============================
فتویٰ نویسی کا تاریخی ارتقاء
پیش آمدہ واقعات کے بارے میں دریافت کرنے والے کو دلیل شرعی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بارے میں خبر دینے کو فتویٰ کہتے ہیں(۱)۔فتویٰ لغوی اعتبار سے اسم ِ مصدر ہے اور اس کی جمع ”فتاویٰ“ہے، اس کا مادہ (ف۔ت۔ی)ہے۔
قرآنِ کریم میں لفظ فتویٰ اپنے مشتقات کے اعتبارسیمختلف مقامات پر اکیس بار استعمال ہوا ہے۔ ان میں سے دسمقامات پر تو یہ لفظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے؛ جبکہ گیارہ مقامات پر یہ لفظ تحقیق و تدقیق کے معنوں میں آیا ہے۔
احادیث مبارکہ میں بھی یہ لفظ بکثرت استعمال ہواہے۔ان احادیث مبارکہ میں یہ لفظ اپنے اصطلاحی معنوں میں مستعمل ہے۔فتویٰ دینے والے شخص کو مفتی(۲)فتویٰ لینے والے کو مستفتی(۳) اورسوال کو استفتاء کہتے ہیں(۴)۔
فتویٰ ایک اہم ذمہ داری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مفتی شارع کے نائب کی حیثیت سے دینی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر فتویٰ نویسی کے اصول وقواعد کو باقاعدہ فن کی شکل دی گئی اور اس فن کو ”رسم المفتی“سے تعبیر کیاگیا۔
فتویٰ مسلم معاشرہ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اس کی اساس قرآن کریم کی درج ذیل آیت ہے:
فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۵)
ترجمہ: پس اگر تمہیں معلوم نہ ہوتو علم والوں سے پوچھ لو۔
قرآن کریم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:
لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ(۶)
ترجمہ:” آپ بیان کردیجیے لوگوں کے سامنے وہ چیز جو ان کی طرف نازل کی گئی “۔
یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں فتویٰ نویسی کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے؛ چونکہ ایک مسلمان کو دینی اوردنیاوی معاملات میں جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ اس لیے مسلم معاشرہ میں اس کی موجودگی ضروری ہوجاتی ہے ۔نبی کریم کے دور سے لے کر اب تک علماء نے اس اہم ذمہ داری کو نبھایا اور ا س کے اصول ،شرائط اور آداب پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ابن الصلاح کے مطابق افتاء کے لیے مرد ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ مرد، عورت،غلام حتیٰ کہ گونگا شخص بھی فتویٰ دے سکتا ہے(۷)۔ چنانچہ نبی کریم کے زمانے میں ازواج مطہرات فتویٰ دیا کرتی تھیں۔شیخ سعید فائز الدخیل نے حضرت عائشہکے تمام فتاویٰ جات کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے(۸)۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب ”بدائع الصنائع“کے مولف علامہ علاؤ الدین کا سانی کی اہلیہ فاطمہ فتویٰ دیا کرتی تھیں(۹)۔ اسی طرح ڈاکٹر عمررضا کحالہ نے” أعلام النساء“ میں فتویٰ دینے والی عورتوں کی کافی تفصیل فراہم کی ہے(۱۰)۔
مفتی اور قاضی کو عام طورپر مترادف سمجھا جاتا ہے؛ لیکن ان میں فرق ہے۔ شیخ وہبةالزحیلی کے مطابق مفتی اور قاضی میں محض اتنا فرق ہے کہ
”مفتی اطلاع دینے والا اور قاضی اسے لازم کرنے والاہوتا ہے“(۱۱)۔
چنانچہ مفتی کے فتویٰ کی حیثیت عمومی ہوتی ہے؛ جبکہ قاضی کا فیصلہ ایک خاص واقعہ سے متعلق ہوتا ہے۔ لیکن یہ دونوں خوبیاں ایک شخص میں اکٹھی بھی ہوسکتی ہیں۔جیسا کہ عہدصحابہ میں بعض صحابہ فتویٰ بھی دیتے تھے اور قاضی بھی تھے۔
فتاویٰ دراصل مسلم معاشرہ کے اقتصادی ،معاشی ،سیاسی اور سماجی مسائل کے عکاس ہوتے ہیں۔ ان سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایک مخصوص معاشرہ کے لوگ ایک مخصوص وقت اور حالات میں کن مسائل کا شکار تھے؟ معاشرتی تغیرات اور علمی وفکری اختلافات کی نوعیت کیا تھی؟ ان مسائل کے حل کے لیے اس دور کے اہلِ علم نے کس نہج پر سوچ وبچار کی اور کن اصولوں کو پیش نظر رکھا ؟ نیز ان فتاویٰ نے مسلم معاشرہ پر کتنے گہرے اثرات مرتب کیے؛چنانچہ امام مالک ،امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل،امام مالک،ابن تیمیہ اور برصغیر میں شاہ عبدالعزیز دہلوی کے فتاویٰ نے مسلم معاشرہ پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔بہت سے علماء کے فتاویٰ انقلابی اور فکری تحریکات کا باعث بنے۔
