بیان۔

[الزهد لابن أبي عاصم:74]

(8)مواعظ وخطبات کا بیان

[السنن الكبرى - النسائي:11845]

(9)علم حاصل کرنے اور اس کی تصدیق کرنے میں چوکنا رہنا

[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 2 / 63، ما رواه الأكابر عن مالك لمحمد بن مخلد:50]

(10)‌‌اس خبر کو بیان نہ کرنا جس کا یقینی علم نہ ہو۔

[الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان:30]

(11)ایماندار ہونے اور جھوٹ سے بچنے کی ترغیب کا ذکر۔

[روضة العقلاء ونزهة الفضلاء: صفحہ53]

(12)ایسی خبروں کا تذکرہ جو حدیث کے راویوں کے جھوٹے ہونے کی نشاندہی کرتا ہے اور غیبت کرنے والوں سے حدیث کے راویوں کو جاننے کی تاکید کرتا ہے۔

[المدخل إلى الصحيح-الحاكم: صفحہ 108-110]

(13)خاموشی کی فضیلت

‌‌‌‌ہر اس چیز کے بارے میں جو بے فائدہ ہے اور ان میں غور وخوض چھوڑ دینے کا بیان۔

[شعب الإيمان-البيهقي:4997]

(14)روایت(یعنی پچھلوں کی باتیں اگلوں کو) بیان کرنے سے بچنے کا بیان جب تک کہ وہ ثابت اور صحیح ہوں۔

[المدخل إلى السنن الكبرى - البيهقي - ت عوامة:673-678]

(15)روایت پر تنقید اور حدیث میں غلطی کے ثبوت کے طور پر جس (حدیث) سے دلیل پکڑی جاتی ہے۔

[معرفة السنن والآثار-البيهقي:179]

(16)خاموشی کی فضیلت اور زبان کو ان چیزوں سے بچانا جس کی اسے ضرورت نہیں ہے۔

[الآداب للبيهقي:297]

(17)احادیث کو سمجھنے اور بغیرسمجھے کثرت سے احادیث بیان کرنے کی مذمت کا بیان

[جامع بيان العلم وفضله-ابن عبد البر:1928]

(18)علم کا بیان، رسول اللہ ﷺ کی حدیث پہنچانا اور اسکی حفاظت ویاد رکھنے کا بیان۔

‌‌جو کوئی حدیث بیان کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ جھوٹ ہے(یعنی غیر ثابت سنی سنائی ہے)۔

[شرح السنة للبغوي:1 / 244+ 267]

(19)زبان کی حفاظت کرنا، غیبت اور برابھلا کہنے سے۔

[مصابيح السنة-للبغوي:3765]

(20)اکیلے سچے کو اجازت دینا اور جھوٹ بولنے والوں کے خلاف تنبیہ اور جس نے کوئی حدیث بیان کی جسے وہ جھوٹا سمجھتا ہے یا جو کچھ سنا ہے اسے بیان کرتا ہے، اور نبی ﷺ پر جھوٹ بولنے والے کے خلاف تنبیہ۔ اور اس کی تفصیل جس سے وہ (جھوٹ) لیا گیا ہے۔

[الأحكام الوسطى-الإشبيلي: 1 / 120]

(21)خیر کی بات کے علاوہ خاموش رہنے کی ترغیب، اور زیادہ بولنے سے ڈرانا۔


تحقیق اور حقِ تحقیق۔۔۔۔۔ محلِ تحقیق، ضرورتِ تحقیق اور اہلِ تحقیق


لوگوں کا گمان ہے، کہنے کا بیان:
قَالَ ‌أَبُو عَبْدِ اللهِ لِأَبِي مَسْعُودٍ مَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي: زَعَمُوا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ‌بِئْسَ ‌مَطِيَّةُ الرَّجُلِ زَعَمُوا» ۔
ترجمہ:
حضرت ابومسعود ؓ نے ابوعبداللہ (حذیفہ) ؓ سے یا ابوعبداللہ نے ابومسعود سے کہا تم نے زعموا(یعنی لوگوں نے گمان کیا) کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کو کیا فرماتے سنا؟ وہ بولے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: زعموا (یعنی لوگوں نے گمان کیا) آدمی کی بہت بری سواری ہے۔
[سنن أبي داود:4972]
وضاحت:
چونکہ زعموا کا تعلق ایسے قول اور ایسی بات سے ہے جو غیر یقینی ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس لئے آپ ﷺ نے اس لفظ و اپنے مقصد کے لئے سواری بنانے اور اس کی آڑ لے کر کوئی ایسی بات کہنے سے منع کیا ہے جو غیر محقق ہو اور جو پایہ ثبوت کو نہ پہنچتی ہو۔




فقہی نکتے:

(1)

رطب ویابس
’’رَطْب‘‘ کے معنی ہیں:’تر‘‘ اور ’’یَابِسْ‘‘ کے معنی ہیں: ’’خشک‘‘، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں،انھیں اُس کے سوا (ازخود)کوئی نہیں جانتا اور وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندروں میں ہے اوروہ ہر اُس پتّے کو جانتا ہے جو(درخت سے) گرتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ اور ہر خشک وتر چیز لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے ، (الانعام:59)‘‘۔

قرآنِ کریم میں ’’رطب ویابس ‘‘ ہر قسم کی معلومات کے احاطے کے لیے آیا ہے ، لیکن ہمارے اردو محاورے میں سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے اور صحیح اور غلط کے مجموعے کو’’رطب ویابس‘‘ کہتے ہیں ۔ جب کسی کتاب میں ثقہ اور غیر ثقہ دونوں طرح کی باتیں جمع ہوں تو کہاجاتا ہے:’’یہ رطب ویابس‘‘ کا مجموعہ ہے۔ ہمارے ہاں بظاہر میڈیا کی یلغار ہے ، بے شمار ٹیلی ویژن چینل ہیں ، اس کے علاوہ یوٹیوب پرڈیجیٹل چینلوں کی بھرمار ہے ،نیزواٹس اپ ، فیس بک ،انسٹاگرام اور ٹویٹر کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، خبروں اورتجزیات کی بہتات ہے ،جن میں سے بعض حقائق پر مبنی ہوتے ہیں،لیکن زیادہ تر تخمینوں، قیاسات ،ظنّیات ، مفروضات اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں، ایک ہی چیز سے ہر ایک اپنا مَن پسند نتیجہ نکالتا ہے۔سو خبر ذریعۂ علم ہے ، لیکن اس سے بے خبری ،ذہنی انتشار اور فکری کجی عام ہورہی ہے، سراج اورنگ آبادی نے کہا ہے:

خبرِ تَحَیُّرِ عشق سن ،نہ جنوں رہا، نہ پری رہی

نہ تو، تُو رہا ،نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

قرآنِ کریم نے خبر کی بابت یہ اصول بتایا:’’اے ایمان والو! تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی خبر لائے تو اچھی طرح چھان بین کرلیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچادو پھر تمہیں اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے،(الحجرات:6)‘‘۔

احادیثِ مبارکہ کے لیے بھی ردّوقبول کے لیے معیارات مقرر کیے گئے ہیں اور اُس کے لیے علم کا ایک پورا شعبہ ’’جرح وتعدیل‘‘ وجود میں آیا، حدیث کے راویوں کے احوال کو منضبط کرنے کے لیے ’’اَسْمَآئُ الرِّجَال ‘‘کی کتب موجود ہیں، سند اور راویوں کے اعتبار سے احادیثِ مبارکہ کی درجہ بندی کی گئی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذاتِ مبارکہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے پر بڑی وعید فرمائی ہے: ’’جو مجھ پر دانستہ جھوٹ بولے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے،(بخاری:107)‘‘، نیز حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا: میرے حوالے سے کوئی بات بیان کرنے میں احتیاط کیا کرو، صرف وہی بات میری طرف منسوب کیا کرو جس کا تمہیں یقینی علم ہو، جس نے مجھ پر دانستہ جھوٹ بولا ،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے اور جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی ،وہ (بھی )اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، (ترمذی: 2951)‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ علمائے حدیث نے بڑی عرق ریزی اورباریک بینی سے احادیث کی چھان بین کی ، حدیث کے راویوں کے احوال قلم بند کیے ،لوگوں کی وضع کردہ احادیث کو چھان بین کر کے الگ کیا، کھرے کو کھوٹے سے ممتاز کیا، موضوع احادیث پر کتابیں لکھیں، علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں:

’’شعبی بیان کرتے ہیں :میں ایک مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، میرے پاس ایک لمبی ڈاڑھی والا شخص بیٹھا وعظ کر رہا تھا ، اس کے گرد لوگوں کا ایک بڑا حلقہ تھا، اس نے بیان کیا :’’ فلاں نے فلاں سے اور فلاں نے فلاں سے اور اس نے نبی ﷺسے یہ حدیث بیان کی : اللہ تعالیٰ نے دو صور بنائے ہیں اور ہر صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا، ایک بار پھونکنے سے لوگ بے ہوش ہوں گے اور دوسری بار قیامت کے لیے پھونکا جائے گا‘‘، شعبی کہتے ہیں:مجھ سے برداشت نہ ہوا، میں نمازجلدی ختم کر کے اس کی طرف مڑا اور کہا: شیخ!اللہ سے ڈرو اور غلط بیانی نہ کرو، اللہ تعالیٰ نے صرف ایک صور پیدا کیا ہے ، اسی کو دوبار پھونکا جائے گا، اُس شیخ نے کہا:اے فاجر!مجھ سے فلاں، فلاں نے یہ حدیث بیان کی ہے اور تُو مجھ پر ردّ کرتا ہے، پھر اس نے اپنی جوتی اُٹھا کر مجھے پیٹنا شروع کر دیا اور اس کی پیروی میں اس کے تمام مریدوں نے بھی مجھے اپنے جوتوں سے مارنا شروع کر دیا ۔ بخدا!ان لوگوں نے مجھ کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ انہوں نے مجھ سے یہ نہیں کہلوالیا کہ اللہ تعالیٰ نے تین صور پیدا کیے ہیں،(موضوعاتِ کبیر،ص:12، مطبوعہ:مطبع مجتبائی، دہلی)۔

حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن المعروف بابن عساکرمتوفّٰی571ھ بیان کرتے ہیں:

’’ہارون الرشید کے پاس ایک زندیق کو لایا گیا، خلیفہ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا، اس زندیق نے کہا: مجھ کو توتم قتل کر دو گے، لیکن چار ہزار حدیثوں کا کیا کرو گے جن کومیں نے وضع کر کے لوگوں میں پھیلا دیا ہے، ان میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے اور ان میں نبیﷺکا فرمایا ہوا ایک حرف بھی نہیں ہے،ہارون الرشید نے کہا:اے زندیق!تُو عبداللہ بن مبارک اور ابن اسحاق الفزاری کو کیا سمجھتا ہے، ان کی تنقید کی چھلنی سے تیری وضع کی ہوئی حدیثوں کا ایک ایک حرف نکل جائے گا،(تاریخ دمشق ج:7، ص:127)‘‘۔الغرض سوشل میڈیا پر ایسی خرافات کی یلغار ہے اور لوگ صحیح اور غلط کی تمیز کیے بغیرہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلادیتے ہیں، اس کی بابت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ثبوت ہی کافی ہے کہ وہ (تحقیق کیے بغیر) ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا پھرے، (سنن ابودائود:4992)‘‘۔

علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں:

’’امام احمد اور یحییٰ بن معین نے مسجد رُصافہ میں نماز پڑھی، ان کے سامنے ایک قصہ گو کھڑا ہوا اور اس نے حدیث بیان کی:’’ احمد بن حنبل و یحییٰ بن معین نے عبدالرزاق سے،انھوں نے معمر سے ،انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے : رسول اللہﷺنے فرمایا:جس شخص نے لا الٰہ الااللہ کہا، اللہ تعالیٰ اس کے ہر کلمہ سے ایک پرندہ پیدا کرتا ہے جس کی چونچ سونے کی ہوتی ہے اور پَر مرجان کے ، اس نے بیس ورق کا ایک طویل قصہ بیان کیا‘‘۔ امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے ،ان دونوں نے اس حدیث سے لاعلمی کا اظہار کیا اورقصہ گوواعظ سے پوچھا:تم نے یہ حدیث کس سے روایت کی ہے، اس نے کہا:احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین سے۔یحییٰ بن معین نے کہا:میں یحییٰ بن معین ہوں اور یہ احمد بن حنبل ہیں، ہم نے رسول اللہﷺکی یہ حدیث ہرگز روایت نہیں کی، تم کیوں رسول اللہ ﷺپر جھوٹ باندھتے ہو، اس نے کہا:میں ایک عرصہ سے سن رہا تھا کہ یحییٰ بن معین احمق آدمی ہے، آج مجھے اس کی تصدیق ہو گئی، یحییٰ نے پوچھا:کیسے، اس نے کہا:تم یہ سمجھتے ہو کہ دنیا میں صرف تمھی یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل ہو، میں سترہ ایسے آدمیوں سے حدیث روایت کرتا ہوں جن کا نام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین ہے اور ان کا مذاق اُڑا کر چل دیا،(موضوعات کبیر،ص:12)‘‘۔

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:’’حدیث کے موضوع ہونے پر ایک قرینہ یہ ہے : کسی معمولی سی بات پر بہت سخت عذاب کی وعید ہو یا کسی معمولی سے کام پر بہت عظیم ثواب کی بشارت ہو اور یہ چیز بازاری لوگوں اور قصے اور واقعات بیان کرنے والوں کے ہاں بکثرت موجود ہے،(اَلنُّکَتْ عَلٰی کِتَابِ ابْنِ الصَّلَاح،ج:2،ص:843-844)‘‘۔

اسی طرح ہمارے ہاں رمضان المبارک اور ربیع الاول کی آمد سے قبل ایک من گھڑت حدیث سوشل میڈیا پرپھیلائی جاتی ہے:’’ جس نے سب سے پہلے رمضان المبارک کی یا ربیع الاول کی آمد کی اطلاع دی، اس کو جہنم سے آزاد کر دیا جاتا ہے‘‘،اس طرح کی حدیث کسی بھی صحیح بلکہ ضعیف اور موضوع احادیث پر لکھی گئی کتب میں بھی نہیں ملتی، اس لیے اس کی نسبت رسول اللہ ﷺکی طرف کرنا درست نہیں ہے،پس اس طرح کے پیغامات دوسروں کونہیں بھیجنے چاہییں۔

حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا:کیا مسلمان بزدل ہوسکتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں!(ایسا ہوسکتا ہے)، پھر سوال ہوا:کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں!(ایسا ہوسکتا ہے)، پھر سوال ہوا: کیا مسلمان جھوٹاہوسکتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں، (موطا اما م مالک:3630)‘‘۔لیکن ہمارے ہاں سچ جھوٹ میں تمیز ختم ہوگئی ہے ، ہر ایک کا اپنا سچ ہے اور ہر ایک کو وہی سچ قبول ہے جو اُس کے فائدے میں ہو، مثلاً: ایک پاپولر لیڈر اپنی ہر تقریر میں کہتے ہیں: ہمارے ہاںدُہرا عدالتی معیار ہے ،امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ ،لیکن جب اُن کی اپنی ذات کا مسئلہ آتا ہے تو یکساں عدالتی معیار انھیں کسی صورت میں قبول نہیں ہے، وہ اپنے لیے امتیاز چاہتے ہیں۔

اسی طرح ایک ہی بات کی ہر ایک مَن پسند تاویل کرتا ہے، جو اُس کے ’’ولیِ نعمت ‘‘کے حق میں ہو اور اُس کے برعکس ہرتاویل مردود ہے،خواہ وہ صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے بجائے اپنے ممدوح اور محبوب کی خوشنودی درکار ہوتی ہے، خواہ اس کا موقف باطل ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح ایک حیلہ یہ تراشا جاتا ہے:’’میری بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا ہے‘‘۔ جب کوئی کلام مرکبِ مفید ہو، اس کی دلالت اپنے مفہوم پر بالکل واضح ہو ، اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے کسی سیاق وسباق کی ضرورت نہ ہو،یعنی اُس کا مفہوم سمجھنا ماقبل اورمابعد پر موقوف نہ ہو ، تو اپنے کلام کے حکم سے بچنے کے لیے ’’سیاق وسباق کے بغیر ‘‘والی تاویل قابلِ قبول نہیں ہوتی، سیاق وسباق کا حوالہ اُس صورت میں قابلِ قبول ہوتا ہے جب اُس کے بغیر کلام سے فائدۂ تامّہ حاصل نہ ہو۔

(جاری ہے)

************
اصول#2
بہترین باتیں کرنا

القرآن:

میرے (مومن) بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہا کریں جو بہترین ہو۔ درحقیقت شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ شیطان یقینی طور پر انسان کا کھلا دشمن ہے۔

[سورۃ الاسراء:53]

اس آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ جب ان کی کافروں کے ساتھ گفتگو ہو تو ان کے ساتھ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ بات کیا کریں کیونکہ غصے کے عالم میں سخت قسم کی باتوں سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور ایسی باتیں شیطان اس لئے کہلواتا ہے کہ ان سے فساد پیدا ہو۔


(1)شیطان کو اصل دشمن سمجھنا چاہیے۔

(2)شیطان کا کام لوگوں میں فساد پیدا کرنا ہے۔

(3)مومنوں پر اچھی گفتگو-بہترین بات-پسندیدہ کلام کرنا(لکھنا) چاہیے۔

(4)بہترین بات وہ ہے کہ جس سے لوگوں میں جھگڑا شروع نہ ہو، اور بری بات وہ ہے کہ جس سے جھگڑا شروع ہو۔

(5)غلطی سے بھی بری بات نہ نکلنے کا دھیان وارادہ کرتے رہنا۔

(6)چھیڑخانی میں قصد وارادے سے پہل کرنے والا شیطان کے قبضہ میں (شیطان کا غلام) ہے۔


شیطان اور اس کے مددگاروں کے اعمال

http://raahedaleel.blogspot.com/2013/03/blog-post_30.html







دیکھی جانے والی حقیقت، سنی کہی ہوئی باتوں سے زیادہ قابلِ یقین ہے۔
آنکھوں سے مشاہدہ کرنا دلی اطمینان اور یقین کا فائدہ دیتا ہے۔

حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ 
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ الْخَبَرُ ‌كَالْمُعَايَنَةِ۔
ترجمہ:
نہیں ہے(سنی سنائی گئی) خبر (درجۂ یقین میں) دیکھی ہوئی کے جیسی۔
[المعجم الأوسط للطبراني:6943، الأحاديث المختارة:1828، مجمع الزوائد:688]
[صحيح الجامع الصغير:5373]
یعنی دیکھنا قطعی علم کا بہترین حصول ہے کیونکہ یہ زیادہ قوی اور یقینی ہے اور اسی (حدیث) سے یہ (مسئلہ) بھی لیا گیا ہے کہ بینائی(دیکھنا) سماعت(سننے) سے بہتر ہے کیونکہ سننے سے فائدہ ہوتا ہے اور خبریں نظر کے برعکس جھوٹ ہوسکتی ہیں۔
[التيسير بشرح الجامع الصغير-المناوي:2 /320]



حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ الْخَبَرُ ‌كَالْمُعَايَنَةِ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ أَخْبَرَ مُوسَى بِمَا صَنَعَ قَوْمُهُ فِي الْعِجْلِ، فَلَمْ يُلْقِ الْأَلْوَاحَ، فَلَمَّا عَايَنَ مَا صَنَعُوا، أَلْقَى الْأَلْوَاحَ فَانْكَسَرَتْ۔
ترجمہ:
کسی چیز کے بارے میں سننا، اس کو آنکھ سے دیکھنے کے برابر نہیں ہوسکتا. چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ان کی قوم کے اس عمل کے بارے میں خبر دی جو انہوں نے گوسالہ پرستی(بیعنی چھڑے کی عبادت) کی صورت میں کیا تھا تو انہوں نے (مارے غصہ کے) تختیوں کو نہیں پھینکا لیکن جب وہ اپنی قوم میں واپس آئے اور اپنی آنکھوں سے قوم کے اس عمل کو دیکھا تو (اس درجہ غضبناک ہوگئے کہ) تختیوں کو پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئیں۔
[مسند احمد:2446]
[صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع:3068][الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان:6213]
[المعجم الأوسط للطبراني:25]
[أمثال الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني:5]
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:3250]
[الأحاديث المختارة:74-76]
[صحيح الجامع الصغير:5374]

تشریح:

کسی چیز کو دیکھتے وقت اس کی حالت خاموشی اور حرکت میں اس کی خبر دینے کے وقت جیسی نہیں ہوتی، کیونکہ آدمی اس کی خبروں سے زیادہ اس بات میں تسکین پاتا (قائم رہتا) ہے جو وہ دیکھتا ہے۔
[التيسير بشرح الجامع الصغير-المناوي:2 /320]
یعنی حاضر وہ جانتا ہے جو غائب کو نہیں معلوم کیونکہ خبر دیکھنے کی طرح نہیں ہے۔
[فيض القدير-المناوي:2014]
مثلا:
آنحضرت ﷺ کی لونڈی حضرت ماریہؓ کو منافقین کے ایک گروہ نے ان کے چچازاد بھائی حضرت مابورؓ سے مُتَّہَم (ملزم وبدنام) کردیا اور یہ خبر اس انداز سے پھیلی کہ خود آنحضرت ﷺ کوبھی اس خبرکا یقین ہوگیا اور کچھ قرائن وشواہد بھی ایسے تھے، جن کی وجہ سے آپ کا یہ یقین بے جا نہ تھا، آپ نے غیرت میں آکر حضرت علیؓ سے فرمایا کہ مابورؓ کو جہاں ملے، جاکر قتل کردو، حضرت علیؓ گئے تو دیکھا کہ وہ ایک کنوئیں میں پاؤں لٹکائے ہوئے بیٹھے ہیں، حضرت علیؓ نے جب ان کو وہاں سے کھینچا تو اس کی وجہ سے ان کا تہ بند کھل گیا، حضرت علیؓ کی نگاہ جب ان کی شرمگاہ پر پڑی تو دیکھا کہ وہ مجبوب ونامرد ہیں؛ انھیں سرے سے ذَکَر (یعنی نر کا آلۂ تناسل) ہی نہ تھا۔
[صحيح مسلم: ‌‌كتاب التوبة، ‌‌باب براءة حرم النبي صلى الله عليه وسلم من الريبة، حدیث نمبر 2771(7023)]
[حاكم:6824]
یہ دیکھ کر حضرت علیؓ نے یہ محسوس کیا کہ اس شخص میں قتل کرنے کی وہ عِلَت(سبب، وجہ) ہی نہیں پائی جاتی جس کی بناء پر مجھے دربارِ رسالت سے حکم ملا تھا تو انھوں نے آنحضرت ﷺ کے اس ظاہری حکم کی تعمیل نہ کی اور واپس جاکر آپ سے یہ ماجرا بیان کیا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"‌أحسَنتَ، الشَّاهِدُ ‌يَرَى ‌مَا ‌لَا ‌يَرَى ‌الْغَائِبُ"۔
بہت اچھا کیا، حاضر وہ کچھ دیکھ سکتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا۔
[جامع الأصول-ابن الأثير:1830 (3/ 513)][الاستيعاب في معرفة الأصحاب-ابن عبد البر:4091]
[صحيح الكتب التسعة وزوائده:4184]

کسی چیز کے بارے میں سننا، اس کو آنکھ سے دیکھنے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے ایک اہم نفسیاتی نکتہ کی طرف ارشاد فرمایا ہے، انسان کا خاصہ ہے کہ وہ آنکھ سے دیکھی ہوئی چیز سے جتنا زیادہ اور جتنی جلدی متاثر ہوتا ہے اتنا زیادہ اور اتنی جلدی سنی ہوئی چیز سے متاثر نہیں ہوتا، اگر اس کو یہ خبر و اطلاع دی جائے کہ تمہارا فلاں عزیز سخت بیمار ہے تو اس کا پریشان اور متفکر ہوجانا فطری امر ہے لیکن اس خبر و اطلاع کے مقابلہ میں، خواہ وہ کتنی ہی یقینی کیوں نہ ہو، اس کے دل و دماغ پر وہ فکر اور پریشانی کہیں زیادہ سخت اور سریع الاثر ہوتی ہے جو اس بیمار عزیز کو آنکھوں سے دیکھ لینے کی صورت میں لاحق ہوتی ہے چناچہ آنحضرت ﷺ نے اسی نکتہ کو ثابت کرنے کے لے یہ واقع بطور مثال پیش فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چلہ کشی) کے لئے جبل طور پر تشریف لے گئے اور وہاں اپنے پروردگار سے راز ونیاز میں مصروف اور اپنی قوم بنی اسرائیل کے لئے آئین الہٰی (تورات) حاصل کرنے میں مشغول تھے تو نیچے وادی سینا میں ان کی قوم نے ایک بد باطن شخص سامری کی قیادت میں گوسالہ کی پوجا شروع کردی، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس واقعہ سے مطلع کیا اور فرمایا کہ موسیٰ! تو جس قوم کی ہدایت کے لئے اس قدر کوشاں اور مضطرب ہو اور یہاں (کوہ طور پر) اس کے لئے میری طرف سے کتاب و ہدایت (تورات) حاصل کررہے ہو، وہ تمہارے پیچھے گوسالہ پرستی کی گمراہی میں مبتلا ہوگئی ہے، یہ سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو رنج ہوا اور غصہ بھی آیا مگر جب وہ قوم کی طرف واپس آئے اور قوم کے لوگوں کو گوسالہ کی سمادھ لگائے اور اس کی پوجا کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ کہیں زیادہ غضب ناک ہوگئے اور اس غیظ وغضب کی بنا پر انہوں نے ان تختیوں کو جن پر تورات لکھی ہوئی تھی زمین پر پھینک دیا جس سے وہ تختیاں ٹوٹ بھی گئیں۔ ان تختیوں کو پھینک کر گویا انہوں نے یہ واضح کیا کہ یہ آئین الہٰی اہل ایمان ہی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، جن لوگوں نے ایمان و عقیدہ کی راہ ترک کر کے کفر اور سرکشی کو اختیار کرلیا ہے ان کے لئے آئین الہٰی پر مشتمل ان تختیوں کو باقی رکھنے کا اب کیا فائدہ رہ گیا۔ تاہم ان تختیوں کے ٹوٹ جانے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ان میں جو کچھ تھا وہ جاتا رہا، ان تختیوں میں جو احکام و فرمان تھے وہ سب کے سب جوں کے توں موجود تھے اور اصل تورات اپنی جگہ باقی تھی۔

‌‌خبر وہ ہے جو کسی ذریعہ(وسیلہ) یا کئی ذرائع(وسائل) سے پہنچے۔


مراتب/درجاتِ یقین:
قرآن مجید میں یقین کے تین مراتب و منازل بیان کئے گئے ہیں:
(1)علم الیقین۔[سورۃ التكاثر:5]
(2)عین الیقین۔[سورۃ التكاثر:7]
(3)حق الیقین۔[سورۃ الواقعہ:95، الحاقہ:51]

امام ابن تیمیہ نے ان تینوں کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ علم الیقین علم کے اس درجہ کا نام ہے جو کسی شخص کو کسی کی بات سننے، کسی دوسرے شخص کے بتلانے اور کسی معاملہ میں قیاس اور غور وفکر کرنے سے حاصل ہو۔ پھر جب اسے آنکھوں سے مشاہدہ اور معائنہ کرلے گا تو اسے عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہوجائے گا۔ اور جب دیکھنے کے بعد اسے چھوئے گا، محسوس کرے گا، اسے چکھے گا اور اس کی حقیقت کو پہچان لے گا تو اسے حق الیقین کا مقام حاصل ہوجائے گا۔ علم الیقین کی مثال یہ ہے کہ کسی شخص نے خبر دی کہ فلاں مقام پر شہد ہے، اب راوی پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی تصدیق کرنا علم الیقین ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ خود آنکھوں سے شہد کے چھتے کا مشاہدہ کرلیا جائے، یہ عین الیقین کا مرتبہ ہے۔ یہ درجہ پہلے مرتبہ کی بہ نسبت اعلیٰ اور یقین و اذعان کے لحاظ سے اونچا مقام رکھتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ لیس المخبر کالمعائن یعنی جو کان سے سن لے وہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا جو آنکھ سے دیکھ لے، حق الیقین کی مثال یہ ہے کہ کسی نے شہد کوچکھ کر اس کا مزہ اور اس کی مٹھاس محسوس کرلی۔ یہ تیسرا درجہ دوسرے درجہ کی نسبت ارفع و اعلیٰ ہے۔



فقہی نکتے:

تفسیر الطبری:5/ 486 سورۃ البقرۃ:260
تفسیر السمرقندی:1/ 551 سورۃ الاعراف:150
سورۃ الزلزال:3، سورۃ التکاثر:7

تحقیق اور حقِ تحقیق۔۔۔۔۔ محلِ تحقیق، ضرورتِ تحقیق اور اہلِ تحقیق

************
القرآن:
اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ بھی ضرور اٹھائیں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی۔۔۔۔
[سورۃ العنکبوت:13]
یعنی جن لوگوں کو انہوں نے گمراہ کیا، ان کے گناہوں کا بوجھ بھی ان کو اٹھانا ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگ گناہوں کی سزا سے بچ جائیں گے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کو تو گناہ ہوگا ہی، لیکن ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی گناہ ہوگا جنہوں نے ان کو گمراہ کیا۔


القرآن:
انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگران مقرر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لیے) تیار۔
[سورۃ ق:18]




************
جھوٹ کی ابلاغ وتبلیغ کا انجام:

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي قَالَا : الَّذِي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ فَكَذَّابٌ يَكْذِبُ بِالْكَذْبَةِ تُحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الْآفَاقَ فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ " .
ترجمہ:
حضرت سمرۃ بن جندب ؓ سے روایت کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ شخص جس کو آپ نے معراج کی رات میں دیکھا تھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے تھے وہ بہت بڑا جھوٹا تھا اور اس طرح جھوٹی باتیں اڑاتا تھا کہ دنیا کے تمام گوشوں میں وہ پہنچ جاتی تھیں قیامت تک اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
[صحيح البخاري » كِتَاب الْأَدَبِ » ... رقم الحديث: 6096]





فقہی نکتے:

(1)ادب کا بیان:-
اللہ تعالیٰ کا فرمان:- اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔(سورۃ التوبہ:119)

(2)جھوٹ کی سرزنش کرنا۔
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي: صفحہ158]

(3)(موت کے بعد) قبر کے عذاب کا ثبوت:
Translation is too long to be saved
باب: اس بات کا ثبوت کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے پیدا کرتا ہے جنہوں نے دنیا کے حالات کو چھوڑ دیا ہے جس کا نہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا ادراک، جس میں (نیک) لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسروں (برے لوگوں) کو تکلیف ہوتی ہے۔ {ان پر فرشتے اترتے ہیں: نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کی بشارت دو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا} [سورہ فصلت: 30] امام مجاہدؒ نے کہا: وہ موت کے وقت ہے۔
[إثبات عذاب القبر للبيهقي: صفحہ 76]

(4)سچائی کی حوصلہ افزائی اور جھوٹ کی حوصلہ شکنی۔
[صحيح الترغيب والترهيب:2935]

(5)جھوٹ کی حرمت(حرام ہونے) کا بیان
[رياض الصالحين ت الفحل : صفحہ433]

(6)خواب(کی تعبیر) کا بیان
[مشكاة المصابيح:4621]

(7)قبر یا برزخ کا عذاب روح وبدن دونوں کو ہوتا ہے۔
[الروح - ابن القيم:1 / 171]

(8)چار سو شالیسواں بڑا گناہ:- وہ جھوٹ جس میں حد (کی سزا) اور ضرر ونقصان ہو۔
[الزواجر عن اقتراف الكبائر:2 / 323]

(9)ہلاکت اس کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔
[سبل السلام-الصنعاني:2 /683 ]

(10)معجزات اور عقائد کے درمیان سنت:
اسراء و معراج مسلمانوں اور آپ ﷺ کے دشمنوں کے درمیان
[السنة المفترى عليها-سالم البهنساوي: صفحہ204]

(11)چھوٹی قیامت(موت)
[القيامة الصغرى-عمر سليمان الأشقر: صفحہ60]

(12)دکھلاوے کیلئے جھوٹ پھیلانا۔
[مجلة البحوث الإسلامية:11 /204]

(13)‌‌فرشتوں کے کاموں میں سے انسانوں کی روح قبض کرنا، قبر میں ان سے سوال کرنا اور ان میں نافرمانوں اور کافروں کو اذیت دینا بھی ہے۔
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار:1 / 264]

آدابِ تبلیغ اور ضرورتِ تبلیغ


جھوٹ وگمراہی پھیلنے پھیلانے فتنوں کا زمانہ:
اللہ کے آخری پیغمبر محمد ﷺ کی پیش گوئی
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَيْفَ بِكُمْ إِذَا فَسَقَ فِتْيَانُكُمْ ، وَطَغَى نِسَاؤُكُمْ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا لَمْ تَأْمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا رَأَيْتُمُ الْمُنْكَرَ مَعْرُوفًا ، وَالْمَعْرُوفَ مُنْكَرًا ؟ " .
ترجمہ:
اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے اور نہ بُرائی سے منع کروگے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے؟
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: جلد 2 / صفحہ 340]


فقہی نکتے:

(1)زہد کی کتاب:- اللہ کے ذکر(نصیحت یاد) رکھنے کی فضیلت
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:1376]
یعنی زہد یہ ہے کہ دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر اور باقی (اللہ اور اسکی جنت) کو ترجیح دے کہ اللہ کی یاد اور اسکی نصیحت کردہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی عادت اختیار کرے۔

(2)‌‌فتنوں میں عقلوں کی نیچ ہونے اور عقلمند لوگوں کے مٹ جانے کا ذکر
[کتاب الفتن-لنعيم بن حماد(م228ھ): حدیث#111]

(3)آزمائش جس میں بردبار بھی الجھ کر حیران وپریشان ہو۔
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر-ابن أبي الدنياؒ(م281ھ) : حدیث#32]

(4)اسلام کی کڑیاں ٹوٹنے، اور دین کو دفن کرنے اور بدعات(اعلانیہ گناہوں) کے ظاہر ہونے کا بیان۔
[کتاب البدع-ابن وضاحؒ(م286ھ): حدیث#155]

(5)آخر زمانہ میں اس قوم میں رونما ہونے والی برائیوں(فتنوں، جنگوں) کا تذکرہ۔
[البداية والنهاية - ابن كثير (ت التركي):19 / 50]

جنگوں کے بارے میں
[مسند الفاروق لابن كثير ت إمام:951]

(6)فتن کی کتاب:- جو برائی کو اچھا دیکھے۔
[مجمع الزوائد:12210]

(7)‌‌جو نیکی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے منع کرتا ہے۔
[إتحاف الخيرة المهرة-البوصيري:7404]

(8)شرعی سیاست:-
اللہ بزرگ و برتر نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کو واجب(لازم) کیا ہے اور اسے چھوڑنے پر ڈرایا۔
[تنبيه الغافلين عن أعمال الجاهلين وتحذير السالكين من أفعال الجاهلين-ابن النحاس(م814ھ) : صفحہ 100]
یعنی نیکی وبرائی کی تمیز سکھاتے رہنا۔

(9)برائی کا انکار کرنا بہت بڑا ثواب ہے اور اس کا انکار نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
[الكنز الأكبر من الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر - ابن داود الحنبلي: صفحہ 152]

(10)جنگ صفین کا واقعہ
[الخصائص الكبرى-السيوطي(م911ھ):2/ 264]

(11)‌‌قابل تعریف اخلاق وعادت:- نیکی کا حکم کرنا۔
[كنز العمال:8470]

(12)نیکی کا حکم کرنا، برائی سے روکنا اور نصیحت و مشورہ
[جمع الفوائد-الروداني:7906]

(13)عورتوں کے فتنہ کے بارے میں جو بیان کیا گیا ہے۔
[إتحاف الجماعة-التويجري:1 / 338]
یعنی باریک یا چھوٹے لباس سے ننگی رہنے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا فتنہ۔
[صحيح مسلم:2128، مستخرج أبي عوانة:9285]

عورتوں کے سرکش اور نوجوانوں کے بے حیاء ہونے کے بارے میں۔
[إتحاف الجماعة-التويجري:2 / 136]

(14)اسلام کا غریب(انوکھا، اجنبی) ہوجانا۔
[غربة الإسلام-التويجري:1 /69]

(15)(یہ حدیث)اس قول کہ خطباء چاہتے ہیں کہ وہ بڑی بڑی سناتے رہیں۔ کا رد ہے۔
[الرد على الكاتب المفتون-التويجري: صفحہ9]

(16)آخرت پر ایمان:-
قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ قوم اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کردے گی۔
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: جلد 2 / صفحہ 340]

(17) فتنے میں مبتلا وہ ہے جو اول زمانوں کے بزرگانِ دین جس بات کو نیکی مانتے تھے اسے برائی سمجھنے والا اور وہ بزرگانِ دین جس بات کو برائی مانتے تھے اسے نیکی سمجھنے والا۔

القرآن:
اور (ایمان سے کفر کے طرف) اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد (یعنی اپنے ارادوں میں برباد ہو) جاؤ گے۔
[سورہ المائدۃ:21، تفسير القرآن الكريم وإعرابه وبيانه - الدرة: 2 / 194]


حوالہ جات:

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ
[الزهد والرقائق - ابن المبارك(م181ھ) - ت الأعظمي: حدیث نمبر 1376]
[الأمر بالمعروف-عبد الغني المقدسي(م600ھ): حدیث نمبر 56]
[العلل لابن أبي حاتم(م327ھ):2759]
[جامع الأحاديث-السيوطي(م911ھ) : حدیث نمبر 41392]
[مسند الفاروق لابن كثير(م776ھ):3/ 733،  : حدیث نمبر 951]

عن عمر
[جامع الأصول-ابن الأثيرحدیث#7506]

عن علي بن أبي طالب
[کتاب الفتن-لنعيم بن حماد(م228ھ): حدیث#111]

عَنْ أَبِي هَارُونَ الْمَدِينِيِّ
[کتاب البدع-ابن وضاحؒ(م286ھ): حدیث#155]

عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر-ابن أبي الدنياؒ(م281ھ) : حدیث#32]
[مسند-أبي يعلىؒ(م307ھ) : حدیث#6420]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، لابن أبي الدنيا (سنة الوفاة:281) » حديث: 84]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
[المعجم الأوسط-الطبراني (م360هـ):حدیث#9325]
[مجمع الزوائد-الهيثمي(م807ھ):12210]
[إتحاف الخيرة المهرة-البوصيري(م840ھ):7404]
[الخصائص الكبرى-السيوطي(م911ھ):2/ 264]



دوسری روایت میں ہے:

تین چیزیں ایسی ہیں جب تم انہیں دیکھ لو گے اس وقت آباد ویران اور ویران آباد ہوجائے گا۔ نیکی کو گناہ اور گناہ کو نیکی سمجھا جانے لگے گا، اور آدمی امانت کو یوں رگڑے جیسے اونٹ درخت کو رگڑتا ہے۔
[جامع المسانيد والسنن-ابن كثير(م774ھ):9267، جامع الأحاديث:11106]
[معجم الصحابة للبغوي(م317ھ):1969]

عن محمد بن عروة بن السعدي
[تاريخ دمشق لابن عساكر(م571ھ):11093]
[أسد الغابة في معرفة الصحابة-ابن الأثير(م630ھ):‌‌4756]
[جامع الأحاديث-السيوطي(م911ھ):11106]


************

اصول#3
القرآن:
اور نہ ملاؤ حق کو جھوٹ سے
[سورۃ البقرۃ:42]

بداخلاقی:-دھوکہ کے سال
عَنْ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ , يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ , وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ , وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ , وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ , وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ , قِيلَ : وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ ؟ قَالَ : الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ " .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عنقریب لوگوں پر دھوکے اور فریب کے چند سال آئیں گے کہ ان میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور اس زمانہ میں رویبضہ بولے گا۔ پوچھا گیا: رویبضہ کون ہے؟ فرمایا: وہ آدمی جو عوامی معاملات کے بارے میں حقیر (نااہل) آدمی بات چیت کرے گا۔ 
[مسند أحمد:7912+8459+13298، مسند البزار:2740، مسند أبي يعلى:3715، مسند الروياني:588+593]

تشریح:

حقیر آدمی یعنی معمولی، سادہ، کم علم۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجه:4036 (2 /494)]
یعنی جو اہل نہیں عوامی اجتماعی معاملات میں گفتگو کرنے کے، پھر بھی کلام کرے۔
[الاعتصام للشاطبي ت الهلالي: 2 / 681]
کیونکہ وہ اپنی چرب زبانی(مہارت) سے سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا، امانتدار کو خائن اور خائن کو امانتدار قرار دیکر (غیرماہر) عوام کو دھوکہ میں ڈالے گا۔

دوسری روایت میں یہ فرمان منقول ہے:
«‌السَّفِيهُ ‌يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»۔
بے وقوف عام انتظاما میں بولے گا۔
[مسند أحمد:7912، المستدرك على الصحيحين للحاكم:8564]

اور حضرت انس بن مالکؓ کی روایت سے یہ فرمان پہنچا ہے:
«‌الْفَاسِقُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ ‌الْعَامَّةِ»۔
نافرمان کلام کرے گا عوامی معاملات میں۔‌
[جامع المسانيد لابن الجوزي:474، مجمع الزوائد:12226]
یا فرامایا:
«‌الْفُوَيْسِقُ ‌يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»۔
[مسند أحمد:13298، مسند أبي يعلى:3715، شرح مشكل الآثار-الطحاوي:465]

اور حضرت عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ سے روایت ہے:
«‌مَنْ ‌لَا ‌يُؤْبَهُ ‌لَهُ»۔
"جو اس (کی حساسیت) کی پرواہ نہیں کرتا۔"
[مسند الروياني:588، شرح مشكل الآثار-الطحاوي:464، المعجم الكبير للطبراني:125، مجمع الزوائد:12469]

القرآن:
اب کیا یہ (کافر) لوگ قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ یکایک ان پر آن پڑے ؟ (اگر ایسا ہے) تو اس کی علامتیں تو آچکی ہیں۔ پھر جب وہ آہی جائے گی تو اس وقت ان کے لیے نصیحت ماننے کا موقع کہاں سے آئے گا ؟
[سورۃ محمد:18][الدر المنثور في التفسير بالمأثور-السيوطي:7 /474]



فقہی نکتے:

‌‌(1) قیامت کی (چھوٹی) نشانیاں
[الجامع - معمر بن راشد:20803، المصنف - عبد الرزاق:21880]

(2)‌‌دجال کے ظہور سے پہلے کی نشانیاں۔
[الفتن لنعيم بن حماد:1470]

(3)فتنوں کے بابت کتاب، مصیبت پر صبر کرنے-وقت کی شدت کا باب۔
[سنن ابن ماجه:4036]

(4)الرویبضہ، جس کا ذکر دجال سے پہلے کے سالوں کی تفصیل میں کیا گیا ہے، لوگوں میں سے کون ہوں گے؟
[شرح مشكل الآثار-الطحاوي:464+466]

(5)امانت(یعنی راز، عہدے، وعدے وغیرہ) کی حفاظت اور خیانت کی مذمت کا بیان
[مكارم الأخلاق للخرائطي:183]

(6)اللہ بلند وبرتر نے اپنے پیغمبر ﷺ کو انکی امت پر کچھ باتوں کی اطلاع دی جو قیامت تک ہونے والی ہیں۔
[شرح السنة للبربهاري: صفحہ 94]

(7)‌‌آخری زمانہ، اور قیامت کی (چھوٹی) نشانیوں وغیرہ کا ذکر
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2731+2777+2818]

(8)اس پہلو کی وضاحت میں جس میں (دینی ودنیاوی دشمنوں سے غافل رہنے کے سبب) فساد عام مسلمانوں میں داخل ہوں گے۔
[الحوادث والبدع-الطرطوشي: صفحہ 79]

(9)وہ باتیں جن سے پہلے قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ واقع نہ ہو جائیں، بشمول جو کچھ ہو چکا ہے، اور کچھ جو ابھی نہیں ہوئی ہیں۔
[البداية والنهاية-ابن كثير:19 / 277]

(10)نبوی پیشن گوئی کا اشارہ کہ اسلامی امت(قوم) میں جہنم کی طرف بلانے والے لوگ(جاسوس-منافق) ہوں گے۔
[النهاية في الفتن والملاحم-ابن كثير:1 /103]

(11)بہت سارے فتنے، حادثات اور فریب کے سالوں کا آنا۔
[صفات رب العالمين - ابن المحب الصامت - ناقص:5 /72 ]

(12)مخالفت کے اسباب میں:-نظریات میں غلط (بغیرعلم ودلیل محض اٹکلوں اور خوہشات پر مبنی) دعوے کرنا ہے۔
[الاعتصام للشاطبي ت الهلالي: 2 / 680]

(13)سچے کا انکار کرنا اور جھوٹے کو ماننا
[المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي:1831]

(14)اسلام کا اجنبی ہوگا:- اصاغر(یعنی چھوٹوں-بعد والوں)سے علم حاصل کرنے(کے سبب)۔
[غربة الإسلام-التويجري:1 /87]

(15)رسول کریم ﷺ کے بہترین اخلاق میں انعامات کی تازگی ہے:-
بداخلاقی سے اچھے اخلاق کی طرف:-
(1)خیانت کے مقابلے امانت اختیار کرنا
[نضرة النعيم في مكارم أخلاق الرسول الكريم:10 /4489]
(2)بیوقوفی کے بجائے عقلمندی اختیار کرنا۔
[نضرة النعيم في مكارم أخلاق الرسول الكريم:10 /4640]

‌‌(16)ایمانیات:- قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے امانت دار کی خیانت اور خیانت کرنے والے کی حفاظت ہے۔
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: 2 / 365]

(17)معاملہ کسی ایسے شخص کو سونپنا جو اس کا مستحق نہ ہو۔
[الدار الآخرة - محمد حسان: 17 / 17]
ہر فن میں ان کے ماہرین کی رائے ہی معتبر ہے۔ جیسے میڈیکل میں ڈاکٹرز کی، دین میں علماء کی وغیرہ


خلاصة حكم المحدث : صحيح
[ صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 3277 المحدث : الألباني]
خلاصة حكم المحدث : صحيح الإسناد
[المستدرك الصفحة أو الرقم: 5/659]
خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن ومتنه صحيح
[مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 15/37 (16/194) المحدث : أحمد شاكر]
تفسیر سورة طه:١٥-١٦
[مشكل الآثار للطحاوي » بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ... رقم الحديث: 400]







اصول#4
حقِ تحقیق:- رسول کے بعد 
﴿‌أُولِي ‌الْأَمْرِ﴾ کو:

القرآن :
اور جب ان کو کوئی بھی خبر پہنچتی ہے، چاہے وہ امن کی ہو یا خوف پیدا کرنے والی، تو یہ لوگ اسے (تحقیق کے بغیر) پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ اور اگر یہ اس (خبر) کو رسول کے پاس یا اصحاب اختیار کے پاس لے جاتے تو ان میں سے جو لوگ اس کی کھوج نکالنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے۔ (50) اور (مسلمانو) اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تھوڑے سے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
[سورہ النساء:83]

تشریح :
(50)بعض لوگ مدینہ منورہ میں بلا تحقیق افواہیں پھیلادیا کرتے تھے جس سے معاشرہ میں بڑا نقصان ہوتا تھا یہ آیت ایسی بےتحقیق افواہوں پر یقین کرلینے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی ممانعت کررہی ہے۔

یعنی ان منافقوں اور کم سمجھ مسلمانوں کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب کوئی بات امن کی پیش آتی ہے مثلًا رسول اللہ ﷺ کا کسی سے صلح کا قصد فرمانا یا لشکر اسلام کی فتح کی خبر سننا یا کوئی خبر خوفناک سن لیتے ہیں جیسے دشمنوں کا کہیں جمع ہونا یا مسلمانوں کی شکست کی خبر آنا تو ان کو بلا تحقیق کئے مشہور کرنے لگتے ہیں اور اس میں اکثر فساد و نقصان مسلمانوں کو پیش آ جاتا ہے۔ منافق ضرر رسانی کی غرض سے اور کم سمجھ مسلمان کم فہمی کی وجہ سے ایسا کرتے تھے۔
       اور کہیں سے کچھ خبر آئے تو چاہئے کہ اول پہنچائیں سردار(حاکموں) تک اور اس کے نائبوں تک جب وہ اس خبر کو تحقیق اور تسلیم کر لیویں تو ان کےکہنے کےموافق اس کو کہیں نقل کریں اور اس پر عمل کریں۔ فائدہ حضرت نے ایک شخص کو ایک قوم کے یہاں زکوٰۃ لینے کو بھیجا وہ قوم اس کے استقبال کو باہر نکلی اس نے خیال کیا کہ میرے مارنے آئے ہیں لوٹ کو مدینہ میں آ گیا اور مشہور کر دیا کہ فلاں قوم مرتد ہو گئ تمام شہر میں شہرت ہو گئ آخر کو (یہ بات) غلط نکلی۔

       اور اگر اللہ اپنے فضل سے تمہاری اصلاح اور تربیت کے لئے احکام نہ بھیجتا اور تم کو وقتًا فوقتًا حسب ضرورت ہدایت اور تنبیہ نہ فرماتا رہتا جیسا کہ اس موقع پر رسول اور سرداروں کی طرف رجوع کرنے کو فرمایا تو تم گمراہ ہو جاتے مگر چند خواص جو کامل العقل اور کامل الایمان ہیں۔ ان تنبیہات کو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھو اور شکر کرو اور پوری تعمیل کرو۔

شیطان اور اس کے مددگاروں کے اعمال

http://raahedaleel.blogspot.com/2013/03/blog-post_30.html











غیر عالم کی فتویٰ اور راۓ:

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا " ، قَالَ الْفِرَبْرِيُّ : حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ ... رقم الحديث: 99(100)]

ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کو موت دیکر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی گمراہ کریں گے۔

[احمد (6511+6787) وأخرجه عبد الرزاق (20481) ، وابنُ أبي شيبة 15/177، والحميدي (581) ، وابن المبارك في "الزهد" (816) ، والدارمي 1/77، والبخاري (100) ، ومسلم (2673) (13) ، وابن ماجه (52) ، والترمذي (2652) ، والنسائي في "الكبرى" (5907) ، وابن حبان (4571) و (6719) و (6723) ، والطبراني في "الأوسط" (55) و (992) ، والبغوي (147) ، وأبو نعيم في "الحلية" 10/25، و"تاريخ أصبهان" 1/196 و2/138 و142، والبيهقي في "الدلائل" 6/543، و"المدخل" (850) و (851) ، وابن عبد البر في "جامع بيان العلم" ص 198، 201، والخطيب في "تاريخ بغداد" 3/74 و4/282 و8/368 و10/375 من طرق، عن هشام بن عروة، بهذا الإسناد.
وأخرجه الطيالسي (2292) ، وعبد الرزاق (20477) ، وأبو نعيم في "الحلية" 2/181، من طريقين عن يحيى بن أبي كثير، عن عروة بن الزبير، به.

وأخرجه مسلم (2673) (14) ، والبيهقي في "المدخل" (852) من طريق أبي الأسود، عن عروة بن الزبير، عن عبد الله بن عمرو.
وأخرجه عبد الرزاق (20481) من طريق هشام بن عروة، عن قتادة، عن عبد الله بن عمرو.

وأخرجه مسلم (2673) (13) أيضاً من طريق عمر بن الحكم، عن عبد الله بن عمرو.
وأخرجه الطبراني في "الأوسط" (2322) ، وابن عدي في "الكامل" 5/1965 من طريق الأعمش، عن خيثمة، عن عبد الله بن عمرو.

وسيرد برقم (6896) .
وفي الباب عن أبي أمامة، وسيرد 5/266.

وعن عائشة عند البزار (233) (زوائد) ، وقال: تفرد به يونس، ورواه معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عبد الله بن عمرو -قلنا: هذه الرواية سترد برقم (6896) -، وعند الخطيب في "تاريخ بغداد" 5/313.
وعن أبي هريرة عند ابن أبي شيبة 15/176-177، وابن عدي 5/1865.

وعن ابن عباس عند الدارمي 1/78.
وعن مالك بن عوف الأشجعي عند البزار (232) .

وعن ابن عمر عند البزار (235) .]
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 101, - علم کا بیان : علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا]




علم، علماء کی موت سے اٹھالیا جائے گا:

أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ سُهَيْلٍ مَوْلَى يَحْيَى بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، قَالَ : " لَا يَأْتِي عَلَيْكُمْ عَامٌ إِلَّا وَهُوَ شَرٌّ مِنْ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ ، أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَعْنِي عَامًا أَخْصَبَ مِنْ عَامٍ ، وَلَا أَمِيرًا خَيْرًا مِنْ أَمِيرٍ ، وَلَكِنْ عُلَمَاؤُكُمْ وَخِيَارُكُمْ وَفُقَهَاؤُكُمْ يَذْهَبُونَ ، ثُمَّ لَا تَجِدُونَ مِنْهُمْ خَلَفًا ، وَيَجِيءُ قَوْمٌ يَقِيسُونَ الْأُمُورَ بِرَأْيِهِمْ " .
[سنن الدارمي » بَاب تَغَيُّرِ الزَّمَانِ وَمَا يَحْدُثُ فِيهِ ... رقم الحديث: 190(194)]

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں تمہارا آنے والا ہربرس گزرے ہوئے برس سے زیادہ برا ہوگا میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک سال دوسرے سال سے زیادہ خراب ہے یا ایک حکمران دوسرے حکمران سے زیادہ بہتر ہے بلکہ تمہارے علماء تمہارے معزز لوگ اور تمہارے فقہاء رخصت ہوجائیں گے پھر تمہیں ان کا حقیقی نائب نہیں ملے گا اور وہ لوگ آجائیں گے جو معاملات میں اپنی رائے کے ذریعے قیاس کرکے حکم بیان کریں گے۔
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 190, - مقدمہ دارمی : زمانے میں تبدیلی آنے اور اس میں نئے امور پیدا ہونے کا تذکرہ]


تخريج الحديث

البدع لابن وضاح: ، 78(1/61) + 228(1/159)، المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي:147 (1/188)، جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر:[2007]1219+1220+1221(2 / 1042-1043)، الإتحاف:13235



تشريح :
(١) اس حديث میں واضح طور پر فتویٰ دينا علماء كا كام قرار ديا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں وہ ان کا حکم بتائیں، اور لوگ اس پر عمل کریں، یہی حاصل ہے تقلید (ائمہ و علماء) کا.


