Monday, 7 October 2013

اور جان لو کہ....

الشَّهرُ الحَرامُ بِالشَّهرِ الحَرامِ وَالحُرُمٰتُ قِصاصٌ ۚ فَمَنِ اعتَدىٰ عَلَيكُم فَاعتَدوا عَلَيهِ بِمِثلِ مَا اعتَدىٰ عَلَيكُم ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ مَعَ المُتَّقينَ {2:194}
ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔ پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ڈرنے والوں کے ساتھ ہے

حرمت کا مہینہ یعنی ذیقعدہ کہ جس میں عمرہ کی قضا کرنے جا رہے ہو بدلا ہے اس حرمت کے مہینہ یعنی ذیقعدہ کا کہ سال گذشتہ میں اسی مہینہ کے اندر کفار مکہ نے تم کو عمرہ سے روک دیا تھا اور مکہ میں جانے نہ دیا تھا یعنی اب شوق سے ان سے تم بدلہ لو کیونکہ ادب اور حرمت رکھنے میں تو برابری ہے یعنی اگر کوئی کافر ماہ حرام کی حرمت کرے اور اس مہینہ میں تم سے نہ لڑے تو تم بھی ایسا ہی کرو مکہ والے جو سال گذشتہ میں تم پر ظلم کر چکے اور نہ ماہ حرام کی حرمت کی نہ حرم مکہ کی نہ تمہارے احرام کا لحاظ کیا اور تم نے اس پر بھی صبر کیا اگر اس دفعہ بھی سب حرمتوں سے قطع نظر کر کے آمادہ جنگ ہوں تو تم بھی کسی کی حرمت کا خیال مت کرو بلکہ اگلی پچھلی سب کسر مٹا لو مگر جو کرو خدا سے ڈر کر کرو اس کی خلافِ اجازت ہر گز نہ ہو اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کا بیشک ناصر و مددگار ہے۔




وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِن أُحصِرتُم فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ ۖ وَلا تَحلِقوا رُءوسَكُم حَتّىٰ يَبلُغَ الهَدىُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كانَ مِنكُم مَريضًا أَو بِهِ أَذًى مِن رَأسِهِ فَفِديَةٌ مِن صِيامٍ أَو صَدَقَةٍ أَو نُسُكٍ ۚ فَإِذا أَمِنتُم فَمَن تَمَتَّعَ بِالعُمرَةِ إِلَى الحَجِّ فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ ۚ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلٰثَةِ أَيّامٍ فِى الحَجِّ وَسَبعَةٍ إِذا رَجَعتُم ۗ تِلكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ ۗ ذٰلِكَ لِمَن لَم يَكُن أَهلُهُ حاضِرِى المَسجِدِ الحَرامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ {2:196}
اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے


حج کے ضمن میں جہاد کا ذکر جو مناسب تھا اس کو بیان فرما کر اب احکام حج و عمرہ بتلائے جاتے ہیں۔



حج کا اور عمرے کے احکام: مطلب یہ ہے کہ جب کسی نے حج یا عمرہ شروع کیا یعنی اس کا احرام باندھا تو اس کا پورا کرنا لازم ہو گیا بیچ میں چھوڑ دے اور احرام سے نکل جائے یہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر کوئی دشمن یا مرض کی وجہ سے بیچ میں ہی رک گیا اور حج و عمرہ نہیں کر سکتا تو اس کے ذمہ پر ہے قربانی جو اس کو میسر آئے جس کا ادنیٰ مرتبہ ایک بکری ہے اس قربانی کو کسی کے ہاتھ مکہ کو بھیجے اور یہ مقرر کر دے کہ فلاں روز اس کو حرم مکہ میں پہنچ کر ذبح کر دینا اور جب اطمینان ہو جائے کہ اب اپنے ٹھکانے یعنی حرم میں پہنچ کر اس کی قربانی ہو چکی ہو گی اس وقت سر کی حجامت کرا دے اس سے پہلے ہر گز نہ کرائے اس کو دم احصار کہتے ہیں کہ حج یا عمرہ سے رکنے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔



احرام کے مسائل:
یعنی اگر حالت احرام میں کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں درد یا زخم ہو تو اس کو بضرورت حالت احرام میں حجامت کرنا سر کا جائز ہے مگر بدلا دینا پڑے گا تین روزے یا چھ محتاجوں کو کھانا کھلانا یا ایک دنبہ یا بکرے کی قربانی کرنا۔ یہ دم جنایت ہے کہ حالت احرام میں بضرورت مرض لاچار ہو کر امور مخالف احرام کرنے پڑے۔


یعنی جو محرم کہ دشمنی کی طرف سے اور مرض سے مطمئن ہو خواہ اس کو کسی قسم کا اندیشہ پیش ہی نہ آیا یا دشمن کا خوف یا بیماری کا کھٹکا پیش تو آیا مگر جلد زائل ہو گیا یا احرام حج و عمرہ میں اس سے خلل نہ آنے پایا تو اس کو دیکھنا چاہیئے کہ اس نے حج اور عمرہ دونوں ادا کئے یعنی قِران یا تمتع کیا اِفراد نہیں کیا تو اس پر قربانی ایک بکرا یا ساتواں حصہ اونٹ یا گائے کا لازم ہے اس کو دم قِران اور دم تمتع کہتے ہیں امام ابو حنیفہؒ اس کو دم شکر کہتے ہیں اور اس کو ا س میں سے کھانے کی اجازت دیتے ہیں اور امام شافعیؒ اس کو دم جبر کہتے ہیں اور قربانی کرنے والے کو اس میں سے کھانے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔



یعنی جس نے قِران یا تمتع کیا اور اس کو قربانی میسر نہ ہوئی تو اس کو چاہیئے کہ تین روزے رکھے حج کے دنوں میں جو کہ یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ پر ختم ہوتے ہیں اورسات روزے جب رکھے کہ حج سے بالکل فارغ ہو جائے دونوں کا مجموعہ دس روزے ہو گیا۔



یعنی قِران و تمتع اسی کے لئے ہے جو مسجد حرام یعنی حرم مکہ کے اندر یا اس کے قریب نہ رہتا ہو بلکہ حِل یعنی خارج از میقات کا رہنے والا ہو اور جو حرم مکہ کے رہنے والے ہیں وہ صرف اِفراد کریں۔







وَاذكُرُوا اللَّهَ فى أَيّامٍ مَعدودٰتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فى يَومَينِ فَلا إِثمَ عَلَيهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلا إِثمَ عَلَيهِ ۚ لِمَنِ اتَّقىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّكُم إِلَيهِ تُحشَرونَ {2:203}
اور (قیام منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن میں) خدا کو یاد کرو۔ اگر کوئی جلدی کرے (اور) دو ہی دن میں (چل دے) تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ اور جو بعد تک ٹھہرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ یہ باتیں اس شخص کے لئے ہیں جو (خدا سے) ڈرے اور تم لوگ خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اس کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔


ایام معدودات سے مراد ذی الحجہ کی گیارہویں بارہویں تیرہویں تاریخیں ہیں جن میں حج سے فارغ ہو کر منیٰ میں قیام کا حکم ہے ان دنوں میں رمی جمار یعنی کنکریوں کے مارنے کے وقت اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہنے کا حکم ہے اور دیگر اوقات میں بھی ان دنوں میں چاہیئے کہ تکبیر اور ذکر الہٰی کثرت سے کرے۔



منیٰ میں قیام کی مدت:
یعنی گناہ تو یہ ہے کہ ممنوعات شرعیہ سے پرہیز نہ کرے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے اور زمانہ حج میں پرہیزگاری کرے تو پھر اس بات میں کچھ گناہ نہیں کہ منیٰ میں دو دن قیام کیا کہ تین دن کہ اللہ نے دونوں باتیں جائز رکھیں مگر افضل یہی ہے کہ تین روز قیام کرے۔



یعنی حج کی خصوصیت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے ہر کام میں اور ہر وقت ڈرتے رہو کہ تم سب کو قبروں سے اٹھ کر اس کے پاس جمع ہونا ہے حساب دینے کو حج کا ذکر تو تمام ہو چکا مگر حج کے ذیل میں جو لوگوں کی دو قسموں کا ذکر آ گیا تھا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اور مِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ یعنی کافر اور مومن کا تو اب اس کی مناسبت سے تیسری قسم یعنی منافق کا بھی حال بیان کیا جاتا ہے





فَإِن زَلَلتُم مِن بَعدِ ما جاءَتكُمُ البَيِّنٰتُ فَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ {2:209}
پھر اگر تم احکام روشن پہنچ جانے کے بعد لڑکھڑاجاؤ تو جان جاؤ کہ خدا غالب (اور) حکمت والا ہے

شریعت سے انحراف موجب عذاب ہے:

یعنی شریعت محمدی کے صاف صاف احکام معلوم ہونے کے بعد بھی اگر کوئی اس پر قائم نہ ہو بلکہ دوسری طرف بھی نظر رکھے تو خوب سمجھ لو کہ اللہ سب پر غالب ہے جس کو چاہے سزا دے کوئی اس کے عذاب کو روک نہیں سکتا بڑا حکمت والا ہے جو کرتا ہے حق اور مصلحت کے موافق کرتا ہے خواہ عذاب دے یا کچھ ڈھیل دے یعنی نہ جلد باز ہے نہ بھولنے والا نہ خلاف انصاف اور غیر مناسب امر کرنے والا۔