تاہم بعض فتاویٰ مسلم معاشرہ میں فکری انتشار کا باعث بھی بنے اور یہ عمل برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کے بعد شروع ہوا۔یہی وجہ ہے کہ بارہ سو سال میں اتنے فتاویٰ نہیں دیے گئے جتنے برصغیر کے دوسوسالہ غلامی کے زمانے میں جاری کیے گئے۔ اس دور میں ہمیں فتاویٰ میں شدت پسندی نیز مسلکی وسیاسی تکفیر کا عنصر بڑا واضح طور پر نظر آتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں فقہ وفتاویٰ سے متعلق جملہ امور آپ کی ذات سے وابستہ تھے۔طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تو مسلمان آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف رجوع کرتے؛ کیونکہ جملہ امور میں آپ ہی شارحِ اسلام اور مرجعِ خلائق تھے۔
صحابہٴ کرام ہر اہم مسئلہ میں آپ کی جانب متوجہ ہوتے۔صحابہٴ کرام کے ان سوالات کے جوابات اکثر قرآنی آیات کی صورت میں نازل ہوئے۔ اس حوالہ سے قرآن کریم نے درج ذیل اصطلاحات استعمال کی ہیں۔
یَسْتَفْتُوْنَکَ ”آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں“۔
یَسْئَلُوْنَکَ ” آپ سے سوال کرتے ہیں“۔
قرآن کریم میں یہ الفاظ سترہمختلف مقامات پر استعمال ہوئے ہیں(۱۲)۔جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ان پوچھے گئے امور کی وضاحت بھی دراصل آپ کے فرضِ منصبی میں شامل تھا۔ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے:
لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ(۱۳)
ترجمہ:”آپ بیان کردیجیے لوگوں کے سامنے وہ چیز جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے“۔
بعض اوقات صحابہٴ کرام کے سوالات کے جوابات نبی کریم اپنے ارشادات سے بھی دیتے تھے؛ چنانچہ کتبِ حدیث اور کتب سیرت میں ان پوچھے گئے سوالات کے جوابات ملتے ہیں۔ نبی کریم کے عہد میں تحریر ی وتقریری دونوں طرح سے فتویٰ دیا جاتا تھا(۱۴)۔حضرت عمر نے ایک بدوی کو اس بناء پر قتل کردیا تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ لے کر دوبارہ حضرت عمر سے اس پر نظر ثانی چاہتا تھا۔
علماء کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتاویٰ کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی کوشش بھی کی ہے؛چنانچہ علامہ ابن قیم جوزی نے اپنی کتاب ”اعلام الموقِّعین“میں نبی کریم کے بارہ سو فتاویٰ کو جمع کیا ہے(۱۵)۔اسی طرح مولانا سید اصغر حسین دیوبندی نے”فتاویٰ محمدی مع شرح دیوبندی“ میں نبی کریم کے کل ایک سو بیس فتاویٰ مع ترجمہ اکٹھے کیے ہیں(۱۶)۔
نبی کریم کے عہد کے ان فتاویٰ پر علامہ ابن قیم کا تبصرہ یہ ہے کہ
”آپ کے فتوے جامعِ احکام اور فیصلہ کن ارشادات پر محیط ہوا کرتے تھے۔ یقیناپیروی کے اعتبار سے کتاب اللہ کے بعد دوسرا درجہ آپ کے فتاویٰ کا ہے اور مومنین کے لیے کسی بھی صورت میں ان سے انحراف ممکن نہیں“(۱۷)۔
آج کل فتویٰ دینے کا جو طریقہ ہمارے ہاں رائج ہے، وہ صرف جائز و ناجائز اور حلال وحرام کی صراحت کردینے کا نام ہے؛ لیکن نبی کریم کا اسلوب افتاء اس سے مختلف تھا۔ اگرچہ آپ کا قول بذات خود حجت تھا؛ مگر آپ پیش آمدہ مشکلات کے حل کی وضاحت اور اس کی علت بھی بتا دیتے تھے۔ اس حوالہ سے شیخ محمد شفیق العانی فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے جو فتاویٰ اپنی زندگی میں صادر فرمائے۔وہ جامع ترین احکام پر مشتمل تھے اور مسائل کے استنباط کے سلسلے میں سرچشمہ کی حیثیت رکھتے تھے“(۱۸)۔
نبی کریم کے بعد صحابہٴ کرامبالخصوص خلفاء راشدین کا عہد فتویٰ نویسی کے حوالے سے اہم ہے۔ خلفاء راشدین کے ان احکامات، مکاتیب اور فتاویٰ جات کو پروفیسر خورشید احمد فاروق نے چار الگ الگ جلدوں میں شائع کیا ہے۔
صحابہٴ کرام کے دور میں کئی جدید مسائل سامنے آئے جن پر غور وخوض کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس دور میں قرآن وسنت کے علاوہ اجماع اور قیاس کا اضافہ ہوااور اجماع کو منظم شکل دی گئی اور رائے کے استعمال کے لیے فقہی قواعد واصول منضبط ہوئے۔
اس دور میں فتووں کے حوالے سے صحابہٴ کرام میں اختلاف بھی رونماہوا۔ مولانا تقی امینی نے صحابہٴ کرام کے اختلافات کے درج ذیل اسباب بیان فرمائے ہیں۔
(۱) قرآن کریم کو سمجھنے میں اختلاف
(۲) حدیث کی لاعلمی کی وجہ سے اختلاف
(۳)حدیث کے قبول کرنے میں اختلاف
(۴)رائے کی وجہ سے اختلاف(۱۹)
صحابہٴ کرام میں چار طرح کے لوگ تھے۔
پہلا طبقہ: صحابہٴ کرام کا پہلا طبقہ وہ ہے جن سے بہت زیادہ فقہی مسائل منسوب ہیں۔ یہ حضرات خلفاء راشدین ہیں۔
دوسرا طبقہ: یہ طبقہ متخصصین کا ہے۔ ا س طبقہ کو فقہی حوالے سے بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ ان میں عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل،ابو موسیٰ اشعری اور زید بن ثابت وغیرہ شامل ہیں۔
