Friday, 1 March 2013

لفظ نجد کی تحقیق



لفظ نجد کی تحقیق

نجد مصدر ہے، اس کے معنی بلندی کے ہیں، ہر اونچی اورممتاز چیز کو نجد کہا جاسکتا ہے، سطح مرتفع کو بھی نجد کہتے ہیں، قاموس میں ہے:
"ان النجد ما اشرف من الارض"۔    
(قاموس:۱/۳۴۰)
ترجمہ:نجد زمین کی بلند سطح کو کہتے ہیں۔
مدینہ شریف سے مشرق کی طرف عراق ہے جو سطح مرتفع ہے، یہ کسی خاص علاقے کا نام نہیں، عرب ہر اونچی جگہ کو نجد کہہ دیتے تھے،مدینہ والوں کا نجد بادیہ عراق اوراس کے مضافات ہی ہیں، پس جن احادیث میں عراق یا مشرق کی بجائے لفظ نجد وارد ہے ان میں نجد سے مراد عرب کا صوبہ نجد نہیں جس کے رہنے والے نجدی کہلاتے ہیں؛ بلکہ اس سے مراد نجد عراق ہے، حافظ ابن حجرعسقلانیؒ علامہ خطابی سے نقل کرتے ہیں:
"نجد من جهة المشرق ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها وهي مشرق أهل المدينة وأصل النجد ما ارتفع من الأرض وهو خلاف الغور فإنه ما انخفض منها"۔
(فتح الباری لابن حجر، باب قولہ باب قول النبی  ،حدیث نمبر:۶۶۸۱)
ترجمہ:نجد عراق کی طرف سے اوراہل مدینہ کے لیے نجد بادیہ عراق اوراس کے مضافات ہیں اور یہ اہل مدینہ سے مشرق کی جانب ہے اورنجد دراصل زمین کی سطح مرتفع کا نام ہے اوریہ لفظ غور(پستی) کے برعکس ہے،غور پستی کو کہتے ہیں۔
علامہ عینی (۸۵۵ ھ) لکھتے ہیں:
"إنما أشارصلی اللہ علیہ وسلم إلى المشرق لأن أهله يومئذ كانوا أهل كفر فأخبر أن الفتنة تكون من تلك الناحية وكذلك كانت وهي وقعة الجمل ووقعة صفين ثم ظهور الخوارج في أرض نجد والعراق وما وراءها من المشرق كان يحذر من ذلك ويعلم به قبل وقوعه وذلك من دلالات نبوته قوله صلی اللہ علیہ وسلم"۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،باب قول النبی  ،حدیث نمبر:۷۰۹۲)
ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا؛ کیونکہ اہل مشرق اس دن اہل کفر تھے، آپ  نے پیشن گوئی فرمائی کہ فتنے اسی کونے سے اٹھیں گے اور ایسے ہی ہوا، جنگ جمل، جنگ صفین اور پھر ظہور خوارج کے واقعات، نجد، عراق اوراس کے مشرقی حصوں میں پیش آئے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں خبر دار فرماتے تھے اوران کے واقع ہونے سے پہلے نشاندہی فرماتے تھے جو آپ   کی نبوت کے واضح دلائل میں سے ہے۔
 تاریخ گواہ ہے کہ جتنے اعتقادی فتنے اٹھے سب عراق سے نکلے، معبد الجہنی نے تقدیر کا انکار بصرہ(عراق) میں ہی کیا تھا، جنگ جمل وہیں لڑی گئی، حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بیوفائی انہی عراق والوں نے کی اور سانحہ کربلا بھی یہیں پیش آیا۔
حضور   کافرمانا کہ ادھر سے فتنے اٹھیں گے واقعات نےتصدیق کردی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع وحی قرآن سے ملی ہو،اس پر کوئی آیت گواہ نہیں، پس اس یقین سے چارہ نہیں کہ آپ کو یہ اطلاع بذریعہ حدیث دی گئی تھی، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے غیب کی خبریں کیسے دے سکتے تھے، معلوم ہوا کہ آپ جب بھی کلام فرماتے وحی جلی ہو یا وحی خفی آپ   کی ہر بات احکام کی قبیل سے ہو یا اخبار کی قبیل سے خدا کی طرف سے ہی ہوتی تھی۔

No comments:

Post a Comment