نِساؤُكُم حَرثٌ لَكُم فَأتوا حَرثَكُم أَنّىٰ شِئتُم ۖ وَقَدِّموا لِأَنفُسِكُم ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّكُم مُلٰقوهُ ۗ وَبَشِّرِ المُؤمِنينَ {2:223}
تمہاری عورتیں تمہارای کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔ اور اپنے لئے (نیک عمل) آگے بھیجو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر) ایمان والوں کو بشارت سنا دو


مجامعت کے احکام:


یہود عورت کی پشت کی طرف ہو کر وطی کرنے کو ممنوع کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس سے بچہ احول پیدا ہوتا ہے آپ ﷺ سے پوچھا گیا تو اس پر یہ آیت اتری یعنی تمہاری عورتیں تمہارے لئے بمنزلہ کھیتی کے ہیں جس میں نطفہ بجائے تخم اور اولاد بمنزلہ پیداوار کے ہے یعنی اس سے مقصود اصلی صرف نسل کا باقی رہنا اور اولاد کا پیدا ہونا ہے سو تم کو اختیار ہے آگے سے یا کروٹ سے یا پشت سے پڑ کر یا بیٹھ کر جس طرح چاہو مجامعت کرو مگر یہ ضرور ہے کہ تخم ریزی اُسی خاص موقع میں ہو جہاں پیداواری کی امید ہو ۔ یعنی مجامعت خاص فرج ہی میں ہو لواطت ہرگز ہرگز نہ ہو یہود کا خیال غلط ہے کہ اس سے بچہ احول پیدا ہوتا ہے۔

 اعمال صالحہ اپنے لئے کرتے رہو یا یہ کہ وطی سے اولاد صالح مطلوب ہونی چاہیئے محض حظ نفس مقصود نہ ہو۔




وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمسِكوهُنَّ بِمَعروفٍ أَو سَرِّحوهُنَّ بِمَعروفٍ ۚ وَلا تُمسِكوهُنَّ ضِرارًا لِتَعتَدوا ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ۚ وَلا تَتَّخِذوا ءايٰتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم وَما أَنزَلَ عَلَيكُم مِنَ الكِتٰبِ وَالحِكمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {2:231}
اور جب تم عورتوں کو (دو دفعہ) طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کردو اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور خدا کے احکام کو ہنسی (اور کھیل) نہ بناؤ اور خدا نے تم کو جو نعمتیں بخشی ہیں اور تم پر جو کتاب اور دانائی کی باتیں نازل کی ہیں جن سے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے ان کو یاد کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے


معروف طریقے کے معنیٰ:

ایک عورت کو اس کے خاوند نے ایک یا دو طلاق دی اور پھر عدت میں رجعت بھی نہ کی جب عدت ختم ہو چکی تو دوسرے لوگوں کے ساتھ زوج اول نے بھی نکاح کا پیام دیا عورت بھی اس پر راضی تھی مگر عورت کے بھائی کو غصہ آیا اور نکاح کو روک دیا اس پر یہ حکم اترا کہ عورت کی خوشنودی اور بہبودی کو ملحوظ رکھو اسی کے موافق نکاح ہونا چاہیئے اپنے کسی خیال اور ناخوشی کو دخل مت دو اور یہ خطاب عام ہے نکاح سے روکنے والوں کو سب کو خواہ زوج اول جس نے کہ طلاق دی ہے وہ دوسری جگہ عورت کو نکاح کرنے سے روکے یا عورت کے ولی اور وارث عورت کو پہلے خاوند سے یاکسی دوسری جگہ نکاح کرنے سے مانع ہوں سب کو روکنے سے ممانعت آ گئ ہاں اگر خلاف قاعدہ کوئی بات ہو مثلًا غیر کفو میں عورت کا نکاح کرنے لگے یا پہلے خاوند کی عدت کے اندر کسی دوسرے سے نکاح کرنا چاہے تو بیشک ایسے نکاح سے روکنے کا حق ہے بِالْمَعْرُوْفِ فرمانے کا یہی مطلب ہے۔

یہ سب احکام حکمت سے پر ہیں:

یعنی حکم جو مذکور ہوئے ان سے اہل ایمان کو نصیحت دی جاتی ہے کیونکہ اس نصیحت سے وہی منتفع ہوتے ہیں اور یوں تو نصیحت سبھی کے لئے ہے کسی کی خصوصیت نہیں اور مومنین کے خاص کرنے سے دوسروں پر تہدید اور ان کی تحقیر بھی مفہوم ہوتی ہے یعنی جو لوگ ان حکموں پر عمل نہیں کرتے گویا ان کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہی نہیں۔
عورت کو نکاح سے نہ روکنے اور اس کے نکاح ہوجانے میں وہ پاکیزگی ہے جو نکاح سے روکنے میں ہر گز نہیں اور عورت جب کہ پہلے خاوند کی طرف راغب ہو تو اسی کے ساتھ نکاح ہو جانے میں وہ پاکیزگی ہے کہ دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے میں ہر گز نہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی باتوں اور نفع و نقصان آئندہ کو خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔




وَالوٰلِدٰتُ يُرضِعنَ أَولٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ ۖ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ ۚ وَعَلَى المَولودِ لَهُ رِزقُهُنَّ وَكِسوَتُهُنَّ بِالمَعروفِ ۚ لا تُكَلَّفُ نَفسٌ إِلّا وُسعَها ۚ لا تُضارَّ وٰلِدَةٌ بِوَلَدِها وَلا مَولودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الوارِثِ مِثلُ ذٰلِكَ ۗ فَإِن أَرادا فِصالًا عَن تَراضٍ مِنهُما وَتَشاوُرٍ فَلا جُناحَ عَلَيهِما ۗ وَإِن أَرَدتُم أَن تَستَرضِعوا أَولٰدَكُم فَلا جُناحَ عَلَيكُم إِذا سَلَّمتُم ما ءاتَيتُم بِالمَعروفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ {2:233}
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے۔ اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے


رضاعت کے احکام:


یعنی ماں کو حکم ہے کہ اپنے بچہ کو دو برس تک دودھ پلائے اور یہ مدت اس کے لئے ہے جو ماں باپ بچہ کے دودھ پینے کی مدت کو پورا کرنا چاہیں ورنہ اس میں کمی بھی جائز ہے جیسا آیت کے اخیر میں آتا ہے اور اس حکم میں وہ مائیں بھی داخل ہیں جن کا نکاح باقی ہے اور وہ بھی جن کو طلاق مل چکی ہو یا ان کی عدت بھی گذر چکی ہو ہاں اتنا فرق ہو گا کہ کھانا کپڑا منکوحہ اور معتدہ کو دینا زوج کو ہر حال میں لازم ہے دودھ پلائے یا نہ پلائے اور عدت ختم ہو چکے گی تو پھر صرف دودھ پلانے کی وجہ سے دینا ہو گا اور اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ دودھ کی مدت کو جس ماں سے پورا کرانا چاہیں یا جس صورت میں باپ سے دودھ پلانے کی اجرت ماں کو دلوانا چاہیں تو اس کی انتہا دو برس کامل ہیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ علی العموم دودھ پلانے کی مدت دو برس سے زیادہ نہیں۔

باپ کو بچہ کی ماں کو کھانا کپڑا ہر حال میں دینا پڑے گا۔ اول صورت میں تو اس لئے کہ وہ اس کے نکاح میں ہے دوسری صورت میں عدت میں ہے اور تیسری صورت میں دودھ پلانے کی اجرت دینی ہو گی اور بچہ کے ماں باپ بچہ کی وجہ سے ایک دوسرے کو تکلیف نہ دیں مثلًا ماں بلاوجہ دودھ پلانے سے انکار کرے یا باپ بلا سبب ماں سے بچہ جدا کر کے کسی اور سے دودھ پلوائے یا کھانے کپڑے میں تنگی کرے۔
اگر باپ مر جاوے تو بچہ کے وارثوں پر بھی یہی لازم ہے کہ دودھ پلانے کی مدت میں اس کی ماں کے کھانے کپڑے کا خرچ اٹھائیں اور تکلیف نہ پہنچائیں اور وارث سے مراد وہ وارث ہے جو محرم بھی ہو۔
اگر ماں باپ کسی مصلحت کی وجہ سے دو سال کے اندر ہی بچہ کی مصلحت کا لحاظ کر کے باہمی مشورہ اور رضامندی سےدودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں گناہ نہیں مثلًا ماں کا دودھ اچھا نہ ہو۔
 اے مردو اگر تم کسی ضروروت و مصلحت سے ماں کے سوا کسی دوسری عورت سے دودھ پلوانا چاہو تو اس میں بھی گناہ نہیں مگر اس کی وجہ سے ماں کا کچھ حق نہ کاٹ رکھے بلکہ دستور کے مطابق جو ماں کو دینا ٹھہرایا تھا وہ دیدے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ دودھ پلانے والی کا حق نہ کاٹے۔