تیسرا طبقہ: یہ طبقہ مکثرین کا ہے یعنی جن سے بہت زیادہ اجتہادات اور فتاویٰ منقول ہیں۔
چوتھا طبقہ: یہ طبقہ مقلین کا ہے ۔ان لوگوں سے بہت کم فتاویٰ منقول ہیں(۲۰)۔
اس دور میں استنباط صر ف ان فتووں تک محدود تھا جو وہ لوگ دیتے تھے؛ جن سے کسی واقعہ کے متعلق سوال کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ مسائل کے اثبات اور ان کے جوابات میں بہت زیادہ پاؤں نہیں پھیلاتے تھے؛ بلکہ اس کو مکروہ سمجھتے تھے ۔ اور جب تک کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوجاتا اس کے متعلق اپنی رائے ظاہر نہیں کرتے تھے؛ البتہ جب مسئلہ پیدا ہوجاتا تھا تو اس کے لیے استنباط حکم میں اجتہاد کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ کبارِ صحابہ سے جو فتوے منقول ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے۔
صحابہٴ کرام کے فتاویٰ کے حوالے سے علامہ خضری لکھتے ہیں کہ:
”اس دورمیں فتاویٰ زیادہ تر زبانی روایت ہوتے رہے؛لیکن بعض فتاویٰ تحریر میں بھی آئے، جن میں سے بعض تو وہ تھے جو خلفاء راشدین کے سرکاری احکام کی شکل میں قلمبند ہوکر مختلف دیاروامصار کو ارسال ہوتے رہے اور بعض فتاویٰ انفرادی کوششوں سے بھی قلمبند کیے گئی“(۲۱)
صحابہٴ کرام فتویٰ نویسی میں کمالِ احتیاط ملحوظ رکھتے تھے۔ وہ اپنی رائے کا اظہار کم سے کم کرتے تھے۔ ہر مسئلہ قرآن وسنت اور اجماع کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
صحابہٴ کرام کے بعد تابعین اور تبع تابعین کا دور آتا ہے۔ اس دور میں منصبِ افتاء اجلہٴ تابعین کے سپرد رہا۔ ان میں سے بعض تو ایسے بزرگ بھی تھے جو صحابہٴ کرام کی موجودگی میں بھی فتویٰ دیتے تھے۔ مثلاً سعید بن المسیباور سعید بن جبیر وغیرہ(۲۲)۔
تابعین اور تبع تابعین نے صحابہٴ کرام کے فقہی افکار اور فتاویٰ کی روشنی میں اس کو باقاعدہ ایک فن کی شکل دیدی۔ اسی دور میں صحابہٴ کرامکے شاگردانِ رشید نے ان کی آراء اور فتاویٰ کو عام کیا اور بہت سے فقہی مکاتب و مالک وجود میں آئے۔ ا س دور کے بچ جانے والے فقہی مسالک کو مجتہدین کا دور کہا جاتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔
۱- فقہ حنفی (امام ابو حنیفہ) ۵- فقہ جعفری (امام جعفر صادق )
۲- فقہ شافعی (امام شافعی) ۶- فقہ اباضی (امام عبداللہ بن اباض)
۳- فقہ مالکی (امام مالک ) ۷-فقہ ظاہری (امام داؤد ظاہری)
۴- فقہ حنبلی (امام احمد بن حنبل) ۸-فقہ اوزاعی (امام اوزاعی)
ان تمام حضرات میں سے اولین چار فقہاء کو شہرت حاصل ہوئی۔
ان میں سے امام ابوحنیفہ نے فتویٰ نویسی کے حوالے سے اجتماعی رائے کو ترجیح دی ۔ انھوں نے چالیس فقہاء کی ایک مجلس قائم کی جو باہمی غوروخوض کے بعد مسئلہ کا حل تلاش کرتی اور پھر اس مسئلہ کو لکھ لیا جاتا ۔امام صاحب کی اس مجلس نے بڑی تعداد میں فتاویٰ اکھٹے کیے۔ اما م صاحب کے دور میں کوفہ میں تین بڑے فقہیہ بھی موجود تھے جو درج ذیل ہیں۔
(۱) سفیان بن سعید ثوری
(۲) شریک بن عبداللہ نخعی
(۳) عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ
ان حضرات سے فقہی آراء اور فتاویٰ کے حوالے سے اما م صاحب کی علمی بحث چلتی رہتی تھی۔ اس دور کی فتویٰ نویسی اور اس دور کے علماء کے علمی اور فکری اختلافات اور دالائل وبراہین دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔بہرحال امام صاحب کے فقہی افکار میں تنوع اور گہرائی پائی جاتی ہے۔وہ ان مسائل پر بھی غور وفکر کرنے اور کسی نتیجہ میں پہنچنے کے عادی تھے جو ابھی معرضِ وجود میں ہی نہ آئے تھے۔
امام شافعی نے بھی اصولِ فقہ کے موضوع پر پہلی کتاب ”الرسالة“ تحریر کی نیزاپنے فتاویٰ کو پہلے ”الحجہ“ اور پھر ”کتاب الام“ میں جمع کیا۔ امام شافعی کے انتقال سے چار سال قبل کے فتاویٰ ان کی کتاب ”الحجہ“ میں منقول تھے جو نایاب ہے؛ مگر بعد میں آپ نے اپنے قدیم فتاویٰ پر غورو فکر کیا اور انھیں ”کتاب الام“ کی چار جلدوں میں لائے۔ ان کے پہلے فتاویٰ کو قولِ قدیم اور بعد کے فتاویٰ کو قولِ جدید کہتے ہیں۔
امام مالک بھی حدیث اور فقہ کے امام تھے۔ ان کی کتاب ”الموطاء“ احادیثِ مبارکہ اور ان کے فقہی افکار کا مجموعہ ہے۔ وہ فتویٰ دینے کے حوالے سے اگر چہ بہت محتاط تھے؛ مگر ان کے فتاویٰ کا کافی بڑا ذخیرہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔
امام احمد بن حنبل نے اگر چہ مسند امام حنبل کی تدوین کی؛ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے فقہی افکار کا ایک بڑا مجموعہ بھی ہے۔ امام صاحب اپنے اقوال و آراء اور فتاویٰ کے لکھنے کے سخت مخالف تھے؛ مگر ان کے شاگرد جیش بن سندی نے دو جلدوں میں ان کے فتاویٰ اور مسائل جمع کیے اور ابو بکر خلال نے بھی ”الجامع الکبیر“کی بیس جلدوں میں ان کے مسائل اکٹھا کیے۔
ائمہٴ مجتہدین کے دور میں فتویٰ نویسی کے حوالے سے اجتہاد سے کام لیا جاتا تھا ۔ مسائل کی کثرت اور سلطنت کی وسعت نے جدید مسائل پر غور و خوض کرنے پر امادہ کیا۔ اصول فقہ کی تدوین بھی اسی دور میں ہوئی ۔ اس دور میں قیاس اور استحسان کو ماخذِشریعت قرار دینے پر اختلاف ہوا۔ اسی اختلاف کے نتیجے میں اہل الرائے اور اہل الحدیث کے مکاتب وجود میں آئے۔
ائمہٴ مجتہدین کے اس دور میں اگر چہ اختلافات سامنے آئے؛ لیکن ان فقہی اختلافات میں اس درجہ شدت نہیں تھی کہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام نہ کیا جائے ۔
امام بغوی نے اپنے فتاویٰ خود جمع کیے اور ان کی زندگی ہی میں قاضی حسین نے ان سے مزیدفتاویٰ حاصل کیے اور ان پر تعلیقات لکھیں(۲۳)۔ اسی طرح علامہ سُبکی نے بھی دو جلدوں میں فتاویٰ اکٹھا کیے۔ علامہ جلال الدین سیوطینے بھی ”الحاوی للفتاویٰ“ کے نام سے اپنے فتاویٰ کتابی شکل میں جمع کیے ۔ اس دور کے فتاویٰ میں تجدید احیائے دین کے مسائل پر غور وخوض ہوا۔بروکلمان نے تاریخِ ادبیات میں تیسری صدی ہجری سے گیارہویں صدی ہجری تک کے ایک سو دوعربی مجموعہ ہائے فتاوی کی فہرست دی ہے(۲۴)۔
اس دور میں سلطنتِ عثمانیہ کے زیر سایہ ایک جامع فقہی کتاب مرتب کی گئی جس کا نام ”مجلة الأحکام العدلیہ“ رکھا گیا۔ سلطنت عثمانیہ نے اسے ملکی قانون کے طور پر رائج کردیا ۔ اس کتاب میں تمام فقہاء کے فقہی افکار سے استفادہ کیا گیا ۔ اس کا آغاز۱۸۵۶ء میں ہوا اور ۱۸۷۶ء میں یہ کام مکمل ہوگیا ۔ اس کتاب کو سولہ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور جملہ فقہی مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، یہ سلطنتِ عثمانیہ کا پہلا مدون قانون تھا جو فقہ اسلامی سے بالعموم اور فقہ حنفی سے بالخصوص ماخوذ تھا(۲۵)۔ اس کام کے بہت دور رس نتائج برآمد ہوئے اور فقہ اسلامی ایک جدید دور میں داخل ہوگئی۔ اس حوالہ سے ڈاکٹر محموداحمد غازی لکھتے ہیں:
”جب بیسیویں صدی کا آغاز ہوا تو ”مجلة الأحکام العدلیہ“ پوری سلطنتِ عثمانیہ کی حدود مشرقی یورپ کے کئی ممالک ، ترکی، وسط ایشیاء کا کچھ حصہ ، عراق ، شام ، فلسطین ، لبنان ، الجزائر ، لیبیا ، تیونس اور جزیرہ عرب کے بعض علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ گویا ۱۸۷۶ء سے لے کر ۱۹۲۵ء تک کا زمانہ ”مجلة الأحکام العدلیہ“کی حکمرانی کا زمانہ تھا“(۲۶)۔
انگریز کے نو آبادیاتی نظام نے عرب ممالک کو فقہی قانون سازی پر توجہ دلائی؛ چنانچہ استاد عبدالقادر عودہ نے ”التشریع الجنائی الاسلامی“ نامی کتاب لکھی ۔ اسی طرح استاد مصطفی احمد زرقا نے بھی ایک زبردست کام کیا۔ انھوں نے الموسوعة الفقہیہ“ نام کافقہی انسائیکلوپیڈیا تیار کیا، جسے پینتالیس جلدوں میں کویت کے وزارتِ اوقاف نے شائع کیا۔ یہ کام چالیس سال کی محنت کے بعد مرتب ہوا۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ”اسلامی فقہ اکیڈمی“ انڈیا سے شائع ہورہا ہے۔ اسی طرز کا ایک موسوعہ مصر نے بھی شائع کیا ہے جو دس جلدوں میں شائع ہوا ہے۔
خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اگر چہ ”مجلة الأحکام العدلیہ“ کا اثر کم ہوگیا ؛مگر ”فتاویٰ عالمگیری“ کے بعد اس جیسا منظم کام دوبارہ نہیں ہوا(۲۷)۔
برصغیر میں فتویٰ نویسی کا سلسلہ چوتھی صدی ہجری کے بعد شروع ہوا۔ جب اس براعظم میں آزاد سلطنتیں قائم ہوئیں تو فتووں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ جگہ جگہ مساجد و مدارس قائم ہوئے اور علماءِ کرام نے باقاعدہ فتویٰ نویسی کا آغاز کیا۔ مسلمانوں سے غیر مسلموں نے بھی استفسارات کیے ہیں؛ چنانچہ اس قسم کے استفسارات کا حال بزرگ بن شہریار کی کتاب ”عجائبُ الہند“ سے معلوم ہوتا ہے(۲۸)۔
ہندوپاک کے مسلمان بادشاہوں کو فقہ اسلامی سے خاص دلچسپی تھی ۔ سلطان محمود غزنوی زبردست فقیہ تھے۔ انھوں نے ”التفرید فی الفروع“ نامی کتاب لکھی جس میں فتاویٰ اور فقہی مسائل ذکر کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ظہیر الدین بابر# نے بھی اصول مذاہب پر ایک کتاب لکھی تھی(۲۹)۔