(٢) نبی صلی الله علیہ وسلم نے (بعد کے) ایک ایسے زمانہ کی خبر دی، جس میں علماء مفقود ہوجائیں گے، اور (فقہِ دین - قرآن:9/122) جاہل قسم کے لوگ فتویٰ دینے شروع کردیں گے، یھاں سوال یہ ہے کہ اس دور میں احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی سواۓ اس کے اور کیا صورت ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ گزرے ہوے (علم و عمل میں معتبر) علماء کی تقلید کریں،کیونکہ جب زندہ لوگوں میں کوئی عالم نہیں بچا تو کوئی شخص براہِ راست قرآن و سنّت سے احکام مستنبط کرنے کا اہل رہا، اور نہ ہی کسی (معتبر) زندہ عالم کی طرف رجوع کرنا اس کی قدرت میں ہے، کیونکہ کوئی عالم موجود ہی نہیں، لہذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں رہتی کہ جو علماء وفات پاچکے ہیں اس کی تصانیف وغیرہ کے ذریعہ ان کی تقلید کی جاۓ.

لہذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک علماءِ اہلِ اجتہاد موجود ہوں اس وقت ان سے مسائل معلوم کے جائیں، اور ان کے فتووں پر عمل کیا جاۓ، اور جب کوئی علم باقی نہ رہے تو نااہل لوگوں کو مجتہد سمجھہ کر  ان کے فتووں پر عمل کرنے کی بجاۓ گزشتہ علماء میں سے کسی کی تقلید کی جاۓ.





 سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ " ، زَادَ سُلَيْمَانُ الْمَهْرِيُّ فِي حَدِيثِهِ : وَمَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِأَمْرٍ يَعْلَمُ أَنَّ الرُّشْدَ فِي غَيْرِهِ فَقَدْ خَانَهُ ، وَهَذَا لَفْظُ سُلَيْمَانَ .

ترجمہ:
حضرت ابوہریرهؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے بغیر علم کے فتویٰ دیا تو اس کا گناہ بھی فتوی دینے والے پر ہوگا۔ سلیمان المہری نے اپنی روایات میں اتنا اضافہ اور کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے بھائی کو ایسے کام کا مشورہ دیا جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ فائدہ اس کے غیر میں ہے تو اس نے خیانت کی۔


تشریح:

مثلاً ایک جاہل آدمی کسی عالم کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے آیا عالم نے سائل کو اس کے سوال کا صحیح جواب نہیں دیا بلکہ کم علمی یا کسی دوسری وجہ سے غلظ مسئلہ بتا دیا۔ اس جاہل نے یہ جانتے ہوئے کہ یہ مسئلہ غلط ہے۔ اس پر عمل کر لیا تو اس کا گناہ اس جاہل آدمی پر نہیں ہوگا بلکہ اس عالم پر ہوگا جس نے اسے غلط مسئلہ بتا کر غلط عمل کرنے پر مجبور کیا لیکن شرط یہ ہے کہ عالم نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی ہو۔
حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے کسی بھائی کی بد خواہی اس طرح چاہی کہ اسے اس چیز کا مشورہ دیا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے بلکہ دوسرے امر میں ہے تو یہ اس کی خیانت ہے وہ اپنے غیر اخلاقی وغیر شرعی عمل کی بنا پر خائن کہلاے گا۔




اصول#5
کسی کی بُرائی مشہور نہ کرو:

القرآن:

اللہ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔
[سورہ النساء:148]

تشریح :

یعنی اگر کسی میں دین یا دنیا کا(ذاتی) عیب معلوم ہو تو اس کو مشہور نہ کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ سب کی بات سنتا ہے اور سب کے کام کو جانتا ہے ہر ایک کو اس کے موافق جزا(بدلہ) دے گا، اسی کو غیبت(غائبانہ برائی/عیب بیان کرنا) کہتے ہیں، البتہ مظلوم کو رخصت(اجازت) ہے کہ ظالم کا ظلم لوگوں سے بیان کرے (ہر کسی کو اجازت نہیں)، ایسے ہی بعضی اور (اجتمائی ظلم کی) صورتوں میں بھی غیبت روا(جائز) ہے۔ اور یہ حکم شاید اس لئے فرمایا کہ مسلمان کو چاہئے کہ کسی منافق کا نام مشہور نہ کرے اور علی الاعلان اس کو بدنام نہ کرے اس میں وہ بگڑ کر شاید بے باک(اور ناقابلِ اصلاح) ہو جائے، (1)بلکہ مُبہم(غیرواضح) (انداز میں) نصیحت کرے منافق خود سمجھ لے گا، (2)یا تنہائی میں نصیحت کرے اس طرح شاید ہدایت قبول کر لے، چنانچہ اللہ کے پیغمبر ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے، کسی کا نام لے کر مشہور نہیں فرماتے تھے۔

آدابِ تبلیغ اور ضرورتِ تبلیغ



ظلم پر احتجاج:
ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اپنے پڑوسی کی شکایت کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: جاؤ صبر کرو پھر وہ آپ کے پاس دوسری یا تیسری دفعہ آیا، تو آپ نے فرمایا: جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں ڈھیر کر دو تو اس نے اپنا سامان نکال کر راستہ میں ڈال دیا، لوگ اس سے وجہ پوچھنے لگے اور وہ پڑوسی کے متعلق لوگوں کو بتانے لگا، لوگ (سن کر) اس پر لعنت کرنے اور اسے بد دعا دینے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ایسا کرے، اس پر اس کا پڑوسی آیا اور کہنے لگا: اب آپ (گھر میں) واپس آجائے آئندہ مجھ سے کوئی ایسی بات نہ دیکھیں گے جو آپ کو ناپسند ہو۔
[سنن ابو داؤد:5153، صحيح ابن حبان:520]




اور اگر ظالم میں حیاء(لوگوں کا خوف) نہ ہو تو۔۔۔۔
حضرت مخارق سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرا مال چھیننا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے اللہ تعالیٰ سے نصیحت کر۔‘‘ اس نے کہا: اگر وہ نصیحت نہ مانے تو؟ آپ نے فرمایا: اپنے آس پاس کے مسلمانوں سے مدد حاصل کر۔ اس نے کہا: اگر میرے آس پاس کوئی مسلمان نہ ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: سلطان سے مدد طلب کر۔ اس نے کہا: اگر سلطان بھی مجھ سے دور ہو؟ فرمایا: پھر اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑائی کر حتی کہ تو آخرت میں شہید بن جائے یا اپنے مال کو بچالے۔
[سنن النسائی:4086]





اور اگر حکمران ہی ناانصافی کرے تو۔۔۔
حضرت عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تمہارے بہترین امام(leader)وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لیے دعا کرو(جنازہ پڑھو) اور وہ تمہارے لیے دعا کریں(جنازہ میں شریک ہوں)۔ اور تمہارے بدترین امام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔
[ترمذی:2264]
عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان کو تلوار کے زور سے پھینک(ہٹا)نہ دیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک کہ وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔
[احمد:11224]
اور جب تم اپنے حکمرانوں میں کوئی ایسی چیز دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو اس کے عمل کو ناپسند کرو اور اس کی(دیگر جائز باتوں میں)اطاعت سے نہ جھگڑو۔
[صحیح مسلم:(1855)4804]





گناہ کی پردہ پوشی کرنا اشاعت سے افضل ہے:

1.…حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے ایک محرر نے ایک روز ان سے بیان کیا کہ ہمارے بعض پڑوسی شراب پیتے ہیں، میرا خیال ہے کہ میں محکمہ احتساب(پولیس)میں ان کی اطلاع کردوں۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا مت کرو، بلکہ ان کو سمجھاؤ اور ڈراؤ۔ محرر نے عرض کیا کہ میں یہ سب کچھ کر چکا ہوں، وہ باز نہیں آتے، اس لیے میں تو اب پولیس میں اطلاع کروں گا۔حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:
من ستر عورة فکأنما أحیا موؤدة فی قبرھا․





(ابوداود:4892، الترغیب والترھیب:4/103)

”جو شخص کسی کا عیب چھپاتا ہے وہ اتنا ثواب پاتا ہے جیسے کوئی زندہ درگور لڑکی کو دوبارہ زندہ کر دے“۔
[مسند احمد:17395، صحیح ابن حبان:517، المعجم الوسط للطبراني:6152، مسند الشاميين للطبراني:669، السنن الكبرى للبيهقي:17610]

2.…حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں:
”جو شخص اپنے بھائی کا عیب چھپائے،اللہ تعالیٰ اس کے عیوب قیامت کے دن چھپائیں گے اور جو شخص اپنے بھائی کے عیب کھولتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے عیب کھول دیتے ہیں،یہاں تک کہ اس کو گھر کے اندر بیٹھے ہوئے رسواکر دیتے ہیں۔“
(الترغیب والتر ہیب ص:104)



سب سے بڑا سود:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا نَوْفَلُ بْنُ مُسَاحِقٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ مِنْ أَرْبَى الرِّبَا الِاسْتِطَالَةَ فِي عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَيْرِ حَقٍّ " .
ترجمہ:
حضرت سعید بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سب سے بڑا سود یہ بھی ہے کہ کوئی کسی مسلمان کی آبرو پر ناحق دست درازی کرے.

[صحيح أبي داود الصفحة أو الرقم: 4876 المحدث : الألباني]

[أخرجه أبو داود (4/269، رقم 4876) ، والبيهقى (10/241، رقم 20916) . احمد(1651) المسند للشاشي(208) مسند الشاميين للطبراني(2937) السنن الكبرى للبيهقي(21127) الأحاديث المختارة(1106)]




اصول#6
بے تحقیق زبان سے کوئی بات نہ نکالو:

القرآن
اور نہ پیچھے پڑ جس بات کی (یقینی) خبر نہیں تجھ کو، (کیونکہ) بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کی اس سے پوچھ ہو گی.
[سورۃ بنی اسرائیل : ٣٦]

تشریح :
بے تحقیق بات زبان سے مت نکال ، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر ، آدمی کو چاہیئے کہ کان ، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کر اور بقدر کفایت تحقیق کر کے کوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے ، سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے یوں ہی اٹکل پچو کوئی قطعی حکم نہ لگائے یا عمل درآمد شروع نہ کر دے۔ اس میں جھوٹی شہادت دینا ، غلط تہمتیں لگانا ، بے تحقیق چیزیں سن کر کسی کے درپے آزار ہونا ، یا بغض و عداوت قائم کر لینا ، باپ دادا کی تقلید یا رسم و رواج کی پابندی میں خلاف شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا ، ان دیکھی یا ان سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا ، غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعویٰ کرنا کہ میں جانتا ہوں یہ سب صورتیں اس آیت کے تحت میں داخل ہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت کے دن تمام قویٰ کی نسبت سوال ہو گا کہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیا تھا ، بے موقع تو خرچ نہیں کیا۔
https://youtu.be/Cb0bHzQoMwk









عن أنس رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم : " إذا مدح الفاسق غضب الرب تعالى ، واهتز له العرش " . 

ترجمہ:

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جب فاسق کی مدح و تعریف کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ مدح و تعریف کرنے والے پر غصہ ہوتا ہے اور اس کی مدح و تعریف کی وجہ سے عرش کانپ اٹھتا ہے۔

[مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 794 (41158)- آداب کا بیان۔ : فاسق کی تعریف وتوصیف نہ کرو۔]
[ذم الغيبة والنميمة لابن أبي الدنيا:91، الصمت لابن أبي الدنيا:228، معجم أبي يعلى الموصلي:171  ؛ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  » كتاب الآداب  » باب حفظ اللسان والغيبة والشتم، الفصل الثالث : 4859]
تخريج الحديث

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الله يغضب إذا مدح الفاسقأنس بن مالكالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر28122730ابن حجر العسقلاني852
2الله يغضب إذا مدح الفاسقأنس بن مالكإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة48617260البوصيري840
3إذا مدح الفاسق غضب الرب واهتز العرشأنس بن مالكإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة48627261البوصيري840
4إذا مدح الفاسق غضب الرب واهتز العرشأنس بن مالكمعجم أبي يعلى الموصلي169171أبو يعلى الموصلي307
5إذا مدح الفاسق غضب الربأنس بن مالكمعجم أبي يعلى الموصلي170172أبو يعلى الموصلي307
6إذا مدح الفاسق اهتز لذلك العرش وغضب له الربأنس بن مالكتصحيفات المحدثين1461 : 141الحسن بن عبد الله بن سهل العسكري382
7الله يغضب إذا مدح الفاسق في الأرضأنس بن مالكشعب الإيمان للبيهقي45344885البيهقي458
8إذا مدح الفاسق غضب الرب واهتز له العرشأنس بن مالكشعب الإيمان للبيهقي45354886البيهقي458
9الله يغضب إذا مدح الفاسقأنس بن مالكأخبار أصبهان لأبي نعيم23412 : 246أبو نعيم الأصبهاني430
10إذا مدح الفاسق اهتز لذلك العرش وغضب له الربأنس بن مالكتاريخ بغداد للخطيب البغدادي24148 : 250الخطيب البغدادي463
11إذا مدح الفاسق اهتز العرش وغضب له الربأنس بن مالكتاريخ بغداد للخطيب البغدادي28799 : 413الخطيب البغدادي463
12إذا مدح الفاسق غضب اللهأنس بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر1860820 : 4ابن عساكر الدمشقي571
13إذا مدح الفاسق اهتز العرش وغضب له الربأنس بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر1860920 : 4ابن عساكر الدمشقي571
14إذا مدح الفاسق غضب الله واهتز لذلك العرشأنس بن مالكالصمت وآداب اللسان226229ابن أبي الدنيا281
15الله يغضب إذا مدح الفاسقأنس بن مالكالصمت وآداب اللسان227230ابن أبي الدنيا281
16إذا مدح الفاسق غضب الله واهتز لذلك العرشأنس بن مالكذم الغيبة والنميمة لابن أبي الدنيا8991ابن أبي الدنيا281
17الله يغضب إذا مدح الفاسقأنس بن مالكذم الغيبة والنميمة لابن أبي الدنيا9092ابن أبي الدنيا281



ایک حدیث میں ہے کہ
«‌لَا ‌تَقُولُوا ‌لِلْمُنَافِقِ ‌سَيِّدٌ، فَإِنَّهُ إِنْ يَكُ سَيِّدًا فَقَدْ أَسْخَطْتُمْ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ»
ترجمہ:
منافق (یعنی دل میں کفر اور زبان سے ایمان کا اظہار کرنے والے دوغلے شخص) کو اپنا سردار مت کہو! ایسا کہوگے تو تم اپنے رب کو ناراض کرلوگے۔
[سنن أبي داود: 4977، الأدب المفرد: 760، مسند البزار: 4382]



منافق اور گناہگار میں فرق




ظن (بلا ثبوت و علم کے کسی کے لیے بد گمانی) کی مذمت:

ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيكُم مِن بَعدِ الغَمِّ أَمَنَةً نُعاسًا يَغشىٰ طائِفَةً مِنكُم ۖ وَطائِفَةٌ قَد أَهَمَّتهُم أَنفُسُهُم يَظُنّونَ بِاللَّهِ غَيرَ الحَقِّ ظَنَّ الجٰهِلِيَّةِ ۖ يَقولونَ هَل لَنا مِنَ الأَمرِ مِن شَيءٍ ۗ قُل إِنَّ الأَمرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ۗ يُخفونَ فى أَنفُسِهِم ما لا يُبدونَ لَكَ ۖ يَقولونَ لَو كانَ لَنا مِنَ الأَمرِ شَيءٌ ما قُتِلنا هٰهُنا ۗ قُل لَو كُنتُم فى بُيوتِكُم لَبَرَزَ الَّذينَ كُتِبَ عَلَيهِمُ القَتلُ إِلىٰ مَضاجِعِهِم ۖ وَلِيَبتَلِىَ اللَّهُ ما فى صُدورِكُم وَلِيُمَحِّصَ ما فى قُلوبِكُم ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدورِ {3:154}

پھر تم پر اتارا تنگی کے بعد امن کو جو اونگھ تھی کہ ڈھانک لیا اس اونگھ نے بعضوں کو تم میں سے [۲۳۱] اور بعضوں کو فکر پڑ رہا تھا اپنی جان کا [۲۳۲] خیال کرتےتھے اللہ پر جھوٹے خیال جاہلوں جیسے [۲۳۳] کہتے تھے کچھ بھی کام ہے ہمارے ہاتھ میں [۲۳۴] تو کہہ سب کام ہے اللہ کے ہاتھ [۲۳۵] وہ اپنے جی میں چھپاتے ہیں جو تجھ سے ظاہر نہیں کرتے کہتے ہیں اگر کچھ کام ہوتا ہمارے ہاتھ تو ہم مارےنہ جاتے اس جگہ [۲۳۶] تو کہہ اگر تم ہوتے اپنے گھروں میں البتہ باہر نکلتےجن پر لکھ دیا تھا مارا جانا اپنے پڑاؤ پر [۲۳۷] اور اللہ کو آزمانا تھا جو کچھ تمہارےجی میں ہے اور صاف کرنا تھا اس کا جو تمہارے دل میں ہے اور اللہ جانتا ہے دلوں کے بھید [۲۳۸]

یعنی اس جنگ میں جن کو شہید ہونا تھا ہو چکے، اور جن کو لٹنا تھا لٹ گئے اور جو میدان میں باقی رہے ان میں سے مخلص مسلمانوں پر حق تعالیٰ نے ایک دم غنودگی طاری کر دی لوگ کھڑے کھڑے اونگھنے لگے حضرت طلحہؓ کے ہاتھ سے کئ مرتبہ تلوار چھوٹ کر زمین پر گری۔ یہ ایک حسی اثر اس باطنی سکون و اطمینان کا تھا جو ایسے ہنگامہ رستخیز میں مومنین کے قلوب پر محض خدا کے فضل و رحمت سے وارد ہوا اس کے بعد دشمن کا خوف و ہراس سب کافور ہو گیا۔ یہ کیفیت عین اس وقت پیش آئی جب لشکر مجاہدین میں نظم و ضبط قائم نہ رہا تھا۔ بیسیوں لاشیں خاک و خون میں تڑپ رہی تھیں۔ سپاہی زخموں سے چور چور ہو رہے تھے۔ حضور کے قتل کی افواہ نے رہے سہے ہوش و حواس کھو دیے تھے، گویا یہ سونا بیدار ہونے کا پیام تھا۔ غنودگی طاری کر کے ان کی ساری تھکن دور کر دی گئ اور متنبہ فرما دیا کہ خوف و ہراس اور تشویش و اضطراب کا وقت جا چکا۔ اب مامون و مطمئن ہو کر اپنا فرض انجام دو۔ فورًا صحابہ نے حضور کے گرد جمع ہو کر لڑائی کا محاذ قائم کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد مطلع صاف تھا۔ دشمن سامنے سے بھاگتا نظر آیا۔ (تنبیہ) ابن مسعود فرماتے ہیں کہ عین لڑائی کے موقع پر نعاس (اونگھ کا طاری ہونا اللہ کی طرف سے (فتح و ظفر کی علامت ہے) حضرت علیؓ کی فوج کو "صفین" میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔

یعنی وہ اللہ کے وعدے کہاں گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا قصہ ختم ہوا۔ اب پیغمبر اور مسلمان اپنے گھر واپس جانے والے نہیں۔ سب یہیں کام آئیں گے۔ جیسے دوسری جگہ فرمایا { بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبْ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰی اَھْلِیْھِمْ اَبَدًا } (فتح رکوع ۲)

یعنی کچھ بھی ہمارا کام بنا رہے گا یا بالکل بگڑ چکا۔ یا یہ کہ ہم محمد کا ساتھ دینے والوں کے ہاتھ میں کچھ بھی فتح و ظفر آئی۔ یا یہ معنیٰ کہ اللہ نے جو چاہا سو کیا۔ ہمارا یاکسی کا کیا اختیار ؟ یہ تو الفاظ کے ظاہری معنی تھے، لیکن جو دل میں نیت تھی وہ آگے آتی ہے۔

یعنی منافقین کا یہ قول { ھل لنا من الا مر من شیٔ کلمۃ حق ارید بھا الباطل } ہے۔ بیشک یہ صحیح ہے کہ تمہارے ہاتھ میں کچھ نہیں، سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جس کو چاہے بنائے یا بگاڑے، غالب کرے یا مغلوب، آفت بھیجے یا راحت، کامیاب کرے یا ناکام۔ ایک ہی واقعہ کو ایک قوم کے حق میں رحمت اور دوسری کے لئے نقمت بنا دے۔ سب اس کے قبضہ میں ہے۔ مگر تم اس قول سے اپنے دل میں جو معنی لے رہے ہو خدا تمہارےدل کے چور سے واقف ہے جسے آگے بیان کیا جائے گا۔

یعنی اللہ تعالیٰ تو دلوں کے پوشیدہ بھید جانتا ہے، اس سے کسی کو ئی حالت پوشیدہ نہیں۔ مقصود یہ تھا کہ تم سب کو ایک آزمائش میں ڈالا جائے۔ تا جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے وہ باہر نکل پڑے، امتحان کی بھٹی میں کھرا کھوٹا الگ ہو جائے۔ مخلصین کامیابی کا صلہ پائیں اور ان کے قلوب آئندہ کے لئے وساوس اور کمزوریوں سے پاک و صاف ہوں۔ منافقین کا اندرونی نفاق کھل جائے اور لوگ صاف طور پر ان کے خبث باطن کو سمجھنے لگیں۔

یعنی اس طعن و تشنیع یا حسرت و افسوس سےکچھ حاصل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی جواجل، موت کی جگہ، سبب اور وقت لکھ دیا ہے کبھی ٹل نہیں سکتا۔ اگر تم گھروں میں گھسے بیٹھے رہتے اور فرض کرو تمہاری ہی رائےسنی جاتی تب بھی جن کی قسمت میں احد کے قریب جس جس پڑاؤ پر مارا جانا لکھا جا چکا تھا وہ کسی نہ کسی سبب سے ضرور ادھر نکلتے اور وہیں مارے جاتے یہ خدا کا انعام ہے کہ جہاں مارا جانا مقدر تھا مارے گئے، مگر اللہ کے راستہ میں خوشی کےساتھ بہادروں کی موت شہید ہوئے۔ پھر اس پر پچھتانے اور افسوس کرنے کا کیا موقع ہے مردان خدا کو اپنے پر قیاس مت کرو۔

یہ بزدل اور ڈرپوک منافقین ہیں جن کو نہ اسلام کی فکر تھی، نہ نبی کریم کی، محض اپنی جان بچانے کی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ کہیں ابوسفیان کی فوج نے دوبارہ حملہ کر دیا تو ہمارا کیا حشر ہو گا۔ اس خوف و فکر میں اونگھ یا نیند کہاں؟

اصل چور دل کا یہ تھا { ھَلْ لَنَامِنَ الْاَمْرِ مِن شیءٍ } کہہ کر دل میں یہ مطلب لیتے تھے اور پکے مسلمانوں سے علیحدہ ہو کر آپس میں بھی کہتے ہونگے کہ میاں شروع میں ہماری رائے نہ مانی۔ چند جوشیلے ناتجربہ کاروں کے کہنے پر مدینہ سے باہر لڑنے چلے گئے۔ آخر منہ کی کھائی اگر کچھ ہمارے اختیار میں ہوتا اور ہمارے مشورہ پر عمل کیا جاتا تو اس قدر نقصان کیوں اٹھانا پڑتا۔ ہماری برادری کے اتنے آدمی مارے گئے، یہ کیوں مارے جاتے (اکثر منافقین نسبًا انصار مدینہ کی برادری میں شامل تھے، اس لئے { مَاقُتِلْنَاھٰھُنَا } میں ان کے مارے جانے کو اپنا مارا جانا کہا) یا یہ مطلب ہے کہ اگر محمد کےکہنے کے موافق فتح و ظفر اور غلبہ مسلمانوں کے لئے ہوتا تو یہ قتل و جرح کی مصیبت ہم پر کیوں ٹوٹتی۔ (تنبیہ) بظاہر یہ باتیں منافقین نے مدینہ میں کہیں۔ کیونکہ عبداللہ بن ابی جنگ شروع ہونےسے پیشتر اپنی جمعیت کو ساتھ لے کر واپس ہو گیا تھا۔ اس صورت میں "ہہنا" کا اشارہ قرب کی وجہ سے احد کی طرف ہوگا۔ لیکن بعض روایات سےایک منافق معتب بن قشیر کا میدان جنگ میں یہ کلمات کہنا ثابت ہوتا ہے۔ تو شائد بعض منافقین عبداللہ بن ابی کے ہمراہ کسی مصلحت سے واپس نہ ہوئے ہونگے۔ واللہ اعلم۔

 

وَقَولِهِم إِنّا قَتَلنَا المَسيحَ عيسَى ابنَ مَريَمَ رَسولَ اللَّهِ وَما قَتَلوهُ وَما صَلَبوهُ وَلٰكِن شُبِّهَ لَهُم ۚ وَإِنَّ الَّذينَ اختَلَفوا فيهِ لَفى شَكٍّ مِنهُ ۚ ما لَهُم بِهِ مِن عِلمٍ إِلَّا اتِّباعَ الظَّنِّ ۚ وَما قَتَلوهُ يَقينًا {4:157}

اور انکے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسٰی مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اللہ کا [۲۲۰] اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا و لیکن وہی صورت بن گئ انکے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بیشک

یعنی نیز اس وجہ سےکہ حضرت عیسٰیؑ سےمنکر ہو کر دوسرا کفر کمایا اور حضرت مریم پر طوفان عظیم باندھا اور ان کے اس قول پر کہ فخر سےکہتے تھے، ہم نے مار ڈالا عیسٰیؑ مریم کے بیٹے کو جو رسول اللہ تھا ان تمام وجوہ سے یہود پر عذاب اور مصیبتیں نازل ہوئیں۔

 

وَإِن تُطِع أَكثَرَ مَن فِى الأَرضِ يُضِلّوكَ عَن سَبيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ {6:116}

اور اگر تو کہنا مانے گا ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو تجھ کو بہکا دیں گے اللہ کی راہ سے وہ سب تو چلتے ہیں اپنے خیال پر اور سب اٹکل ہی دوڑاتے ہیں [۱۶۰]

مشاہدہ اور تاریخ بتلاتے ہیں کہ دنیا میں ہمیشہ فہیم، محقق اور بااصول آدمی تھوڑے رہے ہیں۔ اکثریت ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو محض خیالی، بےاصول اور اٹکل پچو باتوں کی پیروی کرنے والے ہوں۔ اگر تم اسی اکثریت کا کہنا ماننے لگو اور بےاصول باتوں پر چلنا شروع کر دو تو خدا کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ سے یقینًا بہک جاؤ گے۔ یہ آپ پر رکھ کر دوسروں کو سنایا۔

 

سَيَقولُ الَّذينَ أَشرَكوا لَو شاءَ اللَّهُ ما أَشرَكنا وَلا ءاباؤُنا وَلا حَرَّمنا مِن شَيءٍ ۚ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم حَتّىٰ ذاقوا بَأسَنا ۗ قُل هَل عِندَكُم مِن عِلمٍ فَتُخرِجوهُ لَنا ۖ إِن تَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن أَنتُم إِلّا تَخرُصونَ {6:148}

اب کہیں گے مشرک اگر اللہ چاہتا تو شرک نہ کرتے ہم اور نہ ہمارےباپ دادے اور نہ ہم حرام کر لیتے کوئی چیز اسی طرح جھٹلایا کئے ان سےاگلے یہاں تک کہ انہوں نے چکھا ہمارا عذاب تو کہہ کچھ علم بھی ہے تمہارے پاس کہ اس کو ہمارے آگے ظاہر کرو تم تو نری اٹکل پر چلتے ہو اور صرف تخمینے ہی کرتے ہو

 

قالَ المَلَأُ الَّذينَ كَفَروا مِن قَومِهِ إِنّا لَنَرىٰكَ فى سَفاهَةٍ وَإِنّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الكٰذِبينَ {7:66}

بولے سردار جو کافر تھے اس کی قوم میں ہم تو دیکھتے ہیں تجھ کو عقل نہیں اور ہم تو تجھ کو جھوٹا گمان کرتے ہیں [۸۰]

یعنی معاذ اللہ تم بےعقل ہو کہ باپ دادا کی روش چھوڑ کر ساری برادری سے الگ ہوتے ہو اور جھوٹے بھی ہو کہ اپنے اقوال کو خدا کی طرف منسوب کر کے خواہ مخواہ عذاب کا ڈراوا دیتے ہو۔

إِنَّما مَثَلُ الحَيوٰةِ الدُّنيا كَماءٍ أَنزَلنٰهُ مِنَ السَّماءِ فَاختَلَطَ بِهِ نَباتُ الأَرضِ مِمّا يَأكُلُ النّاسُ وَالأَنعٰمُ حَتّىٰ إِذا أَخَذَتِ الأَرضُ زُخرُفَها وَازَّيَّنَت وَظَنَّ أَهلُها أَنَّهُم قٰدِرونَ عَلَيها أَتىٰها أَمرُنا لَيلًا أَو نَهارًا فَجَعَلنٰها حَصيدًا كَأَن لَم تَغنَ بِالأَمسِ ۚ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الءايٰتِ لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ {10:24}

دنیا کی زندگانی کی وہی مثل ہے جیسے ہم نے پانی اتارا آسمان سے پھر رلا ملا نکلا اس سے سبزہ زمین کا جو کہ کھائیں آدمی اور جانور [۳۸] یہاں تک کہ جب پکڑی زمین نے رونق اور مزین ہو گئی اور خیال کیا زمین والوں نے کہ یہ ہمارے ہاتھ لگے گی [۳۹] ناگاہ پہنچا اس پر ہمارا حکم رات کو یا دن کو پھر کر ڈالا اس کو کاٹ کر ڈھیر گویا کل یہاں نہ تھی آبادی اسی طرح ہم کھول کر بیان کرتے ہیں نشانیوں کو ان لوگوں کے سامنے جو غور کرتے ہیں [۴۰]

یعنی ناگہاں خدا کے حکم سے دن میں یا رات میں کوئی آفت پہنچی (مثلاً بگولا آ گیا ، یا اولے پڑ گئے یا ٹڈی دل پہنچ گیا۔ وعلیٰ ہذا القیاس) اس نے تمام زراعت کا ایسا صفایا کر ڈالا ، گویا کبھی یہاں ایک تنکا بھی نہ اگا تھا۔ ٹھیک اسی طرح حیات دنیا کی مثال سمجھ لو کہ خواہ کتنی ہی حسین اور تروتازہ نظر آئے ۔ حتٰی کہ بےوقوف لوگ اس کی رونق و دلربائی پر مفتوں ہو کر اصل حقیقت کو فراموش کر دیں لیکن اس کی یہ شادابی اور زینت و بہجت محض چند روزہ ہے جو بہت جلد زوال و فنا کے ہاتھوں نسیًا منسیًا ہو جائے گی۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اس مثال کو نہایت لطیف طرز میں خاص انسانی حیات پر منطبق کیا ہے۔ یعنی پانی کی طرح روح آسمان (عالم بالا) سے آئی ، کالبد خاکی میں مل کر قوت پکڑی ، دونوں کے ملنے سے آدمی بنا ، پھر کام کئے انسانی اور حیوانی دونوں طرح کے ۔ جب ہر ہنر میں پورا ہوا اور اس کے متعلقین کو اس پر بھروسہ ہو گیا ، ناگہاں موت آ پہنچی جس نے ایک دم میں سارا بنا بنایا کھیل ختم کر دیا۔ پھر ایسا بے نام و نشان ہوا گویا کبھی زمین پر آباد ہی نہ ہوا تھا۔ (فائدہ) { لَیْلاً اَوْ نَھَارًا } (رات کو یا دن کو) شاید اس لئے فرمایا کہ رات کا وقت غفلت کا ہے اور دن میں لوگ عمومًا بیدار ہوتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب خدا کا حکم آ پہنچے ، پھر سوتا ہو یا جاگتا ، غافل ہو یا بیدار ، کوئی شخص کسی حالت میں اس کو روک نہیں سکتا۔

یعنی مختلف الوان و اشکال کی نباتات نے زمین کو پر رونق اور مزین کر دیا اور کھیتی وغیرہ ایسی تیار ہو گئ کہ مالکوں کو کامل بھروسہ ہو گیا کہ اب اس سے پورا فائدہ اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔

بعض نے { فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ } کے معنی کثرت پیداوار کے لئے ہیں۔ کیونکہ جب زمین کی پیداوار زیادہ قوی ہوتی ہے تو گنجان ہو کر ایک جزء دوسرے سے مل جاتا اور لپٹ جاتا ہے بعض نے ''بہٖ'' کی ''باء'' کو مصاحبت کے لئے لےکر یہ معنی کئے ہیں کہ زمین کا سبزہ پانی کے ساتھ رل مل جاتا ہے۔ کیونکہ نباتات اجزائے مائیہ کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں ، جس طرح کھانا انسان کا جزو بدن بنتا ہے۔ ایسے ہی پانی ، گویا نباتات کی غذا بنتی ہے۔ مترجمؒ کے صنیع سے مترشح ہوتا ہے کہ اختلاط سے یہ مراد لے رہے ہیں کہ زمین اور پانی کے ملنے سے جو سبزہ نکلتا ہے اس میں آدمی کی اور جانوروں کی خورات مخلوط (رلی ملی) ہوتی ہے مثلاً گیہوں کے درخت میں دانہ ہے جو انسان کی غذا بنتی ہے اور بھوسہ بھی ہے جو جانوروں کی خوراک ہے۔ اسی طرح درختوں میں پھل اور پتے لگتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے کھانے والے علیحدہ ہیں۔

 

وَما يَتَّبِعُ أَكثَرُهُم إِلّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ بِما يَفعَلونَ {10:36}

اور وہ اکثر چلتے ہیں محض اٹکل پر سو اٹکل کام نہیں دیتی حق بات میں کچھ بھی [۵۷] اللہ کو خوب معلوم ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں

جب معلوم ہو چکا کہ ''مبدی'' و ''معید'' اور ہادی وہ ہی اللہ ہے تو اس کے خلاف شرک کی راہ اختیار کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کے ہاتھ میں کونسی دلیل و برہان ہے جس کی بناء پر ''توحید'' کے مسلک قوم و قدیم کو چھوڑ کر ضلالت کے گڑھے میں گرے جا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس سوا ظنون و اوہام اور اٹکل پچو باتوں کے کوئی چیز نہیں۔ بھلا اٹکل کے تیر حق و صداقت کی بحث میں کیا کام دے سکتے ہیں۔

 

وَما ظَنُّ الَّذينَ يَفتَرونَ عَلَى اللَّهِ الكَذِبَ يَومَ القِيٰمَةِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَذو فَضلٍ عَلَى النّاسِ وَلٰكِنَّ أَكثَرَهُم لا يَشكُرونَ {10:60}

اور کیا خیال ہے جھوٹ باندھنے والوں کا اللہ پر قیامت کے دن [۸۸] اللہ تو فضل کرتا ہے لوگوں پر اور لیکن بہت لوگ حق نہیں مانتے [۸۹]

یعنی یہ لوگ روز قیامت کے متعلق کیا خیال کر رہے ہیں کہ کیا معاملہ ان کےساتھ ہو گا۔ سخت پکڑے جائیں گے یا ستے چھوٹ جائیں گے ۔ عذاب بھگتنا پڑے گا یا نہیں ۔ کن خیالات میں پڑے ہیں۔ یاد رکھیں جو دردناک سزا ملنے والی ہے وہ ٹل نہیں سکتی۔

یعنی خدا اپنے فضل سے دنیا میں بہت کچھ مہلت دیتا ہے ۔ بہت سی تقصیرات سے درگذر کرتا ہے۔ لیکن بہت لوگ نرمی اور اغماض کو دیکھ کر بجائے شکر گذار ہونے کے اور زیادہ دلیر اور بے خوف ہو جاتے ہیں۔ آخر سزا دینی پڑتی ہے ؂ حلم حق باتو موا ساہاکند۔ چونتواز حد بگذری رسواکند

 

أَلا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الأَرضِ ۗ وَما يَتَّبِعُ الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ شُرَكاءَ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ {10:66}

سنتا ہے بیشک اللہ کا ہے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور جو کوئی ہے زمین میں اور یہ جو پیچھے پڑے ہیں اللہ کے سوا شریکوں کو پکارنے والے سو یہ کچھ نہیں مگر پیچھے پڑے ہیں اپنے خیال کے اور کچھ نہیں مگر اٹکلیں دوڑاتے ہیں [۹۶]

یعنی کل زمین و آسمان میں خدائے واحد کی سلطنت ہے۔ سب جن و انس اور فرشتے اسی کے مملوک و مخلوق ہیں۔ مشرکین کا غیر اللہ کو پکارنا اور انہیں خدائی کا حصہ دار بنانا ، محض اٹکل کے تیر اور واہی تباہی خیالات ہیں۔ ان کے ہاتھ میں نہ کوئی حقیقت ہے نہ حجت و برہان ، خالی اوہام و ظنون کی اندھیریوں میں پڑے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

 

فَقالَ المَلَأُ الَّذينَ كَفَروا مِن قَومِهِ ما نَرىٰكَ إِلّا بَشَرًا مِثلَنا وَما نَرىٰكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذينَ هُم أَراذِلُنا بادِىَ الرَّأىِ وَما نَرىٰ لَكُم عَلَينا مِن فَضلٍ بَل نَظُنُّكُم كٰذِبينَ {11:27}

پھر بولے سردار جو کافر تھے اس کی قوم کے ہم کو تو تو نظر نہیں آتا مگر ایک آدمی ہم جیسا اور دیکھتے نہیں کوئی تابع ہوا ہو تیرا مگر جو ہم میں نیچ قوم ہیں بلا تامل اور ہم نہیں دیکھتے تم کو اوپر اپنے کچھ بڑائی بلکہ ہم کو تو خیال ہے کہ تم سب جھوٹے ہو [۳۹]

یعنی رسول کو تمام قوم کےمقابلہ میں کوئی نمایاں امتیاز ہونا چاہئے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہماری طرح جنس بشر سے ہو۔ آسمان کے فرشتے نہیں۔ جس کے سامنے خواہ مخواہ انسانوں کی گردنیں جھک جائیں۔ پھر بشر بھی ایسے نہیں جسے کوئی خاص تفوق اور بڑائی ہم پر حاصل ہوتی مثلاً بڑے دولت مند یا جاہ و حکومت کے مالک ہوتے ، جو لوگ تمہارے پیرو ہوئے وہ بھی ماشاء اللہ سب مفلس ، رذیل ، پست اور ادنیٰ طبقہ کے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنا بھی ہم جیسے شریفوں کے لئے ننگ و عار کا موجب ہے۔ تو کیا ساری خدائی میں سے تم ہی ملے تھے جنہیں خدا نے اپنے منصب سفارت پر مامور فرمایا۔ آخر ہم تم سے حسب نسب ، مال و دولت ، خَلق و خُلق کس بات میں کم تھے ؟ جو ہمارا انتخاب اس عہد ہ کے لئے نہ ہو گیا۔ کم از کم آپ کا اتباع کرنے والے ہی کوئی معزز اور بڑے آدمی ہوتے۔ بھلا ان موچیوں اور حجاموں کا تابع ہو جانا آپ کے لئے کیا موجب فضل و شرف ہو سکتا ہے ؟ اور کس طرح صداقت کی دلیل بن سکتی ہے ؟ ایسے سطحی لوگوں کا جن کی پستی اور رذالت بالکل عیاں ہے۔ بے سوچے سمجھے اور بدون غور و تامل کے ظاہری اور سرسری طور پر ایمان لے آنا آپ کا کونسا کمال ہے ؟ بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ تم اور تمہارے ساتھی سب جھوٹے ہو۔ تم نے ایک بات بنائی اور چند بے وقوفوں نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ تاکہ اس طرح ایک نئی تحریک اٹھا کر کوئی امتیاز اور بزرگی حاصل کر لیں۔ یہ ان ملعونوں کی تقریر کا ماحصل تھا۔ نوحؑ نے جو جواب دیا آگے آتا ہے۔

وَما أَظُنُّ السّاعَةَ قائِمَةً وَلَئِن رُدِدتُ إِلىٰ رَبّى لَأَجِدَنَّ خَيرًا مِنها مُنقَلَبًا {18:36}

اور نہیں خیال کرتا ہوں کہ قیامت ہونے والی ہے اور اگر کبھی پہنا دیا گیا میں اپنے رب کے پاس پاؤں گا بہتر اس سے وہاں پہنچ کر [۴۷]

یعنی اب تو آرام سے گزرتی ہے ۔ اور میں نے سب انتظامات ایسے مکمل کر لئے ہیں کہ میری زندگی تک ان باغوں کے تباہ ہونے کا بظاہر کوئی کھٹکا نہیں۔ رہا بعد الموت کا قصہ ، سو اول تو مجھے یقین نہیں کہ مرنے کے بعد ہڈیوں کے ریزوں کو دوبارہ زندگی ملے گی ؟ اور ہم خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے لیکن اگر ایسا ہوا تو یقینًا مجھے یہاں سے بہتر سامان وہاں ملنا چاہئے اگر ہماری حرکات خدا کو ناپسند ہوتیں تو دنیا میں اتنی کشائش کیوں دیتا ۔ گویا یہاں کی فراخی علامت ہے کہ وہاں بھی ہم عیش اڑائیں گے۔

مَن كانَ يَظُنُّ أَن لَن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ فَليَمدُد بِسَبَبٍ إِلَى السَّماءِ ثُمَّ ليَقطَع فَليَنظُر هَل يُذهِبَنَّ كَيدُهُ ما يَغيظُ {22:15}

جسکو یہ خیال ہو کہ ہرگز نہ مدد کرے گا اُسکی اللہ دنیا میں اور آخرت میں تو تان لے ایک رسی آسمان کو پھر کاٹ ڈالے اب دیکھے کچھ جاتا رہا اُسکی اس تدبیر سے اُس کا غصہ [۲۳]

{ لَّنْ یَّنْصُرَہُ } میں ضمیر مفعول نبی کریم کی طرف راجع ہے جن کا تصور قرآن پڑھنے والے کے ذہن میں گویا ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ کیونکہ آپ ہی قرآن کے اولین مخاطب ہیں گویا مومنین کا انجام ذکر کرنے کےبعد یہ ان کے پیغمبر کے مستقبل کا بیان ہوا۔ حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے رسول سے دنیوی اور اخروی فتح و نصرت کے جو وعدے کر چکا ہے وہ ضرور پورے ہو کر رہیں گے ، خواہ کفار و حاسدین کتنا ہی غیظ کھائیں اور نصرت ربانی کے روکنے کی کیسی ہی تدبیریں کر لیں ، لیکن حضور کی نصرت و کامیابی کسی طرح رک نہیں سکتی یقیناً آ کر رہے گی۔ اگر ان کفار و حاسدین کو اس پر زیادہ غصہ ہے اور سمجھتے ہیں کہ ہم کسی کوشش سے خدا کی مشیت کو روک سکیں گے تو اپنی انتہائی کوشش صرف کر کے دیکھ لیں ، حتٰی کہ ایک رسی اوپر چھت میں لٹکا کر گلے میں ڈال لیں اور خود پھانسی لے کر غیظ سے مر جائیں ، یا ہو سکتا ہو تو آسمان میں رسی تان کر اوپر چڑھیں اور وہاں سے آسمانی امداد کو منقطع کر آئیں، پھر دیکھیں کہ ان تدبیروں سے وہ چیز آنی بند ہو جاتی ہے۔ جس پر انہیں اس قدر غصہ اور پیچ و تاب ہے۔ اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے ۔ لیکن حضرت شاہ صاحبؒ نے آیت کو { وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللہَ عَلٰی حرفٍ } الخ کے مضمون سے مربوط کر کے نہایت لطیف تقریر فرمائی ہے۔ ان کے نزدیک { مَنْ کَانَ یَظُنُّ اَنْ لَنْ یَنْصُرَہ } الخ میں ضمیر مفعول { مَنْ } کی طرف لوٹتی ہے مطلب یہ ہے کہ دنیا کی تکلیف میں جو کوئی خدا سے ناامید ہو کر اس کی بندگی چھوڑ دے اور جھوٹی چیزیں پوجنے لگے وہ اپنے دل کے ٹھہرانےکو یہ قیاس کر لے جیسے ایک شخص اونچی لٹکتی رسی سے لٹک رہا ہے ، اگر چڑھ نہیں سکتا توقع تو ہےکہ رسی اوپر کھنچے تو چڑھ جائے ۔ جب رسی توڑ دی تو کیا توقع رہی ۔ کیا خدا کی رحمت سے ناامید ہو کر کامیابی حاصل کر سکے گا ؟ گویا "رسّی" کہا اللہ کی امید کو ، اس کا کاٹ دینا ناامید ہو جانا اور آسمان سے مراد بلندی ہے واللہ اعلم۔

وَيُعَذِّبَ المُنٰفِقينَ وَالمُنٰفِقٰتِ وَالمُشرِكينَ وَالمُشرِكٰتِ الظّانّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوءِ ۚ عَلَيهِم دائِرَةُ السَّوءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِم وَلَعَنَهُم وَأَعَدَّ لَهُم جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرًا {48:6}

اور تاکہ عذاب کرے دغاباز مردوں کو اور دغاباز عورتوں کو اور شرک والے مردوں کو اور اور شرک والی عورتوں کو [۱۰] جو اٹکلیں کرتے ہیں اللہ پر بری اٹکلیں [۱۱] انہی پر پڑے پھیر مصیبت کا [۱۲] اور غصہ ہوا اللہ اُن پر اور لعنت کی انکو اور تیار کی اُنکے واسطے دوزخ اور بری جگہ پہنچے

"بُری اٹکلیں" یہ کہ مدینے سے چلتے وقت منافق (بجز ایک جُدّ بن قیس کے) مسلمانوں کے ساتھ نہیں آئے، بہانے کر کے بیٹھ رہے۔ دل میں سوچا کہ مڈبھیڑ تو ضرور ہو کر رہے گی۔ یہ مسلمان لڑائی میں تباہ ہوں گے۔ ایک بھی زندہ واپس نہ آئے گا۔ کیونکہ وطن سے دور ، فوج کم اور دشمن کا دیس ہو گا ہم کیوں انکے ساتھ اپنے کو ہلاکت میں ڈالیں۔ اور کفار مکہ نے یہ خیال کیا کہ مسلمان بظاہر "عمرے" کے نام سے آ رہے ہیں اور فریب و دغا سے چاہتے ہیں کہ مکہ معظمہ ہم سے چھین لیں۔

یعنی مومنین کے دلوں میں صلح کی طرف سے اطمینان پیدا کر کے اسلام کی جڑ مضبوط کر دی اور اسلامی فتوحات و ترقیات کا دروازہ کھول دیا جو انجام کار سبب ہے کافروں اور منافقوں پر مصیبت ٹوٹنے اور انکو پوری طرح سزا ملنے کا۔

یعنی زمانہ کی گردش اور مصیبت کے چکر میں آ کر رہیں گے کہاں تک احتیاطیں اور پیش بندیاں کریں گے۔

 

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اجتَنِبوا كَثيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ ۖ وَلا تَجَسَّسوا وَلا يَغتَب بَعضُكُم بَعضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُم أَن يَأكُلَ لَحمَ أَخيهِ مَيتًا فَكَرِهتُموهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوّابٌ رَحيمٌ {49:12}

اے ایمان والو بچتے رہو بہت تہمتیں کرنے سے مقرر بعضی تہمت گناہ ہے اور بھید نہ ٹٹولو کسی کا اور برا نہ کہیو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو [۱۶] بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو سو گھن آتا ہے تم کو اس سے [۱۷] اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ معاف کرنے والا ہے مہربان [۱۸]

یعنی مسلمان بھائی کی غیبت کرنا ایسا گندہ اور گھناؤنا کام ہے جیسے کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کاگوشت نوچ نوچ کر کھائے۔ کیا اس کو کوئی انسان پسندکرے گا؟ بس سمجھ لو غیبت اس سے بھی زیادہ شنیع حرکت ہے۔

اختلاف و تفریق باہمی کے بڑھانے میں ان امور کو خصوصیت سے دخل ہے۔ ایک فریق دوسرے فریق سے ایسا بدگمان ہو جاتا ہے کہ حسن ظن کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ مخالف کی کوئی بات ہو اس کا محل اپنے خلاف نکال لیتا ہے ۔ اس کی بات میں ہزار احتمال بھلائی کے ہوں اور اور صرف ایک پہلو برائی کا نکلتا ہو۔ ہمیشہ اس کی طبیعت برے پہلو کی طرف چلے گی اور اسی برے اور کمزور پہلو کو قطعی اور یقینی قرار دے کر فریق مقابل پر تہمتیں اور الزام لگانا شروع کر دے گا۔ پھر نہ صرف یہ ہی کہ ایک بات حسب اتفاق پہنچ گئ، بدگمانی سے اسکو غلط معنی پہنچا دیے گئے، نہیں، اس جستجو میں رہتا ہے کہ دوسری طرف کے اندرونی بھید معلوم ہوں جس پر ہم خوب حاشیے چڑھائیں۔ اور اسکی غیبت سے اپنی مجلس گرم کریں۔ ان تمام خرافات سے قرآن کریم منع کرتا ہے۔ اگر مسلمان اس پرعمل کریں تو جو اختلافات بدقسمتی سے پیش آ جاتے ہیں وہ اپنی حد سے آگے نہ بڑھیں اور ان کا ضرر بہت محدود ہو جائے۔ بلکہ چند روز میں نفسانی اختلافات کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتےہیں "الزام لگانا اور بھید ٹٹولنا اور پیٹھ پیچھے برا کہنا کسی جگہ بہتر نہیں۔ مگر جہاں اس میں کچھ دین کا فائدہ ہو اور نفسانیت کی غرض نہ ہو"۔ وہاں اجازت ہے جیسے رجال حدیث کی نسبت ائمہ جرع و تعدیل کا معمول رہا ہے کیونکہ اس کے بدون دین کا محفوظ رکھنا محال تھا۔

یعنی ان نصیحتوں پر کاربند وہ ہی ہو گا جس کے دل میں خدا کا ڈر ہو۔ یہ نہیں تو کچھ نہیں۔ چاہئے کہ ایمان و اسلام کا دعوٰی رکھنے والے واقعی طور پر اس خداوند قہار کے غضب سے ڈریں اور ایسی ناشائستہ حرکتوں کے قریب نہ جائیں۔ اگر پہلے کچھ غلطیاں اور کمزوریاں سرزد ہوئی ہوں، اللہ کے سامنے صدق دل سے توبہ کریں وہ اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا۔

 

إِن هِىَ إِلّا أَسماءٌ سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطٰنٍ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَما تَهوَى الأَنفُسُ ۖ وَلَقَد جاءَهُم مِن رَبِّهِمُ الهُدىٰ {53:23}

یہ سب نام ہیں جو رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے اللہ نے نہیں اتاری اُنکی کوئی سند [۱۵] محض اٹکل پرچلتے ہیں اور جو جیوں کی امنگ ہے اور پہنچی ہے اُنکو اُنکے رب سے راہ کی سوجھ [۱۶]

یعنی پتھروں اور درختوں کے کچھ نام رکھ چھوڑے ہیں جن کی خدائی کی کوئی سند نہیں۔ بلکہ اس کے خلاف پر دلائل قائم ہیں۔ ان کو اپنے خیال میں خواہ بیٹیاں کہہ لو، یا بیٹے یا اور کچھ محض کہنے کی بات ہے جس کے نیچے حقیقت کچھ نہیں۔

یعنی باوجودیکہ اللہ کے پاس سے ہدایت کی روشنی آچکی اور وہ سیدھی راہ دکھا چکا۔ مگر یہ احمق ان ہی اوہام و اہوا کی تاریکیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جو کچھ اٹکل پچو ذہن میں آگیا اور دل میں امنگ پیدا ہوئی کرگذرے۔تحقیق و بصیرت کی راہ سے کچھ سروکار نہیں۔

 

وَما لَهُم بِهِ مِن عِلمٍ ۖ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ ۖ وَإِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا {53:28}

اور اُنکو اُس کی کچھ خبر نہیں محض اٹکل پر چلتےہیں اوراٹکل کچھ کام نہ آئے ٹھیک بات میں [۱۹]

یعنی جن کو آخرت کا یقین نہیں وہ سزا کی طرف سے بے فکر ہو کر ایسی گستاخیاں کرتے ہیں۔ مثلًا فرشتوں کو زنانہ قرار دیکر خدا کی بیٹیاں کہدیا۔ یہ ان کی محض جہالت ہے۔ بھلا فرشتوں کو مرد اور عورت ہونے سے کیا واسطہ۔ اور خدا کے لئے اولاد کیسی۔ کیا سچی اور ٹھیک بات پر قائم ہونا ہو تو ایسی اٹکلوں اور پادر ہوا اوہام سے کام چل سکتا ہے۔ اور کیا تخمینے اور اٹکلیں حقائق ثابتہ کے قائم مقام ہوسکتی ہیں۔

 



اخبارات کی ایڈورٹائیزمنٹ (Advertisement) کے احکام:

اصول#7
بے حیائی پھیلانے والوں کی سزا:

القرآن :
جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی یعنی تہمت بدکاری کی خبر پھیلے انکو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
[سورہ النور:١٩]

تشریح :

یعنی بدکاری پھیلے یا بدکاری کی خبریں پھیلیں۔ یہ چاہنے والے منافقین تھے۔ لیکن انکا تذکرہ کر کے مومنین کو بھی متنبہ فرمادیا کہ اگر فرض کرو کسی کے دل میں ایک بری بات کا خطرہ گذرا اور بے پروائی سے کوئی لفظ زبان سے بھی کہہ گذرا تو چاہئے کہ اب ایسی مہمل بات کا چرچا کرتا نہ پھرے۔ اگر خواہی نہ خواہی کسی مومن کی آبروریزی کرے گا تو خوب سمجھ لے کہ اس کی آبرو بھی محفوظ نہ رہے گی۔ حق تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑے گا۔ کما فی الحدیث احمد رحمہ اللہ۔