وَلا جُناحَ عَلَيكُم فيما عَرَّضتُم بِهِ مِن خِطبَةِ النِّساءِ أَو أَكنَنتُم فى أَنفُسِكُم ۚ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُم سَتَذكُرونَهُنَّ وَلٰكِن لا تُواعِدوهُنَّ سِرًّا إِلّا أَن تَقولوا قَولًا مَعروفًا ۚ وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتٰبُ أَجَلَهُ ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما فى أَنفُسِكُم فَاحذَروهُ ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَفورٌ حَليمٌ {2:235}
اور اگر تم کنائے کی باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں مخفی رکھو تو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ خدا کو معلوم ہے کہ تم ان سے (نکاح کا) ذکر کرو گے۔ مگر (ایام عدت میں) اس کے سوا کہ دستور کے مطابق کوئی بات کہہ دو پوشیدہ طور پر ان سے قول واقرار نہ کرنا۔ اور جب تک عدت پوری نہ ہولے نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔ اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے تو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا بخشنے والا اور حلم والا ہے


بیوہ کا نکاح:
خلاصہ آیت کا یہ ہوا کہ عورت خاوند کے نکاح سے جدا ہوئی تو جب تک عدت میں ہے تو کسی دوسرے کو جائز نہیں کہ اس سے نکاح کر لے یا صاف وعدہ کرا لے یا صاف پیام بھیجے لیکن اگر دل میں نیت رکھے کہ بعد عدت اس سے نکاح کروں گا یا اشارۃً اپنے مطلب کو اسے سنا دے تاکہ کوئی دوسرا اس سے پہلے پیام نہ دے بیٹھے مثلًا عورت کو سنا دے کہ تجھ کو ہر کوئی عزیز رکھے گا یا کہے کہ میرا ارادہ کہیں نکاح کرنے کا ہے تو کچھ گناہ نہیں مگر صاف پیام ہر گز نہ دے۔


حق تعالیٰ تمہارے جی کی باتیں جانتا ہے سو ناجائز ارادہ سے بچتے رہو اور ناجائز ارادہ ہو گیا تو اس سے توبہ کرو اللہ بخشنے والا ہے اور گنہگار پر عذاب نہ ہوا تو اس سے مطمئن نہ ہو جائے کیونکہ وہ حلیم ہے عقوبت میں جلدی نہیں فرماتا۔




وَقٰتِلوا فى سَبيلِ اللَّهِ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ {2:244}
اور (مسلمانو) خدا کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ خدا (سب کچھ) جانتا ہے



وَإِذ قالَ إِبرٰهۦمُ رَبِّ أَرِنى كَيفَ تُحىِ المَوتىٰ ۖ قالَ أَوَلَم تُؤمِن ۖ قالَ بَلىٰ وَلٰكِن لِيَطمَئِنَّ قَلبى ۖ قالَ فَخُذ أَربَعَةً مِنَ الطَّيرِ فَصُرهُنَّ إِلَيكَ ثُمَّ اجعَل عَلىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِنهُنَّ جُزءًا ثُمَّ ادعُهُنَّ يَأتينَكَ سَعيًا ۚ وَاعلَم أَنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ {2:260}
اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے۔


حضرت عزیز علیہ السلام کا عجیب واقعہ:
خلاصہ یہ ہوا کہ یقین پورا تھا صرف عین الیقین کے خواستگار تھے جو مشاہدہ پر موقوف ہے۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے مردہ پرندوں کا زندہ ہونا:
حضرت ابراہیمؑ حسب ارشاد الہٰی چار جانور لائے ایک مور ایک مرغ ایک کوا ایک کبوتر اور چاروں کو اپنے ساتھ ہلایا تاکہ پہچان رہے اور بلانے سے آنے لگیں پھر چاروں کو ذبح کیا پھر ایک پہاڑ پر چاروں کے سر رکھے ایک پر پرَ رکھے ایک پر سب کے دھڑ رکھے ایک پر پاؤں رکھے پہلے بیچ میں کھڑے ہو کر ایک کو پکارا اس کا سر اٹھ کر ہوا میں کھڑا ہوا پھر دھڑ ملا پھر پَر لگے پھر پاؤں پھر وہ دوڑتا چلا آیا پھر اسی طرح چاروں آ گئے۔


اس واقعہ پر اشکال کا جواب:
یہاں دو خلجان گذرنے کا قوی احتمال ہے اول تو جسم بےجان متفرق الاجزاء کا زندہ ہونا ناقابل انکار دوسرے ان خصوصیات کو کہ وہ پرندے ہوں اور چار بھی ہوں اور چار بھی فلاں فلاں ہوں اور اس طرح ان کے اجزاء کو متفرق کر کے بلایا جائے تو زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے اس کا کوئی دخل اور ان قیود کا کوئی نفع معلوم نہیں ہوتا اس لئے اول خلجان کے جواب میں عزیز اور دوسرے کے جواب میں حکیم فرما کر دونوں شبہوں کا قلع قمع فرما دیا یعنی اس کو خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ زبردست قدرت والا ہے جو چاہے کر سکتا ہے اور اس کے ہر حکم میں اس قدر حکمتیں ہوتی ہیں کہ جن کا ادراک اور احاطہ اگر ہم کو نہ ہو تو یہ ہمارے نقصان علم کی بات ہے اس کی حکمت کا انکار ایسے امور سے ہر گز ممکن نہیں واللہ اعلم آیۃ الکرسی میں علم و قدرت وغیرہ صفات الہٰی کو ذکر فرمایا اس کے بعد یہ تین قصے بیان فرمائے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے ہدایت کر سکتا ہے اور جس کو چاہے گمراہ کر سکتا ہے اور مارنا جلانا سب اس کے اختیار میں ہے اب جہاد اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور اس کے متعلق قیود و شرائط بیان فرماتے ہیں جس کا ذکر کسی قدر گذر بھی چکا ہے کیونکہ جہاد و انفاق مال میں جو مواقع نظر آتے ہیں حق تعالیٰ کے علم و قدرت کے یقین کر لینے کے بعد اور اس کی عجائب قدرت کے حالات معلوم ہونے کے بعد ان کا ازالہ ہو گا ورنہ نقصان تو ان میں ضرور آنا چاہیئے۔






يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ ۖ وَلا تَيَمَّمُوا الخَبيثَ مِنهُ تُنفِقونَ وَلَستُم بِـٔاخِذيهِ إِلّا أَن تُغمِضوا فيهِ ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ حَميدٌ {2:267}
مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہوں اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سےنکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو۔ اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو۔ اور جان رکھو کہ خدا بےپروا (اور) قابل ستائش ہے


اللہ کی راہ میں عمدہ اور پاک مال خرچ کرو:
یعنی عنداللہ صدقہ کے مقبول ہونے کی یہ بھی شرط ہے کہ مال حلال کمائی کا ہو۔ حرام کا مال اور شبہ کا مال نہ ہو اور اچھی سے اچھی چیز اللہ کی راہ میں دے بری چیز خیرات میں نہ لگائے کہ اگر کوئی ایسی ویسی چیز دے تو جی نہ چاہے لینے کو مگر شرما شرمائی ۔ پر خوشی سے ہرگز نہ لے اور جان لو کہ اللہ بےپرواہ ہے تمہارا محتاج نہیں اور خوبیوں والا ہے اگر بہتر سے بہتر چیز دل کے شوق اور محبت سے دے تو پسند فرماتا ہے۔






إِلَّا الَّذينَ تابوا مِن قَبلِ أَن تَقدِروا عَلَيهِم ۖ فَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ {5:34}
ہاں جن لوگوں نے اس سے پیشتر کہ تمہارے قابو میں آ جائیں توبہ کر لی تو جان رکھو کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے


توبہ سے حقوق اللہ کی معافی:


یعنی مذکورہ بالا سزائیں جو حدود اور حق اللہ کے طور پر تھیں وہ گرفتاری سے قبل توبہ کر لینے سے معاف ہو جاتی ہیں۔ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔ مثلًا اگر کسی کا مال لیا تھا تو ضمان دینا ہو گا، قتل کیا تھا تو قصاص لیا جائے گا۔ ہاں ان چیزوں کے معاف کرنے کا حق صاحب مال اور ولی مقتول کو حاصل ہے (تنبیہ) اس حد کےسوا باقی حدود مثلًا حد زنا، حد شرب خمر، حد سرقہ، حد قذف توبہ سے مطلقًا ساقط نہیں ہوتیں۔




وَأَنِ احكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم وَاحذَرهُم أَن يَفتِنوكَ عَن بَعضِ ما أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوا فَاعلَم أَنَّما يُريدُ اللَّهُ أَن يُصيبَهُم بِبَعضِ ذُنوبِهِم ۗ وَإِنَّ كَثيرًا مِنَ النّاسِ لَفٰسِقونَ {5:49}
اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) خدا نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو خدا نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بہکانہ دیں اگر یہ نہ مانیں تو جان لو کہ خدا چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب ان پر مصیبت نازل کرے اور اکثر لوگ تو نافرمان ہیں


یعنی آپس کے اختلافات میں خواہ دنیا کیسی ہی دست و گریباں رہے آپ ﷺ کو یہ ہی حکم ہے کہ ما انزل للہ کے موافق حکم دیتے رہیں اور کسی کے کہنے سننے کی کوئی پروا نہ کریں۔