ان مسلمان بادشاہوں نے درج ذیل کتبِ فتاوی میں خصوصی دلچسپی لی:
(۱) فتاویٰ فیروزشاہی (۲) فتاویٰ ابراہیم شاہی (۳) فتاویٰ اکبر شاہی
(۴) فتاویٰ عادل شاہی (۵) فتاویٰ تاتار خانی (۶) فتاویٰ عالمگیری
فتاویٰ عالمگیری کو ان سب میں زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔ یہ کتاب اصلاً عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔بعد میں عالمگیر نے مولانا عبداللہ رومی سے اس کا فارسی ترجمہ کروایا۔ اس کتاب کااردو ترجمہ مولانا امیر علی لکھنوی نے ”فتاویٰ ہندیہ“ کے نام سے کیا(۳۰)۔
ان فتاویٰ کی اہم بات یہ ہے کہ یہ فتاویٰ ایک آزاد ریاست میں اجتماعی مفادات اور ملکی قانون کے طور پر مرتب کیے گئے تھے۔ اس کے بعد برصغیرمیں انگریزوں کے تسلط نے مسلم پرنسل لا کی بنیاد رکھی۔ اس دور میں نجی فتووں کی بنیادیں بھی مضبوط ہوئیں۔ ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری اس حوالے سے لکھتے ہیں :
”نجی فتووں کے زیادہ ترمجموعے اس وقت نظر آتے ہیں جب مسلمان دورِ غلامی میں داخل ہوئے؛ چنانچہ۱۸۵۷ء سے کچھ قبل اور بعد میں مختلف زبانوں میں عموماً اور اردو زبان میں خصوصاً اس قسم کے مجموعوں کا پتہ چلتا ہے“(۳۱)۔
برصغیر ہندوپاک میں جو فتاویٰ مرتب ہوئے وہ اکثر حنفی علماء کے ہیں، اگر چہ جنوبی ہندوستان میں اس حوالے سے شافعی علماء کا بھی کام موجود ہے؛ مگر وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ذیل میں ہم برصغیر کے چندعلماء کے فتاویٰ کی فہرست دیتے ہیں:
(۱) فتاویٰ عزیزی (شاہ عبدالعزیز دہلوی) (۲) مجموعة الفتاویٰ (عبدالحی لکھنوی)
(۳) جامع الفتاویٰ (عبدالفتاح حسینی نقوی) (۴) فتاویٰ مسعودی (مسعود شاہ دہلوی)
(۵) فتاویٰ رشیدیہ (رشیدیہ احمد گنگوہی) (۶) فتاویٰ ارشادیہ (ارشاد حسین رامپوری)
(۷) فتاویٰ محبوبیہ (احمدحسین خان امروہی) (۸) فتاویٰ قادریہ (مولانا عبدالقادر)
(۹) فتاویٰ عثمانی (مظہر الحق انصاری) (۱۰) فتاویٰ عثمانی(سید منور الدین)
(۱۱) مجموعہٴ آگرہ (نواب صدیق حسن خان) (۱۲) فتاویٰ بے نظیر(عبدالغفار لکھنوی)
(۱۳) فتاویٰ نظامیہ اُندراویہ (نظام الدین اعظمی)(۱۴) نظام الفتاویٰ (نظام الدین اعظمی)
(۱۵) فتا ویٰ نظامیہ (نظام الدین حنفی) (۱۶) فتاویٰ مظاہرعلوم (خلیل احمد سہار نپوری)
(۱۷) امداد الفتادیٰ (اشرف علی تھانوی) (۱۸) کفایت المفتی (کفایت اللہ دہلوی)
(۱۹) عزیز الفتاویٰ (عزیز الرحمن عثمانی) (۲۰) امداد الاحکام (ظفر احمد عثمانی)
(۲۱) فتاویٰ رحیمیہ (مفتی عبدالرحیم) (۲۲) فتاویٰ محمودیہ (محمود حسن گنگوہی)
(۲۳) کتاب الفتاویٰ (خالد سیف اللہ رحمانی) (۲۴) فتاویٰ عثمانی(محمدتقی عثمانی)
(۲۵) نوادر الفقہ (رفیع عثمانی) (۲۶) فتاویٰ محمود (مفتی محمود)
(۲۷) خیر الفتاویٰ (خیر محمد جالندھری) (۲۸) فتاویٰ رضویہ (احمد رضا خان بریلوی)
(۲۹) فتاویٰ مہریہ (پیر مہر علی شاہ) (۳۰) فتاویٰ حامدیہ (حامد رضاخان)
(۳۱) فتاویٰ امجدیہ (امجد علی اعظمی) (۳۲) فتاویٰ اجملیہ (اجمل قادری رضوی)
(۳۳) فتاویٰ مظہری (مظہر اللہ دہلوی) (۳۴) ریاض الفتاویٰ (ریاض الحسن)
(۳۵) فتاویٰ نعیمیہ (احمد یار خان نعیمی) (۳۶) فتاویٰ نوریہ (نور اللہ بصیر پوری)
(۳۷) ضیاء الفتاویٰ (قاضی محمد ایوب) (۳۸) احسن الفتاویٰ (خلیل احمد برکاتی)
(۳۹) فتاویٰ امینیہ (محمد امین) (۴۰) فتاویٰ اویسیہ (فیض احمد اویسی)
(۴۱) فتاویٰ پاسبانی (مشتاق احمد نظامی) (۴۲) فتاویٰ شیخ الاسلام (حسین احمد مدنی)
(۴۳) جامع الفتاویٰ (مہربان علی) (۴۴) فتاویٰ قاضی (مجاہدالاسلام قاسمی)
(۴۵) فتاویٰ دارالعلوم (مفتی عزیز الرحمن) (۴۶) فتاویٰ ریاض العلو (مفتیان مدرسہ ریاض العلوم گورینی)
ان کے علاوہ بھی بے شمار کتب فتاویٰ ہیں جو یا تو غیر مطبوعہ ہیں یا ایک ہی مرتبہ شائع ہوئے۔یہ تمام فتاویٰ دراصل انیسویں اور بیسویں صدی کی علمی و فکری تحریکات، فسادات، مسلم معاشرت، سائنسی اور صنعتی انقلابات اور انگریزی ثقافت کے اثرات کا بہترین مطالعہ ہیں۔ ان فتاویٰ میں برصغیر کے بیانیہ ادب کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے ۔ اس دور کے مجموعہ ہائے فتاویٰ کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فتاویٰ کا سنہری دور ہے۔
(۱) ہردورکے فتاویٰ میں اس دور کا رنگ نظر آتا ہے ۔
(۲) قرآن و حدیث اور فقہی کتب سے استفادہ کیا جاتا ہے ۔
(۳)اکثرعبارت بلا ترجمہ دی جاتی ہے جو مستفتی کے لیے غیر مانوس ہوتی ہے۔
(۴)جدید مسائل کے حوالے سے بعض فتاویٰ میں لاعلمی کااظہارہے۔