دنیا میں حد قذف، رسوائی اور قسم قسم کی سزائیں اور آخرت میں دوزخ کی سزا۔

یعنی ایسے فتنہ پردازوں کو خدا خوب جانتا ہے گو تم نہ جانتے ہو۔ اور یہ بھی اُسی کےعلم میں ہے کہ کس کا جرم کتنا ہے اور کس کی کیا غرض ہے۔ (تنبیہ) حبِ شیوع فاحشہ، حسد و کینہ وغیرہ کی طرح اعمال قلبیہ میں سے ہے مراتب قصد میں سے نہیں۔ اس لئے اس پر ماخوذ ہونے میں اختلاف نہ ہو نا چاہئے۔ فتنبہ لہ۔

منافق اور گناہگار میں فرق

بیشک نماز روکتی ہے بےحیائی اور بری بات سے ... (قرآن-العنکبوت:45)







إِنَّما يَأمُرُكُم بِالسّوءِ وَالفَحشاءِ وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ {2:169}

وہ تو یہی حکم کرے گا تم کو کہ برے کام اور بیحیائی کرو اور جھوٹ لگاؤ اللہ پر وہ باتیں جنکو تم نہیں جانتے [۲۳۹]

یعنی مسئلے اور احکام شرعیہ اپنی طرف سے بنا لو جیسا کہ بہت سے مواقع میں دیکھا جاتا ہے کہ مسائل جزئیہ سےگذر کر امور اعتقادیہ تک نصوص شرعیہ کو چھوڑ کر اپنی طرف سے احکام تراشے جاتے ہیں اور نصوص قطعیہ اور اقوال سلف کی تحریف اور تغلیط کرتے ہیں۔

 

الشَّيطٰنُ يَعِدُكُمُ الفَقرَ وَيَأمُرُكُم بِالفَحشاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَغفِرَةً مِنهُ وَفَضلًا ۗ وَاللَّهُ وٰسِعٌ عَليمٌ {2:268}

شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگدستی کا اور حکم کرتا ہے بے حیائی کا اور اللہ وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا اور اللہ بہت کشائش والا ہے سب کچھ جانتا ہے [۴۳۶]

جب کسی کے دل میں خیال آئے کہ اگر خیرات کروں گا تو مفلس رہ جاؤں گا اور حق تعالیٰ کی تاکید سن کر بھی یہی ہمت ہو اور دل چاہے کہ اپنا مال خرچ نہ کرے اور وعدہ الہٰی سے اعراض کر کے وعدہ شیطانی پر طبیعت کو میلان اور اعتماد ہو تو اس کو یقین کر لینا چاہیئے کہ یہ مضمون شیطان کی طرف سے ہے یہ نہ کہے کہ "شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت بھی نہیں دیکھی حکم کرنا تو درکنار رہا" اور اگر یہ خیال آوے کہ صدقہ خیرات سے گناہ بخشے جاویں گے اور مال میں بھی ترقی اور برکت ہو گی تو جان لیوے کہ یہ مضمون اللہ کی طرف سے آیا ہے اور خدا کا شکر کرے اور اللہ کے خزانے میں کمی نہیں سب کے ظاہر و باطن، عمل کو خوب جانتا ہے۔

شیطان اور اس کے مددگاروں کے اعمال

http://raahedaleel.blogspot.com/2013/03/blog-post_30.html


 

وَالَّذينَ إِذا فَعَلوا فٰحِشَةً أَو ظَلَموا أَنفُسَهُم ذَكَرُوا اللَّهَ فَاستَغفَروا لِذُنوبِهِم وَمَن يَغفِرُ الذُّنوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَم يُصِرّوا عَلىٰ ما فَعَلوا وَهُم يَعلَمونَ {3:135}

اور وہ لوگ کہ جب کر بیٹھیں کچھ کھلا گناہ یا برا کام کریں اپنے حق میں [۲۰۰] تو یاد کریں اللہ کو اور بخشش مانگیں اپنے گناہوں کی اور کون ہے گناہ بخشنے والا سوا اللہ کے اور اڑتے نہیں اپنے کئے پر اور وہ جانتے ہیں

یعنی کھلم کھلا کوئی بےحیائی کا کام کر گذریں جس کا اثر دوسروں تک متعدی ہو یا کسی اور بری حرکت کے مرتکب ہو جائیں جس کا ضرر ان ہی کی ذات تک محدود رہے۔

 

وَالّٰتى يَأتينَ الفٰحِشَةَ مِن نِسائِكُم فَاستَشهِدوا عَلَيهِنَّ أَربَعَةً مِنكُم ۖ فَإِن شَهِدوا فَأَمسِكوهُنَّ فِى البُيوتِ حَتّىٰ يَتَوَفّىٰهُنَّ المَوتُ أَو يَجعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبيلًا {4:15}

اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے پھر اگر وہ گواہی دے دیویں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھروں میں یہاں تک کہ اٹھا لیوے ان کو موت یا مقرر کر دے اللہ ان کے لئے کوئی راہ [۳۲]

یتامٰی اور مواریث کو بیان فرما کر اب دیگر احکام متعلقہ اقارب کو بتلایا جاتا پہلے عورتوں کے متعلق چند باتیں ارشاد ہوتی ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کی تادیب اور سیاست ضروری امر ہے اور ان پر کسی قسم کی تعدی اور ظلم بھی نہ کیا جائے اہل جاہلیت کے یہاں عورتوں کی بابت دونوں باتوں میں بہت بے اعتدالیاں ہوتی تھیں اور س آیت میں تادیب کے متعلق حکم ہے کہ اگر کسی کی زوجہ کا مرتکب زنا ہونا معلوم ہو تو اس کے لئے چار گواہ مسلمانوں میں سے عاقل بالغ آزاد رائے قائم ہونے چاہئیں اگر چار آدمی گواہی دیں تو اس عورت کو گھر میں مقید رکھنا چاہئے گھر سے باہر جانا اور کسی سے ملنا انتظامًا بالکل روک دیا جائے یہاں تک کہ وہ عورت مر جائے یا اللہ اس کے لئے کوئی حکم اور سزا مقرر فرمائے اس وقت تک زانیہ کے لئے کوئی حد مقرر نہیں فرمائی بلکہ اس کا وعدہ کیا چنانچہ کچھ عرصہ بعد سورہ نور میں اس کی حد نازل فرما دی کہ باکرہ کے لئے سو کوڑے اور ثلبیہ کے واسطے سنگسار کرنا ہے۔

 

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَحِلُّ لَكُم أَن تَرِثُوا النِّساءَ كَرهًا ۖ وَلا تَعضُلوهُنَّ لِتَذهَبوا بِبَعضِ ما ءاتَيتُموهُنَّ إِلّا أَن يَأتينَ بِفٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَعاشِروهُنَّ بِالمَعروفِ ۚ فَإِن كَرِهتُموهُنَّ فَعَسىٰ أَن تَكرَهوا شَيـًٔا وَيَجعَلَ اللَّهُ فيهِ خَيرًا كَثيرًا {4:19}

اے ایمان والو حلال نہیں تم کو کہ میراث میں لے لو عورتوں کو زبردستی اور نہ روکے رکھو ان کو اس واسطے کہ لے لو ان سے کچھ اپنا دیا ہوا مگر کہ وہ کریں بے حیائی صریح [۳۷] اور گذران کرو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پھر اگر وہ تم کو نہ بھاویں تو شاید تم کو پسند نہ آوے ایک چیز اور اللہ نے رکھی ہو اس میں بہت خوبی [۳۸]

حسب بیان سابق عورتوں کی بد افعالی کی بابت تادیب و سیاست کا حکم دے کر اب اہل جاہلیت کے اس ظلم و تعدی کو روکا جاتا ہے جو تعدی عورتوں پر وہ طرح طرح سے کیا کرتے تھے سو منجملہ ان صورتوں کے ایک صورت یہ ہوتی تھی کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی عورت کو میت کا سوتیلا بیٹا یا بھائی یا اور کوئی وارث لے لیتا پھر چاہتا تو اس سے نکاح کر لیتا یا بغیر نکاح ہی اپنے گھر میں رکھتا یا کسی دوسرے سے نکاح کر کے اس کا مہر کل یا بعض لے لیتا یا ساری عمر اس کو اپنی قید میں رکھتا اور اس کے مال کا وارث ہوتا اس کی بابت یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی مر جائے تو اس کی عورت اپنے نکاح کی مختار ہے میت کے بھائی اور اس کے کسی وارث کو یہ اختیار نہیں کہ زبردستی اپنے نکاح میں لے لے نہ وہ عورت کو نکاح سے روک سکتے ہیں کہ وہ مجبور ہو کر خاوند کے ورثہ سے جو اس کو ملا تھا کچھ پھیر دے ہاں اگر صریح بدچلنی کریں تو ان کو روکنا چاہئے۔

یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں اخلاق اور سلوک سے معاملہ رکھو جاہلیت میں جیسا ذلت اور سختی کا برتاؤ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اس کو چھوڑ دو پھر اگر تم کو کسی عورت کی کوئی خو اور عادت خوش نہ آئے تو صبر کرو شاید اس میں کوئی خوبی بھی ہو اور ممکن ہے کہ تم کو ناپسندیدہ ہو کو ئی چیز اور اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے لئے کوئی بڑی منفعت دینی یا دنیوی رکھ دے سو تم کو تحمل کرنا چاہئے اور بدخو کے ساتھ بدخوئی نہ چاہئے۔

 

وَلا تَنكِحوا ما نَكَحَ ءاباؤُكُم مِنَ النِّساءِ إِلّا ما قَد سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كانَ فٰحِشَةً وَمَقتًا وَساءَ سَبيلًا {4:22}

اور نکاح میں نہ لاؤ جن عورتوں کو نکاح میں لائے تمہارے باپ مگر جو پہلے ہو چکا یہ بے حیائی ہے اور کام ہے غضب کا اور برا چلن ہے [۴۱]

جاہلیت والے اپنی سوتیلی ماں اور بعض دیگر محرمات سے بھی نکاح کر لیتے تھے۔ جس کا تذکرہ ابھی گذرا اس کی ممانعت کی جاتی ہے کہ جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح مت کرو یہ بےحیائی اور اللہ کے غضب اور نفرت کرنے کی بات ہے اور بہت برا طریقہ ہے زمانہ جاہلیت میں بھی سمجھ دار لوگ اس کو مذموم سمجھتے تھے اور اس نکاح کو نکاح مقت اور اس نکاح سے جو اولاد ہوتی اس کو مقتی کہتے تھے سو ایسے نکاح جو ہو چکے ہو چکے آئندہ کو ہر گز ایسا نہ ہو۔ {فائدہ} باپ کی منکوحہ کا جو حکم ہے اس حکم میں دادا اور نانے کی منکوحہ بھی داخل ہے کتنا ہی اوپر کا دادا اور نانا کیوں نہ ہو۔

 

وَمَن لَم يَستَطِع مِنكُم طَولًا أَن يَنكِحَ المُحصَنٰتِ المُؤمِنٰتِ فَمِن ما مَلَكَت أَيمٰنُكُم مِن فَتَيٰتِكُمُ المُؤمِنٰتِ ۚ وَاللَّهُ أَعلَمُ بِإيمٰنِكُم ۚ بَعضُكُم مِن بَعضٍ ۚ فَانكِحوهُنَّ بِإِذنِ أَهلِهِنَّ وَءاتوهُنَّ أُجورَهُنَّ بِالمَعروفِ مُحصَنٰتٍ غَيرَ مُسٰفِحٰتٍ وَلا مُتَّخِذٰتِ أَخدانٍ ۚ فَإِذا أُحصِنَّ فَإِن أَتَينَ بِفٰحِشَةٍ فَعَلَيهِنَّ نِصفُ ما عَلَى المُحصَنٰتِ مِنَ العَذابِ ۚ ذٰلِكَ لِمَن خَشِىَ العَنَتَ مِنكُم ۚ وَأَن تَصبِروا خَيرٌ لَكُم ۗ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ {4:25}

اور جو کوئی نہ رکھے تم میں مقدور اس کا کہ نکاح میں لائے بیبیاں مسلمان تو نکاح کر لے ان سے جو تمہارے ہاتھ کا مال ہیں جو کہ تمہارے آپس کی لونڈیاں ہیں مسلمان [۴۹] اور اللہ کو خوب معلوم ہے تمہاری مسلمانی تم آپس میں ایک ہو [۵۰] سو ان سے نکاح کرو ان کے مالکوں کی اجازت سے اور دو ان کے مہر موافق دستور کے قید میں آنے والیاں ہوں نہ مستی نکالنے والیاں اور نہ چھپی یاری کرنے والیاں [۵۱] پھر جب قید نکاح میں آ چکیں تو اگر کریں بے حیائی کا کام تو ان پر آدھی سزا ہے بیبیوں کی سزا سے [۵۲] یہ اس کے واسطے ہے جو کوئی تم میں ڈرے تکلیف میں پڑنے سے اور صبر کرو تو بہتر ہے تمہارے حق میں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے [۵۳]

یعنی جس کو اس بات کا مقدور نہ ہو کہ آزاد عورت سے نکاح کر سکے اور اس کے مہر اور نفقہ کا تحمل کر سکے تو بہتر ہے کہ ایسا شخص آپس میں کسی کی مسلمان لونڈی سے نکاح کر لے کہ اس کا مہر کم ہوتا ہے اور نفقہ میں بھی یہ سہولت ہے کہ اگر مالک نے اس کو اپنے یہاں رکھا جیسا کہ اکثر ہوتا ہے تو زوج اس کے نفقہ سے فارغ البال رہے گا اور اگر زوج کے حوالہ کر دیا تو بھی بہ نسبت نفقہ حرہ تخفیف ضرور رہے گی۔ {فائدہ} جس کو آزاد عورت سے نکاح کرنے کی مقدرت ہو اس کو لونڈی سے نکاح کرنا امام شافعیؒ وغیرہ کے نزدیک حرام ہے اور امام ابو حنیفہؒ کے مذہب میں مکروہ تنزیہی ہے ایسے ہی صحبت نکاح کے لئے لونڈی کا مسلمان ہونا اکثر علماء کے نزدیک ضروری ہے اور امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک افضل ہے اگر لونڈی کتابیہ سے نکاح کر لے گا تو وہ بھی امام کے نزدیک جائز ہو گا ہاں اگر کسی کے نکاح میں آزاد عورت ہو تو اس کو لونڈی سے نکاح کرنا سب کے نزدیک حرام ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ کو تم سب کےایمان کی اصلی کیفیت معلوم ہے تم کو تو ظاہر پر اکتفا کرنا چاہئے بعضی لونڈی کا ایمان اللہ کے نزدیک بعضی آزاد عورت کے ایمان سے بہتر اور افضل ہو سکتا ہے تو اب حیثیت ایمانی سے لونڈی کے ساتھ نکاح کر لینے میں قباحت اور انکار نہ ہونا چاہئے اور آپس میں تم سب ایک ہو ایک اصل سے پیدا ہوئے ہو ایک دین میں شریک ہو پھر لونڈیوں سے نکاح کرنے کو کیوں معیوب اور ننگ و عار سمجھتے ہو اس کلام سے لونڈیوں کے نکاح کی طرف توجہ دلانا اور ان سےنفرت کو دور کرنا مطلوب ہے۔

یعنی تو اب مناسب ہے کہ حسب بیان بالا ان لونڈیوں سے نکاح کر لیا کرو ان کے مالکوں سے اجازت لے کر اور قاعدہ اور دستور کے موافق ان کا مہر دیدیا کرو جبکہ وہ خوشی سے قید نکاح میں آئیں مستی نکالنے والیاں اور چھپی اور مخفی یاری کرنے والیاں ہر گز نہ ہوں یعنی زنا نہ ہو کہ اس میں مہر ہرگز لازم نہ ہو سکے گا۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ زنا میں مہر لازم نہیں ہوتا اور نکاح کے لئے گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

یعنی لونڈیوں سے نکاح کرنے کا ارشاد اور استحسان اسی کے حق میں ہے جو کوئی شخص تم میں ڈرتا ہو مشقت یعنی زنا میں مبتلا ہونے سے اور اگر تم صبر کرو اور باندیوں سے نکاح نہ کرو تو بہت اچھا ہے تمہارے حق میں کیونکہ اولاد آزاد ہو گی ہاں جس کو صبر و تحمل میں کھٹکا ہو تو اس کو بہتر ہے کہ ایسی حالت میں کسی کی لونڈی سےنکاح کر لے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے صبر کرنے والوں پر۔

یعنی جو آزاد مرد یا عورت نکاح سے فائدہ اٹھا چکے یعنی مجامعت کی نوبت آ چکی ہو اور پھر وہ زنا کرے تو وہ سنگسار کیا جائے گا اور اگر نکاح نہیں ہوا بلکہ نکاح سے پہلے ہی زنا کیا تو اس کے لئے سو کوڑوں کا حکم ہے اور لونڈی اور غلام کے لئے قبل نکاح اور بعد نکاح ہر حالت میں صرف پچاس کوڑے ہیں زیادہ نہیں۔

 

قُل تَعالَوا أَتلُ ما حَرَّمَ رَبُّكُم عَلَيكُم ۖ أَلّا تُشرِكوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسٰنًا ۖ وَلا تَقتُلوا أَولٰدَكُم مِن إِملٰقٍ ۖ نَحنُ نَرزُقُكُم وَإِيّاهُم ۖ وَلا تَقرَبُوا الفَوٰحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ ۖ وَلا تَقتُلُوا النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ ۚ ذٰلِكُم وَصّىٰكُم بِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ {6:151}

تو کہہ تم آؤ میں سنا دوں جو حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے کہ شریک نہ کرو اسکے ساتھ کسی چیز کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور مار نہ ڈالو اپنی اولاد کو مفلسی سے ہم رزق دیتے ہیں تم کو اور ان کو [۲۰۳] اور پاس نہ جاؤ بیحیائی کے کام کے جو ظاہر ہو اس میں سے اور جو پوشیدہ ہو [۲۰۴] اور مار نہ ڈالو اس جان کو جس کو حرام کیا ہے اللہ نے مگر حق پر [۲۰۵] تم کو یہ حکم کیا ہے تاکہ تم سمجھو [۲۰۶]

"پاس نہ جاؤ" سے شاید یہ مراد ہو کہ ایسے کاموں کے مبادی و وسائل سے بھی بچنا چاہئے مثلًا زنا کی طرح نظر بد سے بھی اجتناب لازم ہے۔

الا بالحق کا استثناء ضروری تھا۔ جس میں قاتل عمد ، زانی محصن اور مرتد عن الاسلام کا قتل داخل ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں اس کی تصریح وارد ہو چکی اور ائمہ مجتہدین اس پر اجماع کر چکے ہیں۔

اس آیت سے ان چیزوں کا حرام ہونا ثابت ہوا (۱) شرک باللہ (۲) والدین کےساتھ بد سلوکی (۳) قتل اولاد (۴) سب بےحیائی کے کام مثلًا زنا وغیرہ (۵) کسی شخص کو ناحق قتل کرنا۔

عرب مفلسی کی وجہ سے بعض اوقات اولاد کو قتل کر دیتے تھے کہ خود ہی کھانے کو نہیں اولاد کو کہاں سے کھلائیں۔ اسی لئے فرمایا کہ رزق دینے والا تو خدا ہے تم کو بھی اور تمہاری اولاد کو بھی۔ دوسری جگہ بجائے { مِّنْ اِمْلَاقٍ } { خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ } فرمایا ہے یعنی مفلسی کے ڈر سے قتل کر ڈالتے تھے۔ یہ ان کا ذکر ہو گا جو فی الحال مفلس نہیں مگرڈرتے ہیں کہ جب عیال زیادہ ہونگے تو کہاں سے کھلائیں گے۔ چونکہ پہلے طبقہ کو عیال سے پہلے اپنی روٹی کی فکر ستا رہی تھی اور دوسرے کو زیادہ عیال کی فکر نے پریشان کر رکھا تھا۔ شاید اسی لئے یہاں املاق کے ساتھ { نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ } اور اس آیت میں { خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ } کے ساتھ { نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاکُمْ } ارشاد فرمایا۔ واللہ اعلم۔

 

وَإِذا فَعَلوا فٰحِشَةً قالوا وَجَدنا عَلَيها ءاباءَنا وَاللَّهُ أَمَرَنا بِها ۗ قُل إِنَّ اللَّهَ لا يَأمُرُ بِالفَحشاءِ ۖ أَتَقولونَ عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ {7:28}

اور جب کرتے ہیں کوئی برا کام تو کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا اسی طرح کرتے اپنے باپ دادوں کو اور اللہ نے بھی ہم کو یہ حکم کیا ہے تو کہہ دے کہ اللہ حکم نہیں کرتا برے کام کا کیوں لگاتے ہو اللہ کے ذمہ وہ باتیں جو تم کو معلوم نہیں [۲۹]

یعنی برے اور بےحیائی کے کام مثلًا مرد و عورت کا برہنہ طواف کرنا، جو ان آیات کی شان نزول ہے، جن سے عقل سلیم اور فطرت صحیحہ نفرت کرتی ہے۔ خدائے قدوس کی شان نہیں کہ ان کی تعلیم دے۔ وہ تو پاکی اور حیا کا سرچشمہ ہے۔ گندے اور بےحیائی کےکاموں کا حکم کیسے دے سکتا ہے۔ اصل میں بےحیائی اور برائی کی تعلیم دینے والے وہ شیاطین ہیں جن کو انہوں نے اپنا فریق بنا رکھا ہے۔ دیکھو تمہارے سب سے پہلے ماں باپ کو شیطان نے فریب دے کر برہنہ کرایا۔ مگر وہ شرم و حیا کےمارے درختوں کے پتے بدن پر لپیٹنے لگے معلوم ہوا کہ برہنگی شیطان کی جانب سے اور تستر کی کوشش تمہارے باپ کی طرف سےہوئی۔ پھر برہنہ طواف کرنے پر باپ دادوں کی سند لانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ نیز بقول حضرت شاہ صاحبؒ سن چکےکہ پہلے باپ نے شیطانوں کافریب کھایا پھر باپ کی کیوں سند لاتے ہو یہ کس قدر بےحیائی کی بات ہے کہ جو کام شیطان کےحکم سے ہو رہا ہے اسے کہا جائے کہ ہم کو خدا نے یہ حکم دیا ہے۔ العیاذ باللہ۔

 

قُل إِنَّما حَرَّمَ رَبِّىَ الفَوٰحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ وَالإِثمَ وَالبَغىَ بِغَيرِ الحَقِّ وَأَن تُشرِكوا بِاللَّهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ سُلطٰنًا وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ {7:33}

تو کہہ دے میرے رب نے حرام کیا ہے صرف بیحیائی کی باتوں کو جو ان میں کھلی ہوئی ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور گناہ کو [۳۶] اور ناحق زیادتی کو اور اس بات کو کہ شریک کرو اللہ کا ایسی چیز کو کہ جس کی اس نے سند نہیں اتاری اور اس بات کو کہ لگاؤ اللہ کے ذمہ وہ باتیں جو تم کو معلوم نہیں [۳۷]

"اثم" سےعام گناہ مراد ہیں اور بعض مخصوص گناہوں کو مناسبت مقام یا اہمیت کی وجہ سے بیان فرما دیا اور بعض کے نزدیک "اثم" وہ گناہ ہے جس کا تعلق گناہ کرنے والےکے سوا دوسرے لوگوں سے نہ ہو۔ واللہ اعلم۔

جیسا کے فحشاء کے متعلق کہتے تھے "واللہ امرنا بھا"

 

وَلوطًا إِذ قالَ لِقَومِهِ أَتَأتونَ الفٰحِشَةَ ما سَبَقَكُم بِها مِن أَحَدٍ مِنَ العٰلَمينَ {7:80}

اور بھیجا لوط کو جب کہا اس نے اپنی قوم کو کیا تم کرتے ہو ایسی بے حیائی کہ تم سے پہلے نہیں کیا اس کو کسی نے جہان میں [۹۷]

لوطؑ حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کے بھتیجے ہیں جو ان کےساتھ عراق سے ہجرت کر کے ملک شام میں تشریف لائے اور خدا کی طرف سے سدوم اور اس کے گردونواح کی بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے تاکہ ان کی اصلاح فرمائیں اور ان گندے، خلاف فطرت اور بےحیائی کے کاموں سے باز رکھیں جن میں وہاں کےلوگ مبتلا تھے۔ نہ صرف مبتلا بلکہ اس بےحیائی کے موجد تھے ان سے پیشتر عالم میں اس بیماری سےکوئی واقف نہ تھا۔ اولًا یہ ملعون حرکت شیطان نے سدوم والوں کو سمجھائی اور وہیں سےدوسرے مقامات میں پھیلی۔ حضرت لوطؑ نے اس ملعون و شنیع حرکت کے عواقب پر متنبہ کیا اور گندگی کو دنیا سے مٹانا چاہا۔ موجودہ بائبل کے جمع کرنے والوں کی شرمناک جسارت پر ماتم کرنا پڑتا ہے کہ ایسے پاکباز اور معصوم پیغمبر کی نسبت جو دنیا کو بےحیائی اور گندگی سے پاک کرنے کے لئے آیا تھا ایسی سخت ناپاک حرکات منسوب کیں جن کے سننے سے حیادار آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں { کبرت کلمۃً تخرج من افواھھم ان یقولون الا کذبًا }۔

 

وَلَقَد هَمَّت بِهِ ۖ وَهَمَّ بِها لَولا أَن رَءا بُرهٰنَ رَبِّهِ ۚ كَذٰلِكَ لِنَصرِفَ عَنهُ السّوءَ وَالفَحشاءَ ۚ إِنَّهُ مِن عِبادِنَا المُخلَصينَ {12:24}

اور البتہ عوت نے فکر کیا اس کا اور اس نے فکر کیا عورت کا [۳۸] اگر نہ ہوتا یہ کہ دیکھے قدرت اپنے رب کی [۳۹] یوں ہی ہوا تاکہ ہٹائیں ہم اس سے برائی اور بے حیائی البتہ وہ ہے ہمارے برگزیدہ بندوں میں [۴۰]

یعنی یہ برہان دکھانا اور ایسی طرح ثابت قدم رکھنا اس لئے تھا کہ یوسفؑ ہمارے برگزیدہ بندوں میں ہیں۔ لہذا کوئی چھوٹی بڑی برائی خواہ ارادہ کے درجہ میں ہو یا عمل کے ، ان تک نہ پہنچ سکے۔

"برہان" دلیل و حجت کو کہتےہیں ۔ یعنی اگر یوسفؑ اس وقت اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے تو قلبی میلان پر چل پڑتے ۔ دلیل کیا تھی ؟ زنا کی حرمت و شناعت کا وہ عین الیقین جو حق تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا ۔ یا وہ ہی دلیل جو خود انہوں نے زلیخا کے مقابلہ میں { اِنَّہٗ رَبِّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ } کہہ کر پیش کی۔ بعض کہتے ہیں کہ خدا کی قدرت سے اس وقت حضرت یعقوبؑ نظر آئے کہ انگلی دانتوں میں دبائی سامنے کھڑے ہیں۔ بعض نے کہا کہ کوئی غیبی تحریر نظر پڑی جس میں اس فعل سے روکا گیا تھا۔ واللہ اعلم۔

یعنی عورت نے پھانسنے کی فکر کی اور اس نے فکر کی کہ عورت کا داؤ چلنے نہ پائے اگر اپنے رب کی حجت و قدرت کا معائنہ نہ کرتا تو ثابت قدم رہنا مشکل تھا۔ بعض مفسرین نے { وَھَمَّ بِھَا } کو { وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ } سے علیحدہ کر کے { لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ } سے متعلق کیا ہے۔ جیسے { اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْ لَا اَنْ رَبَطْنَا عَلٰی قَلَبِھَا } کی ترکیب ہے ۔ اس وقت مقصود یوسفؑ کے حق میں "ہم" کا ثابت کرنا نہیں بلکہ نفی کرنا ہے۔ ترجمہ یوں ہو گا۔ کہ عورت نے یوسفؑ کا ارادہ کیا اور یوسفؑ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے پروردگار کی قدرت و حجت نہ دیکھ لیتا۔ بعض نے { وَھَمَّ بِھَا } میں لفظ {ھَمَّ } کو بمعنی میلان و رغبت کے لیا ہے۔ یعنی یوسفؑ کے دل میں کچھ رغبت و میلان بے اختیار پیدا ہوا۔ جیسے روزہ دار کو گرمی میں ٹھنڈے پانی کی طرف طبعًا رغبت ہوتی ہے لیکن نہ وہ پینے کا ارادہ کرتا ہے نہ یہ بے اختیاری رغبت کچھ مضر ہے۔ بلکہ باوجود رغبت طبعی کے اس سے قطعًا محترز رہنا مزید اجرو ثواب کا موجب ہے اسی طرح سمجھ لو کہ ایسے اسباب و دواعی قویہ کی موجودگی سے طبع بشری کے موافق بلا اختیار و ارادہ یوسفؑ کے دل میں کسی قسم کی رغبت و میلان کا پا جانا نہ عصمت کے منافی ہے نہ ان کے مرتبہ کو گھٹاتا ہے ۔ بلکہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ اگر بندہ کا میلان کسی برائی کی طرف ہوا لیکن اس پر عمل نہ کیا تو اس کے فرد حسنات میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ اس نے (باوجود رغبت و میلان) میرے خوف سے اس برائی کو ہاتھ نہ لگایا ۔ بہرحال باوجود اشتراک لفظی کے زلیخا کے "ہم" اور یوسفؑ کے "ہم" میں زمین و آسمان کا تفاوت ہے اسی لئے قرآن کریم نے دونوں "ھم" کو ایک ہی لفط میں جمع نہیں کیا اور نہ زلیخا کے "ھم" کی طرح یوسفؑ کے ھم پر "لام" اور "قد" داخل کیا گیا۔ بلکہ سیاق و الحاق میں بہت سی دلائل یوسفؑ کی طہارت و نزاہت پر قائم فرمائیں۔ جو غور کرنے والوں پر پوشیدہ نہیں ۔ تفصیل "روح المعانی" اور "کبیر" وغیرہ میں موجود ہے۔

 

إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ بِالعَدلِ وَالإِحسٰنِ وَإيتائِ ذِى القُربىٰ وَيَنهىٰ عَنِ الفَحشاءِ وَالمُنكَرِ وَالبَغىِ ۚ يَعِظُكُم لَعَلَّكُم تَذَكَّرونَ {16:90}

اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے (کو) دینے کا [۱۴۹] اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نامعقول کام سے اور سرکشی سے [۱۵۰] تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو [۱۵۱]

"قرآن" کو { تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ } فرمایا تھا ۔ یہ آیت اس کا ایک نمونہ ہے ، ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک خیرو شر کے بیان کو اس آیت میں اکٹھا کر دیا ہے۔ گویا کوئی عقیدہ ، خلق ، نیت ، عمل ، معاملہ اچھا یا برا ایسا نہیں جو امرًا و نہیًا اس کے تحت میں داخل نہ ہو گیا ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر قرآن میں کوئی دوسری آیت نہ ہوتی تو تنہا یہ ہی آیت { تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ } کا ثبوت دینے کے لئے کافی تھی۔ شاید اسی لئے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خطبہ جمعہ کے آخر میں اس کو درج کر کے امت کے لئے اسوہ حسنہ قائم کر دیا ۔ اس آیت کی جامعیت سمجھانے کے لئے تو ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے ۔ تاہم تھوڑا سا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ آیت میں تین چیزوں کا امر فرمایا ہے۔ عدل و احسان: عدل ، احسان ، ایتاء ذی القربیٰ۔ "عدل" کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے تمام عقائد ، اعمال ، اخلاق ، معاملات ، جذبات، اعتدال و انصاف کی ترزاو میں تلے ہوں ، افراط و تفریط سے کوئی پلہ جھکنے یا اٹھنے نہ پائے ، سخت سے سخت دشمن کےساتھ بھی معاملہ کرتے وقت انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو جو بات اپنے لئے پسند نہ کرتا ہو اپنے بھائی کے لئے بھی پسند نہ کرے۔ "احسان" کے معنی یہ ہیں کہ انسان بذات خود نیکی اور بھلائی کا پیکر بن کر دوسروں کو بھلا چاہے۔ مقام عدل و انصاف سے ذرا اور بلند ہو کر فضل و عفو اور تلطف و ترحم کی خو اختیار کرے ۔ فرض ادا کرنے کے بعد تطوع و تبرع کی طرف قدم بڑھائے ۔ انصاف کے ساتھ مروت کو جمع کرے ۔ اور یقین رکھے کہ جو کچھ بھلائی کرے گا خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ ادھر سے بھلائی کا جواب ضرور بھلائی کی صورت میں ملے گا۔ { اَلِاحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ } (صحیح بخاری) { ھَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ } (رحمٰن رکوع۳) یہ دونوں خصلتیں (یعنی عدل و احسان یا بالفاظ دیگر انصاف و مروت) تو اپنے نفس اور ہر ایک خویش و بیگانہ اور دوست دشمن سے متعلق تھیں۔ لیکن اقارب کا حق اجانب سے کچھ زائد ہے۔ جو تعلقات قرابت قدرت نے باہم رکھ دیے ہیں انہیں نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اقارب کی ہمدردی اور ان کے ساتھ مروت و احسان اجانب سے کچھ بڑھ کر ہونا چاہئے۔ صلہ رحم ایک مستقل نیکی ہے جو اقارب و ذویٰ الارحام کے لئے درجہ بدرجہ استعمال ہونی چاہئے۔ گویا "احسان" کے بعد ذوی القربیٰ کا بالتخصیص ذکر کر کے متنبہ فرما دیا کہ عدل و انصاف تو سب کے لئے یکساں ہے ۔ لیکن مروت و احسان کے وقت بعض مواقع بعض سے زیادہ رعایت و اہتمام کے قابل ہیں ۔ فرق مراتب کو فراموش کرنا ایک طرح قدرت کے قائم کئے ہوئے قوانین کو بھلا دینا ہے۔ اب ان تینوں لفظوں کی ہمہ گیری کو پیش نظر رکھتے ہوئے سمجھدار آدمی فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کونسی فطری خوبی ، بھلائی اور نیکی دنیا میں ایسی رہ گئ ہے جو ان تین فطری اصولوں کے احاطہ سے باہر ہو۔ فللہ الحمد والمنہ۔

منع بھی تین چیزوں سے کیا ۔ فحشاء ، منکر ، بغی۔ کیونکہ انسان میں تین قوتیں ہیں ۔ جن کے بے موقع اور غلط استعمال سےساری خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ قوت بہیمیہ شہوانیہ ، قوت وہمیہ شیطانیہ ، قوت غضبیہ سبعیہ۔ غالبًا "فحشاء" سے وہ بے حیائی کی باتیں مراد ہیں جن کا منشاء شہوت و بہیمیت کی افراط ہو ۔ "منکر" معروف کی ضد ہے ۔ یعنی نامعقول کام جن پر فطرت سلیمہ اور عقل صحیح انکار کرے ۔گویا قوت وہمیہ شیطانیہ کے غلبہ سے قوت عقلیہ ملکیہ دب جائے۔ تیسری چیز "بغی" ہے ۔ یعنی سرکشی کر کے حد سے نکل جانا ۔ ظلم و تعدی پر کمربستہ ہو کر درندوں کی طرح کھانے پھاڑنے کو دوڑنا ، اور دوسروں کے جان و مال یا آبرو وغیرہ لینے کے واسطے ناحق دست درازی کرنا۔ اس قسم کی تمام حرکات قوت سبعیہ غضبیہ کے بے جا استعمال سے پیدا ہوتی ہیں۔ الحاصل آیت میں تنبیہ فرما دی کہ انسان جب تک ان تینوں قوتوں کو قابو میں نہ رکھے اور قوت عقلیہ مالکیہ کو ان سب پر حاکم نہ بنائے ، مہذب اور پاک نہیں ہو سکتا۔

ابن کثم بن صفی نے اس آیت کریمہ کو سن کر اپنی قوم سےکہا "میں دیکھتا ہوں کہ یہ پیغمبر تمام عمدہ اور اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور کمینہ اخلاق اور اعمال سے روکتے ہیں۔ تو تم اس کے ماننے میں جلدی کرو۔ { فَکُوْ نُوْا فِیْ ھٰذَا الْاَ مْرِ رَؤُسًا وَّلَا تَکُوْنُوْا فِیْہِ اَذْنَابًا } (یعنی تم اس سلسلہ میں سر بنو ، دم نہ بنو) حضرت عثمان بن مظعون فرماتے ہیں کہ اسی آیت کو سن کر میرے دل میں ایمان راسخ ہوا اور محمد کی محبت جا گزیں ہوئی۔

 

وَلا تَقرَبُوا الزِّنىٰ ۖ إِنَّهُ كانَ فٰحِشَةً وَساءَ سَبيلًا {17:32}

اور پاس نہ جاؤ زنا کے [۴۶] وہ ہے بے حیائی اور بری راہ ہے [۴۷]

کیونکہ زنا سے انساب میں گڑ بڑ ہوتی ہے اور بہت طرح کی لڑائیاں اور جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں ۔ اور سب کے لئے بری راہ نکلتی ہے ۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی اگر یہ راہ نکلی تو ایک شخص دوسرے کی عورت پر نظر کرے ، کوئی دوسرا اس کی عورت پر کرے گا"۔ مسند احمد کی ایک روایت: مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ مجھے زنا کی اجازت دے دیجئے۔ حاضرین نے ڈانٹ بتلائی کہ (پیغمبر خدا کے سامنے ایسی گستاخی ؟) خبردار چپ رہو ۔ حضور نے اس کو فرمایا کہ میرے قریب آؤ ، وہ قریب آ کر بیٹھا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو یہ حرکت اپنی ماں ،بیٹی ، بہن ، پھوپھی ، خالہ میں سے کسی کی نسبت کرنا پسند کرتا ہے ؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! خدا مجھ کو آپ پر قربان کرے ، ہر گز نہیں۔ فرمایا دوسرے لوگ بھی اپنی ماؤں ، بیٹیوں ، بہنوں ، پھوپھیوں اور خالاؤں کے لئے یہ فعل گوارا نہیں کرتے ۔ پھر آپ نے دعا فرمائی کہ الہٰی اس کے گناہ کو معاف فرما اور اس کےدل کو پاک اور شرمگاہ کو محفوظ کر دے "۔ ابو امامہ فرماتے ہیں کہ اس دعا کے بعد اس شخص کی یہ حالت ہو گئ کہ کسی عورت وغیرہ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا تھا۔ { اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ }۔

یعنی زنا کرنا تو بڑی سخت چیز ہے ۔ اس کے پاس بھی مت جاؤ۔ گویا { لَا تَقْرَبُوْا } میں مبادی زنا سے بچنے کی ہدایت کر دی گئ ۔ مثلاً اجنبی عورت کی طرف بدون عذر شرعی نظر کرنا یا بوس و کنار وغیرہ۔

 

إِنَّ الَّذينَ يُحِبّونَ أَن تَشيعَ الفٰحِشَةُ فِى الَّذينَ ءامَنوا لَهُم عَذابٌ أَليمٌ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعلَمُ وَأَنتُم لا تَعلَمونَ {24:19}

جو لوگ چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں [۲۵] انکے لئے عذاب ہے دردناک دنیا اور آخرت میں [۲۶] اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے [۲۷]

یعنی بدکاری پھیلے یا بدکاری کی خبریں پھیلیں۔ یہ چاہنے والے منافقین تھے۔ لیکن انکا تذکرہ کر کے مومنین کو بھی متنبہ فرمادیا کہ اگر فرض کرو کسی کے دل میں ایک بری بات کا خطرہ گذرا اور بے پروائی سے کوئی لفظ زبان سے بھی کہہ گذرا تو چاہئے کہ اب ایسی مہمل بات کا چرچا کرتا نہ پھرے۔ اگر خواہی نہ خواہی کسی مومن کی آبروریزی کرے گا تو خوب سمجھ لے کہ اس کی آبرو بھی محفوظ نہ رہے گی۔ حق تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑے گا۔ کما فی الحدیث احمد رحمہ اللہ۔

دنیا میں حد قذف، رسوائی اور قسم قسم کی سزائیں اور آخرت میں دوزخ کی سزا۔

یعنی ایسے فتنہ پردازوں کو خدا خوب جانتا ہے گو تم نہ جانتے ہو۔ اور یہ بھی اُسی کےعلم میں ہے کہ کس کا جرم کتنا ہے اور کس کی کیا غرض ہے۔ (تنبیہ) حبِ شیوع فاحشہ، حسد و کینہ وغیرہ کی طرح اعمال قلبیہ میں سے ہے مراتب قصد میں سے نہیں۔ اس لئے اس پر ماخوذ ہونے میں اختلاف نہ ہو نا چاہئے۔ فتنبہ لہٗ۔

 

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ ۚ وَمَن يَتَّبِع خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ فَإِنَّهُ يَأمُرُ بِالفَحشاءِ وَالمُنكَرِ ۚ وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكُم وَرَحمَتُهُ ما زَكىٰ مِنكُم مِن أَحَدٍ أَبَدًا وَلٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكّى مَن يَشاءُ ۗ وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ {24:21}

اے ایمان والو نہ چلو قدموں پر شیطان کے اور جو کوئی چلے گا قدموں پر شیطان کےسو وہ تو یہی بتلائے گا بیحائی اور بری بات [۲۹] اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت تو نہ سنورتا تم میں ایک شخص بھی کبھی و لیکن اللہ سنوارتا ہے جس کو چاہے اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے [۳۰]

یعنی شیطان تو سب کو بگاڑ کر چھوڑتا ایک کو بھی سیدھے راستہ پر نہ رہنے دیتا۔ یہ تو خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ وہ اپنے مخلص بندوں کی دستگیری فرما کر بہتیروں کو محفوظ رکھتا ہے اور بعض کو مبتلا ہو جانے کے بعد توبہ کی توفیق دے کر درست کر دیتا ہے۔ یہ بات اسی خدائے واحد کے اختیار میں ہے اور وہ ہی اپنے علم محیط اور حکمت کاملہ سے جانتا ہے کہ کون بندہ سنوارے جانے کے قابل ہے اور کس کی توبہ قبول ہونی چاہئے۔ وہ سب کی توبہ وغیرہ کو سنتا اور ان کی قلبی کیفیات سے پوری طرح آگاہ ہے۔

یعنی شیطان کی چالوں سے ہشیار رہا کرو۔ مسلمان کا یہ کام نہیں ہونا چاہئے کہ شیاطین الانس و الجن کے قدم بقدم چلنے لگے۔ ان ملعونوں کا تو مشن ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بے حیائی اور برائی کی طرف لے جائیں تم جان بوجھ کر کیوں ان کے بھرّے میں آتے ہو۔ دیکھ لو شیطان نے ذرا سا چرکہ لگا کر کتنا بڑا طوفان کھڑا کر دیا اور کئی سیدھے سادھے مسلمان کس طرح اس کے قدم پر چل پڑے۔

 

وَلوطًا إِذ قالَ لِقَومِهِ أَتَأتونَ الفٰحِشَةَ وَأَنتُم تُبصِرونَ {27:54}

اور لوط کو جب کہا اس نے اپنی قوم کو کیا تم کرتے ہو بے حیائی اور تم دیکھتے ہو [۷۰]

یعنی دیکھتے ہو کیسا برا اور گندہ کام ہے۔

 

وَلوطًا إِذ قالَ لِقَومِهِ إِنَّكُم لَتَأتونَ الفٰحِشَةَ ما سَبَقَكُم بِها مِن أَحَدٍ مِنَ العٰلَمينَ {29:28}

اور بھیجا لوط کو جب کہا اپنی قوم کو تم آتے ہو بیحیائی کے کام پر تم سے پہلے نہیں کیا وہ کسی نے جہان میں [۴۳]

یعنی یہ فعل شنیع تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ یہ ہی اس کی دلیل ہے کہ فطرت انسانی اس سے نفور ہے۔ ایسے خلاف فطرت و شریعت کام کی بنیاد تم نے ڈالی۔

 

اتلُ ما أوحِىَ إِلَيكَ مِنَ الكِتٰبِ وَأَقِمِ الصَّلوٰةَ ۖ إِنَّ الصَّلوٰةَ تَنهىٰ عَنِ الفَحشاءِ وَالمُنكَرِ ۗ وَلَذِكرُ اللَّهِ أَكبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ ما تَصنَعونَ {29:45}

تو پڑھ جو اتری تیری طرف کتاب [۷۱] اور قائم رکھ نماز بیشک نماز روکتی ہے بیحیائی اور بری بات سے [۷۲] اور اللہ کی یاد ہے سب سے بڑی [۷۳] اور اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو [۷۴]

یعنی جو آدمی جس قدر خدا کو یاد رکھتا ہے یا نہیں رکھتا خدا تعالیٰ سب کو جانتا ہے۔ لہذا ذاکر اور غافل میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا معاملہ بھی جداگانہ ہو گا۔

یعنی قرآن کی تلاوت کرنے رہئے تا دل مضبوط اور قوی رہے، تلاوت کا اجر وثواب الگ حاصل ہو اسکے معارف و حقائق کا انکشاف بیش از بیش ترقی کرے۔ دوسرے لوگ بھی سن کر اس کے مواعظ اور علوم و برکات سے منتفع ہوں، جو نہ مانیں ان پر خد اکی حجت تمام ہو، اور دعوت و اصلاح کا فرض بحسن و خوبی انجام پاتا رہے۔

نماز کا برائیوں سے روکنا دو معنی میں ہو سکتا ہے ایک بطریق تسبب ، یعنی نماز میں اللہ تعالیٰ نے خاصیت و تاثیر یہ رکھی ہو کہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دے جیسے کسی دوا کا استعمال کرنا بخار وغیرہ امراض کو روک دیتا ہے۔ اس صورت میں یاد رکھنا چاہئے کہ دوا کے لئے ضروری نہیں کہ اس کی ایک ہی خوراک بیماری کو روکنے کے لئے کافی ہو جائے بعض دوائیں خاص مقدار میں مدت تک التزام کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اس وقت ان کا نمایاں اثر ظاہر ہوتا ہے۔ بشرطیکہ مریض کسی ایسی چیز کا استعمال نہ کرے جو اس دوا کی خاصیت کے منافی ہو۔ پس نماز بھی بلاشبہ بڑی قوی التاثیر دوا ہے جو روحانی بیماریوں کو روکنے میں اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ ہاں ضرورت اس کی ہے کہ ٹھیک مقدار میں اس احتیاط اور بدرقہ کے ساتھ جو اطبائے روحانی نے تجویز کیا ہو خاصی مدت تک اس پر مواظبت کی جائے۔ اس کے بعد مریض خود محسوس کرے گا کہ نماز کس طرح اس کی پرانی بیماریوں اور برسوں کے روگ کو دور کرتی ہے۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ نماز کا برائیوں سے روکنا بطور اقتضاء ہو۔ یعنی نماز کی ہر ایک ہیات اور اس کا ہر ایک ذکر مقتضی ہے کہ جو انسان ابھی ابھی بارگاہ الہٰی میں اپنی بندگی فرمانبرداری، خضوع و تذلل اور حق تعالیٰ کی ربوبیت الوہیت اور حکومت و شہنشاہی کا اظہار و اقرار کر کے آیا ہے، مسجد سے باہر آ کر بھی بد عہدی اور شرارت نہ کرے اور اس شہنشاہ مطلق کے احکام سے منحرف نہ ہو۔ برائیوں سے روکنے کا دوسرا مفہوم: گویا نماز کی ہر ایک ادا مصلّی کو پانچ وقت حکم دیتی ہے کہ او بندگی اور غلامی کا دعویٰ کرنے والے واقعی بندوں اور غلاموں کی طرح رہ۔ اور بزبان حال مطالبہ کرتی ہے کہ بیحیائی اور شرارت و سرکشی سے باز آ۔ اب کوئی باز آئے یا نہ آے مگر نماز بلاشبہ اسے روکتی اور منع کرتی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ خود روکتا اور منع فرماتا ہے۔ کما قال تعالیٰ { اِنَّ اللہَ یَا مُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ } (نحل رکوع۱۳) پس جو بدبخت اللہ تعالیٰ کے روکنے اور منع کرنے پر برائی سے نہیں رکتے نماز کے روکنے پر بھی ان کا نہ رکنا محل تعجب نہیں۔ ہاں یہ واضح رہے کہ ہر نماز کا روکنا اور منع کرنا اسی درجہ تک ہو گا۔ جہاں تک اس کے ادا کرنے میں خدا کی یاد سے غفلت نہ ہو، کیونکہ نماز محض چند مرتبہ اٹھنے بیٹھنے کا نام نہیں۔ سب سے بڑی چیز اس میں خدا کی یاد ہے۔ نمازی ارکان صلوٰۃ ادا کرتے وقت اور قرأت یا دعاؤ تسبیح کی حالت میں جتنا حق تعالیٰ کی عظمت و جلال کو مستحضر اور زبان و دل کو موافق رکھے گا اتنا ہی اس کا دل نماز کے منع کرنے کی آواز کو سنے گا۔ اور اسی قدر اس کی نماز برائیوں کو چھڑانے میں موثر ثابت ہو گی۔ ورنہ جو نماز قلب لاہی و غافل سے ادا ہو وہ صلوٰۃ منافق کے مشابہ ٹھہرے گی۔ جس کی نسبت حدیث میں فرمایا { لَا یَذْکُرُ اللہَ فِیْھَا اِلَّا قَلِیْلًا }۔ اسی نماز کی نسبت { لَمْ یَزْدَدْبِھَا اِلَّا بُعْدًا } کی وعید آئی ہے۔

یعنی نماز برائی سے کیوں نہ روکے جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کے یاد کرنے کی بہترین صورت ہے۔ کما قال تعالیٰ۔ { اَقِمِ الصَّلٰوٰۃَ لِذِکْرِیْ } (طٰہٰ رکوع۱) اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے نماز اور جہاد وغیرہ تمام عبادات کی روح کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو عبادت کیا، ایک جسد بے روح اور لفظ بے معنی ہے۔ حضرت ابودرداء وغیرہ کی احادیث کو دیکھ کر علماء نے یہ ہی فیصلہ کیا ہے کہ ذکر اللہ (خدا کی یاد) سے بڑھ کو کوئی عبادت نہیں۔ اصلی فضیلت اسی کو ہے۔ یوں عارضی اور وقتی طور پر کوئی عمل ذکر اللہ پر سبقت لیجائے ۔ وہ دوسری بات ہے، لیکن غور کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اس عمل میں بھی فضیلت اسی ذکر اللہ کی بدولت آئی ہے۔ بہرحال ذکر اللہ تمام اعمال سے افضل ہے اور جب وہ نماز کے ضمن میں ہو تو افضل تر ہو گا۔ پس بندے کو چاہئے کہ کسی وقت خدا کے ذکر سے غافل نہ ہو خصوصًا جس وقت کسی برائی کی طرف میلان ہو فورًا خدا تعالیٰ کی عظمت و جلال کو یاد کر کے اس سے باز آ جائے۔ قرآن و حدیث میں ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو یاد فرماتا ہے۔ بعض سلف نے آیت کا یہ ہی مطلب لیا ہے کہ نماز میں ادھر سے بندہ خدا کو یاد کرتا ہے اس لیے نماز بڑی چیز ہوئی ۔ لیکن اس کے جواب میں جو ادھر سے اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کو یاد فرماتا ہے یہ سب سے بڑی چیز ہے جس کی انتہائی قدر کرنی چاہیئے اور یہ شرف و کرامت محسوس کر کے اور زیادہ ذکراللہ کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ کسی شخص نے آنحضرت سے عرض کیا کہ اسلام کے احکام بہت ہیں، مجھے کوئی ایک جامع و مانع چیز بتلا دیجئے، فرمایا { لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطَبًا مِنْ ذِکْرَ اللہِ } (تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے) حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "جتنی دیر نماز میں لگے اتنے تو ہر گناہ سے بچے، امید ہے آگے بھی بچتا رہے۔ اور اللہ کی یاد کو اس سے زیادہ اثر ہے یعنی گناہ سے بچے اور اعلیٰ درجوں پر چڑھے"۔ (موضح یہ { لَذِکْرُ اللہ اَکْبَرُ } کی ایک اور لطیف تفیسر ہوئی۔

 

يٰنِساءَ النَّبِىِّ مَن يَأتِ مِنكُنَّ بِفٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضٰعَف لَهَا العَذابُ ضِعفَينِ ۚ وَكانَ ذٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرًا {33:30}

اے نبی کی عورتو جو کوئی کر لائے تم میں کام بیحیائی کا صریح دونا ہو اس کو عذاب دہرا اور ہے یہ اللہ پر آسان [۴۲]

بڑے کی غلطی بھی بڑی ہوتی ہے ۔ اگر بالفرض تم میں کسی سے کوئی بد اخلاقی کا کام ہو جائے تو جو سزا اوروں کو اس کام پر ملتی اس سے دگنی سزا ملے گی۔ اور اللہ پر یہ آسان ہے یعنی تمہاری وجاہت اور نسبت زوجیت سزا دینے سے اللہ کو روک نہیں سکتی۔

 

وَالَّذينَ يَجتَنِبونَ كَبٰئِرَ الإِثمِ وَالفَوٰحِشَ وَإِذا ما غَضِبوا هُم يَغفِرونَ {42:37}

اور جو لوگ کہ بچتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بیحیائی سے اور جب غصہ آوے تو وہ معاف کر دیتے ہیں [۵۲]

اس کا بیان سورہ "نساء" کی آیت { اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ } کے فوائد میں گذر چکا وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔ شاید یہاں "کبائر الاثم" سے وہ بڑے گناہ مراد ہوں جو قوت نظریہ کی غلط کاری سے پیدا ہوتے ہیں مثلًا عقائد بدعیہ اور "فواحش" وہ گناہ جن میں قوت شہوانیہ کی بے اعتدالی کو دخل ہو۔ آگے { وَاِذَ مَا غَضِبُوْ ھُمْ یَغْفِرُوْنَ } میں تو ظاہر ہے کہ قوت غضبیہ کی روک تھام کی گئ ہے۔ واللہ اعلم۔