گناہوں کی کچھ سزا دنیا میں بھی ملتی ہے:
پوری سزا تو قیامت میں ملے گی لیکن کچھ تھوڑی سی سزا دے کر یہاں بھی مجرم کو یا دوسرے دیکھنے والوں کو ایک گونہ تنبیہ کر دی جاتی ہے۔


 آپ ﷺ ان لوگوں کے اعراض و انحراف سے زیادہ ملول نہ ہوں۔ دنیا میں فرمانبردار بندے ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں وَ مَاۤ اَکۡثَرُ النَّاسِ وَ لَوۡ حَرَصۡتَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ (یوسف۔۱۰۳)





وَأَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَاحذَروا ۚ فَإِن تَوَلَّيتُم فَاعلَموا أَنَّما عَلىٰ رَسولِنَا البَلٰغُ المُبينُ {5:92}
اور خدا کی فرمانبرداری اور رسولِ (خدا) کی اطاعت کرتے رہو اور ڈرتے رہو اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے


شیطانی کام:
اگر کسی چیز کے منافع و مضار کا احاطہ نہ کر سکو تب بھی خدا اور رسول کے احکام امتثال کرو اور قانون کی خلاف ورزی سے بچتے رہو ۔ اگر نہ بچو گے تو ہمارےپیغمبر تم کو قانون و احکام الہٰی کھول کر پہنچا چکے۔ نتیجہ خلاف ورزی کا خود سوچ لو کیا ہو گا؟






اعلَموا أَنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ وَأَنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ {5:98}
جان رکھو کہ خدا سخت غداب دینے والا ہے اور یہ کہ خدا بخشنے والا مہربان بھی ہے


یعنی جو احکام حالت احرام یا احترام کعبہ وغیرہ کے متعلق دیے گئے اگر ان کی عمدًا خلاف ورزی کرو گے تو سمجھ لو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے۔ اور بھول چوک سے کچھ تقصیر ہو جائے پھر کفارہ وغیرہ سے اس کی تلافی کر لو تو بیشک وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔





يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا استَجيبوا لِلَّهِ وَلِلرَّسولِ إِذا دَعاكُم لِما يُحييكُم ۖ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ يَحولُ بَينَ المَرءِ وَقَلبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيهِ تُحشَرونَ {8:24}
مومنو! خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لیے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشتا ہے۔ اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حامل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤ گے


جہاد میں زندگی ہے:
یعنی خدا اور رسول تم کو جس کام کی طرف دعوت دیتے ہیں (مثلاً جہاد وغیرہ) اس میں از سرتاپا تمہاری بھلائی ہے ان کا دعوتی پیغام تمہارے لئے دنیا میں عزت و اطمینان کی زندگی اور آخرت میں حیات ابدی کا پیغام ہے۔ پس مومنین کی شان یہ ہے کہ خدا اور رسول کی پکار پر فورًا لبیک کہیں۔ جس وقت اور جدھر وہ بلائیں سب اشغال چھوڑ کر ادھر ہی پہنچیں۔


اطاعت میں دیر کرنے سے دل ہٹ جاتے ہیں:
یعنی حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو۔ شاید تھوڑی دیر بعد دل ایسا نہ رہے اپنے دل پر آدمی کا قبضہ نہیں بلکہ دل خدا کے ہاتھ میں ہے جدھر چاہے پھیر دے۔ بیشک وہ اپنی رحمت سے کسی کا دل ابتداءً نہیں روکتا نہ اس پر مہر کرتا ہے۔ ہاں جب بندہ امتثال احکام میں سستی اور کاہلی کرتا رہے تو اس کی جزاء میں روک دیتا ہے۔ یاحق پرستی چھوڑ کر ضد و عناد کو شیوہ بنالے تو مہر کر دیتا ہے۔ کذا فی الموضح۔ بعض نے یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ کو بیان قرب کے لئے لیا ہے۔ یعنی حق تعالیٰ بندہ سے اس قدر قریب ہے کہ اس کا دل بھی اتنا قریب نہیں۔ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ (ق۔۱۶) تو خدا کی حکم برداری سچے دل سے کرو۔ خدا تم سے بڑھ کر تمہارے دلوں کے احوال و سرائر پر مطلع ہے۔ خیانت اس کے آگے نہیں چل سکے گی۔ اسی کے پاس سب کو جمع ہونا ہے وہاں سارے مکنونات و سرائر کھول کر رکھ دئے جائیں گے۔





وَاتَّقوا فِتنَةً لا تُصيبَنَّ الَّذينَ ظَلَموا مِنكُم خاصَّةً ۖ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ {8:25}
اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے


نصیحت کرنے کی اہمیت:

یعنی فرض کیجئے ایک قوم کے اکثر افراد نے ظلم و عصیان کا وتیرہ اختیار کر لیا، کچھ لوگ جو اس سے علیحدہ رہے انہوں نے مداہنت برتی نہ نصیحت کی نہ اظہار نفرت کیا تو یہ فتنہ ہے جس کی لپیٹ میں وہ ظالم اور یہ خاموش مداہن سب آجائیں گے۔ جب عذاب آئے گا تو حسب مراتب سب اس میں شامل ہوں گے کوئی نہ بچے گا۔ اس تفسیر کے موافق آیت سے مقصود یہ ہو گا کہ خدا و رسول کی حکم برداری کے لئے خود تیار رہو اور نافرمانوں کو نصیحت و فہمائش کرو۔ نہ مانیں تو بیزاری کا اظہار کرو۔ باقی حضرت شاہ صاحبؒ نے آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مسلمانوں کو ایسے فساد (گناہ) سے بالخصوص بچنا چاہئے جس کا خراب اثر گناہ کرنے والے کی ذات سے متعدی ہو کر دوسروں تک پہنچتا ہے۔ پہلے فرمایا تھا کہ خدا اور رسول کا حکم ماننے میں ادنیٰ تاخیر اور کاہلی نہ کرے۔ کہیں دیر کرنے کی وجہ سے دل نہ ہٹ جائے۔ اب تنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر نیک لوگ کاہلی کریں گے تو عام لوگ بالکل چھوڑ دیں گے۔ تو رسم بد پھیلے گی۔ اس کا وبال سب پر پڑے گا۔ جیسے جنگ میں دلیر سستی کریں تو نامرد بھاگ ہی جائیں۔ پھر شکست پڑے تو دلیر بھی نہ تھام سکیں۔





وَاعلَموا أَنَّما أَموٰلُكُم وَأَولٰدُكُم فِتنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجرٌ عَظيمٌ {8:28}
اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور یہ کہ خدا کے پاس (نیکیوں کا) بڑا ثواب ہے


مال و اولاد فتنہ ہیں:


آدمی اکثر مال و اولاد کی خاطر خد اکی اور بندوں کی چوری کرتا ہے۔ اس لئے متنبہ فرمایا کہ امانتداری کی جو قیمت خدا کے یہاں ہے، وہ یہاں کے مال و اولاد وغیرہ سب چیزوں سے بڑھ کر ہے۔





وَإِن تَوَلَّوا فَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ مَولىٰكُم ۚ نِعمَ المَولىٰ وَنِعمَ النَّصيرُ {8:40}
اور اگر روگردانی کریں تو جان رکھو کہ خدا تمہارا حمایتی ہے۔ (اور) وہ خوب حمایتی اور خوب مددگار ہے


جہاد کے مقاصد:
یعنی مسلمانوں کو چاہئے کہ خدا کی مدد اور حمایت پر بھروسہ کر کے جہاد کریں۔ کفار کی کثرت اور سازوسامان سے مرعوب نہ ہوں۔ جیسے جنگ بدر میں دیکھ چکے کہ خدا نے مسلمانوں کی کیا خوب امداد و حمایت کی۔




وَاعلَموا أَنَّما غَنِمتُم مِن شَيءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسولِ وَلِذِى القُربىٰ وَاليَتٰمىٰ وَالمَسٰكينِ وَابنِ السَّبيلِ إِن كُنتُم ءامَنتُم بِاللَّهِ وَما أَنزَلنا عَلىٰ عَبدِنا يَومَ الفُرقانِ يَومَ التَقَى الجَمعانِ ۗ وَاللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {8:41}
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ اپنے بندے (محمدﷺ) پر نازل فرمائی۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے

مال غنیمت کے احکام و مصارف:
آغاز سورت میں فرمایا تھا قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ یہاں اس کی قدرے تفصیل بیان فرمائی ہے کہ جو مال غنیمت کافروں سےلڑ کر ہاتھ آئے اس میں کا پانچواں حصہ خدا کی نیاز ہے، جسے خدا کی نیابت کے طور پر پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام وصول کر کے پانچ جگہ خرچ کر سکتے ہیں۔ اپنی ذات پر، اپنے ان قرابت داروں (بنی ہاشم و بنی المطلب) پر جنہوں نے قدیم سے خدا کے کام میں آپ کی نصرت و امداد کی اور اسلام کی خاطر یا محض قرابت کی وجہ سے آپ کا ساتھ دیا اور مد زکوٰۃ وغیرہ سے لینا ان کے لئے حرام ہوا، یتیموں پر، حاجت مندوں پر، مسافروں پر پھر غنیمت میں جو چار حصے باقی رہے وہ لشکر پر تقسیم کئے جائیں۔ سوار کو دو حصے اور پیدل کو ایک حضور ﷺ کی وفات کے بعد خمس کے پانچ مصارف میں سے "حنفیہ" کے نزدیک صرف تین اخیر کے باقی رہ گئے۔ کیونکہ حضور ﷺ کی رحلت کے بعد حضور ﷺ کی ذات کا خرچ نہیں رہا اور نہ اہل قرابت کا وہ حصہ رہا جو ان کو حضور ﷺ کی نصرت قدیمہ کی بناء پر ملتا تھا۔ البتہ مساکین اور حاجت مندوں کا جو حصہ ہے اس میں حضور ﷺ کے قرابت دار مساکین اور اہل حاجت کو مقدم رکھا جانا چاہئے۔ بعض علماء کے نزدیک حضور ﷺ کے بعد امیر المومنین کو اپنے مصارف کے لئے خمس الخمس ملنا چاہئے۔ واللہ اعلم۔ بعض روایات میں ہے کہ جب غنیمت میں سےخمس (اللہ کے نام کا پانچواں حصہ) نکالا جاتا تھا تو نبی کریم ﷺ اس میں کا کچھ حصہ بیت اللہ (کعبہ) کے لئے نکالتے تھے۔ بعض فقہا نے لکھا ہےکہ جہاں سے کعبہ بعید ہے، وہاں مساجد کے لئے نکالنا چاہئے۔


یوم بدر فیصلہ کا دن:
"فیصلہ کے دن" سے مراد "یوم بدر" ہے جس میں حق و باطل کی کشمکش کا کھلا ہوا فیصلہ ہو گیا۔ اس دن حق تعالیٰ نے اپنے کامل ترین بندے پر فتح و نصرت اتاری۔ فرشتوں کی امدادی کمک بھیجی۔ اور سکون و اطمینان کی کیفیت نازل فرمائی۔ تو جو لوگ خدا پر اور اس کی تائید غیبی پر ایمان رکھتے ہیں ان کو غنیمت میں سے خدا کے نام کا پانچواں حصہ نکالنا بھاری نہیں ہو سکتا۔


جیسے اس دن تم کو مظفر و منصور کیا، وہ قادر ہے کہ آئندہ بھی تم کو غلبہ اور فتوحات عنایت فرمائے۔







فَسيحوا فِى الأَرضِ أَربَعَةَ أَشهُرٍ وَاعلَموا أَنَّكُم غَيرُ مُعجِزِى اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخزِى الكٰفِرينَ {9:2}
تو (مشرکو تم) زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہ کرسکو گے۔ اور یہ بھی کہ خدا کافروں کو رسوا کرنے والا ہے


کفار و مشرکین کے چار ماہ کی مہلت:
۶ ہجری میں بمقام "حدیبیہ" جب نبی کریم ﷺ اور قریش کے درمیان معاہدہ صلح ہو چکا تو بنی خزاعہ مسلمانوں کے اور بنی بکر قریش کے حلیف بنے۔ بنی بکر نے معاہدہ کی پروا نہ کر کے خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے اسلحہ وغیرہ سے ظالم حملہ آوروں کی مدد کی۔ اس طرح قریش اور ان کے حلیف دونوں معاہدہ حدیبیہ پر قائم نہ رہے جس کے جواب میں ۸ ہجری میں نبی کریم ﷺ نے اچانک حملہ کر کے مکہ معظمہ بڑی آسانی سےفتح کر لیا۔ قبائل کے سوا دوسرے قبائل عرب سے مسلمانوں کا میعادی یا غیر میعادی معاہدہ تھا۔ جن میں سے بعض اپنے معاہدہ پر قائم رہے۔ بہت سے قبائل وہ تھے جن سےکسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ اس سورۃ کی مختلف آیات مختلف قبائل کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔ شروع کی آیات میں غالبًا ان مشرکین کا ذکر ہے جن سے معاہدہ تھا مگر میعادی نہ تھا۔ ان کو اطلاع کر دی گئ کہ ہم آئندہ معاہدہ رکھنا نہیں چاہتے ۔ چار ماہ کی مہلت تم کو دی جاتی ہے کہ اس مدت کے اندر اسلامی برادری میں شامل ہو جاؤ یا وطن چھوڑ کر مرکز ایمان و توحید کو اپنے وجود سے خالی کر دو اور یا جنگی مقابلہ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ لیکن یہ خوب سمجھ لینا کہ تم خدا کی مشیت کو روک نہیں سکتے۔ اگر اسلام نہ لائے تو وہ تم کو دنیا و آخرت میں رسوا کرنے والا ہے ۔ تم اپنی تدبیروں اور حیلہ بازیوں سے اسے عاجز نہ کر سکو گے ۔ باقی جن قبائل سے کوئی معاہدہ ہی نہ تھا ممکن ہے انہیں بھی چار ماہ کی مہلت دی گئ ہو یہ اور اس کے بعد کی آیتوں کا اعلان عام ۹ ہجری میں حج کے موقع پر تمام قبائل عرب کے سامنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا۔





وَأَذٰنٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ إِلَى النّاسِ يَومَ الحَجِّ الأَكبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَريءٌ مِنَ المُشرِكينَ ۙ وَرَسولُهُ ۚ فَإِن تُبتُم فَهُوَ خَيرٌ لَكُم ۖ وَإِن تَوَلَّيتُم فَاعلَموا أَنَّكُم غَيرُ مُعجِزِى اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذينَ كَفَروا بِعَذابٍ أَليمٍ {9:3}
اور حج اکبر کے دن خدا اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ خدا مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی (ان سے دستبردار ہے)۔ پس اگر تم توبہ کرلو تو تمھارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر نہ مانو (اور خدا سے مقابلہ کرو) تو جان رکھو کہ تم خدا کو ہرا نہیں سکو گے اور (اے پیغمبر) کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا دو


حج کو حج اکبر اس لئے کہا کہ عمرہ حج اصغر ہے اور یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ سے دسویں تاریخ عیدالاضحٰی کا دن یا نویں تاریخ عرفہ کا دن مراد ہے۔



عہد شکن قبائل کے لئے کھلا اعلان:
یہ اعلان غالبًا ان قبائل کے حق میں تھا ۔ جنہوں نے میعادی معاہدہ کیا پھر خود ہی عہد شکنی کی (مثلاً بنی بکر یا قریش وغیرہ ہم) یعنی ایسے لوگوں سےکوئی معاہدہ اب باقی نہیں رہا۔ اگر یہ سب لوگ شرک و کفر سے توبہ کر لیں تو ان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ نہیں تو خدا کاجو کچھ ارادہ ہے (تطہیر جزیرۃ العرب کا) وہ پورا ہو کر رہے گا۔ کوئی طاقت اور تدبیر اسے مغلوب نہیں کر سکتی اور کافروں کو کفر و بد عہدی کی سزا مل کر رہے گی (تنبیہ) ان قبائل کی عہد شکنی اگرچہ فتح مکہ ۸ ہجری سے پہلے ہو چکی تھی بلکہ اسی کے جواب میں مکہ فتح کیا گیا۔ تاہم ۹ ہجری کے حج کے موقع پر اس کا بھی اعلان عام کرایا گیا تاکہ واضح ہو جائے کہ اس قسم کے جتنے لوگ ہیں ان سے کسی قسم کا معاہدہ باقی نہیں رہا۔





إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ مِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم ۚ وَقٰتِلُوا المُشرِكينَ كافَّةً كَما يُقٰتِلونَكُم كافَّةً ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ مَعَ المُتَّقينَ {9:36}
خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ کتاب خدا میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں۔ ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا راستہ ہے۔ تو ان (مہینوں) میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے


اشہر حرم اور نسی کی رسم:
میرے نزدیک اوپر سے سلسلہ مضمون کا یوں ہے کہ گذشتہ رکوع میں مشرکین کے بعد اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سے جہاد کرنے کا حکم دیا۔ پھر رکوع حاضر کے شروع میں بتلایا کہ ان کے عقائد اور طور و طریق بھی مشرکین سے ملتے جلتے ہیں۔ ان کا عزیر و مسیح کو خدا کا بیٹا کہنا ایسا ہی ہے جیسے مشرکین "ملائکۃ اللہ" کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ، بلکہ نصاریٰ میں "ابنیت مسیح" کا عقیدہ مشرکین کی تقلید سے آیا ہے ۔ وہ بتوں کو خدائی کا درجہ دیتے ہیں ، انہوں نے مسیح و روح القدس کو خدا ٹھہرا لیا۔ باوجود دعوئے کتاب کے احبار و رہبان کے احکام کو شریعت الہٰیہ کا بدل تجویز کر لیا۔ یعنی احبار و رہبان رشوتیں لے کر اور حرام مال کھا کر جس چیز کو حلال یا حرام کر دیتے ، احکام سماوی کی جگہ ان ہی کو قبول کر لیا جاتا۔ ان کا یہ طریقہ ٹھیک مشرکین کے طریقہ سے مشابہ ہے۔ ان کے سرکردہ بھی جس چیز کو چاہتے حلال و حرام ٹھہرا کر خدا کی طرف نسبت کر دیتے تھے جس کا ذکر "انعام" میں مفصل گذر چکا ، اور یہاں بھی اس کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے ۔ عرب میں قدیم سے معمول چلا آتا تھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے "اشہر حرم" خاص ادب و احترام کے مہینے ہیں ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، محرم ، رجب۔ ان میں خونریزی اور جدال و قتال قطعًا بند کر دیا جاتا تھا۔ حج و عمرہ اور تجارتی کاروبار کے لئے امن و امان کے ساتھ آزادی سے سفر کر سکتے تھے ۔ کوئی شخص ان ایام میں اپنے باپ کے قاتل سے بھی تعرض نہ کرتا تھا۔ بلکہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اصل ملت ابراہیمی میں یہ چار ماہ "اشہر حرم" قرار دئے گئے تھے۔ اسلام سے ایک مدت پہلے جب عرب کی وحشت و جہالت حد سے بڑھ گئ اور باہمی جدال و قتال میں بعض بعض قبائل کی درندگی اور انتقام کا جذبہ کسی آسمانی یا زمینی قانون کا پابند نہ رہا ، تو "نسی" کی رسم نکالی۔ یعنی جب کسی زور آور قبیلہ کا ارادہ ماہ محرم میں جنگ کرنے کا ہوا تو ایک سردار نے اعلان کر دیا کہ امسال ہم نے محرم کو اشہر حرم سے نکال کر اس کی جگہ صفر کو حرام کر دیا۔ پھر اگلے سال کہہ دیا کہ اس مرتبہ حسب دستور قدیم محرم حرام اور صفر حلال رہے گا۔اس طرح سال میں چار مہینوں کی گنتی تو پوری کر لیتے تھے لیکن ان کے تعین میں حسب خواہش ردوبدل کرتے رہتے تھے۔ ابن کثیرؒ کی تحقیق کے موافق "نسی" (مہینہ آگے پیچھے کرنے) کی رسم صرف محرم و صفر میں ہوتی تھی۔ اور اس کی وہ ہی صورت تھی جو اوپر مزکور ہوئی۔ امام مغازی محمد بن اسحاق نے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے یہ رسم جاری کی "قلمس" کنانی تھا ۔ پھر اس کی اولاد در اولاد یوں ہی ہوتا چلا آیا۔ آخر میں اسی کی نسل سے "ابوثمامہ جنادہ بن عوف کنانی کا معمول تھا کہ ہر سال موسم حج میں اعلان کیا کرتا کہ امسال محرم اشہر حرم میں داخل رہے گا یا صفر۔ اسی طرح محرم و صفر میں سے ہر مہینہ کبھی حلال اور کبھی حرام کیا جاتا تھا۔ اور عام طور پر لوگ اسی کو قبول کر لیتے تھے ۔ گویا عہد جاہلیت میں کافروں کے کفر و گمراہی کو بڑھانے والی ایک چیز یہ بھی تھی کی خدا کے حلال یا حرام کئے ہوئے مہینہ کو بدل ڈالنے کا حق کنانہ کے ایک سردار کو سونپ دیا گیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح یہود و نصاریٰ کا حال تھا کہ انہوں نے تحلیل و تحریم کی باگ طامع اور غرض پرست احبار و رہبان کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ دونوں جماعتوں کی مشابہت ظاہر کرنے کے لئے "نسی" کی رسم کا یہاں ذکر کیا گیا اور اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ الخ اس کی رد کی تمہید ہے۔ یعنی آج سے نہیں ۔ جب سے آسمان و زمین پیدا کئے خدا کے نزدیک بہت سے احکام شرعیہ جاری کرنے کے لئے سال کے بارہ مہینے رکھے گئے ہیں جن میں سے چار اشہر حرم (ادب کے مہینے) ہیں۔ جن میں گناہ و ظلم سے بچنے کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔ یہ ہی سیدھا دین (ابراہیمؑ کا) ہے۔


اشہر حرم میں جہاد کا مسئلہ:
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ اس آیت سے نکلتا ہے کہ کافروں سے لڑنا ہمیشہ روا ہے۔ چنانچہ "غزوہ تبوک" جس کا آگے ذکر آتا ہے ماہ رجب میں ہوا اور آپس میں ظلم کرنا ہمیشہ گناہ ہے۔ ان مہینوں میں زیادہ۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہی ہے لیکن بہتر ہے کہ اگر کوئی کافر ان مہینوں کا ادب کرے تو ہم بھی اس سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔





يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قٰتِلُوا الَّذينَ يَلونَكُم مِنَ الكُفّارِ وَليَجِدوا فيكُم غِلظَةً ۚ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ مَعَ المُتَّقينَ {9:123}
اے اہلِ ایمان! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو اور چاہیئے کہ وہ تم میں سختی (یعنی محنت وقوت جنگ) معلوم کریں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے


حصول علم کی ضرورت و اہمیت:

جہاد فرض کفایہ ہے جو ترتیب طبعی کے موافق اول ان کفار سے ہونا چاہئے جو مسلمانوں سے قریب تر ہوں بعدہٗ ان کے قریب رہنے والوں سے اسی طرح درجہ بدرجہ حلقہ جہاد کو وسیع کرنا چاہئے۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے جہاد اسی ترتیب سے ہوئے "دفاعی جہاد" میں بھی فقہاء نے یہ ہی ترتیب رکھی ہے کہ جس اسلامی ملک پر کفار حملہ آور ہوں وہاں کے مسلمانوں پر دفاع واجب ہے اگر وہ کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے متصل رہنے والوں پر ۔ وہ کافی نہ ہوں تو پھر جو ان سے متصل ہیں۔ اسی طرح اگر ضرورت پڑے تو درجہ بدرجہ مشرق سے مغرب تک جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔


دشمن کے مقابلے میں سختی:

مومن کی شان یہ ہے کہ اپنے بھائی کے حق میں نرم اور دشمنان خدا و رسول کے معاملہ میں سخت و شدید ہو ۔ تاکہ اس کی نرمی اور ڈھیلا پن دیکھ کر دشمن جری نہ ہو جائے۔ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ (مائدہ۔۵۴) وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح۔۲۹) جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ (توبہ۔۷۳) وفی الحدیث انہ صلی اللہ علیہ وسلم قال انا الضَّحُوْکُ القَتَّال


تقویٰ غلبہ کا سبب ہے:
یعنی خدا سے ڈرنے والے کو کسی کافر قوم سے ڈرنے اور دبنے کی کوئی وجہ نہیں جب تک اور جس قدر مسلمان خدا سے ڈرتے رہے اسی وقت تک اور اسی قدر ان کو کفار پر غلبہ حاصل ہوتا رہا۔ حق تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنا ڈر پیدا کر دے۔





فَإِلَّم يَستَجيبوا لَكُم فَاعلَموا أَنَّما أُنزِلَ بِعِلمِ اللَّهِ وَأَن لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ فَهَل أَنتُم مُسلِمونَ {11:14}
اگر وہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ وہ خدا کے علم سے اُترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو تمہیں بھی اسلام لے آنا چاہئیے


قرآن جیسی دس سورتیں بنا لاؤ ۔ کفار کو چیلنج:
یعنی فرمائشی معجزے طلب کرتے ہیں ، جن کا دیا جانا مصلحت نہیں۔ اور جو سب سے بڑا معجزہ (قرآن) ان کے سامنے ہے ، اسے مانتے نہیں ، کہتے ہیں یہ تو (معاذ اللہ) تمہاری بنائی ہوئی گھڑنت ہے۔ اس کا جواب دیا کہ تم بھی آخر عرب ہو ، فصاحت و بلاغت کا دعویٰ رکھتے ہو ، سب مل کر ایسی ہی دس سورتیں گھڑ کر پیش کر دو اور اس کام میں مدد دینے کے لئے تمام مخلوق کو بلکہ اپنے ان معبودوں کو بھی بلا لاؤ جنہیں خدائی کا شریک سمجھتے ہو۔ اگر نہ کر سکو اور کبھی نہ کر سکو گے تو سمجھ لو کہ ایسا کلام خالق ہی کا ہو سکتا ہے۔ جس کا مثل لانے سے تمام مخلوق عاجز رہ جائے۔ تو یقینًا یہ وہ کلام ہے جو خدا نے اپنے علم کامل سےپیغمبر پر اتارا ہے بیشک جس کے کلام کا مثل نہیں ہو سکتا اس کی ذات و صفات میں کون شریک ہو سکتا ہے۔ ایسا بے مثال کلام اسی بے مثال خدا کا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ کیا ایسے واضح دلائل کے بعد بھی مسلمان ہونے اور خدا کا حکم بردار بننے میں کسی چیز کا انتظار ہے (تنبیہ) اعجاز قرآن کی کچھ تفصیل سورہ "یونس" میں گذر چکی۔ ابتداء میں پورے قرآن سے تحدی کی گئ تھی۔ پھر دس سورتوں سے ہوئی ۔ پھر ایک سورت سے جیسا کہ بقرہ اور یونس میں گذرا ۔ گویا ان کا عجز بتدریج نمایاں کیا گیا۔