(۵)زبان اور اسلوب کے حوالے سے بھی قدیم فتاویٰ کی پیروی کی جاتی ہے۔
(۶)ان فتاویٰ میں اپنے پیش روفتاویٰ کے حوالے بھی ملتے ہیں۔
عثمانی سلطنت کا زوال مغرب کے عسکری و سیاسی غلبے اور نو آبادیاتی دور کے آغاز کے ساتھ ہوا ۔ اس دوران برصغیراور دیگر کئی ممالک نو آبادیاتی نظام کے زیر تسلط آئے۔ سامراجی طاقتوں نے ان ممالک میں اپنے ملک کے قوانین پبلک لا کے طور پر رائج کیے؛ تاہم ذاتی زندگی میں مسلمان پرسنل لاء کی پابندی کرتے رہے۔ اس طرح کم از کم عائلی زندگی کی حد تک ان کا تعلق اسلامی قانون سے قائم رہا ، یہ کام اس دور کے مفتیان نے سرانجام دیا۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوااور مسلم ممالک نے آزادی کے بعد اس بات کی ضررورت محسوس کی کہ قرآن و سنت کی روشنی میں ملکی قوانین کا جائزہ لیں۔ اس حوالے سے درج ذیل ادارے وجود میں آئے:
(۱) اسلامی نظریاتی کونسل (پاکستان)
(۲) ادارہ تحقیقات اسلامی (پاکستان)
(۳)ہیأةُ کبارالعلماء (سعودی عرب)
(۴)المجمع الفقہ الاسلامی (سعودی عرب)
(۵)اسلامک فقہ اکیڈمی (ہندوستان)
(۶)ادارہ مباحث فقہیہ (جمعیة علماء ہند)
(۷)امارت شرعیہ پھلواری شریف (ہندوستان)
(۸)مجمع البحوث الاسلامیہ (مصر)
(۹) مجمع الفقہ الاسلامی (جنوبی امریکہ)
ان اداروں کے علاوہ بھی کئی دیگر ادارے اس پر کام کررہے ہیں اور جدید مسائل کے حوالے سے ان کے اجتماعی فتاویٰ یعنی قراردادیں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ان اداروں کے باوجود نجی سطح کے فتاویٰ بھی اب دینی مدارس کے تحت لوگوں کی رہنمائی کررہے ہیں جو عدالتی نظام میں کسی حد تک قابلِ قبول ہیں؛ مگر عملی طور پر عدالتی نظام میں ان کا بہت زیادہ کردار نہیں ہے، اس کے باوجود لوگ ان نجی فتاویٰ پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔
دور حاضر میں فتویٰ نویسی کے حوالے سے علماء کو کئی جدید چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1) عقائد وعبادات
قادیانیت،روئیت ہلال،توہین رسالت کی سزا وغیرہ۔
(2) طبی وسائنسی مسائل
خاندانی منصوبہ بندی ،اعضاء کی پیوند کاری ، ٹیسٹ ٹیوب بے بی اور کلوننگ ،ایڈز سے متعلقہ احکام وغیرہ۔
(3)قانون سازی
ملکی قوانین کو اسلامی قانون سے ہم آہنگ کرنا، مثلاً حدود اورر قصاص ودیت کے مسائل ۔
(4) جدید ایجادات
ٹی وی ، انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور دیگر جدید ایجادات کی شرعی حیثیت کا تعین کرنا۔
(5) اقتصادی مسائل
انشورنس،اسٹاک ایکسچینج،کریڈٹ کارڈ، زکوٰة کی ادائیگی کا مسئلہ ، سود اور بینکاری کی شرعی حیثیت کا تعین کرنا۔
(6) عائلی زندگی
عائلی زندگی سے متعلق احکام یعنی نکاح ، طلاق ، خلع اور وراثت کے مسائل وغیرہ۔
حوالہ جات
(۱) شیخ حسین محمد ملاح، الفتویٰ نشاتہا و تطورھا، ج۱، ص۳۹۸،دار الفکر،دمشق۔
(۲)بلیاوی، عبد الحفیظ، مصباح اللغات، ص۶۱۸، قدیمی کتب خانہ کراچی۔
(۳)فیروز الدین، فیروز اللغات، ص۹۱، فیروز سنز لاہور۔
(۴)مصباح اللغات، ص۶۱۸۔
(۵)الانبیاء :۷۔
(۶)النحل:۴۴۔
(۷)ابن صلاح، ادب المفتی و المستفتی، ص۴۲، میر محمد کتب خانہ کراچی۔
(۸)سعید فائز الدخیل، موسوعہ فقہ عائشہ ام المومنین، دار النفائس، بیروت،۱۹۸۹ء۔
(۹)محمود احمد غازی، ڈاکٹر، محاضرات فقہ،۴۹۳، الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور۔
(۱۰)کحالہ، عمر رضا، اعلام النساء فی عالم الادب والاسلام، موعة الرسالة، بیروت۔
(۱۱)وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ج۱، ص۴۹، دار الفکر، دمشق۔
(۱۲)فواد عبد الباقی، المعجم المفہرس لا لفاظ القرآن الکریم،ص۹۹۶، قدیمی کتب خانہ کراچی۔
(۱۳)النحل:۴۴۔
(۱۴)ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ)، مارچ۱۹۹۸ء، ص۸۶۔
(۱۵)ملاحظہ ہو ”اعلام الموقعین عن رب العالمین“ عنوان ”فتاویٰ امام المتقین۔“
(۱۶)یہ فتاویٰ ۱۹۰۷ء میں اردو ترجمہ کے ساتھ اعزازیہ کتب خانہ دیوبند نے شائع کیے۔
(۱۷)الجوزی، ابن قیم، اعلام الموقعین، ج۱، ص۱۴، مکتبہ نزار مصطفی الباز، مکہ مکرمہ۔
(۱۸)العانی محمد شفیق، الفقہ الاسلامی، ص۶، مطبع البیان العربی، ۱۹۶۵ء۔
(۱۹)ماہنامہ دار العلوم(دیوبند)، جنوری ۲۰۱۲ء، ص۸۔
(۲۰)امینی، محمد تقی، فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۴۳، قدیمی کتب خانہ کراچی۔
(۲۱)محاضرات فقہ، ص ۲۲۳۔
(۲۲)الخضری، محمد، تاریخ التشریع الاسلامی، ص۳۲، قاہرہ۱۹۶۵ء۔
(۲۳)تاریخ التشریع الاسلامی، ص۱۳۳۔
(۲۴)معارف(اعظم گڑھ)، فروری ۱۹۹۸ء ص۹۰۔
(۲۵)محاضرات فقہ، ص ۵۲۱۔
(۲۶)محاضرات فقہ ، ص ۵۲۱۔