 

الَّذينَ يَجتَنِبونَ كَبٰئِرَ الإِثمِ وَالفَوٰحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وٰسِعُ المَغفِرَةِ ۚ هُوَ أَعلَمُ بِكُم إِذ أَنشَأَكُم مِنَ الأَرضِ وَإِذ أَنتُم أَجِنَّةٌ فى بُطونِ أُمَّهٰتِكُم ۖ فَلا تُزَكّوا أَنفُسَكُم ۖ هُوَ أَعلَمُ بِمَنِ اتَّقىٰ {53:32}

جو کہ بچتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بیحیائی کے کاموں سے مگر کچھ آلودگی [۲۳] بیشک تیرے رب کی بخشش میں بڑی سمائی ہے [۲۴] وہ تم کو خوب جانتا ہے جب بنا نکالا تم کو زمین سے اور جب تم بچے تھے ماں کے پیٹ میں سو مت بیان کر اپنی خوبیاں وہ خوب جانتا ہے اُس کو جو بچ کرچلا [۲۵]

گناہ کبیرہ اور صغیرہ کا فرق "سورۃ نساء" کے فوائد میں مفصل گذر چکا۔ { لَّمَمَ } کی تفسیر میں کئ قول ہیں۔ بعض نے کہا کہ جو خیالات وغیرہ گناہ کے دل میں آئیں مگر ان کو عمل میں نہ لائے وہ { لَّمَمَ } ہیں۔ بعض نے صغیرہ گناہ مراد لئے بعض نے کہا کہ جس گناہ پر اصرار نہ کرے یا اس کی عادت نہ ٹھہرائے یا جس گناہ سے توبہ کرلے وہ مراد ہے، ہمارے نزدیک بہترین تفسیر وہ ہی ہے جو مترجم محقق قدس اللہ روحہ نے سورۃ "نساء" کے فوائد میں اختیار کی ہے لیکن یہاں ترجمہ میں دوسرے معانی کی بھی گنجائش رکھی ہے۔

یعنی اگر تقویٰ کی کچھ توفیق اللہ نے دی تو شیخی نہ مارو۔ اور اپنے کو بہت بزرگ نہ بناؤ۔ وہ سب کی بزرگی اور پاکبازی کو خوب جانتا ہے۔ اور اس وقت سے جانتا ہے جب تم نے ہستی کے اس دائرہ میں قدم بھی نہ رکھا تھا۔ آدمی کو چاہیئے کہ اپنی اصل کو نہ بھولے۔ جس کی ابتداء مٹی سے تھی، پھر بطنِ مادر کی تاریکیوں میں ناپاک خون سے پرورش پاتا رہا۔ اس کے بعد کتنی جسمانی و روحانی کمزوریوں سے دوچارہوا۔ آخر میں اگر اللہ نے اپنے فضل سے ایک بلند مقام پر پہنچا دیا تو اس کو اس قدر بڑھ چڑھ کر دعوے کرنے کا استحقاق نہیں۔ جو واقعی متقی ہوتے ہیں وہ دعویٰ کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ اب بھی پوری طرح کمزوریوں سے پاک ہوجانا بشریت کی حد سے باہر ہے۔ کچھ نہ کچھ آلودگی سب کو ہوجاتی ہے۔ اِلّا مَنْ عصمہ اللہ۔

اسی لئے بہت سے چھوٹے موٹے گناہوں سے درگذر فرماتا ہے اور توبہ قبول کرتا ہے۔ گنہگار کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔ اگر ہر چھوٹی بڑی خطا پر پکڑنے لگے تو بندہ کا ٹھکانا کہاں۔

 

بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ يٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحصُوا العِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُم ۖ لا تُخرِجوهُنَّ مِن بُيوتِهِنَّ وَلا يَخرُجنَ إِلّا أَن يَأتينَ بِفٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلكَ حُدودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ۚ لا تَدرى لَعَلَّ اللَّهَ يُحدِثُ بَعدَ ذٰلِكَ أَمرًا {65:1}

اے نبی جب تم طلاق دو عورتوں کو تو انکو طلاق دو اُنکی عدت پر [۱] اور گنتے رہو عدت کو [۲] اور ڈرو اللہ سے جو رب ہے تمہارا مت نکالو اُنکو اُنکے گھروں سے [۳] اور وہ بھی نہ نکلیں مگر جو کریں صریح بے حیائی [۴] اور یہ حدیں ہیں باندھی ہوئی اللہ کی اور جو کوئی بڑھے اللہ کی حدوں سے تو اُس نے برا کیا اپنا [۵] اُسکو خبر نہیں [۶] شاید اللہ پیدا کر دے اُس طلاق کے بعد نئی صورت [۷]

یعنی عورتیں خود بھی اپنی مرضی سے نہ نکلیں۔ کیونکہ یہ سکنیٰ محض حق العبد نہیں کہ اس کی رضاء سے ساقط ہو جائے بلکہ حق الشرع ہے، ہاں کوئی کھلی بے حیائی کریں مثلًا بدکاری یا سرقہ کی مرتکب ہوں یا بقول بعض علماء زبان درازی کریں اور ہر وقت کا رنج و تکرار رکھتی ہوں تو نکالنا جائز ہے اور اگر بے وجہ نکلیں گی تو یہ خود صریح بے حیائی کا کام ہوگا۔

یعنی { لَاتَدْرِیْ } کا ترجمہ "اس کو خبر نہیں" بصیغہ غائب کیا ہے۔ تامعلوم ہو جائے کہ خطاب اسی طلاق دینے والے کو ہے۔ نبی کریم کو نہیں۔

نبی کو مخاطب بنا کر یہ ساری امت سے خطاب ہے یعنی جب کوئی شخص (کسی ضرورت اور مجبوری سے) اپنی عورت کو طلاق دینے کا ارادہ کرے تو چاہیئے کہ عدت پر طلاق دے۔ سورہ "بقرہ" میں آچکا کہ مطلقہ کی عدت تین حیض ہیں (کماہو مذہب الحنفیہ) لہٰذا حیض سے پہلے حالت طہر میں طلاق دینا چاہیئے تا سارا حیض گنتی میں آئے اگر فرض کیجئے حالت حیض میں طلاق دیگا تو دو حال سے خالی نہیں۔ جس حیض میں طلاق دی ہے اس کو عدت میں شمار کریں گے یا نہ کریں گے۔ پہلی صورت میں ایقاع طلاق سے پہلے جس قدر وقت حیض کا گذر چکا وہ عدت میں سے کم ہوجائے گا۔ اور پورے تین حیض عدت کے باقی رہیں گے۔ اور دوسری صورت میں جب موجودہ حیض کے علاوہ تین حیض لیں گے تو یہ حیض تین سے زائد ہوگا۔ طُہر میں طلاق دو: اس لئے مشروع طریقہ یہ ہے کہ طُہر میں طلاق دی جائے۔ اور حدیث سے یہ قید بھی ثابت ہے کہ اُس طہر میں صحبت نہ کی ہو۔

یعنی مردو عورت دونوں کو چاہیئے کہ عدت کو یاد رکھیں۔ کہیں غفلت و سہو کی وجہ سے کوئی بے احتیاطی اور گڑ بڑ نہ ہوجائے۔ نیز طلاق ایسی طرح دیں کہ ایام عدت کی گنتی میں کمی بیشی لازم نہ آئے۔ جیسا کہ اوپر کے فائدہ میں بتلایا جا چکا ہے۔

یعنی اللہ سے ڈر کر احکام شریعت کی پابندی رکھنی چاہئیے جن میں سے ایک حکم یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق نہ دیجائے اور تین طلاقیں ایک دم نہ ڈالی جائیں اور مطلقہ عورت کو اس کے رہنے کے گھر سے نہ نکالاجائے۔ وغیرذٰلک۔

یعنی گہنگار ہو کر اللہ کے ہاں سزا کا مستوجب ہوا۔

یعنی شاید پھر دونوں میں صلح ہو جائے اور طلاق پر ندامت ہو۔

 


اصول#8
لہو و لعب میں رہنے والوں پر عذاب:

القرآن :
اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ لوگوں کو بے سمجھے اللہ کے رستے سے گمراہ کرے اور اس سے ہنسی کرے یہی لوگ ہیں جنکو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔
[سورۃ لقمان:٦]



تشریح :
سعدائے مفلحین کے مقابلہ میں یہ ان اشقیاء کا ذکر ہے جو اپنی جہالت اور ناعاقبت اندیشی سے قرآن کریم کو چھوڑ کر ناچ رنگ، کھیل تماشے، یا دوسری واہیات اور خرافات میں مستغرق ہیں چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی ان ہی مشاغل و تفریحات میں لگا کر اللہ کے دین اور اس کی یاد سے برگشتہ کر دیں اور دین کی باتوں پر خوب ہنسی مذاق اڑائیں۔
لہو الحدیث کی تفسیر:
حضرت حسن "لہو الحدیث" کے متعلق فرماتے ہیں۔
کُلّ مَا شَغَلَکَ عَنْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَذِکْرِہ مِنَ السَمَرِ وَالْاَضا حِیْکِ وَالخَرافَاتِ وَالْغِنَاءِ وَنحوِھا (روح المعانی)
یعنی "لہو الحدیث" ہر وہ چیز ہے جو اللہ کی عبادت اور یاد سے ہٹانے والی ہو۔ مثلاً فضول قصہ گوئی، ہنسی مذاق کی باتیں، واہیات مشغلے، اور گانا بجانا وغیرہ)۔


نضر بن حارث کی قرآن دشمنی:
روایات میں ہے کہ نضر بن حارث جو روسائے کفا رمیں تھا بغرض تجارت فارس جاتا تو وہاں سے شاہان عجم کے قصص و تواریخ خرید کر لاتا اور قریش سےکہتا کہ محمد (ﷺ) تم کو عاد و ثمود کے قصے سناتے ہیں۔ آؤ میں تمکو رستم و اسفندیار اور شاہان ایران کے قصے سناؤں۔ بعض لوگ ان کو دلچسپ سمجھ کر ادھر متوجہ ہو جاتے۔ نیز اس نے ایک گانے والی لونڈی خرید کی تھی، جس کو دیکھتا کہ دل نرم ہوا اور اسلام کی طرف جھکا، اس کے پاس لیجاتا اور کہہ دیتا کہ اسے کھلا پلا اور گانا سنا، پھر اس شخص کو کہتا کہ دیکھ یہ اس سے بہتر ہے جدھر محمد (ﷺ) بلاتے ہیں کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، اور جان مارو۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (تنبیہ) شان نزول گو خاص ہو مگر عموم الفاظ کی وجہ سے حکم عام رہے گا۔ جو لَہو (شغل) دین اسلام سے پھر جانے یا پھیر دینے کا موجب ہو۔ حرام بلکہ کفر ہے۔ اور جو احکام شرعیہ ضروریہ سے باز رکھے یا سبب معصیت بنے وہ معصیت ہے ہاں جو لہو کسی امر واجب کا مفوِت (فوت کرنے والا) نہ ہو اور کوئی شرعی غرض و مصلحت بھی اس میں نہ ہو وہ مباح، لیکن لایعنی ہونے کی وجہ سے خلاف اولیٰ ہے۔ گھوڑ دوڑ، یا تیراندازی اور نشانہ بازی یا زوجین کی ملاعبت (جو حد شریعت میں ہو) چونکہ معتدبہ اغراض و مصالح شرعیہ پر مشتمل ہیں اس لئے لہو باطل سے مستثنٰی قرار دی گئ ہیں۔ رہا غناء و سماع کا مسئلہ اس کی تفصیل کتب فقہ وغیرہ میں دیکھنی چاہئے۔ مزامیر و مَلاہی کی حرمت پر تو صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے ۔البتہ نفسِ غناء کو ایک درجہ تک مباح لکھتے ہیں اس کی قیود و شروط بھی کتابوں میں دیکھ لی جائیں۔ صاحب روح المعانی نے آیت ہذا کے تحت میں مسئلہ غِنا و سماع کی تحقیق نہایت شرح و بسط سے کی ہے ۔


گانے باجے اور آلاتِ موسیقی کی حرمت
http://raahedaleel.blogspot.com/2016/10/blog-post_22.html



K


لَهوٌ  (جی بہلانا ، ہنسی مذاق ، تماشا کرنا یعنی انجام سے غافل کرنے والے اعمال) کی مذمت:

وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا لَعِبٌ وَلَهوٌ ۖ وَلَلدّارُ الءاخِرَةُ خَيرٌ لِلَّذينَ يَتَّقونَ ۗ أَفَلا تَعقِلونَ {6:32}

اور نہیں ہے زندگانی دنیا کی مگر کھیل اور جی بھلانا اور آخرت کا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کے لئے کیا تم نہیں سمجھتے [۳۷]

کفار تو یہ کہتے تھے کہ دنیوی زندگی کے سوا کوئی زندگی ہی نہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ فانی اور مکدر زندگانی حیات اخروی کے مقابلہ میں محض ہیچ اور بےحقیقت ہے۔ یہاں کی زندگی کے صرف ان ہی لمحات کو زندگی کہا جا سکتا ہے جو آخرت کی درستی میں خرچ کئے جائیں بقیہ تمام اوقات جو آخرت کی فکر و تیاری سے خالی ہوں ایک عاقبت اندیش کے نزدیک لہو لعب سے زائد وقعت نہں رکھتے۔ پرہیزگار اور سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ ان کا اصلی گھر آخرت کا گھر اور ان کی حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔

 

وَذَرِ الَّذينَ اتَّخَذوا دينَهُم لَعِبًا وَلَهوًا وَغَرَّتهُمُ الحَيوٰةُ الدُّنيا ۚ وَذَكِّر بِهِ أَن تُبسَلَ نَفسٌ بِما كَسَبَت لَيسَ لَها مِن دونِ اللَّهِ وَلِىٌّ وَلا شَفيعٌ وَإِن تَعدِل كُلَّ عَدلٍ لا يُؤخَذ مِنها ۗ أُولٰئِكَ الَّذينَ أُبسِلوا بِما كَسَبوا ۖ لَهُم شَرابٌ مِن حَميمٍ وَعَذابٌ أَليمٌ بِما كانوا يَكفُرونَ {6:70}

اور چھوڑ دے انکو جنہوں نے بنا رکھا ہے اپنے دین کو کھیل اور تماشا [۸۲] اور دھوکا دیا انکو دنیا کی زندگی نے [۸۳] اور نصیحت کر انکو قرآن سے تاکہ گرفتار نہ ہو جاوے کوئی اپنے کئے میں کہ نہ ہو اس کے لئے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ سفارش کرنے والا اور اگر بدلے میں دے سارے بدلے تو قبول نہ ہوں اس سے [۸۴] وہی لوگ ہیں جو گرفتار ہوئے اپنے کئے میں انکو پینا ہے گرم پانی اور عذاب ہے دردناک بدلے میں کفر کے [۸۵]

یعنی ایسےلوگوں کو جو تکذیب و استہزاء کی کوتوت میں پکڑے گئے ہوں نہ کوئی حمایتی ملے گا جو مدد کر کے زبردستی عذاب الہٰی سے چھڑا لے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ہو گا جو سعی و سفارش سےکام نکال دے۔ اور نہ کسی قسم کا فدیہ اور معاوضہ قبول کیا جائے گا اگر بالفرض ایک مجرم دنیا بھر کے معاوضے دے کر چھوٹنا چاہے تو نہ چھوٹ سکے گا۔

دنیا کی لذتوں میں مست ہو کر عاقبت کو بھلا بیٹھے۔

گذشتہ آیت میں خاص اس مجلس سے کنارہ کشی کا حکم تھا جہاں آیات اللہ کے متعلق طعن و استہزاء اور ناحق کے جھگڑے کئے جارہے ہوں۔ اس آیت میں ایسے لوگوں کی عام مجالست و صحبت ترک کر دینے کا ارشاد ہے۔ مگر ساتھ ہی حکم ہےکہ ان کو نصیحت کر دیا کرو۔ تاکہ وہ اپنے کئے کے انجام سے آگاہ ہو جائیں۔

یعنی اپنے اس دین کو جس کا قبول کرنا ان کے ذمہ فرض تھا اور وہ مذہب اسلام ہے۔

 

الَّذينَ اتَّخَذوا دينَهُم لَهوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتهُمُ الحَيوٰةُ الدُّنيا ۚ فَاليَومَ نَنسىٰهُم كَما نَسوا لِقاءَ يَومِهِم هٰذا وَما كانوا بِـٔايٰتِنا يَجحَدونَ {7:51}

جنہوں نے ٹھہرایا اپنا دین تماشا اور کھیل اور دھوکے میں ڈالا ان کو دنیا کی زندگی نے سو آج ہم انکو بھلا دیں گے جیسا انہوں نے بھلا دیا اس دن کے ملنے کو اور جیسا کہ وہ ہماری آیتوں سےمنکر تھے [۶۱]

دوزخی بدحواس اور مضطرب ہو کر اہل جنت کے سامنے دست سوال دراز کریں گے کہ ہم جلے جاتے ہیں، تھوڑا سا پانی ہم پر بہاؤ یا جو نعمتیں تم کو خدا نے دے رکھی ہیں کچھ ان سے ہمیں بھی فائدہ پہنچاؤ جواب ملے گا کہ کافروں کے لئے ان چیزوں کی بندش ہے۔ یہ کافر وہ ہی تو ہیں جو دین کو کھیل تماشہ بناتے تھے اور دنیا کے تنعم پر پھولے ہوئے تھے۔ سو جیسا ان کو دنیا کے مزوں میں پڑ کر کبھی آخرت کا خیال نہیں آیا آج ہم بھی ان کا کچھ خیال نہ کریں گے اور جس طرح انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا تھا آج ہم بھی ان کی درخواست منظور کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

 

ذَرهُم يَأكُلوا وَيَتَمَتَّعوا وَيُلهِهِمُ الأَمَلُ ۖ فَسَوفَ يَعلَمونَ {15:3}

چھوڑ دے انکو کھالیں اور برت لیں (فائدہ اٹھا لیں) اور امید میں (پر بھولے) لگے رہیں سو آئندہ معلوم کر لیں گے [۴]

یعنی جب کوئی نصیحت کارگر نہیں تو آپ ان کے غم میں نہ پڑیے بلکہ چند روز انہیں بہائم کی طرح کھانے پینے دیجئے۔ یہ خوب دل کھول کر دنیا کے مزے اڑا لیں اور مستقبل کے متعلق لمبی چوڑی امیدیں باندھتے رہیں ۔ عنقریب وقت آیا چاہتا ہے جب حقیقت حال کھل جائے گی اور اگلا پچھلا کھایا پیا سب نکل جائے گا۔ چنانچہ کچھ تو دنیا ہی میں مجاہدین کےہاتھوں حقیقت کھل گئ۔ اور پوری تکمیل آخرت میں ہو جائے گی۔

 

لاهِيَةً قُلوبُهُم ۗ وَأَسَرُّوا النَّجوَى الَّذينَ ظَلَموا هَل هٰذا إِلّا بَشَرٌ مِثلُكُم ۖ أَفَتَأتونَ السِّحرَ وَأَنتُم تُبصِرونَ {21:3}

کھیل میں پڑے ہیں دل اُنکے [۲] اور چھپا کر مصلحت کی بے انصافوں نے یہ شخص کون ہے ایک آدمی ہےتم ہی جیسا پھر کیوں پھنستے ہو اُسکے جاد ومیں آنکھوں دیکھتے [۳]

جب نصیحت سنتے سنتے تنگ آ گئے تو چند بے انصافوں نے خفیہ میٹنگ کر کے قرآن اور پیغمبر کے متعلق کہنا شروع کیا کہ یہ پیغمبر تو ہمارے جیسے ایک آدمی ہیں ، نہ فرشتہ ہیں ، نہ ہم سے زیادہ کوئی ظاہری امتیاز رکھتے ہیں ۔ البتہ ان کو جادو آتا ہے ۔ جو کلام پڑھ کر سناتے ہیں وہ ہو نہ ہو جادو کا کلام ہے۔ پھر تم کو کیا مصیبت نے گھیرا کہ آنکھوں دیکھے ان کےجادو میں پھنستے ہو۔ لازم ہے کہ انکے قریب نہ جاؤ ۔ قرآن کو جادو شاید اس کی قوت تاثیر اور حیرت انگیز تصرف کو دیکھ کر کہا۔ اور خفیہ میٹنگ اس لئے کی کہ آئندہ حق کے خلاف جو تدابیر کرنے والے تھے یہ اس کی تمہید تھی۔ اور ظاہر ہے کہ ہشیار دشمن اپنی معاندانہ کارروائیوں کو قبل از وقت طشت ازبام کرنا پسند نہیں کرتا اندر ہی اندر آپس میں پروپیگنڈا کیا کرتا ہے۔

یعنی قرآن کی بڑی بیش قیمت نصیحتوں کو محض ایک کھیل تماشہ کی حیثیت سے سنتے ہیں جن میں اگر اخلاص کےساتھ غور کرتے تو سب دین و دنیا درست ہو جاتی۔ لیکن جب ہی ادھر سےغافل ہیں اور کھیل تماشہ میں پڑےہیں تو غور کرنے کی نوبت کہاں سے آئے۔

 

لَو أَرَدنا أَن نَتَّخِذَ لَهوًا لَاتَّخَذنٰهُ مِن لَدُنّا إِن كُنّا فٰعِلينَ {21:17}

اگر ہم چاہتے کہ بنا لیں کچھ کھلونا تو بنا لیتے ہم اپنے پاس سے اگر ہم کو کرنا ہوتا

 

رِجالٌ لا تُلهيهِم تِجٰرَةٌ وَلا بَيعٌ عَن ذِكرِ اللَّهِ وَإِقامِ الصَّلوٰةِ وَإيتاءِ الزَّكوٰةِ ۙ يَخافونَ يَومًا تَتَقَلَّبُ فيهِ القُلوبُ وَالأَبصٰرُ {24:37}

وہ مرد کہ نہیں غافل ہوتے سودا کرنے میں اور نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے اور نماز قائم رکھنے سے اور زکوٰۃ دینے سے [۷۱] ڈرتے رہتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں [۷۲]

یعنی معاش کے دھندے انکو اللہ کی یاد اور احکام الٰہیہ کی بجا آوری سے غافل نہیں کرتے بڑے سے بڑا بیوپار یا معمولی خرید و فروخت کوئی چیز خدا کے ذکر سے نہیں روکتی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ ہی شان تھی۔

یعنی اس روز دل وہ باتیں سمجھ لیں گے جو ابھی تک نہ سمجھے تھے اور آنکھیں وہ ہولناک واقعات دیکھیں گی جو کبھی نہ دیکھے تھے، قلوب میں کبھی نجات کی توقع پید اہو گی، کبھی ہلاکت کا خوف۔ اور آنکھیں کبھی داہنے کبھی بائیں دیکھیں گی کہ دیکھئے کس طرف سے پکڑے جائیں یا کس جانب سے اعمالنامہ ہاتھ میں دیا جائے۔

 

إِنَّمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا لَعِبٌ وَلَهوٌ ۚ وَإِن تُؤمِنوا وَتَتَّقوا يُؤتِكُم أُجورَكُم وَلا يَسـَٔلكُم أَموٰلَكُم {47:36}

یہ دنیا کا جینا تو کھیل ہے اور تماشا اور اگر تم یقین لاؤ گے اور بچ کر چلو گے دے گا تمکو تمہارا بدلا اور نہ مانگے گا تم سے مال تمہارے [۵۳]

یعنی آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی حقیقت ایک کھیل تماشہ جیسی ہے ۔ اگر تم ایمان و تقویٰ اختیار کرو گے اور اس کھیل تماشہ سے ذرا بچ کر چلو گے۔ تو اللہ تمکو اس کا پورا بدلہ دے گا اور تمہارا مال بھی تم سے طلب نہیں کرے گا۔ اسے کیا حاجت ہے۔ وہ تو خود دینے والا ہے کمال قال { مَا اُردِیْدُ مِنْھُمْ مِنْ رِّزْقٍ وَّمَا اُرِیْدُ اَنْ یُطْعِمُوْنَ اِنَّ اللہَ ھُوَالرَّزَّقُ ذُوالقُوَّۃِ الْمَتِیْن } (ذاریات رکوع۳) اگر طلب بھی کرے تو مالک حقیقی وہ ہی ہے تمام مال اسی کا ہے مگر اسکے باوجود دین کے معاملہ میں جب خرچ کرنے کو کہتا ہے تو سارے مال کا مطالبہ نہیں کرتا۔ بلکہ ایک تھوڑ ا سا حصہ طلب کیا جاتا ہے۔ وہ بھی اپنے لئے نہیں بلکہ تمہارے فائدہ کو۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "حق تعالیٰ نے ملک فتح کرا دیے مسلمانوں کو تھوڑے ہی دن (اپنی گرہ سے) پیسہ خرچ کرنا پڑا۔ پھر جتنا خرچ کیا تھا۔ اس سے سو سو گناہ ہاتھ لگا۔ اس مطلب سے (قرآن کریم میں کئ جگہ) فرمایا ہے کہ اللہ کو قرض دو"۔

 

اعلَموا أَنَّمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا لَعِبٌ وَلَهوٌ وَزينَةٌ وَتَفاخُرٌ بَينَكُم وَتَكاثُرٌ فِى الأَموٰلِ وَالأَولٰدِ ۖ كَمَثَلِ غَيثٍ أَعجَبَ الكُفّارَ نَباتُهُ ثُمَّ يَهيجُ فَتَرىٰهُ مُصفَرًّا ثُمَّ يَكونُ حُطٰمًا ۖ وَفِى الءاخِرَةِ عَذابٌ شَديدٌ وَمَغفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنٌ ۚ وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتٰعُ الغُرورِ {57:20}

جان رکھو کہ دنیا کی زندگانی یہی ہے کھیل اور تماشا اور بناؤ اور بڑائیاں کرنی آپس میں اور بہتایت ڈھونڈنی مال کی اور اولاد کی جیسے حالت ایک مینہ کی جو خوش لگا کسانوں کو اُس کا سبزہ پھر زور پر آتا ہے پھر تو دیکھے زرد ہو گیا پھر ہو جاتا ہے روندا ہوا گھاس اور آخرت میں سخب عذاب ہے اور معافی بھی ہے اللہ سے اور رضامندی اور دنیا کی زندگانی تو یہی ہے مال دغا کا [۳۳]

آدمی کو اول عمر میں کھیل چاہئے، پھر تماشا، پھر بناؤ سنگار (اور فیشن) پھر ساکھ بڑھانا اور نام و نمود حاصل کرنا پھر موت کے دن قریب آئیں تو مال و الاد کی فکر کہ پیچھے میرا گھر بار بنا رہے اور اولاد آسودگی سے بسر کرے۔ مگر یہ سب ٹھاٹھ سامان فانی اور زائل ہیں ۔ جیسے کھیت کی رونق و بہار چند روزہ ہوتی ہے پھر زرد پڑ جاتی ہے اور آدمی اور جانور اسکو روند کرچورا کر دیتے ہیں۔ اس شادابی اور خوبصوری کا نام و نشان نہیں رہتا۔ یہ ہی حال دنیا کی زندگانی اور اسکے سازوسامان کو سمجھو کہ وہ فی الحقیقت ایک دغا کی پونجی اور دھوکے کی ٹٹی ہے۔ آدمی اسکی عارضی بہار سے فریب کھا کر اپنا انجام تباہ کر لیتا ہے۔ حالانکہ موت کے بعد یہ چیزیں کام آنے والی نہیں۔ وہاں کچھ اور ہی کام آئے گا۔ یعنی ایمان اور عمل صالح۔ جو شخص دنیا سے یہ چیز کما کر لے گیا، سمجھو بیڑا پار ہے۔ آخرت میں اسکے لئے مالک کی خوشنودی و رضامندی اور جو دولت ایمان سے تہی دست رہا اور کفر و عصیان کا بوجھ لے کر پہنچا اسکے لئے سخت عذاب۔ اور جس نے ایمان کے باوجود اعمال میں کوتاہی کی اسکے لئے جلد یا بدیر دھکے مکے کھا کرمعافی ہے۔ دنیا کا خلاصہ وہ تھا آخرت کا یہ ہوا۔

 

وَإِذا رَأَوا تِجٰرَةً أَو لَهوًا انفَضّوا إِلَيها وَتَرَكوكَ قائِمًا ۚ قُل ما عِندَ اللَّهِ خَيرٌ مِنَ اللَّهوِ وَمِنَ التِّجٰرَةِ ۚ وَاللَّهُ خَيرُ الرّٰزِقينَ {62:11}

اور جب دیکھیں سودا بکتا یا کچھ تماشا متفرق ہو جائیں اُسکی طرف اور تجھ کو چھوڑ جائیں کھڑا تو کہہ جو اللہ کے پاس ہے سو بہتر ہے تماشے سے اور سوداگری سے اور اللہ بہتر ہے روزی دینے والا [۱۴]

ایک مرتبہ جمعہ میں حضرت خطبہ فرما رہے تھے، اسی وقت تجارتی قافلہ باہر سے غلہ لے کر آپہنچا۔ اس کے ساتھ اعلان کی غرض سے نقارہ بجتا تھا۔ پہلے سے شہر میں اناج کی کمی تھی۔ لوگ دوڑے کہ اس کو ٹھہرائیں (خیال کیا ہوگا کہ خطبہ کا حکم عام وعظوں کی طرح ہے جس میں سے ضرورت کے لئے اٹھ سکتے ہیں۔ نماز پھر آکر پڑھ لینگے۔ یا نماز ہوچکی ہوگی جیسا کہ بعض کا قول ہے کہ اس وقت نماز جمعہ خطبہ سے پہلے ہوتی تھی۔ بہرحال خطبہ کا حکم معلوم نہ تھا) اکثر لوگ چلے گئے حضرت کے ساتھ بارہ آدمی (جن میں خلفاء راشدین بھی تھے) باقی رہ گئے۔ اس پر یہ آیت اتری یعنی سوداگری اور دنیا کا کھیل تماشا کیا چیز ہے، وہ ابدی دولت حاصل کرو جو اللہ کے پاس ہے اور جو پیغمبر کی صحبت اور مجالس ذکر و عبادت میں ملتی ہے۔ باقی قحط کی وجہ سے روزی کا کھٹکا جس کی بناء پر اٹھ کر چلے گئے، سو یاد رکھو روزی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہی بہترین روزی دینے والا ہے۔ اس مالک کے غلام کو یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اس تنبیہ و تادیب کے بعد صحابہؓ کی شان وہ تھی جو سورۃ "نور" میں ہے { رجالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللہِ }۔ (تنبیہ) "لہو" کہتے ہیں ہر اس چیز کو جو اللہ کی یاد سے مشغول کر دے جیسے کھیل تماشہ۔ شاید اس نقارہ کی آواز کو "لہو" سے تعبیر فرمایا ہو۔ تم سورۃ الجمعۃ فللّٰہ الحمد والمنہ۔

 

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُلهِكُم أَموٰلُكُم وَلا أَولٰدُكُم عَن ذِكرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ فَأُولٰئِكَ هُمُ الخٰسِرونَ {63:9}

اے ایمان والو غافل نہ کردیں تم کو تمہاے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے اور جو کوئی یہ کام کرے تو وہی لوگ ہیں ٹوٹے میں [۱۶]

یعنی آدمی کے لئے بڑے خسارے اور ٹوٹے کی بات ہے کہ باقی کو چھوڑ کر فانی میں مشغول ہو اور اعلیٰ سے ہٹ کر ادنیٰ میں پھنس جائے مال و اولاد وہ ہی اچھی ہے جو اللہ کی یاد اور اس کی عبادت سے غافل نہ کرے۔ اگر ان دھندوں میں پڑ کر خدا کی یاد سے غافل ہوگیا تو آخرت بھی کھوئی اور دنیا میں قلبی سکون و اطمینان نصیب نہ ہوا۔ { وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی }۔

 

فَأَنتَ عَنهُ تَلَهّىٰ {80:10}

سو تو اُس سے تغافل کرتا ہے [۶]

حالانکہ ایسے ہی لوگوں سے امید ہوسکتی ہے کہ ہدایت سے منتفع ہونگے اور اسلام کے کام آئیں گے، کہتے ہیں کہ یہ ہی نابینا بزرگ زرہ پہنے اور جھنڈا ہاتھ میں لئے جنگ قادسیہ میں شریک تھے۔ آخر اسی معرکہ میں شہید ہوئے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

 



عن بهز بن حكيم حدثني أبي عن جدي قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول : ويل للذي يحدث بالحديث ليضحك به القوم فيكذب ويل له ويل له .
[أخرج الإمام أحمد وأبو داود والترمذي:٢/٥٧، والدارمي والروياني في المسند والطبراني]


ترجمہ:
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو لوگوں کو ہنسوانے کی غرض سے "جھوٹی" بات کہتا ہے، ہلاکت ہے اس کیلئے، ہلاکت ہے اس کیلئے۔




عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرجل ليتكلم بالكلمة لا يرى بها بأسا يهوي بها سبعين خريفا في النار

[سنن الترمذي » كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم » باب فيمن تكلم بكلمة يضحك بها الناس:2314]
ترجمہ: نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بعض اوقات آدمی ناسمجھی میں ( یا بات کو معمولی سمجھکر) کوئی ایسے بات کہتا ہے جس کی وجہ سے وہ ستر سال تک جہنم میں گرادیا جاتا ہے.

[أخرجه أحمد (2/297، رقم 7945) ، والترمذى (4/557، رقم 2314) وقال: حسن غريب. وأخرجه أيضًا: ابن حبان (13/13، رقم 5706) .]




عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ لا يَقُولُهَا إِلا لِيُضْحِكَ بِهَا الْمَجْلِسَ فَيَهْوِي بِهَا أَبْعَدَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ ، وَإِنَّهُ لَيَزِلُّ عَنْ لِسَانِهِ أَشَدَّ مِمَّا يَزِلُّ عَنْ قَدَمِهِ " .

[شرح السنة » كِتَابُ الرِّقَاقِ » بَابُ حِفْظِ اللِّسَانِ، رقم الحديث: 4047]
روہ البیہقی فی شعب الایمان : ٤/٢١٣، حدیث : ٤٨٣٢؛ سنن ترمذی : ٢/٨٧، باب ما جاہ من تکلم بكلمة ليضحك به الناس نحوه بمعناه] 

ترجمہ: نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک بندہ کوئی بات صرف اس لئے کرتا ہے کہ اس سے لوگوں کو ہنساۓ تو وہ اس کے سبب دوزخ میں گرایا جاۓ گا، جس کی مسافت آسمان و زمین کی مسافت سے زیادہ ہوگی.




شیطانی کام:


القرآن : شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم لوگ ان کاموں سے باز آؤ گے۔

[المائدہ:٩١]


تشریح :
شراب پی کر جب عقل جاتی رہتی ہے تو بعض اوقات شرابی پاگل ہو کر آپس میں لڑپڑتے ہیں حتیٰ کہ نشہ اترنےکے بعد بھی بعض دفعہ لڑائی کا اثر باقی رہتا ہے اور باہمی عداوتیں قائم ہو جاتی ہیں۔ یہ ہی حال بلکہ کچھ بڑھ کر جوئے کا ہے اس میں ہارجیت پر سخت جھگڑے اور فساد برپا ہوتے ہیں۔ جس سے شیطان کو اودھم مچانے کا خوب موقع ملتا ہے۔ یہ تو ظاہری خرابی ہوئی او رباطنی نقصان یہ ہے کہ ان چیزوں میں مشغول ہو کو انسان خدا کی یاد اور عبادت الہٰی سے بالکل غافل ہو جاتا ہے اس کی دلیل مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ شطرنج کھیلنے والوں ہی کو دیکھ لو۔ نماز تو کیا کھانے پینے اور گھر بارکی بھی خبر نہیں رہتی۔ جب یہ چیز اس قدر ظاہری و باطنی نقصانات پر مشتمل ہے تو کیا ایک مسلمان اتنا سن کر بھی باز نہ آئے گا۔



================================

اصول#9
مرد و عورت ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں:

القرآن :
مومنو! مرد مردوں سے تمسخر نہ کریں ممکن ہے جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ممکن ہے وہ جن کا مذاق اڑا رہی ہیں ان سے اچھی ہوں۔ اور اپنوں کو آپس میں عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے۔ اور جو لوگ توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔
[سورۃ الحجرات:١١]



تشریح : اول مسلمانوں میں نزاع و اختلاف کو روکنے کی تدابیر بتلائی تھی۔ پھر بتلایا کہ اگر اتفاقًا اختلاف رونما ہو جائے تو پرزور اور مؤثر طریقہ سے اس کو مٹایا جائے۔ لیکن جب تک نزاع کا خاتمہ نہ ہو کوشش ہونی چاہئے کہ کم از کم جذبات منافرت و مخالفت زیادہ تیز اور مشتعل نہ ہونے پائیں۔ عمومًا دیکھا جاتا ہے کہ جہاں دو شخصوں یا دو جماعتوں میں اختلاف رونما ہوا۔ بس ایک دوسرے کا تمسخر اور استہزاء کرنے لگتا ہے۔ ذرا سی بات ہاتھ لگ گئ اور ہنسی مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ حالانکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید جس کا مذاق اڑا رہا ہے وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔ بکہ بسا اوقات یہ خود بھی اختلاف سے پہلے اسکو بہتر سمجھتا ہوتا ہے۔ مگر ضد ونفسانیت میں دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ اس طریقہ سے نفرت و عداوت کی خلیج روز بروز وسیع ہوتی رہتی ہے۔ اور قلوب میں اس قدر بُعد ہو جاتا ہے کہ صلح وائتلاف کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ آیۂ ہذا میں خداوند قدوس نے اسی قسم کی باتوں سے منع فرمایا ہے۔ یعنی ایک جماعت دوسری جماعت کے ساتھ مسخرا پن نہ کرے نہ ایک دوسرے پر آوازے کسے جائیں نہ کھوج لگا کر عیب نکالے جائیں اور نہ برے ناموں اور برے القاب سے فریق مقابل کو یاد کیا جائے، کیونکہ ان باتوں سے دشمنی اور نفرت میں ترقی ہوتی اور فتنہ و فساد کی آگ اور تیزی سے پھیلتی ہے۔ سبحان اللہ! کیسی بیش بہا ہدایت ہیں۔ آج اگر مسلمان سمجھیں تو ان کے سب سے بڑے مرض کا مکمل علاج اسی ایک سورہ حجرات میں موجود ہے۔


برے القاب سے نہ پکارو: یعنی کسی کو برا نام ڈالنے سے آدمی خود گنہگار ہو تا ہے۔ اُسے تو واقع میں عیب لگا یا نہ لگا لیکن اس کا نام بدتہذیب، فاسق گنہگار، مرد آزار پڑ گیا۔ خیال کرو۔ "مومن" کے بہترین لقب کے بعد یہ نام کیا اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب ایک شخص ایمان لا چکا اور مسلمان ہو گیا اسکو مسلمانی سے پہلے کی باتوں پرطعن دینا یا اس وقت کے بدترین القاب سے یاد کرنا مثلًا یہودی یا نصرانی وغیرہ کہہ کر پکارنا نہایت مذموم حرکت ہے۔ اسی طرح جو شخص عیب میں مبتلا ہوا اور وہ اس کا اختیاری نہ ہو، یا ایک گناہ سے فرض کیجئے توبہ کر چکا ہے، چڑانے کے لئے اس کا ذکر کرنا بھی جائز نہیں۔


توبہ کی سہولت: یعنی جو پہلے ہو چکا ہو چکا اب توبہ کر لو۔ اگر یہ احکام و ہدایات سننے کے بعد بھی ان جرائم سے توبہ نہ کی تو اللہ کے نزدیک اصلی ظالم یہ ہی ہوں گے۔


مسخری  (ٹھٹھا و مذاق) کی مذمت:

وَلَقَدِ استُهزِئَ بِرُسُلٍ مِن قَبلِكَ فَحاقَ بِالَّذينَ سَخِروا مِنهُم ما كانوا بِهِ يَستَهزِءونَ {6:10}

اور بلاشبہہ ہنسی کرتے رہے ہیں رسولوں سے تجھ سے پہلے پھرگھیر لیا ان سے ہنسی کرنے والوں کو اس چیز نے کہ جس پر ہنسا کرتے تھے [۱۳]

معاندین کی فرمائشوں کا جواب دینے کے بعد حضور کی تسلی کی جاتی ہے کہ آپ ان کے استہزاء اور تمسخر سے دلگیر نہ ہوں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ انبیائے سابقین کو بھی ان ہی حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ پھر جو ان کے مکذبیں اور دشمنوں کا حشر ہوا سب کے سامنے ہے۔ ان کو بھی خدا اسی طرح سزا دے سکتا ہے جو اگلے مجرموں کو دی گئ۔

 

الَّذينَ يَلمِزونَ المُطَّوِّعينَ مِنَ المُؤمِنينَ فِى الصَّدَقٰتِ وَالَّذينَ لا يَجِدونَ إِلّا جُهدَهُم فَيَسخَرونَ مِنهُم ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنهُم وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ {9:79}

وہ لوگ جو طعن کرتے ہیں ان مسلمانوں پر جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان پر جو نہیں رکھتے مگر اپنی محنت کا پھر ان پر ٹھٹھے کرتے ہیں اللہ نے ان سے ٹھٹھا کیا ہے اور ان کے لئے عذاب دردناک ہے [۸۶]

ایک مرتبہ آنحضرت نے مسلمانوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے چار ہزار (دینار یا درہم) حاضر کر دیے۔ عاصم بن عدی نے ایک سو وسق کھجوریں (جن کی قیمت چار ہزار درہم ہوتی تھی) پیش کیں۔ منافقین کہنے لگے کہ ان دونوں نے دکھلاوے اور نام و نمود کو اتنا دیا ہے ۔ ایک غریب صحابی ابو عقیل جحاب نے جو محنت و مشقت سے تھوڑا سا کما کر لائے اس میں ایک صاع تمر صدقہ کیا تو مذاق اڑانے لگے کہ یہ خواہ مخواہ زور آوری سے لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ بھلا اس کی ایک صاع کھجوریں کیا کار کریں گی۔ غرض تھوڑا دینے والا اور بہت خرچ کرنے والا کوئی ان کی زبان سے بچتا نہ تھا۔کسی پر طعن کسی سے ٹھٹھا کرتے تھے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا { سَخِرَاللہُ مِنْھُمْ } (اللہ نے ان سے ٹھٹھا کیا ہے) یعنی ان کے طعن و تمسخر کا بدلہ دیا ، بظاہر تو وہ چند روز کے لئے مسخرا پن کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیے گئے ہیں ، لیکن فی الحقیقت اندر ہی اندر سکھ کی جڑیں کٹتی چلی جا رہی ہیں ۔ اور عذاب الیم ان کے لئے تیار ہے۔

 


وَيَصنَعُ الفُلكَ وَكُلَّما مَرَّ عَلَيهِ مَلَأٌ مِن قَومِهِ سَخِروا مِنهُ ۚ قالَ إِن تَسخَروا مِنّا فَإِنّا نَسخَرُ مِنكُم كَما تَسخَرونَ {11:38}

اور وہ کشتی بناتا تھا [۵۲] اور جب گذرتے اس پر سردار اس کی قوم کے ہنسی کرتے اس سے [۵۳] بولا اگر تم ہنستے ہو ہم سے تو ہم ہنستے ہیں تم سے جیسے تم ہنستے ہو [۵۴]

کہتے ہیں کشتی سالہاسال میں تیار کی۔ کشتی کیا تھی بڑا جہاز تھا۔ جس میں الگ الگ درجے تھے ۔ مفسرین نے اس کی تفاصیل میں بہت سی مبالغہ آمیز اور عجیب و غریب روایات بیان کی ہیں جن میں اکثر اسرائیلیات ہیں۔

کہ دیکھو ! پیغمبر سے بڑھئی بن گئے کبھی ایک عجیب سی چیز دیکھ کر نوحؑ سے پوچھتے کہ یہ کیا بنا رہے ہو ؟ آپ فرما دیتے کہ ایک گھر بناتا ہوں جو پانی پر چلے گا اور ڈوبنے سے بچائے گا۔ وہ سن کر ہنسی اڑاتے کہ خشک زمین پر ڈوبنے کا بچاؤ کر رہے ہیں۔

حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "وہ ہنستے تھے کہ خشک زمین پر غرق کا بچاؤ کرتا ہے۔ یہ ہنستے تھے اس پر کہ موت سر پر کھڑی ہے اور یہ ہنستے ہیں" اسی تفسیر کے موافق مترجم محققؒ نے { فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ } الخ کا ترجمہ بصیغہ حال کیا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ { نَسْخَرُ مِنْکُمْ } میں استقبال کے معنی مراد لیتے ہیں۔ یعنی آج تم ہمیں احمق بناتے اور ہنستے ہو ۔ لیکن وہ زمانہ قریب ہے کہ اس کے جواب میں تمہاری حماقت و سفاہت پر ہم کو ہنسنے کا موقع ملے گا ، جب تم اپنے جرائم کی پاداش میں سزایاب ہو گے۔

 


وَلَقَدِ استُهزِئَ بِرُسُلٍ مِن قَبلِكَ فَحاقَ بِالَّذينَ سَخِروا مِنهُم ما كانوا بِهِ يَستَهزِءونَ {21:41}

اور ٹھٹھے ہو چکے ہیں رسولوں سے تجھ سے پہلے پھر الٹ پڑی ٹھٹھا کرنے والوں پر اُن میں سے وہ چیز جس کا ٹھٹھا کرتے تھے [۴۷]

یعنی جس چیز سے ٹھٹھا کرتے تھے اس کی سزا نے گھیر لیا اور ان کی ہنسی ان ہی پر الٹ دی گئ۔

 


فَاتَّخَذتُموهُم سِخرِيًّا حَتّىٰ أَنسَوكُم ذِكرى وَكُنتُم مِنهُم تَضحَكونَ {23:110}

پھر تم نے ان کو ٹھٹھوں میں پکڑا یہاں تک کہ بھول گئے انکے پیچھے میری یاد اور تم ان سے ہنستے رہے [۱۰۹]

یعنی دنیا میں مسلمان جب اپنے رب کے آگے دعا و استغفار کرتے تو تم کو ہنسی سوجھتی تھی۔ اس قدر ٹھٹھا کرتے اور ان کی نیک خصلتوں کا اتنا مذاق اڑاتے تھے کہ ان کے پیچھے پڑ کر تم نے مجھے بھی یاد نہ رکھا، گویا تمہارے سر پر کوئی حاکم ہی نہ تھا جو کسی وقت ان حرکتوں پر نوٹس لے اور ایسی سخت شرارتوں کی سزا دے سکے۔

 


بَل عَجِبتَ وَيَسخَرونَ {37:12}

بلکہ تو کرتا ہے تعجب اور وہ کرتے ہیں ٹھٹھے [۱۳]

یعنی تجھ کو ان پر تعجب آتا ہے کہ ایسی صاف باتیں کیوں نہیں سمجھتے اور وہ ٹھٹھا کرتے ہیں کہ یہ (نبی) کس قسم کی بے سروپا باتیں کر رہا ہے ۔ (العیاذ باللہ)

 


وَإِذا رَأَوا ءايَةً يَستَسخِرونَ {37:14}

اور جب دیکھیں کچھ نشانی ہنسی میں ڈال دیتے ہیں

 


أَتَّخَذنٰهُم سِخرِيًّا أَم زاغَت عَنهُمُ الأَبصٰرُ {38:63}

کیا ہم نے انکو ٹھٹھے میں پکڑا تھا یا چوک گئیں ان سے ہماری آنکھیں [۵۷]

وہاں دیکھیں گے کہ سب جان پہچان والے لوگ ادنیٰ و اعلیٰ دوزخ میں جانے کے واسطے جمع ہوئے ہیں۔ مگر جن مسلمانوں کو پہچانتے تھے اور سب سے زیادہ برا جان کر مذاق اڑایا کرتے تھے وہ اس جگہ نظر نہیں آتے، تو حیران ہو کر کہیں گے کہ کیا ہم نے غلطی سے ان کے ساتھ ٹھٹھا کیا تھا، وہ اس قابل نہ تھے کہ آج دوزخ کے نزدیک رہیں، یا اسی جگہ کہیں پر ہیں پر ہماری آنکھیں چوک گئیں۔ ہمارے دیکھنے میں نہیں آتے۔

 


أَن تَقولَ نَفسٌ يٰحَسرَتىٰ عَلىٰ ما فَرَّطتُ فى جَنبِ اللَّهِ وَإِن كُنتُ لَمِنَ السّٰخِرينَ {39:56}

کہیں کہنے لگے کوئی جی اے افسوس اس بات پر کہ میں کوتاہی کرتا رہا اللہ کی طرف سے اور میں تو ہنستا ہی رہا [۷۲]

یعنی ہوا و ہوس، رسم تقلید اور دنیا کے مزوں میں پڑ کر خدا کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ اس کے دین کی اور پیغمبروں کی اور جس ہولناک انجام سے پیغمبر ڈرایا کرتے تھے، سب کی ہنسی اڑاتا رہا۔ ان چیزوں کی کوئی حقیقت ہی نہ سمجھی۔ افسوس خدا کے پہچاننے اور اس کا حق ماننے میں میں نے کس قدر کوتاہی کی۔ جس کے نتیجہ میں آج یہ برا وقت دیکھنا پڑا۔ (یہ بات کافر محشر میں کہے گا اور اگر آیت کا مضمون کفار و عصاۃ کو عام رکھا جائے تو { اِنْ کُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِیْن } کے معنی { عَمِلْتُ عَمَلَ سَاخِرٍ مُسْتَھْزِیءٍ } کے ہوں گے۔ کما فَسّر بہ ابن کثیرؒ۔

 





اصول#10
بدگمانی اور غیبت کی ممانعت:

القرآن:
اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ تو غیبت نہ کرو اور اللہ کا ڈر رکھو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے مہربان ہے۔
[سورۃ الحجرات:١٢]



تشریح :
اختلاف و تفریق باہمی کے بڑھانے میں ان امور کو خصوصیت سے دخل ہے۔ ایک فریق دوسرے فریق سے ایسا بدگمان ہو جاتا ہے کہ حسن ظن کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ مخالف کی کوئی بات ہو اس کا محل اپنے خلاف نکال لیتا ہے ۔ اس کی بات میں ہزار احتمال بھلائی کے ہوں اور اور صرف ایک پہلو برائی کا نکلتا ہو۔ ہمیشہ اس کی طبیعت برے پہلو کی طرف چلے گی اور اسی برے اور کمزور پہلو کو قطعی اور یقینی قرار دے کر فریق مقابل پر تہمتیں اور الزام لگانا شروع کر دے گا۔ پھر نہ صرف یہ ہی کہ ایک بات حسب اتفاق پہنچ گئ، بدگمانی سے اسکو غلط معنی پہنچا دیے گئے، نہیں، اس جستجو میں رہتا ہے کہ دوسری طرف کے اندرونی بھید معلوم ہوں جس پر ہم خوب حاشیے چڑھائیں۔ اور اسکی غیبت سے اپنی مجلس گرم کریں۔ ان تمام خرافات سے قرآن کریم منع کرتا ہے۔ اگر مسلمان اس پرعمل کریں تو جو اختلافات بدقسمتی سے پیش آ جاتے ہیں وہ اپنی حد سے آگے نہ بڑھیں اور ان کا ضرر بہت محدود ہو جائے۔ بلکہ چند روز میں نفسانی اختلافات کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتےہیں "الزام لگانا اور بھید ٹٹولنا اور پیٹھ پیچھے برا کہنا کسی جگہ بہتر نہیں۔ مگر جہاں اس میں کچھ دین کا فائدہ ہو اور نفسانیت کی غرض نہ ہو"۔ وہاں اجازت ہے جیسے رجال حدیث کی نسبت ائمہ جرع و تعدیل کا معمول رہا ہے کیونکہ اس کے بدون دین کا محفوظ رکھنا محال تھا۔

عمل غیبت کا گھناؤنا پن:
یعنی مسلمان بھائی کی غیبت کرنا ایسا گندہ اور گھناؤنا کام ہے جیسے کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کاگوشت نوچ نوچ کر کھائے۔ کیا اس کو کوئی انسان پسندکرے گا؟ بس سمجھ لو غیبت اس سے بھی زیادہ شنیع حرکت ہے۔

خاندانی اور نسبی اختلافات کی حقیقت:
یعنی ان نصیحتوں پر کاربند وہ ہی ہو گا جس کے دل میں خدا کا ڈر ہو۔ یہ نہیں تو کچھ نہیں۔ چاہئے کہ ایمان و اسلام کا دعوٰی رکھنے والے واقعی طور پر اس خداوند قہار کے غضب سے ڈریں اور ایسی ناشائستہ حرکتوں کے قریب نہ جائیں۔ اگر پہلے کچھ غلطیاں اور کمزوریاں سرزد ہوئی ہوں، اللہ کے سامنے صدق دل سے توبہ کریں وہ اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا۔


خاندانی اور نسبی اختلافات کی حقیقت:


القرآن :
لوگو! ہم نے تمکو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا ہے سب سے خبردار ہے۔
[سورۃ الحجرات:١٣]



تشریح :
اکثر غیبت، طعن و تشنیع اور عیب جوئی کا منشاء کبر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے، اس کو بتلاتے ہیں کہ اصل میں انسان کا بڑا چھوٹا یا معزز و حقیر ہونا ذات پات اور خاندان و نسب سے تعلق نہیں رکھتا۔ اسلام کی فضیلت کا معیار: بلکہ جو شخص جس قدر نیک خصلت، مؤدب اور پرہیزگار ہو اسی قدر اللہ کے ہاں معزز و مکرم ہے۔ نسب کی حقیقت تو یہ ہے کہ سارے آدمی ایک مرد اور ایک عورت یعنی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ شیخ، سید، مغل، پٹھان اور صدیقی، فاروقی، عثمانی، انصاری سب کا سلسلہ آدم و حوا پر منتہی ہوتا ہے۔ یہ ذاتیں اور خاندان اللہ تعالٰی نے محض تعارف اور شناخت کے لئے مقرر کئے ہیں۔ بلاشبہ جس کو حق تعالٰی کسی شریف اور بزرگ و معزز گھرانے میں پیدا کر دے وہ ایک موہوب شرف ہے، جیسے کسی کو خوبصورت بنا دیا جائے، لیکن یہ چیز ناز اور فخر کرنے کے لائق نہیں کہ اسی کو معیار کمال اور فضیلت کا ٹھہرا لیا جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھا جائے ہاں شکر کرنا چاہئے کہ اس نے بلا اختیار و کسب ہم کو یہ نعمت مرحمت فرمائی۔ شکر میں یہ بھی داخل ہے کہ غرور و تفاخر سے باز رہے اور اس نعمت کو کمینہ اخلاق اور بری خصلتوں سے خراب نہ ہونے دے۔ بہرحال مجدد شرف اور فضیلت و عزت کا اصلی معیار نسب نہیں تقویٰ و طہارت ہے اور متقی آدمی دوسروں کو حقیر کب سمجھے گا؟ تقویٰ اور ادب اصل میں دل سے ہے۔ اللہ ہی کو خبر ہے کہ جو شخص ظاہر میں متقی اور مؤدب نظر آتا ہے وہ واقع میں کیسا اور آئندہ کیسا رہے۔ انما العبرۃ للخواتیم۔