أَفَمَن يَعلَمُ أَنَّما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ الحَقُّ كَمَن هُوَ أَعمىٰ ۚ إِنَّما يَتَذَكَّرُ أُولُوا الأَلبٰبِ {13:19}
بھلا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے اور سمجھتے تو وہی ہیں جو عقلمند ہیں


آخرت کی پریشانی:
مومن و کافر دونوں کا الگ الگ انجام ذکر فرمانے کے بعد متنبہ کرتے ہیں کہ ایسا ہونا عین عقل و حکمت کے موافق ہے ۔ کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک نپٹ اندھا جسے کچھ نظر نہ آئے یوں ہی اناپ شناپ اندھیرے میں پڑا ٹھوکریں کھا رہا ہو ، اس شخص کی برابری کر سکتا ہے جس کے دل کی آنکھیں کھلی ہیں اور پوری بصیرت کے ساتھ حق کی روشنی سے مستفید ہو رہا ہے۔




هٰذا بَلٰغٌ لِلنّاسِ وَلِيُنذَروا بِهِ وَلِيَعلَموا أَنَّما هُوَ إِلٰهٌ وٰحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُوا الأَلبٰبِ {14:52}
یہ قرآن لوگوں کے نام (خدا کا پیغام) ہے تاکہ ان کو اس سے ڈرایا جائے اور تاکہ وہ جان لیں کہ وہی اکیلا معبود ہے اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں

یعنی خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور خدا سے ڈر کر اس کی آیات میں غور کریں جس سے اس کی وحدانیت کا یقین حاصل ہو۔ اور عقل و فکر سے کام لے کر نصیحت پر کاربند ہوں۔ تم سورۃ ابراہیمؑ وللہ الحمد والمنہ۔ 




وَكَذٰلِكَ أَعثَرنا عَلَيهِم لِيَعلَموا أَنَّ وَعدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السّاعَةَ لا رَيبَ فيها إِذ يَتَنٰزَعونَ بَينَهُم أَمرَهُم ۖ فَقالُوا ابنوا عَلَيهِم بُنيٰنًا ۖ رَبُّهُم أَعلَمُ بِهِم ۚ قالَ الَّذينَ غَلَبوا عَلىٰ أَمرِهِم لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيهِم مَسجِدًا {18:21}
اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان (کے حال) سے خبردار کردیا تاکہ وہ جانیں کہ خدا کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (جس کا وعدہ کیا جاتا ہے) اس میں کچھ شک نہیں۔ اس وقت لوگ ان کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور کہنے لگے کہ ان (کے غار) پر عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ان (کے حال) سے خوب واقف ہے۔ جو لوگ ان کے معاملے میں غلبہ رکھتے تھے وہ کہنے لگے کہ ہم ان (کے غار) پر مسجد بنائیں گے

اہل شہر کو اصحاب کہف کا علم ہونا:

ایک ان میں سے روپیہ لے کر شہر میں داخل ہوا۔ وہاں سب چیز اوپری دیکھی۔ اس مدت میں کئ قرن بدل چکے تھے۔ شہر کےلوگ اس روپیہ کا سکہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ کس بادشاہ کا نام ہے اور کس عہد کا ہے۔ سمجھے کہ اس شخص نے کہیں سے پرانا گڑا ہوا مال پالیا ہے۔ شدہ شدہ معاملہ بادشاہ تک پہنچا۔ اس نے وہ اپنی پرانی تختی طلب کی جس پر چند نام اور پتے لکھے تھے کہ یہ لوگ دفعۃً نامعلوم طریقہ سے فلاں سنہ میں غائب ہو گئے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ یہ وہی مفقود الخبر جماعت ہے ۔ اس وقت شہر میں "بعث بعد الموت" کے متعلق بڑا جھگڑا ہو رہا تھا کوئی کہتا تھا کہ مرنے کے بعد جینا نہیں کوئی کہتا تھا کہ محض روحانی سے بعث ہے جسمانی نہیں ۔ کوئی معاد روحانی و جسمانی دونوں کا قائل تھا۔ بادشاہ وقت حق پرست اور منصف تھا ، چاہتا تھا کہ ایک طرف کی کوئی ایسی نظیر ہاتھ لگے جس سے سمجھانے میں آسانی رہے اور استبعاد عقلی کم ہو۔ اس واقع سے آخرت پر استدلال: اللہ تعالیٰ نے یہ نظیر بھیج دی۔ آخر منکرین آخرت بھی یہ حیرت انگیز ماجرا دیکھنے سننے کے بعد آخرت پر یقین لائے ۔ یہ نظارہ خاص طور پر ان کی طبائع پر اثر انداز ہوا سمجھے کہ حق تعالیٰ نے ہم کو تنبیہ کی ہے۔ کہ یہ قصہ بھی دوسری بار جینے سے کم نہیں (تنبیہ) بعض نے اِذۡ یَتَنَازَعُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اَمۡرَہُمۡ کا مطلب یہ لیا ہے کہ حق تعالیٰ نے اصحاب کہف کے حال سے لوگوں کو اس وقت آگاہ کیا جبکہ اصحاب کہف کے متعلق چرچے اور جھگڑے ہو رہے تھے کہ وہ چند نوجوان جنہیں مدت دراز سے سنتے آتے ہیں کہ یک بیک غائب ہو گئے تھے پھر کچھ پتہ نہ چلا کہاں گئے ہوں گے ؟ کہاں ان کی نسل پھیلی ہو گی ؟ اب تک زندہ تو کیا ہوتے ۔ سب مرگل کر برابر ہو گئے ہوں گے ؟ اس مسئلہ میں کوئی کچھ کہتا تھا۔ دوسرا کچھ خیال ظاہر کرتا تھا کہ دفعۃً حق تعالیٰ نے حقیقت سے پردہ اٹھا دیا۔ اور سب اختلافات ختم کر دیے۔

غار کی جگہ یادگار کی تعمیر:

یہ پتہ نہیں کہ اس کے بعد اصحاب کہف زندہ رہے یا انتقال کر گئے ؟ انتقال ہوا تو کب ہوا ، زندہ رہے تو کب تک رہے یا کب تک رہیں گے ۔ بہرحال اہل شہر نے ان کےعجیب و غریب احوال پر مطلع ہو کر فرط عقیدت سے چاہا کہ اس غار کے پاس کوئی مکان بطور یادگار تعمیر کر دیں جس سے زائرین کو سہولت ہو۔ اس میں اختلاف رائے ہوا ہو گا کہ کس قسم کا مکان بنایا جائے ۔ اس اختلاف کی تفاصیل تو خدا ہی کو معلوم ہیں اور یہ بھی اسی کے علم میں ہے کہ یہ تجویز ان کی موت کے بعد ہوئی یا اس سے قبل دوبارہ نیند طاری ہونے کی حالت میں۔ اور لوگوں کو غار تک پہنچ کر ان کی ملاقات میسر ہو سکی یا نہیں۔ تاہم جو بارسوخ اور ذی اقتدار لوگ تھے انکی رائے یہ قرار پائی کہ غار کے پاس عبادت گاہ تعمیر کر دی جائے اصحاب کہف کی نسبت بجز اس کے کہ پکے موحد اور متقی تھے ، یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کس نبی کی شریعت کے پیرو تھے ۔ لیکن جن لوگوں نے معتقد ہو کر وہاں مکان بنایا وہ نصاریٰ تھے ۔ ابو حیان نے "بحر محیط" میں اصحاب کہف کا مقام متعین کرنے کے لئے متعدد اقوال نقل کئے ہیں۔ من شاء فلیر اجعہ۔




وَلِيَعلَمَ الَّذينَ أوتُوا العِلمَ أَنَّهُ الحَقُّ مِن رَبِّكَ فَيُؤمِنوا بِهِ فَتُخبِتَ لَهُ قُلوبُهُم ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهادِ الَّذينَ ءامَنوا إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {22:54}
اور یہ بھی غرض ہے کہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے وہ جان لیں کہ وہ (یعنی وحی) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل خدا کے آگے عاجزی کریں۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہیں خدا ان کو سیدھے رستے کی طرف ہدایت کرتا ہے

اہل باطل کی آزمائش:

"موضح القرآن" میں ہے "یعنی اس میں گمراہ بہکتے ہیں سو ان کا کام ہے بہکنا ، اور ایمان والے اور زیادہ مضبوط ہوتے ہیں کہ اس کلام میں بندہ کا دخل نہیں۔ اگر ہوتا تو یہ بھی بندہ کے خیال کی طرح کبھی صحیح کبھی غلط نکلتا۔ اور جس کی نیت اعتقاد پر ہو، اللہ اس کو یہ بات سمجھاتا ہے"۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے یہ فائدہ اپنے مذاق کے موافق لکھا ہے۔ ہمارا جو خیال ہے اس کی تقریر گذشتہ فائدہ میں گذر چکی ۔ واللہ اعلم۔





فَإِن لَم يَستَجيبوا لَكَ فَاعلَم أَنَّما يَتَّبِعونَ أَهواءَهُم ۚ وَمَن أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوىٰهُ بِغَيرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الظّٰلِمينَ {28:50}
پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا

خواہشوں کی پیروی:

یعنی جب یہ لوگ نہ ہدایت کو قبول کرتے ہیں اور نہ اس کے مقابلہ میں کوئی چیز پیش کر سکتے ہیں تو یہ ہی اس کی دلیل ہے کہ ان کو راہ ہدایت پر چلنا مقصود ہی نہیں۔ محض اپنی خواہشات کی پیروی ہے، جس چیز کو دل چاہا مان لیا، جس کو اپنی مرضی اورخواہش کے خلاف پایا رد کر دیا ۔ بتلائیے ایسے ہوا پرست ظالموں کو کیا ہدایت ہو سکتی ہے۔ اللہ کی عادت اسی قوم کو ہدایت کرنے کی ہے جو ہدایت پانے کا ارادہ کرے اور محض ہوا و ہوس کو حق کا معیار نہ بنا لے۔





وَيَعلَمَ الَّذينَ يُجٰدِلونَ فى ءايٰتِنا ما لَهُم مِن مَحيصٍ {42:35}
اور (انتقام اس لئے لیا جائے کہ) جو لوگ ہماری آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔ وہ جان لیں کہ ان کے لئے خلاصی نہیں


یعنی تباہ اس لئے کئے جائیں کہ ان کے بعض اعمال کا بدلہ ہو اور بڑے بڑے جھگڑالو بھی دیکھ لیں کہ ہاں خدائی گرفت سے نکل بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "جو لوگ ہر چیز اپنی تدبیر سے سمجھتے ہیں اس وقت عاجز رہ جائیں گے"۔ کوئی تدبیر نہ بن پڑے گی۔



فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَلِلمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ مُتَقَلَّبَكُم وَمَثوىٰكُم {47:19}
پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسغفار کے حکم کی توضیح:
ہر ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدود ءجواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ حَسَنَاتُ الْابْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ کے یہ ہی معنی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ دن میں سو بار استغفار فرماتے تھے (تنبیہ) فَاعۡلَمۡ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الخ کا خطاب ہر ایک مخاطب کو ہے۔ اور اگر خاص نبی کریم ﷺ مخاطب ہوں تو مطلب یہ ہے کہ اس علم پر برابر جمے رہیئے۔ اور استغفار کرتے رہے۔ اور فَاعْلَمْ کی تفریع ماقبل پر اس طرح ہے کہ قیامت آنے کے بعد کسی کو ایمان و توبہ وغیرہ نافع نہیں تو آدمی کو چاہئے کہ اس کے آنے سے قبل صحیح معرفت حاصل کرے۔ اور ایمان و استغفار کے طریق پر مستقیم رہے۔


جتنے پردوں میں پھرو گے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچو گے جو تمہار اصلی گھر ہے۔





وَاعلَموا أَنَّ فيكُم رَسولَ اللَّهِ ۚ لَو يُطيعُكُم فى كَثيرٍ مِنَ الأَمرِ لَعَنِتُّم وَلٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولٰئِكَ هُمُ الرّٰشِدونَ {49:7}
اور جان رکھو کہ تم میں خدا کے پیغمبرﷺ ہیں۔ اگر بہت سی باتوں میں وہ تمہارا کہا مان لیا کریں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن خدا نے تم کو ایمان عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا۔ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں


حق کو اپنی خواہشوں کا تابع نہ بناؤ:
یعنی اگر رسول اللہ ﷺ تمہاری کسی خبر یا رائے پر عمل نہ کریں تو برا نہ مانو۔ حق لوگوں کی خواہشوں یا رایوں کا تابع نہیں ہو سکتا۔ ایسا ہو تو زمین و آسمان کا سارا کارخانہ ہی درہم برہم ہو جائے۔ کما قال تعالٰی وَ لَوِ اتَّبَعَ الۡحَقُّ اَہۡوَآءَہُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ (المؤمنون۔۷۱) الغرض خبروں کی تحقیق کیا کرو اور حق کو اپنی خواہش اور رائے کے تابع نہ بناؤ بلکہ اپنی خواہشات کو حق کے تابع رکھو۔ اس طرح تمام جھگڑوں کی جڑ کٹ جائے گی۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی تمہارا مشورہ قبول نہ ہو تو برا نہ مانو، رسول عمل کرتا ہے اللہ کے حکم پر، اسی میں تمہارا بھلا ہے، اگر تمہاری بات مانا کرے تو ہر کوئی اپنے بھلے کی کہے، پھر کس کس کی بات پر چلے"۔




اعلَموا أَنَّ اللَّهَ يُحىِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ قَد بَيَّنّا لَكُمُ الءايٰتِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ {57:17}
جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ہم نے اپنی نشانیاں تم سے کھول کھول کر بیان کردی ہیں تاکہ تم سمجھو


یعنی عرب لوگ جاہل اور گمراہ تھے جیسے مردہ زمین۔ اب اللہ نے ان کو ایمان اور علم کی روح سے زندہ کیا۔ اور ان میں سب کمال پیدا کر دیئے۔ غرض کسی مردہ سے مردہ انسان کو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ سچی توبہ کرلے تو اللہ پھر اس کے قالب میں روح حیات پھونک دے گا۔




اعلَموا أَنَّمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا لَعِبٌ وَلَهوٌ وَزينَةٌ وَتَفاخُرٌ بَينَكُم وَتَكاثُرٌ فِى الأَموٰلِ وَالأَولٰدِ ۖ كَمَثَلِ غَيثٍ أَعجَبَ الكُفّارَ نَباتُهُ ثُمَّ يَهيجُ فَتَرىٰهُ مُصفَرًّا ثُمَّ يَكونُ حُطٰمًا ۖ وَفِى الءاخِرَةِ عَذابٌ شَديدٌ وَمَغفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنٌ ۚ وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتٰعُ الغُرورِ {57:20}
جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال واولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (وخواہش) ہے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اُگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ (پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کے لئے) عذاب شدید اور (مومنوں کے لئے) خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے


حیات دنیوی کی مثال:

آدمی کو اول عمر میں کھیل چاہئے، پھر تماشا، پھر بناؤ سنگار (اور فیشن) پھر ساکھ بڑھانا اور نام و نمود حاصل کرنا پھر موت کے دن قریب آئیں تو مال و الاد کی فکر کہ پیچھے میرا گھر بار بنا رہے اور اولاد آسودگی سے بسر کرے۔ مگر یہ سب ٹھاٹھ سامان فانی اور زائل ہیں ۔ جیسے کھیت کی رونق و بہار چند روزہ ہوتی ہے پھر زرد پڑ جاتی ہے اور آدمی اور جانور اسکو روند کرچورا کر دیتے ہیں۔ اس شادابی اور خوبصوری کا نام و نشان نہیں رہتا۔ یہ ہی حال دنیا کی زندگانی اور اسکے سازوسامان کو سمجھو کہ وہ فی الحقیقت ایک دغا کی پونجی اور دھوکے کی ٹٹی ہے۔ آدمی اسکی عارضی بہار سے فریب کھا کر اپنا انجام تباہ کر لیتا ہے۔ حالانکہ موت کے بعد یہ چیزیں کام آنے والی نہیں۔ وہاں کچھ اور ہی کام آئے گا۔ یعنی ایمان اور عمل صالح۔ جو شخص دنیا سے یہ چیز کما کر لے گیا، سمجھو بیڑا پار ہے۔ آخرت میں اسکے لئے مالک کی خوشنودی و رضامندی اور جو دولت ایمان سے تہی دست رہا اور کفر و عصیان کا بوجھ لے کر پہنچا اسکے لئے سخت عذاب۔ اور جس نے ایمان کے باوجود اعمال میں کوتاہی کی اسکے لئے جلد یا بدیر دھکے مکے کھا کرمعافی ہے۔ دنیا کا خلاصہ وہ تھا آخرت کا یہ ہوا۔
===========================================
وَإِذا عَلِمَ مِن ءايٰتِنا شَيـًٔا اتَّخَذَها هُزُوًا ۚ أُولٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ {45:9}
اور جب ہماری کچھ آیتیں اسے معلوم ہوتی ہیں تو ان کی ہنسی اُڑاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے


جھوٹے اور مغرور کیلئے خرابی ہے:
یعنی جس طرح وہ آیات اللہ کے ساتھ اہانت و استخفاف کا معاملہ کرتا ہے ، سزا بھی سخت اہانت و ذلت کی ملے گی جو آگے آ رہی ہے۔


أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23}
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب خدا کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟

خواہش پرست کا عبرتناک انجام:
یعنی اللہ جانتا تھا کہ اسکی استعداد خراب ہے اور اسی قابل ہے کہ سیدھی راہ سے اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بدبخت علم رکھنے کے باوجود اور سمجھنے بوجھنے کے بعد گمراہ ہوا۔

جو شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرا لے، جدھر اسکی خواہش لے چلے ادھر ہی چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اسکے پاس یہ ہی خواہش نفس رہ جائے، نہ دل سچی بات کوسمجھتا ہے، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے ۔ ظاہر ہے اللہ جسکو اس کی کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے، کونسی طاقت ہے جو اسکے بعد اسے راہ پر لے آئے۔

No comments:

Post a Comment