(۲۷)ایضاً ، ص۵۳۰۔
(۲۸)بزرگ بن شہریار ، عجائب الہند، لیڈن ،۱۸۸۶ء ۔
(۲۹)سید نوشہ علی ، مسلمانان ہندو پاکستان کی تاریخ تعلیم ، ص ۱۷۴،کراچی ۱۹۶۲ء
(۳۰)معارف(اعظم گڑھ)، فروری ۱۹۹۸ء ص۹۴۔
(۳۱)ایضاً ، ص۹۵۔
از: پروفیسر مولانا محمد انس حسان
گورنمنٹ ڈگری کالج جہانیاں، پاکستان
موجودہ دور میں فتویٰ کی اہمیت و معنویت
موجودہ دور علم و فن اورتحقیق و ریسرچ کا ہے، آج دنیا اکتشافاتِ جدیدہ کے میدان میں بہت آگے نکل چکی ہے، مگر ساتھ ہی اس کے اظہار میں بھی ذرّہ برابر تذبذب نہیں کہ دنیا اُس ”نظامِ حیات“ سے کافی دور جا پڑی ہے،جس نے انسان کو انسانیت بخشی،یہ درست ہے کہ انسانی دماغ نے فضا کو محکوم بنا لیا اور زمین کا سینہ چیر کر اس کے خزانے نکال لیے؛ لیکن اسی کے ساتھ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ماڈل اور ترقی یافتہ دور میں نہ اخلاق و اعمال کی پاکیزگی باقی رہی اور نہ عقائد و اعمال کی پختگی،نہ دلوں میں اخلاص و للّٰہت کی روشنی رہی اور نہ سینوں میں امانت و دیانت کی ذمہ داری،مختصر یہ کہ انسان سب کچھ ہے ؛ لیکن جوہرِآدمیت سے محروم ہے،تا ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس تہذیبی اور صنعتی انقلاب کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا،جس طرح انسان ترقی کرتا گیا،اُس کی ضرورتیں بڑھتی اور پھیلتی چلی گئیں، جس نے ایسے بہت سے شرعی مسائل کو جنم دیا جن کا حل صراحتاً قرآن و حدیث اور اقوالِ صحابہ میں موجود نہیں ہے،جب کہ اسلام ایک ہمہ گیر اور دائمی ”نظامِ حیات“ ہے اور اُس نے اپنی اسی شانِ ہمہ گیری اور دوامی حیثیت کی بقا کی خاطر اپنے اندر ایسی لچک اور گنجائش رکھی ہے کہ ہر دور میں اور ہر جگہ ا نسانی ضروریات کا ساتھ دے سکے اور اپنے پیروکاروں کی رہبری کر سکے؛چنانچہ ہر دور میں قرآن و حدیث پر گہری نظر رکھنے والے علماء ربّانیین اور مفتیانِ شرع متین کی ایک ایسی جماعت منجانب اللہ پیدا ہوتی رہی جس نے کتاب اللہ،سنتِ رسول اور دیگر نصوصِ شرعیہ میں باہمی غور وفکر اور عمیق بحث و ریسرچ کے بعد ان نت نئے مسائل کا حل امت کے سامنے پیش کیا؛تاکہ امّت کے تمام افراد دن و رات کے پیش آمدہ مسائل میں کہیں الجھاوٴ میں گرفتار نہ ہو جائیں،بلا شبہ و بلا مبالغہ انھیں مستنبط شدہ احکام و مسائل کا نام ”فتویٰ“ ہے، زمانے کی تبدیلی،احوال کے فرق اور ضرورتوں و تقاضوں کے تحت آنے والے نت نئے پیچیدہ مسائل کا فقہی اُصول و ضوابط کی روشنی میں حل کرنے کا نام ہی تو ”فتویٰ“ ہے ، فقہائے کرام و مفتیانِ عظام نے اپنی شبانہ روز محنت، اپنے فہم و ادراک کا صحیح استعمال اور نہایت ہی دیانت و امانت کے ساتھ سالہا سال نصوص شرعیہ میں باہمی غور و فکر کے بعد” فقہ و فتاویٰ“ کا عظیم الشان تحفہ امت کے حوالے کر دیا،بحث و ریسرچ کا یہ سلسلہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے ،ان حضرات کی محنتوں اور کاوشوں کی جتنی پذیرائی کی جائے کم ہے۔
فتوی کا انسانی زندگی اور معاشرہ سے انتہائی گہرا تعلق ہے،فقہ و فتاوی سے انسانی زندگی کے شب وروز،معاشرہ کے نشیب و فراز میں نہ یہ کہ صرف رہنمائی ملتی ہے؛بلکہ اس سے سماج کو حرکت،حرارت اور اسپرٹ بھی نصیب ہو تی ہے؛مگر یہ انتہائی افسوناک بات ہے کہ آج امت مسلمہ میں اس عظیم الشان، ناگزیر اور نازک ترین دینی شعبہ کے حوالے سے یہ کہہ کر گمراہی پھیلانے کی نامسعود کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اسلام میں”فتویٰ“ کی حیثیت صرف اور صرف ایک رائے کی ہے، جس پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے ضروری و لازم نہیں ہے،کسی کی طرف سے امت کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ”فتوی“ قرآن و حدیث سے الگ ایک چیز ہے،جو غیر واجب العمل ہے،’فتوی‘ مفتی کی اپنی نجی رائے ہے ا ور دینی احکامات سے الگ ایک غیر اہم اور غیر ضروری شئے ہے وغیرہ وغیرہ، الغرض دین کے اس اہم ستون کو جس کی بنیاد خود نبی اکرم … نے رکھی منہدم کرنے اور امت مسلمہ کے قلب و دماغ سے اس کی عظمت ووقعت کو نکالنے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں،اسے اس امت کا المیہ ہی کہا جائے کہ یہ ساری ”بکواس“ کسی غیر کی طرف سے نہیں؛بلکہ اُن دانشورانِ ملت کی طرف سے ہو رہی ہے، جنہیں دین کا” مفکر“ اور ”ماہرِاسلامیات“ جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے․ ”فتویٰ“ کی حیثیت صرف رائے کی ہے ،یہ تھیوری کم علمی اور اسلامیات سے نا واقفیت کی بنیاد پر