=====================================

عصرِحاضر میں ذرائع ابلاغ کا مکروہ کردار اور ہماری ذمہ داریاں

صراط مستقیم اور سبلِ شیاطین 
اللہ تعالیٰ کے بے شماراحسانات میں سے ایک احسانِ عظیم یہ ہے کہ اس نے شیطان اور اس کے کا رندوں کی پھیلائی ہوئی کفر وضلالت کی ظلمتوں اور فسق وجہالت کی تار یکیوں میں اپنے بندوں کے لیے رشدوہدایت کا انتظام کر دیا اورحق کو باطل سے چھانٹ کر علیحدہ کرکے رکھ دیا…﴿قد تبین الرشدمن الغی﴾!اللہ تعالیٰ نے اپنے نورسے صراطِ مستقیم کو تا قیادمت روشن کر دیا، تا کہ امتِ مسلمہ گم را ہیوں کے رستوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے محفوظ رہے اور حق کی اتباع سے دنیا وآخرت کی فوز وفلاح کو اپنا مقدر کر لے۔اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوادیا:﴿وَأَنَّ ہَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِیْلِہِ ذَلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون﴾ (الأنعام:153)

”اور یقینا یہ میرا راستہ سیدھا (راستہ)ہے لہٰذا تم اسی کی پیروی کرو اور تم دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو ،کہ تمہیں اللہ کے راستے سے الگ کردیں گے۔اللہ نے تمہیں اس کی تاکید کی ہے، تاکہ تم پرہیزگار ی اختیار کرو“۔

مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں حضرت عبداللہ بن مسعود  کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ فرماتے ہیں:”خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطاًبیدہ، ثم قال”ھذا سبیل اللہ مستقیما“․ وخط علی یمینہ وشمالہ،ثم قال:”ھذہ السبل لیس منھا سبیل الاعلیہ شیطان یدعو الیہ“․


”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے (زمین پر)ایک لکیر کھینچی اور پھر فرمایا:یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔اور پھر اس کے دائیں اور بائیں جانب لکیریں کھینچیں اور فرمایا:یہ(گمراہی کے) راستے ہیں اور ہر ایک پرشیطان بیٹھااس راستے کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہاہے۔“ (ذکرہ الطبری والسمر قندی والفنسی وغیرھم،واللفظ لابن کثیر) 


اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے دینِ اسلام کو مختص فرمایااور پھر ہدایت کے سرچشموں کو بھی واضح کردیا۔اب جو شخص بھی ان چشموں سے سیراب ہوگا تو وہ ہدایت پاجائے گا اور جوانھیں چھوڑ کر دوسرے مصادر اپنائے گا تو وہ یقینا سبلِ شیاطین کاراہ روبن کر صراطِ مستقیم سے کج رواوردین سے گمراہ ہو جائے گا۔امام ابو لیث سمر قندی  لکھتے ہیں:

”﴿فتفرق بکم عن سبیلہ﴾یعنی :وفیضلکم عن دینہ“․ 
”وہ تمہیں اللہ کے راستے سے علیحدہ کردیں گے سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہیں دین سے گمراہ کردیں گے“۔(بحر العلوم ؛سورة الانعام ،آیة153) اس آیت میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حق کا راستہ صر ف ایک ہی ہے…جسے اپنے کلامِ پاک اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منور کردیا ہے اور جسے سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور نقوشِ صحابہ  واسلاف نے روزِ روشن کی طرح واضح کردیا ہے۔اس ایک راستے کے سوا ہر دوسرا راستہ شیطان ہی کا راستہ ہے،وما بعد الحق الا الضلال۔


جدید ذرائع ابلاغ اور ان کا کردار 

اس تمہید کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کیا کردار ادا کررہے ہیں اور اس کے امتِ مسلمہ پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟تمہید کا مد عا یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ کسوٹی اور میزانِ حق کو سامنے رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے کردار کو پر کھیں اور بنظرِغائر دیکھیں کہ یہ ذرائع ابلاغ کس طرح سبلِ شیاطین کا کا م دیتے ہوئے امت کو صراطِ مستقیم سے دور اور گم راہی کے دلدل میں دھکیلتے چلے جارہے ہیں؟

ابتدا ًہم یہ بھی وضاحت کرتے چلیں کہ ہم اِن ذرائع ابلاغ کی تخصیص وتبعیض نہیں کریں گے،الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا…مغربی ہو یا، سرکاری نشریاتی ادارے ہوں یا غیر سرکاری …صحافتی ہوں یا ثقافتی…سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔لہٰذا ہم ان سب کو ایک ہی عصائے شریعت سے ہا نکیں گے۔


”لھو الحدیث“اور”احسن الحدیث“ 

اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے ہم سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مختصر سامطالعہ بھی کرتے چلیں، تاکہ اس کی راہ نمائی میں ہمیں اِس دور کے جدید ذرائع ابلاغ کا کردار سمجھنے میں آسانی رہے۔اللہ اپنے کلام میں ہمیں خبر دیتے ہیں:﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَہَا ہُزُواً أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ﴾(لقمان:6)

”اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو لہو الحدیث خریدتے ہیں، تاکہ وہ (دوسرے کو)علم کے بغیر اللہ کی راہ سے گم راہ کریں اور اس کا مذاق اڑائیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسواکن عذاب ہے“۔


کتبِ تاریخ اور کتبِ تفسیر کے صفحات میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب مکہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اسلام وتوحید کی دعوت کھلے بندوں دینی شروع کی اور معاشرے سے باطل کو ختم کرنے کے لیے صحیفہٴ ہدایت’قرآنِ مجید‘کی روشنی کو عام کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا تو معاشرے میں ایک کشمکش کی ابتدا ہو گئی ۔اہلِ مکہ میں سے کچھ افراد نے بڑھ کر اس ’احسن الحدیث‘(قرآن)کی دعوت کو قبول کیا اور کفر وشرک کی گندگی سے خود کو نکال کر اللہ مالک الملک کی ہدایت کو اپنے لیے مشرب بنایا۔ایسے میں معاشرے کے سوادِاعظم نے انکار کیا اور باطل پر قائم رہتے ہوئے مخالفت شروع کردی۔ تاہم جب انھوں نے دیکھا کہ حق کی دعوت تو روکے نہیں رک رہی اور پھیلتی ہی چلی جارہی ہے تو انھوں نے اپنے میں سے ایک شقی الفطرت اور خبیث النفس بندے کو منتخب کیا کہ وہ اس ’احسن الحدیث، کی دعوت کے راستے میں باطل کا بند باندھنے کا انتظام کرے ۔یہ شخص نضر بن حارث تھا۔وہ پہلے شام وفارس گیا اور وہاں سے عجمیوں کے قصے اور رستم ،بہرام ،اسفند یار،اکاسرہ اور شاہانِ حیرہ کی کہانیاں اپنے ساتھ لے آیا۔پھر اس نے مکہ میں گانے بجانے والیوں کا مجمع اپنے سا تھ لے لیا۔چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو رب کا کلام سناتے اور ہدایت کی باتیں بتاتے تو نضر بن حارث رقص وسرود کی محفلیں منعقدکرتا ،لوگوں کو گانے سنواتا،عجمیوں کے قصوں سے محظوظ کرتا اور شراب وکباب کا دور چلاتا۔لوگوں سے کہتا:”ھذا خیر مما یدعوک الیہ محمد من الصلاة والصیام وأن تقاتل بین یدیہ“․


”یہ سب کچھ جو میں تمہارے سامنے پیش کررہاہوں،اس نماز،روزے اورمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے دفاع میں قتال سے بہتر اوراچھاہے․ جس کی طرف تمہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) دعوت دیتے ہیں“۔(الدر المنثور لجلال الدین السیوطی؛سورةلقمان،آیة۶،والکشاف أیضًا)


یوں اس نے لوگوں کو گم راہ کرنا شروع کر دیا۔لوگ اللہ تعا لی کے کلام،نبی علیہ السلام اور صراط مستقیم کی بجائے اس کار ندئہ شیطان کی مجلسوں میں بیٹھتے اور سبیلِ شیطان اختیار کرلیتے۔نضربن حارث کی ان مجلسوں اور قصوں کے متعلّق اللہ تعالیٰ نے درج بالاآیت میں مسلمانوں کو خبر دار کیا،اِنھیں لھوالحدیث کہا اوربتا یا کہ اس کا مقصد اللہ کے راستے’صراط مستقیم‘سے مسلمان کو رو کنا ہے۔(انظر بحر العلوم، جامع البیان،الدر المنشور،الکشاف، سیرةابن ھشام،البدایة والنھایة وغیرھا)


پھر یہی نضر بن حارث تھاجو اپنے انھی کر تو تو ں کے سبب بالآخر اپنے انجام کو بھی جا پہنچا۔کتبِ سیرت میں درج ہے کہ جب غزوہ بدر میں مسلمانوں نے ستر (70) مشرکین کو قید کرلیاتھا تو ان میں نضر بن حارث بھی تھا۔ایسے میں جب کہ باقی قیدیو ں کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا گیا تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے حکم سے اسے قتل کر دیا گیا۔ (سیرة ابن ھشام وغیرھا)


جدید ذرائع ابلاغ …دورِ حاضر کا لھوالحدیث

گزشتہ سطور میں جس لھو الحدیث کا تذکرہ ہوا… یقینا ہر سلیم الفطرت مسلمان کے لیے آج کے دور میں جدید ذرائع ابلاغ کے ساتھ اس کی مما ثلت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ،کیوں کہ وہ تمام قبیح افعال جو نضر بن حارث نے سر انجام دیے ،آج ذرائع ابلاغ ان میں سے ہر ایک کام اس سے کئی گنا بڑھ کر انجام دے رہے ہیں ۔تاہم پھربھی ہم چیدہ چیدہ نکات اور مثالوں کے تحت ان کے کردارپر روشنی ڈالتے ہیں، تاکہ حقیقت پوری طرح آشکار ہو جائے۔

کفار کی فکری وتہذیبی جنگ کااہم ترین ہتھیار ؛ذرائع ابلاغ

عصرِحاضر میں برپا معرکہٴ ایمان وما دیت اور کشمکشِ حق وباطل کا فکری محاذ اہلِ کفر کی جانب سے بڑی حد تک ذرائع ابلاغ اور نشریاتی اداروں نے سنبھال رکھا ہے ۔ دراصل آج کفار مغرب کا سیاسی و عسکری غلبہ پورے جوبن پر ہے اور مسلمانوں کے بیشتر علاقے ان کے زیرِ تسلط ہیں۔تاہم وہ جانتے ہیں کہ یہ جزوی فتح ہے…قالب فتح کرلینے کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ قلوب بھی فتح ہو گئے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ جزوی فتح وقتی و عارضی ہی ہے اور تاریخ کے اور اق ان پرعیاں ہیں کہ ایسی ہر فتح کے بعد مسلمانوں نے اپنے دلوں میں موجود ایمان واسلام کی قوت سے دوبارہ انھیں شکست دے کر کفرکو مغلوب کیا ہے،وہ صلیبی جنگوں میں فتوحات کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کی برستی تلوار اور بیت المقدس کی دوبارہ بازیابی کو نہیں بھولے ،نہ ہی بادشاہِ بازنطین کے تسلط کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے تاج دار سلطان محمد فاتح کی فتحِ قسطنطنیہ کو بھلا پائے ہیں ۔

لہٰذا اس دفعہ کفار اپنے عالم گیر غلبے کو مستحکم کرنے کے لئے مسلمانوں کے قالب کے بعد ان کے دلوں کو بھی مغلوب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اہداف میں سے اہم ترین ہدف”مسلمانوں کے دلوں میں سے اسلام کو کھرچ نکالنااور دجل کا سہارا لیتے ہوئے دین وثقافتِ اسلام ہی کو بدل ڈالنا“ہے۔یہی ان کی فکری جنگ کا عنوان ہے اور اس میں ان کا اہم ترین ہتھیار جدید ذرائع ابلاغ ہیں۔آج یہ ادارے اسی ہدف کی تکمیل کا کام بہت سر عت سے انجام دے رہے ہیں جب کہ ہم مسلمان اپنی سادہ لوحی کے سبب بہت آسانی سے ان کے دامِ فریب میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ 


مغربی تہذیب و تصورات اور مغرب کی اقدار کا پھیلاوٴ

ملا حظہ کیجیے کہ وہ تمام شرکیہ تصورات جو مغرب میں رائج ہیں اور ان کی دجالی تہذیب کا شاخسانہ ہیں،کس طرح ہمارے معاشروں میں فروغ پارہے ہیں۔مثال کے طور پر تہذیبِ مغرب کی بنیادی تین اقدار یعنی ”آزادی“، ’مساوات‘ اور ’ترقی‘کو ہی لے لیتے ہیں۔سابقہ دو دہائیوں میں مسلم معاشروں میں بہت تیزی سے ان کا غلغلہ اٹھا ہے اور اب گلی گلی میں یہ دعوت عام ہو چکی ہے اوربچہ بچہ”جیسے چاہو جیو“کے فلسفے سے واقف ہے۔…یہ سب ذراع ابلاغ ہی کا کارنامہ ہے ۔بھانت بھانت کی وہ تنظیمیں اور این جی اوز جنھیں مغرب ہمارے یہاں درآمد کرتا ہے، تاکہ بطورِ ’مشنری مبلغین مسلمانوں میں اس کا ناسورپھیلائیں …انہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس تک رسائی حاصل کرتی ہیں ۔یہی نشریاتی ادارے ایسی تمام کانفرنسوں، سیمینارو ں اور مذاکروں کو…جن میں ’روشن خیالی‘اور ’اعتدال پسندی‘کا درس دیا جاتاہے…عام مسلمانوں کے سامنے خوش نمابناکر پیش کرتے ہیں اور یوں ہمارے دلوں کو ان سے مسحور کرتے ہیں۔

یہی معاملہ مغربی اصطلاحات کا بھی ہے۔کفار ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی انھیں ہمارے معاشروں میں ٹھونسنے کاکام لے رہے ہیں۔ مثال کے طورہر طرف ’انسانی حقوق‘اور ’جمہوری روایات‘ہی کی اصطلاحات کو دیکھ لیجیے ،آج ہر ایک نشریاتی ادارہ اور ہر ایک جریدہ واخبار انھی کار اگ الاپتا نظر آتا ہے ۔انھی کی بدولت یہ اصطلا حات ہم میں عام ہوگئی ہیں جب کہ ان کا ہم سے اور ہمارے دین سے کوئی تعلّق نہیں ۔


مرعوبیتِ کفار

کفار کی فکری جنگ ہی کے تسلسل میں ایک اہم خدمت جو ذرائع ابلاغ انجام دے رہے ہیں؛وہ یہ ہے کہ یہ ادارے مسلمانوں میں کفار کی مرعوبیت پیدا کررہے ہیں۔اس ایک بات کے بھی ہمہ پہلوا ثرات مرتب ہورہے ہیں۔

پہلا اثر عسکری لحاظ سے یہ ہو رہا ہے کہ مسلمان امریکہ ومغرب کی طاقت سے مرعوب ہورہے ہیں اور ان سے کفر واسلام کی جنگ میں کفار سے مقابلے کا حوصلہ چھینا جارہا ہے ۔مسلمان خود کو ان کے مقابلے میں نہایت کمزور تصور کرنے لگے ہیں ۔یہ بہت بڑی خدمت ہے جو ذرائع ابلاغ کفار کے لئے انجام دے رہے ہیں کہ مسلمانوں میں ’ارادہٴ جنگ ‘ہی کو ختم کردیا جائے ۔اس کے لیے مغرب کی جنگی صلاحیتوں پر دستاویزی فلمیں بنائی جاتی ہیں اور دوسری جانب مسلمان مجاہدین کی بے سروسامانی کو حقارت سے دکھایا جاتا ہے ۔نیز یہ سب کچھ اس تکرار سے کیا جاتا ہے کہ سیکھنے والا متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا۔


ذرائع ابلاغ کے اس زہریلے اثر کے لیے 11 ستمبر 2001 ء کو نیو یارک اور واشنگٹن پر مجاہدین کے مبارک حملوں کی مثال ہی کافی ہے ۔ذرائع ابلاغ نے مغرب کو ایسا ناقابلِ تسخیر بنا کر پیش کیا ہے کہ گویا کسی میں بھی ان سے لڑنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی اکثریت ان حملوں کومسلمانوں کا کارنامہ کہنے کے بجائے یہودی سازش کانام دیتی ہے،کیوں کہ یہ سوچنے کی صلاحیت ہی ان سے سلب ہوگئی ہے کہ مسلمان بھی اس قدر جرات و طاقت رکھ سکتے ہیں کہ وہ امریکا کو امریکا میں ہی نشانہ بنالیں۔


دوسرا اثر فکری لحاظ سے یہ ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے اذہان سے عداوت ونفرت ِ کفار (البغض فی اللہ)کا مسلّمہ عقیدہ مٹتا جارہا ہے۔مسلمانوں کے دلوں میں ان کی نفرت ختم ہوتی جا رہی ہے اور الٹا ان کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہو رہا ہے۔اب مسلمان انھیں اپنے دشمن کے طور پرنہیں دیکھتے،بلکہ غیر شعوری طور پر ان کی مادی ،عسکری اور سا ئنسی برتری کے آگے سر تسلیم خم کرتے جا رہے ہیں۔


تیسرا اثر سے یہ ہورہا ہے کہ مسلمان کفار کی تہذیب اور ان کی اقدار کو اپنا رہے ہیں۔وضع قطع سے لے کر بو دو باش کے تمام طورطریقوں تک میں کفار کی مشابہت کا مرض بڑے پیمانے پر ہمارے نوجو انوں میں پھیلتا جارہا ہے، اپنے اسلاف واکابر کے طرزِ رہن سہن کو د قیا نوسی گردانا جارہاہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے معاشروں کی پوری فضا تبدیل ہو گئی ہے ۔جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے تا قیامت نمونہٴ عمل پیش کرنے کے لیے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمادیا تھا:﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْْنَیْْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجاً مِّنْہُمْ زَہْرَةَ الْحَیَاةِ الدُّنیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْْرٌ وَأَبْقَی﴾(طہ:131)


”اور اے نبی!ان چیزوں کی طرف آپ اپنی نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جو ہم نے زندگانی ٴدنیا کی آرائش کے لیے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہیں،تاکہ ہم انھیں ان کے ذریعے آزمائیں اور آپ کے رب کا رزق بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے“۔ 


اسی ایک مضمون کی بہت سے آیات اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں،تاکہ مسلمانوں میں کفار سے مرعوبیت کا مرض پنپنے بھی نہ پائے۔


حبِ دنیا کی افزائش اور معیاِ زندگی پر اثرات

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں مسلمانوں کوبارہا تنبیہ فرمائی ہے کہ ان کے قلوب ہر دم ’حبِ دنیا‘ کے مرض سے محفوظ رہیں…کیوں کہ اگر فقط یہ ایک مرض کسی قلبِ مسلم میں جاگزیں ہو جائے تو وہ ازخود دیگر کئی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔حبِ دنیا برائیوں کے مقابلے میں قوتِ مدافعت سلب کرلیتی ہے۔اس کیبرعکس آخرت کا تصورہر قسم کی خیر کا موجب ہوتا ہے اور مسلمان کو صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رکھتا ہے ۔یہی وجہ کہ اللہ تعالیٰ نے حبِ دنیا کو قرآن مجید میں بالخصوص یہود اور با لعموم دیگر کفار کی صفت کے طور پہ بیان کیا اور آخرت کی محبت وفکر کو مسلمانوں کاخاصہ بتایا۔

اب جہا ں تک ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو چو ں کہ یہ کفارکے ہاتھ کے کھلو نے ہیں …اس لیے ہر ممکن طریقے سے یہ مسلمانوں میں حب دنیا کے مرض کو پھیلا رہے ہیں۔اسے سمجھنے کے لیے صرف ان کے نشر کردہ اشتہارات ہی پر غور کرتے ہیں۔ان اشتہارات کے ذریعے مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ مارکیٹ میں آنے والی نئی ’پروڈکٹ‘کو آزمائیں اور ان کواس دل کش انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ ان کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں۔کہیں ”دل ہے تو مانگواور“ اور کبھی”آپ کے اپنے گھر کی ضرورت“کے خوش نما جملوں کے ذریعے تارِ فریب بچھایا جاتاہے۔


ان کے اثرات کا بھی کئی پہلوؤں سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ایک جانب ان سے مغرب کا سرمایہ دارنہ نظام مستحکم ہوتاہے اور مسلمانوں کا بیشتر مال کفار کے بینکوں میں جا پہنچتا ہے۔ دوسری جانب مسلمانوں میں دنیا کی محبت پیدا ہوتی ہے، دنیا کی جانب رغبت بڑھتی ہے اور ان کی زندگیوں میں تعیش کا سامان بڑھتا چلا جاتا ہے۔یوں مسلمانوں کا معیارِ زندگی …مغرب کی اصطلاح میں …بہتر ہوجاتا ہے اور بندئہ مومن کی نگاہ سے دیکھیں ،تو دین سے اعراض میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے ، فیاأسفی! 


دین کی جدید تعبیر اور ذرائع ابلاغ بطورِمصدرِدین

کفار مغرب کی فکری جنگ کا ہدف جس کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں …اس کے حصول کی ایک کڑی یہ ہے کہ باطل وجہالت کو اس دجل کے ساتھ پیش کیا جائے کہ وہی حق نظر آئے۔نیز خیر وشر کے معیار کو ہی بدل ڈالا جائے،اس طرح کہ دین کی سند بھی مل جائے۔آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ دین کی جدید تعبیر کی جائے۔گم راہی کے فروغ اور باطل کی جیت کے لیے یہ موثر ترین حربہ ہے۔اب ظاہر ہے کہ دین کو جدید تعبیر دینے کے لیے مصادرِ دین بھی ازخود بدل جائیں گے، کیوں کہ دینِ اسلام کے اپنے مصادر کے ذریعے تو ایسا ہونا ممکن ہی نہیں۔

آج کے دور میں مسلمانوں میں دین کی جدید تعبیر کو متعار ف کرنے کے لیے بھی کفار کا بنیادی ہتھیار یہی ذرائع ابلاغ ہیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ ادارے اپنے اس مکروکید میں بڑی حدتک کام یا ب رہے ہیں اور اب ہم میں سے بیشتر افراد اسی مصدر سے حق کو تلاش کرتے ہیں۔جو کچھ ذرائع ابلاغ دکھائیں اور سنائیں اسے بلاچوں وچراحق تسلیم کرلیا…یہ کہتے ہوئے کہ یہ تو آزاد صحافت کرتے ہیں ،سچ ہی دکھاتے ہیں۔


افسوس کہ یہ معاملہ صرف احوال کی خبروں تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے یہاں انھی نشریاتی اداروں اور اخبارات وجرائد میں بولنے اور لکھنے والے افراد دین کے معاملات میں بھی اپنی بے لگام زبانوں کو حرکت دینا اپنا حق سمجھتے ہیں اور پھر ان کی با تیں ہمارے دین کا درجہ بھی حاصل کرلیتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ فساد کا باعث ٹاک شوز اور وہ پروگرامات ہیں جنھیں اسلامی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے ۔ان ٹاک شوز میں اکثریت ایسے لوگوں کی مدعو کی جا تی ہے کہ جن کا دین سے بعید کا تعلق بھی نہیں ہو تا اور کچھ ایسے افراد کو بھی دعوت دی جاتی ہے جووضع قطع میں با شرع ہوں۔پھر سیاست وحالات حاضرہ سے لے کر عقائد وعبادات اور دعوت وجہاد ایسے دینی موضوعات تک پرچہ میگوئیاں او رموشگافیاں کی جاتی ہیں۔


ایسے میں پرویز ہود بھائی جیسے ملحد لوگ ہمارے مسلمانوں کو سمجھاتے ہیں کہ اس دور میں زندگی کیسے گزارنی چاہیے اور جسٹس جاوید اقبال کی طرح کے افراد ہمیں اس عہد میں دین کی جدید تعبیر اور اجتہاد کرنا سکھلاتے ہیں۔ زید حامد کو بلایا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو سکھائے کہ جہاد کیا ہوتا ہے اور کیسے اور کس کے خلاف کیا جاتا ہے۔ اور پھر دینِ خالص سے مسلمانوں کو روشناس کرانے کے لیے غامدی جیسے جدت پسند اسکالرز آتے ہیں او راپنی لن ترانیوں کے ذریعہ لوگوں کو گم راہ کرتے ہیں ۔ ایسے میں یہ ان نشریاتی اداروں ہی کی چال ہوتی ہے کہ اپنے پروگرامات میں کسی سیدھے سادھے باشرع فرد کو دیگر بدباطن وفاسق لوگوں کے درمیان بٹھا دیا جاتا ہے، تاکہ اس کی اچھی بات کو بھی یوں پیش کیا جائے کہ جیسے نقارخانے میں طوطی کی آواز ہو اور مسلمان اس کی بجائے دوسروں کی بو قلمونیوں میں ہی سردھنیں۔ یہ تو نشریاتی اداروں کے کمالات ہیں جب کہ اخبارات وجرائد کا کردارتو اس پر مستزاد ہے۔ اپنے کالموں او رمضامین کے ذریعے مسلمانوں کے ذہنوں میں ایسا زہر گھولا جاتا ہے کہ الامان!


اس پورے منظر نامے پر غور کیجیے اور پھر اپنے حالات ، اپنے معاشرے کی صورت حال او رمعظم طبقے کے معمولات وتصورات کو دیکھیے! آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے غیر محسوس انداز میں ہمارے یہاں دین کا مصدر تبدیل ہو رہا ہے او راس کے نتیجے میں عصر حاضر کی جدیدیت ( یعنی جہالت) کے موافق دین کی ایک نئی تعبیر ہم میں متعارف ہو رہی ہے۔ پھر ذرا اس حدیث مبارکہ کا مطالعہ بھی کیجیے جس میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ہمیں آخری زمانے کے فتنوں سے خبردار کرتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”سیأتی علی الناس سنوات، خداعات یصدق فیھا الکاذب، ویکذب فیھا الصادق ویؤتمن فیھا الخائن، ویخون فیھا الأمین وینطق فیھا الرویبضة․ قیل: وما الرویبضة؟ قال: الرجل التافہ (یتکلم) فی أمر العامة“․


ترجمہ:” لوگوں پر ایک شدید دھوکے باز زمانہ آنے والا ہے، جب جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا گردانا جائے گا، جب خائن امانت دار اورامانت دار خائن قرار پائے گا اور اس وقت رویبضہ گفتگو کریں گے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ رویبضہ سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” وہ بیوقوف آدمی جو عوام الناس کے معاملات میں گفتگو کرے۔“ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب شدة الزمان، ومسند احمد)


اور بعض روایات میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے رویبضہ کا مطلب یہ بیان کیا:” الفویسق یتکلم فی أمر العامة“․

” وہ فاسق جو عوام الناس کے معاملات میں گفتگو کرے۔“ ( مسند احمد مسند أبی یعلی)

اسی طرح ایک دوسری روایت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”إذا وسد الأمر إلی غیر أھلہ فانتظر الساعة“․

”جب امور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دے دیے جائیں جو اس کے (قطعاً) اہل نہیں تو تم قیامت کا انتظار کرنا“۔ (صحیح البخاری ، کتاب العلم، باب من سئل علما وھو مشتغل فی حدیثہ…) 
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”…المراد بہ جنس الأمور التی تتعلق بالدین کالخلافةوالقضاء والافتاء ونحو ذلک“․
”…اس سے دین سے متعلّق جملہ امور مراد ہیں، جیسے خلافت، عدالت ،افتاء اور اسی طرح کے دیگر امور“۔

اور ایسا کیوں کر ہوگا تو اس کی وجہ علامہ عینی رحمہ اللہ یوں بیان کرتے ہیں: ”وھذا انما یکون اذا غلب الجھل وضعف أھل الحق عن القیام بہ“․
”اور ایسا تب ہوگا جب جہالت غالب آجائے اور اہلِ حق حق کو قائم کرنے سے عاجز ہوجائیں“۔

(عمدة القاری شرح صحیح البخاری؛ کتاب العلم،باب من سئل علما وھو مشتغل فی حدیثہ…)

اب جب کہ یہی ذرائع ابلاغ جاننے اور دین سمجھنے کے مصادر بنتے جارہے ہیں تو انھوں نے خیر کو شر اور شر کو خیر بنا ڈالا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا گردانا جارہاہے۔آج مجاہدین امت کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے ، جب کہ امت مسلمہ کے غدار اس کے محسن بناکر پیش کیے جا رہے ہیں۔

نیز ان اداروں کے سبب مسلمانوں کے معاملات اب دین سے بری فاسق افراد کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ایسے بد کار لوگ ہی مسلمانوں کی راہ نمائی کے مناصب پر فائز ہوگئے ہیں اور ٹاک شوز میں آکر مسلمانوں کے معاملات…مذہب سے لے کر سیاست تک میں …گفتگوکرتے ہیں۔ان کی بدولت آج’جہالت و ضلالت‘…حق کا غازہ رخ پہ ملے…مسلم معاشروں میں پھیلتی چلی جارہی ہے اور اہل حق کے لیے حق کو قائم کرنا دشوار تر ہوتا چلا جارہا ہے ،والعیاذ باللہ۔


شعائرِ اسلام کا مذاق اور استہزا


ان ذرائع ابلاغ کے ذریعے کفار ایک خدمت یہ لے رہے ہیں کہ مسلمانوں میں سرِ عام شعائرِاسلام اور حدود اللہ کا مذاق اڑایا جارہاہے اور ان کی تحقیر کی جارہی ہے۔آج یہ ادارے ’شعیب منصور‘جیسے لادینوں کی سرکردگی میں ”خدا کے لیے“جیسی فلمیں بناتے ہیں او ر پھر مسلمانوں کو دکھاتے ہیں کہ ’داڑھی میں اسلام نہیں،”جہاد تو فساد ہے اور ’موسیقی تو مسلمانوں کی تہذیب ہے، ونعوذ باللہ من ذلک۔آئے روز ایسی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے داڑھی ،جہاد اور پردے کا استہزا کیاجاتا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ سیکولر صحافی و دانش ور اور این جی اوز کے کارندے ان شعائر کو مولویوں کی تنگ نظری اور دقیانوسی سے تعبیر کرتے ہیں۔پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر حدوداللہ کی توہین کی جاتی ہے۔نشریاتی ادارے ایسی جعلی فلمیں بناکر نشر کرتے ہیں جن میں کسی لڑکی کو کوڑے مارے جارہے ہوں اور وہ چیخ و پکار کررہی ہو یا کسی کا چوری کے سبب ہاتھ کاٹا جارہا ہو۔پھر انہیں موضوع بحث بناتے ہوئے ببانگ دہل حدوداللہ اور شرعی سزاؤں کا استہزا کیاجاتا ہے۔

درحقیقت دین کے شعائر و شرائع کے استہزا کا معاملہ اتنا ہلکا نہیں کہ ہمارے معاشروں میں سرِعام یہ سب کچھ ہو اور ہم پروا بھی نہ کریں،بلکہ یہ معاملہ تو اتنا خطرناک ہے کہ اگر کوئی مسلمان دین کے کسی حکم کا استہزا کرے تو وہ مسلمان نہیں رہتا، بلکہ کافر ہوجاتا ہے ۔امام جصاص  سورہ توبہ کی آیت ﴿وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُْنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ﴾کے ذیل میں لکھتے ہیں:
”ودل أیضا علی أن الاستھزاء بآیات اللہ وبشیء من شرائع دینہ کفر من فاعلہ“․
”یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور دین کے کسی چھوٹے سے حکم کااستہزاء کرنے والا بھی کفر کا مرتکب ہوتا ہے“۔(أحکام القرآن لأبی بکر الجصاص



افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ یہ سب قبیح ترین افعال مغرب میں نہیں ،بلکہ خود مسلم معاشروں میں ہو رہے ہیں تاکہ عامةالمسلمین کو شعائرِ اسلام اور حدوداللہ سے برگشتہ کیا جائے اور ان کے لیے اسلام کو اتنا پیچیدہ بنادیا جائے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کفار کی مرضی کا ’ماڈریٹ اسلام‘قبول کر لیں اور چودہ صدیوں پہلے نازل ہونے والے اسلام کو اپنے لیے عیب سمجھنے لگیں۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ان اداروں کے شرور سے محفوظ رکھیں، آمین!

)



شہوات و محرمات کی تشہیر

اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں شیطان لعین کی خصلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ وَمَن یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ فَإِنَّہُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء وَالْمُنکَر﴾․ (النور :21)

”اے ایمان والو!تم شیطان کے قدم بہ قدم مت چلو اور جو شخص شیطان کے قدم بہ قدم چلتا ہے تو وہ تو (ہمیشہ ہر شخص کو)بے حیائی اور برائی ہی کرنے کو کہے گا“۔

گناہوں اور محرمات کا پھیلاؤاور فحاشی و شہوات کی تشہیر شیطان کا اہم ترین حربہ ہے اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آج مسلم معاشروں میں یہ کام شیطان اپنے ابلاغی اداروں ہی سے کروارہاہے۔آج کسی بھی لمحے دل پر اس کے کس قدر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کوئی بھی چینل دیکھتے ہوئے بہت ہی کم لمحات ایسے ہو ں گے جن میں آپ کے کانوں میں موسیقی نہ جائے اور آپ کی آنکھیں کسی بے پردگی کا شکار نہ ہوں۔مسلم معاشروں میں گناہوں کی اتنی تشہیر کا ایک عجیب آلہ ’ذرائع ابلاغ‘کی صورت میں شیطان کے ہاتھ آگیاہے ۔افسوس کہ اس کے ذریعے آج ہر مسلم گھرانے میں گناہوں کا دروازہ کھل چکا ہے اور شیطان نے ہمارے دین دار حضرات کے گھروں تک بھی رسائی حاصل کرلی ہے۔


پھر معاشرتی سطح پراس کے اثرات بھی کسی سے مخفی نہیں ،اگر دل کی آنکھوں سے دیکھا جائے ۔سابقہ ایک دہائی میں ہمارے معاشروں میں فحاشی وعریانی حیران کن حد تک بڑھی ہے ۔نوجوان نسل میں عشق کا مرض عام ہے، عورتوں میں بے پردگی تیزی سے پھیل رہی ہے اور زنا جیسے گندے فعل کا تناسب دن بدن بڑھ رہاہے۔حتیٰ کہ اب ہمارے بعض شہر یورپ و امریکاکے شہروں سے قطعاً مختلف نظر نہیں آتے ۔اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:

﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَاتَعْلَمُونَ﴾ (النور:19)
”اور لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ،انھیں دنیاوآخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گااور(اس امر پر تعجب کا اظہار مت کرو، کیوں کہ )اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“۔


اور یہ ذرائع ابلاغ ہی ہیں جو مسلمانوں میں فحاشی کو عام کررہے ہیں، تاکہ انھیں اللہ،اسلام اور صراطِ مستقیم سے دور کردیں اور سبلِ شیاطین کا راہ رو بنادیں۔


شکوک وشبہات کا پھیلاؤ 


ذرائع ابلاغ کا ایک اہم کردار یہ ہے کہ مسلمانوں میں اسلام اوراس کے احکامات کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں اور قرآن و حدیث کے صریح و محکم احکامات کو مسلمانوں کے اذہان میں مبہم و مشتبہ بنا دیاجائے۔اس غرض سے ایسے ٹاک شوز نشر کیے جاتے ہیں جن میں مختلف احکامات قرآنی کو زیر بحث لایاجاتا ہے اور ان پر رویبضہ گفتگو کرتے ہیں۔کبھی شراب کی حرمت پر بحث کی جاتی ہے اوراس کی حرمت کومشکوک کیا جاتا ہے،کبھی ’نظریہ ارتقاء کو اسلام میں ٹھونس کر ’تخلیقِ آدم ‘ کورد کیا جاتا ہے ،یہاں تک کہ یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود تک پر گفتگو کرتے ہیں اور مسلمانوں میں واضح الحاد کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ تمام باتیں محض خیالی نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کچھ تو ہو چکا ہے یا ہورہا ہے اور یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔ڈر تو اس بات کا ہے کہ آگے چل کر نجانے یہ ابلاغی ادارے کیاکچھ مزید کریں گے؟ہمارے مسلمہ عقائد سے لے کر عبادات تک …ہرایک معاملے میں شکوک وشہبات پھیلائیں گے۔اللہ تعالیٰ ان شکوک و شہبات سے ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں ،آمین!


﴿وَیُجَادِلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آیَاتِیْ وَمَا أُنذِرُوا ہُزُواَ ﴾(الکھف:56)
”اورکافر لوگ باطل (بات)سے جھگڑا کرتے ہیں، تاکہ اس سے حق کو نیچاکر دکھائیں اور انھوں نے میری آیتوں کو اور جس (عذاب) سے انھیں ڈرایا گیا تھا،دل لگی بنا رکھا ہے”۔
امام ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
”…ثم أخبرعن الکفاربأنھم یجادلون بالباطل ﴿لِیُدْحِضُوْابِہِ﴾ أی لیضعفوا بہ ﴿الْحَقَّ﴾الذی جاء تھم بہ الرسل“․
”پھر الله تعالیٰ نے کفار کے متعلّق خبر دی کہ وہ باطل (دلائل) کی مدد سے مجادلہ کرتے ہیں، تا کہ اس کے ذریعے اس حق کو کمزور کریں، جو پیغمبر لے کر آئے ہیں“۔ (تفسیر ابن کثیر؛سورةالکھف،آیة56)

آج ذرائع ابلا غ بھی یہی کر رہے ہیں کہ حق کے روشن چہرے کو…دجل کی چادر اوڑھے ایسے باطل دلائل سے مسخ کر کے مسلمانوں کے اندر حق کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلا رہے ہیں،تاکہ حق کمزور ہوجائے اور باطل غالب آجائے۔

کفر واسلام کی حالیہ جنگ میں کفار کی چاکری
عصرِحاضر میں برپا کفر و اسلام کی جنگ کا فکری محاذ بہت ہمہ پہلو ہے۔اس کا ایک پہلوحالیہ جنگ کے عسکری میدانوں کے احوال سے تعلّق رکھتاہے۔آج جہاں جہاں مسلمان مجاہدین بر سرِ پیکار ہیں،وہاں کے حالات اور صورت حال بھی جدید ذرائع ابلاغ کا ایک اہم موضوع ہے۔

اللہ تعالیٰ کے امت مسلمہ پر بے انتہا احسانات میں ایک احسانِ عظیم یہ ہے کہ غلامی کی قریباًایک صدی کے بعد آج امت کے مجاہدین دوبارہ کفار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، لمحہ بہ لمحہ اسلام کے غلبہ کی جانب گام زن ہیں ۔چاہے صومالیہ کا تذکرہ ہو یا افغانستان کا،سرزمین عراق کی بات کریں یا شیشان کی…مجاہدین اپنی محبوب امت کو فتح کی نوید سنا رہے ہیں۔حتیٰ کہ بر صغیر میں بھی ڈیڑھ سو سالہ غلامی کے بعد آج مجاہدین امریکی غلاموں کے خلاف مضبوط و مستحکم ہوگئے ہیں اور ان کی بدولت مسلمانانِ برصغیر کی امیدیں انگڑائی لے رہی ہیں کہ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب دہلی کے لال قلعے پر اسلام کا علم لہرائے گا اور پورا بر صغیر خلافت کی برکات اور شریعت کے ثمرات سمیٹے گا۔

ایسے میں یہ ذرائع ابلاغ اصل حقائق کو عامة المسلمیں کے سامنے لانے کی بجائے جھوٹ اور فریب کی داستانیں سناتے ہیں اور امت کو اپنے مجاہدین بیٹوں سے بر گشتہ کرتے ہیں، تاکہ مسلمانان امت کبھی کفر کی غلامی سے نجات اور غلبہ اسلام کا سوچ نہ سکیں۔اور در حقیقت یہ بہت بڑی خدمت ہے جویہ ادارے کفار کے لیے سرانجام دے رہے ہیں۔

سب سے پہلا کام ان اداروں نے یہ کیا ہے کہ جہاد جیسے مقدس فریضے کو ہی عام مسلمانوں کے سامنے مشتبہ بنادیا ہے۔آج امریکہ و مغرب کے خلاف جو بھی جہاد ہورہا ہے،اسے یہ ادارے ’دہشت گردی‘بناکر مسلمانوں کو دکھاتے ہیں۔امریکہ جسے ’دہشت گردی ‘کہتاہے(جو دراصل امریکہ کے خلاف ہونے والا مقدس جہاد ہے)، اسے یہ ذرائع ابلاغ بھی مسلمانوں کے سامنے ’دہشت گردی‘کے طور پر پیش کرتے ہیں اور پھر اسے ’دہشت گردی ‘ ثابت کرنے کے لیے زہر یلا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔زیادہ دور نہ جائیے! پاکستان ہی کی مثال لے لیجیے۔وہ مجاہدین جنھوں نے امریکہ کے خلاف افغانستان میں جہاد کاعلم بلند کیا ، وہ مجاہدین جنھوں نے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا جھنڈا تھاما،وہ مجاہدین جنھوں نے مسلمانان پاکستان کو امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کی غلامی سے نجات دلانے کا بیڑہ اٹھایا…انھیں ذرائع ابلاغ کبھی امریکہ و بھارت کا ایجنٹ کہتے ہیں اور اسے ایسے پیش کرتے ہیں جیسے یہی حقیقت ہے۔حا لاں کہ پاکستان کے قبائلی علاقے ایسے تو نہیں کہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان وہاں کے باسیوں سے واقف نہ ہوں۔کیا یہ وہی لوگ نہیں جنھوں نے اس سے قبل برطانیہ کے خلاف سید احمد شہید کے جہاد کو کاندھا دیا،جنھوں نے اپنی فقیررحمة الله علیہ کی قیادت میں برطانیہ کے خلاف جہاد کیا اور ان کے جانے کے بعد شریعت کا علم بلند کیا اور جنھوں نے کشمیر کے کچھ حصّے کو آزاد کرادیا۔آج جب یہی پاکستان میں شریعت کی با لا دستی کی خاطر اٹھ کھڑے ہوئے تو انھیں ذرائع ابلاغ ’دہشت گردی ‘ قراردے رہے ہیں، تاکہ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو ان سے دور کردیا جائے اور ان کا پشتی بان بننے سے روک دیا جائے۔اسی غرض کی خاطر طالبان پر ڈرامے بناکر نشر کیے جارہے ہیں ،ان میں ان پا ک باز مجاہدین کو عجیب و غریب خوف ناک مخلوق بناکراہل پاکستان کو دکھایا جارہا ہے، تاکہ وہ ان کی کبھی حمایت نہ کریں اور یوں پاکستان میں نفاذِ شریعت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو۔اس کے علاوہ کبھی کوئی چینل کسی خود ساختہ ’خودکش بمبار‘کا انٹرویو نشر کردیتا ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں میں جہاد اور مجاہدین کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے۔پھر تمام نشریاتی ادارے اور اخبارات مجاہدین کے خلاف مسلمانوں کے قتلِ عام کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ جب بھی مجاہدین کی قیادت کی جانب سے کوئی پیغام آتا ہے تو یہ دانستہ طور اسے نشر ہونے سے روک لیتے ہیں یا اس میں کتر و بیونت کر کے اسے غلط سیاق وسباق میں پیش کرتے ہیں، تاکہ اصل حقائق مسلمانوں تک نہ پہنچ پائیں اور مسلمان اسی کو حقیقت سمجھیں، جسے یہ ذرائع ابلاغ حقیقت کا روپ دیں۔

اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان ذہنی طور کبھی یکسو نہیں ہو پاتا ہے کہ یہ واقعی مجاہدین ہیں یا ’دہشت گرد‘؟اور کیا دنیا میں کہیں خالص جہاد ہو بھی رہاہے یا ہر جگہ ایجنٹ ہی موجود ہیں؟

وسیع تناظر میں…
اب اگر وسیع تناظر میں دیکھیں تو ذرائع ابلاغ کی اس مکروہ مہم کا امت کو اتنا عظیم نقصان پہنچ رہا ہے کہ اسلام کی سر بلندی کی منزل بعید سے بعید تر ہوتی چلی جارہی ہے،غلامی کی ایک صدی کے بعد کفار کے خلاف اٹھنے والی جہادی بیداری رکاوٹوں کا شکار ہورہی ہے اور کفار اپنے غلبے کو مزید طول دینے میں کام یاب ہورہے ہیں۔

خلاصئہ کلام 
ابھی تک ہم نے عصر حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کے مکروہ کردار کی بابت جو کچھ پڑھا ہے،اسے چند مختصر نکات کی صورت میں بیان کیے دیتے ہیں ،تا کہ بات اچھی طرح خاطر نشیں ہو جائے۔

٭...اسلام وکفر کے معر کے میں جہاں زمانہٴ قدیم میں مشرکین نے نضر بن حارث کے لھو الحدیث سے کام لیا تھا،آج کے دور میں کفار وہی کام جدید ذرائع ابلاغ سے لے رہے ہیں۔ 
٭...آج کے دور میں برپااسلام اور کفر کی جنگ میں ذرائع ابلاغ کفار کا اہم ترین ہتھیار ہیں…چاہے مقامی ذرائع ابلاغ ہوں یا بین الاقوامی، الیکٹرانک میڈیاہو یاپرنٹ میڈیا،صحافتی ادارے ہوں یا ثقافتی، سرکاری ہویا غیر سرکاری ۔ان اکاہم ترین ہدف ’مسلمانوں کے دلوں میں سے اسلام کو کھرچ نکالنا اور دجل کا سہارا لیتے ہوئے دین و ثقافت اسلام ہی کو بدل ڈالناہے۔ 
٭...یہ ذرائع ابلاغ مسلمانوں میں مغربی تہذیب و اقدار کو فروغ دے رہے ہیں اور مسلمانوں میں کفار کی مرعوبیت پیدا کر رہے ہیں۔
٭...آج یہ ذرائع ابلاغ مسلمانوں میں دین کا مصدر بنتے جارہے ہیں اور انھی کو استعمال کرتے ہوئے کفار اپنے کارندوں کے ذریعے مسلمانوں میں دین کی جدید تعبیر اور ’ماڈریٹ اسلام‘متعارف کروا رہے ہیں۔
٭...ان اداروں کے ذریعے شعائر اسلام اور حدوداللہ کا مذاق اڑایا جارہا ہے کہ مسلمان اپنے دین ہی کو اپنے لیے عیب سمجھنے لگیں اور اسے چھوڑ کر ذرائع ابلاغ کا نشر کردہ ’ماڈریٹ اسلام ‘قبول کر لیں۔
٭...یہ ابلاغی ادارے مسلم معاشروں میں گناہوں اور فحاشی کے پھیلاؤ کا اہم ترین ذریعہ ہیں اور ان کی بدولت ہمارے معاشرے بڑی حد تک مغربی معاشرے بنتے جارہے ہیں۔
٭...ایک اہم کردار ذرائع ابلاغ یہ ادا کررہے ہیں کہ مسلمانوں کے مسلمہ عقائد اور دین کے محکم احکامات میں شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں اور انھیں مشتبہ بنارہے ہیں۔
٭... آج امت کو اسلام کی سر بلندی اور کفار کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے مجاہدین اسلام نے جس مقدس جہاد کا آغاز کیا ہے،یہ ذرائع ابلاغ اسے مسلمانوں کے سامنے دہشت گردی بنا کر پیش کر رہے ہیں، تاکہ مسلمانان امت کو اس جہاد کی پشتی بانی سے روک سکیں ۔اور یوں غلامی کفار کا پھندہ ہمارے گلوں میں پڑارہے اور ”غلبہٴ اسلام “ اور”قیام خلافت علی منہاج النبوة“کا خواب کبھی شرمندہ ٴ تعبیر نہ ہو سکے۔

ہماری ذمہ داریاں 
جدید ذرائع ابلاغ کامکروہ کردار جاننے کے بعد اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی بابت ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ہمیں کیا کرنا جاہیے تاکہ ان کے شر سے خود کو انفرادی حیثیت میں اور امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر بچایا جا سکے۔

فقہائے اسلام نے اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکامات کے پس پردہ کارفر ما کچھ مقاصد کی نشان دہی کی ہے، جنھیں”مقاصد الشریعة “کہا جاتا ہے۔ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اسلامی احکامات کا مقصد لوگوں کے مصالح کاخیال رکھنا ،انھیں نفع بہم پہنچانا اور ان سے ہر قسم کے دنیوی و اخروی ضررو فساد کو دفع کرنا ہے، تاکہ ان کی زندگیا ں تمام شرور سے محفوظ انفردی و اجتماعی سطح پر سعادت کے ساتھ گزریں۔گویا دین پر عمل ہی انسان کی دنیوی واخروی فلاح و سعادت کی واحد راہ ہے۔انھی مقاصد شریعہ کے حصول کو مد نظر رکھتے ہوئے فقہاء اور اصولیین نے چند قواعد بیان کیے ہیں، مثلاً:
…الضرر یدفع بقدر الامکان․ (نقصان و ضرر کو حتی الامکان روکا جائے گا۔)
…الضرر یزال (لوگوں کو پہنچنے والے نقصان کو زائل کیا جائے گا۔)
…درء المفاسد أولی من جلب المنافع․ (مفاسد کا خاتمہ حصولِ منافع پر مقدم ہے۔)

ایک جانب ان اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے اور پھر ذرائع ابلاغ کے کردار کو دیکھا جائے تو ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ آج کے دور میں ہمیں ان ذرائع ابلاغ کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے ؟کس طرح ان سے پرہیز کرنا چاہیے؟ اور کیوں کر ان کے خلاف عملی میدان میں نکلنا چاہیے؟کیوں کہ ان کی وجہ سے امت کی زندگی انتہائی شرو ضرر کا شکار ہورہی ہے اور سعادت کی منزل سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔اس ضمن میں ہم یہاں انتہائی مختصر نکات کی صورت میں چند باتیں اہل ایمان کے سامنے رکھیں گے، کیوں کہ تفصیل میں جانا ہمارے لیے ممکن نہیں ۔تاہم ہر اہل ایمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ غور کرے کہ ان ذرائع ابلاغ سے امت کو پہنچنے والے شر کو کیسے روکا جائے ،وما التوفیق الا باللہ!

٭...ذرائع ابلاغ کی نشر کردہ خبروں پر قطعاً اعتبار نہ کیا جائے۔
یہ ذرائع ابلاغ مسلمانوں اور امت کے احوال کے متعلق جو بھی خبریں نشر کریں،ان پر مسلمانوں کو قطعاً اعتبار نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ… جیسا کہ ہم نے پڑھا…یہ ادارے اکثر و بیشتر حقیقت کو چھپالیتے ہیں اور اس کے بالعکس جھوٹ کو حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ آج کل یہ ادارے ہمیں بتاتے ہیں کہ ’نائیجیریا‘میں مسلم عیسائی فسادات ہو رہے ہیں ،اس سے آگے مزید خبر نہیں دیتے ۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں حکومتی سر پرستی میں، نائیجیریا کی فوج بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے۔انھیں گھروں سے نکال نکال کر قتل کیا جارہا ہے اوران کی نسل کشی کی جارہی ہے، وہاں کے مسلمان انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں دوسرے مسلمانوں کی راہ تک رہے ہیں مگر مسلمانوں کو خبر ہی نہیں، کیوں کہ وہ ان ذرائع ابلاغ پرتکیہ کیے بیٹھے ہیں ۔یہ صرف ایک مثال ہے، و گر نہ یہ ادارے اس سے قبل بھی اپنی نشر کردہ خبروں سے امت کو بے انتہا نقصان پہنچا چکے ہیں۔

قرآنی تعلیمات
یہ تو واقعاتی پہلو تھا،شریعت کی نظر سے دیکھیں تو مسلمانوں پر بدرجہ اولی لازم ہے کہ وہ ان کی خبروں پر اعتبار نہ کریں۔اس ضمن میں قرآن مجید ہمیں یہ تعلیمات دیتاہے کہ:
کسی بھی فاسق کی بیان کردہ خبر کی تصدیق نہ کی جائے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْن﴾․(الحجرات :6)
”اے ایمان والو!اگرکوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو،(مبادا)کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچادو،پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے “۔

اس آیت کی رو سے ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ جب بھی کوئی خبر دیں تو انھیں کبھی من وعن قبول نہ کریں اور نہ ہی ان کی تصدیق کریں،کیوں کہ یہ ادارے فسق کا گڑھ ہیں اور جھوٹ ،فریب اور دجل کے اڈے ہیں۔بلکہ مسلمانوں کوچاہیے کہ ان کی نشر کردہ خبروں کی اپنیتئیں تحقیق کریں۔ان اداروں کی خبروں پر بلا تحقیق یقین کرنے کا نتیجہ ہے کہ امت آج اپنے ،محافظین کو پہچاننے سے ہی گریزاں ہے اور مجاہدین کو ہی دہشت گرد سمجھ رہی ہے۔اس آیت کے ذیل میں تفسیر کبیر میں لکھا ہے:
”(ھذا)لبیان وجوب الاحترازعن الاعتماد علی أقوالھم، فانھم یریدون القاء الفتنة بینکم“ ․
”(یہ آیت )واضح کرتی ہے کہ ان کے اقوال پر اعتماد کرنے سے احتراز کرنا واجب ہے،کیوں کہ یہ لوگ (اے مسلمانو!)تمہارے درمیان فتنہ پھیلاناچاہتے ہیں“۔(التفسیر الکبیر ؛سورةالحجرات ،آیة6)
















ایک اہم مسئلہ ، ایک آسان حل
(تحریر: مفتی ابولبابہ شاہ)
مسلم اُمہ کے موجودہ زوال وانحطاط کے سبب ایک سے زیادہ بتائے جاتے ہیں، لیکن ایک سبب ایسا ہے جو بہت سے زمینی گھمبیر اسباب کو جنم دیتا ہے اور متفق علیہ ہے۔ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے بہت سے حل گنوائے جاتے ہیں، لیکن ایک حل ایسا ہے جو بہت سے پیچیدہ مسائل حل کرسکتا ہے اور بہت سے بند تالوں کی کنجی، بہت سی مہلک معاشرتی بیماریوں کے لیے تریاق ہے۔ یہ حل دراصل انبیاء و اولیاء اور حکماء و عقلاء کا ایسا وصف ہے اور ایسی بابرکت عادت ہے کہ اس سے نہایت اعلیٰ انسانی اخلاق پھوٹتے اور نہایت مثبت نتائج جنم لیتے ہیں۔ فاتحین اسلام کو اسی سے ترقی ملی ہے اور ترقی یافتہ اقوام اسی کی بدولت عروج پاتی ہیں۔ 

انسان جب ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اس کے خلوص و ایثا رکی علامت ہوتی ہے اور یہ ایسی قربانی اور وسعت ظرفی پر مشتمل ہوتی ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور تایید نازل ہوتی ہے۔ اور جب وہ ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی مفادات کو پامال کردیتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی کم ظرفی اور خبث باطن کی دلیل ہوتی ہے، بلکہ یہ ایسی خود غرضی اور خواہش پرستی ہوتی ہے جس کی پاداش میں انسان تایید و توفیق الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے۔ پھر اسے اس کے نفس کے حوالے کردیا جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ نصرتِ الٰہی سے محروم انسان کا نفس اسے کس کے حوالے کرتا اور کیسے انجام تک پہنچاتا ہے؟


ذاتی مفاد پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے سے کیسے خوش گوار نتائج سامنے آتے ہیں اور اجتماعی مفادات کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے سے معاشرے پر کیسے بھیانک اثرات پڑتے ہیں، اس کی ایک بہت واضح اور عام فہم مثال موجودہ ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) ہے۔ 

ہمارے خبررساں صحافی اور تبصرہ و تجزیہ کار دانش ور حضرات (المعروف اینکر پرسن) قطعاً نہیں دیکھتے کہ کسی خبر کے جملے یا کسی نشست کے موضوع سے ناظرین و سامعین پر کیسے کیسے منفی اثرات پڑرہے ہیں؟ انہیں بس اپنی ملازمت یا مراعات کی اور اپنے اخبا ریا چینل کی شہرت کی فکر ہوتی ہے۔ اس سوچ کے تحت وہ رائی کا پہاڑ بنانے، بلاوجہ سنسنی پھیلانے، رتّی کا پائو دکھانے غرض کسی چیز سے باز نہیں آتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اپنے اخبار کا پیٹ یا چینل کا جہنم بھرنے کے لیے وہ جس طرح کم کو زیادہ اور صفر کو سو بتاتے ہیں، اس سے عوام میں… جی ہاں! انہی عوام میں جن کو جاننے اور آگاہی کا ’’جمہوری‘‘ حق دینے کے لیے یہ وجود میں آئے تھے… انہی عوام میں بے چینی اور مایوسی پھیلتی ہے۔ ملک و ملت کے حال و مستقبل سے یہ مایوسی ذاتی مفاد کو ہر قیمت پر حاصل کرنے اور اجتماعی مفاد کی خاطر قربانی دینے کو حماقت قرار دینے پر اُکساتی ہے۔ عدم اطمینان کی یہ کیفیت لوٹ و کھسوٹ، بدنظمی و بدعنوانی اور ایسے حوصلہ کش نفسیاتی بحران کو جنم دیتی ہے جس سے معاشرہ طرح طرح ان عوارض و امراض میں مبتلا ہوتا ہے جو آج ہماری پہچان بن چکے ہیں۔ 

راقم یہاں جدید اور ترقی یافتہ کہلائے جانے والے مغرب کے ایک مصنف کا مقولہ نقل کرنا چاہے گا۔ یہ صاحب مغرب کی وہ مایہ ناز صاحب دانش و مطالعہ شخصیت ہیں جو تادم تحریر صرف انسانی دماغ کی کارکردگی پر کئی درجن کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔ معاشرے کی اجتماعی نفسیات ہوں یا کسی فرد کے انفرادی ذہنی میلانات، ان کی رائے اہلِ مغرب کے ہاں اپنے موضوع پر سند مانی جاتی ہے۔ ہمارے ایک سابقہ وزیر اور حالیہ سینیٹر صاحب کو ان سے ملاقات کا موقع ملا تو دریافت کیا کہ ہمارے ہاں دہشت گردی اور قتل و غارت کا دور دورہ ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ سامعین کو زوردار اور جاندار قسم کے روایتی تبصروں کی امید تھی، لیکن ان کی توقع کے بالکل برخلاف وہ گویا ہوئے: (باقی صفحہ5پر) ’’آپ کے ہاں قتل و غارت ہے کہاں؟ قتل و غارت تو امریکا و یورپ میں ہے جہاں کے مشہور ترقی یافتہ شہروں میں سالانہ 50 ہزار سے زیادہ افراد قتل ہوتے اور لاکھ سے زیادہ لٹتے ہیں، لیکن کسی کو کانوں کان خبر ہوتی ہے نہ دہشت پھیلتی ہے۔ وہاں کی حکومتیں ٹی وی چینلوں کو ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر ایسی خبر بیچنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتیں جن سے عوام پر بُرا اَثر پڑے، نہ ایسی دانش وری بگھارنے دیتی ہیں جن سے خالی الذہن عام لوگوں میں کسی طرح کی منفی سوچ پروان چڑھے۔ آپ لوگوں کے ہاں مرتا مچھر ہے اور آخری چنگھاڑ ہاتھی کی سنائی دیتی ہے۔ مجرموں کے ہاتھ سے جسمانی طو رپر مرتا ایک ہے، لیکن خبررساں اداروں کے ہاتھوں ذہنی اور نفسیاتی طور پر پوری قوم قتل کردی جاتی ہے۔‘‘ ہمارے ذرائع ابلاغ کی دہشت پسندانہ کارروائیوں پر یہ تبصرہ کسی عالم کا نہیں جو فحاشی و عریانی پھیلانے پر چینلوں کو کوس رہا ہو، یہ مغرب کے مشہور ماہر نفسیات و ابلاغیات کا تجزیہ ہے جس کے درست ہونے پر ہمارے صبح کے اخبارات کا ہر صفحہ اور ہماری شام کی نشریات کا ہر منظر گواہ ہے۔ 

واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں یومیہ خدا جانے کتنے ضرورت مندوں (میں جان بوجھ کر بھکاری کا لفظ استعمال نہیں کررہا کہ اجتماعی ذہن پر منفی اثرات کا حامل ایک لفظ بھی قصداً لکھنا گناہ ہے) نجانے کتنے ضرورت مندوں کی مدد کی جاتی ہے، اسے کوئی نشر نہیں کرتا، لیکن ایک خاتون کا پرس چھن جائے تو ’’بریکنگ نیوز‘‘ جاری ہوجاتی ہے۔ اسی طرح میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ایک صاحب خیر نے مشہور ہسپتالوں کے قریب میڈیکل اسٹور والوں کو کہہ رکھا ہے کہ ضرورت مند مریض کا بل مجھ سے لیا کرو۔ دوائی دینے سے انکار نہ کرو۔ کئی ڈاکٹر حضرات ایسے ہیں جو دو کلینک چلاتے ہیں۔ ایک متمول علاقے میں وہ مناسب فیس لیتے ہیں اور ایک غریب یا سفید پوش علاقے میں جہاں وہ واجبی سی فیس لیتے ہیں، لیکن اس طرح کی مثبت باتوں کو کوئی چینل خبروں کی ماری قوم کے سامنے نہیں چلّاتا، ہر وقت ڈاکٹروں کو قصاب کہہ کر اس میدان میں نووارد ڈاکٹروں کو منفی ردّعمل اور بے رحمی پر اُکساتا ہے۔ 

کراچی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مدرسے ’’جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون‘‘ کے ایک طالب علم نے ایک صاحب کے لاکھوں روپے پڑے پائے تو اسے پوری امانت اور ذمہ داری سے مالک تک پہنچایا۔ خود راقم الحروف کے استقبال کرنے والے میزبانوں سے ایک مرتبہ کوئٹہ ایرپورٹ پر وہ بیگ غلطی سے ٹرالی میں رہ گیا جس میں قربانی کے لاکھوں روپے تھے۔ اسی دن رات گئے ایک عام سے ملازم نے وہ خطیر رقم جوں کی توں ہمارے حوالے کردی۔ اس طرح کی مثالوں کو ترغیب بھرے انداز میں بیان کرنے کی عادت بنانے کے بجائے ہمارے چینل ان اداروں کے سروے نشر کرتے ہیں جو ہر وقت بدعنوانی میں پاکستان کی تازہ ترین رینکنگ جاری کرنے کی فکر میں گھل رہے ہیں۔ اس سے رشوت ستانی اور چوربازاری مزید بڑھتی ہے اور محض اس خاطر بڑھتی ہے کہ ہمارا میڈیا ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر اجتماعی مفادات کے قتل عام کا عادی ہوچکا ہے۔ دہشت گردی ہر گز یہ نہیں ہے کہ دس آدمی مارے جائیں۔ یہ محض دہشت ہے۔ اصل دہشت گردی اس مقامی اور وقتی دہشت کو اتنا پھیلانا، اور اس کی اتنی گرد اُڑانا ہے کہ وہ قومی دائمی بن جائے اور پورے ملک کو دہشت زدہ مریض بناچھوڑے۔ 


ملک و قوم کو درپیش مسائل کے اسباب بہت سے ہیں، لیکن فرد یا ادارے کے مفاد کی خاطر ملّی مفاد کو روند ڈالنا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ وطن اور اہلِ وطن جن بحرانوں میں مبتلا ہیں ان کے حل ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں، لیکن ایک کارآمد حل یہ ہے کہ ہم لوگ من حیث القوم خلوص و ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھنے کی عادت ڈال لیں۔ یہ کام اپنی ذات سے ہو اور نہایت چھوٹے پیمانے پر ہو، لیکن دنیا و آخرت میں اپنی جگہ اتنی اہمیت رکھتا ہے جتنی بارش کے پہلے قطرے کی ہوتی ہے کہ بالآخر خوشحالی کی فصلیں اسی سے لہلہاتی ہیں اور جتنی سیپی کے منہ میں آنے والے اوّلین قطرے کی ہوتی ہے کہ نایاب موتیوں کی لڑی اسی سے وجود پاتی ہے۔
=====================================
میڈیا کے کرشمے
(تحریر: اوریا مقبول جان)
یوں تو تاریخ تعصبات، ذاتی مفادات اور مطلق العنان حکمرانوں کے زیر اثر تحریر کیا جانے والا وہ قصوں، کہانیوں کا مجموعہ ہے جس میں سچ تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے اندھیرے کمرے میں سیاہ پتھر پر کالی چیونٹی کو ڈھونڈنا۔ ہر کسی کو تاریخ کے افسانوں میں اپنی مرضی کا سچ مل جائے گا اور وہ اس افسانے کو حق اور سچ مان کر اپنی محبت اور نفرت میں اضافہ کرتا پھرے گا۔ اس سب کے باوجود اگر کسی نے سچ ڈھونڈنا ہو، حقیقت سے آگاہ ہونا ہو تو تعصبات کو ذہن سے جھٹک کر خالصتاً سچ جاننے کی نیت سے مطالعہ کرے تو ایک بات طے ہے کہ سچ ملے یا نہ ملے اسے جھوٹ کا مکمل ادراک ضرور ہوجاتا ہے۔ وہ صرف تاریخ مرتب کرنے والے کے مقام، مرتبے، حیثیت، خاندان اور عقیدے کو جان لے اور عقل کی کسوٹی پر رکھ کر اس کے تحریر کردہ واقعات کو جانچے تو جھوٹ، ملاوٹ اور من گھڑت افسانہ طرازی کھل کر سامنے آجائے گی۔

یہ تو گزشتہ ادوار کی تحریر کردہ تاریخ کی بات ہے جسے صدیاں بیت گئیں اور اس کا جھوٹ آج تک عام آدمی کی زبان پر جاری ہے۔ نہ عام آدمی کو یہ مہلت میسر ہے کہ تحقیق کے کام پر نکلے اور نہ ہی اس تک یہ سہولت موجود ہے کہ تمام تاریخیں اس کے سامنے ہوں۔
اسے جو مسجد کا مولوی، امام بارگاہ کا ذاکر، اسکول کا استاد، محلے کا نیم خواندہ دانشور، سیاست دان یا کالم نگار بتا دیتا ہے وہ اس پر یقین کرلیتا ہے۔ موجودہ دور کا عام آدمی تو سخت مشکل میں ہے۔ وہ اس دور میں زندہ ہے جس میں صرف اور صرف جھوٹ کی بادشاہی ہے اور کذب کا غلبہ ہے۔ یہ دور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق اور آپ کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔ حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکا و فریب کے ہوں گے۔ سچے کا جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں روبیضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا: روبیضہ کون؟‘‘ فرمایا: ’’گھٹیا (فاسق و فاجر) لوگ۔ وہ لوگوں کے اہم معاملات پر بولا کریں گے۔‘‘ (مسند احمد 1332، مسند ابی یعلی 3715، السنن الواردۃ فی الفتن)

ہم اس دور میں زندہ ہیں جس پر جھوٹ کا غلبہ اور کذب کی حکمرانی ہے۔ یہ دور میڈیا کادور ہے۔ کیا کسی سچے کو جھوٹا، جھوٹے کو سچا، امانت دار کو خائن اور خائن کو امانت دار ثابت کرنا میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل نہیں۔ کیا دنیا بھر میں لوگوں کے اہم معاملات پر روبیضہ فاسق و فاجر لوگ روز گفتگو نہیںکرتے، تجزیہ نہیں پیش کرتے، کیا کوئی سنجیدہ، صاحب کردار، صاحب علم شخص آج کے میڈیا میں باوقار ہے۔ دنیا کا تمام میڈیا جس چکاچوند میں لوگوں کی آنکھیں چندھیائے ہوئے ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اپنی مرضی کا سچ، مرضی کا کلچر اور مرضی کی اطلاع لوگوںتک پہنچے جس سے ایک خاص مقصد کے مطابق نفرت اور محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو۔

میڈیا ایک تاریخ مرتب کررہا ہے جو گزشتہ تاریخوں سے زیادہ متعصب، جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہے، لیکن کس خوبصورتی سے وہ اپنے جھوٹ کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ لوگوں کو وہی اصل حقیقت اور سچ محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ موجودہ میڈیا نے اپنے اس جھوٹ کو سچ بناکر پوری دنیا پر جنگ، قتل و غارت، بے سکونی اور موت مسلط کی ہے، اس لیے وہ اصل سچ، اصل حقیقت اور صحیح تصویر پیش کرنے والے کو اس قدرمطعون اور قابل نفرت بنادیتا ہے کہ لوگ اصل سچ پر یقین ہی نہیں کرتے۔ جھوٹا کا یہ کاروبار پہلی جنگ عظیم میں تیز رفتاری سے آگے بڑھا، دوسری جنگ عظیم میں اسے اس قدر عروج حاصل ہوا کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسانے کے بعد دو امریکی صحافی وہاں کا دورہ کرتے ہیں اور واشنگٹن پوسٹ میں رپورٹ شایع ہوتی ہے کہ دونوں شہروں کی آبادی میں کوئی تابکاری اثرات نہیں پائے گئے۔ ہٹلر کے وزیر گوئبلز کا قول مشہور ہوتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ محسوس ہو۔ لیکن جوں جوں اس میڈیا کو عروج اور ترقی ملتی گئی دھوکے اور فراڈ کا ماحول مزید مستحکم ہوتا گیا۔

میڈیا کی اس متعصب اور جھوٹی تاریخ نویسی کا سب سے بڑا شکار موجودہ دور کا افغانستان، طالبان اور ملا محمد عمر ہے۔ جوں جوں انسان ان کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا ہے دنیا بھر میں پھیلایا گیا جھوٹ واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔گزشتہ دنوں افغانستان میں پاکستان کے سفیر ایاز وزیر نے میرے پروگرام متبادل میں ایک واقعہ سنایا کہ میں وزارت خارجہ میں تعینات تھا تو طالبان کے وزیر خارجہ عبدالوکیل متوکل مجھ سے ملنے آئے۔ اتنے میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے سے فون آیا کہ پاکستانی سفارتی عملے کے دو ارکان کو اس وجہ سے چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے کہ ان کی داڑھی نہیں۔ ایاز وزیر نے عبدالوکیل متوکل سے کہا تو انہوں نے فوراً کابل کے طالبان کے انچارج سے گفتگو کی کہ ایسا کوئی حکم نہ ملا محمد عمر نے دیا ہے اور نہ کسی اور قیادت کی جانب سے ایسا ہے تو پھر یہ سب کیا ہے۔ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے اسے گرفتار کرو اور سفارت خانے کے حملے کو عزت و احترام سے چھوڑ کر آؤ اور معافی بھی مانگو۔

اس سچ کے سامنے آنے کے بعد بھی کیا اس جھوٹ کا اثر ختم ہوسکتا ہے جو گزشتہ 20 سال سے پھیلایا جارہا ہے۔ سب سے بڑی بات افغانستان میں قانون کی حکمرانی تھی۔ اس کے نزدیک طالبان کے جرائم میں سرفہرست موجودہ عالمی نظام سے آزادی، دوسرا ایک کامیاب اسلامی ریاست کا قیام،تیسرا تیل کی صنعت سے وابستہ افراد کے اثرو رسوخ سے انکار، چوتھا کارپوریٹ میڈیا کے مقابل میں میڈیا کا فقدان اہم ترین جرائم تھے۔ کتاب انکشافات کا مجموعہ ہے اور یہ انکشافات عابد اللہ جان نے مغربی میڈیا کی رپورٹوں سے اکٹھے کیے ہیں۔ وہ انکشاف جنھیں میڈیا کی چکا چوند نے چھپا دیا تھا۔ وہ سچ جو بکھرا ہوا تھا اسے اکٹھا کیا گیا ہے۔ ورنہ میڈیا تو دنیا بھر میں ان لوگوں کے کنٹرول میں ہے جو سروںکی فصلیں کاٹ کر ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ان کے پاس پتلیوں کی طرح رقص کرتے دانشوروں، تجزیہ نگاروں، ادیبوں، شاعروں اور مورخوں کی کمی نہیںہے۔ ایسے لوگ تاریخ کے ہر دور میں میسر رہے ہیں۔ روبیضہ جن کے ہاتھ میں اہم معاملات پر گفتگو کرنے کا لائسنس میڈیا نے عطا کیا ہے۔


=====================================








میڈیا کی اثرانگیزی اب کسی پر مخفی نہیں رہی۔ وہ والدین جو انٹرنیٹ اور میڈیا سے اب تک کسی قدر بچے ہوئے ہیں وہ بھی اپنے بچوں پر میڈیا کے اثرات کو کھلی آنکھوں دیکھنے پر مجبور ہیں۔ وجہ وہی کہ میڈیا گھروں کے اندر گھس گیا ہے۔ آپ کے عام موبائل سیٹ پر بھی SMS کے ذریعے ازخود ہی گانے سننے کی پیشکش پہنچ جاتی ہیں۔ خدانخواستہ آپ سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی بہت دفعہ ہر قسم کا ناپسندیدہ مواد آپ سے صرف ایک کلک کی دوری تک آپہنچتا ہے۔ کیمرے والے فون ازخود آپ کی تصاویر کو فیس بک پر اپ لوڈ کرنے کی پوزیشن پر لے جاکر آخری اجازت چاہ رہے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے سافٹ ویئرز ہیں جو آپ کی ویڈیو کال بناکر سامنے والے نمبر پر بھیج دیتے ہیں۔ آپشنز کو ایسے پیچیدہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ جو لوگ انہیں کم استعمال کرتے ہیں انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ غلط استعمال کرگئے ہیں۔ یہ بات تو ہوئی میڈیا کے تکنیکی استعمال کے حوالے سے، لیکن اس سے کہیں بڑا مسئلہ سوشل میڈیا پر اٹھنے والی افواہوں اور غیرمستند خبروں پر ردّعمل کا ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر ایک دنیا بیٹھی تبصروں اور تجزیوں میں مصروف ہے۔ دینی معاملات یا کسی معاملے کے دینی پہلو پر علماء کو بھی خوب گھسیٹا جاتا ہے کہ وہ اپنا نقطۂ نظر پیش کریں۔ خیر! یہاں تک تو بات کسی قدر مناسب ہے، لیکن سوالات کو ایسے پس منظر کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے تاکہ سامنے والا مجبوراً وہی رائے دے جو سائل چاہتا ہے۔
پھر اس رائے کو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ پرموٹ کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے موافق و مخالف تبصروں سے ایک ’’ایشو‘‘ پیدا ہوجاتا ہے۔ بندہ کو کچھ دن پہلے مرحوم عبدالستار ایدھی کا ایک کلپ کسی نے بھیجا جس میں انہوں نے دین اسلام کی رو سے نامناسب جملے کہے تھے۔ مقصد سائل کا یہ ہوگا کہ میں انہیں کفریہ کلمات قرار دوں گا اور سائل کو ’’اپنی بحث‘‘ میں موقف مضبوط کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔ لیکن ان کی امیدوں پر اس وقت پانی پھرگیا کہ جب بندہ نے جواباً لکھا: ’’ایدھی صاحب ایک غیرعالم اور فلاحی مزاج کے انسان تھے۔ علم کی کمی کی وجہ سے ان سے ایسے کلمات بھی نکل جاتے تھے جو آپ نے بھیجے۔ دوسری طرف ان کی علمائے کرام اور دینی حلقوں سے محبت کے بھی بے شمار شواہد ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ٹارگٹ کلنگ کے شہید علماء کے جنازوں میں شریک کے لیے چھ چھ گھنٹے نیوٹائون میں انتظار بھی فرمایا کرتے تھے۔ اب جو بھی ان کا آخری عمل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان سے وہی معاملہ فرمائیں گے۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے حتمی فیصلہ نہ ممکن ہے اور نہ وقت کے مناسب۔‘‘

خیر عرض میں یہ کررہا تھا کہ سوشل میڈیا پر مواقع تو بہت ہیں، لیکن جلدی ردعمل دینا یا حتمی ردعمل دینا مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ دعوت کے مقاصد اور امت کے اتحاد میں خلل واقع ہوسکتا ہے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ کافی بحث مباحثہ کے بعد اکابر میں سے کوئی حتمی رائے دے دیتا ہے تو سب اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں، لیکن اس سے پہلے انواع و اقسام کی آراء دے کر ہم بہت سے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرچکے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اس میں فرق نہیں کرتا کہ کون سی رائے بحث کے دوران کی ہے اور کون سی حتمی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ حتمی رائے تک سوچ و بچار سوشل میڈیا پر نہ ہو یا زیادہ سے زیادہ کلوسڈ یا سیکرٹ گروپس میں ہو تاکہ عوام میں تشویش پھیلانے میں ہمارا کردار نہ ہو۔ نیز حتمی رائے سے پہلے غور و خوض کی ضرورت تو اکابر کو بھی پڑتی ہے، لہٰذا اکابر سے بھی ایمرجنسی میں رائے کا مطالبہ نہ کیا جائے، بلکہ ان کی صائب رائے کا انتظار کیا جائے۔ تبصروں کے بجائے اپنے سیکھنے کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔ ان شاء اللہ! کبھی یہ نئی پوت بھی اکابر بنے گی تو ان کی رائے ان کے ماضی کی پختگی کو دیکھ کر ہی قبول کی جائے گی۔

اس رمضان میں سوشل میڈیا پر ایک اہم پیش رفت درس قرآن ڈاٹ کام کی جانب سے رمضان ٹرانسمیشن کا اجراء ہے۔ درس قرآن ڈاٹ کام سے لگ بھگ 400 آن لائن لائیو بیانات کیے گئے۔ یہ ایک قابل قدر اقدام اور غیرمعمولی تعداد ہے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے۔ ان علماء کے لیے بھی جو الیکٹرانک میڈیا کی ایڈیڈنگ کی پالیسی کی وجہ سے اپنا موقف واضح طور پر عوام تک پہنچانے میں الجھن محسوس کرتے ہیں۔ اور ان عوام کے لیے بھی جو دینی پروگرامز دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں، لیکن غیرمستند اسکالرز کی بدعملی اور رمضان ٹرانسمیشن کی بے ہودگیوں سے پریشان ہیں۔ 400 پروگرامز کی تعداد بھی غیرمعمولی ہے۔ یہ تعداد اور اتنی بڑی تعداد میں مستند علماء تک رسائی کسی بڑے سے بڑے ٹی وی چینل کو بھی حاصل نہیں۔ پھر اس کی ’’Reach‘‘ بھی غیرمعمولی ہے۔ بندہ نے اس رمضان میں دس بیانات کی ایک سیریز درس قرآن ڈاٹ کام پر کی۔

یہ خبر میرے لیے انتہائی حیران کن تھی کہ پہلے لائیو بیان کو تقریباً 25000 افراد نے براہ راست دیکھا۔ ظاہر ہے 100، 200 یا زیادہ سے زیادہ 1000، 1500 افراد میں بیان کا تجربہ رکھنے والے کے لیے یہ بات نہایت حوصلہ افزا تھی۔ یہ حیرت ابھی جاری تھی کہ پتہ چلا کہ مولانا طارق جمیل صاحب کے بیانات کو دیکھنے والوں کی تعداد 6 لاکھ سے بھی متجاوز ہوجاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ یہ پلیٹ فارم کسی بھی بڑے ٹی وی چینل سے زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔ دنیا بھر کے لاکھوں لوگ اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ مسلسل سنجیدہ پروگرامز کی وجہ سے اس کو پوری دنیا کے ہر مکتبہ فکر کے مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہمیں میڈیا سے کنارہ کش بھی نہیں ہونا کہ یہ اسلام کے دعوتی و ابلاغی عمل میں کوتاہی ہوگی، لیکن ہمیں میڈیا کی چرب زبانی، تیزی اور ہنگامہ خیزی کا شکار بھی نہیں ہونا۔ نیز درس قرآن ڈاٹ کام جیسے معیاری پلیٹ فارم کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے تاکہ سوشل میڈیا پر ہم وحدت امت کے داعی اور فکری رہنما کے طور پر سامنے آسکیں۔



=====================================

۱۸۹۸ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر بال میں ۳۰۰ یہودی دانشوروں، مفکروں،فلسفیوں نے ہر ٹزل کی قیادت میں جمع ہو کر پوری دنیا پر حکمرانی کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ منصوبہ 19پروٹوکولز کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے عرصہ ہوا آچکا ہے ۔ اس منصوبے کو یہودی دانشوروں کی دستاویز بھی کہتے ہیں۔ اس پورے منصوبے میں۳۰ یہودی انجمنوں کے ذہین ترین لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ اس دستاویز میں ذرائع ابلاغ کو بنیادی اہمیت دی گئی ۔ بارہویں دستاویز میں صحافت کی غیر معمولی اہمیت ، اس کی تاثیر و افادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:”اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے سونے کے ذخائز پر قبضے کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں۔ ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی باگ کو اپنے قبضے میں رکھیں گے، ہم اپنے دشمنوں کے قبضے میں کوئی ایسا موٴثر اور طاقتور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو موٴثر ڈھنگ سے ظاہر کرسکیں، اور نہ ہی ہم ان کو اس قابل رکھیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گزرے بغیر کوئی خبر سماج تک پہنچ سکے۔ہم ایسا قانون بنائیں گے کہ کسی ناشر اور پریس والے کے لئے یہ ناممکن ہو گا کہ وہ پیشگی اجازت لئے بغیر کوئی چیز چھاپ سکے۔ اس طرح ہم اپنے خلاف کسی بھی سازش یا معاندانہ پروپیگنڈے سے باخبر ہو جائیں گے ،ہم ایسے اخبارات کی سرپرستی کریں گے جو انتشار و بے راہ روی اور جنسی و اخلاقی انار کی پھیلائیں گے، اور استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مدافعت اور حمایت کریں گے۔ ہم جب چاہیں گے قوموں کے جذبات کو مشتعل کریں گے اور جب مصلحت دیکھیں گے انہیں پر سکون کردیں گے۔ اس کے لئے سچی اور جھوٹی خبر وں کا سہارا لیں گے۔ ہم ایسے اسلوب میں خبروں کو پیش کریں گے کہ قومیں اور حکومتیں ان کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔ ہمارے اخبارات و رسائل بندوں کے معبود و شنو کی طرح ہو ں گے، جس کے سینکڑوں ہاتھ ہو تے ہیں، ہمارے پریس کا یہ بنیادی کام ہو گا کہ و ہ مختلف موضوعات اور کالموں کے ذریعے رائے عامہ کی نبض پر ہاتھ رکھیں گے۔ ہم یہودی ایسے مدیروں، مالکان اور نامہ نگاروں کی ہمت افزائی کریں گے جو بدکردار ہوں اور ان کا مجرمانہ ریکارڈ ہو ۔ہمارا یہی معاملہ بدعنوان سیاست دانوں، لیڈروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ ہو گا،جن کی ہم خوب تشہیر کریں گے، ان کو دنیا کے سامنے ہیرو بناکر پیش کریں گے ،لیکن ہم جیسے ہی محسوس کریں گے کہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں تو فوراً ہم ان کا کام تمام کردیں گے، تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔ ہم یہودی ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے زیر کنٹرول رکھ کر دنیا کو جو کچھ دکھا نا چاہتے ہیں ،وہی دنیا کو دیکھانا ہوگا۔ جرائم کی خبروں کو ہم غیر معمولی اہمیت دیں گے ،تاکہ پڑھنے والوں کا ذہن تیار ہو، اس انداز سے کہ دیکھنے والے کو مجرم سے ہمدردی ہو جائے۔“
ذرائع ابلاغ اور خبر رساں ایجنسیوں کے درمیان وہی تعلق ہے جو بندوق اور کار توس کا ہو تا ہے۔ اگر کار توس فراہم نہ ہو ں تو بندوق کا وجود بے کار ہے۔ یہودیوں کا وجود بے کا ر ہے ۔یہودیوں نے اخبارات و رسائل کے ساتھ خبر رساں ایجنسیوں کے قیام کی طرف بھی خصوصی توجہ کی ،یہی وہ بنیادی ذریعہ ہے جس کے استعمال سے اپنی خواہش کے مطابق وہ کام کرتے ہیں، یہودیوں کے پروٹوکول کے بارہویں باب کی یہ تحریرغورسے پڑھیں، جس میں کہا گیا ہے کہ ہماری اجازت کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہم خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں گے۔ اس کی روشنی میں یہودیوں نے اپنا آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا اور خبر رساں ایجنسیاں قائم کیں ،جو درج ذیل ہیں:
رائٹر
عالمی خبر رساں ایجنسیوں میں رائٹر کو غیر معمولی شہرت حاصل ہے ۔دنیا کے تمام اخبارات اور ٹی وی اس ایجنسی کی خبروں پر بھروسا رکھتے ہیں،حتیٰ کہ بی بی سی ،وائس آف امریکہ، ریڈیو مونٹ کارلوبھی اس سے۹۰فیصد خبریں حاصل کرتے ہیں۔ اس خبر رساں ایجنسی کا بانی موسس جولیس ۱۸۱۶ء میں یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔ ۱۸۵۱ء میں لندن میں اس ایجنسی نے اپنا کام شروع کیا ۔ ۱۸۵۷ء میں رائٹر ایجنسی کے مالک کو برطانوی شہریت دے دی گئی اور ایک بڑے خطاب سے ملکہ برطانیہ نے اس کو سرفراز کیا۔ رائٹر کے کارکنوں کی تعداد ۳ہزار کے قریب ہے، جس میں ایک ہزار ایڈیٹر اور صحافی و نامہ نگار ہیں۔ اس نیوز ایجنسی کے نصف سے زائد کارکن برطانیہ کے باہر غیر ملکوں میں کام کرتے ہیں۔۷۵سے مراکز کے ذریعے ایک سو پچاس ملکوں کے اخبارات و رسائل ، ریڈیو ، ٹی وی کمپنیوں کو اورروزانہ پندرہ لاکھ الفاظ پر مشتمل خبریں اور مضامین بھیجے جاتے ہیں جو ۴۸زبانوں میں شائع ہو تے ہیں۔
یونائیڈ پریس
۱۹۰۷ء میں امریکہ کے دو یہودی سرمایہ داروں اسکربٹس اور ہوارڈ نے یونائیٹڈ پریس کے نام سے ایک خبر رساں ایجنسی کی بنیاد ڈالی او ردو سال بعد انٹر نیشنل نیوز سروس کے نام سے کمپنی قائم کی جو بعد میں عالمگیر اشاعتی ادارے میں تبدیل ہو گئی اور اس کی شاخیں دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ ولیم ہیرسٹ اگر چہ عیسائی تھالیکن اس کی شادی ایک بڑے سرمایہ کار کی لڑکی سے ہوئی۔ولیم ہیرسٹ کا پورا خاندان یہودی خاندان میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے بعد یونائیٹڈ پریس اور انٹر نیشنل پریس آپس میں ضم ہو کر نیویارک ٹائمز کی ملکیت میں آگئے جو کہ ایک یہودی کے ماتحت ہے۔۱۸۸۲ء میں ان سب کو میڈیا نیوز کارپوریشن میں ضم کردیا گیا ۔یونائیٹڈ پریس انٹر نیشنل سے امریکہ میں ۱۱۵۰ اخبارات، پبلشنگ ادارے اور ۳۱۹۹ ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن وابستہ ہیں ۔ پوری دنیا میں اس ایجنسی کے ۱۷۰دفاتر ہیں۔ صرف امریکہ کے اندر ۹۶دفاتر ہیں۔ یو پی آئی میں۲ ہزار افراد کام کرتے ہیں، جس میں ۱۲۰۰ ایڈیٹر اور کیمرہ مین ہیں۔۷۰۰ نامہ نگار امریکہ سے باہر مختلف ملکوں میں متعین ہیں۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی (اے ایف پی):
۱۸۳۵ء میں فرانس کے ایک یہودی خاندان ہاواس نے ہاواس نیوز ایجنسی کے نام سے ایک خبر رساں ادارے کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر ایجنسی فرانس پریس کے نام سے مشہور ہوا۔ اگر چہ فرانس میں صرف ۷ لاکھ یہودی ہیں، لیکن وہاں پر شائع ہو نے والے پچاس فیصد اخبارات و رسائل پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ فرانسیسی نیوز ایجنسی کی نئی تنظیم مارچ۱۹۵۷ء میں کی گئی، جس کے مطابق اس کا دائرہٴ کار فرانس سے باہر تک بڑھا دیا گیا۔ اس ایجنسی میں ۱۰۰۰ کے قریب صحافی کا م کرتے ہیں ،جس میں ۳۰۰ کے قریب صحافی فرانس کے باہر متعین ہیں۔ اس نیوز ایجنسی کے ماتحت ۱۲ نیوز ایجنسیاں کام کرتی ہیں۔ ۱۵۰ ریڈیو،ٹی وی اداروں کو یہ ایجنسی خبریں مہیا کرتی ہے۔
ایسوسی ایڈ پریس
۱۹۸۴ء میں امریکہ کے پانچ بڑے روزناموں نے مل کر ایسوسی ایٹس پریس خبر رساں ایجنسی کی بنیاد ڈالی ۔۱۹۰۰ء میں یہ ایجنسی عالمگیر کمپنی کی صورت میں تبدیل ہو گئی ۔اس کمپنی میں نوے فیصد سرمایہ یہودی سرمایہ کاروں کا ہے، اس ایجنسی سے ۱۶۰۰ روزنامے اور۴۱۸۸ ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن وابستہ ہیں۔ اس نیوز ایجنسی کے امریکہ میں ۱۱۷ دفاتر اور بیرونی ممالک میں ۸۱ اخباری مراکز ہیں،جہاں۷۰۰ نامہ نگار متعین ہیں۔ ا ن میں سے ۱۳۰ نامہ نگار امریکی ہیں۔ 
پانچ بڑی میڈیا کمپنیاں
دنیا میں پانچ بڑی میڈیا فرم ہیں۔ پہلے نمبر پر والٹ ڈزنی آتی ہے۔ اس کا چیف ایگزیکٹو مائیکل ایزر،پروڈیوسرز ، منیجرز اور جنرل منیجرز یہودی ہیں۔ اس کمپنی کے پاس تین بڑے ٹیلی ویژن چینلز ہیں۔ اے بی سی دنیا میں سب سے زیادہ دیکھاجانے والا کیبل نیٹ ورک ہے۔صرف امریکہ کے اندر اس کیبل نیٹ ورک کے ایک کروڑ چالیس لاکھ کنکشن ہو لڈرز ہیں۔ یہ کمپنی دو ریڈیو پروڈکشن کمپنیوں، فلمیں بنانے والی دنیا کی تین بڑی کمپنیوں، آرٹ کے دو ٹیلی ویژن چینلز ،گیارہ اے ایم ریڈیو اور ایف ایم ریڈیو چینلز کی مالک ہے ۔ اور دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا اسپورٹس چینل ” ای ایس پی این“ بھی اس کمپنی کی ملکیت ہے۔دنیا کے ۲۲۵ٹیلی ویژن چینلزوالٹ ڈزنی کمپنی سے وابستہ ہیں۔ دنیا کے ۳۴۰۰ریڈیو اس سے وابستہ ہیں۔دوسری بڑی میڈیا کمپنی” ٹائم وارنر“ہے، جس میں کام کرنے والے تمام چھوٹے بڑے عہدیدار یہودی ہیں۔ ٹائم وارنر پر دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانیوالا فلموں کا چینل ایچ بی او، میوزک کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل وارنر میوزیک، اور ریڈیو پروڈکشن کمپنی اور دنیا کے پانچ کثیر الاشاعت میگزین ٹائم، اسپورٹس ، السٹریٹڈ، پیپل اور فارچون ہیں۔ ”وایا کام پیراماوٴنٹ “دنیا کی تیسری بڑی میڈیا فرم ہے۔ یہ سرریڈ اسٹون نامی یہودی کی ملکیت ہے۔ اس میں بھی تمام ملازمین یہودی ہیں۔ دنیا بھر کے نوجوان سب سے زیادہ ایم ٹی وی اور بچےnic kelotenنامی چینل دیکھتے ہیں۔ امریکہ میں کالے اور گورے ، امریکی ایشیائی کی تفریق کی بنیاد انہوں نے رکھی جنہوں نے ” تہذیبوں کا تصادم “ کی تھیوری دی، جنہوں نے دنیا کو مغرب اور مشرق میں تقسیم کیا ، ہر فرم ہر سال دس ارب ڈالر کماتی ہے۔اس کے پاس ریڈیو کے ۱۲ ، ٹیلی ویژن کے۱۳ چینلز ہیں ،یہی کتابیں شائع کرنیوالے تین بڑے اداروں اور ایک فلم ساز ادارے کی بھی مالک ہے۔چوتھی بڑی کمپنی” نیوز کا رپوریشن“ ہے، جس کا مالک بھی یہودی ہے۔ یہ بھی بے شمار ٹی وی چینلز اور رسائل کی مالک ہے۔ اس کمپنی میں یہودیوں کے علاوہ اور کسی کو کام نہیں ملتا۔پانچویں نمبرپر جاپان کی کمپنی ”سونی“ ہے۔ یہ کمپنی بھی فلمیں بناتی ہے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو چینلز چلاتی ہے۔ گو اس وقت اس میں زیادہ تر عملہ جاپانیوں پر مشتمل ہے، لیکن یہودی لابی اسے خرید نے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے۔ اسوقت جاپان میں صرف ۲۰۰۰ یہودی آباد ہیں۔ ان میں سے۱۰۰۰ یہودی کسی نہ کسی شکل میں میڈیا سے وابستہ ہیں۔یہودی پرنٹ میڈیا کو کس قدر عزیز سمجھتے ہیں ،اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک ایک یہودی فرم ۵۰،۵۰ اخبارات اور میگزین شائع کررہی ہے۔ نیوہاوٴس یہودیوں کی ایک اشاعتی کمپنی ہے جو۲۶ روزنامے اور ۲۴ میگزین شائع کرتی ہے۔
امریکہ میں یہودیوں کے مشہور روزنامے اورمیگزین جنہوں نے پرنٹ میڈیا پر قبضہ کر رکھا ہے:
روزنامہ وال اسٹریٹ جرنل، نیویارک ڈیلی نیوز، نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ دنیا کے بڑے اخبارات ہیں جن کی روزانہ اشاعت ۹۰ لاکھ سے زائد ہے ۔ ان اخبارات کو صحافت کی دنیا میں اسٹوری میکر ز کہا جاتا ہے۔ ان اخبارات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کو اسٹوری دیتے ہیں۔ مشہور میگزین جو امریکہ کے علاوہ پوری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں: ریڈرز ڈائجسٹ ،ٹائمزمیگزین، پلے بوائے، بزنس ویک جن کی اشاعت ۲ کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ میگزین وہ ایشوز چھیڑتے ہیں جو آگے چل کر دنیا بھر کے اخبارات کے لئے خبر بنتے ہیں،ان میگزین اور اخبارات کو پوری دنیا میں تقسیم کرنے کی۱۷۷۰ایجنسیاں اور پبلیشنگ ادارے ہیں۔ ان سب پر یہودی قابض ہیں۔ مجموعی طور پر پورے امریکہ میں۱۴۰ ٹی وی چینلز یہودی ملکیت میں ہیں، دوسری طرف روزانہ۶۵ ملین سے زائد جو امریکی روزنامے تقسیم ہو تے ہیں ،ان میں ۶۲ ملین کے مالک یہی یہودی ہیں۔ جب کہ امریکہ میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب صرف 2.9فیصد ہے۔
امریکی میڈیا کے متعلق امریکیوں کی رائے:
امریکی عوام کی اکثریت اس یہودی میڈیاکے بارہ میں کیا خیالات رکھتی ہے؟ یہ روزنامہ لاس اینجلس ٹائمز کے ایک سروے سے معلوم ہو تا ہے جو جولائی۱۹۹۹میں کرایا گیا۔ ۵۰ فیصد امریکی اپنے میڈیا پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے مالکوں کے نقطہ نظر کی حمایت مطابقت نہیں ہو تی۔۷۰ فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیا دولت مندوں اور اصحاب ثروت کے اثر و نفوذ کی حمایت کرتا ہے اس میں خود امریکی حکومت بھی شامل ہے۔۷۰ فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیا کی خبروں میں عدم توازن اور جانب داری پائی جاتی ہے۔۶۰ فیصد امریکی فحاشی اور عریانی سے متعلق خبروں اور تصویروں اور کہانیوں کو ناپسند کرتے ہیں۔۴۵ فیصد امریکیوں کا کہنا کہ ہے ذرائع ابلاغ کی خبریں فرضی اور من گھڑت ہو تی ہیں۔۶۰ فیصد امریکی خبریں سی بی ایس، بی سی اور اے بی سے سے حاصل کرتے ہیں۔۵۲ فیصد امریکی روزناموں سے خبریں حاصل کرتے ہیں۔۸۰ فیصد خبریں سی این این سے حاصل کرتے ہیں۔
ہالی ووڈ
ہا لی ووڈ ، جو فلم سازی کا سب سے بڑا مرکز ہے اور پوری دنیا کو وہیں سے فلمیں برآمد کی جاتی ہیں ۔تمام سینما کمپنیوں کے مالک یہودی ہیں۔ان کمپنیوں میں ادا کار، مکالمہ نگا، کیمرہ مین ، ڈائریکٹر سب یہودی ہیں۔انڈیپنڈنٹ نیوز کے ایڈیٹر نے ۱۹۸۳ء میں لکھا تھاکہ: امریکی سینما کی صنعت کے یہودی بلا شرکت غیر ے مالک ہیں۔ اس صنعت میں کام کرنے والے سب یہودی ہیں۔ ان یہودی فلم ساز کمپنیوں کی فلمیں نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں سپلائی کی جاتی ہیں۔ فورڈ نے یہودیوں کی زیر نگرانی بنائی جانے والی فلموں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فن کاری، جذبات کی عکاسی اور سماجی مشکلات و مسائل کی تصویر کشی سے ان فلموں کا کوئی واسطہ نہیں ہو تا، بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ سولہ سال سے اٹھارہ سال کی عمر کے نوجوانوں کے دل و دماغ کو کس طرح برباد کیا جائے، اس لئے سارا زور شہوانی جزبات کو بھڑکانے اور معاشرے کی اخلاقی قدروں کے خلاف بغاوت پر ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ فیشن کی وہ چیزیں تیارکرتے ہیں جن کو معاشرے میں فروغ دینے کا ان کا منصوبہ ہوتاہے ،تاکہ فلم دیکھنے والے ادا کاروں کے فیشن اور طرزِ زندگی کے مطابق مارکیٹ سے مطلوبہ اشیاء خریدیں۔ اس طرح پورا انسانی معاشرہ یہودیوں کی چشم ابرو پر چلنے کے لئے اپنے کو مجبور پاتا ہے، اور ان یہودی اداکاروں کے فیشن اور طرز زندگی کو اختیار کرنے ہی کو وقت کا سب سے بڑا تقاضا سمجھتا ہے۔امریکی اخبار انڈیپنڈنٹ کرسچن نیوز نے امریکی فلموں پر یہودی اجارہ داری اور غلبے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ہالی ووڈ نہ صرف ہر طرح کی برائیوں کا مرکز ہے، بلکہ اس نے مردوں سے ان کی مردانگی اور عورتوں سے ان کی نسوانیت چھین لی ہے۔ مجرم اور بد کار لوگوں کو ڈھالنے کے اس کارخانے کو بند کر دینا چاہئے۔
برطانیہ کی سیاسی اور سماجی زندگی میں یہودیوں کا عمل دخل بہت قدیم ہے۔ برطانیہ کا وزیر اعظم ڈزرائیلی اور برطانوی افواج کا چیف آف اسٹاف دونوں بیک وقت یہودی تھے۔ برطانیہ کے معروف ادارے بی بی سی کے سربراہ مسلسل تین دہائیوں سے یہودی چلے آرہے ہیں۔ اسٹار ٹی وی بھی یہودیوں کی ملکیت ہے۔برطانیہ سے شائع ہونے والے درجہ ذیل اخبار ات یہودیوں کی ملکیت ہیں:ڈیلی ایکسپریس ،نیوز کرانیکل ، ڈیلی میل، ڈیلی ہیرالڈ ، مانچسٹر ، گارجین، ایوننگ اسٹینڈرڈ ، ایو ننگ نیوز ،آبزرور،سنڈے ریویو،سنڈے ایکسپریس ،سنڈے کردانیکل ، دی سنڈے پیپل ،سنڈے ڈسپیچ، دی اسکاچ، دی ایمبیسیڈر، دی جیوگرافک ، ان کی یومیہ اشاعت 33ملین ہے۔ برطانوی صحافت امریکی صحافت کی طرح یہودیوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے جو ملکوں کی پالیسی پر بھر پور طریقے سے اثرر اندازہو تے ہیں۔
امریکی دانشوروں کا یہودیوں پر تبصرہ:
”عالمی خبر رساں نیوز ایجنسیوں کے ذریعے یہودی تمہارے دل و دماغ کو دھو رہے ہیں۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق دنیا کے حالات وحوادث کو دیکھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ واقعی حقائق اور حوادث کیا ہیں۔ او ردوسری طرف فلموں کے ذریعے ہمارے نوجوانوں اور فرزندانِ قوم کے دل و دماغ کو اپنے افکار و خیالات کی مسلسل غذا پہنچارہے ہیں تاکہ ہمارے بچے جو ا ن یہودیوں کے دم چھلے اور غلام بن جائیں اورصرف دو گھنٹے کے قلیل وقفے میں ۔ اس وقفے میں یہودی شاطر، فلموں کے ذریعے ہماری نوجوان اور ابھرتی ہوئی نسل کی عقل اور کردار کو مٹا کر رکھ دیتے ہیں،۔ وہی عقل اور کردار جس کی تیاری میں مہینوں اور سالوں اساتذہ اور مربیوں نے صرف کیے تھے۔“ (امریکی دانشور ارڈیان آرکنڈ دی نیویار کر 31/11/1937)
میڈیا پر مسلمانوں کی منفی شکل:
ہالی ووڈ فلمی صنعت جو مکمل یہودیوں کے قبضے میں ہے، یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فلمیں بنا کر اسلامی معاشرت ،ثقافت، روایات اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات کو نشانہ بنایا ہے۔ مسلمانوں کو ڈاکو ،چور ،دہشت گرد، شہوت پرست اور دولت کا پجاری بنا کر پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی واقعات کے تناظر میں لکھی جانے والی کہانیوں پر بننے والی وہ فلمیں جن میں انبیائے کرام اور دیگر مشاہیرِ اسلام کے کرداروں کو دانستہ طور پر مسخ کرنا اور ان کی توہین کی ناقابلِ معافی جسارت کا شرمناک ارتکاب ، ایسی قابلِ مذمت اور دل آزار فلموں کی اگر تفصیلی فہرست یا رپورٹ مرتب کی جائے تو اس کے لئے سینکڑوں صفحات درکار ہیں۔ ( بشکریہ ::ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل،۲۷مارچ تا۲مئی۲۰۰۹ء)  

=====================================
صحافت اور اس کے شرعی حدود:

میڈیا کسی قوم کے ذہن کی تعمیر و تخریب میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اور آج کل زندگی کا لازمی جزو بننے والے روزانہ اخبارات سے پڑھے لکھے گھرانہ تو کیا ان پڑھ لوگ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہورہیں ہیں، ان حالت میں اخبارات کے اربابِ ادارت و اصحابِ انتظام پر پوری قوم کی زبردست ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس شعبہِ زندگی کو محض ایک تجارتی پیشہ اور ذریعہ معاش یا خواص وعوام کی داد  تحسین حاصل کرنے کے ذاتی مفاد کی بجاۓ قوم کی ذہنی قیادت و رہنمائی کے اجتمائی خدمت و فوائد کو مقصد بناتے اس مقدس پیشہ کو ناپاک نہ کرتے اس منصب کی نازک ذمہ داری کو پورا کریں. پچھلے 30 برسوں سے ہمارے ملک کی صحافت نے نئی نسل کے مزاج کو بگاڑتے اسے اپنے لٹریچر اور نیم عریاں تصاویر سے علم کے نام پر بےحیائی و بداخلاقی، آزادی کے نام پر آداب و حدود کی خلاف ورزی اور تہذیب کے نام پر نفسانی خواہشات کا غلام بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی. آج کے اخبارات اپنا ظاہری ڈھانچہ اور ضابطہ اخلاق مرتب کرتے وقت کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ قوم پر اور خصوصا ناپختہ ذہنوں پر اس کے کیا اثرات مرتب  ہونگے. بحیثیت مسلمان، کامل علم والے ہمارے رب نے اپنی تعلیمات سے جو ہمیں رہنمائی دی ہے، اسے جانکر اپنی اور ملک و قوم کی اصلاح کرنے کیلئے ان جذبات کو اپنے تک محدود رکھنے یا صرف علماء و دینی اداروں کے حوالہ کرنے کی بجاۓ صحافت کے اربابِ حل و عقد تک پہنچائیے.
آزادی صحافت ...
گلزار ہے بظاھر پر باطناً یقیناً، پرخار و پرخطر ہے یہ وادی صحافت؛
اسلامی اخلاقیات کی باڑ ہے ضروری، پابند ضابطہ ہو آزادی صحافت.