گڑھی جا رہی ہے، ”فتوی“ در اصل کسی پیش آمدہ مسئلہ میں شرعی حکم بیان کرنے کا نام ہے،”ڈاکٹر شیخ حسین ملّاح“ نے فتوی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ’ ’ پیش آمدہ واقعات کے بارے میں دریافت کرنے والے کو دلیل شرعی کے ذریعہ اللہ تعالی کے حکم کے بارے میں خبر دینے کا نام ”فتویٰ“ ہے (الفتوی و نشأتھاوتطورھا ۱/۳۹۸) تمام مصنّفین نے فتوی کو شریعت کا حکم قرار دیا ہے،خود قرآن کریم میں فتوی کو شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے،( سورة النساء ۴:۱۲۷-۱۷۶)اسی طرح ایک دوسری حدیث میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، (دارمی: ۱/۱۵۷) ” فتوی“ اگر ایک رائے ہے تو وہ مفتی کی کوئی نجی رائے نہیں؛بلکہ شرعی رائے ہے ،جو ہر حالت میں واجب العمل ہے، آپ ہی انصاف کریں کہ اگرکسی سائل نے کسی مفتی سے نماز کے لیے وضو کے بارے میں سوال کیا ، اور مفتی نے وضو کو نماز کے صحیح ہونے کے لیے شرط بتا دیا ،تو کیا مفتی کا یہ فتوی صرف ایک رائے کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا ماننا ہر ایک کے لیے ضروری نہیں ہے؟؟
فتوی کے تاریخی پس منظر کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امت کے سب سے پہلے مفتی خود مفتی الثقلین جناب محمد رسول اللہ … کی ذات گرامی ہیں، آپ نے ”جوامع الکلم“ کی شکل میں فتوے دئے،جو احادیث کی شکل میں ہمارے سامنے موجودہیں، (اِعلام الموقعین: ۱/۱۱) آپ … کی وفات کے بعد صحابہٴ کرام نے اس حسّاس اور ناگزیر شرعی ذمہ داری کو سنبھالا اور احسن طریقے سے انجام دیا،الغرض دورِنبوت سے لے کر دورِ حاضر تک فتوی کی نازک ترین ذمہ داری امت کے فقہا ء کرام و مفتیان عظام کے ذریعہ انجام دی جارہی ہے، ا ن حضرات نے اپنی جانفشانی اور خدا ترسی کے ساتھ حلال و حرام کے جو قواعد و ضوابط مرتب کیے،وہ تاریک رات میں روشن ستاروں کی مانند ہیں،اور امام شاطبی کے بقول یہی حضرات انبیاء کرام کے حقیقی وارث ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مفتی کے لیے تقوی،تفقہ،دیانت و امانت اور بیدار مغزی و زمانہ شناسی جیسی متعدد صفات کا حامل ہونا ضروری ہے، تو اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ وہ کسی بھی پیش آمدہ مسئلہ کے جواب میں احکامِ خداوندی کا ترجمان ہوتا ہے،اُس کے فتوی کو ”رائے“ کہہ کر مسترد کر دینا فرمانِ خداوندی کو ٹھکرا دینے کے مترادف ہے،یہ بھی تسلیم ہے کہ اگر کسی مفتی نے کوئی غلط فتوی دیا جو شرعی اصول اور اسلامی مزاج سے متصادم ہے،تو اس فتوی کو اصول و ضوابط کی روشنی میں رد کیا جانا ضروری ہے؛ کیونکہ وہ حکم شرعی نہیں ہے؛ تاہم اس طرح کے غلط فتوے کی آڑ میں مجموعی طور پر اس اہم ترین دینی ذمہ داری (فتویٰ) کو زک پہنچانے کا کوئی جواز نہیں، جب ایک مستند مفتی کسی مسئلہ کے جواب کے لیے قلم اٹھاتا ہے،تو اس کے دل میں جہاں خوف ِ خدا ہوتا ہے،اسی طرح سائل کے حالات،زمانے کی تبدیلی اور حالات کے تقاضے سمیت بہت ساری چیزوں کو سامنے رکھ کر پوری بصیرت اور ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے وہ شریعت کی ترجمانی کرتا ہے، موجودہ دور میں ”فتویٰ“ کی معنویت وافادیت اور اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے،گلوبلائزیشن کے اس دور میں تجارت و ملازمت اور صنعت و حرفت کی نئی نئی شکلوں نے جنم لیا ہے،میڈیکل سائنس کے حیران کن ریسرچ نے علاج اور تحفظِ انسان کے لیے نئی نئی ایجادات پیش کی ہیں،انسان آسمانوں پر اپنی آبادی بسانے لگا ہے،مختصر یہ کہ انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی نئی راہ کھل چکی ہے ․اس صورتِ حال میں” فقہ و فتاوی“ ایسا فن بن گیا ہے جس سے کوئی مفر نہیں،ایک شخص اپنے آپ کومسلمان بھی کہے،یعنی وہ ایک مکمل ”نظامِ حیات“ کا پابند بھی ہو اور اسے اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں فتوی کی ضرورت پیش نہ آئے، ایساممکن ہی نہیں؛بلکہ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق و اعمال میں سیکڑوں ایسے مواقع آتے ہیں،جہاں اسے فتوی کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور یقینی طور پر وہ فقہائے عظام اور مفتیانِ کرام کی رہبری کا محتاج ہوتا ہے،ہر شخص کو اپنی منہمک زندگی میں اس قدر مہلت کہاں کہ وہ یکسر قرآن و حدیث کا مطالعہ کرے اور وقت کے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرے۔
============================
No comments:
Post a Comment