القرآن : اور سمجھاتا رہ کہ سمجھانا کام آتا ہے ایمان والوں کو.[الذاریات : ٥٥]

ذرائع ابلاغ کا آزادانہ کردار اور اسلام


          ذریعہٴ ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو یا ریڈیو، ٹیلی ویژن ہویا انٹرنیٹ اس کی اہمیت اور اس کی اثر انگیزی ہردور میں مسلم رہی ہے۔ انسانی معاشرے کی بقا اور تعمیر وترقی کے لیے اِبلاغ و ترسیل اتنا ہی ضروری ہے، جتناکہ غذا اور پناہ گاہ۔انسانی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے توترسیل دو طرفہ سماجی عمل ہے اور اس دور میں بھی جب منہ سے نکلی ہوئی آواز نے الفاظ اور منقش تحریر کاجامہ زیب تن نہیں کیا تھا اور انسان اشارے کنایے،حرکات وسکنات اور لمس و شعور کی مددسے اپنی ترسیل و ابلاغ کی ضروت کی تکمیل کیا کرتاتھا، ابلاغ اور ترسیل کے وسائل انسانی معاشرے میں اہمیت کے حامل تھے، اور آج کے برق رفتار عہدمیں تو اس کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ ولبر شرم نے صحیح کہا ہے:”عوامی ذرائع ترسیل دنیا کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔“ یہی وجہ ہے کہ ترسیلی شعبے کے بعض ماہرین نے کسی مہذب انسانی معاشرے کی تعمیر وترقی میں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ ذرائع ترسیل وابلاغ کو چوتھے ستون کی حیثیت دی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کے ساتھ انسانی معاشرے کی ترقی مربوط ہے۔ اگر یہ ذارئع ترسیل نہ ہوتے، تو انسانی معاشرہ تہذیب وثقافت کے شائستہ تصور سے محروم رہتا اورجہالت و ناخواندگی کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا۔
          انسانی زندگی میں ابلاغ و ترسیل کو شہِ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے خیالات و جذبات اور فکار و نظریات کے اظہار کے لیے اگر اس کو موقع نہ ملے تو وہ ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوکر مضطرب اور بے چین ہوجاتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف تمام ممالک کے دستور میں ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی اور فطری حق کی ضمانت دی گئی ہے؛ بلکہ اس حق کو سلب کرنے والے عوامل ومحرکات پر بھی قدعن لگانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ آج انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں آنے والے انقلابات نے دنیا کو چھوٹے سے گاوٴں میں تبدیل کر دیا ہے۔ آج آپ کے لیے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر جام جمشید کی طرح دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا مشاہدہ کر نا اور اس پر بر جستہ اپنی رائے دینا اوراس کو وسیع پیمانے پر پھیلانا ممکن ہے۔ انٹرنیٹ جیسے جامِ جہاں نما کے وجود میں آنے کے بعد تو ساری کائنات ایک چھوٹے سے بکس میں قید ہوگئی ہے اور آپ جب اور جس وقت چاہیں اس کے ذریعے کائنات کے طول و عرض کی سیر کرسکتے ہیں۔ آج ذرائع ابلاغ کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا ہے۔ ای میل، ٹویٹر، اسکائپ اور فیس بک کی وساطت سے اپنے خیالات کی ترسیل ممکن ہے۔اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ وغیرہ ذرائع ابلاع کے اہم ستون ہیں۔ میں انھیں عوامی ذرائع ابلاغ کے ارد گرد اپنی گفتگو مرکوز رکھوں گا۔
ابلاغ کے غیراسلامی تصورات
          ذرائع ابلاغ کو آزادچھوڑدینے یا اس کو قانون وضابطے کا پابند بنانے کے تعلق سے، ماضی میں بہت سے نظریات وتصورات رائج تھے۔ انھی میں سے ایک مقتدرانہ نظریہ ابلاغ ہے،اس کے بانیوں میں مشہور فلسفی افلاطون کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔ذرائع ابلاغ کو پابندِ سلاسل کرنے اور حکومت و ریاست کو مکمل با اختیار بنانے کے حوالے سے افلاطون کا یہ قول بڑا مشہور ہے کہ:”اگر ریاست میں اختیارات کو بہت سے افراد میں تقسیم کردیا جائے توریاست کا زوال شروع ہوجاتا ہے؛ اس لیے حاکم کو چاہیے کہ ریاست کے انتظام میں عوام کے عمل دخل کو محدود کردے۔“ (تاریخ صحافت ، افتخار کھوکھر، ص: ۱۸۸) اس نظریہٴ ابلاغ کی رو سے تمام اختیارات صرف اور صرف ریاست کو حاصل تھے، حکومتِ وقت ہی سارے سیاہ و سفید کی مالک ہوا کرتی تھی۔اِبلاغ و ترسیل کے تمام ذرائع پر حکومت اور بالا نشیں طبقوں کا مکمل کنٹرول تھا۔ اخبارات اور صحافی کے پیروں میں حکومت اور مقتدر طبقے نے پابندیوں کی زنجیر ڈالی ہوئی تھی، وہ کوئی ایسا مواد مشتہر نہیں کرسکتے تھے، جس میں حکومت اور فرماں روائے وقت یا حکومتی اہل کاروں کی پالیسیوں پر جرح و تنقید کی گئی ہو۔ پریس کو حکومت کی پالیسیوں میں مداخلت سے باز رکھنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ حکومت کی پالیسیوں اور منصوبوں کو رو بہ عمل لانے میں کسی عوامی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور عوام حکومت کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کی تکمیل میں خاموش رہیں۔گویا اس نظریہٴ ابلاغ نے انسانوں کو فکر و نظر اور اظہار رائے کی آزادی سے کلیتاً محروم کر دیا تھا۔ یہ نظریہ پندرہویں اور سولہویں صدی تک جاری رہا۔آج بھی بہت سے عربی اور غیر عربی ممالک میں یہ نظریہ دوسرے ناموں سے نافذ العمل ہے جس کے تحت حکومت کی مرضی اور منشاء کے خلاف کسی کو بھی حرفِ شکایت زبان پر لانے کی اجازت نہیں۔ لیکن؛ جب اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی حکومتوں کے نمائندوں نے ساری حدیں توڑ دیں اور پانی سر سے اونچا ہو گیا تو عرب کے جوشیلے جوانوں نے فطری آزادی کی لیلائے آرزو کو حاصل کرنے کے لیے حالیہ سالوں میں وہ جدو جہد کی ہے، جس سے عرب کی ماضی کی تاریخ ناآشنا ہے۔ مصراور لیبیا کے انقلابات نے اس سچائی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ انسانی آزادی کو سلب کرنے والی طاقتوں کے لیے اس روئے ارضی پر کوئی جگہ نہیں ہے۔
          قید و بند سے عبارت اس نظریے کے ردِ عمل کے طور پر ایک دوسرے نظریہ نے جنم لیا، جو مادر پدر آزادی کا حامی تھا۔ یہ نظریہ آزادی پسندانہ نظریہ ابلاغ کے طور پر تاریخ میں جانا گیا؛چوں کہ اس عہد میں سائنسی دریافتوں نے انسان کو عقلیت کا سبق سکھایا تھا اوروہ ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی اس کو اپنی زندگی میں رو بہ عمل لاتاتھا؛ اس لیے انھوں نے ما قبل کے نظام حکومت میں عائدقید و بند سے آزادی کے لیے ایک ایسے نظریے کا سہارا لیا، جس میں فرد کو ساری آزادی میسر تھی۔آزادی پسندانہ نظریہ ابلاغ کو امریکی حکمرانوں نے خوب شہہ دی اور سب سے پہلے امریکی دستور میں یہ ترمیم کی گئی کہ کانگریس کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی، جس سے تحریرو تقریراور ذرائع ابلاغ کی آزادی پر حرف آتا ہو۔ کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے حکمراں طبقوں نے اس نظریہ کو اپنے ملکوں میں خوب پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ مقتدرانہ نظریہ ابلاع میں تمام اختیارات ریاست اور حکمراں طبقے کو حاصل تھے، اس کے بر عکس آزادی پسندانہ نظریہ ابلاغ میں ہر فرد کو یہ آزادی دی گئی تھی کہ وہ جو چاہے، جس طرح چاہے اور جس کے خلاف چاہے تقریر اور تحریر کے سہارے اس کا اظہار کر سکتا ہے۔مملکت یا حاکم وقت کو اس کے دست وبازو کو پکڑنے اوراس کو مہربہ لب کرنے کا حق نہ ہوگا۔
          کمیونسٹ نظریہٴ ابلاغ بھی اشتراکیت کے عروج کے دنوں میں کافی موضوعِ بحث رہا۔ کمیونسٹ نظریہٴ ابلاغ میں اظہاررائے اور فکر و نظر کی آزادی کو حکومت کی پالیسیوں کی تشہیر تک محدود کردیا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ اس بات کے پابند تھے کہ وہ عوام میں جاکر انھیں حکومت اور پارٹی کی پالیسیوں سے آگاہ کرائیں اور مملکت کے بنیادی نظریے یعنی کمیونزم کی تشہیر کریں اور اس نظریے کو اپنانے کے لیے عوام کی ذہن سازی کریں۔ مطلب یہ کہ کمیونسٹ نظریہٴ ابلاغ بھی کسی نہ کسی شکل میں مقتدرانہ نظریہٴ ابلاع کا ہی چربہ تھا۔ اس میں بھی عوام مجبور و مقہور اور مہر بہ لب تھے۔ یہ سارے نظریات افراط و تفریط کا شکار تھے، کسی مہذب سماج اور انسانی معاشرے میں نہ تو کسی فرد کو مکمل اظہار کی آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ شُترِ بے مہار بن جائے اور آزادی اظہار کے پردے میں دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنے۔ اور نہ ہی انسانوں کی فکر و نظر کی آزادی کوبے جاقانون و اصول کا سہارا لے کر اس طرح قید و بند کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے فطری اور پیدائشی حق کے لیے بھی آواز بلند نہ کرسکیں۔(تلخیص از:تاریخِ صحافت، ص:۱۸۷ تا۲۰۰)
ذرائع ابلاغ کا اسلامی تصور
          پریس اور میڈیا ہمارے ترقی یافتہ دور کی ایجاد کردہ اصطلاحیں ہیں۔پہلے اس قسم کی اصطلاحات سے انسانوں کے کان مانوس نہیں تھے؛ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام جو حیات سے لے کر ممات اور فرد کی خانگی زندگی سے لے کر معاشرتی اور سیاسی زندگی کے تمام مسائل کو محیط ہے، اس میں ذرائع ابلاغ یا پریس کے حوالے سے قرآن و حدیث میں احکامات اور ہدایات نہ دی گئی ہوں۔اسلام تو ایک مکمل نظامِ حیات کا نام ہے۔اسلام زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی رہ نمائی کے لیے قانون وضع کرتا ہے۔پریس یا میڈیا فکر و نظر کی آزادی کا ہی نام ہے، جس میں صحافی اور رپورٹر سامعین اور قارئین کو اپنی فکر و نظر سے کام لے کر ایسا سچا اور با مقصد مواد دیتا ہے، جس کو وہ صحیح اور معتبر تصور کرتا ہے۔ فکر و عمل کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کا باب پریس اور میڈیا کی آزادی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ ایک مثالی اسلامی ریاست میں عقیدے اور مذہب کی آزادی کے ساتھ فکر و نظر کی بھی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔
          اسلام چوں کہ رہتی دنیا تک لیے ایک جامع دین بن کر آیا ہے؛ اس لیے اس میں میڈیا اور پریس کے حوالے سے بھی ضابطہ اور قانون موجود ہے،اسلام میں میڈیا کی کتنی اہمیت ہے اور ان ذرائع ابلاغ کو انسانی زندگی میں کتنا بڑا اور اہم مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہمیں ان آیتوں کا مطالعہ اور ان کے مفاہیم میں غور کرنا چاہیے جن سے اسلام کے داعیانہ پہلو پر روشنی پرتی ہے۔ اُدْعُ الیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ،(نحل:۱۲۵) وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّةٌ یَدْعُوْنَ الیٰ الْخَیْرِ (آل عمران، ۱۰۴)کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(آل عمران، ۱۱۰) وَذَکِّرْ فَاَّ الذِّکْریٰ تَنْفَعُ المُوٴمِنِیْنَ، (ذریات، ۵۵) بَلِّغُوْ عَنّی وَلَوْ آیةً اور نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَئًا سَمِعَ مَقَالَتِيْ الخ وغیرہ میں اسلام کے جس آفاقی پیغام کے ابلاغ وترسیل کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے، کیا اس کی وسیع اور عالمی پیمانے پردعوت اور اشاعت، سائنس و ٹکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے سہارے کے بغیر ممکن ہے۔
          اسلامی نظریہٴ ابلاغ کسی انسانی فکر کا زائیدہ یا محض عقلی بنیادوں پر انسانوں کا تیار کردہ نہیں ہے ،وہ قرآ ن وحدیث سے ماخوذ و مستنبط ہے۔ انسان کی فطری آزادی سے لے کر ذرائعِ ابلاغ کی آزادی تک کا سارا نظام عمل انہی اسلامی احکامات و ہدایات پر مبنی ہے۔اسلامی نظریہٴ ابلاغ میں جہاں ذرائع ابلاغ کو اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے، وہاں اس کو بہت سی اخلاقی شرائط اورسماجی و معاشرتی قوانین کا پابند بھی بنایا گیا ہے؛تا کہ دیگراسلامی نظریہ کی طرح یہاں بھی توازن و اعتدال برقرار رہے۔اسلامی نظریہٴ ابلاغ میں نہ مقتدرانہ نظریہٴ ابلاغ کی طرح انسانوں کی آزادی کو مکمل طور پر سلب کیا گیا ہے اور نہ ہی آزای پسندانہ نظریہٴ ابلاغ کی طرح ایسی مادر پدر آزادی دی گئی ہے کہ فرد کی آزادی کے پردے میں دوسرے انسانوں کی آزادی پر انگشت نمائی کی جائے اور ان کی پرائیویٹ اور نجی زندگی میں بھی مداخلت کی جائے۔ اگر اظہار کی آزادی کی آڑ میں ذرائع ابلاغ کے اس سر کش گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا جائے، تو یہ ایمانیات کے ساتھ انسانوں کی اخلاقیات کو بھی پیروں تلے روند کر دکھ دے گا۔
          اسلام میں اظہار کی آزادی محض ایک انسانی حق ہی نہیں؛ بلکہ یہ امتِ مسلمہ اور ذرائعِ ابلاغ کا ایک دینی اور اخلاقی فرض بھی ہے؛ اس لیے نہ کوئی فرد، نہ کوئی حکومت اور نہ ہی کوئی ادارہ انسانوں سے ان کی فطری آزادی کو سلب کرسکتا ہے، اور نہ اس کو چیلنج کرسکتا ہے؛ البتہ اتنی شرط ضرور عائد کی جائے گی کہ کوئی بھی ذریعہٴ ابلاغ کوئی ایسی خبر یا بات کی تشہیر نہ کرے، جس سے مفادِ عامہ کو زد پہنچے۔ جو اسلامی اقدار کے منافی ہو اور جس میں انسانیت اور انسانی سماج کی تعمیرکے بجائے تخریب کے عوامل پنہاں ہوں۔ اسلام میں ذرائع ابلاع کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے عوام الناس تک سچی اور صحیح خبر پہنچائی جائے۔ ذرائع ابلاغ سچ کے اظہار میں کسی لالچ یا مداہنت کا شکار نہ ہوں۔ ذرائعِ ابلاغ صرف ایسی معلومات کی اشاعت کریں، جن سے سامعین اور قارئین کے اندر نیکی اور تقویٰ کا عنصر پیدا ہو۔ وہ کسی ایسی خبر کی اشاعت سے باز رہیں، جس کا مقصد ان کی اخلاقیات پر حملہ کرنا ہو اور اس سے دوسروں کی دل آزاری یا دوسرے ادیان و ملل کی تحقیر ہو۔
ذرائع ابلاغ کے اساسی اصول واقدار
 فکر ونظر کی آزادی:
          اسلام نے فکر و نظر کی آزادی کے ساتھ ہمیشہ آزادیِ رائے کا احترام کیا ہے اور ہر کس و ناکس کو اپنی بات رکھنے کا فطری حق دیا ہے۔ عہدِ نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر، عہدِ بنی امیہ اور بنی عباسیہ تک کی پوری اسلامی تاریخ اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے کس درجہ شدت کے ساتھ حریتِ رائے کے تصور کی پرورش کی ہے اور اس کو انسانی معاشرے کا لازمی جز بنانے کی سعی کی ہے۔اسلام نے صرف آزاد مردو خواتین ہی نہیں؛ بلکہ غلاموں کو بھی اس حق سے محروم نہیں رکھا ہے۔ ذرا غزوہٴ احد کا وہ واقعہ اپنے ذہنوں میں تازہ کیجیے جب جلیل القدر صحابہٴ کرام کی یہ رائے تھی کہ کفارِ مکہ سے جنگ کے لیے مدینے سے باہرنکلنا مناسب نہیں ہے اور یہیں رہ کر جنگ کی جائے؛ لیکن معقول اسباب کی بنیاد پرچند نوجوانوں کی یہ رائے تھی کہ جنگ کے لیے مدینے کی آبادی سے باہر نکلنا زیادہ مناسب ہے۔اسی طرح غزوہٴ خندق کے موقع پر مدینے سے باہر خندق کھودنے کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی عمل نہیں تھا، بلکہ صحابہٴ کرام اور حضرت سلمان فارسی کے باہمی مشورے سے خندق کھودی تھی۔ حضرت ابو بکر اور حصرت عمر جنگی قیدیوں کے قتل اور انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے بارے میں مختلف الرائے تھے۔اسلام میں فکر و نظر کی آزادی کی ہی دین ہے کہ ایک عام آدمی بھی اپنے خلیفہ کا دست و بازو پکر سکتا ہے۔اور جب ایک قبطی نے حضرت عمر بن عاص اور ان کے بیٹے کی شکایت دربارِ عمری میں پیش کی تھی تو حصرت عمر نے نہ صرف یہ کہ اس غلام کو فوری انصاف دلایا تھا؛ بلکہ انھیں سخت ڈانٹ بھی لگائی تھی۔ اور اس وقت کے حضرت عمر کے ارشادت پر مبنی یہ مفہوم تو ہر کسی کے ذہنوں میں ہوگا کہ ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہونے والے بچے کو کسی کو غلام بنانے کا حق نہیں۔حضرت عمر کے الفاظ تھے: مَتیٰ اسْتَعْبَدْتُمْ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْہُمْ أمَّہَاتُہُمْ أحَرَارًا۔اسی قسم کا واقعہ خلیفہٴ رابع حضرت علی سے بھی منقول ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا:”أیُّہَا النَّاسُ أنَّ آدمَ لَمْ یَلِدْ عَبْدًا وَلاَ أمَةً وَ أنَّ النَّاسَ کُلُّہُمْ أحْرَارًا“ لوگو!آدم کی کوکھ سے غلام یا باندی نے جنم نہیں لیا، سبھی لوگ آزاد ہیں۔ (نہج السعادة، ج:۱)
           اسلام میں قیاس کو چوتھا فقہی اصول قرار دیا گیاہے، فقہاء اور ائمہ کے درمیان مسائل میں اختلافِ اظہار رائے کی آزادی کی ایسی مثال ہے، جس سے دوسرے مذاہب و ادیان تہی دست ہیں۔ فقہ میں جہاں چار بڑے مسالک کے ماننے والے ، دنیا کے مختلف گوشوں میں کہیں کم تو کہیں زیادہ موجود ہیں، وہیں فقہِ اوزاعی، فقہِ داوٴد ظاہری اور فقہِ جعفری و غیرہ بھی روئے زمین پر موجود ہیں، جن کی تقلید کرنے والوں کو نہ توکم تر سمجھاجاتا ہے اور نہ ہی اقلیت اور اکثریت کی مذموم بنیاد پر ان سے تعرض کیاجاتا ہے۔ فقہ میں تو ہُمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَاٌل کا اصول چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی استاد کے مختلف شاگردوں نے دلائل کی بنیاد پر اپنے استاد کے نظریے سے اختلاف کیا ہے؛ بلکہ حدیث کے مطابق کسی غیر منصوص مسئلے میں غور و فکر کرنے والے ہر مجتہدکو اجر سے نوازا جاتا ہے، اگر چہ اس کا اجتہاد غلط ہی کیوں نہ ہو۔ معلوم ہواکہ اسلام آزادیِ فکر و نظر کا امین اور نقیب ہے۔ اس میں ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے؛ بشر طیکہ اس کی رائے نصِ صریح سے متصادم نہ ہو۔
          ذیل کی سطروں میں ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر ہم یہاں ان چندآزادیوں سے بحث کر رہے ہیں، جو اسلام نے فکر و نظر اور اظہار رائے کی آزادی کے تحت ذرائعِ ابلاغ کو عنایت کی ہیں۔
حکومتِ وقت سے سوال اور باز پرس کرنے کا حق:
          اسلامی نظریہٴ ابلاغ کے مطابق صحافی اور اخبار نویس کو ملک کی سب سے بڑی اتھارٹی سے بھی سوال کرنے کا حق ہے۔ ایک صحابی نے حصرت عمر سے بھری مجلس میں یہ سوال کیا تھا کہ ہر صحابی کو تو مال غنیمت سے ایک چادر ملی ہے، آپ کے بدن پر یہ دو چادر کیسی ہے؟ تو حضرت عمر نے خلیفہ ہونے کے باوجود اس پر ناگواری کا اظہار نہیں کیا تھا اور انتہائی سنجیدگی سے یہ جواب دیا تھا کہ ایک چادر تو میرے حصے کی ہے اور دوسری چادر میرے بیٹے کے حصے کی ہے۔ اس سے بڑی آزادی کیا کسی جُمہوری ملک میں بھی کسی فرد یا ادارے کو میسر ہے۔ یہ صرف اسلام کا امتیاز ہے اور بس۔اسلام نے ہمیشہ شورائی نظامِ فکر و عمل کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی ہے ، جُمہوری نظام میں جہاں ریاست اور ملک کے ہر کس و ناکس کو حکمرانوں کے انتخاب کا قانونی حق حاصل ہوتا ہے، وہیں شورائی نظام میں یہ تعداد کم ہوجاتی ہے۔ شورائی نظام میں ہر فرد کی شرکت ضروری نہیں، بلکہ صرف اہل الرائے لوگ انتخاب کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ شورائی نظام کے مفقود ہونے کی وجہ سے ہی بہت سے عرب ممالک میں فکر و نظر کی آزادی حاصل نہیں ہے۔ عوام حکومتِ وقت کے خلاف لب کشائی کی جرأت کرنے سے محروم ہیں۔ فکر و نظر کی آزادی کو سلب کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بہت سے ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دوسرے ممالک کے دست نگر اور محتاج بنے ہوئے ہیں اور وہاں کی فکری اور تخلیقی صلاحیتیں دوسرے ملکوں کے کام آرہی ہیں۔ ان ممالک میں کسی ایسی چیز کی اشاعت کا حق فرد کو حاصل نہیں ہے، جس سے حکومت کی پیشانی پر بل آتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور اپنے افکار و نظریات سے عوام کو روشناس کرانے کے لیے امریکہ اور یورپ کے ممالک کا رخ کرتے ہیں، جہاں ان کے خیالات و نظریات کا فراخ دلی سے استقبال کیا جاتا ہے۔علمی تحقیق اور فکری پرورش کے لیے آزادیِ اظہار کی سہولت ناگزیر ہے۔ ہم چند صدیاں پہلے اگر دنیا کے نقشے پر چھائے ہوئے تھے اور نئی نئی تحقیقات سے دنیا کو روشناس کرارہے تھے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہمارے یہاں اختلاف اور اظہار مافی الضمیر کی آزادی ہر کس وناکس کو میسر تھی۔
ظلم اور نا انصافی کے خلاف احتجاج کی آزادی:
          اسلام نے فرد کے ساتھ ادارے اور ذرائعِ ابلاغ کو جتنی آزادیاں دی ہیں، ان میں ایک اہم حق احتجاج کا حق بھی ہے۔ ذرائعِ ابلاغ کو جہاں کہیں بھی ظلم اور نا انصافی ملے، اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے اور مظلوموں کی حمایت میں انسانی غیرت اور حمیت کا ثبوت دینا چا ہیے۔ قرآن کریم کی آیت ہے : لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوءِ الاَّ مَنْ ظُلِمْ(نساء، ۴۸)۔حدیث شریف ہے۔ مَنْ رَایٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بَیَدِہ، فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ، فَبِلِسَانِہ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہ وَذَلِکَ أضْعَفُ الْایْمَانِ ۔اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے: أفْضَلُ الْجِہَادِ کَلِمَةُ حقٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ۔(ترمذی کتاب الفتن، حدین نمبر: ۲۱۷۴)
مناظرے اور باہمی تنقید کی آزادی:
          آج کل کے اخبارات اور نیوز چینلز کا یہ خاص وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ چند ماہرین کو بلا کر کسی خاص موضوع پرمباحثے اور مناظرے کراتے ہیں، اس مباحثے میں موضوعات کی تحدید نہیں ہوتی، اس کا موضوع سیاسی بھی ہوتا ہے اور سماجی بھی، مذہبی بھی ہوتا ہے اور تعلیمی بھی۔ اس قسم کے مباحثوں میں ایک فریق دوسرے فریقِ مخالف کو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے فریقِ مخالف پر جرح و تنقید سے بھی کام لیتا ہے۔ اسلام نے اس قسم کے مباحثے اور مکالمے کی آزادی دی ہے، بشرطیکہ اس میں کسی قسم کے خلافِ شرع امر کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ اور تنقید و جرح تعمیری ہو، تخریبی نہ ہو۔بات وزن دار ہو، دلائل سے مزین ہو، اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ وَلاَ تُجَادِلُوْا أہْلَ الْکِتَابِ الاَّ بِالَّتِيْ ہِيَ أحْسَنُ(عنکبوت:۴۶)آیت میں اگر چہ خطاب یہود سے ہے؛ لیکن اس کے عموم پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے۔
شہادت کی آزادی:
          ذرائع ابلاغ کی وساطت سے منظرِ عام پر آنے والی خبروں کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ مقامی انتظامیہ سے لے کر ریاستی اور مرکزی حکومت بھی حرکت میں آجاتی ہے اور اس کی بنیاد پر کارروائی کرنے کو تیار ہو جاتی ہے ۔ روزانہ ایسے کتنے معاملات ہماری نظروں سے گزرتے ہیں، جن میں حکومت میڈیا میں شائع ہونے والی خبر وں کی وجہ سے مجرمین کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے اور اگر کسی بے قصور شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور میڈیا والے اس کی بے گناہی پر کوئی خبر یا مضمون چھاپ دیتے ہیں، توحکومت اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کو بری کردے۔ شہادت اور گواہی کی اس اہمیت اور تاثیر کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو کسی کی حمایت یا کسی مجرم کی مخالفت میں گواہی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام نے شہادت کو چھپانے والے کو سخت وعید اور دھمکی دی ہے(بقرہ، ۲۸۳)۔
          اقرباء اور رشتے داروں کے خلاف گواہی دینے کی آزادی بھی ذرائع ابلاغ کو حاصل ہے، جس کا اظہار کرنا صروری ہے۔ چاہے وہ اس کے اقربا اور رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ شرعیت اسلامیہ کا حدود و تعزیر پر مبنی نظامِ عدل و انصاف کی روشنی کاایک مینارہ ہے، جس میں اشراف و ارذ ال، بادشاہ و رعایا اور امیر و غریب سب برابر ہیں۔ اس نظام میں ہر حق دار ، خواہ وہ ظالم ہو یامظلوم، کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس نظام میں نہ کسی پر ظلم و زیادتی ہوگی، نہ استحقاق سے زیادہ اس کو سزا دی جائے گی۔ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ وہ کسی مفسدے سے عوام کو باخبر کرنے اور کسی جرم اور بد عنوانی کا پردہ فاش کرنے میں مداہنت اور مصالحت سے کام نہ لیں؛کیوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: اے ایمان والو! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمھارے اپنے خلاف پڑتی ہو، یاوالدین اور قریبی رشتے داروں کے خلاف۔وہ شخص(جس کے خلاف گواہی دینے کا حکم دیا جارہا ہے) چاہے امیر ہو یا غریب، اللہ دونوں قسم کے لوگوں کا (تم سے)زیادہ خیر خواہ ہے، لہذا ایسی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلنا جو تمھیں انصاف کرنے سے روکتی ہو(نساء:۱۳۵)
جرائم کا پردہ فاش کرنے کی آزادی:
          اسٹنگ آپریشن میڈیا والوں کا آج کا محبوب مشغلہ ہے۔ کسی کی شبیہ مسخ کرنا ہو تو وہ اسٹنگ آپریشن کا سہارا لیتے ہیں۔ اسلام نے کسی کی نجی زندگی میں تو مداخلت سے منع کیا ہے؛ لیکن اگر کسی شخص کے حرکت و عمل سے مفادِ عامہ پر ضرب پڑتی ہو تو ایسے جرم کا پردہ فاش کیا جاسکتا ہے۔ بنگارو لکشمن کی رِشوت سِتانی کا معاملہ ہو یا پارلیمنٹ میں ووٹ فار کیش کا معاملہ یا نیرا راڈیا والا کیس؛ ان سارے مقامات پر میڈیا کے جرأت مند رپورٹرس نے ان کے چہرے سے نقاب اتار کر ملک اور قوم کی عظیم خدمت انجام دی ہے۔ قرآن کریم میں کسی کی ٹوہ میں لگنے سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن اگر کسی مشتبہ شخص کے بارے میں معتبر ذرائع سے معلوم ہوجائے کہ وہ کوئی خطرناک کام کرنے جارہا ہے، تو اس کے جرم کو طشت ازبام کرنا صروری ہوجاتا ہے۔ گھروں میں جاسوسی کے آلات نصب کرنے، کسی شخص کے ٹیلی فون کال ٹیپ کرنے وغیرہ اس قسم کی جتنی صورتیں ہوسکتی ہیں، ان پر اسی حکم کا اطلاق ہوگا۔
          اگر آثار وقرائن سے کسی ممنوع اور مخالف شریعت امر کا علم ہوجائے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک# یہ کہ اس کی تلافی بالکل ممکن نہ ہو۔ جیسے یہ کہ کوئی اجنبی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں ہے، یا کوئی شخص کسی آدمی کے قتل کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ تو ایسی صورت میں ایک صحافی اور رپورٹر تحقیق اور تجسس کرسکتا ہے۔ دوسری# صورت یہ ہے کہ یہ جرم اس سے کمتر درجے کا ہو۔ اور اس کا جرم متعدی نہ ہو۔
حمایت و مخالفت کا اسلامی اصول: ِ
          ذرائع ابلاغ پروپیگنڈہ اور تشہیر کا مضبوط وسیلہ ہیں۔ عوام ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹ اور تجزیوں کی بنیاد پر بہت سے فیصلے کر لیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ عوام کی ذہن سازی میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔حمایت و مخالفت کی مختلف شکلیں اس وقت دیکھنے کو ملتی ہیں، جب ملک میں اسمبلی یا لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں۔ اس وقت اشتہارات مضامین اور خبروں اور تبصروں کی وساطت سے اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت اور فریقِ ثانی کی مخالفت کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے حمایت ومخالفت کا بھی اصول متعین کردیا ہے۔ کسی سے محبت بھی ہو تو اللہ کے لیے اور کسی سے بغض و عداوت بھی ہو تو اللہ کے لیے۔ حمایت و مخالفت کو سفارش کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ کسی کی سفارش اسی بنیاد پر کی جائے کہ وہ شخص واقعی اس عہدے یا مرتبے کا مستحق ہو۔
          لیکن ذرائع ابلاغ کو ان امور میں سفارش سے باز رہنا چاہے جن کا تعلق حدودوقصاص سے ہے۔حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ قریشیوں کے ہاں ایک مخزومی عورت کا معاملہ پیش آیا، اس نے چوری کی تھی۔ قریشیوں نے کہا کہ اس کے بارے میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون بات کرے گا۔؟(یعنی ہاتھ نہ کاٹنے کی سفارش کون کرے گا؟)لوگوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی جرأت کون کرے گا؛ البتہ اسامہ بن زید بات کرسکتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے ہیں۔ چناں چہ حضرت اسامہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کررہے ہو؟ پھر کھڑے ہوئے اور خطبہ دے کر فرمایا: تم سے پہلے کی امتیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ ان لوگوں میں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو وہ اس چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی ان میں کا کمزور چوری کرتا تو وہ ا س پر حد قائم کرتے تھے۔ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی، تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔(بخاری، کتاب الحدود، حدیث نمبر:۶۷۸۹)
          فریقِ مخالف کے لیے کوئی ایسانازیبا لفظ استعمال نہ کیا جائے کہ وہ اس کے جواب اور ردِ عمل کے طور پر ایسا جواب دے، جس سے آپ کی توہین یا تضحیک ہوتی ہو۔ قرآن کریم میں ہے: وَلاَ تَسُبُّو الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عَدُوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ(انعام، ۱۰۹)
با اثر افراد کے خلاف اظہارِ رائے کی آزادی:
          آج کے جتنے ذرائع ابلاغ ہیں، ان پر چند با اثر افراد یا سیاست دانوں کا کنٹرول ہے۔ آج کل کے اخبارات کارپوریٹ گھرانے نکالتے ہیں، نیوز چینلز پر بھی انھی کا مالکانہ کنٹرول ہے۔ جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے سمجھوتہ کرکے ان کی تشہیر اور حمایت میں فضا سازگار کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ااور مشہور صحافی سنتوش بھارتی کی مانیں، توآج کا میڈیا بکا ہوا ہے۔ اس نے اپنی بولی لگادی ہے۔آج کا میڈیا صرف اسی خبر کو مشتہر کرتا ہے، جس سے اس کے مخالف کی شبیہ شکنی اوراس کی شبیہ سازی ہوتی ہو۔ موجودہ عہد کے صحافی اور رپورٹر ان مشتبہ خبروں کو منظرِ عام پر لانے سے گھبراتے ہیں، جو با اثر افراد سے تعلق رکھتی ہیں؛ جب کہ اسلامی نقطئہ نظر یہ ہے کہ اس قسم کی خبروں کی اشاعت جس سے مفادِ عامہ و ابستہ ہواور اس سے کسی پر ذاتی تنقید اور کیچڑ اچھالنا مقصود نہ ہو، کو کسی ملامت اور خوف کی پروا کیے بغیر مشتہر کیا جائے۔ وہ اس خبر کی اشاعت میں اس شخص، ادارے، تنظیم، حکومت کے اثرو رسوخ، جنگی ساز و سامان، طاقت و قوت اور فوجی طاقت کو خاطر میں نہ لائے۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ألاَ لاَ یَمْنَعَنَّ رَجُلاً ہَیْبَةُ النَّاسِ أنْ یَقُوْلَ بِحَقٍ اذَا عَلِمَہ:خبر دار!جو تم کسی شخص کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حق کے اظہار میں تردد سے کام لو۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر)
با مقصد تفریح کی آزادی:
          اسلام نے حیا سوز اور انسانی معاشرے پر بُرا اثر مرتب کرنے والے تفریحی پروگرام کی اجازت تو نہیں دی ہے، جیسا کہ آج کل کے تجارتی چینل کا یہ ذہن بن گیا ہے کہ وہ تفریح کے نام پر ہر قسم کے ما ورائے اخلاق پروگرام پیش کرتے رہتے ہیں اور اس کو تفریح اور ذہنی تسکین کا ذریعہ قرار دیتے نہیں تھکتے۔لافٹر انڈیا ، ڈانس انڈیا ڈانس ،بگ باس اور مختلف ریئلٹی شوز پر جس قسم کے بے سروپا پروگرام کے ذریعے ذہنی آسودگی کا دعوی کیاجاتا ہے، وہ ہمارے معاشرے اور بچوں پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔اور معصوم ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں۔ذہنی آسودگی کے لیے اسلام نے تفریحی پروگرام اور مزاحیہ لٹریچر بھی شائع کرنے کی اجازت دی ہے۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام سے مزاح فرمایا ہے۔ جو مزاح نگاری اور فکاہیہ چینلز کے لیے اسوہٴ حسنہ کا درجہ رکھتے ہیں؛ لیکن یہاں بھی وہی شرط ہے کہ یہ تفریح کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنے۔ جیساکہ آج کل کے ریئلٹی شوز کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ تفریح کے نام پر ہمارے ذہنوں میں برائی اور بد اخلاقی کا زہر گھول رہے ہیں۔ راجو شری واستو، سنیل پال اور احسان قریشی جیسے انٹر ٹینر تفریح کے نام پر دوسروں کی پگڑی اچھالنے کا جرم کرتے ہیں اور اس کو تفریح کے نام پر جواز کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ اسلام میں اسی تفریحی پروگرام کی اجازت ہے، جو طنز و تضحیک اور توہین پر منتج نہ ہو۔ اے ایمان والو! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ(جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑارہی ہیں)خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔ (حجرات: ۱۱)
          ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (مسلم: کتاب البر والصلة، حدیث نمبر، ۲۵۶۴)
          مذاق اور تمسخر سے دشمنی سر ابھارتی ہے، اس سے لوگوں میں اختلاف اورتنازع کو ہوا ملتی ہے۔ ٹکراوٴ اور تصادم کی آگ بھڑک اٹھتی ہے؛ اسی لیے علامہ عبد الرحمن سعدی نے لکھا ہے:تمسخر انھی لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے، جن کا دل بُرے اخلاق و آداب کی آماجگاہ اور ساری مذموم خصلتوں کا مرکز ہوتا ہے۔ (تفسیر سعدی، ج:۷، ص:۱۳۵)
          ایسے تمسخر کی ممانعت کے سلسلے میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج واضح اور ٹھوس تھا، جس کا نتیجہ لوگوں کی توہین و تضحیک کی شکل میں بر آمد ہوتا ہو۔ ہم یہاں صرف دو مثالیں بیان کرنا چاہیں گے۔
          پہلی مثال حضرت ابو ذر غفاری کی ہے، وہ روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی سے گالم گلوچ کی اور اس کی ماں کو گالی دے ڈالی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: ابو ذر! کیاتم نے اس کی ماں کو گالی دی، بلا شبہ تم ایسے آدمی ہو، جس میں جاہلیت کی عادت ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، حدیث نمبر:۳۰)
          دوسری مثال حضرت عائشہ کی ہے وہ فرماتی ہیں:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت صفیہ کا فلا ں فلاں عیب یعنی صفیہ کا پست قد ہونا کافی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! تم نے ایسی بات زبان سے نکالی ہے کہ اگروہ دریامیں گھول دی جائے تو وہ دریا پر غالب آجائے۔ حضرت عائشہ  نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی نقل اتاری، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نہیں چاہتا کہ کسی انسان کی نقل اتاروں اگرچہ مجھے اتنا اتنا روپیہ ملے۔(ابو داوٴد، کتاب الادب، حدیث نمبر:۴۸۷۵)
          خلاصہ یہ کہ ذرائع ابلاغ کی مثال چھری کی ہے کہ اس کے ذریعے پھل بھی توڑاجاسکتا ہے اور کسی کی گردن بھی۔ وہ محتسب کا کردار ادا کرکے کسی کی جان اور عزت و آبرو بھی بچا سکتا ہے اور کسی رہزن کا بھیس بدل کر کسی کی جان اور عزت و آبرو سے کھیل بھی سکتا ہے۔ وہ ظلم وستم اور جبر و تشدد کی حمایت اور بے حیائی اور بد اخلاقی کا پرچار بھی کرسکتا ہے اور اصلاح و تبلیغ کے میدان میں مصلح و مبلغ کا رول بھی ادا کرسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ ذرائعِ ابلاغ فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے حسن و قبح اور جواز و عدم جواز کا دار و مدار اس کے استعمال اور نیت ومقصد پر موقوف ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جہاں ذرائع ابلاغ کو اسلامی قانون اور ضوابط کی روشنی میں ملنے والے حقوق دیے جائیں، وہیں ان پر ایک محتسب اور نگراں بھی مقرر کردیا دیاجائے۔ تا کہ میڈیا ہر قسم کی بے راہ روی اور انحراف سے دور رہ کر معاشرے کی تعمیر اور ترقی کے لیے کام کر سکے۔ میڈیا میں در آنے والی برائیوں اور بے راہ روی کی وجہ سے ہی پریس ایسو سی ایشن کو گائڈ لائن جاری کرنی پڑتی ہے۔اور پریس کونسل کے چیئرمین کو میڈیا کے اہل کاروں کو کھری کھوٹی سنانی پرتی ہے؛ اس لیے یہ ضروری ہے کہ میڈیا ہر قدم پر بین الاقوامی ضابطہٴ اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے حقائق کی ایسی ترجمانی کرے کہ اس کے ذریعے ایک صحت مند ،بد عنوانی اور ہر قسم کی برائی سے پاک معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں رہ نمائی مل سکے۔وہ خبروں کو نشر کرتے وقت فلاحِ عامہ اور انسانی عظمت و شرافت کا خیال رکھے۔ تعلیمی معلوماتی اور تفریحی مواد کی اشاعت کے وقت حزم و احتیاط کا دامن تھامے رکھے۔ مملکت اور ریاست کے حقوق اور اس کی عزت و توقیر کے تعلق سے اپنی ذمے داری کا ثبوت دے، جنسی جرائم اور بے حیائی پر مبنی پروگرام کی اشاعت سے اجتناب کرے، تا کہ میڈیا کا صاف ستھرا چہرہ عوام کے سامنے آئے اور اس کی معتبریت پر حرف نہ آئے۔ متنازعہ امور کی رپورٹنگ کرتے وقت اس بات کا خاص طور پر دھیان رکھا جائے کہ اس سے کسی خاص فریق کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ جیسا کہ دہشت گردی سے متعلق واقعات میں عموما ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ ذرائعِ ابلاغ اس واقعے پر ایسے سطحی تبصرے اور تجزیے نشر کرتے ہیں، جن سے ایک مخصوص طبقے کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بو آتی ہے۔
          نیوز چینل اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ نیم عریاں رقاصاوٴں اور فلمی اداکاروں کے ذریعے، ماورائے اخلاق پروگرام نشر کرکے فحاشی اور عریانیت کو فروغ نہیں دیں گے، چاہے ان کا TRP نیچے کیوں نہ آجائے اورانھیں اس کی بھاری سے بھاری قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔اور اخلاقیات کو کبھی بھی اقتصادیات کے تابع نہیں بنائیں گے، انھیں خطوط پر عمل کرکے ذرائع ابلاغ کی آزادی کا صحیح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور اسلامی شریعت کی رو سے ملنے والی صحافتی آزادی کا بھرپور استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اور اسی میں ذرائع ابلاغ کی دائمی عزت و عظمت اور آبرو کا راز مضمر ہے۔
***
          نوٹ: اس مقالے کی تیاری میں قرآن وحدیث کے علاوہ درج ذیل ارود کتابوں سے جزوی مدد لی گئی ہے:
(۱)اسلام کا قانونِ صحافت، ڈاکٹر لیاقت علی خاں نیازی، بک ٹاک، ٹمپل روڈ لاہور، ۱۹۹۵ء
(۲)تاریخِ صحافت، افتخار کھوکھر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوٴس، دہلی، ۲۰۰۹ء
(۳) اسلامی صحافت، عبد السلام زینی، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی، ۱۹۹۰ء
(۴) مغربی میڈیا اور اس کے اثرات، نذرا لحفیظ ندوی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنوٴ، ۲۰۰۱ء
(۵) میڈیا:اردو اور جدید رجحانات، سہیل انجم، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوٴس، دہلی ۲۰۱۰ء۔
***

وکی لیکس آزادیِ اظہار رائے اور

اہانتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم


ملکی اور بین الاقوامی سطح کے دو سنسنی خیز انکشافات نے اس دورِ منافقت کے رئیس المنافقین کی آزادیِ جمہوریت کے بلند بانگ دعووں کی پول کھول دی ہے۔ جولیان اسانج کی وکی لیکس کے ذریعہ لاکھوں انکشافات نے جہاں منافقوں کے سردار کو سرِبازار رسوا کیا ہے، وہیں دنیا بھر کے نام نہاد واظہار رائے کی آزادی کے علمبرداروں اور مسلم دانش فروشوں کو بھی ننگا کردیا ہے، جن کا یہ کہنا ہے کہ اگر دنیا میں نبی آخرالزماں حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کے لیے طرح طرح کی سازشیں اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں تومسلم دنیا کو اس پر ردِّعمل نہیں کرنا چاہیے، انھیں اس طرزِعمل پر درگزر سے کام لے کر علمی انداز میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کوآزادی کا سبق پڑھانے والے بیرونی آقا اور ان کے ڈالروں کے غلام مقامی دانشوران کہتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اتنی کمزور تھوڑی ہے کہ ان کی پگڑی میں بم دکھادینے سے، ان کا کارٹون بار بار بنانے سے اور انھیں بار بار نشر کرنے سے آپ کی ذاتِ گرامی پر حرف آجائے گا؛ مگر یہ منطق اب وکی لیکس کے معاملہ میں مغربی منافقین کے ذریعہ نہیں اپنائی جارہی ہے اور نہ ان کے بے غیرت ایمان فروش مقامی حصہ دار واویلا مچارہے ہیں۔ مغرب نے خود یہ کیا کہ جولین اسانج کے ذریعہ کیے گئے بھانڈا پھوڑ کا حقائق کے ذریعہ مقابلہ کرنے کے بجائے میڈیا کے گلا گھوٹنے اور جولین اسانج اور اس کے معاونین کے خلاف زبردست ہمہ جہت ظلم اور سازشوں کے طریقے اپنانے شروع کردیے ہیں۔ سب سے پہلے اس کے خلاف زنا کا مقدمہ درج کراکے اس کے خلاف انٹرپول کا وارنٹ حاصل کرلیا۔ مغرب میں ایک خاص بات یہ ہے خصوصاً امریکہ میں کہ اگر کوئی مشہورآدمی حق بات کہہ دے یا مسلمان ہوجائے تو فوراً اس کے خلاف کوئی دس پندرہ سال پرانا زنا کا کیس درج ہوجاتا ہے۔ مائیکل جیکسن اور مائیک ٹائیسن کے ساتھ ہی ہوا اور اب اسانج کے ساتھ بھی یہی کیاگیا۔ وکی لیکس سے پہلے ان محترمہ کو چھ سال تک یاد ہی نہیں رہا کہ ان کی آبروریزی ہوئی ہے؟ اب اچانک ایسا یادآیا کہ انٹرپول سے وارنٹ جاری ہوگئے۔ حماس رہنما کے دوبئی کے ہوٹل میں شہید کرنے والے ۱۸/سے زیادہ ملزمین آج تک مغربی ممالک میں انٹرپول کے وارنٹ کے باوجود آزاد ہیں اوراسانج کو مفرور ہونا پڑا۔ وکی لیکس کی سائٹ کو اسی دن ہیک (غیرقانونی طور پر بند) کردیاگیا۔ اس کے معاون کو جیل میں رکھا گیا اور امریکی اہلکار کو زیرسماعت رکھا گیا ہے، جہاں جرم ثابت ہونے پراسے ۵۲/سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس کا مقابلہ شعائرِاسلام کی اہانت کرنے والے ابوغریب اور بگرام ہوائے اڈے امریکی/ مغربی اہل کاروں کے رویہ سے یہ موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کس طرح کے دو پیمانے آزادی اور جمہوریت کے معاملہ میں بھی اپنائے جاتے ہیں۔ امریکی حکومت کی بے عزتی کرنے یا اس کی سیکوریٹی کو نام نہاد خطرہ پیدا کرنے پر ۵۲ سال تک کی سزا اور دنیا بھر کی غیرقانونی سازشیں اور بندشیں اور رسولِ آخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت اور قرآن پاک کی بے حرمتی پر الٹا مسلمانوں کو وعظ ونصیحت اور صبر نما دیوّسی کی تلقین جب کہ ان کا تعلق دنیا کے ۱۲۰ کروڑ مسلمانوں کے جذبات سے ہے۔ اس کے علاوہ وکی لیکس کی معلومات کومیڈیا کے ذریعہ ایسا رخ دیا جاتا ہے جس سے مسلمان ممالک میں آپس میں تعلقات خراب ہوں یا اندرون ملک خانہ جنگی برپا ہو، بھی قابلِ غور کمینہ حرکت ہے جو ہمارا میڈیا بھی کررہا ہے اور بین الاقوامی (صہیونی) میڈیا بھی کررہا ہے۔
          دوسرا بھانڈا پھوڑا ہمارے ملک کے جی ٹو اسپیکٹرم نام کے لائسنس کی نیلامی سے متعلق ہے جس میں سرکاری احتسابی ادارہ کے مطابق سرکار کو ۴۰/ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس غداری کے عمل میں کمران افسران، میڈیا، عدلیہ سبھی ناقابلِ تردید ثبوت کی بنیاد پر ملوث ہیں۔ اس عمل غداری میں ملک کے دو سب سے بڑے تجارتی گھرانوں ٹاٹا اور امبانی کے ساتھ میڈیا کے مغل اپنی نیک نامی کے پرچم گاڑنے والے گھڑیال اور انتہائی اعلیٰ سطح کے آئی․ اے․ ایس․ افسران شامل ہیں۔ ٹاٹا اور امبانی کے دھندوں کو مشورہ دینے والی اور ان کے کاروبار کے لیے حکومت میں کام کرنے والی کمپنی وبشنوی کی مالکہ نیرا رادیا کے فون حکومت ٹیپ کررہی تھی جو کہ چھ ماہ تک ٹیپ کیے گئے تھے۔ ان سے پتہ چلا کہ ان سرمایہ داروں کی سفارش میں بڑے بڑے ڈھونگی اور نام نہاد کھوجی پترکار پربھوچاؤلہ، ویرسنگھوی، شنکرائیرز گنپتی سبرامنیم، سنجے نرائن نے مختلف اوقات میں مختلف کمپنی مالکان، سرکار، اورنیرا رادیا کی کمپنی کے درمیان رابطہ یعنی دلالی کا کام کیا ہے۔ بہرحال بڑے بڑے ڈھونگی پکڑے گئے مگر ہمارے سماج میں ایک اخبار والا کہتا ہے کہ میں نے ہائی کورٹ کے جج کو ۹/کروڑ میں خریدا ہے۔ جب عدلیہ بھی آستھایا مایا کا شکار ہوتو ایسے سماج میں کون کس سے کہاں شکایت کرے؟ یہاں ٹاٹا اور ان کے حامی Privacy رازداری کے آڑ لے کر سپریم کورٹ جارہے ہیں؛ مگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سچ جھوٹ پھیلانے کے لیے میڈیا بالکل بے قید رہتا ہے۔ کیا ہماری کوئی Privacy نہیں ہے؟
***



سازشی نظریات کیسے پروان چڑھتے ہیں؟
ڈیوڈ آر ونووچ
حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگ کچھ ایسے منفرد اور دلچسپ موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں کہ گویا آپ کے دل کی بات کہہ دی ہو! کچھ ایسا ہی موضوع ہے ''ڈیوڈ آرنووچ'' کی اس کتاب کا بھی۔ جس میں سے کچھ حصے کا ترجمہ آپ کے لیے پیش کیاجا رہا ہے۔ اگرچہ اس کتاب میں بعض ایسے نظریات بھی بیان کیے گئے ہیں کہ اقتدار چند ہاتھوں میں کیوں مرتکز ہے؟ دنیا نفرت اور تنازعات سے کیوں بھری ہے؟ سازشی تھیوری، تیار کرنے والے ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں! تاہم ساتھ ہی ایسے واہمے اور سازشیں بھی تخلیق کرتے رہتے ہیں کہ ''اپنے واہموں کا خاتمہ کریں'' آپ سے جھوٹ بولا جا رہا ہے ''جو کچھ آپ جانتے ہیں وہ غلط ہے'' اور یہ سارا کچھ ایک منصوبے کے تحت کیا جاتا ہے۔ آپ اٹھارہ اٹھارہ پونڈ کی ان مہنگی کتابوں میں سے کوئی خرید لیں تو آپ کو ان میں تیل کی صنعت سے لے کر جرائم اور ادھر ادھر کے بے شمار موضوعات پر مختلف افراد کی تحریریں ملیں گی…''
ذیل میں ناسا کی اپالو کے ذریعے چاند پر روانگی، جان ایف کینڈی کا قتل، نائن الیون، ڈیانا کی موت اور یہودی پروٹوکولز سے متعلق سازشی تھیوریوں کے ساتھ ساتھ بے شمار دیگر سازشی تھیوریوں کے بارے میں بھی دلچسپ واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ مزید سازشی تھیوریاں تیار کیسے کی جاتی ہیں۔ اس پر بھی سیر حاصل معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ (مدیر)

میرے یہ کتاب لکھنے میں سارا تصور ایک شخص کیون جاروس کا ہے۔

ہمیں بی بی سی نے ایک فلم بنانے کے لیے تیونس بھیجا تھا جو ان ملکوں کے بارے میں ایک پروگرام میں شامل کی جانی تھی جہاں حکومتیں عوام پر جبر کرتی ہیں۔

لمبا تڑنگا، گٹھے ہوئے سر والا کیون کیمرہ مین پروڈیوسر تھا اور میں نے کمینٹری کرنا تھی ہم نے تشدد کا نشانہ بننے والے اپوزیشن کے ارکان اور ان کے گھروں کی فلم بندی بھی کرنی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ تیونس کی خفیہ پولیس سے چھپ چھپا کر کرناتھا کیونکہ ہم ان کے نعروں میں آجاتے تو ہمیںیقینا پکڑ لیا جاتا اور شاید مار پیٹ کرملک سے نکال دیا جاتا۔

ہم کرائے کی ایک کار میں تیونس سے الجم جارہے تھے کہ باتوں باتوں میں کیون نے کہا ناسا اور امریکی حکومت نے1969ء میں اپالو اور اس کے خلا بازوں کے چاند پر اترنے کاڈرامہ جعل سازی سے تیار کیا تھا۔ یہ بات سن کر مجھے دھچکا سا لگا۔ کیونکہ میں کیون سے عمر میںبڑا تھا اور میںنے چاند پر انسان کے اترنے کامنظر خود ٹیلی وژن پر دیکھا تھا اور انگلینڈ کے1966 ء کے ورلڈ کپ جیتنے کے واقعہ کی طرح یہ میری ذاتی تاریخ کا حصہ تھا جسے میں کھونا نہیں چاہتا تھا۔

کیون کے دلائل کی بنیاد یہ تھی کہ اپالو کی لینڈنگ کی تمام تصاویر جعلی تھیں۔تصویروں میں جو کچھ ہورہا تھا وہ ممکن نہیں تھا اور جو ہونا چاہیے تھا وہ ان میں نہیں تھا مثلاً چاند پر ہوا کے نہ ہونے کے باوجود امریکی پرچم کا پھڑ پھڑاتا ہوا لگنا،ستاروں کانظرنہ آنا اور خلا بازوں کی چال میں لڑکھڑاہٹ، فوٹو گرافی کے ماہرین اور سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد نے برسوں تحقیق کرکے ان اعتراضات کی تائید کی ہے۔ انہوں نے جو نتائج اخذ کیے وہ عملی طور پر نا قابل تردیدہیں اگر یہ تصاویر جعلی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا چاند پر اترنا بھی ایک ڈرامہ تھا۔ میرا فوری ردعمل ایک طرح کی تشکیک تھا۔یہ نہیں کہ میں اس تھیوری کو غلط ثابت کرنے کیلئے دلائل سے مسلح تھا۔ بات اتنی تھی کہ اس نے میرے معقولیت کے احساس کو مجروح کیا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اتنے بڑے پیمانے پر دھوکے میںہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ تو ضرور ملوث ہوں گے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہوں گے جنہوں نے واشنگٹن کے کسی دفتر میں بیٹھ کر منصوبہ بنایا۔ ناسا کے لوگ ہوں گے جنہوں نے اس سے اتفاق کیا۔ خلا باز ہوں گے جن سے کہا گیا ہوگا کہ وہ ساری زندگی اس بارے میں کوئی بات زبان پر نہ لائیں وہ ہمیشہ خوف زدہ رہے ہوں گے کہ اپنے /اپنی انتہائی بے تکلف دوست کو انتہائی بے تکلفی کے لمحات میں کہیں کچھ بتا نہ بیٹھیں۔

پھر سیٹ ڈیزائنر، فوٹو گرافر، پراپس(Props) ڈیپارٹمنٹ والے،سیکورٹی والے خلا بازوں کو سمندر سے نکالنے کا ڈرامہ کرنے والے نیوی کے جوان اور دوسرے بے شمار لوگ شامل ہوں گے۔یہ تقریباً نا ممکن ہے کہ اتنابڑا آپریشن خفیہ رکھا جائے اور یہ سمجھ سے باہر ہے کہ حکمران اتنا بڑا رسک لیں جو ان کیلئے انتہائی شرمندگی کاباعث بن سکتا ہو۔ امکانات میں اس عدم توازن کی وجہ سے کیون کے شواہدکو پرکھے بغیر مجھے پورا یقین تھاکہ وہ غلط ہیں۔

کیون کوشاید پتہ نہ ہو1978 ء میں اسی تھیوری پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی جس کا نام (Capricorn) تھا۔ اس میں یہ اضافہ کیا گیا تھا کہ خلا بازوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا تاکہ ان میں کوئی کہیں کسی کویہ نہ بتا دے کہ وہ چاند پر نہیں اترا ہے۔ اس طرح کیون کی تھیوری کے مقابلے میں وہ فلم زیادہ قابل اعتبار لگتی ہے۔
سازشی تھیوریاں میرے ذہن پر چھا گئیں میںسوچنے لگا کہ لوگ ان پریقین کیوں کرلیتے ہیں کیون اس طرح کا کوئی سادہ لوح شخص نہیں جو ہر سنی سنائی پر یقین کرلیتے ہیں وہ ایک ذہین، تعلیم یافتہ اور سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص تھا اگر اسے کبھی شبہ ہوتا کہ تیونس خفیہ پولیس کہیں آس پاس موجود ہے تو اس کا خیال ہمیشہ درست ہوتا تھا تو پھر کیون جیسے شخص نے ایسی خلاف عقل تھیوری پر یقین کیسے کرلیا۔ میں اس معاملے کوسمجھنا چاہتا تھا2002 ء کے آغاز میں خاص طور پر1969ء کے واقعات کی جانچ پرکھ نہیں کی جارہی تھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور اس کے نتیجے میں افغانستان پر اتحادی حملے کے بارے میں بھی سازشی تھیوری تیزی سے پھیل رہی تھی یہ سب مجھے خطرناک لگتا تھا میںنے تحقیق شروع کی تو اندازہ ہوا کہ یہ تھیوریاں بہت معمولی پیمانے پر نہیں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں بلکہ روز بروز مزید پھیل رہی ہیں۔
سازش بک شاپس میں
مغرب میںہم آج کل فیشن ایبل ''سازشیت'' کے دور سے گزر رہے ہیں مبینہ سازشوں پر مبنی کتابیں دکانوں کے حالات حاضرہ اور تاریخ کے شیلفوں پر اسی طرح سجائی جاتی ہیں جیسے وہ بڑے مورخوں اور عالموں کی تحقیقی کتابیں ہوں سخت محنت اور طویل تحقیق کے بعدلکھی گئی جان ایف کینیڈی کی سواغ عمری اور ایسی سنسنی خیز کتاب ساتھ ساتھ رکھی نظر آتی ہے جس پر 43سال بعد دعویٰ کیا گیا کہ کینیڈی کو مافیا نے قتل کیا۔پورے امریکہ اور برطانیہ میں میوزک اور ڈی وی ڈی کی دکانوں کی بڑی بڑی چینز میںجو تھوڑی سی اے تھری سائز کی پیپر بیک کتابیں نظر آتی ہیں ان کے عنوان بھی کچھ اس طرح ہوتے ہیں' ''اپنے واہموں کا خاتمہ کریں، آپ سے جھوٹ بولا جارہا ہے، جو کچھ آپ جانتے ہیں وہ غلط ہے، میڈیا کے حقائق مسخ کرنے کے بارے میں اس انفرمیشن گائیڈ، تاریخ پر پردے اورثقافتی مغالطے'' حقیقت سے آگاہ ہونے کے لیے آپ اٹھارہ اٹھارہ پونڈ کی ان مہنگی کتابوں میں سے کوئی خرید لیں تو آپ کو ان میں تیل کی صنعت سے لے کر جرائم تک ادھر اْدھر کے بے شمار موضوعات پر مختلف افراد کی تحریریں ملیں گی۔جن میں یہ باور کرایا گیا ہو گا کہ حکومتیں، میڈیا، کارپوریشن، منظم مذاہب اور سائنسی ادارے سب حقائق کو ہم سے چھپانے جھوٹ اور توہمات ہمارے ذہنوں میں بھرنے میںلگے ہوئے ہیں۔ ایسی ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے میری نظر ایک عنوان پر پڑی ، پوری یونین بے نقاب: آمریت کا پردہ چاک، برطانیہ کی وزارت دفاع کی ایک سابق افسر لنڈ سے جینکنز کے لکھے اس مقالے میں قومی ریاستوں کو تباہ کرنے کی نام نہاد یوروکریٹک سازش، کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ایک جگہ جینکنز لکھتی ہے کہ علاقائیت کی حوصلہ افزائی اس پیچیدہ سازش کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد یورپیوں کو کمزور کرکے سپر سٹیٹ مسلط کیے جانے کی مزاحمت کے ناقابل بنانا ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ اقلیتی زبان کے استعمال پر اصرار (خصوصاً بچوں کی تعلیم ہی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ وہ علاقہ الگ تھلگ ہوکر رہ جائے اور وسیع تر دنیامیں اس کے لوگوں کے لیے مواقع محدود ہو جائیں اس سے وہ دوسرے درجے کے شہری بن جائیں گے اور ان پر کنٹرول آسان ہوجائے گا۔ تمام علاقائی اقلیتوں میںکئی زبانوں میں تراجم کی سروسز ہوں گی جس سے وہ مزید مؤثر ہوتی جائیں گی۔ یہ ایسی تھیوری ہے جسے اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ''دہلیز والوں نے یونائٹیڈ کنگڈم کوکس طرح تباہ کیا مقبول سیریز ''رف گائیڈز'' کی ایک حالیہ کتاب میں، اہم ترین سازشی تھیوریوں کو گنوایا گیا ہے اوربعض کو ایسے لفظوں میں تسلیم کیا گیا ہے اس کے مصنفین اس حد تک چلے گئے ہیں کہ تاریخ نویسی کے عظیم مباحثے کے ایک نئے سنگ میل پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ مصنفین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ پہلے یہ خیال تھا کہ عظیم شخصیات کے کارنامے دنیا کے معاملات کو کوئی رخ دیتے ہیں پھر کہا جانے لگا کہ بڑی تاریخی اور سماجی قوتیں حالات بدلتی ہیں۔ لہٰذا اب یہ تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ پلان، منصوبے، سازشیں حتیٰ کہ سازش کے مفروضے دنیا کو بدل سکتے ہیں۔

اس طرح کے خیالات ٹیلی ویژن اور فلموں میں بھی ہوتے ہیں۔ دستاویزی فلمیں جانبدارانہ ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں ایسا مواد شامل ہوتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کسی نہ کسی نے سازش کی ہے۔ اس سلسلے میں مائیکل مور کی 2004ء کی دستاویزی فلم ''فارن ہائٹ 911'' کی مثال دی جا سکتی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس طرح کی فلموں وغیرہ کو تاریخی تجزیے کے بڑے کارناموں یا تحقیقاتی صحافت کے عمدہ نمونوں کے ساتھ شمار کیا جاتا ہے بلکہ عام طور پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کے دلائل کو نہیں پرکھا جاتا۔ صرف عوامی مقبولیت کو دیکھا جاتا ہے۔

تو سازش کیا ہے؟
اگر سازش کی تعریف دو یا زیادہ افراد کا کسی غیر قانونی،خفیہ یا غیراخلاقی کارروائی کے لیے اکٹھا ہونا ہے تو ہم سب کو اتفاق ہوگا۔ بے شمار سازشیں ہوتی ہیں۔ کئی مجرمانہ افعال سازش کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ سیکورٹی ایجنسیاں جن کے منصوبے لازمی طور پر خفیہ ہوتے ہیں مسلسل سازش ہی کر رہی ہوتی ہیں۔ کمپنیاں اپنی تجارتی سرگرمیاں خفیہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور بعض اوقات دوسرے کے تجارتی راز حاصل کرنے کے لیے ان کے آدمی خریدتی ہیں یہ بھی سازش ہوتی ہے۔ کسی نے یہ سمجھوتہ کہ وہ آپ کی والدہ کو یہ نہ بتائے کہ آپ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سوئی ہیں، بھی اسی تعریف میںآتا ہے۔ البتہّ سازشی تھیوری کچھ مختلف چیز ہے۔ اس کتاب کا مقصد اسی کو واضح کرنا ہے۔

امریکی سکالر اور سازشی تھیوری کے بارے میں دو کتابوں کے مصنف ڈینیل پائپس کا کہنا ہے کہ سازشی تھیوری ایک ایسی سازش کو کہا جا سکتا ہے جو دراصل کبھی ہوئی ہی نہ ہو۔ امریکی تاریخ دان Richard Hofstadter نے 1960ء کے عشرے میں لکھا تھا کہ حقیقی سازشی تھیوری اس بات سے ممیّز ہوتی ہے کہ وہ کس پیمانے پر ہے۔ اس کے ماننے والوں کو تاریخ میں بس ادھر ادھر ہی سازشیں نظر نہیں آتیں بلکہ وہ ہر تاریخی واقعے کا محرک ایک عظیم سازش کو سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں تعریفیں میرے لیے زیادہ کار آمد نہیں۔ مثلاً پائپس حتمی طور پر یہ کیسے ثابت کر سکتا ہے کہ ایک سازش کا وجود ہی نہیں؟ ظاہر ہے کہ ہر سازش اس وقت تک ایک تھیوری ہے جب تک اسے ثابت نہ کیا جائے۔

Hofstadter کی سازش کی تعریف کو قبول کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ اس میں مثال کے طور پر یہ خیال شامل ہو گا (جیسا کہ ''ڈان برائون کی" The Da Vinci Code "میں ہے کہ چرچ دو ہزار سال سے یسوع کی بلڈ لائن کے بارے میں حقیقت کو دباتا آ رہا ہے۔ (یعنی بڑے پیمانے پر دھوکہ) لیکن یہ چھوٹے پیمانے کا الزام شامل نہیں ہو گا کہ برطانوی (یا فرانسیسی) انٹیلی جنس ایجنسیوں نے 1997ء میں پیرس میں شہزادی ڈیانا کو ختم کرایا۔ چھوٹی تھیوریوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ان پر یقین کیا جائے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ سب جمع ہو کر دین کے بارے میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ہمارے منتخب کردہ نمائندوں سمیت تمام حکمران کرپٹ اور جھوٹے ہیں۔

میرے خیال میں سازشی تھیوری کی ایک بہتر تعریف یہ ہو سکتی ہے: کسی حادثاتی یا غیر ارادی عمل کے ساتھ کسی کی نیت یا ارادہ منسوب کردینا۔ اس تعریف میں مزید اضافہ یہ کیاجاسکتا ہے۔ کسی سے کوئی ایسا خفیہ فعل منسوب کرنا جسے معقول طریقے سے کم خفیہ اورکم پیچیدہ طور پر بھی بیان کیا جا سکتا ہو۔ سو ایک سازشی تھیوری کا مطلب غیرارادی طور پر سازش فرض کرنا ہے جبکہ اس کی اغلب وجوہ بھی بیان کی جا سکتی ہوں۔ اس لیے مثال کے طور پریہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ 1969ء میں انسان واقعی چاند پر اترے بمقابلہ اس کے کہ ہزاروں افراد ایک دھوکے کے لیے جمع کیے گئے اور انہوں نے ایسا کیا۔

سازش کی مخالفت بھی ایک نظریہ!
ایک لاطینی مقولے کا مطلب کچھ یوں نکلتا ہے کہ جب دو نظریے پیش کیے جائیں تو ان میں وہ زیادہ قابل قبول ہے جس میں مفروضات کم ہوں۔ بعض اوقات ہم تھیڑوں میں ایسے لوگ دیکھتے ہیں جو ہمارا ذہن پڑھ لیتے ہیں یا دیہات میں مستقبل کی باتیں بتانے والے ہوتے ہیں۔ ہم مان لیتے ہیں کہ ان کو قدرت نے کوئی خصوصی غیرمعمولی حس دی ہے یہ نہیں سوچتے کہ تماشائیوں میں تھیڑ والوں کا کوئی آدمی کس طرح سے معلومات سٹیج والے شخص تک پہنچا رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جادو کے کرتب جادو نہیں ہیں لیکن یہ مان لیتے ہیں کہ سٹیج پر کھڑا ہوا شخص ہمارے دل کی بات جان سکتا ہے۔

اٹھارھویں صدی کے سکالر ٹام وینی نے اپنی کتاب "The Age of Reason" میں لکھا تھا کہ قدرت کے راستے سے ہٹ کر کچھ ہو تو اسے کرشمہ یا معجزہ کہا جاتا ہے۔ کوئی شخص یہی بتاتا ہے کہ اس نے یہ معجزہ دیکھا تو ایک سوال فوراً ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ قدرت اپنے معمول یا راستے سے ہٹ گئی یا پھر یہ کہ کوئی شخص جھوٹ بول سکتا ہے۔

یقینا تاریخی امکان اور عدم امکان کی تعریفوں پر دلائل دیئے جا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ بعض عالم سازشی تھیوریوں کے خلاف دلائل کواتنے ہی ناقص قرار دیں جتنی وہ تھیوریاں ہیں۔ پیٹر نائٹ نے اپنی کتاب کانسپریسی کلچر میں لکھا ہے لگتا ہے ڈینیل پائپ جیسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سازشی تھیوری میں یقینا پوشیدہ ایجنڈے والی ایک پر اسرار قوت ہے جو افراد کے ذہنوں بلکہ پورے معاشروں پر مسلط ہو جاتی ہے۔ یہاں بالکل الٹ مفہوم لیا گیا ہے۔ پائپس نے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ سازشی سوچ سیاسی بحث مباحثے کو کس طرح آلودہ کرتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ''سازشیت'' کے خلاف دلائل بجائے خود ایک نظریہ بن گئے ہیں۔ اس طرح کی طرز فکر کو کانٹی جنسی تھیوری (Contigency Theory) کہا جاتا ہے۔ جہاں سازشی تھیوری بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے وہاں یہ بجھانے کی کوشش کرتی ہے۔

اقتدار چند ہاتھوں میں کیوں مرتکز ہے؟ دنیانفرت اور تنازعات سے کیوں بھری ہے؟ سازشی تھیوری والے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کانٹی جنسی تھیوری والے ان سوالوں کو دبانے کی کوشش میں یہ کہتے ہیں کہ کوئی نفرت نہیں ہے، سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ کانٹی جنسی تھیوری حکمران طبقے کا ردعمل سمجھی جاتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ تاریخی امکانات کی کوئی سائنس نہیں ہے لیکن تاریخ کو سمجھنے والوں میں امکان اور عدم امکان کی ایک وجدانی حس پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ Status queکی توثیق کر رہے ہیں۔ جیسا کہ عظیم برطانوی مورخ لیوس نیمیئر نے لکھا: ''تاریخ کے مطالعے سے بیش بہا چیز حاصل ہوتی ہے وہ تاریخی حس یعنی ایسی وجدانی فہم کہ چیزیں کس طرح نہیں ہوتیں۔ سازشی تھیوریاں میری اس حس کو مجروح کرتی ہیں۔''

تاریخ اور سازشیں
برطانیہ کے انتہائی محترم نظریہ دان رابن رمزے نے سازشوں کے بارے میں اپنی بہت دلچسپ مختصر کتاب میں ایک مختلف انداز میں بات کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''سازشی تھیوریوں میں حالیہ افسانے کی ایک بڑی اور اہم وجہ حقیقی سازشوں کی موجودگی ہے۔ لوگ سازشی تھیوریوں پر اس لیے یقین کر لیتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا سازشوں سے بھری ہے۔ رمزے سیاسی سازشوں کے سلسلے کی (بظاہر) شہادتوں میں یہ مثالیں دیتے ہیں۔ صدر کینڈی، ان کے بھائی رابرٹ، مارٹن لوتھر کنگ، میلکم ایکس، ٹیمسٹرز یونین (Teamster's Unian) کے کرپٹ لیڈر جمی ہوفا کے قتل اور صدارتی انتخاب میں رچرڈنکسن کی فتح کے لیے خطرہ بننے والے الباما کے سابق گورنر اور صدارتی امیدوار جارج ویلیس پر فائرنگ کا واقعہ۔

اگرچہ یہ تمام سازشیں مشتبہ ہیں لیکن رمزے بس یہ کہہ رہے ہیں کہ سازشی خیالات مزید سازشی خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ اگر وہ مغرب کی بجائے مشرق وسطیٰ کی سازشی تھیوریوں پر بات کرتے تو شائد اس میں زیادہ وزن ہوتا۔ ڈینیل پائپس دلیل دیتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ سازشی تھیوریوں سے کیوں گونج رہا ہے، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس خطے میں گزشتہ دو صدیوں میں دنیا کے کسی بھی علاقے سے زیادہ حقیقی سازشیں ہوئیں۔ مغربی حکومتیں اکثر خفیہ رابطوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ کی سیاست پراثر انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ یہ سلسلہ سلطنت عثمانیہ سے عرب علاقوں کو الگ کرنے کے لیے فرانس اور برطانیہ کے 1916ء کے خفیہ سائکس پکٹ (Sykes-Picot) معاہدے سے 1953ء میں ایران میں مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ کے گٹھ جوڑ تک پھیلا ہوا ہے۔ لاطینی امریکہ پچاس سال تک یکے بعد دیگرے فوجی انقلابوں کا شکار رہا ہے۔ اگر وہاں کے لوگوں کی سوچ اس طرح کی نہ ہو تو یہ بات حیران کن ہو گی۔ البتہ گزشتہ سو سال میں برطانیہ اور امریکہ میں ایسی بہت کم بڑی سازشیں ہوئی ہیں جن کے بارے میں کسی دو سنجیدہ مورخوں نے اتفاق کیا ہو۔

واٹر گیٹ ایک افسوس ناک اور بھید بھری سازش تھی جو سیاسی جاسوسی پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں کی گئی۔ 1955-56ء کا ایران۔ کونٹرا معاملہ ایک بھرپور سازش تھی جب امریکن حکومت کے سینئر ارکان نے کانگریس کی طرف سے نکاراگوا کے اینٹی کمیونسٹ باغیوں (کونٹراز) کو مالی امداد دینے پر پابندی کے توڑکے لیے انہیں ہتھیار فراہم کیے جووہ امریکہ کے دشمن ایران کو بیچتے رہے۔ تمام معاملہ کھل کر سامنے آ گیا۔ دو انکوائریاں ہوئیں اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے دو ملازمین معمولی سے قصوروار پائے گئے۔ پھر ان کی اپیلوں پر ان کی سزائیں اس بنیاد پر ختم کر دی گئیں کہ کانگریس کو شہادت دینے کے بدلے ان سے معافی کا وعدہ کیا گیا تھا۔

برطانیہ کی سب سے بڑی سازش 1924ء کا زینو ویف (Zinoviev) کا خط ہے۔ سالوں تک یہ کہانی چلتی رہی کہ برٹش سیکورٹی، رمزے میکڈونلڈ کی قیادت میں پہلی لیبر حکومت کو ہٹانا چاہتی تھی۔ اس نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ گریگوری زینوویف کا ایک جعلی خط تیار کیا جس میں لیبر پارٹی کے بالشویک نواز موقف کو سراہا گیا تھا۔ یہ خط اخبار ''ڈیلی سیل'' تک پہنچا دیا گیا۔ جس نے اکتوبر 1924ء کے عام انتخابات سے صرف چار روز قبل یہ خط ان چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ چھاپ دیا: ''سوشلسٹوں کے آقائوں کا خانہ جنگی کا منصوبہ'' ''ماسکو کا ہمارے سرخوں کو حکم'' ''عظیم سازش بے نقاب'' نتیجے میں لیبر پارٹی الیکشن بری طرح ہار گئی۔

جنوری 1999ء میں ٹونی بلیئر کی نئی لیبر حکومت کے کہنے پر فارن آفس کی چیف ہسٹورین گل بینٹ نے اس معاملے کی تحقیق کی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ خط دراصل لیٹویا کے کمیونسٹ مخالف سفید روسیوں نے تیار کیا تھا۔ وہ برطانیہ اور نئی نئی بنی ہوئی سوویت یونین کے درمیان نئے سمجھوتوں کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔ یہ خط برطانوی انٹیلی جنس ایم آئی 6 تک پہنچایا گیا جس کے بعض ارکان نے اسے ڈیلی سیل تک پہنچایا۔

لیبر پارٹی کے وزیر خارجہ رابن کک نے اخبار ''گارڈین'' میں لکھا ''اس بات کی کوئی شہادت نہیں ہے کہ ایم آئی 6 نے جعلی خط تیار کیا۔ لیبر کے خلاف انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کسی منظم سازش کی کوئی شہادت ہے نہ لیبر پارٹی اس خط کی وجہ سے الیکشن ہاری (بینٹ نے بھی اپنی رپورٹ میں یہی لکھا تھا) لیبر کا مسئلہ یہ تھا کہ اس نے ختم ہوتی لبرل پارٹی کی حمایت پر انحصار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر 1924ء کے انتخابات میں لیبر پارٹی کے ووٹوں میں اضافہ ہوا تھا۔

سازشی تھیوریوں کے تانے بانے
ان مثالوں سے ظاہرہے کہ حقیقی سازشوں کو یا تومبالغے کے ذریعے بڑھا چڑھا کر ان کی اہمیت بنائی جاتی ہے یا پھر وہ درحقیقت ناکام اور بے نقاب ہوتی ہیں۔ ان کے طاقتور ترین ملک کے سربراہ رچرڈنکسن کی چند ٹیپوں کو صاف کرا سکنے میں ناکامی انتہائی حقیقی سازشوں کی ایک مثال ہے۔ دوسری طرف سازشی تھیوریاں اکثر اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوتی ہیں۔

میری تحقیق کے مطابق ایک درجن بڑی سازشی تھیوریوں میں (جن کا اس کتاب میں تذکرہ کیا گیا ہے) بعض مشترک خصوصیات ہیں جن کی بدولت وہ بڑے پیمانے پر پھیلیں۔ وہ خصوصیات یہ ہیں:-

1 تاریخی تغّیر
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ سازشی لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے بہت بحث کرتے ہیں کہ ہر جگہ سازشیں ہیں۔ اگر ملتے جلتے واقعات کی ایک پوری تاریخ موجود ہو گی تو کوئی ایک واقعہ ناقابل یقین نہیں لگے گا۔ یہ واقعات 1605ء کی بارود سازش جیسے پرانے بھی ہوسکتے ہیں اور پرل ہاربر، ریشستاگ (Reichstag) کی آتش زدگی اور 1965ء کا خلیج ٹونکن کا واقعہ بھی۔ آپ جان ایف کینیڈی کے قتل کی سازش کو بنیاد بنا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ رابرٹ کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ بھی امریکی ریاست کے ہاتھوں مارے گئے۔

نائن الیون ٹرتھ موومنٹ میں شریک افراد کے حالات زندگی پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ کیلی فورنا برانچ کی پنتالیس چھیالیس سالہ انتہائی سرگرم خاتون نے بتایا کہ جوانی میں اس نے دنیا کے گرد کشتی پر ایک سفر کیا تھا۔ سیاسی طور پر وہ 1992ء میں سرگرم ہوئی جب اس نے ایک فلم دیکھی جس نے اسے پریشان کردیا۔ جس پر اس نے حکومت اورمیڈیا پر ریسرچ شروع کر دی۔ یہ فلم اولیور سٹون کی ''جے ایف کے'' تھی۔-

 2تشکیک
سازشی تھیوری سیاسی طور پر عوام کے حق میں ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ اقلیتی اشرافیہ کے عوام کے خلاف اقدام کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کرتی ہے یا جیسا کہ کیلی فورنیا کے مذہبیات کے ایک پروفیسر نے کوپن ہیگن کی سنٹرل لائبریری میں ایک اجتماع سے نائن الیون کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے کہا ''شاید ہماری سوسائٹی کی اشرافیہ کے ارکان نہیں چاہتے کہ سچ کا انکشاف ہو۔'' اس کے برعکس سازشی تھیوری پر یقین آپ کو ایک بہادر ایلیٹ گروپ کا حصہ بنا دیتا ہے جو ان سست لوگوں کو حقارت سے دیکھتا ہے جو سرکاری موقف پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ سازش کی موجودگی کا احساس بھی سوجھ بوجھ والے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ جو لوگ حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے ان پر روبوٹ یا بھیڑوں کی پھبتی کسی جاتی ہے۔

3 محض سوال کرنا
2001ء سے معزز قسم کے سازشی بنیادی ٹیکنیک استعمال کر رہے ہیں کہ وہ محض حقیقت تک پہنچنے کی خاطر پریشان کن سوالات کرتے ہیں۔ تاکہ پڑھنے یا سننے والا خود کسی نتیجے پرپہنچے۔ سوال کچھ اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جن سے یہ پختہ تاثر پیدا ہو کہ واقعی کوئی خفیہ سازش ہوئی ہے۔

4 ماہرین کی شہادتیں
سازشی اپنی تھیوریوں میں وزن پیدا کرنے کے لیے ان کے حق میں مشہور شخصیات اور ماہرین کے حوالے دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان ماہرین کا مرتبہ بھی مبالغہ آمیزی کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ نائن الیون ٹرتھ موومنٹ کے ایک اہم ر کن برطانیہ کے سابق وزیر ماحولیات مائیکل میجر کبھی برطانوی کابینہ کے رکن نہیں رہے۔ لیکن امریکہ کے سینڈیکٹیڈ ''الیکس جونز شو'' میں شامل ریڈیو انٹرویو میں انہیں بار بار ''بلئیر حکومت کی نمبر 3 شخصیت'' کہا جاتا رہا تھا۔

مذہبیات کے عالم ڈیوڈر نے گرفن، نائن الیون سازش کے حامیوں میں سب سے محترم شخصیت ہیں۔ جب وہ اچانک فزکس، ایرڈ ائنامکس اور انجینئرنگ کے متعلق معاملات میں ماہرانہ رائے دینے لگتے ہیں تو سوچیں اس وقت ان کا کیا ردعمل ہو گا جب جان کے روتھ کے مذہبی نظریات کے جائزے پر مبنی عالمانہ کتاب پر سائنسی جریدے پاپولر مکینکس کے ایڈیٹر سے رائے لی جائے۔

ضرورت ہو تو سازشی تھیوری کے داعی اپنے ماہرین کی کدالی فکشنز کے بارے میں ابہام سے بھی کام لیتے ہیں۔ لندن کے 7 جولائی کے دھماکوں کے بارے میں جو دو فلمیں بنی ہیں ان میں سے ایک میں ایک شخص رنگ کولر سٹروم کی شہادت شامل ہے۔ جسے ''لیکچرر اینڈ ریسرچر'' بتایا گیا ہے۔ لیکن کس چیز کا لیکچرر اور کس شعبے کا ریسرچر؟ یہ نہیں بتایا گیا۔ بعد میںپتہ چلا کہ وہ کیمیا گری پر سیاروں کی حرکت کے اثرات پر لیکچرر بنا تھا اور فصلوں کے ادل بدل کر کاشت کرنے کے بارے میں ایک کتاب کا مصنف تھا۔

سازشی تھیوری کے داعیوں میں ایک اور رجحان ایک دوسرے کا حوالہ دینے کا ہے یعنی ''من ترا مُلا بگویم تو مرا حاجی بگو'' کے ذریعے ایک دوسرے کا قد بھی اونچا کیاجاتا ہے اور اپنی تھیوری کو بھی پھیلایا جاتا ہے۔ مثلاً نائن الیون پر فرانسیسی سازشی مصنف تھائری میساں امریکی مصنف ویبسٹر ٹارپلے کا حوالہ دیتا ہے۔ ٹارپلے ٹریوڈ اے گرفن کا اور ڈیوڈ اے گرفن تھائری میساں کا حوالہ دیتا ہے۔

5 علمی اعتبار
سازشی تھیوریوں کے مصنف ان میں علمیت شامل کر کے انہیں وقیع بنانے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔ وہ ان میں اتنی تفصیلات اور الم غلم معلومات بھر دیتے ہیں کہ وہ ایک علمی مقالہ لگے۔ ان میں غیر سازشی ذرائع کے حوالہ جات بھی دیئے جاتے ہیں لیکن تحقیق کی جائے تو وہ اکثر سیاق و سباق سے الگ اور گمراہ کن ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈیوڈ رے گرفن نے 9/11 کے بارے میں اپنی کتاب ''دی نیو پرل ہاربر'' (The New Pearl Harbor) میں تھائری میساں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ''وہ ایک ایسی تنظیم کے سربراہ ہیں جن کا ذکر اپریل 2002ء میں گارڈن نے ایک ایسے موقر آزاد تھنک ٹینک کے طور پرکیا جس کے بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والے تحقیقاتی منصوبے معقولیت اور معروضیت کا نمونہ سمجھے جاتے رہے ہیں۔'' یہ بددیانتی کا ایک شاہکار ہے کیونکہ گارڈین کا پورا اقتباس اس طرح ہے ''فرانسیسی میڈیا نے فوری طور پر (میساں کی) کتاب کے دعووں کو رد کر دیا ہے حالانکہ میساں والٹئیر نیٹ ورک کے صدر ہیں جو ایک موقر آزاد تھنک ٹینک ہے جس کے بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والے تحقیقاتی منصوبے معقولیت اور معروضیت کا نمونہ سمجھے جاتے رہے ہیں، ''لی نوول آبرز وٹیئر'' نے لکھا ہے ''یہ تھیوری ہرشخص کے لیے باعث اطمینان ہو گی کہ اسلامی انتہا پسندوں کا کوئی وجود نہیں ا ور ہر شخص خوش ہے۔ یہ تھیوری حقیقت کا خاتمہ کرتی ہے۔ اخبار 'لبریشن' نے کتاب کو خوفناک حربہ اورایسے غیر محتاط اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کا ملغوبہ قرار دیا ہے جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔''

ظاہرہے کہ حوالہ سیاق و سباق سے الگ کر کے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ میڈیا کے غلط اور ناجائز استعمال کی ایک اور مثال ٹیلی ویژن پر کسی واقعے کی ابتدائی غیر تصدیق شدہ خبروں اور رواروی میں بیان کیے گئے امکانات میں سے کسی ایسے ایک کو قطعیت کے ساتھ حرف آخر کے طور پر بیان کرنا ہے جو ان کی سازشی تھیوری کی تائید کرے۔ مغرب میں رپورٹر واقعات کو الجھانے اور خوف زدہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ بڑی بڑی تباہیوں کی ابتدائی خبریں غلط اور محض قیاس آرائی نکلتی ہیں۔

گریفن نے اپنی کتاب ''دی نیو پرل ہاربر'' میں ورلڈٹریڈ سنٹر سے ٹکرانے والے طیاروں سے شہادتیں ملنے پر اعتراض کرتے ہوئے ''گارڈین'' کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ ''یہ خیال کہ یہ پاسپورٹ آگ کے شعلوں سے بچ گیا۔ ایف بی آئی کے دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون پر یقین کرنے والوں کے اعتماد کے لیے ایک امتحان ہے'' درحقیقت یہ کوئی رپورٹ نہیں تھی ایک کالم نگار این کارف کے کالم میں چلتے چلتے ایک فقرہ تھا۔ اسے جنوبی لندن کے کسی اور کالم نگار سے اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں کہ ٹون ٹاورز سے کیا نکلا اور کیا نہیں۔

سازشی تھیوری کو سیکرٹ سروس کے لوگوں کے حوالوں، ان کی مخصوص زبان اور کوڈ ورڈز کے ذریعے آخری پالش کر کے چمکایا جاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مصنف کے جاسوسوں اور سائنس دانوں سے رابطے رہتے ہیں۔ ایسے مصنف آج کل جو دلچسپ الفاظ اور تراکیب استعمال کرتے ہیں ان میں یعنی سیکالوجیکل آپریشن Psyops False Flag اور Wet Disposal(قتل کر دینا) شامل ہیں۔

6 تھیوریاں بھی بطور ثبوت
سازشی تھیوریاں تخلیق کرنے والے ہارتے کبھی نہیں۔ وہ اپنے دلائل میں ایسی لچک رکھتے ہیں کہ کوئی نئے حقائق سامنے آئیں تو انہیں بھی تھیوری میں سمولیا جائے۔ ایسے پریشان کن مسائل پر یہ کہا جاتا ہے کہ اصل سازش میں یہ ڈس انفرمیشن توجہ ہٹانے کے لیے جان بوجھ کرشامل کی گئی تھی۔ شہزادی ڈیانا کے قتل پر یقین رکھنے والے ایک شخص نے کہا اس واقعے کے بارے میں ''ایم آئی 6'' نے جان بوجھ کر فضول تھیوریاں پھیلائی ہیں تاکہ قتل میں اس کے کردار پر پردہ ڈالا جا سکے۔

9/11 کے بارے میں مقبول فلم Loose change کے پروڈیوسر کورے روو (Korey Rowe) سے اس فلم میں بعض واقعاتی غلطیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا ''ہمیں معلوم ہے کہ اس ڈاکومنٹری میں غلطیاں ہیں۔ وہ ہم نے جان کر رہنے دی ہیں تاکہ لوگ ہمیں غلط سمجھ کر خود بھی تحقیق کریں۔''

7 نگرانی اور جاسوسی کا تاثر
سازشی تھیوری پھیلانے والے یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ خطرے میں ہیں (خواہ وہ کسی محفوظ ترین ملک میں ہوں) سابق برطانوی اسلحہ انسپکٹر ڈاکٹر ڈیوڈ کیلی کی موت کو خود کشی قرار دیئے جانے کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں معروف لبرل ڈیموکریٹ رکن پارلیمنٹ فارمن بیکر نے فروری 2007ء میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں شبہ ظاہر کیا تھا کہ بعض نامعلوم افراد ان کی ای میلز intercept کر رہے ہیں۔ بعض ای میلز ان کے کمپیوٹر پر ادھوری موصول ہوئی ہیں۔ یہ بات ان کے لیے پریشان کن ہے۔ کیلی قتل سازش تھیوری کے ایک اور داعی سابق آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر ڈیوڈہالپن نے بھی اخبار ''مارننگ سٹار'' کوایک خط لکھا کہ ان کی چھ ہزار سے زائد ای میل فائلیں غائب ہو گئی ہیں۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ چونکہ وہ ڈاکٹر ڈیوڈ کیلی کا معاملہ اٹھا رہے ہیں، فلسطین پر قبضے اور فلسطینیوں سے وحشیانہ سلوک کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ برطانوی حکومت اور عراقیوںکے خلاف جنگی جرائم کے خلاف لکھتے، بولتے اور جلوس نکالتے رہے ہیں اس لیے کوئی سرکاری ایجنسی ان کے پیچھے پڑ گئی ہے۔

لطف یا خوف؟
میرا یہ کتاب لکھنے کا مقصد ان لاکھوں مردوں اور عورتوں کو کچھ مواد فراہم کرنا بھی ہے جنہیں کسی بار یا ڈنر پارٹی میں یہ الفاظ سننا پڑتے ہیں ''میں آپ کو بتاتا ہوں، حقیقت کیا ہے…'' انہیں معلوم ہوتا ہے کہ بات کرنے والا نامعقول گفتگو کر رہا ہے لیکن اکثر انہیں صرف اس لیے یہ سب سننا پڑتا ہے کہ اسے خاموش کرانے کے لیے ان کے پاس دلائل نہیں ہوتے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بھی ہزاروں لاکھوں ویب سائٹس پر ہونے والے پروپیگنڈے کا جواب اس کتاب میں پا سکتے ہیں۔

میں یہ بھی سمجھنا چاہتا تھا کہ حقیقت کے مقابلے میں غیر حقیقی، ناقابل یقین اور خلاف قیاس باتیں اکثر ہمارے ذہنوں میں کس طرح جگہ پا لیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، میں سازشی تھیوری کی نفسیات کو سمجھنا چاہتا تھا۔

انسان چاند پر اترا یا نہیں __ اس بارے میں دوستانہ بحث اور ایسے دلائل سے لطف اندوز ہونے کا ایک پہلو بھی ہے۔ سازشی تھیوریوں پر یقین کرنا بجائے خود نقصان دہ اور ضرر رساں ہے یہ تاریخ کے بارے میں ہمارے نظریے اور انداز فکر کو مسخ کرتا ہے اور تباہ کن فیصلوں کا موجب بنتا ہے۔

صہیونی بزرگوں کے پروٹوکولز (The Protocols of the elders of Zion)
یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا۔ قدامت پسند لوگ یہودیوں کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہودی بیشتر دوسرے لوگوں کے برعکس انٹرنیشنل تھے۔ وہ تقریباً ہرملک میں رہتے تھے اور اکثر اعلیٰ عہدوں اور دولت کے مالک تھے۔ ہر جگہ موجود ہونے کے باوجود وہ الگ تھلگ تھے۔ وہ اپنی الگ زبان میں عبادت کرنے، دوسرے مذاہب کے لوگوں سے شادیاں کرنے کے اقرار کرتے اور تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دیتے تھے۔ لوگ انہیں کسی عظیم راز کا پاسبان سمجھتے تھے۔

انہی دنوں تقریباً اسّی صفحات کی ایک کتاب سامنے آئی۔ یہ جرمن اور انگریزی زبان میں تھی۔ انگریزی میں اس کا نام The Protocols of the Elders of Zion تھا۔ یہ ہدایات اور لائحہ عمل پر مشتمل تھی کہ موجودہ طاقتوں، سلطنتوں، حکومتوں اور چرچوں کو کس طرح ختم کر کے ایک نئی عالمی حکومت قائم کی جائے جس کا سربراہ خاندان دائو دی کا سپریم یہودی آمر ہو۔ پروٹوکولز میں ہدایت کی گئی کہ اس مقصد کے لیے طبقاتی نفرت پیدا کی جائے۔ جنگوں کو ہوا دی جائے۔ انقلاب لائے جائیں اور قومی اداروں کو بدنام کیا جائے۔

روایتی اقدار کو تباہ کرنے کے لیے لبرل ازم کو فروغ دیا جائے۔ اس سے سوشلزم آئے گا اور پھر کمیونزم ریاستیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا کو ایک نئے نظام کی تلاش ہو گی اور فری میسن کی مدد سے ہم اس کے لیے تیارہوں گے۔ پروٹوکول جو بیس سرخیوں کے تحت مینجمنٹ کے لیکچروں کی طرح ہیں۔ پہلے پروٹوکول میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں اچھی فطرت والوں کے مقابلے میں بدفطرت افراد زیادہ ہیں اس لیے تعلیمی مباحث سے زیادہ تشدد موثر ہوسکتا ہے۔ پروٹوکولز میں ضابطہ پالیسی، سیکورٹی، اسلحہ بندی، اجارہ داری، پریس، ٹیکس پالیسی اور تعلیم کے ابواب ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک ا نتخابی منشور نظر آتا ہے لیکن اسے رائے دہندگان سے پوشیدہ رکھنا ہے۔ اس کا انداز میکاولی کاہے کہ انسانوں کی کمزوریوں کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ پروٹوکول 12 میں کہا گیا ہے کہ ادب اور صحافت سب سے اہم تعلیمی قوتیں ہیں۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ رسالوں اور اخباروں کے مالک بن جائیں گے لیکن لوگوں کے شک سے بچنے کے لیے تمام رسالے ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ظاہری شکل، خیالات اور رجحانات میں ایک دوسرے سے ہٹ کر ہوں گے۔ یہ رسالے ہر مکتبہ فکر کے ہوں گے۔ ارسٹوکریٹک، ری پبلکن، انقلابی حتیٰ کہ انارکسٹ بھی۔ ہندو دیوتا وشنو کی طرح ان کے ایک سو ہاتھ ہوں گے اور ہر ہاتھ کی نبض مختلف ذہنی رجحان کے تحت ہو گی۔ فحش اور عریاں مواد بھی خوب پھیلایا جائے گا تاکہ وہ تقریروں اور پارٹی پروگراموں سے زیادہ راحت پائیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پروٹوکولز نے کس اجلا س میں جنم لیا۔ یہ لیکچرر کس نے کب اور کہاں دیئے۔ اس کے جرمن ایڈیشن کے ایڈیٹر 74 سالہ سابق فوجی افسر، زوربیک نے لکھا کہ اگست 1897ء میں سوئس شہر باتل میں پہلی صہیونی کانفرنس ہوئی تھی جس میں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے لیے ایک ملک کی ضرورت پر غور کیا گیا۔ کانگریس کے دس اجلاس ہوئے جن کی صدارت بابائے صیہونیت ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل نے کی۔

انہوں نے ہی یہ پروٹوکول بیان کیے۔ ہرشخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ 9 پروٹوکولز کا مسودہ کہیں لے جانے والے ایلچی نے بھی اپنی قیمت وصول کی۔ اسے مسودہ کہیں پہنچانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ فرنکفرٹ کے میسنک لاج میں روسی سیکرٹ پولیس کا ایک ایجنٹ اسے ملا جس کے ساتھ نقل نویسوں کی ایک ٹیم بھی تھی۔ ایلچی نے قیمت وصول کی اور ایک رات کے لیے مسودہ ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے راتوں رات اصل زبان (شاید عبرانی) میں اس کی نقل تیار کی۔ صبح کو ایلچی نے مسودہ واپس لیا اور تاریخ سے غائب ہو گیا۔ نقل روس پہنچی جہاں سکالرز نے اس کا ترجمہ کیا۔

1905ء میں ماسکو کے ایک سکالر سرگئی اے فیلوس نے ایک کتاب "The Great in the small" لکھی۔ پروٹوکولز اس میں بطور ضمیمہ شامل تھے۔ زوربیک کے جرمن ایڈیشن کے بعد پروٹوکولز کے کئی یورپی زبانوں میں تراجم شائع ہوئے۔ امریکہ میں تین مختلف ایڈیشن چھپے۔ اس کے بعد عربی ترجمہ بھی آ گیا۔ ہرجگہ سکالرز اور حکمرانوں میں اس کاچرچا ہونے لگا۔ 1919ء میں ایک اور کتاب چھپی Friedrich wichtl کی اس کتاب The World Freemasunry world revolution میں یہودیوں اور فری میسن کے بارے میں وہی خیالات تھے جنہیں پروٹوکولز نے تقویت دی تھی ایک 19 سالہ لڑکے نے اپنی ڈائری میں لکھا ''یہ کتاب سب کچھ واضح کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ہمیں کس کے خلاف لڑنا چاہیے۔ یہ لڑکا ہنرخ ہملر تھا۔

پروٹوکولز برطانیہ میں 1920ء میں "The Jewish Peril" کے نام سے شائع ہوئے۔ تقریباً تمام بڑے برطانوی اخباروں نے اس پر تبصرے کیے۔ دی ٹائمز نے "a Disturbing Pamphlet: A call for Inquiry" کے عنوان سے اداریہ لکھا جس میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر یہ جعلسازی ہے تو حالات و واقعات اس کے مطابق کیوں ہو رہے ہیں؟

ٹوری اخبار مارننگ سٹارنے پروٹوکولز پر 23 طویل مضامین شائع کیے اور پھر انہیں The cause of world unrest کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا۔ اخباری تبصروں نے ایسی فضا پیدا کی کہ یہودیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ امریکہ میں پروٹوکولز" فلاڈیلفیا پبلک لیجر"نے شائع کئے لیکن یہودی حوالہ نہیں دیا۔ پھر کرسچن سائنس مائینٹر نے پروٹوکولز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ واقعی کوئی خفیہ سیاسی تنظیم موجود ہے۔

امریکی سرمایہ دار فورڈ جنگ اور کمیونزم کا سخت مخالف تھا۔ اس نے اپنے خیالات کے پرچار کے لیے ''ڈیربورن انڈیپنیڈنٹ'' کے نام سے ا خبار بھی نکالا جس کی اشاعت تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ (ڈیربورن وہ جگہ ہے جہاں فورڈ کاروں کا پہلا کارخانہ لگا) اس اخبار میں ایک صفحہ "Mr. Ford's own page" بھی ہوتا تھا۔ فورڈ اس میں یہودیوں کے خلاف کافی کچھ چھاپتے رہے تھے۔ 26 جون 1920ء کو انہوں نے پروٹوکولز قسط وار چھاپنے شروع کر دیئے۔ اس کے بعد انہیں کتابی صورت میں چھاپا گیا۔ فورڈ نے 50 لاکھ ڈالر سبسڈی دی جس کے باعث کتاب کی قیمت صرف 25 سینٹ رکھی گئی۔ اس کی پانچ لاکھ کاپیاں صرف امریکہ میں بک گئیں۔

جرمن سکالر کا انکشاف
انہی دنوں ایک جرمن سکالر ڈاکٹر جے سٹانجک نے برلن کے ماہنامہ "In Deutschen Reich" میں ایک مضمون میں انکشاف کیا۔ یہودی بزرگوں کا ایک خفیہ اجلاس باسل کی کانگریس سے بہت پہلے بھی ہوا تھا جس کا احوال باسل کانگریس سے تیس سال پہلے ایک کتاب میں شائع ہو چکا تھا۔ لیکن یہ کتاب تاریخ یا حقائق کی نہیں ایک ناول ہے۔ یہ کتاب 1868ء میں جرمن زبان میں شائع ہوئی تھی اور کسی "Sir John Retoliffe" نے لکھی تھی۔ درحقیقت یہ ایک جرمن صحافی Hermann Guedsche کا قلمی نام تھا۔ اسے 1848ء میں ایک سیاستدان کے جعلی خط تیار کرنے پر سزا ہوچکی تھی۔ محکمہ ڈاک کی ملازمت کے برطرف ہونے کے بعد وہ صحافی بن گیا تھا اور پیسہ کمانے کے لیے فرضی نام سے ناول بھی لکھا کرتا تھا۔ یہ ناولBiarritz ان میں سے ایک تھا۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ پراگ کے یہودی قبرستان میں اسرائیل کے بارہ قبیلوں اور جلاوطنوں کے نمائندے جمع ہوتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ سو سال تک کیا کرتے رہے اور اب ان کے کیا ارادے ہیں۔ وہ اپنے عہد کی تجدید کے ساتھ رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس بھولے بسرے ناول Biarritz کا وہ باب جس میں یہودی نمائندوں کے اپنے اپنے آئندہ پروگرام بیان کیے گئے ہیں۔ 1872ء میں کسی نے روس سے ایک پمفلٹ کی صورت میں چھاپ دیا جس کے آغاز میں کہا گیا کہ اگرچہ اجلاس افسانوی تھا لیکن یہ ایک حقیقت بیان کرتا ہے۔ 1881ء میں فرانس کے ایک رسالے Le Contemporian نے اسے ''ربیّ کی تقریر'' کے عنوان سے چھاپ دیا اور تمام یہودی نمائندوں کے دعوے ملا کر واحد تقریر بنا دی۔ اب یہ افسانے سے حقیقت بنا دی گئی تھی اور یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ تقریر یہودی بزرگ نے ایک مزار پر حقیقی اجتماع میں کی اور ایک انگریز سفارت کار سرجان ریڈکلف اسے احاطہ تحریر میں لائے۔ یہ ''تقریر'' 1891ء میں روس کے ساحلی شہر اوڈیسا کے ایک اخبار نے شائع کی اور دعویٰ کیا کہ یہ آٹھ سال قبل ایک اجتماع میں کی گئی۔ 1896ء میں یہ کتابی شکل میں فرانس میں شائع کی گئی۔ مقرر کا نام اب چیف ربیّ جان ریڈ کلف ہو گیا۔ اس کے بعد مختلف ایڈیشنوں میں ربیّ کے نام بدلتے رہے۔ اکتوبر 1920ء میں فرانسیسی جریدے نے ایک مضمون شائع کیا جس میں مذکورہ تقریر اور پروٹوکولز میں مماثلت بیان کی گئی تھی لیکن اسے اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا تھا کہ دونوں ہی صحیح ہیں۔ یہ اضافہ بھی کیا گیا کہ تقریر قلمبند کرنے کی وجہ سے بہادر برطانوی بغاوت کار کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس طرح ایک جرمن جعلساز کا گھڑا ہوا افسانہ حقیقت بنا دیا گیا۔

میکیاولی کی آمد
1921ء میں ٹائمز لندن کے نمائندے فلپ گریوز کو ایک جلا وطن روسی زمیندار ملا اور بتایا کہ وہ یہودیوں اور فری میسن کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتا رہا ہے۔ پروٹوکولز بھی تفصیل سے پڑھے ہیں ایک دن زلا کی خفیہ پولیس کا ایک سابق عہدیدار کچھ پرانی کتابیں فروخت کرنے کے لیے لایا۔ جو اس نے خرید لیں۔ ان میں سے ایک چھوٹی سی فرانسیسی کتاب کا پہلا صفحہ غائب تھا لیکن اس کی جلد پر جولی لکھا تھا۔ پیش لفظ کے ساتھ جنیوا 15/ اکتوبر 1864ء درج تھا۔ کتاب پڑھی تو لگا کہ یہ تو اکثر و بیشتر حرف بہ حرف پروٹوکولز والا مواد ہے۔ وہ بہت حیران ہوا کہ پروٹوکولز تو جس مبینہ اجلاس کی رپورٹ ہیں وہ تواس کتاب کی اشاعت سے تیس سال پہلے ہوا تھا۔ فرانسیسی کتاب یہودیوں کے متعلق تھی ہی نہیں۔ اس کا موضوع فرانس کی 1860ء کے عشرے کی سیاست تھا۔ یہ دراصل نپولین III کی حکومت کے خلاف تھی۔ اس کے خلاف براہ راست تو کچھ نہیں لکھا جا سکتا۔ پیرس کے ایک وکیل نے یہ کیا کہ تاریخی شخصیات میکیاولی اور فرانسیسی فلسفی مانسپتکیوکی جہنم میں ملاقات اور اس میں ہونے والا مکالمہ لکھ ڈالا۔ اس تمثیلی انداز کے باوجود جولی سزا سے نہیں بچ سکا۔ اسے جرمانہ اور پندرہ ماہ قید کی سزا ہوئی۔ مکالمے میں میکیاولی دراصل نپولن III ہے جو بتاتا ہے کہ استبداد کے لیے اس نے کیا کیا کیا۔ سکالرز کا کہنا ہے کہ پروٹوکولز 1 سے 19 ہیں جو میکیاولی کے ڈائیلاگ 1 تا 17 سے ملتے ہیں۔ مورخ فارمن کوہن کا کہنا ہے کہ پروٹوکول کے 160 پیرے یا تقریباً چالیس فیصد حصہ براہ راست جولی کی کتاب سے لے لیا گیا ہے۔ پریس کے بارے میں پروٹوکول کا اقتباس درج کیا جا چکا ہے۔ اب دیکھیں ڈائیلاگ میں میکیاولی کیاکہتا ہے: ''میں ہرپارٹی کے لیے رسالہ نکالوں گا۔ ارسٹوکریٹک پارٹی کے لیے ارسٹوکریٹک رسالہ، ریپبلکن پارٹی کے لیے ریپبلکن، انقلابی پارٹی کے لیے انقلابی اور ضروری ہوا تو انارکسٹوں کے لیے انارکسٹ رسالہ۔ وشنو دیوتا کی طرح میرے پریس کے سوبازو ہوں گے۔ ان کا ہر ہاتھ عوام کی نبض پرہو گا۔

''جس شخص نے ڈائیلاگس کو پروٹوکولز میں تبدیل کیا اس نے ترتیب بدلنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ اگست 1921ء میں ٹائمز میں تین قسطوں میں آیوز کا مضمون ''پروٹوکولز کا خاتمہ'' کے عنوان سے شائع ہوا۔ لیکن مختلف ممالک میں سیاسی مقاصد کے لیے ابھی تک اس کے ترجمے شائع ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پروٹوکولز کی جعلسازی کب ، کس نے اور کیوں کی؟

زوربیک کی کہانی بیان کی جا چکی ہے کہ مسودہ کس طرح روس پہنچا اور سر گئی نائلوس نے شائع کیا۔ خود نائلوس نے مختلف دعوے کیے ہیں۔ 1905ء کے ایڈیشن میں اس نے لکھا کہ یہ ایک بڑی دستاویز کا حصہ ہے جو فرانس میںصیہونیوں کے آرکائیوز سے نکالا گیا ہے۔ 1911ء کے ایڈیشن میں اس نے لکھا کہ یہ اصل دستاویز ترجمہ ہے جو ایک خاتون نے فرانس میں ایک فری میسن لیڈر سے خفیہ معلومات کے دوران چرایا۔ یعنی باسل کانگریس، فرینکفرٹ میں نقل نویسی کا حصہ ختم اور ایک فاحشہ کی چوری باقی رہ گئی۔ یقینی بات ہے کہ پروٹوکولز کے دوسرے ایڈیشنوں میں نصف درجن سے زیادہ مختلف جگہوں سے انہیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ امریکی سفارت کار اور صحافی ہرمن برنمسٹین کی تحقیق کے مطابق زار روس کی خفیہ پولیس کے پیرس میں متعین ایک افسر آئیوانووچ راچکووسکی نے ''پروٹوکولز'' ان کتابوں کی مدد سے تیار کیے تھے جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اسی شخص نے پلیخانوف کے جعلی خط بھی تیار کیے تھے۔ 1934ء میں سوئیٹرزلینڈ میں پروٹوکولز شائع کرنے والے پبلشرز کے خلاف مقدمے میں جولی، نائلوس، گوئیدس جے اور راچکووسکی کے بارے میں مواد عدالت کے سامنے رکھا گیا۔ عدالت کے سربراہ جج نے کہا ''مجھے توقع ہے کہ ایک دن آئے گا جب کوئی شخص نہیں سمجھ سکے گا کہ اتنے معقول اور سمجھ دار لوگوں کو چودہ دن تک اس بات پر کیوں دماغ کھپانے پڑے کہ پروٹوکول آف زئین اصلی ہے یا گھڑی گئی ہے۔ میں پروٹوکولز کو مضحکہ خیز اور واہیات سمجھتا ہوں۔''
"The Role of the Conspiracy theory in Shaping modern History"
: DAVID AARONOVITH از

No comments:

Post a Comment